11:43    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

سفرنامے

9160 4 1 13

سکردو میں پونم - ڈاکٹر محمد اقبال ہما

سکردو

’’ سکردو کوہ نوردوں اور کوہ پیماؤں کی جنت کہلاتا ہے کیونکہ یہ آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلند چار چوٹیوں ، چھ ہزار میٹر سے بلند تقریباً ایک سو پچاس چوٹیوں اور پانچ ہزار میٹر سے بلند بے شمار چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس منفرد اعزاز میں دنیا کا کوئی اور شہر اس کا ثانی نہیں۔سکردو دنیا کے بلند ترین چٹانی سلسلے ’’ ٹرانگو ٹاورز‘‘۔  قطبین کے بعد طویل ترین گلیشیئرز ’’ بیافو، ہسپر اور سنولیک‘‘ جیسے خوبصورت اور منفرد ٹریکس کا گیٹ وے ہے جوہر سال مئی سے اکتوبر تک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ سکردو کو فلک بوس چوٹیوں ، عمیق ترین گھاٹیوں ، جنت نظیر وادیوں ، نیلگوں جھیلوں ،  جھیلگوں ندی نالوں ، بہتے جھرنوں ، گنگناتے آبشاروں ، صحرائی ریگزاروں ، بہشت زار باغوں اور گھنے جنگلوں کا شہر ہونے کے علاوہ۔۔  سینما گھروں اور خواتین سے ’’مکمل پاک‘‘ اسلامی بازار رکھنے کا شرف حاصل ہے۔ یہ تمام خصوصیات پاکستان کے کسی اور شہر میں نہیں پائی جاتیں ‘‘

عرض کیا ہے

کتاب لکھنا ایک نشہ ہے توسکردو میں پونم اس نشے کا فطری نتیجہ ہے۔اس خمار کو  نانگا پربت کے جھرنوں میں کے بارے میں دی گئی آرا نے مزید دو آتشہ کر دیا اور مجھے دوسری کتاب شائع کروانے کا حوصلہ ہوا۔اس سلسلے میں سب سے اہم رائے محترم جناب مستنصر حسین تارڑ صاحب کی تھی جنہوں نے اپنے قیمتی وقت کے قابل قدر لمحات  نانگا پربت کے جھرنوں میں اور سکردو میں پونم کا مسودہ پڑھنے میں صرف کئے اور موبائل فون پر رابطہ کر کے اپنی رائے سے نوازا۔ان کے یہ الفاظ میرے لئے بہت قیمتی تھے ’’کتاب اپنے آپ کو خود پڑھواتی ہے اور مجھے سکردو میں پونم  کا مسوّدہ بہت جلد پڑھنا پڑا۔‘‘

 عثمان ڈار نے دل کھول کر نانگا پربت کے جھرنوں میں کی تعریف کی لیکن ایک نہایت اہم کوتاہی کی طرف توجہ دلانے کے بعد اس کوتاہی کو قابل سزا جرم گردانتے ہوئے جرمانہ عائد کر دیا۔اس نے اپنی ای میل میں فرمایا:

 ’’ڈاکٹر صاحب! سپین نژاد خاتون کے ساتھ کئے جانے والے راز و نیاز کا حال نانگا پربت کے جھرنوں میں میں بیان کر دیا تھا تو کتاب پوسٹ کرتے وقت اس پر خاص پرائیویٹ برائے عثمان ڈار کیوں نہیں لکھا؟اس جرم کی سزا یہ ہے کہ بیوی (اپنی) اور ہم دفتر خواتین (اپنی)کو منانے کے لئے الگ الگ دیے جانے والے ڈنرز کا بل مبلغ چار ہزار دو سو پانچ روپے صرف (بیوی کی مد میں چارسو بیس روپے اور تین عدد کولیگ خواتین کی مد میں تین ہزار سات سو پچاسی روپے) اپنی پہلی فرصت میں آن لائن بینکنگ کے ذریعے ادا فرما دیں۔ عین نوازش ہو گی۔‘‘

 سکردو میں پونم کا فائنل میک اپ اس کے پبلشر جناب سجاد احمد سجاد کے گراں قدر مشوروں کا مرہونِ منت ہے جو مسودے کی نوک پلک سنوارنے کے لیے لاہور سے وہاڑی تشریف لاتے رہے اور سکردو میں پونم کی کرنوں کو نئی روشنی بخشی۔ سکردو میں پونم اس عنایت خسروانہ پر جناب سجاد صاحب کی تہہ دل سے ممنون ہے اور آداب بجا لاتی ہے۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ  سکردو میں پونم کو پرنٹنگ پریس کی رومانی زیادتیوں سے محفوظ رکھے اور یہ  نانگا پربت کے جھرنوں میں کی طرح اپنا نام بدلنے پر مجبور نہ ہو جائے۔

میں سکردو میں پونم کی تکمیل کے لیے سکردو کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں جس نے اپنی تہہ در تہہ شخصیت بے نقاب کر کے مجھے احساس دلایا کہ میں اتنے ہمہ جہت اور مہمان نواز شہر تک آنے میں تاخیر کر کے ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ہو چکا ہوں۔ اس تاخیر کے اہم اسباب میں میری کوتاہی اور لا علمی کے ساتھ ساتھ سکردو کے بارے میں اردو ادب کی تہی دامنی بھی شامل تھی۔پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر لکھے گئے سفرنامے سکردو سے آگے کی دشوار گزار وادیوں کو بہت دلکش انداز میں بیان کرتے ہیں ، خود سکردو کو زیادہ لفٹ نہیں کراتے اور اسے ایک قلعے اور ایک جھیل پر مشتمل ایسے شہر کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں جو مختلف منازل تک پہنچنے کے لئے ایک پڑاؤ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ سکردو پر قلم اٹھانے کا ایک مقصد یہ باور کرانا ہے کہ سکردو ایک خوبصورت راہگزر ہی نہیں ایک دلکش منزل ہے جہاں تفریحی چھٹیاں گزارنے کا سپنا دیکھنے میں کوئی برائی نہیں ، اس سپنے کی تعبیر کسی بھی تفریحی،  تاریخی، ثقافتی اور دیومالائی مقام پرفوقیت رکھتی ہے۔

سکردو میں پونم  اگر سکردو کا سطحی سا تعارف کرانے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے تو میرا ضمیر مطمئن رہے گا کہ میں نے سکردو کی مہمان نوازی کے حق کی پہلی قسط ادا کر دی ہے۔  دوسری قسط کا انتظار کیجیے گا۔ یار زندہ صحبت باقی

 

ڈاکٹر محمد اقبال ہما۔  ۲۵  اپریل  ۲۰۰۷؁

iqbalhuma@hotmail.com

٭٭٭

محبت سے آگے جہاں اور بھی ہیں

قراقرم کی برفانی دنیا کے چیف دیوتا کا فرزندِ ارجمند اور ولی عہد شہزادہ مقپون بہت پُر جوش تھا کیونکہ اُسے شاہی تخت رواں استعمال کرنے کی اجازت ملی تھی اور وہ اپنی ہمسایہ ریاست ’’شگری‘‘ کا تفریحی دورہ کر رہا تھا۔شگری کے راجہ کے محل پر سے گزرتے ہوئے وہ بے اختیار تخت رواں کے فل بریک لگانے پر مجبور ہو گیا۔

 محل کے اوپن ایئر حمام میں سلطنتِ شگری کی شہزادی مس شگری غسل فرما رہی تھی۔ شہزادے کا دلِ نادان اس حسنِ جہاں سوز کی تاب نہ لا سکا اور تالاب کے شفاف پانی میں بٹر فلائی سٹروک لگا کر تیرتی ہوئی شہزادی کے قدموں پر نثار ہو گیا۔ شہزادہ مقپون فوراً واپس گیا اور برفانی دنیا کے آٹھ ہزار سالہ مہا سنیاسی بابا سے سنگدل محبوب کو تسخیر کرنے کا عمل سیکھ کر مس شگری پر ڈورے ڈالنے میں کامیاب ہو گیا۔شہزادہ مقپون ظلمتِ شب میں چور دروازے سے محل میں داخل ہوتا، حسن کے خزانے سے نشاط کے موتی چنتا اور طلوعِ آفتاب سے قبل قراقرم کی بلندیوں کی طرف فرار ہو جاتا۔

طلوعِ آفتاب کے وقت دیوتا کے روپ میں واپس آنا اُس کی مجبوری تھی۔ دیوتائی آئین کی رُو سے اگر وہ طلوعِ آفتاب کے وقت انسانی بھیس میں ہوتا تو اس پر برفانی دنیا میں واپسی کے تمام دروازے بند ہو جاتے اور اسے اپنی بقیہ زندگی انسان بن کر گزارنی پڑتی۔ طلوع آفتاب سے آگاہ ہونے کے لئے شہزادہ مقپون نے مس شگری کے بیڈ روم میں کچھ ترمیمی آرڈیننس نافذ کیے:

۱۔ آسمان پر چمکنے والے ستاروں پر نظر رکھنے کے لیے بیڈ روم کی چھت میں ایک جھروکا بنا دیا۔

۲۔ دروازے کے تختوں کے درمیان درزیں کشادہ کر دیں تاکہ پو پھٹنے کا منظر باآسانی دیکھا جا سکے۔

۳۔خواب گاہ کی مشرقی دیوار میں روشن دان نصب کر دیا گیا تاکہ رخصت ہوتی ہوئی تاریکی پر نظر رکھی جا سکے۔

۴۔ آتشدان میں لکڑیوں کی مخصوص مقدار جلائی جاتی تھی اور آگ بجھنے کو اختتام شب کا نقیب سمجھا جاتا تھا۔

ایک شب عالم خر مستی میں محبت کے دیوتا نے اپنی دیوتائیت کا راز آشکار کر دیا۔ مس شگری نے اس فراڈ کو بہت مائنڈ کیا اور مجرمِ الفت کے لئے گھنیری زلفوں کے زندان میں عمر قید کی سزا تجویز کی۔ اس سزا پر عمل درآمد کرنے کے لئے دیوتائی آرڈیننس میں چند ایسی محبوبائی ترامیم کی گئیں کہ مقپون سورج طلوع ہونے کا ادراک نہ کر سکا۔ وقت معین پر ولی عہدِ سلطنت برفانی دنیا میں واپس نہ پہنچا تو وہاں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا گیا۔ مقپون کے دوست دیوتا اور گرل فرینڈ دیویاں اس کی تلاش میں نکلے اور شگری پہنچے تو یہ دیکھ کر ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ مقپون ابھی تک انسانی روپ میں محبت سے آگے کے جہانوں کی سیر کر رہا تھا۔انہوں نے مقپون کی دیوتائیت پر فاتحہ پڑھی، اس کی انسانی زندگی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور اسے مس شگری کی سازشی ترامیم سے آگاہ کرنے کے لیے شینا زبان کا لوک گیت شیر شاہ علی شاہ کمپوز کیا:

لو  واٹو  مقپون  لو  واٹو  سارپیلو لا برق مقپون  شو  بی  شو  بی

سورج طلوع ہوا، مقپون سورج طلوع ہوا۔ تم انسان بن گئے اب خوش رہو

 سورج کی روشنی کے راستے میں چھلنی رکھ دی۔ تم انسان بن گئے اب خوش رہو

آتش دان میں لکڑی کی جگہ گھونگے رکھ دیے۔ تم انسان بن گئے اب خوش رہو

 دروازے پر نمدہ ڈال دیا برق مقپون۔ تم انسان بن گئے اب خوش رہو

  مقپون کی آنکھیں کھلیں تو شگری کی چڑیا دیوتائیت کے کھیت چگ چکی تھی۔اس نے صورت حال کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہوئے محبوبی تعلقات کو سیاسی تعلقات کے درجے پر فائز کیا اور شگری سے شادی کر کے حکومتِ شگری کے تخت پر جلوہ افروز ہو گیا۔ یہ مجنوں مزاج دیوتا انسان بن کر مقپون ابراہیم کہلایا اور انتہائی بیدار مغز اور دلیر حکمران ثابت ہوا۔اس نے ہنزہ، نگر، اور گلگت کو تسخیر کر کے سلطنت شگری میں شامل کیا اور عظیم مقپون سلطنت کی بنیاد رکھی جس کا موجودہ نام  بلتستان ہے۔

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کی کور ذوقی کا؟ جو اس رومانی داستان کی بنیادوں پر قائم کردہ سلطنت کے دیدار کی خواہش نہیں رکھتا۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو انتظامی لحاظ سے تین حصوں۔ گلگت، دیامیر اور بلتستان میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بلتستان روایتی طور پر پانچ وادیوں سکردو، شگر، خپلو، کھرمنگ اور روندو پر مشتمل سمجھا جاتا ہے۔ بلتستان جانے کے لئے راولپنڈی سے جگلوٹ تک کا سفر دنیا کے آٹھویں عجوبے یعنی شاہراہِ قراقرم پر کیا جاتا ہے۔جگلوٹ سے چند کلومیٹر آگے سکردو روڈ شاہراہِ قراقرم سے جدا ہوتی ہے اور وادیِ روندو سے گزر کر سکردو پہنچتی ہے۔ سکردو  بلتستان کا دارالحکومت ہے۔ آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلند دنیا کی چودہ چوٹیوں میں سے چار وادیِ شگر میں واقع ہیں۔ہر سال کئی غیر ملکی ٹیمیں ان چوٹیوں کو سر کرنے پاکستان آتی ہیں۔ہزاروں غیر ملکی اور مقامی کوہ نورد کے۔ٹو بیس کیمپ ٹریک اور کئی دوسرے خوبصورت ٹریک طے کرنے کے لیے وادیِ شگر اور خپلو میں داخل ہوتے ہیں۔

سکردو ان وادیوں میں داخلے کا دروازہ ہے اور سیزن کے دنوں میں ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ میں دو مرتبہ سکردو جانے کے لئے سفر کر چکا تھا لیکن قسمت کی خامی دیکھیے کہ دو چار ہاتھ لبِ بام رہ گیا تو کمند ٹوٹ گئی۔۔  ۲۰۰۰؁ کے گلگت، ہنزہ ٹور میں سکردو یاترا کا پروگرام سرِ فہرست تھا۔ہم نے رات کو سکردو کے لیے ویگن بک کروائی۔ ڈرائیور نے صبح صادق کے وقت ہوٹل کے گیٹ کے سامنے پہنچ جانے کا وعدہ کیا۔ہم صبح کاذب کے وقت تیار ہو گئے۔ آفتاب طلوع ہو گیا اور ڈرائیور کی صبح صادق نہ ہوئی تو ہم اس کی تلاش میں ویگن اڈے پہنچے اور ڈرائیور کو ویگن کی پچھلی سیٹ پر دراز ہو کر خراٹے نشر کرتے ہوئے پایا۔

ہم نے غصّے سے اس کو جگایا، اس نے اٹھ کر واویلا مچایا

سکردو روڈ پر سلائیڈنگ ہوئی ہے، آنے جانے کے قابل نہیں ہے

سکردو روڈ بلاک ہو چکی تھی۔ ہم نے دو دن سڑک کھلنے کا انتظار کیا، پھر واپس آ گئے۔

اس ناکامی کے پانچ سال بعد، ۲۰۰۵ء میں نانگا پربت بیس کیمپ ٹریک کا اختتامی آئٹم سکردو تھا جو طاہر کا موڈ تبدیل ہونے کی وجہ سے فنا فی النار ہو گیا اور۔ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے جہاں اطلاع ملی کہ ہمارے ہسپتال کا کیمسٹ شاہد چوہدری سکردو میں ’’ہفت روزہ‘‘ لگا آیا ہے۔ اُس نے سکردو کی اتنی دل کش تصویر کشی کی کہ میں نے  ۲۰۰۶ء کے لیے سکردو کا پروگرام فائنل کر لیا۔ طاہر اور عمر کے علاوہ طاہر کے ایک فیصل آبادی دوست نے رفاقت کا وعدہ کیا۔

روانگی سے دو دن پہلے طاہر کا فون آیا: ’’بھائی جان ایک چھوٹا سا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔‘‘

 ’’کیسا مسئلہ؟‘‘

 ’’ فیصل آباد کے سٹیٹ بینک کی کیشیر اور استقبالیہ کلرک حاملہ ہو گئی ہیں۔‘‘

طاہر میرے سامنے ہوتا تو میں اسے ایک شاندار جھانپڑ رسید کرتا۔ پاکستان کے تمام سٹیٹ بنک ہر سال حاملہ ہو کر کمر توڑ مہنگائی جیسی اولاد کو جنم دیتے ہیں اور یہ ہونہار بروا سارا سال اپنے چکنے چکنے پاتوں سے غریب عوام کے سینے پر مونگ دلتا رہتا ہے۔کیشیر اور استقبالیہ کلرک جیسی معمولی کارکنوں کے حمل کی اطلاع سے مجھے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی ؟

 ’’آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے؟ سٹیٹ بینک کی کیشیر اور استقبالیہ کلرک کے حمل سے میرا کیا تعلق؟ آپ نے کوئی غلطی کی ہے تو خود بھگتیں۔میں اس قسم کے الٹے سیدھے معاملات میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ ‘‘ میں نے کہا۔

 ’’شر انگیزی سے باز رہیں ، اور بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ ‘‘ طاہر نے جھلّا کر کہا۔

 ’’کیسے سمجھوں ؟۔۔  میں جنرل سرجن ہوں۔ ماہر حملیات نہیں ہوں۔ ‘‘

 ’’میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میرے دوست کا تعلق سٹیٹ بینک سے ہے۔ ‘‘

 ’’بالکل نہیں بتایا۔۔ اور نہ یہ بتایا کہ وہ مبتلائے حمل ہو سکتا ہے۔‘‘

 ’’اوہ۔۔ آئی ایم سوری۔ اس کی کولیگ خواتین نے رخصت برائے زچگی اپلائی کی ہے۔ زچگی ملتوی یا منسوخ نہیں کیا جا سکتی۔ اس لیے میرے دوست کی چھٹی ملتوی کر دی گئی۔‘‘

 ’’ رخصت برائے زچگی کئی ہفتے کی ہوتی ہیں۔ ہمارے پروگرام کا کیا ہو گا؟‘‘

 ’’منیجر نے وعدہ کیا ہے کہ دو ہفتے بعد چھٹیاں مل جائیں گی کیونکہ ایک دو ملازم جو رخصت پر تھے واپس آ جائیں گے۔‘‘

 ’’آپ چاہتے ہیں کہ پروگرام ملتوی کر دیا جائے؟‘‘ میں نے تصدیق چاہی۔

 ’’اگر کوئی حرج نہ ہو تو!‘‘ طاہر نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔

 ’’مجھے اپنی چھٹیاں منسوخ کروانا پڑیں گی۔ لیکن خیر۔۔ اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔‘‘

تین دن بعد طاہر کا فون دوبارہ آیا۔

 ’’ ڈاکٹر صاحب۔۔  میرے دوست کو ڈراپ سمجھیں۔‘‘

 ’’کیوں ؟سٹیٹ بینک کی کوئی اور خاتون حاملہ ہو گئی ہے؟‘‘

 ’’ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔‘‘

 ’’محبت تک خیر ہے۔یہ محبت سے آگے والے جہاں کے مسائل ہیں۔‘‘

 ’’اسے کوئی گھر یلو پرابلم ہے۔ اُس نے انتہائی شرمندگی سے معذرت کی ہے۔‘‘

 ’’حمل سے بڑا گھریلو پرابلم کیا ہو سکتا ہے؟لیکن خیر!۔ اب کیا پروگرام ہے؟‘‘

 ’’اب میں ، آپ اور عمر چلیں گے۔۔  انشاء اللہ۔‘‘

 ’’چھٹیاں ملتوی نہ ہوتیں تو جلد نکل چلتے، اب انتیس جولائی ہی کو روانہ ہوں گے۔‘‘

 ’’اللہ حافظ۔‘‘

روانگی سے تین دن پہلے عمر نے بتایا کہ اس کا جانا بھی مشکل ہے کیونکہ اس کے والد صاحب بیمار ہو گئے ہیں۔

 ’’دو چار دن کی بات ہے تو انتظار کیا جا سکتا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’مشکل ہے۔انہیں لاہور لے جا رہے ہیں ، شاید دل کا بائی پاس آپریشن ہو۔‘‘

عمر کے ڈراپ ہونے کے بعد میرا ارادہ بھی ڈانواں ڈول ہونے لگا تھا لیکن شاہد نے ہمت بندھائی:

 ’’ آپ لوگ سکردو پہنچیں تو سہی! محسن شاہ اور اُن کے ساتھی آؤٹنگ کے بہت شوقین ہیں اور بے چینی سے آپ کے منتظر ہیں۔آپ کو ساتھیوں کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر اللہ تعالیٰ نے انتہائی فیّاضی سے فطرت کے لازوال حسن کے انمول خزانے نچھاور کر دیے ہیں اور اس بیش بہا نعمت کی شکر گزاری کے لیے پاکستان کے ہر شہری پر واجب ہے کہ وہ ان علاقوں کی زیارت کے لیے ہر سال نہ سہی۔  عمر میں ایک مرتبہ سفر ضرور کرے۔ہمارے لئے تو محسن شاہ اور ان کے ساتھی بے چینی سے منتظر تھے۔ پھر سکردو یاترا سے دامن بچا کر نا شکری کا الزام کیوں اٹھاتے؟

میں اور ڈاکٹر طاہر حسین شاہد اکتیس جولائی کو براستہ فیصل آباد اور راولپنڈی عازمِ سکردو ہوئے۔ گوجرہ کے قریب ایک حادثے سے بچنے کی کوشش میں ڈرائیور نے اچانک زوردار بریک لگائے۔بس میں بیٹھے ہوئے تمام مسافر الٹ پلٹ ہو گئے اور طاہر کا گھٹنا اگلی سیٹ سے ٹکرا کر اچھا خاصا زخمی ہو گیا۔ طاہر کبھی کبھی شیا ٹیکا میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ چوٹ مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ثابت ہوئی اور وہ فیصل آباد کے بس سٹاپ پر اُترا تو اُس کے لیے سیدھا کھڑا ہونا دوبھر ہو رہا تھا۔

 ’’اب کیا کریں ؟‘‘ میں نے پریشانی سے کہا۔

 ’’کرنا کیا ہے؟میں واپس وہاڑی چلا جاتا ہوں۔ آپ سکردو جائیں۔‘‘ اُس نے نارمل لہجے میں کہا۔ایب نارمل حالات میں نارمل رہنا ہی طاہر کی ایب نارمل عادت تھی۔

 ’’میں اکیلا؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’آپ نے پہلے کبھی اکیلے سفر نہیں کیا؟ ‘‘ طاہر نے اور زیادہ حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’سکردو کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔۔ اور آپ کا کیا ہو گا؟‘‘ میں نے استفسار کیا۔

 ’’صرف گھٹنے کی چوٹ کا معاملہ ہوتا تو اور بات تھی، لیکن میری ٹانگ سُن ہو رہی ہے اور میرا خیال ہے کہ شدید جھٹکے کی وجہ سے ڈسک ہل گئی ہے۔ یہ شک ایم۔آر۔آئی سے دور ہو سکتا ہے اور فیصل آباد میں یہ سہولت موجود ہے تو دیر کیوں کی جائے؟میں کل ایم۔آر۔آئی کروانے کے بعد واپس جاؤں گا۔‘‘

 ’’اس صورت میں بہتر ہو گا کہ فی الحال ہم دونوں ڈاکٹر مقبول کے پاس چلیں۔ میں آپ کی ایم۔آر۔آئی ہونے کے بعد ہی سکردو جاؤں گا۔‘‘

 ’’سوچ لیں۔مقبول اصرار کرے گا کہ دو چار روز فیصل آباد میں قیام کریں۔ ایم۔آر۔آئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ آپ کا ٹھہرنا ضروری ہو۔ آپ سفر جاری رکھیں ، ایک مرتبہ تسلسل ٹوٹ گیا تو کئی دن ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘

ہم بحث میں مصروف تھے کہ کسی نے شانے پر ہاتھ رکھ کر مجھے متوجّہ کیا۔

 ’’السلامُ علیکم جناب ڈاکٹر صاحب۔‘‘

 ’’وعلیکم السّلام۔۔ آپ کہاں ؟‘‘ میں نے حیرانی سے  پوچھا۔

وہ عرفان تھا۔

 ’’بہت خوب۔۔  کمال کر دیا آپ نے۔ وہ کیا فرما یا ہے چچا غالب نے۔ مجھے یاد نہیں آ رہا، کوئی سادگی سے فوت ہو جانے والی بات ہے؟‘‘ عرفان نے ہنستے ہوئے کہا۔

 ’’اس سادگی پہ مر نہ جائے کون اے خُدا‘‘

 ’’جزاک اللہ بمع سبحان اللہ!آپ میرے شہر میں آ کر مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ میں کہاں ؟ اصولاً یہ سوال مجھے پوچھنا چاہیے۔‘‘

 ’’میں ؟۔ میں ذرا سکردو تک جا رہا ہوں۔‘‘ میں نے گڑبڑاتے ہوئے کہا۔

 ’’ذرا سکردو تک؟رکشا رکواؤں آپ کے لیے؟‘‘ اُس نے لُطف لیتے ہوئے کہا۔

 ’’یار اتنے باؤنسر نہ مارو، طاہر زخمی ہو گیا ہے اس  لیے میں تھوڑا سا کنفیوژ ہوں۔‘‘

 ’’کون طاہر؟‘‘ اس نے پوچھا۔

میں نے دونوں کا تعارف کرایا۔

عرفان فیصل آباد ڈیویلپمنٹ ا تھارٹی میں انجینئر ہے۔اُس کے پاؤں میں غیر معمولی  چکّر ہے اور وہ خود بھی بہت زیادہ گھوما ہوا ہے۔تین چار کوہ پیما ٹیموں کے ساتھ رابطہ آفیسر کے طور پر جا چکا ہے اور راک کلائمبنگ کے علاوہ کچھ اور الٹے سیدھے تربیتی کورس کر چکا ہے۔ اُسے میرے تذبذب کا علم ہوا تو وہ پُر اسرار انداز میں مسکرایا۔

 ’’آپ اکیلے سکردو جاتے ہوئے گھبرا رہے ہیں ؟‘‘ اُس نے ہمدردی سے پوچھا۔

میں نے غیر ارادی طور پر اثبات میں گردن ہلا دی۔

 ’’ذرا سکردو تک تو جانا ہے۔۔  ڈر لگ رہا ہو تو میں چھوڑ آؤں آپ کو؟‘‘

 ’’آپ ؟۔۔ آپ اس وقت یہاں کیوں پائے جاتے ہیں ؟‘‘ میں نے مشکوک انداز میں عرفان کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔

 ’’ایک مہمان کو خدا حافظ کہنے آیا تھا۔‘‘ اُس نے سادگی سے کہا۔

 ’’ہر گز نہیں ، آپ کا انداز اور حلیہ بتا رہا ہے کہ آپ کسی مہم پر نکلے ہیں۔ یہ تو ظاہر ہو گیا کہ آپ سکردو سے آگے جا رہے ہیں۔ مگر کہاں ؟‘‘ میں نے تجسس سے پوچھا۔

عرفان کی بلوری آنکھوں میں شرارت ناچتی رہی اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں کچھ دیر اُس کا جائزہ لیتا رہا، پھر پُر اعتماد لہجے میں پوچھا۔ ’’آپ سنو لیک جا رہے ہیں یا کنکارڈیا؟‘‘

ایک ثانیے کے لئے عرفان کے چہرے پر شدید حیرت نظر آئی پھر اس نے جاپانی انداز میں جھک کر اور سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا:

 ’’ غونڈو غورو۔ ‘‘

 ’’اکیلے؟‘‘ میں نے حیرت زدہ کے ساتھ ساتھ دہشت زدہ ہوتے ہوئے پوچھا۔

 ’’میں آگے جا کر انتظامات کروں گا۔میرے ساتھی ایک دو دن بعد آئیں گے۔‘‘

درّہ غونڈو غورو وادیِ شگر کو وادیِ خپلو کی ذیلی وادی ’’ہوشے ‘‘ سے ملاتا ہے۔غونڈو غورو لا (GONDOGORO  LA)  دنیا کا مشکل ترین اور منفرد ترین ٹریک ہے۔ اس ٹریک کو کنکارڈیا اور کے ٹو بیس کیمپ ٹریک کی ’’کثافت اضافی‘‘ سمجھنا چاہیے۔ سکردو سے آگے وادیِ شگر کے مقامات اسکولی، کوروفون، باردومل اور پئی یو پہنچنے کے لئے دریائے برالدو کے کنارے کنارے سفر کرنا پڑتا ہے، اور یہ کنارہ کیا ہے؟ ایک پتھریلی عمودی گہرائی ہے جہاں پھسلنے کی گنجایش نشتا۔

 پئی یو سے آگے بالتورو گلیشیئر پر سفر کر کے اردوکاس، للی گو اور گورے ہوتے ہوئے بالتورو کی جائے پیدائش یعنی کنکارڈیا پہنچتے ہیں۔ کنکارڈیا ایک برفانی چوراہا بلکہ پنج راہا ہے جہاں گاڈوِن آسٹن، ابروزی، گیشربرم،  وِگنے اور یرماننڈو نامی گلیشیرز ایک دوسرے میں مدغم ہو کر بالتورو گلیشیر کو جنم دیتے ہیں۔ کنکارڈیا کو پہاڑوں کے دیوتا کا دربارِ خاص کہا جاتا ہے کیونکہ اس دربار میں دنیا کے کئی معزز ترین پہاڑ دست بستہ صف آرا ہیں اور یہاں سے آپ چار (کے۔ٹو، گیشربرم اوّل، براڈ پیک، گیشربرم دوم) ایسی چوٹیوں کا دیدار کر سکتے ہیں جن کی بلندی آٹھ ہزار میٹر سے زائد ہے۔ دنیا کا کوئی اور مقام یہ منفرد منظر آپ کی خدمت میں پیش نہیں کرتا۔

کنکارڈیا کے شمال میں چند گھنٹے کی مسافت پر براڈپیک بیس کیمپ اور کے۔ٹو بیس کیمپ ہیں۔غونڈو غورو جانے کے لئے کنکارڈیا سے دائیں جانب یعنی جنوبی سمت ٹرن لے کر علی کیمپ پہنچتے ہیں۔علی کیمپ سے غونڈو غورو کے لئے آدھی رات کو برفانی سمندر کا خطرناک سفر شروع ہوتا ہے۔ اس سفر میں موت اور زندگی کے درمیان ایک قدم کا فاصلہ ہے۔ آپ کے پاس دو آپشن ہیں ، ڈگمگالیں ، یا زندہ رہ لیں۔ٹریکر اگر آپشن نمبر ایک کا انتخاب نہ کرے تو طلوع آفتاب کے وقت سطح سمندر سے ساڑھے پانچ ہزار میٹر بلن ددرّہ ’’غونڈو غورو ‘‘ پر کھڑا سوچ رہا ہوتا ہے:

یہ کہاں پہ آ گئے ہم یونہی ہر قدم سنبھلتے؟

غونڈوغورو سے نظر آنے والے منظر کو سیارے کا خوبصورت ترین منظر ہونے کا شرف حاصل ہے۔غونڈو غورو کے اُس پار ایک کلومیٹر گہری خطرناک اُترائی اور اس اُترائی کے بعد وادیِ ہوشے ہے۔ ہوشے تا سکردو براستہ خپلو ایک ذیلی ٹریک اور دیدہ زیب مناظر سے بھرپور سفر ہے۔

 ’’ آپ کا تنہا سفر کرنے والا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔عرفان صاحب کی رفاقت سے فائدہ نہ اٹھانا پرلے درجے کی حماقت ہو گی۔اب آپ فٹا فٹ پنڈی کے لیے ٹکٹ خریدیں۔‘‘ طاہر نے کہا۔

 ’’ آپ کا مسئلہ جوں کا توں قائم ہے۔‘‘ میں نے اعتراض کیا۔

 ’’ میں کسی قیمت پر اتنے طویل سفر کا خطرہ مول نہیں لے سکتا کیونکہ اس سے ورٹیبرل ڈسک مزید ڈسٹرب ہو سکتی ہے۔ میں ڈاکٹر مقبول کے پاس جا رہا ہوں۔ ایم۔ آر۔ آئی کروانے کے بعد واپس چلا جاؤں گا۔آپ واپس آ کر رپورٹ دیکھ لیں ، پھر فیصلہ کر لیں گے کہ کیا کرنا ہے۔‘‘

میں حیران تھا کہ طاہر اتنا سعادت مند کیسے ہو گیا؟ یہ نانگا پربت بیس کیمپ ٹریک والا طاہر ہرگز نہیں تھا۔دماغی چوٹ کے نتیجے میں شخصیت بدل جانا عام بات ہے، گھٹنے کو صدمہ پہنچنے کے نتیجے میں فطرت بدلنا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ہو سکتا ہے طاہر کے دماغ کا کوئی خانہ ٹخنے سے شفٹ ہو کر گھٹنے میں قیام پذیر ہو چکا ہو!

٭٭٭

ہم غلامی کے مجدد ہم اطاعت کے امام

میں اور عرفان صبح نو بجے راولپنڈی کے پیرو دھائی بس سٹینڈ پر واقع ناردرن ایریا ٹرانسپورٹ کارپوریشن (ناٹکو) کے بکنگ آفس پہنچ گئے۔ناٹکو کے بکنگ کاؤنٹر پر اس مرتبہ حیرت انگیز اور خوشگوار تبدیلی نظر آئی۔گزشتہ سال کے گنجے اور نک چڑھے ’’صاب ‘‘ کی جگہ ’’صاحبائیں ‘‘ جلوہ افروز تھیں اور ’’سن صاحباں سن ‘‘ کی پکار پر توجہ بھی دے رہی تھیں۔ ویٹنگ روم کی جانب سے آنے والی مشتاق اور گستاخ نظریں ان کی من مو ہنی مسکراہٹ، اندازِ  دلربائی اور ہیوی ڈیوٹی میک اپ میں الجھ کر چہرے کے خدوخال کا جائزہ لینے سے باز رہتی تھیں۔ ’’سکردو ٹائم ‘‘ دوپہر تین بجے اور شام چھ بجے روانہ ہونے والے تھے۔ہمارا خیال تھا کہ ہم قبل از وقت پہنچ گئے ہیں اس لیے آگے سیٹیں حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی۔ایں خیال است و محال است و جنوں کے مصداق ہم یہ جان کر حیران رہ گئے کہ دونوں ’’ٹائمز‘‘ کی اگلی سیٹیں پیشگی بک ہو چکی تھیں اور صرف عقبی نشستیں خالی تھیں۔

عرفان اپنے ٹریک کے انتظامات کے سلسلے میں کچھ شاپنگ کرنا چاہتا تھا اور میں اُس کے دم چھلے کی حیثیت سے اس کا ساتھ دینے پر مجبور تھا۔ ہم نے آٹھ سو روپے فی کس کے حساب سے ٹکٹ خریدے اور مسکراہٹوں پر نثار ہونے کے مشغلے میں کھانے کا وقفہ کر کے ’’ چاند گاڑی‘‘  میں سوار ہو گئے جس نے ہمیں راجہ بازار پہنچا دیا۔ عرفان نے ٹنڈ فوڈ(Tinned Food ) اور سپرنگ والا ترازو خریدا،  سکردو پہنچ کر اُسے یہ خریداری غیر ضروری لگی کیونکہ قیمت میں معمولی سے فرق کے ساتھ دونوں آئٹم سکردو میں دستیاب تھے۔

ہم نے راجہ بازار کے ایک ہوٹل میں لنچ کیا اور ڈیڑھ بجے بس سٹاپ پر واپس پہنچ گئے۔

میں نے پچھلے سال کے تجربے کو یاد کرتے ہوئے عرفان کو مشورہ دیا کہ وہ کاؤنٹر پر جا کر معلومات حاصل کرے، ممکن ہے پیشگی بکنگ کرانے والا کوئی مسافر غیر حاضر ہو اور ہمیں آگے سیٹیں مل جائیں۔

 ’’سکردو والی کے پاس آپ خود جائیں۔‘‘ اس نے بے رخی سے جواب دیا۔

سکردو اور گلگت کے لئے بکنگ کاؤنٹر علیٰحدہ علیٰحدہ تھے۔

 ’’کیا مطلب ؟۔۔  ٹکٹ تو آپ نے خریدے تھے۔‘‘ میں نے اعتراض کیا۔

 ’’میں فی الحال گلگت والی کے ساتھ مشغول ہوں۔‘‘ اس نے بہانہ کیا۔

 ’’جی۔۔ ای۔۔ ای۔۔  یہ اتنی دور بیٹھ کر آپ کس مشغولیت میں مبتلا ہیں ؟‘‘

 ’’بس ذرا۔۔  اشارے بازی چل رہی ہے۔‘‘ اس نے لا پرواہی سے کہا۔

 ’’کوئی پرانی شناسائی ؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

 ’’جی نہیں۔  پہلی نظر  ٭ ستان روائ بک ککتشکیل: اعجاز عبید کی

ہے۔‘‘ اس نے کاؤنٹر پر نظر جما کر کہا۔

 ’’سفر شروع کرتے وقت دعائیں پڑھنی چاہئیں۔پرائی بہو بیٹیوں پر پہلی نظر جما کر بیٹھ جانا آداب سفر کے خلاف ہے۔‘‘ میں نے ناصحانہ انداز میں کہا۔

 ’’عشق پر زور نہیں ، ہے یہ وہ آتش غالب۔‘‘ عرفان گنگنایا

 ’’عشق؟۔۔ ‘‘ میں چونکا۔ ’’عرفان صاحب کیوں عشق کی مٹی پلید کر رہے ہیں ؟ ہم چند منٹ بعد سکردو روانہ ہو جائیں گے۔یہ مِنی عشق کہاں دھکے کھاتا پھرے گا؟‘‘

 ’’جناب والا کے دماغ کا ماڈل کچھ زیادہ پرانا لگتا ہے۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مِنی شِنی کا دور بیت چکا ہے۔۔  یہ مائیکروکا دور ہے۔ ‘‘

 ’’ عشق کتنا بھی مائیکرو ہو منٹوں میں قید نہیں ہو سکتا۔‘‘ میں نے اعتراض کیا۔

 ’’کیوں نہیں ہو سکتا؟۔۔ آج کل ایک منٹ میں کئی عشق پایۂ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔آپ نے کبھی انٹرنیٹ پر چیٹ نہیں کی؟‘‘ اس نے کاؤنٹر سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔

 ’’میں اب تک اس منفرد تجربے سے محروم ہوں ، لیکن اتنے مائیکرو عشق کا فائدہ؟‘‘

 ’’ عشق فائدے اور نقصان سے بے نیاز ہے۔‘‘ اس نے بے نیازی سے جواب دیا۔

 میں سمجھ گیا کہ وہ میری ٹانگ کھینچنے کے چکر میں ہے۔میں سکردو والی کے پاس گیا اور فرمائش کی کہ گنجایش ہو تو ہماری سیٹوں کے نمبر تبدیل کر کے ہمیں آگے والی سیٹیں عنایت فرمائی جائیں۔ اس نے بلا حیل و حجت میرے ہاتھ سے ٹکٹ پکڑے اور سیٹوں کے نمبر تبدیل کر دیے۔  اور ہم کھڑے کھڑے۔۔ قلم کی اداؤں کا۔۔ کمال دیکھتے رہے۔

پس ثابت ہوا کہ اداؤں میں جان ہو تو۔۔ ناچ اٹھتا ہے قلم۔

 عرفان نے تسلیم کیا کہ اسے سیٹیں تبدیل ہو نے کی کوئی امید نہیں تھی اور اس نے اپنی ’’بے عزتی‘‘ خراب ہونے کے خوف سے گلگت والی کے ساتھ مشغولیت کا بہانہ کیا تھا۔

 ساڑھے تین بجے ہماری بس راولپنڈی کے پیرو دھائی بس سٹینڈ سے روانہ ہوئی۔ پشاور روڈ پر ٹیکسلا پہنچ کر ہم حویلیاں کے لیے مڑ ے جہاں سے سرکاری طور پر شاہراہ قراقرم کا آغاز ہوتا ہے۔حویلیاں تا کاشغر تقریباً بارہ سو کلومیٹر لمبی شاہراہ قراقرم کا شمار عجائباتِ عالم میں کیا جاتا ہے اور اس پر سفر کرنا بجائے خود ایک دلچسپ اور سنسنی خیز تجربہ ہے۔

ڈاکٹر طاہر حسین شاہد ہری پور سے چھتر پلین تک کی سڑک کو ’’ شاہراہِ آدابِ غلامی‘‘  کہتا ہے اور میں طاہر سے پوری طرح متفق ہوں۔ہری پور نامی شہر اور قلعہ نام نہاد شیرِ پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے تنولی اور جدون قبائل کے باغی اور نافرمان مسلمانوں پر قابو پانے کے لئے فوجی چھاؤنی کے طور پر بسایا تھا اور یہاں کے آبائی حکمرانوں کی ٹھیک ٹھاک دھلائی کی تھی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہری سنگھ نلوہ کے اسلام شکن کارناموں کے اعتراف میں اسے کشمیر میں اپنے نام کا سکہ جاری کرنے کی فراخدلانہ اجازت مرحمت فرمائی تھی۔تاریخِ عالم میں ایسی مثالیں نایاب ہیں جب کسی ’’غیر راجہ‘‘ نے اپنے نام کا سکہ جاری کیا ہو۔ سکھ مؤرخین ہری سنگھ نلوہ کو نپولین ثانی کہتے ہیں اور اُنھیں فخر ہے کہ تخت ہزارہ، پشاور اور افغانستان کی مسلمان مائیں آج بھی ایسے بچوں کو جنم دیتی ہیں جو ’’ہریا آیا‘‘ سنتے ہی دم سادھ لیتے ہیں۔

ایبٹ آباد کا سنگ بنیاد برِّ صغیر کی تاریخ کے تا حیات فرنگی فرماں رواؤں کی طرف سے ضلع ہزارہ کے پہلے ڈپٹی کمشنر جیمز ایبٹ ’’صاحب بہادر‘‘ نے رکھا اور سرکش باغیوں پر قابو پاکر برطانوی تسلّط کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔

مانسہرہ کشمیر کے سکھ گورنر مان سنگھ۔۔ یا مہیان سنگھ۔۔ یا فتح سنگھ مان نے مسلمانوں کا مان توڑ کر رنجیت سنگھ کے سہرے کی لڑیوں میں پرونے کے لئے بسایا۔

چھتر پلین کی بنیاد مہا راجہ رنجیت سنگھ کے جرنیل چھتر سنگھ نے یہاں کے باشندوں کی چھترول کر کے اچھی طرح پلین کرنے کی غرض سے رکھی اور کامیابی کے ڈنکے بجاتا ہوا رخصت ہوا۔بقول چوہدری رشید کمبوہ۔ چھتر سنگھ کے چھتر کے خوف سے چھتر پلین کے باسی سر کے بال یاتو ٹوپی میں چھپائے رکھتے ہیں۔ یا ٹنڈ کرا لیتے ہیں۔

 میں شاہراہِ آدابِ  غلامی پر سفر کرتے ہوئے ان سکھا شاہی اسمائے مبارکہ سے کسی قسم کی گستاخانہ چھیڑ چھاڑ نہ کر کے آدابِ غلامی بہ حسن و خوبی بجا لانے کی روش پر خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔

قائم رکھیں گے سدا ساغر یہ پستی کے نشاں

ہم غلامی کے مجدد ہم اطاعت کے امام

مگر یاد رکھیے، ہم زندہ قوم ہیں ، پائندہ قوم ہیں۔ ہم سب کی ہے پہچان۔ پاکستان پاکستان۔

ڈرائیور نے اعلان کیا کہ مانسہرہ ڈنر سٹاپ ہے۔

 ’’ابھی سے کھانا؟‘‘ عرفان نے احتجاج کیا۔ ’’ صرف اڑھائی گھنٹے پہلے کھانا کھایا ہے۔ اتنی جلدی کھانے کی کیا تک ہے ؟کھانا بشام پہنچ کر کھائیں گے۔‘‘

 ’’ بشام کا سٹاپ غیر یقینی ہے۔عشا کے بعد اکیلی گاڑی کو شاہراہ قراقرم پر سفر کرنے کی اجازت نہیں۔ بشام میں آٹھ دس گاڑیاں اکٹھی ہو جائیں تو کارواں تشکیل دے کر آگے کا سفر شروع کیا جاتا ہے۔ ہم بشام پہنچے اور کوئی کارواں تیار ہوا تو کھانا کھانے کے بجائے کارواں میں شامل ہونے کو ترجیح دی جائے گی، پھر صبح تک کارواں کے ساتھ رہنا ہو گا اور اپنی مرضی سے سٹاپ کی کوئی گنجایش نہیں ہو گی۔‘‘

 ’’ فی الحال بھوک نہیں ہے۔‘‘ عرفان نے کہا۔

 ’’آپ کی مرضی ہے۔جو لوگ کھانا چاہتے ہیں وہ کھا لیں۔‘‘

کچھ لوگ کھانا کھانے لگے ہم نے پیپسی پر اکتفا کیا۔

مانسہر ہ سے آگے شاہراہ قراقرم پر  ۲۰۰۵ء میں آنے والے زلزلے سے ہونے والی تباہی کے ہولناک مناظر بکھرے ہوئے ہیں۔ تباہ شدہ عمارتیں اور خیمہ بستیاں ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے لیے جنرل پرویز مشرف سے بہتر راوی کون ہو سکتا ہے؟ ’’اِن دی لائن آف فائر‘‘ کے مطابق اس زلزلے نے تیس ہزار مربع کلومیٹر علاقے میں تباہی مچائی۔پینتیس لاکھ افراد بے گھر، تہتر ہزار افراد ہلاک اور دو لاکھ افراد شدید زخمی ہوئے۔ پانچ لاکھ عمارتیں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔

زلزلے کے بعد پیش گوئی کی گئی تھی کہ خیمہ بستیوں میں پھوٹنے والی وبائیں لاتعداد انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ معیشت  کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوں گی۔ پاکستان کے عوام، دوست ممالک کے عوام، دوست ممالک کی حکومتوں ، دہشت گرد مذہبی تنظیموں اور ’’منافق‘‘ این۔ جی۔ اوزکی بے لوث، ان تھک اور مخلصانہ جدّوجہد نے اس متوقع تباہی کا راستہ روک کر تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش اور سنہری باب رقم کیا۔ حکومت اور افواج پاکستان کی خدمات قابلِ داد ہیں کہ انہوں نے اس پورے عمل کی نگرانی کی۔

بٹ گرام اس تباہی کے متاثرین میں سرِ فہرست تھا۔ اس کا اندازہ اس شہر سے گزرتے ہوئے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔

تھاکوٹ میں دریائے سندھ پر بنائے گئے پاک چین دوستی کا خوبصورت اور زندہ جاوید شاہکار ’’ یو یی پل‘‘ ( دوستی کا پل)  عبور کر کے ہم سوات کے ضلع شانگلہ میں داخل ہوئے اور گیارہ بجے بشام پہنچے۔ بشام میں کسی کارواں کے آثار نہیں تھے اس لیے کھانا کھانے کا موقع مل گیا۔رات بارہ بجے کے قریب نو بسوں پر مشتمل کارواں تشکیل دیا گیا اور پولیس گارد کے سائے تلے سفر شروع ہوا۔ بشام سے آگے قدرت کے چٹانی عجائب گھر کی حدود کا آغاز ہوتا ہے لیکن رات کی تاریکی میں اس کے درشن ممکن نہیں تھے۔ ہمارا سفر کچھ سوتے کچھ جاگتے گزرا۔ پٹن اور دسو جیسے اہم مقامات منہ چھپا کر گزر گئے۔

دن کی روشنی پھیلی توہم صوبہ سرحد کے ضلع کوہستان اور شمالی علاقہ جات کے دیامیر ریجن کی سرحدی چیک پوسٹ پر پہنچ چکے تھے۔ شاہراہ قراقرم کو وادیِ تنگیر اور وادیِ داریل سے ملانے والا پل ہماری بائیں جانب تھا۔یہ وادیاں فی الحال اسرار کی دھند میں لپٹی ہوئی ہیں اور کوہ نوردوں کی زد سے محفوظ ہیں۔ یہاں کے باشندوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ انتہائی اکھڑ مزاج اور تند خو ہونے کے ساتھ ساتھ راہ زنی اور قتل و غارت گری کو قابلِ فخر پیشۂ آبا اور مردانگی کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ صرف افواہیں ہیں ، حقیقت کا پتا اسی وقت چل سکتا ہے جب کوئی سر پھرا وادیِ تنگیر اور داریل میں تفصیلی کوہ نوردی کی ہمت کرے۔

پولیس چیک پوسٹ پر پچھلے سال کی طرح ’’زپ کھول سامان پھرول‘‘ قسم کی تلاشی کا پاکھنڈ نہیں پھیلا گیا۔ صرف غیر ملکیوں کی رجسٹریشن کی گئی۔ فجر کی اذان کے بعد کارواں کی کاروائی ترک کر دی گئی اور رسمی تلاشی کے بعد ہر بس آگے روانہ ہوتی رہی۔

ناشتے کے لیے چلاس میں ناٹکو کے سب آفس سے ملحقہ ریستوران کا انتخاب کیا گیا جہاں ٹھنڈی، کالی اور بد ذائقہ چائے کے ساتھ صورتِ فولاد قسم کی خودی رکھنے والے سلائس پیش کیے گئے۔ سب نے عجلت میں ناشتہ کیا تاکہ سفر جلد شروع ہو سکے۔ انتظار کے لمحات طویل ہو گئے اور روانگی کے آثار نظر نہ آئے تو تشویش ہوئی۔ چند لوگ ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی تلاش میں ریستوران کی عمارت سے باہر نکلے اور جلد ہی حواس باختہ انداز میں واپس آ گئے۔

 ’’راستہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہے۔ ‘‘ ایک شخص نے لرزتی ہوئی آواز میں مطلع کیا۔ ’’رات بارہ بجے کے بعد چلاس پہنچنے والی سب گاڑیاں یہیں کھڑی ہیں۔ ‘‘

ہم دونوں باہر آئے تو خبر کی تصدیق کے ساتھ یہ انکشاف ہوا کہ لینڈ سلائیڈ ذرا معزز قسم کی ہے جس نے ادھر ادھر گرنے پڑنے کو کسرِ شان سمجھتے ہوئے بتوگاہ نالے کے پل پر نشست سنبھال لی ہے۔ اسے اس باغیانہ حرکت کی سزا دینے اور پل بدر کرنے کے لیے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن رات کی تاریکی میں آپریشن شروع کر چکی ہے جو پتا نہیں کب اختتام کو پہنچے؟

 ’’روڈ بلاک کی وجہ سے رک گئے ہیں تو ڈھنگ سے ناشتہ کر لیں۔میں تو چائے تک نہیں پی سکا۔‘‘ عرفان نے تجویز پیش کی۔

 ’’گڈ آئیڈیا، میرے پیچھے پیچھے آئیں۔‘‘ میں نے کہا۔

میں عرفان کو ماؤنٹین ایکو ہوٹل لے آیا۔ ہم نے فیری میڈوز جاتے ہوئے ماؤنٹین ایکو میں قیام کیا تھا اور ہوٹل کے منیجر فضل داد سے وعدہ کیا تھا کہ موقع ملا تو آئندہ بھی ماؤنٹین ایکو ہی میں قیام کریں گے۔ فضل داد لان میں ٹہل رہا تھا، ہمیں دیکھتے ہی تیزی سے لپکا۔

 ’’السلام علیکم۔‘‘ اس نے گرمجوشی سے مصافحہ اور معانقہ کیا۔ ’’ہم کو بہت خوشی ہے کہ آپ نے اپنا وعدہ یاد رکھا۔آپ ٹھیک ٹھاک ہیں ناں ؟‘‘

 ’’اللہ کا شکر ہے فضل داد خان، لیکن میں سخت حیران ہوں کہ آپ نے مجھے اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے پہچان لیا۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ میں سخت حیران تھا۔

 ’’ہم مہمان کو بھولتا نہیں ہے۔آپ کا کدھر کا پروگرام ہے؟‘‘

 ’’اس مرتبہ ہم آپ کے وطن جا رہے ہیں۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’آپ سکردو جا رہا ہے؟ادھر نہیں ٹھہرے گا؟‘‘

 ’’نہیں فضل داد خان۔۔ ہم روڈ بلاک کی وجہ سے رکے ہیں۔آپ سے ملنے اور ناشتا کرنے حاضر ہوئے ہیں۔آپ کے ہوٹل کا کھانا ہمیں اب تک یاد ہے۔‘‘

 ’’یہ بھی آپ کا مہربانی ہے۔آپ ادھر بیٹھو ہم ابھی ناشتہ بنواتا ہے۔اس مرتبہ آپ کا ساتھی بدل گیا ہے؟‘‘

میں نے فضل داد اور عرفان کا تعارف کروایا۔

ماؤنٹین ایکو نے اپنا معیار برقرار رکھا۔ تہہ دار گرما گرم پراٹھے، آملیٹ اور خوش ذائقہ چائے نے عرفان کو تعریف کرنے پر مجبور کر دیا۔

 ’’بہت بہت شکریہ، ناشتا واقعی مزیدار تھا۔‘‘ اس نے فضل داد سے کہا۔

 ’’شکریہ تو آپ کا سر، آپ نے ایک سال بعد بھی ہم کو یاد رکھا۔‘‘

 ’’فضل داد صاحب کے دادا حضور کے ساتھ پریاں آنکھ مچولی کھیلتی تھیں اور ایک پری ان کے دادا سے شادی کی خواہش مند تھی۔‘‘ میں نے عرفان کو بتایا۔

 ’’اچھا؟مذاق تو نہیں کر رہے؟‘‘ عرفان نے حیران ہو کر کہا۔

 ’’جی نہیں ، فضل داد صاحب نے یہ انکشاف پچھلے سال کیا تھا۔‘‘

 ’’آپ نے اس وقت یقین نہیں کیا تھا ناں۔ابھی آپ سکردو جا رہا ہے تو ہمارے گھر بھی جاؤ۔ادھر آپ جس سے مرضی پوچھو، وہ آپ کو بتائے گا کہ فضل داد کے دادا کے باغ میں کتنا پری لوگ آتا تھا۔ پھر آپ اس بات کو مذاق نہیں سمجھے گا۔‘‘

 ’’فضل داد صاحب ایسی کوئی بات نہیں ، مجھے آپ کی بات پر پورا یقین ہے۔ آپ کا گھر سکردو میں کس جگہ ہے؟‘‘ میں نے سنجیدگی سے کہا۔

 ’’سٹیلائٹ ٹاؤن میں جس کو ہمارا نام بولو گے وہ آپ کو ہمارے گھر پہنچائے گا۔ آپ ادھر ضرور جاؤ، آپ بولو تو ہم اپنے بھائی کو فون پر اطلاع دے دے؟‘‘

 ’’اس کی ضرورت نہیں۔ وقت ملا تو ضرور جائیں گے اور آپ کا حوالہ دے دیں گے۔‘‘

 ’’ضرور جاؤ سر، آپ کا بڑا مہربانی، اور ہمارا نام سن کر بھی ہمارا بھائی آپ کا خاطر تواضع نہ کرے تو واپسی پر ہم کو بولو۔۔ ہم اس کی۔۔۔‘‘

اس نے بھائی کے ساتھ جو کچھ کرنے کا عزم کیا وہ حدود آرڈیننس کے زمرے میں آتا تھا۔یہ اس کے بھائی کی بد قسمتی تھی کہ سکردو میں حدود آرڈیننس نافذ نہیں تھا۔

 ’’روڈ بلاک کے بارے میں کوئی اطلاع ہے؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’ابی کھل جائے گا۔۔ اب زیادہ دیر نئی لگے گا۔‘‘ فضل داد کے بجائے ناشتہ پیش کرنے والے بیرے نے جواب دیا۔

 ’’آپ کو کیسے علم ہوا؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’ابی چھوٹا موٹا گاڑی آنا شروع ہو گیا اے۔۔  ایک سوزوکی والا بولتا تھا کہ بڑا گاڑی اور ٹرک بی سٹارٹ ہونے والا اے۔‘‘

یہ ایک دل خوش کن اطلاع تھی۔ہم فضل داد کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ کرتے رہے۔ تقریباً نصف گھنٹے بعد بسوں کے پریشر ہارن مسلسل بجنے کی کان پھاڑ دینے والی آوازیں سنائی دیں۔ہم نے فضل داد کو خدا حافظ کہا اور بس کی طرف دوڑے۔ مخالف سمت سے ایک ٹرک آ رہا تھا جس کا ڈرائیو انگلیوں سے وی کا نشان بنا کر راستہ کھلنے کی خوش خبری دے رہا تھا۔ بسوں کے ڈرائیور ہارن کے بٹن پر انگلی رکھ کر ہٹانا بھول گئے تھے۔بس سٹاپ پر افرا تفری کا عالم تھا کیونکہ بسیں رینگنے لگی تھیں اور مسافروں کو بسوں کی شناخت میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ ہماری بس بھی اپنی جگہ سے غائب تھی، بہ مشکل اسے تلاش کیا اور دوڑتے بھاگتے اس میں سوار ہوئے۔

 بس سٹاپ سے تقریباً ایک کلومیٹر آگے بتو گاہ نالے کے پل کے قریب پہنچ کر ہمیں ایک مرتبہ پھر رکنا پڑا۔ ایف۔ ڈبلیو۔ او کے بلڈوزرز نے ملبہ صاف کر کے پل کھول دیا تھا اور چند گاڑیاں گزر چکی تھیں لیکن لینڈ سلائیڈنگ کے گزشتہ سے پیوستہ کچھ سست الوجود گماشتے ابھی ابھی پل تک پہنچے تھے اور پل پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔ ایف۔ڈبلیو۔او کے جوان بیلچے سنبھالے ان سے نبرد آزما تھے انہوں نے بتایا کہ یہ  معمولی سی بغاوت ہے، چند منٹوں میں فرو کر دی جائے گی۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہم لوگ دوبارہ روانہ ہوئے اور دو گھنٹے بعد رائے کوٹ پل پر سے گزرے۔ گزشتہ سال فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ ٹریک کے لیے ہمارا گروپ یہاں اتر گیا تھا۔دائیں جانب جیل گاؤں تک جانے والا نام نہاد جیپ ٹریک شاہراہِ قراقرم سے جدا ہوتا ہے۔ رائے کوٹ پل سے جیل گاؤں تک جیپ کا سفر دنیا کا سب سے مہنگا سفر ہے۔ نو کلو میٹر فاصلے کے لیے جیپ کا کرایہ تین ہزار روپے ہے۔ ۲۰۰۶ء میں یہ پچیس سو روپے تھا اور عمر نے جیپ کا کرایہ بتایا تو چوہدری رشید نے بے ساختہ کہا تھا:

 ’’اوئے تو جیپ لین گیا سی کہ ہیلی کاپٹر و الے نال مک مکا کر آیا ایں ؟‘‘

جیل گاؤں سے آگے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ کے لئے ایک انتہائی خوبصورت پیدل ٹریک ہے۔ ’’نانگا پربت کے جھرنوں میں ‘‘ اسی ٹریک کی روداد ہے۔ ہمارا اگلا سٹاپ جگلوٹ تھا۔ جگلوٹ سے فوراً پہلے دائیں ہاتھ تھا لیچی کے مقام پر نانگا پربت ویو پوائنٹ ہے۔ موسم صاف تھا اور اس جلوہ گاہ پر نانگا پربت پوری شان و شوکت کے ساتھ رونق افروز تھا۔نانگا پربت یہاں سے اتنا ہی خوبصورت، اتنا ہی پر شکوہ اور اتنا ہی مکمل نظر آ رہا تھا جیسا فیری میڈوز سے دکھائی دیا تھا۔ اپنی ٹرانسپورٹ ہوتی تو میں چند منٹ رک کر اس منظر سے لطف اندوز ہوتا اور گزشتہ سال کی یادیں ذرا تازہ کر لیتا۔

جگلوٹ ایک با رونق قصبہ ہے۔ ڈرائیور نے چائے وغیرہ پینے کے لیے پندرہ منٹ کے سٹاپ کا اعلان کیا۔ ہم نے کولڈ ڈرنک لینے کا فیصلہ کیا۔ جس دکان سے پیپسی خریدی اس کے کاؤنٹر پر ایک عمر رسیدہ شخص بیٹھا تھا۔ عرفان نے پیپسی پیتے ہوئے اس سے پوچھا:

 ’’بابا جی جگلوٹ میں کوئی مشہور اور قابلِ دید جگہ ہے ؟‘‘

 ’’پورا کا پورا  جگلوٹ قابل دید جگہ ہے ناں۔‘‘ بزرگ نے جواب دیا۔

 ’’کیا مطلب؟ کس حوالے سے؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’ ہسٹری کے حوالے سے ناں۔‘‘

 ’’ کہاں کی ہسٹری؟ میں نے کسی ہسٹری میں جگلوٹ کا نام نہیں پڑھا۔ ‘‘ عرفان نے بے یقینی سے کہا۔

 ’’یہ تو ہمارا بدقسمتی ہے ناں۔ حکومت گلگت اور سکردو میں جنگ آزادی اور شہیدوں کا یادگار بنا تا ہے، جگلوٹ میں کچھ نہیں بنا تا۔‘‘

 ’’جگلوٹ میں کوئی جنگِ آزادی ہوئی تھی؟‘‘ عرفان نے حیرت سے پوچھا۔

 ’’جگلوٹ کی لڑائی کا اس پورے علاقے کی آزادی میں بہت بڑا حصہ ہے ناں۔ اس لڑائی میں ہم کامیاب نہ ہوتا توگلگت پر قبضہ بھی ختم ہو جاتا۔‘‘

 ’’ذرا تفصیل سے بتائیں ، ہم جنگِ جگلوٹ سے لا علم ہیں۔‘‘ عرفان نے کہا۔

 ’’ چھوڑو صاحب، یہ بہت لمبا بات ہے۔‘‘

 ’’کچھ تو بتائیں۔جب تک ہماری بس نہیں چلتی۔‘‘ میں نے اصرار کیا۔

 ’’یہ تو آپ جانتا ہو گا کہ پاکستان بنا تو گلگت اور سکردو کشمیر کے راجہ کے انڈر تھا۔‘‘

 ’’کچھ کچھ پتا ہے۔‘‘ میں نے بے یقینی سے کہا۔

 ’’کشمیر کے راجہ نے ہندوستان کے ساتھ ملنے کا اعلان کیا تو گلگت سکاؤٹ اور کشمیر کی فوج کے مسلمان سپاہیوں نے بغاوت اٹھایا اور گلگت کے گورنر کو قید کر کے آزادی کا اعلان کر دیا، مگر ان کو خطرہ تھا کہ کشمیر کا راجہ فوج بھیجے گا تو بہت مشکل پیدا ہو گا۔ ڈوگرہ فوج کے پاس نیا نیا ہتھیار تھا۔بس اسی ڈر کی وجہ سے جگلوٹ کی فوجی چھاؤنی کا بہت ویلیو بنا۔‘‘

 ’’ جگلوٹ میں فوجی چھاؤنی بھی ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

 ’’آپ فوجی چھاؤنی کے سامنے سے گزر کر یہاں آئے ہو۔‘‘

 ’’جگلوٹ کی اہمیت کیسے بنی؟‘‘

 ’’ جگلوٹ اور بونجی میں ڈوگرہ فوج کا بہت سارا سپاہی ہوتا تھا ناں۔ بونجی میں اس وقت بہت بڑا چھاؤنی تھا۔‘‘

 ’’بونجی؟۔ یہ کدھر ہے؟‘‘

 ’’اس دریا کے دوسری طرف بونجی ہے۔‘‘ بزرگ نے دریائے سندھ کی طرف اشارہ کیا۔ ’’بونجی سے استور۔ برزل پاس۔۔  اور پھرکشمیر تک ڈائریکٹ راستہ جاتا تھا۔ کشمیر کا فوج اس راستے سے بونجی اور پھر گلگت پہنچ سکتا تھا ناں ، اسی لیے گلگت سکاؤٹس نے چلاس سکاؤٹس کو پیغام بھیجا کہ جگلوٹ اور بونجی پر حملہ کر کے گولہ بارود کا گودام تباہ کر دو اور ڈوگرہ فوج کے سپاہیوں کو بھی ختم کرنے کی کوشش کرو۔‘‘

 ’’اللہ مافی۔‘‘ ہمارے پیچھے سے آواز آئی۔ہم نے بے ساختہ پیچھے مڑ کر دیکھا۔یہ ایک ننھا مُنّا طالب علم تھا جو نہ جانے کب ہمارے پیچھے آن کھڑا ہوا تھا اور بستہ گلے میں لٹکائے داستانِ جنگِ  جگلوٹ سن رہا تھا۔

 ’’ جنگ میں سکاوٹس کہاں سے آ گئے؟ کیا یہ جنگ سکول کے بچوں نے لڑی تھی؟‘‘ عرفان دوبارہ بزرگ کی طرف متوجہ ہوا۔

 ’’سکول کا بچہ لوگ؟ یہ میں نے کب بولا ہے صاحب؟‘‘ بابا جی نے حیرانی سے کہا۔

 ’’سکاؤٹ تو زیادہ تر سکول کے بچے ہی ہوتے ہیں۔میں بھی ہائی سکول کے زمانے میں سکاؤٹ رہا ہوں۔‘‘ عرفان نے کہا۔

 ’’آپ کی طرف ہو گا صاحب۔ گلگت سکاؤٹ اور چلاس سکاؤٹ ایسا فوج تھا جس میں صرف مقامی لوگ بھرتی ہوتا تھا۔یہ فوج گورا حکومت نے کھڑا کیا تھا مگر اس کو باقاعدہ آرمی نہیں بولتا تھا، اس واسطے کہ پنشن نہ دینا پڑے۔‘‘ بابا جی نے وضاحت کی۔

 ’’ پھر چلاس سکاؤٹس نے ڈوگرہ سپاہی ختم کیے؟‘‘ عرفان نے سوال کیا۔

 ’’چلاس سکاؤٹ نے بہت بڑا کام کیا۔ چھاؤنی میں گولہ بارود کا سٹور اڑایا۔ سارا ڈوگرہ سپاہی مار ا۔ دریائے استور کا رام گھاٹ پل اور اور دریائے سندھ کا پرتاب پل اڑایا۔ جگلوٹ اور بونجی کے درمیان دریائے سندھ میں فوجی کشتی چلتا تھا، ان کا بیڑہ غرق کیا۔ ‘‘

 ’’اللہ مافی۔‘‘ طالب علم نے اپنے مخصوص انداز میں نعرہ بلند کیا۔

 ’’یہ کون سے پل ہیں اور کہاں ہیں ؟‘‘ میں نے بابا جی سے پوچھا۔

 ’’یہ اب نہیں ہے۔۔ شاہراہ ریشم کی وجہ سے راستہ بدل گیا ہے۔ اس وقت گلگت جانے والا راستہ دریا کے اُس طرف تھا اور جگلوٹ سے گلگت جانے کے لیے دریائے سندھ پر بنا ہوا پرتاپ پل کراس کرنا پڑتا تھا جو تھوڑا آگے تھا۔‘‘ اس نے گلگت کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’اچھا؟پرانی گلگت روڈ دریا کے دوسری طرف تھی؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’میرا خیال ہے بونجی کے باشندے شاہراہ قراقرم بننے سے خوش نہیں ہوں گے۔۔ وہ شاہراہ سے دور ہو گئے ہیں۔‘‘

 ’’وہ ایسا روڈ کدھر تھا صاحب؟‘‘ وہ ہنسا۔ ’’وہ تو کچا راستہ تھا۔دریائے استور اوپر سے آتا ہے اور یہاں سے تھوڑا آگے دریائے سندھ میں ملتا ہے۔ بونجی سے گلگت جانے کے لئے دریائے استور پر رسّوں سے بنا ہوا رام گھاٹ پل کراس کرنا پڑتا تھا۔ بونجی اورجگلوٹ کے درمیان دریائے سندھ کو کراس کرنے کے لئے فوجی کشتی چلتا تھا۔بونجی سے کشتی پہ جگلوٹ اور پھر پرتاپ پل کراس کر کے گلگت۔۔  ڈوگرہ سپاہی زیادہ تر یہی راستہ استعمال کرتا تھا کیونکہ دریائے استور  کا رام گھاٹ پل بہت خطرناک تھا۔چلاس سکاؤٹ نے دونوں پل اور کشتی کا بیڑہ غرق کر کے کشمیر سے گلگت جانے کا سارا راستہ کاٹ دیا، پھر ڈوگرہ فوج ادھر کیسے آتا؟ بونجی اور استور  کا ڈوگرہ سپاہی بھی ڈر کر واپس بھاگ گیا تھا۔‘‘

 ’’ یہ بہت اہم واقعہ ہے۔۔  پاکستان کی فوج نے مدد نہیں کی؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’اس زمانے میں پاکستان کے پاس فوج کدھر تھا صاحب؟ گلگت اور سکردو کا لوگ اپنی طاقت سے آزاد ہو کر پاکستان کے ساتھ ملا۔ گلگت کا ایک رضاکار کراچی جا کر مسٹر جناح سے ملا اور مدد کے واسطے بولا تو اس نے جواب دیا کہ ہمارے پاس کروڑوں مسلمانوں اور لاکھوں ڈیڈ باڈی کا مسئلہ ہے۔ آپ کی کیا مدد کرے؟آپ لوگ اپنا مدد خود کرو اور اللہ سے مدد مانگو۔ ابھی میرے پاس صرف دعا ہے، وہ جتنا مرضی لے جاؤ۔‘‘

 ’’اللہ مافی۔‘‘ طالب علم نے ایک مرتبہ پھر نعرہ لگایا۔

 ’’ یہ سنی سنائی باتیں ہیں یا ان کا کوئی ثبوت بھی ہے؟‘‘ عرفان نے بابا جی سے پوچھا۔

 ’’تھوڑا سنا ہے ناں۔  تھوڑا دیکھا ہے اور بہت سا ہم پر گزرا ہے۔‘‘

 ’’گزرا ہے؟۔۔ کیا مطلب۔۔ آپ پر گزرا ہے؟‘‘ میں نے چونک کر کہا۔

 ’’ہاں ناں !ہمارا نام جمعدار غلام دستگیر خان ہے اور ہم سن اڑتالیس میں چلاس سکاؤٹ میں تھا۔پرتاپ پل اڑانے والوں میں ہم بھی شامل تھا ناں۔ہم نے کئی ڈوگرہ سپاہی کو جہنم میں پہنچایا تھا۔‘‘

 ’’اللہ مافی۔‘‘

اس مرتبہ عرفان نے تنبیہ آمیز نظروں سے طالب علم کو گھورا۔ اس نے خفگی کا جواب ایک معصوم مسکراہٹ سے دیا اور ہاتھ کے اشارے سے ٹاٹا کرتا ہوا بھاگ گیا۔

میں ایک لمحہ کے لیے بری طرح چکرا گیا۔میرا دل چاہا کہ غلام دستگیر خان کو سلیوٹ جھاڑ دوں۔ غلام دستگیر خان سچ بول رہا تھا تو۔ یونہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے۔ اور ہمارے سامنے بیٹھا ہوا ’’کوئی‘‘  بلتستان کی جنگ آزادی کی ایک عظیم شخصیت تھی۔

 ’’آپ کو حکومت کی طرف سے کوئی مدد یا انعام نہیں ملا؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’انعام افسر لوگ کو ملتا ہے، مگر چلاس سکاؤٹ کو فوج میں جگہ مل گیا تھا ناں۔ ‘‘  

 ’’اس کا مطلب ہے آپ کو پنشن ملتی ہو گی؟‘‘

 ’’ہاں ناں ، مہینے کا چھ سو روپے ملتا ہے ناں۔‘‘

 ’’کتنی؟۔۔ چھ سو؟‘‘ میں حیران ہوا۔

 ’’اوئے، اللہ ہم کو معاف کرے۔ چھ سو سے تھوڑا زیادہ ہے ناں ، ہم تین مہینے کا پنشن اکٹھا نکلواتا ہے تو دو ہزار روپیہ مل جاتا ہے۔‘‘

  یہ ایک اور ’’ جھٹکا‘‘ تھا۔اس نے اور اس کے ساتھیوں نے آزادی جیسی انمول نعمت بزورِ بازو مہاراجہ کشمیر کے خوں خوار جبڑے سے چھینی تھی اور بے مول حکومتِ  پاکستان کے حوالے کر دی تھی۔ اس نعمت کے راج سنگھاسن پر براجمان کارندے اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے عوض لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں اور کروڑوں روپے فضل ربی سے مستفید ہوتے ہیں۔ چلاس سکاؤٹس کا جمعدار غلام دستگیر خان چھ سو روپے ماہوار پنشن کا حقدار ٹھہرا تھا۔  شریکِ سفر لوگوں کو منزل کا نہ ملنا قانونِ فطرت تو نہیں بن گیا؟

 ’’آپ سکردو جا رہے ہو؟‘‘ ہمیں خاموش دیکھ کر اس نے پوچھا۔

 ’’جی ہاں۔‘‘ عرفان نے کہا۔

 ’’ تو ادھر سے جاؤ ناں۔‘‘ اس نے تجویز پیش کی۔

 ’’ادھر سے ہی جا رہے ہیں ، اور کیسے جائیں ؟‘‘ عرفان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’آپ ا دھر اترو، استور جاؤ، روپل جاؤ، راما لیک جاؤ۔ پھر چلم چوکی اور دیوسائی سے گزر کر سکردو پہنچو۔‘‘ اس نے سکردو کے لیے متبادل راستہ بتایا۔

 ’’فی الحال ہم سیدھے سکردو جائیں گے کیونکہ کے ٹو بیس  کیمپ کا ارادہ ہے۔ ‘‘

 ’’اچھا اچھا۔۔ پھرتو ٹھیک ہے۔۔ مگر آج کل اُدھر موسم بہت خراب ہے۔ ‘‘

 ’’آپ کو کیسے علم ہوا؟‘‘ عرفان نے چونک کر پوچھا۔

 ’’ ہما را پوتا کل اُدھر سے واپس آیا ہے ناں۔  وہ کسی ٹیم کے ساتھ گیا تھا۔‘‘

 بس کے ڈرائیور نے سیٹ پر بیٹھ پر ہارن بجانا شروع کیا تو ہم نے غلام دستگیر خان کو خدا حافظ کہا۔

جگلوٹ سے تھوڑا سا آگے وہ مقام ہے جہاں دریائے گلگت دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے اور اس سنگم کے زاویے میں دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش ہم آغوش ہوتے ہیں۔اس مقام پر ایک چاردیواری تعمیر کی گئی ہے جس کی دیوار پر معلوماتی نوٹ رقم کر دیا گیا ہے :

Junction Point of Three Mightiest Mountain Ranges

 ’’تین عظیم ترین پہاڑی سلسلوں کا مقام اتصال‘‘

یہ دنیا کا منفرد ترین مقام ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔اپنی ٹرانسپورٹ ہو تو چند منٹ کے لیے یہاں رکنا واجب سمجھنا چاہیے۔ یہ ایک اہم جغرافیائی مقام اور انتہائی دلکش پکچر پوائنٹ ہے۔

٭٭٭

ما ہی میریا روند نہ ماریں

دریائے گلگت اور دریائے سندھ کے سنگم سے تھوڑا آگے شاہراہ قراقرم دریائے سندھ سے بے وفائی کر کے دریائے گلگت کے ہمراہ گلگت، ہنزہ اور خنجراب کی طرف فرار ہو جاتی ہے۔ ہم نے اس ہرجائی شاہراہ سے ہرجائی کی اور دائیں ہاتھ مڑ کر دریائے گلگت پر بنا ہواعالم برج عبور کر کے سکردو روڈ پر آ گئے جو سکردو تک دریائے سندھ سے بغل گیر رہتی ہے۔ عالم برج کا نام شمالی علاقہ جات کے لیے پاکستان کے پہلے پولیٹکل ایجنٹ سردار محمد عالم سے منسوب ہے۔سنا ہے کہ اب اسے فرہاد پل کا نام دے دیا گیا ہے۔ڈرائیور نے یہاں چند منٹ کے لئے بس روکی تو ہمیں عالم برج سے چند قدم کے فاصلے پر موجود سکردو روڈ کی اس راک کارونگ کی زیارت کا موقع نصیب ہوا جو ’’کھروستی‘‘ رسم الخط کی ایک انسکرپشن کی وجہ سے عالمی شہرت حاصل کر چکی ہے۔ اس انسکرپشن (خطاطی کا نمونہ) میں پروفیسر فس مین (FUSSMAN ) نے ایک ’’دردا کنگ‘‘ یعنی درد قوم کے بادشاہ کا نام دریافت کر کے تاریخ کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے کیونکہ یہ دریافت گلگت کی مروّجہ تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ انسکرپشن عالمی ماہرین کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے اور بے شمار تحقیقی مقالہ جات کا موضوع بن کر تاریخ کے کئی پوشیدہ گوشے بے نقاب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

سکردو روڈ اپنے آغاز میں انتہائی معصوم اور بے ضرر نظر آتی ہے لیکن چند کلومیٹر بعد اس کا مزاج بدل جاتا ہے اور یہ قدم قدم پر اڑیل گھوڑے کی طرح الف ہونے لگتی ہے۔ شاہراہِ قراقرم کے بعد سکردو روڈ پر سفر کرنے والے خوفناک عیاشی سے لطف اندوز ہونے کے بعد دہشتناک ہولناکی کے پنجوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ دائیں جانب دنیا کی سب سے گہری گھاٹی کی تہہ میں دریائے سندھ اپنی پوری قہرمانی کے ساتھ ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ آپ ٹھاٹھیں مارنے کا مطلب درست طور پر سمجھنا چاہتے ہیں تو۔۔

 ’’سندھ کی محفل سجی ہے چلے آئیے‘‘

سکردو روڈ پر سفر کرنے سے پہلے میرے ذہن میں ’’ٹھاٹھیں مارنے‘‘ کا جو بھی تصوّر ہو، یہ نہیں تھا جو نظروں کے سامنے تھا۔ عالم برج سے سکردو تک لگ بھگ پونے دو سو کلومیٹر کے اس سفر میں کمزور دل حضرات تمام دعائیں اور خصوصاً آیت الکرسی کا ورد اتنی مرتبہ کر لیتے ہیں کہ جنم جنم کا کوٹہ پورا ہو جاتا ہے۔یہ سیاسی بیان نہیں آپ بیتی ہے جسے آپ بہ خوشی آزما سکتے ہیں۔جھوٹ ثابت کرنے والے کو  سفر خرچ واپس کر دیا جائے گا۔

عالم پل سے سکردو تک کا سفر وادیِ روندو میں ہوتا ہے۔

وادیِ روندو کسی زمانے میں خودمختار رہی ہے۔ اس وادی پر لونچھے خاندان کی حکومت تھی اور استک نامی قصبہ اس کا دارالحکومت تھا۔اس قصبے سے آنے والے تند و تیز استک نالے کے پل کے قریب ایک ریستوران پر ہم نے لنچ  بریک کیا۔ریستوران کا ’’اوپن ایئر ڈائننگ لان ‘‘ نالے کے بالکل کنارے پر ہے۔ ہم لان میں بیٹھے کھانے کا انتظار کر رہے تھے اور استک نالے کے پانی کے بے شمار چھینٹے ہمارے دامن سے چھیڑ چھاڑ کر کے بارش کا سماں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ نالا اتنا پر شور ہے کہ اس کے کنارے بیٹھ کر بات چیت کرنے کے لیے باقاعدہ چیخ چیخ کر بولنا پڑتا ہے۔لان میں ایستادہ خوبانی کے درختوں پر انگور کی بیلیں اس انداز میں چڑھائی گئی ہیں کہ لان پر انگور کی بیلوں کی چھت وجود میں آ گئی ہے۔ انگوروں کی بیلوں کی اس معلق چھت کے نیچے استک نالے کی منہ زور لہروں کی رم جھم رم جھم پڑے پھوار۔۔ اور آپ کر رہے ہوں لنچ۔

 فطرت اپنے زائرین کو خوش آمدید کہنے کے لیے اور کیا اہتمام کر سکتی ہے؟

استک کے بعد وادیِ روندو یا تحصیل روندو کے موجودہ صدر مقام روندو میں چائے سٹاپ ہوا۔روندو چھوٹا سا روایتی طرز کا گاؤں نما پہاڑی شہر ہے جو جدید تہذیب کے اثرات سے بڑی حد تک محفوظ ہے۔

 تاریخ نویسوں کو وادیِ روندو اور اس کے باشندوں سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں لکھے گئے شگر نامہ کے مطابق :

 ’’ یہ ملک قبر کی طرح تنگ ہے اور یہاں ڈھال برابر سطح زمین بھی ہموار نہیں۔اس کے باشندے چو پایوں کی طرح بے عقل ہیں جو بدکاری اور خواہش نفس کو مقصد زندگی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک علم و ہنر اور آداب و اخلاق کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔‘‘

برطانوی تذکرہ نویس  کننگھم ( cunningham) نے اپنی کتاب میں گوہر افشانی کی ہے کہ روند و دراصل بلتی زبان کا ’’رونگ دو‘‘ ہے۔ انگلش میں رونگ(wrong ) کا لفظی مطلب’ ’غلط‘‘ ہے۔اسے اتفاق سمجھنا چاہیے کہ بلتی زبان میں بھی ’’رونگ‘‘ کا مطلب دھوکے باز ہے۔ ’’دو‘‘ نشیبی جگہ یا وادی کو کہتے ہیں ، یعنی روندو کا درست تلفظ ’’ رونگدو‘‘ اور معنیٰ دھوکے بازوں کی وادی ہیں۔مجھے انگلش اور بلتی معانی پر تبصرہ کرنے کا کوئی حق نہیں ، پنجابی کے بارے میں ببانگِ  دہل کہہ سکتا ہوں کہ روندو کھیل میں بے ایمانی کرنے والے کو کہتے ہیں۔ آپ نے ملکۂ  ترنّم نورجہاں کی درد بھری فریاد ضرور سنی ہو گی :

 ’’ماہی میریا روند نہ ماریں میں دا لایا جند جان دا‘‘

 ’’میرے محبوب بے ایمانی نہ کرنا، میں نے محبت کی بازی میں زندگی داؤ پر لگا رکھی ہے۔‘‘

زمین کی حد تک شگر نامہ کی رائے سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ، باشندوں کی خصوصیات کی تصدیق کرنے میں جوتے پڑنے کا امکان تھا اس لیے میں نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی۔ واللہ اعلم با ا لصّواب۔

سکردو سے تقریباً تیس کلو میٹر پہلے  کچورہ اور شگر تھنگ جانے والی سڑک سکردو روڈ سے جدا ہوتی ہے۔لوئر کچورہ جھیل کے کنارے بریگیڈئیر اسلم کا شہرہ آفاق شنگریلا ریسورنٹ قائم کیا گیا ہے۔

گمبہ نامی قصبے کو سکردو میں داخلے کا دروازہ کہنا چاہیے۔یہ قصبہ ایک چھوٹے سے بازار پر مشتمل ہے۔سکردو آنے والی اور سکردو سے روانہ ہونے والی بسیں یہاں دس پندرہ منٹ قیام ضرور کرتی ہیں۔کیوں کرتی ہیں ؟ایک مرتبہ پھر واللہ اعلم با الصّواب۔

چھبیس گھنٹے کے طویل اور کمر توڑ گھٹنے جوڑ سفر کے بعد شام پانچ بجے ہم سکردو کے نئے بس اسٹینڈ پر اترے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگے کیونکہ یہاں نہ کوئی بس تھی،  نہ کوئی سٹینڈ۔ یہ ایک کھلا میدان تھا جس کے ایک کونے میں چائے کا کھوکھا نظر آ رہا تھا۔مقامی لوگ ڈرائیور سے جھگڑ رہے تھے اور بہ ضد تھے کہ اُنہیں شہر کے اندر لے جایا جائے۔ڈرائیور نے بزبانِ  خاموشی ٹریفک پولیس کے سپاہی کی طرف اشارہ کر دیا کہ سنتری بادشاہ کی اجازت ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔بادشاہ سلامت نے اجازت کے بجائے ٹکا سا جواب دیا اور انکشاف کیا کہ ایس۔پی صاحب نے دو دن پہلے بسوں کے شہر میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔وہ ایس۔ پی صاحب کی حکم عدولی کر کے بے تاج بادشاہت سے معزول ہونے کا خطرہ مفت لینے پر ہرگز تیار نہیں ، لہٰذا مسافر حضرات ٹیکسی ڈرائیور کی جیب گرم کریں اور شہر کو سدھاریں۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ایک سو بیس روپے کا مطالبہ کیا۔ہم نے بیس روپے رعایت پر اصرار کیا۔ ڈرائیور نے رازدارانہ لہجے میں انکشاف کیا کہ اس کا حصہ صرف اسی روپے ہے، چالیس روپے سنتری بادشاہ اور۔ وغیرہ وغیرہ کا کمیشن ہے جنہوں نے غریب ٹیکسی ڈرائیورز کی روزی کے اسباب پیدا کیے۔ اس مرتبہ بھی واللہ اعلم با الصواب۔

اس پابندی کا ایک فائدہ بھی ہوا، ہم پہلے دن بلکہ پہلے گھنٹے میں سکردو بازار سے متعارف ہو گئے۔سکردو کا مین بازار شرقاً غرباً پھیلا ہوا ہے۔اس کے مغربی سرے پر بس سٹینڈ اور مشرقی سرے پر پولو گراؤنڈ ہے۔پولو گراؤنڈ کے قریب مین بازار غیر محسوس انداز میں دائیں جانب مڑ کر چشمہ روڈ کہلانے لگتا ہے۔ہماری ٹیکسی سکردو بازار کراس کر کے ’’ کے۔ ٹو ٹریولز ہوٹل‘‘ پہنچی جو پولو گراؤنڈ کے قریب ہے۔ عرفان کے۔ٹو ٹریولز کے منیجر صابر صاحب کے لیے تعارفی خط لایا تھا۔خوش قسمتی سے وہ کاؤنٹر پر موجود تھے۔خط پڑھ کر انہوں نے عینک آنکھوں سے ہٹا کر ناک پر جمائی اور چند لمحے خالی خالی نظروں سے عرفان کو گھور نے کے بعد یوں گویا ہوئے:

 ’’جی بندہ پرور۔۔  آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘

 ’’مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔‘‘ عرفان کچھ گڑ بڑا گیا۔

 ’’میرا مطلب ہے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟‘‘ انہوں نے سنبھل کر کہا۔

 ’’جی۔۔  وہ ہم چند روز کے لیے سکردو میں قیام کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

 ’’ضرور ضرور۔۔ چشمِ ما روشن دلِ ما شاد۔۔ مگر اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘

 ’’پریشانی تو کوئی نہیں۔‘‘ وہ ایک مرتبہ پھر گڑبڑا گیا۔ ’’ہم چند روز کے لئے آپ کے ہوٹل میں کمرہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ریٹ کے سلسلے میں ذرا شفقت فرما دیں۔‘‘

 ’’ آپ کا مطلب ہے کہ آپ کے۔ٹو ٹریولز میں قیام پذیر ہونا چاہتے ہیں ؟‘‘

 ’’جی ہاں !۔۔ اگر آپ مناسب سمجھیں۔‘‘

 ’’یہاں تو قیام و طعام ممکن نہیں۔  مگر اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے ؟‘‘

 ’’سر پریشانی تو کوئی نہیں۔ ہم آپ کے ہوٹل کے محل وقوع کی وجہ سے یہاں ٹھہرنا چاہتے ہیں۔داور صاحب کا خیال تھا کہ آپ کا ہوٹل بہت اچھی جگہ پر ہے۔ آپ یہ رقعہ تو پڑھیں ، داور صاحب نے کہا تھا کہ آپ ان کے بہترین دوست ہیں۔ ‘‘

 ’’در ایں چہ شک؟ مگر کے۔ٹو ٹریولز فی الحال زیرِ مرمت ہے۔ اس لیے بندہ ناچیز دست بستہ طالبِ عفو ہے۔مگر اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟ ‘‘

 ’’جناب مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔آپ کا مطلب ہے کہ مرمت کی وجہ سے پورا ہوٹل بند ہے؟ ایک کمرہ بھی فارغ نہیں ؟‘‘ عرفان نے ذرا تیز لہجے میں پوچھا۔

 ’’ایک کمرہ کیوں حضور؟گزشتہ سال شیعہ سنی فساد کی آڑ میں حاسدانِ رو سیاہ نے ہوٹل کی عمارت نذرِ آتش کر دی تھی، تب سے پوری عمارت فارغ ہے۔ اب اس کی تعمیر نو کا قصد کیا ہے، مگر اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘ صابر صاحب معصومیت سے کہا۔

 ’’ مائی گاڈ۔۔ مجھے اس میں کوئی پریشانی نہیں۔ میری طرف سے یہ ہوٹل۔۔ ‘‘

اچانک عرفان کو احساس ہوا کہ وہ کیا کہنے لگا ہے اور کسے کہنے لگا ہے۔اس نے زبان کو بریک لگائی اور آتش زدہ ہوٹل کو جہنّم رسید کرنے کی خواہش پر بہ مشکل قابو پایا۔عرفان چند لمحے خفت زدہ انداز میں کھڑا رہا۔۔  پھر واپسی کا ارادہ کرتے ہوئے کہا:

 ’’ اوکے سر۔۔ بہت بہت شکریہ۔۔ ہم کوئی اور ہوٹل ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ‘‘

 ’’ارے۔۔ ارے۔۔  اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے ؟آپ خاطر جمع رکھیں اور تشریف بھی رکھیں۔‘‘ صابر صاحب نے عرفان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا، عینک دوبارہ آنکھوں پر جمائی اور ٹیلیفون پر کوئی نمبر پنچ کرنے لگے۔ عرفان سر پکڑ کر صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔

 ’’لیں جناب عالی !یہ ناچیز داور صاحب کے سامنے سرخ رو ہوا۔‘‘ انہوں نے ریسیور رکھ کر کہا۔ ’’میں نے آپ کے قدم رنجہ ہوتے ہی عرض کیا تھا کہ اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟ آپ گیشا برم ہوٹل کو رونق بخشیں اور کمرے میں جا کر استراحت فرمائیں۔‘‘

 ’’ کرایہ کتنا ہے کمرے کا؟‘‘ عرفان نے لٹھ مار انداز میں پوچھا۔

 ’’اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے ؟‘‘ صابر صاحب نے ایک زخمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’میرا مطلب ہے آپ کمال کرتے ہیں ! آپ کے لیے سپیشل ریٹ ہے۔ آپ صرف تین سو روپے فی نائٹ دیں اور اس ناچیز کے حق میں کلمہ ہائے خیر ادا فرمائیں۔ گیشابرم میں اس سے دُگنے کرائے پر بھی کمرے کا حصول ممکن نہیں۔‘‘

 ’’ سنگل بیڈ کا کرایہ کیا ہو گا؟‘‘

 ’’یہ ناچیز حیران و پریشان ہے کہ اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘ وہ قدرے جھلّا کر بولے۔ ’’ڈبل بیڈکا کرایہ تین سو روپے ہے تو سنگل کا ڈیڑھ سو کیوں نہیں ہو گا؟‘‘

 ’’ضرور ہو گا۔۔ بہت بہت شکریہ۔‘‘ عرفان نے قدرے اطمینان سے کہا۔

ان کا بتایا ہوا کرایہ ہماری توقع سے کم تھا۔

گیشر بروم ہوٹل سکردو کے کاروباری مرکز یادگار چوک کے نزدیک تھا اور اس میں صرف چند کمرے آباد تھے۔ کمروں کی حالت دیکھ کر اطمینان ہوا۔ اطمینان نصیب ہوتے ہی تھکاوٹ نے جسم کو مغلوب کر لیا اور ہم بستر پر دراز ہو کر خرّاٹے نشر کرنے لگے۔

   رات گیارہ بجے آنکھ کھلی تو بھوک کا احساس ہوا۔میں عرفان کو جگانے کا ارادہ کر رہا تھا کہ وہ خود ہی اُٹھ بیٹھا۔ہم نے ایک لمبا شاور لیا اور ڈائننگ ہال میں آ گئے۔کھانا بس گزارا تھا، شدید بھوک کے باوجود چند لقمے ہی لے سکے۔ کھانے کے بعد ہم ٹی وی لاؤنج میں آ بیٹھے اور چائے کا آرڈر دیا۔ چند منٹ بعد کاؤنٹر مین ہمارے پاس آ گیا۔

 ’’صاب کدر جائے گا۔۔ پوٹر شوٹر تو نہیں چاہیے؟‘‘ اس نے بے تکلفی سے پوچھا۔

 ’’  صاب غونڈو غورو جائے گا۔ پورٹر شوٹر تو چاہیے۔‘‘ عرفان نے جواب دیا۔

 ’’گونڈو گورو؟ ‘‘ اس نے حیرانی سے دوہرایا اور حیرت سے میر ی طرف دیکھا۔ ’’پہلے کبی ادر گیا اے؟‘‘

 ’’ ادھر کوئی دوبارہ بھی جاتا ہے؟ ‘‘ میں نے کہا۔

 ’’کیوں نئیں جاتا؟بوت سا لوگ جاتا اے۔۔ مگر آپ ؟۔‘‘ وہ کچھ خاموش ہو گیا۔

 ’’ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘ میں نے مذاق کیا۔

 ’’کوئی پرابلم نیٔں اے صاب۔۔ آپ ضرور جاؤ۔۔ اگر کوئی پوٹر چاہئے توام کو بو لو۔‘‘

 ’’ہم چاہتے ہیں کہ کل پورٹرز اور سامان کا بندوبست ہو جائے اور پرسوں ہم اسکولی روانہ ہو جائیں۔‘‘

 ’’ کل؟‘‘ وہ تھوڑا سا مسکرایا۔ ’’کل تو کچھ بی نئی ہو گا۔سارا کا سارا بازار بند ہو گا۔‘‘

 ’’بازار کیوں بند ہو گا؟ بازار جمعہ یا اتوار کو بند ہوتے ہیں ،  منگل کو بازار بند ہونے کی کیا تک ہے؟‘‘ عرفان نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’اتوار یا جمعے کا چکر نئی اے۔ کل حضرت امام صاب کا وفات کا دن اے ناں ، کل دکان کیسے کھلے گا؟‘‘

 ’’کون سے حضرت امام۔۔ ؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’کل حضرت امام حسن کی وفات کا دن اے ناں۔  ادر مکمل چھٹی اے۔‘‘

 ’’ سب دکانیں بند ہوں گی؟‘‘

 ’’دکان کون کھولے گا ؟سب لوگ ماتم کرے گا۔دور دور سے بوت سارا جلوس سکردو میں آئے گا اور بازار سے گزرے گا۔آپ لوگ تو سو گیا تھا ناں۔ ادر سکورٹی والا آیا تھا امارا ڈائننگ ہال لاک کرگیا اے تاکہ ادر سے جلوس کو خطرہ مطرہ نہ بنے۔‘‘

ہوٹل کے ڈائننگ ہال کا ایک دروازہ عقبی گیلری میں کھلتا تھا جہاں سے سکردو بازار کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ اس عقبی دروازے میں سیکیورٹی والوں نے تالا لگا دیا تھا۔

 ’’آپ کو کتنا پورٹر چاہیے؟‘‘

 ’’میر ا خیال ہے دس بارہ کافی ہوں گے۔‘‘ عرفان نے کہا۔

 ’’دس بارہ؟آپ کتنا آدمی ہے صاب؟‘‘ اُس نے حیرانی سے کہا۔

 ’’ہمارے باقی ساتھی ابھی آئیں گے۔ آپ بندوبست کر سکتے ہیں ؟‘‘

 ’’کیوں نئیں کر سکتا؟ آپ حکم کرو۔ ام بالکل ابی سب کو بلائے گا۔‘‘

 ’’پورٹر کا ریٹ کیا ہے؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’آپ گونڈو گورو جاؤ گے ناں ؟‘‘

 ’’ارادہ تو یہی ہے۔‘‘

 ’’ام نے کل گونڈو گورو کے لیے گروپ روانہ کیا اے۔پورٹر دس ہزار ڈیمانڈ کرتا تھا، ام نے ہر پورٹر کو آٹھ ہزار دیا اور فارغ کیا۔‘‘

 ’’آٹھ ہزار ؟وہ کس حساب سے؟ کتنی سٹیج بنتی ہیں ؟‘‘ عرفان نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’ اسکا فکر مت کرو، سٹیج کے حساب سے بی اتنا  بنتا اے۔ ‘‘ اس نے تسلّی دی۔

 ’’ پورٹر آٹھ ہزار لے رہا ہے تو کک اور گائیڈ تو بیس بیس ہزار مانگیں گے۔‘‘ عرفان سچی مچی پریشان ہو گیا۔

 ’’کک چھ سو روپیہ روز لے گا، اور گائیڈ آٹھ سو سے ہزار روپے روز تک لے گا۔‘‘

 ’’ٹھیک ہے میں ذرا پتا کر لوں۔ اگر ریٹ یہی ہیں تو غونڈو غورو اللہ حافظ۔ اتنی رقم تو ہم لائے ہی نہیں۔ ‘‘ عرفان نے کہا۔

 ’’گونڈو گورو کا پیسہ تو لگے گا صاب، بغیر پیسہ گونڈو گورو کیسے جائے گا؟‘‘

 ’’پیسے لگنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ مگر لٹنے نہیں چاہئیں۔ میں ڈی سی او آفس سے ریٹ لسٹ لے لوں ، سٹیج کے مطابق حساب کر لوں ، پھر دیکھوں گا۔‘‘

 ’’ضرور دیکھو صاب۔آج کل پورٹر شارٹ اے۔ سرکاری ریٹ پر کون جائے گا؟‘‘

یہ کہہ کر وہ ہمارے پاس سے اٹھ گیا۔

 ’’عرفان بھائی یہ ڈی سی او آفس کہاں سے آ گیا؟اور سٹیج کا کیا چکر ہے؟ کیا غونڈو غورو کے راستے پر سٹیج شو منعقد کیے جاتے ہیں ؟‘‘

عرفان ہنسنے لگا۔

 ’’سٹیج کا مطلب پڑاؤ ہے۔ اسکولی سے آگے کے۔ ٹو بیس کیمپ تک اور پھر غونڈو غورو اور ہوشے تک کے سفر کو حکومت نے مختلف سٹیجز میں تقسیم کر دیا ہے۔ ماضی میں پورٹرز کے معاوضوں پر بہت جھگڑا ہوتا تھا۔ اب ایک دن میں طے ہونے والا فاصلہ اور ریٹ دونوں فکس ہیں۔ ہر سال ڈی سی او آفس سے نئی ریٹ لسٹ جاری ہوتی ہے۔‘‘

 ’’یہ اتنا اہم ٹریک ہے ؟‘‘

 ’’غونڈو غورو لا کو دنیا کا خوبصورت ترین ٹریک کہا جاتا ہے اور ہزاروں غیرملکی کوہ نورد ہر سال ادھر کا رخ کرتے ہیں ، لیکن اصل مسئلہ ان ٹیموں کا ہے جو کوہ پیمائی کے لیے اس علاقے میں آتی ہیں۔ کے ٹو کے علاوہ گیشر  بروم اوّل اور دوم،  چوغو لیزا، لائیلہ پیک، گولڈن تھرون اور دوسری کئی چوٹیاں سر کرنے کے لیے آنے والی ٹیمیں اسی ٹریک پر سفر کرتی ہیں۔ ایک ٹیم بعض اوقات پانچ سو پورٹرز  ہائر کر لیتی ہے۔ یہ تمام انتظام ان کے لیے کیے جاتے ہیں۔‘‘

 ’’ آپ پورٹرز کا بندوبست کیسے کریں گے؟‘‘

 ’’میں اس کے لئے ریفرنس لایا ہوں۔سکردو میں آئی ایس آئی کے میجر عمر کے نام ایک رقعہ ہے اُنہوں نے مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘

 ’’کس کا رقعہ ہے؟‘‘

 ’’میرے ایک کزن کا ہے جو کرنل ہے۔‘‘

 ’’اُن سے رابطہ کیسے ہو گا۔‘‘

 ’’میرے پاس ان کے آفس کا فون نمبر ہے۔  صبح فون کروں گا۔‘‘

 ’’میں بھی محسن شاہ صاحب کو فون کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

 ’’آپ بھی صبح کریں۔ یہ کسی شریف آدمی کو ڈسٹرب کرنے کا وقت نہیں ہے۔‘‘

میں نے اس خیال سے اتفاق کیا اور سو گیا۔

صبح ناشتے کے بعد عرفان نے میجر عمر کو فون کیا۔

 ’’میجر عمر سے ملا دیں پلیز۔ ‘‘ رابطہ ملنے پر اس نے کہا۔

 ’’میجر صاحب نہیں ہیں۔ ‘‘ دوسری طرف سے درشت لہجے میں کہا گیا۔

 ’’ کہاں گئے ہیں ؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’آپ کو اس سے مطلب؟‘‘

 ’’میں ان سے ملنا چاہتا ہوں میرا نام عرفان ہے۔ ‘‘

 ’’اچھا۔۔  اچھا۔۔ وہ عرفان تو نہیں جسے کرنل صاحب نے بھیجا ہے؟‘‘

 ’’ کرنل صاحب میرے بھائی ہیں۔‘‘ عرفان نے رعب سے کہا۔

 ’’میجر صاحب خپلو گیا ہے مگر صوبیدار صاحب کی ڈیوٹی لگا گیا ہے اور آرڈر دے گیا ہے کہ آپ کو کوئی پرابلم نہیں ہونا چاہیے۔آپ کو کوئی پرابلم ہے تو بولو۔‘‘

 ’’ہمیں بے شمار پرابلم ہیں۔ ‘‘ عرفان نے سخت لہجے میں کہا۔

 ’’سر آپ اس وقت کہاں ہو؟‘‘

 ’’ یادگار چوک کے پاس گیشر بروم ہوٹل کے کمرہ نمبر ایک میں۔ ‘‘

 ’’ آپ ادھر ٹھہرو ہم ابھی صوبیدار کو بھیجتا ہے۔‘‘

میں نے محسن شاہ صاحب کو فون کیا اور تعارف کروایا تو انھوں نے کہا:

 ’’ڈاکٹر صاحب آپ کہاں ہیں ؟آپ کو کل یہاں پہنچ جانا چاہیے تھا۔ خیر تو ہے؟‘‘

 ’’جی اللہ کا شکر ہے۔مجھے راستے میں ایک دوست مل گیا تھا۔ہم گیشر  بروم ہوٹل میں ہیں۔رات کے وقت آپ کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔‘‘

 ’’ہم رات ایک بجے تک آپ کا انتظار کرتے رہے کیونکہ شاہد نے فون پر آپ کی روانگی کی اطلاع دے دی تھی۔ خیریہ بتائیں آپ ہوٹل میں کیوں ہیں ؟‘‘

 ’’ہوٹل میں کیوں ہوں ؟اور کہاں ہونا چاہیے؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’آپ کو آرمی پبلک سکول کے ہوسٹل میں ہونا چاہیے۔‘‘ انہوں نے سادگی سے کہا۔

 ’’میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں پھر ملاقات ہو گی۔۔ اپنے ہوسٹل کا پتہ بتائیں۔‘‘

 ’’ٹیکسی والے کو آرمی پبلک سکول کہیں گے تو وہ آپ کو سیدھا یہیں لے آئے گا۔ سکول کے بالکل ساتھ ہوسٹل ہے۔  اور ہاں ملاقاتی بن کر آنے کے بجائے اپنا بوریا بستر یہیں اُٹھا لائیں۔‘‘ شاہ صاحب نے ہدایات جاری کیں۔

 ’’محسن صاحب اس پیشکش کا بہت بہت شکریہ، لیکن زحمت کی ضرورت نہیں۔ گیشر  بروم ہر لحاظ سے مناسب ہوٹل ہے۔ آپ مجھے سکردو گھما دیں ، یہی بہت ہے۔‘‘

 ’’ آپ تشریف لائیں گے تو گھومیں گے ناں ؟آپ کا انداز اور الفاظ بتا رہے ہیں کہ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دس، اور ہوٹل کتنا بھی مناسب ہو ہمارے ہوسٹل کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔سامان ساتھ لانا ہرگز نہ بھولیں ورنہ ہمیں آ کر اُٹھانا پڑے گا۔ امید ہے آپ میزبان کو زحمت دینا پسند نہیں کریں گے۔‘‘

 ’’میں تھوڑی دیر تک پہنچ رہا ہوں ، پھر بقیہ پروگرام طے کر لیں گے۔‘‘

 ’’یو آر ویلکم۔۔ مگر بمع سامان۔۔ او۔کے؟۔۔  اینڈ اللہ حافظ۔‘‘

 ’’اللہ حافظ۔‘‘

 ’’کیا فرماتے ہیں محسن صاحب؟‘‘ میں نے ریسیور رکھا تو عرفان نے پوچھا۔

 ’’محسن صاحب کا فرمان ہے کہ سامان اُٹھا کر فوراً یہاں آ جاؤ۔‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب ایک دو دن میرے ساتھ رہیں اور ٹریک کا انتظام ہوتے ہوئے دیکھیں۔ میں تو کہتا ہوں چھوڑیں سکردو اور ہمارے ساتھ غونڈو غورو چلیں۔ سکردو میں کیا رکھا ہے؟‘‘

 ’’میں آپ کی طرح سمارٹ ہوتا اور میرے بال سفید نہ ہوتے تو میں ضرور چلتا،  اب آپ مذاق نہ فرمائیں تو بہتر ہے۔‘‘

 ’’ ٹریکنگ میچور لوگوں کا مشغلہ ہے اور وہاں سفید بالوں والے ہی جاتے ہیں۔  لیکن خیر۔۔  آپ فی الحال میرے ساتھ ہی رہیں۔ ‘‘

 ’’آپ کے صوبیدار صاحب آ جائیں پھر دیکھیں گے کیا پروگرام بنتا ہے۔‘‘

صوبیدار صاحب کی ابھی ڈیڑھ گھنٹے پر محیط ہو گئی تو عرفان پر جھلاہٹ طاری ہونے لگی۔ وہ دوبارہ فون کرنے والا تھا کہ صوبیدار صاحب تشریف لے آئے۔

 صوبیدار صاحب کی صرف داڑھی چھوٹی تھی۔۔ قد اور وزن بے حساب تھا۔

 ’’ سر! ہم میجر صاحب کی طرف سے آیا ہے ابھی بولو کیا خدمت کرے ؟‘‘

 ’’ہم کے۔ ٹو بیس کیمپ اور غونڈو غورو لا جانا چاہتے ہیں۔آپ بتائیں ہماری کیا مدد کر سکتے ہیں ؟‘‘

 ’’ہم؟۔۔ ہم کیا مدد کر سکتا ہے سر؟ہم تو خود ابھی تک کے ٹو پر نہیں چڑھا۔‘‘ صوبیدار صاحب نے بے چارگی سے کہا۔

 ’’ہم کے۔ ٹو پر چڑھنے کی بات نہیں کر رہے صرف بیس کیمپ تک جانا چاہتے ہیں۔ ‘‘

 ’’ ہم فوجی آدمی ہے سر، کے۔ ٹو کے رشتے داروں کو نہیں جانتا۔ ہمارے لئے جو حکم ہے صاف صاف بولو، انشا ء اللہ فوراً پورا کرے گا۔ ‘‘

 ’’ہمیں پورٹر چاہئیں۔  ایک اچھا کک چاہیے۔۔ اور ایک جیپ چاہیے۔ ‘‘

 ’’سر، فوج کا پورٹر سویلین کو نہیں دیا جا سکتا۔ فوجی کک بھی سویلین کو نہیں دیا جا سکتا۔ جلوس کی وجہ سے کوئی جیپ فارغ نہیں ہے۔ہمارے لائق کوئی اور خدمت سر؟‘‘ اس نے اٹینشن ہو کر کہا۔

 ’’ ہمیں فوج کا پورٹر نہیں پرائیویٹ پورٹر چاہئیں۔ ‘‘ عرفان نے جھلّا کر کہا۔

 ’’پرائیویٹ؟پرائیویٹ پورٹر کدھر سے ملے گا ؟‘‘ اس نے وضاحت چاہی۔

 ’’ یہ آپ ہم سے پوچھ رہے ہیں ؟‘‘ عرفان نے تلخ لہجے میں کہا۔

 ’’اور کس سے پوچھوں سر؟‘‘ اس نے فریاد کی۔

 ’’آپ میجر عمر سے ہماری بات کرا دیں۔ ‘‘ عرفان نے تنگ آ کر کہا۔

 ’’میجر صاحب ادھر نہیں ہیں سر!انہوں نے آپ کو ہمارے ہینڈ اوور کر دیا ہے۔ آپ حکم کرو،  آپ کا پرابلم حل کرنا ہمارا ڈیوٹی ہے۔‘‘ اس نے مشینی انداز میں کہا۔

 ’’ میں نے تمہیں بتایا ہے کہ ہمیں پورٹر وغیرہ چاہئیں۔‘‘

 ’’سر یہ بھی بتاؤ کہ یہ کدھر سے ملے گا ؟‘‘ اس مرتبہ اس کی آواز میں بھی سختی تھی۔

 ’’اگر ہمیں پتہ ہوتا تو سفارشیں کیوں ڈھونڈتے پھرتے ؟یہ تو کوئی ٹور ایجنسی والا ہی بتا سکتا ہے۔‘‘

 ’’تو ایسا بولو نا سر۔۔ ایڈونچر ٹور کا مالک ہمیں جانتا ہے۔ہم اس کو فون کرتا ہے۔ آپ ابھی ہم کو تھوڑا ٹائم دو۔‘‘

 صوبیدار کمرے سے باہر چلا گیا۔عرفان کے چہرے پر کسی حد تک بد دلی کے تاثرات تھے۔اسے میجر عمر کی طرف سے انتہائی گرم جوش استقبال کی توقع تھی اور وہ توقع کر رہا تھا کہ میجر عمر اس کے لئے آرمی ریسٹ ہاؤس میں قیام کا بندوبست کریں گے۔وہ اپنے محکمے میں کافی ’’وڈا‘‘ افسر تھا۔ اس لئے میجر کی جگہ صوبیدار کا پروٹوکول اسے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔

 ’’ مبارک صاحب بولتا ہے کہ ہم ان کے دفتر آ جائیں۔ آج پورا سکردو بند ہے مگر وہ ہمارے لئے دفتر آئے گا۔سر آپ ہمارے ساتھ چلو اور مبارک صاحب سے خود بات کرو۔ ‘‘  صوبیدار صاحب نے نازل ہوتے ہی فرمان جاری کیا۔

ہم نے پروگرام بنایا کہ عرفان صوبیدار صاحب کے ساتھ ایڈونچر ٹورز کے آفس جائے اور میں محسن شاہ صاحب سے ہیلو ہیلو کر آتا ہوں۔ ہم ہوٹل سے باہر آئے تو اندازہ ہوا کہ ٹیکسی ملنے کا کوئی امکان نہیں۔ سکردو میں آمدورفت کا واحد ذریعہ ٹیکسی ہے۔ رکشہ، ویگن یا تانگہ قسم کی سواری یہاں نہیں پائی جاتی۔ صوبیدار صاحب نے بتایا کہ آج شہر میں ٹیکسی کے داخلے پر پا بندی ہے کیونکہ آج سکردو کی سڑکوں پر ماتمی جلوس کا راج ہو گا۔ ایڈونچر ٹور کے آفس تک پیدل جانا پڑے گا۔

 ’’آرمی پبلک سکول کہاں ہے؟‘‘ میں نے صوبیدار سے پوچھا۔

 ’’وہ تھوڑا دور ہے۔۔ ایسے آپ کو سمجھ نہیں آئے گا۔۔ ابھی آپ ہمارے ساتھ ٹھہرو۔۔ وہاں سے فارغ ہو کر آپ کو آرمی سکول پہنچا دے گا۔‘‘

میں ٹھہر گیا۔۔ اور کیا کرتا؟

٭٭٭

اپنے پرکھوں کی وراثت کو سنبھالو ورنہ

یادگار چوک سے پولو گراؤنڈ تک سڑک بالکل سنسان تھی۔ چشمہ روڈ پر پہنچتے ہی ایک بہت بڑا جلوس راہ میں حائل ہو گیا۔جلوس کے بیش تر شرکاء سیاہ پوش تھے اور کھال ادھیڑ ماتم کر رہے تھے۔ لاؤڈ سپیکر پر مرثیے کی کیسٹ لگی تھی اور ’’یا علی یا حسن‘‘ کے نعروں کی گونج میں سینہ کوبی کی مخصوص آواز ایک خاص ردھم کے ساتھ دور دور تک گونج رہی تھی۔ جلوس بہت بڑا تھا۔ اس کے گزر جانے کے انتظار میں ہم راستے سے ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ پنجاب میں اس نوعیت کے ماتمی جلوس اب نظر نہیں آتے۔جلوس میں سو لوگ شامل ہوں تو تین سو پولیس والے اسے اپنے نرغے میں لیے ہوتے ہیں۔ یہاں پولیس کے چند سپاہی موجود تھے جو تماشائی کا کردار ادا کر رہے تھے۔ماتم اور ماتمی جلوس کے جواز پر اختلافات سے قطع نظر۔ یہ جلوس اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں کہ میدانِ کربلا کا ہیرو کون تھا؟

کتنی ہی قوت دکھائے لشکرِ ابن زیاد

جنگ پر سبقت مگر ابن علی لے جائے گا

ہزاروں لوگ ماتم کر رہے تھے۔ اس ماتم کی انفرادیت یہ تھی کہ لوگ اپنے سینے پر دو ہتڑ مارنے کے علاوہ اپنا چہرہ بھی پیٹ رہے تھے۔سینہ کوبی کے دوران ایک جگہ رکتے اور اپنا چہرہ اوپر اٹھا کر زور زور سے تھپڑ مارنا شروع کر دیتے۔ بعض لوگ زمین سے پتھر اٹھا کر اپنے چہرے یا سر پر مار رہے تھے۔ چہرہ پیٹنے والا آئٹم میرے لئے نیا تھا۔پنجاب کے ماتمی جلوسوں میں چہرہ ماتم کی دست و برد سے محفوظ رہتا ہے۔

 جلوس گزرنے کے بعد ہم آگے بڑھنے کا ارادہ کر رہے تھے کہ ایک اور جلوس نمودار ہوا،  پھر ایک اور۔  حد نظر تک انسانوں کا ہجوم تھا۔ ہم تقریباً دو گھنٹے ایک جگہ کھڑے رہے۔ جلوسوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو جلوس کے برابر سے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔جلوس کے شرکاء ہمیں خشمگیں نظروں سے گھورتے رہے اور ہم نظریں نیچی کیے آگے بڑھتے رہے۔ شام کو ہمیں علم ہوا کہ اس دن گردو نواح سے کم و بیش ستائیس جلو س سکردو میں داخل ہوئے تھے اور سکردو کی فضا رات گئے تک آہوں اور سسکیوں سے گونجتی رہی تھی۔

بلتستان میں شیعانِ علی کی آبادی ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے۔پچیس فیصد نور بخشی ہیں ، پھر اہلحدیث اور اہل سنت و الجماعت ہیں۔ شیعانِ علی کے مذہبی تہوار یہاں اپنی اصل روح کے ساتھ زندہ ہیں۔پنجاب میں اس قسم کے ماتمی جلوس اس وقت نظر آتے تھے جب فرقہ واریت کے جنون نے مذہبی رواداری پر خط تنسیخ نہیں پھیرا تھا۔ مجھے وہ وقت یاد تھا جب بعض سنی حضرات دس محرم کے جلوس میں شمشیر زنی، گتکا بازی، لٹھ بازی، اور لٹو گھمانے کا مظاہرہ کر کے داد پاتے تھے اور ان کلاسیکل فنون کو زندہ رکھنے کا باعث تھے۔ بھولی بسری یادوں کے جھرمٹ میں یہ حسرت دل تڑپاتی رہی کہ کاش دونوں فرقے بدستور ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے رہتے اور شیعہ سنّی اختلاف شیعہ سنّی فسادات میں نہ بدلتے۔ یہ اختلافات سقوطِ بغداد کے عنوان تلے تاریخ کا انتہائی خوں چکاں اور المناک باب رقم کر چکے ہیں۔تاریخ اسلام اس  کے اعادے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

 ایڈونچر ٹورز کے آفس میں مبارک صاحب ہمارے منتظر تھے۔ مبارک صاحب نے گورنمنٹ ریٹ پر پورٹرز، کک اور جیپ مہیا کرنے کا وعدہ کر لیا۔کک کا نام شیر خاں تھا۔شیر خان کو مبارک صاحب نے وہیں بلا لیا اور اسے عرفان کے ٹریک کا خود مختار منتظم بنا کر تمام معاملات اس کے سپرد کر دیے۔شیر خان نے کہا کہ آج بازار بند ہے، وہ کل ہمارے ہوٹل آئے گا اور تمام خریداری مکمل کر لے گا۔ پروگرام فائنل ہو گیا تو شیر خان چلا گیا اور مبارک صاحب نے چائے کا آرڈر دے دیا۔

 ’’مبارک صاحب میرے ساتھیوں کی فرمائش ہے کہ باورچی اے کلاس ہونا چاہئے۔ شیر خان اچھا باورچی ہے نا؟ اس کے پکائے ہوئے کھانے کھا کر میرے ساتھی میرا کورٹ مارشل کرنے پر نہ اتر آئیں۔‘‘ عرفان نے مبارک صاحب سے پوچھا۔

 ’’وہ بہت اچھا کک ہے، مگر خیال رہے کہ وہ باورچی کہلانا پسند نہیں کرتا۔ اگر آپ نے یا آپ کے ساتھیوں نے اسے کک کے بجائے باورچی کہہ دیا تو وہ کوئی نہ کوئی الٹی سیدھی چیز کھلا دے گا۔۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔‘‘

 ’’یہ کیا بات ہوئی؟ کک اور باورچی میں کیا فرق ہے؟‘‘ عرفان نے حیرانی سے کہا۔

 ’’فرق کو چھوڑیں۔میری بات یاد رکھیں۔ ورنہ پورا ٹریک لوٹا پریڈ میں گزر جائے گا۔‘‘ مبارک صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔

 ’’اللہ مافی۔‘‘ میں نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا۔

 ’’ایسے باورچی سے۔۔ سوری۔  کک سے ہمیں معاف رکھیں۔‘‘ عرفان نے گھبرا کر کہا۔ ’’کسی نیک اور شریف الطبع کک کا بندوبست نہیں ہو سکتا؟‘‘

 ’’اتنا نیک اور شریف کک پورے  بلتستان میں نہیں ملے گا جو بہ خوشی باورچی کہلانے پر رضامند ہو۔ پنجاب سے منگوانا پڑے گا۔‘‘ مبارک صاحب نے فکر مندی سے کہا۔

 ’’پھر تو اس پیشگی وارننگ کا بہت بہت شکریہ۔‘‘ عرفان نے سراسیمہ لہجے میں کہا۔

چائے کے بعد ہم نے مبارک صاحب سے اجازت چاہی۔ آفس سے باہر نکلتے ہی صوبیدار صاحب نے عرفان سے پوچھا:  

 ’’صاحب آپ کا کام ہو گیا؟ ‘‘

 ’’لگتا تو یہی ہے۔۔ شیر خان کو باورچی کہہ دیا تو کام تمام بھی ہو جائے گا۔‘‘      

 ’’آپ اجازت دو تو ہم میجر صاحب کو سب اچھا کی رپورٹ دے دے؟‘‘

 ’’رپورٹ کیسے دو گے؟۔ وہ تو خپلو گئے ہیں۔ ‘‘

 ’’صاحب کا فون آئے گا ناں۔ ہم فون پر بول دے گا۔ ‘‘

 ’’ ٹھیک ہے بول دیں۔ ‘‘ عرفان نے بے زاری سے کہا۔ ’’ اور یہ بھی بول دیں کہ ہم میجر عمر سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘

 ’’میجر صاحب کا فون آئے گا تو ہم اُن کو ضرور بول دے گا۔ ‘‘

صوبیدار صاحب سے ہم نے آرمی پبلک سکول کا راستہ سمجھا۔ وہ ہمیں آرمی پبلک سکول تک پہنچانے کے لئے آمادہ تھے لیکن عرفان اُن سے الرجک ہو چکا تھا۔اُس نے اپنا اور میرا وزیٹنگ کارڈ صوبیدار صاحب کو دیا کہ میجر صاحب کو دے دیے جائیں اور اُنہیں رخصت کر دیا۔  بعد میں عرفان نے کئی مرتبہ فون پر میجر عمر سے رابطے کی کوشش کی لیکن میجر صاحب کے مختلف اردلیوں نے مختلف بہانے بنا کر میجر صاحب کو ایک لا حاصل ملاقات کی زحمت سے صاف بچا لیا۔ آرمی کے ضابطۂ مہمانداری کی رو سے سویلین انجینئر یا ڈاکٹر صوبیدار کے پروٹوکول سے زیادہ کا استحقاق نہیں رکھتے۔ کہاں راجہ بھوج کہاں گنگوا تیلی ؟

ہم کسی دشواری کے بغیر آرمی پبلک سکول پہنچ گئے۔

محسن شاہ صاحب نے انتہائی پُر تپاک انداز میں ہمارا خیر مقدم کیا۔ محسن صاحب کا تعلق گجرات سے ہے اور وہ آرمی پبلک سکول میں سینیئر لیکچرر ہیں۔وہ اُسی وقت ہمارے ساتھ جا کر ہمارا سامان اُٹھا لانے پر مصر تھے کیونکہ ان کے نزدیک ہمارا ہوٹل میں رہنا اُن کے لئے باعثِ شرم تھا۔عرفان نے اُنہیں صورت حال بتا کر بڑی مشکل سے ایک دو دن کی مہلت لی۔ عام تعطیل کی وجہ سے اس دن ہوسٹل پوری طرح آباد تھا اس لئے تمام اراکینِ ہوسٹل سے تعارف حاصل ہوا۔ محبوب صاحب، سیف صاحب اور طاہر صاحب پٹھان تھے لیکن دیکھنے میں بھلے مانس لگتے تھے۔شاہ صاحب سو فیصد گجراتی تھے اور ہر لحاظ سے پٹھان معلوم ہوتے تھے۔

آرمی پبلک سکول سے منسلک ایک قدیم رہائش گاہ کو ہوسٹل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔یہ ہوسٹل ایسے اساتذہ کے لیے دار الشفقت ہے جو ’’چھڑے‘‘ ہیں یا بیوی بچے ڈاؤن (اہلیانِ سکردو پنجاب کو ڈاؤن کہتے ہیں ) میں چھوڑ آئے ہیں۔ بعض حضرات پارٹ ٹائم خانہ داری میں ملوث ہیں۔ گرمیوں میں فیملی کو سکردو لے آتے ہیں اور کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہو جاتے ہیں۔ گرمیاں ختم ہوں تو فیملی کو واپس ڈاؤن بھجوا کر خود ہوسٹل میں آ جاتے ہیں۔ سکردو میں تعلیمی سال کی چھٹیاں دسمبر تا فروری ہوتی ہیں جنھیں وہ خود ڈاؤن میں گزارتے ہیں۔ اس طرح ہوسٹل کی آبادی میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے۔

آرمی پبلک سکول میں انٹر میڈیٹ کی کلاسز بھی لگتی ہیں اس لیے یہاں کے اساتذہ کے لیے ماسٹرز ڈگری کا حامل ہونا شرط ہے اور وہ لیکچرر کہلاتے ہیں۔ دس بارہ ماسٹر مائنڈ ایک جگہ جمع ہوں تو ماحول کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ عرفان کے جانے کے بعد محسن شاہ اینڈ کو کے اصرار پر میں ہوٹل سے ہوسٹل منتقل ہو گیا۔ اُن دنوں حسن اتفاق سے اردو اور انگلش کے اساتذہ کی تعداد زیادہ تھی اس لئے فقری اور فکری پھلجھڑیاں ہوسٹل کا خاص آئٹم تھیں۔یہ کہانی پھر سہی۔۔  فی الحال ہم نے شاہ صاحب سے رُخصت چاہی جس کا جواب اُنہوں نے دوپہر کا کھانا لگ جانے کی اطلاع کی صورت میں دیا۔کھانے کے بعد ہم گیشر بروم ہوٹل آ گئے۔

ہم کمرے میں داخل ہوئے ہی تھے کہ کاؤنٹر مین نازل ہو گیا۔

 ’’ کھانا لائے سر؟‘‘

 ’’شکریہ۔۔ ہم کھانا کھا چکے ہیں۔‘‘ عرفان نے جواب دیا

 ’’اچھا؟۔۔ سر وہ پورٹر کا کیا بنا؟‘‘ اس نے تجسس سے پوچھا۔

 ’’پورٹرز کا بندوبست ہو گیا ہے۔‘‘ عرفان نے لا پرواہی سے کہا۔

 ’’کس ریٹ پر ہوا سر؟‘‘

 ’’گورنمنٹ ریٹ پر ہی ہو گیا ہے۔‘‘ عرفان نے فخریہ انداز میں کہا۔

 ’’گائیڈ بھی لے لیا ہے سر؟‘‘ اُس نے مایوسی سے پوچھا۔

 ’’گائیڈ ابھی نہیں لیا۔‘‘

 ’’سر میرا بھائی گائیڈ ہے۔۔ آپ کو ملائے؟‘‘ اس کے لہجے امید پیدا ہوئی۔

 ’’ ہم نے سب کام مبارک صاحب کے ذمے لگا دیا ہے۔وہی بندوبست کریں گے۔‘‘

 ’’ملنے میں کیا حرج ہے سر؟‘‘ اس نے عاجزی سے کہا۔

 ’’کوئی حرج نہیں۔ بلا لو۔‘‘

اُس کے بھائی کا نام نصرت تھا۔نصرت کا قد اور جسم کچھ زیادہ ہی منحنی تھے۔ اُس کے چہرے پر داڑھی مونچھ نہ ہوتی تو ہم اُسے دس سال کا بچّہ سمجھتے۔عرفان نے اُسے بتایا کہ وہ  اپنے تمام معاملات مبارک صاحب کو سونپ چکا ہے اور گائیڈ کا انتخاب وہی کریں گے۔

 ’’او۔کے سر۔۔ میں کئی مرتبہ اُن کے لیے کام کر چکا ہوں۔ وہ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔میں ان سے بات کر لوں گا۔۔ آپ کا آج کیا پروگرام ہے سر؟‘‘

 ’’فی الحال کوئی پروگرام نہیں ہے۔‘‘

 ’’آج آپ کو کھر پوچو کیوں نہ دکھائے سر؟‘‘ نصرت نے اشتیاق سے کہا۔

 ’’آج؟‘‘ عرفان نے چونک کر کہا۔ ’’آج کھر پوچو کھلا ہو گا؟‘‘

 ’’کھلوا لیں گے ناں سر۔اُس کا چوکیدار دن رات اُدھر رہتا ہے۔اُس کو دس بیس روپیہ دے دینا۔‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب پھر تو ضرور چلنا چاہیے۔میں دو مرتبہ سکردو آ چکا ہوں ، سکردو کا قلعہ دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔‘‘ عرفان نے کہا۔

 ’’ضرور چلیں ، کمرے میں رہ کر کیا کرنا ہے؟‘‘

 ’’نصرت خان تم گائیڈ کے طور پر چلو گے تو تمہاری فیس۔۔ ؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’اس وقت گائیڈ بن کر نہیں جائے گا سر۔اس بارے میں ہم مبارک صاحب سے بات کرے گا۔ اس وقت آپ کو مہمان سمجھ کے لے جائے گا۔‘‘

 ’’چلیں پھر۔۔ چلتے ہیں۔‘‘ عرفان نے کہا۔

 ’’آپ چاہو تو تھوڑا آرام کر لو۔‘‘

 ’’ہم یہاں آرام کرنے نہیں آئے۔‘‘ عرفان کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

کھر پوچو تک جانے کے لئے ہمیں ایک مرتبہ پھر ماتمی جلوس کے درمیان سے گزرنا پڑا جو مرکزی بازار کے عبّاس علمدار چوک تک پہنچ چکا تھا۔ہم پولو گراؤنڈ کے قریب پہنچ کر بائیں ہاتھ مڑے اور ایک تنگ راستے سے گزر کر قلعے کے دامن میں پہنچ گئے۔

 بلتی زبان میں ’’کھر‘‘ قلعے کو اور ’’پوچو‘‘ یا ’’پوچی‘‘ سب سے اعلیٰ کو کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کھر پوچو  سکردو کا قلعہ معلیٰ ہے جسے سکردو کے ماتھے کا جھومر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قلعہ کھر ڈونگ نامی پہاڑی کی چوٹی پر بنایا گیا ہے اور سکردو میں ہر جگہ سے نظر آتا ہے۔ قلعے کے گیٹ تک پہنچنے کے لیے ستاروں پر کمند ڈالتے ہوئے راستے پر با قاعدہ راک کلائمبنگ کرنا پڑتی ہے۔ عرفان کے لئے یہ معمولی بات تھی۔ گیٹ تک پہنچتے پہنچتے میرا سانس پھول گیا۔قلعے کا گیٹ لکڑی کاہے اور اس پر بلتی انداز میں خوبصورت نقاشی کی گئی ہے۔ نصرت کافی دیر دستک دیتا رہا تو گیٹ کھلا، بلکہ گیٹ کے ایک پٹ میں چھوٹی سی ذیلی کھڑکی کھلی جو زمین سے تقریباً تین فٹ کی بلندی پر تھی۔ ہم کچھ ٹیڑھے میڑھے ہو کر اس کھڑکی سے گزرے۔

 ’’ اس کھڑکی کا کیا مصر ف ہو سکتا ہے؟ قلعے کے باسی جمناسٹک کے کرتب دکھاتے ہوئے تو اندر داخل نہیں ہوتے ہوں گے۔ ‘‘ میں نے نصرت سے پوچھا۔

 ’’یہ کھڑکی ڈوگرہ راج میں بنی ہے سر۔۔ اُن کا کام ایسا ہی ہوتا ہے ناں۔‘‘

 ’’ڈوگرہ راج؟ میں نے سنا ہے کہ یہ قلعہ مقپون۔۔۔‘‘ عرفان نے کچھ کہنا چاہا۔

 ’’آپ نے ٹھیک سُنا ہے سر۔‘‘ نصرت نے اُس کی بات کاٹی۔ ’’مقپون کا قلعہ ڈوگرہ فوج نے جلا دیا تھا ناں۔ یہ عمارت اس کے ملبے پر بنائی گئی ہے۔ ‘‘

 چوکیدار نے سلام کیا۔وہ ایک معمر شخص تھا اور اُس کی ظاہری حالت عسرت و افلاس کا مظہر تھی۔ عرفان نے پچاس روپے کا نوٹ اُس کی نذر کیا تو اُس کے چہرے پر چمک آ گئی۔

گیٹ ایک ڈیوڑھی نما کمرے میں کھلتا ہے۔ اس کمرے کا سامنے والا دروازہ ایک اور کمرے میں کھلتا ہے جس میں چوکیدار کی رہائش ہے۔دائیں جانب والا دروازہ قلعے کے مرکزی حصے میں لے جاتا ہے جبکہ بائیں جانب کے دروازے سے گزر کر غلام گردش اور دفاعی فصیل کے حصے میں پہنچ جاتے ہیں۔قلعے کی دفاعی فیصل کے جھروکوں سے پورا سکردو نظر آتا ہے اور قلعے کی دفاعی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ان جھروکوں سے ہر اُس راستے پر نظر رکھی جا سکتی ہے جہاں سے کسی بیرونی حملہ آور کی آمد کا امکان ممکن ہے اور یہاں سے برسائی گئی گولیاں بڑی سے بڑی فوج کا صفایا کر سکتی ہیں۔فصیل کے مشرقی حصے میں ایک چھوٹا سا دریچہ ہے جہاں سے دریائے سندھ کا خوبصورت اور آفاقی منظر فطرت کے مصور کی شاہکار تصویر کی مانند نظر آ تا ہے۔

نصرت ہمیں مرکزی حصے کے بیچوں بیچ بنی ہوئی عمارت کے پاس لے آیا۔

 ’’یہ مسجد ہے سر اور یہ مقپون بوخا نے بنایا تھا۔‘‘

 ’’یہ کون صاحب ہیں ؟‘‘ عرفان نے مسجد کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔

 ’’یہ سکردو کا مشہور راجہ تھا ناں سر۔۔ موجودہ راجہ اسی کی نسل سے ہے۔ ‘‘

 ’’موجودہ راجہ مقپون ابراہیم کی نسل سے ہے۔‘‘ میں نے  تصحیح کی۔

 ’’وہ تو پہلا راجہ تھا ناں۔ بوخا بھی اُس کی نسل سے تھا۔‘‘

 ’’بوخا کون سا راجہ تھا؟۔۔ اور یہ مسجد کب بنی ہو گی؟‘‘

 ’’یہ تو شجرہ دیکھ کر بتا سکتا ہے۔۔ ہم شجرہ لائے صاحب؟‘‘

 ’’یہاں شجرہ کہاں سے آئے گا؟‘‘

 ’’چوکیدار کے پاس ہوتا ہے ناں صاحب۔ہم ابھی لاتا ہے۔‘‘ اُس نے چوکیدار کے کمرے کی طرف باقاعدہ دوڑ لگا دی۔

 ’’یار عرفان مجھے لگتا ہے یہ تمہیں متاثّر کرنے کے لئے اتنی مستعدی دکھا رہا ہے۔ ممکن ہو تو اسے گائیڈ کے طور پر ساتھ لے جانا۔‘‘ میں نے نصرت کی سفارش کی۔

 ’’دیکھیں گے۔‘‘ عرفان نے لاپرواہی سے جواب دیا۔

نصرت ایک فریم شدہ شجرہ ہاتھ میں لئے واپس لوٹا۔

شجرہ میں پہلا نام مقپون ابراہیم ہے جس کا دور حکومت  ۱۱۹۰ء تا  ۱۲۲۰ء دکھایا گیا ہے۔مقپون ابراہیم کے دیوتا نژاد ہونے کی دیو مالائی داستان سے قطع نظر اکثر مؤرخین اس بات کے قائل ہیں کہ وہ مصر یا ایران کا مہم جو شہزادہ تھا جو گردش دوراں کا شکار ہو کر کشمیر کے راستے  بلتستان پہنچا۔اس کی ذہانت اور شجاعت سے متاثر ہو کر راجہ نے اُسے اپنا سپہ سالار مقرر کیا اور اپنی اکلوتی بیٹی شگری کی شادی اس کے ساتھ کر کے اُسے ولی عہدِ سلطنت قرار دے دیا۔ مقپون بلتی زبان میں گھر داماد کو کہتے ہیں اس لیے ابراہیم کو مقپون ابراہیم کہا جانے لگا۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ مقپون سپہ سالار کو کہتے ہیں۔  معنی جو بھی ہوں۔ مقپون ابراہیم کو مقپون سلطنت کا بانی کہا جاتا ہے۔

مقپون ابراہیم کے بعد استک سنگے، زک سنگے، بروک سنگے، سیک سنگے، تم گوری تھم، سا گوری تھم، کھوکھور سنگے اور غوطہ چوسنگے جیسے نامانوس نام ہیں۔بہرام چو۔۔  دسواں اور بوخا  گیارہواں مقپون راجہ تھا جس کا دور حکومت  ۱۴۹۰ء تا  ۱۵۱۵ء لکھا ہے۔بوخا کے بعد شیر شاہ ہے جو واضح طور پر مسلمان نام ہے اور اس کے بعد سب نام مسلمان ہیں۔علی شیر خان انچن کا نام پندرھویں نمبر پر ہے۔احمد شاہ مقپون سکردو کا چوبیسواں اور آخری با اختیار راجہ تھا جس نے ۱۸۰۰ء تا ۱۸۴۰ء حکومت کی۔ڈوگروں نے اس کے اقتدار کا خاتمہ کیا اور سکردو پر قبضہ کر لیا جو چودہ اگست ۱۹۴۸ء تک قائم رہا۔سکردہ کے موجودہ ’’راجہ‘‘ کا نام راجہ جلال حسین خان ہے جو سکردو کا اکتّیسواں راجہ بنتا مگر گردشِ حالات نے اُسے سکردو کا کونسلر بنا دیا ہے۔

قلعے کی مسجد اگر بوخا نے تعمیر کی تھی تو ہم پانچ سو سال قدیم مسجد دیکھ رہے تھے۔یہ مسجد ایک مستطیل ہال پر مشتمل ہے جس کی تعمیر میں لکڑی اور اکا دکا پتھر استعمال ہوئے ہیں۔لکڑی کے تختوں کی چھت لکڑی کے ستونوں پر قائم ہے۔فرش بھی لکڑی کے تختوں کا ہے جس پر دری بچھی ہوئی تھی لیکن باقاعدہ جماعت کے آثار مفقود تھے۔

 ’’یہ مسجد آباد نہیں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’ادھر آرمی تھا تو مسجد آباد تھا۔۔ جب سے آرمی گیا ہے ادھر نماز نہیں ہوتا۔‘‘

 ’’آرمی کہاں چلی گئی ہے؟‘‘

 ’’راجہ صاحب نے مقدمہ کیا تھا ناں۔عدالت نے یہ قلعہ راجہ صاحب کو واپس کر دیا۔اب یہ اُن کی جاگیر ہے۔اس لیے فوج واپس چلا گیا۔‘‘

 ’’فوج جج کو واپس بھیجنے کے بجائے خود واپس چلی گئی؟‘‘ عرفان نے شدید حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

 ’’ہاں ناں۔ قلعہ راجہ صاب کاہے ناں۔‘‘ نصرت نے فخریہ لہجے میں کہا۔

 ’’کھر پوچو میں پاکستان کی فوج قیام پذیر تھی؟‘‘ عرفان نے تصدیق چاہی۔

 ’’ کھر پوچو میں اور کس کا فوج آ سکتا اے ؟‘‘ نصرت نے حیران ہو کر کہا۔

عرفان نے کوئی جواب نہ دیا اور مسکراتا رہا۔

 ’’مسجد کے فرش کے نیچے قید خانہ ہے صاحب۔‘‘ نصرت نے بتایا۔

 ’’مسجد کے نیچے قید خانہ؟‘‘

 ’’ہاں ناں۔ابھی دکھاتا ہے۔‘‘

نصرت نے ایک جگہ سے دری الٹ دی اور تھوڑی سی کوشش کے بعد دو مربع فٹ کا تختہ فرش سے اکھاڑ لیا۔فرش میں تختے کے سائز کا خلا نمودار ہوا جس کے نیچے کنواں نما کمرہ تھا۔یہ کمرہ خطرناک مجرمین کے لیے قید خانے کا کام دیتا تھا۔دشمنوں کے سروں پر سوار ہو کر کیے گئے رکوع و سجود غالباًً زیادہ ثواب کا باعث سمجھے جاتے ہوں گے؟

مسجد کی دیوار پر ایک بورڈ نصب تھا جس پر کچھ لکھا تھا لیکن الفاظ بے حد مدھم ہو چکے تھے اور انہیں پڑھنے میں دشواری ہو رہی تھی۔غور و خوض کرنے پر اندازہ ہوا کہ بورڈ پر مسجد کے تعمیر کنندہ کا نام ’’بخا‘‘ اور سنِ تعمیر  ۱۴۹۵ء تحریر ہے۔

 ’’آپ تو کہہ رہے تھے مسجد بوخانے بنائی ہے۔۔ یہاں بخا لکھا ہے۔‘‘ عرفان نے کہا۔

 ’’سر یہ ایک ہی نام ہے ناں۔کچھ لوگ بوغا بھی کہتے ہیں ، اس کا مطلب گونگا ہے۔‘‘

 ’’گونگا؟۔۔ تمہارا مطلب ہے راجہ صاحب گونگے تھے؟‘‘

 ’’گونگا نہیں تھا ناں سر۔۔ اُس نے گونگا ہونے کا ایکٹنگ کیا تھا۔ یہ قلعہ بوخا نے بنایا تھا اور سکردو شہر بھی اُس نے بسایا تھا۔ اُس کا کہانی بڑے مزے کا ہے۔۔ آپ سنے گا؟‘‘

 ’’سنے گا نہیں تو اور کیا کرے گا؟‘‘ عرفان نے بے چارگی سے کہا۔ ’’وقت بھی تو گزارنا ہے۔  ابھی سے کمرے میں واپس جا کے کیا کرے گا؟‘‘

 ’’سربوخا کا باپ فوت ہوا تو اس نے چودہ بیٹا چھوڑا تھا۔ مگر سب چھوٹا چھوٹا تھا۔‘‘

 ’’چودہ کے چودہ چھوٹے چھوٹے تھے؟یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’ہم کو کیا پتہ صاب؟اتنا مشکل بات مت پوچھو۔۔ ہم نے جیسا سنا بول دیا۔‘‘

 ’’ما شا اللہ۔۔ اور چھوٹی چھوٹی بیٹیاں کتنی تھیں ؟‘‘ عرفان نے شوخی سے پوچھا۔

 ’’بیٹیوں کا بات نئی کرو صاب۔ بری بات ہوتا ہے۔ ساتھ والے ملک کا راجہ تھا ناں۔  اُس نے دیکھا کہ نیا راجہ کمزور ہے تو حملہ کر دیا اور ملک پر قبضہ کر لیا۔‘‘

 ’’حملہ اور قبضہ کہاں کر لیا؟۔۔ تم کہتے ہو سکردو شہر بسایا ہی بوخا نے تھا۔‘‘

 ’’سر اُس وقت راجہ شگری میں ہوتا تھا ناں۔اس کا محل اور قلعہ بھی اُدھر تھا۔اُس پر قبضہ کیا تھا ناں۔‘‘

 ’’شگری کہاں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’وہ اُدھر ہے سر۔‘‘ اُس نے مغربی سمت کی پہاڑیوں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’گمبہ سے راستہ جاتا ہے۔ اُدھر ابھی پُرانا قلعے کا دیوار ملتا ہے اور بڑ دوناس بھی پڑا ہے۔‘‘

 ’’کس کا ناس؟۔۔ ستیاناس تو سنا تھا یہ کون سا ناس ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’بڑدوناس۔۔ یہ پتھر ہے ناں۔ ابھی آپ پورا بات سنے گا تو سمجھے گا سر۔‘‘

 ’’سناؤ؟‘‘ میں نے بے بسی سے کہا۔

 ’’قبضہ کرنے والے راجہ کا نام برق میور تھا۔اُس نے چودہ کے چودہ بھائی کو گرفتار کیا اور قتل کرنے کے واسطے الگ الگ بستی میں بھجوا دیا۔‘‘

 ’’خود قتل کرتے ہوئے ترس آ گیا ہو گا۔‘‘ عرفان نے تبصرہ کیا۔

 ’’پتا نہیں صاب۔تیرہ بستی والوں نے اپنے حصے میں آنے والوں کو مار دیا مگر جس بستی میں بوخا کو بھیجا تھا اُن لوگوں نے بوخا پر ترس کھا کر اسے چھپا لیا اور میور کو بول دیا کہ بچّے کو مار دیا ہے۔ بو خا اُس وقت دودھ پیتا بچہ تھا ناں ، بعد میں اُسے اُس کے ملک فادر ( MILK FATHER)کے حوالے کر دیا۔ ‘‘

 ’’ملک فادر کیا بلا ہے؟‘‘ میں نے یہ منفرد اصطلاح پہلی مرتبہ سنی تھی۔

 ’’سر راجہ کا بیٹا جس وزیر کی عورت کا دودھ پیتا تھا اُس کے خاوند کو ملک فادر بولتا تھا۔ملک فادر کا بیٹا بڑا ہو کر راجہ کے بیٹے کا وزیر بنتا تھا۔ ‘‘

 ’’ہر راجہ کے ساتھ ایسا ہی ہوتا تھا؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔

 ’’ہاں ناں۔‘‘ اس نے پورے یقین سے کہا۔

 ’’ ملک فادر کوئی لفظ نہیں ، تمہیں رضاعی باپ یا فوسٹر فادر کہنا چاہیے۔‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔

 ’’سر آپ اتنا مشکل مشکل بات کیوں بتاتا ہے؟ہم نے رضائی باپ یا پوسٹر فادر کبھی نہیں سنا، ہم نے ملک فادر سنا ہے۔ بوخا کے ملک فادر نے اس کو بولا کہ گونگا بن کر زندگی گزارو اور کسی سے بات نہ کرو۔یہ احتیاط اس وقت کام آیا جب راجہ کو بوخا کے بارے میں پتہ چلا اور اُس نے بوخا  کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ بوخا کے باپ کا ایک وزیر راجہ میور کا بھی وزیر تھا۔اس نے سفارش کیا اور بولا کہ بیچارہ گونگا کسی کا کیا بگاڑے گا؟ راجہ یہ بات مان گیا اور بوخا کا جان بخشی کر دیا۔ بوخا گونگا بن کر اپنے ملک فادر کا بکری چراتا تھا۔‘‘

 ’’بکری چراتا تھا؟وزیر اپنے آقا کے بیٹے سے بکری چرواتا تھا؟‘‘

 ’’اور کیا کرتا صاب؟ ملک فادر اب وزیر نہیں تھا ناں۔‘‘ نصرت نے سمجھایا۔

 ’’ ملک فادر کا اپنا بیٹا کیا کرتا تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’ ہم کیا جانے صاب؟ہم نے جو کہانی خود سنا ہے وہی آپ کو سنائے گا ناں ؟۔ صاحب آپ ناراض نہ ہو توہم ایک بات پوچھے؟‘‘

 ’’ضرور پوچھو۔‘‘ میں نے فراخ دلی سے اجازت دی۔

 ’’ آپ کسی گاؤں کے سکول میں ماسٹر تو نہیں لگا ہوا ؟وہ لوگ بھی بہت مشکل مشکل سوال پوچھتا ہے۔ ہم اسی لیے  سکول سے بھاگ جاتا تھا۔‘‘

 ’’سوری یار!میں تمہیں بھگانا نہیں چاہتا، اب کوشش کروں گا کہ آسان سوال پوچھوں۔ تم کہانی جاری رکھو۔‘‘ میں نے وعدہ کیا۔

 ’’ایک دن وہ بکری چرانے گیا مگر کھانا ساتھ لے جا نا بھول گیا۔ اس کا ملک مدر اس کے لیے کھانا لے کر گیا تو یہ دیکھ کر ڈر گیا کہ بوخا مزے سے ایک پتھر پر پڑا سو تا ہے اور ایک بہت بڑا کالا ناگ اس کے پاس بیٹھ کر اپنا پھن سے اس کے اوپر سایہ کرتا ہے۔ بوخا کی ماں کو دیکھ کر ناگ چلا گیا۔ ماں نے شور مچایا تو بوخا جاگ گیا اور اپنی ماں پر ناراض ہونے لگا۔‘‘

 ’’کھانا لانے کی وجہ سے؟‘‘ عرفان نے حیران ہو پوچھا۔

 ’’نہیں سر!اس نے اپنی ماں کو بولا کہ تم نے میرے خواب کا خانہ خراب کر دیا۔ ابھی میں راجہ بننے والا تھا۔ راجہ کا چوغہ پہن لیا تھا۔تاج پہننے لگا تو تم نے مجھ کو جگا دیا، تم تھوڑا صبر نہیں کر سکتا تھا؟‘‘

 ’’رضاعی ماں تھی ناں ، اصل ماں ہوتی تو تاج پہننے کے بعد جگاتی۔‘‘ عرفان نے ہنستے ہوئے کہا۔

 ’’اس کا ماں نے ناگ اور خواب کے بارے میں اپنے مرد کو بتایا۔‘‘ نصرت نے عرفان کی بات پر کوئی توجہ نہ دی۔ ’’بوخا کے ملک فادر نے بوخا کی جان بچانے والے وزیر کو بتایا۔دونوں نے خواب کا یہ مطلب نکالا کہ بوخا اپنے باپ کا حکومت واپس لے لے گا۔ انھوں نے بوخا کے باپ سے ہمدردی رکھنے والے افسروں سے مل کے چکر چلایا اور راجہ میور اور اس کے بھائی کو چکور کے شکار پرلے گیا۔‘‘

 ’’چکور کا شکار؟اتنا بڑا راجا چکور کا شکار کرتا تھا؟میرا خیال ہے راجے مہاراجے شیر اور چیتے وغیرہ مارتے ہیں ، اتنے ننھے منے پرندے کے شکار کو کسرِ شان سمجھتے ہیں۔‘‘ عرفان نے کہا۔

 ’’چکور کا شکار بڑا زبردست ہوتا تھا سر، اُس میں سینکڑوں لوگ حصہ لیتا تھا۔ کئی کئی میل سے ہانکا کر کے چکور کو ایک گاؤں میں اکٹھا کرتا تھا پھر راجہ اُس کا شکار کرتا تھا۔ شکار کے بعد بہت بڑا جشن ہوتا تھا۔‘‘

 ’’اُس کو جشنِ مرگِ چکور کہتے ہوں گے؟‘‘ میں نے اسے چھیڑا۔

 ’’پتا نہیں صاب، آپ پھر مشکل سوال پوچھتا ہے۔‘‘ اُس نے فریاد کی۔

 ’’پھر سوری۔ میرا خیال تھا یہ بہت آسان سوال ہے۔۔ پھر کیا ہوا؟‘‘

 ’’بس صاب جشن کا ہلّا گلّا میں وزیر نے برق میور اور اس کے بھائی کو تلوار سے قتل کر دیا اور بوخا کو را جہ بنا دیا۔ ‘‘

 ’’اتنی آسانی سے؟۔۔ یہ تو مشکل سوال نہیں ہے نا؟‘‘

 ’’نہیں صاب۔۔ اصل چکر تو یہی تھا ناں کہ جشن میں سارا کا سارا لوگ بوخا کے والد کا وفادار تھا۔بوخا بھی شکار میں شامل تھا۔وزیر اور دوسرا لوگ اس کو پالکی میں سوار کر کے شگری لایا اور اسی پتھر پر بٹھا کراس کو تاج پہنایا جس پر اُس نے تاج پہننے کا خواب دیکھا تھا۔اس وقت بوخا نے لوگوں سے بات کیا تو لوگ خوشی سے ناچنے لگا۔ وہ تو اسے گونگا سمجھتا تھا۔ اب اس کو بوخا کے بجائے برق مقپون بولنے لگے۔ اسکا مطلب چٹان والا مقپون ہے اور اس پتھر کو بڑدو ناس بولتے ہیں۔‘‘

 ’’بڑدو ناس کا کیا مطلب ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’ہم کو نہیں پتا۔۔ ہم کو یہ پتا ہے کہ بوخا کے بعد جو بھی نیا راجہ بنتا تھا وہ شگری جا کر بڑدوناس پر بیٹھ کر تاج پہنتا تھا اور پھر جلوس کی شکل میں سکردو آتا تھا۔ آخری راجہ احمد شاہ نے بھی شگری میں تاج پہنا تھا۔بوخا نے راجہ بننے کے بعد سکردو بسایا اور یہ قلعہ بنایا۔پھر وہ ادھر بیٹھ کر حکومت کرتا تھا۔‘‘

 ’’اگر یہ مسجد اُس نے بنائی تھی تو وہ مسلمان ہو گا مگر اُس کا نام مسلمانوں والا نہیں ہے۔‘‘

 ’’ہم کو کیا معلوم کہ کیوں نہیں ہے۔‘‘ اُس نے بیزاری سے کہا۔

 ’’مشکل سوال ہے؟‘‘

 ’’صاب نور بخشی لوگ بولتا ہے کہ بوخا کے زمانے میں حضرت نور بخش ادھر آیا تھا اور بوخا کو مسلمان کیا تھا۔یہ مسجد بھی نور بخش نے بنوایا تھا۔اب نور بخش صاب نے بوخا کا نام نہیں بدلا تو ہم کیا کرے؟‘‘ اس نے مظلومانہ انداز میں کہا۔

 ’’مسجد اور بوخا کے بارے میں تمہاری معلومات زبردست ہیں ، باقی قلعے کے بارے میں بھی کچھ بتاؤ۔‘‘

 ’’قلعے میں اب کیا رہ گیا ہے صاب؟یہ جو کمرے ہیں ، یہ قید خانہ تھا اور ان کے آخر میں جو ملبہ ہے یہ ایک مینار کا ہے جو بہت اونچا تھا اور نگرانی کے کام آتا تھا۔ اب ختم ہو گیا ہے۔‘‘

 ’’اور یہ تالاب ؟اس میں پانی کہاں سے آتا ہو گا؟‘‘

 ’’اس کو بالٹی سے بھرتا تھا ناں۔نیچے دریا سے پانی لاتا تھا اور اس تالاب کو بھر تا تھا پھر یہ پانی راجہ اور اس کا فیملی استعمال کرتا تھا۔‘‘

تالاب بہت بڑا تھا اور دریا بہت نیچے تھا۔اسے بالٹیوں سے بھرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن غلاموں کے لئے کون سا کام مشکل ہوتا ہے؟

 ’’رہائشی کمرے نہیں تھے یہاں ؟‘‘

 ’’ہے ناں۔ اوپر کی منزل پر ہے۔‘‘ اس نے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا۔

ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کی نام نہاد منزل پر آئے جہاں کمروں کے آثار موجود تھے۔ مزید سیڑھیاں چڑھ کر ایک چھت نما حصہ ہے جس پر لکڑی کا ستون نصب تھا اور پرچم لہرانے کے کام آتا تھا۔نصرت نے بتایا کہ اب اس قلعے کی یہی تین چار منزلیں باقی ہیں لیکن اُس نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ اس کی سات منزلیں تھیں اور یہ اتنا بڑا تھا کہ پوری کھرڈونگ پہاڑی پر پھیلا ہوا تھا۔ڈوگروں نے اس پر قبضہ کیا تو قلعہ مکمل طور پر تباہ کر دیا، صرف یہ چھوٹا سا حصہ باقی رکھا جس میں مسجد اور قید خانہ تھا۔

کھر پوچو نا تراشیدہ پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے اور دہلی کے لال قلعے اور لاہور کے شاہی قلعے سے سینئر ہے۔اسے رہتاس فورٹ کا ہم عمر سمجھنا چاہیے۔ کھر پوچو پتھر کے زمانے کی تصویر کشی کرتا ہے اور ہیبت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ کھرپوچو کا جاہ و جلال اور وسعت امتدادِ زمانہ کی نظر ہو چکے ہیں۔قلعہ کی موجودہ حالت ظاہر کر تی ہے کہ اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو کھرپوچو کی یہ آخری تلچھٹ اپنے منطقی انجام تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لے گی۔راجہ جلال حسین کی خدمت میں گزارش ہے:

اپنے پرکھوں کی وراثت کو سنبھالو ورنہ

اب کی بارش میں یہ دیوار بھی گر جائے گی

 ’’نصرت خان اب تم چلنے کی تیّاری کرو۔‘‘ عرفان نے کہا۔

 ’’چلو سر۔۔ مگر ابھی زیادہ دیر تو نہیں ہوا ہے۔‘‘

 ’’میں کمرے میں چلنے کی بات نہیں کر رہا۔‘‘

 ’’پھر کدھر کا تیاری کرے سر؟‘‘

 ’’کنکارڈیا اور پھر غونڈو غورو۔‘‘

 ’’سچ بولتا ہے صاب؟۔۔ اور وہ مبارک صاب؟‘‘ اس نے بے یقینی سے کہا۔

 ’’تم پرسوں صبح ہمارے ساتھ سکردو سے روانہ ہو گے، مبارک صاحب سے میں خود بات کر لوں گا۔‘‘

 ’’آپ کا مہربانی ہے صاحب۔‘‘ اُس کے چہرے پر رونق آ گئی۔

 ’’مگر فائنل بات اسی وقت ہو گی جب مبارک صاحب تصدیق کریں گے کہ تم اس ٹریک کے لئے مناسب گائیڈ ہو اور معاوضہ وہی ہو گا جو مبارک صاحب کہیں گے۔‘‘

 ’’ہم کو منظور ہے سر!ہم کل مبارک صاحب کو ملے گا۔ہمیں پتہ ہے مبارک صاحب ہمارے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا۔‘‘

 ’’یعنی ہمارے ساتھ کرے گا؟‘‘ عرفان نے تیکھے انداز میں پو چھا۔

 ’’آپ کے ساتھ بھی نہیں کرے گا۔ وہ بہت گڈ بندہ ہے ناں۔‘‘

٭٭٭

کس کو سناؤں حالِ دل کس سے کہوں میں داستاں

اگلے دن میں شاہ صاحب کے پاس جانا چاہتا تھا لیکن عرفان مجھے شاپنگ کے لیے اپنے ساتھ گھسیٹ لایا۔

ٹریک کے لئے سامان کی خریداری کے دوران مجھے شدید بوریت ہوتی رہی۔ خریداری کی فہرست میں مٹی کے تیل کا چولہا، گیس لیمپ، (بلندی پر گیس پکانے کا کام نہیں دیتی،  جم جاتی ہے)پلیٹیں ، دیگچی، پریشر ککر، تام چینی کے مگ، گلاس، چمچ، لکڑی کی ڈوئی اور پتا نہیں کیا کیا الا بلا شامل تھیں۔شیر خاں سکردو کا پورا بازار خریدنا چاہتا تھا اور عرفان اُس کے ارادوں کے سامنے بند باندھنے کی کوششوں میں مسلسل ناکامی پر تلملا رہا تھا۔شیر خاں عرفان کی جھلاہٹ سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔اس کشمکش نے کئی مرتبہ بوریت شکنی کے دلچسپ اسباب پیدا کیے۔ایک مرحلے پر شیر خان نے خریداری کے لئے ایک انوکھی پالیسی اپنائی۔ ہر آئٹم الگ دکان سے خریدا۔۔  مثلاً اس نے تام چینی کے دس مگ چار مختلف دکانوں سے خریدے اور ہر خریداری کے بعد کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے تبصرہ کیا:

 ’’اوئے اوئے، یہ دکاندار بوت بے ایمان اے۔ ایک روپے کی جگہ پانچ روپے بولتا اے۔ اللہ اس کو دوزخ کے بیس کیمپ کا سیر کرائے۔ اس سے برتن خریدا تو عرفان صاب کا سارا پیسا ختم ہو جائے گا۔ام ٹھیک بولتا اے ناں عرفان صاب؟پھر ہم برتن کدر سے خریدے صاب ؟‘‘

 ’’یار مجھے سکردو کے دکانداروں کے بارے میں کیا معلوم؟۔۔ تم جہاں سے مناسب سمجھتے ہو وہیں سے خرید و۔ ‘‘ عرفان نے تنگ آ کر کر کہا۔

اس  نے اپنا انداز نہ بدلا اور عرفان واہی تباہی بکنے پر اتر آیا تو میں نے مداخلت کی اور شیر خان کی خدمت میں بزبانِ ضمیر جعفری دست بستہ گزارش کی:

 اپنے برتن خود خریدا کر اگر ککوں میں ہے

 کونسی اچھی ہے چمچوں کی دکاں ہم سے نہ  پوچھ

  پورٹرز کے لیے فوڈ خریدنے کا طریقہ کار منفرد تھا۔

یادگار چوک کے پاس ’’ماؤنٹین فوڈ‘‘ نامی دکان پورٹر فوڈ کا مشہور سنٹر ہے۔ اس کا مالک غلام رسول ایک زندہ دل شخصیت ہے جس کے ہونٹوں پر کھیلتی مسکراہٹ گھنی مونچھوں کی آڑ سے برآمد ہونے میں ناکام رہتی ہے۔پورٹرز کی خوراک کا سرکاری تعین حکومت کرتی ہے۔ غیر سرکاری تعین غلام رسول کا آمرانہ اختیار ہے جو وہ دھڑلے سے استعمال کرتا ہے۔شیر خان نے غلام رسول کو دس پورٹرز کے لیے راشن پیک کرنے کا آرڈر دیا۔ اس نے پچاس کلو آٹا، دس کلو گھی، آٹھ کلو چینی، دو ڈبے چائے اور چار کلو چاول پیک کر دیے۔ ہم ابھی وہیں موجود تھے کہ ایک شخص نے سات پورٹرز کے لیے خوراک کا آرڈر دیا۔ اسے ڈیڑھ من آٹا، سولہ کلو گھی کاٹن، دس کلو چینی، چار ڈبے چائے اور تین پیکٹ خشک دودھ عطا ہوئے۔شیر خاں نے بتایا کہ غلام رسوم کا تعلق ہنزہ سے ہے اور ہم وطن ہونے کے ناتے شیر خاں کے ’’صاب‘‘ کے ساتھ خصوصی رعایت کرنا اس پر فرض تھا۔

موچھوں کی آڑ سے پورٹرز کا طعام ادھورا رہتا ہے

سیدھی نہ ہو گر کُک کی نظر، سامان ادھورا رہتا ہے

شیر خان نے فرمایا کہ وہ اس پورٹر کُش رعایت پر شرمندہ ہے، لیکن عرفان جیسے صاب روز روز کہاں ملتے ہیں ؟پورٹرز اور ممبرز کے آٹے میں گورے کالے کا واضح امتیاز موجود تھا۔ پورٹر آٹا براؤن جبکہ ممبر آٹا سفید تھا۔عرفان کو سفید آٹا پسند نہیں تھا۔ اس کی روٹی میں ربڑ کی خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ عرفان نے وزیر اعظمی آرڈر جاری کیا کہ ممبرز کے لئے بھی براؤن آٹا ہی خریدا جائے۔ شیر خان نے یہ آرڈر مارشل لائی جوتے کی نوک پر رکھا۔

 ’’پورٹر کا آٹا صاب لوگ نہیں کھا سکتا۔‘‘ اس نے فیصلہ کن انداز میں اعلان کیا۔

 ’’کیوں نہیں کھا سکتا؟اس میں کیا حرج ہے؟‘‘ عرفان نے احتجاج کرنا چاہا۔

 ’’بوت بڑا حرج ہے ناں !پورٹر ہنسے گا کہ شیر خان کا صاب کالا آٹا کھاتا ہے۔وہ آٹا تو بوت ہلکی کوالٹی کا ہوتا ہے۔ آپ گاؤں میں تو نہیں رہتا صاب؟‘‘

 ’’ رہتا تو شہر میں ہوں ، مگر تعلق گاؤں سے ہے۔‘‘

 ’’اسی لیے اتنا چھوٹا بات کرتا ہے۔ پورٹر کا کھانا صاب لوگ نہیں کھا سکتا۔ آپ کھا سکتا اے تو فکر مت کرو،  ام پورٹر کا آنکھ بچا کر مکس کر دے گا۔ابی چلو ادر سے۔‘‘

 خریداری میں کئی گھنٹے گزر گئے اور اس کے ختم ہونے کے آثار نظر نہ آئے تو میں نے عرفان سے پوچھا۔

 ’’آپ کے ساتھی کس وقت پہنچ رہے ہیں ؟‘‘

 ’’وہ کل شام چھ بجے راولپنڈی سے روانہ ہوئے ہیں۔امید ہے مغرب اور عشاء کے درمیان سکردو میں ہوں گے۔‘‘

 ’’اور یہ سامان کب تک پیک ہو گا؟‘‘

 ’’کیا کہا جا سکتا ہے؟آدھی رات تو ہو ہی جائے گی۔۔ مسئلہ کیا ہے؟‘‘

 ’’اور آپ اسکولی کے لئے کس وقت روانہ ہوں گے۔‘‘

 ’’ام صبح ساڑھے پانچ یا چھ بجے سکردو سے نکل جائے گا۔‘‘ عرفان کے بجائے شیر خان نے جواب دیا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب یہ تفتیش کس سلسلے میں ہو رہی ہے آخر؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’ مجھے اجازت دیں۔میں شاہ صاحب کے پاس جاتا ہوں۔ شام تک آپ کے ساتھی آ جائیں گے اور رات بھر کمرے میں ہنگامہ رہے گا۔ آپ کی تو مجبوری ہے لیکن میں ریسٹ کرنا چاہتا ہوں اور کل کے لیے شاہ صاحب کے ساتھ کوئی پروگرام بھی بنانا ہے۔‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب یہ سو فیصد دھاندلی ہے۔‘‘ عرفان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے لگتا ہے آپ شاپنگ سے بور ہو گئے ہیں۔‘‘

 ’’کسی حد تک یہ بھی ٹھیک ہے لیکن اصل مسئلہ یہی ہے کہ میرا اب یہاں کوئی کام نہیں۔ آپ کے ساتھی تو آ جائیں گے، مجھے ساتھی بنانے ہیں۔‘‘

 ’’او۔کے۔ جیسی آپ کی مرضی۔۔  اب کب ملاقات ہو گی؟‘‘

 ’’آپ ٹریک سے واپس آ کر ہوسٹل فون کر لیں۔میں یہیں ہوا تو اکٹھے چلیں گے ورنہ اللہ حافظ۔‘‘

 ’’ آپ کا پروگرام کتنے دن کا ہے۔‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’میں تقریباً ایک ہفتے کے پروگرام سے آیا تھا۔‘‘

 ’’اس کا مطلب ہے کہ سکردو میں ملاقات مشکل ہے۔ہمیں کم از کم دو ہفتے لگیں گے۔ چلیں خیر۔۔  دعا کریں کہ ہمارا ٹریک بہ خیر و عافیت مکمل ہو جائے۔‘‘

 ’’انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا۔‘‘

 ’’آمین۔‘‘

عرفان کا خیال درست تھا کہ میں ٹریک کے لئے ہونے والی شاپنگ سے بری طرح اکتا چکا تھا اور مجھے خطرہ تھا کہ یہ مستقبل قریب میں ختم ہونے والی نہیں ہے۔میں عرفان اور شیر خان سے ہاتھ ملا کر اور نیک تمنّاؤں کا اظہار کر کے ہوٹل واپس آیا اور اپنا رُک سیک اُٹھا کر آرمی پبلک سکول کے ہوسٹل روانہ ہو گیا۔ ہوسٹل پہنچا تو محسن شاہ اینڈ کمپنی صحن میں کرسیاں بچھائے گرم گرم جلیبیاں بمع چائے خوردو نوش فرما رہے تھے۔میرے دخل در نا معقولات پر خاصی گرم جوشی کا مظاہرہ ہوا۔

 ’’عرفان صاحب کیوں نہیں آئے۔‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’وہ فی الحال شیر خانی پھندے میں پھنسا ہوا ہے۔‘‘

 ’’کیا مطلب؟‘‘

میں نے انہیں شیر خان بہ مقابلہ عرفان شاپنگ میچ کی روداد سنا دی۔

چائے کے ساتھ ساتھ  تفصیلی تعارف کی رسم بھی نبھائی جاتی رہی۔کچھ دیر بعد شاہ صاحب نے کہا:

 ’’ڈاکٹر صاحب ہم لوگ کل سکردو کیڈٹ کالج کی پہلی پاسنگ آؤٹ پریڈ دیکھنے جا رہے ہیں۔ آپ چلیں گے؟‘‘

 ’’شاہ صاحب سکردو میں کہاں جانا ہے اور کب جانا ہے اس کا فیصلہ آپ خود کریں۔ سکردو آنے سے پہلے میری مصروفیت کچھ ایسی رہی کہ میں سکردو کے قابل دید مقامات کی لسٹ تک نہیں بنا سکا، مجھے تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ سکردو میں کیڈٹ کالج ہے۔‘‘

 ’’جی بالکل ہے۔سکردو کا کیڈٹ کالج  ۲۰۰۱ء میں قائم ہوا تھا۔آج پہلے سیشن کی پاسنگ آؤٹ پریڈ ہے۔ موڈ ہو تو آپ کا بندوبست کر دیا جائے؟‘‘

 ’’کیسا بندو بست؟‘‘ میں نے بوکھلا کر پوچھا۔

 ’’ دعوت نامے کا!وہاں کوئی جنرل صاحب مہمان خصوصی ہیں ، سیکیورٹی بہت سخت ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے جواب دیا۔

کیڈٹ کالج کی پہلی پاسنگ آؤٹ پریڈ کو تاریخی سمجھنا چاہئے اور موقع ملنے کے باوجود یہ تاریخی لمحات نہ دیکھنا کفرانِ نعمت تھا۔۔ لیکن؟

 ’’ آپ لوگ ہو آئیں ، میرے لئے مشکل ہے۔ ‘‘ میں نے معذرت کی۔                                                                                     

 ’’دلچسپی نہ ہونا اور بات ہے، مشکل کا کیا مطلب ؟‘‘ شاہ صاحب نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’جناب میں آوارہ گردی کرنے آیا ہوں اور لباسِ آوارہ گردی ساتھ لایا ہوں۔ کیڈٹ کالج کی تقریب میں شرکت کا علم ہوتا تو ایک آدھ سوٹ اُٹھا لاتا۔ پاسنگ آؤٹ پریڈ کی پر تکلف اور پر وقار تقریب میں ٹی شرٹ،  جین،  جیکٹ، ٹریکنگ ٹراؤزر اور ٹریکنگ شوز یا  جوگر پہن کر شریک ہوا تو حاضرین اور مہمانِ خصوصی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے زیادہ مجھے دیکھیں گے۔‘‘

اس پر ایک فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا اور ہوتا ہی چلا گیا۔ میں اس غیر متوقع ردِ عمل پر حیران و پریشان ہو کر ایک ایک کا منہ تکنے لگا۔

 ’’کیا میں نے کوئی مضحکہ خیز بات کہہ دی ہے۔‘‘ میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔

 ’’اس ہوسٹل میں ہر قسم اور ہر سائز کا لباس ہر وقت دستیاب ہے اور مہمانوں کا لباس کے بارے میں پریشان ہونا قابلِ دست اندازیِ جرمانہ کمیٹی جرم ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’ یہ ویئر ہاؤس ہے یا لنڈا بازار؟‘‘ میں نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔

 ’’آپ کے خیال میں ان نمونوں کے ہوتے ہوئے لنڈا بازار یا ویئر ہاؤس کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟‘‘ شاہ صاحب نے اراکینِ ہوسٹل کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’آپ کا مطلب ہے کہ میں آپ کا۔ یا آپ کے دوستوں کا لباس اور جوتے استعمال کروں ؟‘‘ میں نے دم بہ خود ہو کر کہا۔

 ’’اس میں کیا حرج ہے؟ ‘‘ شاہ صاحب نے سادگی سے پوچھا۔

 ’’مگر۔۔ دیکھیں ناں آپ کی کوئی چیز تو مجھے آئے گی نہیں ! اور بقیہ لوگوں سے؟میرا مطلب ہے۔۔ وہ۔ ‘‘ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ما فی الضمیر کیسے بیان کروں ؟

اس پر پہلے قہقہے کا دوسرا غیر ترمیم شدہ ایڈیشن ریلیز کر دیا گیا۔

 ’’چھوڑیں بھی ڈاکٹر صاحب، یہ خانہ بے تکلف ہے۔ آپ بہت جلد عادی ہو جائیں گے۔ آپ کی بیلٹ کا سائز کیا ہے؟‘‘

 ’’مگر۔۔ وہ۔۔ میرا مطلب ہے؟‘‘ میں ہچکچایا۔

 ’’ آپ کا مطلب جو بھی ہے۔۔ آپ فٹا فٹ بیلٹ کا سائز بتائیں۔‘‘

 ’’اپنی پتلی کمریا کو تین یا چار سے ضرب دے لیں۔‘‘ میں نے تنگ آ کر کہا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب پلیز۔۔ مذاق چھوڑیں۔ بیلٹ کا سائز بتائیں۔ ابھی مجھے دعوت نامے کا انتظام بھی کرنا ہے۔ ‘‘

 ’’پینتیس انچ۔ مگر ؟ ‘‘

 ’’او ر کالر کا سائز؟ ‘‘

 ’’شرٹ کی ضرورت نہیں۔ وہ میرے پاس ہے۔ ‘‘

 ’’جوتا؟‘‘

 ’’سات نمبر۔‘‘

 ’’ محبت علی !‘‘ شاہ صاحب نے زور سے ہانک لگائی۔

 ’’جی سر۔‘‘ محبت علی نے فوراً جواب دیا۔

 ’’ یار پینتیس انچ کس کی بیلٹ کا سائز ہے؟‘‘

 ’’ صابر صاحب کا۔‘‘

 ’’ اور ڈاکٹر صاحب کے لئے کس کا کوٹ سوٹ کرے گا؟‘‘

 ’’ میرے خیال میں تو وہ بھی صابر صاحب کا چلے گا؟ ‘‘

 ’’اور سات نمبر جوتا؟ ‘‘

 ’’کامران صاحب کا ہے۔‘‘

 ’’بس ٹھیک ہے۔  میری الماری سے ان کی شرٹ کے ساتھ میچ کرتی ہوئی نیک ٹائی نکالو اور ان کا سوٹ مکمل کر کے ہینگر کر دو۔۔ میں ذرا کارڈ کا بندوبست کر لوں۔‘‘

شاہ صاحب کمرے سے چلے گئے۔محبت علی میرے لئے اراکینِ لباس جمع کر رہا تھا کہ گردشِ ایّام پیچھے کی طرف دوڑنے لگی اور میرا تصور مجھے پچیس سال قبل نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طارق ہال کمرہ نمبر اکاون میں گزرے ہوئے صبح و شام دکھانے لگا جہاں میں ،  عمر ساجد اور ارشد سہو قیام پذیر تھے۔ ہم تینوں کا تعلق متوسط طبقے سے تھا اور ذہنی ہم آہنگی اتنی تھی کہ ہماری کتابیں ،  کپڑے، جوتے حتیٰ کہ جیب خرچ تک مشترکہ سمجھا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ نشتر میڈیکل کالج کے ’’روزی گارڈن‘‘ کے گلابوں کے قریب کھڑے ہوئے ارشد اور عمر میں کسی بات پر تکرار ہو گئی۔ قریب ہی مستقبل کی ’’لیڈی ڈاکٹرنیوں ‘‘ کا گروپ موجود تھا جو اپنی باتیں کرتے ہوئے ہماری گفتگو سننے کی کوشش کر رہا تھا۔

 ’’زیادہ بک بک کی تومیں اپنی شرٹ اتروا لوں گا۔ ‘‘ ارشد نے عمر کو دھمکی دی۔

عام حالات میں عمر اس قسم کی دھمکی کو ایک کان سے سن کر دونوں کانوں سے اڑا دیتا لیکن اس وقت ارشد کی آواز رول نمبر گیارہ نے سن لی۔۔ اس شوخ کی بے ساختہ ہنسی عمر سے برداشت نہ ہوئی اور اسے طرارہ آ گیا۔

 ’’ اچھا !۔۔ شرٹ اتروا لو گے ؟ ‘‘ اس نے حیران ہو کر تصدیق چاہی۔

 ’’بالکل اتروا لوں گا۔ ‘‘ ارشد نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔

 ’’او۔کے۔ ‘‘ عمر نے آمادگی سے کہا۔ ’’میں تمہاری شرٹ اتار دیتا ہوں۔ امید ہے تم نے نتائج و عواقب پر پوری طرح غور و خوض کر لیا ہو گا؟‘‘

 ’’ کیسے نتائج و عواقب ؟‘‘ ارشد چین بجیں ہو کر بولا۔

 ’’ میری پینٹ واپس کرنے کے بعد تم کیا کرو گے؟۔۔  انڈر ویئر پہن رکھا ہے ؟‘‘

  ارشد نے چونک کر پینٹ کی طرف دیکھا، اور کھنکھناتے ہوئے نسوانی قہقہوں کی گونج میں اناٹومی ہال کی طرف فرار ہو گیا۔

اگلے دن کیڈٹ کالج جانے سے پہلے لباس تبدیل کر نے کے دوران مجھے لباس کے اجزائے پریشاں کے سخت احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔

ذرا ٹھہرئے، ذرا سوچئے، میرے پائنچے ہیں تنگ بہت

پتلون ہوں کسی اور کی، مجھے پھاڑتا کوئی اور ہے 

کس سے کہوں میں حالِ دل، کس کو سناؤں داستاں ؟

پاپوش ہوں کسی اور کا، مجھے توڑتا کوئی اور ہے

میں نے اس احتجاج پر کان نہ دھرے۔۔  لیکن یہ سوچ کر میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی کہ کیڈٹ کالج میں میری اور صابر کی تکرار ہو گئی تو کیا ہو گا؟

سکردو کی خوبصورت پہاڑیوں کے دامن میں کیڈٹ کالج کا پریڈ گراؤنڈ رنگ برنگے جھنڈوں اوربینرز کی مدد سے نہایت خوبصورتی سے آراستہ کیا گیا تھا۔ آسمان پر سورج اور بادلوں کے درمیان آنکھ مچولی جاری تھی جس کے نتیجے میں پریڈ گراؤنڈ جلتی بجھتی روشنیوں سے آراستہ سٹیج کا منظر پیش کر رہا تھا۔ کلف لگی وردی پہنے نوخیز کیڈٹ چاق و چوبند انداز میں سلامی کے چبوترے کے آگے صف آرا تھے۔ دلکش اور رنگین و ردیوں میں ملبوس کیڈیٹس کا دستہ بینڈ پر خیر مقدمی دھنیں بکھیر رہا تھا۔پریڈ کمانڈر ہاتھ میں تلوار لیے کاشن دے رہا تھا اور اسکی گونجتی ہوئی پاٹ دار آواز نے ماحول کے ساتھ مل کر حاضرین کو مبہوت کر دیا تھا۔

             بینڈ نے ’’ اے مرد مجاہد جاگ ذرا۔۔ اب وقت شہادت ہے آیا ‘‘ کی مشہور دھن شروع کی اور سلامی کی پریڈ کا آغاز ہوا۔ کیڈیٹس کے قدموں اور بازوؤں کی ہم آہنگی سحر انگیز تھی۔ حاضرین دم بہ خود بیٹھے یہ شاندار مظاہرہ دیکھ رہے تھے۔ پریڈ کمانڈر سلامی کے چبوترے کے سامنے پہنچا۔ ’’داہنے سلام ‘‘ کے کاشن کے ساتھ تلوار کو مہمانِ خصوصی کی جانب جھکا کر سلامی دی۔ تمام کیڈیٹس نے سلیوٹ کیا اور پریڈ گراؤنڈ فلک شگاف تالیوں سے گونج اٹھا۔ کالج انتظامیہ کے ارکان حاضرین کی صفوں کے درمیان گھوم رہے تھے اور توصیفی کلمات سن کر ان کے چہرے فخر وانبساط کی کیفیت سے جگمگا رہے تھے۔

پریڈ کے بعد تقریبِ تقسیمِ انعامات منعقد ہوئی۔ کیڈٹ کالج کے طلباء کو کے۔ ٹو ہاؤس، نانگا پربت ہاؤس، راکاپوشی ہاؤس اور سیاچین ہاؤس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ راکاپوشی ہاؤس نے بہترین ہاؤس اور راکا پوشی ہاؤس ہی کے ایک کیڈٹ نے سیشن کا بیسٹ کیڈٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

 ’’اللہ کا شکر ہے کہ بچوں کی جان اس مصیبت سے چھوٹی۔ ‘‘ ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے تبصرہ کیا۔

 ’’جی؟۔۔ مصیبت؟‘‘ ایک اور صاحب کو یہ تبصرہ ناگوار گزر ا۔ ’’ یہ نوجوان ملک و قوم کے محافظ بننے والے ہیں۔  ان کی محنت کو مصیبت نہ کہیں۔‘‘

 ’’ان نوجوانوں میں میرا بیٹا بھی شامل ہے۔ ‘‘ اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔ ’’ وہ تین ماہ سے اس عمارت میں قید تھا۔ فون سننے پربھی پابندی تھی۔ وہ بتاتا ہے کہ چوبیس گھنٹے میں صرف چھ گھنٹے سونے کی اجازت تھی۔ کاکو ل سے آئے ہوئے انسٹرکٹروں نے بچوں کا خون پسینا ایک کر ڈالا۔‘‘

 ’’انسٹرکٹر ز کاکول سے آئے ہیں ؟‘‘ میں نے دخل اندازی کی۔

 ’’ جی ہاں۔  پی ایم اے کا کول سے تین انسٹرکٹرز نازل ہوئے تھے اور کیڈٹس کا معیار پاکستان ملٹری اکیڈمی کے برابر لانے پر تلے ہوئے تھے۔ ‘‘

 ’’ وہ اس کامیابی پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔مجھے پاسنگ آؤٹ پریڈ کا یہ شاندار مظاہرہ عرصہ تک یاد رہے گا۔ اپنے بیٹے کے لیے آرمی لائف آپ کا اپنا انتخاب ہے اور کون نہیں جانتا کہ آرمی لائف کا آغاز کانٹوں کے بستر سے ہوتا ہے۔ اختتام پر بے شک پورا ملک پھولوں کی سیج ثابت ہو۔‘‘

 ’’ناگزیر سختیاں اپنی جگہ لیکن ایف۔ایس۔سی کے طلباء پر ایم۔ ایس۔سی کا معیار مسلط کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟‘‘

 ’’ دیکھیں جناب!آپ کا بیٹا اس شاندار مظاہرے کی اہم اکائی تھا۔اسے فوج میں کمیشن مل گیا تو وہ  پی۔ ایم۔ اے کے انسٹرکٹرز کی شب و روز محنت کا صلہ ہو گا۔‘‘

 ’’کیڈٹ کالج سے ایف۔ ایس۔ سی کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ملٹری اکیڈمی میں داخلہ مل گیا ہے۔آئی۔ ایس۔ ایس۔ بی سب کے لیے یکساں ہے۔‘‘

 ’’ لیکن ان کیڈٹس کے لیے یہ مرحلہ بہت آسان ہو گا۔ ‘‘

 ’’اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ ‘‘ اُس نے بے یقینی سے کہا۔

وہ اپنے بیٹے کی گزشتہ تین ماہ کی مشقت پر چراغ پا تھا لیکن اکثر والدین کے چہروں پر تمکنت آمیز چمک تھی۔ پریڈ کے بعد کالج کے سبزہ زار میں اسنیکس اور کولڈ ڈرنکس سے تواضع کی گئی اور یہ خوبصورت تقریب اختتام کو پہنچی۔

 ’’ڈاکٹر صاحب کیا موڈ ہے؟سکول بس پر واپس چلیں یا ٹراؤٹ فش فارم تک واک چلے گی؟‘‘

 ’’’فش فارم میں کیا خاص بات ہے؟‘‘

 ’’خاص بات تو کوئی نہیں۔وہ ہوشو نالے پر بنایا گیا ہے اور ہوشو نالا ایک خوبصورت لینڈ سکیپ سے گزرتا ہے۔‘‘

 ’’ نالا خوبصورت لینڈ سکیپ سے گزرتا ہے تو ہم شکستہ سڑکوں پر سے کیوں گزریں ؟۔  دلکش لینڈ سکیپ سے گزر کر ہم بھی دیکھیں گے۔‘‘

٭٭٭

انچن کے دم سے سکردو حسیں ہے

ہو شو نالا سکردو کی پہاڑیوں میں گھرے ہوئے ایک خوبصورت لینڈ سکیپ سے گزرتا ہے اور دورانِ سفر اپنا میک اپ مسلسل بدلتا رہتا ہے۔کبھی یہ ایک تنگ اور پُر شور نالے کی صورت میں نظر آتا ہے تو کہیں ایک جھیل کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔اس کے دونوں کناروں پر ہریالی ہے اس لئے ہوشو نالے کے سنگ واک کرتے ہوئے وقت اور فاصلہ گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب علی شیر خان انچن کے زمانے میں یہاں فیری چلتی تھی۔‘‘ محسن شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’شاہ جی عقل کے ناخن لیں ؟‘‘ محبوب نے چڑ کر کہا۔ ’’علی شیر خان کے زمانے میں فیری کہاں سے آ گئی؟اور آ ہی گئی تھی تو اس بالشت بھر چوڑے نالے میں کیسے چلتی ہو گی؟آپ کاغذ کی ناؤ کی بات تو نہیں کر رہے؟‘‘

 ’’عقل کے ناخن تم خود لو میں۔۔‘‘

 ’’آپ لے لیں گے تو کون سی قیامت آ جائے گی۔‘‘ محبوب نے شاہ صاحب بات کاٹی۔

 ’’میں نالے کی نہیں اس علاقے کی بات کر رہا ہوں۔‘‘ شاہ صاحب نے اسے گھورا۔ ’’علی شیر خان انچن نے صد پارہ نالے پر بند باندھا تو صد پارہ جھیل وجود میں آئی اور صد پارہ نالے میں پانی کی مقدار کم ہو گئی۔اس سے پہلے پانی کا دھارا صد پارہ نالے اور کچورا گاؤں کے درمیان بہتا تھا اور اس میں سری نگر کی طرز پر شکارے چلتے تھے۔‘‘

 ’’پھر تو علی شیر خان نے یہ بے تکا بند باندھ کر سکردو کو ایک خوبصورت منظر سے محروم کر دیا۔یہاں اب بھی شکارے چل رہے ہوتے تو کتنا مزہ آتا؟‘‘ محبوب نے کہا۔

 ’’اگر صد پارہ بند نہ ہوتا تو سکردو کبھی کا اجڑ گیا ہوتا اور تم مزے لینے یہاں نہ آتے۔ صد پارہ جھیل آج بھی سکردو کے باشندوں کے لئے پینے کے پانی کا اور سکردو کی زمینوں کے لیے آب پاشی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔‘‘

 ’’صد پارہ کا نام تو میں نے سنا ہے، یہ کچورا کیا چیز ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’ آپ نے سکردو میں داخل ہوتے وقت کچورا جانے والی سڑک دیکھی ہو گی۔ کچورا نامی گاؤں گلگت روڈ پر سکردو کے مغرب میں واقع ہے۔اس کے قریب دو جھیلیں ہیں۔لوئر  کچورا اور اپر کچورا،  یہ سکردو کی خوبصورت ترین جھیلیں کہلاتی ہیں۔ صد پارہ جھیل سکردو کے جنوب میں استور روڈ پر واقع ہے۔ہرگسہ نالہ صد پارہ جھیل کو لوئر  کچورا جھیل سے ملاتا ہے۔ہوشو نالہ ہرگسہ نالے کی ذیلی شاخ ہے۔‘‘

 ’’ان جھیلوں پر کب چلیں گے؟‘‘

 ’’فکر نہ کریں۔ ہر جگہ کی باری آئے گی۔‘‘ شاہ صاحب نے تسلی دی۔

 ’’شاہ جی یہ علی شیر انچن کیا شے ہے؟میں یہ نام سن چکا ہوں لیکن آپ اس انداز میں اس کا ذکر کر رہے ہیں جیسے یہ کوئی انتہائی اہم اور مقبول عام شخصیت ہے۔‘‘

 ’’علی شیر خان تاریخِ سکردو کی اہم ترین شخصیت ہے اور اسے سدا بہار مسٹر سکردو یا بابائے  بلتستان کا درجہ حاصل ہے۔ انچن کے معنی اعظم ہیں اور  بلتستان کے لوگ اس مقپون اعظم کوسکندر اعظم، مغل اعظم، خان اعظم اور اشوک اعظم کی صف میں شامل کرتے ہیں۔‘‘

 ’’اس نے کیا اعظمی کی تھی؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔

 ’’اعظمی تو اس نے بہت کی تھی۔اس نے اپنے زمانے کی سپر پاور لداخ اور لداخ کی باجگزار ریاستوں کرتخشہ اور پرکوتہ پر قبضہ کیا اور لداخ کے راجہ جمیانگ نمگیل کو گرفتار کر کے سکردو لے آیا۔جمیانگ نے اپنی سلطنت واپس حاصل کرنے کے عوض بھاری تاوان جنگ ادا کیا، سالانہ خراج دینے کا وعدہ کیا اور اپنی بیٹی مندوق گیالمو کی شادی علی شیر خان کے ساتھ کر دی۔ لداخ کے بعدعلی شیر خان نے گلگت، نگر اور چترال کو تسخیر کیا اور بے شمار جنگی قیدیوں کے ساتھ سکردو میں داخل ہوا۔ قیدیوں کو سکردو کے گردو نواح میں آباد کر کے بہت سے تعمیری کام لیے گئے۔حیران کن بات یہ ہے کہ یہ تمام کارنامے اس نے ولی عہد کی حیثیت سے سر انجام دیے اور سکردو کی حدود کو مشرق میں تبت اور مغرب میں چترال تک پھیلا دیا۔‘‘

 ’’پھر اس نے راجہ بننے کے بعد کیا کیا ہو گا؟‘‘

 ’’ اُس نے اپنی سلطنت کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے بے شمار اقدامات کیے۔ سکردو اور دیوسائی کی سرحد پر دفاعی دیوار تعمیر کی۔کرتخشہ میں اتنے قلعے بنائے کہ اس کا نام کھرمنگ یعنی بے شمار قلعے پڑ گیا۔سکردو کے گرد دفاعی فصیل تعمیر کی جس میں شہر میں داخلے کے لیے چار دروازے رکھے گئے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کھرپوچو بھی علی شیر خان نے تعمیر کیا۔اس نے رفاہ عامہ کے بے شمار کام کیے۔ صد پارہ ڈیم اور سکردو کا پولو گراؤنڈ اسی کا کارنامہ ہیں۔سکردو کے چپے چپے پر علی شیر خان انچن کی عظمت کے نشان ثبت ہیں۔‘‘

 ’’ویری گڈ!آپ سوانح انچن پر مکمل ا تھارٹی رکھتے ہیں۔آپ کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں سکردو کا نام انچن نگری رکھ دینا چاہیے۔‘‘ میں نے تعریف کی۔

 ’’ڈاکٹر صاحب خواہ مخواہ متاثر ہونے کی ضرورت نہیں۔علی شیر خان انچن کے بارے میں ریڈیو سکردو ہر تیسرے چوتھے روز پروگرام نشر کرتا رہتا ہے اور اس کی غلط سلط داستانیں سکردو کے بچے بچے کی زبان پر ہیں۔‘‘ سیف نے دخل اندازی کی۔

 ’’اچھا؟اور کیا فرمایا ہے ریڈیو سکردو نے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’اب یہی بتائے گا۔یہ روز ریڈیو سکردو سنتا ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے روٹھے ہوئے لہجے میں کہا۔

 ’’میں آپ کی طرح جھکی نہیں ہوں ، صرف گانے سنتا ہوں۔‘‘

 ’’شاہ جی جانے دیں۔یہ خواہ مخواہ آپ کو چڑا رہا ہے۔انچن کے بارے میں معلومات میں حاصل کرنا چاہتا ہوں ، اسے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟‘‘

 ’’اب کوئی خاص بات رہ بھی نہیں گئی۔علی شیر خاں انچن،  اکبر اعظم کا ہم عصر تھا۔اس نے مغل دربار سے تعلقات استوار کیے اور علی شیر خاں کی بیٹی کی شادی مغل ولی عہد شہزادہ سلیم یعنی مستقبل کے شہنشاہ جہانگیر سے ہوئی۔‘‘

 ’’اچھا؟۔۔ واقعی؟۔۔ آپ کا مطلب ہے علی شیر خان انچن اکبر اعظم کا سمدھی تھا اور اسکی بیٹی شہنشاہ جہانگیر کی سوتیلی بیوی۔ میرا مطلب ہے نورجہاں اور انارکلی کی سگی سوتن تھی؟‘‘ میں نے سچ مچ حیران ہو کر کہا۔

 ’’انارکلی ایک افسانوی کردار ہے۔۔  لیکن علی شیر خان انچن کی بیٹی کی شہزادہ سلیم سے شادی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ ذکاء اللہ کی تاریخِ ہندوستان میں بھی اس شادی کا ذکر ملتا ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔

 ’’ما بدولت حیران و ششدر ہو گئے ہیں۔‘‘ میں نے شاہانہ انداز میں کہا۔ ’’یہ شیر خان کا بچہ واقعی تھوڑا تھوڑا انچن لگتا ہے۔‘‘

 ’’ اس کی بیوی بہت بڑی انچنی تھی۔‘‘ سیف نے اضافہ کیا۔

 ’’بیوی؟۔۔ بیوی نے بھی کوئی کارنامہ سر انجام دیا تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’مندوق کھر اور گنگوپی نہر اس کے بہت بڑے کارنامے ہیں۔‘‘ سیف نے کہا۔

 ’’یہ کیا چیزیں ہیں ؟‘‘

 ’’آپ نے کھر پوچو کے نزدیک مندوق کھر کے کھنڈرات اور گنگوپی نہر نہیں دیکھی؟‘‘ شاہ صاحب نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’میرا تو یہی خیال ہے کہ نہیں دیکھی۔ ‘‘ میں نے شش و پنج میں مبتلا ہو کر کہا۔

 ’’کمال ہے۔۔ حا لانکہ کھر پوچو آپ نے گائیڈ کی راہنمائی میں دیکھا تھا۔ اس کا مطلب ہے وہاں دوبارہ جانا پڑے گا۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’آپ علی شیر خان کی بیوی کے بارے میں کیا بتا رہے تھے؟‘‘

 ’’ مقپون خاندان کی روایات کے مطابق علی شیر خان انچن کی بیوی کا نام گل خاتون تھا جو ایک مغل شہزادی تھی، بعض روایات میں مبالغہ آرائی کی تمام حدود عبور کر کے گل خاتون کو اکبر اعظم کی بیٹی کہا گیا ہے۔ ‘‘

 ’’آپ کا مطلب ہے انچن اکبر کا داماد تھا، لیکن ابھی آپ نے بتایا کہ جہانگیر علی شیر خان انچن کا داماد تھا۔یہ تو کچھ عجیب و غریب اور ناقابل یقین رشتہ نہیں ہو گیا شاہ جی؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’مقپون خاندان کی سینہ بہ سینہ روایات سو فیصد درست نہیں۔ بلتستان کی اکثر روایات کے مطابق گل خاتون لداخ کے راجہ جمیانگ نمگیل کی بیٹی مندوق گیالمو کے نام کا فارسی کا ترجمہ ہے۔ مندوق کے معنی پھول اور گیالمو کے معنی خاتون یا شہزادی ہیں۔ بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ لداخ کی شہزادی مندوق گیالمو اور مغل شہزادی گل خاتون الگ الگ شخصیات تھیں اور بیک وقت انچن کے نکاح میں تھیں۔‘‘

 گل خاتون جو بھی ہو،  انچن کی انچنی ثابت ہوئی اور سرزمینِ سکردو پر مندوق کھر اور گنگوپی نہر کی صورت میں اپنی فہم و فراست اور اعلیٰ ذوق کے انمٹ نقوش چھوڑ گئی۔

 ٹراؤٹ فش فارم نظر آیا تو انچن کہانی اختتام کو پہنچی اور میں اس نتیجے پر پہنچا:

انچن کے دم سے سکردو حسیں ہے

انچن نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے

ٹراؤٹ فش فارم پر تالابوں میں مختلف عمر کی ٹراؤٹ مچھلیاں موجود تھیں۔ہم نے یہاں کے سپروائزر محمد طفیل سے درخواست کی کہ دو چار خوب صورت یا خوب سیرت نوجوان ٹراؤٹ ہمیں تحفتاً یا قیمتاً عنایت فرما دے تو اس کی عین نوازش ہو گی۔وہ ہنسنے لگا۔

 ’’سر کیوں میری نوکری کے پیچھے پڑ گئے ہیں ؟یہاں سے ایک دانہ بھی کم ہوا تو میری شامت آ جائے گی۔‘‘

 ’’  فش فارم سے فش نہیں مل سکتی تو اس کا فائدہ؟‘‘ محبوب نے کہا۔

 ’’یہ فش فارم نہیں فش ہیچری ہے۔یہاں مچھلیوں کی افزائشِ نسل ہوتی ہے اور بچہ مچھلی مختلف فارمز کو سپلائی کر دی جاتی ہے۔‘‘

 ’’اچھا یہ بتائیں کہ ٹراؤٹ شمالی علاقہ جات میں اتنی زیادہ کیوں پائی جاتی ہے؟  ملک کے بقیہ حصوں میں یہ نایاب ہے۔‘‘

 ’’ٹراؤٹ مقامی مچھلی نہیں ہے۔گوروں نے اپنے دور میں برطانیہ سے امپورٹ کی تھی۔ بلتستان کی آب و ہوا اس کے قدرتی ماحول کے عین مطابق ہے اور یہاں ٹراؤٹ بہت اچھا وزن حاصل کر لیتی ہے۔‘‘

فش فارم یا ہیچری میں کوئی خاص بات نہیں تھی لیکن اس کے ارد گرد کا منظر کا فی خوبصورت تھا۔ہوشو نالے کے کنارے کنارے چلتے ہوئے یہاں پہنچنا ایک خوشگوار تجربہ تھا۔

محسن شاہ صاحب تالابوں کے احاطے میں داخل ہو گئے اور مختلف عمر کی ٹراؤٹس کا جائزہ لینے لگے۔محبوب ان کی تصویر بنانے کے لئے کیمرہ فوکس کرنے لگا۔

 ’’شاہ جی ذرا دائیں طرف ہو جائیں۔‘‘ اس نے ہدایت دی۔

شاہ جی دائیں جانب کھسک گئے۔محبوب نے انہیں دوبارہ فوکس کرنا شروع کر دیا۔

 ’’شاہ جی تھوڑا سا پیچھے ہو جائیں۔‘‘۔۔ شاہ جی تھوڑا سا پیچھے ہو گئے۔

 ’’شاہ جی یہ کیا حماقت ہے؟آپ نے عینک کیوں نہیں لگائی ؟براہِ مہربانی فوراً  لگا لیں۔‘‘

 ’’کیا بکواس ہے؟‘‘ شا ہ صاحب نے غصے سے کہا۔ ’’تو تصویر بنا رہا ہے یا کسی دستاویزی فلم کی ہدایت کاری کر رہا ہے؟‘‘

 ’’ پلیز عینک لگا لیں ! کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ ٹراؤٹ کہاں ختم ہوتی ہیں اور آپ کہاں سے شروع ہوتے ہیں۔عینک کی بدولت شناختی پریڈ آسان ہو جائے گی۔‘‘

 ’’بکواس بند کر اوئے۔‘‘ شاہ صاحب نے ہنستے ہوئے کہا اور محبوب نے شٹر کا بٹن دبا دیا۔اس تصویر میں ٹراؤٹ اور شاہ صاحب دونوں بہت واضح ہیں اور گمان ہوتا ہے کہ شاہ صاحب ابھی ابھی فش فارم سے برآمد ہوئے ہیں۔

فش فارم سے مین روڈ تک پہنچنے کے لئے ایک چھوٹی سی چٹان سر کرنا پڑی اور ہم آرمی ایوی ایشن کے ہیڈ کوارٹر کے احاطے میں موجود ہیلی کاپٹروں کے پہلو سے گزر کر ایئر پورٹ کے مین گیٹ کے سامنے پہنچ گئے۔ہم ٹیکسی کی تلاش میں تھے کہ شاہ صاحب کی شناسا مسز زیدی نے شاہ صاحب کو دیکھ کر اپنی گاڑی روک لی۔اس غیر متوقع لفٹ نے ہمیں ہوسٹل پہنچا دیا۔

 ہوسٹل پہنچے تو محبت علی کی انتہائی محبت سے پکائی ہوئی چنے کی دال اور آرمی کے بٹالین میس سے آیا ہوا سبزی گوشت منتظر تھا۔ کھانے کے بعد ہو سٹل کے صحن میں کر سیاں ڈال لی گئیں اور مختلف موضوعات پر ادھر اُدھر کی گفتگو ہوتی رہی۔

 ’’ڈاکٹر صاحب!یہ بتائیں کہ کل کا کیا پروگرام ہے؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’میں پروگرام ایڈوائزری کے جملہ حقوق آپ کے نام منتقل کر چکا ہوں ، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز۔  سوری۔ آپ کی عقل منصوبہ ساز کرے۔ میں صرف مقتدی ہوں۔‘‘

 ’’او۔کے۔۔ کل صد پارہ۔۔ ڈن؟‘‘

 ’’ ڈناڈن۔۔۔‘‘

٭٭٭

چوٹوں سے رکنے والے او شاہ جی نہیں ہم

صد پارہ جھیل استور روڈ پر سکردو سے تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ استور روڈ دیوسائی کی دیومالائی سر زمین سے گزر کر استور پہنچتی ہے۔سکردو آ کر دیوسائی کے جلووں سے محروم رہنا نا قابل معافی جرم تھا اور میں ایک اخلاقی معاہدے کے تحت یہ جرم کرنے پر مجبور تھا۔میں چوہدری طاہر کمپیوٹر سے وعدہ کر چکا تھا کہ سکردو یاترا کے دوران دیوسائی کے درشن کو نہیں جاؤں گا۔ دیوسائی اور اسکولی جیپ ٹریک اگلے سال کا مجوّزہ پروگرام تھا جس میں طاہر شامل ہونا چاہتا تھا اور مجھے بھی شامل رکھنا چاہتا تھا۔

ہمارا پروگرام تھا کہ صد پارہ جھیل تک ٹریکنگ کی جائے لیکن ناشتے سے کچھ پہلے محبوب کا دوست نذیر آ گیا جس کا تعلق صدپارہ گاؤں سے تھا۔ وہ اپنے مہمانوں کو الوداع کہنے سکردو آیا تھا اور گاؤں واپس جانے سے پہلے محبوب سے ہیلو ہائے کرنے چلا آیا تھا۔ اُسے علم ہوا کہ ہم صد پارہ جھیل جا رہے ہیں تو وہ بہ ضد ہوا کہ پہلے صد پارہ گاؤں چلیں۔ناشتہ اس کے ساتھ کریں اور واپسی پر صد پارہ جھیل دیکھتے ہوئے سکردو آ جائیں۔ اس کے اصرار میں اتنی شدت اور خلوص تھا کہ ہم اس کی سوزوکی ویگن میں ٹھنس ٹھنسا کر جھیل کے پہلو سے گزرتے ہوئے صد پارہ گاؤں پہنچ گئے جو جھیل سے آگے ہے۔

 ’’آپ کے گاؤں کا اصل نام ست پڑا ہے یا صد پارہ۔‘‘ میں نے نذیر سے پوچھا۔

 ’’ہمارا بزرگ لوگ تو اسے ست پڑ ا بولتا ہے۔ اب کچھ لوگ صد پارہ کہنے لگا ہے۔ ست پڑا کا مطلب سات گاؤں ہے۔ ‘‘

 ’’لیکن یہ تو ایک ہی گاؤں ہے۔ ‘‘

اب ایک بن گیا ہے۔ اصل میں تو ادھر سات گاؤں تھا۔‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب یہ وہ گاؤں ہے جو علی شیر خاں انچن نے آباد کیا تھا اور یہاں چترال سے لائے گئے جنگی قیدیوں کو بسایا تھا۔ ‘‘ شاہ صاحب نے دخل اندازی کی۔

 ’’یعنی یہ سات گاؤں تھے جو علی شیر خاں انچن نے بسائے اور اُن میں جنگی قیدیوں کو آباد کیا گیا؟‘‘ میں نے تصدیق چاہی۔

 ’’جی ہاں۔ ‘‘ نذیر نے جواب دیا۔ ’’ اب بھی آس پاس چھوٹا چھوٹا آبادی ہے مگر روڈ پر ہونے کی وجہ سے ست پڑا کا آبادی بہت بڑھ گیا ہے۔‘‘

 ’’پھر تو آپ کا گاؤں تاریخی اہمیت کا حامل ہوا۔ ‘‘ میں نے کہا۔

 ’’ تاریخ کو حمل کیسے ہو سکتا ہے۔ ‘‘ نذیر نے حیرانی اور سنجیدگی سے سوال کیا تو میں نے پریشان ہو کر اسے گھورا۔

محبوب نے آنکھ کے اشارے سے مجھے خاموش رہنے کے لئے کہا۔اس نے بعد میں وضاحت کی کہ نذیر ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے لیکن سکول کی شکل نہ دیکھنے کی وجہ سے اردو کے معاملے میں کورا ہے۔

ست پڑا میں بلتستان کی تاریخ کا ایک اہم باب ملفوف ہے۔ صد پارہ جدید نام ہے اور ست پڑا کی نسبت زیادہ رومانٹک ہے۔میرے خیال میں اہم تاریخی پس منظر رکھنے والے ناموں کو صرف رومانیت بگھارنے کیلئے بدل ڈالنا زیادتی ہے۔ علی شیر خاں انچن کی بسائی ہوئی سات بستیوں کے مرکزی مقام کیلئے ست پڑا نہایت مناسب نام ہے۔ اس پس منظر پر اہل  بلتستان فخر کرتے ہیں اور اسے اپنی تاریخ کا درخشندہ باب سمجھتے ہیں۔ نیک سیرت ست پڑا کو خوب صورت صد پارہ کے چرنوں میں قربان کرنا ایک تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی جرم ہے جسے متاثرین شاید معاف کر دیں ، تاریخ ہرگز معاف نہیں کرے گی۔

 ’’آپ کے بزرگ چترال سے ادھر آئے تھے؟‘‘ میں نے نذیر سے پوچھا۔

 ’’وہ بے چارہ خود کدھر آیا تھا؟اُن کو علی شیر خان پکڑ لایا تھا۔‘‘ وہ کھل کر ہنسا۔

 ’’آپ کو غصہ نہیں آتا کہ علی شیر خان انچن نے آپ کے آبائی وطن پر قبضہ کیا اور آپ کے بزرگوں کو گرفتار کر کے یہاں لے آیا؟‘‘ میں نے بھی مسکراتے ہوئے پوچھا۔

 ’’ بزرگوں کو آتا ہو گا، ہم کو نہیں آتا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم ادھر عیش کرتا ہے۔ہم نے چترال کا شکل ہی نہیں دیکھا۔‘‘

نذیر کا ڈیرہ نما گھر گاؤں کی مرکزی آبادی سے قدرے ہٹ کر تھا۔ گھر کے ساتھ مویشیوں کا باڑہ تھا جس میں دس پندرہ بھینسیں بندھی ہوئی تھیں۔ نذیر نے بتایا کہ یہ بھینسیں نہیں زومو ہیں جن کے نر کو زو کہتے ہیں۔

نذیر نے ایک ملازم کی زبانی ناشتے کا آرڈر گھر تک پہنچایا اور ہم باڑے سے متصل ڈیرے کے احاطے میں پڑی ہوئی چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔

 ’’تمہارے پاس یاک تھا۔۔ وہ کہاں ہے؟‘‘ محبوب نے نذیر سے پوچھا۔

 ’’اب ادھر یاک کا رواج ختم ہو رہا ہے۔ ہمارے پاس آجکل ایک گھرمو ہے، آپ دیکھے گا؟‘‘

 ’’گھرمو؟۔ یہ کیا چیز ہے؟‘‘ محبوب نے پوچھا۔

 ’’طولمو اور یاک کے کراس کو بولتے ہیں ناں۔‘‘

ہم نے طولمو کی وضاحت چاہی تو اس نے بتایا کہ یاک کو کئی قسم کی نسل کشی میں استعمال کرتے ہیں۔

 ’’ زو مو تویاک اور گائے کا کراس ہے ناں ؟‘‘ محبوب نے زومو کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’ہاں۔ یاک اور گائے کے کراس سے زو اور زومو بنتا ہے۔۔ زومو اور یاک کے کراس سے طول اور طولمو۔۔ طولمو اور یاک کے کراس سے گھر اور گھرمو۔  گھرمو اور یاک کے کراس سے گیر اور گیرمو۔۔ گیرمو اور یاک کے کراس سے ہلوک اور ہلوک مو پیدا ہوتے ہیں۔ہلوک مو کویاک سے کراس کروائیں تو دوبارہ یاک اور یاک مو پیدا ہو جا تے ہیں۔‘‘ کراس کے بارے میں نذیر کی معلومات اور رٹّا حیرت انگیز تھا۔

 ’’جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی۔۔ پھر اس کراسم کراسی کا فائدہ؟‘‘ طاہر نے پوچھا۔

 ’’یہ پرانا رواج ہے۔ہر جانور الگ الگ کام کے لیے ہوتا ہے ناں۔زومو دودھ زیادہ دیتا ہے اورہلوک ہل چلانے کے لئے بہترین سمجھا جاتا ہے۔جب سے ٹریکٹر آیا ہے کراس وغیرہ ختم ہوتے جا رہے ہیں۔آج کل صرف زو اور کہیں کہیں یاک نظر آتا ہے، باقی جانور شوق کا بات بن گیا ہے۔‘‘

ہم نے گھرمو کا دیدار کیا لیکن اس میں اور زومو میں سائز کے علاوہ اور کوئی فرق محسوس نہ ہوا۔

ناشتہ مکئی اور گندم مکس کے موٹے موٹے پراٹھوں ، آملیٹ، آلو کے بھرتے،  شہد، دہی،  خوبانی اور سیب کی چٹنی اور قہوہ پر مشتمل تھا۔۔ سواد کیوں نہ آتا؟

ناشتے کے بعد ہم نے ست پاڑا گاؤں کا جائزہ لیا۔ست پڑا خاصا بڑا قصبہ ہے اور مکانات کا طرزِ تعمیر نسبتاً جدید ہے لیکن کہیں کہیں پُرانا نمونہ بھی نظر آ جاتا ہے۔مکانات پہاڑیوں پر بنے ہیں اس لئے سڑکیں اور گلیاں بہت کم ہیں۔

ہم نے نذیر صاحب سے اجازت چاہی اور گپیں لگاتے ہوئے ست پڑا جھیل کی طرف روانہ ہوئے۔ گاؤں سے نکلتے ہی استور روڈ چھوٹا سا موڑ کاٹتی ہے اور یہ موڑ مڑتے ہی ست پڑا جھیل نقابِ رُخ الٹ کر اپنے زائرین کو آزمانے لگتی ہے۔

 شاہ صاحب مجھے بازو سے پکڑ کر گولڈن اور بھوری مٹی کی ایک ڈھیر تک لے گئے۔ یہاں سے ست پڑا جھیل پوری کی پوری نظروں کے سامنے تھی اور اپنے وسط میں سرسبز جزیرہ رکھنے والی یہ چوکور طشتری آنکھوں میں کھبی جاتی تھی۔

 ’’لا جوا ب منظر ہے۔‘‘ میں نے جھیل پر نظر جما کر کہا۔

 ’’جھیل کا منظر اپنی جگہ۔۔ لیکن انداز ہ کریں کہ آپ کس چیز پر کھڑے ہیں ؟‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب ہر گز اندازہ نہ کریں۔شاہ جی آپ کو پتا نہیں کس چیز پر کھڑا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ محبوب نے جلدی سے کہا۔

 ’’تو اپنا منہ بند نہیں رکھ سکتا؟۔۔ ہر بات میں لُچ تلتا رہتا ہے۔‘‘

 ’’کس چیز پر کھڑا ہوں ؟‘‘ میں نے محبوب کی بکواس پر دھیان دیے بغیر کہا۔ ’’ظاہر ہے یہ مٹی کا ڈھیر ہے۔‘‘

 ’’یہ عام مٹی کا ڈھیر نہیں ، علی شیر خاں انچن کی بنائی ہوئی دیوارِ عظیم کی باقیات ہیں۔ ‘‘

 ’’وہ دفاعی فصیل جو پتا نہیں کہاں سے کہاں تک بنائی گئی تھی؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’شگرتھنگ سے تھو رگو تک۔۔ سکردو اور دیوسائی کی سرحد پر بنائی گئی تھی۔ ‘‘

 میں نے اس ڈھیر کو نئی دلچسپی سے دیکھا۔اسکی مٹی اردگرد کی مٹی سے رنگت میں مختلف تھی۔ یہ کسی دیوار کی باقیات تھیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ چھ فٹ چوڑی ضرور رہی ہو گی۔شگر تھنگ سکردو اور استور کا سرحدی قصبہ ہے جبکہ تھورگو سکردو کا نواحی قصبہ تھا جو اب قریب قریب سکردو میں شامل ہو چکا ہے۔میں نے شگر تھنگ نہیں دیکھا، لیکن اندازہ ہے کہ یہ دیوار پینتالیس کلومیٹر طویل ضرور رہی ہو گی اور کشمیر کی طرف سے آنے والے حملہ آوروں کے لیے ناقابلِ تسخیر دفاعی حصار ثابت ہوتی ہو گی۔

 ’’ اس دیوار کی باقیات پہاڑوں میں اور جگہ بھی ہوں گی؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’ضرور ہونی چاہئیں۔  سروے کیا جائے تو کئی جگہ آثار ملنے کے امکان ہیں۔ ‘‘

 ’’اب ذرا یہاں آئیں۔ ‘‘ شاہ صاحب دائیں جانب والی پہاڑی پر  چڑھ گئے جہاں دیوار کی باقیات کے قریب ایک کنواں نما گڑھا بھی مو جو د تھا۔

 ’’اس جگہ خزانہ د فن تھا۔ کسی راجہ نے مالِ  غنیمت یہاں دفن کیا تھا۔‘‘

 ’’واقعی؟‘‘ میں نے گڑھے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ ’’ وہ کس نے نکالا؟۔  حکومت نے؟‘‘

 ’’جی نہیں ! ایک گورا آیا تھا۔اُس نے مقامی مزدوروں کے ساتھ یہاں کھدائی کی اور ایک دن وہ سب لوگ غائب ہو گئے۔‘‘

 ’’غائب کیسے ہو گئے؟۔۔ وہ کوئی ماورائی مخلوق تھے؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’عام خیال ہے کہ گورے کو خزانہ مل گیا تھا۔وہ مزدوروں کو لالچ دے کر اپنے ساتھ لے گیا۔۔  کچھ دور جا کر اُنھیں قتل کر دیا اور دفینہ لے کر فر ار ہو گیا۔ ‘‘

 ’’شاہ صاحب سکر دو کی تاریخ اور معلومات پر آپ کی رسائی اور گرفت نے مجھے حیران کر دیا ہے۔۔  آپ اس موضوع پر کتاب کیوں نہیں لکھتے؟‘‘

 ’’گرفت ورفت نہیں ہے۔۔ بات یہ ہے کہ ڈاؤن سے میر ے پاس مہمان آتے رہتے ہیں جو اکثر و بیشتر گائیڈ کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں۔ میں گائیڈ کی فراہم کی ہوئی معلومات ذہین نشین کر نے کی کوشش کر تا ہو ں۔‘‘

 ’’اس کا مطلب ہے کہ آپ بہتر ین پارٹ ٹائم گائیڈ بن سکتے ہیں۔ ‘‘

 ’’بن سکتے ہوں گے۔۔  کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ‘‘ محبوب نے فیصلہ صادر کیا۔

 ’’وہ کیوں ؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’شاہ صاحب جتنی تیزی سے دماغ چاٹتے ہیں اُسے بر داشت کر نا ہماری مجبوری اور آپ کا حسنِ تکلف ہے۔سکر دو آنے والے اکثر حضرات سیر کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون کے متلاشی ہوتے ہیں۔شاہ صاحب سے گائیڈنس لینے والا بد قسمت سیاح گھنٹے دو گھنٹے بعد سر پیٹتے ہوئے فرار ہو جائے گا۔‘‘

 ’’تم اپنا منہ بند نہیں رکھ سکتے۔‘‘ شاہ صاحب نے اسے جھاڑا۔

 ’’اوہ۔۔  محسوس کر گئے شاہ جی۔‘‘ محبوب نے تاسف سے کہا۔

شاہ صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔

 ’’شاہ جی!محبوب کی بات چھوڑیں۔ آپ کا اپنا قول ہے کہ محبوبوں کی بات کا بُرا نہیں ماننا چاہیے۔ آپ بڑے دلنشیں انداز میں معلومات مہیا کرتے ہیں۔ گائیڈ کا لگا بندھا لہجہ۔۔۔‘‘

میرا جملہ پورے گروپ کے فلک شگاف قہقہے کی وجہ سے ادھورا رہ گیا۔

 ’’ویری گڈ!۔۔ ڈاکٹر صاحب!جواب نہیں آپ کا۔۔  آپ زخموں پر ٹانکوں کی جگہ مکھن تو نہیں لگاتے؟۔  دلنشیں انداز !۔۔ گائیڈ کا لگا بندھا لہجہ!۔۔ واہ واہ۔  سواد آ گیا بادشاہو۔ ‘‘ محبوب نے چٹخارے لیتے ہوئے کہا۔

شاہ صاحب نے گھور کر محبوب کو دیکھا۔

 ’’ شاہ جی ناراض نہ ہوں۔‘‘ شاہ جی کو خاموش دیکھ کر محبوب نے کہا۔ ’’آپ کی معلومات کا اعتراف کر تے ہوئے اور ڈاکٹر صاحب کے خیالات کی روشنی میں آپ کو اے۔پی۔ ایس کی جانب سے تاریخ کی اعزازی ڈاکٹریٹ عطا کی جاتی ہے، آپ بھی کیا یا د کریں گے۔ ‘‘

 ’’میں یہ نامعقول ڈاکٹریٹ نہیں لینا چاہتا۔‘‘ شاہ صاحب نے بھنّا کر کہا۔

 ’’ بری بات ہے شاہ جی۔۔ انعام اور اعزاز خواہ کتنا ہی معمولی ہو، ٹھکرانا نہیں چاہئے۔یہ حرکت اخلاقیات کے سخت منافی ہے۔ا ب اچھے بزرگوں کی طرح موڈ ٹھیک کر لیں۔ ‘‘   محبوب نے پچکارتے ہوئے کہا۔

شاہ صاحب کوئی جواب دیے بغیر آگے بڑھ گئے۔

چند منٹ بعد ہم ست پڑا جھیل پر پہنچ گئے۔ جھیل سے کچھ پہلے ایک وسیع و عریض میدان ہے اور اس میدان کی تہہ سے پھوٹنے والے چشمے ست پڑا جھیل کے پانی کا اہم منبع ہیں۔ اسی میدان کا ایک حصہ کیمپنگ سائٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ست پڑا سرخی مائل بھورے پہاڑوں سے گھر ی ہوئی ’’سبزگوں ‘‘ پانی کی خوبصورت جھیل ہے۔ جھیل کے پانی کا سبز رنگ اس کے ارد گرد کے سبزے اور اس کے بیچوں بیچ قائم سر سبز و شاداب جزیرے کی ہریالی کا مرہونِ منت ہے۔ جھیل کنارے پی۔ٹی۔ ڈی۔ سی کا ہوٹل ہے جس کے ریستوران میں کافی کے سپ لیتے ہوئے جھیل کے منظر سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے کیونکہ ریستوران کی دیواریں شیشے کی ہیں۔

اُس روز مقامی لوگوں کی اچھی خاصی تعداد یہاں آئی ہوئی تھی اور اے۔پی۔ایس کی ٹیم کا ’’چھڑا گروپ‘‘ اس انکشاف پر بغلیں بجا رہا تھا کہ سکر دو اپنی فطرت میں نوری بھی ہے ناری بھی۔ جھیل کی ریلنگ کے سہارے کئی ناریاں اپنے ناروں کی باہوں میں باہیں ڈالے بہ ظاہر جھیل کی لہروں کا نظارہ کر رہی تھیں۔

ست پڑا جھیل قدرتی نہ سہی، تخلیقی حسن کا بے مثال نمونہ ہے۔اسے ایک تفریحی مقام بنانے کی ارادی کو شش کی گئی ہے۔ یہاں سے اگر انسانی تجاوزات مثلاً ریستوران،  ہوٹل، ٹک شاپ،  ٹکٹ گھر اور لو ہے کی ریلنگ ہٹا دی جائیں تو بلاشبہ جھیل کے قدرتی حسن میں اضافہ ہو جائے گا لیکن قدرتی حسن میں صرف آبی لہریں ہوتی ہیں ، خوب روؤں کے گرد رنگین آنچلوں کے لہریے نہیں ہوتے۔ انسانی ہاتھوں سے کیے گئے سولہ سنگھار نے جھیل کو ایک انوکھابانکپن عطا کر کے ویکلی پکنک سپاٹ اور ڈیلی ڈیٹنگ سپاٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔

 محبوب اور کامران اپنے کنوار پن کی مناسبت سے کچھ زیادہ ترنگ میں تھے۔

 ’’ اب میں شام کے وقت سکردو کے خواتین باز ار کا چکّر لگانے کے بجائے یہاں آیا کروں گا۔ ‘‘ محبوب نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ ’’غضب خدا کا۔۔  ست پڑا لیک پر اتنا رنگین ماحول ہوتا ہے اور مجھے علم ہی نہیں۔ ‘‘

 ’’بچے جمورے کو ئی بھی تنہا نہیں ہے، جوڑے مکمل ہیں۔ یہ نہ ہو کہ کسی دن پٹ پٹا کر ہوسٹل پہنچو۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’ ونڈو شاپنگ کا اپنا لطف ہے اور شاپ لفٹنگ کا موقع مل گیا تو دل والے دلہنیا لے جائیں گے، شاہ جی دیکھتے رہ جائیں گے۔ ‘‘

 ’’شاپ لفٹنگ؟۔  شکل دیکھی ہے اپنی ؟‘‘ شا ہ صاحب نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

 ’’اب یہاں بھی اپنی شکل دیکھوں ؟آپ ذرا اُدھر دیکھیں۔ ‘‘ محبوب نے ریلنگ کے قریب کھڑے ہوئے ایک جوڑے کی طرف اشارہ کیا۔‘‘ حور کے پہلو میں لنگور ہے کہ نہیں ؟ اور یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ حور گفتگو کر رہی ہے اور لنگور ہونقوں کی طرح صرف دُم۔ سوری سَر ہلا رہا ہے، بولنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا۔یہ آہو چشم زہرہ جبیں مجھے لفٹ کرائے تو میں اس کی مدھ بھری آنکھوں پر ایک طویل غزل کہہ سکتا ہو ں۔ ‘‘

 ’’تو غزل کہہ سکتا ہے ؟بقلم خود؟۔ اقبال اور غالب کے زبان زد عام اشعار تجھے یاد نہیں رہتے، غزل کہے گا۔‘‘ سیف نے مضحکہ اُڑانے والے انداز میں کہا۔

 ’’ اس کی آنکھوں پر میں پوری غزل کہہ سکتا ہو ں۔ ‘‘ محبوب نے ڈھٹائی سے کہا۔

 ’’ اگر تم ایک مصرع بھی وزن میں کہہ دو تو بو ٹنگ کا خر چ شاہ صاحب کا۔ ‘‘ سیف نے محبوب کو چیلنج کیا۔

 ’’اوئے میرا کیوں ؟۔۔ تمہارا کیوں نہیں ؟‘‘ شاہ صاحب کے کان کھڑے ہوئے۔

 ’’میر ی جیب میں پیسے نہیں ہیں۔ ‘‘ سیف نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’ مجھے یہ شر ط منظور ہے۔تم شاہ صاحب کی جیب سے پیسے نکلواؤ اور ٹکٹ خریدو۔‘‘

 ’’پہلے مکمل مصرع تو سناؤ۔‘‘ سیف نے فرمائش کی۔

 ’’اِن آنکھوں کی مستی کے دیوانے کروڑوں ہیں۔ ‘‘ محبوب نے فوراً کہا۔

 ’’ کیا بکواس ہے،  یہ ایک انڈین گانے کے بول ہیں۔ ‘‘ شاہ صاحب بھڑک  اٹھے۔

 ’’ہرگز نہیں !۔۔ یہ میرا مصر ع ہے۔ اس پر بھی شرط لگا لیں۔ ‘‘ محبوب نے کہا۔

 ’’ہزاروں کی جگہ کروڑوں کہہ دینے سے مصرعے کی ملکیت نہیں بدل جاتی۔ ‘‘ سیف نے شاہ صاحب کا ساتھ دیا۔

 ’’کیوں نہیں بدل جاتی؟‘‘ محبوب نے ہٹ دھرمی سے کہا۔ ’’ ایمانداری سے بتائیں یہ شعر کس کاہے ؟‘‘

تم تو ہو صرف آدمی، ہم ہیں پولیس کے آدمی

بیٹھے ہیں راہگزر پہ ہم، کو ئی گزر کے جائے کیوں

 ’’پتا نہیں کس کا ہے۔ ‘‘ شاہ صاحب نے جھلا کر کہا۔ ’’لیکن تم سو فیصد فر اڈ کر رہے ہو۔ ‘‘

 ’’ شعر انور مسعود کا ہے اور محبوب نے اپنی کلاس کے بچّوں کو اس شعر کا زبردست رٹّا لگوایا ہے۔یہ شعر فنکشن کے ایک خاکے میں شامل ہے۔ ‘‘ صابر نے انکشاف کیا۔

 ’’تم سے اتنی تفصیل کس نے پوچھی ہے؟یہ بتاؤ دوسرا مصر ع انور مسعود کا ہے یا نہیں ؟‘‘

 ’’پورا شعر ہی اُس کا ہے مگر۔۔‘‘

 ’’ اللہ تمہیں حج کرائے۔ ‘‘ محبوب بات کاٹتا ہو بولا۔ ‘‘ اس مصرعے میں ’’ہمیں اُٹھائے ‘‘ کے بجائے ’’ گزر کے جائے‘‘ کہنے سے مصرعے کی ملکیت بدلی کہ نہیں بدلی؟‘‘

 ’’مگر یہ پیروڈی ہے۔ ‘‘ صابر نے اعتراض کیا۔

 ’’میں نے بھی پیروڈی کی ہے۔چیلنج کر تے وقت یہ پابندی کب لگائی گئی تھی کہ پیروڈی نہ ہو؟اجازت ہو تو پورے گانے کی پیروڈی کر دوں ؟‘‘ محبوب نے ڈھٹائی سے کہا۔ اور اس ڈھٹائی کا کسی کے پاس کو ئی جواب نہیں تھا۔

 ’’چلیں جی !شاہ صاحب بسم اللہ کریں اور ٹکٹ لے آئیں۔ ‘‘ طاہر نے کہا۔

 ’’میں کیوں لاؤں ؟محبوب لائے گا۔یہ سرا سر فراڈ کر رہا ہے۔۔ یا سیف لائے جو شرط ہارا ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’شاہ جی میری جیبیں بالکل خالی ہیں ، بے شک تلاشی لے لیں۔‘‘

 ’’پھر شرط کیوں لگائی تھی؟‘‘ شاہ جی نے غصے سے کہا۔

 ’’بوٹنگ جو کرنی تھی۔ آپ ٹکٹ خریدیں تو سہی، پیسے اُدھار سمجھ لیں۔ میں جلد ہی واپس کر دوں گا۔ ‘‘

 ’’اس قسم کے اتنے اُدھار اکٹھے ہو چکے ہیں کہ تمہارے آنے والی دو تین نسلیں بھی نہیں اُتار سکتیں ، مجھے چکّر مت دو۔‘‘

 شاہ صاحب کو چکر دیا جا چکا تھا۔ وہ مربّیانہ رویہ رکھتے ہیں اور دوستانہ نوک جھونک سے قطع نظر سب لو گ اُنھیں بڑا بھائی سمجھ کر ان کی جیب پر ڈاکہ ڈالنا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔عدلیہ نے فیصلہ کیا کہ محبوب سراسر دھاندلی کر رہا ہے اور شاہ صاحب شرط جیت گئے ہیں۔اس شاندار جیت کی خوشی میں شاہ صاحب بوٹ کے ٹکٹ خریدیں گے۔شاہ صاحب نے شدید احتجاج کیا، مگر ٹکٹ خریدے۔ جھیل میں موٹر بو ٹ چلتی ہے۔آدھی جھیل کے چکر کے لیے چھ سو اور پورے چکر کے لیے ایک ہزار روپے کرایہ تھا۔

جھیل سے واپسی کے لئے ہم نے مروجہ راستے کے بجائے بیک ڈور چینل استعمال کیا اور دیر تک پچھتا تے رہے۔ہمیں سڑک تک پہنچنے کے لئے اچھی خاصی چڑھائی چڑھنی پڑی اور وہ بھی ایسے راستے پر جہاں کوئی راستہ نہیں تھا۔یہ نام نہاد شارٹ کٹ استعمال کرنے کی تجویز سیف کی تھی، اُسے صراط مستقیم سے بھٹکنے اور بھٹکانے پر سزا ملنا فطری عمل تھا، میں  بلا وجہ پکڑا گیا۔ میرے ٹخنے پر ایک پتھر لگا اور درد کی شدید لہر اُٹھی۔ شکر ہے کہ درد کی گولیاں اور مانع درد جیل کی ٹیوب جیب میں پڑی تھیں۔میں نے اور سیف نے درد کی گولیاں کھائیں اور مالش کی تو پندرہ بیس منٹ بعد آہستہ آہستہ چلنے کے قابل ہوئے اور گرتے پڑتے سڑک تک پہنچ گئے۔

 ’’جی جناب ؟چل لیں گے یا پورٹر وغیرہ وغیرہ کا انتظام کریں ؟جیپ شیپ کی امید تو کم ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے ہم سے پوچھا۔جس کا جواب سیف نے دیا:

چوٹوں سے رکنے والے او شاہ جی نہیں ہم

سو بار کر چکا ہے تو امتحان ہمارا

 اس منہ توڑ جواب کے بعد چون و چراں کی گنجائش نہیں تھی اس لئے میں کچھ کچھ لنگڑاتا ہوا رواں دواں رہا۔

ست پڑا جھیل کے اختتام اور ست پڑا نالے کے آغاز پر شاہ صاحب رک گئے۔

 ’’یہ اُس بند کے آثار ہیں جو انچن نے بنوایا تھا۔ ‘‘ شاہ صاحب نے اس رکاوٹ کی طرف اشارہ کیا جس نے جھیل کے منہ زور پانی کو روکا ہوا تھا۔

 ’’صرف آثار کیوں ؟پورا بند باقی ہے، ورنہ جھیل کا سارا پانی نالے میں بہہ جاتا۔ ‘‘ سیف نے اعتراض کیا۔

 ’’ جی نہیں !اس بند کا صرف پشتہ باقی ہے۔ بالائی حصہ جس میں پانی کی نکاسی کے درّے تھے ختم ہو چکا ہے۔ ‘‘

 ’’یہ درّے آپ کو خواب میں نظر آئے تھے؟‘‘ سیف نے طنزیہ انداز میں کہا۔

 ’’میں نے پڑھا ہے۔ ‘‘

 ’’شاہ جی آپ اتنے پڑھاکو کب سے ہو گئے ہیں ؟اتنی علمیت آپ نے پہلے  کبھی نہیں جھاڑی۔محبوب کی بات تو مذاق تھی، آپ سچ مچ سکردو پر کوئی ر یسرچ پیپر تو نہیں لکھنا چاہتے؟‘‘ صابر نے سنجیدگی سے پوچھا۔

 ’’یار میں آج کل سکردو کی تاریخ کا مطالعہ کر رہا ہوں۔تمہیں یاد ہو گا کہ شاہد کا فون آیا تو اس نے کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے لئے کسی اچھے گائیڈ کو منتخب کر لیا جائے۔ علی شیر خان انچن اور گل خاتون کے بارے میں گفتگو سن کر ان کی کھوجی طبیعت کا اندازہ ہوا تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ سکردو کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کر ہی لی جائیں۔ ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی برقرار رہے گی اور میری معلومات میں اضافہ ہو گا۔اس لیے آج کل میرے فارغ پیریڈ لائبریری میں گزرتے ہیں۔‘‘

 ’’شاہ جی ! آپ نے مجھے بہت زیادہ زیر بارِ احسان کر دیا۔آپ صرف میری دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے تاریخ جیسا خشک مضمون پڑھ رہے ہیں ؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’کون کہتا ہے کہ سکردو کی تاریخ خشک ہے؟یہ ایک دلچسپ دیومالائی داستان ہے اور میں آپ پر کوئی احسان نہیں کر رہا اپنی معلومات میں اضافہ کر رہا ہوں۔‘‘

 ’’ اس بند کے بارے میں آپ نے کیا پڑھا ہے؟‘‘

 ’’برطانیہ کی تذکرہ نویس مس ڈنکن نے بیسویں صدی کے شروع میں یہ ڈیم دیکھا تھا۔اس کے مطابق یہ اپنے وقت کا جدید ترین ڈیم تھا۔ اس میں اوپر نیچے نکاسی کے دروازوں کی دو قطاریں تھیں اور ہر قطار میں پانچ دروازے تھے۔اُس نے دروازوں کی پیمائش کا بھی ذکر کیا ہے جو اس وقت میرے ذہن میں نہیں۔ اب یہ دروازے وغیرہ ختم ہو چکے ہیں اور صرف نیچے کا پشتہ باقی ہے۔‘‘

 ’’ مس ڈھکن آ پ کو کون سے جنم میں اور کہاں ملی تھیں ؟‘‘ محبوب نے پوچھا۔

 ’’لائبریری میں !اگر تمھیں نوشی گیلانی کے دیوان سے فرصت ملے تو باقی کتابوں پر بھی۔ ۔۔۔‘‘

 ’’ہائے ہائے۔ کیا یا د دلا دیا ظالم شاہ جی۔‘‘ محبوب نے شاہ صاحب کو بات پوری نہ کرنے دی۔ ’’ آ پ کو سکردو میں نوشی گیلانی کا مشاعرہ یا د ہے ؟‘‘

 ’’تمھیں یا د ہے ناں ؟ یہی کافی ہے۔ ‘‘ شاہ صاحب نے اکتاہٹ ظاہر کی۔

 ’’یہ تو یاد ہو گا کہ سکر دو میں ٹریفک جام ہو گیا تھا؟‘‘ محبوب نے پوچھا۔

 ’’یا د ہے۔ ‘‘ شاہ صاحب نے بے رخی سے جواب دیا۔

 ’’ آپ کی مس ڈھکن کی آمد پر ست پڑا نالہ جام ہوا تھا؟ ‘‘

 ’’ آ ج تم لوگوں پر بے تکی بکواس کا بھوت کیوں سوار ہو گیا ہے؟کبھی کبھی کی نوک جھونک اور فقرے بازی اچھی لگتی ہے، اسے ہر وقت کی عادت بنا لیا جائے تو پھکّڑ پن کہلاتی ہے۔‘‘ شاہ صاحب کا ضبط بالآخر جواب دے گیا۔

 ’’آپ نوشی گیلانی کے مشاعرے میں گئے تھے ؟‘‘

 ’’خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے‘‘ شاہ صاحب نے بیزاری سے کہا۔

 ’’آرڈر۔۔ آرڈر۔۔ نوشی گیلانی کو بلا کہنے والے پر بد ذوقی آرڈیننس کی دفعہ تین سو دو عائد ہوتی ہے۔اگر آپ اس مشاعرے میں نہیں گئے تو یقین کریں کہ اپنی زندگی کے خوبصورت ترین سمعی و بصری شو سے محروم رہے۔‘‘ محبوب نے کہا۔

 ’’کون سا شو؟نوشی گیلانی سٹیج شو بھی کرتی ہے؟‘‘ شاہ صاحب نے حیرت سے پو چھا۔

 ’’آڈیو  ویژول شو(AUDIO VISUAL SHOW) آف شاعری، سننے میں بھی شاعری، دیکھنے میں بھی شاعری!‘‘ میں نے وضاحت کی۔

 ’’واہ واہ !کیا تفسیری نقشہ کھینچا ہے نوشی گیلانی کا، سننے میں بھی شاعری اور۔۔ اور۔۔  تاڑنے میں بھی شاعری۔ معاف کیجیے ’’ دیکھنے ‘‘ کے بجائے ’’ تاڑنے‘‘ حقیقت کے زیادہ قریب ہے، آپ کیا فرماتے ہیں بیچ اس ترمیم کے؟‘‘

 ’’مجھے ابھی تک نوشی گیلانی کو دیکھنے یا تاڑنے کا اتفاق نہیں ہوا۔میں نے آڈیو ویژول شو کا لفظی ترجمہ کیا ہے۔۔ شاہ جی آ پ بند کے متعلق کچھ فرما رہے تھے؟‘‘

 ’’اس دنیا میں کیسے کیسے بد ذوق لوگ پائے جاتے ہیں ؟ جیتی جاگتی،  ہنستی مسکراتی اور اللہ تعالیٰ کے دست خاص سے بنی ہوئی مٹی کی مورتی پر ایک فانی انسان کے لگائے ہوئے مٹی کے بے ہنگم ڈھیر کو ترجیح دے رہے ہیں ، سیدھے جہنم میں جائیں گے۔‘‘ محبوب بڑبڑایا۔

 ’’ ست پڑا ڈیم اپنے زمانے کا جدید ترین بند تھا۔‘‘ شاہ جی نے محبوب کی بات پر توجہ دیے بغیر بیان جاری رکھا۔ ’’ست پڑا نالہ دیوسائی سے آتا ہے اور موسم سرما میں دیوسائی منجمد برف کا سمندر بن جاتا ہے۔ دیو سائی کی برف گرمیوں میں پگھلتی ہے تو ست پڑا نالے کو پانی کی سپلائی شروع ہوتی ہے۔اس بند کی تعمیر سے پہلے گرمیوں میں سکردو کے شہریوں کو وافر مقدار میں پانی ملتا تھا لیکن سردیوں میں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے زندگی مفلوج ہو جاتی تھی۔بند کی تعمیر کے بعد ست پڑا جھیل وجود میں آئی۔ گرمیوں میں ست پڑا نالے کا پانی اس جھیل میں ذخیرہ کر لیا جاتا تھا اور سردیوں میں بند کے مختلف دروازے کھول کر حسب ضرورت پانی حاصل کر لیا جاتا تھا۔اس طرح سارا سال پانی کی سپلائی جاری رہتی تھی۔ اب دروازوں کا نظام ختم ہو گیا ہے لیکن یہ جھیل آج بھی سکردو شہر کے لیے آب رسانی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔‘‘

 ’’شاہ جی خدا کے لیے بس کریں۔اگر مجھے پتہ ہوتا کہ آ پ اتنی تفصیل سے تاریخ سکردو پڑھانے پرتل جائیں گے تو میں چاک اور بلیک بورڈ ویگن میں رکھوا لیتا اور ڈاکٹر صاحب آ پ سرجیکل سپیشلسٹ کے بجائے سکردو سپیشلسٹ تو نہیں بننا چاہتے ؟‘‘ سیف کے ضبط کا پیمانہ چھلک اُٹھا۔

 ’’چلا نہیں جا رہا تو سیدھی طرح بتاؤ اور پھاڑ کھانے کے بجائے درد کی گولیاں کھاؤ، ابھی منٹھل جانا ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’منٹھل چلیں یا ڈنٹھل چلیں ، تاریخِ  سکردوکا پیریڈ اب ختم کر دیں۔‘‘

 ’’ منٹھل کیا چیز ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’منٹھل ایک گاؤں ہے اور وہاں کی راک کارونگ بین الاقوامی شہرت رکھتی ہے۔‘‘

 ’’راک کارونگ؟۔۔ منٹھل میں ؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’جی جناب!یہ راک کارونگ بُدھ مت کی زیارت گاہ بھی ہے۔ ‘‘   

 ’’سکردو میں بدھ مت کی نمائندگی کرنے والی کوئی اور راک کارونگ بھی ہے؟‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب پہلے یہ تو دیکھ لیں۔ میرا خیال ہے سکر دو میں کوئی اور راک کارونگ اتنی مشہور نہیں ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’اس راک کارونگ میں مہاتما بدھ بھی موجود ہیں ؟‘‘

 ’’مائی گاڈ!آپ ابھی چند منٹ میں وہاں پہنچ جائیں گے، خود دیکھ لیجیے گا۔مہاتما بدھ ہوئے تو فرار ہو کر کہاں جائیں گے؟‘‘ سیف نے کہا۔      

 ’’آئی ایم سوری، میں شاہ صاحب کی تشخیص سے سو فیصد متفق ہوں کہ تمہیں شدید درد ہو رہا ہے۔یہ دو گولیاں اور کھالو۔‘‘ میں نے گولیاں اس کی طرف بڑھا دیں۔

منٹھل استور روڈ پر ہی واقع ہے۔ست پڑا نالے کا پل کراس کر کے ہم منٹھل جانے والی سڑک پر آ گئے۔

٭٭٭

یہ بھی تو فائر کرتی ہے بندوق کی طرح

منٹھل ایک چھوٹا سا لیکن انتہائی صاف ستھرا اور جدید طرز کے مکانات پر مشتمل خوبصورت گاؤں ہے۔گاؤں میں داخل ہوتے ہی پہلی نظر نے جس عمارت کا طواف کیا وہ منٹھل کی مرکزی جامع مسجد تھی۔ ہمارے قدم خود بخود اس پُر کشش عمارت کی طر ف اُٹھ گئے۔مسجد کے بیسمنٹ میں سنگ مر مر کے ٹائلوں سے مزیّن واش روم اور وضو خانہ بنایا گیا تھا۔مسجد کے مرکزی ہال کی تزئین و آرائش متاثر کن تھی۔یہ مسجد اس گاؤں کے مکینوں کی آسودگی اور خوش حالی کا مظہر تھی۔اس دور افتادہ گاؤں میں اتنی خوبصورت مسجد حیران کن تھی۔کہیں ڈھکی چھپی رہ گئی ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتا، لیکن عرفان کے ساتھ سکردو کے بازاروں کی خاک چھانتے ہوئے مجھے اتنی خوبصورت مسجد دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔مسجد کا  تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہم مسجد کے صحن سے گزر رہے تھے کہ ایک شعلہ سا لپکا اور ہم آواز دیکھتے رہے۔

 ’’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ؟‘‘ شعلہ جوالا کے لہجے میں غضب کی تپش تھی۔

یہ ایک قبول صورت اور نوجوان لڑکی تھی جس کا لباس کسی حد تک صاف چھپتے بھی نہیں کا انداز لیے ہوئے تھا۔ایک ہاتھ کولہے پر رکھے اور دوسرے میں مویشی ہانکنے والی چھڑی لئے و ہ ہم سے مخاطب تھی اور براہ راست میری آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔

ْ ’’ہم۔۔ ہم۔ ‘‘ میں کچھ بوکھلا گیا۔ ’’یہ مسجد دیکھنے آئے ہیں۔‘‘

 ’’مسجد میں دیکھنے والی کون سی بات ہے ؟‘‘ اُس نے قدرے خفگی سے پوچھا۔

 ’’ہم آپ کی موجودگی سے لا علم تھے۔‘‘ میں نے سنبھل کر ذو معنی انداز میں معذرت کی۔

 ’’کیا مطلب؟‘‘ اس نے تیکھے لہجے میں پوچھا۔

 ’’ ہم اتنے بیوقوف نہیں ہیں کہ آپ کے ہوتے ہوئے مسجد دیکھنے آتے۔‘‘ کامران نے معصومانہ انداز میں میرے الفاظ کی وضاحت کی۔

 ’’مگر مسجد میں دیکھنے والی کیا بات ہے؟‘‘ اس نے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ اپنا سوال دوہرایا۔اس کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ اشارے کنائے کے فن سے نا واقف نہیں۔

 ’’ اب تو واقعی کوئی بات نہیں رہی، لیکن یہ مسجد ہے تو آپ یہاں کیا کر رہی ہیں۔‘‘ کامران نے اپنا معصومانہ انداز برقرار رکھا۔

 ’’ یہ ہمارا گھر ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں حق ملکیت کا بانکپن تھا۔

 ’’آپ کا گھر؟ میں مسجد کو خدا کا گھر سمجھتا تھا۔ ‘‘ کامران نے کہا۔

 ’’مسجد تو خدا کا گھر ہی ہے۔ ہمارا گھر مسجد کے پیچھے ہے۔‘‘ اُس نے مسجد کی دیوار کے ساتھ عقب میں جاتے ہوئے ایک راستے کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’ آپ کے گھر کا راستہ مسجد کے صحن سے گزرتا ہے؟‘‘

 ’’ہمارا گھر مسجد کے احاطے میں ہے۔ امام کا گھر مسجد کی جگہ پر ہی بناتے ہیں ناں۔‘‘

 ’’اوہ تو آپ امام مسجد کی بیٹی ہیں۔‘‘

 ’’جی بالکل۔ ارے ارے۔۔  آپ کدھر جا رہے ہیں ؟‘‘ اُس کی نظر طاہر پر پڑی جو مسجد کی دوسری دیوار کی طرف جا رہا تھا۔

 ’’ادھر کیا حرج ہے؟کیا یہ بھی آپ کے گھر کا راستہ ہے ؟‘‘ طاہر نے پوچھا۔

 ’’ادھر ہمارے جانوروں کا گھر ہے۔‘‘

 ’’جانوروں کا گھر؟۔۔ یعنی مویشیوں کا کمرہ؟‘‘ طاہر حیران ہوا۔

 ’’ ہاں !میں اُنھیں چارہ ڈالنے جا رہی تھی۔‘‘ اُس نے گیلری کی طر ف جاتے ہوئے کہا۔

چند منٹ بعد وہ چارہ ڈال کر واپس آئی اور ایک نگاہ غلط انداز ہمارے اوپر ڈالتی ہوئی اپنے گھر کی طر ف چلی گئی۔ کامران کی نظروں نے دروازے تک اسکا تعاقب کیا۔

 ’’یہ کامران گیا کام سے۔ ‘‘ محبوب نے تبصرہ کیا۔

 ’’کیوں ؟‘‘ میں نے پوچھا

 ’’اب یہ روزانہ اس مسجد کا طواف کیا کرے گا۔‘‘

 ’’یار ایمان سے بتاؤ، طواف کے قابل ہے یا نہیں ؟‘‘ کامران نے  پوچھا۔

 ’’ہے تو سہی۔ ‘‘ محبوب نے اعتراف سے کہا۔

 ’’آپ لوگ ہر قابل دید چہرے پر نظر پڑتے ہی اس کے روزانہ طواف کے منصوبے باندھنے لگتے ہیں۔ کیا یہ طواف آپ پر فرض ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’فرض تو نہیں ہے۔۔ واجب ہے۔‘‘ کامران نے جواب دیا۔

ہم نے مویشیوں کے کمرے کا جائزہ لیا۔یہ اتنا غلیظ تھا جتنا مویشیوں کے کمرے کو ہونا چاہیے اور یہاں ایک گائے اپنے لختِ جگر کے ساتھ لنچ فرما رہی تھی۔ اس دلکش عمارت کے دونوں پہلوؤں میں آبادی کا یہ انداز ہمیں پسند نہ آیا۔ امام مسجد کے لیے مسجد سے باہر گھر بنا دیا جاتا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا۔

 ’’بہت بڑا مضائقہ تھا۔‘‘ کامران نے فرمایا۔

ْ ’’کیا مضائقہ تھا؟‘‘ طاہر نے تڑخ کر پوچھا۔

 ’’اس امام زادی کا دیدار کیسے ہوتا؟‘‘ کامران نے اس سے زیادہ تڑخ کر جواب دیا۔

مسجد سے نکل کر ہم نے  منٹھل کا جائزہ لیا۔ گھروں کے دروازے کھلے تھے اور تقریباً ہر گھر میں ایک چھوٹا سا باغیچہ موجود تھا جسے انتہائی خوبصورتی سے سجایا اور سنوار ا گیا تھا۔گھروں میں ، مویشیوں کے باڑ ے میں اور کھیتوں میں روزمرہ کاہرکام خواتین سر انجام دے رہی تھیں۔سکردو میں صنف نازک عنقا ہے تو منٹھل میں صنف کرخت کا قحط نظر آیا۔ اس کی گلیوں میں گاؤں کی گوریاں جدید ترین تراش خراش کے ملبوسات پہنے آزادانہ اور فراوانہ نقل و ’’حمل‘‘ میں ملوث تھیں۔

 ’’ یہ منٹھل ہے یا سکردو کی انارکلی؟‘‘ سیف نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا۔

 ’’انارکلی میں اب کیا رکھا ہے؟ منٹھل چیز بڑی ہے مست مست۔۔ میں حیران ہوں کہ یہ مستی ہوا کے دوش پر سوار ہو کر سکردو کیوں نہیں پہنچتی؟‘‘ کامران نے اضافہ کیا۔

 ’’شاہ جی ہم یہاں مسجد کی زیارت کرنے آئے ہیں یا مست مست انارکلی کے جلووں میں گم ہونے کا ارادہ ہے؟‘‘ میں نے شاہ جی سے پوچھا۔

 ’’آپ ان لوگوں کی احمقانہ بکواس پر توجہ نہ دیں ،  منٹھل ایک تاریخی مقام ہے۔‘‘

 ’’تاریخی؟ یہاں کون سی تاریخ پوشیدہ ہے ؟آپ ثقافتی تو نہیں کہنا چاہتے؟‘‘

 ’’جی نہیں !منٹھل کے باشندے وادیِ چھوربٹ سے ہجرت کر کے یہاں آئے ہیں۔ چھوربٹ کے کئی دیہات پر  ۱۹۷۱ء کی پارک بھارت جنگ میں ہندوستان نے قبضہ کر لیا تھا اور ان کے باشندے یہاں منتقل ہو گئے تھے۔‘‘

 ’’اوہ!یہ سب کے سب مہاجرین ہیں ؟پھر تو۔۔ مگر یہاں کوئی مرد نظر ہی نہیں آ رہا گفتگو کس سے کی جائے؟‘‘

ہم ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک بچے کی آواز آئی۔

غبارہ۔ غبارہ۔ ‘‘

ہم نے کوئی دھیان نہ دیا اور آگے بڑھتے رہے۔

پھر کورس کے انداز میں شور بلند ہوا۔ ’’غبارہ، غبارہ، غبارہ۔ ‘‘

میں سب سے پیچھے تھا۔میری نظر ایک زیر تعمیر احاطے پر پڑی جس میں بچوں کا ایک گروہ جمع تھا اور شور مچا رہا تھا۔میں نے اُن کے پاس جا کر پوچھا :

 ’’کہاں ہے غبارہ؟‘‘

 ’’تم اے غبارہ۔‘‘ ان میں سے ایک نے منہ توڑ انداز میں جواب دیا۔

 ’’میں ؟‘‘ میں ایک لمحے کیلئے ششدر رہ گیا۔یہ جواب غیر متوقع تھا۔میرا جسم بھاری تو تھا، اتنا گول مٹول ہر گز نہیں تھا کہ غبارہ کی پھبتی کا مستحق ٹھہرے۔

 ’’میں غبارہ ہوں ؟‘‘ میں نے بے یقینی اور غصّے سے پوچھا۔

 ’’بالکل غبارہ اے۔‘‘ اُس نے پورے یقین سے کہا۔

 ’’مگر کیوں ؟‘‘

 ’’تم غبارہ کا نام سن کر ادر آیا کہ نئی آیا؟‘‘

 ’’آیا تو ہوں۔‘‘ میں نے اعتراف کیا۔

 ’’پھر تم غبارہ ہوا کہ نئی ہوا؟غبارہ نئی ہوتا تو ادر کیوں آتا؟‘‘

 ’’میں غبارہ ہوں تو تم چوہے ہو؟ ‘‘ میں نے جھلّا کر کہا۔مجھے اعتراف ہے کہ میں لاجواب ہو گیا تھا اور مجھے ڈھنگ کے الفاظ سوجھ ہی نہیں رہے تھے۔

 ’’ ہم چوہا نہیں ہو سکتا، مگر تم غبارہ اے۔‘‘ اس نے وثوق سے کہا۔

 ’’تم چوہے کیوں نہیں ہو سکتے؟‘‘

 ’’امارا باپ چوہا نہیں اے تو ہم چوہا کیسے ہو سکتا اے؟‘‘

وہ انتہائی ذہین بچہ تھا، یا سوچے سمجھے بغیر بول رہا تھا۔صورت حال جو بھی ہو، وہ غبارے کا پٹھا میرے ساتھ میرے آبا و اجداد کو بھی غبارہ کہہ رہ تھا۔ میرے ساتھی زیرِ لب مسکرا رہے تھے۔ میں نے بے بسی سے اُسے گھور ا اور آگے بڑھ گیا۔مجھے ’’ نعرۂ غبارہ‘‘ کا خطرہ تھا، لیکن بچے ہمیں روانہ ہوتے دیکھ کر اپنے کھیل میں مصروف ہو چکے تھے۔    

  ہم تھوڑی دور چلے تھے کہ  منٹھل کی پہلی مردانہ شخصیت نظر آئی۔ یہ ایک ادھیڑ عمر شخص تھا جو پشت پر دونوں ہاتھ باندھے خراماں خراماں گاؤں کی طرف آ رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر وہ چونکا۔

 ’’السلام علیکم۔۔  کس کو ملنا اے؟‘‘ اس نے قدرے مشکوک لہجے میں پوچھا۔

 ’’وعلیکم السلام۔۔ ملنا تو کسی کو نہیں۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’پھر ادھر کیسے آیا اے؟‘‘ اس نے اکھڑے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

 ’’بس ذرا آپ کا گاؤں دیکھنے آئے تھے۔ ‘‘

 ’’گاؤں ؟ اِدر گاؤں میں کیا دیکھنے آیا اے ؟ادر تو کبھی کوئی نہیں آتا؟‘‘

 ’’ہم نے سنا تھا آپ سب لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ اسی لئے ہم آپ کو ملنے آئے تھے۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’ ہم آپ کو نہیں جانتا، آپ ہمیں کیسے جانتا اے؟‘‘ اس نے سخت لہجے میں کہا۔

 ’’ جانتے نہیں ہیں ، بغیر جانے آپ کو ملنے آئے ہیں۔میرا مطلب ہے ہم اُن لوگوں کو ملنے آئے ہیں جو وطن کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کر چھور بٹ سے یہاں آ گئے ہیں۔ ایسے لوگ بہت عظیم ہوتے ہیں اور ہم انہیں سلام کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ میں نے اسے مکھن لگا یا۔

 ’’ اچھا۔۔  اچھا۔ تو ایسا بولو ناں۔‘‘ اس کی آواز میں نرمی آ گئی۔ ’’ام اس وقت تقریباً تیس سال کا ہو گا، ام کو سب یاد اے۔امارا گاؤں فوج نے خالی کرایا تھا۔ ہم اُدھر ٹینٹ وغیرہ لگا کے گزارہ کر رہا تھا۔ مگر پھر امارے گاؤں پر دشمن نے قبضہ کر لیا۔اُس کی واپسی کا امید ختم ہو گیا تو ام ادر آ گیا۔ ‘‘

 ’’ آپ  وہاں کیا کام کرتے تھے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’اُدھر ام بکری پالتا تھا، امارے پاس زومو بی تھا۔‘‘

 ’’یہاں کیا کرتے ہیں ؟‘‘

 ’’ادر کاروبار کرتا اے۔‘‘

 ’’ گاؤں کے زیادہ تر لوگ کاروبار کرتے ہیں ؟‘‘

 ’’زیادہ لوگ کاروبار کرتا اے، کچھ فوج میں اے، ٹیچر بی اے اور کھیتی باڑی بی کرتا اے۔ ‘‘

 ’’ آپ اُدھر زیادہ خوش تھے یا یہاں زیادہ خوش ہیں۔ ‘‘ میں نے سیاسی سوال کیا۔

 ’’یہ کیا پوچھتا اے؟وہ اپنا وطن تھا ناں۔ اُس کو ادر سے کیسے ملائے ؟‘‘

 ’’اچھا یہ بتائیں آپ کی آمدنی وہاں زیادہ تھی یا یہاں زیادہ ہے؟‘‘

 ’’پیسہ تو اِدر زیادہ اے، کاروبار زیادہ اے ناں۔‘‘

 ’’ آپ کو واپس چھوربٹ جانا پڑ ے تو چلے جائیں گے؟‘‘

 ’’کیوں نئی جائے گا؟ اس سے زیادہ عید ہماری زندگی میں اور کیا ہو گا؟اللہ آپ کا زبان مبارک کرے اور پاکستان دوبارہ قبضہ کرے، ام فوراً واپس جائے گا۔‘‘

 ’’اور یہاں کا بزنس چھوڑ کر وہاں بکریاں چرائے گا؟‘‘ طاہر نے قدرے طنزیہ انداز میں کہا۔ جس پر شاہ صاحب نے اُسے گھورا۔

 ’’کیوں نہیں چرائے گا ؟ خوشی سے چرائے گا۔ چھوربٹ پر ام ایک سو منٹھل قربان کر سکتا اے۔ آپ کیا بولتا اے صاب؟ آپ کو پتہ ای نئیں اے کہ وطن کیا ہوتا اے۔‘‘

 ’’سوری ! آپ محسوس نہ کریں۔ ارے ہاں !ہم نے آپ کا نام تو پوچھا ہی نہیں۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’امارا نام کرمان اے۔‘‘

 ’’او۔کے کرمان صاحب، ہمیں آپ کا صاف ستھرا گاؤں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔اللہ آپ کو ترقی دے اور اپنے وطن لے جائے۔ اب ہمیں اجازت دیں۔‘‘

 ’’ابی ٹھہرو۔ آپ امارا مہمان اے ناں ؟ آپ امارے ساتھ چلے گا، چائے مائے پئے گا، پھر جائے گا ناں۔ ایسا کیسے جائے گا؟‘‘

 ’’ نہیں خاں صاحب !آپ کی مہربانی، ہمیں دیر ہو رہی ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

پیٹرو گلائف تک جانے کے لئے باقاعدہ راستہ تو یہی تھا کہ ہم ست پڑا نالے کا پل کراس کر کے دوبارہ ست پڑا روڈ پر آتے اور ایک کلومیٹر آگے جا کر دوسرا پل کراس کر کے اس چٹان تک پہنچتے جس پر کارونگ کی گئی ہے، لیکن شاہ صاحب نے شارٹ کٹ لگایا اور ہم گاؤں کے عقبی کھیتوں میں سے گزرتی ہوئی پگڈنڈیوں کے ذریعے اس چٹان نما پتھر تک پہنچ گئے جس پر کھدائی کی گئی ہے۔

 اس چٹانی پتھر یا پتھریلی چٹان کے گرد خار دار تاروں سے احاطہ بنا دیا گیا ہے جس کا بوسیدہ دروازہ مقفل تھا۔ لیکن راک کارونگ احاطے کے باہر سے بہ خوبی دیکھی جا سکتی ہے۔اس بولڈر کے مرکز میں مہاتما بد ھ اپنا معروف آ سن جمائے بیٹھے ہیں۔ مرکزی شبیہ کے چو گرد بیس مزید شبیہات ہیں۔ دو قد آ دم تصاویر اس چوکور گھیرے کے دائیں اور بائیں ایستادہ ہیں۔ تصاویر کے نیچے خطاطی کے چند نمونے ہیں۔

 ’’ شاہ جی آپ کو سکردو پر ڈاکٹریٹ مل چکی ہے۔ اس راک کارونگ کی وضاحت تو کر دیں۔‘‘ میں نے پتھر کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔

 ’’یہ؟یہ مہاتما بدھ کی شبیہات ہیں اور بدھ مت کے پیروکار یہاں عبادت کرنے آتے ہیں۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’یہ کتنی پرانی ہے؟‘‘

 ’’ میرے علم کے مطابق یہ تقریباً ایک ہزار سال پرانی ہے۔‘‘

 ’’ویری گڈ، ان کے نیچے کیا لکھا ہے ؟‘‘ میں نے خطاطی کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’اس خطاطی کا پوچھ رہے ہیں ؟یہ شاید کوئی متروک رسم الخط ہے۔ ‘‘

 ’’ درمیان والی شخصیت تو ظاہر ہے مہاتما بدھ ہیں ، باقی شخصیات کے بارے میں آپ کا کیا فرماتے ہیں ؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

 ’’میں کچھ نہیں فرماتا، آپ کا انداز بتا رہا ہے کہ آپ کچھ فرمانا چاہتے ہیں۔ آپ میرا امتحان نہ لیں اور جو فرمانا چاہتے ہیں سیدھے سبھاؤ فرما دیں۔ ‘‘

 ’’اس پیٹرو گلائف میں مہاتما بدھ کا مشہور منڈل دکھایا گیا ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔

 ’’بنڈ ل ؟ انسانوں کا بھی بنڈل ہوتا ہے؟ ‘‘ شاہ صاحب نے حیرت سے پوچھا۔

 ’’بنڈل نہیں ، منڈل۔ بدھ مت کے عقیدہ کے مطابق مہاتما بدھ کی روح ہر دور میں مختلف جسموں میں دنیا میں حاضر و ناظر رہتی ہے۔ نروان حاصل ہونے سے پہلے انہیں شاکیہ منی اور نروان حاصل ہونے کے بعد بدھ کہا جاتا ہے۔مہاتما بدھ کی پیش گوئی کے مطابق ان کے دور کے پانچ ہزار سال بعد آنے والا بدھ اس مذہب کو نشاۃ ثانیہ عطا کرے گا۔اس بدھ کو ’’ ماتریا‘‘ یا مستقبل کا بدھ کہا جاتا ہے۔آپ اسے بدھ مت کا مہدی سمجھ لیں۔اس  راک کارونگ کے درمیان میں جو شخصیت ہے وہ زمانہ حال کا بدھ ہے۔ماضی کے بدھ چوکور گھیرا بنائے ہوئے ہیں۔دائیں بائیں کھڑی ہوئی شخصیات ’’ماتریا‘‘ کے دو روپ ہیں۔ماضی، حال اور مستقبل کے بدھ کا مجموعہ منڈل کہلاتا ہے۔‘‘

 شاہ جی کے چہرے پر زلزلے کے آثار نظر آئے۔

 ’’ڈاکٹر صاحب آپ کو کیا ہو گیا ہے؟رات کو کوئی وحی وغیرہ۔ میرا  مطلب ہے الہام وغیرہ تو نہیں ہوا آپ کو؟‘‘ انھوں نے حیران پریشان ہو کر کہا۔

 ’’ اور اس کے نیچے جو تحریر ہے وہ بلتی رسم الخط میں ہے۔‘‘ میں نے بات جاری رکھی۔ ’’یہ کچھ ہدایات ہیں جو بدھ زائرین کے لئے لکھی گئی ہیں۔‘‘

 ’’آپ انہیں پڑھ سکتے ہیں ؟‘‘ شاہ صاحب نے مشکوک انداز میں سوال کیا۔

 ’’پہلی انسکرپشن کا تر جمہ۔ سوری مفہوم ہے کہ ہدایات کا یہ نادر اور مقدس مجموعہ عرصہ دراز تک پڑھا جاتا رہے گا اور آخر کار ہر فانی چیز کی طر ح مٹ جائے گا۔زائرین کو چاہیے کہ یہاں گیان دھیان میں مصروف رہیں اورنسانیت کی بھلائی کے لیے دعائیں کریں۔ اُن پر واجب ہے کہ استھان کو صاف ستھرا رکھیں اور اس تحریر کو مزید ابھار دیں۔‘‘

 ’’پہلی انسکرپشن کو ن سی ہے دائیں والی یا بائیں والی؟‘‘

 ’’بائیں والی۔‘‘ میں نے اعتماد سے کہاں۔ ’’اور دوسری ہدایت یہ ہے کہ دھرم کو پھیلانے کے لیے جسم، الفاظ اور ذہن سب کچھ استعمال کریں۔ اس راک کارونگ کے درمیان میں بھگوان کا سایہ۔۔  یعنی مہاتما بدھ ہے جو دنیا کیلئے روشنی ہے۔  اور بھگوان ہر چیز پر قادر اور بہترین منتظم ہے۔‘‘

شاہ صاحب حیرت سے منہ کھولے میر ی طر ف دیکھتے رہے۔

 ’’ تیسری تحریر کہتی ہے کہ تین دیوتاؤں کو سلام جو انسان کی نسل بڑھا تے ہیں۔ ان کی تعلیمات ابدی ہیں۔ وہ نہایت شان و شوکت والے ہیں۔یہ حقائق بہت مشکل سے سامنے لائے گئے ہیں۔کوئی یقین کرے یا نہ کرے یہ منڈل عرصہ دراز سے ہدایات کا منبع ہے۔‘‘

 ’’شاہ جی سانس لے رہے ہیں یا منڈل میں شامل ہو چکے ہیں۔‘‘ میں خاموش ہو ا تو سیف نے شاہ صاحب کے چہرے کے سامنے ہاتھ لہراتے ہوئے کہا۔

 ’’ رات آپ نے سکرود کے بارے میں کوئی کتاب پڑھی تھی؟‘‘ شاہ صاحب نے چونک کرپوچھا۔

 ’’آپ کے اُس کباڑ خانے میں سکرود کے بارے میں کوئی کتاب ہے؟‘‘

 ’’ٹھیک ہے !جب تک آپ یہ نہیں بتائیں گے کہ ان معلومات کا ذریعہ کیا ہے میں اسی جگہ احتجاجی دھرنا دیے رکھوں گا۔ غضب خدا کا !ابھی چند منٹ پہلے تک آپ سکردو کے بارے میں بالکل ان جان بن رہے تھے، اب بلتی زبان فرفر پڑھ رہے ہیں۔ خوب بیوقوف بنایا آپ نے مجھے۔‘‘ شاہ صاحب نے ایک پتھر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

 ’’میں آپ کو بے وقوف بنانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’خدائی کاموں میں دخل انداز ی کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔‘‘ سیف نے تبصرہ کیا۔

 ’’منہ بند رکھ اوئے بھورے باندر۔‘‘ شاہ جی نے اُسے خشمگیں نظروں سے گھورا۔ ’’پھر کیا سچ مچ حضرتِ جبریل تشریف لائے تھے آپ کے پاس؟‘‘

 ’’شاہ جی آپ معمولی سی بات کا بتنگڑ بنا رہے ہیں۔ سفرِگلگت کے دوران مجھے پیٹرو گلائف سے دلچسپی ہوئی تھی۔ میں نے پاکستان کے مشہور پیٹرو گلائف کا مطالعہ کیا تو سکرود کی اس منفرد راک کارونگ کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔پاکستان میں یہ واحد راک کارونگ ہے جو بدھ منڈل کو اتنی وضاحت سے پیش کرتی ہے۔‘‘

 ’’ آپ کو برسوں پہلے پڑھا ہوا خطاطی کا ترجمہ اب تک یاد ہے؟‘‘

 ’’یہ ترجمہ نہیں مفہوم ہے۔۔  اور یہ واحد موضوع ہے جو میں نے سکردو آنے سے قبل دوہرایا تھا اور کچھ پوائنٹ نوٹ کر لیے تھے۔‘‘ میں نے اعترافِ جرم کیا۔

 ’’مائی گاڈ!آپ نے تو دماغ گھما دیا تھا، اور کیا لکھا ہے اس بارے میں ؟‘‘

 ’’میر ی معلومات کے مطابق اس بو لڈر کے مغربی جانب کچھ اورپیٹروگلائف ہونے چاہئیں۔‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب کبھی آپ پیٹرو گلائف کہتے ہیں کبھی راک کارونگ؟ یہ کیا چکر ہے؟‘‘ صابر نے پوچھا۔

 ’’کمال ہے!آپ سے مجھے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔‘‘ میں نے حیران ہو کر کہا۔

 ’’یہ اس سے زیادہ احمقانہ سوال کر سکتا ہے، آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘ کامران نے تسلی دی۔

 ’’یہ احمقانہ نہیں ، علمی سوال ہے۔عشق کے خوگر کو اس پتھریلے موضوع سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟‘‘

 ’’جنرل نالج کے لئے پوچھ رہا ہوں۔‘‘ صابر نے طنزیہ نظروں سے کامران کی طرف دیکھا۔

 ’’چٹانوں پر تصاویر کے ذریعے اظہارِ خیال کے فن کو ’’ راک آرٹ‘‘ کہتے ہیں جس کی دو بڑی قسمیں ہیں۔پکٹو گراف (PICTOGRAPH) یعنی چٹان پر پینٹ وغیرہ سے تصاویر بنانا اور پیٹروگلائف (PETROGLYPH) یعنی چٹان کی سطح میں تبدیلی کر کے تصاویر ابھارنا۔تصاویر ابھارنے کے لئے کئی طریقے استعمال کئے جاتے ہیں جن میں پہلا چٹان کاٹنا یعنی سنگ تراشی،  دوسرا چٹان کھرچنا، تیسرا ٹھونگیں مارنے کے انداز میں سوئے سے نشان ڈال کر تصاویر ابھارنا اور چوتھا چھینی اور ہتھوڑے کی مدد سے باقاعدہ کھدائی کرنا وغیرہ شامل ہیں۔اس آخری طریقے کو ’’ راک کارونگ‘‘ کہتے ہیں۔ راک کارونگ کی مدد سے تصاویر ابھارنے کے علاوہ خطاطی بھی کی جا تی ہے۔‘‘

 ’’ویری گڈ! ڈاکٹر تو آپ پتہ نہیں کیسے ہیں ؟ البتہ ٹیچر اچھے بن سکتے ہیں ،  آئیے اب دوسرے پیٹرو گلائف بھی تلاش کریں۔‘‘ صابر نے کہا۔

 ہمیں تلاش کے باوجود مزید پیٹرو گلائف نہیں ملے۔

بدھ مت کے اس تاریخی اور نادر ورثے پر پاکستانی بھائی ’’ آثار جدیدہ‘‘ ثبت کرنے میں مہاتما بدھ کے پیرو کاروں سے پیچھے نہیں رہے۔کسی خان محبوب اور بلال حسین نے سرخ پینٹ  سے پکٹو گرافی کر کے ارباب اِقتدار کی توجہ ایک ایسے ذریعہ آمدنی کی طر ف دلائی ہے جو ابھی تک ٹیکس سپیشلسٹ وزیر اعظم کی ٹیکس بین نظروں سے اوجھل ہے۔ یہ حضرات رقمطراز ہیں :

یارو نگاہِ ناز پہ لائسنس کیوں نہیں

یہ بھی تو فائر کرتی ہے بندوق کی طرح

 ’’شاہ جی تحقیق مکمل ہو گئی ہو تو چلیں واپس؟‘‘ سیف نے پوچھا۔

 ’’چلو یار، پتہ نہیں ہوسٹل کے کمرے میں بند ہو کر تم کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘

 ’’شاہ جی اس جگہ سے نیچے نہ اتر چلیں ؟ پُل تک ذرا جلدی پہنچ جائیں گے۔‘‘ طاہر نے کہا۔

وہ چند قدم آگے تھا اور سڑک کے کنارے سے نیچے جھانک رہا تھا۔

ہم اُس تک پہنچے اور اس کے تجویز کردہ راستے کا جائزہ لیا۔یہ ایک گہری اور عمودی ڈھلوان تھی جو بلا روک ٹوک پل کے پہلو میں پہنچتی تھی۔اس راستے سے نیچے جانے کے بارے میں کچھ کہنا مشکل تھا، اوپر پہنچ جانے کے امکانات خاصے روشن تھے۔

 ’’ تم یہاں سے نیچے اتر سکتے ہو؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’کیوں نہیں اتر سکتا؟ آپ اپنی بات کریں۔‘‘ اس نے بے نیازی سے کہا۔

 ’’میں مار خور نہیں ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’غبارہ نہیں ہوں۔‘‘ شاہ صاحب نے تصحیح کی۔

 ’’ڈاکٹر صاحب کوشش تو کریں۔‘‘ طاہر نے اصرار کیا۔

 ’’میرا ہاتھ پاؤں تڑوانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ویسے بھی ٹخنے کی تکلیف ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔پاؤں مڑ گیا یا پھسل گیا تو مصیبت آ جائے گی۔‘‘ میں نے باقاعدہ راستے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔

سب نے میرا ساتھ دیا تو طاہر بھی ہمارے ساتھ آ گیا۔

 ست پڑا نالے کے پل پر کھڑے ہو کر ہم نے کچھ دیر اس کی بپھری ہوئی لہروں کی خر مستی کا نظارہ کیا، اُڑ اُڑ کر آنے والے پانی کے چھینٹوں سے لطف اندوز ہوئے اور پھر ست پڑا روڈ پر آ کر جانب سکردو روانہ ہوئے۔

راستے میں ڈیسکون کے کارکنوں کے لئے بنائی گئی کنٹین پر چائے کا وقفہ کیا گیا۔ ڈیسکون ایک ملٹی نیشنل کمپنی ہے جو ست پڑا ڈیم تعمیر کر رہی ہے۔ ڈیم کی تعمیر کا کام زور و شور سے جاری ہے اور ہیوی ڈیوٹی مشینیں دیو قامت چٹانوں کو اُکھاڑ کر اُلٹ پلٹ کرنے میں مصروف ہیں۔ ڈیسکون کے کارکنوں کیلئے ایک عارضی خیمہ بستی بسائی گئی ہے جس کی کنٹین تقریباً چوبیس گھنٹے اشیائے خورد و نوش مہیا کرتی ہے۔

آپ ست پڑا لیک پر کیمپنگ کرنا چاہتے ہیں لیکن کھانا بنانے کی زحمت سے بچنا چاہتے ہیں اور پی ٹی ڈی سی کے ریستوران کی قیمتوں سے خوفزدہ ہیں تو اس کنٹین کی خدمات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔صرف ایک چھوٹی سی ہائیکنگ کیمپنگ سائیٹ اور کنٹین کے بیچ حائل ہے۔ کنٹینمز دور طبقے کے لئے بنائی گئی ہے لیکن کچن اور کراکری کی صفائی کا معیار کسی حد تک۔  خاص طور پر مجبوری کی حالت میں قابل قبول ہے۔ باقی رہا ذائقہ؟۔۔  کیمپنگ کے دوران ذائقہ کون چکھتا ہے؟

کنٹین کے سامنے سے ہمیں ویگن مل گئی تو ہم نے ٹریکنگ پر ویگن کے سفر کو ترجیح دی۔ ہوسٹل پہنچ کر کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا، میں پتہ نہیں کہاں گرا۔میرا موڈ تھا کہ رات کے کھانے تک آرام فرما لیا جائے، لیکن کامران کو یہ منظور نہیں تھا۔

 ’’ ڈاکٹر صاحب فٹا فٹ اُٹھ جائیں۔‘‘ کامران نے میرا بازو ہلایا۔ ’’بڑی زبردست فلم ہے۔‘‘

 ’’ مجھے فلموں کا کوئی شوق نہیں۔ ‘‘ میں نے کسمساتے ہوئے کہا۔

 ’’یہ کوئی عام فلم نہیں ، خالص بالغوں والی انڈین فلم ہے۔ اس قسم کی دیسی فلمیں نایاب ہیں۔ ویڈیو شاپ والا دے ہی نہیں رہا تھا، میں بڑی سفارشوں سے لایا ہوں۔‘‘

 ’’لا حول ولا قوۃ!تم مجھے خالص کے بجائے نا خالص بالغ سمجھو اور اس خرافات سے خود ہی لطف اندوز ہوتے رہو۔‘‘ میں نے بیزاری سے کہا۔

 ’’کون سی خرافات؟‘‘ اس نے حیرانی سے کہا۔

 ’’ یہی خالص بالغوں والی انڈین فلم۔‘‘

 ’’اس میں خرافات کی کیا بات ہے؟‘‘

 ’’ بالغوں کیلئے مخصوص فلموں میں خرافات کے علاوہ اور کیا ہوتا ہے؟‘‘

 ’’یہ آپ بہتر جانتے ہوں گے۔‘‘ کامران نے شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ ’’لیکن آپ غلط سمجھ رہے ہیں ، میں دستا ویزی فلموں کی بات کر رہا تھا جو زیادہ تر یورپ میں بنتی ہیں اور جنھیں سمجھنے کے لئے ذہنی طور پر بالغ ہونا ضروری ہے، آپ بلا وجہ جسمانی بلوغت سمجھ بیٹھے۔‘‘

 ’’دو تین گھنٹے کی قید با مشقّت میری برداشت سے باہر ہے۔‘‘ میں نے جھینپتے ہوئے کہا۔ ’’اس سے بہتر ہے پیانو پر دھنیں سن لی جائیں۔‘‘  

 ’’فلم صرف ایک گھنٹے کی ہے۔۔ آپ دیکھیں تو سہی۔۔ مزہ نہ آیا تو پیسے واپس۔‘‘

 طاہر کا کمرہ نسبتاً بڑا ہے اور وہ بیڈ روم کے ساتھ ساتھ ٹی وی لاؤنج کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ میں نے بیڈ پر دراز ہو کر یہ فلم دیکھی اور فلم کا نام دیکھ کر چونکا :

Learning From Laddakh

 اس فلم کا پروڈیوسر جان پیگی تھا جس نے فلم میں کمنٹری بھی کی تھی۔ فلم ساز کرس بیم کا تعلق کینیڈا سے تھا۔اس دستاویزی فلم کا مقصد لداخ کی قدیم تہذیب سے روشناس کرانا تھا۔ فلم کے ابتدائی چند منٹ جدید لداخ کے تعارف میں صرف کئے گئے تھے۔اس کے بعد بیس منٹ تک لداخ کی قدیم ثقافت اجاگر کی گئی تھی۔اس حصے کا آغاز ایک بہت بڑی بانسری نما بین یا بین نما بانسری بجاتے ہوئے لنگوٹی پوش لداخی باشندے نے کیا اور پھر لداخی ثقافت خصوصاً رقص اور مقامی رسم و رواج کے بارے میں بتایا گیا۔ اس کے بعد لداخ کو مغربی انداز کی تہذیب و تمدن اپناتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ فلم کا بنیادی مقصد یہ نکتہ اجاگر کرنا تھا کہ جدید تبدیلیوں نے لداخ کے باشندوں سے اُن کا روایتی تہذیبی و ثقافتی اثاثہ چھین لیا ہے جو امداد باہمی اور معاشرتی میل جول پر مشتمل انمول آبائی ورثہ تھا۔

 فلم کی زبان انگلش تھی لیکن چند کرداروں نے مقامی زبان استعمال کی تھی جس کے ترجمے پر مشتمل انگلش سب ٹائٹل چلتے رہے تھے۔ فلم دلچسپ اور معلوماتی تھی جس میں علاقائی ثقافت کے رنگا رنگ پہلوؤں سے عمومی دلچسپی کا تاثر پیدا کیا گیا تھا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ فلم اتنے اہتمام سے مجھے کیوں دکھائی گئی؟

 ’’ڈاکٹر صاحب ! فلم کیسی لگی آپ کو؟‘‘ فلم کے اختتام پر کامران نے پوچھا۔

 ’’یہ فلم لداخ کی ثقافت اجاگر کرنے کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔‘‘

 ’’اور یہ اچھا ذریعہ سکردو کی اسلامی ثقافت کے خلاف استعمال ہو چکا ہے۔‘‘

 ’’ کیا مطلب؟اس فلم میں سکردو کا نام تک نہیں آیا۔‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’ ایک طالب علم نے کچھ خیالات پیش کئے ہیں۔  آپ نے سنے؟ ‘‘

 ’’جی ہاں۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں سکول میں انگلش اور اردو پڑھائی جاتی ہے اور مادری زبان سے دور رکھا جاتا ہے۔‘‘

 ’’ جی! اور یہ خیالات سکردو کی نوجوان نسل کے ذہنوں میں ٹھونسنے کیلئے یہ فلم بڑی راز داری سے استعمال ہوتی رہی ہے، اور اب بھی ہوتی ہے۔ ‘‘ کامران نے کہا۔

 ’’میں تمھارا مقصد نہیں سمجھا۔۔ اس کا سکردو سے کیا تعلق؟ ‘‘

 ’’  بلتستان میں ایک تنظیم سرگرم عمل ہے جسکا نصب العین ہے کہ  بلتستان میں قدیم بلتی ثقافت اور بلتی زبان کو فروغ دیا جائے تا کہ  بلتستان کی الگ شناخت قائم ہو سکے۔ اس فلم کے ذریعے  بلتستان کے نوجوانوں کو آگاہ کرنا مقصود تھا کہ اُن کے قدیم ثقافتی روابط پاکستان کے بجائے لداخ اور تبت کے ساتھ استوار تھے جہاں بلتی رسم و رواج ایک مرتبہ پھر اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ نئی زندگی حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے بر عکس بلتستان میں اسلام کی چھاپ نے بلتی ثقافت کو اس کی دلکش رنگینیوں سے محروم کر دیا ہے۔ تنظیم کا قول ہے کہ مذہب اپنی جگہ، لیکن  بلتستان کے باشندوں کا فرض ہے کہ بلتی ثقافت کو فروغ دیں جس کا آبائی وطن عرب نہیں تبت ہے۔ ‘‘

 ’’یہ کون سی تنظیم ہے؟‘‘

 ’’ یہ  بلتستان کلچرل فاؤنڈیشن کہلاتی ہے جسکے روح رواں سید عباس کاظمی ہیں۔ ‘‘

 ’’نام تو سنا ہوا لگتا ہے، کاظمی صاحب کوئی سیاسی شخصیت ہیں ؟‘‘

 ’’ ان کی مکمل ہسٹری میرے علم میں نہیں ، لیکن وہ اینٹی پنجاب نظریات کے حوالے سے ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں اور ببانگ دہل اعلان فرماتے ہیں کہ پنجاب غاصب ہے جو  بلتستان کی شناخت اور دولت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ انہیں لداخ اور تبت پنجاب کی نسبت زیادہ عزیز ہیں۔ منٹھل کے بولڈر کے گرد تاروں کی باڑھ بی۔ سی۔ ایف یعنی کاظمی صاحب نے ہی لگوائی ہے کیونکہ وہ بدھ مذہب کی نمائندہ اس راک کارونگ کو تبت اور  بلتستان کے باہمی رشتوں کے ثبوت کے طور پر زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

 ’’خیر! اس میں کوئی حرج نہیں ، وہ بولڈر صدیوں کی تاریخ کا آئینہ دار ہے۔ ‘‘

 ’’انھوں نے اندرون خانہ یہ تحریک بھی چلائی ہے کہ سکردو میں اطلاعی بورڈ اور دکانوں کے سائن بورڈ اردو کے بجائے تبتی زبان اور رسم الخط میں لکھے جائیں۔‘‘

 ’’لیکن مجھے کوئی بورڈ تبتی زبان میں نظر نہیں آیا۔ ‘‘

 ’’ اللہ کا شکر ہے کہ لوگوں نے اس مہم پر زیادہ توجہ نہیں دی اور یہ اپنی موت آپ مر گئی۔ تنظیم کی طرف سے تبّتی زبان کے قاعدے اس گمان پر مفت تقسیم کیے جاتے تھے کہ لوگوں کو تبّتی رسم الحظ سے آگاہی ہوئی تو وہ اسے اردو پر ترجیح دیں گے۔‘‘

 ’’یہ ایک تباہ کن اور ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ بلتستان اسلامی تشخص کی بنیاد پر پاکستان میں شامل ہوا، ورنہ ڈوگرہ راج کے خلاف جنگ آزادی غیر ضروری تھی۔اس پس منظر میں اسلامی ثقافت کا فروغ  بلتستان کے غیور عوام کی بے لوث جدوجہد کا خداداد انعام ہے۔ لدّاخ یا تبت سے ثقافتی ورثے کی تجدید  بلتستان کی جنگ آزادی کے شہدا کے خون سے غداری کے مترادف ہو گی۔ پنجاب کی نمائندہ زبان اردو نہیں پنجابی ہے۔ بے چاری اردو پاکستان کے کسی بھی صوبے کی نمائندہ زبان نہیں ہے۔ یہ صحیح معنوں میں قومی زبان ہے اور اسکا رسم الخط اپنا نے میں کوئی برائی نہیں ہونی چاہیے۔‘‘

 ’’ اتنی لمبی تقریر ظاہر کرتی ہے کہ فلم دیکھنا بے مقصد نہیں رہا۔‘‘

 ’’یہ موضوع ہی ایسا ہے۔زبان اور رسم الخط کسی قوم کے ذہنی بندھن کے عکاس ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان اردو ہے، پھر اسے بھارت بدر کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ دہلی اور لکھنؤ کی کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی اردو زبان کے ثقافتی و تاریخی اثاثے کو ہندی کے نام پر سنسکرت کا لبادہ کیوں پہنایا جا رہا ہے؟صرف اس لئے کہ بھارت اردو رسم الخط کو مسلم تہذیب کا نمائندہ سمجھ کر جلا وطن کرنا چاہتا ہے۔ ترجمہ کی بات اور ہے، لیکن دہلی میں دیوانِ غالب اور بانگِ درا کو سنسکرت رسم الخط میں لکھا دیکھ کر دل پر چھریاں چل گئی تھیں۔ بھارت اردو کی اسلامی شناخت ختم کر کے اسے سنسکرت رسم الخط میں قید کرنا چاہتا ہے اور چند عاقبت نا اندیش لوگ تبتی رسم الخط اپنا کر بلتستان کے اسلامی تشخص کو بدھ مت کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔ بلتستان کے اسلامی رشتوں کو نظر انداز کرنا ایک تباہ کن ثقافتی جرم ہو گا۔‘‘

اردو کے ساتھ رابطہ استوار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

 ’’ ویری گڈ! اس کا مطلب ہے آپ کو یہ فلم دکھانے کا فیصلہ غلط نہیں تھا۔‘‘ کامران نے مسکراتے ہوئے کہا۔

٭٭٭

بے لباس ہونے سے بچ گیا تو کیا منظر

وادیِ چندا کی چراگاہ کو شاہ صاحب نے چندا میڈوز کا نام دیا اور وہاں کے پھولوں اور ہریالی کی اتنی دلکش تصویر کشی کی کہ میں اسے فیری میڈوز کی چھوٹی بہن سمجھ کر اس کے درشن کرنے کے لیے بیتاب ہو گیا۔ہم چندہ جانے کے لئے گمبہ پہنچے اور بائیں ہاتھ مڑ کر سکردو کے کمبائنڈ ملٹری ہاسپٹل کے سامنے ٹیکسی سے اتر گئے کیونکہ ٹیکسی ڈرائیور کسی قیمت پر آگے جانے کے لئے رضا مند نہیں ہوا۔سی۔ایم۔ایچ کے پاس میٹل روڈ ختم ہو جاتی ہے اور چُندا تک کچا راستہ ہے۔ ڈرائیور نے بتایا کہ گمبہ سے چُندا تک پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر صرف جیپیں چلتی ہیں جن کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ ہم نے یہ سوچ کر پیدل سفر شروع کر دیا کہ جیپ آئے گی تو اُس میں سوار ہو جائیں گے۔ جیپ روڈ آہستہ آہستہ عمودی ہوتی گئی اور نشیب کا منظر دلکش ہوتا گیا، لیکن چڑھائی اتنی تکلیف دہ ہو گئی کہ ہمارا سانس پھولنے لگا۔

 ’’شاہ جی ہم چندا میڈوز جا رہے ہیں یا ماؤنٹ چندا سر کرنا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

شاہ صاحب خود بھی کچھ بوکھلائے بوکھلائے لگ رہے تھے اور گھبرائی ہوئی نظروں سے اردگرد کا جائزہ لے رہے تھے۔

 ’’میرا خیال ہے ہم غلط راستے پر آ گئے ہیں۔‘‘ شاہ صاحب نے شرمندگی سے کہا۔

 ’’ کیا مطلب شاہ جی؟‘‘ محبوب چلتے چلتے رک گیا۔

 ’’پچھلے سال ہم نیچے والی سڑک سے چُندا گئے تھے۔‘‘

 ’’ان دونوں راستوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اُس خوبصورت راستے کو بھول کر اس نامعقول جیپ ٹریک پر ٹھوکریں کھانے کا مطلب اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے کہ آپ کی عقل آپ سے پہلے چندا میڈوز کی گھاس چرنے چلی گئی ہے؟‘‘ محبوب نے جھلا کر کہا۔

 ’’محبوب سامنے ہو تو بڑے بڑوں کی عقل گھاس چرنے چلی جاتی ہے، میں کس کھیت کی مولی۔ سوری  مُولا ہوں ؟‘‘ شاہ جی نے عاجزی سے کہا۔

نیچے والی سڑک خوبصورت لینڈ سکیپ سے گزر رہی تھی اور ایک پہاڑی نالا سڑک کے ساتھ ساتھ بہہ رہا تھا۔سڑک کے اطراف کا ماحول کافی سر سبز تھا اور جگہ جگہ درختوں کے جزیرہ نما جھنڈ تھے۔ یہ جیپ ٹریک جس پر ہم ’’سنگ نور دی‘‘ کر رہے تھے سو فیصد سنگلاخ تھا اور چاروں طرف پتھر ہی پتھر نظر آتے تھے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ مطلع ابرآلود تھا ورنہ یہ پتھر تپ جاتے اور ہمیں بھی تپا دیتے۔ہم نے پانی ساتھ لانے کی زحمت نہیں کی تھی اور راستے کے مزاج کو دیکھتے ہوئے چُندا سے پہلے پانی ملنے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تھا۔

 ’’شاہ جی میرا بس چلے تو آپ کے ساتھ وہی سلوک کروں جو مختاراں مائی کے ساتھ ہوا تھا۔ ‘‘ محبوب نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

 ’’محبوب کے ظلم و ستم ہنس ہنس کر سہنا حضرت غالب کی سنت ہے۔ ‘‘ شاہ جی نے ہنستے ہوئے کہا۔

 ’’ شاہ جی سنجیدہ ہو جائیں ورنہ۔۔ ؟‘‘

 ’’آہ۔۔ ابھی تو میں جوان ہوں اور اتنا بے سکت نہیں ہوں کہ محبوب کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے منہ ماری نہ کروں۔‘‘ شاہ صاحب نے شوخی سے کہا۔

محبوب بظاہر روٹھے ہوئے انداز میں ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔۔ مقصد تھوڑی دیر سستانا تھا۔ شاہ صاحب بھی اس کی زد سے دور ایک پتھر پر بیٹھ کر گنگنانے لگے:

اٹھو دلدار چلو چُندا کے پاس چلو

شاہ جی جھینپ مٹا رہے تھے، لیکن میری نظر میں وہ بے قصور تھے۔ جیپ ٹریک کے آغاز پر ’’چُندا۔ چار کلومیٹر‘‘ کا سنگ میل دیکھ کر ہم تینوں کے قدم بے ساختہ اسی ٹریک کی طرف اٹھے تھے، کسی اور راستے کا دھیان ہی نہیں آیا تھا۔ اب واپسی کی گنجایش نہیں تھی اس لئے مائل بہ لڑھکان رہے اور محبوب کی زبان قدم قدم پر شاہ صاحب کی شان میں گوہر افشانی کرتی رہی۔ سڑک گھومتی ہوئی اوپر جا رہی تھی۔اس گھمن گھیری سے بچنے کے لئے ہم نیچے کھڑے ہو کر اوپر کا جائزہ لیتے اور سڑک کے آثار و شواہد کا تعین کر کے سنگ پیمائی کرتے ہوئے براہِ راست اوپر پہنچ جاتے۔ مجھے یہ انداز راس نہ آیا اور ایک مقام پر لڑکھڑانے کی وجہ سے ست پڑا نژاد پاؤں کی موچ ایک انگڑائی لے کر بیدار ہوئی اور درد کی شدید لہر پیدا کرنے کا باعث بنی۔ میں نے مجبوراً آرام کا وقفہ کیا اور پانی کے بغیر درد کی گولیاں بہ مشکل حلق سے اُتاریں۔ درد کی شدت میں افاقہ ہوا تو یہ شارٹ کٹانہ پالیسی ترک کر کے راہِ راست پر آ گیا۔

تقریباً دو گھنٹے بعد چڑھائی ختم ہوئی اور فطرت نے ہماری مشقت کا معاوضہ پسینہ خشک ہونے سے پہلے عطا کر دیا۔ پوری کی پوری وادی چُندا ہمارے قدموں میں بکھیر دی گئی۔ ہم نیچے والی سڑک سے آتے تو یہ وسیع المنظر کینواس دیکھنے سے محروم رہتے جس پر فطرت کے لازوال مصوّر نے چہار اطراف پہاڑ، درمیان میں پیالہ نما وادی، وادی میں گندم کے کھیت، کھیتوں کو قطع کرتے ہوئے سر سبز چارے کے قطعات، قطعات کی درمیانی روشوں پر رنگارنگ پھولوں کے تختے اور ان کے پہلو میں پکی ہوئی زرد خوبانیوں کے بوجھ سے جھکے ہوئے درختوں پر مشتمل باغات پینٹ کر دیے تھے۔ ہم نے اس منظر کو کیمرے میں قید کیا اور خوبانیوں کے گھنے باغ میں داخل ہو گئے۔ باغ میں آبپاشی کے کھالوں میں صاف و شفاف آبِ رواں موجود تھا۔ ہم نے پہلے پیاس بجھائی پھر چوری کردہ خوبانیاں دھوئیں۔

باغ سے گزر کر ہم ایک بستی میں داخل ہوئے جو روایتی طرز کے ایک کمرہ دو منزلہ قسم کے پہاڑی مکانات پر مشتمل تھی۔ گاؤں کے مرکزی چوک میں واقع امام بارگاہ مکانات کی نسبت کافی بہتر حال میں تھی۔ امام بارگاہ کے پہلو میں ایک مکان زیر تعمیر تھا۔

 ’’السلام علیکم۔ ‘‘ ہم نے مکان بنانے والوں کو سلام کیا۔

 ’’وعلیکم السلام۔‘‘ انہوں نے پر تپاک انداز میں جواب دیا۔

 ’’ آپ کی بستی میں کوئی ہوٹل ہے؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’ اوٹل ؟۔۔ اوٹل کا کیا کرے گا؟‘‘ ایک شخص نے ہاتھ روک کر پوچھا۔

 ’’ چائے وغیرہ پی لیں گے۔‘‘

 ’’ تو ایسا بولو ناں۔ آپ ابی ادر بیٹھو، ام چائے بنواتا اے۔ ‘‘

 ’’نہیں نہیں !ہمارا یہ مطلب نہیں۔ چائے اتنی ضروری نہیں ہے۔ ‘‘

 ’’اوئے نسوار خاناں۔‘‘ اُس نے ہماری بات پر توجہ دئیے بغیر ہانک لگائی۔

اس کی آواز پر گلی میں کھیلتا ہوا ایک بچہ قریب آیا تو اس نے کہا۔ ’’ گھر جا کے بولو تین مہمان آیا اے، جلدی سے چائے بناؤ۔ ‘‘

 ’’دیکھیں پلیز! آپ تکلیف نہ کریں۔ ‘‘ شاہ جی نے بچے کو پکڑ کر کہا۔

 ’’ اوئے مہمان ہو کر تکلیف کا بات کرتا ای؟تمہارے پاس مہمان آتا اے تو تمہیں تکلیف لگتا اے؟‘‘

 میں نے مسکرا کر جواب طلب نظروں سے اپنے میزبان کی طرف دیکھا۔

 ’’اچھا ٹھیک ہے۔ ‘‘ شاہ جی نے ہتھیار ڈال دیے۔ ’’لیکن فی الحال آپ رہنے دیں۔ ہم اوپر ہو آئیں ، واپسی پر پئیں گے۔‘‘

 ’’مردوں والا بات بولو،  بھولے گا تو نئیں ناں ؟‘‘

 ’’نہیں ، بالکل نہیں بھولیں گے۔۔  انشا اللہ۔ ‘‘ شاہ جی نے وعدہ کیا۔

 ’’ٹیک اے!جیسا تمہارا مرضی، مگر واپسی پر نئیں آئے گا تو ام کو افسوس ہو گا۔‘‘

 ’’ یہ کیا بنا رہے ہیں ؟‘‘ شاہ صاحب نے زیرِ تعمیر دیوار کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’ام اپنے بیٹے کی شادی بنائے گا ناں ، اس کا گھر بناتا اے۔ ‘‘

 ’’آپ کا بیٹا کہاں ہے؟‘‘

 ’’ تمہارے سامنے کھڑا  اے۔‘‘ اُس نے نسوار خان کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’یہ؟ یہ ابھی بہت چھوٹا ہے۔ اسے سکول میں داخل کرائیں۔اس گاؤں میں سکول نہیں ہے؟‘‘ میں نے کہا۔

 ’’ یہ پڑھتا وڑھتا نئی اے۔ ابی گھر کا بوجھ پڑے گا تو کام وام بی کرے گا۔ سارا دن کھیلتا اے۔ سکول بھیجو تو استاد سے لڑ کر واپس بھاگ آتا اے۔‘‘

 ’’ کتنے بچے ہیں آپ کے؟‘‘

 ’’ امارہ بارہ بچہ لوگ اے۔۔   ابی چار کو اللہ نے لے لیا۔ ‘‘ اُس نے تاسف سے کہا۔

 ’’ بارہ اور چار سولہ، آپ کی گھر والی کی صحت ٹھیک رہتی ہے؟‘‘

 ’’کون سا گھر والی؟ادر گھر والی نئیں ہوتا، گھر والا ہوتا اے۔‘‘

 ’’ میرا مطلب ہے آپ کی بیوی۔ جس کے یہ بچے ہیں۔ ‘‘

 ’’اوئے تم عورت کو گھر والی بولتا اے؟ام اتنا بے غیرت نئیں اے کہ عورت کو گھر والی بنائے۔گھر کا مالک ام اے۔‘‘ اس نے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ’’ امارا تین بیوی اے اور سب کا سب اللہ کے فضل سے بالکل ٹیک اے۔‘‘

 ’’اور تینوں ایک گھر میں رہتی ہیں۔ ‘‘ محبوب حیران ہوا۔

 ’’ امارا عورت اے تو امارے گھر میں رئے گا ناں ، اور کدر جائے گا؟ ‘‘

 ’’اچھا خیر ! آپ کے گاؤں میں دیکھنے والی کیا چیز ہے۔‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’کوئی خاص چیز تو نہیں ہے، مگر یہ علاقہ دیکھنے والی چیز ہے۔ ‘‘ اُس کے بجائے ایک اور شخص نے جواب دیا۔ یہ قدرے معمر تھا اور چنائی کرنے والوں سے دور پتھروں کے ایک ڈھیر پر بیٹھا تھا۔

 ’’ جی کیا مطلب؟‘‘ میں اس کی طرف متوجہ ہوا

 ’’ یہ گاؤں  بلتستان کا سب سے پرانا گاؤں ہے۔‘‘

 ’’یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔‘‘ میں نے اعتراض برائے اعتراض کیا۔

 ’’ہمارا باپ دادا بتاتا ہے اور ہم نے پڑھا بھی ہے۔ ‘‘

 ’’آپ نے کہاں پڑھا ہے؟ ‘‘ شاہ صاحب نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’یہ شاہ صاحب اے۔ ساتھ والے گاؤں کا امام اے۔ اس کے کمرے میں بوت سار ا کتاب اے۔ ‘‘ نسوار خان کے باپ نے تعارف کروایا۔

 ’’ اوہ ویری گڈ۔۔  آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ‘‘ ہم نے آگے جا کر گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔

 ’’ ہمیں علم ہے کہ چُندا   بلتستان کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہے۔اس کے علاوہ کوئی خاص بات آپ کے علم میں ہے تو بتائیں۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’چُندا آس پاس کے علاقوں میں واحد آبادی ہے جو سیلاب میں ڈوبنے اور تباہ ہونے سے بچ گئی تھی۔‘‘ شاہ صاحب نمبر دو نے جواب دیا۔

 ’’کون سا سیلاب؟۔۔ یہاں سیلاب کب آیا تھا؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’ پرانے زمانے میں بہت بڑا سیلاب آیا تھا۔ کچورا کے پاس پورا پہاڑ دریا میں گر گیا تھا۔رکاوٹ کی وجہ سے دریا چڑھا اور سارا علاقہ میں پانی آ گیا۔آپ لوگوں نے آتے ہوئے پہاڑوں پر پانی کے کٹاؤ سے بنے ہوئے نشان نہیں دیکھے؟‘‘

 ’’ ہم نے غور نہیں کیا۔‘‘ میں نے اعتراف کیا۔

 ’’ تو اب دیکھ لو ناں۔‘‘ اُس نے وہیں کھڑے کھڑے اشارہ کیا۔

 ایک بہت بڑی چٹان کا پہلو ہماری نظروں کے سامنے تھا جس پر کٹاؤ کے واضح نشانات موجود تھے۔

 ’’ کئی سال تک سکردو سے کارگل تک کا علاقہ جھیل بنا رہا تھا۔آہستہ آہستہ پانی نیچے اترا تو آبادی دوبارہ بنی، ورنہ سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ ‘‘

 ’’اور چُندا سیلاب سے متاثّر نہیں ہوا؟ ‘‘ شاہ صاحب نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’ ہاں ناں۔سکردو کے بچ جانے والے لوگوں نے بھی ادھر پناہ لی تھی۔ آپ وہ پتھر دیکھ رہے ہیں ؟‘‘ اُس نے جس چٹان کی طرف اشارہ کیا اُس کے سائے میں ہم کافی دیر کھڑے رہے تھے۔گاؤں کے لئے پگڈنڈی اسی چٹان کے قریب سے نیچے اترتی تھی۔

 ’’جی دیکھ رہے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’اسے ’’چن دوا‘‘ یعنی کشتی باندھنے کا پتھر کہتے ہیں اور یہ نام سیلاب کے دنوں میں مشہور ہوا تھا۔‘‘

 ’’آپ کا مطلب ہے سیلاب کے دنوں میں یہاں کشتیاں چلتی تھیں ؟‘‘

 ’’ ہاں ناں۔ سیلاب آیا تو سکردو کے بہت سے لوگ کشتیوں میں سوار ہو گئے۔ کشتیاں پانی کے ساتھ ساتھ اوپر اُٹھتی آئیں اور اس پتھر سے باندھی گئیں۔ اُس وقت سے یہ پتھر چندوا کہلاتا ہے اور یہی لفظ بگڑ کرچُندا بنا ہے۔‘‘

 ’’وہ تو بہت ہی تاریخی پتھر ہے اور ہم اس پر توجہ دیے بغیر اس کے پاس سے گزر کر آ گئے۔‘‘ میں نے پتھر کا دوبارہ جائزہ لیتے ہوئے کہا۔

 ’’ہاں ناں۔‘‘

 ’’مجھے لگتا ہے آج کل سارے شاہ صاحبان دل و جان سے تاریخ کا مطالعہ کرنے میں مصروف ہیں۔دو چار مزید شاہ صاحبان سے ملاقات ہو گئی تو خدشہ ہے کہ میرے کلینک پر مریضوں کے بجائے تاریخی مقالات پر مشورہ لینے والے طلبا آیا کریں گے۔‘‘

 ’’آپ کو کیا فرق پڑے گا؟آپ ان سے فیس لے لیں۔ویسے ایمانداری سے بتائیں کہ تاریخ دلچسپ ہے یا نہیں ؟یہ باتیں جو امام صاحب نے بتائیں میرے علم میں نہیں تھیں۔‘‘

 ’’پھر آپ یہاں کس سلسلے میں آئے ہیں ؟‘‘ محبوب نے پوچھا۔

 ’’میں ڈاکٹر صاحب کو چندا کی چراگاہ دکھانے لایا ہوں جسے شاہد اینڈ کمپنی نے چندا میڈوز کا نام دیا تھا۔  وہ بہت خوبصورت اور گل و گلزار میدان ہے۔ ‘‘

 ’’میدان ؟۔۔ میدان تو ابھی بہت اوپر ہے۔‘‘ مولوی صاحب نے کہا۔

 ’’اچھا ٹھیک ہے۔ ہم اُدھر کا چکر لگا کر آتے ہیں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ ‘‘

 ’’شکریہ مکریہ کا ضرورت نئیں اے۔تم ہمارا چائے پی کے نئیں گیا تو ام قیامت والا دن تمہارا گریبان پکڑ کے چائے پلائے گا۔‘‘ پدرِ نسوار نے کہا۔

 ’’حشر کے دن بھی چائے پلائے گا؟‘‘ شاہ صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ اس دن تو پہلے ہی بہت گرمی ہو گی۔ٹھنڈی ٹھار سیون اپ یا پیپسی نہیں مل سکتی؟‘‘

 ’’اوئے تم کیسا مرد اے؟ اتنا جلدی بات بدلتا اے ؟ابی چائے مانگتا تھا، اب سیون اپ مانگتا اے۔ام گرما گرم چائے پلائے گا۔‘‘ اس نے ہٹ دھرمی سے کہا۔

 ’’پھر تو ہم یوں گئے اور یوں آئے، اللہ سب کو حشر کے روز پیش کی گئی گرما گرم چائے سے محفوظ رکھے۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا اور ہم ان سے ہاتھ ملا کر آگے روانہ ہوئے۔

 ’’ یوں گئے اور یوں آئے ؟ آپ چند ا میں صرف چراگاہ دکھانے لائے ہیں ؟ ‘‘ محبوب نے جارحانہ انداز میں پوچھا۔

 ’’میں صرف دکھانے لایا ہوں۔  تم مستفید ہونا چاہو تو مجھے دلی خوشی ہو گی۔ ‘‘

 ’’شاہ جی صرف چند منٹ پہلے آپ محبوب کو مسکے پہ مسکہ لگا رہے تھے، اب گھاس کھلانے پر اتر آئے ہیں۔اتنی توتا چشمی کا مظاہرہ تو توتا بھی نہیں کرتا۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’میں گھاس کھلانا نہیں ، گھاس دکھانا چاہتا ہوں۔ محبوبوں کو سبز باغ دکھاتے رہنا کامیابی کی ضمانت ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔

 ’’بجا ارشاد فرمایا۔۔  یہ سبز باغ ہے کہاں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’ یہ واٹر سپلائی لائن چند۱ میڈوز کے قریب لے جائے گی۔ ‘‘ شاہ صاحب نے پانی کے نالے کی طرف اشارہ کیا۔

ہم واٹر سپلائی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ایک پن چکی تک پہنچے۔یہ زیرِ استعمال نہیں تھی لیکن قابلِ استعمال لگتی تھی کیونکہ اس کی چرخی، پاٹ اور باقی سسٹم مکمل تھا۔پانی کے دھارے سے چلنے والی چکّیاں جو کسی زمانے میں عام تھیں اب نایاب ہو تی جا رہی ہیں۔ چند قابل استعمال چکّیوں کو محفوظ کرنے کا انتظام کر دیا جائے تو یہ کلاسیکل چکیاں غیر ملکی سیّاحوں کے لئے ’’ہاؤ فنّی‘‘ یا ’’ہاؤ مچ امیزنگ‘‘ قسم کی حیرانی کا باعث بن سکتی ہیں۔

پن چکی سے کچھ آگے ہم اُس تالاب پر پہنچے جو واٹر سپلائی کا منبع تھا۔اس کے قریب ایک اور تالاب تھا جس میں مویشی پانی پی رہے تھے۔ ایک چھوٹے سے نا ہموار میدان میں سکول یونیفارم میں ملبوس چند بچے کرکٹ کھیل رہے تھے اور دو نوجوان انھیں ہدایات دے رہے تھے۔ہم ان کے پاس گئے اور علیک سلیک کی۔ رسمی تعارف کے دوران وہ یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ ہم باقاعدہ پلاننگ کے تحت وادیِ چُندا کی سیر کرنے آئے ہیں۔ ایک نوجوان کسی سرکاری محکمے میں ملازم تھا اور یہاں کے درختوں کی دیکھ بھال پر متعین تھا۔ میں اُسے چوکیدار سمجھا تھا لیکن مکمل تعارف پر معلوم ہوا کہ اسلم جان گریجوایٹ ہے اور سپروائزر کے عہدے پر فائز ہے۔ دوسرے نوجوان کا نام شیر علی تھا۔ وہ سکول ٹیچر تھا اور اپنے سکول کی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کر رہا تھا۔

 ’’خوبانی کھائیں گے سر؟‘‘ اسلم جان نے پوچھا۔

 ’’ جی نہیں۔  شکریہ۔ ‘‘ محبوب نے کہا۔

 ’’تکلّف نہ کریں سر۔ ‘‘

 ’’ہم نے کوئی تکلّف نہیں کیا۔‘‘ محبوب نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’ آپ کے باغات سے چوری کر کے کھا چکے ہیں۔ ‘‘

 ’’ خوبانی کی چوری کہاں ہوتی ہے سر؟‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولا۔ ’’ آپ اور کھائیں ہم نے ٹھنڈی کی ہوئی ہیں۔ ‘‘

وہ ایک بالٹی اُٹھا لایا جس میں چشمے کے یخ پانی میں ڈوبی ہوئیں ٹھنڈی ٹھار دل بہار خوبانیاں موجود تھیں۔ اُس نے لڑکوں کو بھی آواز دے لی اور سب وہاں جمع ہو گئے۔ اُنھوں نے اچھی اچھی خوبانیاں چن کر ہم تینوں کو پیش کیں۔ ہر کسی کی خواہش تھی کہ ہم اُس کی منتخب کردہ خوبانیاں قبول کریں۔

 اُن کا خلوص انمول تھا۔

ان کا حسن انتخاب لاجواب تھا۔

 ان یخ بستہ خوبانیوں کی یاد اب بھی روح کی گہرائی میں شیرینی بھر دیتی ہے۔

 ’’سر آپ کو چُندا دیکھنے کا خیال کیسے آ گیا؟عام طور پر لوگ ادھر نہیں آتے۔‘‘

 ’’ہمیں شاہ صاحب لے آئے ہیں۔‘‘ میں نے شاہ صاحب کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’ آپ کو ہمارا علاقہ کیسا لگا؟‘‘ اسلم جان نے پوچھا۔

 ’’خوب صورت ہے، بلکہ بہت خوب صورت ہے۔ ‘‘

 ’’آپ گلیشیر تک چلیں گے؟‘‘ اسلم نے سوال کیا۔

 ’’کون سے گلیشیر تک ؟‘‘

 ’’یہ جو ہمارے اوپر ہیں۔ ‘‘ اسلم جان نے اوپر کی طرف اشارہ کیا۔

وہاں دو گلیشیر تھے، اور یہ وہی گلیشیر تھے جو سکردوکی مغربی پہاڑیوں پر ہر وقت اور ہر جگہ سے نظر آتے ہیں۔

 ’’ان تک پہنچنے میں کتنی دیر لگے گی؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’ تین چار گھنٹے لگ جائیں گے۔ ‘‘

 ’’اتنا وقت ہمارے پاس نہیں ہے۔یہ گلیشیر یہاں سے صاف نظر آرہے ہیں ، وہاں کیا خاص بات ہے؟‘‘

 ’’لو سر جی یہ کیا بات ہوئی؟ کھر پوچو سکر دو میں ہر جگہ سے نظر نہیں آتا ؟۔  پھر لوگ اُسے دیکھنے کیوں جاتے ہیں ؟‘‘ اُس کی دلیل نے مجھے لاجواب کر دیا۔

 ’’ ہمارے پاس وقت کم ہے۔ کیا یہ گلیشیر کسی خاص اہمیت کے حامل ہیں ؟‘‘

 ’’یہ بہت خاص  گلیشیر ہیں۔ دائیں طرف والا  گلیشیر مذہبی اہمیت رکھتا ہے۔‘‘

 ’’ مذہبی اہمیت ؟ گلیشیر کا مذہب سے کیا تعلق؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’ یہ گلیشیر ایک ولی اللہ نے اُگایا تھا۔یہ بہت مقدس  گلیشیر ہے۔ ‘‘

 ’’اچھا؟ گلیشیر اُگائے جاتے ہیں ؟‘‘ میں نے حیران ہو کر کہا۔

 ’’اور کہاں سے آتے ہیں ؟‘‘ اس نے الٹا سوال کر دیا۔

 ’’میرا خیال تھا برف باری کی وجہ سے بنتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’وہ تو بنتے ہیں ، مگر جہاں نہ بنے وہاں اُگا نا پڑتا ہے۔‘‘

 ’’مگر کیسے؟ گلیشیر کا بیج ہوتا ہے یا پیوند کاری کی جاتی ہے؟‘‘

 ’’ نہیں سر !یہ اللہ والوں کے کام ہوتے ہیں۔ حضرت سلیم سنگے صاحب مارخور کی کھال، سفید یاک کی چربی اور بہت ساری لکڑیاں لے کر اوپر گئے تھے۔وہاں وہ پورا ہفتہ عبادت کرتے رہے اور تینوں چیزوں پر کوئی عمل کیا تو یہ گلیشیر اُگ آیا۔‘‘

 ’’کون سنگے؟‘‘

 ’’حضرت جی کا پورا نام سلیم پی گانگ سنگے تھا۔‘‘

 ’’بہت خوب !اور یہ بائیں جانب والا گلیشیر؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’یہ مقپون ابراہیم کی قید سے فرار ہونے والا جن ہے جسے یہاں قید کر دیا گیا ہے۔‘‘

 ’’جن ؟۔۔ یہ کیا بے تکی بات ہے؟ آپ گریجوایٹ ہو کر ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں ؟‘‘

 ’’یہ کوئی بے تکی بات نہیں ہے۔‘‘ اُس نے اپنے لہجے کی خفگی چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ ’’یہ جن ہے جو گھوڑے کی شکل اختیار کر کے مقپون کی قید سے فرار ہو رہا تھا کہ مقپون کو علم ہو گیا۔ اُس نے اسے گلیشیر بنا کر اس پہاڑ سے چپکا دیا۔‘‘

 ’’جن کو چپکا دیا؟۔۔ میرا مطلب ہے جن گھوڑے کو؟ ‘‘

 ’’ جی ہاں !کیا آپ کو اس  گلیشیر میں گھوڑے کی جھلک نظر نہیں آ رہی ؟‘‘

 ’’ مجھے تو یہ کچھ کچھ اونٹ کا بچہ لگتا ہے۔‘‘ میں نے گلیشئر  پر نظر جما کر کہا۔

 ’’ آپ واپس جاتے وقت دوبارہ دیکھیں۔ مجھے حیرانی ہے کہ آپ اب تک اس روایت سے لا علم ہیں۔ سکردو میں رہنے والا ہر شخص اس کی حقیقت جانتا ہے۔‘‘

میں نے تائید طلب نظروں سے شاہ جی کی طرف دیکھا۔

 ’’جن بھوت کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔  لیکن یہ درست ہے کہ اس گلیشیر میں گھوڑے کی شباہت بہت نمایاں ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’گھوڑے کو غور سے دیکھیں تو گردن اور دھڑ کے درمیان ایک ادھورا کٹاؤ ہے۔ جب یہ کٹاؤ مکمل ہو جاتا ہے اور گھوڑے کی گردن بقیہ جسم سے علیٰحدہ ہو جاتی ہے تو سکردو کا راجہ مر جاتا ہے۔ ‘‘  اسلم نے پورے وثوق سے کہا۔

 ’’جی۔ای۔ای؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟۔۔ سکردو کے راجہ کی جان ایک برفانی گھوڑے کی گردن میں ہے ؟۔  مجھے حیرانی ہے کہ آپ جیسے تعلیم یافتہ لوگ ان خرافات پر سنجیدگی سے یقین رکھتے ہیں۔‘‘

 ’’آپ کو سکردو میں بے شمار ایسے لوگ مل جائیں گے جنھوں نے راجہ ذوالفقار علی کی وفات سے چند روز پہلے اس گھوڑے کی گردن کو جسم سے علیحدہ دیکھا تھا اور اُن کی وفات کی پیش گوئی کر دی تھی۔راجہ صاحب راولپنڈی کے الشفا ہسپتال میں داخل تھے اور وہیں فوت ہوئے تھے۔ان کی وفات سے پہلے سکردو کی فضا سوگوار ہو چکی تھی۔ ‘‘

 ’’سکردو کے لوگوں کو اس روایت پر پورا یقین ہے۔ ‘‘ شاہ صاحب نے ہچکچاتے ہوئے تائید کی۔ ’’تین چار لوگوں سے میری ملاقات رہی ہے جن کا دعویٰ ہے کہ اُنھوں نے راجہ ذوالفقار کی وفات کے دن اس گھوڑے کی گردن کو جسم سے علیحدہ دیکھا تھا۔‘‘

 ’’ اس گھوڑے کی ایک خصوصیت آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ‘‘ اسلم جان نے کہا۔

 ’’کون سی خصوصیت؟‘‘

 ’’ یہ گھوڑا موٹا تازہ نظر آئے تومقپون خاندان عروج کی طرف گامزن ہوتا ہے اور گلیشیر سکڑنے کی وجہ سے گھوڑا دبلا ہو جائے تو مقپون خاندان زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ ‘‘

 ’’آپ کے خیال میں آج کل یہ گھوڑا کیسا ہے؟‘‘ میں نے تجسس سے پوچھا۔

 ’’آج کل یہ کچھ موٹا ہو رہا ہے۔ ‘‘

 ’’اور مقپون خاندان عروج کی طرف بڑھ رہا ہے؟‘‘

 ’’آپ تصدیق کر سکتے ہیں کہ مقپون خاندان کو کئی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ شگرتھنگ میں اُن کی بہت بڑی جاگیر حکومت نے واپس کر دی ہے۔ کھر پوچو بھی مقپونوں کو واپس کر دیا گیا ہے۔ سکردو کی سیاست میں راجہ صاحب کی اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ کونسلر منتخب ہوئے ہیں اور اُن کا ڈیرہ دوبارہ آباد ہونا شروع ہو گیا ہے۔‘‘

 میں شاہ صاحب کی طرف دیکھنے کے علاوہ اور کیا کر سکتا تھا۔

یہ کہانیاں سن کر، اور یہ جان کر کہ گلیشیرز کے پاس ایک خوبصورت گلیشیر جھیل بھی ہے، میں ان گلیشیر ز کا دیدار کرنا چاہتا تھا لیکن اسلم کا کہنا تھا کہ راستہ انتہائی دشوار گزار ہے۔ یہ باقاعدہ کلائمبنگ تھی اور ہم لوگ معمولی لباس میں تھے یہاں تک کہ جوگزر بھی نہیں پہنے ہوئے تھے۔ فی الحال یہ پنگا لینا ممکن نہیں تھا۔

 ’’ ہم خاص طور پر وہ چراگاہ دیکھنے آئے ہیں جو بہت خوب صورت ہے اور جس میں بے شمار پھول کھلے ہیں۔ ‘‘ میں نے کہا۔

 ’’ چراگاہ؟کون سی چراگاہ؟یہاں اس کے علاوہ کوئی چراگاہ نہیں ہے۔ ‘‘ اسلم نے اس میدان کی طرف اشارہ کیا جس میں بچے کرکٹ کھیل رہے تھے۔

 ’’جی نہیں ، وہ بہت خوب صورت سبزہ زار ہے۔ہم نے ایک سال پہلے اُسے چُندا  میڈوز کا نام دیا تھا۔ ‘‘

 ’’چندا میڈوز بہت رومانٹک نام ہے، مگر یہ میڈوز ہے کہاں ؟ ‘‘ اسلم حیران ہوا۔

 ’’میں پچھلے سال چند دوستوں کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ ہم اس واٹر چینل کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس وسیع و عریض سبزہ زار تک پہنچے تھے جس میں بے شمار پھول کھلے ہوئے تھے، وہ ایک دل موہ لینے والا منظر تھا۔‘‘

 ’’اچھا اچھا۔۔  وہ ؟۔۔ وہ میدان ابھی تھوڑا سا آگے ہے، مگر اس مرتبہ اوپر سے بہت زیادہ پانی آ گیا تھا جو اب بھی وہاں کھڑا ہے، سبزہ یا پھول کیسے اُگتے؟وہاں صرف پانی ہے۔ آپ کہیں تو آپ کو وہاں لے چلوں ؟‘‘

 ’’صرف پانی ہے؟میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ شاہ صاحب کا میٹر گھوم چکا ہے۔ رنگ برنگے پھول اور وسیع و عریض سبزہ زار، محبوبوں کو دکھانے والے سبز باغ۔۔  ہونہہ! میرا خیال ہے وہ بھی ایسی جگہ ہو گی جیسی یہ ہے۔ ‘‘ محبوب نے جلے بھنے لہجے میں کہا۔

 ’’یہاں بیٹھنے کی جگہ تو ہے، وہاں صرف پانی اور کیچڑ ہے۔ ‘‘

 ’’شاہ جی چندا میڈوز چلیں ؟آپ کیچڑ میں اچھل کود کر اپنی فطری جبلت پوری کر لیں ،  میں اور ڈاکٹر صاحب مینڈک ڈانس سے لطف اندوز ہو لیں گے۔‘‘

شاہ صاحب نے اسے گھور کر دیکھا لیکن خاموش رہے۔

 ’’یہاں کئی گاؤں نظر آرہے ہیں ، ان میں اصل چُندا کون سا ہے؟‘‘ میں نے موضوع بدلنے کے لئے اسلم سے پوچھا۔

 ’’چُندا پورے علاقے کا نام ہے، چُندا نام کا ادھر کوئی گاؤں نہیں ہے۔‘‘

 ’’ان بستیوں کے کیا نام ہیں ؟‘‘

 ’’وہ کھر پاپنگمہ ہے، وہ یارکھر ہے اور وہ مہونگ پا ہے۔‘‘ اُس نے مختلف آبادیوں کی طرف اشارہ کر کے تعارف کروایا۔ ہم کافی بلندی پر بیٹھے تھے اور یہ بستیاں ہماری نظروں کے احاطے میں تھیں۔ ان میں ایک بات مشترک تھی کہ مسجد یا امام بار گاہ عام رہائش گاہوں کی نسبت نمایاں اور خوب صورت تھی۔

 ’’اوکے جناب! اب ہمیں اجازت دیں۔ ‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’سر گاؤں میں چلیں ناں۔کوئی چائے وغیرہ؟‘‘ شیر علی نے پہلی مرتبہ زبان کھو لی۔

 ’’تھینک یو ویری مچ، ہم اوپر والے راستے سے آئے تھے لیکن واپس نیچے والے راستے سے جانا چاہتے ہیں۔ آپ ہماری راہنمائی کریں۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’ایک مرتبہ پھر سوچ لیں شاہ جی!قیامت والے دن آبِ کوثر کے بجائے کھولتی ہوئی چائے پینے کو ملے گی۔‘‘ محبوب نے کہا۔

 ’’وہ جذباتی دھمکی تھی، دودھ کی بچت کا احساس ہو گا تو خان صاحب دعائیں دیں گے۔ او۔کے۔ اللہ حافظ۔‘‘ شاہ صاحب نے ہاتھ بڑھایا۔

شیر علی نے ہمیں خدا حافظ کہا۔اسلم ہمارے ساتھ ایک ننھی منی سڑک تک آیا اور اس پر ناک کی سیدھ چلتے رہنے کا مشورہ دینے کے بعد ہاتھ ملا کر واپس چلا گیا۔

ہم سو گز چلے ہوں گے کہ پگڈنڈی دو راستوں میں تقسیم ہو گئی۔

 میرے اور محبوب کے خیال میں بائیں جانب والا راستہ ناک کی سیدھ میں تھا۔ شاہ صاحب کا فرمانا تھا کہ بدقسمتی سے محبوب کی ناک کی ہڈی ٹیڑھی ہے، اُن کی ستواں ناک کی سیدھ میں دائیں جانب والا راستہ ہے۔جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ہم نے بائیں جانب والا راستہ اختیار کیا اور تھوڑی دیر بعد مہونگ پا میں داخل ہو گئے۔ مڈل سکول کی چھوٹی سی عمارت کے قریب سے گزرنے کے بعد ہم امام بار گاہ کے پاس پہنچے تو ہمیں رکنا پڑا۔ خواتین کا بے ترتیب ہجوم امام بارگاہ سے باہر آ رہا تھا۔ ہم انھیں راستہ دینے کے لیے سڑک سے ہٹ کر کھڑے ہو گئے اور خواتین ہمارے سامنے سے گزرتی رہیں۔منٹھل کے بعد یہ دوسرا گاؤں تھا جہاں کسی حد تک اٹکھیلیاں کرتی ہوئیں میک اپ زدہ خواتین گلیوں سے گزر رہی تھیں۔ اُنہوں نے ہمیں دیکھنے کے باوجود ہماری موجودگی کا نوٹس نہیں لیا۔

محبوب دیدے پھاڑ کر ساکت کھڑا ہو گیا۔

 ’’شاہ جی کام بہت خراب ہو گیا ہے۔ ‘‘ اس نے دبی دبی آواز میں کہا۔

 ’’کیوں ؟کیا ہوا؟‘‘ شاہ جی چونک اٹھے۔

 ’’مصروفیت بڑھتی جا رہی ہے، اب ہر بدھ کو مہونگ پا آنا پڑے گا، آخر اتنا مشکل ٹائم ٹیبل کیسے بنے گا؟کیا ضروری تھا کہ ہفتے میں صرف سات دن ہوتے؟‘‘

 ’’بکواس بند کر، کسی نے سن لیا تو۔۔ ‘‘

 ’’شاہ جی وہ۔  وہ چوتھے نمبر والی۔‘‘  محبوب نے بے حس و حرکت رہتے ہوئے کہا۔

 ’’کیا ہوا ہے اُسے؟‘‘

 ’’ پلیز!اُس کی کمر تلاش کر دیں۔ کہاں ہے؟کس طرف کو ہے؟ کدھر ہے؟ میرا خیال ہے کہ وہ اپنی کمر امام بارگاہ میں بھول آئی ہے۔۔ اجازت ہو تو دوڑ کر اُٹھا لاؤں ؟ ‘‘

 ’’میں کہتا ہوں منہ بند رکھ۔ کیوں چھترول کروانے کا ارادہ ہے۔ ‘‘

 ’’ جوتے نہیں مارتیں ، میرا برسوں کا تجربہ ہے۔ آپ بے فکر ہو کر کمر تلاش کریں۔‘‘ محبوب نے مدبرانہ لہجے میں کہا۔

 ’’ سکردو کا ہو گا، یہاں پڑ بھی سکتے ہیں۔ ‘‘

 ’’اچھا ؟آپ مجھ سے زیادہ تجربہ کار ہیں ؟ ‘‘ محبوب نے حیران ہو کر کہا۔

 ’’شٹ اپ پلیز۔‘‘ شاہ صاحب نے سخت لہجے میں کہا۔

 ’’شاہ جی گاؤں میں خواتین پر پردے کی پابندی نہیں تو سکردو میں کیوں ہے؟‘‘

 ’’اللہ جانے؟ہو سکتا ہے سکردو میں زیادہ کٹّر بلتی رہتے ہوں۔‘‘

 ’’ یہاں کے باشندوں کے مطابق یہ سکردو سے زیادہ قدیم بلکہ قدیم ترین آبادی ہے۔ کٹّر بلتی یہاں ہونے چاہییں۔‘‘  محبوب نے نکتہ آفرینی کی۔

 ’’یہ بھی ٹھیک ہے، پتہ نہیں اس میں کیا راز ہے ؟‘‘

 ’’ہو گا کچھ۔۔ البتّہ یہ راز فاش ہو گیا ہے کہ آپ ہر مہمان کے گلے کی گھنٹی کیوں بن جاتے ہیں ؟‘‘ محبوب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’ کیا مطلب؟‘‘ شاہ جی نے چونک کر کہا۔

 ’’مطلب صاف ظاہر ہے۔ سکردو کے نام نہاد لیڈی بازار کا روزانہ طواف کرنے کے باوجود میں نے اتنے بٹر فلائی چہرے پورے چھ ماہ میں نہیں دیکھے جتنے یہاں چند منٹوں میں دیکھ لئے ہیں۔ آپ مہمان نوازی کی آڑ میں گاؤں گاؤں جا کر آنکھیں سینکتے ہیں اور بگلا بھگت کہلاتے ہیں۔‘‘

 ’’بکواس نہ کر ایسی کوئی بات نہیں۔ ‘‘ شاہ صاحب نے محبوب کو جھاڑ دیا، لیکن اس کا اٹھایا ہوا نکتہ بے بنیاد نہیں تھا۔ویسے تو:

بے لباس ہونے سے بچ گیا تو کیا منظر

آج گاؤں میں کل کی سادگی نہیں ملتی

گاؤں میں سادگی نہ ملنا اور بات تھی، لیکن صرف گاؤں میں سادگی نہ ملنا اور شہر کا سادگی سے معمور ہونا چیزے دیگر بود۔

 ’’یہ معاملہ میری سمجھ سے بھی باہر ہے کہ شہر میں فیشن تو دور کی بات ہے فیشن کرنے والیاں ہی نظر نہیں آتیں اور مہونگ پا سکردو کا ’’سالی ووڈ‘‘ لگ رہا ہے۔شاہ جی سکردو میں الٹی گنگا، سوری ا لٹا سندھ کیوں بہہ رہا ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

 ’’ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سکردو کی خواتین کتنا فیشن کرتی ہیں ؟۔ ہم لوگوں کے گھروں میں تانک جھانک تو نہیں کرتے پھرتے؟‘‘ شاہ صاحب نے اعتراض کیا۔

 ’’شاہ جی آپ کون سی دنیا میں رہتے ہیں ؟ اس مرتبہ گجرات جائیں تو اپنے گھر میں تاک جھانک کر لیں۔ بھابھی جان اندرونِ خانہ عام لباس استعمال کریں گی اور بیرونِ خانہ جانے کا ارادہ ہو گا تو بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر آئیں گی۔۔  گولی ماریں جی بھابھی جان کو۔۔  وہ بے چاری کمر کے بغیر ہی گھر چلی جائے گی۔ دوڑ کر اسے بتا نہ آؤں کہ وہ اپنی کمر امام بارگاہ میں ہی چھوڑ چلی ہے۔‘‘ محبوب نے کہا۔

 ’’ابے چل۔۔۔‘‘ شاہ جی نے محبوب کو دھکّا دیا۔

 محبوب مجبوراً چل دیا لیکن کافی دیر تک پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا رہا۔

 ہمیں توقع تھی کہ ہم نیچے والے راستے سے واپس جائیں گے لیکن مہونگ پا سے باہر نکلے تو اُسی جیپ ٹریک نے طنزیہ نظروں سے ہمیں خوش آمدید کہا جس پر سنگ پیمائی کرتے ہوئے ہم چندا آئے تھے۔جمہوریت کا فیصلہ تو پیارے پاکستان میں کبھی درست ثابت نہیں ہوا۔۔  چُندا بیچارے کی حیثیت ہی کیا تھی؟

 جیپ ٹریک اب بلندی کے بجائے نشیب کی طرف گامزن تھا اس لئے اس کا رویہ دوستانہ تھا اور وہ راستے میں روڑے اٹکانے کے بجائے ہمیں پُش کر رہا تھا۔ ایک جگہ رک کر میں نے گلیشیرز کا جائزہ لیا، بے شک بائیں جانب والے گلیشیر میں دوڑتے ہوئے گھوڑے کی شباہت پائی جاتی تھی اور گردن اور جسم کے درمیان کٹاؤ بھی واضح تھا۔

 ہم کچھ دور چلے تھے کہ ہمیں ایک جیپ مل گئی جس نے دس روپے فی کس کرائے کے عوض ہمیں گمبہ پہنچا دیا۔

٭٭٭

خشک صحرا بھی رشک گلشن ہے

گمبہ کے چھوٹے سے بازار سے گزر کر ہم بس سٹاپ پر آ گئے اور ٹیکسی کی تلاش میں نظریں دوڑائیں جو مایوس ہو کر واپس لوٹ آئیں۔

 ’’ شاہ جی گمبہ کے بارے میں کوئی انکشاف نہیں فرمایا آپ نے؟ یہاں کوئی قابل دید جگہ نہیں ؟‘‘ محبوب نے شاہ صاحب کو اکسایا۔

 ’’خوب یاد دلایا۔ یہاں تو بہت ہی خاص چیز ہے۔ ‘‘ شاہ جی واپس مڑے۔

 ’’ارے ارے، میں مذاق کر رہا تھا آپ سنجیدہ ہو گئے۔کیا یاد آ گیا آپ کو؟‘‘

 ’’ آئیں تو سہی۔‘‘ شاہ جی سڑک عبور کرنے لگے۔

شاہ جی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہم ایک مسجد کے پاس پہنچے جو کسی زمانے میں بلتی طرز تعمیر کا نمونہ رہی ہو گی لیکن اس وقت نسبتاً خستہ حالت میں تھی اور زیر مرمت لگتی تھی کیونکہ لکڑی اور پتھر کا کام ہو رہا تھا۔

 ’’ یہ  بلتستان کی پہلی مسجد ہے اور سید علی ہمدانی نے بنوائی تھی۔‘‘ شاہ جی نے بتایا۔

 ’’آپ کا مطلب ہے یہ مسجد ساڑھے چھ سو سال پرانی ہے ؟‘‘ میں نے حیران ہو کر کہا۔

 ’’نور بخشی تو یہی دعویٰ کرتے ہیں۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’ آپ کو یقین ہے کہ سید علی ہمدانی اس مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنے سکردو تشریف لائے تھے۔ ‘‘ میں نے مسجد کی خستہ حالت کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔

 ’’صرف اس مسجد کا کیوں ؟  بلتستان میں اُن کے نام سے بے شمار مساجد اور خانقاہیں منسوب ہیں۔‘‘

 ’’ شاہ جی مجھے افسوس ہے کہ میں آپ سے اتفاق نہیں کر سکتا۔ سکردوکے بارے میں میری تاریخی معلومات محدود ہیں ، لیکن  بلتستان میں اشاعتِ اسلام کے موضوع پر میں نے کئی کتابیں پڑھی ہیں ، بلکہ پڑھ رہا ہوں۔‘‘

 ’’ان کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت شاہ ہمدان سکردو نہیں آئے اور اس مسجد کا سنگ بنیاد انہوں نے نہیں رکھا ؟‘‘ شاہ صاحب نے طنزیہ انداز میں تصدیق چاہی۔

 ’’ شاہ ہمدان ایران سے کشمیر تشریف لائے تھے جہاں اُنھوں نے چھ سال قیام کیا۔ ان کا  بلتستان تشریف لانا کسی تاریخی حوالے سے ثابت نہیں۔ ‘‘ میں نے وثوق سے کہا۔

 ’’ میں نے سکردو کی جامع مسجد کے خطیب مولانا بلال صاحب کی زبانی کئی مرتبہ سنا ہے کہ شاہ ہمدان سونے کا عصا اور سونے سے بھری ہوئی جھولی لئے زوجی لا کے راستے کشمیر سے  بلتستان تشریف لائے اور اسلام کی تبلیغ کی۔‘‘

 ’’ میں مستند تاریخی حوالہ جات کی بات کر رہا ہوں۔ میں نے حال ہی میں شاہ ہمدان کی سوانح حیات کا مطالعہ کیا ہے۔ ایک ایرانی عالم سے اس موضوع پر میری گفتگو ہو چکی ہے۔سید علی ہمدانی کا  بلتستان آنا کسی حوالے سے ثابت نہیں۔ ‘‘

 ’’ میں نے سنا ہے کہ نور بخش کے کچھ اقدامات کو عقیدتاً شاہ ہمدان سے منسوب کر دیا گیا ہے، ممکن ہے یہ مسجد حضرت نور بخش نے بنوائی ہو۔ ‘‘ محبوب نے خیال ظاہر کیا۔

 ’’اب پتا نہیں شاہ صاحب کا رد عمل کیا ہو؟ میری معلومات کے مطابق نور بخش صاحب نے کبھی بھی   بلتستان کو شرفِ باریابی نہیں بخشا۔‘‘

 ’’جی۔ای۔ای۔ ؟ڈاکٹر صاحب آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ نور بخشی فرقہ بلتستان کا دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت نور بخش یہاں آئے ہی نہیں اور ان کے فرقے کی تبلیغ اتنے بڑے علاقے میں خود بہ خود ہو گئی؟‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’آپ مانیں یا نہ مانیں حقیقت یہی ہے۔ جدید محقق متفق ہیں کہ محمد نور بخش نے پوری زندگی میں کبھی بھی ایران سے باہر قدم نہیں رکھا۔ ‘‘

 ’’اس بات پر یقین کر لیا جائے تو فرقہ نور بخشیہ کی تمام کتابوں کے ساتھ  بلتستان کی تاریخ پر لکھی گئی کئی مستند کتابیں غتر بود ہو جائیں گی۔‘‘

 ’’یہ کتابیں روایات کی بنیاد پر لکھی گئی ہیں۔  انہیں تاریخ سمجھنا زیادتی ہے۔ ‘‘

 ’’ کسی نور بخشی نے آپ کے نادر خیالات سن لیے تو آپ کا سکردو میں رہنا دوبھر ہو جائے گا۔ آپ کے خیال میں  بلتستان میں نور بخشی فرقے کا بانی کون تھا؟‘‘

 ’’ نور بخشی تعلیمات میر شمس الدین عراقی نے پھیلائی تھیں۔اُنھوں نے خود کو نور بخش کا خلیفہ ظاہر کیا اور اُن کے لیے بیعت لی۔‘‘

 ’’ آپ کی ان ناقابل یقین معلومات کا ذریعہ کیا ہے ؟‘‘

 ’’یہ معلومات نئی نہیں ہیں ، تقریباً بیس سال پہلے شائع ہونے والی عبدالحمید خاور کی کتاب ’’ شمالی علاقہ جات میں اشاعت اسلام‘‘ میں ٹھوس دلائل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ محمد نور بخش  بلتستان تشریف نہیں لائے۔تاریخِ رشیدی میں لکھا ہے کہ کشمیر میں نور بخشی فرقے کی بنیاد میر شمس الدین عراقی نے رکھی۔اس کے علاوہ میں نے شہزاد بشیر کی مشہور تصنیف Messianic Hopes and Mystical Visions  میں نور بخش کی سوانح حیات کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ اُس میں کہیں بھی ایران سے باہر کسی سفر کا ذکر نہیں۔ جس عرصے میں اُن کا  بلتستان آنا بیان کیا جاتا ہے اُس دوران وہ امیر تیمور کے بیٹے شاہ رخ کی قید میں تھے۔ ‘‘

 ’’آپ کو اتنی تفصیل سے ان کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔۔ آپ نور بخشی بننا چاہتے ہیں یا ردّ نور بخشیت پر کوئی رسالہ تحریر کر رہے ہیں ؟‘‘

’ ’جس موضوع میں امریکہ دلچسپی لینے لگے اس میں دلچسپی نہ لینا کفرانِ زحمت ہے۔‘‘

 ’’امریکہ؟آپ کا خیال ہے کہ امریکی عوام نور بخشی تعلیمات کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں ؟‘‘ شاہ صاحب نے حیران ہو کر کہا۔

 ’’خدا کرے کہ حیاتِ بُش میں یہ مقام آئے۔‘‘ محبوب نے ٹکڑا لگایا۔

 ’’ عراق نور بخشی فرقے کا آبائی وطن ہے۔ محمد نور بخش نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا اس لئے سُنّی اور شیعہ دونوں ہی اس فرقے کے مخالف ہیں۔امریکہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے لئے نور بخش کی زندگی پر تحقیق کی آڑ میں اس کے دعوائے مہدیت کی تشہیر کر رہا ہے۔اس سلسلے میں انٹرنیٹ کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے اور کئی کتابیں شائع جا چکی ہیں۔آپ گوگل سرچ انجن میں نور بخش لکھ کر سرچ کریں اور امریکہ کی قدرت کا تماشہ دیکھیں۔‘‘

 ’’یہ بعد کی باتیں ہیں ، آپ یہ بتائیں کہ شمس الدین عراقی نے نور بخشی فرقے کی تبلیغ کیوں کی ؟میرا خیال ہے کہ شمس الدین عراقی کٹر شیعہ تھے۔ نور بخشی فرقے کے بہت سے عقائد شیعہ فرقے کے خلاف ہیں۔ ‘‘

 ’’اس بارے میں آپ کی معلومات ناقص ہیں۔شمس الدین عراقی محمد نور بخش کے جاں نثار پیروکار اور سچے عقیدت مند تھے۔ نور بخش مہدی ہونے کا دعویٰ کرنے سے پہلے شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔کیا آپ کو علم ہے کہ اکثر نور بخشی حضرات سال کے چھ ماہ فقہ جعفریہ کے مطابق اور باقی چھ مہینے فقہ حنفیہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں ؟‘‘

 ’’میرے لئے یہ بالکل ناقابل یقین بات ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے حیرانی کہا۔

 ’’اور میرے لئے بھی۔ ‘‘ محبوب نے تائید کی۔

آپکے خیال میں شمس الدین عراقی  بلتستان کیوں آئے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’ظاہر ہے تبلیغ  کے لیے آئے ہوں گے۔ ‘‘ شاہ صاحب نے جواب دیا۔

 ’’اُنھیں کشمیر بدر کیا گیا تھا کیونکہ اُنھوں نے نور بخش کے نام پر شیعہ فرقے کی تبلیغ کی تھی۔ کشمیر کا راجہ اور وزیر کٹّر سُنّی تھے اس لیے عراقی کو کشمیر بدر کر دیا گیا۔ وہ نور بخش کے بیٹے قاسم فیض بخش کے خلیفہ تھے، آپ انہیں نور بخش سے الگ کیسے کر سکتے ہیں ؟ ‘‘

 ’’ لیکن نور بخشی حضرات کی لکھی ہوئی کتابوں کے علاوہ تاریخ  بلتستان پر لکھی گئی کئی مستند کتابوں کے مطابق سکردو میں گمبہ اور کھری ڈونگ کی مساجد، شگر میں مسجدِ امبوڑک اور چھ برونجی،  خپلو میں مسجدِ چق چن اور فرقہ نور بخشیہ کے مرکز کریس میں کئی مساجد کا سنگ بنیاد شاہ ہمدان یا حضرت نور بخش سے منسوب ہے۔ یہ دونوں یہاں آئے ہی نہیں تو۔۔ مدعا عنقا ہے سب کے عالم تحریر کا۔۔۔‘‘

 ’’جس نے بھی بنائی ہو۔۔ یہ سکردو کی پہلی مسجد ہے۔‘‘ محبوب نے توجّہ دلائی۔

 ’’ مسجد کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔

 ’’ تقریباً سو سال پہلے تک یہ سکردو کی واحد جامع مسجد تھی۔ سکردو کا راجہ جمعہ کی نماز یہیں ادا کر تا تھا، پھر یہ اعزاز حسین آباد کی جامع مسجد کو مل گیا جو اب تک موجود ہے اور آباد  بھی ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’ یہ مسجد آباد نہیں ہے؟‘‘

 ’’میرا خیال ہے یہاں باقاعدہ جماعت نہیں ہوتی۔گمبہ میں شیعانِ علی کی اکثریت ہے اور وہ مرکزی امام بارگاہ میں عبادت کرتے ہیں۔‘‘

بلتستان میں اشاعتِ اسلام کا سہرا اصحابِ ثلاثہ یعنی امیر کبیر سید علی ہمدانی، سید نور بخش اور میر شمس الدین عراقی کے سر باندھا جاتا ہے۔ بلتی روایات کے مطابق یہ تینوں بزرگ یکے بعد دیگرے  بلتستان تشریف لائے۔

 سید علی ہمدانی کے آبائی وطن ہمدان پر امیر تیمور گورگان نے قبضہ کیا تو حضرت ہمدانی کو جلا وطن کر دیا کیونکہ آپ کا تعلق حکمران خاندان سے تھا اور آپ نے تیموری حملے کی شدید مزاحمت کی تھی۔ آپ اپنے ستّر مریدوں کے ساتھ ایران سے کشمیر تشریف لے آئے اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دینے کے لیے مشہور و معروف درگاہ حضرت بل تعمیر کی۔بلتی روایات کے مطابق آپ چھٹے مقپون راجہ تم گوری تھم کے عہد میں ۱۳۶۵ء کے لگ بھگ کشمیر سے  بلتستان تشریف لائے اور  بلتستان میں اسلام کا پہلا مبلغ ہونے کا شرف حاصل کیا۔

محمد بن محمد بن عبداللہ کا تعلق ایران کے شہر قائن سے تھا۔یہ علی ہمدانی کے خلیفہ اسحاق ختلانی کے مرید تھے۔ ختلانی نے انہیں نور بخش کا خطاب عطا کیا اور یہ محمد نور بخش کہلانے لگے۔محمد نور بخش نے ۱۴۲۵ء میں ختلان میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور تیمور کے بیٹے شاہ رخ کو اپنے مقابل دجّال قرار دیا۔بلتی روایات کے مطابق یہ ۱۴۳۵ء سے ۱۴۴۵ء کے درمیان غوطہ چو سنگے کے عہد میں  بلتستان آئے اور اپنی تعلیمات کا پرچار کیا۔

میر شمس الدین عراقی عراق کے صوبہ سلیقان میں  ۱۴۲۹ء میں پیدا ہوئے۔عراقی نے محمد نور بخش کے بیٹے قاسم فیض بخش سے بیعت کی اور اپنی زندگی نور بخشی تعلیمات کی تبلیغ کے لئے وقف کر دی۔وہ ایک سفیر کے طور پر کشمیر آئے اور یہاں ایک طویل عرصہ گزارا۔ان کی  بلتستان تشریف آوری پر تمام تاریخ دان متفق ہیں۔انہوں نے برق مقپون بوخا کے عہد میں (  ۱۴۹۶ء تا  ۱۵۰۲؁)  بلتستان میں قیام کیا اور نور بخشی تعلیمات کی تبلیغ میں اہم کردار ادا کیا۔عملی طور پر وہ  بلتستان میں اسلام کے پہلے مبلغ ہیں اور روایت ہے کہ بوخا نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔

اہلِ  بلتستان اصحابِ ثلاثہ سے اندھی عقیدت رکھتے ہیں اور بے شمار محیر العقول واقعات اور کرامات ان سے منسوب کرتے ہیں۔ سید علی ہمدانی اور سید نور بخش کے بدھ بھکشوؤں سے روحانی اور کراماتی مقابلوں کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔  ان دونوں بزرگوں کی  بلتستان تشریف آوری کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔۔ شمس الدین عراقی کے بعد آنے والے بیشتر مبلغین شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے فقہ جعفریہ کو فروغ دیا اور اکثر نور بخشی حضرات نے شیعہ تعلیمات کو قبول کر لیا۔آج کا  بلتستان شیعانِ علی کا گڑھ ہے۔

ہم نے گمبہ کی تاریخی مسجد میں نماز عصر ادا کی۔

 ’’ڈاکٹر صاحب واپس چلیں یا ہمت ہے؟‘‘ نماز کے بعد شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’ ہمت بہت !کیا ارادے ہیں جناب کے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’واپسی کے راستے میں سندس آئے گا، وہاں نہ ہوتے چلیں ؟ ‘‘

 ’’چھوڑیں شاہ جی !سندس میں کیا رکھا ہے؟‘‘ محبوب نے کہا۔

 ’’سندس میں کتپنا جھیل رکھی ہے۔‘‘

 ’’ جھیل ہے ؟پھر تو ضرور چلنا چاہئے۔‘‘ میں نے آمادگی کا اظہار کیا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب وہاں کچھ بھی نہیں ہو گا، خواہ مخواہ خوار ہوں گے۔ ‘‘

 ’’خوار ہونے کے لیے ہی تو سکردو میں رک گیا تھا۔ ورنہ عرفان کے ساتھ کے۔ٹو بیس کیمپ نہ چلا جاتا۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔

 ’’ست پڑا لیک سے واپسی پر آپ کے پاؤں میں موچ آ گئی تھی، بیس کیمپ کا راستہ اُس سے بھی آسان ہے؟‘‘ محبوب نے حیران ہو کر کہا۔

 ’’کوشش تو کی جا سکتی تھی۔‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔

 ’’ اللہ آپ کے حال پر رحم کرے۔‘‘ محبوب نے ٹھنڈی سانس بھرکر کہا۔ ’’چلیں شاہ جی!‘‘

 سندس میں شاہ جی کے دوست ماسٹر ذاکر صاحب قیام پذیر ہیں۔شاہ صاحب کا ارادہ تھا کہ اُنہیں ساتھ لے لیا جائے تاکہ رسمِ ملاقات کے بونس میں ایک عدد گائیڈ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے؟اُن کا مکان تلاش کرنے میں دیر ہوئی تو ہم نے ذاکر صاحب سے ملاقات کا ارادہ ترک کر دیا اور ڈرائیور کو ہدایت کی کہ کتپنا جھیل چلے۔سندس کی تنگ اور کچیپ کی گلیوں سے گزر کر ہم آبادی سے باہر نکلے تو بائیں جانب کا لینڈ سکیپ اچانک تبدیل ہو گیا۔ سرخی مائل زرد رنگ کی ریت رکھنے والا صحرا ہماری نظروں کے سامنے تھا جس میں جگہ جگہ ریت کے بگولے گردش کر رہے تھے۔

 ’’ شاہ جی یہ؟۔ یہ کیا ہے؟ ‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’یہ سکردو کا صحرا ہے۔‘‘ شاہ جی نے جواب دیا۔

 ’’پہاڑی علاقے میں اتنا بڑا صحرا کہاں سے آ گیا؟‘‘ میں واقعی حیران تھا۔

 ’’ آیا تو کہیں سے نہیں !۔۔ مقامی پیداوار ہے۔ ‘‘

 ’’عالم پل سے سکردو تک اس قسم کا لینڈ  سیکپ نظر نہ آیا، یہ خطہ اتنا منفرد کیوں ہے؟ ‘‘

 ’’ یہ سوال اللہ تعالیٰ سے براہ راست پوچھنا چاہئے۔ بائی دا وے، آپ کو مناظر فطرت کی لوکیشن پر کیا اعتراض ہے؟‘‘

 ’’ میں اعتراض کرنے والا کون ہوتا ہوں ؟ لیکن حیران ہونا میرا حق ہے اور میں اسے قریب سے دیکھ کر مزید حیران ہونا چاہتا ہوں۔‘‘

 ’’کتنا قریب سے؟‘‘

 ’’آپ گاڑی وہاں تک لے جا سکتے ہو؟‘‘ میں نے ڈرائیور سے پوچھا۔

 ’’کیوں نہیں سر؟بیانا مقپو دیکھنے بہت سے لوگ آتے ہیں ، اُدھر چلوں سر؟‘‘

 ’’ضرور چلو۔۔ اور تم نے یہ کیا نام لیا ہے؟‘‘

 ’’بیانا مقپو سر‘‘ ڈرائیور نے  بائیں جانب مڑتے ہوئے کہا۔

اس نے گاڑی ناہموار میدان سے گزاری اور صحرا کے پاس لا کر روک دی۔ ہم نے ریت کا چھوٹا سا ٹیلا سر کیا اور صحرائی وسعتوں کے کنارے پہنچ گئے۔حد نظر تک زردی مائل سرخ ریت کے اونچے نیچے ٹیلے بکھرے ہوئے تھے اور ان کے درمیان  بے شمار بگولے گردش کر رہے تھے۔ بگولوں کی گردش اور تیز رفتار ہوا کے کٹاؤ نے ریت کی سطح پر لہرئیے دار سلوٹیں ڈال دیں تھیں  جن کی وجہ سے بیانا مقپو ریت کے ایسے سمندر کا منظر پیش کر رہا تھا جو مد و جذر کی کیفیت سے گزر رہا ہو۔ چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں اس وسیع لینڈ سکیپ میں نگینے کی طرح جڑی ہوئی تھیں۔

صحرائی دنیا سے میری شناسائی چولستان تک محدود ہے اور مجھے کوئی اندازہ نہ تھا کہ دنیا کے وسیع و عریض صحرا کیسے ہوں گے؟ مگر اس سے سوا کیا ہوں گے؟وسعت دلکشی کا پیمانہ کب ہے؟ ست پڑا جھیل کو دیکھ کر تصور کیا جا سکتا ہے کہ بحر بیکراں کیسا ہو گا، لیکن بحر الکاہل کی وسعت ست پڑا جھیل کی ایک فیصد دل کشی بیان کرنے سے سو فیصد قاصر رہے گی۔

 ’’سر آپ مناسب سمجھیں تو آپ کو بیانا مقپو کے بارے میں بتاؤں ؟‘‘ ڈرائیور نے میری دلچسپی دیکھ کر جھجکتے ہوئے کہا۔

 ’’ ضرور بتائیں ! آپ یہیں کے رہنے والے ہیں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’جی میں سندس کا رہنے والا ہوں۔‘‘

 ’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘

 ’’ میرا نام شبیر حسین ہے اور میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی۔اے کر رہا ہوں۔‘‘

 ’’ویری گڈ۔ اور یہ ٹیکسی ؟‘‘

 ’’یہ پارٹ ٹائم ہے۔والد صاحب چلاتے ہیں۔میں گھر آیا ہوا ہوں تو انہیں آرام مل جائے گا۔‘‘

 ’’ تمھیں تاریخ سے دلچسپی ہے؟‘‘ محبوب نے پوچھا۔

 ’’بالکل نہیں سر، مجھے تاریخ سے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘ اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا۔

 ’’اور تم ہمیں اس صحرا کی تاریخ کے بارے میں کچھ بتانا چاہتے ہو؟‘‘

 ’’ اس کے لیے تاریخ جیسے خشک مضمون سے دلچسپی رکھنا ضروری نہیں۔بیانا مقپو کی کہانیاں درسی کتابوں کے بجائے سینہ گزٹ میں ملتی ہیں۔‘‘

 ’’کیسی کہانیاں ؟‘‘ محبوب نے استفسار کیا۔

 ’’بیانا مقپو کا مطلب سیاہ میدان ہے۔ یہ بھری پُری آبادی رکھنے والا انتہائی سر سبز و شاداب علاقہ تھا جو سیلا ب کی تباہی کا شکار ہو گیا۔پانی اُترا تو دریا کی ساری ریت یہاں جمع ہو گئی اور یہ  صحرا وجود میں آیا جو ایئر پورٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ ‘‘

 ’’اس صورت میں یہاں آبادی کے آثار موجود ہونے چاہئیں۔ ‘‘ میں نے کہا۔

 ’’نشانیاں تو ملتی ہیں ناں سر۔۔ ریت کی گہرائی میں دفن پرانے زمانے کے برتن اور انسانی جسم کی ہڈیاں کئی لوگوں کو ملی ہیں۔ ‘‘

 ’’اچھا؟ پھر تو ممکن ہے کہ یہاں کوئی دفن شدہ بستی دریافت ہو جائے۔‘‘ محبوب نے خیال ظاہر کیا۔

 ’’ ہوسکتا ہے، لیکن یہاں کھدائی کون کروائے گا؟‘‘ شاہ صاحب نے سوال کیا۔

 ’’ پہلے یہ تو ثابت ہو کہ یہاں واقعی کوئی بستی دفن ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’وہ تو ضرور ی ہو گی سر۔بیانا مقپو کا ذکر کئی مشہور لوک گیتوں میں ہے اور بیانا مقپو کے نام سے بھی ایک لوک گیت ہے۔‘‘ ڈرائیور نے کہا۔

 ’’آپ کو یہ لوک گیت آتاہے؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’مجھے ؟ مجھے نہیں آتا، والد صاحب کو آتا ہے۔ سکرود کا ریڈیو اکثر نشر کرتا ہے۔ اس گیت میں علی شیر خان انچن کے دور کی تعریف کرتے ہوئے بتایا گیاہے کہ اُس وقت بیانامقپو انتہائی زرخیزعلاقہ تھا اور یہاں کے باشندے خوش حال تھے۔ ‘‘

ہم نے سندس کے تیزرفتار نالے کا پل عبورکیا تو لینڈ سکیپ ایک مرتبہ پھر بدل گیا اور صحرا کی جگہ بید کے گھنے جنگل نے لے لی جو سڑک کے دونوں جانب دور دور تک پھیلا ہو ا تھا۔ اس جنگل کے درختوں کی ترتیب میں انسانی ہاتھوں کی کارفرمائی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ میں کئی روز ے سکرودکے پہاڑی لینڈ سکیپ کا اسیر تھا اور مناظر کے سٹیج پر اس جنگل کی آمد نے مجھے بیانا مقپو کی آمدسے زیادہ حیران کیا۔

میں سندس نہ آتا توسکردو کی دلفریب شخصیت کا یہ انوکھا اور منفرد پہلو میری نظروں سے اوجھل رہتا۔میرے ناقص علم کے مطابق سکردو پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں دریا، پہاڑ،  آبشار، جھیلیں ، صحرا، جنگل اور میدان (دیوسائی) مقابلۂ حسن میں حصہ لینے کے لیے ایک سٹیج پر جلوہ افروز ہیں اور دنیا کا کوئی منصف رشوت یا سفارش کے بغیر فیصلہ نہیں دے سکتا کہ ’’ مس  بلتستان‘‘ کا تاج کس کے سر پر سجائے ؟اگر آپ صرف پہاڑ دیکھنے سکردو نہیں آئے تو ’’بیانا ماقپو‘‘ اور ’’ سر سنگ ‘‘ (بید کا جنگل) کے درشن ضرور کریں۔یہاں کیمپنگ کی جا سکتی ہے اور ایک دن کی پکنک کے لیے بھی آیا جا سکتا ہے۔

خشک صحرا بھی رشکِ گلشن ہے

اپنے گھر سے نکل کے دیکھ کبھی

ایک جگہ ڈرائیور نے ٹیکسی روک دی۔

 ’’آگے پیدل جانا پڑے گا سر، ٹیکسی نہیں جا سکتی۔‘‘ اُس نے اعلان کیا۔

 ’’آپ یہاں کیا کریں گے؟ آپ بھی ہمارے ساتھ آ جائیں۔‘‘ شاہ جی نے ٹیکسی سے اُترتے ہوئے ڈرائیور کو  مخاطب کیا۔

 ’’یہ ٹیکسی کو اس جنگل میں تنہا چھوڑ کر ہمارے ساتھ کیسے آ سکتا ہے ؟شاہ جی کبھی  تو عقل استعمال کر لیا کریں۔‘‘ محبوب  نے کہا۔

 ’’ٹیکسی کو کوئی خطرہ نہیں۔یہ تین دن بھی کھڑی رہے تو کوئی اسے ہاتھ نہیں لگائے گا۔‘‘

 ’’اور تین دن بعد؟‘‘ محبوب نے پوچھا۔

 ’’تین چار دن بعد کوئی پو لیس کو اطلاع دے گا یا ہمارا نمبردار اپنے گھر کھڑی کر لے گا۔ ‘‘

 ’’واقعی؟‘‘ محبوب نے حیرانی سے کہا۔ ’’اس کے وھیل کپ، ٹیپ ریکارڈر اور سٹکر وغیرہ محفوظ رہیں گے؟‘‘

 ’’بالکل محفوظ رہیں گے۔‘‘ اُس نے یقین سے کہا۔

 ’’کیونکہ لوگ پہچانتے ہیں کہ یہ ٹیکسی شبّیر خان کی ہے ؟‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’ نہیں سریہ بات نہیں ، ادھر چوری وغیرہ نہیں ہوتی۔میں چلتا ہوں ناں آپ کے ساتھ۔‘‘ اُس نے اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لئے ٹیکسی لاک نہیں کی۔

جنگل میں سے گزرتی ہوئی پگڈنڈی پر ہم نے کم و بیش آدھا کلو میٹر فاصلہ طے کیا اور ایک چھوٹا سا پہاڑی نالہ عبور کر کے ایک کھلے میدان کے سامنے پہنچ گئے جس میں چند انچ گہرا پانی کھڑا تھا۔

 ’’یہاں سے آگے کیسے جائیں گے؟ یہاں تو پانی کھڑا ہے۔ ‘‘ میں نے ڈرائیور سے کہا۔

 ’’یہاں سے آگے آپ کہاں جانا چاہتے ہیں۔ ‘‘ شبّیر نے حیرانی سے کہا۔

 ’’ تمہیں کتنی مرتبہ بتائیں کہ ہم کتپنا جھیل جانا چاہتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’ کتپنا کی جھیل تو یہی ہے۔‘‘

 ’’یہ جھیل ہے؟‘‘ مجھے ایک شاک لگا۔

میں اس قسم کے مذاق کے لئے ذہنی طور پر تیّار نہیں تھا اور ست پڑا لیک کا تصور ذہن میں بٹھائے کتپنا لیک دیکھنے آیا تھا۔ یہ کیسی جھیل تھی ؟چند انچ گہرے میدان میں پانی کھڑا تھا اور میدان میں اُگنے والے خود رو پودے پانی سے سر باہر نکالے جھوم رہے تھے۔ یہ منظر دھان کے ایسے کھیتوں کے منظر کی فوٹو کاپی تھا جنہیں پانی دیا گیا ہو۔

 ’’شاہ جی یہ کیسی جھیل ہے؟‘‘ میں نے فریاد کی۔

 ’’یہ میری تازہ ترین محبوبہ کی آنکھوں۔ سوری کمر جیسی جھیل ہے۔کہاں ہے؟ کس طرف کو ہے؟ کدھر ہے؟‘‘ محبوب نے مضحکہ خیز انداز میں کمر لچکائی۔

 ’’میں خود حیران ہوں۔ پچھلے سال یہاں با قاعدہ جھیل تھی جس پر بے شمار مرغابیاں پرواز کر رہی تھیں اور لوگ اُن کا شکار کر رہے تھے۔‘‘ شاہ صاحب واقعی حیران نظر آرہے تھے۔

 ’’سریہ مصنوعی جھیل ہے۔اس میں پانی کی مقدار کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔‘‘ شبّیر نے وضاحت کی۔

مجھے کتپنا جھیل دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی۔ پتا نہیں اس کے ساتھ جھیل کا دم چھلا کس ستم ظریف نے چپکا د یا تھا۔

 ’’شاہ جی چلیں واپس؟‘‘ محبوب نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔

 ’’اب میں کیا کہوں ؟‘‘ شاہ جی نے شرمندگی سے کہا۔

 ’’ کوئی تاریخ شاریخ ڈھونڈیں۔آپ کی مس ڈھکن یہاں تشریف نہیں لائیں ؟‘‘ محبوب چہکا۔۔ شاہ جی نے کوئی جواب نہ دیا اور واپسی کا سفر شروع کر دیا۔

 ’’سر جھیل میں تو نہیں لیکن اس علاقے میں ہمارے ایک بزرگ نے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا تھا۔‘‘ شبیر نے شاہ صاحب کے تعاقب میں روانہ ہوتے ہوئے کہا۔

 ’’شبیر خانا خدا کا خوف کرو۔میں شاہ صاحب کو چھیڑ رہا تھا۔تم سچ مچ کوئی تاریخ ایجاد کرنا چاہتے ہو؟‘‘ محبوب نے شبیر کو گھورا۔

 ’’سر ایجاد نہیں کر رہا۔‘‘ اُس نے تھوڑی سی ناراضگی کا اظہار کیا۔ ’’ہمارے گھرانے میں وہ ڈنڈا موجود ہے۔آپ بے شک شگری چل کر دیکھ لیں۔‘‘

 ’’شگری؟آپ تو کہہ رہے تھے آپ کا گھر سندس میں ہے۔‘‘ محبوب نے کہا۔

 ’’یہ بعد میں بنا ہے، ہمارا خاندانی گھر شگری میں ہے۔‘‘

 ’’یہ ڈنڈے کا کیا چکر ہے؟آپ کے بزرگ ڈنڈے بجاتے تھے؟‘‘

 ’’ہمارے کسی بزرگ نے اُ س ڈنڈے سے روندو کے راجہ کو قتل کیا تھا۔‘‘

 ’’ڈنڈے سے قتل؟راجہ انسان تھا یا چوہا؟‘‘ محبوب نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’ادت چو بہت طاقتور راجہ تھا سر، اُس نے شگری پر حملہ کیا تھا۔‘‘

 ’’یار ذرا تفصیل سے بتاؤ۔‘‘ محبوب نے کہا۔

 ’’ بہرام چوکے دور میں روندو کے راجہ ادت چونے شگری پر حملہ کیا۔ شگری کی فوج اُس وقت کمزور تھی۔ بہرام کے و زیر نے اس میدان میں بہت بڑی خندق کھود کر اُسے شہتوت اور بید کی شاخوں سے ڈھانپ دیا۔ شگری کی فوج نے آگے جا کر حملہ کیا اور منصوبے کے مطابق شکست کا بہانہ کر کے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔شگری کی فوج گڑھے سے بچ کر گزر گئی۔روندو کا راجہ اور فوج خندق میں گر گئے۔ شگری کی فوج واپس پلٹی اورسب کو قتل کر دیا۔روندو کے راجہ کو ہمارے بزرگ نے سر پر ڈنڈا مار کر ہلاک کر دیا۔‘‘

 ’’اللہ مافی۔‘‘ میں نے  جگلوٹی طالب علم کے لہجے میں کہا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب آپ کتپنا کو توڑ مروڑ کر پڑھ لیں تاکہ آپ کی مایوسی دور ہو جائے اور یہ جھیل اسم بامُسمّٰی لگنے لگے۔‘‘ محبوب نے کہا۔

 ’’توڑ مروڑ کر کیا مطلب؟۔‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

ٓٓ ’’آپ اس جھیل کو کُت پنا سمجھ لیں۔‘‘ محبوب نے سادگی سے کہا۔

 ’’کُت پنا۔‘‘ مجھے ایک دم ہنسی آ گئی۔ ’’بالکل ٹھیک ! کبھی کبھی کُت پنا بھی کر لینا چاہئے۔ جیتے رہو !میری مایوسی واقعی بہت کم ہو گئی ہے۔‘‘

ہمیں ریما کے دیدار سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا تو یہ مایوسی بالکل ختم ہو گئی۔

 جنگل میں ایک بزرگ لکڑیوں کا گٹھا بنائے کسی راہگیر کے منتظر تھے جو اُنہیں یہ بوجھ اُٹھوا دے۔ اُنہوں نے مقامی زبان میں ڈرائیور سے کچھ کہا اور لکڑیوں کے گٹھے کی طر ف اشارہ کیا۔ڈرائیور کچھ دور تھا۔  میں نے آگے بڑھ کر گٹھے کو سہارا دیا اور بزرگ وہ بوجھ سر پر لاد کر ہمارے ساتھ چل دیے۔

 ’’بابا جی آپ اردو سمجھ لیتے ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’سمجھتا اے!کیوں نہیں سمجھتا؟ مگر آپ خود بابا اے تو ام کو بابا کیوں بولتا اے؟‘‘

 ’’سوری بابا جی، میرا مطلب ہے بھائی صاحب۔۔  آپ کی عمر کتنی ہے؟‘‘

 ’’ام کو کیا پتا کتنا اے ؟‘‘ اس نے بیزاری سے کہا۔

 ’’کچھ اندازہ توہو گا۔‘‘ میں نے اصرار کیا۔

 ’’اِدر جنگ ہُوا تو ام نیانیا جوان بنا تھا۔‘‘

 ’’جنگ؟۔  روند والی؟ اُس وقت آپ جوان تھے؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’اِن کا مطلب ہے سکرود کی جنگ آزادی۔ ‘‘ شبیر نے وضاحت کی۔

 ’’سکرود کی جنگ آزادی یہاں لڑی گئی تھی؟‘‘

 ’’اور کدر لڑا جاتا؟‘‘ اس نے جارحانہ انداز میں پوچھا۔

 ’’مگر سندس میں ؟۔۔ یہاں کس کے خلاف جنگ ہوئی تھی؟‘‘

 ’’ڈوگرہ کے خلاف لڑا تھا ناں۔  اور کس کے خلاف لڑتا؟۔‘‘

 ’’یہاں دراصل آزاد فوج کا ہیڈ کوارٹر تھا۔‘‘ شبّیر خان نے بتایا۔

 ’’یہاں جنگل میں ؟‘‘

 ’’جنگل میں بی اور اُدر بستی میں بی، ہر جگہ فوج تھا۔‘‘ بابا جی نے جواب دیا۔

 ’’آپ کو اُس جنگ کا کوئی واقعہ یاد ہے؟‘‘

 ’’بالکل یاد اے۔ادر دشمن کا جہاز آتا تھا اور بم پھینکتا تھا۔مگر وہ سامان بی پھینکتا تھا۔ وہ آتا تھا تو ام اُس کے ساتھ ساتھ بھاگتا تھا۔‘‘

 ’’کیوں ؟ آپ کو گولہ باری سے ڈر نہیں لگتا تھا؟‘‘

 ’’وہ آٹا پھینکتا تھا۔چائے اور چینی بی پھینکتا تھا۔ام اُسے اُٹھا لیتا تھا۔‘‘

 ’’جہاز بم کے بجائے آٹا کیوں پھینکتے تھے؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’وہ تو اپنا فوج کے لئے پھینکتا تھا، مگر جو ادر گرتا تھا ام اُٹھا لیتا تھا۔‘‘

 ’’دشمن کی فوج کہاں تھی؟‘‘

 ’’وہ ادر چھاؤنی میں تھا۔امارا فوج نے اس کو گھیرا ڈالا ہوا تھا۔ان کے پاس راشن ختم ہو گیا تھا۔دشمن کا جہاز ان کے واسطے سامان پھینکتا تھا۔ہم اکھٹا کرتا تھا۔‘‘

 ’’پھر تو آپ نے بہت آٹا جمع کر لیا ہو گا۔‘‘

 ’’ام جمع نہیں کر تا تھا، کوئی بی جمع نئیں کرتا تھا، سارا سامان فوج کو دیتا تھا۔‘‘

 ’’ویر ی گڈ۔‘‘ شاہ صاحب نے داد دی۔

 ’’امارے بھائی کو کارتوس کا بوری ملا تھا۔وہ اس نے فوج کو دیاتو صوبیدار نے امارے بھائی کو چار آنہ انعام دیا اور بوت زیادہ شاباش دیا۔‘‘ اس کے لہجے میں کھنک در آئی۔

مجھے اُس وقت سکرود کی جنگ آزادی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ میں نے اس جنگ کا باقاعدہ مطالعہ کیا تو تصدیق ہو گئی کہ جگلو ٹ اور سندس میں حاصل شدہ معلومات بہت حد تک درست تھیں۔

 ’’آپ کا نام کیا ہے۔‘‘ میں نے بابا جی سے پوچھا۔

 ’’امارا نام ریما اے۔‘‘

’کیا ؟۔۔ ریما؟۔۔ آپ ریما ہیں ؟‘‘ شاہ صاحب نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

 ’’ سب ام کو ریما بولتا اے تو ام ریما کیوں نئی اے؟۔۔  مگر تم ہنستا کیوں اے ؟‘‘

 ’’ریما آپ کو  دیکھ لے تو فوراً  اپنا نام بدل لے گی۔ آپ کا پورا نام کیا ہے؟‘‘

 ’’پورا نام تو رحیم خانا اے مگر سب ام کو ریما بولتا اے۔‘‘ وہ رحیما کو ریما کہہ رہا تھا۔

 ’’رقص آتا ہے آپ کو ؟‘‘ شاہ جی نے پو چھا۔

 ’’رکس؟۔۔ وہ کیا ہوتا اے؟‘‘

 ’’ناچ۔  ڈانس۔ ‘‘ شاہ صاحب نے وضاحت کی۔

 ’’اوئےئے ناچ ؟آتا اے ناں ، کیوں نہیں آتا ؟ام بوت اچھا ناچتا اے۔ام جوان تھا تو شادی میں ناچتا تھا۔ راجہ صاب کی شادی پر بی ناچا تھا۔راجہ صاب نے خوش ہو کر ام کو پانچ روپیہ انعام دیا تھا۔‘‘ اس کی دھندلائی ہو ئی آنکھوں میں چمک آ گئی۔

 ’’پھر تو آ پ سچ مچ ریما ہیں۔ آپ ہمیں اپنا ڈانس نہیں دکھا سکتے؟‘‘

 ’’کیسے دکھائے؟امارے سر پہ بوجھ اے اور امارے پاس تلوار بی نئی اے۔‘‘ اس نے مایوسی سے کہا۔

 ’’تلوار؟تلوار کا کیا کریں گے؟ میں نے ڈانس کی فرمائش کی ہے قتل و غارت گری کے لئے نہیں کہا۔‘‘ شاہ صاحب نے گھبرا کر کہا۔

 ’’ام کو گاشو ڈانس آتا اے، چھوگو ڈانس آتا اے، مندوق ڈانس آتا اے، اور افغانی ڈانس بی آتا اے۔یہ سب ڈانس تلوار سے ہوتا  اے۔‘‘

’ ’  بلتستان میں تلواروں کے بغیر کوئی ڈانس نہیں ہوتا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’ہوتا اے ناں ، بوت سارا ڈانس ہوتا اے۔مگر وہ عورت لوگ یا زنخا لوگ کرتا اے۔مرد کا بچہ نئی کرتا۔ ام تلوار والا ڈانس کرتا اے۔‘‘

 ’’پھر رہنے دیں ، آپ ریما نہیں بن سکتے۔ ‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’ اب کیوں بنے گا؟ام تو بچپن سے ریما اے۔‘‘ انہوں نے اطمینان سے کہا۔

 ’’ ریما تلوار چلا کر نہیں ، اداؤں کی بجلیاں گرا کر قتل کرتی ہے۔ آپ کی تلوار الٹی سیدھی چل گئی تو۔۔۔‘‘

ہم ٹیکسی تک پہنچ چکے تھے اس لئے ریما کو خدا حافظ کہا۔

 ’’چلیں ڈاکٹر صاحب آپ کا مسئلہ ذرا با عزّت انداز میں حل ہو گیا۔‘‘ محبوب نے ٹیکسی میں بیٹھنے کے بعد کہا۔

 ’’ کون سا مسئلہ ؟‘‘

 ’’آپ سمجھ لیں کہ آپ یہاں کُت پنا کرنے کے بجائے  بلتستان کی جنگ آزادی کے تاریخی ہیڈ کوارٹر کا معائنہ اور ریما کا دید ار کرنے تشریف لائے تھے۔‘‘

 ’’شاہ جی آپ جس تفریحی مقام پر جاتے ہیں وہ کوئی تاریخی مقام ثابت ہوتا ہے۔‘‘ میں نے محبوب کی بات پر توجہ دیے بغیر کہا۔ ’’ چُندا  میڈوز کے بجائے چن دوا سے ملاقات ہوئی اور کتپنا جھیل کی جگہ بیانا ماقپو اور سرسنگ دریافت ہوئے۔ آپ اپنی معلومات اپ ڈیٹ کریں۔تفریح گاہوں کے بجائے تاریخی مقامات ہر کسی کو پسند نہیں آتے۔‘‘

 ’’آپ اپنی بات کریں ، آپ کو پسند آئے یا نہیں آئے؟‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’ مجھے تو بہت پسند آئے۔‘‘ میں نے اعتراف کیا۔ ’’ سندس اور چُندا کے بغیر سکردو کا تعارف کچھ ادھورا رہتا۔ ‘‘

 ’’میں کئی مرتبہ دوستوں کے ساتھ سندس اور چُند ا آ چکا ہوں لیکن اُن میں کوئی بھی شرلاک ہومز کا جدید ایڈیشن نہیں تھا۔ نہ تو کسی نے صحرا کے اندر جانے کی زحمت کی اور نہ ہی ریما کو لکڑیوں کا گٹھا اٹھانے میں مدد دینے کا شرف حاصل کیا۔پھر مجھے بیانا مقپو، سر سنگ اور سندس کی جنگِ خندق کے بارے میں کیسے علم ہوتا؟‘‘

 ’’شاہ جی آپ کو علم تھا کہ سکردو کا صحرا سیلاب کی باقیات ہے؟‘‘ محبوب نے پوچھا۔

 ’’ نہیں۔‘‘ شاہ جی نے اعتراف کیا۔

 ’’ سندس کی جنگِ  خندق کے فریقین کے بارے میں کچھ جانتے تھے؟ ‘‘

 ’’جی نہیں۔‘‘ شاہ جی نے ذرا تنک کر کہا۔

 ’’اور  آپ سکردو کی جنگ آزادی کے ہیڈ کوارٹر کی لوکیشن سے بھی لا علم تھے؟‘‘

 ’’ بالکل تھا۔‘‘ اس مرتبہ شاہ جی نے غصّے سے کہا۔ ’’ تمہیں کیا تکلیف ہے؟‘‘

 ’’ آپ جیسی گھوف شخصیت کو ہسٹری کی ڈاکٹریٹ ایوارڈ کر نے کی غلطی پر میں سخت پشیمان ہوں اور وہ ڈگری واپس لے کر اس ناقابل معافی جرم کی تلافی کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

 ’’لے لے واپس اور اس کی بتی بنا کر۔۔‘‘

شاہ صاحب نے اعزازی ڈگری کیلئے جو جگہ منتخب کی وہ ناقابل ’’ لکھان ‘‘ ہے۔محبوب ڈگری وصول کر کے پرسکون ہوا تو ہم ہوسٹل پہنچ چکے تھے۔

٭٭٭

وہ شیشے جو پتھر کے زمانے میں لگے ہیں

آج فنکشن کی تیاری کے سلسلے میں ہم لوگ شام تک مصروف رہیں گے۔‘‘ شاہ صاحب نے ناشتہ کرتے ہوئے اعلان کیا۔

 ’’یعنی آج میرے لیے آرام کا دن ہے؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔

 ’’ تنہا دھکے کھانے کا اپنا لطف ہے۔کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ آپ نین سکھ جانے کے لیے نکلیں اور راستہ پوچھتے ہوئے وہاں پہنچیں۔ ‘‘ محبوب نے کہا۔

 ’’گڈ آئیڈیا۔‘‘ میں تھوڑا سا ایکسائیٹڈ ہو گیا۔ ’’ نین سکھ کیا چیز ہے؟‘‘

 ’’نین سکھ ایک گاؤں ہے اور وہاں کے سات چشمے، سات چنار کے درخت اور سات چٹان نما پتھر بہت مشہور ہیں۔ گاؤں کے راستے کو منی ٹریک بھی کہا جا سکتا ہے۔‘‘

 ’’ بہت خوب، آپ لوگ وہاں گئے ہوئے ہیں ؟‘‘

 ’’جی !ہم وہاں ایک دن کی پکنک پر گئے تھے اور بہت لطف اندوز ہوئے تھے۔‘‘

 ’’ او۔کے، آج نین سکھ۔ اور وہ بھی کلّم کلّے۔‘‘

 ’’کھر پوچو کا راستہ تو آپ نے دیکھا ہے۔۔۔‘‘ شاہ صاحب نے کچھ کہنا چاہا۔

 ’’بس بس، نو گائیڈنس، میں راستہ پوچھتے ہوئے وہاں پہنچنا چاہتا ہوں۔‘‘

 ’’میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ نین سکھ کے راستے میں مندوق کھر آئے گا اس کی زیارت کر لیں۔ اس کے قریب ایمونیشن ڈپو ہے۔ وہاں امیر اعظم ہو گا، کسی اور سے راستہ پوچھنے کے بجائے نین سکھ کا راستہ اعظم سے پوچھ لیں۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’یہ مندوق کھر وہ محل ہے ناں جو انچنی صاحبہ نے بنوایا تھا؟‘‘

 ’’جی وہی ہے۔مندوق کھر کا لفظی ترجمہ تو پھول محل ہے لیکن گل خاتون کی مناسبت سے اسے قصرِ گل کہنا چاہئے۔گائیڈ حضرات غیر ملکیوں پر رعب ڈالنے کے لئے اسے فلاور پیلس کہتے ہیں۔‘‘

 ’’ او۔کے۔ آج میں اکیلا دھکے کھاؤں گا اور ہو سکتا ہے مجھے دیر ہو جائے۔ ‘‘

 ’’دیر کیوں ہو گی؟نین سکھ زیادہ د ور نہیں ہے، آپ دوپہر تک واپس آ جائیں گے۔‘‘

 ’’میں کے۔ ٹو موٹیل،  سکردو بازار اورسکر دو چھاؤنی بھی جانا چاہتا ہوں ‘‘

 ’’چلیں ٹھیک ہے۔ ‘‘

کے۔ ٹوموٹیل چشمہ روڑ پر واقع ہے اور غیر ملکی کوہ نورد اور کوہ پیما زیادہ تر یہیں قیام کرتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب نے اپنی کسی کتاب میں لکھا ہے کہ کے۔ ٹو موٹیل کے لان سے دریائے سندھ کا خوبصورت ترین منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ تنہا دھکے کھانے کے خیال کو مزید وسعت دیتے ہوئے میں نے ایک دن کے لیے ہوسٹل کے ماحول کو خیر باد کہہ کر کے۔ ٹو موٹیل کے سنگل روم میں قیام پذیر ہونے کے بارے میں غور کیا۔

 میں تقریباً آٹھ بجے ہوٹل کے استقبالیہ پر پہنچا جہاں کوئی ذی روح موجود نہیں تھا۔میں ٹی۔وی لاؤنج سے گزر کر راہداری میں داخل ہوا تو ایک خاکروب پر نظر پڑی جو جھاڑو دے رہا تھا۔ میں نے اُس سے استقبالیہ کلرک کے بارے میں دریافت کیا۔

 ’’صاب تو دس بجے آئے گا۔ ‘‘

 ’’رات کو کسی کی ڈیوٹی نہیں ہوتی؟‘‘

 ’’دوسرے صاب کی ہوتی ہے۔ ‘‘

 ’’وہ کہاں ہیں۔‘‘

 ’’وہ تو ابی سوتا ہے۔ ‘‘

 ’’میں کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

 ’’کیسا مامولات؟‘‘

 ’’کمرے کے بارے میں۔ ‘‘

 ’’آپ ادر ٹھہرو، ہم پوچھ کر آتا ہے۔‘‘ وہ اندر چلا گیا اور میں استقبالیہ روم کے ساتھ بنے ہوئے ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ گیا جہاں کیبل ٹی۔وی پر کرکٹ میچ لگا ہوا تھا۔

 خاکروب تقریباً بیس منٹ بعد واپس آیا۔

 ’’صاب نے بولا ہے کہ کوئی کمرہ خالی نہیں ہے۔‘‘

 ’’ کب خالی ہو گا؟‘‘

 ’’یہ تو ہم نے نہیں پوچھا۔‘‘

 ’’ یہ بھی پوچھ آؤ۔‘‘ میں نے فرمائش کی اور وہ دوبارہ غائب ہو گیا۔

 ’’ صاب کہتا ہے بہت دن تک کوئی کمرہ خالی ہونے کا امید نہیں ہے۔‘‘ اُس نے واپس آکر اطلاع دی۔

 ’’اس موٹیل میں کمرے کا کرایہ کتنا ہے؟‘‘

 ’’ یہ بی صاحب کو پتہ ہو گا، ہم پوچھ کے آتا ہے۔ ‘‘ وہ پھر غائب ہو گیا۔

 کے۔ٹو موٹیل کے استقبالیہ کلرک کی نائٹ ڈیوٹی کا شاہانہ انداز پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ یہ موٹیل حکومت کے زیر انتظام ہے۔پرائیویٹ سیکٹر میں اس طرز عمل کے حامل افراد کو ملازمت سے برخواست کر کے گھر بھیج دیا جاتا ہے تاکہ وہ اطمینان سے اپنی نیند پوری کر سکیں۔

 خاکروب کی بار بار مداخلت نے صاب کی نیند اچاٹ کر دی تھی اس لئے وہ آنکھیں ملتے اور جمائیاں لیتے ہوئے کمرہ استقبالیہ میں تشریف لے آئے۔

 ’’جی جناب !کیا پرابلم ہے آپ کا؟‘‘ اُس نے مہذّب الفاظ میں لٹھ مار ا۔

 ’’ جی کوئی پرابلم نہیں ہے۔ میں ایک آدھ دن آپ کے ہوٹل میں قیام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

 ’’ میں نے کہلوایا تو تھا کہ کمرہ خالی نہیں ہے، پھر میں کمرہ کہاں سے پیدا کروں ؟‘‘

 ’’آپ اتنی مشقت نہ کریں۔صرف یہ بتا دیں کہ کمرہ خالی ہونے کا امکان کب تک ہے؟‘‘

 ’’ کیا کہا جا سکتا ہے؟کوئی مہمان جائے گا تو کمرہ خالی ہو گا ناں۔‘‘

 ’’ آپ یہ تو بتا سکتے ہیں کہ آپ کے ہوٹل میں کمروں کے کرائے کیا ہیں ؟‘‘

 ’’سنگل بیڈ انیس سو اور ڈبل بیڈ تین ہزار روپے۔ ‘‘

 ’’کوئی ڈسکاؤنٹ وغیرہ؟‘‘

 ’’ جب کمرہ خالی ہی نہیں تو ڈسکاؤنٹ کا کیا کریں گے؟‘‘

 اُس کے لہجے اور انداز نے مجھے سخت مایوس کیا اور میں کاؤنٹر کے سامنے سے ہٹ گیا۔ اسے نا وقت نیند سے بیدار کر کے شاید میں ناقابل معافی جرم کر چکا تھا۔ استقبالیہ کلرک کے رویے سے قطع نظر کے۔ٹو موٹیل سکردو کا سب سے خوبصورت ہوٹل ہے۔ رہائشی کمروں میں جانے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا، ٹی۔وی لاؤنج، راہداریوں اور ڈائننگ ہال سے ہوٹل کے بہتر معیار کا اندازہ ہوتا تھا۔میں ہوٹل کے عقبی لان میں آ گیا اور دریائے سندھ کے نظارے سے لطف اندوز ہونے لگا۔ لان میں ایک نوجوان آنکھیں بند کئے لان چیئر پر نیم دراز تھا اور ایک کھلی ہوئی کتاب اس کے سینے پر رکھی تھی۔ میں نے قریب جا کر سلام کیا۔ اُس نے وعلیکم السلام کہہ کر جواب دیا لیکن اُس کا لہجہ چغلی کھا رہا تھا کہ وہ مقامی نہیں ہے۔

 ’’ اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو میری ایک تصویر بنا دیں۔‘‘ میں نے کیمرہ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے درخواست کی۔

 اُس نے ایک نگاہ غلط انداز مجھ پر ڈالی۔ بیزاری کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اُس نے بہت زیادہ مائنڈ کیا ہے۔چند ثانیے وہ مجھے گھورتا رہا، پھر ایک جھٹکے سے اُٹھا اور کیمرہ لے کر وہیں کھڑے کھڑے مجھے فوکس کرنے لگا۔ میں تیزی سے جنگلے کی طرف بڑھا اور اس انداز میں کھڑا ہو گیا کہ دریائے سندھ کے ساتھ پس منظر کی چٹانیں بھی فوکس ہو سکیں۔ میری بوکھلاہٹ پر وہ مسکرایا اور اُسکے چہرے پر کسی حد تک نرمی کے آثار نظر آئے۔ اُس نے ذرا دلچسپی سے فوٹو کمپوز کیا اور شٹر کا بٹن دبایا۔ تصویر بنانے کے فوراً بعد اُس نے کیمرہ اس انداز میں واپس کیا جیسے مجھ پر احسان عظیم کیا ہو۔ میں نے اُس کا شکریہ ادا کرنا چاہا لیکن وہ دوبارہ لان چیئر پر دراز ہو کر آنکھیں بند کر چکا تھا۔

 عقبی لان سے متصل ایک بہت اونچا، وسیع اور ہلکے سرمئی رنگ کا مخروطی خیمہ نصب تھا۔اس کے نئے نکور چوبی دروازے پر بلتی سٹائل کی انتہائی خوبصورت نقّاشی کی گئی تھی اور دروازے کے ساتھ ایک تعارفی بورڈ لگا تھا۔ میں نے قریب جا کر تعارفی تختی پڑھی تو علم ہوا کہ یہ اٹالین میوزم تھا اور اسکا سنگِ بنیاد کے۔ٹو سر کرنے کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پہلی مرتبہ کے۔ ٹو سر کرنے والی دو رکنی ٹیم کے ایک رکن ’’ لینو لیسڈیلی‘‘ نے رکھا تھا۔ اٹلی نے اس میوزیم کا انتساب پاکستانی عوام کے نام کیا ہے۔ فی الحال یہ میوزیم زیر تعمیر ہے اور اس میں کے۔ٹو کی چند تصاویر کے سوا کچھ نہیں۔ اٹلی کی حکومت کا منصوبہ ہے کہ کے۔ ٹو سر کرنے والی ٹیم کا تمام سامان اور اس مہم کی نادر تصاویر یہاں رکھی جائیں اور کے۔ٹو کا ماڈل بنا کر لیسڈیلی اور کمپاگ نینی کے اختیار کردہ راستے کی نشاندہی کی جائے۔یہ میوزیم مکمل ہو گیا تو خاصے کی چیز ہو گا۔

میں کے۔ ٹو موٹل سے نکل کر چشمہ روڈ پر مٹرگشت کرتا ہوا کھرپوچو کے دامن میں پہنچا۔

  ایمونیشن ڈپو کے بارے میں کسی سے پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ ڈپو کے با وردی محافظ ڈپو کے سامنے ایک چھوٹے سے لان میں کرسیاں ڈالے بیٹھے تھے اور دور سے نظر آرہے تھے۔اُن سے امیر اعظم کے بارے میں پوچھا تو ایک باریش شخص نے بتایا کہ اُسکا نام اعظم ہے۔میں نے آرمی پبلک سکول کے محسن شاہ صاحب کا حوالہ دیاتو وہ کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔

 ’’آپ ڈاؤن سے آیا ہے؟‘‘

 ’’جی ہاں۔‘‘

 ’’تو تشریف رکھو ناں۔ شاہ صاحب کا مہمان ہمارا مہمان، ٹھیک ہے ناں ؟‘‘

 ’’آپ مجھے نین سکھ اور مندوق کھر کا راستہ بتا دیں۔‘‘

 ’’او یارا چلے جانا،  پہلے چائے مائے تو پئیو۔‘‘

 ’’چائے میں ابھی پی کر آیا ہوں۔آپ تکلف نہ کریں۔‘‘

 ’’چائے پیئے بغیر تو آپ نین سکھ نہیں جا سکتا۔‘‘

 ’’چائے اُدھار نہیں ہو سکتی؟نین سکھ سے واپسی پر پی لوں گا۔‘‘

 ’’او یارا ادھار کدھر یاد رہتا ہے؟ہم کو تو دوسرے دن بھول جاتا ہے۔‘‘ وہ ہنسا۔

 ’’میں نہیں بھولوں گا۔‘‘ میں نے یقین دلایا۔

 ’’چلو ٹھیک ہے، عارف یارا تم ریاض کو بلاؤ، وہ اس بندوق گھر کا بہت بات کرتا ہے۔مہمان کو سارا بات بتائے گا۔‘‘ اعظم نے اپنے ساتھی سے کہا جو اُٹھ کر چلا گیا۔

 ’’یہ بندوق گھر ہے یا مندوق کھر؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’اللہ بہتر جانتا ہے۔‘‘ وہ مسکرایا۔ ’’ایمونیشن ڈپو میں بیٹھ کر تو بندوق گھر ہی لگے گا۔ ‘‘

 ’’ریاض صاحب کون ہیں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’وہ مقامی زمیندار ہے۔راجہ فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔اسے بندوق گھر اور گنگوپی نہر کے بارے میں بتانے کا بہت شوق ہے۔‘‘

 ’’گنگوپی نہر بھی کہیں قریب ہی ہے؟‘‘

 ’’آپ نے گنگوپی نہر نہیں دیکھی؟‘‘ امیر اعظم نے حیرانی سے کہا۔

 ’’جی ابھی تک تو نہیں دیکھی۔‘‘

 ’’کمال ہے۔‘‘ وہ ہنسنے لگا۔ ’’آپ گنگوپی نہر کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے یہاں پہنچا ہے،  خیر ریاض آ گیا ہے، وہ آپ کو زیادہ بہتر طریقے سے بتائے گا۔‘‘

ریاض درمیانے قد کا دبلا پتلا شخص تھا۔اعظم نے میرا تعارف کروایا اور بتایا کہ ڈاکٹر صاحب بندوق گھر دیکھنا چاہتے ہیں تو اُسکے چہرے پر دبا دبا جوش نظر آیا۔اس نے انتہائی گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور کسی توقف کے بغیر کہا۔ ’’چلیں جناب۔‘‘

ہم کھرپوچو کے دامن میں نظر آنے والے چند کھنڈرات تک پہنچے۔ان تک پہنچنا کھر پوچو پہنچنے سے مشکل ثابت ہوا کیونکہ مندوق کھر کے لیے کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا۔

 ’’یہ بچا کھچا مندوق کھر ہے۔ اسے علی شیر خان انچن کی ملکہ گل خاتون نے بنوایا تھا۔‘‘ اس نے چند معدوم سے کھنڈرات کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’کھر پوچو کے اتنے قریب ایک اور کھر کی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی۔‘‘ میں نے ارد گرد کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔

 ’’گل خاتون مغل شہزادی ہونے کے ناطے انتہائی نفیس طبع خاتون تھی۔اُسے کھرپوچو کے پتھریلے ماحول میں وحشت ہوتی تھی۔ اس نے یہ محل مغلیہ انداز میں تعمیر کیا تھا۔‘‘

محل کے نام نہاد کھنڈرات انتہائی خستہ حالت میں تھے اور ان میں کسی بھی قسم کا طرز تعمیر کھوج نکالنا ممکن نہیں تھا۔مجھے تو ان کا کسی محل کے کھنڈرات ہونا ہی مشکوک لگ رہا تھا۔

آپ وہ پولو گراؤنڈ دیکھ رہے ہیں ؟‘‘ اُس نے کافی دور نظر آنے والے پولو گراؤنڈ کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔

 ’’جی!بالکل دیکھ رہا ہوں اور اس کے اندر جا کر بھی دیکھ چکا ہوں۔‘‘

 ’’ یہاں سے پولو گراؤنڈ تک گل خاتون نے باغ لگوایا تھا جس میں مقامی پھولوں کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے منگوائے گئے رنگا رنگ پھول لگائے گئے تھے اور سنگِ مرمر کے فوّارے اور بارہ دری بھی بنوائی گئی تھی۔ سنگِ مرمر کی بنی ہوئی عمارت ’’غوری چنگڑہ‘‘ بھی یہاں موجود تھی جہاں سے خواتین پولو گراؤنڈ میں ہونے والا میچ بخوبی دیکھ سکتی تھیں۔ اس باغ کا نام مندوق سار یاہلال باغ تھا۔‘‘

میری چشمِ تصوّر نے مندوق کھر سے پولو گراؤنڈ تک کی تمام تعمیرات کو ماضی کی سیر کرانے والے شیشوں میں بدل دیا۔ان شفاف شیشوں کے اُس پار مندوق سار میں لہلہاتے ہوئے رنگا رنگ پھولوں کے تختے نظر آ رہے تھے۔ گل خاتون عرف مندوق گیالمو اپنی ہمجولیوں کے جھرمٹ میں سنگِ مرمر کے بنے ہوئے فوّاروں کے گرد کلیلیں کرتی پھر رہی تھی، پھر وہ غوری چنگڑہ میں بیٹھ کر پولو میچ دیکھتے ہوئے اچھل اچھل کر تالیاں بجانے لگی۔میں اس منظر کا شکار ہو گیا۔شکاری اتنا دلفریب تھا کہ میں اس کے جلووں میں کھو گیا۔

 ’’گل خاتون کا ایک اور کارنامہ گنگوپی نہر ہے۔‘‘ ریاض کی آواز نے مجھے مندوق سار کی رنگینیوں سے نکال کر ویران کھنڈرات میں لا پٹخا۔

 ماضی کے شیشے دھندلا گئے۔مندوق کھر، مندوق سار اور غوری چنگڑہ طنزیہ قہقہے لگاتے ہوئے آہستہ آہستہ مدھم ہو کر نظروں سے اوجھل ہونے لگے:

اب آئے ہو تو یہاں کیا ہے دیکھنے کے لیے

یہ باغ کب سے ہے ویراں ، مندوق کب کے گئے

مندوق سار زندہ باد۔۔ گل خاتون پائندہ باد۔۔ وہ یقیناً مغلِ اعظم کی بیٹی ہو گی۔  اتنے اعلیٰ ذوق کی حامل خاتون معمولی شخصیت نہیں ہو سکتی۔

 ’’گنگوپی نہر کہاں ہے؟‘‘ میں نے مندوق سار کے سحر سے آزاد ہو کر پوچھا۔

 ’’وہ پانی نظر آ رہا ہے ناں ؟وہ گنگوپی واٹر چینل ہے۔‘‘ اس نے جس طرف اشارہ کیا وہاں ایک آبی پٹی کی جھلک نظر آئی جو کافی دور تک جا رہی تھی۔

 ’’یہ نہر ہے یا نہر کا بچہ؟ ہمارے کھیتوں میں آبپاشی کا کھال اس سے زیادہ کشادہ  ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔

 ’’یہ پتھر کے بلاکوں سے تعمیر کی گئی ہے اور اسکا مقصد مندوق کھر اور ہلال باغ کی پانی کی ضروریات پورا کرنا تھا جو شہر کی نسبت زیادہ بلندی پر تعمیر کئے گئے تھے،  شہر کی بقیہ آبادی بھی اس سے مستفید ہو سکتی تھی۔‘‘

 ’’مگر اس پہاڑی علاقے میں نہر کیسے بنائی گئی ہو گی؟ میرا خیال ہے پہاڑی علاقے میں مصنوعی نہر بنانا ممکن نہیں۔‘‘

 ’’آپ نے مین روڈ پرایک بہت بڑا گیٹ دیکھا ہو گا ؟‘‘

 ’’دیکھا ہے، میں نے اس گیٹ پر لکھے ہوئے مختلف شہروں کے فاصلے پڑھے تھے اور میں اسے ایک بے مقصد آرائشی گیٹ سمجھا تھا۔‘‘

 ’’وہ گیٹ اس نہر کا پشتہ ہے۔اس قسم کے پشتے ست پڑا جھیل سے مندوق کھر تک بنائے گئے۔ پشتوں کے اوپر تراشیدہ پتھر رکھے گئے تو یہ نہر وجود میں آئی اور ست پڑا جھیل کا پانی مندوق کھر اور ہلال باغ تک پہنچنے لگا۔گنگوپی نہر اپنے دور میں فن تعمیر کا شاہکار اور ایک عجوبہ سمجھی جاتی تھی۔‘‘

 ’’گنگوپی کا کیا مطلب ہے؟اگر یہ نہر گل خاتون نے بنائی تھی تو اسکا نام مندوق کھر یا مندوق سار کی طرز پر گل نہر یا مندوق نہر وغیرہ ہونا چاہئے تھا۔‘‘

 ’’گنگو پی نہر کا مطلب ہے گنگو کی نہر! گل خاتون کے ساتھ ہندوستان سے بہت سے ہنرمند آئے تھے۔گنگو اُس ماہرِ تعمیرات کا نام ہے جس نے یہ نہر تعمیر کی تھی۔ ہلال باغ کا نقشہ بھی گنگو نے بنایا تھا۔گل خاتون نے نہر کا نام اس کے معمار کے نام پر رکھا۔ ‘‘

گنگوپی نہر کی جھلک مجھے سکردو میں کئی جگہ نظر آئی۔آج سے پانچ صدیاں پہلے پہاڑی علاقے میں مختلف اونچائی کے ستون بنانا، اُن کے اوپر پتھروں کے تراشیدہ بلاک جوڑ کر نہر بنانا اور اس کو لیول کرنا انجینئرنگ کا شاہکار کارنامہ سمجھا جاتا ہو گا۔یہ شاہکار آج بھی ست پڑا جھیل سے کھرپوچو تک دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا ہے اور دیکھنے والے کو حیران کرنے پر قادر ہے۔

آپ صرف گل خاتون کے حسنِ ذوق کی داد دینے کے لئے سکردو یاترا کا فیصلہ کریں تو آپ کو مایوسی یا شرمندگی نہیں ہو گی، البتہ کاتب تقدیر سے شکوہ ہو سکتا ہے کہ مندوق کھر اور ہلال باغ کو زندگی کی ساعتیں اتنی ناپ تول کر عطا کی گئیں کہ آپ اُن کے دیدار سے محروم رہے۔

کیا آپ نے ہی لکھی ہے ان شیشوں کی تقدیر

وہ شیشے جو پتھر کے زمانے میں لگے ہیں

میں نے ریاض کا شکریہ ادا کیا اور واپس چلنے کے لئے کہا۔وہ مجھے کھرپوچو دکھانے پر مصر تھا لیکن میں نے معذرت کر لی اور اُسے بتایا کہ میں ایک گائیڈ کی راہنمائی میں کھرپوچو دیکھ چکا ہوں اور اب نین سکھ جانا چاہتا ہوں۔  

٭٭٭

کبھی کا بیت گیا تیری چال کا موسم

ایمونیشن ڈپو پر پہنچے تو اعظم نے کہا: ’’جناب آپ نین سکھ جانا چاہتے ہیں تو جلدی کریں۔چند منٹ پہلے گوروں کا گروپ وہاں گیا ہے جن کے ساتھ گائیڈ بھی ہے۔ ‘‘

 ’’مجھے کیا دیر ہے؟آپ یہ بتائیں جانا کس طرف ہے۔‘‘

 ’’سامنے والے گیٹ میں اگر تا لا نہیں ہے تو وہاں سے چلے جائیں۔‘‘ اُس نے ایک آہنی گیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ ورنہ ادھر سے اوپر چڑھ جائیں اور پہاڑی کے ساتھ ساتھ گھومتے رہیں تو اُس پگڈنڈی تک پہنچ جائیں گے جو سیدھی نین سکھ جاتی ہے۔ ‘‘

 ’’میں انہیں راستے تک چھوڑ آتا ہوں۔‘‘ ریاض نے آفر کی۔

ہم گیٹ کی طرف بڑھے، وہ مقفّل نہیں تھا۔ مندوق کھر کے پہلو سے اور غالباً ہلال باغ اورغوری چنگڑہ کے درمیان سے گزرتے ہوئے ہم اس پگڈنڈی تک پہنچے جو کھر پوچو کے نشیب اور دریائے سندھ کے فراز میں جانبِ نین سُکھ جا رہی تھی۔ پگڈنڈی تک پہنچا کر ریاض نے مجھے خدا حافظ کہا اور واپس چلا گیا۔

 ایک جگہ پگڈنڈی جس پتھر پر سے گزرنا چاہتی تھی وہ پہاڑی کو داغِ مفارقت دے کر دریا میں ’’من تو شُدم‘‘ ہو گیا تھا۔ اس ملن کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو لکڑی کے تختوں کے پُل سے پاٹ دیا گیا تھا۔ پُل کے عین نیچے دریا کی انتہائی غضب ناک اور بپھری ہوئی لہریں کھر ڈونگ کے مشرقی پہلو کو دریا برد کرنے کی ’’پتھر توڑ‘‘ کوشش کر رہی تھیں۔ میں نے دریا کی لہروں سے نظریں بچاتے ہوئے یہ پل کراس کر لیا تو چند قدم آگے اسی قسم کا ایک اور مرحلہ آ گیا۔اس مرتبہ خلا کچھ کم تھا اس لئے درخت کے تنے کو کافی سمجھتے ہوئے پل بنا نے کا تکلّف نہیں کیا گیا تھا۔ اسے با قاعدہ ڈرتے ڈرتے کراس کیا۔

 پگڈنڈی پہاڑی کے مشرقی پہلو کے گرد گھوم کر سیدھی ہو چکی تھی۔ میں نے آگے جانے والے گورا گروپ کی تلاش میں نظریں دوڑائیں لیکن مجھے حدّ نظر تک کوئی ذی روح نظر نہ آیا۔ میں نے نام نہاد پُل عبور کرنے کے بعد سو قدم کا فاصلہ طے کیا ہو گا کہ پگڈنڈی کے تیور بدلنے لگے اور راستہ ’’سکری زدہ‘‘ ہو گیا۔یہ ریت نما سکری قدم جمنے نہیں دیتی تھی اور پیر پھسلنے کی صورت میں دریا تک کا عمودی ڈھلان دل دہلا تا تھا۔میں حیران تھا کہ شاہ صاحب وغیرہ نے  مجھے راستے کی نوعیت سے آگاہ کیوں نہیں کیا؟ میں کم از کم جو گرز اور واکنگ سٹک تولے آتا۔ میں نے حسب معمول چپل پہن رکھے تھے جو خواہ مخواہ پھسل رہے تھے۔ میں دل ہی دل میں شاہ صاحب اور محبوب سے شکوہ کُناں ہوتا ہوا آگے بڑھتا اور حیران ہوتا رہا کہ گورے گروپ کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ پگڈنڈی سیدھی تھی اور دور تک نظر آنے کی وجہ سے اطمینان کا سانس لینے کی راہ میں حائل تھی۔آخر یہ اتنا لمبا راستہ کیسے طے ہو گا؟ اس رفتار سے چار گھنٹے بھی سامنے نظر آنے والی پگڈنڈی کے اختتام تک پہنچنے کے لیے ناکافی تھے جو ہر دو گام کے بعد مزید سامنے آ جاتی تھی۔

میں اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ اوپر سے۔۔ بلکہ کافی اوپر سے قہقہوں کی آواز آئی اور میں حیران ہوا کہ یہ کون سی مخلوق ہے اور کہاں ہے؟ میں نے متجسس نظروں سے اوپر کا جائزہ لیا لیکن وہاں بید کے درختوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ چند قدم آگے جا کر میں نے ایک مرتبہ پھر اوپر نظر دوڑائی تو رنگ برنگے ملبوسات کی جھلک نظر آئی۔ غور سے دیکھنے پر علم ہوا کہ یہ گم شدہ گورا گروپ ہے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ میں غلط راستے پر آ گیا ہوں ورنہ گورا گروپ میرے آگے ہونے کے بجائے میرے سر پر سوار کیوں ہوتا؟ وہ لوگ کئی میٹر کی بلندی پر تھے اور بے فکری سے چہلیں کرتے ہوئے چل رہے تھے۔ میں نے ایسی جگہ کی تلاش میں نظریں دوڑائیں جہاں سے اوپر جا سکوں ، لیکن سکری کی دیوار سر کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔

چند قدم بعد بالآخر ایک چھوٹی سی لینڈ سلائیڈ نظر آئی جو میرے لئے سیڑھی کا کام دے سکتی تھی۔  میں پتھروں سے لشٹم پشٹم ہوتا اوپر پہنچا تو غیر ملکی گروپ مجھے دیکھ کر رک گیا۔

 ’’آپ نیچے کیا کرنے گئے تھے؟‘‘ اُن کے گائیڈ نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’ میں نیچے گیا نہیں تھا، نیچے والے راستے سے آیا ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

 ’’ اوہ ! آپ بکریوں کے راستے سے آئے ہیں ؟‘‘ وہ مزید حیران ہوا۔

 ’’میں اُسے اصل راستہ سمجھ رہا تھا، آپ لوگوں کی آوازیں سن کر راستہ بدلا ہے ورنہ اب بھی وہیں ہوتا۔‘‘ میں نے اس راستے کا جائزہ لیتے ہوئے جواب دیا۔

مجھے سیدھے راستے پر آ کر خود اختیار کردہ قید سے رہائی کا احساس ہوا۔یہ راستہ موٹروے نہ سہی دوڑ وے ضرور تھا۔

 ’’کیا مسئلہ ہے؟ ‘‘ غیر ملکی گروپ میں سے کسی نے شکستہ انگلش میں پوچھا۔

 ’’یہ بھول کر نیچے والے راستے پر چلے گئے تھے جو باقاعدہ راستہ نہیں ہے۔‘‘ گائیڈ نے اس سے بھی زیادہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہا۔ وہ غالباً سند یافتہ گائیڈ نہیں تھا۔

 ’’بھول کر؟یہاں بھی کوئی راستہ بھول سکتا ہے؟‘‘ اُس نے حیرانی سے کہا۔

 ’’میں اسے اصل راستہ سمجھ کر آیا ہوں ، بھولنے کا کوئی سوال نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’تمہارا اس معاملے سے کیا تعلق ؟‘‘ غیر ملکی نے گائیڈ کو جھاڑا۔‘‘ کسی بھی راستے سے آنا ان کا حق ہے، تم ہمارا وقت کیوں ضائع کر رہے ہو؟‘‘

آج میرے لیے نظر انداز ہونے کا دن تھا۔ کے۔ٹو ہوٹل کا بکنگ کلرک، اُن کا کسٹمر اور اب یہ گورا گروپ۔۔ اللہ مافی۔

گائیڈ چپ چاپ آگے بڑھ گیا اور وہ بھی تیزی سے روانہ ہو گئے۔۔ میں سستانے کے لیے ایک پتھر پر دراز ہو کر لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ آٹھ دس منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک سریلی چیخ سنائی دی جو آہستہ آہستہ کراہنے کی آواز میں تبدیل ہو گئی۔ آواز سامنے سے آئی تھی۔میں پتھریلے بستر کو خیرباد کہہ کر آگے چل دیا اور جلد ہی گورا گروپ تک جا پہنچا۔ ایک خاتون پتھر پر بیٹھی واویلا مچا رہی تھی اور اُس کا ساتھی اُس کے ٹخنے کا معائنہ کر رہا تھا۔خاتون کی آواز میں شدید اذیت کا تاثّر تھا۔

میں گائیڈ کے پاس گیا اور سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگا۔

 ’’یہ بھاگتے ہوئے اس جگہ کو کراس کر رہی تھیں کہ پیر پھسل گیا۔‘‘ اُس نے ڈھلوان کی طرف اشارہ کیا جس پر پتھر بکھرے ہوئے تھے۔

خاتون کھڑی ہوئی اور چلنا چاہا لیکن دو چار قدم اُٹھا کر دوبارہ نیچے بیٹھ گئی۔

 ’’ کچھ دیر رک جاؤ یا کسی کا سہارا لے کر چلو۔‘‘ اس کے ساتھی مرد نے مشورہ دیا۔

 ’’سہارا کیوں لوں ؟کیا میں اپاہج ہوں ؟‘‘ اس نے کراہتے ہوئے کہا۔

 ’’یہ بات نہیں۔ٹمی کو اسی طرح چوٹ لگی تھی، اس نے احتیاط نہیں کی تو بستر پر پڑا ہے۔تمہارا پاؤں بہت بری طرح پھسلا ہے، کوئی فریکچر وغیرہ۔۔ ‘‘

 ’’اوہ نو، فریکچر کا نام مت لو۔یہ سمپل انجری ہے ابھی ٹھیک ہو جائے گی۔ ‘‘ زخمی خاتون نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور دوبارہ اُٹھ کر چلنے کی کوشش کی۔اس مرتبہ اس کے منہ سے چیخ نکلی اور وہ ٹخنہ پکڑ کر بیٹھ گئی۔

 ’’تمہاری ضد میری سمجھ سے باہر ہے۔ ‘‘ اس کے ساتھی نے جھلا کر کہا۔ ’’ چوٹ لگ گئی ہے تو ریسٹ کرنے میں کیا حرج ہے؟کوئی پیچیدگی ہو گئی تو بلا وجہ بات بڑھ جائے گی۔‘‘

 ’’میں کہتی ہوں بات بڑھنے کی بات مت کرو، تمہیں پتا ہے یہ میرے کیریئر کے لئے کتنا خطرناک ہو گا؟‘‘ خاتون نے رو دینے والی آواز میں کہا۔

 ’’اسی لئے تو کہہ رہے ہیں کہ فضول ضد نہ کرو۔‘‘ دوسری خاتون نے کہا۔

زخمی خاتون نے ایک مرتبہ پھر چلنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی اور ان سب نے با جماعت اسے سمجھانا شروع کر دیا۔ خاتون کے کراہنے میں شدت آ گئی تھی۔میں تذبذب میں تھا اور مان نہ مان میں تیرا مہمان والی صورتِ حال کی شرمندگی سے بچنا چاہتا تھا۔ اُن کی مزید بے رخی سے اہانت کا احساس شدید تر ہو سکتا تھا۔ میں نے چند لمحے سوچا اور اپنی راہ لی۔

 کرب میں ڈوبی ہوئی ہائے نے میرے بڑھتے ہوئے قدم روک دیے۔ وہ شدید درد محسوس کر رہی تھی اور اسے فوری طبّی امداد کی اشد ضرورت تھی۔فریکچر کی صورت میں چلنے کی ضد کرنا اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا تھا۔

 ’’ اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں اس کا معائنہ کر لوں ؟‘‘ میں نے جھجکتے ہوئے کہا۔

 ’’تم معائنہ کرو گے؟کیا تم ڈاکٹر ہو؟‘‘ خاتون کے ساتھی نے جا رحانہ لہجے میں کہا۔

 ’’ جی! میں ڈاکٹر ہوں۔ ‘‘ میں نے رسانیت سے جواب دیا۔

 ’’ کیا ؟تم ڈاکٹر ہو؟میرا مطلب ہے کوالیفائیڈ؟‘‘ وہ شدید حیران ہوا۔

 ’’ ہاں۔۔‘‘

 ’’تم چاہتے ہو کہ میں اس پر یقین کر لوں۔ ‘‘ اُس نے استہزائیہ انداز میں پو چھا۔

مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔میں نے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورا اور انتہائی شرمندگی اور شدید غصے کی کیفیت میں تیزی سے آگے بڑھ گیا۔

 ’’اوہ نو!‘‘ دوسری خاتون نے اپنے ساتھی سے کہا۔ ’’ تمھارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا؟ اسے روکو!وہ جھوٹ کیوں بولے گا؟‘‘

 ’’میں نے کسی ڈاکٹر کو اس حلیے میں نہیں دیکھا۔ ‘‘ اُس نے بے یقینی سے کہا۔

میں نے اپنے حلیے پر غور کیا اور ایک بے ساختہ مسکراہٹ ہونٹوں تک رسائی کے لئے مچلنے لگی۔ میرے ساتھ کیا جانے والا سلوک میرے حلیے کی مناسبت سے عین مناسب تھا اور اس پر چراغ پا ہونا حماقت تھی۔ میں ٹریکنگ ٹراؤز اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھا لیکن پاؤں میں پہنی ہوئی چپل دعوائے ٹریکری کی تردید کرتی تھی۔ نین سُکھ جانے کے لیے ٹریکنگ کا لباس استعمال کرنے کی ویسے بھی کوئی تک نہیں تھی کیونکہ یہ کوئی باقاعدہ ٹریک نہیں تھا۔ گورا گروپ نے روز مرّہ کا لباس پہنا ہوا تھا۔

 میرا غصہ شرمندگی میں ڈھلنے لگا۔

 ’’اوکے، پلیز ٹیک یور ٹائم۔‘‘ اُس نے ایک گہری سانس لی اور پیچھے ہٹ گیا۔۔ میں نے سنی ان سنی کر دی۔

وہ تیزی سے قدم بڑھاتا ہوا مجھ تک پہنچا۔

 ’’آئی ایم ایکسٹریملی سوری۔ایک ڈاکٹر کو ساتھیوں کی باتوں کے بجائے مریض پر توجہ دینی چاہیے۔ مریض شدید تکلیف میں ہے اور میں دلی معذرت چاہتا ہوں۔‘‘

میں ’’ با دلِ ہاں خواستہ‘‘ واپس آ گیا۔۔  ٹخنے کا معائنہ شروع کیا تو ہائے ہائے کی رفتار اور شدّت میں اضافہ ہو گیا۔

 ’’ میرا خیال ہے فریکچر نہیں ، صرف موچ ہے۔درد کی دواؤں سے مسئلہ حل ہو جائے گا‘‘ میں نے ٹخنے کے معائنے کے بعد کہا۔

 ’’غور سے دیکھیں ، آر یو شیور؟‘‘ اُس  کے ساتھی نے کہا۔

 ’’سو فیصد یقین کے لئے تو ایکسرے ضروری ہے۔ تجربہ یہی کہتا ہے کہ فریکچر نہیں ہے۔‘‘

 ’’تھینک گاڈ!۔۔  بائی دا وے، کیا تم سچ مچ ڈاکٹر ہو؟‘‘ خاتون کے لہجے میں سوال یا تضحیک نہیں۔  اذیّت میں لپٹی ہوئی شوخی اور حوصلہ افزا بے تکلفی تھی۔۔ وہ غالباً اپنے ساتھی کے رویے کا ازالہ کرنا چاہتی تھی۔

 میں نے پرس سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر اُس کے حوالے کر دیا۔

 ’’ ڈاکٹر محمد اقبال ہما۔کنسلٹنٹ سرجن۔ ‘‘ اُس نے اٹک اٹک کر بلند آواز میں پڑھا اور بے ساختہ اُٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’ تم سرجن ہو؟‘‘

وہ فوراً ہی پاؤں پکڑ کر بیٹھ گئی اور ہائے ہائے کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے دوبارہ شروع کر دیا۔

 ’’میں اس بے یقینی کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔‘‘ میں نے قدرے نا گواری سے کہا۔ ’’ میں یہاں ٹریکنگ کے لیے آیا ہوں کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے تیّار ہو کر نہیں آیا۔‘‘

 ’’یہ بات نہیں۔‘‘ اُس کے ساتھی نے کہا۔ ’’ہم گزشتہ کئی روز سے سرجن کی تلاش میں سکردو کے تمام ہسپتال چھان چکے ہیں ، اس ویران جگہ سرجن کا ملنا ایک سرپرائز ہے۔‘‘

 ’’میں کچھ نہیں سمجھ سکا۔‘‘

 ’’ تم پہلے اسے دیکھو۔ اور ہاں ! تمہاری فیس کیا ہے؟‘‘

 ’’میرے شہر والے دو سو روپے بہت مشکل سے دیتے ہیں۔ لاہور میں ہوتا تو سات سو روپے لیتا، سکردو میں سرجن کی فیس کا مجھے علم نہیں۔‘‘

 ’’او۔کے او۔کے۔اس کے لئے کچھ کرو۔‘‘ اُس نے اپنی ساتھی کی طرف اشارہ کیا جو بدستور ہائے ہائے کر رہی تھی۔ ’’ہماری حماقت کی انتہا ہے کہ ہم میڈیکل کٹ ہوٹل میں چھوڑ آئے ہیں اور ہمارے پاس درد کی دوا بھی نہیں ہے۔‘‘

 ’’اسے ایک کریپ بینڈیج کی ضرورت ہے جو ظاہر ہے یہاں نہیں مل سکتی۔ درد کی گولیاں اور مالش کے لئے ٹیوب میرے پاس ہیں۔یہ ابھی بہتر محسوس کرنے لگے گی۔‘‘

میں نے اسے درد کی گولیاں دیں اور ٹیوب کی مالش کر دی۔

 ’’دس پندرہ منٹ بعد دوا کا اثر شروع ہو گا تو درد بڑی حد تک کم ہو جائے گا اور یہ آہستہ آہستہ چلنے کے قابل ہو جائے گی۔ ‘‘

 ’’کیا یہ خود چل کر سکردو واپس جا سکتی ہے؟‘‘ اس کی ساتھی نے پوچھا۔

 ’’ ہمت کرے تو ممکن ہے، لیکن کوئی سواری مل جائے تو بہتر ہے۔‘‘

 ’’ یہاں سواری کہاں سے آئے گی؟‘‘ اس نے مایوسی سے کہا۔

 ’’ مجھے کسی سواری کی ضرورت نہیں ، درد ختم ہونے کے بعد مجھے چلنے میں کوئی پرابلم نہیں ہو گا۔‘‘ اس نے یقین سے کہا۔

 ’’ او۔کے۔وش یو  بیسٹ آف لک۔‘‘ میں نے قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔

 ’’ذرا ٹھہرو پلیز، تمہاری فیس۔‘‘ بے یقینی ظاہر کرنے والے گورے نے غالباً دس ڈالر کا نوٹ میرے طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

 ’’یہ پاکستان ہے۔‘‘ میں نے سنجیدگی سے کہا۔

 ’’ آف کورس۔مجھے بہ خوبی علم ہے کہ ہم پاکستان میں ہیں۔ ‘‘

 ’’بہ خوبی علم ہوتا تو فیس کی بات نہ کرتے۔ ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’کیا مطلب ؟‘‘ اُس نے حیران ہو کر کہا۔ ’’پاکستان میں ڈاکٹر فیس نہیں لیتے؟‘‘

 ’’ کیوں نہیں لیتے؟پاکستانی مریضوں کا خیال ہے کہ بہت زیادہ لیتے ہیں ، لیکن پاکستان کی سماجی اور معاشرتی اقدار مغرب سے یکسر مختلف ہیں۔ ‘‘

 ’’میں بالکل نہیں سمجھا کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ گورے نے کنفیوژ ہو کر کہا۔

 ’’ ٹریکر صرف ٹریکر ہوتا ہے، ڈاکٹر یا مریض نہیں ہوتا۔تم لوگ غیر ملکی ہونے کے ناتے مہمان بھی ہو۔تم کسے فیس دینا چاہتے ہو؟ایک ساتھی ٹریکر کو یا میزبان کو؟‘‘

اُس کے چہرے پر آئی ہوئی چھوٹی سی مسکراہٹ میں بہت بڑی حیرت پوشیدہ تھی۔ گائیڈ کے چہرے پر چمک آ گئی، جب میں نے فیس بتائی تو اُس نے ملامت آمیز نظروں سے میری طرف دیکھا تھا۔

 ’’ بائی۔‘‘ میں نے ہاتھ ہلایا اور آگے چل دیا۔

 ’’ ایک منٹ پلیز۔‘‘ اس کے لہجے میں شرمندگی، تاسف اور شکر گزاری گڈ مڈ ہو گئے۔ میں رُک کر سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگا۔

 ’’ تم اکیلے ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔

 ’’ نہیں ! میرے کئی ساتھی ہیں ، لیکن یہاں میں تنہا آیا ہوں۔‘‘

 ’’ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اکھٹے چلیں اور سکردو واپس بھی اکٹھے جائیں ؟ وہاں سے ہم اپنے ہوٹل چلے جائیں گے، تم اپنے ٹھکانے کی طرف چلے جانا۔‘‘

 ’’ہو سکتا ہے، لیکن تمھاری ساتھی کو دیکھ کر میں الجھن میں پڑ گیا ہوں ، تمہارے ساتھ رہ کر یہ الجھن بڑھتی جائے گی۔‘‘ میں نے چند لمحے توقف کے بعد قدرے بے تکلفی سے کہا۔

 ’’کیسی الجھن؟‘‘ وہ خود اُلجھ کر بولا۔

 ’’تم مائنڈ کئے بغیر میرے سوال کا جواب دو تو یہ الجھن ختم ہو سکتی ہے۔‘‘

 ’’ میں اپنی غلط فہمی پر شرمندہ ہوں۔ میرا خیال تھا تم خواہ مخواہ ہم سے بے تکلف ہونا چاہتے ہو۔اب صورت حال بدل گئی ہے۔تم رسمی تکلفات کو خیرباد کہہ دو تو مجھے خوشی ہو گی۔تم جو پوچھنا چاہتے ہو کھل کر پوچھو، تمہیں کیا الجھن ہے؟‘‘

 ’’یہ خاتون اتنے مختصر لباس میں کیوں ہے؟‘‘ میں نے اُس کی ساتھی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ آپ لوگوں کو اسلام آباد میں بریفنگ دی جاتی ہے کہ لباس کے معاملے میں مقامی آبادی کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھیں۔سکردو میں کئی جگہ وال چاکنگ کی گئی ہے کہ لباس کے معاملے میں مقامی روایات کا احترام کریں۔ اس کے با وجود۔۔ ؟‘‘

میرا خیال تھا کہ جواباً مجھے شخصی آزادی کے موضوع پر ایک سیر حاصل لیکچر سننے کو ملے گا اور وہ مجھے طالبان نُما بنیاد پرست سمجھ کر اپنی راہ لگنے کو کہیں گے۔میری توقّع کے خلاف اُنہوں نے با جماعت ایک بلند آہنگ قہقہہ لگایا۔

 ’’ اس میں مائنڈ کرنے والی کیا بات ہے؟ یہ ٹمی کی محبت میں یہاں چلی آئی ہے لیکن پاکستان میں داخل ہونے کے بعد خود کو قید خانے میں تصور کر رہی ہے۔ سکردو میں اس نے فل جیکٹ پہنی ہوئی تھی جو ابھی ابھی اتاری ہے۔ آبادی میں داخل ہوتے وقت دوبارہ پہن لے گی۔اس سے تمہارے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو میں معذرت خواہ ہوں۔‘‘

 ’’ کیا میں اس لباس میں اچھی نہیں لگتی؟‘‘ خاتون نے اپنا ٹخنہ سہلاتے ہوئے شکایتی انداز میں پوچھا۔

  مجھے بے ساختہ تنویر سیٹھی اور رانا یونس طالب یاد آ گئے۔ان میں سے کوئی میرے ساتھ ہوتا تو اس معصوم شکایت پر کئی عدد بھاری بھرکم دو غزلے اور سہہ غزلے نچھاور کر دیتا۔ نثری مضمون بیان کرنے میں فساد کا خطرہ محسوس کر کے میں نے خاموش رہنا مناسب سمجھا، لیکن وہ جواب طلب نظروں سے دیکھتی ہی رہی تو مجھے اعتراف کرنا پڑا:

 ’’ اچھی تو لگتی ہو۔‘‘

 ’’تم بھی مائنڈ نہ کرنا، پاکستانی کچھ نہ کچھ ایب نارمل ضرور ہیں۔لباس ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔اس سلسلے میں اتنی سختی کا مظاہرہ کیوں کیا جاتا ہے؟‘‘ اُس نے کہا۔

 ’’حکومت پاکستان اپنے شہریوں میں کوہ نوردی کا ذوق و شوق پیدا کرنا چاہتی ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’غیر ملکیوں کے لیے لباس کا تعین کر کے ؟‘‘ اُس نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’ حکومت کوہ نور دی کا شوق پیدا کرنا چاہتی ہے، اجسام نور دی کا نہیں۔‘‘

 ’’کیا مطلب؟‘‘ اس نے کراہتے ہوئے پوچھا۔

 ’’ مجھے یہ بتاتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے کہ بزرگی کے درجے پر فائز ہونے کے باوجود جب سے تم کو دیکھا، دیکھا ہی کرتے ہیں ، ارد گرد کے قدرتی مناظر کا ہوش ہی نہیں ، کوہ نوردی کیا خاک ہو گی ؟میری جگہ کوئی نوجوان ڈاکٹر ہوتا تو اس کا کیا بنتا؟‘‘

 انہوں نے بے یقینی سے میری طرف دیکھا اور میری غیر سنجیدگی کو محسوس کرتے ہوئے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔

 ’’مائی گاڈ!تم نے تو ڈرا دیا تھا۔میں اسے کہنے والا تھا کہ کسی بنیاد پرست ڈاکٹر سے واسطہ پڑ گیا ہے، فوراً جیکٹ پہن لے۔ ‘‘ خاتون کے ساتھی نے اپنی ہنسی پر قابو پا کر کہا۔

 ’’نہ کہنے کا شکریہ۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’وزیٹنگ کارڈ سے زیادہ تمہارا اندازِ گفتگو یقین دلا رہا ہے کہ تم ڈاکٹر ہو، لیکن تمہارا جواب ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ بھی مرد اور عورت کے تعلقات میں صرف جنس کو اہمیت دیتا ہے۔مجھے اس بے تکلفانہ اظہارِ رائے پر افسوس ہے لیکن اس بے تکلفی کا آغاز تم نے کیا ہے۔‘‘ خاتون نے کہا۔

 ’’میں یہ آغاز نہ کرتا تو مجھے پاکستانیوں کے بارے میں تمہارے خیالات کا علم کیسے ہوتا؟‘‘

 ’’تم ڈاکٹر ہو اور اس نفسیاتی حقیقت سے آگاہ ہو گے کہ شجر ممنوعہ کو چکھنا انسانی نفسیات کی ابتدائی جبلت ہے۔ نصف صدی پہلے ہم بھی عورت اور مرد کے تعلقات کو جنس کے دائرے سے باہر نکالنے پر قادر نہیں تھے، لیکن اتاترک کی اصلاحات نے صورتِ حال بدل دی ہے۔انٹالیہ میں یہ روز مرہ کا معمولی لباس ہے، کسی کو اس کی پرواہ بھی نہیں ہوتی۔ ‘‘

 ’’انٹالیہ ہی کیوں۔‘‘ خاتون کی ساتھی نے کہا۔ ’’ جموں ، لدّاخ اور سری نگر میں بھی کسی نے لباس پر اعتراض نہیں کیا۔‘‘

 ’’اتا ترک ؟انتالیہ؟۔ تمھارا تعلق کون سے ملک سے ہے؟‘‘ میں نے سخت حیران ہو کر سوال کیا۔

 ’’ترکی۔ دی گریٹ ترکی۔ ‘‘ خاتون کے ساتھی نے کہا۔

 ’’او ہ نو!واقعی ؟آپ ترکی سے آئے ہیں ؟‘‘ مجھے یقین نہ آیا۔

 ’’بے شک۔ ہم ٹرکش ہیں اور ہمیں اس پر فخر ہے۔‘‘

 ’’ اور تم مسلمان ہو؟‘‘ میری بے یقینی قائم تھی۔

 ’’یس، تھینک گاڈ۔ ‘‘

میں ششدر رہ گیا۔ مجھے لہجے سے اندازہ کر لینا چاہیے تھا کہ اُن کا تعلق یورپ سے نہیں ، لیکن فرانسیسی اور جرمن سیاح بھی ٹوٹی پھوٹی انگلش بولتے ہیں۔میرا خیال تھا کہ یہ لوگ کسی ایسے یورپین ملک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں انگلش بولنا کسر شان سمجھا جاتا ہے۔ اب مجھے احساس ہو رہا تھا کہ اُن کا لہجہ کہیں نہ کہیں چغلی کھا رہا تھا کہ بولنے والے کی مغربیت مشکوک ہے لیکن میں ادراک نہ کر سکا۔

 ’’ کیا ہم تمھیں ٹرکش نہیں لگتے؟‘‘ مجھے خاموش دیکھ کر خاتون نے کہا۔

 ’’ٹرکش تو ٹھیک ہے! لیکن مسلمان؟‘‘ میں درست الفاظ کا انتخاب نہ کر سکا۔

 ’’کیوں ؟مسلمان کیوں نہیں ؟تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ اس کے ساتھی کے لہجے میں اضطرابی خشونت تھی۔

مجھے اپنے کرخت انداز استفسار پر شرمندگی ہوئی۔

 ’’کچھ نہیں ، میرا مطلب ہے کہ یہ لباس ؟۔۔ آئی ایم سوری۔ یہ آپ کا پرسنل معاملہ ہے۔ میرا خیال ہے ہمیں اس موضوع پر بات نہیں کرنی چاہیے۔‘‘

 ’’ میں تمھاری بات نہیں سمجھا۔‘‘ وہ الجھتے ہوئے بولا۔ ’’ لباس کا مذہب سے کیا تعلق ؟ یہ اس سے بھی مختصر لباس میں رقص کرتی ہے تو کیا اس کا مذہب بدل جاتا ہے؟‘‘

 ’’یہ رقص کرتی ہے؟‘‘ میں نے بلا ارادہ دہرایا۔

 ’’آف کورس! یہ انٹالیہ کی مقبول ترین ڈانسر ہے۔‘‘

 ’’یہ کہاں ڈانس کرتی ہے؟‘‘ مجھے اس کا کیریئر والا فقرہ یاد آ گیا۔

 ’’ انٹالیہ کے کلب نائنٹی نائن میں ، یہ وہاں کی بہترین کیبرے ڈانسر ہے۔ ‘‘

 ’’ترکی ایک ا سلامی ملک ہے۔ وہاں اس قسم کے نائٹ کلب پائے جاتے ہیں ؟ ‘‘

 ’’کس قسم کے نائٹ کلب؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔

 ’’ جہاں کیبرے وغیرہ ہوتا ہے۔‘‘

 ’’تمھارا مطلب ہے دنیا میں ایسے نائٹ کلب موجود ہیں جہاں کیبرے نہ ہوتا ہو؟‘‘

 ’’پتا نہیں۔‘‘ میں نے بے یقینی سے کہا۔ ’’میں نے برّ صغیر سے باہر قدم نہیں رکھا۔‘‘

 ’’ اسی لیے۔۔  مائی ڈئیر ترکی میں دنیا کے بہترین نائٹ کلب پائے جاتے ہیں جہاں ہر قسم کا رقص ہوتا ہے۔ انٹالیہ کے ساحل پر جدید ترین ریسورٹس قائم ہیں اور کئی نیوڈ کلب ہیں لیکن وہ قانونی نہیں ہیں ، امید ہے جلد ہو جائیں گے۔ ترکی اور یورپ کی نائٹ لائف میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔‘‘

 ’’اور یہ سب کچھ مسلمان کرتے ہیں ؟‘‘ میں نے ہچکچاتے ہوئے پو چھا۔

 ’’تم ہر معاملے میں مذہب کی تکرار کیوں کر رہے ہو؟‘‘ اُس نے چڑ کر کہا۔ ’’ سماجی مصروفیات اور پیشے کا مذہب سے کیا تعلق ؟‘‘

یہ بہت خوفناک جواب تھا۔ میں سن ہو کر رہ گیا۔

 مذہب کا سوشل اقدار اور ذریعہ معاش سے تعلق ختم کر دیا جائے تو انسانی زندگی میں اس کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟ میرے ذہن میں اُس ترکی کا تصور تھا جسے کئی سو سال تک عالم اسلام کی قیادت کا شرف حاصل رہا ہے۔ خلافت عثمانیہ کی بقا کیلئے چلائی گئی تحریکِ خلافت برّصغیر کی تاریخ کا اہم باب ہے۔ کیا ترکی کے شہری خلافت کے بعد مذہب کو بھی سماجی اور معاشی معاملات سے بے دخل کر چکے تھے؟

 ’’ تم ترکی کو کیا سمجھتے ہو؟‘‘ مجھے خاموش دیکھ کر اُس نے پوچھا۔

 ’’میں ترکی کو ایک اسلامی ملک سمجھتا تھا۔‘‘ میں نے مایوسانہ لہجے میں کہا۔

 ’’ اسلامی ملک سے تمھاری کیا مراد ہے ؟ ترکی کے ننانوے فیصد باشندے مسلمان ہیں لیکن جمہوریہ ترکی کا آئین سیکولر ہے جس میں مذہب کو شہریوں کا ذاتی معاملہ قرار دے کر گھر کی چار دیواری تک محدود کر دیا گیا ہے۔‘‘

 ’’ مذہب کو ذاتی معاملہ کس نے قرار دیا ہے؟‘‘

 ’’ظاہر ہے پارلیمنٹ نے، آئین پارلیمنٹ بناتی ہے۔‘‘

 ’’ تم لوگ اتنی سنجیدہ گفتگو کیوں کر رہے ہو۔ ‘‘ اُس کے ساتھی نے دخل اندازی کی۔

 ’’پھر کیا کریں ؟گفتگو تو وقت گزارنے کا بہانہ ہے۔ سلیمہ چلنے کے قابل ہو جائے تو روانہ ہو جائیں گے۔ ‘‘

 ’’خانم کا نام سلیمہ ہے؟‘‘ میں نے ترکی کی مناسبت سے پوچھا۔

 ’’خانم؟‘‘ اُسے شاک لگا۔ ’’ میں تمھیں خانم نظر آتی ہوں ؟میں ہر گز خانم نہیں ہوں ، آئی ایم جسٹ اے گرل۔ ‘‘

 ’’آئی ایم سوری، مجھے علم نہیں تھا کہ خانم کوئی معیوب لفظ ہے۔ ترکی میں لڑکی کو کیا کہتے ہیں ؟‘‘

 ’’ یہ کوئی معیوب لفظ نہیں ہے۔ تمہاری عمر کی خواتین کے لئے خانم نہایت مناسب لفظ ہے۔ہم انگلش میں گفتگو کر رہے ہیں تو تم ترکی پر طبع آزمائی کیوں کرنا چاہتے ہو؟تم مجھے مس سلیمہ کہہ لو۔‘‘

 ’’ میرا خیال ہے تعارف ہو جانا چاہیے۔ ‘‘ خاتون کے ساتھی نے کہا۔ ’’یہ انالی ہے اور یہ بصیرہ ہے۔ میرا نام ہاشم ہے اور یہ حمید ہے۔‘‘

 ’’ میرا نام اقبال ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’ اب مجھے چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔درد کافی کم ہو گیا ہے۔ ‘‘ سلیمہ نے اُٹھنے کی کوشش کی اور آہستہ آہستہ کھڑی ہو گئی۔ اُس نے قدم آگے بڑھایا۔

 ’’ درد بہت کم ہو گیا ہے۔ لیکن پاؤں پر پورا وزن نہیں آ رہا۔ ‘‘ اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔

 ’’ وہ ابھی ڈالنا بھی نہیں چاہیے۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’ پھر کیا کروں ؟ ‘‘ اُس نے بے چارگی سے کہا۔ ’’وزن ڈالے بغیر کیسے چلا جا سکتا ہے؟‘‘

 ’’میرا خیال ہے واکنگ سٹک کا سہارا لینے پر تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ تم لوگوں کے پاس واکنگ سٹک نہیں ہے؟‘‘

 ’’ سب کے پاس ہے، لیکن ہم ساتھ نہیں لائے، ہوٹل میں پڑی ہیں۔‘‘

 ’’میں سٹک کا بندوبست کر دیتا ہوں۔ ‘‘ گائیڈ بید کے ایک درخت کی طرف بڑھا اور چند لمحے اس کا جائزہ لینے کے بعد چاقو کی مدد سے ایک مضبوط شاخ کاٹ کر سلیمہ کی خدمت میں پیش کر دی۔ اس دیسی و اکنگ سٹک کا سہارا لے کروہ آہستہ آہستہ چلنے کے قابل ہو گئی۔

 ’’میں چل سکتی ہوں اور اس کا مطلب ہے مجھے کوئی سیریس پرابلم نہیں۔ تم مجھے اپاہج ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔‘‘ سلیمہ نے ہاشم سے کہا۔

اس کے لہجے میں بے پایاں مسرت تھی۔اپنے ساتھی کا سہارا نہ لینے کی وجہ ضد نہیں بلکہ فریکچر کی تصدیق ہونے کالا شعوری خوف تھا۔پاؤں کا معمولی سا فریکچر  ایک رقاصہ کے لیے انتہائی ڈراؤنا خواب ہے جس کے دور رس نتائج اس کے کیریئر کے لیے تمت بلا خیر کا عنوان بن سکتے ہیں۔

اس کے ساتھیوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور ہم آگے روانہ ہوئے۔سلیمہ کی ہر ممکن کوشش تھی کہ اس کی چال سے لنگڑاہٹ ظاہر نہ ہو۔وہ ہمارا ساتھ دینے کے لئے تیز قدم اٹھاتی اور رک کر کراہنے لگتی۔ہاشم اسے سمجھانے میں مصروف ہو جاتا کہ ان حالات میں خرام ناز دکھانا ضروری نہیں اور اس کی چال سے لنگڑاہٹ ظاہر ہو گئی تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔مجھے ایک مرتبہ پھر شدت سے تنویر سیٹھی کی کمی محسوس ہوئی۔وہ ہوتا تو اتنی مغز ماری کرنے کے بجائے اپنے پٹارے سے ایک شعر نکال کر  کھینچ مارتا اور سلیمہ کی عقل ٹھکانے آ جاتی۔

قبول کر لے تو اب مات اپنی جاناں

کبھی کا بیت گیا تیری چال کا موسم

 ’’پاشا خان آپ ہمیں فورٹ کے بارے میں بتا رہے تھے۔‘‘ چند قدم چلنے کے بعد انالی نے گائیڈ سے کہا۔

 ’’میڈم میرا نام پاشا خاں نہیں باشا جان ہے اور میں آپ کو کئی مرتبہ بتا چکا ہوں۔ ‘‘

 ’’ہو گا۔‘‘ اُس نے لا پرواہی سے کہا۔ میں تمھیں پاشا کہوں گی، مائنڈ مت کرو۔‘‘

 ’’یار تمہیں مائنڈ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟  اتنی خوبصورت خاتون تمھیں اپنی مرضی کا نام دے رہی ہے اور تم اعتراض کر رہے ہو ؟ باشا اور پاشا میں کیا فرق ہے ؟ اور تم انہیں فورٹ کے بارے میں کیا بتا تے رہے ہو؟‘‘  میں نے اردو میں پوچھا۔

 ’’میں کچھ نہیں بتا رہا تھا۔یہ خود ہی بتا رہے تھے بلکہ پڑھا رہے تھے کہ پتا نہیں کس کے زمانے میں کھرپوچو دو میل لمبا قلعہ تھا۔ یہ بہت پریشان ہیں کہ کھرپوچو کا باقی حصہ کہاں چلا گیا؟ یہ کسی کتاب کا نام لے رہے ہیں جس کا مصنّف مغربی جانب سے قلعے پر چڑھا تھا۔یہ مصنف کے بیان کردہ راستے کے مطابق کھر ڈونگ کی مغربی جانب سے قلعے پر جانا چاہتے ہیں۔ مجھے خود علم نہیں کہ قلعے کا مغربی حصہ کہاں غائب ہو گیا تو انھیں کیا بتاؤں ؟‘‘ اُس کے لہجے میں مظلومیت تھی۔

 ’’پاشا خان پلیز! انگلش بولو۔‘‘ انالی نے کہا۔

 ’’آئی ایم سوری، لیکن میرے ذہن میں ایک اور سوال پیدا ہو گیا ہے؟‘‘ میں نے باشا خان کے کچھ بولنے سے پہلے کہا۔

 ’’میرے لباس کے بارے میں ؟‘‘ انالی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’نہیں۔آپ سب لوگ ترک ہیں تو انگلش کیوں بول رہے ہیں ؟آپ لوگوں کو آپس میں ترکی بولنا چاہیے۔‘‘

 ’’میری، حمید کی اور ٹمی کی پرورش سوئٹزر لینڈ میں ہوئی ہے اور ہمیں ترکی لہجے پر مکمل عبور حاصل نہیں ہے۔ویسے بھی سیاحت کے دوران انگلش بولنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ کیا یہ کوئی قابل اعتراض یا معیوب بات ہے؟‘‘

 ’’ہرگز نہیں ، آپ کا آپس میں ترکی نہ بولنا مجھے غیر فطری لگا تھا۔آپ لوگوں نے کھر پوچو کے بارے میں کون سی کتاب پڑھی ہے؟‘‘ میں نے موضوع بدلا۔

 ’’ہم جمّوں میں تھے تو ہم نے جی۔ٹی وِگنے کا لدّاخ، کشمیر، کارگل اور بلتستان کی سیّاحت پر مبنی سفر نامہ خریدا تھا۔اُس میں مقپون فورٹ کے بارے میں دلچسپ معلومات تھیں۔ہم اُن کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں مگر ہمارا گائیڈ اس سلسلے میں بالکل لا علم ہے۔‘‘ انالی کے بجائے ہاشم نے جواب دیا۔

 گاڈفرے تھامس وگنے کا نام میرے لئے اجنبی نہیں تھا۔ بلتستان سے متعلقہ کتابوں میں وگنے کے سفرنامے کے حوالے جا بجا ملتے ہیں ، لیکن اس کی کتاب میری نظر سے نہیں گزری تھی۔

 ’’وگنے نے کھر پوچو کے بارے میں کوئی خاص بات لکھی ہے؟‘‘

 ’’ وگنے تقریباً پونے دو سو سال پہلے راجہ کی دعوت پر یہاں آیا تھا۔ اُس کا کہنا ہے کہ وہ اس قلعے میں قدم رکھنے والا پہلا یورپین باشندہ تھا۔ وگنے کے مطابق یہ قلعہ شرقاً  غرباً تقریباً دو میل لمبا تھا۔ ‘‘

 ’’ آپ بتائیں ؟ کیا یہ قابل یقین بات ہے ؟‘‘ باشا نے احتجاج کیا۔

 ’’کیوں نہیں ہے؟اُس نے مسجد، محل اور قید خانے کے بارے میں سب کچھ درست لکھا ہے تو قلعے کے سائز کے بارے میں غلط بیانی کا کیا جواز ہے ؟‘‘ ہاشم نے کہا۔

 ’’میں یہ بات سن چکا ہوں کہ قلعہ اس پوری پہاڑی کی وسعت پر پھیلا ہوا تھا۔ہو سکتا ہے کہ پہاڑی کے اوپر اب بھی کچھ آثار موجود ہوں۔‘‘ میں نے خیال ظاہر کیا۔

 ’’ہم ان ہی کھنڈرات کی تلاش میں اس پہاڑی پر چڑھنا چاہتے ہیں۔‘‘

 ’’ہم نہ کہو۔‘‘ سلیمہ نے  تصحیح کی۔ ’’صرف تم اور حمیدیہ حماقت کرنا چاہتے ہو۔اب تو چوٹ لگ گئی ہے، میرا پہلے بھی ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‘‘

 ’’اور ہمارا بھی نہیں تھا۔‘‘ بقیہ دونوں خواتین نے بیک وقت کہا۔

 ’’پہاڑی پر آپ قلعے کے اوپر سے بھی جا سکتے تھے۔ اس کے لئے اتنا سفر کرنے میں کیا مصلحت ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’یہ یہاں میٹھے پانی کے چشمے اور ہیروں کی تلاش میں آئے ہیں۔‘‘ باشا نے قدرے طنز یہ انداز اختیار کیا۔

 ’’ہیرے۔۔۔‘‘ مجھے ہنسی آ گئی۔

 ’’یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔‘‘ ہاشم نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’وگنے پہاڑی کی مغربی جانب سے قلعے میں داخل ہوا تھا اور اس حصے کی چھت پر سے اُسے قیمتی پتھر ملے تھے۔‘‘

 ’’یعنی ہیرے چھت پر بکھرے ہوئے تھے اور آپ کا خیال ہے وہ ابھی تک وہیں پڑے ہوں گے؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’وگنے نے لکھا ہے کہ پہاڑی کی بھر بھری ریت سے وہ پتھر ملے تھے۔‘‘

 ’’آپ سچ مچ قیمتی پتھروں کی تلاش میں آئے ہیں ؟‘‘

 ’’میں وگنے کی آنکھ سے قلعہ دیکھنا چاہتا ہوں ، اُس کا بیان درست ہوا تو پتھر تلاش کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘ ہاشم نے لا پرواہی سے کہا۔

 ’’سر اگر وہاں ہیرے وغیرہ ہوتے تو سکردو کا ہر باشندہ کروڑ پتی ہوتا۔‘‘ باشا نے کہا۔

 ’’تم خاموش رہو تو بہتر ہے۔مجھے تمہارے گائیڈ ہونے پر شک ہونے لگا ہے۔ ہم نے قلعے اور رنبیر گڑھ کے بارے میں  تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے تمہاری خدمات حاصل کی تھیں۔ تم خود اس بارے میں لا علم ہو تو ہمیں کیا بتاؤ گے؟‘‘

 ’’رنبیر گڑھ؟یہ رنبیر گڑھ کہاں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’یہ ایک نیا لطیفہ ہے۔‘‘ باشا نے بے زاری سے اردو میں کہا۔

 ’’ یہ مجھے بُرا بھلا تو نہیں کہہ رہا ؟‘‘ ہاشم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

 ’’ارے نہیں !۔۔ یہ تو شرمندگی کا اظہار کر رہا ہے۔۔  رنبیر گڑھ کے بارے میں وگنے نے کچھ لکھا ہے؟‘‘

 ’’وگنے کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔سری نگر میں ایک شکارے کے مالک نے مجھ سے فرمایش کی تھی کہ میں سکردو کے رنبیر گڑھ کی تصاویر اُسے ضرور بھیجوں۔‘‘

 ’’اُس نے اپنی دلچسپی کی وجہ نہیں بتائی؟‘‘

 ’’اُس کا کہنا تھا کہ وہ مہاراجہ گلاب سنگھ کی نسل سے تعلق رکھتا ہے جس کے بیٹے رنبیر سنگھ کے نام پر سکردو کے ایک علاقے کا نام رنبیر گڑھ رکھا گیا تھا۔اُس کے بقول یہ علاقہ سکردو کے ڈوگرہ باغ کے نزدیک ہونا چاہیے۔‘‘

 ’’باغ؟‘‘ میں چونکا۔ ’’سکردو میں ڈوگرہ دور کے باغ کے بارے میں تو میں نے پڑھا ہے، مگر یہ رنبیر گڑھ؟اُس نے کوئی اور نشانی نہیں بتائی؟‘‘

 ’’اس کا کہنا ہے کہ رنبیر گڑھ میں گورنر کی رہائش گاہ، کورٹ اور سرکاری ملازمین کی رہائش گاہیں بنائی گئی تھیں۔‘‘

 ’’کورٹ؟‘‘ میں نے پُر خیال لہجے میں دوہرایا اور باشا سے کہا۔ ’’تم نے انہیں کچہری نہیں دکھائی؟‘‘

 ’’دکھائی تھی، میں بھی یہی سمجھا تھا۔مگر یہ اُسے رنبیر گڑھ سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔‘‘

 ’’وہاں تو کئی سڑکیں ہیں۔رنبیر گڑھ ایک چاردیواری میں تھا۔‘‘ ہاشم نے کہا۔

 مجھے اس احمقانہ اعتراض پر ہنسی آ گئی۔اُس کا خیال تھا کہ ڈیڑھ سو سال قدیم رنبیر گڑھ میں ڈوگرہ گورنر عدالت لگائے ہاشم صاحب کا منتظر ہو گا کہ وہ تشریف لائیں اور اس کے منصفانہ فیصلوں پر خراج تحسین پیش کریں۔

میں نے ارادہ کیا کہ کچہری کے پاس سے گزر ا تو رنبیر گڑھ کے آثار دریافت کرنے کی کوشش کروں گا۔

٭٭٭

اسی پانی کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں

ہم گاؤں کے داخلے کے گیٹ پر پہنچ  گئے جس کے ستون سیاہ اور سفید پتھروں کے خوبصورت ڈیزائن سے بنے ہوئے تھے۔ستونوں کے اوپر افقی رخ پر ایک تختہ نصب تھا جس پر لکھا تھا:

"Welcome to First Organic Village of Pakistan"

گیٹ کے پاس ایک اور بورڈ نصب تھا جس پر اردو میں ’’ویلکم ٹوننگ ژ ھوق‘‘ لکھا تھا۔  اسے پڑھ کر مجھے علم ہوا کہ گاؤں کا نام نین سُکھ نہیں ، ننگ ژھوق ہے، جسے ’’نن ژُق‘‘ کہا جاتا ہو گا کیونکہ بلتی زبان کے ’’گ‘‘ اور ’’و‘‘ اردو کا لبادہ پہنتے ہی خاموش اداکار کا رول سنبھال کر جھٹکے لینے لگتے ہیں۔ ایک بورڈ پر گاؤں کا معلوماتی نقشہ بنا ہوا تھا جس میں جھیل، چشمے، ہوٹل اور آرگینک فارمز کی نشاندہی کی گئی تھی۔ گاؤں میں داخلے کے لیے ٹکٹ ضروری تھا جس کی شرح پاکستانیوں کے لیے دس روپے اور غیر ملکیوں کے لئے پچاس روپے تھی۔

 ’’ آرگینک ولیج سے کیا مراد ہے؟ میرا خیال ہے سارے گاؤں آر گینگ ہوتے ہیں ، نان آر گینگ گاؤں کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ حمید صاحب نے پہلی مرتبہ زبان کھولی۔

 ’’آر گینگ ولیج سے مراد ایسا گاؤں ہے جہاں فصلیں اُگانے کیلئے مصنوعی کھاد اور زرعی ادویات استعمال نہیں کی جاتیں۔یہاں کی سبزیاں اور پھل نہایت اعلیٰ کوالٹی کے سمجھے جاتے ہیں۔‘‘ باشا نے جواب دیا۔

 ’’ویر ی گڈ، پاکستان میں اور کتنے آر گینگ ولیج ہیں ؟‘‘

 باشا کا ذخیرہ معلومات جواب دے چکا تھا۔ اُس نے امداد طلب نظروں سے میری طرف دیکھا لیکن مجھے آر گینگ ولیج کا مطلب ابھی معلوم ہوا تھا، تعداد کا علم کیسے ہوتا؟

حمید نے زیادہ تفتیش نہیں کی۔ گیٹ عبور کرنے کے بعد ہمیں تقریباً دس منٹ چلنا پڑا اور ہم ایک چھوٹی سے جھیل کے کنارے پہنچے جسے جھیل کہنا یا لکھنا سخت زیادتی تھی۔ یہ ایک چھوٹا سا تالاب تھا۔بائیں جانب ایک پر شور پہاڑی چشمہ تھا جس کا پانی ایک نالے میں تبدیل ہو کر اس تالاب میں داخل ہو رہا تھا۔اس نام نہاد جھیل کے کنارے چنار کے ایک چھتاور درخت کے نیچے چند بڑے بڑے پتھروں کو سنگی نشستوں کی صورت میں ترتیب دے دیا گیا تھا جن پر تشریف فرما ہو کر ہم نے اردگرد کا جائزہ لیا۔

جھیل کے کنارے ایک بورڈ لگا تھا جس پر انگریزی اور اردو میں لکھا تھا۔

 ’’یہ جھیل گاؤں کے باشندوں کے لیے پینے کے پانی کا واحد ذریعہ ہے۔براہ مہربانی اس کے پانی کو آلودہ نہ کریں ‘‘

 جھیل کے ’’غیر آلودہ‘‘ پانی میں تین چار ننگ دھڑنگ مقامی بچے واٹر پولو کھیل رہے تھے۔ دو تین گیندیں اُن کے ہاتھوں میں گردش کر رہیں تھیں۔ کوئی گیند جھیل سے باہر چلی جاتی تو لڑکا اُس کے تعاقب میں جھیل سے باہر نکلتا اور مویشیوں کے غیر آلودہ فضلے سے آلودہ پیروں کے ساتھ جھیل میں دوبارہ چھلانگ لگا دیتا جس کے پانی کو گندہ نہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

 ’’یہ پینے کے پانی کا ذخیرہ ہے؟‘‘ انالی نے حیرت سے پوچھا۔

میں نے اور باشا نے کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔

 ’’تم تو کہہ رہے تھے یہاں خالص ترین سبزیاں ، پھل اور اناج ملتا ہے؟‘‘

 ’’وہ تو ملتا ہے‘‘ باشا نے جواب دیا۔

 ’’جہاں پینے کے پانی کا یہ حال ہو اور اس میں مزید آلودگی کی گنجایش ہو وہاں کوئی چیز خالص کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘ ہاشم نے تلخ لہجے میں پوچھا۔

ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔

  یہ جھیل یقیناً پینے کے پانی کا واحد ذریعہ تھی، لیکن اس کی ظاہری حالت اس قابل نہیں تھی کہ اس شرف کو مشتہر کیا جائے۔ اسے ٹراؤٹ فش فارم ظاہر کر کے آلودگی پھیلانے کی ممانعت کی جا سکتی تھی کیونکہ اس میں ٹراؤٹ فش کی اچھی خاصی تعداد آنکھ مچولی کھیل رہی تھی۔ اس تالاب کو فخریہ انداز میں پینے کے پانی کے ذخیرے کے طور پر پیش کرنے والے کی دماغی صحت پر شبہ نہ کرنا بہت بڑی زیادتی تھی۔

جھیل کے بعد میں نے چشمے کا جائزہ لینا چاہا لیکن نظریں چشمے تک پہنچنے کے بجائے ایک بہت بڑے پتھر کی اوٹ میں موجود ایک مقامی جوڑے میں اٹک گئیں جو حدود آرڈیننس کی حدود پر بیٹھ کر انہیں کراس کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اپنی مصروفیات کی وجہ سے وہ دونوں ابھی تک ہماری طرف متوجّہ نہیں ہوئے تھے۔ہماری آوازیں بلند ہوئیں تو وہ منتشر ہوئے اور ایک دوسرے سے دور ہٹ کر بیٹھ گئے۔ وہ کنکھیوں سے ہمارا جائزہ لے رہے تھے۔ہمارے انداز میں ’’دفع دور‘‘ کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو وہ خود اُٹھ گئے اور کسی بہتر گوشہ عافیت کی تلاش میں جھیل سے نکلنے والے آبپاشی کے نالے کے کنارے کنارے چلتے ہوئے گاؤں کی حدود سے باہر نکل کر کھیتوں میں غائب ہو گئے۔

ننگ ژھوق آرگینک ولیج ہونے کے ساتھ ساتھ سکردو کے لَو برڈز کے لئے ایک پُر سکون میٹنگ پوائنٹ بھی تھا۔

 ’’ٹکٹ کا پیسے دو صاب۔‘‘ ایک مقامی باشندے نے قریب آ کر مطالبہ کیا۔ ہم نے ٹکٹ کے پیسے ادا کرنے کے بعد  اُس سے ہوٹل  کے بارے میں دریافت کیا۔

 ’’و ہ ہوٹل توہے ناں۔‘‘ اُس نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا جس کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔

 ’’وہ تو بند ہے، اس کا مالک کہاں ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’اس کا مالک ہم اے ناں صاب۔امارا نام راشد اے۔‘‘

 ’’ کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں ملے گا؟‘‘ گائیڈ نے پوچھا۔

 ’’ ملے گا ناں صاب۔ خوبانی ملے گا، خوبانی اور سیب کا جوس ملے گا، خوبانی کا گلاب جامن ملے گا، ڈرائی فروٹ ملے گا۔کھانا بولو گے توہم گھر میں بنوائے گا۔ ‘‘

باشا نے ہاشم کو مینیو بتایا۔

 ’’جوس میں اس نے یہی پانی ڈالا ہو گا؟‘‘ ہاشم نے پوچھا۔

باشا نے ایک مرتبہ پھر کوئی جواب دینا منا سب نہ سمجھا۔

 ’’ ہم جوس نہیں پئیں گے۔ ‘‘ حمید نے اعلان کیا۔ ’’ تھوڑا سا ڈرائی فروٹ منگوا لو۔‘‘

باشا نے میری طرف دیکھا۔

 ’’ جوس میں اسی جھیل کا پانی ڈالتے ہو؟‘‘ میں نے راشد سے پوچھا۔

 ’’ ام خالص جوس بناتا اے، اُس میں پانی نئیں ڈالتا۔ ‘‘ اس نے بیزاری سے کہا۔

 ’’یار تھوڑ ابہت تو ڈالتے ہی ہو گے۔ ‘‘ میں نے رازدارانہ انداز میں پوچھا۔

وہ خاموش رہا۔

 ’’میں جوس پیوں گا۔ ‘‘ میں نے فیصلہ کیا۔

 ’’دو گلاس جوس اور تھوڑا سا ڈرائی فروٹ لے آؤ۔‘‘ باشا نے آرڈر دیا۔

 گلاس ؟گلاس نہیں ہوتا، بوتل ہوتا اے۔‘‘

 ’’ ٹھیک ہے دو بوتل لے آؤ۔ ‘‘

 ’’اور ڈرائی فروٹ سو روپے کالے آئے ؟‘‘

 ’’لے آؤ۔ ‘‘

وہ جوس اور ڈرائی فروٹ لینے چلا گیا۔

 ’’تم اس پانی سے بنا ہوا جوس پیو گے؟مجھے ایک مرتبہ پھر تمہارے ڈاکٹر ہونے پر شک ہونے لگا ہے‘‘ سلیمہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’مجھے یہ پانی کچھ نہیں کہے گا۔‘‘ میں نے یقین سے کہا۔

 ’’کیوں ؟‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’اب تمہیں کیسے سمجھاؤں ؟بقول شاعر:

اسی پانی کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں

خوبانی کا جوس تو ہے قومی نشاں ہمارا

باشا ہنسنے لگا اور وہ حیران نظروں سے ہمیں دیکھنے لگے۔

ہم نے ذرا گھوم پھر کر گاؤں کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔

 ننگ ژھوق چھوٹا سا گاؤں تھا جو روایتی پہاڑی طرز تعمیر کا نمونہ تھا۔ ایک یا دو کمروں پر مشتمل مکانات سے خستہ حالی جھلکتی تھی اور ان کی تعمیر میں پتھر، لکڑی اور بید کی چھڑیاں استعمال کی گئیں تھیں۔ گاؤں کے اکثر خواتین و حضرات کھیتوں میں مصروف تھے۔ننگ ژھوق میں اس وقت بچّوں کی فوج ظفر موج کدکڑے لگا رہی تھی۔ چند ایک خواتین بھی نظر آئیں جن کے چہرے زرد اور بے رونق تھے۔ منٹھل اور چُندا کی چھیل چھبل یہاں مفقود تھی۔

ہوٹل کا مالک جوس کی بوتلیں اور ڈرائی فروٹ لے آیا۔ یہ ڈرائی فروٹ خوبانی کی گٹھلیوں سے برآمد ہونے والے مغز پر مشتمل تھا، جسے خوبانی کا بادام کہا جاتا ہے۔ ترکی گروپ ڈرائی فروٹ سے شغل کرنے لگا، میں نے اور گائیڈ نے خوبانی کا جوس پیا۔۔  اور سچ تو یہ ہے کہ سواد آ گیا۔میں اتنے لذیذ جوس کی توقع ہر گز نہیں کر رہا تھا۔ میں ڈبے کے جوس کا عادی تھا جس میں پھلوں کا ایسنس اور رنگ گھول دیا جاتا ہے۔ یہ تازہ خوبانیوں کا خالص جوس تھا جسے مقامی لوگ فاڑنگ شو کہتے ہیں۔ اس ننگ ژھوقی سوغات نے سچ مچ ’’سینے وچہ ٹھنڈ پا دِتتی‘‘۔۔ میں نے ایک اور بوتل کی فرمائش کر دی۔

 ’’ اچھا اے ناں صاب؟‘‘ راشد نے خوش ہو کر پوچھا۔

 ’’ بہت اچھا ہے، مجھے تو بہت پسند آیا۔‘‘

 وہ ایک اور بوتل لینے چلا گیا۔

 واپس آیا تو میں نے یہاں کے سات درختوں ، سات چشموں اور سات پتھروں کے بارے میں پوچھا۔

 ’’ ادھر تو یہی سب اے صاب!اب پتہ نہیں یہ سات اے کہ آٹھ اے۔‘‘

اس چھوٹی سے جگہ میں تینوں چیزیں موجود تھی لیکن تعداد کے بارے میں کچھ کہنا مشکل تھا۔ اوپر سے پتہ نہیں کتنے چشمے پھوٹتے تھے لیکن نیچے آتے آتے ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک پہاڑی نالے کی صورت اختیار کر لیتے تھے جو جھیل کے پانی کا منبع تھا۔

 ’’ننگ ژھوق کا کوئی مطلب بھی ہے؟‘‘ میں نے راشد سے پوچھا۔

 ’’ اس کا مطلب اے گاؤں جیسا، گاؤں کا مانند۔‘‘

 ’’گاؤں جیسا کیوں ؟ یہ گاؤں نہیں ہے؟‘‘

 ’’ادر بہت تھوڑا گھر تھا ناں۔پہلے اسے گاؤں جیسا بولتا تھا اب گاؤں بن گیا اے۔ ‘‘

 ’’یہ آر گینگ ولیج کب سے بنا ہے؟‘‘

 ’’ تین  چار برس ہو گیا اے۔ ‘‘

 ’’کس نے بنایا ہے؟‘‘

 ’’ اٹلی کا لوگ اے صاب۔وہ لوگ ادر بوت کام کر تا اے۔خوبانی کو خشک کرنے کا اور پیک کرنے کا نیا طریقہ بتاتا اے۔ ادر ابی سکول بی بناتا اے، اور امارا جھیل بی صاف کرواتا اے۔‘‘ اس نے جھیل کی طرف اشارہ کیا جہاں بچے واٹر پولو کھیل رہے تھے۔

 ’’ وہ صاف کرتے ہیں اور آپ گندہ کر تے ہیں ؟ ‘‘ میں نے طنزیہ انداز میں کہا۔

 ’’بچہ لوگ اے نا صاب، سب روکتا اے مگر یہ مانتا ای نئیں۔‘‘ اس نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔

ہمیں باتیں کرتا دیکھ کر ہاشم نے فرمائش کی:

 ’’اس سے ذرا یہاں سے قلعے تک رسائی کے بارے میں پو چھیں۔‘‘

 ’’یہاں سے کھر پوچو جانے کے لئے کوئی ڈائریکٹ راستہ بھی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’ہے ناں۔ ادر سے پہاڑ پر چڑھو اور سیدھا کھر پوچو میں چلے جاؤ۔‘‘

 ’’تمہارا مطلب ہے کھر پوچو یہاں تک پھیلا ہوا ہے؟‘‘

 ’’پہلے ادر تک تھا ناں ! تم نیچے والے راستے سے جائے گا تو قلعے کے بی نیچے پہنچے گا۔۔  پھر اوپر چڑھے گا۔۔ ادر سے اوپر چڑھ جائے گا تو سیدھا اوپر جائے گا۔‘‘

 ’’میں فی الحال سیدھا اوپر جانا نہیں چاہتا۔‘‘ میں نے ڈر کر کہا۔

 ’’نیچے جانا چاہتا ہے؟‘‘ اُس نے معصومیت سے پوچھا۔

 ’’ابھی میں کہیں نہیں جا رہا۔‘‘ میں نے بوکھلا کر کہا۔

 ’’ادر ایک اور قلعہ بی تو تھا ناں صاب۔‘‘

 ’’کھر پوچو کے علاوہ کوئی اور قلعہ بھی تھا؟‘‘

 ’’کاچی کھر تھا ناں صاب۔کھر ڈونگ کے مشرق والے سرے پر کھر پوچو اے، اِدر مغرب والے سرے پر کاچی کھر تھا۔ دونوں کے درمیان میں پہاڑ ی کے اوپر ای اوپر راستہ تھا۔کاچی کھر نہ ہوتا تو دشمن ادر سے چڑھ کر کھر پو چو پر قبضہ نئیں کر لیتا؟‘‘

میں حیران رہ گیا۔

راشد نے دو فقروں میں کھری ڈونگ، کھر پوچو اور کاچی کھر کا تفصیلی حدود اربعہ مجھے سمجھا دیا تھا جسے جی۔ٹی وگنے سفرنامہ لکھنے کے باوجود ہاشم کو سمجھانے میں ناکام رہا تھا۔کھری ڈونگ نامی پہاڑی شرقاً غرباً تقریباً تین کلومیٹر لمبی ہے جس کے مشرقی سرے پر کھر پوچو اور مغربی سرے پر کاچی کھر نامی قلعے تعمیر کیے گئے تھے۔ دونوں قلعوں کے درمیان آمدو رفت کے لئے پہاڑی کے اوپر راستہ موجود تھا۔مشرقی قلعے کھر پوچو کے لیے سکردو اور مغربی قلعے کاچی کھر کے لیے ننگ ژھوق کے قرب و جوار سے راستہ جاتا تھا۔ہم پہاڑی کے شمالی پہلو میں چلتے ہوئے کھر پوچو سے کاچی کھر آئے تھے۔ وِگنے دونوں قلعوں کو ایک ہی قلعے کے دو حصے سمجھ بیٹھا تھا۔ہو سکتا ہے اوپر والے راستے پر کاچی کھر سے کھر پوچو جاتے ہوئے اُسے کوئی قیمتی پتھر مل گیا ہو۔

میں نے یہ معلومات ہاشم کو منتقل کیں تو وہ خوشی سے اُچھل پڑا۔

 ’’میں نے کہا تھا ناں کہ ہمارا گائیڈ اناڑی ہے۔‘‘ اُس نے باشا کو گھورتے ہوئے کہا۔

باشا نے اپنی شرمندگی ایک جھینپی ہوئی مسکراہٹ میں چھپا لی۔

میں نے بعدمیں کھر پوچو کے بارے میں پڑھا تو علم ہوا کہ یہاں واقعی دو قلعے تھے۔شاہ جہاں کے درباری مورخ عبدالحمید لاہوری نے اپنی تصنیف بادشاہ نامہ میں اس قلعہ کا ذکر کیا ہے۔اس نے دوسرے قلعے کا نام کاچی کھر کے بجائے کچانا لکھا ہے:

 ’’تبت خورد (بلتستان) کے موجودہ مرزبان (راجہ) کے والد علی رائے (علی شیر خاں انچن) نے دو اونچی چوٹیوں پر دو بہت مضبوط قلعے بنائے ہیں۔ایک کو ’’ کھرپوچا ‘‘ اور دوسرے کو ’’کچانا‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہر قلعہ تک جانے کے لیے الگ راستہ ہے، جو انتہائی دشوار گزار اور خطرناک ہے۔ دو قلعوں کے درمیان رابطہ کے لیے راستہ پہاڑی کے اوپر ہی ہے۔ ‘‘

کھر پوچو کے بانی کے بارے میں یہ بہت دلچسپ اختلاف ہے۔ بلتستان کے تاریخی حوالہ جات اور مقپون خاندان کی روایات کی رو سے برق مقپون بوخا نے کھرپوچو تعمیر کیا۔ اس کے بر عکس مغل تاریخ دان، برطانوی تذ کرہ نویس اور امپیریل گزٹ آف انڈیا علی شیرخان انچن کو اس قلعے کا بانی قرار دیتے ہیں۔

میں نے راشد کا لایا ہوا ڈرائی فروٹ چکّھا۔ اس میں بادام کی فرحت بخش شیرینی کے بجائے ہلکا سا کھارا پن تھا۔ خوبانی کی گلاب جامن خوبانی کا گودا گلاب جامن کی شکل میں ڈھال کر ایجاد کی گئی تھی۔ یہ گلاب جامن راشد نے بطور ’’جھونگا‘‘ پیش کی تھیں جو مالِ مفت ہونے کی وجہ سے زیادہ پسند نہیں کی گئیں۔ ڈرائی فروٹ کے بعد پیاس کا احساس ہوا تو میں نے چشمے کا پانی پیا۔ چشمے کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے الفاظ نسیم حجازی کے تاریخی ناولوں میں بے شمار مرتبہ نظر سے گزرے تھے لیکن ان کا جامع مطلب ننگ ژھوق کے چشمے کے پانیوں میں پوشیدہ تھا۔ جس طرح ’’ٹھاٹھیں مارنا‘‘ کا صحیح تصور کرنے کے لئے سکردو روڈ کے سنگی دریائے سند ھ تک آنا ناگزیر ہے، اسی طرح چشمے کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے مفہوم سے آشنا ہو نے کے لئے ننگ ژھوق تک سفر کی معمولی سی زحمت درکار ہے۔

 ترکی گروپ کلائمبنگ کرنا چاہتا تھا۔ ہاشم کے ذہن میں وہ جگہ اٹک گئی تھی جہاں سے وگنے کو قیمتی پتھر ملے تھے۔ وہ کھر پوچو کی چھت کی خاک چھاننے پر مصر تھا۔باشا کو پورا یقین تھا کہ اُس کے دماغ کی کوئی نہ کوئی چول ضرور ڈھیلی ہے۔۔ میرا بھی یہی خیال تھا۔۔   دماغ کی چولیں ڈھیلی نہ ہوں تو ننگ ژھوق آنے کا فیصلہ کون کرتا ہے؟

میں نے واپسی کا ارادہ کیا اور اُنھیں خدا حافظ کہا تو سلیمہ چونک اُٹھی :

 ’’ تم ہمارے ساتھ ہی واپس چلنا۔ ‘‘

 ’’مجھے کوہ پیمائی کا کوئی شوق نہیں۔‘‘

 ’’ کوہ پیمائی ہاشم اور حمید کریں گے۔۔ ہم لوگ یہیں بیٹھیں گے۔‘‘

 ’’ مجھے کچھ خریداری کرنی ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ آئندہ کوئی خوب صورت خاتون میری نظروں کے سامنے زخمی ہو اور مجھے ڈاکٹر سمجھنے سے انکار کر دے۔‘‘

 ’’آئی ایم سوری۔‘‘ وہ خوش دلی سے ہنسی۔ ’’یہ غلطی میں نے نہیں ہاشم نے کی تھی۔ میں تمہاری شکر گزار ہوں اور میری درخواست ہے کہ تم ہمارے ساتھ واپس چلو اور میرے ساتھی ٹمی کو ایک نظر دیکھ لو۔وہ شدید درد کی وجہ سے یہاں نہیں آ سکا۔‘‘

 ’’تم لوگ اُسے ہسپتال کیوں نہیں لے گئے؟‘‘

 ’’ لے گئے تھے،  ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کا خیال تھا کہ ٹمی کو سرجن کی رائے کی اشد ضرورت ہے لیکن سرجن چھٹی پر تھا۔اس نے ہمیں سی۔ایم۔ایچ کا راستہ دکھایا،  لیکن ہماری بد  قسمتی کہ وہاں کا سرجن کسی ٹریننگ کے سلسلے میں کراچی گیا ہوا ہے۔‘‘

 ’’ آپ کے ساتھی کا پرابلم کیا ہے؟‘‘

 ’’ اُس کے گھٹنے پر چوٹ لگ گئی تھی۔گھٹنا اب بری طرح سوج چکا ہے۔ ڈاکٹر نے بیک سلیب لگا دیا تھا، مگر تکلیف کم نہ ہوئی تو ٹمی نے بیک سلیب اتار پھینکا۔ ‘‘

 ’’تم اپنا ایڈریس بتاؤ، میں شام کو یا رات کو وہاں آنے کی پوری کوشش کروں گا۔‘‘

 ’’ ہمارا قیام سکردو ہوٹل کے کمرہ نمبر ایک سو چھپن میں ہے، لیکن آج رات ہم وہاں نہیں ہوں گے۔کیا یہ ممکن نہیں کہ تم سات پار لیک پر آ جاؤ۔۔ آؤٹنگ بھی ہو جائے گی اور۔۔۔‘‘

 ’’رات کو؟‘‘ میں نے خوف زدہ ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔

 ’’کیا مطلب؟۔۔ کوئی پرابلم ہے؟‘‘ اس نے حیران ہو کر کہا۔

 ’’یہ لیک ظاہر ہے کسی ویران جگہ پر ہو گی۔۔ ٹمی تو وہاں ہو نہیں سکتا۔۔ تم مجھے وہاں کیوں بلا رہی ہو؟‘‘ میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنی گردن سہلاتے ہوئے کہا۔

 ’’تمہارا مطلب ہے میں ڈریکولا ہوں ؟‘‘ اُس نے میرا اشارہ سمجھ کر ناراضگی سے کہا اور اُس کے ساتھیوں نے زور دار قہقہہ لگایا۔

 ’’چچ چچ۔۔ سلیمہ اب تمہیں ریٹائرڈ ہو جانا چاہیے۔ کتنا برا وقت آ گیا ہے؟ اتنی کھلی دعوت پر بھی لفٹ نہیں ملتی۔‘‘ بصیرہ نے اُسے چھیڑا۔

 ’’مردوں کی جانب سے فوراً ملتی ہے۔‘‘ اس نے شانِ بے نیازی سے جواب دیا اور میرا حساب بمع سود چکا دیا۔

 ’’اب تو مجھے سر کے بل آنا پڑے گا، یہ سات پار لیک ہے کہاں ؟‘‘

 ’’یہ صد پارہ کو سات پار کہہ رہے ہیں۔‘‘ باشا نے وضاحت کی۔

 ’’ ست پڑا لیک میں دیکھ چکا ہوں ، وہاں دوبارہ جانا فی الحال مشکل ہے۔ آپ لوگ رات کو وہاں کیا کریں گے؟‘‘

 ’’دیکھ تو ہم بھی چکے ہیں۔آج میری سالگرہ ہے اور میں اپنی سالگرہ ہمیشہ اوپن ایئر میں مناتا ہوں۔ سلیمہ تمہیں سالگرہ میں شرکت کی دعوت دینے لگی تھی لیکن تم نے اس کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔ ‘‘ ہاشم نے کہا۔

 ’’تمہارے ساتھی کو شدید درد ہو رہا ہے تو وہ وہاں کیسے جائے گا؟‘‘

 ’’ٹمی کو کیمپنگ بہت پسند ہے اور وہ بہ ضد ہے کہ سالگرہ کا فنکشن ضرور اٹینڈ کرے گا۔اس کا خیال ہے کہ جیپ کے سفر میں اسے کوئی دشواری نہیں ہو گی۔‘‘

 ’’او۔کے، اگر مس سلیمہ کی دعوت برقرار ہے تو میں اوپن ایئر ترکی سالگرہ کا مشاہدہ کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔‘‘

 ’’ سلیمہ کی دعوت اپنی جگہ۔۔ ہم سب تمہیں دعوت دیتے ہیں کہ یہ فنکشن ضرور اٹینڈ کرنا۔سلیمہ زخمی نہ ہوتی تو تمہیں ترکی رقص دیکھنے کا موقع مل جاتا۔اب ترکی کھانے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ویسے انالی ٹرکش رائس بہت اچھے پکاتی ہے۔‘‘ ہاشم نے کہا۔

 ’’آپ لوگ کھانا خود پکاتے ہیں ؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’صرف کیمپنگ کے دوران، کیمپنگ کا اصل لطف خود پکا کر کھانے میں ہے۔ہم نے بڑی مشکل سے سامان اکٹھا کیا ہے۔ امید ہے تم انجوائے کرو گے۔‘‘

مجھے سلیمہ کے زخمی ہونے کا افسوس اب ہوا۔وہ زخمی نہ ہوتی تو؟

 لیکن وہ زخمی نہ ہوتی تو ان لوگوں سے تعارف کی نوبت کیسے آتی؟ میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ کناں ہوا کہ اے باری تعالیٰ! اگر سلیمہ کی جگہ انالی یا بصیرہ زخمی ہو جاتیں تو کارخانہ قدرت میں کیا خلل پڑتا؟ سکردو میں ترکی رقص دیکھنے کا موقع عطا فرمانے کے بعد اتنی بڑی اڑچن پیدا کرنے میں کیا مصلحت پوشیدہ ہے؟

 ’’ تم اپنا رابطہ دے دو۔اگر تم کسی وجہ سے نہ آ سکے تو کل ہم ٹمّی کو تمہارے پاس لے آئیں گے۔‘‘ ہاشم نے کہا۔

 ’’میں کوشش کروں گا، اگر نہ آ سکوں تو تم آرمی پبلک سکول کے ہوسٹل آ جانا۔‘‘

 ’’آرمی پبلک سکول کا ہوسٹل کہاں ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

 ’’تم ٹیکسی ڈرائیور کو آرمی پبلک سکول کا ہوسٹل کہہ دینا۔۔ وہ پہنچا دے گا۔‘‘

 ’’بہت بہت شکریہ۔تم نے ہمارا بہت بڑا مسئلہ حل کیا ہے، اللہ تمہیں اس کا اجر دے۔‘‘

 ’’میرا خیال ہے کہ مس سلیمہ کا موڈ آف ہو گیا ہے۔ آئی ایم سوری۔۔ میں نے مذاق کیا تھا۔۔  اور اس کا حوصلہ مجھے تم لوگوں کے بے تکلفانہ رویے کی وجہ سے ہوا تھا۔‘‘

 ’’اوہ نو، ایسی کوئی بات نہیں۔ویسے تمہارا مذاق بہت بے رحمانہ تھا۔اس کی تلافی کے لئے عملی معذرت۔ یعنی ہاشم کی سالگرہ میں شرکت بہت ضروری ہے۔‘‘ سلیمہ نے کہا۔

ست پڑا لیک پر آنے کا کچا پکا وعدہ کر کے میں اُن سے رخصت ہوا۔کاچی کھر تا کھرپوچو روڈ پر سفر کرتے ہوئے میں کھر ڈونگ کے مشرقی کنارے تک آیا اور دریائے سندھ کے کٹاؤ کی وجہ سے پیدا ہونے والے شگاف پر بنا ہوا پُل عبور کر کے سکردو میں داخل ہو گیا۔ایمونیشن ڈپو کے پاس سے گزرنے لگا تو اعظم نے آواز دے لی۔

 ’’ ڈاکٹر صاحب ادھار واپس لیے بغیر واپس جانا بہت بڑی زیادتی ہے۔‘‘

اتنی پُر خلوص دعوت کو نظر انداز کرنا کفرانِ نعمت کے مترادف ہوتا اس لیے میں نے نہ صرف چائے بلکہ گرم گرم پکوڑوں کے ساتھ بھی پورا پورا انصاف کیا جو اعظم خان نے چائے بنانے کے دوران منگوائے تھے۔ چائے کے بعد میں نے اعظم سے اجازت لی اور گنگوپی واٹر چینل کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا بازار میں داخل ہو گیا۔

٭٭٭

چاند کیوں پانی میں اترا ہے ترے

میں سکردو کے بازار میں اُس عجوبہ روزگار پشتے کا جائزہ لے رہا تھا جس کے اوپر سے گنگوپی واٹر چینل گزرتا ہے اور جسے میں آرائشی گیٹ یا فٹ برج(Foot Bridge) سمجھتا رہا تھا۔

 ’’السّلامُ علیکم۔‘‘ ایک کڑک دار آواز آئی۔ ’’آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘

 ’’مجھے؟کوئی پریشانی نہیں ہے۔‘‘ میں اس اچانک حملے پر گھبرا گیا۔

 ’’پھر یہاں ساکت و جامد کیوں کھڑے ہیں۔‘‘ اسی انداز میں سوال کیا گیا۔

میں نے کے۔ٹو ٹریولز کے منیجر صابر صاحب کو پہچان کر گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور خیرو عافیت پوچھنے کے بعد کہا۔

 ’’آپ کو دیکھا تو یہ خیال آیا کہ مجھے کئی قسم کی پریشانیاں لاحق ہیں۔‘‘

 ’’اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟ میرا مطلب ہے کہ داور صاحب کے مہمان کی پریشانی تو اس ناچیز کی پریشانی ہے۔مگر عرفان صاحب کو کیا پریشانی ہے؟‘‘

 ’’عرفان کو کوئی پریشانی نہیں ہے، امید ہے وہ بہ خیر و عافیت ہو گا۔‘‘

 ’’میرا مطلب ہے وہ کہاں ہیں اور آپ کے ہمراہ کیوں نہیں ہیں ؟‘‘

 ’’وہ  کے۔ٹو بیس کیمپ پہنچنے والا ہو گا۔‘‘

 ’’پھر آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘

 ’’میری سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ رنبیر گڑھ کہاں ہے؟ اور دوسری۔۔۔‘‘

 ’’میرا مطلب ہے کہ آپ عرفان صاحب کے ساتھ بیس کیمپ کے لئے عازمِ سفر کیوں نہیں ہوئے؟‘‘ اُنھوں نے میرا فقرہ مکمل نہ ہونے دیا۔

 ’’میرے شیڈول میں بیس  کیمپ شامل نہیں تھا۔‘‘

 ’’اس میں آپ کے لئے کیا پریشانی تھی؟میرا مطلب ہے۔۔ ؟‘‘

 ’’اور کس کے لئے پریشانی تھی؟‘‘ میں نے حیرانی سے اس کی بات کاٹی۔

 ’’میرا مطلب ہے آپ نہیں گئے تو بہت اچھا کیا۔وہ بہت کٹھن اور دشوار گزار راستہ ہے، تسکین نظر کی خاطر جان جوکھوں میں ڈالنا خلافِ  مصلحت عمل ہے۔ سکردو اور گرد و نواح میں دلفریب مناظر کی بہتات ہے، آپ ان کی جلوہ آفرینیوں سے لطف اندوز ہوں۔‘‘

 ’’ہو رہا ہوں۔‘‘

 ’’اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟ میرا مطلب ہے آپ کیا پریشانی بتا رہے تھے؟‘‘

 ’’میں رنبیر گڑھ دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

 ’’اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟میرا مطلب ہے کہ ما شا اللہ !نہایت مبارک ارادہ ہے آپ کا، آثارِ قدیمہ کے شیدائی اب خال خال نظر آتے ہیں۔کیا کوئی پریشانی آپ کے ذوقِ دید کی راہ میں حائل ہے؟‘‘ انہوں نے مسرت آمیز حیرانی سے پوچھا۔

 ’’بنیادی پریشانی یہ ہے کہ میں رنبیر گڑھ کے محل وقوع سے لا علم ہوں۔‘‘

 ’’اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟  میرا مطلب ہے کہ ناگوارِ خاطر نہ ہو تو یہ ناچیز آپ کی راہنمائی کا شرف حاصل کرنا عین سعادت سمجھے گا۔‘‘

 ’’ یہ آپ کی ذرّہ نوازی ہے، مگر آپ کو زحمت ہو گی۔‘‘ میں نے اظہار تکلف کیا۔

 ’’اس میں  آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘ اُنہوں نے مجھے بازو سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے کہا۔

اگر صابر صاحب خود نہ بتائیں کہ آپ کو کیا پریشانی ہے تو بقراط اور سقراط بھی اپنی پریشانی کا اندازہ نہیں کر سکتے۔میں کیسے کرتا؟ میں سچ مچ پریشان ہو کر اُن کے ساتھ چل دیا۔

ہم کے۔ٹو ٹریولز ہوٹل کے سامنے سے گزر کر چشمہ روڈ پر آ گئے۔ پی۔آئی۔اے بکنگ آفس، ٹیلیفون آفس،  پوسٹ آفس اور ضلع کچہری کے سامنے سے گزر کر صابر صاحب نے اُس چھوٹی سی پہاڑی کو سر کر کے بریک لگائے جس پر ڈی۔سی۔او آفس اور کے۔ٹو موٹیل واقع ہیں۔

 ’’لیں جناب، آپ رنبیر گڑھ میں کھڑے ہیں۔‘‘ اُنہوں نے کہا۔

 ’’یہ رنبیر گڑھ ہے؟یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے۔ ‘‘

 ’’گزرے تھے؟کب گزرے تھے؟کیوں گزرے تھے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

 ’’میں آج صبح کے ٹوموٹیل گیا تھا۔‘‘

 ’’پھر آپ کو اس میں کیا پریشانی ہے؟‘‘ صابر صاحب حیران تھے۔

 ’’پریشانی یہ ہے کہ رنبیر گڑھ کہاں ہے؟ آگے تو کے۔ٹو موٹیل ہے۔‘‘

 ’’اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟یہ سارا علاقہ رنبیر گڑھ ہے۔گورنر کی رہائش تقریباً اسی جگہ تھی۔‘‘ انہوں نے ڈی۔سی۔او ہا ؤس کی طرف اشارہ کیا۔ ’’موجودہ کچہری عدالت اور دفاتر پر مشتمل تھی اور دور دور تک سرکاری رہائش گاہیں پھیلی ہوئیں تھیں۔‘‘

 ’’یہ سڑکیں وغیرہ؟‘‘ مجھے ہاشم کا اعتراض یاد آ گیا۔

 ’’اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟میرا مطلب ہے یہ تو جدید تجاوزات ہیں۔ کچہری، ڈاکخانہ اور ہسپتال بعد میں تعمیر ہوئے۔اب تو پورا نقشہ تبدیل ہو چکا ہے۔‘‘

 ’’ آپ کو پورا یقین ہے کہ یہی رنبیر گڑھ ہے؟‘‘ میں نے تصدیق چاہی۔

 ’’اس بارے میں مجھ سے زیادہ با خبر کون ہو گا؟میرے ہوٹل میں بہت رش رہتا تھا۔کلائنٹ کو ہر طرح کی معلومات فراہم کرنا میری ذمّہ داری تھی۔ اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے ؟ آپ یہ فرمائیں کہ کیا آپ نے منگل سنگھ کا باغ دیکھا ہے؟‘‘

 ’’جی نہیں ، پڑھا ہے۔‘‘

 ’’پڑھا ہے؟پھر آپ کو میری بات کا یقین کرنے میں کیا پریشانی ہے؟ کچہری سے متصل باغ اور محکمہ جنگلات کی نرسری منگل سنگھ کے باغ کا حصہ تھے اور رنبیر گڑھ کے ہم دیوار تھے۔اس مناسبت سے باغ کے پہلو کا علاقہ رنبیر گڑھ ہُوا کہ نہیں ہوا؟‘‘

 ’’اس حساب سے تو سو فیصد ہوا۔‘‘

 ’’اب اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟ میرا مطلب ہے کہ آپ نے منگل سنگھ کے باغ کے بارے میں کیا مطالعہ فرمایا ہے؟‘‘

 ’’میں نے   بلتستان پر ڈوگرہ راج کے ضمن میں پڑھا ہے کہ ڈوگرہ گورنر مہتہ منگل سنگھ نے  بلتستان میں بے شمار درخت لگوائے تھے اور سکردو میں بھی ایک بہت بڑا باغ لگوایا تھا۔‘‘

 ’’سکردو کے علاوہ اور کہاں لگوائے تھے؟‘‘ انہوں نے تجسس سے پوچھا۔

 ’’اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘ میں نے سنجیدگی پوچھا۔

 ’’کک۔۔ کوئی پریشانی نہیں۔‘‘ صابر صاحب بری طرح بوکھلا گئے اور پھر بے تحاشہ ہنسنے لگے۔ ’’خوب۔  بہت خوب۔ لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔‘‘

 ’’  میں نے وادیِ شگر اور خاص طور پر حشوپی کے حوالے سے پڑھا تھا۔ بلتستان میں ڈوگرہ راج اپنے تمام تر ظلم و ستم کے باوجود اس بات پر نازاں ہے کہ شگر، کھر منگ اور سکردو کو گل و گلزار بنانا اُن کے کاردار منگل سنگھ کا سدا بہار کارنامہ ہے۔ منگل سنگھ نے  بلتستان میں پانچ لاکھ بے ثمر اور پچاس ہزار ثمر بار درخت لگوائے۔ بادام خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ ڈوگرہ راج سے پہلے  بلتستان میں بادام نہیں پایا جاتا تھا۔ ‘‘ میں نے کہا۔

 ’’اس میں آپ کو۔۔ میرا مطلب ہے آپ نے کتنے درخت بتائے ہیں ؟‘‘ اس مرتبہ وہ زبان پر قابو رکھنے میں کامیاب رہے۔

 ’’تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ، اِن میں سفیدہ، بید، خوبانی، سیب، اخروٹ اور بادام وغیرہ سب شامل ہیں۔‘‘

 ’’اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟ میرا مطلب ہے۔۔۔‘‘

 ’’مجھے کوئی پریشانی نہیں ، آپ کی عنایت سے سب پریشانیاں ختم ہو چکی ہیں۔‘‘

 ’’ویری گڈ۔۔  تو کھانا کھلائیں ناں۔‘‘ انہوں نے خوش ہو کر کہا۔

 ’’جی۔۔ ای۔۔ ای۔۔ کیا کروں ؟‘‘ میں ذرا گڑبڑا گیا۔

 ’’کھانا کھلائیں ناں ، آخر آپ کی سب پریشانیاں دور ہوئی ہیں۔اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘ صابر صاحب کے لہجے میں بچکانا شوخی تھی۔

 ’’ پریشانی تو کوئی نہیں ، مگر میں پکوڑے کھا چکا ہوں۔‘‘

 ’’اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟ میرا مطلب ہے پکوڑوں سے لذت کام و دہن مکمل تو نہیں ہوتی۔اشتہا کی تسکین کا واحد ذریعہ طعام ہے‘‘ انہوں نے طعام پر زور دیا۔

 ’’او۔کے، آپ کی میزبانی میرے لئے باعث صد افتخار ہو گی۔یہ فرمائیے کہ ظہرانے کے لیے کون سا ہوٹل مناسب رہے گا۔‘‘ میں نے ان کا انداز اپنانے کی کوشش کی اور بری طرح ناکام رہا۔وہ اس سعیِ لاحاصل پر مسکرانے لگے۔

 ’’اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟کے۔ٹو موٹیل والوں کا طعام بہت لذیذ ہوتا ہے۔‘‘

کے۔ٹو موٹیل کا ریستوران بہت خوبصورت تھا، سروس غیر حاضر تھی اور کھانا کھاتے وقت صابر صاحب اپنی خوش فہمی پر اتنے شرمندہ تھے کہ میں نے کسی قسم کے تبصرے سے گریز کیا۔ امیر اعظم کے منگائے ہوئے پکوڑے یہاں کے چکن مصالحے سے بدرجہا بہتر تھے۔ الائچی اور لیموں کے ساتھ سرو کیے گئے خوشبودار قہوے نے صابر صاحب کے الفاظ کی لاج رکھ لی۔

میں نے قہوے کی آخری چسکی لی اور کاؤنٹر پر جا کر بل کی رقم معلوم کی۔

 ’’بِل؟کون سا بِل؟‘‘ کاؤنٹر پر وہی بیرا موجود تھا جس نے کھانا سرو کیا تھا۔

 ’’کھانے کا۔۔ اور کون سا؟‘‘

 ’’آپ صابر صیب کے ساتھ نئیں اے؟‘‘

 ’’اُنھی کے ساتھ ہوں۔‘‘

 ’’صابر صیب کے مہمان سے بِل لے گا؟ آپ ام کو پاگل کا بچّہ سمجھتا اے؟‘‘

 ’’صابر صاحب پلیز۔انہیں کہیں بِل لے لیں۔‘‘ میں نے ہانک لگائی۔

 ’’اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘ صابر صاحب مسکرا رہے تھے۔

 ’’کوئی پریشانی نہیں ، مگر یہ کھانے کا بل کیوں نہیں لے رہا؟‘‘ میں نے پریشانی سے کہا۔

 ’’یہ مہمان سے بل لے کر پاگل کا بچہ نہیں کہلانا چاہتا۔‘‘ صابر صاحب سنجیدگی سے کہا۔

 ’’ پھر یہ کس سے بل لے گا؟کھانا میں نے کھلایا ہے تو بل میں ہی ادا کروں گا۔‘‘

 ’’ہائیں ؟۔۔ کھانا آپ نے اپنے دست مبارک سے کھلایا ہے؟ اور میں اس خوش فہمی میں مبتلا رہا کہ خود تناول کر رہا ہوں۔یہ خفقان کی نشانی ہے اور صابر صاحب آپ کے لئے بہت بڑی پریشانی ہے۔‘‘ انہوں نے مصنوعی پریشانی سے کہا۔

 ’’یہ سراسر زیادتی ہے، آپ نے مجھے کہا تھا کہ کھانا کھلائیں۔‘‘ میں نے احتجاج کیا۔

 ’’اچھا؟مہمان کے ساتھ سراسر زیادتی کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔‘‘ اُنہوں نے تشویش سے کہا اور کاؤنٹر کلرک کو آواز دی۔

 ’’اوئے ناصر خاناں۔‘‘

 ’’حاضر صابر صیب۔‘‘ کاؤنٹر کلرک قریب آ گیا۔

 ’’مہمان بولتا ہے یہ کھانے کا بل نہیں دے گا تو اس کے ساتھ زیادتی ہو گا۔تمہارا مرضی ہو توہم اپنے مہمان سے کھانے کا بل وصول کر لے؟‘‘

میں نے حیران ہو کر انہیں دیکھا۔ ناصر سے بات کرتے وقت صابر صاحب کا لہجہ مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔وہ میرے ساتھ اداکاری کر رہے تھے یا ناصر خان کے ساتھ؟

 ’’اوئے امارا بیڑہ غرق۔آپ مہمان سے کھانے کا بل لے گا؟آپ کو معلوم نئیں کہ یہ بوت بڑا بے غیرتی اے صابر صیب۔‘‘

 ’’ہم کو تو معلوم ہے، مگر ہمارے مہمان کو معلوم نہیں ہے۔‘‘

 میں نے بہت اصرار کیا مگر صابر صاحب نے مہمان سے کھانے کا بل لینے کی عظیم الشان بے غیرتی کا عظیم الشان مظاہرہ کرنے سے صاف انکار کر دیا۔میں نے اس عظیم الشان سازش پر دل ہی دل میں محظوظ ہوتے ہوئے اُن کا شکریہ ادا کیا اور اجازت چاہی جو ایک مسکانِ پریشاں کے ساتھ عنایت فرما دی گئی۔

 موجودہ کچہری روڈ اور ماضی کے رنبیر گڑھ اور منگل گارڈن سے گزرتا ہوا میں آغا ہادی چوک کی طرف چل دیا۔ راستے میں ایک جگہ میں نے حمید گڑھ روڈ لکھا دیکھا اور صوتی مماثلت کی وجہ سے گمان کیا کہ یہ رنبیر گڑھ کا جدید نام ہو سکتا ہے۔اس خیال کی تصدیق کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔آغا ہادی چوک میں نصب ایک معلوماتی کتبے پر نظر پڑی اور میں اُسے پڑھنے کے لئے رُک گیا۔ سنگ مرمر کی تختی پر بڑے بڑے الفاظ میں لکھا تھا۔

یاد گار ننھا شہید سعود الفیصل ٹیٹو عمر۴سال

 میجر فیصل مظہر کا نور نظر اکلوتا بیٹا۲۳جون ۱۹۸۴ء کو سکول جاتے ہوئے ڈرائیور کی لا پرواہی سے جیپ سے گر کر اسی جگہ پونے آٹھ بجے سر میں شدید چوٹ لگنے کی وجہ سے اسی وقت شہید ہو گیا۔ اس ننھے شہید کیلئے دعا کریں جو انتہائی شوق رکھنے کے باوجود دنیا میں کچھ نہ دیکھ سکا اور علم کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی شہید ہو گیا۔

میں نے ننھے شہید سعود الفیصل کیلئے دعائے خیر کے ساتھ یہ دعا بھی کی کہ اللہ تعالیٰ اس معصوم کو اپنے والدین کی مغفرت کا وسیلہ بنائے، لیکن اس کتبے کے چند بہ ظاہر بے ضرر اور غیر اہم الفاظ کے ذریعے گمنام ڈرائیور پر عائد کی گئی فرد جرم نے مجھے جھنجوڑ ڈالا۔ جیپ اگر کسی حادثے کا شکار ہوتی تو ڈرائیور کی غفلت میں شبہ نہیں تھا، لیکن ایک مصروف چوک سے گزرتے وقت دروازہ کھلنے یا جھٹکا لگنے کی وجہ سے سیٹ پر بیٹھا ہوا بچہ نیچے گر گیا تو بے چارہ ڈرائیور کیا کرتا؟ ڈرائیو نگ سے توجہ ہٹا کر بچے کی شرارت پر توجہ دیتا؟ میجر صاحب کا بچہ ایک معمولی ڈرائیور کی سرزنش کو لفٹ کراتا؟ ڈرائیور کا صرف ڈرائیونگ پر توجہ دینا اور بچے کو شرارت سے باز نہ رکھ سکنا اتنی بڑی غفلت اور لاپرواہی قرار پایا کہ ڈرائیور کو بچے کے قتل کا مجرم قرار دے کر اُس کے جرم کی ابدی تشہیر کا ساماں کر دیا گیا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے؟ ٹیٹو ایک میجر کا بیٹا تھا اور میں میجر عمر کی نوازشوں کے طفیل میجری کے خمار سے آشنا ہو چکا تھا۔ ۱۹۸۴ء میں میجر فیصل مظہر صاحب سکردو کے بادشاہ سمجھے جاتے ہوں گے، اُن کے بیٹے کے قاتل کے لیے کیا سزا تجویز کی گئی ہو گی؟

ڈرائیور اگر ڈرٹی سویلین تھا تو حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ فوجی تھا تو کورٹ مارشل، اُس ڈرائیور کے نورِ نظر بچوں کے شوقِ علم کی وفاتِ حسرت آیات کے کتبے کہاں نصب ہوئے ہوں گے جو بد قسمتی سے سعود الفیصل ٹیٹو نہیں تھے؟

مجھے احساس تھا کہ میں حقائق سے لا علم ہوں اور اتنی جذباتیت مناسب نہیں لیکن پوری کوشش کے باوجود میں اس کتبے کے اثرات سے چھٹکارا نہ پا سکا۔ آغا ہادی چوک سے نئے بازار تک میرا ذہن رہ رہ کر ’’تقدیر کے قاضی کا یہ فتوٰی ہے ازل سے۔ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘ کی گردان کرتا رہا۔

اس دوران میں نے ایک شاخ پر لگا ہوا کچا اخروٹ توڑا جو گھرکی چار دیواری سے باہر تانک جھانک کر کے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔میں نے اسے ٹشو پیپر سے صاف کیا اور چکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ کچے اخروٹ کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے؟

اس کے بعد۔۔ بھول گیا سب کچھ۔۔  یاد نہیں اب کچھ۔ بس یہی بات نہ بھولی کہ کچا اخروٹ بہت زہریلا ہوتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ مجھے پہلی مرتبہ علم ہوا کہ زہریلا ذائقہ کسے کہتے ہیں۔ بار بار تھوکنے اور بازار پہنچ کر آئس کریم اور چاکلیٹ کھانے اور تیز چینی کی شیرہ نما چائے پینے کے باوجود یہ کڑواہٹ قائم رہی۔آج بھی یہ ذائقہ یا د آتا ہے تو جھرجھری آ جاتی ہے اور دل ہی دل میں دوہرانے لگتا ہوں :

مت کھائیو میری جان۔ کچا اخروٹ مت کھائیو

 میں نے ایک پی۔ سی۔ او سے محسن شاہ صاحب کو فون کیا۔

 ’’جی ڈاکٹر صاحب ! کہاں کہاں گھوم چکے ہیں آپ۔‘‘ اُنہوں نے پوچھا۔

 ’’ پہلے ننگ ژُھق گیا تھا۔۔  پھر رنبیر گڑھ کا دورہ کیا۔‘‘

 ’’رنبیر گڑھ؟۔ آپ ہیں کہاں اس وقت ؟‘‘ شاہ صاحب کنفیوژ ہو گئے۔

 ’’ ایک پی۔ سی۔ او میں۔‘‘

 ’’ کون سے شہر کے پی۔سی۔او میں ؟‘‘

 ’’ سکردو میں۔‘‘

 ’’ یہ رنبیر گڑھ کہاں ہے؟ میں نے یہ نام آج تک نہیں سنا۔ آپ وہاں گئے کیسے تھے؟‘‘

 ’’ پیدل گیا تھا۔‘‘ میں نے معصومیت سے جواب دیا۔

 ’’پیدل؟ رنبیر گڑھ سکردو سے کتنا دور ہے؟‘‘

 ’’ کلو میٹر کا اندازہ نہیں ، وقت کے پیمانے کے مطابق دو صدی کا فاصلہ ہے۔‘‘

 ’’ کیا اوٹ پٹانگ ہانک رہے ہیں۔ کوئی الٹی سیدھی چیز تو نہیں کھا لی؟‘‘

 ’’ کچا اخروٹ کوئی الٹی سیدھی چیز تو نہیں ہے؟‘‘ میں نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔

 ’’اوہ۔۔  کسی نے آپ کو کچا اخروٹ کھلا دیا ہے؟‘‘ شاہ جی نے حیرت سے پوچھا۔

 ’’کسی نے نہیں کھلایا، میں نے خود چکھا ہے۔اللہ دشمن کو بھی کچے اخروٹ کے عذاب سے محفوظ رکھے۔‘‘

 ’’مگر کچے اخروٹ میں نشہ تو نہیں ہوتا۔‘‘

 ’’ٹرکش آنکھوں میں ہوتا ہے؟‘‘ میں نے رازدارانہ لہجے میں پوچھا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب میں سنجیدگی سے پوچھ رہا ہوں کہ آپ کہاں ہیں اور آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘

 ’’ میں اتنی ہی سنجیدگی سے جواب دے رہا ہوں کہ میں ایک پی۔ سی۔ او میں ہوں اور آپ سے گفتگو کر کے باغ باغ ہوا جا رہا ہوں۔‘‘

 ’’بہر حال آپ جہاں ہیں اور جیسے ہیں کی بنیاد پر فوراً واپس آ جائیں۔ ‘‘

 ’’جنابِ عالی! مودبانہ گزارش ہے کہ فدوی نے کچا اخروٹ چکھ لیا ہے اس لئے چند گھنٹے ہوسٹل میں حاضر ہونے سے قاصر ہے۔ نصف شب تک رخصت اتفاقیہ بمع سٹیشن لیو مرحمت فرما دی جائے تو حضور کی عین نوازش ہو گی اور بندہ جناب والا کا اقبال تا قیامت بلند رہنے کی دُعا کرتا رہے گا۔ ‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب پلیز! مسئلہ کیا ہے؟آپ آدھی رات تک کہاں رہیں گے؟‘‘ شاہ صاحب نے مشکوک لہجے میں پوچھا۔

 ’’ست پڑا لیک پر۔ ‘‘

 ’’ مگر کیوں ؟آپ ست پڑا لیک پر پورا دن گزار چکے ہیں۔‘‘

 ’’فی الحال کچے اخروٹ کے سوا کچھ یاد نہیں ، ہو سکتا ہے کچا اخروٹ کھانے سے یادداشت متاثر ہو جاتی ہو۔‘‘ میں نے تشویش زدہ لہجے میں کہا۔

 ’’ ڈاکٹر صاحب پلیز سنجیدہ ہو جائیں۔ ‘‘ شاہ جی نے باقاعدہ ناراضگی سے کہا۔

 ’’آپ کے محسن شاہی سر کی قسم، میں سو فیصد سنجیدہ ہوں۔ ‘‘

 ’’پھر دو بارہ صد پارہ جانے کی کیا تک ہے؟وہ بھی رات کو؟‘‘

 ’’دراصل مجھے ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ حکومتِ پاکستان ست پڑا ڈیم بنانے جیسی تخریبی کاروائی میں ملوّث ہے۔اس کے نتیجے میں ست پڑا جھیل اور اس کی تاریخی کیمپنگ سائٹ ہمیشہ کے لئے صفحۂ ہستی سے مٹ سکتی ہیں۔میں اس عظیم سانحے کے رونما ہونے سے پہلے کیمپنگ سائٹ پر ایک رات گزارنا چاہتا ہوں۔‘‘

 ’’آپ اس بارے میں پریشان نہ ہوں اور بے فکر ہو کر واپس آ جائیں۔ ‘‘ شاہ صاحب نے تسلّی دیتے ہوئے کہا۔ ’’ست پڑا کی جگہ اس سے زیادہ وسیع اور خوبصورت جھیل وجود میں آئے گی۔کیمپنگ سائٹ کے لئے بھی جگہ کی کوئی کمی نہیں۔ آپ دوبارہ سکردو تشریف لائیں گے تو اس سے بہتر کیمپنگ سائٹ کا انتظام کر دیا جائے گا۔‘‘

 ’’ اور اُس سے بہتر ترکی رقاصہ کا بھی؟‘‘

 ’’ آپ پھر پٹڑی سے اتر رہے ہیں۔ یہ ترکی رقّاصہ کہاں سے ٹپک پڑی؟‘‘

 ’’تُرکی ہی سے ٹپکی ہو گی۔‘‘ میں نے سنجیدگی سے کہا۔

 ’’کیا کوئی ترکی رقاصہ صد پارہ جھیل پر رقص کا پروگرام کرنے والی ہے؟‘‘

 ’’ کاش وہ کر سکتی۔‘‘ میں نے حسرت سے کہا۔

 ’’اُسے بھی کچا اخروٹ تو نہیں چکھا دیا؟‘‘ شاہ صاحب نے تنگ آ کر کہا۔

 ’’اُس کے ٹخنے میں موچ آ گئی ہے۔۔ چکھنے چکھانے کے قابل نہیں ہے۔‘‘

 ’’ یہ ترکی رقاصہ آپ کو مل کہاں گئی؟‘‘

 ’’ ننگ ژھوق میں۔ ‘‘

 ’’وہ وہاں کیا کر رہی تھی؟

 ’’ وہ وہاں ٹریکنگ کر رہی تھی۔ ‘‘ میں نے فوراً جواب دیا۔

 ’’اوہ مائی گاڈ۔ اس کا مطلب ہے کہ ترکی سے آنے والی کسی ٹریکر خاتون سے آپ کی ملاقات ہو گئی ہے جو ڈانسر ہے۔ اُس نے صد پارہ جھیل پر کیمپنگ کی ہوئی ہے اور سرکار کچے دھاگے سے بندھے وہاں پہنچنا چاہتے ہیں ؟‘‘

 ’’ ماشا اللہ !چشم بد دور، شاہ جی آپ تو بہت سمجھناک ہو گئے ہیں۔‘‘ میں نے خوش ہو کر کہا۔

 ’’ مجھے لگتا ہے آپ کو اکیلے آوارہ گردی کا موقع فراہم کرنا مجھے بہت مہنگا پڑے گا۔ آپ ہاتھوں سے نکلے جا رہے ہیں ، رقاصہ کے تعاقب میں ترکی پہنچ گئے تو میں شاہد کو کیا جواب دوں گا؟ مہربانی فرما کر آپ فوراً واپس آئیں اور ترکی رقّاصہ کی ناز برداری کا فریضہ محبوب یا کامران کو سونپ دیں۔ وہ اس کام کے سپیشلسٹ ہیں۔‘‘

 ’’اُسے ناز بردار سپیشلسٹ کی نہیں سرجیکل سپیشلسٹ کی ضرورت ہے اور میں پیشہ ورانہ وزٹ پر وہاں جا رہا ہوں۔‘‘

 ’’ اللہ آپ کے حال پر رحم کرے اور بہتر ہو گا کہ آپ بھی اپنی بزرگی پر رحم کریں۔‘‘

 ’’ آپ چلیں گے؟‘‘

 ’’ ہم بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔فنکشن کی تیاری رات گئے تک جاری رہے گی۔ ‘‘

 ’’او۔کے۔ اللہ حافظ۔‘‘

 ’’ایک منٹ، رنبیر گڑھ کہاں ہے؟‘‘ شاہ جی کی سوئی رنبیر گڑھ میں اٹک گئی تھی۔

 ’’زیادہ دور نہیں ہے۔ میں واپس آ کر آپ کو رنبیر گڑھ تک گائیڈ کروں گا۔ ‘‘ میں نے ریسیور رکھ دیا۔

 شاہ جی کے ساتھ مغز ماری کر نے کا مقصد ست پڑا جانے کی اطلاع دینے کے علاوہ ذہن پر چھائی ہوئی دھند سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔شاہ صاحب یہ سوال کرنے میں حق بجانب تھے کہ میں ست پڑا لیک کیوں جا رہا ہوں ؟

یہ درست ہے کہ ترکی گروپ نے بڑی لجاجت سے درخواست کی تھی اور ممکن ہے اُن کے ساتھی کو واقعی سرجن کی رائے کی اشد ضرورت ہو، لیکن یہ رائے اُن کے ہوٹل جا کر دی جا سکتی تھی۔ اس کے لئے رات کے وقت ست پڑا کا مکرّر طواف ضروری نہیں تھا۔

 ترکی گروپ سے ملاقات کے بعد میرے ذہن میں ایک بے نام سی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ درسی کُتُب کے ذریعے ذہن میں ٹھونسے گئے ’’برادر اسلامی ملک‘‘ کے الفاظ مشکوک ہو گئے تھے۔تُرکی کلچر کے بارے میں مکمل معلومات انٹرنیٹ سے حاصل کی جا سکتی تھیں ، لیکن ماحول کو پڑھنے اور ماحول کا حصہ بننے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔سالگرہ کا فنکشن تُرکی کلچر کے روایتی خط و خال بے نقاب کر سکتا تھا تو اس میں شرکت سے محروم کیوں رہا جائے؟

میرے قدم خود بہ خود ست پڑ اجانے والی سڑک کی طرف اُٹھ گئے۔ سڑک سنسان تھی۔میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں ڈیسکون والوں کی کنٹین کے پاس پہنچا اور چائے کا کپ پیا۔ پی۔ ٹی۔ ڈی۔ سی کے ہوٹل کے پاس سے گزرا تو مجھے حیرانی ہوئی کہ بجلی اور جنریٹر دونوں کی سہولت ہونے کے با وجود وہاں مکمل تاریکی تھی۔ میں نے ریستوران کی جانب سے کسی کو اپنی طرف آتے دیکھا تو سلام کے بعد اس شٹ ڈاؤن کی وجہ پوچھ لی۔

 ’’آج دوپہر سے بجلی نہیں ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔

 ’’ اور جنریٹر؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’جنریٹر بھی نہیں چل رہا۔ دو منٹ چلتا ہے پھر بند ہو جاتا ہے۔ آپ کدھر آیا ہے اکیلا؟‘‘

 ’’میں کیمپنگ سائٹ پر جا رہا ہوں۔ ‘‘

 ’’اُدھر؟ اُدھر کیا ہے؟‘‘ اُس نے حد درجہ حیرانی سے کہا۔ ’’ اُدھر تو آج کوئی بھی نہیں ہے۔ ‘‘

 ’’اچھا! وہاں کسی نے کیمپ نہیں لگایا ؟‘‘ میں نے تشویش سے پوچھا۔

 ’’نہیں۔ اُدھر کوئی نہیں ہے۔‘‘ اس نے وثوق سے کہا۔

 ’’ آ جائیں گے۔ میرے ساتھی آج وہاں کیمپنگ کریں گے۔‘‘ میں اُس سے ہاتھ ملا کر آگے بڑھ گیا۔

میں وہاں پہنچا جہاں سے کیمپنگ سائٹ کیلئے راستہ نیچے اترتا ہے تو مجھے اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ میرے پاس ٹارچ نہیں تھی۔ میں نے اندازے کی بنا پر نیچے اترنے کی کوشش کی۔ چند پتھر لڑھکتے ہوئے نیچے چلے گئے اور میں نے اُن کی تقلید کرنے پر قدم روک لینے کو ترجیح دی۔میں کسی ننھی منی چنگاری کی تلاش میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کیمپنگ سائٹ کی طرف دیکھنے لگا۔ وہاں نہ کوئی روشنی نظر آئی اور نہ ہی کسی قسم کی آہٹ سنائی دی۔

 ’’یہاں کوئی ہے۔‘‘ میں نے احتیاطاً ہانک لگائی اور فقرہ مکمل ہوتے ہی گھبرا کر واپس سڑک پر آ گیا۔ اردگرد کی بلندیوں سے ٹکرا کر پلٹ آنے والی باز گشت نے بہت خوفناک صوتی اثرات پیدا کئے تھے۔ اس ردّ عمل پر مجھے شرمندگی کا احساس ہوا، لیکن یہ بات واضح ہو گئی کہ وہاں کوئی ذی روح موجود نہیں تھا۔

 میں نے انتظار کا فیصلہ کیا اور سڑک سے کچھ دور ایک بڑے پتھر پر دراز ہو گیا۔ ہوا میں قابل برداشت خنکی تھی اور اس بیکراں وسعت کا ازلی سنّاٹا روح کی گہرائیوں میں جاں گزیں ہونا چاہتا تھا۔پتھر پر لیٹے لیٹے میں نے آنکھیں موند لیں اور غیر محسوس انداز میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گیا۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ میری آنکھ کتنی دیر بعد کھلی۔۔ لیکن آنکھ کھلی۔۔ تو پلکیں جامد ہو گئیں۔

 دنیا بدل گئی تھی۔۔  یا میں کوئی سہانا سپنا دیکھ رہا تھا؟

ست پڑا جھیل کا نیلگوں پانی مچلتے ہوئے پارے میں تبدیل ہو گیا تھا تو پارے میں لہریں ہلکورے کیوں لے رہی تھیں ؟

ارد گرد کی پہاڑیوں پر چھائی ہوئی شبِ دیجور پر رنگ و نور کی برسات کب ہوئی تھی؟

کیمپنگ سائٹ کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دودھیا روشنی کی کرنیں کون بکھیر رہا تھا؟

 ست پڑا کے پارے میں رقص کرنے والا ماہتاب کس دنیا کا باسی تھا؟

چاند کیوں پانی میں اترا ہے ترے

ست پڑا کتنی سہانی ہو رہی ہے

یہ کوئی طلسم تھا؟۔۔ طلسم ہوشربا لمحوں میں کب تشکیل پاتے ہیں ؟

مجھے یہ ادراک کرنے میں کچھ وقت لگا کہ ست پڑا کو بدر جمال کر دینے والا یہ ناقابل یقین منظر کسی ساحر کی ساحری نہیں۔ پونم کی فسوں گری تھی۔

چاندنی رات میں تاج محل اور نانگا پربت کا دیدار کرنے سے پہلے اُن کے جلووں کے چرچے مجھ تک پہنچ چکے تھے۔ سکردو میں پونم کی جادوگری کا منظر ایک سرپرائز تھا۔ آگ لینے کے لیے آنے والے کو بن مانگے نور کا خزانہ عطا ہوا تھا۔ چاند شاید یہی خزانہ لُٹانے کیلئے سامنے والی پہاڑی کی چوٹی پر جلوہ فگن تھا۔ سکردو کی ماؤں کے لاڈلے کھیلنے کیلئے اس چاند کی فرمائش کرتے تھے تو اُنھیں انوکھا ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔ اس چاند کو ہاتھ بڑھا کر باآسانی اُٹھایا جا سکتا تھا۔۔ چرایا جا سکتا تھا۔

چٹکی ہوئی چاندنی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا جس نے ترکی گروپ کا خیال میرے ذہن سے محو کر دیا تھا۔ میری شدید خواہش تھی کہ ان بیش قیمت لمحات میں یہاں کوئی نہ آئے۔ پونم کی سلطنت میں جھلمل ستاروں کا آنگن میرے لئے سجایا گیا تھا اور مجھے سو فیصد یقین تھا کہ یہ پذیرائی تنہائی سے مشروط ہے۔کسی غیر کی جھلک پاتے ہی اس سلطنت کی حدیں سمیٹ لی جائیں گی اور جلووں کی رعنائیاں تقسیم کر دی جائیں گی۔فی الحال سکردو میں پونم کی عنایتیں صرف میرے لئے تھیں اور میں اس انمول اثاثے میں کسی کی شرکت کے تصور سے لرزاں تھا۔

کچھ دیر اور۔  چند لمحے اور!

 سکردو آنے والے کو چاہیے کہ وہ سکردو میں پونم کی بارگاہِ حسن میں حاضری سے محروم نہ رہے۔دیو سائی جانے والی سڑک کے کنارے، ست پڑ ا جھیل سے تھوڑا سا آگے، بھورے اور ہلکے گلابی رنگ کی مٹی کا چھوٹا سا ڈھیر ہے۔ اُس کے بائیں جانب کی پہاڑیوں پر چند قدم اوپر ایک بہت بڑا پتھر ہے۔ اُس پر لیٹ جائے، سکردو میں پونم اُس کے لیے زندگی کا انمول سرمایہ ثابت ہو گی۔

یہ ویو آف دی ٹور تھا۔

اس طلسم نور افشاں سے واپس جانے کو کس کا دل چاہتا تھا؟

 ٹی شرٹ میں پوری رات گزارنا ممکن نہیں تھا۔بوجھل قدموں اور طمانیت کے بھر پور احساس کے ساتھ میں واپس ہوا۔ست پڑا جھیل کے پارے میں کروٹیں لیتی ہوئی لہروں پر آخری نظر ڈالی اور اس انمول منظر کے صدقے اُن لوگوں کو معاف کر دیا جو ست پڑا کو صد پارہ کہتے ہیں۔ ست پڑا کا شاندا ر تاریخی پس منظر دوچار صدیاں پرانا ہو گا، صد پارہ کا معنوی حسن ازل سے ہے اور ابد تک اس جھیل کے پانیوں میں اپنا جادو جگا کر ست پڑا کے تاریخی ورثے کو بطور خراج وصول کرتا رہے گا۔

 چاندنی کی موسلا دھار برسات میں راستے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن میرے قدموں میں تیزی نہیں تھی۔ میں اس نورانی ماحول سے جدائی کے مرحلے کو ہر ممکن حد تک طول دینا چاہتا تھا۔ دھیرے دھیرے چلتا ہوا میں جھیل کے علاقے سے باہر آیا تو ست پڑا نالے کا شور اور کسی گاڑی کے انجن کی کریہہ آواز بیک وقت منظر میں داخل ہوئے اور مجھے اوج ثریا سے ست پڑا روڈ کی پستیوں پرلا پٹخا۔

 کیا یہ ترکی گروپ تھا؟۔ اس وقت؟

چند لمحوں بعد ایک موٹر سائیکل میرے قریب آ کر رک گئی۔ اس پر شاہ جی اور محبوب سوار تھے۔ انھیں دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے۔

 ’’تھینک گاڈ۔‘‘ میرے قریب رکتے ہی شاہ صاحب نے کہا۔ ’’ ڈاکٹر صاحب آپ خیریت سے تو ہیں ؟‘‘

 ’’ میں بالکل خیریت سے ہوں ، لیکن آپ اس وقت؟‘‘ میں نے پریشانی سے کہا۔

 ’’آپ نے بہت دیر کر دی، وقت کا اندازہ ہے آپ کو؟‘‘ محبوب نے کہا۔

 ’’میں نے شاہ صاحب کو بتا یا تھا کہ۔۔‘‘

 ’’لیکن وہ محترمہ ترکی تو ادھر آئیں ہی نہیں۔‘‘ شاہ جی نے میری بات کاٹی۔ ’’پھر آپ یہاں کیا کر رہے تھے؟‘‘

 ’’محترمہ ترکی؟۔۔ اور آپ کو کیسے علم ہوا کہ وہ نہیں آئی؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’اس کے ساتھی ہوسٹل آئے تھے۔ ‘‘

 ’’ہوسٹل ؟ وہاں کیوں آئے تھے؟اِنھیں تو یہاں آنا تھا۔‘‘

 ’’ اُن کے ساتھی کی تکلیف بہت بڑھ گئی ہے اور وہ پنڈی جانے سے پہلے آپ سے کوئی مشورہ کرنا چاہتے تھے۔ میں نے اُنھیں بتا یا کہ ڈاکٹر صاحب صد پارہ لیک گئے ہیں تو وہ بہت پریشان ہوئے اور شرمندگی کا اظہار کیا۔ وہ خود یہاں آنا چاہتے تھے لیکن ہم نے کہا کہ آپ اپنا مریض سنبھالیں ،  اپنا ڈاکٹر ہم خود تلاش کر لیں گے۔ ‘‘

میں خاموش رہا۔ اُن کی نا وقت زحمت مجھے شرمسار کر رہی تھی۔

 ’’ہم نے کچھ دیر سکون سے آپ کا انتظار کیا لیکن پھر تشویش ہونے لگی۔ اس وقت ٹرانسپورٹ کا بھی مسئلہ تھا۔ بڑی مشکل سے ایک دوست کی بائیک میسّر آئی تو ہم آپ کی تلاش میں نکلے۔ ‘‘

 ’’ویری سوری، میری وجہ سے آپ کو زحمت اُٹھانا پڑی۔‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔

 ’’زحمت کی کوئی بات نہیں ، پریشانی البتہ ہو گئی تھی جو آپ کو بہ خیر و عافیت دیکھ کر ختم ہو گئی ہے۔ آپ نے کھانا کھا لیا ہے؟‘‘

 ’’ یہاں کھانا کہاں سے آتا؟جھیل والا ہوٹل لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہے لیکن مجھے کوئی خاص بھوک نہیں ہے۔‘‘

 ’’مجھے یہی خدشہ تھا۔ آج فیصل کے مہمان آئے تھے اور ہوسٹل میں کھانا کم پڑ گیا تھا۔ بٹالین میس سے رجوع کیا تو پتا چلا کہ آج چاول پکے تھے جو خو ش  قسمتی سے بچ گئے ہیں۔وہ ہم آپ کے لیے لے آئے ہیں۔‘‘

 ’’یہیں لے آئے ہیں ؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’ ہمیں ڈر تھا کہ واپسی پر وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔ ‘‘

ہم تینوں موٹر سائیکل پر سوار ہو کر جانب سکردو روانہ ہوئے۔ ست پڑا نالے کے کنارے ایک مناسب جگہ پر دستر خوان ’’جما‘‘ دیا گیا۔ یہ دستر خوان ایک ہموار پتھر تھا جس پر چاولوں کا شاپر رکھ دیا گیا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب بسم اللہ کریں۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’آپ لوگ نہیں کھائیں گے؟‘‘

 ’’ ہم کھا چکے ہیں۔ ‘‘

 ’’جی نہیں ! آپ لوگ فرض کر لیں کہ ہم پچھلی صدی کے یاتری ہیں اور دوران سفر ست پڑ ا نالے کے کنارے با جماعت کھانا کھا رہے ہیں۔‘‘

 ’’پھر تو ہرگسہ نالہ کہیں ، اس کا قدیم نام یہی ہے۔‘‘ شاہ جی نے کہا۔

 ’’چلیں ہر گسہ نالہ سہی۔‘‘

 ’’ پلیٹ صرف ایک ہے اور چاول بہت تھوڑے سے ہیں۔ ‘‘

 ’’مجھے بہت تھوڑی سی بھوک ہے، بے چارے یاتر یوں کو پچھلی صدی میں چمچ یا پلیٹ کہاں نصیب ہوتے ہوں گے؟‘‘

 اکلوتی پلیٹ اور چمچ ایک طرف رکھ دیا گیا۔

 چاول کبھی نہ کبھی مرغ پلاؤ ضرور رہے ہوں گے کیونکہ ایک آدھ بوٹی نظر آ رہی تھی لیکن مرغ اور مرغیاں پہلے ہی اغوا ہو چکی تھیں۔ رائتہ اور چنے کی دال بھی ساتھ تھی۔ تینوں چیزوں کے ملغوبے کو ہم نے انگلیاں چاٹتے ہوئے مزے لے لے کر کھایا۔پینے کیلئے ست پڑا نالے کا پانی اور ہاتھ دھونے کیلئے نالے کے کنارے کی ریت بطور صابن۔ یہ ڈنر نا قابل فراموش یادوں کے البم کا بہترین رکن ہے۔

 ’’محبوب یار پونم تو سناؤ۔‘‘ میں نے فرمائش کی۔

 ’’ پونم ؟۔ بغیر پیانو ؟‘‘

 ’’  پونم کیلئے ہرگسہ نالے کی لہریں موسیقی بکھیریں گی۔۔  تم شروع تو کرو۔ ‘‘

محبوب نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ اس دوران شاہ جی ماحول کا جائزہ لے چکے تھے اور غالباً متاثر ہو چکے تھے۔  محبوب کو پونم سنانی پڑی۔

اب کے بار پونم میں

جب تو آئے گی ملنے

ہم نے سوچ رکھا ہے

رات یوں گزاریں گے

دھڑکنیں بچھا دیں گے

شوخ تیرے قدموں میں

ہم نگاہ سے تیری

آرتی اتاریں گے

محبوب کی آواز میں پونم گاتے وقت کچھ آ جاتا ہے اور یہ ’’کچھ ‘‘ بہت حسین،  بہت دلکش ہے۔ محبوب غزل سنا رہا تھا اور ماحول کا سکوت گہرا ہوتا جا رہا تھا۔محبوب کے خاموش ہونے کے بعد میں اور شاہ جی چند لمحے گم سم بیٹھے رہے۔ سحر کا حصار ٹوٹنے میں وقت تو لگتا ہے۔یہ وقت گزر گیا تو شاہ صاحب نے تبصرہ کیا:

 ’’یار محبوب، اس غزل کا شاعر پاگل تو نہیں ؟جو کچھ اس نے سوچ رکھا ہے اس کا اعلان کرنا کیا ضروری ہے؟ آج کل کی محبوبائیں اتنی بھولی نہیں ہوتیں کہ رات گزارنے کا مفہوم نہ سمجھتی ہوں۔ ان خوفناک ارادوں کی بھنک پا کر کوئی تجھ سے ملنے نہیں آئے گی اور تو پونم پونم کرتا خود ہی پونم ہو جائے گا۔‘‘

 ’’شاہ جی آپ کی موروثی بد ذوقی لا علاج ہے۔اتنے خوب صورت اور دلبر جانی قسم کے وعدوں کو آپ خوفناک ارادے کہہ رہے ہیں ؟آپ کے ان خیالات کی وجہ سے کبھی کبھی شک ہونے لگتا ہے کہ آپ گجراتی نہیں وحشی گجر ہیں۔آپ کا کیا خیال ہے؟ پونم کی رات میں محبوب سے ملاقات کا وعدہ نبھانے والی دھڑکنوں پر چہل قدمی کرنے اور نظروں سے آرتی اتروانے کے بعد شرماتی لجاتی واپس چلی جائے گی؟‘‘

 ’’اللہ مافی۔‘‘ میں نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔

٭٭٭

شنگریلا

آج کچورا کا پروگرام تھا۔گلگت روڈ پر سکردو سے ستائیس کلومیٹر کے فاصلے پر کچورا گاؤں ہے جو وادیِ سکردو اور وادیِ روند و کا سرحدی قصبہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے قریب دو جھیلیں ہیں۔گاؤں میں داخل ہونے سے پہلے لوئر  کچورا جسے عرفِ عام میں شنگریلا کہا جاتا ہے اور گاؤں کے اُس پار اپر کچورا واقع ہے۔دونوں جھیلوں کی وزٹ کے لیے جیپ والے نے ایک ہزار روپے کرایہ چارج کیا۔ شنگریلا دراصل بریگیڈئیر محمد اسلم صاحب کے ریسورٹ یا ہوٹل کا نام ہے جو لوئر  کچورا جھیل کے کنارے بنایا گیا ہے اور اسی مناسبت سے جھیل شنگریلا کہلاتی ہے۔ جھیل کنارے ایک دو ہوٹل اور بھی ہیں جن میں تبّت ہوٹل نمایاں ہے۔ شنگریلا  ریسورٹ یا ہوٹل میں داخلہ ٹکٹ دو سو روپے ہے۔ریسورٹ میں داخل ہونے کے بعد آپ کا دل قیام کے لیے للچائے (کیوں نہ للچائے؟ ) تو کم از کم تین ہزار روپے پر نائٹ کا حساب لگا کر بجٹ میں ترمیم کر لیں۔

 ہم لوئر کچورا پہنچے تو شنگریلا  ریسورٹ کا گیٹ بند تھا۔ محمد حسین اور شاہ جی گیٹ کیپر کے پاس گئے اور محمد حسین نے صحافیانہ عہدے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بغیر ٹکٹ ریسورٹ میں داخل ہونے کی اجازت مانگی۔ یہ درخواست اس اطلاع کے ساتھ سختی سے مسترد کر دی گئی کہ بے ٹکٹ ہوں یا با ٹکٹ، فی الحال شنگریلا میں داخلہ ممکن نہیں۔

 ’’لیکن کیوں ؟ ‘‘ محمد حسین نے گیٹ کیپر سے پوچھا۔

 ’’اندر جرگہ بیٹھا ہے۔ ‘‘

 ’’جرگہ بیٹھا ہے تو شوق سے بیٹھا رہے، ہم اُسے ڈسٹرب نہیں کریں گے، یا جرگہ اتنا بڑا ہے کہ پورے ہوٹل میں بیٹھا ہے؟‘‘

 ’’ یہ بات نہیں ، آج یہاں بہت جھگڑا ہوا ہے اور فائرنگ بھی ہوئی ہے۔ منیجر نے فیصلہ ہونے تک ہوٹل میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔‘‘

 ’’ جھگڑا کس بات پر ہوا ہے اور کس نے کیا ہے؟‘‘ محمد حسین کی صحافیانہ حس جاگی۔

 ’’آج صبح راجہ صاحب کے کسی رشتے دار کا بیٹا آیا تھا ا ور بغیر ٹکٹ اندر داخل ہونا چاہتا تھا۔ میں نے روکا تو اُس نے جھگڑا کیا۔میں نے منیجر صاحب کو اطلاع دی۔منیجر صاحب نے ٹکٹ کی بات کی تو وہ دھمکیاں دیتا ہوا چلا گیا۔دوپہر کے وقت وہ آٹھ دس غنڈوں کے ساتھ دوبارہ آیا اور گیٹ پھلانگ کر ہوٹل میں داخل ہو گیا۔ اس نے اچھا خاصا ہنگامہ کیا اور منیجر صاحب سے بد تمیزی کی۔ہمارا سارا عملہ اکٹھا ہوا تو وہ فائرنگ کرتا ہوا فرار ہو گیا۔ منیجر صاحب نے ہوٹل بند کر دیا ہے۔‘‘

 ’’ اس سے راجہ صاحب کو کیا فرق پڑے گا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’حکومت کو وقت پڑ گیا ہو گا۔‘‘ گیٹ کیپر کے بجائے محمد حسین نے جواب دیا۔ ’’ فائرنگ کی وجہ سے شنگریلا کے بند ہونے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہو گی۔  ایسی خبروں سے امن و امان کے بارے میں حکومت کے دعوے باطل ثابت ہوتے ہیں اور فروغِ سیاحت کی کوششوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔‘‘

 ’’پھر اب کیا ہو گا؟‘‘

 ’’اگر جرگا بیٹھا ہے تو وہی کوئی فیصلہ کرے گا۔‘‘

 ’’ عارف صاحب، ڈی ایس پی صاحب، راجہ صاحب کا منیجر اور آس پاس کی بستیوں کے سربراہ جرگے میں شامل ہیں۔ کوئی فیصلہ ہو گا تو پھاٹک کھلے گا۔‘‘ گیٹ کیپر نے کہا۔

 ’’ فیصلہ ہونے تک رات ہو گئی تو کیا ہو گا؟‘‘ میں نے پریشانی سے کہا۔

 ’’ آپ ایسا کریں کہ پہلے اپر کچورا دیکھ آئیں ، واپسی پر شنگریلا دیکھ لینا۔‘‘

اس سلسلے میں ہماری معلومات ناقص تھیں ورنہ لوئر کچورا لیک دیکھنے کے لیے شنگریلا میں داخلہ ضروری نہیں۔لوئر  کچورا لیک کے نصف ساحل پر شنگریلا ریسورٹ قابض ہے اور بقیہ نصف پر دوسرے ہوٹل بنے ہیں جن میں بوٹنگ کی سہولت موجود ہے۔ کشتی کے ذریعے لوئرکچورا جھیل کی سیر کی جا سکتی ہے اور شنگریلا کا طائرانہ جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔

 اپر کچورا جانے والا جیپ ٹریک کچورا گاؤں سے گزر تا ہے۔ گاؤں کے مرکزی چوک پر سڑک کے درمیان میں ایک ٹریکٹر ٹرالی کھڑی تھی جس پر آلو کی بوریاں لادی جا رہی تھیں۔ آگے جانے کا راستہ مسدود تھا لہٰذا ہمیں رکنا پڑا۔ دس منٹ گزر گئے تو مجھے تشویش ہوئی۔ میرا خیال تھا ہمیں اپر کچورا سے جلد واپس ہو جانا چاہیے تاکہ دن کی روشنی میں شنگریلا کو کیمرے میں قید کیا جا سکے۔

 ’’یہ لوگ راستہ چھوڑ کر ٹرالی کھڑی نہیں کر سکتے ؟ یہ تو کوئی تُک نہیں کہ ساری ٹریفک جام کر دی جائے۔ ‘‘ میں نے بالآخر جھنجلا کر کہا۔

 ’’ٹریفک؟۔۔  ہمارے علاوہ یہاں کون سی ٹریفک ہے ؟‘‘ طاہر نے کہا۔

 ’’ادر ایسا ہی ہوتا اے صاب، آپ تسلّی سے بیٹھو۔‘‘ ڈرائیور نے مجھے تسلی دی۔

 ’’یعنی ٹریفک بلاک ہونے کی کوئی پرواہ نہیں کرتا؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’او جی کتنا دیر لگے گا؟ابی گھنٹہ دو گھنٹہ میں راستہ کھل جائے گا ناں۔ ‘‘

سکردو سلو موشن کا شہر ہے جو عجلت کو شیطانی عادت سمجھتا ہے اور گھنٹے دو گھنٹے جیسے معمولی وقت کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔آپ ٹوتھ پیسٹ لینے دکان پر جائیں اور دکاندار کو آرڈر دے کر بے فکری سے اخبار کا مطالعہ شروع کر دیں۔ دکاندار کاؤنٹر پر پڑا ہوا جھاڑن اٹھا کر ایک ایک ٹیوب کی صفائی کرنے کے بعد ٹیوب آپ کے حوالے کرے گا۔اخبار رکھنے کی غلطی کر نے سے پہلے ایک نظر ٹیوب پر ڈال لیں۔

 ’’یہ ٹوتھ پیسٹ ہے؟‘‘ حیران ہونا آپ کا حق ہے۔۔ ضرور ہوں۔

 ’’ یہ ٹوتھ پیسٹ نئیں اے صاب؟ ‘‘ آپ سے زیادہ حیران ہونا دکاندار کا حق ہے۔

 ’’یہ شیونگ کریم ہے۔ ‘‘

 ’’ اچھا؟مگر اس میں بی صابن ہو تا اے ناں صاب۔‘‘ (آخر آپ سمجھتے کیوں نہیں )

 ’’مجھے صابن نہیں ٹوتھ پیسٹ چاہیے۔‘‘

 ’’ابی ما فی دیو صاب، یہ امارا لڑکا جمیل بوت ذلیل اے۔ کل سارا سامان کا جگہ بدل دیا۔ام ابی ٹوتھ پیسٹ لاتا اے۔‘‘

آپ تسلی سے اخبار پڑھیں۔ دکاندار جھاڑن اٹھائے گا، پہلے ٹیوبز جھاڑے گا پھر۔۔ پھر۔۔ اور پھر۔۔ پس ثابت ہوا کہ سکردو ایک پرسکون اور اطمینان بخش شہر ہے۔ سکردو کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے ایک گھنٹے کے انتظار کے دوران دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے کا کام نہایت سکون اور اطمینان سے سرانجام دیا۔

ٹریکٹر ٹرالی سٹارٹ ہوئی تو ہم آگے روانہ ہوئے۔یہ سڑک آگے جاکر پیدل ٹریک میں بدل جاتی ہے اور شگر تھنگ تک جاتی ہے۔ شگر تھنگ سے آگے استور کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔علی شیر خان انچن نے شگر تھنگ سے سکردو تک دفاعی فصیل تعمیر کی تھی۔اسی راستے سے ایک ذیلی مگر متروک ٹریک برجی لا تک جاتا ہے اور برجی لا کے اس پار دیوسائی۔  ہائے۔  دیوسائی ہے۔

 اپر کچورہ جھیل جانے والے راستے کے قریب دائیں ہاتھ کافی کشادہ پارکنگ ہے جہاں جیپ روک دی گئی۔ جھیل تک پہنچنے کے لیے پہلے معمولی سی چڑھائی اور پھر ساری کی ساری اترائی ہے۔ پگڈنڈی کے دونوں جانب چھوٹی چھوٹی کیاریاں ہیں جن میں مختلف قسم کی سبزیاں کاشت کی گئیں ہیں اور آبپاشی کے لیے چھوٹی چھوٹی نالیاں پگڈنڈی کے ساتھ ساتھ بہتی ہیں۔ اس پگڈنڈی پر تھوڑا بہت پھسلنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔

 اپر کچورہ برف پوش چوٹیوں سے گھری ہوئی ایک ننھی منّی جھیل ہے جس میں ’’شیو سار‘‘ یا ’’ست پڑا ‘‘ کی وسعت اور شان و شوکت نہیں لیکن یہ اپنی بارگاہِ حسن میں حاضر ہونے والوں کو مایوس نہیں کرتی۔مس سکردو کے لیے ہونے والے مقابلۂ قدرتی حسن میں اس کے ٹاپ سیڈ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔جھیل کے چاروں اطراف پھیلے ہوئے رنگا رنگ پھولوں کے تختے اس کی آرائشِ جمال کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ہم نے گُلوں میں بھرے رنگوں کا جائزہ لینے کے لیے جھیل کے اردگرد چکر لگانے کا ارادہ کیا۔

 اپر کچورہ دیکھنے میں جتنی چھوٹی تھی،  گوشہ چینی میں اتنی ہی کھوٹی ثابت ہوئی اور ہمیں وقت کی کمی کا بہانہ بنا کر یہ ارادہ ملتوی کر نا پڑا۔

جھیل کے کنارے ایک چھوٹا سا پارک نما گراؤنڈ ہے جو ایک عارضی چائے خانے کا ریستوران ہے اور گروپ فوٹو کے لیے انتہائی مناسب لوکیشن ہے۔یہاں گروپ فوٹو بنایا گیا۔ گروپ فوٹو مکمل ہوا ہی تھا کہ ایک مقامی آدمی رسید بُک ہاتھ میں پکڑے ہمارے پاس آ گیا۔

 ’’آپ کا ٹکٹ کاٹ دے صاب؟‘‘ اُس نے ہمیں گنتے ہوئے کہا۔

 ’’ٹکٹ ؟کیسے ٹکٹ ؟ ‘‘ شاہ صاحب چونکے۔

 ’’کشتی  میں نئیں بیٹھے گا؟ ‘‘ اس نے سخت حیران ہو کر کہا۔

 ’’نہیں ، کشتی رانی کا وقت نہیں ہے۔ہم اب واپس جائیں گے۔ ‘‘

 ’’ادر جو آتا اے کشتی میں ضرور بیٹھتا اے، کشتی میں نئیں بیٹھتا اے تو ادر آنے کا فائدہ؟آپ ڈرتا اے صاحب؟ ‘‘

 ’’ڈرنے کی بات نہیں ہے، ہمارے پاس وقت کم ہے۔ ‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’اورڈر کیا غلط ہے؟ ‘‘ محمد حسین صاحب نے کہا۔ ’’مجھے یاد ہے کہ پچھلے سال یہاں ایک المناک حادثہ ہوا تھا۔‘‘

 ’’ حادثہ تو صاب کدر بھی ہو سکتا اے۔‘‘ اُس نے سادگی سے کہا۔

 ’’ کیسا حادثہ؟‘‘ میں نے تجسس سے پوچھا۔

 ’’کوئی خاص بات نئیں اے صاب، پچھلے سال ادر ایک فیملی ڈوب گیا تھا ناں۔‘‘

 ’’پوری فیملی ڈوب گئی تھی؟۔۔ اور یہ کوئی خاص بات نہیں ؟‘‘ میں چونک پڑا

 ’’ہاں ناں ؟ ‘‘ اس نے لاپرواہی سے کہا۔

 ’’مگر پوری فیملی کیسے ڈوب گئی؟ ہوا کیا تھا؟‘‘

 ’’وہ زیادہ لوگ تھا ناں صاب۔جھیل کے بیچ میں کشتی کا بیلنس خراب ہوا تو وہ الٹ گیا۔اُن لوگوں کو تیرنا بی نئیں آتا تھا، اس میں کشتی کا کیا قصور؟‘‘

 ’’وہ کتنے لوگ تھے ؟‘‘ سیف نے تجسس سے پوچھا۔

 ’’وہ چھ آدمی تھا۔‘‘

 ’’ تم آٹھ ٹکٹ بیک وقت کاٹنا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

 ’’غالباً ناقابل واپسی ہوں گے۔۔ ٹکٹ نہیں مسافر۔‘‘ سیف نے لقمہ دیا۔

 ’’اوئے۔ آپ فکر مت کرو صاب، وہ تو بوت موٹا موٹا لوگ تھا اور ان کا بچہ لوگ شرارت مرارت بی کرتا تھا۔آپ تو موٹا نئیں اے اور آپ کے ساتھ بچہ بی نئیں اے۔‘‘

 ’’بچے بھی تھے ؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’تین بچہ لوگ تھا ناں۔وہ بوت شرارت مرارت کرتا تھا۔‘‘

 ’’ساڑھے چار افراد کتنے بھی موٹے ہوں ہم آٹھ ڈشکروں سے بھاری نہیں ہو سکتے۔‘‘ شاہ صاحب نے فیصلہ دیا۔

 ’’آپ فکر کیوں کرتا اے ؟ام آپ کے ساتھ اے ناں ! ‘‘ اس نے تسلی دی۔

 ’’تم اس وقت کہاں تھے جب وہ غرق ہوئے ؟‘‘ شاہ صاحب نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔

 ’’لاش کو ام نے باہر نکالا تھا ناں۔مگر ایک لڑکی کا لاش نے بوت تنگ کیا۔اللہ کا شکر اے کہ کنڈا اس کے بالوں میں پھنس گیا نئیں تو اس کا لاش بی گیا تھا۔ دو لاش نئیں ملا تھا ناں صاب۔ اب تک نئیں ملا، اللہ کا مرضی۔۔ کتنا ٹکٹ کاٹے صاب؟‘‘

 ’’ بہت بہت شکریہ، ہم کشتی کی سواری نہیں کریں گے۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’ تو سیدھا بولو ناں صاب کہ ڈرتا اے۔ ‘‘ اُس نے اُکسانے والے لہجے میں کہا۔

 ’’ صاب سو دفعہ ڈرتا ہے۔یہ سارا صاب ڈرتا ہے کیونکہ کسی کو تیرنا نہیں آتا۔‘‘ محمد حسین نے سب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

وہ ہمیں ملامت آمیز نظروں سے گھورتا ہوا واپس چلا گیا۔

 اپر کچورہ پر جو مناظر کیمرہ بند کئے گئے وہ ٹریک کے خوبصورت ترین مناظر تھے۔

 واپسی پر کچورہ گاؤں سے گزرے تو شاہ صاحب کے دوست محمد شاہ سے ملاقات ہوئی۔ محمد شاہ کچورہ کے با اثر زمیندار، کونسلر، ریٹائرڈ ٹیچر اور ایک جنرل سٹور کے پروپرائٹر تھے۔علیک سلیک اور تعارف کے بعد شاہ صاحب نے کہا:

 ’’ یار شنگریلا کے دروازے تو کھلوا۔‘‘

 ’’شنگریلا کے دروازوں کو کیا ہوا ہے؟‘‘

 ’’وہاں کو ئی جھگڑا ہوا تھا جرگہ شرگہ بیٹھا ہے۔‘‘

 ’’ تو نے وہاں ضرور جانا ہے؟ تم لوگ تبّت ہوٹل جاؤ اور کشتی میں لوئر کچورا کا چکر لگاؤ۔شنگریلا خود ہی نظر آ جائے گا۔‘‘

 ’’تجھے مشورہ دینے کے لیے کس نے کہاہے؟ ڈاکٹر صاحب شنگریلا دیکھنا چاہتے ہیں۔ توبہانے نہ بنا، اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے شنگریلا میں داخلے کا بندوبست کر۔‘‘

 ’’وہ بھی ہو جائے گا، تو گاڑی سے اتر اور چائے پی۔‘‘ محمد شاہ نے رعب سے کہا۔

 ہم نے چائے سے معذرت کر لی اور محمد شاہ کے اصرار کے باوجود جیپ سے برآمد ہونے سے انکار کر دیا تو اُنھوں نے کہا :

 ’’ چائے نہ سہی، شنگریلا تو دیکھو۔ ڈاؤن سے آنے والے لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ شنگریلا کا بہترین منظر شنگریلا سے نہیں ہمارے گاؤں سے نظر آتا ہے۔‘‘

 ’’ یہاں شنگریلا کہاں سے آ گیا؟تو چکر تو نہیں دے رہا؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’تو چکر میں آتا کب ہے؟ ہر دفعہ ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے۔ ‘‘ محمد شاہ نے جیپ میں بیٹھتے ہوئے کہا۔وہ غالباً شاہ صاحب کا کچھ زیادہ ہی بے تکلف دوست تھا۔

ڈرائیور محمد شاہ کی ہدایت پر بائیں جانب جانے والے کچے راستے پر مُڑ گیا۔ تقریباً نصف کلو میٹر کا فاصلہ طے کر نے کے بعد محمد شاہ نے جیپ رکوائی اور اعلان کیا کہ بقیہ راستہ پیدل طے ہو گا۔ ہم ان کی راہنمائی میں ایک پگڈنڈی پر چلنے لگے۔ ہمارے دائیں جانب ایک گہری گھاٹی،  جبکہ سامنے درختوں کا گنجان آباد جھنڈ تھا۔ ہم نے یہ جھنڈ عبور کیا تو قدموں کو خود بہ خود بریک لگ گئے اور میں سامنے والے منظر پر نظر جمائے ساکت ہو گیا۔ پگڈنڈی پر صرف ایک آدمی کے گزرنے کی جگہ تھی اس لیے پوری ٹیم رک گئی۔ شاہ جی نے مجھے شانے سے پکڑ کر ہلکا سا دھکا دیتے ہوئے کہا:

 ’’ ڈاکٹر صاحب کیا ہوا ؟چلیں بھی سہی۔ ‘‘

 ’’شنگری۔۔ لا۔۔‘‘ میں نے قدم بڑھانے کی بجائے سرسراتی آواز میں کہا۔

 ’’جی۔۔ یہ ہے شنگریلا کی اصل بیوٹی۔ ‘‘ محمد شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’بے شک، یہ اصل شنگری لا ہے۔۔ وادیِٔ بلیو مون! ‘‘

 ’’ وادیِٔ بلیو مون کیا بلا ہے؟‘‘ شاہ صاحب نے حیرت سے پوچھا۔

میں کوئی جواب دیے بغیر آگے بڑھ گیا۔

جیمز ہلٹن کے شہرہ آفاق ناول دی لاسٹ ہاریزان کی وادیِ بلیو مون وہ بلا تھی جس نے دنیا میں کئی شنگری لا ؤں کو جنم دیا تھا۔ اُس سے پہلے شنگریلا چینی زبان کی ڈکشنری میں قیام پذیر تھی اور اسکا ترجمہ ’’بہشت بر روئے زمیں ‘‘ کیا جاتا تھا۔ وادیِ بلیو مون میں لاما سرائے کی کھڑکیوں سے نظر آنے والے منظر کی ہو بہو تصویر میری نظروں کے سامنے تھی۔ رنگ برنگے پھولوں سے آراستہ گہری ڈھلوان اور ڈھلوان کے اختتام پر نیلگوں جھیل کے ارد گرد رہائشی کاٹیج اور پس منظر میں ماؤنٹ کاراکل۔۔۔

 ’’بیوٹی فل۔۔ فنٹاسٹک۔‘‘ میں نے گھاٹی کے کنارے پر رُک کر کہا۔

 ’’یہ منظر بہت کم لوگ دیکھتے ہیں۔ ‘‘ محمد شاہ صاحب نے خوش ہو کر کہا۔

یہ غالباً واحد جگہ ہے جہاں سے کسی قسم کے ایکسٹرا لینز کی مدد کے بغیر پوری کی پوری لوئر کچورا جھیل اور شنگریلا ریسورٹ کو ایک ہی فریم میں قید کیا جا سکتا ہے۔

 کچورہ گاؤں سے گزرتے ہوئے محمد شاہ صاحب نے چائے کے لیے دوبارہ اصرار کیا۔  شاہ صاحب نے جواباً ڈرائیور کو رفتار بڑھانے کا اشارہ کیا اور ہم محمد شاہ صاحب کے اضافے کے ساتھ ایک مرتبہ پھر شنگریلا ریسورٹ کے گیٹ کے سامنے پہنچ گئے جہاں جرگہ ختم ہونے کی خوشخبری نے ہمارا استقبال کیا۔ اس مرتبہ داخلہ مہم محمد حسین اور محمد شاہ کی مشترکہ کمان میں تھی۔ منیجر صاحب کا موڈ بدستور آف تھا لیکن وہ صحافت اور سیاست کی مشترکہ طاقت کے سامنے بے بس ہو گئے اور ہم دندناتے ہوئے اس جنت ارضی میں داخل ہوئے۔

 شنگریلا ریسورٹ کو سکردو کا خوبصورت ترین ہوٹل کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔اس کے سبزہ زار لوئر کچورہ جھیل کے نصف ساحل کے گرد پھیلے ہوئے ہیں۔جھیل کے پانی میں تعمیر کیے گئے پلیٹ فارم پر ڈائننگ ہال کی خوبصورت پگوڈا نما عمارت  جس کی  دیواریں شیشے کی ہیں ، سکردو کی شناختی علامت کے طور پر اکثر کیلنڈر ز، پوسٹرز اور بروشرز پر جلوہ افروز ہوتی ہے۔ جھیل کنارے اور سبزہ زاروں میں پھولوں کے تختے، جھیل کے مرکز میں ایک خوبصورت فوارہ اور جھیل کے چہار اطراف جگ مگ کرتے آرائشی قمقمے ایک منفرد منظر نامہ تخلیق کرتے ہیں جس میں مختلف معیار کے لگ بھگ ایک سو اپارٹمنٹ اور سوئٹ بکھرے ہوئے ہیں جن کا سرخ رنگ اور یکساں بلتی طرز تعمیر اس پینوراما میں مزید رنگ بھر دیتا ہے۔

شنگریلا کے ایک سبزہ زار میں ڈی سی۔ تھری طیّارہ پرواز کے لیے پر تولے کھڑا ہے اور چیلنج دے رہا ہے۔۔ کریش لینڈنگ سے نکلا ہوں ایک جنبش میں۔ جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے۔ اس کا انجن غائب ہے اس لیے کوئی دہشت گرد اسے اغوا کرنے کا منصوبہ نہیں بناتا۔۔ بے چارہ کافی شاپ کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔

 ’’یہ طیّارہ پی آئی اے کی ملکیت ہو گا یہاں کیسے آ گیا؟‘‘ میں نے منیجر سے پوچھا۔

 ’’ یہ پی آئی اے کا نہیں ، اورئینٹ ایئر لائینر(Orient Air Liner ) والوں کا تھا۔ اس نے سکردو سے پرواز کے تین منٹ بعد دریائے سندھ میں کریش لینڈنگ کی تھی۔اللہ کا شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ بریگیڈیر صاحب نے ناکارہ طیّارہ ڈیڑھ سو روپے میں خرید لیا۔ ‘‘

 ’’جی ای ای۔۔‘‘ مجھے یقین نہ آیا۔ ’’ڈیڑھ سو؟ آپ ڈیڑھ لاکھ تو نہیں کہنا چاہتے؟ ‘‘

 ’’جی نہیں ! ایک سو پچاس روپے میں خریدا تھا، بورڈ پر لکھا بھی ہے۔‘‘

 ’’ڈیڑھ سو میں طیّارہ، شاہ جی! کل آپ لائبریری تو کھنگالیں۔ہو سکتا ہے کہ گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ ز میں ایک اور ریکارڈ کا اضافہ ہو جائے۔‘‘

 ’’ یہ تقریباً پچاس سال پرانی بات ہے اور یہ طیارہ سکریپ میں خریدا گیا تھا۔‘‘ منیجر صاحب نے وضاحت کی۔

 ’’طیارہ!۔۔ طیارہ ہوتا ہے جناب عالی، خواہ سکریپ ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

 ’’اللہ بہتر جانتا ہے۔ ‘‘ منیجر صاحب نے بیزاری سے کہا۔ ’’یہ بہرحال ڈیڑھ سو روپے میں خریدا گیا تھا اور اسے کریش ہونے کی جگہ سے گھسیٹ کر یہاں لانے میں تقریباً تین مہینے لگے تھے۔ ‘‘

 ’’تین مہینے؟‘‘ میں نے حیرت کا اظہار کیا۔

 ’’جی جناب، اور اس پر ہزاروں روپے خرچ ہوئے تھے۔وہ دیکھنے والا منظر تھا۔ خچر، گھوڑے اور انسان۔  سب نے مل کر اسے کھینچا تھا۔سکردو آنے والے سیّاح اور دوسرے لوگ گاڑیاں رکوا کر یہ منظر دیکھتے تھے۔‘‘ اس نے ماضی کی یادوں کو دوہرایا۔

 ’’ظاہر ہے۔گھوڑ ے نے جہاز چلایا کس نے دیکھا؟اُس منظر کی کوئی تصویر نہیں ہے آپ کے پاس؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’ جی نہیں۔ اس طیارہ کو ایک اور اعزاز بھی حاصل ہے۔ ‘‘

 ’’جی وہ کیا؟‘‘

 ’’ اس میں مشہور امریکی دانشور اور ناول نگار  جیمز مچنر نے سفر کیا تھا۔ ‘‘

 ’’یہ کون صاحب ہیں ؟‘‘

 ’’معلوم نہیں۔‘‘ انہوں نے سادگی سے کہا۔ ’’عارف صاحب کی ہدایت ہے کہ غیرملکیوں اور پڑھے لکھے لوگوں کو یہ بات ضرور بتائی جائے۔ بہت سے غیر ملکی مہمان جیمز مچنر (JAMES MICHENER) کا نام سن کر طیارے کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔‘‘

ہم جیمز مچنر کے مقام و مرتبے سے لا علم تھے اس لیے ہم نے دوبارہ جائزہ لینا ضروری نہ سمجھا اور ایک کاٹیج کے سامنے رکھی ہوئی لان چیئرز پر نیم دراز ہو گئے۔

لوئر کچورہ عرف شنگریلا کو بریگیڈیئر اسلم صاحب کی کاوشوں نے پاکستان کے انتہائی منفرد ریسورٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔بریگیڈیئر صاحب کی وفات کے بعد ان کے بیٹے عارف اسلم نے شنگریلا کا معیار قائم رکھنے کی پوری کوشش کی ہے۔ شنگریلا کے بالمقابل تبت ہوٹل کی سبز اور نیلی عمارات شنگریلا کے سرخ پگوڈوں سے مل کر زبردست کنٹراسٹ پیدا کرتی ہیں۔ شنگریلا میں صرف دو یا تین سوئٹ بک تھے اور مہمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ یہ ریسورٹ سکردو سے ستائیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یہاں کرائے بہت زیادہ ہیں۔ شنگریلا میں کم از کم کرایہ تین ہزار روپے ہے جب کہ بیس ہزار روپے والا فیملی سوئٹ بھی دستیاب تھاجس میں کراچی سے آ کر ہنی مون منانے والا ایک پاکستانی جوڑا مقیم تھا۔

ہم ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف تھے کہ ہمارے سامنے والے سوئٹ کا دروازہ کھلا اور ایک وھیل چیئر نمودار ہوئی۔چیئر پر ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا جو کرسی کا وھیل گھُما رہا تھا اور دو افراد کرسی کی پُشت کو سہارا دے کر اُس کی مدد کر رہے تھے۔ ہم سے کچھ دور بوڑھے نے کرسی روک لی۔ اُس کے ساتھیوں نے بوڑھے کے اوپر ایک شال ڈالی اور اپارٹمنٹ میں واپس چلے گئے۔

 ’’ یہ کون صاحب ہیں ؟‘‘ میں نے منیجر سے پوچھا۔

 ’’ یہ نمبردار ہیں۔ جرگے کی وجہ سے آئے ہیں۔ کل واپس چلے جائیں گے۔‘‘

میں نے باری باری بوڑھے، طیارے اور جھیل کا جائزہ لیا اور زیرِ لب کہا:

 ’’کمال ہے، تمام لوازمات پورے ہو گئے ہیں۔‘‘

 ’’ کس چیز کے لوازمات؟‘‘ شاہ جی نے تجسس سے پوچھا۔

 ’’ ان بزرگ کا نام پیرالٹ تو نہیں ؟ ‘‘ میں نے شاہ صاحب کو جواب دینے کے بجائے منیجر سے سوال کیا۔

 ’’جی نہیں ان کا نام سرفراز علی ہے۔ ‘‘ اس نے خشک لہجے میں جواب دیا۔

 ’’ شنگریلا کی مناسبت سے ان کا نام پیرالٹ ہونا چاہیے۔‘‘ میں نے اصرار کیا۔

 ’’مگر ان کا نام سرفراز ہے‘‘ منیجر نے قدرے تلخی سے کہا۔

 ’’ ڈاکٹر صاحب خیر تو ہے ؟ آپ کافی دیر سے بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔آج پھر کچا اخروٹ چکھ لیا ہے یا  بیٹھے ہوئے ہیں تصوّر رقاصہ کیے ہوئے؟‘‘

 ’’ شاہ جی یہ شخص لاسٹ ہاریزان(LOST HORIZON )کے ہائی لاما کی فو ٹو کاپی ہے۔‘‘ میں نے وھیل چیئر نشین بزرگ کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟‘‘ منیجر نے اُلجھے ہوئے لہجے میں کہا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب یہ لاسٹ ہاریزان آخر ہے کیا چیز ؟‘‘ شاہ جی نے جھنجلا کر کہا۔

 ’’آپ نے لاسٹ ہاریزان نہیں پڑھی ؟‘‘

 ’’جی نہیں !اگر یہ کوئی کتاب ہے اور اسے پڑھ کر انسان آپ کی طرح مخبوط الحواس ہو جاتا ہے تومیں اسے پڑھنا بھی نہیں چاہتا۔‘‘ شاہ صاحب نے جواب دیا۔

 منیجر صاحب ہنسنے لگے۔

 ’’ مجھے علم ہے کہ لاسٹ ہاریزان ایک ناول ہے جس میں شنگریلا کا نام پہلی مرتبہ آیا ہے۔‘‘ منیجر نے کہا۔ ’’مگر ہائی لاما یا پیرالٹ کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں۔‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب لاسٹ ہاریزان ایسا ناول تو نہیں جسے پڑھ کر اچھا بھلا انسان دانشور بن جاتا ہی؟‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’آپ کا مطلب ہے دانشو ر انسان نہیں ہوتے؟‘‘

 ’’ ہوتے ہوں گے، لگتے نہیں۔ ‘‘ شاہ صاحب نے لا پرواہی سے کہا۔

 ’’ آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے تو مجھے اس کے بارے میں ضرور بتائیں۔ میں نے شنگریلا کے سلسلے میں اس کا ذکر بہت سنا ہے۔ مگر تفصیلات کا علم نہیں۔‘‘ منیجر نے کہا۔

 ’’لاسٹ ہاریزان برطانوی مصنف جیمز ہلٹن کا شہرہ آفاق ناول ہے جو۱۹۳۴ء میں شائع ہوا تھا۔ ممکن ہے اس مصنف کا ناول مسٹر چپس آپ لوگوں نے پڑھا ہو۔‘‘

 ’’بالکل پڑھا تھا، بلکہ پڑھایا تھا کیونکہ وہ انٹر میڈیٹ کے کورس میں شامل تھا۔لاسٹ ہاریزان کا موضوع کیا تھا؟‘‘ شاہ صاحب نے دلچسپی سے پوچھا۔

 ’’لاسٹ ہاریزان برصغیر کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔انڈیا کے شہر باسکل میں برطانوی راج کے خلاف علمِ بغاوت بلند ہوا اور باغیوں نے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا تو برطانوی قونصلر نے باسکل سے پشاور منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ ایک فور سیٹر طیّارے میں دو برطانوی معززین اور ایک خاتون راہبہ کے ساتھ باسکل سے پشاور کے لیے پرواز کر گیا۔ پرواز کا دورانیہ اندازے سے بڑھ گیا تو انہیں پہلے شک اور پھر یقین ہو گیا کہ پائلٹ نقلی ہے اور اُنہیں اغوا کر لیا گیا ہے۔ پائلٹ اُنہیں پشاور کے بجائے کسی ان دیکھی وادی کی طرف لے جا نا چاہتا تھا لیکن منزلِ مقصود پر پہنچنے سے پہلے اسے ہارٹ اٹیک ہو ا اور اُسے کریش لینڈنگ کرنا پڑی۔مسافروں نے کاک پٹ میں جا کر دیکھا تو پائلٹ آخری سانس لے رہا تھا۔ پائلٹ نے انہیں وادیِ شنگریلا کی لاما سرائے جانے کی ہدایت کی اور موت کی آغوش میں چلا گیا۔‘‘

 ’’پہاڑی علاقے میں کریش لینڈنگ کے باوجود تمام مسافر محفوظ رہے ؟‘‘ منیجر نے طنزیہ انداز میں کہا۔

 ’’کم از کم آپ کو یہ سوال نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کے اس ڈی سی۔ تھری طیارے نے کریش لینڈنگ کی تھی اور آپ کے بقول کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ ‘‘

منیجر صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔

 ’’ایک رات اُنہیں طیّارے میں ہی گزارنی پڑی جس کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کئی درجے نیچے چلا گیا تھا۔ اگلے دن اُنہیں مقامی لوگوں کی مدد میسّر آ گئی اور وہ کوہِ کاراکل کی جنت نظیر وادی شنگر یلا کی لا ما سرائے میں پہنچ گئے۔ کاراکل کا لفظی مطلب بلیو مون یا نیلا چاند ہے۔اس مناسبت سے شنگریلا کو وادیِ بلیو مون بھی کہا جاتا تھا۔‘‘

 ’’کوہ کاراکل کہاں ہے؟ اور لاما سرائے کیا چیز ہے؟ ‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’کوہِ کاراکل ایک تصوراتی پہاڑ ہے۔لاما سرائے کو بدھ مذہب کی خانقاہ کہہ لیں جہاں لاماؤں کی تعلیم و تربیت ہوتی ہے اور مسافروں اور مہمانوں کے لیے قیام و طعام کی سہولت مہیا کی جاتی ہے۔لاما سرائے میں قیام کے دوران انہیں علم ہوا کہ وہ لوگ عملاً قیدی ہیں اور وادی کے لوگ انہیں واپس بھیجنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔‘‘

 ’’وہ خود واپس نہیں جا سکتے تھے؟‘‘ سیف نے کہا۔

 ’’تیرا دماغ ٹھیک ہے؟‘‘ میرے کچھ کہنے سے پہلے شاہ صاحب بول اٹھے۔ ’’کے۔ٹو بیس کیمپ جانے کے لیے عرفان نے کتنے پورٹروں کا بندوبست کیا تھا؟حالانکہ وہ پیدل سفر اور باقاعدہ ٹریک ہے۔ شنگریلا مہذب دنیا سے کئی گھنٹے کی پرواز کے فاصلے پر تھا اور وہ راستے سے بالکل ناواقف تھے۔مقامی لوگوں کی مدد کے بغیر وہاں سے کیسے نکل سکتے تھے؟‘‘

سیف نے کوئی جواب نہ دیا اور میں نے بیان جاری رکھا۔

 ’’ایک دن ہیڈ لاما پیرالٹ نے قونصلر سے اپنے حجرے میں ملاقات کی۔وہ ایک وھیل چیئر پر تشریف فرما تھا۔جیمز ہلٹن نے پیرالٹ کا جو حلیہ اور انداز بیان کیا ہے وہ سو فیصد سرفراز خان پر پورا اترتا ہے۔پیرالٹ نے انکشاف کیا کہ اُن کا اغوا طویل منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا اور وہ لوگ واپس جانے کا خیال دل سے نکال دیں۔پیرالٹ نے یہ بھی بتا یا کہ وہ ’’ آبِ شباب‘‘ دریافت کر چکا ہے۔‘‘

 ’’آبِ شباب؟۔۔ یہ کیا شے ہے؟‘‘ سیف نے پوچھا۔

 ’’آبِ شباب جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ایسا مشروب تھا جس کی وجہ سے وقت کی رفتار انسانی جسم کے لیے رک جاتی تھی اور شنگریلا کے باشندوں کی جوانی بے حد طویل ہو جاتی تھی۔‘‘

 ’’اپنے اغوا کا مقصد نہیں پوچھا قونصلر نے؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’وہ اُسے بغیر پوچھے ہی بتادیا گیا۔ہیڈ لاما پیرالٹ کا اندازہ تھا کہ عنقریب تیسری جنگِ عظیم کے نتیجے میں پوری دنیا تباہ ہونے والی ہے۔اس کے بعد آبِ شباب کے سائے میں پرورش پانے والے شنگریلا کے باسی دُنیا کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔ اس دن کے لیے دنیا کے ذہین اور با صلاحیت افراد کو شنگریلا میں جمع کیا جا رہا تھا۔قونصلر یہ جان کر حیران رہ گیا کہ اُسے پیرالٹ کی جانشینی کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔‘‘

 ’’اینویں۔‘‘ سیف نے سر جھٹکا۔

 ’’اینویں کیا مطلب؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’آبِ شباب کے ساتھ پوری دُنیا کی حکمرانی بھی، یہ سراسر دھاندلی ہے۔‘‘

 ’’اس کا مطلب ہے آپ وہاں ہوتے تو ہیڈ لاما کے عہدے کے اُمیدوار ہوتے؟‘‘

 ’’ہوتا کیا مطلب؟ میں شنگریلا میں ہوں اور۔۔۔‘‘

 ’’ابے چُپ۔‘‘ شاہ صاحب نے اُس کی بات کاٹی۔ ’’عارف صاحب نے سن لیا تو تیرا تیاپانچہ کر دیں گے۔ڈاکٹر صاحب آپ اس کی بکواس پر توجّہ نہ دیں اور بات جاری رکھیں۔‘‘

 ’’ہائی لاما نے فی الحال یہ راز اپنی ذات تک محدود رکھنے کی ہدایت کے ساتھ قونصلر کو رخصت کر دیا۔قونصلر کی ملاقات ایک چینی دوشیزہ سے ہوئی اور وہ اُس کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہو گیا۔اُس کی دلچسپی دیکھ کر ہائی لاما کے نائب نے سنسنی خیز انکشاف کیا کہ چینی دوشیزہ کا شباب آبِ شباب کا نتیجہ ہے اور اُس کی اصل عُمر اَسّی سال سے زائد ہے۔ اس نے آبِ شباب کی اس خامی کا بھی اعتراف کیا کہ اُس کے اثرات صرف شنگریلا تک محدود ہیں۔آبِ شباب سے فیض یاب ہونے والے خواتین و حضرات اگر وادی سے باہر جانے کی حماقت کریں گے تو اُن کی اصل عمر ظاہر ہو جائے گی اور وہ چند دنوں میں اس دارِفانی سے کوچ کر جائیں گے۔‘‘

 ’’دھت تیرے کی۔‘‘ سیف نے کہا۔

 ’’تم چپ نہیں رہ سکتے۔‘‘ شاہ صاحب نے اُسے گھورا۔

 ’’لاسٹ ہاریزان سو فیصد فراڈ ہے اور عقل سے عاری لوگوں یا بچوں کے لیے لکھی گئی ہے۔ وہ لوگ شنگریلا سے باہر نکلے بغیر پوری دنیا کا کنٹرول کیسے حاصل کرتے؟‘‘

 ’’ویری گڈ پوائنٹ۔‘‘ میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔ ’’میرے ذہن میں یہ خیال آیا ہی نہیں۔میرا خیال ہے ناول میں اس کی کوئی توضیح ہے بھی نہیں۔‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب یہ ایک فکشن ہے۔اس میں اتنی مین میخ نکالنا ضروری نہیں ، آپ بات جاری رکھیں۔‘‘

 ’’جی نہیں !‘‘ میں نے اختلاف کیا۔ ’’عالمی شہرت یافتہ ناول کے پلاٹ میں اتنی بڑی خامی معمولی بات نہیں۔ اس ناول پر کئی فلمیں ، ٹی۔وی ڈرامے اور سیر یلز بن چکے ہیں۔مجھے یہ ناول دوبارہ پڑھنا پڑے گا۔‘‘

 ’’آپ بعد میں پڑھتے رہیں ، فی الحال یہ بتائیں کہ آگے کیا ہوا؟‘‘

 ’’ایک دن ہائی لاما نے قونصلر کو بلایا اور بتایا کہ اس کا آخری وقت آن پہنچا ہے اس لیے قونصلر ہائی لاما کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے تیّار ہو جائے۔قونصلر کی حیرانی ختم ہونے سے پہلے پیرالٹ کا جسم بے جان ہو گیا تو وہ پریشانی کے عالم میں جھیل کے کنارے ٹہلنے لگا۔ اُس کا ایک نوجوان ساتھی اُسے تلاش کرتے ہوئے آیا اور قونصلر کی کیفیت پر دھیان دیے بغیر خوش خبری سنائی کہ وہ چینی دوشیزہ کو محبت کے جال میں پھنسا کر فرار پر آمادہ کر چکا ہے اور وہ آج رات شنگریلا سے فرار ہو جائیں گے۔‘‘

 ’’اسّی سالہ دوشیزہ کے ساتھ؟‘‘ شاہ جی نے حیرانی سے کہا۔

 ’’اصل عمر کا علم قونصلر کو تھا۔ اُس کا ساتھی تو اُسے سولہ برس کی بالی عمریا ہی سمجھتا تھا۔ قونصلر اس انکشاف پر ششدر رہ گیا۔ اُس نے اپنے ساتھی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ناممکن ہے اور چینی خاتون اُس کے ساتھ دھوکہ کر رہی ہے۔ وہ بیرونی دنیا میں جانے کا خطرہ ہرگز مول نہیں لے سکتی۔ نوجوان کی سمجھ میں یہ عجیب و غریب نکتہ نہ آیا اور اس نے قونصلر کی دماغی حالت پر شک و شبہ ظاہر کیا تو قونصلر اُسے صورتِ حال سے آگاہ کرنے پر مجبور ہو گیا۔‘‘

 ’’اور بے چارے کے جذبات ٹھنڈے کر دیے۔‘‘ سیف نے تاسّف کا اظہار کیا۔

 ’’جی نہیں !نوجوان نے اس پر یقین کرنے سے انکار کر دیا اور یہ بتا کر قونصلر کو سکتے میں مبتلا کر دیا کہ وہ چینی دوشیزہ کے ساتھ ہر طرح کے رنگین و سنگین کیف پرور لمحات گزار چکا ہے اور حلفاً کہہ سکتا ہے کہ چینی دوشیزہ کی عمر بیس سال سے زیادہ نہیں۔ اُس کے بقول جسم کی عمر تو چھپائی جا سکتی ہے جذبات کی نہیں چھپائی جا سکتی۔‘‘

 ’’نوجوان کا یہ قول سونے میں تولے جانے کے قابل ہے۔اس انکشاف نے بیوقوف قونصلر پر کیا اثر کیا؟‘‘ سیف نے اشتیاق سے پوچھا۔

 ’’قونصلرپہلے ڈبل مائنڈڈ ہوا، پھر نوجوان کی دلیلوں کے سامنے بے بس ہو گیا۔ چینی دوشیزہ نے فرار کے انتظامات مکمل کیے اور وہ سب اُسی رات وہاں سے فرار ہو گئے۔‘‘

 ’’اور بہ خیر و عافیت اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ چینی دوشیزہ اپنے عاشق کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگی اور پانچ سات بچوں کو جنم دینے کے بعد اللہ کو پیاری ہوئی۔۔  اس لیے بھائیو اور بابے یو۔۔  چلو چلو ہوسٹل چلو۔‘‘ سیف نے قصہ ختم کر دیا۔

 ’’تم دخل اندازی سے باز نہیں رہ سکتے؟‘‘ شاہ صاحب نے چیں بجیں ہو کر کہا۔

 ’’ناول کا مصنّف اس انجام سے متفق نہیں ہے۔‘‘ میں نے سنجیدگی سے کہا۔

 ’’اسے کیا تکلیف ہے؟‘‘ سیف نے پوچھا۔

 ’’وہ قونصلر کے علاوہ بقیہ افراد کے انجام سے لا علم ہے۔ قونصلر شدید بیماری کی حالت میں چین کے ایک خیراتی ہسپتال میں پایا گیا جہاں وہ کئی روز موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہا۔ اُس کا ایک شناسا اتفاقاً اس ہسپتال میں آیا تو اُس نے قونصلر کو پہچان لیا۔ڈاکٹر نے بتایا کہ ایک چینی خاتون قونصلر کو ہسپتال میں داخل کروانے لائی تھی۔ قونصلر کے شناسا نے مناسب علاج کا انتظام کیا جس سے اُس کی جان بچ گئی۔‘‘

 ’’قونصلر جائے جہنم میں ، چینی دوشیزہ کا کیا ہوا؟‘‘ سیف نے بے چینی سے پوچھا۔

 ’’چینی دوشیزہ؟۔۔ کون سی چینی دوشیزہ ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’وہی جس کے ساتھ وہ فرار ہوئے تھے۔‘‘

 ’’مصنف نے دوشیزہ کے انجام کا کوئی ذکر نہیں کیا۔‘‘

 ’’ابھی آپ نے کہا ہے کہ چینی دوشیزہ قونصلر کو ہسپتال میں داخل کرانے لائی تھی۔‘‘

 ’’میں نے چینی خاتون کہا ہے۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔

 ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ظاہر ہے یہ وہی چینی خاتون ہو گی جو شنگریلا سے اُن کے ساتھ فرار ہوئی تھی۔‘‘ سیف نے کہا۔

 ’’قونصلر کے دوست کو بتایا گیا تھا کہ قونصلر کے ساتھ آنے والی چینی خاتون کی عمر تقریباً اَسّی سال تھی اور وہ چند گھنٹے بعد بلا وجہ سفر آخرت پر روانہ ہو گئی۔‘‘

 ’’کیا مطلب؟آپ کہنا چاہتے ہیں کہ چینی دوشیزہ شنگریلا سے نکلتے ہی سچ مچ۔ ؟‘‘ شاہ صاحب اُچھل پڑے اور فقرہ مکمل نہ کر سکے۔

 ’’میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔جیمز ہلٹن نے یہ سسپنس برقرار رکھنے کو ترجیح دی ہے۔اس نے قونصلر کے بارے میں انکشاف کیا ہے کہ تندرست ہونے کے بعد وہ شنگریلا کی تلاش میں روانہ ہو گیا تھا کیونکہ وہ اپنی بقیہ زندگی وہیں گزارنا چاہتا تھا۔۔ مگریاد رہے کہ یہ فکشن ہے۔‘‘

 ’’بیوقوف قونصلر۔۔۔‘‘ سیف بڑبڑایا۔

 کچھ دیر کے لیے خاموشی طاری ہو گئی۔

 ’’ڈاکٹر صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ۔‘‘ بالآخر منیجر نے کہا۔ ’’شنگریلا کا تفصیلی تعارف میرے بہت کام آئے گا۔ غیر ملکی مہمان اس رومانٹک پس منظر میں بہت دلچسپی لیں گے۔آپ کا ہمارے شنگریلا کے متعلق کیا خیال ہے؟‘‘

 ’’شنگریلا ریسورٹ اور جیمز ہلٹن کی وادیِ شنگریلا میں ایک فرق بہت نمایاں ہے۔ اگر آپ یہ فرق دور کر دیں تو با آسانی دعویٰ کر سکتے ہیں کہ جیمز ہلٹن نے لاسٹ ہاریزان آپ کے ریسورٹ میں بیٹھ کر لکھا تھا۔‘‘

 ’’کونسا فرق؟‘‘ منیجر نے پوچھا۔

 ’’لاسٹ ہاریزان کی وادیِ شنگریلا میں ماؤنٹ کاراکل کی مناسبت سے عمارات کا رنگ نیلا ہے جو آسمان اور جھیل کے نیلگوں پانی سے مل کر ایک آفاقی منظر تخلیق کرتا ہے۔ شنگریلا ریسورٹ کی عمارات کا سرخ رنگ بہترین کنٹراسٹ پیدا کر رہا ہے لیکن نیلا رنگ اس پرسکون پس منظر میں شنگریلا کے قانون اعتدال کی زیادہ بہتر نمائندگی کر سکتا ہے۔‘‘

 ’’ قانونِ اعتدال؟۔ یہ کون سا قانون ہے؟‘‘ منیجر نے پوچھا۔

 ’’شنگریلا میں قانونِ اعتدال نافذ تھا۔ زندگی کے ہر شعبے یہاں تک کہ وفاداری، ایمانداری اور پاک دامنی کو بھی اعتدال کی حد میں رکھا جاتا تھا۔ اعتدال میں بھی اعتدال کی گنجائش موجود تھی۔‘‘

 ’’لاسٹ ہاریزان کی شنگریلا کے قانونِ اعتدال کے احترام میں آپ سکردو کی شنگریلا کے کرائے اعتدال کی حد میں لے آئیں۔ انشا اللہ نفع ہو گا۔‘‘ سیف نے منیجر کو مفت مشورہ دیا۔

 ’’شنگریلا کے بارے میں ایک اور انکشاف آپ کے لیے مزید دلچسپی کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘ میں نے منیجر سے کہا۔ ’’ جیمز ہلٹن کی شنگریلا کے سحر میں گرفتار ہو کر امریکی صدر روزویلٹ نے امریکی صدر کی سرکاری تفریح گاہ کا نام شنگریلا رکھ دیا تھا۔‘‘

 ’’امریکی صدر کی تفریح گاہ کا نام شنگریلا ہے؟‘‘ منیجر نے حیران ہو کر پو چھا۔

 ’’اب نہیں ہے۔۔ صدر آئزن ہاور نے  ۱۹۵۳ء  میں اسے  کیمپ ڈیوڈ کا نام دے دیا تھا۔‘‘

 ’’آپ کا مطلب ہے کہ کیمپ ڈیوڈ کا پرانا نام شنگریلا ہے؟‘‘ منیجر حیران ہو گیا۔

 ’’یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شنگریلا کا نیا نام  کیمپ ڈیوڈ ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

 ’’بہت خوب۔۔ مجھے حیرانی ہے کہ یہ بات میں نے پہلے کیوں نہیں سنی؟گورے ایسی باتوں میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب واپس چلیں ؟‘‘ محبوب نے کہا۔وہ ہنی مون منانے والے جوڑے  کے سوئٹ کا طواف کر کے واپس آیا تھا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب شنگریلا سے واپس نہیں جانا چاہتے۔ ‘‘ شاہ صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔

 ’’کیوں ؟‘‘ محبوب نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’انہیں خطرہ ہے کہ شنگریلا سے باہر نکلتے ہی یہ سو سال کے لگنے لگیں گے۔‘‘

 ’’شاہ جی آپ یہ تو نہیں کہنا چاہتے کہ شنگریلا میں یہ سو سال کے نہیں لگتے؟ ‘‘

٭٭٭

تو کہ نا واقف آداب ٹریکنگ ہے ابھی

ہم رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ محبت علی نے عرفان کا فون آنے کی اطلاع دی۔

 میں نے لقمہ وہیں چھوڑا اور فون والے کمرے کی طرف دوڑا۔میرا خیال تھا کہ عرفان نے کنکارڈیا پہنچ کرسٹیلایٹ فون کی سہولت استعمال کی ہو گی۔مبارک صاحب نے بتایا تھا کہ کنکارڈیا پر سٹیلائٹ فون دستیاب ہے۔ریٹ؟۔۔ صرف پانچ سو روپے فی منٹ!

 ’’آپ اس وقت کہاں سے بول رہے ہیں ؟ ‘‘ میں نے بے تابی سے پوچھا۔

 ’’گیشر بروم سے۔‘‘ عرفان نے پر سکون لہجے میں جواب دیا۔

 ’’ یعنی کنکارڈیا کراس کر چکے ہیں۔گیشر بروم بیس کیمپ پر بھی سٹیلائٹ فون کی سہولت موجود ہے؟‘‘

 ’’جناب میں ہوٹل سے بول رہا ہوں۔ ‘‘

 ’’ ہوٹل؟گیشر بروم بیس کیمپ پر ہوٹل کہاں سے آ گیا؟‘‘ میں حیران ہوا۔

 ’’ ڈاکٹر صاحب طنز نہ کریں ، میں سکردو کے گیشر بروم ہوٹل سے بول رہا ہوں۔ ‘‘

 ’’مائی گاڈ۔۔ بہ خدا میں طنز نہیں کر رہا۔ ‘‘ میں نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’آپ سکردو واپس کب اور کیوں آئے ؟ غونڈو غورو کا کیا ہوا؟ آپ خیریت سے تو ہیں ؟‘‘

 ’’آپ یہیں آ جائیں پھر  تفصیلی بات ہو گی۔ ‘‘

 ’’آپ خیریت سے تو ہیں ناں۔‘‘ میں نے تصدیق چاہی۔

 ’’سو فیصد خیریت ہے، آپ اطمینان سے آئیں۔‘‘ اُس نے فون بند کر دیا۔

عرفان کی اتنی جلدی واپسی غیر متوقع اور پریشان کن تھی۔ میں ، شاہ صاحب او ر محبوب کھانا کھاتے ہی گیشر بروم ہوٹل پہنچ گئے۔ عرفان ٹی۔وی۔لاؤنج میں ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے ایک ’’نان فیملی‘‘ قسم کی انڈین مووی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔اُسے بہ خیرو عافیت دیکھ کر ہم نے اطمینان کا سانس لیا اور علیک سلیک کے بعد واپسی کی وجہ پو چھی۔

 ’’ آپ لوگ پتا نہیں کیا سمجھ رہے ہیں اور کیوں سمجھ رہے ہیں ؟جنابِ والا میں کنکارڈیا تک ہو آیا ہوں۔غونڈوغورو کے لیے موسم سازگار نہیں تھا اس لیے ڈراپ کر دیا گیا۔‘‘

 ’’ اتنی جلدی ؟۔۔  آپ کے باقی ساتھی کہاں ہیں ؟‘‘ میں نے بے یقینی سے پوچھا۔

 ’’وہ شگر کے شاہی قلعے میں ٹھہر گئے ہیں اور چند روز سکردو میں بھی رکنا چاہتے ہیں۔ میں بچایا گیا وقت فضولیات میں صرف کرنے کے خلاف ہوں اس لیے واپس جا رہا ہوں۔‘‘

 ’’مگرکنکارڈیا سے ایک ہفتے میں واپسی؟ اٹرنری کے مطابق یہ دو ہفتے کا ٹریک ہے۔‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب ہفتہ کیوں ؟میں نو دن بعد واپس آیا ہوں۔‘‘

 ’’اچھا؟‘‘ میں حیران رہ گیا۔۔ اتناوقت کب؟کہاں ؟ اور کیسے گزرگیا؟

 ’’کنکارڈیا ٹریک نو دن میں مکمل کرنے کے دعوے پر کون یقین کرے گا؟‘‘ شاہ جی نے کہا۔

 ’’ہم نے مکمل کیا ہے اور ہمیں کسی کو یقین دلانے کی ضرورت نہیں۔‘‘

 ’’یار کیسے مکمل کر لیا؟کوئی غیبی امداد میسر آ گئی تھی کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’ہم نے پورٹرز کو پوری ادائیگی کی لیکن سفر اپنی مرضی سے کیا۔ہم پہلے دن صبح پانچ بجے یہاں سے نکلے اور ساڑھے گیارہ بجے اسکولی پہنچے۔ کھانے کے بعد ہم نے ریسٹ کرنے کے بجائے رک سیک اُٹھائے اور مغرب کے وقت کورو فون پہنچ گئے۔‘‘

 ’’کمال کر دیا آپ نے۔‘‘ میں سچ مچ حیران ہوا۔

 ’’اگلے دن ہم نے اصل کارنامہ سر انجام دیا۔ہم صبح صبح روانہ ہوئے اور جھولا میں رُکے بغیر پئی یو پہنچ گئے۔ پئی یو میں پورٹرز لازمی ریسٹ کرتے ہیں لیکن ہم نے ریسٹ نہیں کیا اور پورٹرز کو لالچ دیا کہ وہ پئی یو میں ریسٹ نہ کریں تو انہیں آدھے کے بجائے پورے دن کا معاوضہ اضافی دیا جائے گا۔ہماری اس حرکت پر پورٹرز بہت حیران تھے۔ ہم نے تیسرے دن بھی ان کی حیرانی ختم نہ ہونے دی اور للی گو میں سٹاپ کرنے کے بجائے سیدھے اردوکاس جا کر بریک لگائی۔‘‘

’’مگر اس افرا تفری کی ضرورت کیا تھی؟ ٹریکنگ ایک شوقیہ مشغلہ ہے جس کا اہم مقصد مناظر سے لطف اندوز ہونا ہے۔ آپ ٹریکنگ کے لیے آئے ہیں یا کسی اخلاقی جرم کی پاداش میں ٹریک با مشقت کی سزا بھگتنے تشریف لائے ہیں ؟‘‘ محبوب نے انتہائی ٹیکنیکل سوال کیا۔

 ’’ موسم خراب ہونے کی خبریں آ رہی تھیں اور ہم کے۔ٹو کے دیدار سے محروم رہنا نہیں چاہتے تھے۔ ہم نے ایڈونچر کورسز کیے ہوئے ہیں اس لیے ہر لمحے سے استفادہ کیا۔‘‘

  ’’اور چوتھے دن بھی یہی پنگا لیا ؟‘‘ محبوب نے پوچھا۔

 ’’ بالکل لیا۔۔ اور ساری رات کراہتے اور پچھتا تے رہے۔اردو کاس سے گورے میں رکے بغیر کنکارڈیا جانا انتہائی احمقانہ حرکت تھی۔جسمانی تھکاوٹ اپنی جگہ لیکن یہ اکلامیٹائزیشن کے اصولوں کی خلاف ورزی تھی۔ ہم سب کئی مرتبہ اس سے زیادہ بلندی تک جا چکے ہیں ورنہ یہ حرکت بہت مہنگی پڑ سکتی تھی۔‘‘

 ’’ چوتھے دن کنکارڈیا پہنچ کر آپ نے کوئی ریکارڈ قائم کیاہو گا۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’پتا نہیں ، اب جا کے پتا کروں گا۔‘‘ عرفان نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ ہم اندھیرا پھیلنے کے بعد کنکارڈیا پہنچے تھے، اپنی مشقت کا معاوضہ ہمیں اگلے دن ملا جب دوپہر تک سورج چمکتا رہا اور کے۔ٹو، گیشر برم، گولڈن تھرون اور دوسری چوٹیاں صاف نظر آتی رہیں۔ہمارا خیال تھا کہ موسم ایسا ہی رہا تو غونڈو غورو آسانی سے کراس ہو جائے گا، لیکن دوپہر کے بعد موسم بے حد خراب ہو گیا اور ہمیں بتایا گیا کہ اب کئی دن موسم بہتر ہونے کی توقع نہیں۔ہم نے ایک دن انتظار کیالیکن جب یہ بات واضح ہو گئی کہ فی الحال غونڈو غورو کراس کرنا ممکن نہیں تو ہم واپس آ گئے۔واپسی کی رفتار کچھ زیادہ تھی، ایک دن ہم نے تین سٹیجز بھی کیں۔‘‘

 ’’شیر خان یا کوئی پورٹر حیرت سے بے ہوش نہیں ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’وہ سمجھ رہے تھے کہ پاگلوں سے واسطہ پڑ گیا ہے۔‘‘ عرفان نے ہنستے ہوئے کہا۔

 ’’مجھے اس رائے سے سو فیصد اتفاق ہے۔‘‘ میں نے تائیدی انداز میں کہا:

تو کہ نا واقف آداب ٹریکنگ ہے ابھی

ٹریک کنکارڈیا دس دن میں کیا جاتا ہے

 ’’دس دن کیوں ؟آپ کو علم ہے کہ اس ٹریک کی اٹرنری دو ہفتے پر مشتمل ہے۔‘‘

 ’’دو ہفتے کہنے سے شعر وزن میں نہیں رہتا۔۔ مجبوری ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

 ’’اور نو دن میں ٹریک مکمل کرنا ہماری مجبوری تھی۔‘‘ عرفان ہنسنے لگا۔

 ’’آپ کی ’’ شٹوری ‘‘ زبردست ہے مگر ذہن اسے تسلیم نہیں کر رہا۔ میرا خیال ہے آپ ہمیں چکر دے رہے ہیں اور پئی یو میں پکنک منا کر واپس آ گئے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’میں آپ کو کنکارڈیا پر اپنی تصاویر بھجوا دوں گا۔‘‘

 ’’کمپیوٹر اور ڈیجیٹل فوٹو گرافی کے دور میں تصاویر کا کوئی اعتبار نہیں۔بائی دی وے، کنکارڈیا کے بارے میں کیا تاثرات ہیں آپ کے۔‘‘ محبوب نے پوچھا۔

 ’’وہ پریوں کی سر زمین ہے، اے ڈریم لینڈ۔‘‘ عرفان نے مختصر تبصرہ کیا۔

 ’’کسی پری وری سے ٹاکرا نہیں ہوا؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’وہاں پریاں تو کئی تھیں لیکن سردی بہت تھی، اس لیے وہ ہائی آلٹی چیوڈ جیکٹ میں پوشیدہ رہتی تھیں اور نقابِ رخ الٹنے کی ہمت نہیں کر رہی تھیں۔ پری اور پرے میں امتیاز کرنا بھی ایک مسئلہ بن چکا تھا۔‘‘

 ’’اب کیا پروگرام ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’اب ظاہر ہے واپس چلیں گے۔ ‘‘

 ’’سکردو میں ایک آدھ دن گزار نے کا پروگرام نہیں ؟ کل خپلو ہو آتے ہیں ؟‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب خدا خدا کر کے شاہراہِ قراقرم کھلی ہے، دوبارہ لینڈ سلائیڈنگ ہو گئی تو مسئلہ بن جائے گا۔میری چھٹیاں ختم ہو رہی ہیں۔ٹریک جلد مکمل نہ ہوتا تو فرلو لگانا مجبوری تھی، بلاوجہ وقت کیوں ضائع کیا جائے؟‘‘

 ’’شاہراہِ قراقرم بند تھی ؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’آپ کو اس بات کا علم نہیں ؟‘‘ وہ میری حیرانی پر پریشان ہو گیا۔

 ’’میرے لیے یہ بالکل نئی اطلاع ہے۔‘‘

میں نے شاہ صاحب کی طرف دیکھا جنہوں نے سر ہلا کر میری بات کی تصدیق کی۔

 ’’پھر آپ اتنے دنوں سے سکردو میں کیا کر رہے ہیں ؟میں نے سکردو آ کر سنا کہ شاہراہ قراقرم کئی دن بند رہی ہے تو سوچا کہ آپ یہاں پھنسے ہوئے ہوں گے، اسی لیے رابطہ کیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آپ بلاوجہ اتنے دن سکردو میں ٹھہر سکتے ہیں۔ ‘‘

 ’’بلا وجہ کیوں ؟وجہ تو بہت خوب صورت تھی، بلکہ ہے، ترکی آنکھوں میں ڈوب کر ابھرنے کو کس کا دل چاہتا ہے؟‘‘ محبوب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’جانِ محبوبی!بے بنیاد الزام تراشی سے باز رہو، اللہ میاں بہت ماریں گے۔  اور عرفان بھائی آپ شاہراہِ قراقرم کے بارے میں کیوں پریشان ہیں ؟ میرا واپسی کا پروگرام بائی ایئر ہے۔ شاہ صاحب ٹکٹ خرید چکے ہیں ، آپ کے لیے بھی لے لیتے ہیں۔‘‘

 ’’حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ اور اس لا علمی پر تو اپنے دل و جگر کے ساتھ آ پ کا سر پیٹنا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب موسم کی خرابی کی وجہ سے پچھلے ایک ہفتے سے کوئی فلائٹ نہیں ہوئی اور واپس جانے والے اتنے مسافر اکٹھے ہو چکے ہیں کہ اگلے ایک ہفتہ تک کسی نئے ٹکٹ کے او۔کے ہونے کا کوئی چانس نہیں۔ آپ کا ٹکٹ او۔کے ہو چکا ہے؟‘‘

 ’’او۔کے تو نہیں ہے۔میجر عمر سے بات کر کے دیکھ لیں۔وہ بہت تگڑی سفارش ہے۔کم از کم ٹکٹ تو او۔کے کروا ہی دے گا۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’فلائٹ آ ہی نہیں رہی تو وہ کیا کرے گا؟اور میں اس سے بات کرنا نہیں چاہتا۔‘‘ عرفان نے ناگواری سے کہا۔

 ’’اچھا؟۔۔ چچ چچ۔۔۔ آپ بہت بے مروّت ہیں ، وہ غریب اپنے معزز مہمان سے بات کرنے کے لیے مرا جا رہا ہو گا؟‘‘ میں نے اسے چھیڑا۔

 ’’لعنت بھیجیں اس موضوع پر۔۔ ‘‘ عرفان نے جھنجلا کر کہا۔ ’’دعا کریں کہ واپسی کے لیے سیٹیں آسانی سے مل جائیں۔‘‘

  ہم بکنگ کروانے نکلے تو صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ پی۔آئی۔اے کے بکنگ کاؤنٹر پر اگلی پانچ فلائٹس کے لیے سرخ جھنڈا لہرا رہا تھا جبکہ فی الحال پہلی فلائٹ کی بھی کوئی امید نہیں تھی۔بسوں کی صورت حال اور زیادہ حوصلہ شکن تھی۔ناٹکو اور مشہ بروم کے پاس اگلے چار دن تک کوئی سیٹ نہیں تھی۔ سلک روٹ سٹی کے بکنگ آفس میں کچھ امید نظر آئی مگر ایک دن کی تاخیر کے ساتھ۔۔ یعنی پرسوں۔  ہم نے مجبوراً وہی سیٹیں بک کرا لیں۔

 عرفان کچھ تحائف خریدنا چاہتا تھا اور مجھے یاد آیا کہ ڈاکٹر طاہر حسین شاہد نے چلتے چلتے سلاجیت کی فرمائش کی تھی۔ اگلا دن شاپنگ کے لیے مخصوص کر کے ہم واپس آ گئے۔

٭٭٭

دل ہونا چاہی دا جوان

صبح کے وقت شاہ صاحب نے جھنجھوڑ کر جگایا۔

 ’’ شاہ جی کون سی آفت آ گئی ہے ؟آج آرام کا دن ہے۔۔ دن چڑھے تک سونے کی عیّاشی کرنے دیں۔‘‘ میں نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔

 ’’ وہ آپ کا ترکی وفد تشریف لایا ہے۔‘‘

 ’’ترکی وفد؟‘‘ میں بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔ ’’اس وقت؟ ‘‘

 ’’وہ کسی ایمرجنسی کی بات کر رہے ہیں۔‘‘

 ہاشم اور حمید برآمدے میں بیٹھے تھے۔میں نے سلام کیا تو ہاشم نے جواب دیتے ہی کہا:

 ’’ہمیں سخت افسوس ہے۔ ‘‘

 ’’کس بات پر ؟‘‘

 ’’ہماری وجہ سے آپ کو بہت تکلیف اُٹھانی پڑی۔ ہمیں علم ہو چکا ہے کہ آپ کافی دیر تک سات پار لیک پر ہمارا انتظار کرتے رہے تھے۔ہماری تیاری مکمل تھی لیکن عین وقت پر ٹمّی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی اس لیے۔۔۔‘‘ ہاشم نے شرمندگی سے کہا۔

 ’’ معذرت کی ضرورت نہیں ، میں تہہ دل سے آپ کا شکر گزار ہوں۔ ‘‘ میں نے اُس کی بات کاٹی۔ ’’آپ کی وجہ سے میں نے ست پڑا جھیل پر اپنی زندگی کا ناقابل فراموش منظر دیکھا ہے۔ مگر آپ لوگ اتنی صبح؟ ‘‘

 ’’ ہم بہت ڈسٹرب ہیں ، سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کیا جائے؟‘‘ ہاشم نے پریشانی سے کہا۔

 ’’مسئلہ کیا ہے؟‘‘

 ’’تیمور کے گھٹنے کی حالت بہت خراب ہے۔ہم اُسے دوبارہ ہسپتال لے گئے تھے۔ انہوں نے اُسے داخل کر لیا تھا کیونکہ اگلے دن سرجن کی آمد متوقع تھی، لیکن وہ نہیں آیا۔ ٹمی کسی قیمت پر وہاں رہنے پر رضامند نہیں تھا اس لیے ہوٹل میں واپس آ گیا ہے۔ ہم نے سی۔ایم۔ایچ سے پتا کیا تھا، ان کا سرجن بھی ابھی تک واپس نہیں آیا۔ ‘‘

 ’’ لیکن میں اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہوں ؟ آپ کو فوراً راولپنڈی جانا چاہیے۔ ‘‘

 ’’مگر کیسے؟اگلے کئی روز تک فلائٹ کا امکان نہیں اور ٹمی شدید درد کے ساتھ بس میں اتنا لمبا سفر نہیں کر سکتا۔ پلیز! ہماری مدد کریں۔‘‘ اُس نے پریشانی سے کہا۔

 ’’آپ یہ تو بتائیں کہ میں آپ لوگوں کی کیا مدد کر سکتا ہوں ؟‘‘

 ’’آپ ٹمّی کو دیکھ کر مشورہ دیں کہ ہم کیا کریں ؟ یقین کریں ہم بہت پریشان ہیں۔ ‘‘

 ’’او۔کے، میں نہا لوں اور ناشتہ کر لوں ، پھر چلتے ہیں۔‘‘

 ’’ ناشتا آپ ہمارے ساتھ کریں ، آپ کا ڈنر ہم پر قرض ہے۔ ‘‘

 ’’شاہ جی ناراض ہو جائیں گے۔ انہیں اخلاقیات کا بہت خیال رہتا ہے۔وہ آپ کے لیے بھی ناشتہ تیار کروا رہے ہوں گے۔ ‘‘ میں نے کہا اور باتھ روم میں گھس گیا۔

 تقریباً ایک گھنٹے بعد ہم ٹمی کے کمرے میں داخل ہوئے۔

 ایک لمبا تڑنگا نوجوان بستر پر لیٹا کراہ رہا تھا اور سلیمہ اس کی ٹانگ اپنے زانوؤں پر رکھے اس کا گھٹنا سہلا رہی تھی۔ نوجوان کا تعارف تیمور اوٹمانی عرف ٹمی کے نام سے کرایا گیا۔

 ’’ او ٹمانی؟آپ کہیں سلطنتِ عثمانیہ کے وارث تو نہیں ؟‘‘

میں نے اُس کی توجّہ درد سے ہٹانے کے لیے از راہِ مذاق پوچھا۔

 ’’ وائی ناٹ؟شیورلی آئی ایم۔‘‘ اس نے ہائے ہائے روک کر ذرا جوش سے کہا۔

 ’’اچھا؟ واقعی ؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’نو جوک، یہ سچ مچ پرنس ہے۔‘‘ ہاشم نے کہا۔

 ’’ او۔کے، پہلے پرنس اوٹمانی کا ایکسرے دیکھ لوں پھر تفصیلی تعارف ہو گا۔‘‘

انالی نے فوم کے گدے کے نیچے سے ایکسرے نکال کے میری طر ف بڑھا یا۔ اس خالص پاکستانی انداز پر مجھے ہنسی آ گئی۔ ایکسرے فلم کو میٹریس کے نیچے رکھنا مشرقی کلچر کی نشانی ہے، یورپین یہ عقلمندی نہیں کرتے۔

 ’’اس میں چپنی کی ہڈی کا واضح فریکچر ہے۔‘‘ میں نے ایکسرے دیکھتے ہوئے کہا۔

 ’’ڈاکٹر تو کہہ رہا تھا کوئی فریکچر نہیں ہے۔‘‘ ٹمی نے پریشان ہو کر کہا۔

 ’’ڈاکٹر کا قصور نہیں۔اس فریکچر کی تشخیص تھوڑی سی مشکل ہوتی ہے۔ ‘‘

ایکسرے کے بعد میں نے گھٹنے کا معائنہ کیا۔

 ’’اس میں غالباً ریشہ پڑ چکا ہے۔‘‘ میں نے تشویش سے کہا۔

 ’’ ریشہ ؟۔۔ او نو!۔۔ مگر کیسے؟ ‘‘ ٹمی کا رنگ اڑ گیا۔

 ’’چوٹ لگنے کے بعد خون جمع ہو گیا ہو گا جو بعد میں ریشہ بن گیا۔ ‘‘

 ’’لیکن ہسپتال میں تو ڈاکٹر نے یہ سب کچھ نہیں بتایا تھا۔‘‘

 ’’آپ لوگوں کی بدقسمتی سے سرجن صاحب چھٹی پر تھے ورنہ یہ پرابلم نہ ہوتا۔ مجھے افسوس ہے، لیکن اس وقت صورتِ  حال خاصی نازک ہے، ایمرجنسی سمجھیں۔ ‘‘

 ’’ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ ہاشم نے متفکر ہو کر پوچھا۔

 ’’آپ دوبارہ ہسپتال چلے جائیں۔میں تشخیص لکھ دیتا ہوں اور اپنا کارڈ دے دیتا ہوں تاکہ ڈاکٹر صاحب تشخیص پر یقین کر لیں اور سرنج سے ریشہ نکال دیں۔ اس سے درد میں عارضی لیکن فوری افاقہ ہو گا اور اوٹمانی صاحب سفر کے قابل ہو جائیں گے۔اس کے بعد آپ کوئی ایمبولینس لے کر فوراً اسلام آباد یا کم از کم گلگت چلے جائیں۔وہاں بوقت ضرورت آپریشن کر کے گھٹنے کا جوڑ واش کیا جا سکتا ہے۔ پلاسٹر بعد میں لگ جائے گا۔‘‘

 ’’میں ہسپتال نہیں جاؤں گا، ہرگز نہیں۔‘‘ ٹمی نے احتجاج کیا۔

 ’’اس حالت میں اسلام آباد تک بس کا سفر کر لو گے ؟‘‘ سلیمہ نے تنک کر کہا۔

 ’’یہ بھی ممکن نہیں۔ ‘‘ اُس نے بے چارگی سے کہا۔ ’’ڈاکٹر پلیز! یہاں کچھ کریں۔‘‘

 ’’یہاں کیا ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’سرنج سے ریشہ یہاں نہیں نکل سکتا؟میں آپ کی پوری فیس ادا کروں گا اور آپ کا احسان ہمیشہ یاد رکھوں گا۔‘‘

میں اس درخواست پر دنگ رہ گیا۔اس کی تجویز غیر اخلاقی ہونے کے باوجود قابل عمل تھی اور ظاہر کرتی تھی کہ دیسی طریقے اپنانے میں ترکی پاکستان سے پیچھے نہیں۔

 ’’ فیس کی بات مت کرو، میں یہاں پریکٹس کرنے نہیں آیا۔‘‘ میں نے قدرے ناگواری سے کہا۔ ’’اصل مسئلہ سٹرلائیزیشن کا ہے۔ یہاں سٹرلائیزیشن ممکن نہیں اور اس کے بغیر جوڑ میں نیڈل ڈالنا مناسب نہیں۔‘‘

 ’’سٹرلائیزیشن ؟ڈاکٹر پلیز! کیوں مذاق کرتے ہو۔ اتنی گندی عمارت کو ہسپتال کہنا اور اُس ماحول میں سٹرلائیزیشن کی توقع کرنا دنیا کا سب سے بڑا مذاق ہے۔یہ کمرہ اس ہسپتال سے ہزار گنا زیادہ صاف ستھرا ہے۔۔ لیکن۔۔  آئی ایم سوری۔یہ تمہارا ملک ہے اور مجھے تمہاری ناراضگی کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔میں اپنے احمقانہ الفاظ واپس لیتا ہوں۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

میں خاموش رہا۔ وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ اُس کی نا گفتہ بہ حالت دیکھ کر میں نے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک پرچی پر سامان لکھ کر ہاشم کو کہا کہ وہ یہ چیزیں لے آئے تو ریشہ نکالنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ہاشم فوراً سامان لینے چلا گیا۔

 انالی کوئی مشروب لے آئی اور شیشے کا چھوٹا سا گلاس میری طرف بڑھایا۔

 ’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے مشکوک نظروں سے سنہری مشروب کو دیکھا۔

 ’’ یہ قہوہ ہے، آپ کے ملک میں اور کیا مل سکتا ہے؟ ویسے آپ فرمائش کریں تو کچھ اور بندوبست بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ اس نے معنی خیز لہجے میں کہا۔

 ’’ بہت بہت شکریہ۔  میں چائے پی کر آیا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’ آپ چکھیں تو سہی۔۔ یہ ترکی کا سپیشل قہوہ ہے۔‘‘

ترکی قہوہ واقعی سپیشل تھا۔ اس میں دار چینی کا ذائقہ بہت زیاد تھا اور اس کی خوشبو پورے کمرے میں پھیل گئی تھی۔ ٹمی کی ہائے ہائے میں کچھ کمی ہوئی تو میں نے پوچھا :

 ’’ تو آپ پرنس ہیں ؟‘‘

 ’’کم از کم مجھے یہی بتایا گیا ہے۔‘‘

 ’’مائنڈ نہ کریں تو ایک ذاتی سا سوال پوچھ لوں ؟ ‘‘

 ’’پوچھ لیں ، مگر جواب نہ ملے تو ناراض نہ ہوں۔‘‘ ٹمی نے بے تکلفی سے کہا۔

 ’’ا تا ترک یعنی مصطفی کمال پاشا کے بارے میں آپ کے کیا جذبات ہیں ؟‘‘

 ’’دیٹ  بلڈی باسٹرڈ۔۔۔‘‘ اس نے یک لخت اٹھنے کی کوشش کی مگر فوراً ہی دوبارہ لیٹ گیا اور اذیت کی شدت سے کراہنے لگا۔

 ’’ڈونٹ بی سلی۔ ‘‘ سلیمہ نے اُس کے گال تھپتھپائے۔ ’’ ڈاکٹر تم نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ اتا ترک ہمارے درمیان سب سے بڑا اختلافی موضوع ہے۔ ‘‘

 ’’آئی ایم رئیلی سوری۔‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔

 ’’ یہ اتا ترک کو برا بھلا کہتا ہے تو ہمیں بہت افسوس ہوتا ہے۔اتا ترک نہ ہوتا تو ترکی بھی نہ ہوتا۔‘‘ انالی نے کہا۔

 ’’ یہ تمھاری عقل کا قصور ہے۔ اُس نے خطّۂ زمین کی حفاظت کی اور مذہبی و ثقافتی اقدار کو قتل کرنے کے بعد اتحادی افواج کی خواہشات کو ترکی پر مسلط کر دیا۔اسلام کے قلعے کی تباہی پر ماتم کرنے کے بجائے یورپی خواہشات کی بنیادوں پر تعمیر ہونے والے جدید ترکی کا جشنِ بقا منانے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔‘‘ اُس نے جوش سے کہا۔

 ’’کاش تم اردو سمجھ سکتے؟‘‘ میں نے کہا۔

 ’’کیوں ؟‘‘

 ’’ہمارے قومی شاعر نے تمہاری پوری تقریر کو ایک شعر میں سمو دیا ہے۔‘‘

 ’’تمہارے قومی شاعر کو ترکی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟‘‘ اس نے حیرت سے کہا۔

 ’’ انہیں پوری ملت اسلامیہ سے دلچسپی تھی۔۔ وہ کہتے ہیں :

چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا

سادگی مسلم کی دیکھ،  اوروں کی عیاری بھی دیکھ

میں نے اسے شعر کا ترجمہ سنایا اور تشریح کی تو وہ با قاعدہ اچھل پڑا۔

 ’’نا قابل یقین!ممکن ہوتا تو میں تمہارے قومی شاعر کے ہاتھ چوم لیتا۔مصطفی کمال کی حماقت پر اس سے بہتر مضمون نہیں باندھا جا سکتا۔ترکی جیسے اسلامی مرکز میں یورپین مقاصد کی آبیاری کرنے پر مصطفی کمال کا سر قلم کر نا چاہیے تھا۔ ہم اس کے مجسمے بناتے ہیں۔ ‘‘

 ’’اس نے جدید ترکی کی بنیاد رکھی جو بہرحال ایک اسلامی ملک ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔

 ’’اسلامی ملک؟وہ ملک جس کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ، شراب خانوں اور قحبہ خانوں کی عام اجازت ہے، خواتین کے پردہ کرنے پر پابندی ہے، اسے اسلام سے کیا نسبت ہو سکتی ہے؟ اتا ترک نے فرمایا تھا کہ ترکی کو ایک عرب مبلغ کی پانچ سو سال پہلے پھیلائی ہوئی عربی ثقافت اپنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ترکی قومیت مذہب سمیت ہر چیز پر فوقیت رکھتی ہے۔ ‘‘

 ’’ سب سے پہلے ترکستان۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’اُس نے حکم دیا کہ اذان اور نماز کی ادائیگی ترکی زبان میں کی جائے کیونکہ ترکوں کے خدا کے لیے ’’ اللہ اکبر‘‘ کی نسبت ’’تُن ری اولندر ‘‘ زیادہ  پسندیدہ ہونا چاہیے۔‘‘

 ’’ ترکی میں اذان ترکی زبان میں دی جاتی ہے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔

 ’’سنا ہے کہ ایک مرتبہ دی گئی تھی۔‘‘ اُس نے نفرت سے کہا۔ ’’ عوام نے اس مؤذن کو مار مار کر ادھ موا کر دیا اور اس احمقانہ نظریے کی شدید مذمت کی۔‘‘

 ’’ دیٹ از پوائنٹ۔ ‘‘ انالی نے کہا۔ ’’ترکی کی فوج اور صدر سیکیولر ازم کے علمبردار ہیں لیکن ترکی عوام اسلام پسند ہیں۔ جب بھی آزادانہ انتخاب ہوئے لوگوں نے اسلام پسند جماعتوں کو ووٹ دیے، پھر ترکی کے اسلامی تشخص پر شک کرنے کا کیا جواز ہے؟‘‘

 ’’اگر مصطفٰی کمال اور ترک عوام کی رائے میں اتنا واضح اختلاف ہے تو اسے فادر آف دی نیشن یا اتا ترک کیوں کہا جاتا ہے ؟‘‘ ٹمی نے تلخ انداز میں کہا۔

 ’’میرا خیال ہے میں نے بے حد اختلافی موضوع چھیڑ دیا ہے۔ آئی ایم ویری سوری فار دیٹ، ہم کسی اور موضوع پر بات نہیں کر سکتے؟‘‘ میں نے اُسکے لہجے سے گھبرا کر کہا۔

 ’’مثلاً؟کس قسم کا؟‘‘ سلیمہ نے پوچھا۔

 ’’کوئی بھی غیر اختلافی اور دلچسپ موضوع، مثلاً پرنس ٹمی نے منصب خلافت سے محروم ہونے کے بعد کیا شغل اختیار کر رکھا ہے؟‘‘  میں نے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا۔

 ’’اوہ۔۔ ویری امیزنگ۔ ‘‘ سلیمہ نے ایک کھنکھنا تا ہوا قہقہہ لگایا۔

 ’’اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’بے شک یہ انتہائی دلچسپ اور غیر اختلافی موضوع ہے۔‘‘ اُس نے شوخی سے کہا۔ ’’ہز ہائی نس دورِ خلافت کی یاد تازہ کرنے کے لیے کنیزوں کے جھرمٹ میں گھرے رہتے ہیں اور سیکس سلیوز کو منظرِ عام پر لانے کے بہانے شہزادگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔‘‘

 ’’یہ سو فیصد الزام تراشی ہے۔‘‘ ٹمی نے احتجاج کیا۔ ’’ روزنامہ ریڈیکل کے کرائم رپورٹر کی حیثیت سے اس گھناؤنے کاروبار کو منظرِ عام پر لانا میرا پیشہ ورانہ فرض ہے۔‘‘

 ’’آپ کس بارے میں گفتگو کر رہے ہیں ؟‘‘ میں نے استفسار کیا۔

 ’’تم نے سیکس سلیوری کے بارے میں کچھ نہیں سنا جسے آج کل ترکی کی سب سے بڑی صنعت کہا جاتا ہے؟‘‘ ٹمی نے حیرت سے کہا۔

 ’’سیکس سلیوری؟یہ کون سی صنعت ہے؟‘‘ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے سوال کیا۔

 ’’ بوسنیا، قازقستان اور سربیا وغیرہ سے لاکھوں کی تعداد میں نوجوان اور خوبصورت لڑکیوں کو ملازمت کا جھانسہ دے کر ترکی اور دوسرے ممالک بشمول امریکہ اور کینیڈا میں امپورٹ کیا جاتا ہے اور انہیں مختلف قحبہ خانوں میں قید کر کے جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔ ترکی میں یہ کاروبار ایک صنعت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔تربزان کی مارکیٹ میں ان لڑکیوں کی باقاعدہ خرید و فروخت ہوتی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق یہ ترکی کی سب سے بڑی صنعت ہے اور اس سال اس کاروبار سے تقریباً پونے چار ارب ڈالر منافع حاصل کیا گیا۔‘‘

 ’’اوہ نو!۔۔  ترکی کا قانون اس کی اجازت دیتا ہے؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’قانون سے اجازت مانگتا کون ہے؟قانون کو اُس کا حصہ گھر بیٹھے ملتا رہے تو وہ آنکھیں بند رکھنا زیادہ پسند کرتا ہے۔ ‘‘ اس نے تلخ انداز میں جواب دیا۔

 ’’ ترکی سچ مچ پاکستان کا برادر اسلامی ملک لگتا ہے۔‘‘ میں نے زیرِ لب کہا۔

 ’’کیا؟‘‘ وہ کچھ نہ سمجھا۔

 ’’کچھ نہیں ، کیا ترک اتنے امیر ہیں کہ وہ عیاشی پر اتنا پیسہ لٹا دیں ؟ ‘‘

 ’’یہ لڑکیاں یورپ سے آنے والے سیاحوں کو پیش کی جاتی ہیں اور معاوضہ ڈالرز میں وصول کیا جاتا ہے۔‘‘

 ’’یورپ؟یورپ سیکس فری زون ہے۔ یورپ کے باشندوں کو ترکی جا کر ڈالرز لٹانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

 ’’مشرق کے جادو نے یورپ کو ہمیشہ مسحور کیے رکھا ہے۔‘‘ ٹمی نے کہا۔

 ’’پھر بھی! آپ کے کہنے کے مطابق اس میں بہت بڑی رقم گردش کر رہی ہے، کیا اتنے سیاح یورپ سے ترکی آ جاتے ہیں ؟‘‘

 ’’آپ ترکی کو کیا سمجھتے ہیں ؟ انا طولی کے ساحل کے ساتھ ساتھ لاتعداد عشرت کدے ہیں جنہیں یورپ سے آنے والے سیاح سارا سال آباد رکھتے ہیں۔ ‘‘

 ’’میں ان معلومات پر یقین نہیں کر سکتا، انھیں ہضم کرنے کے لیے وقت چاہیے۔‘‘

 ’’ آپ ترکی آئیں۔ ‘‘ انالی نے مشورہ دیا۔

 ’’میں ترکی آؤں ؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’بالکل آئیں۔ہمیں آپ کی مہمان نوازی کر کے خوشی ہو گی۔‘‘

 ’’آہ، یہ دعوت بہت تاخیر سے ملی ہے۔ ‘‘ میں نے مصنوعی تاسف سے کہا۔

 ’’کیا مطلب؟‘‘ انالی نے پوچھا۔

 ’’ دس سال پہلے میں سر کے بل ترکی جاتا۔‘‘ میں نے مصنوعی حسرت سے کہا۔

 ’’جوانی کا تعلق جسم سے نہیں روح سے ہے؟‘‘ اُس نے قدرے شوخی سے کہا۔

 ’’ہم کہتے ہیں دل سے ہے۔۔ دل ہونا چاہی دا جوان۔۔ عمراں وچہ کی رکھیا؟‘‘  میں نے پنجابی محاورے کا انگلش ترجمہ انہیں سنایا۔

 ’’ آپ صرف کہتے ہیں۔عمل کیوں نہیں کرتے۔‘‘ انالی نے ہنستے ہوئے کہا۔

 ’’ترکی میں سیاحوں کی دلچسپی کے لیے کیا کچھ ہے؟ ‘‘

 ’’ترکی میں سیّاحوں کے لیے کیا نہیں ہے ؟ترکی کا چپّہ چپّہ اپنا جدا گانہ تشخص اور منفرد تاریخ رکھتا ہے۔ ترکی کے ساحل،  تاریخی عمارات،  میوزیم، او پیراز، میرے خیال میں دنیا کے کسی اور ملک میں مشرق و مغرب کا اتنا حسین امتزاج نہیں مل سکتا۔‘‘

 ’’ تمہارا تعلق ترکی کے محکمہ سیاحت سے تو نہیں ؟ ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’نہیں ، میرا تعلق ایک اخبار سے ہے، لیکن تم نے ترکی میں اتنی دلچسپی لی ہے کہ میرے خیال میں تمہیں ترکی ضرور آنا چاہے۔‘‘

میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ ہاشم سامان لے کر واپس آ گیا۔

 میں نے سپرٹ سے گھٹنا صاف کیا اور تھوڑی سے جگہ سن کر کے سرنج کی مدد سے ریشہ نکال دیا۔ اس کے گھٹنے کے جوڑ میں پچاس ملی لیٹر سے زیادہ ریشہ جمع تھا۔ ریشہ نکلنے کے چند منٹ بعد اس کے چہرے پر آسودگی اور حیرت کے آثار نظر آئے۔

 ’’درد بہت کم ہو گیا ہے۔ مگر اتنی جلدی ؟۔۔ یہ کیا جادو ہے ؟‘‘

 ’’ریشے کا دباؤ ختم ہوتے ہی درد میں افاقہ لازمی تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم ٹھیک ہو چکے ہو۔تمہیں فوراً کسی اچھے ہسپتال میں داخل ہونا چاہیے تاکہ ریشہ دوبارہ بنے تو آپریشن کیا جا سکے۔میرا خیال ہے اب تم گھٹنا موڑ سکتے ہو اور بس کا سفر کر سکتے ہو۔‘‘

 ’’ شاید۔‘‘ اس نے گھٹنے کے جوڑ کو جنبش دیتے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر یقین مانیں میں  ساری زندگی آپ کا احسان مند رہوں گا۔۔  حمید تم فوراً ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرو۔‘‘

 ’’او۔کے۔ میں ایمبولینس کا پتہ کرتا ہوں یا پھر چھوٹی ویگن ہائر کر لیتے ہیں۔‘‘

حمید کمرے سے چلا گیا تو انالی نے آدابِ میزبانی نبھانے کے لیے گفتگو کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا جہاں سے منقطع ہوا تھا۔

 ’’ آپ ترکی ضرور آئیں۔‘‘ انالی نے کہا۔ ’’ترکی کے بارے میں آپ کی بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔‘‘

 ’’خوش فہمیاں۔‘‘  ٹمّی نے گھٹنے کی ورزش جاری رکھتے ہوئے تصحیح کی۔

 ’’میں ابھی اتنا بزرگ نہیں ہوا کہ مس سلیمہ کا رقص دیکھنے کے بجائے اپنی غلط فہمیاں یا خوش فہمیاں دور کرنے ترکی جاؤں۔ ‘‘

 ’’اچھا؟یہ بہت حیرت انگیز، خوشگوار اور حوصلہ افزا انکشاف ہے۔‘‘ انالی نے سلیمہ کی طرف دیکھتے ہوئے معنی خیز انداز میں کہا۔ ’’کب آرہے ہیں مس سلیمہ کا رقص دیکھنے ؟‘‘

 ’’بائی دا وے، اگر میں ترکی آ گیا تو آپ لوگ مجھے پہچان لیں گے؟‘‘

 ’’کیا مطلب؟‘‘ سلیمہ نے چونک کر پوچھا۔

 ’’اگر میں ترکی آ جاؤں تو آپ مجھے پہچان لیں گے؟‘‘ میں نے دوہرایا۔

 ’’ ایک ترک کو احسان فراموش کہنے سے بڑھ کر کوئی گالی نہیں دی جا سکتی۔ ‘‘ سلیمہ نے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا۔

 ’’یہ احسان فراموشی کہاں سے نازل ہو گئی؟میں نے جان بوجھ کر تمہارے اوپر کوئی احسان نہیں کیا، بے خبری میں ایسی کوئی حرکت سرزد ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں اور آئندہ ایسی فضول حرکات سے باز رہنے کا وعدہ کرتا ہوں۔‘‘ میں نے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا۔

 ’’ میرا ٹخنہ ٹھیک ہو چکا ہے اور ٹمی چند منٹ میں بہت بہتر محسوس کر رہا ہے۔ ‘‘

 ’’اوہ !۔۔ مجھے ایک مرتبہ پھر معذرت کرنا پڑے گی۔ تمہارے پاؤں کے بارے میں تو میں نے پوچھا ہی نہیں۔ ‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔

 ’’اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ تمہارا جسم اور دل دونوں ہم عمر ہیں۔ دس سال پہلے تم ٹمی کے گھٹنے پر لعنت بھیج کر میرا ٹخنہ سہلا رہے ہوتے۔ ‘‘

 ’’اور ٹمی میرا جبڑہ سہلا رہا ہوتا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ تمہارا ٹخنہ اب ٹھیک ہے نا؟‘‘

 ’’تھینک گاڈ۔۔ تقریباً ٹھیک ہے۔‘‘

 ’’ مجھے جانا چاہیے، میرا ساتھی شدّت سے انتظار کر رہا ہو گا۔‘‘ میں نے اُٹھتے ہوئے کہا۔

 ’’او۔کے۔تمہارے قیمتی وقت کا بہت بہت شکریہ۔ ہم دل کی گہرائیوں سے تمہارے ممنون ہیں کہ تم نے ہماری بہت مدد کی۔تمہارا رویہ ہمیشہ ذہن پر نقش رہے گا۔میں پہلی ملاقات والے رویّہ پر ابھی تک شرمندہ ہوں اور ایک بار پھر معذرت چاہتا ہوں۔‘‘ ہاشم نے کہا۔

 ’’فیس تو پوچھ لو۔‘‘ انالی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’جی نہیں !دنیا کی کوئی کرنسی بے لوث جذبے کا معاوضہ نہیں بن سکتی۔ڈاکٹر اقبال کا احسان ہمیشہ یاد رہے گا، بس یہی ان کی فیس ہے۔‘‘ ہاشم نے متشکرانہ انداز میں کہا۔

 ’’تمہارے الفاظ واقعی بہت بڑی فیس ہیں اور یہ فیس دوبارہ ادا کی گئی ہے۔ مجھے تمہاری معمولی سی مدد کرنے کے عوض فطرت کی طرف سے جو بیش بہا فیس ادا کی گئی ہے وہ میری خدمات اور ظرف سے بہت زیادہ ہے۔۔ بہر حال اللہ حافظ۔‘‘

 ’’فطرت کی طرف سے تمہیں کیا فیس ادا کی گئی ہے؟‘‘ ہاشم نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’وہ اس شرط پر دی گئی ہے کہ بتا تے ہی چھین لی جائے گی۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’ او۔کے۔ اللہ حافظ اینڈ ٹیک کیئر۔ ‘‘ ہاشم نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔

 ’’ایک منٹ!تم نے ہم سے بہت سے سوالات پوچھے ہیں ، برا نہ مانو تو میں ایک آخری سوال پوچھ لوں ؟‘‘ سلیمہ نے سنجیدگی سے کہا۔

 ’’ضرور پوچھو، مگر آخری نہیں۔آخری اس وقت پوچھنا جب میں تمہارا رقص دیکھنے ترکی آؤں گا۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’کیا تم سچ مچ ڈاکٹر ہو؟‘‘ اس نے انتہائی سنجیدگی سے پوچھا۔

کمرے میں چند لمحات کے لیے خاموشی چھا گئی اور پھر ایک بلند آہنگ اجتماعی قہقہہ گونجا۔

 ’’یہ سوال تمہیں اپنے ٹخنے سے پوچھنا چاہیے۔کہتے ہیں رقاصہ کا دل اس کے ٹخنوں میں ہوتا ہے۔‘‘ میری طرف سے انالی نے جواب دیا۔

 ’’شکریہ! میرے پاس اس سے خوبصورت جواب نہیں تھا۔‘‘

 ’’ترکی آنے کا وعدہ یاد رکھنا ورنہ سلیمہ کی بہت انسلٹ ہو گی۔‘‘ انالی نے کہا۔

ٹمی کے علاوہ سب نے ہوٹل کے گیٹ تک میرا ساتھ دیا اور میں ٹیکسی میں بیٹھ گیا تو پر جوش انداز میں ہاتھ لہرا کر بائی بائی کہا۔

٭٭٭

یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں

ڈاکٹر طاہر حسین شاہد نے فون پر ہدایت کی تھی کہ سلاجیت خریدنے سے پہلے کسی مقامی آدمی سے مشورہ کر لیں کہ ایک نمبر سلاجیت کہاں سے ملتی ہے۔اُس کی ہدایت کے مطابق میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے دریافت کیا کہ سکردو میں اصلی سلاجیت کہاں ملتی ہے؟

 ’’اوئے ئے۔ تم سلاجیت کا کیا کرے گا؟‘‘ اس نے اوئے کو غیر معمولی طول دیا۔

 ’’ سلا جیت کا کیا کرتے ہیں ؟‘‘

 ’’ ام کیا کرتا اے اس کو چھوڑو۔ یہ بولو تم کیا کرے گا؟‘‘

 ’’ میرے دوست نے منگوائی ہے۔ ‘‘

 ’’ تم ڈاؤن سے آیا اے ناں ؟‘‘

 ’’جی! مگر آپ اتنی تفتیش کیوں کر رہے ہیں ؟ آپ صرف یہ بتا دیں کہ اصلی سلاجیت کہاں سے ملے گی۔‘‘

 ’’آپ فکر مت کرو۔ام آپ کو روندو والوں کی دکان پر لے جائے گا۔ سلاجیت روندو سے نکلتا اے ناں۔‘‘

 ’’اور آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟‘‘

 ’’ام بی روندو کا رہنے والا اے۔‘‘

سکردو میں قیام کے دوران میں نے محسوس کیا تھا کہ پنجاب کے برادری سسٹم کی طرز پر سکردو میں علاقائی سسٹم بہت طاقتور ہے۔ آپ ہنزہ کے باشندے سے کسی چیز کی خرید اری کے بارے میں مشورہ لیں تو وہ کسی ہنزہ والے کی دکان کی سفارش کرے گا اور کوشش کرے گا کہ آپ کو خود وہاں لے جائے۔ اسی طرح شگر والے، خپلو والے، ہوشے والے، نگر والے اور گلگت والے۔۔  سب کا ا پنا اپنا نیٹ ورک ہے۔

 ’’فی الحال آپ مجھے سیدھاگیشر بروم ہوٹل لے چلیں۔ سلاجیت خریدنے سے پہلے کچھ ضروری کام کرنے ہیں۔‘‘

 ’’ سلاجیت خریدنا بی بوت ضروری کام اے، آپ کا دوست نیا شادی تو نئیں بنائے گا؟‘‘

 ’’نئی شادی؟میرا خیال ہے وہ پرانی شادی میں بری طرح خرچ ہونے کی وجہ سے کمر درد میں مبتلا ہوا ہے۔نئی شادی کیسے بھگتے گا؟ مگرخان صاحب نئی شادی کا سلاجیت سے کیا تعلق؟‘‘ میں نے تجاہلِ عارفانہ کا مظاہرہ کیا۔

 ’’تم اتنا معصوم تو نئیں اے۔‘‘ خان صاحب نے ایک شریر مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’چلو یہ بتاؤ امارا عمر کتنا ہو گا۔‘‘

 ’’میں کیا کہہ سکتا ہوں ؟میرا خیال ہے ساٹھ سال تو ہو گی۔ ‘‘

 ’’ ابی ام اتنا بوڑھا بی نئیں اے۔امارا عمر پچاس اور آٹھ سال اے۔ابی ام نے پچھلے سال گھٹنے میں درد کی وجہ سے سلاجیت کھایا تھا اور تیسرا شادی بنایا تھا۔‘‘

 ’’مگر خان صاحب سلاجیت کا شادی سے تعلق کیا ہے ؟‘‘ میں نے اُسے کریدا۔

 ’’اوئے تم سمجھتا کیوں نئیں اے؟سلاجیت بوت گرم ہوتا اے ناں۔ام نے درد کے واسطے کھایا اور تیسرا شادی بنایا۔‘‘

 ’’درد کا کیا ہوا؟‘‘

 ’’درد بالکل ختم ہو گیا تھا۔درد کا تو سلاجیت دشمن اے ناں۔ام اس سال پھر سلاجیت کھائے گا۔ ‘‘ اس نے پر شوق لہجے میں کہا۔

 ’’اور چوتھا شادی بنائے گا؟‘‘ میں نے اُس کا فقرہ مکمل کیا۔

 ’’اب شادی نئیں بنائے گا۔درد کے لیے کھائے گا اور طاقت کے لیے بی کھائے گا۔‘‘

حکمت کی رو سے سلاجیت ہر قسم کے درد کے لیے تیر بہدف دوا ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین جنرل ٹانک ہے۔ سکردو اور خاص طور پر کھرمنگ کے پہاڑوں سے اعلیٰ درجے کا سلاجیت حاصل کیا جاتا ہے۔مقامی لوگ سلاجیت کو پہاڑوں کا پسینا یا پہاڑوں کا گوند سمجھتے ہیں۔عرفان کے پاس سلاجیت کے لیے ان گنت فرمائشیں تھیں اور وہ مکمل معلومات حاصل کر چکا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ مقصود جنرل سٹور یا حاجی مٹھائی والے کی دکان سے اسّی فیصد خالص سلاجیت ملے گی۔سو فیصد خالص چاہیے تو کچی سلاجیت خریدو اور اُسے پکا لو، مگر یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔

 ہم نے پکی پکائی تازہ سلاجیت خریدنے کے لیے حاجی مٹھائی والے کی دکان کا انتخاب کیا جو پرانے بازار میں تھی۔گرما گرم گلاب جامنوں کا تصور ذہن میں بٹھائے ہم حاجی مٹھائی والے کی دکان میں داخل ہوئے اور بوکھلا کر باہر نکل آئے۔ دکان کے سائن بورڈ پر ’’حاجی صاحب مٹھائی والے‘‘ لکھا دیکھ کر ہم کچھ کچھ حیرانی و پریشانی کی کیفیت میں دوبارہ دکان میں داخل ہوئے۔ حاجی مٹھائی والے کی مشہور و معروف دکان میں جانوروں کی ضروریاتِ زندگی مثلاً گھنٹیاں ، کنٹھیاں ، لگامیں ، رسیاں ، زنجیریں اور ’’ سلاجیت‘‘ تو بکثرت موجود تھیں ، مٹھائی کا نام و نشان تک نہ تھا۔

سکردو کی دوسری سوغات زہر مہرہ سے بنے ہوئے برتن ہیں۔

چوک عبّاس علمدار کے نزدیک شگر والوں کی دکان ان کا بڑا مرکز ہے۔زہر مہرہ سبز رنگ کا پتھر ہے اور اس کا شجرہ نصب پہلی پشت میں نیلم سے جا ملتا ہے۔ زہر مہرہ کی کانیں وادیِ شگر میں پائی جاتی ہیں۔سب سے اعلیٰ قسم کا زہر مہرہ دریائے شگر کی تہہ میں پائی جانے والی چٹانوں میں روپوش ہے جہاں سے جان جوکھوں میں ڈال کر اسے حاصل کیا جاتا ہے۔زہر مہرہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہر قسم کے زہر کو چوس لیتا ہے اور اس کے بنے ہوئے برتنوں میں کھانے پینے والا شخص زہر یلے کھانے کے مضر اثرات سے محفوظ رہتا ہے۔ بادشاہوں اور مہاراجاؤں کے برتن زہر مہرہ سے بنوائے جاتے تھے تاکہ وہ راج سنگھاسن پر للچائی ہوئی نظریں ڈالنے والے بھائیوں اور بیٹوں کی زہریلی سازشوں سے محفوظ رہ سکیں۔

 زہر مہرہ سے بنے ہوئے برتن کافی مہنگے تھے۔ ہم نے ایک ایک گلاس خریدا۔عرفان کو اپنے باس کی ’’فرمائش‘‘ پر پندرہ سو روپے قیمت کا کپ سیٹ خریدنا پڑا۔ برتنوں کے ساتھ دیے گئے معلوماتی بروشر کے مطابق زہر مہرہ کے برتن ہر طرح کے آسیبی اثرات سے چھٹکارا دلانے کا تیر بہدف نسخہ ہیں۔عرفان بروشر پڑھنے کے بعد ڈیڑھ ہزار کا غم بھول کر خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا کیونکہ اسے اپنے باس کے آسیبی اثرات سے چھٹکارے کی امید پیدا ہو گئی تھی۔

 سکردو میں مقامی قیمتی پتھروں کی دکانیں قدم قدم پر نظر آتی ہیں اور غیر ملکی سیّاحوں کے لیے بہت زیادہ باعثِ  کشش ہیں۔ بلتستان کی وادیاں قیمتی پتھروں کا ایک بڑا ذخیرہ اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں جن میں نیلم، زرکون،  فیروزہ، زمرد، لعل اور عقیق وغیرہ شامل ہیں۔ وادیِ شگر کا قصبہ الچوڑی اس سلسلے میں خاص شہرت رکھتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہاں ملنے والے پتھر سلسلہ ہائے ایلپس میں ملنے والے پتھروں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ الچوڑی سے ملنے والے ایک زمرّد نے عالمی شہرت حاصل کی تھی۔یہ تقریباً ایک فٹ لمبا، چھ انچ چوڑا اور اڑھائی انچ موٹا پتھر تھا جس کی قیمت کا اندازہ سوا لاکھ روپے کے لگ بھگ لگایا گیا تھا۔اس سائز کا زمرّد تقریباً نایاب ہے۔

عرفان تحفے تحائف تقسیم کرنے کا کچھ زیادہ ہی شائق تھا۔ اُس نے کافی مقدار میں چھوٹے چھوٹے پتھر خریدے تو مجھے بھی بہ شرم و حضوری دو تین پیس خریدنے پڑے۔

سکردو کی مارکیٹ چائنا میں بنے ہوئے الیکٹرانک کے سامان سے بھری ہوئی ہے  لیکن یہاں خریداری کرنے کے لیے ماہر سوداباز ہونا اشد ضروری ہے۔عرفان ایک ڈی۔ وی۔ ڈی پلیئر خریدنا چاہتا تھا۔ایک دکان پر اُس کی قیمت بیالیس سو روپے بتائی گئی۔ عرفان اُسے اڑھائی ہزار میں خریدنے پر تیّار تھا لیکن دکاندار اٹھائیس سو سے کم پر رضامند نہ ہوا تو یہ سودا نہ ہو سکا۔ مین بازار سے ہٹ کر ایک اور مارکیٹ سے یہی پلیئر ہم نے بائیس سو روپے میں خریدا جو عرفان کے بقول فیصل آباد کی نسبت آدھی قیمت تھی۔ سکردو کی مارکیٹ مجھے گلگت اور بشام کی نسبت سستی لگی کیونکہ یہاں خریداروں کا  ہجوم نہیں تھا اور ورائٹی بہت زیادہ تھی۔

شاپنگ کے بعد ہم ہوسٹل آ گئے۔شاہ صاحب نے قرار داد پیش کی کہ آج وہ ہمارے اعزاز میں سیاچن ہوٹل میں الوداعی ڈنر کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں۔ اس قرارداد کو سو فیصد ارکان نے ویٹو کر دیا اور شاہ صاحب پر تعزیراتِ ہوسٹل کی پتا نہیں کون سی دفعہ کے تحت فرد جرم عائد کر دی کہ انھوں نے ہمیں صرف اپنا مہمان سمجھا۔ یہ مسترد شدہ قراردادِ ڈنر اس ترمیم کے بعد بھاری اکثریت سے منظور ہو گئی کہ بجٹ شاہ صاحب کی سدا دیوالیہ جیب کے بجائے مشترکہ میس اکاؤنٹ سے جاری کیا جائے گا۔

 ’’’ڈاکٹر صاحب آج سکردو کی سڑکوں پر چراغاں ہو گا !باہر چلیں ؟ ڈنر ذرا دیر سے کریں گے۔‘‘ محبوب نے کہا۔

 ’’چراغاں ؟۔۔ وہ کس خوش میں ؟‘‘

 ’’آج حضرت علیؓ کا یوم پیدائش ہے۔‘‘

 ’’ پھر تو ضرور چلنا چاہیے۔‘‘

 ہوسٹل سے باہر نکلے تو میں نے ایک حیران کن منظر دیکھا۔چراغاں سے روشن تھے کوہ و دمن۔ سڑک کے کنارے حد نظر تک آگ کے الاؤ روشن تھے اور سکردو کی مشرقی پہاڑیوں پر چراغوں کی مدد سے یا علی لکھا گیا تھا۔ پورا سکردو آگ دے دے آگ لے لے آگ سے ہے زندگی جواں کی تصویر بنا ہوا تھا۔زمانۂ قدیم میں خوشی کے موقع پرمٹی کے چراغوں میں دیسی گھی میں ڈوبی ہوئی روئی کی بتیاں جلا کر چراغاں کیا جاتا تھا۔ سکردو کی سڑکوں پر لکڑی کے کچرے یا پھٹے پرانے کپڑوں کے چیتھڑوں پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی تھی اور پورا سکردو مٹی کے تیل کی مہک اور گہرے سیاہ دھوئیں کے بادلوں سے ’’معطر و مزیّن‘‘ تھا۔

اے۔ پی۔ ایس کے مکین صورت حال سے آگاہ تھے اس لیے خراماں خراماں شہری آبادی سے باہر نکل آئے جہاں فضا صاف تھی۔ ہم ایک سہہ راہے پر پھسکڑی مار کر بیٹھ گئے۔ محبوب نے انکشاف کیاکہ وہ ہمارے اعزاز میں الوداعی محفلِ موسیقی منعقد کرنا چاہتا ہے  اس لیے چادر کے پیچھے پیانو چھپا لایا ہے۔زوردار تالیاں بجا کراس آئیڈیے کو سراہا گیا۔

محبوب نے پیانو پرکئی دھنیں بجائیں اور داد سمیٹی۔آخر میں الوداعی تھیم سانگ کے طور پر ’’یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں۔  سن جا دل کی داستاں ‘‘ کی دھن پیش کی اور حقیقت یہ ہے کہ سماں باندھ دیا۔ پیانو خاموش ہوا تو سب نے اپنے ہاتھوں سے محبوب کی پشت پر تالیاں بجا کر اسے داد دی۔

 ’’ویری گڈ، یہ دھن کہاں چھپا رکھی تھی؟ ‘‘ میں نے تحسین آمیز انداز میں پوچھا۔

 ’’اس کی میں نے مشق کی تھی، لیکن آپ نے مجھے بہت مایوس کیا۔‘‘

 ’’ تالیاں نہ بجا کر؟ زیادہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔تم اپنی پشت کو ذرا تازہ دم کر لو،  میں دھن کے سحر سے نکلتے ہی دونوں ہاتھ کھول کر داد دوں گا۔‘‘

 ’’داد کی بات نہیں۔میرا خیال تھا کہ دھن کے پس منظر میں سکردو کی چاندنی رات آپ کو متاثر کرے گی۔ آپ نے اس پس منظر کو لفٹ ہی نہیں کرائی۔‘‘

میں اسے کیا بتاتا کہ یہ رات کتنی اور کس انداز میں ذہن پر نقش ہو چکی ہے۔شاید یہ کوئی نفسیاتی کمپلیکس تھا کہ میں ست پڑا جھیل کے کنارے سکردو میں پونم کی جلوہ آفرینی سے کیے گئے راز و نیاز کا حسن کسی قسم کے تبصروں سے آلودہ کرنے کے موڈ میں نہیں تھا اور اپنے جذبات و احساسات شیئر کرنا نہیں چاہتا تھا۔

میری خاموشی کو اعتراف جرم سمجھا گیا۔

 ’’ ڈاکٹر صاحب پس منظر سے محبوب کی مراد ہے کہ سکردو کی چاندنی رات  بلتستان کے علاوہ تبت اور لداخ میں بھی مشہور ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’اچھا؟۔۔ میں نے اس بارے میں کچھ نہیں سنا۔۔  دیکھ بہت کچھ لیا ہے۔ ‘‘

 ’’تاروں بھری یہ رات سکردو کی وجہ تسمیہ ہے۔ ‘‘ محبوب نے انکشاف کیا

 ’’میں نے سنا تھا کہ سکردو سکندر آباد یا سکندر پور کی بگڑی ہوئی شکل ہے جسے سکندر اعظم نے بسایا تھا۔تاروں بھری رات کا اس نام سے کیا تعلق ہے؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’ یہ صرف سکردو کے لوگ کہتے ہیں۔تاریخی حقائق سے یہ بات پوری طرح ثابت ہو چکی ہے کہ سکندر اعظم یہاں آیا ہی نہیں تھا۔ ‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

 ’’پھر؟ ‘‘ میں نے سوالیہ انداز سے پوچھا۔

 ’’ سکردو اصل میں ’’سکر۔ما۔مدو ‘‘ یا ’’سکر۔ما۔دو ‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کا مطلب تاروں بھری رات کی وادی ہے، اور اس وقت چاند تاروں کا جھرمٹ دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کتنا با معنی نام ہے۔ ‘‘

 ’’اگر روایت درست ہے تو سکردو سے زیادہ بامعنی نام کوئی اور ہے ہی نہیں۔ یہ نام اسے کس با ذوق شخص نے دیا تھا؟ ‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’ بدھ بھکشوؤں نے جو یہاں بدھ کی زیارت گاہیں دیکھنے اور عبادت کرنے آتے تھے۔‘‘

 ’’ یہاں بدھ مت سے تعلق رکھنے والی صرف ایک زیارت گاہ ہے۔ اُس کی اتنی اہمیت؟‘‘

 ’’ اب ایک ہے۔ سکردو اور گردو نواح میں بدھ کے بہت سے اقوال اور دوسری راک کارونگ موجود تھیں۔یہ تمام پتھر علی شیر خاں انچن نے سکردو کی دفاعی دیوار یا ڈیم اور دوسری تعمیرات کے لیے استعمال کر لیے۔ ‘‘

 ’’شاہ جی آپ کو یہ عجیب و غریب معلومات کہاں سے حاصل ہوتی ہیں۔ ‘‘ محبوب نے مشکوک لہجے میں پوچھا۔

 ’’کتابوں سے۔‘‘ شاہ صاحب نے سادگی سے کہا۔ ’’اب چلیں ؟‘‘

  ہم پیدل ہی سیاچن ہوٹل کی جانب روانہ ہو گئے۔

سیاچن بظاہر کچھ ’’اینویں ‘‘ سا ہوٹل ہے لیکن اس کے کھانے انتہائی لذیذ تھے، بشر ط یہ کہ ان کا موازنہ محبت علی کے مسالائے محبت سے تیار کردہ کھانوں سے نہ کیا جائے۔

٭٭٭

الف لیلائے سکردو

داستانِ سکردو سے دامن بچا کر سکردو سے واپسی بے وفائی کے مترادف ہو گی۔ سکردو کی کئی وجوہات تسمیہ بتائی جاتی ہیں او ر سب اسم با مسمیٰ ہیں۔سکر دو مندرجہ ذیل الفاظ میں سے کسی ایک کی بگڑی ہوئی شکل ہو سکتا ہے:

سکندر آباد یا سکندر پور                     سکندر اعظم سے منسوب

سکر۔ما۔دو                      تاروں بھر رات کی وادی

سکر۔ دو                          مقپون خاندان کے جد امجد سکر گیا لپو کی وادی

 ساگر۔دو             دو سمندروں یعنی دریائے سندھ اور شگر کی وادی

میں نے سرزمینِ سکردو پر قدم رکھا تو مجھے سخت حیرانی ہو ئی کہ وہ کون سر پھر ے تھے جنہوں نے پانچ صدی قبل مسیح میں سکردو آ کر مستقل رہائش اختیار کی جب کرہ ارض کا میدانی اور زرخیز حصہ بڑی حد تک غیر آباد تھا؟

سکردو آج بھی آسانی سے قابلِ رسائی نہیں۔ بس کے سفر میں مسافر کے چودہ طبق روشن ہوتے ہیں تو فضائی سفر جہاز کے پندرہ طبق روشن کر تا ہے۔ ہفتوں تک جہاز کو سکردو آنے، اور آ جائے تو لینڈ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ جب مجھے علم ہوا کہ  بلتستان سرسبز چراگاہوں کا دیس ہے اور اس کے کئی دریاؤں میں سونے کے ذرات پائے جاتے ہیں۔  لوگ سونے اور چارے کی تلاش میں یہاں آئے اور یہیں کے ہو رہے، تو حیرانی ختم ہو گئی۔

 بلتستان کا اوّلین ذکر چین کے قدیم جنگ ناموں میں ملتا ہے۔ مارکوپولو نے اسکا ذکر ’’پولو‘‘ یا ’’پولا ‘‘ کے نام سے کیا ہے جو عربی میں ’’بولور‘‘ اور فارسی میں ’’بلاورستا ن ‘‘ بنا۔ چینی اور تبتی تاریخ دان اسے ’’ بلتی یُل ‘‘ کہتے ہیں جو  بلتستان بن گیا۔ مغل مورخین  بلتستان کو ’’تبت خورد‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ڈوگرہ حکمران سکردو کو صرف ’’کردو‘‘ کہتے تھے۔

بلتستان میں انتقالِ آبادی تیسری یا چوتھی صدی قبل مسیح میں تین سمتوں سے ہوا۔

(۱)  تبت سے براستہ گلگت دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ (عالم پل تا سکردو روڈ) سفر کر کے آنے والے لوگ شگری،  کچورہ، چُندا۔ اور بیانا مقپو میں آباد ہوئے۔

(۲)  ہنزہ اور نگر سے آنے والے ہسپر لا ء اور اسکولی ہوتے ہوئے شگر پہنچے۔

(۳)  جموں و کشمیر سے زوجی لاء عبور کر کے آنے والے خپلو میں آباد ہوئے۔

بلتی یُل کی آبادی میں اضافے کے بعد طاقت کا کھیل ناگزیر تھا تاکہ فاتح اور مفتوح کا فیصلہ ہو سکے۔ اس کھیل میں تبت نژاد ’’گیالپو سکر‘‘ کا خاندان فاتح رہا اور  بلتستان کے حقوق حکمرانی حاصل کر کے شگری کو پایہ تخت قرار دیا۔ایک طویل دور حکومت کے بعد سکرگیالپو کے وارثوں پر ایسا وقت آیا کہ راجہ کے خاندان میں ایک خاتون مس شگری کے سوا کوئی وارثِ تخت نہ رہا۔ راجہ کے بارہ وزرا میں سے ہر ایک شگری کی شادی اپنے بیٹے سے کرنے کا خواہش مند تھا تاکہ اس کا بیٹا مستقبل کا راجہ قرار پائے۔ان حالات میں دیوتا مقپون یا شہزادہ ابراہیم مصر سے یا ایران سے آن ٹپکا اور سوئمبر جیت کرمس شگری کی سلطنتِ دل کے ساتھ ساتھ حکومت شگری کے تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ وزیر زادے شگری کے رخِ زیبا کے بجائے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور عظیم مقپون دور کا آغاز ہوا۔

سیاسی لحاظ سے تاریخ سکردو کو چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

(۱) قبل مسیح تا مقپون دور بلتستان کا دورِ جاہلیت کہلاتا ہے۔ اس دور کے بارے میں تاریخ خاموش ہے اور درست حالات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔اس دور میں  بلتستان کے باسی پہلے ’’ پون چھو‘‘ اور بعد میں ’’بدھ مت ‘‘ نامی مذہب پر عمل پیرا رہے۔

(۲)  مقپون دور ساڑھے پانچ صدیوں (۱۲۹۰ء  تا  ۱۸۴۰؁) پر محیط اور عروج و زوال کے شاہکار افسانوں کا مجموعہ ہے۔ پہلا راجہ مقپون ابراہیم اور آخری احمد شاہ تھا۔ پندرھواں راجہ علی شیر خان انچن ’’ مقپون اعظم‘‘ اور لوک داستانوں کے سدا بہار ہیرو کے دیومالائی مقام پر فائز ہے۔ علی شیر خان کے جا نشینوں میں شیر شاہ، علی شاہ اور سلطان مراد جیسے افسانوی کردار ابھرتے رہے، لیکن اقتدار کا سورج نصف النہار کا سفر طے کرنے کے بعد خاندانی چپقلش کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر مائل بہ زوال رہا اور  ۱۸۴۰ء میں ڈوگرہ سردار زور آور سنگھ کے قدموں میں غروب ہو گیا۔ زورآور سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈالنے والا راجہ احمد شاہ مقپون سکردو، خپلو، شگر، کریس، کھرمنگ، طولتی، پرکوتہ، روندو اور استور کا مطلق العنان اور طاقتور حکمران تھا، لیکن اس کی حکومت خاندانی اور درباری سازشوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔

  احمد شاہ مقپون کا بڑا بیٹا اور ولی عہد شاہ مراد نو عمری میں فوت ہو گیا۔شاہ مراد کے بعد اس کا بھائی محمد شاہ ولی عہدی کا امیدوار تھا۔احمد شاہ کی پہلی بیوی یعنی محمد شاہ کی والدہ فوت ہو چکی تھی اور دوسری بیوی دولت خاتون جو شگر کے راجہ کی بہن تھی، امرائے سلطنت پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر چکی تھی۔دولت خاتون نے محمد شاہ کے بجائے اپنے بیٹے محمد علی خان کے لیے فرمانِ  ولی عہدی حاصل کیا اور محمد شاہ کو وادیِ استور کا والی مقرر کر دیا۔ محمد شاہ اس فیصلے کو قدموں تلے روندتا ہوا لاہور پہنچا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ سے مدد کا طالب ہوا۔رنجیت سنگھ کشمیر اور  بلتستان کے معاملات جموں کے ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ کے سپرد کر چکا تھا۔اس نے محمد شاہ کو سفارشی خط دے کر جموں بھیج دیا۔ گلاب سنگھ نے محمد شاہ کو اپنے کمانڈر زورآور سنگھ کے حوالے کر دیا۔جس نے محمد شاہ کی مدد کی آڑ میں سکردو کی تسخیر مکمل کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔

احمد شاہ مقپون کی بیٹی کھرمنگ کے راجہ علی شیر کی بیوی تھی۔ علی شیر نے احمد شاہ کی بیٹی کی مرضی کے خلاف دوسری شادی کی تو احمد شاہ نے کھرمنگ پر حملہ کر دیا۔ علی شیر مقابلے کی تاب نہ لا کر فرار ہو گیا اور جموں کے راجہ گلاب سنگھ سے پناہ طلب کی۔احمد شاہ کی بیٹی نے مداخلت کی اور اپنے باپ سے اپنے شوہر کے لیے معافی نامہ حاصل کر لیا۔ علی شیر کو اس کی حکومت مل گئی، لیکن احمد شاہ علی شیر کا اعتماد کھو بیٹھا۔علی شیر نے وزیر زورآور سنگھ کی درپردہ مدد کر کے احمد شاہ مقپون کی حکومت کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

 خپلوکے راجہ مہدی علی خان کا احمد شاہ مقپون کے بھائی اور پرکوتہ کے راجہ غلام شاہ سے سرحدی تنازعہ چل رہا تھا۔ احمد شاہ نے اپنی فوج غلام شاہ کے بیٹے ابدال خان کی زیر قیادت خپلو پر حملے کے لیے روانہ کی۔مہدی علی خان نے اس فوج کو شکست دی اور ابدال خان کو گرفتار کر لیا۔احمد شاہ نے اپنے بھتیجے کی رہائی کے لیے اس کے وزن کے برابر طلائی سکّوں کی پیشکش کی لیکن مہدی خان نے اس پیشکش کو ٹھکرا کر ابدال خان کے سر میں میخ گاڑ دی اور وہ تڑپ تڑپ کر ہلاک ہو گیا۔احمد شاہ نے اس کا انتقام لینے کے لیے خود حملہ کیا۔ مہدی کو شکست فاش دے کر گرفتار کیا اور سکردو لے آیا جہاں اسے ایک تنگ و تاریک کنویں میں قید کر دیا گیا۔ ہموزن گندم اور نمک کی ایک روٹی روزانہ اس کی خوراک ٹھہری۔ مہدی علی خان چند ہفتوں میں اللہ کو پیارا ہو گیا۔احمد شاہ نے خپلو کو تسخیر کرنے کے بعد وہاں اپنا کھرپون (قلعہ دار یا گورنر) مقرر کر دیا لیکن خپلو کے عوام کے دل نہ جیت سکا۔ وزیر زور آور سنگھ نے سکردو پر حملہ کیا تو خپلو کے امراء بمع اپنی سپاہ زور آور سنگھ کے ہمرکاب تھے۔

ڈوگرہ حکومت نے ایک مرتبہ سکردو پر حملہ کیا تھا اور احمد شاہ مقپون نے انہیں عبرتناک شکست دی تھی۔مہاراجہ گلاب سنگھ احمد شاہ مقپون کی طاقت سے خائف تھا لیکن وہ حالات پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے تھا۔

احمد شاہ مقپون کے بیٹے محمد شاہ، امرائے خپلو اور کھرمنگ کے راجہ علی شیر نے گلاب سنگھ کے وزیر زورآور سنگھ کو اپنی حمایت کا یقین دلایا تو اس نے سکردو پر حملے کا فیصلہ کر لیا۔ کھرمنگ کے راجہ علی شیر نے بہ ظاہر اپنی فوج سکردو کے دفاع کے لیے اپنے سسراحمد شاہ مقپون کو سونپ دی، لیکن بہ باطن سپاہیوں کو ہدایت کر دی گئی کہ ڈوگرہ فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے بجائے اس کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ کھرمنگ کے سپاہی مار آستین ثابت ہوئے اور ڈوگرہ فوج کو کھرپوچو کے دروازے پر لا کھڑا کیا۔احمد شاہ مقپون کھر پوچو میں قلعہ بند ہو گیا۔ محاصرہ طول پکڑ گیا تو کھرمنگ کے راجہ نے آخری وار کیا اور احمد شاہ کو یقین دلایا کہ زورآور سنگھ کا مقصد سکردو پر قبضہ نہیں بلکہ تبت پر حملے کے لیے احمد شاہ کی حمایت حاصل کرنا اور ڈوگرہ فوج کی رسد کے راستے کو محفوظ بنانا ہے۔ احمد شاہ زور آور سنگھ کے سلام کو حاضر ہو جائے تو اس کی حکومت برقرار رہے گی۔احمد شاہ اس چال میں آ گیا اور خود کو زور آور سنگھ کے حضور پیش کر دیا۔وزیر زور آور سنگھ نے اسے قید کیا، اس کے خزانے لوٹے اور سکردو کا انتظام و انصرام مکمل کرنے کے بعد اسے اپنے ہمراہ لداخ لے گیا۔۔ اور سکردو ڈوگرہ راج کے سائے تلے آ گیا۔

(۳)  ڈوگرہ راج  ۱۸۴۰ء  تا  ۱۹۴۸ء قائم رہا جسے  بلتستان کی تاریخ کا تاریک ترین دور سمجھا جاتا ہے۔ٍڈوگرہ راج کو اہل  بلتستان بیگار راج بھی کہتے ہیں کیونکہ ڈوگرہ راج میں  بلتستان کے کسی بھی باشندے کو کسی بھی وقت کسی بھی قسم کی بیگار کے لیے پکڑ لیا جاتا تھا اور ان کی حیثیت غلاموں سے بد تر تھی۔بے شمار ٹیکس لاگو کر کے  بلتستان کے باشندوں کو ظلم کی چکی میں اتناپیسا گیا کہ وہ دو وقت کے نانِ جویں کے لیے ترسنے لگے۔

برِّ صغیر کی آزادی کے وقت  بلتستان کشمیر کے راجہ ہری سنگھ کے زیرِ تسلط تھا۔

 ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تو گلگت سکاؤٹس اور افوجِ کشمیر کے مسلمان افسروں اور سپاہیوں نے علمِ بغاوت بلند کر دیا اور ڈوگرہ گورنر بریگیڈیئر  گھنسارا رام کو قید کر کے گلگت پر آزادی کا پرچم لہرا یا۔اس کے بعد انہوں نے سری نگر اور لداخ فتح کرنے کا عزم کیا، لیکن سکردو میں تعینات ڈوگرہ فوج کے لیفٹیننٹ کرنل شیر جنگ تھاپا نے شدید مزاحمت کی۔ ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا ولن ہوتا ہے۔ کرنل شیر جنگ تھاپا  بلتستان کی جنگ آزادی کا ولن تھا، ڈوگرہ مؤرخین اسے سکردو کا ہیرو کہتے ہیں۔

 آزاد افواج نے فروری کے آخر میں سکردو کا محاصرہ کیا۔ وہ سکردو پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد کارگل، لداخ اور سری نگر کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتے تھے لیکن شیر جنگ تھاپا دو سو پچاس سپاہیوں کی مٹھی بھر نفری اور جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن گیا اور چھ ماہ تک شدید مزاحمت کی۔

ستائیس جولائی کو آزاد افواج کو دو توپوں کی کمک موصول ہوئی جو پرزہ پرزہ کر کے مقامی رضاکاروں کے ذریعے بونجی سے سکردو لائی گئیں تھیں۔ سکردو میں انہیں دوبارہ جوڑا گیا اور گیارہ اگست کو ان توپوں نے آگ اگلنا شروع کی۔ کرنل تھاپا سکردو کی چھاؤنی میں محصور تھا اور خوراک کی شدید کمی کے باوجود جدید اسلحے کے بل بوتے پر محاصرے کو طول دے رہا تھا لیکن توپوں نے بمباری شروع کی تو اس کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔

کرنل شیر جنگ تھاپا نے کیپٹن گنگا سنگھ، کیپٹن پڑھدال سنگھ، لیفٹیننٹ اجیت سنگھ، چند جونیئر کمیشنڈ افسروں اور اکاون سپاہیوں کے ہمراہ چودہ اگست  ۱۹۴۸ء کی صبح آزاد افواج کے ایریا کمانڈر مطیع الملک کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ ڈوگرہ فوج کے تقریباً دو سو سپاہی رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جن میں سے ایک سو تیس کو گرفتار کر لیا گیا اور باقی دیوسائی کے راستے لداخ پہنچ گئے۔

کرنل شیر جنگ تھاپا مبینہ طور پر پاکستان کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کا ذاتی دوست تھا اور اس کی سفارش پر بھارت پہنچے میں کامیاب ہوا۔ اگر کرنل تھاپا چھ ماہ تک غیر معمولی مزاحمت کا مظاہرہ نہ کرتا تو آزاد افواج کارگل،  لداخ اور سری نگر پر کئی ماہ پہلے قبضہ کر کے اپنا اقتدار مضبوط کر چکی ہوتیں اور بھارتی افواج کو کشمیر اور لداخ میں چڑیوں کے چگے ہوئے کھیت ملتے۔کرنل شیر جنگ تھاپا کے عزم و ہمت کے اعتراف میں بھارت کی حکومت نے اسے بھارت کا دوسرا بڑا فوجی اعزاز ’’مہا ویر چکر‘‘ عطا کیا۔

آزاد افواج نے چھبیس اگست ۱۹۴۸ء کو سکردو کے پولو گراؤنڈ میں اس جگہ پاکستان کا پرچم لہرایا جہاں اب مینار آزادی سر بلند ہے۔ سکردو کی فضا رات گئے تک پاکستان زندہ باد اور قائد اعظم زندہ باد کے نعروں سے گونجتی رہی۔

حکومت پاکستان نے بلتستان کی جنگ آزادی کے ہیروؤں۔ کرنل پاشا (ٍہلالِ جرات)، کرنل حسن خان (ستارہ جرات)، میجر احسان علی (ستارہ جرأت) اور لیفٹیننٹ شاہ خان (ستارہ جرات  اور ستارہ امتیاز ملٹری )کو مختلف اعزازات سے نوازا جنہوں نے اسلحے اور تربیت یافتہ افراد کی شدید کمی کے با وجود اپنے سے کئی گنا بڑی اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ڈوگرہ فوج کو شکست دی اور شمالی علاقہ جات کو ڈوگرہ حکومت کے خونی پنجوں سے آزاد کرایا۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے مجاہدین کو کسی قسم کی کوئی مدد نہیں ملی اور وہ چھاپا مار کاروائیوں کے دوران ڈوگرہ فوج سے چھینے گئے ہتھیاروں سے گزارا کرتے رہے۔

(۴) پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں شامل  بلتستان کو انتظامی طور پر سکردو اور گھانچے میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ضلع سکردو پانچ تحصیلوں ، سکردو، شگر، روندو، کھرمنگ اور گلتری پر مشتمل ہے۔ ضلع گھانچے میں خپلو اور مشہ بروم نامی تحصیلیں شامل ہیں۔آج کا  بلتستان تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور سکردو میں جدید شہری زندگی کی تمام سہولیات میسر ہیں۔

 مذہبی لحاظ سے  بلتستان کئی ادوار سے گزرا۔ ’’پون چھو‘‘ یا ’’بون چھو‘‘ یہاں کا قدیم ترین مذہب تھا۔یہ لوگ مظاہر قدرت اور بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ پون چھو کے بعد یہاں بدھ مت کا دور دورہ رہا۔ بوخا کے بیٹے ’’شیر شاہ‘‘ نے اسلام قبول کیا تو بقیہ مذاہب نے  بلتستان سے اپنا بوریا بستر گول کر لیا اور اب  بلتستان کے سو فیصد باشندے پاسدارانِ اسلام ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ بلتستان میں ساٹھ فیصد سے زائد لوگ شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں ، تقریباً پچیس فیصد نور بخشی ہیں ، پھر اہل حدیث ہیں ا ور سب سے کم تعداد میں سنی ہیں۔ سکردو شہر کی موجودہ آبادی تیس ہزار اور دیہی آبادی پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے۔

 ڈوگرہ دور کے تنگ و تاریک بازار کو نظر انداز کر دیا جائے تو سکردو کھلی ڈلی سڑکوں کا چھوٹا سا، صاف ستھرا اور سرسبز و شاداب شہر ہے۔ سکردو کے لوگ پھولوں سے پیار کرتے ہیں اور سکردو کے گھروں میں پائیں باغ کی روایت عام ہونے کی وجہ سے ہر گھر گل و گلزار نظر آتا ہے۔ سکردو میں پھل دار درختوں کی بہتات ہے، خوبانی و سیب کی چوری کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔

سکردو سطح سمندر سے دو ہزار ایک سو ستانوے میٹر بلند ہے۔سردیوں میں سکردو کا درجہ حرارت منفی دس ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔گرمیوں کا اوسط درجہ حرارت سولہ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔اوسط بارش سترہ ملی میٹر سالانہ ریکارڈ کی گئی ہے۔سکردو کے مشرق میں کارگل،  مغرب میں گلگت، شمال میں چین کا صوبہ ژن ژیانگ اور جنوب میں مقبوضہ کشمیر ہے۔

سکردو کوہ نوردوں اور کوہ پیماؤں کی جنت کہلاتا ہے کیونکہ یہ آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلند چار چوٹیوں ، چھ ہزار میٹر سے بلند تقریباً ایک سو پچاس چوٹیوں اور پانچ ہزار میٹر سے بلند بے شمار چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس منفرد اعزاز میں دنیا کا کوئی اور شہر اس کا ثانی نہیں۔سکردو دنیا کے بلند ترین چٹانی سلسلے ’’ ٹرانگو ٹاورز‘‘۔  قطبین کے بعد طویل ترین گلیشیئرز ’’بیافو، ہسپر اور سنو لیک‘‘ جیسے خوبصورت اور منفرد ٹریکس کا گیٹ وے ہے جوہر سال مئی سے اکتوبر تک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔سکردو کو فلک بوس چوٹیوں ، عمیق ترین گھاٹیوں ، جنت نظیر وادیوں ، نیلگوں جھیلوں ،  جھیلگوں ندی نالوں ، بہتے جھرنوں ، گنگناتے آبشاروں ، صحرائی ریگزاروں ، بہشت زار باغوں اور گھنے جنگلوں کا شہر ہونے کے علاوہ۔۔  سینما گھروں اور خواتین سے ’’مکمل پاک‘‘ اسلامی بازار رکھنے کا شرف حاصل ہے۔ یہ تمام خصوصیات پاکستان کے کسی اور شہر میں نہیں پائی جاتیں۔

سکردو سے آگے جہاں اور بھی ہیں ، لیکن سکردو میں داستانوں کا لامحدود جہانِ حیرت آباد ہے جس کی ’’داستان نوردی ‘‘ کیے بغیرالف لیلائے سکردو کی ورق گردانی کا دعویٰ باطل محض ہے۔ ثقافتی، تاریخی اور لوک ورثے کی رنگینیوں اور نیرنگیوں سے لیس سکردو پاکستان کے کسی بھی شہر کی ہمسری کا  دعویٰ کر سکتا ہے۔ اس دعوے کو جھٹلانا زیادتی ہو گی۔

اگر یقیں نہیں تو اُٹھائیے تاریخ

ہمارا نام بصد آب و تاب لکھا ہے

 سکردو سے واپسی کا سفر شروع کرتے وقت بے پایاں اداسی کی کیفیت طاری تھی۔ ہوسٹل کے تقریباً تمام مکین ہمیں خدا حافظ کہنے بس سٹینڈ پر آئے تھے۔ الوداعی مصافحے کے وقت محسن شاہ صاحب نے ایک قیمتی نگینہ تحفتاً پیش کرتے ہوئے کہا:

 ’’ ڈاکٹر صاحب لگتا ہے آپ سے محبت ہو گئی ہے، اسی لیے بچھڑنے کا احساس بقیہ مہمانوں سے کچھ جدا ہے۔‘‘

اور میں زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجانے کے باوجود آنکھوں میں اتری ہوئی نمی چھپانے میں بری طرح ناکام ہو گیا۔

٭٭٭

لینڈ سلائیڈنگ دیکھ لو کیا گل کتر گئی

ہماری بس بارہ بجے سکردو سے روانہ ہوئی اور وادیِ روند و کی مہیب گھایٹوں کو خاموش نظروں سے تکتے ہوئے ہم تقریباً چھ بجے جگلوٹ پہنچ گئے جہاں شاہراہِ قراقرم کے افواہ ساز نشریاتی چینل پر:

 تھی خبر گرم کہ مسافر کے اڑیں گے پرزے

شاہراہ قراقرم کا دس کلو میٹر کا ٹکڑا لینڈ سلائیڈنگ کی بھینٹ چڑھنے کی وجہ سے گاڑیوں کی آمدورفت مکمل طور پربند تھی۔

 صبح سے گلگت اور سکردو سے آنے والی بسیں اور ویگنیں جگلوٹ میں جمع تھیں اور جگلوٹ گاڑیوں کے گھنے جنگل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ مسافر کسمپرسی کے عالم میں ادھر ادھر سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن مصدقہ اطلاعات کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ہماری بس کے کنڈیکٹر نے اپنے بھائی بندوں سے رابطے کے بعد ہمیں باقاعدہ بریفنگ دی:

 ’’ادرکا لوگ بولتا اے کہ رائے کوٹ اور گونر فارم کے درمیان بارہ کلو میٹر لمبا سڑک لینڈ سلائیڈ میں پھنس گیا اے۔ صبح سے سارا ٹریفک بند اے۔سڑک کا مرمت میں بوت دن لگے گا۔ام سکردو واپس جاتا اے۔ جو صاب امارے ساتھ جانا چاہتا اے وہ گاڑی میں بیٹھے۔ جو لوگ ادر اترنا چاہتا اے وہ اپنا پنڈی کا کرایہ واپس لے سکتا اے۔ ‘‘

 ’’ ہم اتنے دن یہاں انتظار کیسے کر سکتے ہیں ؟‘‘ کسی نے پوچھا۔

 ’’سرا س میں ام بے قصور اے، ابی راستہ ختم ہو گیا اے تو گاڑی آگے کیسے جائے گا؟‘‘

 ’’ٹھیک ہے، ہم صورت حال کا جائزہ لے لیں پھر فیصلہ کرتے ہیں۔ ‘‘ عر فا ن نے کہا۔

 ’’جلدی کرو سر!ام نے واپس جانا اے۔‘‘ کنڈیکٹر نے بے رخی سے کہا۔

ہم نے بس سے برآمد ہو کر صورتِ حال کا جائزہ لیا تو علم ہوا کہ افواہیں حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں۔ ایک شخص لینڈ سلائیڈنگ کے علاقے کو پیدل عبور کر کے آیا تھا اور لوگ اس کے گرد جمگھٹا لگائے اس سے لینڈسلائیڈنگ کے علاقے کی تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ بیچارہ اپنی روداد سنا سنا کر تنگ آ چکا تھا اور۔ تمہیں انکوائریاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔  کی جیتی جاگتی تفسیر بنا ہوا تھا۔

 ’’بوت خطر ناک لینڈ سلائیڈ اے، پورا سڑک دریا میں گر گیا اے۔ ‘‘ اس نے کہا۔

 ’’کتنی دور تک روڈ بلاک ہے ؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’ٹیک طرح تو پتہ نئی اے، آٹھ دس میل تو ہو گا۔ ‘‘

 ’’ آپ نے کتنی دیر میں کراس کیا؟‘‘

 ’’ ام کو چار گھنٹا لگا۔ ‘‘

 ’’مرمت تو شروع ہو چکی ہو گی ناں ؟آپ کو کوئی بلڈوزر وغیرہ نظر نہیں آیا؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔اس کے ذہن میں وہ لینڈ سلائیڈ تھی جس سے ہمیں چلاس میں واسطہ پڑا تھا اور جس سے نبٹنے کے لیے ایف۔ڈبلیو۔او نے رات کی تاریکی میں آپریشن شروع کر دیا تھا۔

 ’’ مرمت کس کا ہو گا ؟سڑک تو ختم ہو گیا اے۔ سارا سڑک نیا بنے گا۔‘‘

 ’’آپ کے خیال میں سڑک کھلنے میں کتنا وقت لگے گا؟‘‘

 ’’امارے خیال میں تو کافی دن لگے گا، آگے اللہ کو مالوم۔‘‘

 ’’ پیدل راستہ کیسا ہے؟‘‘

 ’’کسی جگہ ٹیک اے کسی جگہ بوت خراب اے۔ ابی بی اوپر سے پتھر آتا اے۔ آپ ابی چلو تو مغرب کے بعد ادر پہنچے گا اور پھر چار پانچ گھنٹہ میں اس کو کراس کرے گا۔ام تو دن میں بی بوت خوار ہوا۔ رات کو پتا نئی کیا بنتا اے۔‘‘

 ان معلومات کے بعد متاثرین کی بس کانفرنس منعقد ہوئی۔

 تفصیلی تعارف کے بعد معلوم ہوا کہ بس میں ایک گروپ فوجی جوانوں کا تھا جو کوروفون چیک پوسٹ پر تعینات تھے اور چھٹیاں گزارنے اپنے اپنے گھر جا رہے تھے۔ ان کے لیے ایک رات جگلوٹ میں ضائع کرنا ناقابل تلافی ازدواجی خسارہ تھا۔

ایک گروپ لاہور کے ٹریکرز کا تھا جو بیافو ہسپرگلیشئرز کا ٹریک ادھورا چھوڑ کر واپس جا رہا تھا۔

 اوکاڑہ کے کچھ طالب علم سکردو کی سیر کے لیے آئے تھے لیکن شاہراہ قراقرم کے مخدوش حالات کے پیش نظر صرف دو دن کے قیام کے بعد واپس جا رہے تھے۔

 عرفان نے تجویز پیش کی کہ وقت ضائع کرنے کے بجائے راتوں رات لینڈ سلائیڈ نگ کا علاقہ پیدل عبور کر لیا جائے۔

فوجی اور ٹریکرز گروپ کی طرف سے اس تجویز کو زبردست پذیرائی ملی اور تقریباً تیس مسافروں نے فیصلہ کیا کہ روڈ بلاک پیدل عبور کیا جائے۔وقت کے بارے میں جزوی اختلاف تھا، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ رات کی تاریکی میں خطرہ مول لینے کے بجائے اگلے دن علی الصبح یہ پنگا لیا جائے۔

 ’’ بہتر یہی ہے کہ ہم یہ راستہ رات کو عبور کریں۔‘‘ لاہوری گروپ کے لیڈر نے کہا۔

 ’’ تاریکی میں راستہ نظر نہیں آئے گا اور خطرہ زیادہ ہو گا۔‘‘ کسی نے اعتراض کیا۔

 ’’تاریکی کا مسئلہ ٹارچز سے حل ہو سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سورج کی گرمی سے چٹانیں پھیلتی ہیں اور پتھر اپنی جگہ چھوڑنے کے سبب سے لینڈ سلائیڈ نگ کا باعث بنتے ہیں۔ رات کے وقت لینڈ سلائیڈنگ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘‘

ایک صاحب کو اس تکنیکی نکتے کی صحت پر بہت سے شکوک و شبہات تھے لیکن اکثریت اس سے متفق ہو گئی تو جمہوری اصولوں کی روشنی میں سفر جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ کنڈیکٹر سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مسافروں کو روڈ بلاک تک چھوڑ آئے۔بس کا عملہ اس عجیب و غریب مطالبے پر دنگ رہ گیا۔وہ لوگ سکردو واپس جانے کے لیے سواریوں کا بندوبست کر چکے تھے۔ ڈرائیور نے بہت آنا کانی کی اور مختلف بہانے بنائے، لیکن ٹکٹ کی پشت پر تحریر شدہ شرائط اور فوجی حضرات کے خطرناک لہجے نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ مسافروں کو روڈ بلاک کے آغاز تک پہنچا دے۔

جگلوٹ اور رائے کوٹ کی سرحدی چیک پوسٹ پر ہمیں روک لیا گیا۔ ایک سپاہی بس میں داخل ہوا اور اعلان کیا:۔۔ ’’ لینڈ  سلائیڈنگ کے علاقے میں بسوں کے داخلے پر پابندی ہے اس لیے مسافروں سے التماس ہے کہ دم دبا کر جگلوٹ واپس چلے جائیں۔‘‘

بس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر نے متشکرانہ نظروں سے سپاہی کو اور فاخرانہ نظروں سے مسافروں کو دیکھا اور خاموش نگاہوں سے پیغام دیا:

اک ستم اور میری جاں ، ابھی جاں باقی ہے؟

دل میں اب تک تیرے رکنے کا گماں باقی ہے

 ’’ ہمیں یہ اطلاع جگلوٹ میں مل چکی ہے اورہم لینڈ سلائیڈنگ کا علاقہ پیدل عبور کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ ایک فوجی جوان نے جواب دیا جسے ہم جگلوٹ میں بلا مقابلہ امیر کارواں منتخب کر چکے تھے۔

 ’’لیکن اس وقت؟‘‘ سپاہی حیران ہوا۔

 ’’اس وقت کیا پرابلم ہے؟‘‘

 ’’یہ بہت خطر ناک ہے میں آپ کو اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ‘‘

 ’’ تم سے اجازت مانگ کون رہا ہے؟‘‘ امیر کارواں نے درشت لہجے میں کہا۔ ’’ہم روڈ بلاک تک بس میں جانا چاہتے ہیں۔ روڈ بلاک کا علاقہ پیدل عبور کریں گے جس کے لیے تمہاری اجازت کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

 سپاہی کچھ دیر غضبناک نظروں سے فوجی جوان کو گھورتا رہا پھر نیچے اتر گیا۔ چند منٹ بعد سپاہیوں کا پورا وفد بس میں داخل ہوا۔اس کے انچارج نے مسافروں کی جانب توجہ دیے بغیر ڈرائیور کو حکم دیا کہ وہ یو ٹرن لے اور جگلوٹ تک پیچھے مڑ کر نہ دیکھے ورنہ اس کی کھال میں بھُس وغیرہ بھر دیا جائے گا۔

 ’’ٹکٹ کے پیچھے لکھی ہوئی شرائط کے مطابق بس سروس ہمیں روڈ بلاک تک پہنچانے کی پابند ہے، کسی قسم کی غیر قانونی حرکت ڈرائیور کو بہت مہنگی پڑے گی۔ہمارا تعلق پاکستان آرمی سے ہے اور ہم آگے جانا چاہتے ہیں۔‘‘ امیر کارواں نے ٹھوس لہجے میں کہا۔

 ’’لیکن لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے شاہراہِ قراقرم بلاک ہو چکی ہے اور۔۔۔‘‘

 ’’ بس لینڈ سلائیڈ کے علاقے میں داخل نہیں ہو گی۔ڈرائیور ہمیں بلاک تک پہنچا کر واپس آ جائے۔آگے ہم پیدل جائیں گے۔‘‘ امیر نے اس کی بات کاٹ دی۔

 ’’او یارا صبح کے وقت جانا۔رات کو آگے کیسے جائے گا ؟اندھیرے میں اوپر سے پتھر آئے گا، اس کو تم کیسے بتائے گا کہ تم آرمی مین ہے ؟وہ کنپٹی پر لگے گا اور تم ضرورت سے زیادہ آگے چلا جائے گا۔ ‘‘ انچارج نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

اس تبصرے پر امیر کارواں کو سخت مرچی لگی اور وہ جلال میں آ گئے۔

 ’’مسافروں کو بد دعائیں دینے کا اختیار تمہیں کس الو کے پٹھے نے دیا ہے ؟ہم چلّاس پہنچ کر میجر صاحب کے سامنے پیش ہوں گے۔پتہ نہیں کس نسل کے لوگ چوکیوں پر بیٹھے ہیں ؟ہماری جیب میں اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ہوٹل والوں کو دے سکیں جنہوں نے ہوٹل کا کرایہ دوگنا کر دیا ہے۔ تم لوگ مدد کرنے کے عادی نہیں ہو تو منہ بند رکھو۔ آج ہماری کنپٹی پر پتھر لگے گا تو کل انشاء اللہ تمہاری گاڑی دریائے سندھ میں غرق ہو جائے گی۔‘‘

صورتحال انتہائی نازک رخ اختیار کر سکتی تھی لیکن امیر کارواں کے جارحانہ تیوروں نے انچارج کو دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔

 ’’دیکھو ہم آپ کی بھلائی چاہتا ہے۔پتھر والی بات آپ کو سمجھانے کے لیے بولا تھا، اس کا غلط مطلب مت نکالو۔‘‘

 ’’میں دودھ پیتا بچہ نہیں ہوں۔ میری ڈیوٹی کوروفون پوسٹ پر ہے اور روزانہ لینڈسلائیڈنگ سے واسطہ پڑتا ہے۔ دوسرے لوگ بھی ٹریکنگ کے لیے آئے ہیں اور ان حالات کے عادی ہیں۔ تمہارا فرض ہے کہ ہماری مدد کرو لیکن تم فضول بحث کر کے ہمارے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہو۔ جگلوٹ کے ہوٹل مالکان نے تمہیں کمیشن کا لالچ تو نہیں دے دیا؟‘‘

چوکی کا عملہ مجبور ہو گیا اور ہمیں آگے جانے کی اجازت دے دی گئی۔ ان کی ایک گاڑی ہماری بس کے آگے آگے روانہ ہوئی۔ شاہراہ قراقرم پر رات کے وقت مسافر بسوں کو رینجرز کی گاڑی تحفظ دیتی ہے اور غالباً اسی زحمت سے بچنے کے لیے وہ ہمیں آگے جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔

ہم ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد تقریباً نوبجے اس جگہ پہنچے جہاں سے لینڈ سلائیڈنگ کے علاقے کا آغاز ہوتا تھا۔یہاں پندرہ بیس ٹرک کھڑے تھے لیکن کوئی بس یا ویگن نظر نہیں آ رہی تھی۔اس جگہ بھی رینجرز کا ایک دستہ تعینات تھا جس کا انچارج سواریوں سے بھری ہوئی بس کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔اس نے ہمارے ساتھ آنے والے سپاہیوں سے صورتِ حال معلوم کی اور بس کے ڈرائیور پر چڑھائی کر دی :

 ’’تم پاگل تو نہیں ہے؟تمہیں رائے کوٹ پل پر بتا یا گیا تھا کہ روڈ بلاک ہے،  پھر گاڑی ادھر کس لیے لایا ہے؟ یہ بے چارہ مسافر کھلے آسمان کے نیچے رات کیسے گزارے گا؟ ان کو جگلوٹ واپس پہنچاؤ۔‘‘

 ’’ہم تو جگلوٹ سے سکردو واپس جاتا تھا سر جی، مگر بے چارہ مسافر بولتا ہے کہ واپس نئیں جائے گا۔اسی وقت روڈ بلاک کو پیدل کراس کرے گا۔‘‘ کنڈیکٹر نے اپنا پرانا رونا رویا۔

 ’’کون سا مسافر بولتا ہے؟‘‘ اس  نے اُسی انداز میں پوچھا۔

 ’’یہ سب کہتا ہے ناں۔ ‘‘ کنڈیکٹر نے بس کی طرف اشارہ کیا۔

 اتنی دیر میں سب لوگ بس سے اتر کر تفتیش کرنے والے کر گرد گھیرا ڈال چکے تھے۔

 ’’ ہم سب کہتے ہیں۔‘‘ سب نے ہم آہنگ ہو کر نعرہ بلند کیا۔

 ’’ لیکن اس وقت یہ مناسب نہیں ہے۔‘‘ وہ اس متحدہ بس محاذ کی یکجہتی دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ ’’آپ لوگ مہربانی کر کے  جگلوٹ واپس جائیں۔  صبح آ جانا۔ ‘‘

 ’’سر ہم پہلے ہی بہت بحث کر چکے ہیں اور واپس جانے کے لیے نہیں آئے۔ ہم روڈ بلاک سے پیدل گزرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘ امیر کارواں نے کہا۔

 ’’ آپ پہلے ان لوگوں سے مل لیں جو اسے عبور کر کے آئے ہیں۔ ‘‘ اس نے کہا۔

 ’’اس وقت بھی کچھ لوگ آئے ہیں ؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’ یہ لوگ ابھی ابھی پہنچے ہیں۔ ‘‘ اس نے تین اشخاص کی طرف اشارہ کیا۔

 ہم نے آنے والوں کا جائزہ لیا تو دل میں اتھل پتھل ہونے لگی۔

چہرہ بھی راہرو کا تھا کیچڑ سے داغ داغ

شلوار بھی غریب کی کچھ کچھ اُتر گئی

کیا خوفناک نقش بنے تھے قمیض پر

لینڈ سلائیڈنگ دیکھ لو کیا گل کتر گئی

 ’’کیوں بھئی آپ کتنی دیر میں یہاں پہنچے ہو؟‘‘ انچارج نے اُن سے پوچھا۔

 ’’بوت ٹیم لگ گیا اے۔ام اُدر سے چار بجے چلا تھا۔‘‘ اُن میں سے ایک نے فریاد کناں لہجے میں جواب دیا۔

 ’’ٹائم کو چھوڑیں ، یہ بتائیں راستہ کیسا ہے؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’بوت زیادہ خراب اے ناں۔‘‘ اُس نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔

 ’’آپ لوگ بھی تو آئے ہیں ؟‘‘

 ’’امارا بوت بڑا مجبوری تھا نا ں۔‘‘

 ’’ہماری بھی مجبوری ہے، شوقیہ ٹریکنگ نہیں کر رہے۔‘‘ عرفان نے کہا۔

 ’’آپ کے پاس روشنی کا کوئی بندوبست ہے ؟‘‘ آنے والوں میں سے دوسرے شخص نے سوال کیا۔

 اس وقت تک بہت ساری ٹارچز جیبوں اور تھیلوں سے باہر آ چکی تھیں۔ ٹارچز جلا کراس کے سوال کا عملی جواب دیا گیا تو وہاں اچھا خاصا اجالا ہو گیا۔

 ’’ اتنی روشنی میں آپ کوشش کر سکتا ہے۔۔  مگر راستہ بہت خراب ہے۔‘‘

 ان لوگوں کی خستہ حالی دیکھ کر رائے عامہ دوبارہ تقسیم ہو گئی اور دبی دبی سرگوشیاں ہو نے لگیں کہ رات کے وقت خطرہ مول لینے کی کیا ضرورت ہے؟ صبح صادق کے وقت سفر شروع کیا جائے تو طلوع آفتاب سے پہلے لینڈ سلائیڈنگ کا علاقہ عبور کیا جا سکتا ہے۔

میں رینجرز کے انچارج  کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اسے ایک طرف لے گیا۔

 ’’سر ہم ہمت کر کے یہاں تک آ گئے ہیں تو آپ ہماری حوصلہ شکنی نہ کریں۔ طیش میں آنے کے بجائے ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشورہ دیں کہ ہم روڈ بلاک کے علاقے سے کیسے گزریں ؟‘‘

 ’’تم مجھے کچھ کچھ پڑھے لکھے لگتے ہو؟ ‘‘ اس نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔

 ’’جی جناب! کچھ کچھ پڑھا لکھا تو ہوں۔‘‘ میں نے اعترافِ جرم کیا۔

 ’’تم نے اس وقت یہاں آ کر پڑھے لکھوں والا کام تو نہیں کیا۔ ‘‘ اُس نے تڑخی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’ جو لوگ جگلوٹ میں رک گئے ہیں اُن میں سے اکثر مقامی ہوں گے اور اس راستے سے اچھی طرح واقف ہوں گے، کیا وہ سب پاگل ہیں ؟‘‘

میں کہنا چاہتا تھا کہ ایسا کوئی شخص جگلوٹ میں نہیں رکا لیکن میں خاموش رہا۔

 ’’ اس قسم کی لینڈ سلائیڈنگ گزشتہ دس سال سے نہیں ہوئی۔ ۲۰۰۵ء کے زلزلے نے صورت حال بدل دی ہے۔ تم پیدل جانا چاہتے ہو تو صبح کے وقت جاؤ تاکہ اوپر سے آنے والے پتھر اور زمین میں پڑنے والی دراڑیں نظر آ جائیں۔میں حوصلہ افزائی کے لیے بھی رات کے وقت اس احمقانہ مہم جوئی کا مشورہ نہیں دے سکتا۔‘‘

 میں اس کے دلائل سے قائل ہو گیا۔ ہم صبح نماز کے بعد سفر شروع کر کے طلوعِ آفتاب سے پہلے لینڈ سلائیڈنگ کا علاقہ عبور کر سکتے تھے۔ میں نے ابھی عرفان سے بات شروع کی ہی تھی کہ فوجی حضرات اور لاہوری گروپ نے اپنا اپنا سامان اٹھا کر آگے جانے والے راستے پر قدم رکھ دیے۔ ہم نے بڑھے ہوئے قدموں کو ٹوکنے کی بد شگونی کرنا مناسب نہ سمجھ کر رک سیک اٹھائے اور اللہ کا نام لے کران کے ساتھ شامل ہو گئے۔ انچارج نے جب دیکھا کہ ہم چکنے گھڑے ثابت ہوئے ہیں تو وہ ہمارے پاس آیا۔

 ’’آپ لوگ ایک غلط فیصلے پر تُلے ہوئے ہیں۔میری دُعا ہے کہ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ یہ بات اچھی طرح ذہین نشین کر لیں کہ آپ نے پہاڑی کے ساتھ ساتھ چلنا ہے اور دریا سے دور رہنا ہے۔دریا کا کنارہ کسی وقت بھی دریا میں گر سکتا ہے۔ ‘‘

ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اُس نے ہاتھ ملا کر ہمیں خدا حافظ کہا۔پونے دس بجے ہم لینڈ سلائیڈنگ کے علاقے میں داخل ہوئے۔چند سیکنڈ کے لیے سب رک گئے اور سامنے پھیلے ہوئے اندھیرے اور سناٹے کو گھورنے لگے۔

 ’’نعرہ تکبیر۔‘‘ اچانک کسی نے نعرہ بلند کیا۔

 ’’اللہ اکبر۔‘‘ تقریباً سب نے نہایت جوش و خروش سے جواب دیا۔

اس نعرے نے ہمیں بے پناہ حوصلے سے نوازا اور خدشات سے بے نیاز کر دیا۔

 ٹارچز کی روشنی میں سفر کا با ضابطہ آغاز ہوا۔

 ہر نئے قدم پر ہماری خوداعتمادی میں اضافہ ہوتا گیا۔ شروع میں سب لوگ قرآنی آیات، درود شریف اور دعاؤں وغیرہ کا ورد کر رہے تھے۔ ماحول سے بے تکلفی ہوئی تو دعاؤں میں ہلکی پھلکی گفتگو اور فقرہ بازی کی آمیزش ہونے لگی۔

سفر کے شروع میں راستہ بہت زیادہ خراب نہیں تھا۔ شاہراہِ قراقرم تقریباً غائب تھی اور ہم پہاڑی سے بغل گیر ہو کر چل رہے تھے، اوپر سے بھی کبھی پتھر لڑھکنے کی آواز آتی تھی لیکن نیچے تشریف لانے والے شریف النفس پتھر ہماری نظروں سے اوجھل رہے اور ہمارے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس ننھے منے سفر نے اس نظریے کو تقویت دی کہ مشترکہ مسئلہ متاثرین میں فطری اتحاد کا باعث بنتا ہے۔ ایک معمر شخص کے پاؤں میں تکلیف تھی، اس کا بوجھ آپس میں تقسیم کر لیا گیا اوراس کے پاس صرف ایک ناشتہ دان رہ گیا۔تیس رکنی گروپ کے پاس موجود اشیائے خورد و نوش بشمول  بسکٹ، پھل، چاکلیٹ،  ٹافیاں اور پانی مشترکہ اثاثہ جات قرار پائے اور فراخدلی سے ایک دوسرے کی خدمت میں پیش کیے جاتے رہے۔

امیر کاروان نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد قدرے کشادہ اور بہ ظاہر محفوظ جگہ پرکھانے کے وقفے کا اعلان کیا۔

 ایک چھوٹے سے قطعۂ زمین کو ڈائننگ ہال کی شکل دے دی گئی۔ رک سیکز اور بیگز نے ڈائننگ ٹیبل کا کام دیا جبکہ راستے کے پتھرڈائننگ چیئرز بن گئے۔کئی دور اندیش لوگ جگلوٹ سے کھانا پیک کروا لائے تھے۔ تندوری روٹیاں ٹھنڈی ہو کر اکڑ گئی تھیں لیکن بھوکی نظروں کے نشانے پر تھیں۔ ہمارے پاس اچار،  جام اور ڈبل روٹی تھی۔ افواج پاکستان کے سپاہیوں کے پاس سے پراٹھوں کا اچھا خاصا سٹاک بر آمد ہوا۔ایک مقامی شخص کے پاس ہتھیلی سے زیادہ موٹی اور عام روٹی سے دوگنا قطر کی روغنی روٹی تھی جس کے لیے باقاعدہ چھین جھپٹ ہوئی۔روغن سب کو لگ گیا، روٹی کسی کسی کو ملی۔کھانا وافر مقدار میں نہیں تھا لیکن گزارا ٹھیک ٹھاک ہو گیا۔ ایسا ڈنر ایک بار دیکھا ہے دوسری بار دیکھنے کی ہوس نہیں ہے۔اس کے باوجود ہم سب متفق تھے کہ یہ ایک شاندار، منفرد اور یادگار ڈنر ہے جو عرصہ دراز تک یادوں کی بارات میں شہنائی کی دھنیں بکھیرتا رہے گا۔

کھانے کے وقفے کے بعد سفر دوبارہ شروع ہوا۔

 چند منٹ بعد ہمیں روشنی کی جھلک نظر آئی تو ہم سمجھے کہ یہ روشنی کسی آبادی کی ہے اور ہم نے اندازے سے پہلے لینڈسلائیڈ کا علاقہ عبور کر لیا ہے۔ روشنی کئی روشنیوں میں تقسیم ہوئی اور متحرک ہو کر ہماری طرف بڑھنے لگی تو یہ خوش فہمی دور ہو گئی اور ہمیں اندازہ ہوا کہ سامنے سے کوئی گروپ آ رہا ہے۔ دس بارہ افراد جن میں تین خواتین شامل تھیں ایک جنازہ لے کر آرہے تھے۔ جنازے کے احترام میں ہم رک گئے اور اس گروپ کے لوگوں سے سلام دعا ہوئی۔

 ’’آپ لوگ یہاں کتنی دیر میں پہنچے ہیں اور راستہ کیسا ہے۔‘‘ ایک بزرگ نے پوچھا۔

 ’’راستہ بہت زیادہ خطرناک نہیں ہے اور ہم تقریباً دو گھنٹے میں یہاں پہنچے ہیں۔‘‘ عرفان نے جواب دیا۔

 ’’او مائی گاڈ، ہمارا خیال تھا کہ سفر ختم ہو چکا ہے۔ہم اڑھائی گھنٹے سے مسلسل چل رہے ہیں اور ہمیں بہت زیادہ دشوار گزار راستے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘‘

 ’’جو راستہ خواتین کراس کر آئی ہیں وہ کتنا دشوار گزار ہو گا؟ ‘‘ عرفان نے پوچھا۔

بزرگ نے کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا اور آگے روانہ ہو گئے۔ ہمیں کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ بزرگ کی بات درست تھی۔ دریا اور پہاڑی ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے اور ان کے درمیان فاصلے مٹ چکے تھے۔ایک مقام پر ایک منہ زور پہاڑی نالے نے ہمارا راستہ روکا جسے عبور کرنا ناممکن لگتا تھا کیونکہ اس کا پاٹ کافی چوڑا تھا۔ ہم کسی مناسب مقام کی تلاش میں نالے کے کنارے کے ساتھ ساتھ پہاڑی پر چڑھ گئے اور بالآخر ایک ایسی جگہ سے جہاں اس کا پاٹ تنگ تھا اور قدم جمانے کے لیے پتھر نظر آ رہے تھے اسے عبور کر لیا، لیکن وہاں سے نیچے اترنے کا راستہ ؟اس راستے کی تلاش مجھے محبوب کی تازہ ترین محبوبہ کی کمر کی تلاش سے مماثل لگی۔۔ کہاں ہے؟ کس طرف کو ہے؟کدھر ہے؟  لینڈ سلائیڈنگ کے پتھر ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر تھے اور پتھروں کے درمیان گر جانے کی صورت میں ؟۔۔ اللہ مافی!

میں نے پاؤں جمانے کے لیے پتھروں کا تعین کر کے نیچے اترنا شروع کیا۔مجھے محسوس ہوا کہ میرا  رک سیک پتھروں سے ٹکرا کر میرا بیلنس خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔میں رک گیا اور اپنے رک سیک کے بیلٹس ایڈ جسٹ کرنے لگا تاکہ یہ متوازن رہے۔ ایک اوکاڑوی نوجوان نے میری دشواری بھانپ لی۔

 ’’اپنا بیگ مجھے دے دیں اور ایزی فیل کریں۔‘‘ اس نے ہاتھ بڑھایا۔

 ’’مگر آپ کے پاس پہلے ہی بہت بڑا بیگ ہے۔ ‘‘ میں نے اُس کا بیگ دیکھتے ہوئے کہا۔

 ’’اس میں ٹوٹنے والی کوئی چیز نہیں۔‘‘

 ’’ میرے بیگ میں بھی ٹوٹنے والی کوئی چیز نہیں۔ ‘‘ میں نے کہا۔

 ’’پھر ہم گدھے کیوں بنے ہوئے ہیں ؟‘‘ اُس نے اپنا بیگ کاندھے سے اُتارتے ہوئے کہا۔

 ’’تم خود کب بنے ہو ؟تمہیں رب نے بنایا ہے، اور ٹھیک ہی بنایا ہے۔‘‘ اس کے ساتھی نے نیچے سے ہانک لگائی۔

  ’’ہم گدھے کب بنے ہوئے ہیں ؟ ‘‘ میں نے احمقانہ انداز میں وضاحت چاہی۔

 ’’میرا مطلب ہے۔‘‘ اُس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر اپنے ساتھیوں سے درخواست کی کہ وہ ذرا دور دور ہٹ جائیں۔

 ’’اوئے راکٹ کی اولاد۔ چھلانگ لگائے گا کیا؟‘‘ اُس کے ساتھی نے پوچھا۔

 ’’میں اپنا بیگ نیچے پھینکنے لگا ہوں۔‘‘ اس نے اپنا بیگ جھلاتے ہوئے کہا۔

 ’’یہ کیا بکواس ہے؟اگر یہ ہمارے اوپر آ گرا پھر؟‘‘

 ’’اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ یہاں سے دال فے عین ہو جاؤ۔‘‘

 ’’مگر اس حماقت کی وجہ ؟‘‘ اس کے ساتھی نے غصّے سے پوچھا۔

 ’’ میں کھوتا نہیں ہوں۔‘‘ اس نے خود کو یقین دلانے والے لہجے میں کہا۔

 ’’کون گدھے کا بچہ کہتا ہے کہ تم کھوتے ہو؟تم کھوتے دے پتر ہو۔‘‘

 ’’ اب تم اپنی بک بک بند کر و اور رن وے خالی کر دو۔میرا بیگ لینڈ کرنے والا ہے، میں صرف تین تک گنوں گا۔‘‘

 اس نے باقاعدہ گنتی شروع کی تو اس کے ساتھی تیزی سے آگے بڑھ گئے۔وہ انداز ہ لگا چکا تھا کہ بیگ کے دریا میں پہنچ جانے کا خطرہ بہت کم ہے۔ اس نے تین کہنے کے فوراً بعد اپنا بیگ نیچے پھینک دیا۔اس کے بعد میرا رک سیک۔۔ اور اس بھیڑ چال میں مزید دو چار لوگ شامل ہوئے تو نیچے آٹھ دس بیگ جمع ہو گئے۔ ہمیں چند منٹوں کے لیے اس بوجھ سے نجات حاصل کر کے بہت خوشی ہوئی اور ہم خاصی ترنگ میں نیچے اترے۔ نیچے اترتے ہی کئی چہرے لٹک گئے۔ دو تین بیگ نازک مزاج ثابت ہوئے تھے اور توہین کے شدید احساس نے ان کا جگر چھلنی کر دیا تھا۔میرا چہرہ لٹکنے سے محفوظ رہا تو یہ میرے رک سیک کا کمال تھا۔

نالا کراس کرنے کے بعد پانی کا وقفہ کیا گیا اور بیس منٹ بعد سفر دوبارہ شروع ہوا۔ آگے راستہ کافی بہتر تھا لیکن یہاں ہم نے لینڈ سلائیڈنگ کا پہلا مظاہرہ دیکھا۔ چٹان اور دریا کے درمیان ایک دراڑ تھی جو دریا کے ساتھ والے حصے کو اپنے ساتھ لے کر ایک خوفناک گڑگڑاہٹ کے ساتھ دریا برد ہو گئی۔مجھ سمیت کئی لوگ خوفزدہ ہوئے اور چٹان پر چڑھ گئے۔اس سلائیڈنگ کے نتیجے میں گرد و غبار کا طوفان اُٹھا اور ارد گرد کے ماحول پر چھا گیا۔ اس آنکھوں دیکھے واقعہ نے ہمیں چٹان کے ساتھ ساتھ چلنے والے مشورے کی افادیت کا احساس دلایا جس پر سب لوگ سختی سے عمل کر رہے تھے۔ہم میں سے کوئی بلا ارادہ دریا کے قریب چلا جاتا تو اسے فوراً ٹوک دیا جاتا تھا۔اس احتیاط کے خوشگوار نتائج ہماری نظروں کے سامنے تھے۔

 باقی راستہ طے کرنے میں مزید ایک گھنٹہ لگا اور دو بج کر پینتیس منٹ پر ہم لینڈ سلائیڈنگ کا علاقہ عبور کر چکے تھے۔اس راستے کے اختتام پر کئی ہائی ایس ویگنیں صف آرا تھیں جنہوں نے ہیڈ لائٹس جلا بجھا کر اور پریشر ہارن بجا کر ہمیں سلامی دی۔ ڈرائیورز نے بتایا کہ ان گاڑیوں کی یہاں موجودگی رائے کوٹ پل والی چوکی کے رینجرز کی مہربانی کا نتیجہ تھی۔انہوں نے وائرلیس پر چلاس رینجرز کو اطلاع دی کہ ایک سرپھرا گروپ لینڈ سلائیڈنگ کے علاقے میں داخل ہو گیا ہے اور بچ بچا گیا تو ڈیڑھ دو بجے تک لینڈ سلائیڈنگ کا علاقہ عبور کر چکا ہو گا۔ اس گروپ کے لیے لینڈ سلائیڈنگ کے علاقے کے اختتام پر ٹرانسپورٹ کا بندوبست کر دیا جائے تو مناسب ہو گا۔چلاس رینجرز نے یہ اطلاع ویگن اڈے تک پہنچا دی اور ڈرائیورز سواریاں ملنے کی امید میں یہاں آ گئے۔اس غیر متوقع عنایت پر ہمارے دل سے سپاہیوں کے لیے تمام گلے شکوے غائب ہو گئے اور ان کی جگہ تشکّر اور ممنونیت کے جذبات نے لے لی۔

 شاہراہ قراقرم کے بارے میں کسی نے لکھا ہے کہ یہ کبھی مکمل نہیں ہو گی کیونکہ:

 اس کی تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

 آٹھ سو ٹن بارود کی مدد سے کیے گئے دو کروڑ ستّر لاکھ انتہائی طاقتور دھماکے بے شمار چٹانوں کا سینہ شق کر چکے ہیں جو عرصہ دراز تک لینڈ سلائیڈنگ کا باعث بنتی رہیں گی۔ جب تک شاہراہ قراقرم رواں دواں رہے گی اس کی تعمیر کا عمل جاری  و ساری رہے گا۔

شاہراہِ قراقرم بارہ اگست  ۲۰۰۶ء کو بلاک ہوئی تھی۔یہ سولہ اگست کو چھوٹی گاڑیوں کے لیے اور انیس اگست کو بسوں کے لیے کھولی گئی۔ہم نے بارہ اور تیرہ اگست کی درمیانی رات یہ روڈ بلاک عبور کیا۔ ہمیں سکردو سے روانہ ہونے میں ایک دن کی تاخیر ہو جاتی یا شاہراہ قراقرم بلاک ہونے کی اطلاع سکردو میں مل جاتی توہم ایک ہفتے کے لیے سکردو میں قید ہو جاتے، کیونکہ شاہراہِ قراقرم بند ہو تو سکردو سے پنڈی جانے والی بسیں بھی بند ہو جاتی ہیں۔

پھر کیا ہوتا؟۔۔  اللہ مافی!

میں سکردو سے بے لوث محبت اور انمول خلوص جیسی بیش قیمت سوغاتیں لیے وہاڑی پہنچا۔یہ تحفہ ان دوستوں کی عنایت تھی جو چند روز پہلے میرے لیے مکمل اجنبی تھے۔

اک ذرا سے فون پر برسوں کے یارانے ملے

اور خوشا قسمت کہ سارے دوست ہی پیارے ملے

٭٭٭

 

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

3.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

Syed Salahuddin
Salahuddinڈاکٹر صاحب اس کتاب کے دو پیجز پر آپ نے فرقہ نوربخشی کا بھی ذکر کیا ہے ، لیکن سمجھ نہیں آئی آپ نے وہ مواد کہاں سے لیا ؟؟ یا کس نے آپکو نوربخشیت کے بارے میں بریف کیا ؟ وضاحت چاہتا ہوں۔۔۔۔ !

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔