01:57    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

حبیب جالب کی شاعری

921 0 0 00

اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں ​

تخت پر بیٹھے ہیں یوں جیسے اترنا ہی نہیں ​

یوں مہ و انجم کی وادی میں اڑے پھرتے ہیں وہ​

خاک کے ذروں پہ جیسے پاؤں دھرنا ہی نہیں ​

ان کا دعویٰ ہے کہ سورج بھی انہی کا ہے غلام​

شب جو ہم پر آئی ہے اس کو گزرنا ہی نہیں​

کیا علاج اس کا اگر ہو مدعا ان کا یہی​

اہتمامِ رنگ و بو گلشن میں کرنا ہی نہیں ​

ظلم سے ہیں بر سرِ پیکار آزادی پسند​

اُن پہاڑوں میں جہاں پر کوئی جھرنا ہی نہیں ​

دل بھی انکے ہیں سیاہ خوراک زنداں کی طرح​

ان سے اپنا غم بیاں اب ہم کو کرنا ہی نہیں​

انتہا کرلیں ستم کی لوگ ابھی ہیں خواب میں ​

جاگ اٹھے جب لوگ تو ان کو ٹھہرنا ہی نہیں

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔