غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
سمجھے بھی تو کیا سمجھے، جانا بھی تو کیا جانا
اک عمر کے دُکھ پائے، سوتے ہیں فراغت سے
اے غلغلۂ محشر، ہم کو نہ جگا جانا
کیا یار کی بد خوئی، کیا غیر کی بد خواہی
سرمایۂ صد آفت ہے دل ہی کا آ جانا
کچھ عرضِ تمنّا میں شکوہ نہ ستم کا تھا
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا
چلمن کا الٹ جانا، ظاہر کا بہانہ ہے
ان کو تو بہر صورت اک جلوہ دکھا جانا
ہے حق بطرف اسکے، چاہے سَو ستم کر لو
اس نے دلِ عاشق کو مجبورِ وفا جانا
انجام ہوا اپنا آغازِ محبّت میں
اس شغل کو جاں فرسا ایسا تو نہ تھا جانا
مجروح ہوئے مائل کس آفتِ دوراں پر
اے حضرتِ من، تم نے دل بھی نہ لگا جانا