02:56    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

محاورات

1125 0 0 00

( 1 ) کاٹ چھانٹ کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کاٹنا کم کرنا درست کرنا، تبدیلی کرنا جیسے معنی میں آتا ہے لیکن سماجی طور پر اُس کے مفہوم میں خاص طرح کی کتر بیونت شامل رہتی یہ کہ آدمی بات کہتے وقت دانستہ طور پر اپنی طرف سے کوئی بات بڑھا دی کوئی کم کر دی کسی کا رخ بدل دیا خود لب و لہجہ میں تبدیلی آنے سے بھی بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو کاٹ چھانٹ کے عمل میں ذہنی جذباتی اور سماجی رو یہ شامل ہو جاتے ہیں۔

( 2 ) کاٹ کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہم عام طور سے گروہ بندی یا ذہنی گروہ بندی کا شکار رہتے ہیں جس کے حامی اس کی بے جا حمایت کرتے ہیں اور جس سے اختلاف ہوتا ہے اُس کی ناروا مخالفت (ناجائز) کرتے ہیں اسی کو کاٹ کرنا کہتے ہیں کہ وہ اس کی بات کی کاٹ کرتا ہے اس محاورے سے ہمارے تہذیبی رویوں کا پتہ چلتا ہے کہ ہم سچائی اور اچھائی پر اتنی  نظر نہیں رکھتے جتنی ہماری طبیعت اپنے اور غیریت کی طرف مائل رہتی ہے یہ سیاست میں تو ہوتا ہی ہماری گھریلو زندگی اور آئینی معاملات میں اس کو زیادہ دخل ہے۔

( 3 ) کاٹ کھانا، کاٹ کھانے کو دوڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کاٹ کھانا ڈنک مارنے کو بھی کہتے ہیں اور دانتوں سے کانٹے یا زخم پہنچانے کو بھی ایک طرف بچھو یا سانپ کا کاٹنا ہے دوسری طرف کتے کا کاٹنا ہے یا اُن تجربوں کی روشنی میں سماجی طور پر دوسروں کے بُرے ردِ عمل یا رو یہ کو بھی ہم کاٹ کھانا کہتے ہیں اور کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے اس کے جارحانہ رو یہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ سماج میں بہت لوگوں کا رو یہ کچھ اسی طرح کا ہوتا یہ جسے معقول رو یہ نہیں کہا جا سکتا محاورے میں اس کی طرف اشارہ کر کے صورتِ حال کو ظاہر کیا جاتا ہے۔

( 4 ) کاٹو تو خون نہیں یا لہو نہیں (بدن میں ) ( سید ضمیر حسن دہلوی )

انسان کی صحت و عافیت کا دارومدار جسمانی صحت و تندرستی پر ہوتا ہے اور تندرستی لوگوں میں خون کے دوڑنے پھرنے کے عمل سے وابستہ ہے انسان کبھی کبھی خون کی کمی کا شکار ہوتا ہے اور اسی نسبت سے کمزوری کا بھی کبھی کبھار ایک دم سے کوئی بات ایسی ہوتی ہے کہ آدمی کا خُون خشک ہو جاتا ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ ڈر خوف دہشت انتہائی غمناک حالت کے باعث اس کے بدن میں خون نہیں رہا ایسے ہی موقع پر یہ کہتے ہیں کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ یہ گویا محاورے میں ایک طرح کا شاعرانہ اندازِ فکر شامل کرنا ہے۔

( 5 ) کاٹھ کا الو، کاٹھ کا گھوڑا، کٹھ پتلی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

الو ایک چکوتری کی نسل کا جا نور ہوتا ہے یہ عام طور پر دن میں نہیں نکلتا رات ہی کے وقت اپنے آشیانہ سے باہر آتا ہے منحوس سمجھا جاتا ہے معلوم نہیں کیوں بے وقوف بھی خیال کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہندو مایتھولوجی میں وہ لکشمی کی سواری بھی ہے اسی لئے جب کسی کو ہم بیوقوف سمجھتے ہیں تو اسے الو کہتے ہیں

اور اسی سے’’ الو‘‘ بنانے کا محاورہ بھی نکلا ہے جو آدمی بہت بیوقوف سمجھا جاتا ہے وہ کاٹھ کا’’ الو‘‘ کہلاتا ہے یعنی اُلو بھی وہ جو لکڑی سے گھڑا گیا ہو تراشا گیا ہو کسی زندہ شے کو لکڑی یا کاٹھ سے نسبت دینا اسے انتہائی گیا گزرا قرار دینا ہے جیسے کاٹھ کا گھوڑا کہ بس وہ ہوتا ہے مگر دراصل نہیں ہوتا اس کے مقابلہ میں کل کا گھوڑا انتہائی چُست و چالاک ہوتا ہے اس معنی میں سماج کا عقل ہوش مندی اور بیوقوفی کے معاملہ میں کیا ردِ عمل ہو گا کٹھ پتلی لکڑی کی گڑیا ہوتی جسے تماشہ کے طور پر طرح طرح سے ناچتے اور حرکتیں کرتے ہوئے دکھلا یا جاتا ہے اسی لئے کٹھ پتلی کا ناچ بھی کہتے ہیں اور  رو یہ رہتا ہے اس کو مذکورہ محاوروں سے سمجھا جاتا ہے۔

( 6 ) کاٹے نہیں کٹتا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مشکل وقت گزارنا بہت کٹھن ہوتا ہے اس میں جدائی میں گزاری جانے والی ساعتیں اور  گھڑیاں زنجیر کے حلقہ بن جاتے ہیں جو کاٹے نہیں کٹتے ایک گیت ہے۔

؂ دکھ کے دن کاٹے نہیں کٹتے

کاٹنا ایک محنت طلب اور تکلیف دہ صورت ہوتی ہے اس میں لکڑیاں کاٹنا بھی ہے لوہا کاٹنا پتھر کاٹنا بھی ہے اور  دکھ کے دن گزارنا بھی یہ محاورے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور احساس کی اس شدت کو ظاہر کرتے ہیں جو دکھوں کو سہنے اور جُدائی کے دن رات گزارنے میں آدمی محسوس کرتا ہے۔

( 7 ) کاجل کی کوٹھری۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کاجل آنکھوں کے لئے وجہ زینت ہوتا ہے لیکن کچھ باتیں بظاہر اچھی اور  در حقیقت بُرے نتائج کی طرف لانے والی ہوتی ہیں ان کو محاورے کے طور پر کاجل کی کوٹھری سے تشبیہہ دیتے ہیں ممکن ہے آنکھوں میں زیادہ کاجل لگانے کو بھی مذاق کے طور پر کاجل کی کوٹھری بنا دینا کہتے ہیں محاوروں میں جو شاعرانہ انداز نظر پایا جاتا ہے اس کی ایک مثال یہ محاورہ بھی ہے اور خوبصورت مثال ہے۔

( 8 ) کاجُو بھوجُو۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارا معاشرہ مضبوطی اور پائداری کو پسند کرتا ہے اور اُس کے مقابلہ میں کمزور چیز اس کے نزدیک قابلِ قدر اور لائقِ تحسین نہیں ہوتی اسی لئے اسے ایک ایسی لفظی ترکیب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس سے اس کی کمزوری اور ناپائداری ظاہر ہوتی ہو کہ وہ تو خود ہی کا جو بھوجو سا ہے وہ کیا کام دے گا اور کس کام آئے گا محاورہ بھی اکثر ایک Commentہوتا ہے اور اس میں ہمارے معاشرہ کا مشاہدہ چھپا ہوا ہے۔

( 9 ) کاٹا چھنی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آپسی اختلاف اور ذہنی کشمکش کو کاٹا چھنی کہتے ہیں جس میں آدمی ایک دوسرے پر اعتراض اور  الزام وارد کرتا رہتا ہے یہ سماج کا ایک رو یہ ہوتا ہے گھریلو جھگڑوں میں یہ بات اکثر دیکھنے کو ملتی ہے کہ خواہ مخواہ بلا ضرورت ایک دوسرے پر فقرہ کسے جاتے ہیں جملے اُچھالے جاتے ہیں بات اور  بے بات اختلاف کا کوئی پہلو سامنے لایا جاتا ہے جس کی وجہ سے گھریلو جھگڑے بھی ختم ہونے میں نہیں آتے بنیادی مسئلہ اگر کوئی ہوتا بھی ہے تو وہ سامنے نہیں رہتا اِدھر اُدھر کی باتیں دل و دماغ کو گھیرے رہتی ہیں اور یہی جھگڑوں کے ختم نہ ہونے کی بڑی وجہ ہوتی ہے۔

کٹاکش ہندی کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں طنز کرنا اعتراض کرنا اسی سے ہمارے یہاں کٹا چھنی محاورہ بنا ہے کج بحثی کج فہمی کٹ حجتی ہماری عام سماجی روش ہے یہ بھی اسی سلسلہ کی باتیں ہیں جو سماجی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

( 10 ) کارخانہ الٰہی، کارخانہ پھیلانا، کارِ خیر۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’کار‘‘ کام کو کہتے ہیں اور خوشی کی تقریب کو بھی ہمارے یہاں کار کہا جاتا ہے آدمی اپنے لئے جو کام کرتا ہے اور اُسے پیشہ کے طور پر اختیار کرتا ہے اُسے کاروبار کہتے ہیں ۔ دستکاری یا صنعت کاری یا  پھر سادہ کاری کے لئے جو کوئی خاص مرکز قائم کیا جاتا ہے اسے کارخانہ کہتے ہیں زمین و آسمان اور  ان کے درمیان جو کچھ ہے جتنا کچھ ہے اُسے کارخانہ الہی کہا جاتا ہے اور انہی کے مقابلہ میں ایک اور محاورہ آتا ہے جسے شیطان کی کار گاہ  کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے یہ محاورہ ممکن ہے انگریزی کے محاورے Devils workshop کا ترجمہ ہو یہ بھی ممکن ہے (شیطان کی کار گاہ) ہم کہتے ہیں کہ اس کا ذہن تو شیطان کی کارگاہ ہے اس کا Directانگریزی ترجمہ ہو گا His mind is a devils work shopاس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری زبان دوسری زبانوں سے جو استفادہ کیا ہے اس میں انگریزی زبان بھی شامل ہے۔

( 11 ) کاغذ، کاغذ سیاہ کرنا، کاغذ کا پٹا باز، کاغذی آدمی، کاغذی پیرہن، کاغذ کی کشتی، کاغذ کی ناؤ، کاغذ لکھ دینا، کاغذ تیار کرنا، کاغذ کا پیٹ بھرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کاغذ ہماری سب سے بڑی تہذیبی ایجاد ہے انسان کا ذہن تقدیر سے زیادہ تحریر کے سہارے آگے بڑھتا ہے اور تحریر کا سب سے بڑا وسیلہ ہمارے پاس کاغذ اور قلم ہے۔ کاغذ کی ایجاد سے پہلے تحریریں مٹی کی تختیوں اور لکڑی کی پٹیوں پر لکھی جاتی تھیں مگر کاغذ کی ایجاد کے بعد صورت حال بدل گئی اور بڑے پیمانہ پر تحریریں کاغذ پر لکھی جانے لگیں بیاضیں کتابیں اور دفتر تیار ہونے لگے جو معاہدہ یا تحریری وعدہ ہوتا ہے وہ بھی کاغذ پر ہی لکھا جاتا ہے ’’شقہ ہو‘‘ یا رقعہ یا عام خط پتر سب کا تعلق تحریر سے ہے قانونی مسئلہ میں لکھا پڑھی ہوتی ہے اس کو کاغذ لکھ دینا بھی کہتے ہیں اور اس سے متعلق ہمارے یہاں بہت سے محاورات موجود ہیں۔

عدالتی کاغذات کو دستاویزیں کہا جاتا ہے بادشاہی احکامات فرامین کہلاتے ہیں عام تحریریں کاغذ کرنے کاغذ لکھنے اور کاغذ تیار کرنے کے انداز میں بھی زیر گفتگو آتی ہیں۔

کاغذ نرم  و نازک ہوتا ہے پھٹ جاتا ہے گل جاتا ہے جل جاتا ہے اس لئے ناپائداری کو بھی کاغذ کے سلسلے میں کئی محاورے آتے ہیں جیسے کاغذ کی ناؤ کاغذ جیسی کایا کاغذ کا پرزہ کاغذی پیرہن، تحریر اور کاغذ کی نسبت سے بھی کئی محاورے آتے ہیں جیسے کاغذ کالے کرنا کاغذ سیاہ کرنا کاغذ کا پیٹ بھرنا کہ جو چاہا وہ لکھ کر دیا  کاغذ کا پیٹ بھر گیا صفحہ کے صفحہ کالے ہو گئے کاغذ کے پھول بھی خوبصورتی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ان میں رنگ ہوتے ہیں نزکائی،اور نرمائی  تو ہوتی ہے مگر اپنی خوشبو نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ نرم چھلکے والے باداموں کو کاغذی بادام کہا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کاغذ سے ہماری زندگی ہمارے ذہن ہماری زبان اور ہمارے زمانہ کا کیا کیا رشتہ ہے اور کس کس طرح ہے۔

( 12 ) کالا،کالا آدمی، کالا پہاڑ، کالا توا، کالا خون، کالا منہ، کالا منہ ہونا، کالا لباس، کالا منہ نیلے ہاتھ پاؤں، کالک کا ٹیکا لگانا، کالا دھن، کالی کوٹھری،کالا سانپ، کالا سمندر، کالی بلا، کالی بھینس، کالی زبان، کالی رات کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’کالا‘‘ رات کا رنگ بھی ہوتا ہے حیثیتوں کا رنگ بھی آنکھوں کی پتلیاں کالی ہوتی ہیں اور ایشیائی عورتوں کے بال کالے ہوتے ہیں بڑھاپے میں البتہ کالے بالوں کا رنگ سفید ہو جاتا ہے خون سفید ہونا کالے خون کے مقابلہ میں ایک الگ محاورہ ہے اور کالا خون بیجار اور  برے خون کی علامت ہے کالے بول جب کہا جاتا ہے تو اس سے مراد بری باتیں ہوتی ہیں کالی مالی، موت کی دیوی کو کہتے ہیں۔ جیسے کالے بھینسے کی قربانی یا بھینٹ پیش کی جاتی ہے۔

انگریزوں کے مقابلہ میں ہندوستانی کالے آدمی کہلاتے ہیں اسی لئے یہ محاورہ استعمال ہونے لگا ہے۔ کہ وہ کالے آدمی سے بات نہیں کرتے کالا پانی انگریزوں کے زمانہ میں انڈمان نکوبار کے جزیروں کو کہتے تھے ان جزیروں میں بھیجنے کی جس کو سزا دی جاتی تھی اسے کالا پانی دیا جاتا تھا اور وہاں بھیج دیا جاتا تھا۔ مجرموں کو تنگ کوٹھریوں میں رکھا جاتا تھا جن میں روشنی و ہوا  کا بھی کوئی انتظام نہ ہوتا تھا اُسے کال کوٹھری کہتے تھے۔ ’’ کالا لباس‘‘ غم کا لباس ہے شیعوں کے ہاں غمِ حسین منانے کی غرض سے محرم میں شیعہ کالا لباس پہنتے ہیں روسیاہی بدنامی کو کہا جاتا ہے کالا منہ نیلے ہاتھ پیر ممکن ہے یہ کسی زمانہ میں سزا کے طور پر کیا جاتا ہو کہ آدمی کے ہاتھ پاؤں نیلے کر دیئے جائیں اور  اسے بستی سے نکال دیا جائے ویسے نیلا رنگ اَمر ہونے کی علامت بھی ہے۔ اسی لئے شیو جی کو نیل کنٹھ کہتے ہیں۔ بعض میلے ٹھیلوں کے موقع پر یا  پھر عرس کی تقریب کے سلسلہ میں جو چھڑیاں گاڑی جاتی ہیں وہ بھی نیلی ہوتی ہیں۔ مدراس کے قریب سمندر گہرے نیلے رنگ کا ہے اسی لئے ہندوؤں میں دیوتاؤں کا رنگ روپ نیلا رکھا جاتا ہے نیلا گنڈا بیماریوں اور بری نظر کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے بطور تعویذ گلے میں باندھا جاتا ہے۔

جس کو بدصورت عورت ظاہر کرنا مقصود ہوتا اُسے کالی بھینس کہتے ہیں اور اگر اس کا رنگ بہت کالا ہوتا ہے تو اس کو کالی بلی کہہ کر یاد کیا جاتا ہے کالا دیو بدصورت ہونے کے علاوہ بد ہیئت بھی ہوتا ہے یہ کردار داستانوں میں پیش کیا جاتا رہا ہے کسی کالی پیلی گئی گزری لڑکی کی ہو کلچڑی کہتے ہیں جیسے منحوس قرار دینا ہوتا ہے اسے کل موہا یا کل موہی کہہ کر یا د کیا جاتا ہے۔

جو رات بے چینی تکلیف اور انتظار میں گزاری جاتی ہے اسے رات کا لی کرنا کہتے ہیں بہت کالے رنگ کو بھورے کے رنگ سے تشبیہ دی جاتی ہے تو اسے کالا بھونگ کہتے ہیں بہت کالے رنگ والا آدمی کالا بھجنگ کہلاتا ہے وہ بھی مشہور ہے کہ کالے سانپ پر بجلی گرتی ہے اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ذہنی طور پر ہم اپنی زندگی میں کالے رنگ سے کیا کیا باتیں منسوب کی ہیں۔ بچے ایک گیت گاتے ہیں اس میں آتا ہے۔

؂ کالا کالا گِر گیا

اماں ماریں گی

اسی میں کالی ہانڈی سرپر رکھنے کے محاورے کو بھی شامل کیجئے کہ وہ بدنامی مول لینے کو کہتے ہیں کہ مفت میں یہ کالی ہانڈی کون اپنے سرپر رکھے کالا اکھشر بھینس برابر ایسا آدمی جو بالکل جاہل ہوتا ہے اور کوئی حرف پڑھ ہی نہیں سکتا اس کے لئے کہا جاتا ہے اس کے واسطے کہا جاتا ہے کہ کالا اکھشر بھینس برابر ہے کالا کلوٹا بھی کا لے ہی کے سلسلے میں ایک محاوراتی کلمہ ہے۔

( 13 ) کام بگڑنا، کام آنا، کام پڑنا، کام کا ہونا، کام پے لگانا، کام چلانا، کام تمام کرنا، کام چڑھانا یا لگانا، کام چمکنا، کام دینا، کام سے جاتے رہنا، کام سے کام، اپنے کام سے کام رہنا، کام میں کام نکالنا، کام میں لانا، کام ہو جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’کام‘‘ کے معنی ہندی زبان میں جذبہ انبساط کے بھی ہیں فارسی میں غرض کے ہیں لیکن اردو میں صبح سے شام تک آدمی کی جو مشغولیات رہتی ہیں ان کو کام کہتے ہیں اور وہ طرح طرح کے ہوتے ہیں انہی سے محاورے بھی نکلے ہیں جیسے کام بنانا، یا کام بننا، کام پڑنا وغیرہ اسی میں کام نکالنا بھی ہے کامی آدمی ہونا بھی ہے۔

( 14 ) کان اُڑے جانا، پھٹے جانا، کان کھول کر سننا، کان بند کرنا، کان اینٹھنا، اکھاڑنا، کان پھوڑنا، کان بھرنا، کان پر جوں رینگنا، کان کا کچا ہونا، کان پڑی آواز سنائی نہ دینا، کان پکڑ کے اُٹھا دینا، کان پھوٹ جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اگر دیکھا جائے تو یہ سب محاورے سننے توجہ دینے اور توجہ نہ دینے سے متعلق ہیں جب بہت شور ہوتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی کان پھٹے جاتے ہیں جب کوئی دوسروں کی راز کی باتیں سننا چاہتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ کن سنیاں لے رہا ہے۔ اگر سننا نہیں چاہتا اور کوئی اثر سننے کا نہیں لیتا تو کہتے ہیں اُس کے کان پر جوں نہیں رینگتی یا جوں نہیں چلتی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک کان سنتا دوسرے کان اُڑا دیتا ہے جب کوئی کسی کے خلاف اچھی بُری باتیں کہتا ہے اور مطلب ورغلانا ہوتا ہے تو ایسے کان بھرنا کہتے ہیں زیور پہننے کے لئے کان کی پاپڑی (بنا گوشت) اور دوسرے بیرونی حصہ میں جو شگاف پیدا کئے جاتے ہیں اُن کو کان بندھنا اور یہ پیشہ کرنے والے کو کندھا کہا جاتا ہے جو آدمی دوسروں کی باتوں پر جلدی سے یقین کر لیتا ہے اور سوجھ بوجھ سے کام نہیں لیتا اسے کان کا کچا کہتے ہیں اور جب کوئی بات سنتے سنتے طبیعت اوب جاتی ہے تب یہ کہتے ہیں کہ سنتے سنتے کان پک گئے کان کی بیماری کا نام کھیڑ ہے کنپھیڑ نکلنا کہتے ہیں کنکوا دہلی میں گڈی یا پتنگ کو کہتے ہیں اور محاورے کے طور پر بولا جاتا ہے کہ وہ تو کنکوے اڑاتا ہے یعنی ادھر ادھر کی باتیں کرتا ہے۔

( 15 ) کانٹا نکالنا، کانٹا چبھنا، کانٹوں پر لوٹنا، کانٹوں کا بچھونا، کانٹوں کی بیل، کانٹے بچھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کانٹا ترازو کو بھی کہتے ہیں اسی سے کانٹے کی قول بنا ہے لیکن جو کانٹا چُبھتا ہے وہ ہماری زبان اور  زندگی میں بہت سے محاورات کا یہ کہیے کہ جنم داتا ہے۔ مثلاً کانٹا چبھنا تکلیف پہنچنا کاٹا لگنا کوئی ایسی تکلیف جو مسلسل چُبھن کا احساس پیدا کرے۔

کانٹوں پر لوٹنا بہت بے آرامی اور بیچینی سے رات یا وقت گزارنا ہے کانٹے بچھانا کسی کے لئے عملی دشواریاں پیدا کرنا ہے۔ اس نے تو ہمیشہ میری راہ میں کانٹے بچھائے یا پھر مشکلات سے بھری زندگی کو کانٹوں کا بچھونا کہلاتا ہے کہ اس طرح کی ملازمت تو کانٹوں کا بچھونا ہوتی ہے۔ بیل خوبصورت چیز ہے لیکن اگر خوبصورتی کے ساتھ اس میں تکلیفوں کے پہلو موجود ہوں تو اسے کانٹوں کی بیل کہتے ہیں۔ دوسروں کے راستہ سے مشکلات دور کرنے کو کانٹے ہٹانا کہتے ہیں اور کانٹے چبھنے سے بھی یہی مراد لیتے ہیں۔

کانٹوں کا تاج جو چیز بظاہر عزت کی ہو تکلیفیں جڑی ہوئی ہوں تو اسے کانٹوں کا تاج کہتے ہیں یہ سماج کی طرف سے گویا ایک گہرا طنز ہے کان کھڑے ہونا کسی بات یا خطرہ کا احساس ہونا ہے یہ سن کر تو اس کے کان کھڑے ہو گئے بعض جانور خطرے کے موقع پر کان کھڑے کر لیتے ہیں ممکن ہے کہ یہ محاورہ ایسے ہی کسی موقع یا واقعہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

( 16 ) کتے کی موت مرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہت بری حالت میں جان دینا اور اسی نسبت سے کتّے کا کفن اس کپڑے کو کہتے ہیں جو بہت خراب ہو بدرو ہو رہا ہو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے سماج میں روایتی طور پر کتے کو کتنا برا سمجھا جاتا ہے کہ اس سے وابستگی کو سماج بہت بے عزتی کی نظر سے دیکھتا ہے اسی لئے کہتے ہیں بلی کی زندگی ہونا بری زندگی کو کہتے ہیں کتے کی طرح بھونکنا بھی بری طرح ناراض ہونے اور بک بک کرنے کے لئے کہا جاتا ہے دھوبی کے کتے کے ساتھ ایک اور محاورہ وابستہ ہے اور  بے انتہا نکمے پن کو ظاہر کرتا ہے۔

دھوبی کا کتا گھرکا  نا گھاٹ کا ۔کتا بہت وفادار ہوتا ہے مگر اس کی وفاداری کا ذکر بھی اچھے الفاظ میں نہیں ہوتا کتے کی طرح وفاداری کا پٹا گلے میں ہونا اچھی بات نہیں سمجھی جاتی۔

( 17 ) کچا ساتھ ہونا یا کچا کنبہ ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جب کسی آدمی کا اپنا کنبہ چھوٹے چھوٹے بچوں پر مشتمل ہوتا ہے کہ اُس کا کچا ساتھ ہے یعنی اس کے بچے اس لائق نہیں کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں یہ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کوئی آدمی شدید بیمار ہو جائے یا مر جائے اور اس کے بچے چھوٹے ہوں تو خاص طور پر کہتے ہیں کہ اس کاتو کچا ساتھ ہے۔

’’کچا دھاگا ‘‘یعنی کمزور رشتہ ہمارے سماج میں اکثر اس تعلق کے لئے کہا جاتا ہے جسے ہم جب چاہتے ہیں توڑ کے پھینک دیتے ہیں۔ اسی نئے یہ بھی لوگوں کو کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ یہ رشتہ کوئی کچا دھا گا نہیں ہے کہ جب چاہا توڑ کے پھینک دیا اس سے ہم اپنے سماجی رشتوں کا ذہن اور  زندگی سے ان کے تعلق کا احساس کر سکتے ہیں۔

( 18 ) کچا کرنا، کچا ہونا، کچیا جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کچا کرنا شرمندہ کرنے کو کہا جاتا ہے اور کچا ہونا شرمندہ ہو جانے کو کہتے ہیں کہ میں اس کے سامنے بہت کچا ہوا اور  اس سے ہماری زندگی اور ذہن کا رشتہ محاورہ کی لسانی اور معاشرتی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے اور زبان میں موقع و محل کے لحاظ سے لفظ کس طرح اپنے معنی بدلتے ہیں اس پر محاورات کا استعمال اور لفظ و معنی کا چناؤ غیر معمولی طور پر اہم ہو جاتا ہے۔

( 19 ) کچہری لگانا، کچہری کے کتے ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ انگریزوں کے آنے کے بعد رائج ہوئے ہیں اس لئے کہ کچہری کا تصور انہوں نے ہم کو دیا ہے کچہری میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو کم درجہ کے ہوتے ہیں اور  رشوتیں لے لے کر اپنا کا م چلاتے ہیں یہی کچہری کے کتے کہلاتے ہیں کچہری کے چکر لگانا ان لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ جو روز کسی نہ کسی سلسلہ سے کچہری میں آتے جاتے رہتے ہیں اور ان میں جھوٹے گواہ بھی ہوتے ہیں مقدمہ باز بھی اور گئے گزرے وکیل بھی۔

کچہری لگانا گویا کچہری کا سا ماحول پیدا کرنا ہے اور اپنے گواہوں اور وکیلوں کو ادھر ادھر منع کرنا ’’کچہری لگانا ہوا‘‘۔ ویسے یہ بندر کی حکایت سے ماخوذ محاورہ بھی ہو سکتا ہے۔

( 20 ) کرکری کرنا، کرکرا دینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بے عزتی کرنا یا بے عزتی ہونا اس کے معنی عزت میں کمی آنے اور  وقار باقی نہ رہنے کے ہیں کوئی چیز اگر ریت یا مٹی کی وجہ سے کچھ خراب ہو جاتی ہے تو اسے کرکرا ہونا کہتے ہیں۔ کھانے پینے کی کوئی بھی شے ہو سکتی ہے۔

( 21 ) کروٹ بدلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اِدھر سے اُدھر کروٹ لینا ایک عام حرکت ہے لیکن محاورہ میں پہنچ کر اس کے معنی دوسرے ہو جاتے ہیں اور اس میں انقلاب رونما ہونے کا تصور آ جاتا ہے اسی لئے انقلابِ زمانہ کو بھی کروٹ بدلنا کہتے ہیں۔

( 22 ) کشیدہ خاطر رہنا یا ہونا، کشیدہ کاڑھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ایک گونہ ناراضگی کو شکر رنجی کہتے ہیں اور اگر اس میں ایک طرح کا تناؤ یا کھچاؤ پیدا ہو جائے تو اس کو کشیدہ خاطر کہتے ہیں یا پھر کشیدگی سے تعبیر کرتے ہیں قد کے ساتھ بھی کشیدہ آتا ہے وہاں اس سے مر اد لمبا قد ہوتا ہے۔ اس کو کشیدہ کاری بھی کہتے ہیں اور یعنی پھول پتی کاڑھنا دہلی میں اس کا بہت رواج رہا ہے۔

( 23 ) کفِ دست میدان ہونا، (چٹیل میدان)۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جس میں جھاڑیاں ہریالی یا درخت بالکل نہ ہوں تو اسے کفِ دست میدان ہونا کہتے ہیں یہ ایک طرح کا شاعرانہ اندازِ بیان ہے کہ جسے ہتھیلی میں کچھ نہیں ہوتا ایسا ہی اس زمین کے ٹکڑے میں کوئی چیز نہیں ہوتی بس دور تک میدان ہی میدان ہوتا ہے۔

( 24 ) کفرانِ نعمت، کفر توڑنا، کفر بکنا، کفر کا کلمہ بولنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’کفر ‘‘اسلام کے مقابلہ میں بے دینی اور گمراہی خیال کیا جاتا ہے اسی لئے مسلمانوں کے عام طبقہ میں کفر کا استعمال بے دینی اور لامذہبی کے معنی میں آتا ہے اور وہ ایسے کلمات کو جنہیں مذہب کے خلاف سمجھتے ہیں کفر کی باتیں کافرانہ خیالات’’ کفر بکنا‘‘ اور کافر ہو جانا کہتے ہیں اگر آدمی خدا کی نعمت کا اچھے عمل کا اچھے خیالات کا قدردان نہیں ہوتا تو اس کو کفرانِ نعمت کہا جاتا ہے۔ صوفیوں کے ہاں کفر کے معنی دوسرے کے ہیں وہ کفر کو عین ایمان تصور کرتے ہیں کفر کے کلمات بولنا عام مفہوم میں آتا ہے یعنی کافروں جیسی باتیں کرنا۔

( 25 ) کلام اللہ اٹھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

قرآنِ پاک کو کہتے ہیں اور قرآن کو درمیان میں رکھ کر قسم کھانا گویا اپنی سچائی و نیکی کا اظہار کرنا ہے قرآن اٹھانا بھی اسی معنی میں آتا ہے اور مسلمان کلچر کے اس رو یہ کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ قرآن کو سب سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اللہ کے ساتھ کلام اللہ کی قسم کھاتے ہیں حلف اٹھانا بھی قرآن کو درمیان میں رکھ کر قسم کھانے ہی کے معنی میں آتا ہے۔

( 26 ) کلمہ، کلمہ کا شریک، کلمۂ گو،کلمے کی انگلی، (انگشتِ شہادت)۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کلمہ بھی مسلم کلچر کی خاص علامتوں میں سے ہے کلمہ پڑھنے کے معنی مسلمان ہو جانے کے بھی ہیں کہ اس نے کلمہ پڑھ لیا یہاں کلمہ سے مراد کلمۂ توحید ہے یعنی خدا کی وحدانیت کا اقرار کرنا اور اُس کے سچے رسول کی صداقت پر گواہی دینا کلمہ پڑھ کر ثواب بھی پہنچایا جاتا ہے اور  اُس کا ثواب مرنے والے کی روح کو پہنچایا جاتا ہے یہ باتیں مسلمانوں کے کلچر اور ان کی مذہبی اور تہذیبی نفسیات میں داخل ہے۔

کلمہ کا شریک مسلمان آپس میں کہتے ہیں کہ ہم کلمہ کے شریک بھائی ہیں یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو دُودھ شریک بھائی یا بہن قرار دیا جاتا ہے اور چیزوں کی شرکت کلچر کے اعتبار سے بڑے معنی نہیں رکھتی کلمہ گو ہونا کلمہ پڑھنا ہے جس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ وہ بہت تعریف کرتا ہے اور دوسرے یہ ہیں کہ وہ مسلمان ہے اور کلمہ پر یقین رکھتا ہے۔

کلمہ کی انگلی داہنے ہاتھ کی پہلی انگلی کو انگشت شہادت کہتے ہیں اور اس کا ترجمہ کلمہ کی انگلی بھی کہا ہے مسلمان نماز پڑھتے وقت جب حضورؐ کا نام آتا ہے تو شہادت کی انگلی اٹھاتے ہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ نماز میں کلمہ کو دہرایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی مالک و مختار نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسولؐ ہیں یہ اس وقت شہادت کی انگلی اوپر اٹھائی جاتی ہے جواس گواہی کا نشان بن جاتی ہے۔ یہی کلمہ کی انگلی بھی ہے۔

( 27 ) کلنک لگنا، کلنگ کا ٹیکا لگانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہاں کل کے معنی ہیں کالا اور انک کے معنی ہیں نشان ’’کالا نشان ‘‘چہرہ پر لگانا بدنامی اور  رُسوائی کا اشتہار لگا دینا ہے کلنک کا ٹیکا لگانا یا لگنا بھی اسی معنی میں آتا ہے۔ ہمارے محاوروں میں جو سماجی رو یہ اور  رسمیں موجود رہی ہیں کلنک کا ٹیکا انہی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دل میں بے عزتی ہے آبروئی یا رسوائی کا کوئی پہلو موجود ہوتا ہے۔

( 28 ) کُلھیا میں گڑ پھوڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اصل میں ہمارے سماج کی شاعری ہے جو محاورے میں کسی نہ کسی صورت میں سامنے آتی ہے جیسے ہتھیلی پر سرسوں جمانا، ناممکن سی بات ہوتی ہے اسی طرح ’’کلیا میں گڑ پھوڑنا‘‘ بھی کوئی ایسی بات کرنا یا اس کی طرف اشارہ ہے۔

( 29 ) کلیجہ اُچھلنا، کلیجہ بڑھ جانا، کلیجہ پھٹنا، کلیجہ ٹوٹنا، کلیجہ تھام کریا مسوس کر رہ جانا، کلیجہ ٹھنڈا ہونا، کلیجہ جلانا، کلیجہ چھلنی ہونا، کلیجہ دھڑکنا، کلیجہ دھک سے ہو جانا، کلیجہ میں رکھنا، کلیجہ پھوٹنا وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کلیجہ ہماری عام زبان میں ’’جگر‘‘ کو کہتے ہیں جسے انگریزی میں Leverکہا جاتا ہے یہ نہایت اہم عضو ہے کہ یہی خون بناتا ہے اور اسی کے خراب ہونے سے صحت تباہ ہو جاتی ہے اب یہ عجیب بات ہے کہ پیٹ کے بارے میں بہت سے محاورات ہیں اسی طرح کلیجہ کے بارے میں بھی ہے جس کے ساتھ دل کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے اور طرح طرح سے کلیجہ کے ساتھ نئے مفہوم معنی تسلیاں اور دعائیں وابستہ کی جاتی ہیں کلیجہ ہونا ہمت و حوصلہ کے لئے کہا جاتا ہے کلیجہ پکڑ کر رہ جانا کسی بری خبر سانحہ اور  حادثہ کا ردِ عمل ہوتا ہے اور عورتیں عام طور پر کہتی ہیں کہ کلیجہ پکڑ کر رہ گیا یعنی ایسی حالت میں صبر کرنا مشکل ہے کلیجہ ہاتھ میں لینا تسلی و تشفی کرنا عمل کے لئے کہا جاتا ہے کلیجہ تھامنے کے معنی بھی یہی ہیں اس میں غم زدہ آدمی کی اپنی کوشش بھی شامل ہوتی ہے کلیجہ بھوننا دل جلانے کو کہتے ہیں کہ اس نے میرا کلیجہ بھون کر رکھ دیا۔

کلیجہ کی بوٹی اپنی اولاد کو کہتے ہیں ویسے عورتیں اپنے سے کم عمر بہنوں بھتیجوں، بھانجیوں اور اپنی بچیوں کو بھی کہتی ہیں کلیجہ منہ کو آنا بہت دکھ بھری حالت کا اظہار کرنا ہے جس کا دُکھ ناقابلِ اظہار ہو۔ کلیجہ مسوس کر رہ جانا دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے کو کہتے ہیں یہ دل کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے اور غم زدگی اور تکلیف دہ حالت میں صبر کرنا اس کے مفہوم میں شامل ہے کلیجہ ٹھنڈا ہونا کسی کی طرف اطمینان اور تسلی ہونا جیسے اللہ پاک تمہاری آس اولاد کی طرف سے تمہارا کلیجہ ٹھنڈا رکھے کلیجہ میں ٹھنڈک پڑنا کبھی سکون ہونے اور اطمینان میسر آنے ہی کے لئے کہا جاتا ہے یا آرزو پوری ہونے کے لئے کہتے ہیں جس میں آدمی کی ایرشا(مرضی) شامل رہتی ہے۔

کلیجہ چھلنی ہونے کے معنی کلیجہ میں زخم پڑ جانا اور نہ خوشی کا حدسے بڑھنا ہوتا ہے کلیجہ دھک سے رہ جانا کوئی ایسی خبر سننا  جو انتہائی حیرانی اور تکلیف کا سبب ہو کہ یہ بات سن کر تو میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا کلیجہ کا بلیوں ’’اُچھلنا‘‘ خوف و خطرہ کا شدید احساس ہونا۔  یہاں کلیجہ سے مراد دل ہوتا ہے کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے ہونا بھی اسی مفہوم میں آتا ہے کہ دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ کلیجہ کی ٹھنڈک ہونا باعثِ راحت ہونے کو کہتے ہیں کلیجہ کی بوٹیاں صدقہ کے طور پر چیل کوؤں کو کھلانا بے رحمی کا سلوک کرنا سخت سزا دینا اور بہت کم درجہ بلکہ ذلیل سطح کا سلوک کرنا رومیوں میں یہ رواج رہا ہے جس کا عکس  ہمارے اس محاورے میں آیا ہے۔

اگر ہم اس پر غور کریں اور محاورے کے مختلف پہلو اپنے مفہوم اور معنی کے اعتبار سے ہمارے پیش نظر رہیں تو پتہ چلتا ہے کہ محاورے کا زبان کے رشتہ سے ہماری تہذیب اور تاریخ سے کیا تعلق ہے اور کس طرح ہمارے محاورے میں ہمارے فکری رو یہ ذہنی رشتہ اور جذباتی تعلقات ابھرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

اسی ضمن میں ان محاوروں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے کلیجہ کی پھانس ہونا کلیجہ پر گھونسا مارنا کلیجہ پر سانپ لوٹنا کلیجے پر ہاتھ دھر کے دیکھنا کلیجے سے دھُواں اٹھنا وغیرہ وغیرہ۔

( 30 ) کمر باندھنا، کمر پکڑ کے اُٹھنا، کمر ٹوٹنا، کمر توڑنا، کمر سیدھی کرنا، کمر کا ڈھیلا۔ کمر کا مضبوط، کمر کھولنا وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کمر انسان کے بدن کی بناوٹ اور کساوٹ میں ایک خاص کردار ادا کرتی ہے انسان کمر کے سہارے پر ہی سیدھا کھڑا ہو سکتا ہے اس کا کشیدہ قامت ہونا بھی اس کی کمر پر بھی  منحصر ہے کمر کا پتلا ہونا بدن کی خوبصورتی اور موزونیت میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے وہ چاہے کمر پر اُٹھا یا جائے یا سرپر کمر اس میں شامل رہتی ہے کمر سے متعلق محاورے اُردو میں بہت ہیں اور یہ ہماری تہذیبی روش معاشرتی تقاضوں اور آپسی رویوں پر روشنی ڈالتے ہیں کمر کسنا کمر باندھنا تیار ہونے کے معنی میں آتا ہے کمر سیدھی کرنا تھوڑا سا آرام کرنا ہے جس سے راحت کا احساس پیدا ہو۔ کمر کا ڈھیلا جسمانی کمزوری اس لئے کہ کمر اگر ڈھیلی ہو گی تو کام کرنے میں بھی باقاعدگی اور پھرتیلا پن نہیں آ سکتا کمر مضبوط کرنا اس کے خلاف ایک عمل ہے یعنی پکا ارادہ کرنا کہ ہم ایسا کریں گے کمر ٹوٹنا اس کے مقابلہ میں بالکل مایوس ہونا اور احساسِ محرومی کا شکار ہو جانا ہے کمر توڑنا دوسرے کو مایوس کر دینا اس کے سلسلے سے کچھ اور محاورے ہیں جیسے کمر کھولنا جب آدمی active life کو ختم کر دیتا ہے اور ایک ریٹائرڈ آدمی جیسی زندگی گزارتا ہے تو اسے کمر کھولنا کہتے ہیں۔

( 31 ) کنارہ کرنا، کنارہ کشی کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

الگ ہونا بے تعلقی ظاہر کرنا اکثر عورتیں یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ بی بی کنارہ کرو یعنی تعلق کم کرو کبھی لوگ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے اُس نے کنارہ کشی اختیار کر لی یہ سماجی رو یہ ہے اور اس معنی میں کہ دوری یا علیحدگی اختیار کرو مرد عام طور سے کنارہ کشی کہتے ہیں عورتیں کنارہ کرنا اور یہ معاشرتی اندازِ نظر   پیش کرنے والا نہایت اہم محاورہ ہے کنارہ بغل کو بھی کہتے ہیں اور اسی سے ہم کنار ہونا محاورہ بنا ہے بے کنارہ ہونے کے معنی سمندر کی طرح ہوتے ہیں جو اِدھر سے اُدھر تک پھیلے ہوئے ہیں جس کا کوئی کنارہ ہی نہ ہو اقبالؔ کا مشہور مصرعہ ہے۔

؂ یا مجھے ہم کِنار کریا مجھے بے کِنار کر

( 32 ) کنارے کنارے چلنا، کنارے لگانا، کنارے لگنا، کنارے ہو جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اکثر راستہ دریاؤں کے ساتھ طے کیا جاتا تھا اس لئے کہ جنگل زیادہ تھے ان میں راستہ نہیں ملتا ریگستانوں صحراؤں اور دشت و کوہ میں بھی راستہ کی تلاش ممکن ہوتی ہے سڑکیں پہلے نہیں تھیں بیٹائیں تھیں اسی لئے دریا کے کنارے کنارے راستہ طے کرنا آسان ہوتا تھا یہ گویا اِس دور زندگی کی طرف اشارہ کرتا ہے جب انسان دریاؤں کے ساتھ ساتھ چلتا تھا اور وہیں حضرت خضر سے ملاقات ہوئی تھی جو پانی کے دیوتا ہیں۔

کنارے لگنا اچھے معنی میں بھی آتا ہے یعنی ناؤ اپنا سفر طے کر کے کنارے آ لگی اور سفر ختم کرنے کی وجہ سے اسے زندگی ختم کرنے سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ تو کنارے لگ گئے کنارے لگانا ختم کرنے کو بھی کہتے ہیں اور یہ ایک سے زیادہ معنی میں آتا ہے کہ ایک ایک کر کے سب سارے لگ گئے کنارے ہو جانا الگ ہو جانا کنارے کا درخت ہونا ایک الگ محاورہ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اب عمر کا کوئی بھروسہ نہیں کنارے پر کھڑا ہوا درخت ہے کبھی بھی کنارے کے ڈھے جائے کے ساتھ خود ہی گر پڑے گا۔

( 33 ) کن انکھیوں سے دیکھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دیکھنے کا عمل بھی عجیب و غریب ہے اس سے اپنائیت جھلکتی ہے اور اجنبیت بھی اپنے پن کا اظہار بھی ہوتا ہے اور غیریت کا بھی اسی لئے دیکھنے کے عمل کو گھورنے سے ظاہر کیا جاتا ہے آنکھیں لڑانے سے اور آنکھیں دکھا جھپکانے مٹکانے سے تعبیر کیا جاتا ہے آنکھیں پھاڑنا پھاڑ کر دیکھنا اور طرح کا عمل ہے آنکھیں چرانا کچھ اور ہے آنکھ لگنا اس سے مختلف صورت ہے آنکھ لگ جانا نہ لگنے کے مقابل میں ایک اور  صورت حال کو پیش کرتا ہے آنکھیں پھیر لینا ایک اور عمل ہے اسی طرح آنکھوں میں سمانا الگ ہے آنکھوں میں پھرنا الگ ہے آنکھوں دیکھا ہونا ایک الگ تجربہ ہے نہ آنکھوں سے دیکھنا نہ کانوں سے سنا ایک اور تجربہ ہے مڑ مڑ کر دیکھنا دیکھنے کا ایک الگ ا انداز ہے کن انکھیوں سے دیکھنا اور عمل ہے۔ اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ دیکھنے کی روش دیکھنے کے انداز اور اسلوب کے بارے میں ہمارا معاشرہ کس کس طرح سوچتا اور الگ الگ باتوں کو سمجھتا رہا ہے اور  اُسے محاورات میں محفوظ کر دیا۔

( 34 ) کندہ نا تراش۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کندہ لکڑی کے ٹکڑے کو کہتے ہیں اور جب اس کے ساتھ نا تراش مل گیا تو اس کے معنی انگھڑ کے ہو گئے یعنی ایک ایسا شخص جس میں تمیز تہذیب نہ سیکھی ہو اس سے ہم سماج کا تہذیب و شائستگی کے بارے میں نقطہ نظر معلوم کر سکتے ہیں اس طرح کے لوگ سماج میں ملتے رہے ہیں جنہیں کندہ نا تراش کہا جا سکتا ہے یعنی غیر مہذب جن کی تربیت نہ ہوئی ہو۔

( 35 ) کنگھی چوٹی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

زیبائش آرائش بناؤ سنگھار جو عورتوں کا شوق اور  اُن کی ضرورت ہوتی ہے اسی کو کنگھی چوٹی کہتے ہیں اور اس کا تعلق بہرحال اپنے معاشرے سے ہے مغربی معاشرہ میں چوٹی ہوتی ہی نہیں۔

( 36 ) کنواں کھودنا، کنوؤں میں بانس ڈالنا، کنوئیں میں جھانکنا، کنوؤں میں جھکانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کنواں کھودنا پانی حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے لیکن شیر کو یا ہاتھی کو زندہ پکڑنے یا  گرفتار کرنے کے لئے بھی کنواں کھودا جاتا ہے اور اس پر گھانس پھونس ڈال دیا جاتا ہے  اور جب شیر یا  ہاتھی وہاں سے گزرتا ہے تو اس کنویں یا گڈھ میں جا گرتا ہے اور پھر اس کو پلے ہوئے شیروں یا ہاتھیوں کی مدد سے پکڑا جاتا ہے۔

کنوؤں میں بانس ڈالنا، تلاش کرنے کو کہتے ہیں کہ تمہاری تلاش میں توہم نے کنویں میں بانس ڈلوا دیئے کنویں جھانکنا یا جھُکانا بھی تلاش کرنا ہے مگر اچھے معنی میں نہیں ہے اب کنویں باقی نہیں ہیں بیشتر کنویں بند ہو چکے ہیں دہلی میں لال کنواں، ڈھولا کنواں اندرا کنواں اس کی مثالیں ہیں پتھر والا بھی کبھی کنواں ہی تھا کھاری باولی اور حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ سے متعلق باولی بھی بڑے کنویں ہیں کھاری باولی اب نہیں ہے مگر بستی حضرت نظام کی باولی  موجود ہے اور گزرے زمانے کی یاد دلاتی ہے۔

( 37 ) کوٹھے والیاں۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کوٹھا ایک خاص معنی میں بالا خانہ کو کہتے ہیں اور بالا خانہ بھی اپنا ایک اصطلاحی مفہوم رکھتا ہے۔ یعنی طوائف کی رہائش گاہ طوائف گانے والی عورت کو کہتے تھے۔ جس کو رقص کا فن بھی آتا تھا۔ گانے بجائے اور  رقص کے ساتھ اپنے موسیقی کے فن کو پیش کرنے کا کام ڈومنیاں بھی کرتی تھیں۔ مگر وہ عورتوں کی محفلوں میں گاتی بجاتی تھیں۔ ویسے ڈومنی کا اصطلاحی لفظ طوائف کے لئے بھی استعمال ہوتا تھا درگاہ قلی خان سر سالار جنگ اول نے عہد محمد شاہی میں جو دہلی کا سفر کیا تھا اس کی روداد مرقع دہلی نام کی کتاب میں ملتی ہے انہوں نے دہلی کی اس وقت کی طوائفوں کو ڈومنی کہا۔

طوائفیں بڑی مالدار اور ڈیرہ دار بھی ہوتی تھیں۔ ڈیرہ دار طوائفیں وہ طوائفیں کہلاتی تھیں جن کے پاس نو عمر لڑکیاں بھی ہوتی تھیں اور ان کے لئے رقص و سرود کا کام بھی کرتی تھیں اُن کو نوچنا کہتے تھے انگریز جب ہندوستان میں آئے اور انہوں نے طوائفوں سے ذہنی رابطہ پیدا کیا تو وہ انہیں لال بی بی کہہ کے پکارتے تھے۔

طوائف کے کوٹھے پران کے درجہ کے مطابق اُمراء اور صاحب ثروت لوگ جاتے تھے۔ بادشاہوں کی بھی طوائفیں محبوب شخصیتیں ہوتی تھیں طوائف کے کوٹھے کی تہذیب اُردو شاعری اور ادبی شعور پر بہت اثرانداز ہوئی ہے داغ ؔ کی شاعری میں تو اس کی بے طرح جھلکیاں ملتی ہیں عام زبان میں طوائف کو کوٹھے والی کہتے ہیں۔

( 38 ) کوچہ گردی کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

وچہ گلی محلے کو کہتے ہیں اور طوائف کے کوٹھے کو بھی کوچہ کہا جاتا ہے اسی لئے جب ہم کوچہ گردی ایک خاص مفہوم کو ذہن میں رکھ کر کہتے ہیں تو اس سے مراد طوائف کے کوٹھے پر آنا جانا ہے۔ اسی لئے اقبالؔ نے فرنگیوں کے لئے کوچہ گرد کا لفظ استعمال کیا گلی کوچہ دہلی کی زبان میں عام استعمال میں آتا ہے۔

( 39 ) کودوں دلانا، کودوں۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مشرقی یوپی میں ایک بہت معمولی قسم کا اناج ہوتا ہے اس کو کودوں کہتے ہیں پہلے زمانہ میں پیسے کی کمی تھی اس لئے چیزوں کے بدلہ میں اناج دیا جاتا تھا دوسری جنگ عظیم سے پہلے تک یہ سسٹم کافی رائج تھا اور اب بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے کودوں بہت کم درجہ کا اناج ہے اس لئے کودوں دے کر پڑھنا اس کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے تو کچھ بھی نہیں دیا مفت پڑھے ہیں۔ یہ وہی بات ہوئی جس کا اظہار ہم کوڑیوں کے حوالہ سے بھی کرتے ہیں کوڑیوں کے مول خریدنا، یعنی جو چیز بہت سستی مل جائے اُسے کوڑیوں کے مول سے نسبت دی جاتی ہے کوڑیاں بھی سکے یا پیسے ٹکے کے طور پر چلتی تھیں۔ اور دوسری جنگِ عظیم تک چلتی رہیں۔

یہ محاورے اس دور زندگی کی یاد دلاتے ہیں جب پیسے پاس ہونا بڑی بات تھی اور اسی سے یہ محاورہ بھی نکلا ہے پیسہ دیکھا ہے یا پیسے کامنہ نہ دیکھو پیسہ پانی کی طرح نہ بہاؤ یا پیسہ تو ہاتھ کا میل ہے۔ پیسے پیسے کو محتاج ہو نا بھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے اور اس سے ہماری سماجی حیثیت کا بھی تعین ہوتا ہے اور سماج میں پیسے کی اہمیت کا بھی۔

( 40 ) کورا کورا بر تن کورا رکھنا۔ کورا رہ جانا۔ کورا سر۔ کورے بال رکھنا۔ کورے استرے سے سر مُونڈنا، کوڑا کرنا۔ کوڑا مارنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کورا ایسی کسی شے یا برتن کو کہتے ہیں جس کا استعمال ابھی نہ کیا گیا ہو کہ وہ تو ابھی تک بالکل کورا ہے جو لوگ پڑھے لکھے یا عقل مند نہیں ہوتے ان کو بھی کورا کہہ کر یاد کیا جاتا ہے کہ اس معاملہ میں بالکل ہی کورے ہیں دہلی میں کورا رکھنا بھی محاورہ ہے جس سے مراد ہے کسی شے کو اٹھا کر رکھنا۔ کسی شے کا استعمال نہ کرنا اور اسے حفاظت سے رکھے رہنا کورا سر اور کورے بال دہلی والوں کا خاص محاورہ ہے اور  اس کے معنی ہوتے ہیں کہ سر میں تیل نہ لگانا  سنگھار  پٹار کے بغیر رہنا۔

جس کو اچھا خیال نہیں کیا جاتا کورے استرے سے سر مونڈنا یعنی بری طرح سر مونڈائی کرنا بیوقوف بنانا الٹے استرے سے حجامت بنانا یا کھنڈے استرے سے سر مونڈنا بھی قریب قریب اسی معنی میں آتا ہے۔

جہاں تک کورے برتن کی بات ہے ہمارے گھریلو معاشرے میں وہ تعریف کے لائق بات ہے نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ہے۔

؂ واہ کیا بات کورے برتن کی

کوڑا مارنا یا کوڑے لگانا سزا دینا اور  کوڑوں سے مارنے کی طرف اشارہ کرتا ہے قبائلی زندگی اور قدیم عرب میں یہ سزا بہت عام تھی دہلی میں گھوڑے کو کوڑا لگانا جس معنی میں آتا ہے اسی معنی میں کوڑے کرنا بھی آتا ہے۔

( 41 ) کوڑی کے تین تین بکنا۔ کوڑی کے کام کا نہیں۔ کوڑیوں کے بھاؤ بھی مہنگا ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کوڑی کے تین تین بکنا، بہت سستا ہونا، جس کی گویا کوئی قیمت ہی نہیں یعنی اس کی قیمت تو ایک کوڑی بھی نہیں ہے یہ اس میں بھی مہنگا ہے یہ بھی کسی شے کو انتہائی کم قیمت قرار دینا ہے مغربی یوپی میں کوڑی کوڑی کو ’’ڈ‘‘ سے لکھا جانا ہے دہل میں ’’ر‘‘ استعمال ہوتا ہے۔

( 42 ) کولھو کا بیل، کولھو کاٹ کر موگری بنانا، کولھو کے بیل کی طرح پلِنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کولھوں کا بیل آنکھیں بند کئے ایک ہی دائرہ میں چکر لگاتا رہتا ہے اسی لئے جہاں سے چلتا ہے وہیں کھڑا ہوتا ہے یعنی اس کے سفر کی کوئی منزل نہیں ہوتی اسی لئے مولانا حالیؔ نے ایک موقع پر کہا تھا یہ کولھو کے کچھ بیل سے کم نہیں ہے۔ جہاں سے چلے تھے وہیں کے وہیں ہیں۔

کولھو کاٹ کا موگری بنانا یہ دہلی کا محاورہ ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں کسی بڑی چیز کو قربان کر کے چھوٹی چیز حاصل کرنا جو بہرحال بیوقوفی کی علامت ہے اور نفع نقصان کو نہ سمجھنا ہے۔ اسی لئے اسے ایک گہرا طنز خیال کیا جاتا ہے۔

( 43 ) کولھو میں پلوا دینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بے حد شدید اور عبرت ناک سزا ہے پہلے زمانہ میں سزائیں بہت سخت تھیں مثلاً سولی دینے کی سزا آنکھیں نکلوانے کی سزا بوٹیاں چیل کوؤں کو کھلانے کی سزا اسی طرح پہلے زمانہ میں زندہ انسانوں کو کولھوؤں میں ڈال دینے اور  پھر اُن چیزوں کی طرح جو کولھو میں ڈال کر پلوائی جاتی تھیں انسان کے وجود کو ریزہ ریزہ کر دینے کی سزا یہ آج بھی محاورے کی صورت میں اپنے بے حد تکلیف دہ احساسات کے ساتھ زندہ ہے اور ہماری تاریخ کے بہت المناک واقعات کی طرف اشارہ کرتی ہے اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ محاوروں میں کس طرح تاریخی حقائق کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر دیا ہے ایک چھوٹا جملہ محاورے کی شکل میں تاریخ کا مرقع ہوتا ہے۔

( 44 ) کوہِ قاف،قاف سے قاف تک۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پہاڑوں کا وہ سلسلہ جو قاف کی شکل میں پایا جاتا ہے پہاڑوں کا ہماری تاریخ تہذیب اور انسانی معاشرہ کے ارتقاء سے خاص خاص مراحل سے تعلق رکھتے ہیں کوہ قاف،قاف کی شکل کے پہاڑی سلسلہ کو کہتے ہیں جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ شمالی ایران کا وہ علاقہ ہے جو آگے جا کر جنوب مشرقی روس سے مل جاتا ہے اسی کا مشہور شہر آرمینیا ہے اس پہاڑ کو سونے کا پہاڑ بھی کہا گیا ہے اور  کوہِ قاف کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ وہ سونے کا ایک پہاڑ ہے جو تمام روئے زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ اسی معنی میں ’’قاف تا قاف‘‘ کا مفہوم یہ ہوا کہ کوہِ قاف کے ایک کنارے سے لیکر دوسرے کنارے تک جس میں ساری دنیا آ جاتی ہے۔

کوہِ قاف کی عورتیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں یا سمجھی جاتی تھیں اسی لئے حسین عورتوں کو کوہِ قاف کی پریاں کہتے تھے اور ہماری کہانی و داستانوں میں ان کا ذکر بطور خاص آتا تھا یہ گویا ایک وقت میں کوہِ قاف سے متعلق ہمارے تصورات تھے اور اس کی خوبصورت عورتوں کے بارے میں ہمارے خواب و خیال جس طرح ہندوی کلچر میں اپسرائیں ہوتی ہیں اسی طرح فارسی واردو میں روایتی حسن اور نسوانی کشش کو اور سماج کی ذہنی تصویروں کا مرقع ہماری نظر میں پھر جاتا ہے۔

( 45 ) کوئی کسی کی قبر میں نہیں جائے گا یا نہیں سوئے گا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

قبر ہماری تہذیب میں موت سے متعلق اپنے خیالات و سوالات کی ایک علامت ہے خاک لحد مزار سنگِ لحد لوحِ مزار کفن کافور وغیرہ موت کی رسومات سے متعلق ہیں اور  ہزاروں برس کی روایت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔

احرامِ مصر بھی مقبرہ ہیں اور تاج محل بھی مقبرہ ہے بنیادی طور پر قبر کی روایت سے متعلق ہیں قبروں پر جا کر ہم پھُول چڑھا تے ہیں خوشبو دار چیز جلاتے ہیں ہمارا یہ بھی خیال ہے کہ فاتحہ درود مردے کو پہنچتی ہے قبر میں جو راحت یا عذاب ہوتا ہے وہ مُردے کے اپنے اعمال کے مطابق ہوتا ہے یہیں سے یہ محاورے پیدا ہوا ہے کہ کوئی کسی کی قبر میں نہ سوئے گا یعنی دنیا میں جو خود کریگا قبر میں ثواب یا عذاب الہی کا نتیجہ ہو گا۔

ہر ایک کے اپنے اعمال قبر میں اس کے ساتھ ہوں گے یہ جو کہا جاتا ہے کہ اس کے اعمال اس کے ساتھ اور میرے اعمال میرے ساتھ اُس سے مراد قبر ہی ہے جہاں مسلمانوں کے عام عقیدہ کے مطابق انسان کا اعمال نامہ اس کے ساتھ ہو گا نیکی بھی اور بدی بھی۔

( 46 ) کوئی نہیں پوچھتا کہ تیرے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دانت انسان کے چہرہ مہرہ میں خاص کردار ادا کرتے ہیں اور اُن سے بہت سے محاورات وابستہ ہیں لیکن یہ محاورہ ایک خاص طرح کا سماجی محاورہ ہے کہ ہر آدمی ایک دوسرے سے بے تعلق ہے اور کوئی کسی کے ذاتی معاملہ یا مسئلہ سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا کہ یہ پوچھے کہ تیرے منہ میں کتنے دانت ہیں بہت سے مسائل غیر ضروری بھی ہوتے ہیں انہیں کوئی دوسرا کیوں چھیڑے اور غیر ضروری طور پر دوسروں کے معاملات میں دخل دے۔

( 47 ) کھڑے گھاٹ دھُلوانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دھوبیوں کا محاورہ ہے اور ایسے طبقہ کے لئے ہے جو یہ کہتا ہے کہ میرے کپڑے ابھی دھو دو مجھے کہیں جانا ہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے پاس اور کپڑے نہیں ہیں نئے کپڑوں کا تو سوال ہی نہیں اس لئے کہ دھوبی کے گھرکے کپڑے بھی غنیمت ہوتے ہیں دھُلے ہوئے اور انہی کے لئے درمیانی طبقہ میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ دھوبی کے گھرکے ہیں اِس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری معاشرتی زندگی کس طرح ہمارے محاوروں میں جھلکتی ہے۔

( 48 ) کھوٹا پیسہ یا کھوٹا بیٹا وقت پر کام آتا ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ ہماری سماجی فکر کی بہترین نمائندگی کرتا ہے پیسہ ہونا یوں بھی مشکل ہوتا ہے اور پہلے زمانہ میں تو پیسہ کا میسر آنا بڑی بات تھی اِسی طرح بیٹا ہونا چاہے وہ نالائق ہی کیوں نہ ہو سکون کا باعث ہوتا تھا اور آدمی کا جی چاہتا تھا کہ وہ اس کی بھی تعریف کرے اسی لئے یہ محاورہ رائج ہوا کہ یہ کھوٹا پیسہ اور کھوٹا بیٹا ہی وقت پر کام آتے ہیں۔

( 49 ) کھونٹے کے بل کودنا، کھونٹے سے باندھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ بہت اہم محاورات میں سے ہے اور  اس گھریلو زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں جانور یا مویشی زندگی میں داخل رہتے ہیں اسی لئے کھونٹے سے بندھنا یا باندھنا کا محاورہ رائج ہوا۔ اگر جانور کو کھونٹے سے نہیں باندھا جائے گا تو وہ کہیں بھی اِدھر اُدھر نکل جائے گا اور کوئی اس کو پکڑ لے گا۔

علاوہ بریں کھونٹے سے لگنا بھی محاورہ ہے اور وہ بھی جانور کی وفاداری کے معنی میں آتا ہے کہ جب جانور جنگل باہر سے گھر یا گھرکی طرف آتے ہیں تو وہیں جا کر کھڑے ہوتے ہیں جہاں اِن کا کھونٹا ہوتا ہے۔

یہاں سے ایک اور محاورہ پیدا ہوا کہ جانور کو اپنے کھونٹے کا بڑا سہارا ہوتا ہے اور وہ اسی سہارے پر کودتا یا اُچھلتا ہے جیسے کوئی آدمی اپنے سرپرست یا خاندان کے بزرگ کے بل بوتے پر غلطیاں بھی کر جاتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ میرے بڑے اس کو نمٹا لیں گے اور مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچنے گی اس کے مقابلہ میں قصائی کے کھونٹے سے بندھنے کے معنی تکلیف اٹھانے اور چھری تلے جانے کے ہیں۔ ایک محاورہ بھی اسی سلسلہ کا ہے کہ تم کہیں بھی کھلے بندھے نہیں ہو یعنی تم نے اچھا بُرا وقت نہیں دیکھا۔

( 50 ) کھیل اُڑ کر منہ میں نہیں گئی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یعنی کھانے پینے کو کچھ بھی دیکھا اور کوئی تجربہ یا ذہنی تربیت حاصل نہیں کی۔

( 51 ) کیل کایا کیلی کا کھٹکا نہیں۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہاں کسی بات کا خوف و ڈر یا اندیشہ نہیں ہے یعنی محفوظ جگہ اُس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے یہ محاورہ ذیل میں بہت عام ہے۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔