یہ جو سینے میں لیے کربِ درُوں ز ندہ ہوں
کوئی امید سی باقی ہے کہ یوں زندہ ہوں
شہر کا شہر تماشائی بنا بیٹھا ہے
اور میں بن کے تماشائے جنوں زندہ ہوں
میری دھڑکن کی گواہی تو میرے حق میں نہیں
ایک احساس سا رہتا ہے کہ ہوں زندہ ہوں
کیا بتاؤں تجھے اسباب جیئے جانے کے
مجھ کو خود بھی نہیں معلوم کہ کیوں زندہ ہوں
اپنے ہونے کی خبر کس کو سناؤں ساغر
کوئی زندہ ہو تو میں اس سے کہوں زندہ ہوں