جی دیکھا ہے مر دیکھا ہے
ہم نے سب کچھ کر دیکھا ہے
برگِ آوارہ کی صورت
رنگِ خشک و تر دیکھا ہے
ٹھنڈی آہیں بھرنے والو
ٹھنڈی آہیں بھر دیکھا ہے
تیری زلفوں کا افسانہ
رات کے ہونٹوں پر دیکھا ہے
اپنے دیوانوں کا عالم
تم نے کب آ کر دیکھا ہے
انجُم کی خاموش فضاء میں
میں نے تمہیں اکثر دیکھا ہے
ہم نے اس بستی میں جالب
جھوٹ کا اونچا سر دیکھا ہے