09:08    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

ناول / افسانے

1599 1 0 00

ایک باپ بکاؤ ہے - راجندر سنگھ بیدی

ایک باپ بکاؤ ہے

دیکھی نہ سنی یہ بات جو ۴۲ فروری کے ’’ٹائمز‘‘ میں چھپی۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ اخبار والوں نے کیسے چھاپ دی۔خرید و فروخت کے کالم میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا ہی اشتہار تھاجس نے وہ اشتہار دیا تھا ارادہ کے بغیر اسے معمے کی ایک شکل دے دی تھی۔پتے کے سوا اس میں کوئی ایسی بات نہ تھی جس سے خریدنے والے کو کوئی دلچسپی ہو۔بکاؤ ہے ایک باپ۔عمر اکہتر سال۔بدن اکہرا،رنگ گندمی،دمے کا مریض حوالہ نمبر ایل۶۷۴۔معرفت ٹائمز۔ اکہتر برس کی عمر میں باپ کہاں رہا....دادا نانا ہو گیا۔وہ تو؟عمر بھر آدمی ہاں ہاں کرتا رہتا ہے۔آخر میں نانا ہو جاتا ہے۔ باپ خرید لائے تو ماں کیا کہے گی،جو بیوہ ہے عجیب بات ہے نا۔ایسے ماں باپ جو میاں بیوی نہ ہوں۔ ایک آدمی نے الٹے پاؤں دنیا کا سفر شروع کر دیا ہے آج کی دنیا میں سب سچ ہے بھائی۔سب سچ ہے۔ دمہ پھیلا دے گا۔ نہیں بے۔دمہ متعدی بیماری نہیں۔ ہے۔ نہیں۔ ہے۔ ان دونوں آدمیوں میں چاقو چل گئے۔جو بھی اس اشتہار کو پڑھتے تھے۔بڈھے کی سنک پرہنس دیتے تھے۔پڑھنے کے بعد اسے ایک طرف رکھ دیتے اور پھر اٹھا کر اسے پڑھنے لگتے۔جیسے ہی انہیں اپنا آپ احمق معلوم ہونے لگتا وہ اشتہار کو اڑوسیوں پڑوسیوں کی ناک لگے ٹھونس دیتے۔ ایک بات ہے....گھر میں چوری نہیں ہو گی۔ کیسے؟ ہاں کوئی رات بھر کھانستا رہے۔ یہ سب سازش ہے۔خواب آور گولیاں بیچنے والوں کی۔ پھر....ایک باپ بکاؤ ہے! لوگ ہنستے ہنستے رونے کے قریب پہنچ گئے۔ گھروں میں،راستوں پر،دفتروں میں بات ڈاک ہونے لگی۔جس سے وہ اشتہار اور بھی مشتہر ہو گیا۔

 جنوری فروری کے مہینے بالعموم پت جھڑ کے ہو تے ہیں۔ ایک ایک داروغے کے نیچے بیس بیس جھاڑ دینے والے سڑکوں پر گرے سوکھے،سڑے بوڑھے پتے اٹھاتے اٹھاتے تھک جاتے ہیں۔جنہیں ان کو گھر لے جانے کی بھی اجازت نہیں ہوتی کہ انہیں جلائیں اور سردی کے موسم میں وہ اشتہار گرمی پیدا کرنے لگا جو آہستہ آہستہ سینک میں بدل گئی۔ کوئی بات تو ہو گی؟ ہوسکتا ہے،پیسے،جائیداد والا.... بکواس....ایسے میں بکاؤ لکھتا؟ مشکل سے اپنے باپ سے خلاصی پائی ہے۔باپ کیا تھا۔چنگیز ہلاکو تھا سالا۔ تم نے پڑھا مسز گو سوامی؟ دھت۔ہم بچے پالیں گے،سدھا،کہ باپ؟ایک اپنے ہی وہ کم ہیں نہیں۔گو سوامی ہے۔ باپ بھی حرامی ہوتے ہیں .... باکس ایل۶۷۴میں چٹھیوں کا طومار آیا پڑا ہے۔اس میں ایک ایسی بھی چٹھی آئی جس میں تھی کیرل کی لڑکی مس راونی کرشنن نے لکھا تھا کہ وہ ابو دبئی میں نرس کا کام کرتی رہی ہے اور اس کے ایک بچہ ہے۔وہ کسی ایسے مرد کے ساتھ شادی کی متمنی ہے جس کی آمدنی معقول ہو اور اس کے بچے کی مناسب دیکھ بھال کر سکے چا ہے وہ کتنی ہی عمر کا ہو۔اس کا کوئی شوہر ہو گا جس نے اسے چھوڑ دیا۔یا ویسے ابو دبئی کے کسی شیخ نے اسے الٹا پلٹا دیا۔چنانچہ غیر متعلق ہونے کی وجہ سے وہ عرضی ایک طرف رکھ دی گئی۔کیونکہ اس کا بکاؤ باپ سے کوئی تعلق نہ تھا۔بہرحال ان چٹھیوں سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ہیڈ لے چیز،رابن سن،ارونگ اور اگا تھا کرسٹی کے سب پڑھنے والے ادھر پلٹ پڑے ہیں۔کلاسی فائڈ اشتہار چھاپنے والوں نے جنرل مینیجر کو تجویز پیش کی کہ اشتہاروں کے نرخ بڑھا دیے جائیں۔مگر نوجوان بوڑھے یا جوان مینیجر نے تجویز کو پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے کہاSHUICKS ایک پاپولر اشتہار کی وجہ سے نرخ کیسے بڑھا دیں؟....اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پولیس پہونچی۔اس نے دیکھا ہندو کالونی،دادر میں گاندھرو داس جس نے اشتہار دیا تھا،موجود ہے اور صاف کہتا ہے کہ میں بکنا چاہتا ہوں اگر اس میں کوئی قانونی رنجش ہے تو بتائیے۔وہ پان پر پان چباتا اور ادھر ادھر دیواروں پر تھوکتا جا رہا تھا۔مزید تفتیش سے پتہ چلا کہ گاندھرو داس ایک گائیک ہے۔کسی زمانے میں جس کی گائیکی کی بڑی دھوم تھی۔برسوں پہلے اس کی بیوی کی موت ہو گئی،جس کے ساتھ اس کی ایک منٹ نہ پٹتی تھی۔دونوں میاں بیوی ایک اندھی محبت میں بندھے ایک دوسرے کو چھوڑتے ہی نہ تھے۔شام کو گاندھرو داس کا ٹھیک آٹھ بجے گھر پہنچنا ضروری تھا۔ایک دوسرے کے ساتھ کوئی لین دین نہ رہ جانے کے باوجود یہ احساس ضروری تھا کہ....وہ ہے گاندھروداس کی تان اڑتی ہی صرف اس لئے تھی کی دمینتی اس کے سنگیت سے بھرپور نفرت کرنے والی بیوی گھر میں موجود ہے اور اندر کہیں گاجر کا حلوہ بنا رہی ہے اور دمینتی کے لئے یہ احساس تسلی بخش تھا کہ اس کا مرد جو برسوں سے اسے نہیں بلاتا۔ساتھ کے بستر پر پڑا،شراب میں بد مست خراٹے لے رہا ہے۔کیونکہ خراٹا ہی ایک موسیقی تھا۔جسے گاندھرو کی بیوی سمجھ پائی تھی بیوی کے چلے جانے کے بعد گاندھرو داس کو بیوی کی وہ سب زیادتیاں بھول گئیں۔ لیکن اپنے اس پر کئے ہوئے اتیا چار یاد ر ہ گئے۔وہ بیچ رات کے ایکا یک اٹھ جاتا اور گریبان پھاڑ کر ادھر ادھر بھاگنے لگتا۔بیوی کے بارے میں آخری خواب اس نے دیکھا کہ دوسری عورت کو دیکھتے ہی اس کی بیوی نے واویلا مچا دیا ہے اور روتی چلاتی ہوئی گھر سے بھاگ نکلی۔گاندھرو داس اس کے پیچھے دوڑا۔لکڑی کی سیڑھی کے نیچے کچی زمین میں دمینتی نے اپنے آپ کو دفن کر لیا۔مگر مٹی ہل رہی تھی اور اس میں دراڑیں چلی آئی تھیں جس کا مطلب تھا کہ ابھی اس میں سانس باقی ہے۔حواس باختگی میں گاندھرو داس نے اپنی عورت کو مٹی کے نیچے سے نکالا تو دیکھا ....اس کے،بیوی کے دونوں بازو غائب تھے۔ناف سے نیچے بدن نہیں تھا۔اس پر بھی وہ اپنے ٹھنٹ اپنے پتی کے گرد ڈالے اس سے چمٹ گئی اور گاندھروداس اسی پتلے سے پیار کرتا ہوااسے سیڑھیوں سے اوپر لے آیا۔گاندھروداس کا گانا بند ہو گیا۔ گاندھروداس کے تین بچے تھے۔تھے۔ کیا۔ہیں۔سب سے بڑا ایک نامی پلے بیک سنگر ہے جس کے لانگ پلیئنگ ریکارڈ بازار میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں۔ایرانی ریستورانوں میں رکھے ہوئے جیوک باکسوں سے جتنی فرمائشیں اس کے گانوں کی ہوتی ہیں اور کسی کی نہیں۔اس کے برعکس گاندھرو داس کی کلاسیکی میوزک کو کوئی بھی گھاس نہ ڈالتا تھا۔دوسرا لڑکا آفسٹ پرنٹر ہے اور جست کی پلیٹیں بھی بنا تا ہے۔پریس سے دو ڈیڑھ ہزار روپیہ مہینہ پاتا ہے اور اپنی اطالوی بیوی کیساتھ رنگ رلیاں مناتا ہے۔کوئی جئے یا مرے اسے اس بات کا خیال نہیں۔جس زمانے میں گاندھروداس کا موسیقی کے ساز بیچنے کا کام ٹھپ ہوا تو بیٹا بھی تھا۔گاندھرو نے کہا.... چلو ایچ ایم وی کے ریکارڈوں کی ایجنسی لیتے ہیں۔چھوٹے نے جواب دیا۔ہاں مگر آپ کیساتھ میرا کیا مستقبل ہے۔گاندھروداس کو دھچکہ سا لگا وہ بیٹے کا مستقبل کیا بنا سکتا تھا؟کوئی کسی کا مستقبل کیا بنا سکتا ہے؟ گاندھرو کا مطلب تھا۔میں کھاتا ہوں تم بھی کھاؤ۔میں بھوکا مرتا ہوں تم بھی مرو۔تم جوان ہو،تم میں حالات سے لڑنے کی طاقت زیادہ ہے اس کے جواب کے بعد گاندھروداس ہمیشہ کے لئے چپ ہو گیا۔رہی بیٹی تو وہ ایک اچھے مارواڑی گھر میں بیاہی گئی۔جب وہ تینوں بہن بھائی ملتے تو اپنے باپ کو رنڈوا،مرد بدھوا کہتے اور اپنی اس اختراع سے خود ہی ہنسنے لگتے۔ ایسا کیوں؟ چانزک،ایک شاعر اور اکاؤنٹنٹ جو اس اشتہار کے سلسلے میں گاندھروداس کے ہاں گیا تھا۔کہہ رہا تھا ....اس بڈھے میں ضرور کوئی خرابی ہے۔ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تین اولادوں میں سے ایک بھی اس کی دیکھ بھال نہ کرے۔کیا وہ ایک دوسرے کے اتنے نزدیک تھے کہ دور ہو گئے؟ہندسوں میں اُلجھے رہنے کی وجہ سے چانزک کے الہام اور الفاظ کے درمیان کوئی فساد پیدا ہو گیا تھا۔ وہ یہ جانتا تھا کہ ہندوستان تو کیا دنیا بھر میں کنبے کا تصور ٹوٹتا جا رہا ہے۔بڑوں کا ادب ایک فیوڈل بات ہو کر رہ گئی ہے۔ اس لئے سب بڈھے ہا ئیڈ پارک میں بیٹھےَ امتداد زمانہ کی سردی سے ٹھٹھرے ہوئے، ہر آنے جانے والے کو شکار کرتے ہیں کہ شاید ان سے کوئی بات کرے۔ وہ یہودی ہیں جنہیں کوئی ہٹلر ایک ایک کر کے گیس چیمبر میں دھکیلتا جا رہا ہے۔ مگر دھکیلنے سے پہلے جمور کے ساتھ ان کے دانت نکال لیتا ہے جن پر سونا مڑھا ہے۔ یا اگر کوئی بچ گیا تو کوئی بھانجا بھتیجا اتفاقیہ طور پر اس بڈھے کو دیکھنے کے لئے اس کے مخروطی اٹیک میں پہنچ جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ وہ تو مرا پڑا ہے اور اس کی کلزاقی آنکھیں اب بھی دروازے پر لگی ہیں۔نیچے کی منزل والے بدستور اپنا اخبار بیچنے کا کاروبار کر رہے ہیں کیونکہ دنیا میں روز کوئی نہ کوئی واقعہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ ڈاکٹر آ کر تصدیق کرتا ہے کہ بڈھے کو مرے ہوئے پندرہ دن ہو گئے۔ صرف سردی کی وجہ سے لاش گلی سڑی نہیں۔ پھر وہ بھانجا یا بھتیجا کمیٹی کو خبر کر کے منظر سے ٹل جاتا ہے، مبادا کہ آخری رسوم کے اخراجات اسے دینے پڑیں۔ ًً           چانزک نے کہا ....ہو سکتا ہے بڈھے نے کوئی اندوختہ رکھنے کی بجائے اپنا سب کچھ ہی بچوں پر اڑا دیا ہو۔اندوختہ ہی ایک بولی ہے جسے دنیا کے لوگ سمجھتے ہیں اور ان سے زیادہ اپنے سگے سمبندھی اپنے ہی بچے بالے۔کوئی سنگیت میں تارے توڑ لائے۔نقاشی میں کمال دکھا جائے اس سے انہیں کوئی مطلب نہیں پھر اولاد ہمیشہ یہی چاہتی ہے کہ اس کا باپ وہی کرے جس سے وہ اولاد خوش ہو۔باپ کی خوشی کس بات میں ہے۔اس کی کوئی بات ہی نہیں اور ہمیشہ نہ خوش رہنے کے لئے اپنے کوئی سا بھی بے گانا بہانہ تراش لیتے ہیں۔ مگر گاندھرو داس تو بڑا ہنس مکھ آدمی ہے۔ ہر وقت لطیفے سناتا ہے۔ خود ہنستا ہے اور دوسروں کو ہنساتا رہتا ہے۔ اس کے لطیفے اکثر فحش ہوتے ہیں شاید وہ کوئی نقاب کھو ٹے میں جن کے پیچھے وہ اپنی جنسی ناکامیوں اور نا آسودگیوں کو چھپاتا رہتا ہے یا پھر سیدھی سی بات.... بڑھاپے میں انسان ویسے ہی ٹھرکی ہو جاتا ہے اور اپنی حقیقی یا مفروضہ فتوحات کی باز گشت! اشتہار کے سلسلے میں آنے والے کچھ لوگ اس لئے بھی بدک گئے کہ گاندھرو داس پر پچپن ہزار کا قرض بھی تھا جو بات اس نے اشتہار میں نہیں لکھی تھی اور غالباً اس کی عیاری کا ثبوت تھی۔اس پر طرہ ایک نوجوان لڑکی سے آشنائی تھی جو عمر میں اس کی بیٹی رما سے بھی چھوٹی تھی۔وہ لڑکی دیویانی گانا سیکھنا چاہتی تھی جو گورو جی نے دن رات ایک کر کے اسے سکھایا اور سنگیت کی دنیا کے شکھر پر  پہنچا دیا۔لیکن ان کی عمروں کے فرق کے باوجود ان کے تعلقات میں جو ہیجانی کیفیت تھی اسے دوسرے تو ایک طرف خود وہ بھی نہ سمجھ سکتے تھے۔اب بھلا ایسے چاروں عیب شرعی باپ کو کون خریدے؟ اور پھر ....جو ہر وقت کھانستا رہے کسی وقت بھی دم اُلٹ جائے اس کا۔باہر جائے تو نو ٹانک مار کے آئے،بلکہ لوٹتے وقت پوا بھی دھوتی میں چھپا کر لے آئے۔ آخر....دمے کے مریض کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے۔ گاندھرو داس سنگیت سکھاتے ہوئے یہ بھی کہہ اٹھتا میں پھر گاؤں گا۔وہ تکرار کے ساتھ یہ بات شاید اس لئے بھی کہتا کہ اسے خود بھی اس میں یقین نہ تھا۔وہ سرمہ لگاتا بھی تو اسے اپنے سامنے اپنی مرحوم بیوی کی روح دکھائی دیتی جیسے کہہ رہی ہو۔ابھی تک گا رہے ہو؟ اس انوکھے مطالبے اور امتزاج کی وجہ سے لوگ گاندھرو داس کی طرف یوں دیکھتے تھے جیسے وہ کوئی بہت چمکتی ہوئی شے ہو اور جس کا نقش وہاں سے ٹل جانے کے بعد بھی کافی عرصے تک آنکھ کے اندر پردے پر برقرار رہے اور اس وقت تک پیچھا نہ چھوڑے جب تک کوئی دوسرا عنصر نظارہ پہلے کو دھندلا نہ دے۔ کسی خورشید عالم نے کہا....میں خرید نے کو تیار ہوں بشرطیکہ آپ مسلمان ہو جائیں۔ مسلمان تو میں ہوں ہی۔ کیسے؟ میرا ایمان خدا پر مسلم ہے۔پھر میں نے جو پایا ہے اُستاد علاؤالدین کے گھرانے سے پایا ہے۔ آں ہاں،وہ مسلمان،کلمے والا.... کلمہ تو سانس ہے انسان کی جو اس کے اندر،باہر جاری اور ساری ہے۔میرا دین سنگیت ہے۔کیا استاد عبدالکریم خان کا بابا ہرداس ہونا ضروری تھا؟ پھر میاں خورشید عالم کا پتہ نہیں چلا۔ وہ تین عورتیں بھی آئیں لیکن گاندھرو داس جس نے زندگی کو نو ٹانک بنا کے پی لیا تھا،بولا ....جو تم کہتی ہو میں اس سے اُلٹ چاہتا ہوں۔کوئی نیا تجربہ جس سے بدن سو جائے اور روح جاگ اٹھے اسے کرنے کی تم میں کوئی ہمت ہی نہیں۔دین دھرم معاشرہ نہ جانے کن کن چیزوں کی آڑ لیتی ہو لیکن بدن روح کو شکنجے میں کس کے یوں سامنے پھینک دیتا ہے۔تم پلنگ کے نیچے کے مرد سے ڈرتی ہو اور اسے ہی چاہتی ہو تم ایسی کنواریاں ہو جو اپنے دماغ میں عفت ہی کی رٹ سے اپنی عصمت لٹواتی ہواور وہ بھی بے مہار....اور پھر گاندھرو داس نے ایک شیطانی مسکراہٹ سے کہا۔دراصل تمہارے نتیجے ہی غلط ہیں۔ ان عورتوں کو یقین ہو گیا کہ وہ ازلی مائیں دراصل باپ ہیں۔ کسی خدا کے بیٹے کی تلاش میں ہیں ورنہ تین تین چار چار تو ان کے اپنے بیٹے ہیں مجاز کی اس دنیا میں .... میں اس دن کی بات کرتا ہوں جس دن مان گنگا کے مندر سے بھگوان کی مورتی چوری ہوئی اس دن پت جھڑ بہار پر تھی،مندر کا پورا احاطہ سوکھے سڑے،بوڑھے پتوں سے بھر گیا۔کہیں شام کو بارش کا ایک چھینٹا پڑا اور چوری سے پہلے مندر کی مورتیوں پر پروانوں نے اتنی ہی فراوانی سے قربانی دی جس فراوانی سے قدرت انہیں پیدا کرتی اور پھر انہیں کھاد بناتی ہے یہ وہی دن تھاجس دن پجاری نے پہلے بھگوان کرشن کی رادھا (جو عمر میں اپنے عاشق سے بڑی تھی)کی طرف دیکھا اور پھر مسکرا کر مہترانی چھبو کی طرف (جو عمر میں پجاری کی بیٹی سے چھوٹی تھی) اور وہ پتے اور پھول اور بیج گھر لے گئی۔ مورتی تو خیر کسی نے سونے چاندی،ہیرے اور پنوں کی وجہ سے چرائی لیکن گاندھرو داس کو لارسن اینڈ لارسن کے مالک ڈروے نے بے وجہ خرید لیا۔گاندھرو داس اور ڈروے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔بوڑھے نے صرف آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کہہ دیا جیسے تیسے بھی ہو،مجھے لے لو بیٹے۔بنا بیٹے کے کوئی باپ نہیں ہو سکتا اس کے بعد ڈروے کو آنکھیں ملانے سوال کرنے کی ہمت ہی نہ پڑی۔سوال شرطوں کا تھا مگر شرطوں کے ساتھ کبھی زندگی جی جاتی ہے؟ڈروے نے گاندھرو داس کا قرض چکایا۔سہارا دیکر اسے اٹھایا اور مالا بارہل کے دامن میں اپنے عالیشان بنگلے گری گنج لے گیا جہاں وہ اس کی تیمار داری اور خدمت کرنے لگا۔ ڈروے سے اس کے ملازموں نے پوچھا۔سر آپ یہ کیا مصیبت لے آئے ہیں۔یہ بڈھا،مطلب،بابو جی آپ کو کیا دیتے ہیں۔ کچھ نہیں بیٹھے رہتے ہیں آلتی پالتی مارے کھانستے رہتے ہیں اور یا پھر زردرے والے پان چباتے جاتے ہیں۔جہاں جی چا ہے تھوک دیتے ہیں۔جس کی عادت مجھے اور میری صفائی پسند بیوی کو بھی نہیں پڑی۔مگر پڑ جائے گی۔دھیرے دھیرے....مگر تم نے ان کی آنکھیں دیکھی ہیں؟ جی نہیں۔ جاؤ دیکھو ان کی روتی ہنستی آنکھوں میں کیا ہے ان میں کیسے کیسے سندیس نکل کر کہاں کہاں پہنچ رہے ہیں؟ کہاں کہاں پہنچ رہے ہیں؟.... جمنا داس ڈورے کے ملازم نے غیر ارادی طور پر فضا میں دیکھتے ہوئے کہا.... آپ سائنسداں ہیں ! میں سائنس کی بات کر رہا ہوں۔ جمنا !اگر انسان کے زندہ رہنے کے لئے پھل پھول پیڑ پودے ضروری ہیں، جنگل کے جانور ضروری ہیں تو بو ڑھے بھی ضروری ہیں۔ورنہ ہمارا ایکولا جیکل بیلنس تباہ ہو جائے گا اگر جسمانی طور پر نہیں تو روحانی طور پر بے وزن ہو کر انسانی نسل ہمیشہ کے لئے معدوم ہو جائے۔ جمانا داس اور اتھادلے بھاؤ کچھ سمجھ نہ سکے۔ ڈروے نے بنگلے میں لگے شوک پیڑ کا ایک پتا توڑا اور جمنا داس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا اپنی پری سائنس سے کہو کہ یہ تازگی یہ شگفتگی، یہ شادابی اور یہ رنگ پیدا کر کے دکھائے.... اتھادلے بولا وہ تو اشوک کا بیج بوئیں .... آں ہاں ....ڈروے نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔میں بیج نہیں پتے کی بات کر رہا ہوں۔بیج کی بات کریں گے تو ہم خدا جانے کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے۔ پھر جمنا داس کے قریب ہوتے ہوئے ڈروے بولا میں تمہیں کیا بتاؤں جمنا جب میں بابو جی کے قدم چھو کر جاتا ہوں تو ان کی نگاہوں کا عزم مجھے کتنی شانتی کتنی ٹھنڈک دیتا ہے میں جوہر وقت ایک بے نام ڈر سے کانپتا رہتا تھا اب نہیں کانپتا ....مجھے ہر وقت اس بات کی تسلی رہتی ہے وہ تو ہیں۔مجھے یقین ہے بابو جی کو بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہو گا،میں نہیں مانتا سر....یہ خالی خولی جذباتیت ہے۔ ہو سکتا تھا۔ ڈروے بھڑک اٹھتا ہو سکتا تھا وہ جمنا داس، اپنے ملازم کو اپنی فرم سے ڈسمس کر دیتا لیکن باپ کی آنکھوں کے دم نے اسے یہ نہ کرنے دیا۔اس کی آواز میں الٹا کہیں سے کوئی سر چلا آیا اور اس نے بڑے پیا ر سے کہا،تم کچھ بھی کہہ لو،جمنا ہر ایک بات تو تم جانتے ہو میں جہاں جاتا ہوں لوگ مجھے سلام کرتے ہیں۔میرے سامنے سر جھکا تے ہیں۔بچھ بچھ جاتے ہیں۔ ڈروے اس کے بعد ایکا  ایکی چپ ہو گیا اس کا گلا اور آنکھیں دھندلا گئیں۔سر میں بھی تو یہی کہتا ہوں ....دنیا آپ کے سامنے سر جھکاتی ہے!اس لیے....ڈروے نے اپنی آواز پاتے ہوئے کہا ....کہیں میں بھی سر جھکانا چاہتا ہوں۔اتھاولے،جمناداس اب تم جاؤ پلیز !میری پوجا میں دکھن مت ڈالو،ہم نے پتھر سے خدا پایا ہے۔ گری گنج میں لگے ہوئے آ م کے پیڑوں میں بور پڑا۔ ادھر پہلی کوئل کوکی ادھر گاندھرو داس نے برسو ں کے بعد تان اڑائی.... کوئلیا بولے اموا کی ڈال ....وہ گانے لگے کسی نے کہا۔آپ کا بیٹا آپ سے اچھا گاتا ہے۔ امٹیا....گاندھرواس نے،عیبا بولی میں کہا ....آخر میرا بیٹا ہے۔باپ نے میٹرک کیا ہے تو بیٹا ایم اے نہ کرے؟ ایسی باتیں کرتے ہوئے ناسمجھ بے باپ کے لوگ گاندھرو داس کی طرف دیکھتے کہ ان کی جھریو ں میں کہیں تو جلن دکھا ئی دے جب کوئی ایسی چیز نظر نہ آئی تو کسی نے لقمہ دیا آپ کا بیٹا کہتا ہے،میرا باپ مجھ سے جلتا ہے۔ سچ؟....میرا بیٹا کہتا ہے۔ ہاں،میں جھوٹ تھوڑے بول رہا ہوں۔ گاندھرو داس تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو گئے جیسے وہ کہیں اندر عالم ارواح میں چلے گئے ہوں اور ماں سے بیٹے کی شکایت کی ہو۔بڑھیا سے کوئی جواب پا کر وہ دھیر ے سے بولے ....اور تو کوئی بات نہیں، میرا بیٹا.... وہ بھی باپ ہے ....وہ پھر ان دنوں کی طرف لوٹ گئے جب بیٹے نے کہا تھا۔بابو جی میں شاستریہ سنگیت میں آپ ایسا کمال پیدا کرنا چاہتا ہو ں مگر ڈھیر سارا روپیہ کما کر۔اور بابو جی نے بڑی شفقت سے بیٹے کے کندھے تھپ تھپاتے ہوئے کہا ....ایسے نہیں ہوتا راجو ....یا آدمی کمال حاصل کرتا ہے یا پیسے ہی بناتا چلے جاتا ہے جب دو بڑے بڑے آنسو لڑھک کر گاندھرو داس کی داڑھی میں اٹک گئے جہاں ڈروے بیٹھا تھا۔ ادھر سے روشنی میں وہ ضم ہو گئے سفید روشنی جن میں سے نکل کر سات رنگوں میں بکھر گئی۔ ڈروے کو نہ جانے کیا ہوا وہ اٹھ کر زور سے چلا یا.... گیٹ آؤٹ ....اور لوگ چوہوں کی طرح ایک دوسرے پر گرتے پڑتے ہوئے بھاگے۔ گاندھرو داس نے اپنا ہاتھ اٹھا یا اور صرف اتنا کہا .... نہیں بیٹے نہیں۔ ان کے ہاتھ سے کوئی برقی روئیں نکل رہی تھیں۔ ڈروے جب لارسن اینڈ لارسن میں گیا تو فلپ، اس کا ورکس مینجر کمپیوٹر کو ڈیٹا فیڈ کر رہا تھا کمپیوٹر سے کارڈ باہر آ یا تو اس کا رنگ پیلا پڑ گیا وہ بار بار آنکھیں جھپک رہا تھا اور کارڈ کی طرف دیکھ رہا تھا لارسن اینڈ لارسن کو اکتا لیس لاکھ کا گھاٹا پڑنے والا ہے اس گھبراہٹ میں اس نے کارڈ ڈروے کے سامنے کر دیا جسے دیکھ کر اس کے چہرے پر شکن تک نہ آئی۔ ڈروے نے صرف اتنا کہا۔ کوئی انفارمیشن غلط فیڈ ہو گئی ہے۔ نہیں سر ....میں نے بیسوں بار چیک کراس چیک کر کے اسے فیڈ کیا ہے۔ تو پھر مشین ہے کوئی نقص پیدا ہو گیا ہو گا۔ آئی بی ایم والوں کو بلاؤ۔ مودک چیف انجینئر تو ساؤتھ گیا ہے۔ ساؤتھ کہاں؟ ترپتی کے مندر سنا ہے اس نے اپنے لمبے ہپی بال کٹوا کر مورتی کی نذر کر دیئے ہیں۔ ڈروے ہلکا سا مسکرایا اور بولا تم نے یہ انفارمیشن فیڈ کی ہے کہ ہمارے بیچ ایک باپ آیا ہے؟ فلپ نے سمجھا ڈروے اس کا مذاق اڑا رہے ہیں یا ویسے ہی ان کا دماغ پھر گیا ہے مگر ڈروے کہتا رہا.... اب ہمارے سر پر کسی کا ہاتھ ہے تبریک ہے اس کے نتیجے کا حوصلہ اور ہمت مت بھولو۔ یہ مشین کسی انسان نے بنائی ہے جس کا کوئی باپ تھا۔ پھر اس کا باپ اور آخر سب کا باپ جہل مرکب یا مفرد ! فلپ نے اپنی اندرونی خفگی کا منہ موڑ دیا۔کیا دیویانی اب بھی بابو جی کے پاس آتی ہے۔ ہاں۔ مسز ڈورے کچھ نہیں کہتی۔ پہلے کہتی تھیں۔ اب وہ ان کی پوجا کرتی ہیں۔ بابو جی دراصل عورت کی جات ہی سے پیار کرتے ہیں۔ فلپ معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہیں پر کرتی کے چتون دیکھ لئے ہیں۔ جن کے جواب میں وہ مسکراتے تو ہیں لیکن کبھی کبھی بیچ میں آنکھ بھی مار دیتے ہیں۔ فلپ کاغصہ اور بڑھ گیا۔ ڈروے کہتا....بابو جی کو شبد، بیٹی، بہو، بھابی، چاچی، للی، میا، بہت اچھے لگتے ہیں۔ وہ بہو کی کمر میں ہاتھ ڈال کر پیار سے اس کا گال چوم لیتے ہیں اور یوں قید میں آزادی پا لیتے ہیں۔ اور آزادی میں قید دیویانی؟ ڈروے نے حقارت سے کہا۔ سیکس کو اتنی ہی اہمیت دو جتنی کا وہ مستحق ہے۔ تیتر بٹیر بنے بغیر اس کے حواس پر مت چھانے دو۔ سنگیت شاید ایک آرتی دیویانی کے لئے میں سمجھا نہیں سر؟ بابو جی نے بتایا کہ وہ لڑکی بچپن ہی میں آوارہ ہو گئی۔ اس نے اپنے باپ کو کچھ اس عالم میں دیکھ لیا جب کہ و ہ نو خیزی سے جوانی میں قدم رکھ رہی تھی۔ جب سے وہ ہمیشہ کے لئے آ پ ہی اپنی ماں ہو گئی۔ باپ کے مرنے کے بعد وہ گھبرا کر ایک مرد سے دوسرے،دوسرے سے تیسرے کے پاس جانے لگی۔ اس کا بدن ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا۔ مگر روح تھی کہ تھکتی ہی نہ تھی۔ کیا مطلب؟ دیویانی کو دراصل باپ ہی کی تلاش تھی۔ فلپ جو ایک کیتھولک تھا ایک دم بھڑک اُٹھا، اس کے ابرو بالشت بھر اُوپر  اُٹھ گئے اور پھیلی ہوئی آنکھو ں سے نار جہنم لپکنے لگی۔ اس نے چلا کر کہا....یہ فراڈ ہے۔ مسٹر ڈروے پیور۔ این او لٹر ہیڈ فراڈ  جبھی ڈروے نے اپنے خریدے ہوئے باپ کی نم آنکھوں کو درنے میں لئے، کمپیوٹر کے پس منظر میں کھڑے فلپ کی طرف دیکھا اور کہا.... آج ہی بابو جی نے کہا تھا، فلپ تم انسان کو سمجھنے کی کوشش نہ کرو صرف محسوس کرو اسے ....!

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔