اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں
تخت پر بیٹھے ہیں یوں جیسے اترنا ہی نہیں
یوں مہ و انجم کی وادی میں اڑے پھرتے ہیں وہ
خاک کے ذروں پہ جیسے پاؤں دھرنا ہی نہیں
ان کا دعویٰ ہے کہ سورج بھی انہی کا ہے غلام
شب جو ہم پر آئی ہے اس کو گزرنا ہی نہیں
کیا علاج اس کا اگر ہو مدعا ان کا یہی
اہتمامِ رنگ و بو گلشن میں کرنا ہی نہیں
ظلم سے ہیں بر سرِ پیکار آزادی پسند
اُن پہاڑوں میں جہاں پر کوئی جھرنا ہی نہیں
دل بھی انکے ہیں سیاہ خوراک زنداں کی طرح
ان سے اپنا غم بیاں اب ہم کو کرنا ہی نہیں
انتہا کرلیں ستم کی لوگ ابھی ہیں خواب میں
جاگ اٹھے جب لوگ تو ان کو ٹھہرنا ہی نہیں