چھٹیاں ختم ہو گئیں آخر
پھروہی مدرسہ وہی پھر ہم
پھر قلم کا پیاں کتابیں پھر
پھر وہی سلسلہ وہی پھر ہم
پھروہی بوجھ پیٹھ پر بھاری
پھروہی بس ہے پھر وہی بستے
پھروہی انتظار کی صورت
پھروہی منزلیں وہی راستے
پھروہی والدین کی الجھن
پھر وہی ٹیچروں کی استادی
پھروہی دھوپ پھر بدن مومی
پھر چنے سامنے ہیں فولادی
چھٹیوں میں یہ بھول بیٹھے تھے
اور بھی امتحان ہے آگے
زندگی کھیل کا نہیں میدان
اور بھی اک جہان ہے آگے