09:38    , منگل   ,   03    دسمبر   ,   2024

ساغر صدیقی کی شاعری

1816 0 0 00

ہے دعا یاد مگرحرفِ دعا یاد نہیں

میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں

ہم نے جن کے لیے راہوں میں بچھایاتھا لہو

ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

میں نے پلکوں پہ درِ یار سے دستک دی ہے

میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں

کسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں

صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے

کب ہوا کون ہوا مجھ سے خفا یاد نہیں

آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں​

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔