وطن سے الفت ہے جرم اپنا یہ جرم تا زندگی کریں گے
ہے کس کی گردن پہ خونِ ناحق یہ فیصلہ لوگ ہی کریں گے
وطن پرستوں کو کہہ رہے ہو وطن کا دشمن ڈرو خدا سے
جو آج ہم سے خطا ہوئی ہے ، یہی خطا کل سبھی کریں گے
وظیفہ خواروں سے کیا شکایت ہزار دیں شاہ کو دعائیں
مدار جن کا ہے نوکری پر وہ لوگ تو نوکری کریں گے
لئے جو پھرتے ہیں تمغہء فن ، رہے ہیں جو ہم خیالِ رہزن
ہماری آزادیوں کے دشمن ہماری کیا رہبری کریں گے
نہ خوفِ زنداں نہ دار کا غم یہ بات دہرارہے ہیں پھر ہم
کہ آخری فیصلہ وہ ہوگا جو دس کروڑ آدمی کریں گے
ستم گروں کے ستم کے آگے نہ سر جھکا ہے نہ جھک سکے گا
شعارِ صادق پہ ہم ہیں نازاں جو کہہ رہے ہیں وہی کریں گے
یہ لوگ کچھ کم نگاہ جن کو سمجھ رہے ہیں کہ ناسمجھ ہیں
یہی زمانے میں عام جالب شعور کی روشنی کریں گے