برگد کے نیچے بیٹھا ، کوئی غریب نائی
جب دیر تک سروں کی کرتا رہا مونڈائی
فرصت ملی تو اس کو ، کھانے کا دھیان آیا
کھانے کو دال روٹی ، گھر سے تھا ساتھ لایا
ٹہنی پر ایک بندر بیٹھا جو گھات میں تھا
چھوٹے سے آئینے اور ایک استرے پہ جھپٹا
جلدی سے چڑھ گیا پھر ، اک اُونچی شاخ پر وہ
تھا دیر سے جمائے ، نظر ہر چیز پر وہ
آئینہ دیکھا تو وہ خوب مُسکرایا
لیکن سمجھ میں اُس کی تیز اُسترا نہ آیا
نائی نے جب یہ دیکھا ، اک اُسترا اُٹھایا
پھر ناک پر لٹکا کر اُلٹا اسے پھرایا
بندر کو یہ ادا بھی اتنے پسند آئی
کرنے لگا وہی کچھ ، جو کر رہا تھا نائی
دیکھی جو آئینے میں اپنے لہو کی لالی
حیراں ہوا کہ خود ہی کیوں ناک کاٹ ڈالی
غصے میں نیچے پھینکا ، پہلے تو اُسترے کو
پھر آپ ہی اچھالا نفرت سے آئینے کو
کیا خوب آدمی کی تدبیر کام آئی
ہارا شریر بندر ، جیتا غریب نائی