02:38    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

نظمیں

رؤف خیر - چھٹی

1262 0 0 00

کام کوئی اٹھا نہ رکھتا ہے 

زندگانی کا کیا بھروسہ ہے 

کل بتاؤ تو کس نے  دیکھا ہے 

فیصلہ لو تو کوئی اچھا لو

جو بھی کرنا ہے  آج کر ڈالو

آج کا کام کل پہ مت ٹالو

 

پھر یہ فرصت رہے  رہے  نہ رہے 

پھر یہ حالت رہے  رہے  نہ رہے 

پھر یہ ہمت رہے  رہے  نہ رہے 

اے  نئی زندگی کے  متوالو

جو بھی کرنا ہے  آج کر ڈالو

آج کا کام کل پہ مت ٹالو

 

مجھ کو یہ قول ہے  بہت بھاتا

اصل میں  کل کبھی نہیں  آتا

میری مانو تو کھول دو کھاتہ

کوئی اندیشہ دل میں  مت پالو

جو بھی کرنا ہے  آج کر ڈالو

آج کا کام کل پہ مت ڈالو

 

کام چھوٹا کوئی نہیں  ہوتا

کاٹتا ہے  وہی جو ہے  بوتا

کر کے  بے  کاریوں  سے  سمجھوتا

جھوٹے  خوابوں  سے  دل نہ بہلا لو

جو بھی کرنا ہے  آج کر ڈالو

آج کا کام کل پہ مت ٹالو

 

 

 

کاہلی گھر اجاڑ دیتی ہے 

جیتی بازی بگاڑ دیتی ہے 

ہاتھیوں  کو پچھاڑ دیتی ہے 

ایک چیونٹی سے  درس اتنا لو

جو بھی کرنا ہے  آج کر ڈالو

آج کا کام کل پہ مت ٹالو

 

یاد یہ بات کام کی رکھو

کاہلوں  سے  نہ دوستی رکھو

جاہلوں  سے  نہ ربط ہی رکھو

ان سے  کہنا کہ جاؤ رستہ لو

جو بھی کرنا ہے  آج کر ڈالو

آج کا کام کل پہ مت ٹالو

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔