09:46    , منگل   ,   03    دسمبر   ,   2024

محاورات

1152 0 0 00

( 1 ) ہاتھ باندھے کھڑے رہنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ دربار داری کے آداب میں شامل ہے اور  بادشاہ کے دربار میں حاضری دینے والے امیرو وزیر سب ہی ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں یہ محاورہ بھی دراصل درباری آداب ہی سے تعلق رکھتا ہے اور اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری سماجی زندگی کے مختلف رُخ ہیں جو محاورات میں اپنا عکس پیش کرتے ہیں۔

( 2 ) ہاتھ اُٹھانا، ہاتھ لگنا، ہاتھ آنا، ہاتھ اونچا ہونا ہاتھ نیچا ہونا، ہاتھ کا سچّا ہونا، ہاتھ دِکھانا، ہاتھ دیکھنا ہاتھ مارنا، ہاتھوں کے طوطے اُڑ جانا۔ ہاتھ کا میل ہونا، ہاتھ کا تنگ ہونا، ہاتھ کا سچا ہونا، ہاتھ سے خیرات زکوٰۃ کرنا، ہاتھ نہ مٹھی ہڑبڑا کے اٹھی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

زندگی میں ہاتھ پیر جتنا کام آتے ہیں اتنا ہی ہاتھ پیروں کے استعمال سے متعلق ہمارے ہاں محاورات موجود ہیں جو ہمارے معاشرے کی ذہنی اور  تجرباتی سطح کی نمائندگی کرتے ہیں ہاتھ آنا ہاتھ لگنا حاصل ہونا ہے۔ ہاتھ ہونا قابو ہونے کے معنی میں آتا ہے کہ آخر تمہارے بھی تو ہاتھ ہیں جب آدمی کسی کو کچھ دیتا ہے تو اُس کا ہاتھ اونچا ہوتا ہے کہ وہ دینے والا ہے اور  جب وہ لیتا ہے تو گویا اُس کا ہاتھ نیچا ہوتا ہے اس سے لین دین میں ایک طرح کی اونچ نیچ قائم ہوتی ہے مگر کسی بُرائی کے ساتھ نہیں۔ اپنے ہاتھ سے دے دینا گویا اپنی خوشی سے کسی کے لئے کچھ کر دینا ہے مکاری سے کوئی بڑا فائدہ حاصل کرنا ہاتھ مارنا کہلاتا ہے۔ سخت گھبرانا اور ہاتھوں کے طوطے اڑ جانا بہت گھبراہٹ طاری ہونا ہے۔ ہاتھ کا میل ہونا پیسے کے لئے کہا جاتا ہے یعنی پیسا اسے فال مارنا بھی کہتے ہیں۔ کچھ نہیں ہے اصل شے دوستی ہے وفاداری ہے خلوص و محبت ہے اور جذبہ خدمت ہے ہاتھ کا سچا وہ ہے جو معاملات میں دیانت دار ہو اور لین دین کا پکا ہو ہاتھ تنگ ہونے کے معنی ہیں پیسے کی کمی جس کی وجہ سے آدمی خرچ اخراجات کے معاملہ میں پریشان رہتا ہے۔

ہاتھ نہ مٹھی ہڑ بڑا کے اٹھی اس کے معنی ہوتے ہیں کہ اُس میں طاقت و قوت بالکل نہیں لیکن بے اختیار لڑنے بھڑنے اور مرنے مارنے کو تیار ہو جاتی ہے۔

اِس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ محاورے میں طنز بھی ہوتا ہے اور لطفِ گفتگو بھی ہوتا ہے اخلاقی تقاضہ بھی ہوتے ہیں اور سماجی زندگی کے وہ تجربہ بھی ہوتے ہیں جس میں سب کا حصہ ہوتا ہے۔

ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے عورتوں کا محاورہ ہے اور آرسی کے معنی یہاں آئینہ کے ہیں کہ دلہنوں کے اسی نام کے زیور میں آئینہ لگا ہوتا ہے یہ محاورہ یا عورتوں سے متعلق دوسرے محاورے ہماری زبان کی اس فضاء کی طرف لے جاتے ہیں جو گھر آنگن کی فضا ہے اگر ان پہلوؤں کی طرف نظر رکھی جائے تو زبان کا رنگارنگ دائرہ محاورات میں ریشم کے دھاگوں کی طرح لپٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔

( 3 ) ہاتھ پاؤں بچانا، ہاتھ پاؤں پھولنا، ہاتھ پاؤں سے درست ہونا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کسی کام میں ہاتھ ڈالنا اُس کام کو کرنا یا کرنے کا بیڑا اٹھانا ہے اب کام کرنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ احتیاط برتی جائے تاکہ کوئی اور  کسی طرح کا نقصان نہ پہنچ جائے اسی کو ہاتھ پیر بچانا کہتے ہیں ہاتھ پیر پھُولنا گھبراہٹ طاری ہونے کو کہتے ہیں۔ غالبؔ کا شعر ہے۔

؂ اسدؔ خوشی سے میرے ہاتھ پاؤں پھُول گئے

کہا جب اُس نے ذرا مرے پاؤں داب تودے

ہاتھ پاؤں سے دُرست ہونا، اچھی صحت ہونا اور ہاتھ پاؤں میں کسی طرح کی خرابی نہ ہونا ہے مُردوں کو ہاتھ پاؤں کی درستی اور قوت کے اعتبار سے دیکھا جاتا ہے اور عورتوں کو ناک نقشہ کی خوبی کے لحاظ سے اسی لئے جب کسی عورت یا لڑکی کو قبول صورت کہنا ہوتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ وہ نک سک سے دُرست ہے اِس لحاظ سے یہ محاورہ گھر آنگن کی فضا اور  گھریلو سوچ سے تعلق رکھتا ہے۔

( 4 ) ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جانا، ہاتھ پاؤں چلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

خوف و دہشت طاری ہونے کے لئے کہا جاتا ہے کہ مارے خوف کے مرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے کہ اب کیا ہو گا اور کیسے ہو گا؟ ہاتھ پاؤں چلتے رہنا اس حد تک طاقت قائم رہنا ہے کہ آدمی چلتا پھرتا رہے اسی لئے جب اپنے لئے دعا کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اللہ پاک چلتے ہاتھ پیر اٹھا لے۔

( 5 ) ہاتھ پاؤں چھُوٹنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

گھر آنگن کا محاورہ ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں خیر و عافیت سے بچہ کی پیدائش ہو جائے اس لئے کہ یہ مرحلہ بہرحال نازک ہوتا ہے تو یہ دعا ایک حاملہ عورت کودی جاتی ہے کہ اللہ پاک خیریت سے ہاتھ پاؤں چھڑا لے۔ یعنی یہ مرحلہ ہنسی خوشی گزر جائے۔

محاورے کی لفظیات اور نفسیات پر اگر غور کیا جائے تو اس سے ہماری معاشرتی زندگی کے مختلف پہلو اور اُن کے بارے میں ہماری سوچ کا سلسلہ سامنے آتا ہے۔

( 6 ) ہاتھ پیلے کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہندوؤں میں اُبٹن مل کر ہاتھ پیلے کئے جاتے ہیں اور اُس کے معنی ہوتے ہیں شادی کر دینا، یہ محاورہ مسلمان گھرانوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اُبٹن کی رسم بھی مسلمان خاندانوں میں موجود ہے۔

( 7 ) ہاتھ جھاڑ کے کھڑا ہو جانا، یا ہاتھ جھاڑ دینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جب آدمی پیسہ ٹکے سے اپنے آپ کو خالی ظاہر کرے کہ اُس کے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں اس لئے وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا ایسے موقع پر کہا جاتا ہے کہ وہ تو بالکل ہی ہاتھ پیر جھاڑ کر کھڑا ہو گیا۔ ہاتھ جھٹکنا یا دامن جھٹکنا یا دوسرے کو بالکل اس کا موقع نہ دینا کہ وہ کچھ کہہ سکے سوال کر سکے مانگ سکے ہاتھ جھٹکنا یا جھٹک دینا ایسے ہی موقعوں کے لئے آتا ہے۔ اُردُو کا ایک مصرعہ ہے۔

؂ وہ چلے جھٹک کے دامن مرے دست ناتواں سے

یعنی انہوں نے مرا کمزور ہاتھ جھٹک دیا اور  اپنا دامن چھڑا لیا۔

( 8 ) ہاتھ دانتوں سے کاٹنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دانتوں تلے انگلی دبانا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اظہارِ حیرت کرنا اور  دانتوں سے ہاتھ کاٹنا افسوس کرنے کے معنی میں آتا ہے یہ محاورے بھی گھریلو محاورے ہیں اور اِن پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ گھریلو محاورے اُن چیزوں سے متعلق ہیں جو بالکل سامنے کی چیزیں ہیں اُن میں ہاتھ پیر ہیں آنکھ ناک ہیں اور دانت ہیں ناخون کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے کپڑے لتَّے ہیں اور زر زیور ہے۔ اِس سے ہم یہ بھی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ محاورات کا رشتہ ہمارے ذہن زندگی اور  زمانہ کی خاص خاص رویوں اور حلقوں سے ہے۔

( 9 ) ہاتھ کی لکیریں ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ ہماری تقدیر میں لکھا ہے وہ ہماری پیشانیوں میں اور  ہاتھ کی لکیروں میں چھُپا دیا گیا ہے۔ پا مسٹری ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعہ ہاتھ کی لکیروں سے قسمت کا حال معلوم کیا جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ کس حد تک صحیح ہے یا غلط۔

( 10 ) ہاتھی نکل گیا ہے دُم باقی رہ گئی ہے ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اِس کا مفہوم یہ ہے کہ بہت سا کام ہو گیا اور بہت تھوڑا کام باقی رہ گیا۔ اسی محاورے کو ایک دوسری طرح بھی ادا کیا جاتا ہے دھڑیاں تُل گئیں یا سنگ رہ گئے دھڑا پانچ سیر کا ایک باٹ ہوتا تھا اسی لئے دھڑی کے معنی ہوتے تھے پانچ سیر اور دھڑیاں اُسی سے جمع بنائی گئیں تھیں۔

یہ تخیلی محاورہ ہے اس لئے کہ ہاتھی نکل تو جاتا ہے مگر اُس کے نکلنے کے بعد دُم پھنسی رہ جائے یہ نہیں ہوتا اس معنی میں یہ محاورہ ہماری سوچ کے ایک خاص پہلو پر روشنی ڈالتا ہے اور وہ داستانی فِکر ہے کہ ویسے نہیں ہو پاتا وہ داستانوں میں ہو جاتا ہے۔

( 11 ) ہتھیلی پر سرسوں جمانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہت جلدی میں کام کرنا اور یہ چاہنا کہ وہ بہتر سے بہتر ہو ہتھیلی پر سرسوں جمانا اِس کے لئے محاورہ کے طور پر لیا جاتا ہے جیسے آپ تو ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں کہیں یوں بھی کام ہوتا ہے اس کام کے لئے تھوڑا وقت چاہئیے توجہ اور محنت چاہئیے۔

اِس محاورہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم جادو کرشمہ اور معجزہ کے طور پر کوئی کام ہو جائے چاہتے ہیں پلاننگ منصوبہ بندی وسائل کی فراہمی اور مسائل پر نظر داری ہماری سوچ اور Approach کا کوئی حصہ ہی نہیں اسی پر یہ ایک Commentہے اور یہ دکھانا مقصود ہے کہ ہتھیلی پر کہیں سرسوں جمتی ہے یہ تو کرشمہ کے طور پر ہو سکتا ہے باقی کام محنت سے اور منصوبہ بندی کے تحت ہوتے ہیں۔

( 12 ) ہڈیاں نکل آنا یا ہڈیوں کی مالا ہو جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ ایک شاعرانہ انداز ہے کہ کمزوری کا وہ ذکر بھی ہڈیوں کے ساتھ کیا جائے اس میں ہڈیاں نکل آنا بھی ہے اور ہڈیوں کی مالا ہو جانا بھی جسم کی یہ حالت کمزوری کے باعث ہوتی ہے جس کی طرف یہ محاورہ اِشارہ کرتا ہے۔ اور  زندگی میں اچھے بُرے اور  غلط یا صحیح اثرات اِس کے آئینہ میں سامنے آئے ہیں، یہ ایک صورتِ حال بھی ہوتی ہے اور  اُس کا تاثر بھی تو نتیجوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہڈیاں ‘سسکیاں نکل آنا بھی اسی کمزور جُثہ سے یا بے حد دبلے پتلے بدن کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

( 13 ) ہلدی کی گِرہ یا گانٹھ لے کے پنساری بن بیٹھا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جب آدمی کے پاس کچھ نہ ہو اور بہت معمولی حیثیت پر وہ اپنے آپ کو بڑی چیز ظاہر کرے تو اس کہاوت یا محاورہ کے معنی سمجھ میں آتے ہیں ہلدی کی گِرہ بہت معمولی شے ہے اور پنساری بن جانا ایک بڑی دوکاندار ی ہے کیونکہ ہم معاشرہ میں اس طرح کی گھٹیا پن کی باتیں کرتے ہیں اُسی پر یہ ایک طنز ہے کہ وہ کچھ نہیں اور  اپنے آپ کو سب کچھ ظاہر کرنا چاہتے ہیں یہ’’ طنزیہ‘‘ محاورہ ہے۔

( 14 ) ہلدی لگے، یا ہینگ لگے نہ پھٹکر ی رنگ چوکھا ہی چوکھا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ عجیب و غریب محاورہ ہے اور اس کے معنی میں سماج کی مکاری اور فریب دہی بھی شامل ہے کہ کسی بھی کام کی انجام دہی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اُن میں سے کوئی بھی نہ ہو اور  نتیجہ بہتر ہو جائے ہمارے معاشرے کے نکمے اور خود غرض آدمی چاہتے ہیں یہی ہیں کہ سب کچھ ہو جائے اور کچھ نہ کرنا پڑے اسی لئے دوسرے لوگ طنز کے طور پر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ آپ تو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا ہی چوکھا دیہاتی زبان میں چوکھا اچھے خاصے کو کہتے ہیں۔

( 15 ) ہل کے پانی نہ پینا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یعنی وہ آدمی کچھ نہیں کرنا چاہتا بلکہ ہل کے پانی بھی نہیں پینا چاہتا نکمّا ہے ہمارے ہاں اِس طرح کے لوگ بہت ہوتے ہیں جو کاہل نہیں ہوتے مگر کام کرنے کو برا سمجھتے ہیں یہ ایک ایسا سماجی عیب ہے جس کی طرف یہ کہہ کر اِشارہ کیا گیا ہے کہ ہل کرپانی بھی پینا نہیں چاہتا۔

( 16 ) ہم بستر ہونا یا ہم خواب ہونا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

عورت مرد کا ایک ساتھ سونا اسی لئے بیوی کو ’’ہم خوابہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اِس سے زوجیت کے تعلق کو ہم بستر ہونا یا ہم خواب ہونا کہتے ہیں۔

( 17 ) ہم پیالہ وہم نوالہ ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ساتھ کھانے اور پینے کو اِس محاورے سے یاد کرتے ہیں اور  اِس کے معنی میں بے تکلفی ہونا ’’ہم پیالہ ہم مشرب ‘‘شخص ہوتا ہے جو ساتھ بیٹھ کر شراب پیتا ہے پیالہ سے مراد جامہ شراب ہوتا ہے۔

اِس محاورے سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف طبقوں کے لئے جو محاورے بنے ہیں اور  رائج رہے ہیں اُن میں اُن کی لفظیات اور خاص اِصطلاحوں کو بھی شامل رکھا گیا ہے۔ ہم پیالہ کا لفظ اسی کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔

( 18 ) ہندی کی چندی کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اِس معنی میں عجیب و غریب محاورہ ہے کہ اِس میں نکتہ چینی کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا گیا ہے اور  وہ بھی ہندی کے رشتہ سے یہ اس سماجی حقیقت کی طرف ذہن کو مائل کرتا ہے کہ ایک طبقہ میں زبان کے مسئلہ پر محاورے روزمرہ تذکیر و تانیث پر اختلاف رہتا تھا کہ یوں نہیں یوں اس طرح نہیں اُس طرح اسی کو ہندی کی چندی کرنا کہتے تھے اور  ہمارے یہاں صدیوں تک یہ رجحان رہا ہے کہ ہم قافیہ لفظ ہمیں زیادہ پسند تھے اور  ہم نثر ہی کو ایک طرح کی شاعرانہ خوبی سمجھتے تھے۔ جس سے زبان پر قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔

( 19 ) ہنستی پیشانی ( سید ضمیر حسن دہلوی )

معاشرتی زندگی میں آدمی کا روتی صورت بنائے رہنا ایک مجبوری ہو سکتی ہے مگر کوئی اچھی بات نہیں اور وہ لوگ زیادہ پسندیدہ شخص قرار پاتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ اچھے موڈ میں بات چیت کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے یا اس طرح کے اچھے موڈ کے لئے خندہ پیشانی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اُسی کا ترجمہ ہنستی ہوئی پیشانی ہے جسے انگریزی میں smilingکہتے ہیں یہ محاورہ دراصل سماجی رو یہ کو پیش کرتا ہے اور  معاشرتی رویوں میں بہتر صورت کو سامنے لاتا ہے۔

( 20 ) ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ایک اچھی ذہنی کیفیت کا اظہار ہے جس سے خوشی کا احساس بڑھتا ہے اور دوسروں کو خوش رکھنے کی اچھی خواہش کا اظہار اس عمل سے ہوتا ہے اسی لئے ہنسی خوشی رہنا ہنس ہنس کے باتیں کرنا اور  ہنستی ہوئی پیشانی اسی لئے پسندیدہ اُمور ہے کبھی کبھی آدمی بہت ہنستا ہے وہ ہنسی کی کوئی بات ہوتی ہے جس پر صرف مسکرایا نہیں جاتا بلکہ آدمی اتنا ہنستا ہے کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جائیں طنزیہ ہنسی کچھ اور ہوتی ہے بے تکلف قہقہہ کچھ اور  اور دیوار قہقہہ بن جانا ایک اور  داستانی صورت ہے اس سے ہنسی کے مختلف مدارج بھی سامنے آتے ہیں۔ اور ہنسی کا مقصد بھی اور  یہ آدمی ہی کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ ہنس سکتا ہے کوئی اور  جانور ہنس نہیں سکتا ہے۔

( 21 ) ہنستے ہی گھر بستے ہیں۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہنسی سے متعلق ایک اور محاورہ ہے جس میں سماجی حیثیت سے ہنسی کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے کہ ہنسی خوشی رہنے کے موڈ کے ساتھ گھر بستے ہیں خاندان آگے بڑھتا ہے گھر بسنا شاد و آباد رہتا ہے اسی لئے عورتیں مردوں کو گھر بسے اور عورتوں کو گھر بسی کہہ کر پُکارتی ہیں مگر اُردُو کے ایک قدیم شاعر کا شعر ہے۔

؂ کون چاہے گا گھر بسے تجھ کو

مجھ سے درپیش و ے نوا کی طرح

( 22 ) ہنسلی اتر جانا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بچوں کی ایک بیماری ہے جس کا تعلق ہنسلی کی ہڈیوں سے ہے جو گلے کے نیچے اور سینے کے اوپر ہوتی ہیں انہی کی نسبت سے ایک چاندی کے زیور کو بھی ہنسلی کہتے ہیں جو عام طور سے قصباتی عورتیں پہنے رہتی ہیں۔

( 23 ) ہنسی میں پھنسی یا کھنی ہو جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یعنی زیادہ مت ہنسو اُس کے بعد رونا آتا ہے مغربی یوپی میں اس محاورہ کی ایک اور  صورت بھی ہے ’’ہنسی گل پھنسی ‘‘یعنی مذاق مذاق میں کوئی ایسی بات ہو جانا جو پریشانی نقصان یا دشمنی کا سبب بن جائے اگر دیکھا جائے تو اس سے یہ مراد ہے کہ ہنسی میں بھی احتیاط ضروری ہے کہیں بات الٹی نہ پڑ جائے جس  سے مُوڈ خراب ہو جائے۔

( 24 ) ہوا بندھنا، ہوا کھانا، ہوا بھر جانا، ہوا پر سوار ہونا، ہوا پر یا میں گِرہ لگانا،ہوا سے باتیں کرنا، ہوا سے لڑتی ہے (چلتی ہوا سے لڑتی ہے) ہوا کے گھوڑے پر سوار ہونا، ہوائیاں اڑنا، ہوائیاں چھوٹنا، ہوائی دیدہ ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اِن محاوروں پر نظر ڈالئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہوا کے بارے میں ہم نے کس کس طرح سوچا ہے اور  سماج میں جو غلط سلط رو یہ اختیار کئے جاتے ہیں انہیں کس طرح کبھی مذاق کبھی تعریف کبھی طنز اور  کبھی خوبصورت انداز سے پیش کیا جاتا ہے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہونا غیر ضروری طور سے ہوا بازی کا انداز اختیار کرنا ہوتا ہے۔

ہوائی دیدہ اُس وقت کہا جاتا ہے جب آدمی کی نظر کسی ایک مقام پر نہ ٹھہرتی  ہو کبھی یہ کبھی وہ جب آدمی بے تُکی اور  غلط بات کرتا ہے تو گویا ہوا میں گِرہ لگاتا ہے چہرہ پر ہوائیاں اُڑنا پریشانی کی ایک غیر معمولی صورت ہے’’ ہوائی چھوڑنا‘‘ جھُوٹ بول دینا دل کو خوش کرنے والی بات کہہ دینا جس کا کوئی سر پیر نہ ہو۔

ہوا بھر جانا سر سے متعلق ہوتا ہے اور اُس سے مُراد یہ ہے کہ وہ اِدھر اُدھر کی بڑائی کی باتیں سوچتا ہے اور اپنی حقیقت پر نظر نہیں کرتا۔

( 25 ) ہو حق کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہُو حق درویشوں فقیروں اللہ والوں اور صوفیوں کا ایک نعرہ اور کلمہ ذکر ہے یعنی اِس لفظ کے ذریعہ وہ اپنا عقیدہ اور اپنا جذبہ دونوں کو پیش کرتے ہیں اسی لئے جب صوفیوں کا ذکر آتا ہے تو اُن کی ’’ہُو حق ‘‘کا  ذکر بھی آتا ہے۔ ’’ہُوحق‘‘ کے معنی ہوتے ہیں وہی حق ہے اور اُس کے ما سِوا کچھ نہیں یہ اُس سے مراد ہوتی ہے۔

جیسا کہ اِس سے پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اُردُو محاورات مختلف طبقوں کے اپنے خیالات معاملات اور معمولات کو بھی پیش کرتے ہیں یہ محاورہ اُس کی ایک نمایاں مثال ہے کیونکہ یہ صوفیوں کا محاورہ ہے اسی لئے لفظ بھی انہی کے ہیں اور  حال و خیال بھی انہی کا ہے۔

( 26 ) ہوش اڑنا، ہوش اڑانا، ہوش پکڑنا، ہوش میں آؤ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہوش مندی زندگی کا ایک بہت ہی ضروری مرحلہ ہے ہوش و حواس اگر قائم نہ رہے تو آدمی اپنے لئے یا دوسروں کے لئے کچھ کر ہی نہیں سکتا اسی لئے ہمارے یہاں ہوش و حواس کے دُرست رکھنے پر بہت زور دیا گیا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ میاں ہوش میں رہو یا ہوش میں آؤ یا ’’ہوش کے ناخن لو ‘‘یعنی ہوش مندی اختیار کرو یہ بھی ایک محاورہ ہے اور بہت اہم محاورہ ہے ہوش کی دارو، دوا تو لقمان کے پاس بھی نہیں تھی یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ ذرا سی دشواری پیش آئی تھی اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ ہوش ٹھکانے آ لگے۔ ’’ ہوش اڑنا، ہوش کھو دینے کو کہتے ہیں یہ خبر سن کر تو میرے ہوش اڑ گئے‘‘ یا میرے ہوش اڑا دینے کے لئے تو یہ صورتِ حال کافی تھی۔ تھوڑا سا اطمینان کا سانس لینا نصیب ہوا تو ہوش حواس کو سنبھالنے کا موقع ملا۔ اور  اب جان میں جان آئی۔

( 27 ) ہول جول۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دہلی کا خاص محاورہ ہے اور اِس سے باہر کہیں سُنا بھی نہیں گیا چرنجی لال نے اُسے اپنے ہاں بھی جگہ دی ہے ’’ہول‘‘ خوف کے معنی میں آتا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ سن کر مجھے تو ہول آگیا لیکن ’’ہول جول‘‘ کے معنی اضطراب و پریشانی کے ہیں جس کے ساتھ یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ نساء و عورت کا محاورہ ہے۔ محاورات ایک علاقہ سے نکل کر دوسرے علاقہ میں بھی پہنچتے اور پھیلتے ہیں اور مختلف طبقوں کے مابین اُن کا کبھی کبھی تھوڑے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ رواج ہوتا ہے لیکن ایسے محاورے بھی ہیں جو کچھ خاص تہذیبی اور طبقاتی دائروں سے وابستہ ہیں میل جول میں ’’ جول‘‘ کا لفظ آتا ہے ہم جولی میں بھی لیکن’’ ہول‘‘ کے ساتھ جب یہ آتا ہے تو ایک دوسرے معنی دیتا ہے اور طبقہ نِسواں تک محدود ہے۔

( 28 ) ہولی کا بھڑوا بنا ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہت نچلے طبقہ کا محاورہ ہے اور اِس کے معنی ہیں ایک گیا گزرا آدمی جس کو اپنی عزت کا بالکل لحاظ پاس نہ ہو فارسی میں یہ ایک دشنام یاگالی کے طور پر آتا ہے اور وہاں ایسے ’’قرم ساق‘‘ کہتے ہیں۔

( 29 ) ہولی کا ہو گیا را ہولی کا سر پٹا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہولی میں عام طور سے چھوٹے طبقہ کے لوگ فِقرہ اُچھالتے ہیں رنگ اُڑاتے اور  واہی تباہی بکتے نظر آتے ہیں انہی کو ہولی ’’کا  ہلیارا‘‘  کہا جاتا ہے یعنی بہت عام سطح پر شور و غل مچانے والا۔

ایک شخص ایسا ہوتا ہے جسے ہولی کے سانگ میں شریک رکھا جاتا ہے اور ذرا سی بات پر جو وہ جان بوجھ کر غلط کرتا ہے اس کی پٹائی ہوتی ہے بلکہ دوسروں کی غلطیوں پربھی اُسی کو مارا پیٹا جاتا ہے یہ سب دکھاوے کے طور پر ہوتا ہے مگر اِس سے سماج کا رو یہ سامنے آتا ہے کہ پیشتر ہمارے گھروں اور  خاندانوں میں کسی بھی شخص کو جسے معذور اور مجبور خیال کیا جاتا ہے غلطی کوئی کرے بُرا بھَلا اُسے کہا جاتا ہے۔

( 30 ) ہونٹ کاٹنا، یا چبانا، ہونٹ چاٹنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آدمی کبھی بھی شدید طور پر کسی چیز کی خواہش رکھتا ہے اور  وہ میسر نہیں آتی تو وہ اپنا دل مسوس کر رہ جاتا ہے اسی حالت کو ہونٹ کا ٹنا بھی کہتے ہیں اور بدلے ہوئے الفاظ کے ساتھ ہونٹ چبانا بھی۔ اِس کے مقابلہ میں جو خو ش ذائقہ اور اچھی چیز کھانے پینے کے لئے میسر آتی ہے اگر وہ حسبِ خواہش نہ ہو تو آدمی اُس کی تمنا کرتا رہ جاتا ہے کہ کاش وہ تھوڑی سی اور مِل جاتی۔ نہیں ملتی تو وہ ہونٹ چاٹتا رہ جاتا ہے۔ یہ محاورے ہماری معاشی اور معاشرتی صورتِ حال کی طرف اِشارہ کرتے ہیں اور ایک عام آدمی پر کسی خاص محرومی کا جو اثر ہوتا ہے اُسے ظاہر کرتے ہیں اور پُر اثر طریقہ سے ظاہر کرتے ہیں یہ ایک طرح کا نفسیاتی معاملہ بھی ہے تجرباتی بھی اور  مشاہداتی بھی اور اِس سے ایک بار پھر ذہن منتقل ہوتا ہے کہ محاورات ہمارے سماجی رویوں پر طعن بھی ہیں طنز بھی تنقید و تبصرہ بھی اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو محاورات میں ہمیں اپنے معاشرہ اُس کی تہذیب و تعریف اور مختلف دور کے رویوں کا ایک جیتا جاگتا عکس نظر آئے گا۔

ادب و لٹریچر ہماری ایک طرح سے سماجی تاریخ ہے اور الفاظ ان کے معنی خیز ربط ہوتا ہے جسے صرف لغت میں نہیں دیکھا جا سکتا وہ سماجی رشتوں سے اُن کے عمل وردِ عمل سے اُن کی رسائی اور نارسائی سے سمجھ میں آتے ہیں اور محاورہ بڑی حد تک اُن معنوں کو Preserveکرتا ہے اس اعتبار سے محاورہ صرف زبان کا حصہ نہیں ہے ہماری سماجیات کا حصہ ہے۔

( 31 ) ہُوس لگنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہماری ایک عام سماجی کمزوری یہ ہے کہ بات بات توہم پرستی کے انداز سے سوچتے ہیں اُن میں نظر لگنا بھی ہے کہ اُس کی ٹوک لگ گئی نظر اپنے ہی کو نہیں لگتی چیزوں کو بھی لگتی ہے مچھلی کو دودھ کو اور  گوشت کو عام طور سے نظر سے بچایا جاتا ہے یہ اس لئے تو خیر ضروری ہے کہ اُس کو ہوا کی یا پھر مکھی مچھر کی گندگی سے بچایا جائے۔ لیکن آدمی کی نظر سے بھی بچایا جائے اِس میں ایک طرح سے توہم پرستی کا  عُنصر شامل ہے۔ معاشرہ کے اِس رو یہ کا اندازہ اِس سے بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی بچہ دودھ پی کر یا گھی کھا کر گھر سے نکلتا تھا تو اسے ’’راکھ چٹا دی‘‘ جاتی تھی۔ اسی طرح جب کسی بچی یا بچہ کا مُنہ دھُلایا جاتا تھا تو اسے سیاہی کا ٹکا بھی لگا دیا جاتا تھا تاکہ وہ نظرِ بَد سے بچ جائے لڑکیوں کو کھلے بالوں اور ننگے سر کوٹھے پر اِدھر اُدھر نہ جانے دیا جاتا تھا کہ اِسے نظر ہو جائے گی عام طور پر جن یا بھُوت یا بھُوتیناں جو ویران گلیوں ، کوٹھیوں یا گھروں میں رہتے تھے وہ چِمٹ جاتے تھے جو اِن لڑکوں کو بھی اکثر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اُوپری اثر ہے۔ جِسے دلّی میں اوپری اثر کہا جاتا ہے۔ تعویذ گنڈے جھاڑ پونچھ جیسے توہم پرستانہ علاج کے طریقہ اسی وجہ سے زیادہ رائج رہے ہیں۔ اِس معنی میں یہ محاورہ ہمارے ایک خاص طرح کے سماجی طریقہ فکر اور عوام کے ذہنی رویوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔

( 32 ) ہیرا آدمی، ہیرا یا ہیرے کی کنی کھا جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آدمی کو اُس کی خوبیوں یا پھر اُس کی سیرت و صُورت کی کمزوریوں کے باعث مختلف اچھی بُری چیزوں سے تشبیہہ و استعارہ کے حوالوں سے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے یا نسبت دی جاتی ہے مثلاً چاند سورج کنول پھول اسی طرح بُرائیوں کے اعتبار سے اینٹ پتھر اور کوڑا کرکٹ کہتے ہیں اچھا آدمی لعل جواہر ہیرا موتی اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ تو ہیرا ہے۔

ہیرا انگوٹھیوں میں زیورات میں اور دوسری زینت کی چیزوں میں کام آتا ہے تخت طاؤس میں بھی ہیرے جڑے ہوئے تھے اور شاہ جہاں کی پگڑی میں بھی کوہِ نُور ہیرا رہتا تھا۔ آج برطانوی ملکہ یا بادشاہ کے تاج میں کوہِ نور چمکتا ہے اِس سے انسانی زندگی میں ہیرے کی قیمت کا اندازہ ہو سکتا ہے لیکن ہیرا بدترین قسم کا زہر بھی ہوتا ہے اسی لئے ہیرے کو اگر چاٹ لیا جائے تو اس سے موت ہو جاتی ہے اور اگر اس کی کنی کھا لی جائے تو آنتیں کٹ جاتی ہیں۔

( 33 ) ہیر پھیر کی باتیں کرنا یا ہیرا پھیری کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مکّاری اور دغا بازی  کو کہا جاتا ہے کہ وہ تو بڑی ہیرا پھیری کرتا ہے یہ خاص طور پر دلّی میں بولا جاتا ہے اور ہیر پھیر کی باتیں کرنا عام ہے۔

( 34 ) ہینگ لگانا، ہینگ کہنا یا ہینگ ہگنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اس سے مُراد تکلیفیں اُٹھانا ہے اور خاص طور پر پیٹ کی تکلیفوں میں مبتلا رہنا ہے ہینگ لگانے کے معنی وہی ہیں جو چُونا لگانے کے ہیں۔ یہ ایک طرح کا فریب دینے کا عمل ہے۔

( 35 ) ہائے ہائے کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

افسوس کا اظہار کرنا، غالبؔ کا مصرعہ ہے

؂ روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں

اس سے تہ چلتا ہے کہ ہائے ہائے کرنا دکھ درد سے پریشان ہو کر اس پر اظہارِ افسوس کرنا ایک طرح سے آہ و شیون قائم کرنا جو اظہارِ ملال ہوتا ہے۔ آدمی اپنے رنج و غم دُکھ تکلیف اور  مسرت و شادمانی کے جذبات کا اظہار صاف وسادہ صورت میں کم کرتا ہے اُس کے لئے کہیں آوازوں کا سہارا لیتا ہے اور  کہیں الفاظ اور  اُن کی ادائیگی کا جیسے واہ واہ کرنا جو اظہارِ خوشی کے لئے ہوتا ہے اور  ہائے ہائے افسوس و غم اور  شدید دُکھ  و تکلیف کے لئے ہوتا ہے۔

( 36 ) ہی ہی یا ٹھی ٹھی کرنا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

لڑکیاں یا عورتیں بے طرح ہنستی ہیں اور اُن کی ہنسی کی آواز اچھی نہیں لگتی تو اسے ’’ہی ہی کرنا ‘‘یا ٹھی ٹھی کرنا کہتے ہیں ہنسی ٹھٹھا ہمارے یہاں محاورے کا حصّہ ہے اور اُس کے معنی ہنسی مذاق کے ہیں مگر ٹھٹھا کرنا زیادہ اور غیر ضروری مذاق کرنے کو کہتے ہیں۔ جب کہ ٹھی ٹھی کرنا ہنسی کے عمل کی طرف ایک اشارہ ہے جس میں خاص آوازوں کے ذریعہ طریقۂ اظہار کو ایک خاص سلیقہ اور  اُس کے پیدا کردہ سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔ اس سے ہم کسی انسان کے عمل اور  اُس کے اچھے بُرے پہلو کو جو صورتِ حال کا نمایاں حصّہ ہوتا ہے۔ آوازوں یا لفظوں میں ڈھلتے ہوئے دیکھتے ہیں اور  پھر وہ حقیقت‘ مصوّر ہو کر سامنے آتی ہے۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔