’"سی‘ (Fantasy) کے تعلق سے ذہن جس قدر گہرائی میں اُترتا ہے ’"سی‘ اتنی ہی پر اسرار اور معمّہ سا بنتی جاتی ہے۔ یہ تخیل (Imagination) کی دین ہے، یونانیوں اور رومیوں نے ’"سی‘ کے تعلق سے کئی فلسفیانہ خیالات اور نکات پیش کیے لیکن اس کا تصوّر واضح نہ ہو سکا۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ تخلیقی فکر و نظر یا تخلیقی سوچ کی ایک صورت ہے اور اس کا رشتہ انسان کی نفسیات سے گہرا ہے۔ انسان کے ہیجانات (Impulses) اس کی تخلیق میں نمایاں حصّہ لیتے ہیں۔ ’"سی‘ انسان کی نفسیات کی داخلی سطح میں تحرک پیدا کرتی ہے۔ صرف ادبیات ہی میں نہیں بلکہ مصوّری اور موسیقی اور فیزکس اور علم ریاضی میں بھی اس کی اہمیت ہے۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ انسان کی ترقی اور اس کے فکری ارتقا میں ’"سی‘ نے ایک بڑا معنی خیز کردار ادا کیا ہے، یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ تخیل صرف ادبیات کی ضرورت نہیں، علم ریاضی کی بھی ضرورت ہے، اس کے بغیر احصاعہ تفریقی (Differential Calculus) کو دریافت کرنا ممکن نہ تھا۔
’"سی‘ ذہن کا وہ نفسیاتی عمل ہے کہ جس سے نئی دروں بینی پیدا ہوتی ہے اور ’وژن‘ نئی صورتوں کو پانے لگتا ہے۔ اُردو ادب میں غالبؔ ’"سی‘ کے سب سے بڑے تخلیقی فنکار ہیں۔ ایسی تخلیقی شخصیت ایسے ہمہ گیر ’وژن‘ کے ساتھ شاید ہی دنیا کے کسی ادب کو نصیب ہوئی ہو۔ رومانی اور جمالیاتی ’فینومینن‘ (Phenomenon) خلق کر نے والے اس فنکار کا ذہن حد درجہ زرخیز ہے، زرخیز ذہنی عمل ہی ’فینومینن‘ خلق کر سکتا ہے۔ ’"سی‘ کی دنیا میں غالبؔ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان کی سائیکی (Psyche) نے ’امیجری‘ کو صرف خلق ہی نہیں کیا بلکہ اُسے تو انائی بھی بخشی اور اسے تحرک بھی عطا کیا۔ جن ’فینومینا‘ کا وجود ہی نہ تھا ’دیوانِ غالب‘ اور ’کلّیاتِ غالب‘ میں ان کا ظہور ہوا۔ ’"سی‘ کے ’ا4‘ اور استعاروں نے ’نفسی فینومینا‘ (Psychic Phenomena) کی ایسی تخلیق کی ہے کہ وہ اپنی مثال آپ بن گئی ہے۔
اُردو کے کلاسیکی مثنوی نگاروں کی شخصیتیں ایسی تخلیقی نہ تھیں کہ ’وژن‘ سے ’فینومینن‘ خلق ہو جاتے پھر بھی تخلیقی ہیجانات اور تخیل نے انھیں حقیقت کی صورت دینے کی کوشش کی ہے کہ جن کا وجود نہیں ہے۔ تخیل کے عمل سے ایسے کردار اور مناظر سامنے آ جاتے ہیں جن کا مشاہدہ جمالیاتی آسودگی بخشتا ہے۔
اُردو کی قدیم منثور اور منظوم کہانیوں کا تعلق ملک کے عوامی قصّوں اور دیومالا سے بھی رہا ہے اور فارسی قصّوں کہانیوں سے بھی۔ لوک کہانیوں اور مقامی قصّوں کے اثرات بھی موجود ہیں، سنی ہوئی اور پڑھی پڑھائی کہانیوں کی نئی صورتیں بھی نظر آتی ہیں، دیو، جادوگر اور پریوں کے کردار نئی دنیا کے مناظر لے آئے ہیں، قصّوں میں تصادم اور کشمکش کی پیشکش کے لیے مثنوی نگاروں کے تخیل نے ’"سی‘ پیدا کر نے کی کوشش کی ہے۔
’کدم راؤ پدم راؤ‘ (فخرالدین نظامی ۳۵۔ ۱۴۳۰ء) میں راجا کدم راؤ کو ایک جو گی طوطا بنا کر اُڑا دیتا ہے۔ راجا طوطا بنا جنگل جنگل اُڑتا پھرتا ہے۔ ایک دن چھت پر بیٹھے اُداس وزیر پدم راؤ کو اپنا قصّہ سناتا ہے۔ پدم راؤ ناگ ہے جو جو گی کوڈس لیتا ہے اور راجا کدم راؤ طوطے سے انسان بن جاتا ہے۔ راجا کدم راؤ سرپر ہاتھ پھیرتا ہے تو پدم راؤ کے سرپر پدم نمودار ہو جاتا ہے، وہ ناگ تو تھا لیکن اب تک اس کے سرپر پدم نہیں تھا۔ ہاتھ پھیرتے ہی پدم راؤ ایک لمباناگ بن جاتا ہے اور اس قدر اونچا اٹھتا ہے کہ اس کا سرچھت تک پہنچ جاتا ہے۔ ’"سی‘ کے اس منظر کے ساتھ ’"سی‘ کا نقطۂ عروج اس طرح سامنے آتا ہے:
پدم راؤ ادبھا ہوا چھات لگ
بتاتی گئی تن پہر رات لگ
ممکن ہے ’کدم راؤ پدم راؤ‘ کی کہانی کا تعلق کسی پرانے ہندوستانی لوک قصّے سے ہو، مزاج اسی نوعیت کا ہے۔ فخر الدین نظامی نے جادو منتر، طلسمی ماحول، روح کی تبدیلی، چمتکار معجزے اور خصوصاً آخری منظر سے ’"سی‘ کی جو تخلیق کی ہے اس کی تاریخی اور ادبی اہمیت ہے، اُردو مثنویوں میں اس کی حیثیت ’"سی‘ کے ایک خوبصورت ابتدائیہ کی ہے۔ کہانی کا حسن ’"سی‘ میں سمٹ آیا ہے۔
’قطب مشتری‘ (وجہی ۱۶۰۷ء) کی عشقیہ کہانی ایک خواب کے دھندلکے سے نکلی ہے۔ قطب مشتری کی ’"سی‘ سب سے پہلے ایک خوبصورت ’امیج‘ (مشتری) کی تخلیق کرتی ہے۔ شہزادہ قطب خواب میں ایک خوبصورت دوشیزہ کے ’امیج‘ (Image) پر عاشق ہو جاتا ہے۔ مصوّر عطارو بنگالے کی دوشیزہ کے حسن و جمال کی جو تعریف کرتا ہے اس سے یہ ’امیج‘ روشن ہوتا جاتا ہے اور اس سے ’"سی‘ کا حسن نمایاں ہونے لگتا ہے۔ عطارو، آبِ حیات، چاند، سورج، حور، سحر بنگال، جنتر منتر، جسم، لباس، آنچل، سیہ تل وغیرہ سے اس ’امیج‘ کے گرد ایک دلفریب رومانی فضا خلق کر دیتا ہے۔
’"سی‘ کی اس سحر انگیزی سے مرکزی کردار کی نفسیات کی داخلی سطح پر بھی ایک تحرک پیدا ہوتا ہے، اس کے خواب اور ’امیج‘ دونوں کے دائرے وسیع ہوتے ہیں اور وہ خواب کے دھندلکوں یا ’"سی‘ کے جلال و جمال میں گم ہو جانا چاہتا ہے۔ خواب کے منظر (صفت مجلس طرب) اور مشتری کے محل کی تزئین و آرائش (آراستن محل مشتری) میں ’"سی‘ کے جلوے موجود ہیں۔ کہانی آگے بڑھتی ہے تو قلعہ گلستاں، ملتا ہے جہاں مہتاب پری شہزادے پر عاشق ہو جاتی ہے۔ ’قطب مشتری‘ میں تلاش کے پورے عمل میں ’"سی‘ پیدا ہوتی رہی ہے۔ شہزادہ اور عطارو طوفان میں گھر جاتے ہیں، پہاڑ جیسے اژدہوں سے مقابلہ ہوتا ہے، راکھشس ملتا ہے، بڑے بڑے دانت والا اور ہر صبح نو ہاتھیوں کا ناشتہ کر نے والا راکھشس فنکار کی تخیل نگاری نے ’"سی‘ کے ایک اچھے معیار کو پیش کیا ہے۔
’سیف الملوک اور بدیع الجمال‘ (غواصی ۱۶۲۵ء) میں ’الف لیلہ‘ کی ’"سی‘ موجود ہے۔ اس مثنوی کی ’"سی‘ بھی خواب کے دھندلکوں سے پیدا ہوتی ہے۔ شہزادہ سیف الملوک خواب میں بدیع الجمال کو دیکھتا ہے اور اس ’امیج‘ پر عاشق ہو جاتا ہے اور اس کی تلاش میں نکلتا ہے لیکن اسی وقت بادشاہ کے اندھے ہو جانے کی خبر ملتی ہے۔ شاہی حکیم کہتے ہیں کہ سراندیپ کے جنگل سے بکاولی پھول لایا جائے تو بادشاہ کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں گی۔ سیف الملوک سراندیپ پہنچ جاتا ہے۔ کہانی میں ’"سی‘ کا عمل تیز ہو جاتا ہے جنوں اور پری زادوں سے زبردست ٹکراؤ ہوتا ہے، اسے فتح حاصل ہوتی ہے اور وہ گل بکاؤلی لے کر واپس آ جاتا ہے اور بادشاہ کی بینائی واپس آ جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کا دوسرا سفر شروع ہوتا ہے، مقصد خواب کے ’امیج‘ بدیع الجمال کی تلاش ہے۔ ایک مقام پر وہ ایک ڈائن کو قتل کرتا ہے۔ یہ ڈائن لوگوں کو کھاتی جا رہی تھی۔ اب وہ جنوں کے بادشاہ ارزق کے ملک میں پہنچتا ہے۔ ارزق نے شہزادی دولت خاتون کو قید کر رکھا ہے۔ سیف الملوک اُسے آزادی دلانا چاہتا ہے۔ جنوّں کے بادشاہ ملک ارزق کے ملک میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں وہاں ’"سی‘ کی ایک دنیا خلق ہو گئی ہے۔ ہم ’"سی‘ کے جلال و جمال سے متاثر ہوتے ہیں۔ دولت خاتون کے حسن و جمال اور لال آندھی اور بادلوں کی گرج، جن کی صورت وغیرہ سے ’"سی‘ کی تصویریں نمایاں ہوتی ہیں جِن جب سوتا ہے تب ہی اس کے جسم میں جان آتی ہے لہٰذا اُسے صرف سوتے ہوئے ہی قتل کیا جا سکتا ہے۔ سوتے ہوئے جن کے پاس آنے سے قبل ایک خوفناک اژدھے سے مقابلہ ہوتا ہے، اژدھے کی شکست ہوتی ہے۔ ایک شیر ملتا ہے جس پر سیف الملوک اسم اعظم پڑھ کر پھونک دیتا ہے، شیر ّپتھر کا بت بن جاتا ہے۔ جن کے پاس آ کر شہزادہ پھر اسم اعظم پڑھتا ہے اور جِن کی شہہ رگ بے حس ہو جاتی ہے۔ تلوار سے شہہ رگ کاٹ دیتا ہے۔ اس کی گردن دھڑ سے الگ کر دیتا ہے، جِن کے مرتے ہی قلعے میں زلزلہ آ جاتا ہے، طوفان اٹھتا ہے، اندھیرا چھا جاتا ہے۔ جب یہ سب تھم جاتا ہے تو اندھیرا ختم ہو جاتا ہے، شہزادہ کیا دیکھتا ہے قلعہ ہے اور نہ جن کا جسم، شہزادی دولت خاتون سامنے بے ہوش پڑی ہے۔ دولت خاتون کو اس کے ملک پہنچا کر وہ پھر شہزادی کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ پوری فضا الف لیلوی ہے، الف لیلیٰ کی ’"سی‘ سے غواصی نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ شہزادہ ایک پُر اسرار پیر بزرگ کی دعائیں بھی حاصل کرتا ہے، جب شہزادہ بدیع الجمال کے محل کے پاس آتا ہے تو اُسے پتہ چلتا ہے کہ ایک خونخوار پرندہ ہے جوہر روز کسی نہ کسی انسان کو اٹھا کر لے جاتا ہے اور اسے اپنی غذا بناتا ہے۔ اس پرندے کی شکل و صورت اور ماحول پر اس کے خوف کے اثرات کی تصویر کشی میں اچھی ’"سی‘ پیدا ہوئی ہے۔ پرندے کی آنکھیں سرخ ہیں، منہ بڑا ہے، چونچ آرے کی مانند ہے۔ شہزادہ پرندے کی گردن کاٹ دیتا ہے۔ پرندے کے ختم ہوتے ہی پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ سیف الملوک، بدیع الجمال کو حاصل کر لیتا ہے۔ غواصی نے ’الف لیلیٰ‘ کے بعض واقعات کو اپنایا تو ہے لیکن انھیں نئی صورتیں دے دی ہیں۔ اپنے تخیل سے انھیں تازہ اور شاداب کر دیا ہے۔ ایک اچھے فنکار کی طرح غواصی نے ’"سی‘ کی ایک بڑی خصوصیت ’انتشار میں تنظیم‘ (Order out of Chaos) کی تصویر خوب اُبھاری ہے۔
چندر بدن و مہیار (مقیمی ۱۶۲۸ء) کا قصّہ ’لیلیٰ مجنوں ‘ ، ’شیریں فرہاد‘ اور ہیر رانجھا‘ کی طرح عوامی زندگی میں موجود تھا۔ مقیمی نے اس خاکے کو اپنایا اور ڈرامائی کیفیتوں اور ’"سی‘ سے اسے نکھار دیا۔ عشقیہ مثنوی ہے کہ جس کا اختتام ایک خوبصورت ’"سی‘ کی صورت جلوہ گر ہوا ہے۔ ’"سی‘ کی سب سے بڑی خصوصیت ’تحیر‘ ہے جو آخری حصّے میں پیدا ہوا ہے۔ موت کے بعد عاشق اور محبوب کفن میں ایک دوسرے میں جذب نظر آتے ہیں:
ہوا جیوں عمل سب قبر کا تمام
آٹھیا دفن کر نے کوں شرنیک نام
شہا دیکھا کر قدرتِ بے نیاز
کہ عاشق جنازے کا کیا نماز
منگیاں جو قبر میں اُتاروں اسے
دفن کر دینا سوں بساروں اسے
جو دیکھیا جنازے میں مہیارکوں
تو ہے جفت مل کر سواس نارسوں
کفن بیچ آ کر اوچندر بدن
گلے لگ کے سوتی ہے جوں ایک تن
گلے اس لگے پرت پیارسوں
پرت در محبت کی ہیارسوں
جدا ان کو ہر چند کر نے لنگے
کہ دونوں کوں دو ٹھار دھر نے لنگے
نکیتے ایس جدائی پذیر
کہ تھے عاشقاں میں یودوبے نظیر
تو یوں لگ ایس میں دو سوتے اٹھے
جدا دو کسی تے نہ ہوتے اتھے!
یہ ’ڈرامائیت‘ ، ’"سی‘ کی دین ہے، تخیل کے عمل سے واقعہ، مشاہدے (Observation) کا منظر بن جاتا ہے۔ قاری کے ہیجان کو نفسیاتی سکون ملتا ہے اور جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔
’پھولبن‘ (ابن نشاطی ۱۶۵۵ء) ’"سی‘ کا ایک انتہائی خوبصورت نمونہ ہے۔ ابن نشاطی ایک بڑا تخیل نگار شاعر تھا کہ جس نے اس مثنوی میں ’فینو مینن‘ خلق کر نے کی بڑی فنکارانہ کوشش کی ہے۔ میں نے اپنے مقالے ’مثنوی پھولبن کا جمالیاتی معیار‘ (مطبوعہ ایوانِ اُردو، دہلی، فروری ۲۰۰۰ء) میں لکھا تھا کہ ابن نشاطی نے احمد حسن دبیر کی ایک فارسی داستان ’بساتین الانس‘ کا اثر قبول تو کیا تھا لیکن تخیل نگاری اور دلکش طرزِ نگارش کی وجہ سے ’پھولبن‘ کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ ایک عمدہ جمالیاتی معیار قائم کر نے میں شاعر کی رومانیت نے بڑا حصّہ لیا ہے، اس رُومانیت کی پہچان تخلیّت، جذبوں کے رنگ، ’"سی‘ فضا آفرینی اور کرداروں کے تحرک سے ہوتی ہے۔ ’"سی‘ کی رومانیت کا تقاضا ہے کہ زندگی کو پُر اسرار بنا کر پیش کیا جائے تاکہ ’"سی‘ کے جلال و جمال کا اثر زیادہ سے زیادہ ہو۔ ابن نشاطی نے اس مثنوی میں زندگی کو پُر اسرار بنانے کی فنکارانہ کوشش کی ہے۔ ’کنچن پٹن‘ کی خوبصورتی کے بیان میں ’"سی‘ اُبھر کر سامنے آئی ہے:
کنچن کے تِس اوپر تویاں زنبورے
کنچن برجاں یوکنچن کے کنگورے
کنچن کے تھے کنگر، کنچن کی تھی گچ
کنچن کوں گال باندے تھے کنچن برح
کنچن کے تھے محل، کنچن کی دیوار
کنچن پر پھر کنچن لیپے تھے ہر ٹھار
اسی طرح شہر کی زمین میں ’"سی‘ کی رومانیت خوب واضح ہوتی ہے۔ پراسرار شہر اور پراسرار محل کی تصویروں سے ابتداہی سے ’"سی‘ متاثر کرنا شروع کر دیتی ہے۔ پھولبن کی پُر اسراریت اور اس کی ’"سی‘ (Fantasy) سے رومانی جمالیاتی روّیے کی قدر و قیمت کا اور اندازہ ہوتا ہے۔ واقعات میں جو پُر اسراریت ہے اس سے جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ سمن بر اور ہمایوں فال کی کہانی میں فنکار نے ’"سی‘ کے معیار کو بلند کیا ہے۔ شاہ ہند کے خزانے میں ایک مچھلی ہے کہ جس پر طلسم تحریر ہے، اگر اسے پانی میں ڈال دیں تو وہ دریا کی گہرائیوں میں اُتر جائے گی اور گہرائیوں کی سچائیاں لکھ کر لے آئے گی۔ اسی مچھلی سے پتہ چلتا ہے کہ شہزادے کو ایک مچھلی نگل گئی تھی اسے ہضم نہ کر سکی لہٰذا سمن کے جزیرے پر اُگل آئی پریوں کی قید میں ہے، اس کے بعد ہی تلاش کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور ’"سی‘ کا ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے:
خزینے میں مرے ہے ایک مچھلی
نہ مچھلی اس کے سم کوی آؤے مچھلی
کیے ہیں اس کوں حکمت سوں حکیماں
گھڑے ہیں بھوت صفت سوں حکیماں
طلسم اس پر لکھے ہیں خوب اوّل قی
سٹے پانی میں تو آ بیچ چلتی
حقیقت قصر کا جناں کنے سوں
لکھا لاتی اپے پانی نے سوں
خبر بارے اوّل شہزادے کالیو
تمیں منگتے ہیں جیوں بعد از سزا دیو
منگا بیگی سوں اس مچھلی کوں درحال
کے تیوں لے کے پانی میں اسے ڈال
ومچھلی اس حقیقت کا خبر لے
نکل کر آئی دو دن کوں تیرلے
اسی طرح ’سورگ بن‘ کے بیان میں ’"سی‘ پیدا ہوئی ہے۔ ابن نشاطی کی جمالیاتی فکر و نظر سے ایک اور دنیا سامنے آتی ہے۔ یہ کنچن پٹن جیسی دنیا نہیں ہے، یہاں ’"سی‘ کے تحیّر کا ایک دوسرا ہی پہلو۔ امیجری‘ (Imagery) ’"سی‘ کی روح ہے، ابن نشاطی نے ’امیجری‘ سے خوب کام لیا ہے۔ شاعر نے اپنے طور پر ’"سی‘ میں ’ا4‘ کا ایک معیار قائم کر دیا ہے۔ جانے کس نے کہا تھا کہ ’"سی‘ میں "
Non-existent phenomenon manifests itself something new"
’مثنوی پھولبن‘ میں یہ سچائی موجود ہے۔
’گلشنِ عش(نصرقی ۱۶۵۷ء) میں ’"سی‘ (Fantasy) کو بڑی نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ فنکار کے تخیلی اور تخلیقی عمل سے مشاہدے کے جانے کتنے مناظر سامنے آئے ہیں، نصرتی کا ذہن حد درجہ زرخیز ہے، یہاں ’"سی‘ کے تعلّق سے صرف تصویریں یا مناظر نہیں ہیں بلکہ ہیجانات (Impulses) کا عمل دخل بھی بہت زیادہ ہے۔ نصرتی کی کوشش یہ ہے کہ نئے حالات اور واقعات پیش کیے جائیں کچھ اس طرح کہ جو کچھ موجود نہیں ہے موجود نظر آئے۔ کئی مقامات پر نفسی فینومینا سے عمدہ ’"سی‘ پیدا ہو گئی ہے۔
۔۔۔ راجا فقیر کی تلاش میں جنگل جنگل گھومتا ہے، اس کے پورے سفر میں ’"سی‘ کی ایک بہت ہی خوبصورت دلکش اور تحیّر آمیز دنیا اُبھرتی ہے۔
۔۔۔ ایک تالاب کے پاس پہنچتا ہے تو ہر جانب خوبصورت درخت اور پھل پھول دکھائی دیتے ہیں، خوشبو آوارہ پھر رہی ہے، چار پریاں تالاب میں نہاتی نظر آتی ہیں جو راجا کا درد جانتی ہیں۔ پریاں راجا کو فقیر کا پتہ بتاتی ہیں۔ سرکا بال دیتی ہیں کہتی ہیں یہ مصیبت میں کام آئیں گے پھر راجا کو اپنے تخت پر بیٹھا کر فقیر کے غار تک لے جاتی ہیں۔
۔۔۔ راجا فقیر کو پریوں کے بال دکھاتا ہے تو فقیر اسے پاس بلا لیتا ہے، فقیر کی ہدایت پر راجا شریفے کے ایک درخت سے ایک پھل توڑ کر رانی کو کھلا دیتا ہے اور وہ حاملہ ہو جاتی ہے۔ ایک خوبصورت لڑکا پیدا ہوتا ہے نام منوہر رکھا جاتا ہے، شاہی نجومی زائچے سے بتاتا ہے کہ چودہ برس کی عمر میں راجکمار منوہر ایک بڑے خطرے سے دو چار ہو گا۔
۔۔۔ راجا اپنے بیٹے کو چھت کے نیچے ہی رکھتا ہے لیکن ایک شب چھت پر سو جاتا ہے اور پریاں اس کے حسن و جمال سے متاثر ہوتی ہیں۔ اتنے خوبصورت راجکمار کے لیے اتنی ہی خوبصورت لڑکی چاہیے۔ کل نو پریاں ہیں جو مختلف سمتوں میں اُڑ جاتی ہیں۔
۔۔۔ نویں پری یہ خبر لاتی ہے کہ سات دریاؤں کے پار ایک ملک ہے جس کا نام ’مہارس نگر‘ ہے اس کے راجا دھر راج کی ایک لڑکی ہے مدماتی، وہی راجکمار کی شریک زندگی ہو سکتی ہے۔ پریاں راجکمار کا پلنگ اٹھا لیتی ہیں اور مدماتی کے پلنگ کے ساتھ رکھ دیتی ہیں۔ جب منوہر اور مدماتی کی آنکھیں کھلتی ہیں تو دونوں ایک دوسرے پر عاشق ہو جاتے ہیں، پھر انگوٹھیاں بدلی جاتی ہیں۔
۔۔۔ پریاں راجکمار کی مدد کرتی رہتی ہیں، منوہر کی آنکھوں میں سلائی ڈال دینے سے منوہر کسی کو نظر نہیں آتا لہٰذا وہ اطمینان سے اپنی محبوبہ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
۔۔۔ راجا کو حقیقت معلوم ہوتی ہے منوہر کو سات سمندر پار جا کر مدماتی سے ملنے کی اجازت دیتا ہے۔ منوہر ایک جہاز پر سوار ہو کر ’مہارس نگر‘ کے لیے روانہ ہوتا ہے کہ طوفان آ جاتا ہے،سمندر میں ایک بہت بڑا اژدھا نمودار ہوتا ہے کہ جس کے منہ سے انگارے نکل رہے ہوتے ہیں، جہاز اژدھے سے ٹکرا کر ٹوٹ جاتا ہے، منوہر کسی طرح ایک تختے کے سہارے بہتے بہتے ایک جزیرے پر آ جاتا ہے۔ اس سنسان علاقے میں ایک چڑیل ان کی گردن پر سوار ہو جاتی ہے، سیاہ فام، دانت باہر نکلے ہوئے اور ہاتھ پیر اُلٹے، چڑیل، منوہر کو غار میں بند کر دیتی ہے، وہ اسے کھا جانا چاہتی ہے، اُسے کھڑا پیر پکانا چاہتی ہے۔ منوہر پری کو یاد کرتا ہے، پری آ کر کہتی ہے کہ اب وہ اس کی کوئی مدد نہیں کر سکے گی، البتہ اس کی آنکھوں میں سُرمے کی سلائی ڈال سکتی ہے جس سے وہ سب کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا۔ پری سُرمے کی سلائی منوہر کی آنکھوں میں ڈال دیتی ہے اور وہ غائب ہو جاتا ہے۔
۔۔۔ منوہر بھاگ کر ایک پہاڑ کے قریب آتا ہے تو وہ چڑیل اس کی بو سونگھتے سونگھتے پاس آ جاتی ہے۔ چیختی ہے اس کی چیخ سن کر غار سے ایک اژدھا نکل پڑتا ہے۔
اژدھا چڑیل پر حملہ کر دیتا ہے اور اسے چبا جاتا ہے۔
۔۔۔ راجکمار کسی طرح وہاں سے فرار ہو کر سمندر کے کنارے آ جاتا ہے، شب میں وہ ایک خالی جھونپڑی میں داخل ہوتا ہے تو ایک چٹائی پر انسان کا خون نظر آتا ہے، اچانک باہر ایک خوفناک آواز آتی ہے۔ یہ شیر کی آواز ہے جو ایک انسان کی لاش چبا رہا ہے۔ راجکمار کی آنکھوں میں تو سُرمے کی سلائی ڈالی گئی ہے لہٰذا شیر بھی اسے دیکھ نہیں پایا۔
۔۔۔ منوہر بھاگتا بھاگتا ایک ایسی جگہ پر آتا ہے کہ جہاں آدم خور آباد ہیں۔ کیا دیکھتا ہے ایک انسان درمیان میں ہے اور وہ آدم خور اس کے گرد رقص کر رہے ہیں، منوہر اس شخص کو پہچان لیتا ہے وہ بھی جہاز میں منوہر کے ساتھ تھا، ممکن ہے بچ کر یہاں آ گیا ہو۔ منوہر ایک آدم خور کے ہاتھ سے چھری لے لیتا ہے۔ اُسے آدم خور دیکھ ہی نہ سکے، سب حیرت زدہ یہ کیا ہوا، کون چھری لے گیا؟
۔۔۔ منوہر اس شخص کو آزاد کر کے ساتھ لے لیتا ہے۔ آدم خور اپنے شکار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ دونوں ایک غار میں چھپ جاتے ہیں جہاں آدم خور پہنچ جاتے ہیں۔ ایک آدم خور اندر جانے لگتا ہے تو راجکمار اسے ختم کر دیتا ہے۔ مرے ہوئے آدم خور کا نیزہ راجکمار کے ہاتھ میں آ جاتا ہے اور وہ آدم خوروں پر حملے کر نے لگتا ہے، آدم خور پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے اس لیے انھیں راجکمار نظر نہیں آتا، باقی آدم خور بھاگ جاتے ہیں۔
۔۔۔ منوہر کی آنکھوں میں پڑے سرمے کا اثر زائل ہو جاتا ہے اور وہ نظر آنے لگتا ہے۔ پری کی مدد مانگتا ہے، پری مدد نہیں کر پاتی۔ منوہر اپنے ساتھی کے ساتھ آدم خوروں کی کشتی چرا لیتا ہے۔ لیکن بدنصیبی سے منوہر کا ساتھی پہرے دار آدم خور کے تیر سے مر جاتا ہے۔ ایک بار پھر آدم خور آ جاتے ہیں اور شہزادے کو گرفتار کر لیتے ہیں۔
۔۔۔ آدم خور منوہر کو کھا جانے کی تیاری کرتے ہیں۔ منوہر مالک سے دُعا کرتا ہے۔ اسی وقت ایک بزرگ ظاہر ہوتے ہیں اور منوہر کی مدد کرتے ہیں۔ چلتے ہوئے ایک تحفہ دیتے ہیں، تو انائی اور طاقت کی صورت میں!
۔۔۔ راجکمار اس بزرگ کی دی ہوئی طاقت سے تمام آدم خوروں کو شکست دے دیتا ہے، پھر ایک کشتی پھر سوار ہو کر نکل جاتا ہے، مقصد صرف یہ ہے کہ مدماوتی حاصل ہو جائے۔
۔۔۔ راجکمار ایک باغ میں پہنچتا ہے جہاں پرندے تو ہیں انسان نہیں ہیں، محل تو ہے انسان موجود نہیں، محل میں داخل ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک خوبصورت عورت تخت پر لیٹی ہوئی ہے منوہر کو دیکھ کر وہ ہنستی بھی ہے اور روتی بھی ہے، راجکمار سبب دریافت کرتا ہے تو کہتی ہے کہ ہنسی اس لیے کہ ایسا خوبصورت نوجوان کبھی دیکھا نہیں اور روئی اس لیے کہ ابھی دیو آئے گا اور اسے کھا جائے گا۔ بتاتی ہے ایک دیو نے اسے قید کر رکھا ہے، اس عورت کا نام چمپاوتی ہے۔
۔۔۔ چمپاوتی سے پیار کرتے ہوئے دیو راز کی بات بتا دیتا ہے۔ کہتا ہے کہ میری جان ایسی جگہ پر ہے کہ جہاں کوئی پہنچ نہیں سکتا، تین دریا پار ایک صحرا ہے، اس کے بعد ایک جنگل ہے، اس جنگل میں ایک اندھا کنواں ہے جس پر ایک بھاری پتھر رکھا ہوا ہے، اس کنویں میں ایک طاقچہ ہے جس کے اندر ایک گلستاں ہے اس کے اندر ایک شاندار محل ہے، محل کے ایک تہہ خانے میں ایک پنجرہ ہے، اس پنجرے میں ایک طوطا ہے، اس طوطے میں میری جان ہے۔ راجکمار دیو کی ساری باتیں سن لیتا ہے۔ چمپاوتی کے ساتھ رات بسر کر کے دیو کی جان کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔
۔۔۔ منوہر دریا پار کرتا ہے، صحرا سے گزرتا ہے، طوفان کا مقابلہ کرتا ہے۔ جنگل میں پہنچ جاتا ہے۔ گھنے جنگل کی وجہ سے اندھیرا ہے لہٰذا وہ گھوڑے سے اُتر کر آرام کرتا ہے۔ نصف رات میں اچانک بیدار ہو جاتا ہے، چند عورتوں کی آوازیں سنتا ہے۔ کیا دیکھتا ہے پاس ہی درخت پر چار عورتوں کے سر ٹنگے ہوئے ہیں، اُن کے لمبے لمبے بال زمین تک آ رہے ہیں، ایک عجیب منظر ہے۔ عورتیں کہہ رہی ہیں جانے کب ہم اپنے دھڑوں سے جا ملیں گے۔ راجکمار کے سوال کے جواب میں وہ بتاتی ہیں کہ وہ پریاں ہیں۔ ہم چاروں بہنیں ہیں۔ ایک جِن نے ہماری گردنیں کاٹ کر یہاں درخت پر لٹکا دیے ہیں۔ ہمارے دھڑ نزدیک ہی ایک جھونپڑے میں پڑے ہیں۔ اگر جن قتل کر دیا جائے، تو ہمارے دھڑ اپنے آپ جھونپڑی سے نکل کر یہاں آ جائیں۔
۔۔۔ راجکمار اُس جھونپڑی میں پہنچ جاتا ہے، وہاں جِن پر حملہ کرتا ہے، مرد بزرگ کی عطا کی ہوئی تو انائی سے اسے شکست دیتا ہے۔ اِدھر جِن کی گردن کٹتی ہے اُدھر جنگل میں طوفان اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ درخت جڑوں سے اُکھڑ جاتے ہیں۔ اب پریوں کے دھڑ باہر نکل کر چلنے لگتے ہیں۔ پریوں کے سر دھڑ میں لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد راجکمار پہلے جِن کی جان کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ بڑی مصیبتیں اُٹھا کر طوطے کے پنجرے کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اسی وقت دیو آ جاتا ہے لیکن اس وقت تک راجکمار طوطے کو مار دیتا ہے۔ جِن یا دیو کے مر نے کے بعد پورے ماحول کی صورت تبدیل ہو جاتی ہے۔ مدماتی حاصل ہو جاتی ہے۔
۔۔۔ منوہر اور مدماتی کی شادی ہو جاتی ہے!
’گلشن عشق‘ میں ’"سی‘ کی ایک انتہائی خوبصورت، دلچسپ اور پُر اسرار دنیا آباد ہے۔ اُردو کی کسی مثنوی میں ’"سی‘ اور اس کے حسن و جمال کی ایسی مثال نہیں ملتی۔ کہانی کا تعلق پرانے قصّوں اور لوک کہانیوں سے یقیناً ہے لیکن نصرتی کی تخیلی اور تخلیقی فکر نے اسے ایک نئی تخلیق کی صورت دے دی ہے اور ’"سی‘ کا ایک انتہائی پُر کشش معیار قائم کر دیا ہے۔ تلاشِ محبوب بنیادی موضوع ہے، فنکار کا تخلیقی ذہن اتنا زرخیز ہے کہ مشاہدے کے جانے کتنے عمدہ رومانی اور جمالیاتی مناظر خلق ہو گئے ہیں۔ ڈرامائیت اور ڈرامائی آہنگ کے بغیر ’"سی‘ کا تصوّر ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ ’گلشنِ عشق‘ کے ڈرامائی مناظر اپنی مثال آپ ہیں۔ نصرتی کا ذہن تخیل نگاری میں بہت آگے ہے، جو موجود نہیں ہے (Non-existent) کو ’حقیقت‘ کی صورت دینے کی فنکارانہ کوشش غیر معمولی نوعیت کی ہے۔ ایسے قصّوں کو اب تک صرف یہ کہہ کر نظر انداز کیا گیا ہے کہ یہ حقیقت اور سچائی سے دور ہیں، خوابوں کی دنیا پیش کرتے ہیں، ہوائی قلعے تعمیر کرتے ہیں، فوق الفطری عناصر اور کرداروں کے گرد گھومتے ہیں۔ ایسے قصّوں میں ’"سی‘ کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں کیا گیا۔ گلشن عشق نے رُومانیت کے دائرے میں بڑی وسعت پیدا کی ہے۔ مرکزی کردار کے پورے سفر میں رومانیت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے، نصرتی سے قبل اور نصرتی کے بعد کسی بھی مثنوی نگار نے ’فینومینن‘ (Phenomenon) خلق کر نے کی ایسی مسلسل کوشش نہیں کی۔ مشاہدے (Observation) کے اتنے سارے ڈرامائی مناظر پیش نہیں کیے، کرداروں کو ’ا4‘ بنانے میں پیش پیش نہیں رہے۔ فوق الفطری کرداروں کو ہیجانات (Impulses) عطا نہیں کیے اور واقعات کا رشتہ انسان کے سماج اور اس کی نفسیات سے اتنا گہرا نہیں کیا۔ مثنوی گلشنِ عشق کی خوبصورت ’"سی‘ میں جن واقعات اور مناظر نے روح پھونک دی ہے اُن میں چند یہ ہیں:
۔۔۔ پریاں اپنے سرکے بال راجا کو دیتی ہیں اور درویش راجا پر مہربان ہو جاتا ہے۔
۔۔۔ پریوں کا ’مہارس نگر‘ میں منوہر کے لیے مدماتی کا انتخاب کرنا۔
۔۔۔ منوہر کی آنکھوں میں پری کا سرمہ ڈالنا، منوہر سب کو دیکھ سکے مگر اسے کوئی دیکھ نہ پائے۔
۔۔۔ اژدھے سے جہاز کا پاش پاش ہو جانا۔
۔۔۔ راجکمار پر چڑیل کا سوار ہونا۔ اژدھے کا چڑیل پر حملہ۔
۔۔۔ آدم خوروں کا علاقہ، وہاں کے مناظر۔
۔۔۔ درویش کا ظہور، منوہر کو تو انائی کا چکر عطا کرنا۔
۔۔۔ دیو سے منوہر کی جنگ۔ دیو کی جان کی تلاش دیو کے ٹوٹ ٹوٹ کر مر نے کا منظر۔
۔۔۔ مدماتی کا طوطی بننا اور پھر مدماتی کی صورت میں نمودار ہونا۔
’"سی‘ تحیّر کے جمال کا تقاضا کرتی ہے، تحیّر کے جلال و جمال ہی سے تجسّس پیدا ہوتا ہے۔ مثنوی گلشن عشق میں تحیّر کا جلال و جمال متاثر کرتا ہے۔ جو ڈرامائی مناظر ہیں ان میں ’"سی‘ کا جلال و جمال موجود ہے۔ آدم خوروں کے علاقے میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں، دیو یا جِن کی جان کی تلاش میں منوہر جن حالات سے دو چار ہوتا ہے، چار پریوں کی گردنیں جس طرح درخت سے لٹکتی رہتی ہیں، جن کے ساتھ جو تصادم ہوتا ہے (تصادم کا منظر انتہائی پُر کشش ہے ) طوطے کے ساتھ دیو جس طرح تڑپ تڑپ کر مرتا ہے اور دیو کے مرتے ہی جو تیز آندھی آتی ہے، ساری چیزیں جس طرح دیکھتے ہی دیکھتے گم ہو جاتی ہیں یہ سب تحیّر کے حسن کو نمایاں کرتے ہیں، جلال کے مناظر بھی دلکش ہیں اور جمال کے مناظر بھی پرکشش ہیں۔ ایسی ’"سی‘ اس لیے بھی پُر کشش بن جاتی ہیں کہ ہمارے لاشعور میں ان کا حسن اور ان کے تحیر کا حسن موجود ہے۔ مسرتوں اور اُداسیوں کی جانے کتنی داستانیں ہم اپنے لاشعور میں لیے پھرتے ہیں ’"سی‘ کے کرداروں کی نفسیات یا اُن کے ہیجانات ہم سے علاحدہ نہیں ہیں۔ نصرتی کی شاعری کی نغمگی نے انھیں اور بھی محسوس بنا دیا ہے۔ اس شاعر کی تخلیقی صلاحیت ایسی ہے کہ جلال و جمال کے مناظر سے فوراً ہی جمالیاتی انبساط حاصل ہونے لگتا ہے اور یہ بڑی بات ہے۔ ’گلشنِ عشق‘ کا ’کینوس‘ بہت بڑا ہے، نصرتی نے بنیادی کہانی پر گہری نظر رکھتے ہوئے بہت سی چھوٹی بڑی تصویریں پورے کینوس پر اُبھاری ہیں۔ موسموں کی رومانیت ہو یا جنگلوں، صحراؤں اور باغوں کا جمال و جلال، خباثتوں کی دنیا ہو یا فراق اور وصل کے مناظر سب ’"سی‘ کا حسن لیے اس ’کینوس‘ کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتے ہیں۔
مثنوی سحر البیان (میر حسن ۸۵۔ ۱۷۸۴ء) کے کئی مناظر ’"سی‘ کے عمدہ نمونے ہیں۔ مندرجہ ذیل مناظر میں ’"سی‘ کی پہچان ہوتی ہے۔
’’داستان شاہ زادے کے کوٹھے پر سونے کی اور پری کے اُڑا کر لے جانے کی۔‘‘
’’داستان پرستان میں لے جانے کی۔‘‘
’’خواب میں دیکھنے میں بدر منیر کے بے نظیر کو کنویں میں۔‘‘
’’داستان نجم النسا کے جوگن ہونے میں۔‘‘
’’داستان فیروز شاہ، جِنوں کے بادشاہ کے بیٹے کے عاشق ہونے میں جوگن پر۔‘‘
حیرت انگیز مناظر میں شدّت بہت کم ہے اس کے باوجود اس سے ’"سی‘ کے عمدہ مناظر پیدا ہوتے ہیں اور جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے:
قضا را ہوا اِک پری کا گزر
پڑی شاہ زادے پہ اُس کی نظر
بھبھوکا سا دیکھا جو اُس کا بدن
جلا آتشِ عشق سے اُس کا تن
ہوئی حسن پر اس کے جی سے نثار
وہ تخت اپنا لائی ہوا سے اُتار
جو دیکھا تو عالم عجب ہے یہاں
منّور ہے سارا زمیں آسماں
محبت کی آئی جو دل پر ہوا
وہاں سے اُسے لے اُڑی دل رُبا
’طوطی نامہ‘ (جعفر علی حسرت ۸۷۔ ۱۷۸۵ء) میں کم و بیش ڈھائی ہزار اشعار ہیں۔ ’"سی‘ اس مثنوی کی روح ہے۔ عشقیہ داستان ہے، طوطی اور شکر پارا کے عشق کی داستان۔ طوطی شکر پارا کی تصویر دیکھ کر دیوانہ ہو جاتا ہے۔ شکر پارا بھی طوطی کے عشق کی باتیں سن کر اس پر عاشق ہو جاتی ہے۔ کہانی میں انوپ (مصوّر) اور امرت وغیرہ کے کردار شامل ہوتے ہیں۔ طوطی ہلاک ہو جاتا ہے، شکر پارا اس کی لاش کو ایک صندوق میں بند کر دیتی ہے اس خیال سے کہ ممکن ہے طوطی کسی اور جسم میں داخل ہو گیا ہو، ایک طوطا آتا ہے جسے شکر پارا اپنے شوہر طوطی کی لاش دکھاتی ہے طوطے کی روح طوطی کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ طوطی کو دوسری زندگی مل جاتی ہے۔ ایک شہزادہ شکر پارا کو لے جاتا ہے، یہ مقام طلسم کی دنیا ہے۔ اس کے بعد طوطی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ جو گی بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ وہاں ایک ہرن اور ہرنی آ کر باتیں کرتے ہیں۔ ہرن جو گی بن جاتا ہے اور ہرنی پری بن جاتی ہے۔ کہانی میں آہستہ آہستہ ’"سی‘ کا دائرہ بڑھتا جاتا ہے۔ انگوٹھی اپنا کرشمہ دکھاتی ہے، شہزادہ طلسمی انگوٹھی کے ذریعے کامیابی حاصل کرتا ہے۔ ایک جگہ شہزادے کی ہدایت پر انگوٹھی کا طلسم سُرخ رنگ کے ایک طلسمی پیڑ کو اُکھاڑ دیتا ہے اور اسی وقت ایک دیو سامنے آ جاتا ہے۔ طوطی پر حملہ کرنا چاہتا ہے کہ طوطی اپنی طلسمی انگوٹھی اس کے منہ میں ڈال دیتی ہے اور دیو کا وجود مٹ جاتا ہے۔ لال پری جو دیو کی بہن ہے طوطی سے بدلہ لیتی ہے۔ ’"سی‘ پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ’باطل السحر‘ پڑھ کر طوطی کو زندہ کیا جاتا ہے۔ آخر میں طلسم پر فتح حاصل ہو جاتی ہے۔ طلسمی دنیا کی تمام مورتیاں انسان بن جاتی ہیں۔ تمام انتشار ختم ہو جاتے ہیں اور زندگی میں ایک ترتیب پیدا ہو جاتی ہے۔ ’طوطی نامہ‘ کی ’"سی‘ زیادہ دلچسپ ہے اور غالباً اس کی ایک وجہ قصّوں کی پیچیدگی ہے۔ حسرتؔ ’"سی‘ پیدا کر نے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ رنگا رنگ تجربوں اور ڈرامائی کیفیتوں سے ’"سی‘ کے عمدہ نمونے پیش کرتے ہیں۔
’مثنوی گلزارِ نسیم‘ (پنڈت دیا شنکر نسیم ۳۹۔ ۱۸۳۸ء) میں ’گلِ بکاؤلی‘ کی تلاش ایک بڑی خوبصورت ’"سی‘ ہے۔ رومانی تخیل نے ’"سی‘ کے بعض بڑے خوبصورت نمونے پیش کیے ہیں۔ نسیم کی رومانیت اور ’"سی‘ نے محاوروں کی مدد سے عمدہ فضا آفرینی کی ہے۔ مثنوی گلزارِ نسیم ایک پرانی داستان کی نئی تخلیق ہے۔ شاعر کی تخلیقی فکر نے اسے طرح طرح سے سنوارا ہے۔ واقعات و حادثات کو مناظر کی صورت دے دی ہے جو ’"سی‘ کے حسن کو نمایاں کرتے ہیں:
بلّی کا سر، چراغ داں تھا
چوہا، پالے کا پاسباں تھا
اُلٹاتے اُڑی یہ قسمت آسا
بلّی جو، دِیا تو موش پاسا
جیتے ہوئے بندے تھے ہزاروں
قسمت نے پھنسائے یہ بھی چاروں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِک ٹیکرے پر گیا بلایا
وہ مثلِ صدائے کوہ آیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیمے سے وہ بے قرار نکلی
اُس چھالے سے مثلِ خار نکلی
دیکھا تو اندھیری رات سنسان
اِک عالم ہو ہے اور بیاباں
اِک دیو وہاں پہ گشت میں تھا
جو پائے شکار دشت میں تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھا تو وہ بت تھی مٹھ کے اندر
جسم، آدھا پری تھا آدھا پتھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ اُردو کی کلاسیکی مثنویوں نے اُردو ادب میں ’"سی‘ کی ایک بڑی پیاری دلکش دنیا خلق کر دی ہے!
**
مثنوی ایک قدیم فن ہے فارسی اور اُردو نظم کی ایک قدیم ترین صنف۔ دکن کے شعری دبستان بیجا پور، گولکنڈہ اور بیدر میں جانے کب سے مثنویاں لکھی جا رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ملاّ وجہی سے تین سو برس پہلے بھی مثنویاں لکھی جاتی رہی ہیں۔ ۱۲۶۵ء میں حضرت شیخ فرید شکر گنجؒ کی چند ایسی مختصر مثنویاں دستیاب ہیں کہ جن میں صوفیانہ مضامین ہیں۔ قدیم اُردو میں جہاں مختصر مثنویاں ملی ہیں وہیں طویل مثنویاں بھی ملتی ہیں۔ بہمنی دورِ حکومت میں بعض قدیم مثنویوں کا پتہ چلتا ہے۔ نظامی کی مثنوی؟یوم راؤ پدم راؤ‘ ایک عمدہ طبع زاد عاشقانہ مثنوی ہے جو سلطان احمد شاہ بہمنی کے دور میں ۱۴۴۰ء میں لکھی گئی۔
اُردو زبان میں طبع زاد مثنویاں بہت کم ہیں، اُردو کی اکثر مثنویوں کی بنیاد فارسی قصّے اور مثنویاں ہیں، جب فنکار اپنی کہانی پیش کرتا ہے تو کہانی اور کرداروں کے عمل اور ردِّ عمل سے فنکار کے احساسات و جذبات وابستہ رہتے ہیں اس لیے کہ کہانی اور کردار دونوں فنکار کے تخلیقی وژن سے تعلّق رکھتے ہیں، فنکار اپنی کہانی کے اُتار چڑھاؤ پر زیادہ غور کر نے لگتا ہے، کسی دوسری زبان کی کہانی کو اپنے انداز سے پیش کر دینا اور بات ہے اور خود اپنی کہانی کو فن کی صورت دینے کی شعوری اور لاشعوری کوشش اور بات۔
’چندر بدن و مہیار‘ (۱۶۲۸ء) اُردو زبان کی ایک منفرد طبع زاد مثنوی ہے بلاشبہ اسے اُردو کی کلاسیکی مثنویوں میں ممتاز درجہ حاصل ہے۔ یہ مثنوی مقیمی کی تصنیف ہے جو استر آباد کا باشندہ تھا، پرورش بیجا پور میں ہوئی، شاعری کا شوق تھا خوب شعر کہے رفتہ رفتہ کلام میں بڑی پختگی پیدا ہوئی اور ایک اچھے شاعر کی حیثیت سے اُبھرا۔
’چندر بدن و مہیار‘ کی کہانی ’لیلیٰ مجنوں ‘ ، ’شیریں فرہاد‘ اور ’ہیر رانجھا‘ کی طرح عوامی زندگی میں موجود تھی، مقیمی نے اس کہانی کے خاکے کو اپنایا، عشق کے جذبے کو روحانی پاکیزگی عطا کی، تخلیقی شعور کی آگ میں تپایا اور پھر اسے کندن بنا دیا۔ ڈرامائی کیفیتوں کی وجہ سے اس میں نئی جان پڑ گئی، ایک ایسا تحرّک پیدا ہو گیا کہ بعض مناظر اور تصویریں حیرت انگیز اور دلچسپ بن کر جمالیاتی انبساط عطا کر نے لگیں۔
’چندر بدن و مہیار‘ کو اگر چہ ’ہیر رانجھا‘ اور ’سوہنی مہیوال‘ کی طرح مقبولیت حاصل نہ ہو سکی لیکن یہ مثنوی ان کہانیوں سے کم بھی نہیں ہے۔ احساسات و جذبات کی پیشکش اور ڈرامائی کیفیتوں کی وجہ سے ایک انتہائی عمدہ تخلیق بن گئی ہے۔ ’ہیر رانجھا‘ اور ’سوہنی مہیوال‘ سے کہیں آگے بڑھ کر اس مثنوی میں المیہ کا حسن پیدا ہوا ہے۔ تینوں عشقیہ کہانیاں ہیں اور تینوں کا انجام المناک ہے لیکن مقیمی نے خاکے کو مرتب کر نے میں فنکاری کا جو معیار قائم کیا ہے اس سے المیہ کا جمال قاری کے احساس و جذبے کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ کہانی کا سحر انجام سے کچھ پہلے گرفت میں لے لیتا ہے اور پھر انجام کو حد درجہ سحر انگیز بنا دیتا ہے۔
کہانی، کردار ، کرداروں کے اندازِ گفتگو اور طرزِ ادا کے پیشِ نظر ’چندر بدن و مہیار‘ کو کلاسیکی درجہ حاصل ہے۔ ابن نشاطی نے ’پھولبن‘ اور سراج اور نگ آبادی نے اپنی غزل میں ’چندر بدن و مہیار‘ کو تلمیح کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس سے قبل گولکنڈہ میں غواصی کی مثنوی ’سیف الملوک اور بدیع الجمال‘ آ چکی تھی۔ مقیمی اس سے متاثر بھی تھا، کہتا ہے:
تتبع غواصی کا باندیاں ہوں میں
سخن مختصر یہ کے ساندیا ہوں میں
ملانا، جوڑنا
عنایت جو اس کی ہوئی مج پر
(مجھ)
یو تب قلم قصّہ کیا سر بسر
’سیف الملوک و بدیع الجمال‘ سے بچ کر نکل جانا آسان نہ تھا لیکن اس کے باوجود مقیمی نے اپنی انفرادیت نمایاں کی ہے، غواصی کے اسلوب و آہنگ سے کچھ متاثر ہونے کے باوجود اپنی ایک راہ نکالی ہے۔ مثنوی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مقیمی کے دل میں غواصی کا بڑا احترام تھا، اس سے انکار نہیں کہ ’سیف الملوک و بدیع الجمال‘ پیشِ نظر رہی لیکن مقیمی نے غواصی کی پیروی نہیں کی ہے۔ اس کی اپنی انفرادیت اسے اُردو ادب میں ایک مقام بخشتی ہے۔
مثنوی کی ابتدا حمد، مناجات، نعت، منقبت چہار یار سے ہوتی ہے۔ حمد میں ’توں قادر ہے قدرت کا صاحب دھنی‘ کہتے ہوئے مالک کی تخلیقات کے جلوؤں کو مختلف انداز سے دکھایا ہے۔ اللہ نے آدم میں روح پھونکی، اللہ ہی نے نوح کی کشتی کو طوفان سے بچایا، اسی کا کرشمہ تھا کہ نمرود کی آگ میں خلیلؑ ڈالے گئے اور آگ گلزار میں تبدیل ہو گئی۔ اللہ ہی کی وجہ سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا سایہ امت پر قائم ہوا۔ سلیمانؑ کو بادشاہی ملی اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نبوت ختم ہوئی۔ اللہ غیر مجسم ہے نرنکار ہے، رحمن وہی ہے، وہی اندھیرے کو روشنی میں تبدیل کرتا ہے:
رحیما خلق پر تو رحمان ہے
نرنکار بے چوں تو سبحان ہے
(غیر مجسّم)
اندھیارا کرے اور اُجالا تُہیں
(توہی)
او چاوے سلاوے تعالیٰ تہیں
(اٹھانا زندہ کرنا)
بہت دلکش حمد ہے، یہاں عام مثنویوں کی حمد کی طرح رسم نبھانے کی بات نہیں ہے، شاعر کی نظر کائنات کے حسن و جمال پر پھسلتی رہی ہے۔ شاعر ایک معصوم بچے کی طرح اشیا و عناصر کو دیکھ رہا ہے، اندازِ بیان میں ایک بھولپن ہے۔ مصرعے پڑھتے ہوئے سرور کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اللہ پاک کی تعریف کرتے ہوئے ایک معصوم ذہن کا مشاہدہ بھی ہے اور ایک تجربہ کار شخص کا تجربہ بھی، دونوں کی ہم آہنگی متاثر کرتی ہے:
چندا تجھ حکم سوں (سے ) نکلتا ا ہے (ہے )
کہ بڑتا (بڑھتا)ہے دائم و گھٹتا ا ہے
سورج نِت (ہمیشہ)گرم دھوپ بارے سدا
و و مشرق تھے (سے ) مغرب سدھارے سدا
اور :
توں ایسا دھنی سب سیتے (سے )بے نظیر
تہیں ہے علیٰ کلِ شئیٍ قدیر
زمیں پر کتے(کتنے ) دھات گلشن کیا
سوالوان نعمت سوں (سے ) روشن کیا
مشاہدے اور تجربے کی ہم آہنگی کی یہ عمدہ مثال ہے۔
اسی طرح مناجات، نعت اور منقبت میں اچھے اشعار ملتے ہیں، مقیمی خود کو زبان کا سچا جوہری بتاتے ہوئے (زبان کا اتا ہوں سچا جوہری۔ کروں نِت سخن سو گہر گستری) ’چندر بدن و مہیار کا قصّہ شروع کرتا ہے:
سو چندر بدن ہور مہ یار کا
کہوں ایک قصّہ گہر بار کا
’چندر بدن‘ ایک راجا کی بیٹی ہے، انتہائی خوبصورت:
اتھی خوب صورت میں جیوں شہ پری
و لیکن پری سوں اتھی برتری
لطافت میں موزوں و شیریں سخن
ا تھا ناؤں اس کا سو ’چندر بدن‘
’مہیار‘ غریب نوجوان ہے، صاحب جمال ہے۔ فصاحت بلاغت پر فاضل ہے، ایک مندر کے قریب کھڑا ہے کہ جہاں شیو راتری منائی جا رہی ہے۔ اچانک دعا کرتا ہے:
الٰہی مجھے خوب صورت دکھا
یرم کا پیالہ سدا مجہ چکھا
پھر یکا یک اللہ مہربان ہو جاتا ہے:
یکایک رحمان ہوا مہرباں
دیا اس کوں معشوق کاویں نشاں
اس کی نظر چندر بدن پر پڑتی ہے جو اپنی سہیلیوں کے ساتھ شیو راتری منانے مندر میں اکٹھی ہوئی ہے، چندر بدن بھی اسے دیکھتی ہے بس دونوں ایک دوسرے پر عاشق ہو جاتے ہیں۔ راجکماری کے ذہن میں ماہیار بس جاتا ہے۔ مندر میں آرتی اُتارتے وقت محبوب کا چہرہ ہی سامنے آتا ہے۔ ماہیار اپنے عشق کا اظہار صاف صاف کر دیتا ہے:
نزک جا کے بولیا کہ سن اے پری
(نزدیک)
مجے تجہ لطافت دیوانہ کری
(مجھے ) (تیری)
دیوانہ ہوں تیرا، دیوانے کے تئیں
اپس تے نہ کر دور جانے کے تئیں
(اپنے پاس سے )
’چندر بدن‘ اسے جھڑک دیتی ہے۔ وہ راجا کی بیٹی ہے ہندو ہے ماہیار غریب ہے مسلمان ہے، بھلا ملاپ کیسے ممکن ہے لیکن دل میں محبت کی چ نگاری سلگ چکی ہے۔ واپس جا کر برہ کی بھٹی میں جلنے لگتی ہے، مقیمی اس کی کیفیت اس طرح پیش کرتے ہیں:
برہ کی ّبھٹی کی لگا راک تن
سٹیا پھاڑ کپڑے ہو چالاک تن
سگل ہوش تن کی دیوانی ہوئی
(تمام)
دیکھو خوار اس کی جوانی ہوئی
جوانی کی خواری بہت ہے بری
جوانی کی زینت ہے زینت گری
دوسری طرف ماہیار کا حال بھی کچھ اسی طرح کا ہے:
کہ عاشق یکایک برہ کا اسیر
لگا خاک موں کوں ہوا جوں فقیر
راجا اپنی بیٹی کے ساتھ ماہیار کے رشتے کو قبول نہیں کرتا، ماہیار جدائی کی تاب نہ لا کر اس دنیا سے گزر جاتا ہے۔ اس کا جنازہ جب راجا کے محل کے سامنے پہنچتا ہے تو رُک جاتا ہے۔ آگے بڑھتا ہی نہیں ہے۔ چندر بدن کو مہیار کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو غسل کر کے اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے جہاں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ مہیار کا جنازہ آگے بڑھنے لگتا ہے۔ جب تابوت سے قبر میں اتار نے کا وقت آتا ہے تو سب دیکھتے ہیں کہ چندر بدن کی لاش بھی مہیار سے لپٹی ہوئی ہے! دونوں لاشیں جیسے ایک دوسرے سے چمٹ گئی ہیں مجبوراً دونوں ایک ہی قبر میں اُتارے جاتے ہیں۔ مہیار کے جنازے کا ڈرامائی منظر اس طرح پیش ہوا ہے:
اٹھانے چلے ویں جنازے کے تئیں
قدم کس اوٹھے نئیں اندازے کے تئیں
کریں قصد جتنا گورستان پر
چلیا نیں جنازہ سو میدان پر
یزداں حکم کیتا وہ عالی جناب
کہ جاتا جدھر کوں لجاؤ شتاب
کہ جس راہ پرتے و و چندر بدن
چلی تھی قدم رکھ اپس گھر کدن(طرف)
چلاویں اودھر کو توجانے لگیا
نئیں تو اٹک کر نہ جانے لگیا
پچھیں شہ کہیا یو جنازہ کہاں
(اس کے بعد)
کہ جاتا جدھر کوں لجاؤ ناواں
چلیا جیوں جنازہ ادھر لے چلے
رہیا پھر اٹک اس محل کے تلے
ہوا شور یکدم بہ یکبارگی
کہ اٹکیا جنازہ سو اوس ٹھار بھی
سنی یو خبر جوں کہ چندر بدن
کہ اٹکیا جنازہ اپس گھر کدھن
سو چھپ کر چھجے پر ہوئی سوار و و
تماشے بدل آکھڑی نار و و
خبر سن عجائب یو رنگر اپتی
نکل بھار آیا تجسّس ستی
ہوئی دیکھ حیراں خلق بھوت یوں
کہ قدرت سوں اٹکیا جنازہ سو کیوں
دیکھیا شاہ، تدبیر چلتا نئیں
جنازہ یہاں تے نکلتا نئیں
بزاں بول بھیجا سوراجے کے پاس
سلام ہور حقیقت بدست خواص
کہ اٹکیا جنازہ چھجے تل حضور
اوسے دفن کرنا ہمن پر ضرور
ولے یو یہاں تے نکلتا نئیں
قضا یو کسی پر سمجھتا نئیں
گماں ہے ہمن پر کہ چندر بدن
کرے کچ ہنر تو یو پاوے دفن
اس کے بعد جو ہوا اس کا ذکر کر چکا ہوں۔
مقیمی کی اس مثنوی کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ’فنکار شاعر‘ نے کہانی، اس کی تشکیل و ترتیب کی جانب خاص توجہ دی ہے۔
قصّے کی اہمیت اس وقت بڑھتی ہے جب اس میں ڈرامائی کیفیتیں پیدا ہوں۔ مثنوی چندر بدن و مہیار میں کئی ڈرامائی مناظر سامنے آتے ہیں جن کی وجہ سے قصّے میں کشش پیدا ہوئی ہے۔ دونوں مرکزی کرداروں کے تعارف کے بعد ہی جو منظر سامنے آتا ہے وہ حد درجہ ڈرامائی ہے، شیو راتری میں عبادت کے لیے چندر بدن آتی ہے اور مندر کے سامنے مہیار پر نظر پڑتی ہے، دونوں پہلی نظر میں ایک دوسرے پر عاشق ہو جاتے ہیں۔ یہاں جو مکالمے ہیں وہ ڈرامائی انداز کے ہیں۔ ابتدا ہی میں محبت کا انکشاف ہو جاتا ہے۔ سماجی اقدار کی اہمیت نہیں رہتی، محبت کے درمیان عقیدہ مذہب نہیں آتے۔ عشق روح کا نور ہے، عشق روحانی عظمت عطا کرتا ہے۔ عقیدہ مذہب کی بات کر کے چندر بدن اس وقت واپس محل چلی تو جاتی ہے لیکن مہیار کے لیے تڑپتی بھی ہے۔ برہ کی آگ میں سلگتی ہوئی چندر بدن کو دیکھ کر اس کی کنیز نورتن مدد کرتی ہے۔ نورتن کی ماہیار سے ملاقات بھی ایک عمدہ ڈرامائی منظر پیش کرتی ہے۔ اسی طرح نورتن کی مدد سے چندر بدن اور مہیار کی ملاقات بھی ڈرامائی انداز میں ہوتی ہے۔ تنہائی میں پیار و محبت کی باتیں بھی متاثر کرتی ہیں اور عاشق اور محبوب کا عمل بھی متاثر کرتا ہے۔ ملاقات کے اس منظر میں لطیف گفتگو اور عمل سے ایک ڈرامائی فضا بن جاتی ہے۔ دونوں کی آخری ملاقات کا ڈرامائی منظر بھی سحر انگیز ہے۔ مہیار کے جنازے کے رُک جانے اور پھر قبر میں اُتار نے سے پہلے تابوت کے کھلنے کے مناظر تحیر کے جمال (Aesthetic of Wonder) کو پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس مثنوی کا جمالیاتی معیار بلند ہو گیا ہے۔ المیہ کا حسن جس طرح اُبھرا ہے اس کی مثال آسانی سے نہیں ملے گی۔ بلاشبہ ہاشمی بیجاپوری کی مثنوی ’قصّہ‘ میر باقر آگاہ کی مثنوی ’غرقابِ عشق‘ میر تقی میر کی مثنوی ’دریائے عشق‘ مصحفی کی مثنوی ’بحرال محبت‘ سیّد محمد والا کی مثنوی ’طالب و موہنی‘ اور شاہ تراب کی مثنوی ’عشق صادق‘ میں انجام کا منظر اسی طرح پیش کیا گیا ہے۔ یعنی موت کے بعد عاشق اور محبوب ایک دوسرے میں جذب نظر آتے ہیں لیکن ان میں المیہ کا جمال نہیں ہے، تحیر کے جمال کی وجہ سے اور حیرت انگیز جمالیاتی انکشاف کی وجہ سے ’چندر بدن و مہیار‘ کا فنّی اور ادبی معیار جتنا بلند ہے ان مثنویوں میں کسی کا معیار اتنا بلند نہیں ہے۔ حیرت انگیز منظر اس طرح پیش ہوا ہے:
ہوا جیوں عمل سب قبر کا تمام
اٹھیا دفن کر نے کوں شہ نیک نام
شہا دیکھ کر قدرتِ بے نیاز
کہ عاشق جنازے کا کیتا نماز
منگیاں جو قبر میں اُتاروں اسے
دفن کر دنیا سوں بساروں اسے
جو دیکھیا جنازے میں مہیار کوں
تو ہے جفت مل کر سو اس نارسوں
کفن بیچ آ کر او چندر بدن
گلے لگ کے سوتی ہے جوں ایک تن
گلے اس لگے پرت پیار سوں
پرت در محبت کی مہیار سوں
جدا ان کو ہر چند کر نے لنگے
کہ دونوں کوں دو ٹھار دھر نے لنگے
نکیتے اپس جدائی پذیر
کہ تھے عاشقاں میں یو دوبے نظیر
تو یوں لگ اپس میں و و سوتے اتھے
جدا و و کسی تے نہ ہوتے اتھے
مثنویوں میں المیہ قصّے تو بہت پیش ہوئے ہیں لیکن ’چندر بدن و مہیار‘ کی طرح تحیّر کے حسن اور المیہ کے جمال کو اس طرح لیے کوئی نظر نہیں آتا۔ شاعر نے آخری ڈرامائی منظر کو پیش کرتے ہوئے احساس اور جذبے کو متاثر کر نے کی فنکارانہ کوشش کی ہے۔ اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ابتدا سے کلائمکس تک کشمکش اور تصادم کی فضا قائم رہتی ہے۔ محبت فتح حاصل کرنا چاہتی لیکن عقائد اور مذاہب اور طبقات رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ کلائمکس کے بعد ہی انجام سامنے آ جاتا ہے محسوس ہوتا ہے جیسے عقائد، مذاہب طبقات سب متحیر ہیں۔
**
اُردو کی طبع زاد کلاسیکی مثنویوں میں وجہی کی مثنوی ’قطب مشتری‘ (۱۶۰۷ء)کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اس کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پہلی بار مثنوی کے کینوس پر داستانی خصوصیت لیے چند دلچسپ نقش ابھارے گئے ہیں۔ انسان کے جذبۂ عشق کو داستان کی رومانیت کی ’روشنی اور سائے ‘ میں اُجاگر کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ منظوم داستان کئی لحاظ سے نقشِ اوّل کی صورت سامنے لاتی ہے۔
چند بزرگ محقق اور نقاد ’قطب مشتری‘ کے بارے میں ’اُونچا وچار‘ نہیں رکھتے۔ مولوی عبدالحق نے تحریر کیا ہے:
’’اگرچہ وجہی نے بہت کچھ دعویٰ کیا ہے اور تعلی کی ہے لیکن یہ مثنوی کوئی اعلیٰ درجہ کی نہیں ہے۔‘‘ (’قطب مشتری‘ ، ملا وجہی، مرتبہ مولوی عبدالحق، صفحہ ۱۶)
پروفیسر گیان چند صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ وجہی کی یہ مثنوی مختصر بھی ہے اور اس میں منظر کشی، سراپا نگاری، جذبات کی عکاسی اور واقعات کی پیشکش میں وہ فنکارانہ بصیرت اور ژرف نگاہی نظر نہیں آتی جو احمد گجراتی کی مثنوی ’یوسف زلیخا‘ یا غواصی کی ’سیف الملوک و بدیع الجمال‘ یا ابنِ نشاطی کی ’پھولبن‘ میں دکھائی دیتی ہے۔‘‘ (تاریخ ادب اُردو ۱۷۰۰ء تک، جلد سوم، ص:۳۵۴)
ان خیالات پر تبصرہ کرنا نہیں چاہتا، صرف اتنا عرض کرنا چا ہوں گا۔ کہ اُردو کی یہ کلاسیکی مثنوی ۱۶۰۷ء کی ہے، قدیم اور قدیم ترین مثنویوں میں اس کا شمار ہے۔ اُردو کی ابتدائی تخلیقات اپنی بعض خوبیوں اور زبان کی ابتدائی منزلوں کے پیشِ نظر خواہ مخواہ کی بے رحم تنقید کا تقاضا نہیں کرتیں، بہتر تنقید تو وہ ہے جو تخلیق کے حسن کو ٹٹولے اور پالے۔ سچائی یہ ہے کہ قدیم مثنویوں کی درجہ بندی بھی کی جائے تو مثنوی ’قطب مشتری‘ کو ایک ممتاز درجہ یقیناً حاصل ہو گا۔ یہ مثنوی مختصر ہے تو یہ اس کی خامی نہیں ہے۔ منظر کشی، سراپا نگاری، جذبات کی عکاسی اور واقعات کی پیشکش میں فنکارانہ بصیرت نہیں ہے تو کیا ان کے تعلّق سے ’یوسف زلیخا‘ اور ’سیف الملوک و بدیع الجمال‘ میں فنکارانہ بصیرت ہے کہ جن سے ’قطب مشتری‘ کا خواہ مخواہ مقابلہ کیا گیا ہے۔ اس قدیم مثنوی کی اپنی خامیاں ہوں گی یا ہیں لیکن ساتھ ہی کچھ محاسن بھی تو ہوں گے کہ جن کی روشنی میں شاعری کی روایات اور شاعر اور وقت کے مزاج کو سمجھا جا سکتا ہے۔ وجہی کمزور شاعر نہیں ہے ایک قادرالکلام شاعر ہے۔ مثنوی کی جو تکنیک وضع ہوئی تھی یا ہو رہی تھی اس کی تراش خراش میں بلاشبہ وجہی بھی شامل ہے۔ داستانی قصّے کہانیاں، داستانی واقعات اور داستانی تکنیک کی اپنی خامیاں بھی ہیں جو سفر کرتی رہی ہیں، داستانوں کا بڑا گہرا تعلّق لوک قصوں، کہانیوں سے ہے، اسطوری قصوں کے کرداروں اور ان کرداروں کے عمل اور ردِّ عمل سے ہے۔ لوک کہانیاں ادبیات میں داخل ہوتی ہیں تو اپنی تمام معصومیت اور بھولے پن کے ساتھ، اپنی کمزوریوں اور خوبیوں کے ساتھ۔ ’قطب مشتری‘ کے مرکزی کردار یعنی قطب اور مشتری حقیقی کردار ہو سکتے ہیں لیکن جو واقعات، حادثات وغیرہ پیش کیے گئے ہیں وہ حقیقی نہیں ہیں، داستانی اور افسانوی ہیں، فنکار وجہی کی اپنی تصویریں ہیں۔ ’قطب مشتری‘ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ممکن ہے اس کہانی کا کوئی تعلق کسی لوک کہانی سے ہو، اژدہا منہ سے آگ اُگلتا ہے، راکھشس کہ جس کے تین سر، چار ہاتھ اور بڑے بڑے دانت ہیں اور جوہر صبح نو ہاتھیوں کا ناشتہ کرتا ہے۔ ان کی موجودگی لوک کہانیوں کے فوق الفطری ماحول کی یاد تازہ کرتی ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلّق ہے کہ مثنوی کے کردار فوق الفطری کرداروں کو جھٹ چت یا ختم کر دیتے ہیں تو یہ بات داستانوں اور عوامی قصّوں میں بھری پڑی ہیں، عموماً ڈراؤنی اور بھیانک تصویریں ہی سامنے آتی ہیں، اپنے بہادر کرداروں کو کبھی تلوار چلانے کی ضرورت پڑتی ہے اور کبھی وہ اسمِ اعظم، تعویذ، دُعا، آیۃ الکرسی وغیرہ سے کام لے کر بلاؤں کو ہمیشہ کے لیے دُور کر دیتے ہیں۔ یہ اعتراض صرف ’قطب مشتری‘ پر کرنا نا انصافی ہے، ڈرامائی توازن پیدا کر نے کا شعور دنیا کے ہر ادب میں بہت دیر سے پیدا ہوا ہے ورنہ یہی حال ہر جگہ ہے۔ اُردو تحقیق و تنقید کا عجب حال رہا ہے۔ وجہی شیعہ تھا یا سنّی، ’قطب مشتری‘ کی کہانی قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی ہے یا نہیں؟ بھاگ متی کون تھی (حالانکہ بھاگ متی کا کوئی ذکر مثنوی میں نہیں ہے ) نو دریافت مقبرہ بھاگ متی کا ہے یا نہیں؟۔۔۔ ان باتوں میں اُلجھنے اور ان پر بحث کر نے سے اس مثنوی کا درجہ بلند ہو جاتا ہے اور نہ گھٹتا ہے۔ یہ مثنوی بھی ایک تخلیق ہے، تخلیق کیسی ہے اس کے محاسن کیا ہیں، اس کی جمالیاتی سطح کیسی ہے، جمالیاتی معیار کیسا ہے، اُردو کے کسی بھی کلاسیکی فنکار اور خصوصاً شاعر سے یہ توقع رکھنا کہ وہ مثنوی میں اقدار کی کشمکش کی عمدہ تصویریں ابھارے گا غلط ہے۔ مثنوی کی ایسی تکنیک بھی مرتب ہوتی ہے کہ جس کی ابتدا حمد، نعت، منقبت وغیرہ سے ہوتی، حاکم وقت کی ستائش کی جاتی ہے پھر ایک عشقیہ کہانی بیان کی جاتی ہے۔ کہانی میں دلچسپی پیدا کر نے کے لیے داستانی خصوصیات پیدا کی جاتی ہیں، فوق الفطری ماحول کی تشکیل ہوتی ہے۔ عجیب الخلقت کردار سامنے لائے جاتے ہیں، کہانی طربیہ ہوئی تو ہیرو ہیروئن کی شادی ہوئی، المیہ ہوئی تو دونوں ایک ساتھ مر گئے، ایسا بھی ہوا ہے کہ دونوں مر کر ایک دوسرے میں چپک گئے ہیں اور انھیں ایک ہی قبر میں اُتارا گیا ہے۔
’قطب مشتری‘ کا شاعر وجہی ایک اچھا شاعر ہے، اپنی صلاحیتیوں سے واقف ہے، خدا، رسول، معراج وغیرہ کی شان میں بڑی باتیں کرتے ہوئے اپنی ذات کو بھی موضوع بناتا ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھی ذکر کرتا ہے۔ کبھی کبھی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ ایسا کرنا پڑتا ہے (غالب نے بھی ایسا کیا تھا اور اپنے دور میں فراق صاحب کو بھی یہ کرنا پڑا تھا) وجہی کہتا ہے:
دو جگ جس اتم ہیرے کا مول ہے
وہ ہیرا سو ہر اِک میرا بول ہے
رتن بے بدل یو میرے جاں بکائیں
وہاں چاند سورج دلالی نہ پائیں
بچن موتی یو دے کر نیت لاج تے
سمد پانی گل کر ہوا لاج تے
کہ مانک موتی یو اتم ذات کے
نئیں دیکھیا میں کئیں اس دھات کے
’در شرحِ شعر گوید‘ کے عنوان سے وجہی نے شاعری کے تعلق سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ یہ اثرات اس لیے بھی اہم ہیں کہ اس دور میں شاعری کے بارے میں بہتر سوچنے والوں کے تصور کی پہچان ہوتی ہے اور اس لیے بھی اہم ہیں کہ ان سے وجہی کی فکری اور ذہنی سطح اور ان کے تنقیدی شعور کا احساس ملتا ہے۔ چند اشعار سنیے:
کتا ہوں تجے پند کی ایک بات
کہ ہے فائدہ اس منے دھات دھات
جو بے ربط بولے توں بتیاں پچیس
بھلا ہے جو یک بیت بولے سلیس
سلاست نئیں جس کیرے بات میں
اسے شعر کہنے سو کچ کام نئیں
نکو کر تو لئی بولنے کی ہوس
اگر خوب بولے تو یک بیت بس
نولاسی ہور نازک کہاں ہور موسل جیسی لاٹ
چندن کیرے رتی بھلی تا بھار ابھر کر کاٹ
ہنر ہے تو کچ نازکی برت یاں
کہ موٹاں نئیں باندتے رنگ کیاں
دو کچ شعر کے فن میں مشکل اچھے
کہ لفظ ہور معنی یو سب مل اچھے
اگر نام ہے شعر کا تجکوں چھند
چنے لفظ لیا ہور معنی بلند
کم و بیش ۷۴، اشعار ہیں جو وجہی کے نظریۂ شعر پر روشنی ڈالتے ہیں۔
شعر کے حسن پر وجہی کی نظر جس طرح پڑی ہے وہ توجہ طلب ہے۔ شاعری کی جمالیات پر اس سے پہلے کسی اُردو شاعر کی نگاہ نہیں تھی۔ شاعری میں معنی آفرینی اور اسلوب کے حسن دونوں کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے سادگی اور سلاست پر زور دیا ہے۔ بے ربط ’بتیاں ‘ کو پسند نہیں کرتا، سادگی کے حسن کو پسند کرتا ہے کہتا ہے سادگی کے حسن کے ساتھ ایک ہی سلیس بات کہی جائے تو وہ بہت سی بے ربط گنجلک باتوں سے بہتر ہے۔ اسی طرح اسلوبِ شعر میں سلاست ضروری ہے، جو لوگ باتوں میں خوبصورت ربط پیدا نہیں کر سکتے انھیں شعر کہنا ہی نہیں چاہیے، باتوں کے ربط کے بغیر بھلا وہ شاعری کس طرح کر سکتے ہیں۔ اکثر شاعروں پر بولتے رہنے کا بھوت سوار ہو جاتا ہے، زیادہ بولنے کی ضرورت کیا ہے، شاعری تو اختصار اور اختصار کے حسن کا تقاضا کرتی ہے اچھی اور بڑی بات کے لیے ایک ہی ’بیت‘ کافی ہے۔ انتخابِ الفاظ پر وجہی کی نظر بڑی گہری ہے۔ کہتا ہے:
اگر نام ہے شعر کا تجکوں چھند
چنے لفظ لیا ہور معنی بلند
شاعر چاہتا ہے کہ اس کے کلام میں معنی و مفہوم بلند ہوں تو الفاظ کے حسنِ انتخاب پر اسے گہری نگاہ رکھنا ہو گی۔ الفاظ ہی خیال کو روشن اور پُر نور بناتے ہیں، الفاظ کی چمک دمک اور اس کے ’خوب سنگار‘ سے تجربے کے رنگ اُبھرتے ہیں۔ بعض شعرا ایسے ہیں جو شعر کہتے تو ہیں لیکن ان کے اشعار میں الفاظ ایک طرف ہوتے ہیں اور معنی دوسری طرف جو کہتے ہیں اور جس انداز سے کہتے ہیں ان کا نقش معنی و مفہوم میں جذب ہی نہیں رہتا، یہ شعر کہاں رہتے:
یو سب شعر کہتے یو سب شعر نئیں
کہ بولاں کدھر ہور معنی کہیں
شاعر تو جوہری ہوتا ہے، اسے الفاظ میں اپنے خیال کے لیے رتن کی تلاش ہوتی ہے، اچھی پرکھ کے بعد رتن منتخب کرتا ہے۔ اچھی شاعری کے لیے شاعر کو غواص بننا پڑتا ہے، لاکھوں برس غواصی کیجیے پھر بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا اور جب حاصل ہوتا ہے تو بس حاصل ہو جاتا ہے سمندر سے موتی حاصل ہو جاتا ہے۔ غور کیجیے اس دور میں شاعر نے تخلیقی عمل پر کس طرح غور کیا ہے۔ شاعر کا ذہن کتنا گہرائیوں میں اُترا ہے۔ اس دور میں وجہی کی تنقیدی فکر و نظر، معنی آفرینی، اسلوب کے حسن، لفظوں کے خوبصورت انتخاب، سادگی کے حسن، بے ربط باتوں سے گریز، اختصار کے حسن، تجربوں کی بہتر تلاش اور تخلیقی عمل وغیرہ کو موضوع بناتی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے اور بہت بڑی بات یہ بھی ہے کہ وجہی کی شاعری معنی، بیان اور بدیع کے پیشِ نظر ہمیں مایوس نہیں کرتی، ابتدا سے آخر تک شعر کا ایک عمدہ معیار قائم ہے۔ جو بڑی باتیں کہی ہیں اُن پر عمل بھی کیا ہے۔ ’قطب مشتری‘ میں معنی آفرینی بھی ہے اور صوری حسن بھی، بے ربط باتوں سے گریز ہے، سادگی کا حسن ہے، بھاری بھر کم اور مشکل الفاظ سے دُور رہنے کی کوشش ہے۔ شاعر دکھن کی میٹھی زبان پر عاشق ہے:
دکھن میں جو دکھنی مِٹھی بات کا
ادا نیں کیا کوی اس دھات کا
۔۔۔۔۔۔۔۔
سخن گو وہی جس کی گفتار تھے
اُچھل کر پڑے آدمی ٹھار تھے
وجہی کی اس تخلیق میں جو روانی اور سلاست ہے وہ واقعہ اور الفاظ کی وجہ سے ہے، بات کر نے کا انداز ایسا ہے کہ بات بس دل میں جا بیٹھی ہے۔
ان باتوں کے پیشِ نظر بھی اس شاعر کی جتنی قدر کی جائے وہ کم ہے۔ اس کلاسیکی فنکار نے ایک طبع زاد کہانی پیش کی ہے۔ فارسی اور عربی قصوں، کہانیوں میں عشقیہ مضامین بھرے پڑے تھے۔ شعرا اپنی مثنویوں کے لیے ان ہی عشقیہ کہانیوں سے مواد حاصل کر رہے تھے لیکن وجہی نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے طبع زاد عشقیہ کہانی کو فوقیت دی۔
’قطب مشتری‘ کے عشق کو داستانی رنگ دیا گیا ہے، کہانی ایک خواب کے دھندلکے سے باہر نکلتی ہے، شہزادہ قطب خواب میں ایک خوبصورت دو شیزہ کو دیکھتا ہے اس پر عاشق ہو جاتا ہے۔ صبح اس پر ایک دیوانگی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے بس روتا ہی رہتا ہے، بادشاہ کو خبر ملتی ہے تو وہ ایران، چین، گجرات، کرناٹک جانے کہاں کہاں سے خوبصورت دوشیزاؤں کو جمع کر دیتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ ان میں کوئی نہ کوئی شہزادے کو رجھائے گی، اعلان کرتا ہے:
قطب شہ کوں جب کوئی ریجھائے گی
بڑا مرتبہ سب میں و و پائے گی
لیکن خواب کے دھندلکے میں جس کا چہرہ اُبھرا تھا وہ اپنا ثانی کب رکھتا تھا، اس کا مقابلہ تو کوئی بھی نہیں کر سکتا تھا، قطب شاہ کی حالت میں (جو دیکھیا ا تھا خواب میں ماہ کوں!):
محبت کے بھونرے میں بگیا ہوں میں
دیوانا ہو یاری کوں بلگیا ہوں میں
جو دیکھیا ا تھا خواب اس رات کوں
سو اس خواب کی راز کی بات کوں
کدھیں دل میں راکھے کدھیں موں میں لیائے
کدھیں کوچ بولے کدھیں کوچ چھپائے
بادشاہ پریشان ہو کر اپنے عہد کے سب سے بڑے مصور عطارد سے بات کرتا ہے۔ عطارد کہتا ہے اس وقت سب سے خوبصورت دوشیزہ بنگالے کی شہزادی مشتری ہے، جس کی تصویر اس کے پاس ہے۔ اس کے حسن و جمال کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر وہ سنگار کر کے آئے تو ستارے شرمندہ ہو کر چھپ جائیں۔ اس کے حسن کو دیکھ کر حوریں شرمانے لگتی ہیں۔ کہتا ہے:
انکھیاں لال اُس نار ناراں کیاں
کہ موتی اُپر جیوں جڑے مانکیاں
اچھے مول بیچ تین جھم کنے
کہ مچلیاں ہیں سورج کے چشمے منے
تماشے دسے اس منے دھات دھات
غضب زہر ہور لطفِ آبِ حیات
دسے پتلی یوں نازکی آنک میں
کہ بیٹھا بھنو آنب کی پھانک میں
جو عاشق ہو کر جیو اس دھات لاے
غصّے تے مرے پیارتے جیو پاے
جسے حور کہتے سودھن جھانوں ہے
دنیا میں چھوٹی حور کا نانوں ہے
جو بنگالے کا سحر جیو گھات ہے
سو اس مشتری نار کی بات ہے
بنگالے سحر کوں جویاں لاتے ہیں
سو اس کے ادھر اس کو پچتاتے ہیں
بنگالے شکر کوں جو میٹھائی ہے
سو میٹھائی دھن لب تے دور پائی ہے
اپس نیچ دکھلا کے و و شوخ نار
سورج چاند تارے ملا ایک ٹھار
سنپر سحر منتر کے داواں تلیں
ابھالاں لڑیں اُس کے پاواں تلیں
انچل اس مصلیٰ ہے جبریل کا
سیہ تل سو سبحہ سرا فیل کا
رکھے نار و و ناز سوں پگ جہاں
سورج چاند سجدا کریں آ وہاں
ایک مصوّر کی زبان سے یہ باتیں کہی گئی ہیں، مشتری کے حسن و جمال اور اس کی شخصیت کی مٹھاس کو حد درجہ محسوس بنا دیا گیا ہے۔ ایک مصور کی زبان سے جو باتیں سامنے آئی ہیں ان سے ایک انتہائی خوبصورت دو شیزہ کی تصویر بن جاتی ہے۔ بنگالے کے سحر کی رومانیت اور بنگالے کی شکر اور مٹھاس سے اشعار میں بڑی کشش اور لذت پیدا ہو گئی ہے۔ چاند، سورج، آبِ حیات، حور، سحرِ بنگال، بنگالے کی شیرینی، جنتر منتر، جسم، لباس، آنچل (جبریل کا مصلیٰ) سیہ تل وغیرہ سے ایک دل فریب فضا بنتی ہے۔ وجہی کے احساسِ جمال کی پہچان مشکل نہیں ہے۔ شاعر اپنے عہد کا ایک بڑا حسن پسند فنکار ہے، اس مثنوی میں کئی مقامات پر اس کی حسن پسندی متاثر کرتی ہے۔ حسن کی سادگی اور پُر کاری کو اسلوب کی سادگی کے حسن میں پیش کرنا آسان نہیں ہوتا۔ حسن پسندی اور جمالیاتی شعور و احساس کی پہچان جہاں حمد، مناجات، نعت، ذکر معراج اور منقبت میں ہوتی ہے، وہاں خواب کے منظر (صفت مجلس طرب) اور مشتری کے محل کی تزئین و آرائش کے بیان (آراستنِ محل مشتری) میں بھی ہوتی ہے۔ اُردو مثنویوں کی جمالیات پر جب بھی کام ہو گا وجہی کے جمالیاتی احساس و شعور اور ’قطب مشتری‘ کے جمالیاتی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ (قلی قطب شاہ اور مشتری کے وصال کی تصویر بھی حد درجہ رومانی اور جمالیاتی فضا لیے ہوئی ہے ) عطارد کی لائی ہوئی تصویر پر شہزادے کی نظر پڑتی ہے تو وہ فوراً پہچان لیتا ہے کہ جو اس کے رومانی خواب میں نظر آئی تھی وہ یہی ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ شہزادہ عطارد کے ساتھ بنگالے جانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ دونوں سوداگر کے بھیس میں سفر پر روانہ ہوتے ہیں، راستے میں کئی طرح کی مصیبتیں آتی ہیں۔ ایک اژدہا ملتا ہے، جس سے مقابلہ ہوتا ہے، اژدہے کو دیکھ کر یہ تاثرات اُبھرتے ہیں:
بلند ایک مینڈا پڑاں واں نظر
دو مشعل جھمکتے اتھے اُس اُپر
دو رنگ تھے اسے رنگ سیہ ہور سفید
کدھیں ہوئے پرگٹ کدھیں ہوئے نہ پید
جو مینڈا وہاں تھا سو یکا یک وہاں
لگیں دسنے چنگیاں سوں ٹکر دھواں
کہے اس عطارد کوں شاہ جہاں
کینے آگ روشن کیا ہے یہاں
جواب اُس یا یوں عطارد پھرا
بڑا ایک رہتا ہے یاں اژدہا
مینڈا نئیں یو اُس اژدہا کا ہے تن
دو مشعل ہیں اس اژدہا کے نین
کہ جبڑا سو چیوں غار محکم اھے
دھواں نیں یو اس سانپ کا دم ا ہے
اٹھی آگ شعلے شفق کھم ستی
سو اس ناگ تے آتشیں دم ستی
نکلتا ہے شعلیاں سوں دم ناگ کا
کہ بادل برستا ہے جیوں آگ کا
یہاں ایک ڈرامائی تصویر پیش کی گئی ہے، جس سے مثنوی کے حسن میں یقیناً اضافہ ہوتا ہے۔ جب وہ قلعہ گلستاں پہنچتے ہیں تو مہتاب پری شہزادے پر عاشق ہو جاتی ہے۔ شہزادہ بھی اس کے ساتھ عیش کر نے لگتا ہے۔ عطارد اجازت لے کر بنگالہ چلا جاتا ہے۔ شہزادہ مشتری کے محل کے پاس ہی مصوری شروع کر دیتا ہے، اس کے فن کی شہرت بڑھتی ہے تو مشتری اسے محل بلوا کر کہتی ہے کہ عطارد محل کے در و دیوار کو منقش کر دے، انھیں اپنی خوبصورت تصویروں سے سجا دے، عطارد اس کام میں مصروف ہو جاتا ہے، مشتری اس کے فن کے کمال کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتی ہے۔ عطارد اپنی مصوری کے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہزادہ قطب کی تصویر بھی بنا دیتا ہے پھر وہی ہوتا ہے جو ہونا چاہیے تھا، مشتری اس تصویر پر عاشق ہو جاتی ہے، عطارد شہزادے کو بلا لیتا ہے۔ مشتری اور شہزادہ دونوں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر نے لگتے ہیں، دکن آتے ہیں تو ان کی شادی ہو جاتی ہے اور بادشاہ قطب شاہ کو اپنی سلطنت دے دیتا ہے۔ شہزادے اور عطارد کے سفر میں ایک ضمنی کہانی بھی شامل ہو جاتی ہے اور وہ ہے حلب کے بادشاہ سرطان خاں کے وزیر اعظم اسد خاں کا بیٹا مریخ خاں۔ وہ بھی خواب میں کسی دوشیزہ کو دیکھ کر عاشق ہو گئے تھے اور دیوانہ وار اس کی تلاش میں نکلے تھے۔ یہ دوشیزہ زہرہ ہے جو بنگالہ کی شہزادی ہے۔ اسے ایک راکھشس پکڑ لیتا ہے۔ شہزادہ آیۃ الکرسی کا حصار باندھ کر راکھشس کو مغلوب کر دیتا ہے اور اسے قتل کر دیتا ہے۔ مریخ خاں آزاد ہو جاتا ہے اور شہزادے اور عطارد کے ساتھ بنگالے کے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔ اس کی محبوبہ بھی بنگالے میں ہے۔ اسے زہرہ مل جاتی ہے اور وہ بھی خوشی خوشی زندگی بسر کر نے لگتا ہے۔
اس کہانی کو دلچسپ بنانے کے لیے جو داستانی خصوصیات شامل کی گئی ہیں ان میں چند یہ ہیں:
’تلاش کا عمل ‘ داستانوں کی بنیادی اور سب سے امتیازی خصوصیت ہے۔ تلاش آبِ حیواں کی ہو یا کسی اژدہے کے منہ سے نکلے ہوئے سُرخ روشن قیمتی پتھر کی، کسی شہزادہ کی ہو یا پُر اسرار اور حیرت انگیز علاقوں کی کہ جہاں سحر اور طلسمات سے عام لوگوں کی زندگی بندھی ہوئی ہو۔ فارسی اُردو منظوم اور منشور داستانیں تلاش کے عمل ہی کو زیادہ اہمیت دیتی رہی ہیں۔ تلاش کے عمل ہی میں قدم قدم پر پُر اسرار اور جنبی تجربوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے جس سے داستان کی دلچسپی قائم رہ سکتی ہے۔ حاتم طائی کی کہانیوں میں تلاش کا عمل ہی بنیادی جوہر ہے۔ حاتم طائی کی کہانیوں میں تلاش کے عمل کو جتنا پیش کیا گیا ہے شاید ہی کسی اور کہانی میں پیش کیا گیا ہے۔ ’قطب مشتری‘ میں شہزادی مشتری کی تلاش کہانی کی روح ہے۔
دکن سے بنگالہ تک کا سفر شہزادے اور عطار دونوں کے لیے، اذیتوں اور مصیبتوں کا سفر ہے، طوفان گھیر جاتے ہیں، پہاڑجیسے اژدہوں سے مقابلہ ہوتا ہے، ایک راکھشس کے ٹھکانے تک پہنچ جاتے ہیں، وہاں مریخ خاں سے ملاقات ہوتی ہے، بڑے بڑے دانت اور ہر صبح نو ہاتھیوں کا ناشتہ کر نے والا راکھشس ملتا ہے۔ شہزادہ جھٹ آیۃ الکرسی پڑھ کر حصار باندھ دیتا ہے اور راکھشس کو قتل کر دیتا ہے:
’’و وراکسس کے بالاں میں سانپاں ہیں یوں
چچوندے پڑے اچتے بیلاں ہیں جیوں
صبا اٹ نہاری کرے نو ہتی
کہ ملعون و و ہے بڑا نکبتی‘‘
’قلعہ گلستاں ‘ پہنچتے ہیں تو وہاں مہتاب پری مل جاتی ہے جو جھٹ شہزادے پر عاشق ہو جاتی ہے، دونوں عیش و عشرت میں ڈوب جاتے ہیں (معلوم نئیں مشتری آتیں یاد بھی رہتی ہے یا نئیں ) کہانی میں اس وقت حرکت پیدا ہوتی ہے جب ایک خوبصورت داستانی ماحول میں عطارد شہزادے کی تصویر بناتا ہے اور مشتری اس پر عاشق ہو جاتی ہے۔ مصوری کا عمل قطب اور مشتری کے باہمی ملاپ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
داستان کے ہیرو بہت خوبصورت ہوتے ہیں، چاند سورج اسے دیکھ کر شرمندہ ہو جاتے ہیں، ہر فن کے ماہر ہوتے ہیں، پہلوان وہ ہوتے ہیں، تیرا انداز وہ ہوتے ہیں، تلوار بازی میں اُن کا جواب نہیں ہوتا، وہ دیو راکھشس کو پچھاڑ سکتے ہیں۔ لیکن ان تمام صفتوں کے باوجود وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار نہیں کرتے، دشمن سے جب بھی کوئی مقابلہ ہوتا ہے کوئی پیر فقیر، سادھو مہاتما، کوئی خضر سامنے آ جاتا ہے یا پھر وہ خود دعائیں پڑھ کر یا اپنی تعویذ چوم کر دُعا کرتے ہیں اور کامیابی حاصل ہو جاتی ہے۔
یہی حال ’قطب مشتری‘ کے ہیرو قطب شاہ کا ہے۔ ہر فن کے ماہر ہیں لیکن دوسرے داستانی ہیرو ہی کی طرح عمل کرتے نظر آتے ہیں۔
داستان کے ہیرو کی ایک ’خصوصیت‘ یہ ہے کہ محبوب یا معشوقہ کی تلاش میں پاگل ہو کر نکلتے تو ہیں لیکن جہاں بھی راہ میں کوئی خوبصورت عورت یا پری مل گئی تو اس کے ساتھ عیش کر نے لگتے ہیں، جام کا دور چلنے لگتا ہے، عیش و عشرت میں گم ہو جاتے ہیں۔ ’قطب مشتری‘ کے ہیرو قطب شاہ کے کردار کی بھی ’’یہی خصوصیت ہے‘‘ وہ بھی راہ میں ایک پری کے ساتھ عیش و عشرت کے لمحے بسر کرتے ہیں۔
عشقیہ داستانوں میں ہیرو ہیروئن کے علاوہ کوئی تیسرا کردار ہی زیادہ اہم رول ادا کرتا ہے۔ یہ تیسری شخصیت بڑی متحرک ہوتی ہے۔ مثنوی سحر البیان میں بھی ایک عورت کے رُوپ میں ایک تیسری شخصیت موجود ہے۔
’قطب مشتری‘ میں عطارد تیسری شخصیت ہے۔ اس کی حیثیت مرکزی ہو جاتی ہے، بادشاہ اور شہزادے کو مشتری کی تصویر دکھاتے ہی اس کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس کا تحرک کہانی کے آخر تک قائم رہتا ہے۔ بلاشبہ عام داستانوں کی طرح ہیرو کے کردار کی کمزوریاں اس مثنوی میں بھی ہیں، قطب شاہ کا کردار بھی اس طرح روایتی بن جاتا ہے۔ عام طور پر لوک کہانیوں میں بھی شہزادوں اور راجکماروں کو زیادہ ’زحمت‘ نہیں دی جاتی۔ جنگلوں، پہاڑوں، بیابانوں اور دیو عفریتوں کی دنیا میں راجکماروں اور شہزادوں کی موجودگی میں دوسرے لوگ حالات سے ٹکراتے اور معاملات سلجھاتے ہیں۔
وجہی ایک استاد فن کار ہے۔ مثنوی، غزل، مرثیہ، رباعی سب میں اپنی انفرادیت نمایاں کرتا ہے، نثر ی ادب (سب رس) ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ شاعری میں اس نے اسلوب کے ساتھ معنویت کے جمال کو بھی بڑی اہمیت دی ہے۔ ’معنویت‘ کو محبوب کا درجہ دیتا ہے۔ کہتا ہے:
جو معنی ہے معشوق بھو دھات کا
پنایا ہوں کسوت اسے بات کا
’قطب مشتری‘ اپنے اسلوب کی سادگی کے حسن کی وجہ سے بھی زندہ رہے گی۔ شاعر نے معنویت یا تجربے پر کہیں بھی طرزِ نگارش کی چمک دمک کو ترجیح نہیں دی ہے۔ وجہی خود نقاد اور عارف ہے (دکنی شعرا نے ناقد کے لیے ’عارف‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے جو میری نظر میں بہت معنی خیز اور خوبصورت اصطلاح ہے ) اس نے خود شاعری کے جمال اور معیار پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ عارف اور فنکار دونوں جوہری ہوتے ہیں، جوہر کو پہچانتے ہیں:
جہاں پاچ اچھے گا وہاں کاچ کیا
جہاں دودھ اچھے گا وہاں چھاچ کیا
نہ یو بات ہر ایک کے سات ہے
جکوئی عارف ہے اس سوں یو بات ہے
’قطب مشتری‘ شعر کی بے تکلفی اور بے ساختگی کا بھی ایک عمدہ معیار پیش کرتی ہے۔
’قطب مشتری‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک اور بات بہت اچھی لگی اور وہ یہ کہ واقعات کے درمیان میں کہیں غزل ملتی ہے اور کہیں رباعی۔ یہ دونوں ’’بھرتی کی چیزیں‘‘ نہیں ہیں، ان سے واقعات کو سمجھنے اور کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد ملی ہے۔ واقعات کی تشریح کے لیے رباعیوں سے خوب کام لیا گیا ہے۔
’قطب مشتری‘ کی منظر نگاری، تشبیہیں،(دسے تل اس مُکھ میدان میں، کہ حبشی بچے ّ ہے گلستان میں ) مکالمہ نگاری، استعارے، تلمیحیں سب توجہ طلب ہیں، یہ سب علیحدہ مطالعہ کا تقاضہ کرتی ہیں۔ بلاشبہ اُردو کی طبع زاد کلاسیکی مثنویوں میں ’قطب مشتری‘ ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔
**
ابن نشاطی کی مثنوی ’پھولبن‘ (۱۰۶۶ھ۱۶۵۵/ء) کو اُردو کی بہترین مثنویوں میں ممتاز درجہ حاصل ہے۔ ’داستانیت‘ اور خصوصاً ’داستانی رومانیت‘ کی وجہ سے اس کا ایک جاذبِ نظر جمالیاتی معیار قائم ہو گیا ہے۔
ابن نشاطی نے احمد حسن دبیر کی ایک فارسی داستان ’بساتین الانس‘ کا اثر قبول تو کیا تھا لیکن تخیل نگاری اور دلکش طرزِ نگارش کی وجہ سے ’پھولبن‘ کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہو گئی ہے، ایک عمدہ جمالیاتی معیار قائم کر نے میں شاعر کی رومانیت نے بڑا حصّہ لیا ہے۔ اس رومانیت کی پہچان تخلیّت، جذبوں کے رنگ ’"سی‘ (Fantasy) فضا آفرینی اور کرداروں کے تحرک سے ہوتی ہے۔ ’پھولبن‘ کے مطالعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ شیخ محمد مظہر الدین شیخ فخر الدین ابن نشاطی عمدہ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک تھے، فنکار شاعر تھے، ۱۷۴۴، اشعار کی اس مثنوی میں فنکار کے بعض انتہائی خوبصورت نمونے ملتے ہیں موج قدیم اُردو کے حسن و جمال کے تئیں بیدار کرتے ہیں۔
مثنوی ’پھولبن‘ داستان کی کئی خصوصیتوں کو لیے ہوئے ہے۔ پھر بھی اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں قصّے سے قصّہ پیدا نہیں ہوتا، کئی قصّوں کی ایک وحدت ملتی ہے، ہر قصّے کی اپنی انفرادی حیثیت ہے۔ ایک قصّہ ختم ہوتا ہے تو دوسرا قصّہ شروع ہوتا ہے۔ تمام قصّے دلچسپ ہیں۔ حسن و عشق کے معاملات اور پُر اسرار زندگی کی رنگا رنگی میں کشش محسوس ہوتی ہے۔ ابن نشاطی کی حسن پسندی کی پہچان قدم قدم پر ہوتی ہے۔ کنچن پٹن کا بادشاہ خواب میں جس درویش کو دیکھتا ہے اسے دربار میں بلواتا ہے۔ یہ زاہد قصّے سناتا ہے۔ کشمیر کے بادشاہ کے باغ کے گل و بلبل کا قصہ، سوداگر کے بیٹے اور گجرات کے عابد کی بیٹی کا قصہ، سوداگر کا بیٹا چین کے نقاش کا قصّہ سناتا ہے اور نقل روح کی کہانی بیان کرتا ہے۔ ایک وزیر سمن بر اور ہمایوں فال کی محبت کی داستان سناتا ہے، یہ داستان مثنوی ’پھولبن‘ کی روح ہے۔ جو کردار اہم ہیں ان میں سمن بر، ہمایوں فال، مکاّر وزیر، ختن کے سوداگر کا بیٹا، گجرات کے عابد کی بیٹی، دغا باز وزیر اور رانی ستونتی وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
ابن نشاطی کی حسن پسندی کی پہچان مثنوی کی ابتدا ہی سے ہونے لگتی ہے۔ کنچن پٹن کی بے پناہ خوبصورتی کا بیان اس طرح ہوا ہے:
کتے یک شہر مشرق کے کرن تھا
کہ اس کا نانوں سوں کنچن پٹن تھا
حصار اس کا تھا دریا کے کنارے
دسے خندق ہو دریا تس بند ہارے
کنچن کا خوب اسے چوگرا تھا کوٹ
کنچن پورہ اس کنچن کی تھی کوٹ (کنارے )
کنچن کے تِس اوپر تویاں زنبورے
کنچن برجاں پو کنچن کے کنگورے
کنچن کے تھے کنگر، کنچن کی تھی گچ
کنچن کوں گال باندے تھے کنچن برج
کنچن کے تھے محل، کنچن کی دیوار
کنچن پر پھر کنچن لیپے تھے ہر ٹھار
کنچن کے تِس اوپر توپ ضرب زن
کنچن کے مغریباں تھے ہور فلاخن
کنچن کی تھی زمین کنچن کی جھاڑاں
گھراں کنچن کے کنچن کے کواڑاں
جدھر دیکھے بی کنچن تھا کنچن تھا
اسی تے نانو اس کنچن پٹن تھا
آگے اس شہر کی تصویر اس طرح ابھرتی ہے:
یتے اونچے تھے اس گھر کے دیواراں
النگ ناسک رہے تھے واں ابھالاں
کدھیں بارا چو چڑنے اس پوجاوے
ہو ماند دم میں آچڑنے نہ پاوے
منگے سورج جو ہونے کاند تھے بھار
تو لگتے تھے النگنے اس کو دوپا
جوہر سے جب سرج اس کاندتے بھار
دسے تب رات کے، عالم میں اندکار
گگن کے تل کیں ایسا شہر نادر
نیں دیکھے تھے انکھاں (آنکھیں )کے مسافر
گراس پنہائی کوں جاوے جو پانے
کرے دو چار منزل درمیانے
حصار اس کا دریا کے تھا کنارے
دیسے خندق ہو دریا تس بھندارے
زمیں پر شہر بھی ایسا ہے گر کیں
کسی کا ناں کے جاسوساں سنے نیں
عجب تاثیر تھا واں کی ہوا کا
سدا ہنگام تھا نشو و نما کا
سُکی لکڑی اگر کئی لاکو گاڑے
و و لکڑی سبز ہو شاخاں کو کاڑے
بکھیرے تو زمیں پر واں کی کانٹے
و و پھٹتے ہو کر پھولاں کے پھانٹے
محلاں میں چتر گر کئی لکھاوے
چتر حرکت میں دو حد حال آوے
وہاں چشمے جو نکلے تھے زمیں تے
مٹھائی میں میٹھے تھے انگبیں تے
اگر یک قطرہ کئی ان نیر کالے
جو ازمانے کے تیں دریا تیں ڈالے
تو اس تایثر نے سمدور رکھارا
عجب نیں تھا میٹھا ہوئے تو سارا
سدا خوش حال تھے سب لوگ واں کے
تھے خاطر جمع، واں کے ساکناں کے
دلاں کے آہواں سب کے سداکال
جفا کے تیر سوں تھے فارغ البال
عجب کچھ فیض تھا واں آسمانی
بُڈے پاتے تھے پھر تازہ جوانی
خوشی کا میگ اچھے جم واں برستا
ا تھا اس دھات سوں دو شہر بستا
دیکھو اس شہر کے شہ میں اتھے لُسن دن دو خاصیت
یکے آداب اسکندر دگر ادراک لقمانی!
سونے کی لنکا کی طرح سونے کا شہر ہے، ہر جانب سونا آنکھیں چکا چوند ہو جاتی ہیں، سونے کے محل، سونے کی دیواریں، سونے کنگورے، سونے کی زمین، سونے کی جھاڑاں، تمام گھر سونے کے، تمام کواڑ سونے کے، چونکہ ہر جانب جدھر دیکھیے سونا ہی سونا تھا اس لیے اس شہر کا نام کنچن پٹن تھا۔ آسماں کے نیچے انسان کی آنکھوں نے ایسا نادر شہر نہیں دیکھا تھا۔ زمین سے جو چشمے نکلتے تھے ان کی مٹھاس غیر معمولی تھی۔ آب و ہوا کی تاثیر ایسی تھی کہ ہر جانب نشو و نما کے خوبصورت منظر بکھرے نظر آتے تھے۔ کسی شخص کو کسی بات کی چیز کی کمی نہ تھی، سب خوشحال تھے۔ ماحول ایسا تھا کہ بڈھے نئی جوانی پاتے رہتے تھے۔ تمدن کی پہچان اگر ایک جانب آدابِ سکندر سے ہوتی تھی تو دوسری جانب ادراکِ لقمانی سے۔
ابن نشاطی کی رومانیت نے کنچن پٹن کے حسن کو حد درجہ محسوس بنانے کی کوشش کی ہے۔ شاعر کے رومانی ذہن نے کہانی شروع کر نے سے قبل ایک خوبصورت ماحول خلق کر دیا ہے۔ کنچن کا حسن اور اس حسن کا جوہر ہر جانب ٹپکتا محسوس ہونے لگتا ہے، سونے کے رنگ اور اس کی چمک دمک کے ذکر سے تخیلی شہر کا ایک عمدہ پیارا سا خاکہ ذہن میں مرتب ہو جاتا ہے۔ ابتدا ہی سے ایک جاذبِ نظر جمالیاتی معیار کے بننے کا احساس ملنے لگتا ہے۔ داستانوں میں جو مقامات ملتے ہیں وہ عموماً پُر اسرار اور طلسمی ہوتے ہیں۔ ’کنچن پٹن‘ کوئی پُر اسرار یا طلسمی شہر نہیں ہے۔ سونے سے دمکتا ہوا یہ شہر ایک بادشاہ کی دین ہے، شہر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ دولت سے مالا مال ہے، ہر جانب خوشحالی ہے، تمدن ایسا ہے کہ یہ دولت سے مالا مال ہے، ہر جانب خوشحالی ہے، تمدن ایسا ہے کہ آدابِ سکندر کی یاد آتی ہے اور عقل و دانش کو دیکھ کر ادراکِ لقمانی کی جانب ذہن پرواز کرتا ہے۔
قصّے سناتے ہوئے ابن نشاطی کا رومانی جمالیاتی رجحان اکثر شدت سے نمایاں ہوا ہے۔ اس کی بہتر پہچان جزئیات نگاری میں ہوتی ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ بھی ہے کہ ابن نشاطی کا شعری اسلوب بہت سادہ ہے اس میں سادگی کا حسن اس وقت ابھرا ہے جب رومانی جمالیاتی رجحان میں شدت پیدا ہوئی ہے۔ قصّوں کی دلکشی اور بھی بڑھ جاتی ہے جب اس قدیم اُردو کی سادگی اپنے حسن سے متاثر کر نے لگتی ہے:
دیا سو فیض پھر جگ کوں دو چنداں
ہوئے پھولاں شگفتے ہور خنداں
جو تھے غنچے کے طفلاں نین کھولے
بندے پھل ڈال کے، مرغاں ہنڈولے
اٹھیا تھا پھول کا سب ٹھار مہکار
کھلے تھے پھول جھاڑوں پر ہر اِک ٹھار
کلیاں لالے کی سرمے کیا نشانیاں
دسے یا قوت کی ہو سرمہ دانیاں
کلی ہور پھول مل دستے تھے اس دھات
کہ جوں چھپ کو کوئی کرتے رہے بات
دسے ہاون کلی کا ہو کو، لالا
دسیا اس میں لگے تیوں مشک کالا
دسے یوں پھول میں لالے کے کالے
چواجیوں لعل کے پیالے میں گھالے
پڑے دُکھ بلبلاں سن نغمہ سنجی
لگیاں سب کو پلاں گانے کرنجی
چمن کی دیکھ ہزاروں خوش قماشی
لگے کر نے نوی مضمون تراشی
بدل کے نیرسوں گل ترکئے لب
مچھلی پانی سوں سبزے دھوے کلو سب
دو ایسے وقت شہ مجلس کیا تھا
ارم کا زیب، مجلس کوں دیا تھا
سمن برباغ کوں آتی کہ سن باغ
بچھایا تھا چمن میں پھول چن باغ
چمن پھر نے کوں دو آتی کہ مقبول
دو رستا کھڑے تھے بار بند پھول
مدن مد کی متی آتی کہ لالے
کھڑے تھے ہت میں لے مئے کے پیالے
چمن کے نرگساں، آتی کہ دو نار
پسار انکھیاں رہے تھے ناپلک ہار
تھی، ہو گر منتظر آوے تو دو دھن
دُعا کر کے کون دس جیباں سوں سوسن
کلیاں دھن کے دہن کوں کھول کر آنگ
تھے چھپ کر دیکھتے پاتا میں تے جھانک
بھنور پھولاں پو بیٹھے سو دسے یوں
کہ مکھ پر گل رخاں کے خال ہے جیوں
پھریں پھولاں پو بلبل کھول یوں بال
کہ اُڑتے ہیں پتنگ جیوں شمع اُپراں
قدیم اُردو کی بوطیقا کی تاریخ میں محمد قلی قطب شاہ اور ابن نشاطی دو ایسے ممتاز فنکار ہیں کہ جنھوں نے شعری تجربوں کے فارم کی تراش خراش اور تشکیل میں نمایاں حصّہ لیا ہے۔ واقعہ یا کہانی کو پہلے اپنے جمالیاتی تجربے میں جذب کرنا اور پھر اسے ایک جمالیاتی صورت یا ’فارم‘ دینا تخلیقی کام ہے۔ محمد قلی قطب شاہ نے بھی یہ کام کیا ہے اور ابن نشاطی نے بھی۔ ابن نشاطی نے ’پھولبن‘ میں ہر قصّے کو اپنی رومانی جمالیاتی وژن سے سنوارا ہے۔ ہر قصّے کو ایک جمالیاتی تجربہ بنا دیا ہے۔ مثنوی پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے ہر منظر ہر واقعہ سامنے ہے۔ ہم بہت قریب سے ہر واقعے کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ خصوصیت اُردو کی بہت ہی کم مثنویوں میں ملے گی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کرداروں کے احساسات اور جذبات سادگی کے حسن کے ساتھ اس طرح بیان ہوئے ہیں کہ لگتا ہے ہم ان احساسات اور جذبات کو بخوبی جانتے بوجھتے ہیں۔ ابن نشاطی نے کرداروں کی نفسیاتی کینوس پر بھی نظر رکھی ہے جو بڑی بات ہے۔ بلبل کی کہانی میں کرداروں کی نفسی کیفیتوں کی پہچان زیادہ ہوتی ہے۔
’پھولبن‘ کی پُر اسراریت اور اس کی ’"سی‘ (Fantasy) سے رومانی جمالیاتی رویے کی قدرو قیمت کا اور اندازہ ہوتا ہے۔ داستانی واقعات میں جو پُر اسراریت ہے اس سے جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ سمن بر اور ہمایوں فال کی کہانی میں پُر اسراریت بھی ہے اور ’"سی‘ بھی۔ شاہِ ہند کے خزانے میں ایک مچھلی ہے جس پر طلسم تحریر ہے، اگر اسے پانی میں ڈال دیں تو وہ چلتی ہوئی دریا کی گہرائیوں میں اتر جائے گی اور گہرائیوں کی سچائیاں لکھ کر لے آئے گی۔ اسی مچھلی سے پتہ چلتا ہے کہ شہزادے کو ایک مچھلی نگل گئی تھی اسے ہضم نہ کر سکی لہٰذا سمن کے جزیرے پر اگل آئی۔ پریوں نے اسے قید کر لیا ہے۔ اس کے بعد ہی تلاش کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ابن نشاطی نے اس مقام کی انتہائی خوبصورت تصویر پیش کی ہے کہ جہاں شہزادہ پریوں کی گرفت میں ہے بادشاہ کہتا ہے:
خزینے میں مرے ہے ایک مچھلی
نہ مچھلی اس کے سم کوی آوے سچلی
کیے ہیں اس کوں حکمت سوں حکیماں
گھڑے ہیں بھوت صنعت سوں حکیماں
طلسم اس پر لکھے ہیں خوب اوّل تی
سٹے پانی میں تو آ پیچ چلتی
حقیقت قصر کا جنساں کنے سوں
لکھا لاتی ا ہے پانی منے سوں
خبر بارے اوّل شہزادے کا لیو
تمیں منگتے ہیں جیوں بعد از سزا دیو
منگا بیگی سوں اس مچھلی کوں درحال
کہے تیوں لے کے پانی میں اسے ڈال
و مچھلی اس حقیقت کی خبر لے
نکل کر آئی دو دن کوں پترلے
اس کے بعد سمن بر ایک ایسے جزیرے پر پہنچتی ہے جو ’سورگ بن‘ تھا، ہر جانب سرو کے درخت تھے، حوروں کی مانند درختوں کی ڈالیاں ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں۔ سبزہ زمرد کا فرش تھا:
بہر حال یک جزیرے پر پڑی دھن
جزیرا و نہ تھا تھا یک سرگ بن
اچائے تھے سرا واں نونہالاں
تھے ڈالتے باؤسوں دونے کے ڈالاں
جدھر دیکھے بی جھاڑاں بار کے تھے
جتے بھی جھاڑطوبیٰ سار کے تھے
دسے رکھ، ڈال سوں مل ڈال اس دھات
لیے ہیں اچھڑیاں جوں ہات میں ہات
تھے چشمے نیر کے ہر ٹھار بھرکر
ہوا تھا چوکدھن سبزہ زمیں پر
دسے سبزہ زمیں پر یوں ہر یک جا
بچھائے پاچ کا لیا فرش گویا
پھرے تیکھاں وہاں سبزہ اُپریوں
ملک پھرتے زمیں پر پاچ کی جوں
لبھا کر دیکھتی ہے واں جو و ونار
محل دستا ہے یک پروپ اس ٹھار
محل ویسا نہ تھا بھی کیں زمیں پر
شک آتا ہے کنے کوں عرش تھا کر
مہندس فکر کا گم ہوکو تھا واں
تصور کا ا تھا طرآح حیراں
جتے اس فن کے تھے عالم میں استاد
رہیں دیکھ صورت دیوار کے ناد
تھے چشمے اس کے جیوں نیناں پریاں کے
دسے طاقاں بھواں جوں اچھڑیاں کے
جھلکتی یوں دسے ہر ٹیک دیوار
کہ جوں آئینہ رخساراں کے رخسار
دے سج اس ٹھار کا پست تھا کام
سرو قدوں کے قد تھے جیوں ہر ایک تھام
کرے تھے سنگ مرمرش اس ٹھار
وہاں لیپے تھے پانی کر کو بھینگار
نشان اس ٹھار پر نیں تھا چنے کا
ملمع واں کئے تھے سب سئے کا
ثر یا سار کے اس پر منارے
کنگورے ہور کلس چندو ستارے
فنکار کا رومانی جمالیاتی ذہن اسی طرح تیزی سے آگے جاتا ہے:
کہیں فرہاد کیں شیریں لکھے تھے
عجب کچھ صورتاں شیریں لکھے تھے
کہیں عذرا سوں مل وامق لکھے تھے
کہیں معشوق کیں عاشق لکھے تھے
چتر ایسا چتارے تھے چتارے
چتارے چین کے حیراں تھے سارے
ابن نشاطی نے ابتدا میں ایک تصویر ’کنچن پٹن‘ کی پیش کی تھی اب یہ دوسری تصویر سامنے آتی ہے۔ جمالیاتی فکر و نظر نے ایک نئی دنیا خلق کی ہے، یہ کنچن پٹن جیسی دنیا نہیں ہے۔ یہاں تحیر کا حسن ہے جس سے مثنوی ’پھولبن‘ کے جمالیاتی معیار کی بہتر پہچان ہوتی ہے۔
معروف ہندوستان معلم جمالیات بھامہا (Bhamaha) نے منظوم قصوں میں ڈرامائیت کو اہمیت دی تھی۔ مثنوی ’پھولبن‘ کا ہر قصّہ ڈرامائی خصوصیات رکھتا ہے۔ خارجی اور داخلی تصادم کی چند تصویریں خاص توجہ چاہتی ہیں مثلاً سمن بر اور ہمایوں فال کی جدائی کی تصویر اور رانی ستونتی اور دغاباز وزیر کے قصّے میں کرداروں کی کشمکش۔
بھامہا (Bhamaha) نے شعری اسلوب کی شیرینی (Madhurya) سادگی اور ستھرائی (Prasada) اور لفظوں میں احساس اور جذبے کی شدت (Ojas) کو بڑی اہمیت دی ہے۔ مثنوی ’پھولبن‘ کے شعری اسلوب میں یہ تینوں خصوصیات موجود ہیں۔ بھامہا نے لفظوں کی مٹھاس اور آواز اور آہنگ کے تعلّق سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان کے پیشِ نظر مثنوی ’پھولبن‘ کا جمالیاتی معیار زیادہ بلند نظر آتا ہے۔ بعض مقامات پر اسلوب کا حسن کرداروں کے درد اور کرب کو بھی محسوس بنا دیتا ہے۔ ابن نشاطی کا اندازِ بیان بلاشبہ اپنی خاص مٹھاس رکھتا ہے کہ جس کا اثر آہنگ پر ہوا ہے، استعاروں، کنایوں، تشبیہوں اور تلمیحوں کا مطالعہ کیا جائے تو اسلوب کی شیرینی اور متاثر کرے گی۔ سمن بر اور ہمایوں فال کے قصّے میں احساس اور جذبے کی شدت (Ojas) توجہ طلب ہے۔
بلاشبہ ابن نشاطی کی مثنوی ’پھولبن‘ اُردو کی ایک ممتاز مثنوی ہے!
**
حسن و عشق کے تعلق سے تخلیقی فنکار کوئی تجربہ پیش کرتا ہے تو وہ عموماً خوبصورت ہی ہوتا ہے، حسی کیفیتوں کے ساتھ پیش ہو تو اور بھی خوبصورت اور دلکش ہو جاتا ہے۔ میر تقی میرؔ کی نمائندہ مثنویوں کا موضوع حسن و عشق ہی ہے۔ ’مثنوی خواب و خیال‘ ، ’مثنوی شعلۂ شوق‘ (شعلۂ عشق) ’مثنوی معاملاتِ عشق‘ ، ’مثنوی جوشِ عشق‘ اور ’مثنوی دریائے عشق‘ وغیرہ کا بنیادی موضوع حسن و عشق ہی ہے، شاعر خود ایک حساس عاشق کا پیکر ہو تو حسی کیفیتیں اور بھی پرکشش بن جاتی ہیں۔ ’مثنوی خواب و خیال‘ ، ’شعلۂ شوق‘ اور ’معاملاتِ عشق‘ وغیرہ میں شاعر کے حساس عاشق کے پیکر کی پہچان مشکل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مثنویوں کے موضوعات کو آپ بیتی کہتے ہیں۔ جن مثنویوں میں مختصر عشقیہ اور رومانی فسانے پیش ہوئے ہیں وہ تجربوں کی گہرائیوں میں اُترتے ہوئے جانے کہاں چلے گئے ہیں۔ معلوم نہیں مابعد الطبیعاتی جمالیات (Metaphysical Aesthetics) کیا ہے لیکن یہ فسانے کچھ اسی قسم کی جمالیات کی جانب بڑھ گئے ہیں۔ سچائی یہ بھی ہے کہ ہر ایسی حسیاتی پیشکش (Sensuous Presentation) خوبصورت بن گئی ہے مثلاً:
خلق یک جا ہوئی کنارے پر
حشر برپا ہوئی کنارے پر
دام داروں سے سب نے کام لیا
آخر ان کو اسیر دام کیا
نکلے باہم ولے موئے نکلے
دونوں دست و بغل ہوئے نکلے
جو نظر ان کو آن کرتے تھے
ایک قالب گمان کرتے تھے
حیرتِ کار عشق سے مردم
شکل تصویر آپ میں تھے گم! (دریائے عشق)
مثنوی ’حکایتِ عشق‘ میں شادی شدہ لڑکی اپنے عاشق کی قبر پر پہنچتی ہے، قبر شق ہو جاتی ہے اور وہ قبر میں چلی جاتی ہے۔ اس کا شوہر قبر کھدواتا ہے تو ایک حیرت انگیز منظر سامنے ہوتا ہے یہ سب دیکھتے ہیں لڑکی مٍر چکی ہے، عاشق کے جسم سے لگی ہوئی ہے، دونوں کو جدا کر نے کی کوشش رائیگاں جاتی ہے!
’مثنوی عشقیہ‘ (افغان پسر) میں ایک شادی شدہ عورت کے شوہر کی موت ہوتی ہے، وہ ستی ہوتی ہے تو اس کا عاشق (افغان پسر) اس کی آواز پر آگ میں کود پڑتا ہے، اسے کسی صورت بچا لیا جاتا ہے، نصف جل چکا ہے، اسے ایک درخت کے نیچے بٹھا دیا جاتا ہے، اس کی محبوبہ کی روح آتی ہے اور اسے ساتھ لے کر جانے، کہاں چلی جاتی ہے ’مابعد الطبعاتی جمالیات‘ کی پُر اسراریت پچھلی دونوں مثنویوں کی طرح یہاں بھی ہے:
یہ بے تاب تھا آگ پر پھر پڑا
پتنگا تھا اس شعلے پر گر پڑا
لگے آتے تھے کتنے الفار ساتھ
وہیں کھینچ لائے اسے ہاتھوں ہاتھ
چلے ادھ جلا لے کے سب اس کو گھر
ہوا گرم ہنگامہ یہ اِک اِدھر
قدم کتنے چل کر وہ آتش بجاں
ہوا یوں سخن زن کہ اے دوستاں
لے آئے مجھے گرمی سے تم نکال
کیا گھر بھی لے چلنے کا اب خیال
نہیں متصل راہ چلنے کی تاب
کہ ہوں نیم سوز آگ کا میں کباب
کہیں مجھ کو سائے میں ٹھہرائیے
جو دم ٹھہرے تو آگے لے جائیے
کوئی دم مرا کھینچے انتظار
کہ گرمی سے ہوں بے خود و بے قرار
توقف کیا سب نے زیر درخت
کہا واقعی رنج کھینچا ہے سخت
نہ آتش نہ گرمی نہ بے طاقتی
بہانے سے سب جذب ہے الفتی
اگر آنکھیں کھلتیں تو اودھر نظر
ہوئی خاک معشوقہ جل کر جدھر
کیا منتظر اس کو وہ دن تمام
نظر کر کے کیا دیکھتا ہے کہ شام
خراماں چماں آتی ہے وہ میری
وہی ناز عشوہ وہی دلبری
اسی طرز و انداز و خوبی کے ساتھ
اُٹھایا اسے ہاتھ میں لے کے ہاتھ
گئے اس طرف لے جدھر تھی چلی
نظر کرتے تھے واقعی یہ سہی
ہوئے جاتے جاتے نظر سے نہاں
گیا عشق کیا جانے لے کر کہاں
بہت سے ہوئے لوگ گرم سراغ
کنھوں نے نہ پایا نشاں غیر داغ
نہ کر میر اب عشق کی گفتگو
قلم اور کاغذ کو رکھ دے بھی تو
غرض ایک ہے عشق بے خوف و باک
کیے دونوں معشوق و عاشق ہلاک (مثنوی عشقیہ)
میرؔ نے مختصر مثنویاں لکھی ہیں بنیادی موضوع عشق اور صرف عشق ہے، چند مثنویوں مثلاً ’خواب و خواب‘ ، ’معاملاتِ عشق‘ اور ’جوش عشق‘ میں وہ خود مرکزی المیہ کردار ہیں، چند مثنویوں مثلاً ’دریائے عشق‘ عشقیہ اور ’حکایتِ عشق‘ میں فسانے ہیں کہ جو اختتام پر پُر اسرار بن گئے ہیں۔ چونکہ مثنویوں میں بھی میرؔ کی پیاری، دلکش اور دل کو موہ لینے والی زبان ہے اس لیے سب پرکشش بن گئی ہیں، ان کی غزلوں کی روح ان مثنویوں میں بھی سرایت کر گئی ہے۔ غزلوں کا منفرد مزاج یہاں بھی متاثر کرتا ہے، درد، کرب و اضطراب کی وجہ سے تغزل کے ’رس‘ سے لذّت حاصل ہوتی ہے۔ مثنویوں کے بعض حصوں میں جذباتی کیفیتیں ایسی ہیں کہ جن سے وجدان کی سرمستی کی پہچان ہوتی ہے، خاص طور پر وہاں کہ جہاں وہ عشق کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، جلالی اور جمالی رویوں کی پہچان ہوتی جاتی ہے:
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
محبت مسبّب محبت سبب
محبت سے آتے ہیں کارے عجب
محبت ہے آبِ رُخ کار دل
محبت ہے گرمیِ آزارِ دل
محبت عجب خوابِ خوں ریز ہے
محبت بلائے دل آویز ہے
محبت کی آتش سے اخگر ہے دل
محبت نہ ہو وے تو پتھر ہے دل
محبت لگاتی ہے پانی میں آگ
محبت سے ہے تیغ و گردن میں لاگ
اس آتش سے گرمی ہے خورشید میں
یہی ذرے کی جان نومید میں
کوئی شہر ایسا نہ دیکھا کہ واں
نہ ہو اس سے آشوبِ محشر عیاں
کب اس عشق نے تازہ کاری نہ کی
کہاں خون سے غازہ کاری نہ کی
زمانے میں ایسا نہیں تازہ کار
غرض ہے یہ، اعجوبۂ روزگار
(مثنوی شعلۂ شوق)
عشق ہے تازہ کار و تازہ خیال
ہر جگہ اس کی اِک نئی ہے چال
دل میں جا کر کہیں تو درد ہوا
کہیں سینے میں آہِ سرد ہوا
کہیں آنکھوں سے ہوکے خون بہا
کہیں سر میں جنون ہوکے رہا
گہ نمک اس کو داغ کا پایا
گہ پتنگا چراغ کا پایا
واں طپیدن ہوا جگر کے بیچ
یاں تبسم ہے چشم تر کے بیچ
کہیں باعث ہے دل کی تنگی کا
کہیں موجب شکستہ رنگی کا
کسو چہرے کا رنگ زرد ہوا
کسو محمل کی رہ کی گرد ہوا
طور پر جاکے شعلہ پیشہ رہا
بستیوں میں شرارِ تیشہ رہا
ایک عالم میں درد مندی کی
ایک محفل میں جاسپندی کی
ایک دل سے اُٹھے ہے ہو کر دود
ایک لب پر سخن ہے خوں آلود
کہیں بیٹھے ہے جی میں ہو کر چاہ
کہیں رہتا ہے قتل تک ہمراہ
کہیں شیون ہے اہل ماتم کا
کہیں نوحہ ہے جانِ پُر غم کا
نمکِ زخم سینہ ریشاں ہے
نگہِ یاس مہر کیشاں ہے
کشش اس کی ہے ایک اعجوبہ
ڈوبا عاشق تو یار بھی ڈوبا
جس کو ہو اس کی التفات نصیب
ہے وہ مہمان چند روزہ غریب
ایسی تقریب ڈھونڈ لاتا ہے
کہ وہ ناچار جی سے جاتا ہے
(دریائے عشق)
کچھ حقیقت نہ پوچھ کیا ہے عشق
حق اگر سمجھو تو خدا ہے عشق
عشق عالی جناب رکھتا ہے
جبرئیل و کتاب رکھتا ہے
(معاملاتِ عشق)
جن مثنویوں میں اختتامیہ پُر اسرار ہیں وہ عشق کے رس سے سرشار ہیں اس حد تک کہ وہ تحیر کے جمال کے مناظر بن گئے ہیں۔ میر نے جو Visual Sensation پیش کر نے کی کوشش کی ہے وہ ان کی عمدہ تخلیقی فنکاری کا ثبوت ہے۔ ’دریائے عشق‘ ، ’حکایتِ عشق‘ اور ’مثنوی عشقیہ‘ کے آخری منظر المناک ہیں لیکن ایک ممتاز شاعر کے المیہ مناظر ایسے المیہ تجربے بن جاتے ہیں جو جمالیاتی لذّت اور جمالیاتی انبساط عطا کر نے لگتے ہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ Visual Sensation کے ساتھ ہی جمالیاتی لذّت حاصل ہونے لگتی ہے۔ ان مثنویوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے۔ میرؔ کی مثنویوں میں اہم فسانے نہیں ملتے اور کردار نگاری کی جانب بھی کوئی توجہ نہیں ملتی۔ عشق کے دلکش دھوئیں میں دو تین کرداروں کے پُر اسرار سائے نظر آتے ہیں چہرے دھندلے ہیں اس لیے یکسانیت نظر آتی ہے۔ ملتے جلتے چہرے میں سایوں کے تحرک کا انجام ایک جیسا ہی ہوتا ہے، تحیر کے جمال کا تاثر ملتا ہے اور سائے گم ہو جاتے ہیں، ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
جن مثنویوں (’خواب و خیال‘ ، ’معاملاتِ عشق‘ ، ’جوشِ عشق‘ ) میں میرؔ خود المیہ کردار ہیں وہ بھی عشقیہ ہیں اور المیات کے حسن کو نمایاں کرتی ہیں۔ ’مثنوی خواب‘ و خیال میں عشق نے جنوں کی صورت اختیار کر لی ہے:
جگر جور گردوں سے خوں ہو گیا
مجھے رکتے رکتے جنوں ہو گیا
مرکزی المیہ کردار ترکِ وطن کرتا ہے، عشق کے جذبے سے سرشار ٹوٹ سا جاتا ہے، درد و غم کو سینے میں دبائے اکبر آباد سے دلی آتا ہے، اپنی ذہنی کیفیت اپنے احساسات اور اضطراب کو اس طرح پیش کرتا ہے:
مجھے یہ زمانہ جدھر لے گیا
غریبانہ چندے بسر لے گیا
بندھا اس طرح آہ بارِ سفر
کرے زادِ رہ کچھ نہ بارِ سفر
گرفتارِ رنج و مصیبت رہا
غریبِ دیارِ محبت رہا
چلا اکبر آباد سے جس گھڑی
در و بام پر چشم حسرت پڑی
کہ ترکِ وطن پہلے کیوں کر کروں
مگر ہر قدم دل کو پتھر کروں
دل مضطرب اشکِ حسرت ہوا
جگر رخصتانے میں رخصت ہوا
پس از قطع رہ لائے دلّی میں بخت
بہت کھینچے یاں میں نے آزار سخت
جگر جورِ گردوں سے خوں ہو گیا
مجھے رکتے رکتے جنوں ہو گیا
جنوں کی کیفیت اس طرح بیان کرتا ہے:
ہوا خبط سے مجھ کو ربطِ تمام
لگی رہنے وحشت مجھے صبح و شام
کبھو کف بہ لب مست رہنے لگا
کبھو سنگ در دست رہنے لگا
کبھی غرقِ بحرِ تحیّر رہوں
کبھو سر بہ جیب تفکّر رہوں
یہ وہم غلط کاریاں تک کچھا
کہ کارِ جنوں آسماں تک کچھا
اس مثنوی میں المیہ کردار نے اپنی یادوں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ مہتاب میں اپنے محبوب کے چہرے کو دیکھا:
نظر رات کو چاند پے جا پڑی
تو گویا کہ بجلی سی دل پر پڑی
مہ چار دہ آتش کرے
ڈروں یاں تلک میں کہ جی غش کرے
تو ہم کا بیٹھا جو نقشِ درست
لگی ہونے وسواس سے جان سست
نظر آئی اِک شکل مہتاب میں
کمی آئی جس سے خور و خواب میں
اگر چند پرتو سے مہ کے ڈروں
ولیکن نظر اس طرف ہی کروں
اس کی یادوں میں محبوب کا جلوہ بہت اہم ہے، آنکھوں، رخسار، دہن، گیسو، سب کی یاد آتی ہے۔ سب خوبصورت ا4 یا پیکر بن جاتے ہیں:
عجب رنگ پر شعلہ رخسار کا
مگر وہ تھا آئینہ گلزار کا
جو آنکھ اس کی بینی سے جا کر لڑے
دمِ تیغ پر راہ چلنی پڑی
مکاں کنج لب خواہش جان کا
تبسّم سبب کا ہش جان کا
دہن دیکھ کر کچھ نہ کہیے کہ آہ
سخن کی نکلتی تھی مشکل سے راہ
سزا ہے جگر اس کسو کے لیے
جو سیب زقن اس کا بو کر جیے
گل تازہ شرمندہ اس روسے ہو
خجل مشک ناب اس کے گیسو سے ہو
سراپا میں جس جا نظر کیجیے
وہیں عمر اپنی بسر کیجیے
کہیں مہ کا آئینہ در دست ہے
کہیں بادۂ حسن سے مست ہے
کہیں نقشِ دیوار دیکھا اسے
کہیں گرم رفتار دیکھا اسے
کہیں دل بری اس کو درپیش ہے
کہیں مائل خوبی خویش ہے
کہیں جملہ تن مہر صرف سکوں
کہیں مجھ سے سرگرم حرف سکوں
کہیں جلوہ پرداز وہ عشوہ ساز
کہیں ایستادہ بصد رنگ ناز
رہے سامنے اس طرح پر کبھو
رکھے وضع سے پاؤں باہر کبھو
بغل میں کبھو آرمیدہ رہے
کبھو اپنے بر خویش چیدہ ہے
کبھو صورت دل کش اپنی دکھائے
کبھو اپنے بالوں میں منہ کو چھپائے
کبھو گرم کینہ کبھو مہربان
کبھو دوست نکلے کبھو خصم جان
کبھو یک بہ یک پار ہو جائے وہ
کبھو دست بردار ہو جائے وہ
ہر اِک رات چندے یہ صورت رہی
اسی شکل وہی صحبت رہی
(مثنوی خواب و خیال)
میں نے اپنی کتاب ’میر تقی میرؔ کی جمالیات پر گفتگو‘ میں لکھا ہے کہ ’میر شرینگار رس‘ کے ایک ممتاز شاعر ہیں۔ عشق ہی شرینگار رس کا مرکز ہے، اس کے تحرک سے یہ رس اپنی شیرینی اور مٹھاس عطا کرتا ہے، غمناکی کی لیے یہ رس قاری کے جذبے کو صرف متاثر ہی نہیں کرتا بلکہ قاری کے باطن میں ’کتھارسیس‘ کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ شعور، احساس، تخیل سب متاثر ہوتے ہیں۔ غزل کی طرح میر کی مثنویوں کے ایسے حصّے بھی تڑپتے ہوئے، زخمی، قتل ہوئے، عشق کے مارے ہوئے عاشق کی کہانی ہے۔ عشق شرینگار رس کا بنیادی جذبہ ہے اور میرؔ کی شاعری عشق کے جذبے کی ایک ایسی شاعری ہے کہ ٹھٹھک کر دیکھتے رہنے کی خواہش ہوتی رہتی ہے۔ یہاں شرینگار رس کی تازگی لیے جو اشعار سامنے آئے ہیں وہ قابل توجہ ہیں، اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے اور یادوں کو سمیٹتے ہوئے میرؔ کا احساسِ جمال بھی متاثر کرتا ہے اور ان کی رومانیت بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ غور فرمائیے ’مثنوی خواب و خیال‘ کے ان اشعار میں حسن کا احساس کتنا گہرا ہے اور یادوں کی رومانیت میں شرینگار کی روح کس طرح اترتی ہے۔ ذہن کے ’کینوس‘ پر مختلف رومان انگیز لکیروں سے کتنی خوبصورت تصویر اُبھری ہے۔ جن مثنویوں میں میرؔ کی شخصیت المیہ کردار کی صورت نظر آتی ہے وہ صرف اس لیے اہم نہیں ہیں کہ وہ ’آپ بیتی‘ ہیں، وہ اس لیے زیادہ اہم ہیں کہ وہ ایک تخلیقی فنکار کے جمالیاتی شعور کی تخلیقات ہیں۔ شخصیت، ذات کی حیثیت ثانوی ہے، جمالیاتی تجربے ہی زیادہ اہم ہیں۔ شخصیت، ذات کے سوز و گداز کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت جمالیاتی تجربوں کے عطا کئے ہوئے روشن اور چمکتے ہوئے ہیروں کی ہے، ان استعاروں اور کنایوں کی ہے جو جمالیاتی تجربوں کی دین ہیں۔ اس بھرے پھل دینے والے درخت کو ضرور پہچانیے لیکن رس بھرے پھل کی لذّت ہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اس بات پر بھی غور کیجیے۔ کسی نے کہا تھا:
"To appreciate the lustre of the pearl you need not know the Oyster"
’اویسٹر‘ ایک ’شیل فیش‘ (Shell Fish) ہے جسے ’کستورا‘ کہتے ہیں، اس کے چھلکے میں اکثر بہت قیمتی موتی چھپے ہوتے ہیں، ان کی تابندگی، درخشانی اور چمک دمک ہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیا ضروری ہے کہ ہم اس کستور کو تلاش کرتے پھریں یا اسے جانیں کہ جس کے چھلکے سے کوئی قیمتی موتی نکلا ہے!
’اویسٹر‘ کوہی ڈھونڈھتے پھریں گے تو اندیشہ ہے کہ اس قیمتی موتی کو کھودیں گے۔ میرؔ کی ایسی مثنویوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔ ہم کستورا ہی کو ڈھونڈتے رہے ہیں اب تک، موتی‘ کے حسن و جمال کی جانب توجہ ہی نہیں دی ہے۔ میر صاحب کو یقیناً کسی سے عشق ہوا ہو گا، اُن پر جنون کی کیفیت بھی طاری ہوئی ہو گی ’ذکر میر‘ کے مطابق وہ دیوانے ہو گئے تھے، مہتاب میں محبوب کی صورت نظر آنے لگی تھی۔
میرؔ نے جس سے عشق کیا تھا وہ پردہ نشیں خاتون تھیں۔ یہ باتیں ہم ضرور کریں لیکن ہر وقت یہی باتیں تو نہ کریں۔ اچھی طرح یہ بھی تو دیکھیں کہ جن مثنویوں میں ذات المیہ کردار کی صورت ابھری ہے اس کے فنّی اور جمالیاتی تجربے کیسے ہیں۔ جمالیاتی فکر و نظر کی کیفیت کیا ہے، احساس اور جذبے کے جو رنگ ابھرے ہیں ان کا جمال کس قسم کی سرگوشیاں کر رہا ہے۔ مجموعی تاثر یہ ہوتا ہے کہ ہر پھول ایک آبلہ ہے جس سے لہو ٹپک رہا ہے، بیدل کا یہ شعر یاد آتا ہے:
ہر گل کہ دیدم آبلہ خوں چکیدہ بور
یارب چہ خار در دلِ گلشن شکسہ اند!
(بیدلؔ)
(ہر گل ایک آبلہ ہے جس سے خون ٹپک رہا ہے، یا اللہ گلشن کے دل میں کیسا کانٹا تھا کہ ٹوٹ کر رہ گیا!)
ٹوٹ کر اندر رہ جانے والے کانٹے کے احساس کے ساتھ جو منظر ابھرا ہے وہ حد درجہ المناک ہے، ہر گل ایسا آبلہ دکھائی دے رہا ہے کہ جس سے لہو ٹپک رہا ہے! جو منظر ابھرا ہے اس کی چبھن اور ٹیس مضطرب کر دیتی ہے، شرینگار رس لیے میرؔ کے تجربے جب المیہ کی صورت اختیار کرتے ہیں تو ذات اور شخصیت سے الگ خوبصورت جمالیاتی تجربے زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ فنکار کی روح کی گہرائیوں یا تحت الشعور میں جو ڈراما داخلی آہنگ لیے تھا وہ یقیناً اہم ہے لیکن سب سے زیادہ اہم اس ڈرامے کی ظاہری صورت ہے کہ جس میں فنکار کے ’وژن‘ نے استعاروں کی تخلیق کی ہے اور تجربوں کو جمالیات ڈرامائی آہنگ عطا کیا ہے۔
اُردو کی کلاسیکی مثنویوں میں میر تقی میرؔ کی مثنویاں بھی نمایاں مقام رکھتی ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ رمّال: جوتشی ۲؎ طالع شناس: نجومی ۳؎ قرعہ: پاک
**
اُردو کی معروف کلاسیکی مثنوی ’سحر البیان‘ (۱۷۸۵ء۔ ۱۷۸۴ء) کو ممتاز درجہ حاصل ہے۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا ڈرامائی جوہر ہے کہ جس سے ہم شعوری اور غیر شعوری طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی منظوم صورت اگر ہندوستانی جمالیات کے قدیم علماء کے سامنے رکھی جاتی تو وہ اسے ایک خوبصورت منظوم تمثیل یا ڈراما قرار دیتے ہیں۔ کرداروں کے عمل سے ایک ڈراما جنم لیتا ہے ایسا ڈراما جو ان کے عمل اور ردِّ عمل (Karya) سے ارتقا پذیر ہوتا ہے اور اختتام پر جمالیاتی انبساط اور آسودگی بخشتا ہے۔ میر حسن نے ایک کہانی مرتب کی ہے اس کے واقعات مرتب کیے ہیں۔ ایک خاص عمل کو منتخب کیا ہے کہ جس سے دوسرے عوامل وابستہ ہیں، اسی سے وحدتِ عمل پیدا ہوئی ہے۔ ہندوستانی جمالیات کے مطابق ہیرو اور ہیروئن کے عمل میں زندگی اور تحرک پیدا کر نے کے لیے ایک یا ایک سے زیادہ ضمنی کرداروں کا ایسا عمل شروع ہوتا ہے کہ جس سے بنیادی کہانی کا ارتقا تیزی سے ہوتا ہے۔ نجم النساء کے عمل سے شہزادہ بے نظیر اور بدر منیر کی کہانی میں تحرک پیدا ہوتا ہے جس کا اثر کہانی کے ارتقا پر ہوتا ہے اور تمثیل ایک جمالیاتی تاثر دے کر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ ایسے ذیلی کرداروں (Subsidiary Characters) کو ہندوستانی جمالیات میں ’پراسنگیکا‘ (Prasangika) کہا گیا ہے یعنی وہ کردار جو حد درجہ مددگار ہو، مرکزی کردار کے غم کو اپنا غم بنا لے اور اسے نشاطِ غم میں تبدیل کر نے کی کوشش کرے۔ ایسے کرداروں کے عمل سے تحرک پیدا ہوتا ہے اور مرکزی عمل یا مرکزی کردار کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ مثنوی سحر البیان میں نجم النسا ’پراسنگیکا‘ بھی ہے اور مدد کرتے ہوئے خود ایک رومانی فسانے کا مرکزی کردار بن جاتی ہے، مرکزی کہانی کے ساتھ ایک چھوٹی سی کہانی بھی وجود میں آ جاتی ہے۔ نجم النسا اور فیروز شاہ کی ایسی چھوٹی کہانی قدیم ڈراموں، فسانوں اور تمثیلوں میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں اسے ’پاٹکا‘ (Patka) کہتے ہیں یعنی ایک دوسری کہانی چھوٹی سی! کوئی ضروری نہیں کہ اس چھوٹی کہانی کا بھی باضابطہ ارتقا ہو، ارتقا کے بغیر کرداروں کا عمل توجہ طلب بن جاتا ہے، ایسے مختصر عمل کو سمجھنے کے لیے ہندوستانی جمالیات میں ’پراکاری‘ (Prakari) کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یعنی صرف ایک واقعہ ارتقا کے بغیر!
ہندوستانی جمالیات کے پیشِ نظر ’سحر البیان‘ کی کہانی اس لیے بھی اہم ہو جاتی ہے اس میں بظاہر عام قصوں کی طرح ایک ابتدائیہ ہے۔ ابتدائیہ کی حیثیت ایک ’بیج‘ (Bija) کی ہے جو ممکن ہے کبھی ایک درخت بنے اور پھول پھل دے۔ پھل پیدا ہو اس واسطے ’بیج‘ ڈالتے ہیں، کوئی ضروری نہیں کہ کامیابی ہو۔ درخت کی صورت کیا ہو گی اور کیسا پھل حاصل ہو گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اچھے پھل بھی حاصل ہوتے رہے ہیں، اس مثنوی میں جو ابتدائیہ ہے وہ بھی بیج ہے کہانی کے اختتام تک اچھا پھل تو آیا، ایک پیاری سی دلکش کہانی نے متاثر کیا جمالیاتی انبساط حاصل ہوا لیکن مثنوی سحر البیان جیسی عمدہ کہانی کے پیشِ نظر ہندوستانی جمالیات کی روشنی میں غالباً یہ کہنا مناسب ہو گا کہ یہ ’بیج‘ بھی ہے اور ایک ’بندو‘ (Bindu) بھی یعنی ایک قطرہ، جس طرح پانی میں تیل کا ایک قطرہ ڈالتے ہیں اور یہ نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ تیل کا قطرہ پانی کے اوپر پھیل رہا ہے اسی طرح اس قصّے کا نظارہ ہے۔ ’پانی‘ کی مانند عام کہانی ہے لیکن اس پر جب تخلیقی ذہن سے ایک قطرہ رس گر جاتا ہے تو وہ کوئی اور ہی نظارہ پیش کر نے لگتا ہے۔ ’ابتدائیہ‘ سے گزرتے ہوئے اچانک پانی کی صورت تبدیل ہو جاتی ہے:
کسی طرف سے وہ نہ رکھتا تھا غم
مگر ایک اولاد کا تھا الم
اسی بات کا اس کے تھا دل پہ دماغ
نہ رکھتا تھا وہ اپنے گھر کا چراغ
دنوں کا عجب اس کے یہ پھیر تھا
کہ اس روشنی پر یہ اندھیر تھا
وزیروں کو اِک روز اس نے بلا
جو کچھ دل کا احوال تھا سو کہا
کہ میں کیا کروں گا یہ مال و منال
فقیری کا ہے میرے دل کو خیال
ہندوستانی جمالیات میں ’تیل کے ایک قطرے ‘ یا ’بندو‘ (Bindu) کا استعارہ ہیجانات، تجربات اور واقعات کے تسلسل کے لیے ہے۔ یعنی ہیجانات پیدا ہوتے رہیں گے، تجربے حاصل ہوتے رہیں گے اور واقعات سامنے آتے رہیں گے۔
اور اس سلسلے میں ’مثنوی سحر البیان‘ سے مایوسی نہیں ہوتی!!تیل کا قطرہ (بندو) پانی پر پھیلتا ہے تو منظر اور پُر کشش ہو جاتا ہے۔ تجسّس بڑھتا ہے یہ جاننے کی خواہش ہوتی ہے کہ آگے جو ہو گا وہ کیا ہو گا۔ بادشاہ نجومیوں سے یہ کہتا ہے:
نکالو ذرا اپنی اپنی کتاب
مرا ہے سوال، اس کا لکھو جواب
نصیبوں میں دیکھو تو میرے کہیں
کسی سے بھی اولاد ہے یا نہیں
تو یہ منظر سامنے آتا ہے:
یہ سن کر، وے رمّال۱ طالع شناس۲
لگے کھینچے زائچے بے قیاس
دھرے تختے آگے، لیا قرعہ۳ ہاتھ
لگا دھیان اولاد کا اس کے ساتھ
جو پھینکیں، تو شکلیں کئی بیٹھیں مل
کی شکل سے دل گیا ان کا کھل
جماعت نے رمّال کی عرض کی
کہ ہے گھر میں امید کے کچھ خوش
یہ سن ہم سے اے عالموں کے شفیق
بہت ہم نے تکرار کی ہر طریق
بیاض اپنی دیکھی جو اس رمل کی
تو ایک ایک نقطہ ہے فرد خوشی
ہے اس بات پر اجتماعِ تمام
کہ طالع میں فرزند ہے تیرے نام
نحوست کے دن سب گئے ہیں نکل
عمل اپنا سب کر چکا ہے زحل۴
ستارے نے طالع کے بدلے ہیں طور
خوشی کا کوئی دن میں آتا ہے دور
نظر کی جو تسدیس۵ و تثلیث۶ پر
تو دیکھا کہ ہے نیک سب کی نظر
کیا پنڈتوں نے جو اپنا بچار
تو کچھ انگلیوں پر کیا پھر شمار
جنم پتّرا شاہ کا دیکھ کر
تلا اور برچھک پہ کر کر نظر
کہا رام جی کی ہے تم پر دَیا
چندرّما سا بالک ترے ہو وے گا
مہاراج کے ہوں گے مقصدِ شتاب
کہ آیا ہے اب پانچواں آفتاب
اور پھر بھرت کے ناٹیہ شاستر، کے مطابق ’بیج‘ پھوٹتا ہے، ’ابتدائیہ‘ کے بطن سے ایک نئی چونکا دینے والی ’ابتدا‘ (آرمبھ (Arambha وجود میں آتی ہے:
ولیکن مقدر ہے کچھ اور بھی
کہ میں ایں بھلے گے برے طور بھی
یہ لڑکا تو ہو گا، ولے کیا کہیں
خطر ہے اسے بارہویں برس میں
نہ آولے یہ خورشید بالائے بام
بلندی سے خطرہ ہے اس کو تمام
نہ نکلے یہ بارہ برس رشک مہ
رہے برج میں یہ مہہ چار وہ
کہا شہ نے یہ سن کے ان کے تئیں
کہو جی کا خطرہ تو اس کونیں؟
کہا جان کی سب طرح خیر ہے
مگر دشتِ غربت کی کچھ سیر ہے
کوئی آس پہ عاشق ہو جن ویری
کوئی اس کی معشوق ہوا تیسری
کچھ ایسا نکلتا ہے پوتھی میں اب
خرابی ہو اس پر کسی کے سبب!
ہندوستانی جمالیات میں اس نئی چونکا دینے والی ابتدا یا آرمبھ کو ’مکھ‘ (چہرہ) کہتے ہیں۔ کہانی کی آنکھیں کھلی ہیں۔ آنکھوں کے کھلنے کے بعد ہی مکھ یا چہرے کی بہتر پہچان ہوتی ہے۔ ایسی تمثیل یا ’کاویہ‘ میں ’مکھ‘ سے اچانک جمالیاتی تجربہ تو حاصل ہوتا ہی ہے مکھ، آہستہ آہستہ کی جمالیاتی تجربوں سے بھی آشنا کرتا جاتا ہے۔ آئندہ رونما ہونے والے واقعے یا عمل کی جھلک اس بجلی کی چمک سے نظر آ جاتی ہے۔ کہانی کی آنکھیں کھلتی ہیں تو بجلی سی چمک جاتی ہے اور مستقبل کی جھلک دکھائی دینے لگتی ہیں۔
’’سحر البیان‘‘ کی تمثیل کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کرداروں کے عمل اور واقعات کے پیشِ نظر مختلف مناظر میں تقسیم ہے، ہر منظر کا اپنا ڈرامائی آہنگ ہے، مختلف مناظر اتنے گتھے ہوئے ہیں کہ جمالیاتی وحدت کا احساس مل جاتا ہے۔ ہندوستانی جمالیات کے مطابق کہانی کے ارتقا کے لیے مختلف مناظر کی تشکیل تو ہوتی ہے لیکن اختتام تک ایک ’جمالیاتی وحدت‘ کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ اس منظوم داستان میں جو جمالیاتی وحدت پیدا ہوئی ہے وہ پچھلی کئی منزلوں سے آشنا کرتی ہے، تخلیقی ذہن کا سفر ان منزلوں پر جاری رہا ہے۔ پہلی منزل ’بیج‘ (آرمبھ (Arambha کی ہے، دوسری منزل کرداروں کے عمل اور واقعات کے ارتقا (پرایا تنا (Prayatna کی ہے اور تیسری منزل پھل پا لینے یا اختتام (پھل یوگ (Phalayoga کی ہے۔
میر حسن نے عنوانات قائم کر کے مناظر کی تقسیم کی ہے مثلاً ’داستان تولد ہونے کی شاہزادہ بے نظیر کے ‘ ، ’داستان تیاری میں باغ کی‘ ، ’داستان شاہزادے کے کوٹھے پر سونے کی اور پری کے اُڑا کر لے جانے کی‘ ، ’داستان پرستان میں لے جانے کی‘ ، ’داستان وارد ہونے میں بے نظیر کے بدر منیر کے باغ میں ‘ اور شاہزادی کے عاشق ہونے کی‘ ، ’داستان نجم النسا کے جوگن ہونے میں ‘ وغیرہ۔ ہر منظر کی اپنی تاثیر اور دلآویزی ہے۔ ہر منظر کی اپنی ڈرامائی کیفیت ہے۔ رومانیت اور ’ ’"سی‘ سے فنکار کے ذہن کی زرخیزی کی پہچان ہوتی ہے۔ ان مناظر میں افسانوی کردار رنگا رنگ تجربات کے ساتھ آئے ہیں، مناظر کی موزونیت اور تازگی متاثر کرتی ہے۔ میر حسن ایک عمدہ تخلیقی ذہن رکھتے ہیں، مثنوی کے مناظر میں خارجی اور داخلی کیفیات کی آمیزش سے ان کی تخلیقی صلاحیت کی بہتر پہچان ہوتی ہے۔ مثلاً:
کھلی آنکھ جو ایک کی وہاں کیں
تو دیکھا کہ وہ شاہ زادہ نیں
نہ ہے وہ پلنگ اور نہ وہ ماہ رو
نہ وہ گل ہے اس جا، نہ وہ اس کی بو
رہی دیکھ یہ حال حیرانِ کار
کہ یہ کیا ہوا ہائے پروردگار
کوئی دیکھ یہ حال رونے لگی
کوئی غم سے جی اپنا کھونے لگی
کوئی بلبلاتی سی پھر نے لگی
کوئی ضعف ہو ہوکے گر نے لگی
کوئی سرپہ رکھ ہاتھ، دل گیر ہو
گئی بیٹھ ماتم کی تصویر ہو
کوئی رکھ کے زیرِ زنخداں چھڑی
رہی نرگس آسا کھڑی کی کھڑی
رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب
کسی نے کہا گھر ہوا یہ خراب
کسی نے دیے کھول سنبل سے بال
تپانچوں سے جوں گل کے سرخ گال
سنی شہ نے القصہ جب یہ خبر
گرا خاک پر کہہ کے ہائے پسر!
کلیجا پکڑ ماں تو بس رہ گئی
کلی کی طرح سے بیکس رہ گئی
’’بے نظیر کے غمِ ہجر سے بدر منیر کی بے قراری میں‘‘ کے منظر کا یہ رُخ دیکھیے، ایک خارجی واقعہ یا حادثہ رونما ہوا ہے اور داخلی کیفیتوں کی پہچان اس طرح ہونے لگتی ہے:
ذرا آئینہ لے کے دیکھا جو رنگ
تو جوں آئینہ رہ گئی وہ بھی دنگ
بدن کو جو دیکھا تو زار و نزار
کسی کو کوئی جیسے دیوے فشار۶
فلک کی طرف دیکھو اور شکر کر
لگی دل کو بہلانے ایدھر اُدھر
زباں پر تو بائیں، ولے دل آراس
پراگندہ حیرت ہے ہوش و حواس
نہ منہ کی خبر اور نہ تن کی خبر
نہ سر کی خبر، نہ بدن کی خبر
اگر سر کھلا ہے تو کچھ غم نیں
جو کرتی ہے میلی تو محرم نیں
جو مسّی ہے دو دن کی، تو ہے وہی
جو کنگھی نہیں کی، تو یوں ہی سہی
جو سینہ کھلا ہے تو دل چاک ہے
غم آلودہ صبحِ عرب ناک ہے
نہ منظور سرمہ، نہ کاجل سے کام
نظر میں وہی تیرہ بختی۷؎کی شام
داخلی ہیجانات و کیفیات کو پیشِ کرتے ہوئے تشبیہوں اور استعاروں سے خوب کام لیتے ہیں لیکن ایک تخلیقی فنکار کی طرح اسلوب ایسا اختیار کرتے ہیں کہ تشبیہیں اور استعارے سب اس طرح جذب ہو جاتے ہیں جیسے یہ اسلوب ہی کے نگینے ہوں۔ عام بول چال کی زبان اور لہجے سے یہ اسلوب اپنی حد درجہ قربت کا احساس دلاتا ہے۔
’’مثنوی سحر البیان‘‘ میں ۲۱۷۹، اشعار ہیں جو طرزِ بیان کی سادگی، فطری امیجری اور بیان کی واضح اور صاف (Vividness of Deseriphia) صورتوں کو اجاگر کیے ہوئے ہیں۔ دراصل ایسا ہی اسلوب ’رسوں ‘ (Rasas) کو پیدا کر نے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس مثنوی میں Spontaneous Expression کی جانے کتنی مثالیں موجود ہیں، اظہار کی بے ساختگی نے جہاں فنکار کی تخلیقی صلاحیتوں کو حد درجہ محسوس بنایا ہے وہاں اُردو شاعری کے خوبصورت نمونے بھی پیش کیے ہیں۔ کئی مقامات ایسے ہیں جہاں احساس کی شدّت سے جذبات نقطۂ عروج پر پہنچ گئے ہیں۔ ’شرینگار رس‘ لیے تجربے ہوں یا ’پیتھوس‘ (Pathos) احساس اور جذبے کی شدّت سے تجربوں میں نغمہ ریز کیفیتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ مثلاً:
نہانے میں یوں تھی بدن کی دمک
برسنے میں بجلی کی جیسے چمک
لبوں پر جو پانی پھرا سر بسر
نظر آئے جیسے وہ گل برگ تر
ہوا قطرۂ آب یوں چشم بوس
کہے تو، پڑی جیسے نرگس پہ لوش
لگا ہونے ظاہر جو اعجازِ حسن
ٹپکنے لگا اس سے اندازِ حسن
ملی جنس کی اس کو جو اپنی بو
لگا تکنے حیرت سے حیران ہو
نظر آئی وہاں چاندنی کی بہار
کہ آنکھوں نے کی خیرگی۸ اختیار
در و بام یک لخت سارے سفید
ہر اِک طاق، محراب، صبح امید
مغرب زمیں پر تمامی۹ کا فرش
جھلک جس کی لے فرش سے تا عرش
زمیں کا طبق، آسماں کا طبق
سنہری، رپہری ہو جیسے ورق
بلّوریں دھرے ہر طرف سنگِ فرش
کہ جس سے منوّر رہے رنگِ فرش
گئی اس کے عالم پہ جس دم نگاہ
اور آیا نظر اس کو اِک رشک ماہ
طرح اس کی، ہر دل کی مانوس تھی
کہ گویا وہ شیشے کی فانوس تھی
کیں، دیکھ اس کے تئیں ہوش مند
پری کو کیا ہے گا شیشے میں بند
وہ آنکھیں جو روئی ہیں بس پھوٹ پھوٹ
تو گویا کہ موتی بھرے کوٹ کوٹ
تپِ غم سے یوں تمتمائے ہیں گال
کہ جوں رنگ لالہ ہو وقتِ زوال
گریبان سینے پہ جو ہے کھلا
تو گویا وہ ہے صبحِ عشرت فزا
نقاہت سے چہرہ اگر زرد ہے
دیا آہ ہونٹو وں پہ کچھ سرد ہے
ہندوستانی جمالیات میں ’وی بھو‘ (Vibhavas) اور ’انوبھو‘ (Anubhavas) دو اہم اصطلاحیں ہیں۔ ’وی بھو‘ جذبات اور ہیجانات کے اظہار کی جانب اشارہ کرتے ہیں، محبت اور ’پیتھوس‘ (Pathos) دونوں ’وی بھو‘ ہیں۔ وہ اثرات جو کرداروں کے عمل اور ردِّ عمل سے مرتب ہوتے ہیں وہ ’انوبھو‘ ہیں۔ ’وی بھو‘ اور ’انوبھو‘ دونوں کی وحدت سے جو جمالیاتی تاثرات ملتے ہیں وہ ہیجان خیز (Thrill) ہوں یا عشق و محبت کی خوشبو لیے ہوئے، ’رسوں ‘ (Rasas) سے بھرے ہوتے ہیں۔ دشونت اور شکنتلا کی پہلی نظر کی محبت ہی کو ہندوستان کے رومانی شاعروں نے عام طور پر قبول کیا ہے، اُردو کی منظوم کہانیوں میں بھی پہلی نظر کی محبت اہمیت رکھتی ہے۔ ’مثنوی سحر البیان‘ جو ’شیرنگار رس‘ سے بھری ہوئی ہے پہلی نظر کی محبت کا نقش پیش کرتی ہے۔ شہزادے اور شہزادی کی پہلی نظر کی محبت اپنی جگہ ہے شہزادے پر پری بھی پہلی نظر ہی میں عاشق ہو جاتی ہے:
محبت کی آئی جو دل پر ہوا
وہاں سے اسے لے اُڑی دل رُبا
غرض لے گئی آن کی آن میں
اڑا کر وہ اس کو پرستان میں!
’’مثنوی سحر البیان‘‘ میں کئی ’رسوں ‘ (Rasas) کی آمیزش ہے لیکن سب سے زیادہ اہمیت ’شرینگار رس‘ (Srigararasa) کی ہے۔ رومانی تمثیل ہے اس لیے فنکار کے رومانی ذہن اور تخیل نے اس رس کو پیدا کر نے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی ہے۔ بنیادی طور پر ’شرینگار رس اس محبت کارس ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں اسے سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ’ناٹیہ شاستر‘ میں اسے ’سمبھوگ رس‘ (Sambhoga Sringara) بھی کہا گیا ہے۔ یہ ’سیکس‘ اور شہوت دونوں کا رس ہے۔ ’ناٹیہ شاستر‘ میں جنسی ملن یا میتھن کے رس کو ’سمبھوگ رس‘ کہا گیا ہے تو ساتھ ہی اس کی ایک اور صورت بتائی گئی ہے Vipraambha Sringara یعنی جدائی میں عاشق یا محبوب یا دونوں کے ہیجانات کا رس۔ رومانی فضا نگاری اور رومان پرور ماحول کی پیشکش میں اس رس کی بڑی اہمیت رہی ہے۔
’’سحر البیان‘‘ میں ’شرینگار رس‘ سے جو جمالیاتی آسودگی اور انبساط پاتے ہیں ان کی پہچان مندرجہ ذیل مقامات پر زیادہ ہوتی ہے:
۱۔ داستانی تیارگی میں باغ کی:
زمرد کے مانند سبزے کا رنگ
روش کا، جواہر ہوا، جس سے سنگ
روش کی صفائی پہ بے اختیار
گلِ اشرفی نے کیا زر نثار
چمن سے بھرا باغ، گل سے چمن
کہیں نرگس و گل، کہیں یاسمن
چنبیلی کہیں اور کہیں موتیا
کہیں رانے بیل اور کہیں موگرا
کھڑے شاخِ سبّو کے ہر جان دن
مدن بان کی اور ہی آن بان
۲۔ داستان حمام میں نہانے کی لطافت میں:
تنِ نازنیں نم ہوا ان کا کل
کہ جس طرح ڈوبے ہے شبنم میں گل
نہانے میں یوں تھی بدن کی دمک
برسنے میں بجلی کی جیسے چمک
لبوں پر جو پانی پھرا سر بسر
نظر آئے جیسے وہ گل برگ تر
۳۔ داستان وارد ہونے میں بے نظیر کے بدر منیر کے باغ میں اور شاہزادہ کے عاشق ہونے میں:
ہوا میں وہ جگنو سے چمکیں بہم
ملیں جلوۂ مہہ کو زیرِ قدم
فقط چاندنی میں کہاں طور یہ
کہ طرہ نہ جب تک ملے اور یہ
زمانہ زر افشاں ہوا زر فشاں
زمیں سے لگاتا سما زر فشاں
گل و غنچہ، نسرین و تاج خیر دس
زمینِ چمن سب، جبینِ عروس
خراماں زری پوش ہر ماہ وش
کریں دیکھ کر مہر و مہہ جن کو غش
۴۔ داستان بدر منیر کی تعریف میں:
برس پندرہ ایک کا سن و سال
نہایت حسین اور صاحبِ مجال
دیے کہنی تکیے پہ اِک ناز سے
سرِ ہنر بیٹھی تھی انداز سے
ادھر آسماں پر درخشندہ مہہ
ادھر یہ زمیں پر مہہ چار وہ
پڑا عکس دونوں کا جوں نہر میں
لگے لوٹنے چاند ہر لہر میں
نظر آئے اتنے جو اِک بار چاند
زمانے کے منہ کو لگے چار چاند
عجب طرح کا حسن تھا جاں فزا
کہ مہ، رو بہ روحیں کے تھا بھٹکرا
۵۔ داستان زلف اور چوٹی کی تعریف و صحبت اوّل کے بیان میں:
وہ بیٹھی عجب ایک انداز سے
بدن کو چرائے ہوئے ناز سے
منہ آنچل سے اپنا چھپائے ہوئے
لجائے ہوئے شرم کھائے ہوئے
پسینا پسینا ہوا سب بدن
کہ جوں شبنم آلودہ ہو یاسمن
۶۔ داستان دو بارہ بے نظیر کے آنے اور باہم بے تکلف ملاقات کر نے میں:
پکڑ ہاتھ، مسند پہ کھینچا اسے
محبت کے رشتے میں اینجا اسے
لگی کہنے : ہے ہے، مرا ہاتھ چھوڑ
یہ گرمی ہے جس سے، رہے اس کے ساتھ
کہا: ہائے پیاری! جلایا مجھے
رکھائی نے تیری ستایا مجھے
اری ظالم! اِک دم تو تو بیٹھ جا
ذرا میرے پہلو سے تکیہ لگا
تڑپتا ہے کب سے پڑا میرا دل
ذرا کھول آغوش اور مجھ سے مل
غرض آخرش بعد راز و نیاز
وہ مسند پہ بیٹھی بصد امتیاز
ہوا پھر جو صہبائے گل گوں کا دور
ہوا اور ہی اور کچھ واں کا طور
ہوئے جب وے بدمست دو ماہ رو
لگی ہونے ان میں عجب گفتگو
کہ دستے جو نرگس کے تھے وہاں ہزار
لگے ڈھانپنے آنکھ بے اختیار
خواصیں جو تھیں رو بہ رو ہٹ گئیں
بہانے سے ہر کام کے بٹ گئیں
غرض رفتہ رفتہ وہ مدہوش ہو
چھپر کھٹ میں لیٹے ہم آغوش ہو
لگے پینے باہم شرابِ وصال
ہوا نخلِ امید سے وہ نہال
لبوں سے ملے لبِ، دہن سے دہن
دلوں سے ملے دل، بدن سے بدن
ملیں آنکھ سے آنکھ، خوش حال ہو
گئیں حسرتیں دل کی پامال ہو
لگی جائے چھاتی جو چھاتی کے ساتھ
چلے ناز و نخرے کے پس میں ہاتھ
کسی کی گئی چولی آگے سے چل
کسی کی گئی چین ساری نکل
غم و درد، دامن کشیدہ ہوئے
وہ گل نا رسیدہ، رسیدہ ہوئے
لیا کھینچ اپنوں نے جو پردہ شتاب
چھپے ایک ہو، دو مہر و آفتاب
لگی ہونے بے پردہ جو چھیڑ چھاڑ
درِ حسن کے کھل گئے دو کواڑ
۷۔ داستان بدر منیر کے غم اندوہ میں اور حسن بائی کے بلانے میں:
چمن اس گھڑی برسرِ جوش تھا
گل و غنچہ جو تھا، سو بے ہوش تھا
زبس عطر میں تھی وہ ڈوبی ہوئی
دو بالا ہر اِک گل کی خوبی ہوئی
معطر ہوا اور گل کا دماغ
کہ مہکا تمام اس کی خوشبوئے باغ
پڑا عکس جو اس کا طرفِ چمن
ہوا لالہ گل اور گل نسترن
درختوں پر اس کی پڑی جو جھلک
زمرد کو دی اور اُس نے چمک
’سرینگار رس‘ کے پیشِ نظر یہ سب عمدہ تجربے ہیں۔ منظر نگاری اور ماحول کے جمال میں یہ رس اسی طرح اہمیت رکھتا ہے کہ جس طرح عشق و محبت اور وصل کے لمحوں کے بیان میں۔ بھرت نے ناٹیہ شاستر (۳۱۰۴) میں تحریر کیا ہے کہ ’شرینگار رس‘ میں کئی بھاؤ (Bhavas) ہوتے ہیں، اس رس کی پہچان صرف ایک ’بھاؤ‘ سے نہیں ہوتی، ’سحر البیان‘ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس منظوم تمثیل میں کئی بھاؤ ہیں، اوپر کی مثالوں سے بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
’سحر البیان‘ میں ’شرینگار رس‘ کے بعد اگر کسی رس کی اہمیت ہے تو وہ ’اوبھت رس‘ (Adbhuta rasa) ہے۔ حیرت، تحیّر اور جمالیاتی آسودگی کے بغیر اس رس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس رس کی وجہ سے ’مثنوی سحر البیان‘ میں حیرت انگیز انبساط عطا کر نے کی تو انائی پیدا ہوئی ہے۔ مندرجہ ذیل مناظر ’اوبھت رس‘ لیے ہوئے ہیں۔
۱۔ داستان شاہزادے کے کوٹھے پر سونے کی اور پری کے اُڑا کر لے جانے کی:
قضا را ہوا اِک پری کا گزر
پڑی شاہزادے پہ اس کی نظر
بھبوکا سا دیکھا جو اس کا بدن
جلا آتشِ عشق سے اُس کا تن
ہوئی حسن پر اس کے جی سے نثار
وہ تخت اپنا لائی ہوا سے اُتار
جو دیکھا تو عالم عجب ہے یہاں
منوّر ہے سارا زمیں آسماں
محبت کی آئی جو دل پر ہوا
وہاں سے اسے لے اُڑی دل رُبا
۲۔ داستان پرستان میں لے جانے کی:
طلسمات کے سارے دیوار و در
نہ یاں کے سے کوٹھے نہ یاں کے سے گھر
نہ آتش کا خطرہ، نہ باراں کا ڈر
نہ سردی نہ گرمی کا اس میں خطر
جذبے اور ملے سب مکوں کے مکاں
جہاں چاہیے، جا کے رکھ دیں وہاں
درخشندہ، ہر سقف دالان کی
ہو دیوار جیسی چراغان کی
زمیں واں کی ساری جواہر نگار
اُدھر میں چمن، اور ہوا میں بہار
کسی کو ہو جس چیز کا اشتیاق
نظر آوے وہ چیز بالائے طاق
مکانوں میں مخمل کا فرش و فروش
بہ خطِ سلیمانی اس پر نقوش
طلسمات کے پردے اور چلمنیں
ارادے یہ دل کے اٹھیں اور گریں
ان کے علاوہ’ ’خواب دیکھنے میں بدر منیر کے بے نظیر کو کنویں میں‘‘ ، ’’داستان نجم الدین کے جوگن ہونے میں‘‘ ، ’’داستان فیروز شاہ، جنوں کے بادشاہ کے بیٹے کے عاشق ہونے میں جوگن پر‘‘ وغیرہ ایسے مناظر ہیں جو ڈرامائی جوہر سے معمور ہیں اور ’’اوبھت رس‘‘ لیے ہوئے ہیں۔ ان مناظر میں جو تحیّر ہے وہ انبساط عطا کرتا ہے۔ فنکار نے تحیر اور جمالیاتی انبساط (Surprise and Aesthetic Delight) دونوں کو اہم تصور کیا ہے۔ حیرت انگیز مناظر میں اگر زیادہ شدّت پیدا ہو جاتی تو تحیّر کا جمال زیادہ اچھی طرح نمایاں ہوتا۔ نیز زبردست جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی۔ تمثیل کے اختتام پر جو ’شانت رس‘ ملتا ہے اس سے بھی جمالیاتی مسرّت (Aesthetic Pleasure) حاصل ہوتی ہے۔
ہندوستانی جمالیات کی روشنی میں میر حسن کی شاہکار تخلیق ’سحر البیان‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے جو جمالیاتی انبساط حاصل ہوا ہے جی چاہا اس میں آپ سب کو شریک کر لوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ رمّال: جوتشی ۲؎ طالع شناس: نجومی ۳؎ قرعہ: پاک ۴؎ زحل: ایک منحوس ستارہ ۵؎ تسدیس: چاند اور کسی نیک ستارے کے درمیان تین یا گیارہ برجوں کا فاصلہ ۶؎ تثلیث: : چاند اور کسی نیک ستارے سے دوستی ۶ فشار: بھیجنا ۷؎ تیرہ بختی: بدنصیبی ۸؎ خیرگی: چکاچوند ۹؎ تمامی: ایک قسم کا ریشمی کپڑا
***
’’مثنوی گلزارِ نسیم‘‘ (۳۹۔ ۱۸۳۸ء) اُردو کی ممتاز کلاسیکی مثنویوں میں اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ ’آبِ حیات‘ کی تلاش کی طرح ’گل بکاؤلی‘ کی تلاش بھی ایک دلچسپ فسانہ بنی رہی ہے۔ ممکن ہے آبِ حیات کی طرح اس کی جڑیں بھی لوک فسانوں حکایتوں میں جذب ہوں۔ پہلا قصّہ فارسی نثر میں ملتا ہے، عزت اللہ بنگالی نے یہ کہانی لکھی تھی، منشی نہال چند لاہوری نے گل کرسٹ کی فرمائش پر ۱۷۲۲ء میں اس قصّے کو اُردو نثر کا جامہ پہنایا۔
پنڈت دَیا شنکر نسیم نے (۳۹۔ ۱۸۳۸ء) میں اسے نظم کے پیکر میں ڈھالا۔ کہتے ہیں:
ہر چند سنا گیا ہے اس کو
اُردو کی زبان میں سخن گو
وہ نثر ہے، دادِ نظم دوں میں
اُس مے کو دو آتشہ کر دوں میں
عزّت اللہ بنگالی کی کہانی تاج الملوک اور بکاؤلی کی شادی کے بعد ختم ہو جاتی ہے، منشی نہال چند لاہوری نے کہانی کو زیادہ دلچسپ بنانے کے لیے دلبر طوائف اور منگل دیپ کے راجا چتر سین کے کرداروں کے ساتھ حمالہ دیونی اور اس کی بیٹی محمودہ سہیلی، سمن پری، جمیل پری، روح افزا پری، رانی چتراوت وغیرہ کے کردار شامل کیے ہیں۔ دیا شنکر نسیم نے منشی نہال چند کے افسانے سے خوب استفادہ کیا ہے۔ نسیم کی سادہ اور دلکش شاعری نے ’گل بکاؤلی‘ کے قصّے کو نئی روح عطا کر دی۔ سادگی کا حسن لیے ایسی شاعری کے نمونے آسانی سے نہیں ملتے۔ اس مثنوی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں کہانی کی رومانیت اور اس کی طلسمی فضا کا حسن اسلوب کی سادگی کے حسن سے اور نکھر گیا ہے۔ اختصار کے آرٹ کا جلوہ شدّت سے متاثر کرتا ہے۔ نسیم نے واقعات کی پیشکش میں بھی اختصار سے کام لیا ہے اور کم از کم لفظوں میں ایک اچھے فنکار کی طرح بات کہنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ نسیم چست بندشوں کے ایک بڑے اچھے فنکار ہیں۔ حقیقت، واقعہ اور لمحوں کے تجربوں کی پیشکش میں چست بندشوں کی وجہ سے پرکشش پیکروں کی تخلیق ہوئی ہے کہ جن سے جمالیاتی لذّت حاصل ہونے لگتی ہے۔ مثلاً:
وہ ناچنے کیا کھڑی ہوئی تھی
خود راگنی آ کھڑی ہوئی تھی
ایک دلکش، پر آہنگ پیکر سامنے آ جاتا ہے۔ ایک شفاف تخیل کی تخلیق، کہتے ہیں:
بند اس کی وہ چشم نرگسی تھی
چھاتی کچھ کھلی ہوئی تھی
رومانی تخیل نے ایک پُر کشش منظر پیش کر دیا ہے، الفاظ سے جو جمالیاتی تاثر پیدا کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہندوستانی جمالیات کے معروف عالم کنٹک (Kuntaka) نے ’وا کروکتی‘ (Vakrokti) کی جمالیاتی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے جب یہ کہا تھا کہ جو شعرا ایسے شبد (الفاظ) استعمال کرتے ہیں جو دل میں اُتر جاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ دل میں اُتر جانے والے شبدوں سے کیسی جمالیاتی کیفیتیں پیدا ہو سکتی ہیں تو دراصل انھوں نے ایسے ہی تجربوں اور ایسے ہی ’ڈکشن‘ کی جانب اشارہ کیا تھا۔ نسیم کے ’ڈکشن‘ کی سب سے بڑی خوبی سادگی کا حسن ہے، بڑی بات یہ ہے کہ جمالیاتی انبساط عطا کر نے میں شاعر کو لفظی بازیگری کی ضرورت نہیں پڑی، سادگی کے حسن کا جو ’رس‘ ہے وہی جمالیاتی انبساط عطا کر دیتا ہے۔ ’مثنوی گلزارِ نسیم‘ میں سادگی کے حسن کے عطا کیے ہوئے رس کو تشبیہات و استعارات، رعایت لفظی اور فصاحت و بلاغت میں پایا جا سکتا ہے اور اس کی لذّت حاصل کی جا سکتی ہے۔ عام گفتگو کا فطری انداز متاثر کرتا ہے۔ شفاف تخیل اور تخیلی تخلیق کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں، فطری عمل کی مثالیں بھی توجہ طلب بن جاتی ہیں:
منہ پھیر کے ایک مسکرائی
آنکھ ایک نے ایک کو دکھائی
چتون کو ملا کے رہ گئی ایک
ہونٹوں کو ہلا کر رہ گئی ایک
گھبرائی کہ میں ! کدھر گیا گل!
جھنجھلائی کہ کون دے گیا جُل!
ہے ہے ! مرا پھول لے گیا کون؟
ہے ہے ! مجھے خار دے گیا کون؟
ہاتھ اس پہ اگر پڑا نہیں ہے
بو ہو کے تو پھول اُڑا نہیں ہے
نرگس! تو دکھا، کدھر گیا گل؟
سوسن! تو بتا کدھر گیا گل؟
سنبل! مرا تازیانہ لانا
شمشاد! انھیں سولی پر چڑھانا
مہتابی یہ چاندنی جب آئی
سایے نے پری پہ کی چڑھائی
اس فتنے کی خواب گہہ تک آیا
مانند سنہا، وہ منہ تک آیا
تجویز رہا تھا گھات گوں کی
ناگاہ وہ مستِ خواب چونکی
آغوش کی موج سے وہ معطّر
مچھلی سی نکل گئی تڑپ کر
پیچھا کیے صحن تک وہ آیا
مہتاب کے پیچھے جیسے سایا
فطری زبان میں محاوروں کے استعمال سے بڑی دلآویزی پیدا ہو گئی ہے۔ فطری زبان کی تاثیر بڑھ گئی ہے۔ محاوروں کے استعمال میں جو موزونیت اور نفاست ہے اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ تہذیب کی روشنی کی کرنیں زبان پر کچھ اس طرح پڑی ہیں کہ محاورے اپنی چمک دمک لیے اس میں جذب ہو گئے ہیں، سادگی کے حسن و جمال کا حصّہ بن گئے ہیں، نظم میں جو محاورے استعمال ہوئے ہیں اور جو اسلوب کے حسن میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ان میں چند یہ ہیں:
نقشہ جمانا آنکھ نہ ٹھہرنا سرمہ طور لانا سرمہ کھینچنا
پلکوں سے مارنا شگوفہ ہاتھ آنا شاہانہ چلنا خاک اُڑنا
قسمت پر چلنا ہاتھ آنا ہتھکنڈہ نہ پانا پنجے میں پھنسنا
چھکّے چھوٹنا جگ ٹوٹنا ڈنکے کی چوٹ مار آستین ہونا
چٹکی بجانا مانندِ چراغ جلانا مٹھی میں ہوا کو تھامنا دل پر بات رکھنا
عقل گم ہونا خاک پھانکنا اندیشے سے دہل جانا پل مارنا
ہاتھ مارنا قول ہار نا گلے لگانا شرم سے نہ کھلنا
منہ اندھیرے بغل گیر ہونا آسمان سے چہرہ چھپانا
زبان کھولنا تارے توڑنا وغیرہ
رنگا رنگ تجربات اور لطف کی سطحوں کو پیش کر نے کے لیے نسیم نے مروجہ محاوروں کو زبان کی خوشبو عطا کی ہے۔ محاوروں کا استعمال شعوری نہیں غیر شعوری ہے۔ زبان کی پہچان ان محاوروں ہی سے ہوتی ہے۔ ڈرامائی کیفیتوں اور ذہنی اور جذباتی عمل اور ردِّ عمل کو نمایاں کر نے میں ان محاوروں سے بڑی مدد ملی ہے۔ گلزارِ نسیم کی رومانیت اور ’"سی‘ (Fantasy) میں ان محاوروں نے کئی مقامات پر پیکر کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اکثر استعارات و تشبیہات میں یہ محاورے جذب ہو گئے ہیں:
غم کھا کے، لہو کے گھونٹ پیتا
دم کے دھاگوں سے ہونٹھ سیتا
۔۔۔۔۔۔۔۔
آغوش کی موج سے وہ معطر
مچھلی سی نکل گئی تڑپ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔
دہقاں کی زوجہ کے کھلے بھاگ
کھانے لگی نوچ نوچ کے ساگ
کھاتے ہی حمل کا ڈھنگ پایا
سرسوں سا ہتھیلی پر جمایا
وہ بانج تھی، جب حمل قبولی
سرسوں، آنکھوں میں سب کی پھولی
’’مثنوی گلزارِ نسیم‘‘ ایک پرانی کہانی یا قدیم داستان کی نئی تخلیق ہے، فنکار کی تخلیقی فکر نے اسے طرح طرح سے سنوارا ہے۔ ایک خوبصورت منظوم داستان کی صورت میں یہ ایک نئی تخلیق بن گئی ہے، شاعر کے تخلیقی عمل نے اسے انفرادیت بخش دی ہے۔ ایک پرانی کہانی کو مرکز نگاہ بنانے کے لیے فنکار کی تخلیقی کوشش توجہ طلب ہے۔ اس تخلیقی کوشش میں شاعر کا وہ ’وژن‘ (Vision) اہمیت رکھتا ہے جو ایک جانب کہانی کی رومانیت کو جلوہ بنا دیتا ہے اور دوسری جانب اپنے Craftsmanship سے اسلوب کو فکشن کا جوہر بنا دیتا ہے۔
’"سی‘ (Fantasy) میں ’احساسات‘ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اس لیے کہ ’"سی‘ کی جڑیں جذبات کی گہرائیوں میں پیوست رہتی ہیں۔ احساسات کی وجہ سے تخیل کی تو انائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ’"سی‘ کے بڑے فنکار تو تحیّرات کی ایک دوسری دنیا خلق کر دیتے ہیں جو فن کی ایک بہت ہی بلند سطح کا احساس بخشنے لگتی ہے۔ ہندوستان کے قدیم علمائے جمالیات کو ’احساسات‘ کی اہمیت کا بخوبی احساس تھا، بھرت (Bharata) نے جو اکتالیس ’بھاؤں ‘ (Bhavas) کا ذکر کیا ہے وہ احساسات (Feelings) کا ہی ذکر ہے۔ اکتالیس بھاؤں میں آٹھ ستھی بھاؤ (Sathayi Bhavas) ہیں اور باقی ’سنچاری‘ (Sanchari) بھرت نے جن بھاؤں کا ذکر کیا ہے ان میں کئی بنیادی احساسات’مثنوی گلزارِ نسیم‘ میں مرکزی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس منظوم افسانے کی روح ایک کونپل کی طرح ’رتی بھو‘ (Rati Bhava) سے پھوٹتی ہے۔ بھرت کے مطابق ’رتی بھو‘ پیار، محبت، جنسی آرزو اور جنسی جذبے کا بنیادی احساس ہے۔ گلزارِ نسیم میں ’رتی بھَو‘ کے کئی مناظر جاذبِ نظر ہیں۔ مثلاً:
سنسان وہ دم بخود تھی رہتی
کچھ کہتی، تو صنما سے تھی کہتی
کرتی تھی جو بھوک پیاس بس میں
آنسو پیتی تھی، کھا کے قسمیں
جابے سے جو زندگی کے تھی تنگ
کپڑوں کے عوض بدلتی تھی رنگ
یک چند جو گزری بے خور و خواب
زائل ہوئی اس کی طاقت و تاب
صورت میں، خیال رہ گئی وہ
ہیئت میں، مثال رہ گئی وہ
آنے لگے بیٹھے بیٹھے چکّر
فانوسِ خیال بن گیا گھر
پریاں وہ جو اس کی پاسباں تھیں
دانا و عقیل و خوش بیاں تھیں
سمجھانے لگیں کہ مرتی ہے کیوں
ترکِ خور و خواب کرتی ہے کیوں
ثابت کچھ اثر ستارے کا ہے
کس چاند کو کیا گہن لگا ہے!
رحم اپنی جوانی پر ذرا کر
منہ دیکھ تو آئینہ منگا کر
صورت تری زار ہو گئی ہے
گل ہوکے، تو خار ہو گئی ہے
’’مثنوی گلزارِ نسیم‘‘ ’رتی بھَو‘ (Rati Bhava) کے علاوہ جو دوسرے ’احساسات‘ اہمیت رکھتے ہیں ان میں ’بھئے ‘ (خوف) ’سوگ‘ (غم) ہرس (مسرت) ’چنتا‘ (تردد) ’وسمایہ‘ (حیرت) بھوؤں کی پہچان مشکل نہیں ہے۔ ان احساسات کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ’بھئے ‘ اور ’وسمایہ‘ (خوف اور حیرت) بھوؤں کی آمیزش سے چند پُر کشش مناظر اُجاگر ہوئے ہیں۔ مثلاً:
وہ دامنِ دشتِ شوق کا خار
یعنی، تاج الملوکِ دل زار
اِک جنگلے میں جا پڑا جہاں گرد
صحرائے عدم بھی تھا جہاں گزر
سایے کو، پتا نہ تھا شجر کا
عنقا تھا نام جانور کا
مرغانِ ہوا تھا ہوش راہی
نقشِ کفِ پاتھے ریگ ماہی
وہ دشت کہ جس میں پُر تگ دو
یا ریگ رواں تھی، بادہ رہ رو
ڈنڈا تھا ارم کے بادشاہ کا
اِک دیو تھا پاسباں بلا کا
دانت اس کے گورکن قضا کے
دو ننھے : رہ عدم کے ناکے
سرپر پایا بلا کو اس نے
تسلیم کیا فضا کو اس نے
بھوکا کئی دن کا تھا وہ ناپاک
فاقوں سے رہا تھا پھانک کر خاک
بے ریشہ یہ طفلِ نوجواں تھا
حلوا بے دود بے گماں تھا
بولا کہ چکھوں گا میں یہ انساں
اللہ اللہ! شکر احساں
شہہ زادہ، کہ منہ میں تھا اجل کے
اندیشے سے رہ گیا دہل کے
ایک جگہ ’وسمایہ‘ (حیرت) ’چِنتا‘ (تکلیف دِہ تردد) ’سوگ‘ (غم) اور ’بھئے ‘ (خوف اور غصّہ) کے احساسات کی آمیزش ایسی ہے کہ ایک انتہائی دلکش منظر اُبھر کر سامنے آ گیا ہے:
ہے ہے مرا پھول لے گیا کون
ہے ہے مجھے خار دے گیا کون
ہاتھ اس پر اگر پڑا نہیں ہے
بو ہو کے تو پھول اڑا نہیں ہے
نرگس! تو دکھا، کدھر گیا گل
سوسن! تو بتا کدھر گیا گل
۔۔۔۔۔۔۔۔
شبنم کے سوما، چرانے والا
اوپر کا تھا کون آنے والا!
جس کف میں وہ گل ہو داغ ہو جائے
جس گھر میں ہوا گل چراغ ہو جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔
بلبل! تو چہک اگر خبر ہے
گل! تو ہی مہک، بتا کدھر ہے
ہندوستانی جمالیات کے علماء نے ’النکاروں ‘ پر غور کرتے ہوئے ’وشیش النکار‘ (Vishesa Alankar) کا خاص طور پر ذکر کیا ہے، کوئی احساس یا جذبہ مناسب لفظوں میں اس طرح مجسم ہو جائے کہ لفظوں کو ان سے علیحدہ نہ کیا جا سکے، الفاظ احساس اور جذبے کی صورت اختیار کر لیں تو ایسے ’النکار‘ کو ’وشیش النکار‘ (Vishesa Alankar) کہتے ہیں، احساس جذبہ غم کا ہو یا مسرت کا، حیرت کا ہو یا غصّے کا، مناسب الفاظ پیش کیے ہوئے احساس یا جذبے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ’مثنوی گلزارِ نسیم‘ کی ایک بڑی خوبی ’وشیش النکار‘ میں پوشیدہ ہے۔ مثلاً:
انگلی لب جو پہ رکھ کے شمشاد
تھا دم بہ خود اس کی سن کے فریاد
جو نخل تھا، سوچ میں کھڑا تھا
جو برگ تھا، ہاتھ مل رہا تھا
دَیا شنکر نسیم نے ’’منظر نگاری‘‘ سے گریز کیا ہے لیکن واقعات اور حادثات کو یادگار مناظر کی صورت دیتے ہوئے انھوں نے اپنی فنکاری کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ کرداروں کے احساسات اور جذبات کو اپنے تخیل کے مختلف رنگوں سے آشنا کیا ہے۔ ایک منظر دیکھیے:
بلِّی کا سر، چراغ داں تھا
چوہا، پاسے کا پاسباں تھا
الٹائے اُڑی یہ قسمت آسا
بلِّی جو دیا تو موش، پاسا
جیتے ہوئے بندے تھے ہزاروں
قسمت نے پھنسائے یہ بھی چاروں
صیّادنی، لائی پھانس کر صید
کرسی پہ بٹھائے نقشِ امید
گھاتیں ہوئیں دل ربائیوں کی
باتیں ہوئیں آشنائیوں کی
رنگ ان کا جما، تولا کے چوسر
کھیلی وہ کھلاڑ بازی بد کر
وہ چھوٹ یہ تھی، یہ میل سمجھے
بازی چوسر کی کھیل سمجھے
مغرور تھے مال و زر پہ کھیلے
ساماں ہارے، تو سر پہ کھیلے
بدبختی سے آخری جوا تھا
بندہ ہونا، بد ہوا تھا
دو ہاتھ، میں چاروں اس نے لوٹے
پنجے میں پھنسے تو چھکّے چھوٹے
اور یہ مناظر بھی توجّہ چاہتے ہیں:
اِک ٹیکرے پر گیا، بلایا
وہ مثلِ صدائے کوہ آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہتی وہ دیونی، کہا جاؤ
دیوؤں سے کہا کہ تخت لے آؤ
دو بال دیے کہ لو مری لاگ
جب وقت پڑے دکھائیو آگ
دیو، ان کو سریر پر بٹھا کے
پرواز کناں، ہوا یہ جا کے
۔۔۔۔۔۔۔۔
خیمے سے وہ بے قرار نکلی
اس چھالے سے مثلِ خار نکلی
دیکھا تو اندھیری رات سنسان
اِک عالم ہو ہے اور بیابان
اِک دیو وہاں پہ گشت میں تھا
جویائے شکار دشت میں تھا
یہ منظر کرداروں کے احساس اور جذبے کو لیے آہستہ آہستہ پھیلتا ہی گیا ہے۔ اس منظر میں ’رتی بھّو‘ ،’اُتساہ بھَو‘ ، ’وسمایہ بھَو‘ ، ’سوگ بھَو‘ ، ’ہرس بھَو‘ اور ’اوت سکیا بھَو‘ (Autsukya Bhava) (اوت سکیا بھَو‘ مقصد یا منزل کو پا لینے کی آرزو کا احساس) سب موجود ہیں، احساسات اور جذبات کے کئی رنگ ہیں۔
’مثنوی گلزارِ نسیم‘ ایسی تمام خصوصیات کے ساتھ اُردو زبان کی ایک منفرد کلاسیکی مثنوی بن جاتی ہے۔
**
’مثنوی زہرِ عشق‘ ایک خوبصورت طلسمی خواب کے ٹوٹنے کی کہانی ہے، عشق ایسا جذباتی تجربہ بنا ہے جس کی شدّت سے طلسمی خواب ٹوٹتا ہے اور المیہ پیدا ہوتا ہے۔
’مثنوی زہرِ عشق‘ آرزو، خوف اور ذہنی اور جذباتی تصادم کی پیاری سی کہانی ہے کہ جس کے ارتعاشات (Vibrations) ہمیں دیر تک گرفت میں رکھتے ہیں۔ آرزو پیدا ہوتی ہے، ماحول کے دباؤ سے گھٹن ہوتی ہے اور پھر انفرادی سطح پر بڑی شدّت کے ساتھ ایک آزادانہ فیصلہ ہوتا ہے اور ایک حیران کن منظر سامنے آ جاتا ہے۔
’مثنوی زہرِ عشق‘ اُردو میں پہلی بار ایک المیہ ہیروئن اور اس کے ’زوال‘ (Fa) کی کہانی کے حسن کو لے کر اس طرح متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک رومانی تمثیل ہے کہ جس کی پہچان المیہ کے جوہر سے ہوتی ہے، مہ جبیں کی کہانی بہت چھوٹی بھی ہے اور بہت بڑی بھی۔ چھوٹی اس لیے کہ ایک چھوٹے سے ’کینوس‘ پر تصویر بن گئی ہے اور بڑی اس لیے کہ ٹریجڈی کی وجہ سے جو گہرائی پیدا ہوئی ہے اس سے اختتام پر ایک حیران کن مظہر اُبھر آیا ہے۔
مرزا شوق کی یہ مثنوی بھی ’شرینگار رس‘ میں ڈوبی ہوئی ہے، عشق اور حسن ’شرینگار رس‘ کا سر چشمہ ہے، رومانیت اس کی روح ہے، اس کی ٹریجڈی کا حسن اس کا جوہر اور جلوہ ہے، ’شرینگار رس‘ کے مفہوم کی دو واضح جہتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جس نے عشق کیا وہ مرگیا۔ میرؔ نے کہا تھا:
عاشقی جی ہی لے گئی آخر
یہ بلا کوئی ناگہانی تھی
یا
لذّت سے نئیں خالی جانوں کا کھپا جانا
کب خضر و مسیحا نے مر نے کا مزا جانا
دوسری جہت یہ کہ عشق کی شدّت آہستہ آہستہ سیکس کی جبلت کو متاثر کر نے لگتی ہے۔ میرؔ نے کہا ہے:
کیا لطف تن چھپا ہے مرے تنگ پوش کا
اگلا پڑے ہے جامے سے اس کا بدن تمام
یا
ستھرائی اور ناز کی گلبرگ کی درست
پرویسی بو کہاں کہ جو ہے اس بدن کے بیچ
یہ دونوں جہتیں اس مثنوی میں موجود ہیں۔ مہ جبیں ایک دلکش خوبصورت پیکر ہے، ’شرینگار رس‘ میں ڈوب کر نکلی ہے، مرزا شوق اس کے حسن کو اس طرح پیش کرتے ہیں:
چشم بد دور، وہ حسیں آنکھیں
رشک چشم غزا چیں آنکھیں
تھا نہ اس شہر میں جواب اس کا
حسن لاکھوں میں انتخاب اس کا
اس سے پہلے کہتے ہیں:
ثانی رکھتی نہ تھی جو صورت میں
غیرتِ حور تھی حقیقت میں
سبز نخلِ گل جوانی تھا
حسنِ یوسف فقط کہانی تھا
اس سن و سال پر کمال خلیق
چال ڈھال انتہا کی نستعلیق
پانی برس کے کھلا ہی ہے کہ عاشق چھت پر جاتا ہے اور اس کی نظر مہ جبیں پر پڑتی ہے، پہلی نظر میں عشق ہو جاتا ہے، عاشق حیرت کا مجسمہ بن جاتا ہے:
سامنے وہ کھڑی تھی ماہ منیر
چپ کھڑا تھا میں صورتِ تصویر
دیکھتا اس کو بار بار تھا میں
محوِ حسنِ جمالِ یار تھا میں
’مثنوی زہرِ عشق‘ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ مہ جبیں محض حسن و جمال کا کوئی پیکر یا موم کی کوئی پیاری سی گڑیا نہیں ہے بلکہ ایک ایسی شخصیت ہے جو محسوس ہوتی ہے۔ اس کے جذبات کے کئی رنگ ہیں۔ اس کے فیصلے اس کی شخصیت کو محسوس بناتے ہیں، اسی کے جذبات اور اسی کے فیصلوں پر اس کہانی یا تمثیل کا انحصار ہے۔ چھت پر آنکھیں چار ہوتی ہیں تو وہ زیادہ بے چین اور مضطرب ہوتی ہے، عشق کی آگ پہلے اس کے دل میں سلگتی ہے، مہ جبیں عشق کے معاملے میں پہل کرتی ہے۔ مخلص ہے، عشق کے درد کو جانتی ہے، فیصلہ کرتی ہے۔ اسی کے تحرک سے کہانی کی ابتدا ہوتی ہے، یہ اسی کی شخصیت کا تحرک ہے کہ جس سے المناک انجام کے بعد عاشق کا کردار متحرک رہتا ہے۔ چھت پر عاشق کو دیکھتے اور عاشق کے وجود کو محسوس کرتے کرتے جب شام ہو جاتی ہے تو کنیز پیام لے کر آتی ہے:
اسی صورت سے ہو گئی جب شام
لائی پاس ان کے ایک کنیز پیام
بیٹھی ناحق ہی ہولیں کھاتی ہیں
اماں جان آپ کو بلاتی ہیں
گیسو رُخ پر ہوا سے ہلتے ہیں
چلیے، اب دونوں وقت ملتے ہیں
پھر اس کا وجود بے چین رہنے لگتا ہے، عشق کا رس لیے اس کی شخصیت مضطرب رہتی ہے، عاشق کو خط لکھ کر بھیجتی ہے:
ہو یہ معلوم تم کو بعد سلام
غمِ فرقت سے دل ہے بے آرام
شکل دکھلا دے کبریا کے لیے
بام پر آ ذرا خدا کے لیے
اس محبت پہ ہو خدا کی مار
جس نے یوں کر دیا مجھے ناچار
سارے الفت نے کھو دیے اوسان
ورنہ یہ کہتی میں، خدا کی شان
اب کوئی اس میں کیا وکیل کرے
جس کو چاہے خدا ذلیل کرے
خط پڑھ کر عاشق کا ردِّ عمل بڑا دلچسپ دکھائی دیتا ہے۔ جواب میں تاثرات کا اظہار حد درجہ انتہا پسندی کو نمایاں کرتا ہے۔ کردار کی خود غرضی بھی ظاہر ہوتی ہے اور محبوب کو رجھانے کا انداز بھی سامنے آتا ہے۔ لہجے میں جو تصنّع ہے اس سے مرد کی نفسیات پر بھی روشنی پڑتی ہے، محبوب کے اظہار محبت کو محسوس کرتے ہی یہ تمنّا جاگ پڑتی ہے کہ کسی طرح بس اسے حاصل کر لیا جائے۔ لفاظی سے کام لیتا ہے، محسوس نہیں ہوتا کہ محبوب کی طرح عاشق کی بھی کوئی شخصیت ہے، وہ محض ایک کردار ہے جو سماج میں عام لوگوں کے درمیان سے اُبھرا ہے۔ اس کی شخصیت محسوس نہیں ہوتی:
اب جو بھیجی یہ آپ نے تحریر
ہے یہ لازم کہ وہ کرو تدبیر
سختیاں ہجر کی بدل جائیں
دل کی سب حسرتیں نکل جائیں
چاہتا ہے ہجر کے لمحے جلد ختم ہوں اور وصل نصیب ہو۔ اس کے کردار کی پہچان اس وقت ہوتی ہے جب وہ یہ کہتا ہے:
ہو گئی ہے کچھ ایسی طاقت طاق
اُٹھ نہیں سکتا بارِ رنج فراق
ہل کے پانی پیا نہیں جاتا
ورنہ حکم آپ کا بجا لاتا
تیرے قدموں کی ہوں قسم کھاتا
ہوش دو دو پہر نہیں آتا
پاتا طاقت جو طالب دیدار
بام پر آپ آتا سو سو بار
مبالغہ عروج پر ہے۔
اس کے بعد محبوب کی شخصیت ایک نئے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شخصیت کا رُخ ہی تبدیل ہو گیا ہو۔ عاشق کے کردار ، اور مہ جبیں کی شخصیت کے فرق کو ان اشعار سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ مہ جبیں اس خط کا جواب اس طرح دیتی ہے جیسے عشق و محبت سے اس کا کوئی واسطہ ہی نہ ہو اس نے عاشق کو محض چھیڑنے کے لیے خط لکھا اور عاشق میاں جھوٹ لکھنے پر مغرور ہو گئے یہ سمجھنے لگے جیسے وہ واقعی ان سے محبت کر نے لگی ہے۔ اس بدلتے ہوئے نمائشی تیور کو دیکھئے:
پھر کیا یہ جواب میں تحریر
’’کچھ قضا تو نہیں ہے دامن گیر‘‘
’’ذکر ان باتوں کا یہاں کیا تھا؟
چھیڑنے کو یہ تیرے لکھّا تھا‘‘
’’مجھ کو ایسی تھی تیری کیا پروا
بام پر تو بلا سے آ کہ نہ آ‘‘
’’بات یہ تھی کمال عقل سے دور
جھوٹ لکھنے پہ ہو گئے مغرور‘‘
’’کالا دانہ ذرا اُتروا لو
رائی نون اس سمجھ پہ کر ڈالو‘‘
’’دیکھ تحریر فیل لائے آپ
خوب جلدی مزے میں آئے آپ‘‘
’’طالبِ وصل جو ہوئے ہم سے
ہے گا سادہ مزاج جم جم سے‘‘
کہنے کو تو یہ کہا جا رہا ہے کہ مجھے تیری پروا نہیں ہے، میں کیوں آؤں چھت پر۔ تو نے جانے کس طرح سمجھ لیا کہ میں تجھ پر مرتی ہوں، ارے یہ تو میں نے جھوٹ لکھا تھا اور توہے کہ اس بات پر اعتبار کر گیا اور ہو گیا مغرور، میں کوئی مال زار دی نہیں ہوں، عجیب ہے تو، فوراً طالبِ وصل ہو گیا۔۔۔ لیکن اندر عشق کی آگ تیز ہے، محبوب خود وصل چاہتا ہے، ’شرینگار رس‘ سے سرشار یہ شخصیت عاشق کے وجود میں جذب ہو جانا چاہتی ہے، جنسی لذّتوں کا تجربہ حاصل کرنا چاہتی ہے اپنے وجود کو عاشق کے وجود میں جذب کر دیتی ہے۔ دونوں وصل کا تجربہ حاصل کرتے ہیں:
جو لکھا تھا ادا کیا اس نے
وعدہ اِک دن وفا کیا اس نے
رات بھر میرے گھر میں رہ کے گئی
صبح کے وقت پھر یہ کہہ کے گئی
’’بات اِس دم کی یاد رکھیے گا
اِک دن اس کا مزا بھی چکھئے گا‘‘
’’بگڑے گی جب، نہ کچھ بن آئے گی
آپ کے پیچھے جان جائے گی‘‘
پیار کرتی جو تھی وہ غیر تِ حور
رکھا ملنے کا اس نے یہ دستور
پنج شنبہ کو جاتی تھی درگاہ
واں سے آتی تھی میرے گھر وہ ماہ
راز کب تک راز رہتا، والدین کا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ مہ جبیں کو بنارس کسی عزیز کے پاس بھیج دیا جائے۔ مہ جبیں اس کشمکش میں گرفتار ہو جاتی ہے کہ اپنی بے پناہ محبت اور خاندان اور والدین کی عزّت دونوں میں کسے پسند کرے۔ عشق کا سلسلہ اس طرح جاری رہتا ہے تو خاندان کی شریف قدروں پر زبردست آنچ آئے گی اور اپنے عاشق کو چھوڑ کر دور بنارس چلی جاتی ہے تو اس سے سچے عشق کی آبرو ہی جاتی رہتی ہے۔ اس کا خواب خوبصورت اور طلسمی ہے، ٹوٹ گیا تو بھلا سچی محبت کی آبرو کیا رہے گی۔ ’’مثنوی زہرِ عشق‘‘ کا یہ نقطۂ عروج ڈرامائی ہے، مہ جبیں آرزو، خوف اور ذہنی اور جذباتی تصادم کے ان لمحوں میں کیا فیصلہ کرے گی؟ اس کی تمنّا میں بڑی شدّت ہے لیکن ماحول کے دباؤ سے ایک گھٹن کا شکار ہے، وہ نہیں چاہتی کہ زندگی کا آہنگ بکھر جائے۔ وہ ایک فیصلہ کر لیتی ہے، خود کشی کر نے کا فیصلہ، اس فیصلے ہی سے ’شرینگار رس‘ میں تحیّر کا رس شامل ہونے لگتا ہے۔ ’ادبھت رس‘ (Adbhuta Ras) کے شامل ہوتے ہی ’شرینگار رس‘ کا ذائقہ تیکھا اور حیرت انگیز ہو جاتا ہے۔ عاشق کے پاس آتی ہے اور اپنا فیصلہ سناتی ہے، ذہن میں بات صرف یہ ہے:
’’وہ چھٹے ہم سے جس کو پیار کریں
جبر کیوں کر یہ اختیار کریں‘‘
آخری ملاقات کے لیے عاشق کے پاس پہنچتی ہے:
تھی نہ فرصت جو اشک باری سے
اتری روتی ہوئی سواری سے
پھر لپٹ کر مرے گلے اِک بار
حال کر نے لگی وہ یوں اظہار
کہتی ہے:
’’اقربا میرے ہو گئے آگاہ
تم سے ملنے کی اب نہیں کوئی راہ‘‘
’’مشورے یہ ہوئے ہیں آپس میں
بھیجتے ہیں مجھے بنارس میں‘‘
’’گو ٹھکانے نہیں ہیں ہوش و حواس
پر یہ کہنے کو آئی ہوں تیرے پاس‘‘
عاشق کو ڈھارس دینے کے لیے مہ جبیں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر انتہائی سنجیدہ انداز میں کرتی ہے۔ یہ بھی مثنوی ’مثنوی زہرِ عشق‘ کا ایک خوبصورت حصّہ ہے۔ ہیروئن کے زر خیز ذہن کی سنجیدگی کے پیچھے جو تلاطم ہے اسے محسوس کیا جا سکتا ہے، اندازِ گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ مہ جبیں کوئی تخیلی پر چھائیں نہیں ہے۔ ایک شخصیت رکھتی ہے۔ اس کے لب و لہجے میں جو دلآویزی، سرشاری اور تازگی ہے اس سے نظم کا حسن نمایاں ہو جاتا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی کے ذکر میں المیہ ہیروئن کے زوال (Fall) کے آثار دکھائی دینے لگتے ہیں کوئی حادثہ ہو گا اور ڈراما اختتام کو پہنچنے ہی والا ہے۔ مہ جبیں کہتی ہے:
جائے عبرت سرائے فانی ہے
موردِ مرگِ ناگہانی ہے
اونچے اونچے مکان تھے جن کے
آج وہ تنگ گور میں ہیں پڑے
بات کل کی ہے نوجواں تھے جو
صاحبِ نوبت و نشاں تھے جو
(ق)
آج خود ہیں نہ ہے مکاں باقی
نام کو بھی نہیں نشاں باقی
غیرتِ حور مہ جبیں نہ رہے
ہیں مکاں گر تو وہ مکیں نہ رہے
جو کہ تھے بادشاہِ ہفت اقلیم
ہوئے جا جا کے زیر خاک مقیم
کل جو رکھتے تھے اپنے فرق پہ تاج
آج ہیں فاتحہ کو وہ محتاج
تھے جو سرکش جہان میں مشہور
خاک میں مل گیا سب ان کا غرور
عطر مٹّی کا جو نہ ملتے تھے
نہ کبھی دھُوپ میں نکلتے تھے
گردشِ چرخ سے ہلاک ہوئے
استخواں تک بھی ان کے خاک ہوئے
روح میں ایک دیوانگی ہونے کے باوجود دنیا کی بے ثباتی پر جس طرح اظہارِ خیال کر رہی ہے اس کی سنجیدگی قابلِ غور ہے۔ مہ جبیں اپنے ذاتی المیے کو دنیا کی بے ثباتی کے پس منظر میں دیکھتی ہے اور اس سرائے فانی کو مقامِ عبرت کہتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ کل جو شگوفہ و گل تھے وہ اب خار بن گئے ہیں۔ جہاں چمن تھا اور اس چمن میں بلبلوں کا ہجوم تھا وہاں بوم نے آشیانہ بنا رکھا ہے۔ مہ جبیں کہ جس نے عشق کے خوبصورت خوابوں کے طلسم کو جنم دیا ہے، جس نے عشق کے رنگ برنگ شیشے سے زندگی کا جمال دیکھا ہے، جس نے اپنے انبساط و حسرت کے تصور میں عاشق کو شامل کیا ہے وہی مہ جبیں اپنے بدلتے ہوئے تصور اور رجحان اور زندگی کے تعلق سے اپنے بدلتے ہوئے رویے کے ساتھ نظر آتی ہے۔ ایک روّیہ وہ تھا کہ اس کی سرمستی توجہ طلب بن گئی تھی، اس کی شخصیت کی سرشاری سامنے تھی، وہ چنچل بھی نظر آتی تھی، اس کے لب و لہجے کی تازگی متاثر کرتی تھی، اور ایک روّیہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی شے، کوئی چیز باقی نہیں رہتی، وقت زمانہ ہر چیز کو مٹا دیتا ہے۔ مکاں رہ جاتا ہے مکیں چلے جاتے ہیں، بادشاہِ ہفت اقلیم زیر خاک ہو جاتے ہیں، اب نہ ستم ہے اور نہ سام، جن کے سروں پر تاج ہوتے تھے آج ان پر فاتحہ پڑھنے والا کوئی نہیں ہے۔ شیریں، کوہکن، نل دمن، قیس لیلیٰ ان میں اب کون رہ گیا ہے؟ موت سے کسی کو رستگاری نہیں ہے سب کو گزر جانا ہے، موت ایک حقیقت ہے، سب سے بڑی سچائی میں بھی گزر جاؤں گی، یہ زندگی بے ثبات ہے۔
اس بدلتے ہوئے روّیے کے ساتھ مہ جبیں اپنے عاشق کو اس طرح سمجھاتی ہے:
’’ہم بھی گر جان دے دیں کھا کر قسم
تم نہ رونا ہمارے سر کی قسم
دل کو ہم جولیوں میں بہلانا
یا مری قبر پر چلے آنا
جا کے رہنا نہ اس مکاں سے دور
ہم جو مر جائیں، تیری جاں سے دور
روح بھٹکے گی گر نہ پائے گی
ڈھونڈھنے کس طرف کو جائے گی
روکے رکھنا بہت طبیعت کو
یاد رکھنا مری وصیّت کو
میرے مر نے کی جب خبر پانا
یوں نہ دوڑے ہوئے چلے آنا
کہے دیتی ہوں جی نہ کھونا تم
ساتھ تابوت کے نہ رونا تم
ہو گئے تم اگر چہ سودائی
دور پہنچے گی میری رُسوائی‘‘
مہ جبیں کی شخصیت اردو مثنویوں میں منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ بڑی تو انائی شخصیت ہے، اپنی روح کی گہرائیوں میں عشق کی دیوانگی چھپائے گزر جاتی ہے۔ رومان اور حالات کے تصادم میں اس کی ذات اُبھرتی ہے اور ایک عام پلاٹ میں تحرک پیدا کر کے ٹریجڈی کا حسن نمایاں کر دیتی ہے۔ عشق میں تنظیم کا تصوّر پیدا ہی نہیں ہوتا، مہ جبیں کی شخصیت ایسی ہے کہ عشق اور حالات کی کشمکش کو دیکھتے ہوئے عشق کی دیوانگی لیے باطن میں اُتر جاتی ہے اور باہر ایک تنظیم کا احساس دلاتی ہے، اس طرح اس عشقیہ کہانی میں عظمت پیدا ہو جاتی ہے۔ خوف صرف یہ ہے کہ دونوں بدنام نہ ہو جائیں، باطن کے تموّج اور تلاطم کو ہر مقام پر محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن ساتھ ہی اس ذہن کی تو انائی کا بھی احساس ملتا جاتا ہے جو خارج میں عمدہ اور شریف قدروں کے پیشِ نظر ایک تنظیم (Order) پیدا کرنا چاہتی ہے۔
مہ جبیں کی شخصیت کا ایک اور پہلو اس طرح نمایاں ہوتا ہے کہ اسے اپنے عاشق کے درد کا احساس ہے، جانتی ہے کہ اس کی موت کے بعد عاشق کا وجود بکھر جائے گا، وہ اسے اُداس دیکھنا نہیں چاہتی یہ نہیں چاہتی کہ اس سے محبت کر نے والے اور جس سے اس نے محبت کی ہے اس کا وجود بکھر جائے۔ روتی جا رہی ہے اور دنیا کی بے ثباتی کو محسوس بناتی جا رہی ہے، روتی جا رہی ہے اور عاشق کے ٹوٹ جانے اور بکھر جانے کے احساس سے کانپ کانپ جا رہی ہے:
’’رنج فرقت مرا اُٹھا لینا
جو کسی اور جا لگا لینا
رنج کرنا نہ میرا، میں قرباں
سن لو گر اپنی جان ہے تو جہاں
دل پہ کچھ آنے دیجیو نہ ملال
خواب دیکھا تھا، یہ خیال
رنج و راحت جہاں میں قوام ہے
کبھی شادی ہے اور کبھی غم ہے
مرگ کا کس کو انتظار نہیں
زندگی کا کچھ اعتبار نہیں
ہم کو گاڑے جو اپنے دل کو کڑہائے
ہم کو ہے ہے کرے جو اشک بہائے
عمر تم کو تو ہے بہت کھینا
دن بہت سے پڑے ہیں رو لینا
میں دل و جاں سے ہوں فدا تیری
لے کے مر جاؤں میں بلا تیری
اب تو کیوں ٹھنڈی سانسیں بھرتا ہے
کیوں مرے دل کے ٹکڑے کرتا ہے
میں ابھی تو نہیں گئی ہوں مر
کیوں سجائی ہیں آنکھیں رو روکر
اس قدر ہو رہا ہے کیوں غمگیں
کیوں مٹاتا ہے اپنی جانِ حزیں
کر نہ رو رو کے اپنا حال زبوں
ارے ظالم ابھی تو جیتی ہوں
ایسے قصّے ہزار ہوتے ہیں
یوں کہیں مردوے بھی روتے ہیں
تم نے جی دینے کی جو کی تدبیر
حشر کے روز ہوں گی دامن گیر
رنج سے میرے کچھ اُداس نہ ہو
یوں تو للّٰہ بدحواس نہ ہو
تم تو اتنے میں ہو گئے رنجور
تھک گئے اور ابھی ہے منزل دور
مہ جبیں کی شخصیت ایک بار پھر اپنی سرمستی اور سرشاری کا اظہار کر نے لگتی ہے، وہ اس شبِ آخر کو شبِ برات کی رات بنانا چاہتی ہے:
سمجھو اس کو شبِ برات کی رات
ہم ہیں مہماں تمھارے آج کی رات
پھر ملاقات دیکھیں ہو کہ نہ ہو
آج دل کھول کے گلے مل لو
آؤ اچھی طرح سے کر لو پیار
کہ نکل جائے کچھ تو دل کا بخار
باہیں دونوں گلے میں ڈال لو آج
جو جو ارمان ہو نکال لو آج
پھر کہاں ہم کہاں یہ صحبتِ یار
کر لو پھر ہم کو بھینچ بھیچ کے پیار
پھر مرے سر پہ رکھ دو سر اپنا
گال پر گال رکھ دو پھر اپنا‘‘
یہ آخری رات ہے لہٰذا یہ کہتے ہوئے:
’’خوب سا آج دیکھ بھال لو تو
دل کی سب حسرتیں نکال لو تم‘‘
مہ جبیں سچائی اس طرح سامنے رکھتی ہے:
’’ہم تو اٹھتے ہیں اس مکاں سے کل
اب تو جاتے ہیں اس جہاں سے کل
حشر تک ہو گی پھر یہ بات کہاں
ہم کہاں تم کہاں یہ رات کہاں‘‘
کل دنیا سے رخصت ہو جائے گی۔ کہتی ہے:
’’گو کہ عقبیٰ میں رو سیاہ چلی
مگر اپنی سی میں، نباہ چلی
جی کو تم پر فدا کیا میں نے
حق وفا کا ادا کیا میں نے‘‘
مہ جبیں کی باتوں سے عاشق متاثر ہوتا ہے اور بے چین ہو کر کہتا ہے:
صدمہ ہر اِک پہ یہ گزرتا ہے
زہر کھا کھا کے کوئی مرتا ہے
عاشق جو کچھ کہتا ہے اس سے محض کردار کی اکہری صورت کی پہچان ہوتی ہے۔ لگتا ہے وہ مہ جبیں کی باتوں کی گہرائی تک نہیں جا سکا ہے۔ عام اخلاقی درس دینے لگتا ہے مثلاً ماں باپ کا شکوہ ناحق ہے، اولاد پر ان کا بڑا حق ہوتا ہے، ان کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ ان کے رتبے کو پہچاننا چاہیے:
’’کیا بھروسہ حیات کا ان کی
نہ بُرا مانو بات کا ان کی‘‘
مہ جبیں کی اتنی اچھی اور دل کو چھو لینے والی گفتگو کے بعد ’مثنوی زہرِ عشق‘ کے المیے کو ختم ہو جانا تھا وحدتِ تاثر پیدا ہو چکی تھی، اس کے بعد خود مہ جبیں کی گفتگو میں کوئی لطف نہیں رہتا۔ اس کی موت کے بعد جو تفصیل پیش ہوئی ہے اس سے یہ تمثیل مکمل تو ہو جاتی ہے لیکن تاثر کی وحدت مجروح ہوتی ہے۔ یوں جذبوں کی پیشکش ایسی ہے کہ کئی رنگ سامنے آ جاتے ہیں اور مرزا شوق لکھنوی کی فنکاری متاثر کرتی ہے۔
بلاشبہ ’مثنوی زہرِ عشق‘ اُردو کی انتہائی عمدہ کلاسیکی مثنوی ہے، اس کی جمالیاتی خصوصیات صرف ایک مرکزی کردار مہ جبیں کی شخصیت کی دین ہیں۔ اس شخصیت نے کہانی کو ایک ایسا جذباتی تجربہ بنا دیا ہے کہ ہم اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ اختتامیہ اس ذات کے طلسماتی خواب کے ٹوٹنے کا جو حیران کن منظر پیش کرتا ہے اس کے ارتعاشات (Vibrations) کو جانے ہم کب تک محسوس کریں۔
**
مرزا شوق کی تینوں مثنویاں ’فریبِ عشق‘ ، ’بہارِ عشق‘ اور ’زہرِ عشق‘ کلاسیکی آہنگ اور گہری رومانیت لیے ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ان مثنویوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ شاعر، کردار اور قاری تینوں کم و بیش ایک ہی طرح کے جمالیاتی تجربے حاصل کرتے ہیں۔ ہندوستانی جمالیات میں اسے اعلیٰ فنکاری کا ایک بڑا ثبوت تسلیم کیا گیا ہے اور ’سمانو نو بھاوہ‘ (Sama No Nu Bhavoh) سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی ایک ہی قسم کے بھاؤ یا جذبے بیدار ہوں! تخلیق میں تجربوں کے اُتار چڑھاؤ میں کبھی خارجی پہلو زیادہ روشن ہوتا ہے اور کبھی داخلی پہلو اور کبھی دونوں پہلو ایک دوسرے میں اس طرح جذب ہو جاتے ہیں کہ انھیں علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، تینوں صورتوں میں فنکار کے تجربے مرکزی کردار اور قاری کے تجربے بن جاتے ہیں، محسوس ہوتا ہے تینوں کم و بیش ایک جیسا جمالیاتی انبساط حاصل کر رہے ہیں۔ تینوں مثنویوں میں ’بہارِ عشق‘ سمانونو بھاوہ کی زیادہ عمدہ مثال ہے۔
’مثنوی بہارِ عشق‘ ایک رومانی کہانی پیش کرتی ہے جس میں مرزا شوق کا ٹھوس جمالیاتی رویہ بہت واضح اور روشن ہے، اس کی وجہ سے اس مثنوی میں جمالیاتی تجربے کی ایک ڈرامائی اُٹھان پیدا ہوئی ہے، جو اس مثنوی کی ایک اہم جمالیاتی خصوصیت ہے۔
ہیروئن کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیتوں میں فنکار کے جمالیاتی رویے اور کردار کے شعور کی سطح پر ہلکے ہلکے خوبصورت تصادم کے حسن کی پہچان ہو جاتی ہے۔ اس مثنوی میں ’نفسی جسمانی‘ (Psycho- Physical) ردِّ عمل کے جو تاثرات ملتے ہیں ان سے مثنوی کی تخلیقی سطح بلند ہوتی ہے اور ڈراما وجود میں آتا ہے، اور مثنوی کی تخلیقی سطح اتنی دلکش ہو جاتی ہے کہ ہم اسے صرف پڑھتے ہی نہیں اس ڈرامے کو دیکھنے اور سننے بھی لگتے ہیں، یہ معمولی کارنامہ نہیں ہے، ایک ٹھوس جمالیاتی رویے کے بغیر یہ ممکن نہ تھا:
نہ سمجھتا ہے کچھ نہ بوجھتا ہے
پھوٹی آنکھوں سے کچھ بھی سوجھتا ہے
صاف صورت سے تیری پیدا ہے
آدمی کا ہے کو ہیولا ہے
کبھی آفت نہ یہ اٹھائی تھی
چھائیں پھوٹیں میں نوج آئی تھی
آپے سے ہو گیا ہے کیوں باہر
آگ لگ جائے تیری مستی پر
اشتیاق ایسا کیا زیادہ ہے
خیر ہے، کہیے کیا ارادہ ہے؟
جان ہلکان ہو گئی بخدا
چھوڑ غارت گئے مرا پیچھا
کیا دھما چوکڑی مچائی ہے
تیری بخت اور ی کچھ آئی ہے
کتنا بد اختلاط ہے، درگور
کیا بُرا ارتباط ہے، درگور
تو تو عادی ہے اور باتوں کا
بات کیا مانے دیو لاتوں کا
چمٹا جاتا ہے بے حیا یک لخت
بھوت ہے یا پلیت ہے کم بخت
کچھ نمو ہی نہ مجھ کو جانیے گا
دیکھئے پھر بُرا نہ مانیے گا
مو سے، جیتے اکھاڑ ڈالوں گی
مکڑی کی طرح جھاڑ ڈالوں گی
کوسا جا رہا ہے، بُرا بھلا کہا جا رہا ہے، اپنی خراب حالت کا بیان بھی ہو رہا ہے، عاشق کو بد ذات، نگوڑا، نٹ کھٹ، زہریلا سب کچھ کہا جا رہا ہے، دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں اور ساتھ ہی یہ پوشیدہ خواہش بھی ہے کہ عاشق اسے اسی طرح ستاتا رہے، پریشان کرتا رہے، نوچتا رہے، جھوٹ بول بول کر مکرتا رہے، جو کچھ کر رہا ہے بس کرتا ہی رہے، یہ لمحے کبھی ختم نہ ہوں، یہ انداز ہی اور کچھ ہے:
چپکے چپکے پکارتی تھی کبھی
ڈھیلے ہاتھوں سے مارتی تھی کبھی
کبھی جھنجھلا کے سر پٹک دینا
ہاتھ لے کر کبھی جھٹک دینا
کبھی باتوں میں ہوش کھو دینا
کبھی کھسیانی ہوکے رو دینا
کبھی تیوری چڑھا کے چپ رہنا
اور کبھی مسکرا کے یہ کہنا
رحم مجھ پر نہیں کچھ آتا ہے
کوئی مہماں کو یوں ستاتا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔
اتنا بھی بے حیا نہیں دیکھا
ایسا چکنا گھڑا نہیں دیکھا
اس انداز میں جو ناز نخرے ہیں اور جو شوخی اور بانکپن ہے اسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ نظم عاشقانہ ہے، عورت اور مرد کے رشتے کی کہانی ہے، جنسی جذبہ متحرک ہے، حواس کی تسکین کی آرزو ہے، جو پوری ہو جاتی ہے۔ تیز اور ترش لہجے کے اندر پیار کے آہنگ کی نرمی اور ملائمت پوشیدہ ہے۔ جذبے کے کئی رنگ اُبھرتے چلے آتے ہیں، ہیروئن کے مزاج کی تشکیل میں نفسی، جسمانی کیفیتوں نے نمایاں حصّہ لیا ہے، ہیروئن کے مکالمے ایسا ڈرامائی منظر پیش کر دیتے ہیں کہ ہم یہ منظر دیکھنے لگتے ہیں اور مکالموں کو سن کر اسے بہت پاس، بہت قریب محسوس کر نے لگتے ہیں، اس مثنوی کی جمالیاتی خصوصیتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے انھیں نظر انداز نہیں کر سکتے۔ مرکزی کردار کے جو تجربے حاصل ہوتے ہیں وہ یقیناً لذّت آمیز ہیں لیکن وہ صرف جنسی نہیں رہ جاتے، جمالیاتی بن جاتے ہیں کہ جن میں تخیل سے جذبوں تک کا سفر اہمیت رکھتا ہے۔
’بہارِ عشق‘ کی کہانی ماحول اور زندگی کی سچائیوں سے گہرا رشتہ رکھتی ہے، عاشق اور محبوب جو تجربے حاصل کرتے ہیں ان میں مٹّی کی سوندھی سوندھی خوشبو موجود ہے، جو پلاٹ ہے اس میں وقت اور مقام کی بھی یہی خبر ہے۔ مرزا شوق کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے واقعے کو ڈراما بنا دیا ہے، اسے تخیل اور جذبے کی آنچ دی ہے، سچی نفسی کیفیات کے آہنگ سے آشنا کر دیا ہے اور واقعے کو کرداروں کے عمل اور ردِّ عمل سے اس حد تک محسوس بنا دیا ہے کہ مٹّی کی خوشبو نتھنوں میں سمانے لگتی ہے۔ ’نفسی ردِّ عمل‘ اور ’نفسیاتی جسمانی تاثرات‘ غیر معمولی نوعیت کے ہیں، یہ تخلیق کے جمالیاتی ارتعاشات ہیں جو ہم تک پہنچتے ہیں، موتف (Motif) جنسی اور عاشقانہ ہے، ایک خوبصورت، البیلے، دلکش، سادہ، فطری، سلیس اور با محاورہ اسلوب نے اس موتف کو بلندی بخش دی ہے۔ ’سیکس‘ کے کھیل سے رومان کی آخری حد تک نمائش یا Exhibitionism نہیں ہے بلکہ ’شرینگار رس‘ (Srngararasa) کے جلوے ہیں۔
ہندوستانی جمالیات کی تاریخ میں ایک دور ایسا بھی آیا کہ جس میں یہ کہا گیا کہ صرف ’شرینگار رس‘ ہی ایک ’رس‘ ہے اس کے علاوہ کسی اور ’رس‘ کا وجود ہی نہیں ہے، اس کا دائرہ اتنا وسیع کر دیا گیا کہ دوسرے تمام رسوں کا حسن اس میں سمٹ آیا! ’شرینگار رس‘ کے پیشِ نظر ’بہارِ عشق‘ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی بعض جمالیاتی خصوصیتیں بہتر طور پر نمایاں ہوں گی۔ شرینگار رس کے مطابق اچھی تخلیق کلی سے آہستہ آہستہ پھول بنتی ہے، اسے ’وکاس‘ (Vikasa)کہا گیا ہے۔ تجربہ ایک کلی کی مانند جب آہستہ آہستہ نکلنے لگتا ہے تو ہم شرینگار رس کے پاس پہنچنے لگتے ہیں، ’بہارِ عشق‘ میں عاشق لبِ بام ایک خوبصورت چہرہ دیکھ لیتا ہے اسی وقت تجربہ کلی کی مانند چٹکتا ہے:
بام روشن تھا طور کی صورت
سر سے پا تک تھی نور کی صورت
گل سے رخسار، گول گول بدن
گات جس طرح قمقمے روشن
رُخ پہ وہ بکھرے بکھرے زلف کے بال
رگِ گل سے وہ ہونٹ، پان سے لال
بے حسی کے وہ دانت رشکِ قمر
جانِ عاشق نثار ہو جس پر
ناک میں نیم کا فقط تنکا
شوخی، چالاکی، مقتضا سِن کا
آستینوں کی وہ پھنسی کرتی
جسم میں وہ شباب کی پھرتی
قد میں آثار سب قیامت کے
گوری گردن میں طوق منّت کے
عکسِ رُخ موتیوں کے دانوں میں
بجلیاں چھوٹی چھوٹی کانوں میں
رگِ گل سی کمر لچکتی ہوئی
چوٹی، ایڑی تلک مٹکتی ہوئی
کیا خدا داد، حسن پایا تھا
آپ اللہ نے بنایا تھا
کلی کے چٹکتے ہی رومانیت کی شعاعیں گرفت میں لے لیتی ہیں، ’شرینگار رس‘ کی پہلی لذّت مثنوی کے حسن کا احساس بخشتی ہے۔ خوبصورت چہرہ یا حسین وجود خود ’شرینگار رس‘ لیے ہوئے ہے۔ حسن و جمال کا پیکر فنکار، عاشق اور قاری تینوں کا تجربہ بن جاتا ہے، حسن کے ایک ایک اشارے کو اس خوبصورت زبان میں اس طرح پیش کیا گیا ہے جیسے لبِ بام، ہم خود عاشق کی طرح یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔
’شرینگار رس‘ کے مطابق اچھی تخلیق میں ’وکاس‘ کے بعد ’وستار‘ (Vistara) ہوتا ہے یعنی پھول بن جانے کے بعد تجربے کی خوشبو پھیلتی ہے، واقعات یہ خوشبو لیے ہوتے ہیں، حسن و عشق دونوں میں کشش محسوس ہونے لگتی ہے، تجربوں کا شہد ٹپکنے لگتا ہے یہاں ذہنی اور نفسی تصادم، آرزو مندی، حسی کیفیات، عشق (کام) سب کی تصویریں مختلف تاثرات کے ساتھ اُبھر نے لگتی ہیں، بہارِ عشق میں عاشق کی حالت اور کیفیت کے ذکر سے تجربے کا پھیلاؤ (وستار) شروع ہوتا ہے:
کوئی سمجھا کہ زہر کھایا ہے
کوئی بولا کہ جِن کا سایا ہے
کوئی کہتا تھا، ہے کوئی آزار
کوئی بولا نظر کا ہے اسرار
ایک رمّال نے کہی یہ بات
’’ان پہ بھاری بہت ہے آج کی رات‘‘
اب دوا و دوش ہے بے ہنگام
اس کا تو ہو چکا ہے کام تمام
مشکل اس سائے کا اُتارا ہے
اس کو تو اِک پری نے مارا ہے!
اور اس کے بعد ڈرامے میں اٹھان آتی ہے، ہیروئن کو عاشق کا حال معلوم ہوتا ہے تو اس کا ردِّ عمل بھی توجہ طلب بن جاتا ہے، تلخی اور ترشی ڈرامے میں تصادم پیدا کر نے کے لیے ہے اس کے پیچھے ’شرینگار رس‘ کی شیرینی آہستہ آہستہ لذّت سے آشنا کرتی رہتی ہے:
میری جوتی سے زہر کھایا ہے
مجھ کو کس بات پر دھرایا ہے؟
ایسے جھگڑے مری بلا جانے
میں کہاں وہ کہاں خدا جانے
جان دیتے ہیں زہر کھاتے ہیں
مر چڑا پن مجھے دکھاتے ہیں
بس چلے تو میں اور دے دوں زہر
برے کی جان پر خدا کا قہر!
اب دیکھئے شہد کس طرح ٹپکتا ہے:
خیر! اب جلد تم یہاں سے جاؤ
جس طرح ہو سکے دوا پلواؤ
پہلے اپنی طرف سے دم دینا
پھر مری جان کی قسم دینا
پھر یہ کہنا کہ او خدائی خراب
کیوں گنواتا ہے اپنا حسن و شباب
دو مہینے میں تم کو خبط ہوا
سال دو سال بھی نہ ضبط ہوا
اور پھر آہستہ سے یہ کہا جاتا ہے:
’’اِک ذرا پھر بھی حال کہہ جانا!‘‘
اور یہ اشارہ کیا جاتا ہے:
ہم بھی درگاہ آج جائیں گے
ہو گی فرصت تو واں بھی آئیں گے!
پھیلاؤ (وِستار) اس طرح ہوتا ہے کہ دونوں کردار ایک دوسرے کے لیے آہستہ آہستہ جمالیاتی تجربہ بننے لگتے ہیں، ہیروئن کے اندازِ گفتگو ہی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ بھی عاشق کو اپنا ’’جمالیاتی تجربہ‘‘ بنانے کی خواہش مند ہے۔ ’شرینگار رس‘ آہستہ آہستہ پھیلتا محسوس ہوتا ہے۔ مسرت اور انبساط جمالیاتی تجربے کا جوہر ہے، جو موجود ہے، ’شرینگار رس پرکاش‘ (بھوج) کے مطابق جمالیاتی تجربے کی ایک اہم منزل مغرورانہ احساس یعنی ’اہنکار‘ (Ahankara) بھی ہے، اس منزل پر کردار کی ’انا‘ لہرانے لگتی ہے۔ سبب یہ ہوتا ہے کہ شعور کی کسی نہ کسی سطح پر اپنے حسن کا احساس بڑھ جاتا ہے، جب یہ معلوم ہو کہ کوئی فریفتہ ہو گیا ہے تو مغرورانہ احساس یا اہنکار‘ کی دلکشی توجہ طلب ہے۔ ہیروئن کے مکالموں میں ’شرینگار رس‘ اور ’اہنکار‘ کی اتنی خوبصورت آمیزش ہے کہ اس کی مثال نہ ملے۔ اس آمیزش سے اچھی شاعری نے بھی جنم لیا ہے اور کہانی میں ڈرامائی کیفیتیں بھی پیدا ہوئی ہیں:
نام چلنے کا سن وہ عاشق کش
بولی تیوری چڑھا کے خیر! چہ خوش؟
ہوتے سوتوں کو اپنے وہ بلوائے
خوبی گرمی کی، کیا مزے میں آئے
دل میں یہ کیا خیال آیا ہے
خانگی کسبی کچھ بنایا ہے
کوئی مرتا ہے کیوں بلا جانے
ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانے
بیٹھے بیٹھے فتور اُٹھایا ہے
کچھ قضا کا پیام آیا ہے
دور ہو بس کہ ہے قصور معاف
پاس کرتی ہوں جان کر اشراف
ورنہ اس کا مزہ چکھا دیتی
کیا کہوں جو تمھیں سزا دیتی
اب خبر دار یاں نہ آئیے گا
پھر نہ یہ بات منہ پر لائیے گا
’شرینگار رس‘ میں ’اہنکار‘ شامل ہوتا ہے اور مسرت و انبساط حاصل ہونے لگتا ہے، اس لیے کہ ’اہنکار‘ کے شامل ہوتے ہی تحرک پیدا ہو جاتا ہے۔ کہانی میں زندگی اور حرکت آ جاتی ہے۔ عشق کے پیکر جمالیاتی تجربے سے سرشار ہونے لگتے ہیں، کچھ پانے کی چاہت بڑھنے لگتی ہے۔
’شرینگار رس‘ کے مطابق اچھی تخلیق میں وکاس اور وِستار کے بعد ایک قسم کی مستی اور سرشاری آ جاتی ہے۔ اس کی کیفیت وہی ہوتی ہے جو بہت تیز جھولا جھولنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اسے کشوبھا (Kasobha) کہا گیا ہے، جو جھولا تیز تیز جھلا رہا ہے۔ اس کے خلاف کبھی ہلکا اور کبھی تیز احتجاج بھی ہوتا ہے اور ساتھ ہی اسی طرح تیز تیز جھولنے کی خواہش پوری شدّت کے ساتھ موجود بھی رہتی ہے۔ مثنوی بہارِ عشق میں یہ مستی اور سرشاری موجود ہے۔ ’تیز تیز جھولا جھولنے ‘ کا منظر بھی سامنے ہے، ہلکا اور تیز احتجاج بھی ہے، ہیروئن کے نمائشی احتجاج کی پہچان بھی مشکل نہیں ہے، خود سپردگی کی تمنّا بھی بیدار ہے۔ پہلے تو ہیروئن حضرت عباس کی درگاہ جانے کے بہانے ڈولی پر سوار ہو کر عاشق کے گھر آتی ہے:
اتنے میں آدمی نے دی یہ خبر
’’اِک سواری کھڑی ہے ڈیوڑھی پر‘‘
آئی ماما بھی ایک ہے ہمراہ
کتنی چالاک ہے خدا کی پناہ
اپنے سائے سے بھی بھڑکتی ہے
بوٹی بوٹی پڑی پھڑکتی ہے
ہنسی، ٹھٹھا، ضلع جگت میں طاق
چل رہی ہے زبان تڑاق تڑاق
منہ دوپٹے ّ سے ڈھانپتی اتری
خوف کے مارے کانپتی اُتری
نیچی نظروں سے دیکھ بھال لیا
سر پہ آنچل الٹ کے ڈال لیا
سب حیا سے بدن چرائے ہوئے
پائینچے ناز سے اٹھائے ہوئے
گھونگرو جوتی کے چھم چھماتے تھے
ہاں میں ہاں اور یہ ملاتے تھے
کچھ رُکھائی تھی کچھ لگاوٹ تھی
کچھ حقیقت تھی، کچھ بناوٹ تھی
مثنوی کا یہ حصہ ّفنی فضیلت (Artistic Excellence) کی ایک عمدہ مثال ہے۔ ’کشوبھا‘ (Kasobha) کے رنگ اور مناظر دیکھئے! ہیروئن جھولے پر ہے اور عاشق ’اسے تیز تیز جھلا رہا ہے:
جان کر ڈال سب مری ہلکان
بھٹ پڑے سونا جس سے ٹوٹیں کان
کچھ عجب ڈھنگ ہیں طبیعت کے
بہت آراستہ ہو صحبت کے
تھے اسی دن کو سب اٹھا رکھے ّ
کیا کیا ارمان ہیں خدا رکھے ّ
بولی ’باتیں بنا نہ میرے ساتھ‘
’’اب تو میں لگ گئی ہوں تیرے ہاتھ‘‘
مجھ پہ مرتے ہو تم؟ قرآن کسوں؟
سچ کہو تم کو میری جان کسوں
اے تو دنیا میں تا قیامت رہ
چاہنے والا تو سلامت رہ
باؤلی ہو جو تیرے فقروں میں آئے
چاہ میں جان اپنی کون گنوائے
جب نہ مانی کسی طرح منّت
ہا تھا پائی کی آ گئی نوبت
ڈر سے رخسار دونوں زرد ہوئے
خوف سے ہاتھ پاؤں سرد ہوئے
کیسا بیٹھا ہے گریۂ مسکیں
جیسے کچھ گویا جانتا ہی نہیں
کیسا بے رحم موذی آفت ہے
اب تلک میری غیر حالت ہے
کیا مجھے بے قرینہ کر ڈالا
سب پسینے پسینے کر ڈالا
پچیس تیس اشعار کہ جن میں جنسی کیفیات ہیں ’کشوبھا‘ کے تحت رکھے جا سکتے ہیں۔
’شرینگار رس‘ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب رومان پرور فضا اور ماحول میں حسن ایک کلی کی مانند نمودار ہوتا ہے، پھر یہ کلی کھلتی ہے، پھول کے وجود میں آتے ہی جمالیاتی جذبہ بیدار ہونے لگتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ کئی دوسرے جذبوں کو ہم آہنگ کر لیتا ہے اور اس کے بعد محبت (پریمن) اپنی ہمہ گیری، تہہ داری اور لذتیت کا احساس بخشنے لگتی ہے۔ اس مثنوی میں محبت پروان چڑھتی ہے اور آخر میں شادی ہو جاتی ہے۔ ڈرامائی کیفیت، رومانی تجربوں کی پیشکش کے منفرد انداز، فطری اندازِ گفتگو، جذبات نگاری، صحتِ زبان، محاوروں کے فطری استعمال، بیان کی شگفتگی اور مٹھاس، اسلوب بیان کے جادو اور شرینگار رس کی عمدہ خصوصیات کے پیشِ نظر مثنوی بہارِ عشق کلاسیکی اُردو لٹریچر کا ایک قیمتی تحفہ ہے۔
٭٭٭
مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ کہ ان کے توسط سے فائل کا حصول ہوا۔
ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید