02:50    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

4388 1 0 05

پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد

غزل کا فنی سفر ۔۔ حالی سے اقبال تک

باب (۱)

انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں برصغیر پاک و ہند سماجی اور سیاسی تبدیلیوں سے دوچار ہوا۔۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں ہندوستانیوں کی ناکامی نے انہیں اس درجہ شکستہ اور نڈھال کر دیا کہ وہ ایک طویل عرصہ تک زندگی کے منظر نامے میں فعال کردار ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم رہے۔ جاگیردارانہ نظام کے زوال اور مشینی دور کے آغاز نے تہذیب و تمدن کی اُس بساط کو لپیٹ دیا جو ہندوستان کی مختلف قوموں کے میل جول اور قرب و یگانگت کے باعث وجود پذیر ہوئی تھی ۔ اس معاشرتی انقلاب کے باعث مذہبی اور اخلاقی قدریں تغیر آشنا ہوئیں ، فکر اور اندازِ فکر کے زاویے بدلنے لگے اور پُرانے مسائلِ حیات کی جگہ نئے مسائل نے لے لی۔ بدلتے ہوئے اس منظر نامے میں حدود و قیود کے بند ٹوٹے اور نئے تجربات کے در وا ہونے لگے۔اس موڑ پر زندگی کے باقی شعبوں کی طرح ادب کی اخلاقیات، نظریات اور موضوعات میں بھی تغیر و تبدل کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ اظہار کے نئے سانچوں اور بیان کے نئے قرینوں کو استعمال کرنے کا شوق بے دار ہوا ۔ادب کے رنگِ جدید کی تعمیر و تشکیل میں انگریزی تعلیم و ادب نے نمایاں حصہ لیا۔ علی گڑھ اور انجمنِ پنجاب کی تحریکوں نے جدید رنگِ ادب کو روشناسِ خلق کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا ۔ چوں کہ ان تحریکوں کی اساس مغربی فکر و نظر پر اٹھائی گئی تھی اس لیے ان تحریکوں نے نئی نسلوں کو مشرقی طرزِ احساس سے کافی حد تک بے گانہ کر دیا۔

                   اردو ادب بالخصوص شاعری کو اس نئے ماحول سے ہم آہنگ کرنے میں جس شخص نے سب سے اہم کردار ادا کیا وہ مولانا الطاف حسین حالی (۱۸۳۷ء تا ۱۹۱۴ء) تھے ۔ مشرقی علوم و فنون کا شناور اور عاشق ہونے کے باوجود انہوں نے نئے رجحانات اور جدید افکار کو خوش آمدید کہا اور زمانے کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنے ادب و شعر کے ’’فرسودہ‘‘ اور ’’ کہنہ‘‘ لباس کو تبدیل کرنے کی سعی کی ۔ اعتدال سے بڑھی ہوئی اس سرگرمی کے نتیجے میں وہ نشانۂ ملامت اور ہدفِ تنقید ٹھہرے اور روایت آشنا حلقوں نے ا ن کی ’’ اصلاحات ‘‘کا مذاق اڑایا تاہم ان کی نیک نیتی اور اخلاص کی بدولت ان کی اصلاحات نے مخالفتوں اور رکاوٹوں کے بند توڑ کر مقبولیت حاصل کی اور ایک زمانے کو اپنا ہم نوا بنا لیا۔حالی کی ذہن سازی میں ان کے فطری رجحانِ طبع کا عمل دخل سب سے نمایاں ہے۔ وہ ابتدا سے ہی ’’ دُر مَع الدّہرکیفِ  دار‘‘ کے قائل تھے اور طرزِ کہن پہ اڑنا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔ مبالغہ اور اغراق سے ان کی طبیعت گھبراتی تھی اور سادگی و صاف بیانی ان کے نزدیک کلام کا بنیادی وصف تھی۔ حالات کی نا ہمواری نے ان کے دل کو گداز کر دیا تھا ۔ دہلی میں تعلیم کے دوران میں جب کہ وہ میدانِ سخن میں نووارد تھے اور ’’خستہ ‘‘ تخلص کرتے تھے،مرزا اسد اللہ خان غالب سے متأثر ہو کر ان کے حلقۂ شاگردی میں آ گئے اگرچہ بہ قول ان کے یہ شاگردی ان کے حق میں زیادہ سود مند ثابت نہ ہوئی تاہم اسی وسیلے سے انہیں نواب مصطفی خان شیفتہ کے قریب آنے کا موقع ملا، حالی آٹھ سال تک شیفتہ کے بچوں کے اتالیق رہے، شیفتہ کی صحبت نے ان کی فطری اصلاح پسندی، صاف بیانی اور سادہ گوئی کو مزید جلا بخشی، ان اثرات کا ذکر حالی کی زبانی سُنیے:

’’(شیفتہ) مبالغہ کو ناپسند کرتے تھے اور حقائق و واقعات کے بیان میں لطف پیدا کرنا اور سیدھی سادی اور سچی باتوں کو محض حسنِ بیان سے دل فریب بنانا، اسی کو منتہائے کمالِ شاعری سمجھتے تھے۔ چھچھورے اور بازاری الفاظ و محاورات اور عامیانہ خیالات سے شیفتہ اور غالب دونوں متنفر تھے۔۔۔۔ ان کے خیالات کا اثر مجھ پر پڑنے لگا اور رفتہ رفتہ ایک خاص قسم کا مذاق پیدا ہو گیا۔‘‘ (۱)

 

          نواب شیفتہ کے انتقال (۱۸۶۹ء) کے بعد تلاشِ معاش انہیں لاہور لے آئی جہاں وہ گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازم ہو گئے۔ یہاں ان کا کام انگریزی کتابوں کے اردو تراجم کے الفاظ و محاورات، اسلوبِ بیان اور عبارت کی درستی تھا ۔ انگریزی کتب سے اس ربط ضبط ، مولانا محمد حسین آزاد کی صحبت اور انجمنِ پنجاب سے وابستگی نے ان پر نئی دُنیا کے دروازے کھول دیئے۔ مغربی افکار کی ’’ چکا چوند‘‘ نے انہیں ایسا اپنی طرف مائل کیا کہ قدیم مشرقی ادب سے بے تعلقی پیدا ہونے لگی،انہوں نے خود لکھا ہے کہ:

’’انگریزی لٹریچر کے ساتھ فی الجملہ مناسبت پیدا ہو گئی اور نامعلوم طور پر آہستہ آہستہ مشرقی لٹریچر اور خاص کر فارسی لٹریچر کی وقعت دل سے کم ہونے لگی۔‘‘

باب (۲)

قدیم مشرقی ادب سے یہ بے زاری روز بہ روز بڑھنے لگی اور وہ ’’ نیچرل شاعری‘‘ کا راگ الاپنے لگے، اندازِ نظر کی اس تبدیلی کو انہوں نے اپنا عقیدہ بنا لیا اور مشرقی ادبیات کے ذخیرے کو ’’ فرسودہ ‘‘ خیال کرنے لگے۔ سرسید احمد خان اور علی گڑھ تحریک سے جذباتی اور عقیدت مندانہ وابستگی نے ان کے اس اصلاح پسندانہ نقطۂ نظر کو اور زیادہ مہمیز کیا اورسرسید  کی سرپرستی میں ان کے سینے میں دبی چنگاریاں شعلۂ جوالا کی شکل اختیار کر اٹھیں اور وہ مشرقی ادب کی ’’ ناپاکی ‘‘ کو ختم کر کے اسے’’ صالحیت‘‘ کے دائرے میں لانے کے لیے سرگرمِ عمل ہو گئے۔

 

          مولانا حالی کی قدیم و جدید غزلوں کے تکنیکی خدوخال کا جائزہ لینے سے پیش تر ان کی مجوزہ اصلاحاتِ غز ل پر ایک نظر ڈالنا زیادہ ضروری ہے اگرچہ انہوں نے غزل کے فکری پہلو پر زیادہ زور دیا ہے تاہم ہیئت اور تکنیک کے حوالے سے بھی اصلاحات پیش کی ہیں جن کا خلاصہ درجِ ذیل ہے:

(ا) ’’ غزل میں جو عشقیہ مضامین باندھے جائیں وہ ایسے جامع الفاظ میں ادا کیے جائیں جو دوستی اور محبت کی تمام انواع و اقسام اور تمام جسمانی اور روحانی تعلقات پر حاوی ہوں اور جہاں تک ہو سکے کوئی ایسا لفظ نہ آنے پائے جس سے کھلم کھلا مطلوب کا مرد یا عورت ہونا پایا جائے مثلاً کلاہ، چیرہ، دستار، جامہ، قبا، سبزہ و خط، مسیں بھیگنا، زرگر پسر، مطرب، مغبچہ، ترسابچہ وغیرہ یا محرم ، کُرتی، منہدی،چوڑیاں، موباف، آرسی، جھومر ، وغیرہ۔‘‘ (۳)

 

          (ب) ’’ جس طرح ہماری غزل کے مضامین محدود ہیں اسی طرح اس کی زبان بھی ایک خاص دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی کیوں کہ چند معمولی مضمون جب صدیوں تک برابر رٹے جاتے ہیں تو زبان کا ایک خاص حصہ ان کے ساتھ مخصوص ہو جاتا ہے جو کہ زبانوں پر بار بار آنے اور کان سے بار بار سُننے کے سبب زیادہ مانوس اور گوارا ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر ان الفاظ کی جگہ دوسرے لفاظ جو انہیں کے ہم معنی ہوں استعمال کیے جائیں تو غریب اور اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔۔۔ غزل کے یہاں ایک لفظ بھی غیر مانوس ہو تو اُولو معلوم ہوتا ہے، گلاب کے تختہ( قصیدہ، مثنوی، واسوخت وغیرہ) میں کانٹے بھی پھولوں کے ساتھ نبھ جاتے ہیں مگر گل دستہ(غزل)       میں ایک کانٹا بھی کھٹکتا ہے۔۔۔۔۔ اگر دفعتاً اس میں کثرت سے غیر مانوس اور اجنبی ترکیبیں اور اسلوبِ بیان داخل ہو جائیں تو غزل ایسی ہی گٹھل ہو جائے جیسی کہ بعض شعرا کی غزل عربی اورفارسی کے غیر مانوس الفاظ اور ترکیبیں اختیار کرنے سے ہو گئی ہے، حالاں کہ غزل کو بہ اعتبارِ مضامین وسعت دینا بہ ظاہر اس بات کی متقاضی ہے کہ زبان اور طریقۂ بیان کو بھی وسعت دی جائے۔پس ضرور ہے کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ طریقۂ زبان میں دفعتاً کوئی بڑی تبدیلی بھی واقع نہ ہو اور باوجود اس کے غزل میں ہر قسم کے خیالات عمدگی کے ساتھ ادا ہوسکیں۔‘‘(۴)

 

          (ج) ’’ اصنافِ سخن میں عموماً اور غزل میں خصوصاً اس اصول کو ملحوظ رکھیں کہ سلسلۂ سخن میں نئے اسلوب جہاں تک ممکن ہو کم اختیار کیے جائیں اور غیر مانوس الفاظ کم برتے جائیں مگر نامعلوم طور پر رفتہ رفتہ ان کو بڑھاتے رہیں اور زیادہ تر کلام کی بنا قدیم اسلوبوں اور معمولی الفاظ و محاورات پر رکھیں مگر الفاظ کے حقیقی معنوں ہی پر قناعت نہ کریں بل کہ ان کو کبھی حقیقی معنوں میں کبھی مجازی معنوں میں ،کبھی استعارہ و کنایہ کے طور پر اور کبھی تمثیل کے پیرائے میں استعمال کریں ورنہ ہر قسم کے خیالات ایک نپی تُلی زبان میں کیوں کر ادا کیے جاسکتے ہیں۔‘‘ (۵)

 

          (د) ’’ بعض مضامین فی نفسہ ایسے دل چسپ اور دل کش ہوتے ہیں کہ ان کو محض صفائی اور سادگی سے بیان کر دینا کافی ہوتا ہے مگر بہت سے خیالات ایسے ہوتے ہیں کہ معمولی زبان ان کو ادا کرتے وقت رو دیتی ہے اور معمولی اسلوب ان میں اثر پیدا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، ایسے مقام پر اگر استعارہ اور کنایہ یا تمثیل وغیرہ سے مدد نہ لی جائے تو شعر شعر نہیں رہتا بل کہ معمولی بات چیت ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ شاعر کا یہ ضروری فرض ہے کہ مجاز واستعارہ و کنایہ و تمثیل سغیرہ کے استعمال پر قدرت حاصل کرے تاکہ ہر روکھے پھیکے مضمون کو آب و تاب کے ساتھ بیان کر سکے۔ لیکن استعارہ وغیرہ میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مجازی معنی فہم سے بعید نہ ہوں ورنہ شعر چیستان اور معمّا بن جائے گا۔‘‘ (۶)

 

          (ہ) ’’ صنائع بدائع پر کلام کی بنیاد رکھنے سے اکثر معنی کا سررشتہ ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اور کلام میں بالکل اثر باقی نہیں رہتا ۔ کیوں کہ مخاطب کے دل میں یہ خیال گزرتا ہے کہ شاعر نے ترتیب میں تصنع کیا ہے اور الفاظ میں اپنی کاری گری ظاہر کرنی چاہی ہے، بالکل شعر کی تاثیر کو زائل کر دیتا ہے۔ پس صنائع کی پابندی اور التزام سے تمام اصنافِ سخن میں عموماً اور غزل میں خصوصاً ہمیشہ بچنا چاہیے۔‘‘ (۷)

 

          (و)’’ سنگلاخ زمینوں میں اس کے سوا اور کُچھ مقصود نہیں ہوتا کہ دو بے میل چیزوں میں میل ثابت کیا جائے۔ پس شاعر کو چاہیے کہ ردیف ایسی اختیار کرے جو قافیہ سے میل کھاتی ہو اور ردیف و قافیہ دونوں مل کر دو مختلف کلموں سے زیادہ نہ ہوں ۔ بل کہ رفتہ رفتہ مردّف غزلیں لکھنی کم کرنی چاہئیں اور سرِدست محض قافیہ پر قناعت کرنی چاہیے۔قافیہ ایسا اختیار کرنا چاہیے جس کے لیے قدرِ ضرورت سے دس گُنے بل کہ بیس گُنے الفاظ موجود ہوں ورنہ مضمون کو قوافی کا تابع کرنا        پڑے گا، قافیے مضمون کے تابع نہ ہوں گے۔ جتنے نام ور شعرا گزرے ہیں انہوں نے یہی اصول ملحوظ رکھا ہے اور ہمیشہ ایسی زمینیں اختیار کی ہیں جن میں ہر قسم کے مضمون کی گنجائش ہو۔‘‘ (۸)

 

          مولانا حالی کی متذکرہ بالا اصلاحاتِ غزل کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ انہیں روایتی موضوعاتِ غزل سے جس قدر نفرت تھی اس قدر وہ غزل کی تکنیکی اور ہیئتی خال و خط سے متنفر نہ تھے البتہ وہ غزل کی ریزہ خیالی، زبان و بیان کی پیچیدگی ، قافیے کی سختی ،ردیف کی پابندی اور صنائع بدائع کے بے ہنگم استعمال پر چیں بہ جبیں ضرور تھے۔اور انہوں نے اصلاحاتِ تکنیک میں انہی پہلوؤں پر زیادہ زور دیا ہے۔ مولانا حالی کا خیال تھا کہ غزل کا سانچا(ہیئت) باقی اصناف کے مقابلے میں زیادہ موزوں اور کشادہ ہے ۔ شاعر کو ہر وقت فرصت میسر نہیں ہوتی کہ وہ طولانی نظمیں کہہ کر اپنے خیالات کا اظہار کر سکے اس لیے قوتِ متخیلہ کو بے کاری سے بچانے اور تازہ کیفیات کے اظہار کے لیے غزل سے بڑھ کو کوئی ذریعہ قوتِ متخیلہ کو بے کاری سے بچانے اور تازہ کیفیات کے اظہار کے لیے غزل سے بڑھ کو کوئی آلہ نہیں ہو سکتا ۔یہی سبب ہے کہ انہوں نے غزل کی ’’اصلاح‘‘ کو زیادہ اہم جانا اور غزل کی درستی کا بیڑا اٹھایا ۔ مولانا حالی چوں کہ عملی آدمی تھے اس لیے اپنے کہے کو ’’ عملی جامہ ‘‘ پہنانے کے لیے انہوں نے قدیم طرزِ سخن کو ترک کیا اور جدید طرز کی حامل غزلیں کہنے لگے۔ ۱۸۹۳ء میں جب ان کا دیوان شائع ہوا تو حصہ غزل میں رنگِ قدیم کی صرف تیس جب کہ رنگِ جدید کی چھیاسی غزلیں شامل تھیں۔اس میں کچھ شبہ نہیں کہ  ان کی جدید رنگ کی غزلیں ’’ منظوم نصائح‘‘ کے درجے پر فائز ہیں۔ ان میں بے رنگی اور بے کیفی بھی موجود ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی جدید غزلوں نے وہ اثر پیدا نہیں کیا جس کے وہ آرزومند تھے۔ رشید حسن خاں نے حالی کے جدید رنگِ سخن کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

         

          ’’ کلاسیکی اندازِ غزل سرائی کی جو نہایت درجہ مستحکم اور ہمہ گیر روایت موجود تھی اور موجود ہے، وہ ایسی ہلکی پھلکی پیوند کاری کو قبول کر ہی نہیں سکتی تھی ، خاص کر اس صورت میں جب پیوند کار نیا نیا ’’مسلمان‘‘ ہوا ہو اور کوشش کر کے پچھلے عقیدے کو بھول جانا چاہتا ہو ، عقیدہ تو بدل گیا ، کہ وہ اپنے بس کی چیز تھی، طبیعت نہیں بدل پائی کہ وہ اپنے قابو کی بات نہیں ہوتی اور غزل کی روایت بھی نہیں بدل پائی کہ وہ کسی ایک مصلح تو کیا ، سیکڑوں مصلحین کے بس کی بات نہ تھی اور نہ ہے۔

          حالی مصلحِ قوم بن سکتے تھے اور بنے، واعظِ قوم ہو سکتے تھے اور ہوئے، مگر ایسا مجتہد یا مجدد بننا ان کے قابو سے باہر کی بات تھی کہ ایک صنف کے مزاج، انداز، اس کی اندرونی فضا اور اس کے ٹھاٹھ کو اس آسانی کے ساتھ بد ل دیں اور اس میں ایسے مضامین شامل کرنا چاہیں جو کتنے ہی مفید ہوں ، مگر غزل کے اپنے موضوعات کے مقابلے میں بالکل بے رنگ بل کہ بد رنگ نظر آئیں۔ اتنی بڑی روایت کو اس قدر ہلکے پھُلکے عناصر بدل ہی نہیں سکتے تھے۔‘‘(۹)

 

          مولانا حالی بالطبع جدید نہ تھے یہی سبب ہے کہ ان کی جدید غزلوں میں بھی ایسے اشعار مل جاتے ہیں جو حقیقی شعر گوئی یا روایتی طرزِ سخن کے غماز ہیں۔ انہوں نے غزل کی تکنیک میں بھی انہی عناصر کی پیروی کی ہے جو روایتی اور کلاسیکی غزل کا طرۂ امتیاز ہیں، البتہ اپنی اصلاحات ِ تکنیک میں جن امور کا انہوں نے ذکر کیا تھا اپنی غزلیات میں ان کی پاس داری کی ہے ۔جیسے انہیں غزل کی ریزہ خیالی سے کسی قدر چڑ تھی اور اس کے مقابلے میں مسلسل غزل کو وہ پسند کرتے تھے۔ ان کے دیوان میں کئی مسلسل غزلیں ملتی ہیں ، وحدتِ مضمون کے باعث ان کی غزلیں نظم کے رنگ و آہنگ کی حامل دکھائی دیتی ہیں۔ ذیل میں ان کی چند مسلسل غزلوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

                   جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگز

                   اے بہارِ زندگانی الوداع

                   دل کو درد آشنا کیا تو نے

                   کاٹیے دن زندگی کے ان یگانوں کی طرح

                   کرتے ہیں سو سو طرح سے جلوہ گر

                   خوبیاں اپنے میں گو بے انتہا پاتے ہیں ہم

                   بڑھاؤ نہ آپس میں ملت زیادہ

                   اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا

                   کہیں الہام منوانا پڑے گا

                   حقیقت محرمِ اسرار سے پوچھ

                   قلق اور دل میں سوا ہو گیا             وغیرہ

 

           ان کے نزدیک ردیف ادائے مطلب میں مزاحم ہوتی ہے اور قافیہ کے ساتھ اس کا میل ملاتے ملاتے شعر اور خیال کا خون ہو جاتا ہے ، اس لیے انہوں نے اپنی اصلاحات میں شعرا کو مشورہ دیا کہ غیر مردّف غزلوں کو رواج دینا چاہیے اور اگر ردیف کا استعمال ناگزیر ہو تو ایک یا دو کلمات کی حامل ردیفیں استعمال کرنی چاہئیں۔ ان کی غزلیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ردیف کے سلسلے میں اسی قاعدے کی پیروی کی ہے ان کی ردیفیں ایک یا دو الفاظ پر مشتمل ہیں اور کئی غزلیں غیر مردّف ہیں۔

          حالی  چوں کہ سادہ بیانی کے قائل اور داعی تھے اس لیے ان کے کلام میں آرائشی عناصر جیسے تراکیب، تشبیہات واستعارات،مبالغہ اور دیگر صنائع و بدائع کا استعمال تقریباً نہ ہو نے کے برابر ہے۔ اس قید نے ان کے کلام کو بے رنگ اور کسی حد تک بے اثر بنا دیا ہے۔وہ شاعری میں لفظ کی قدر و منزلت سے آگاہ تھے انہیں احساس تھا کہ لفظ کا درست اور بر محل استعمال خیال کی مؤثر ترسیل اور تخلیق کی تاثیر کا ذریعہ ہے، مقدمہ شعرو شاعری میں انہوں نے لفظ کو خیال پر ترجیح دی ہے ، انتخابِ الفاظ کی اہمیت کے حوالے سے وہ رقم طراز ہیں کہ:

 

          ’’شعر میں دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک خیال، دوسرے الفاظ، خیال تو ممکن ہے کہ شاعر کے ذہن میں فوراً ترتیب پا جائے مگر اس کے لیے الفاظِ مناسب کا لباس تیار کرنے میں ضرور دیر لگے گی۔ یہ ممکن ہے کہ ایک مستری مکان کا نہایت عمدہ اور نرالا نقشہ ذہن میں تجویز کر لے مگر یہ ممکن نہیں کہ اس نقشہ پر مکان بھی ایک چشمِ زدن میں تیار ہو جائے۔ وزن اور قافیہ کی اوگھٹ گھاٹی سے صحیح سلامت نکل جانا اور مناسب الفاظ کے تفحص سے عہدہ برا ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ شاعری کا مدار جس قدر الفاظ پر ہے اس قدر معانی پر نہیں ، معانی کیسے ہی بلند اور لطیف ہوں اگر عمدہ الفاظ میں بیان نہ کیے جائیں گے ہر گز دلوں میں گھر نہیں کر سکتے اور ایک مبتذل مضمون پاکیزہ الفاظ میں ادا ہو نے سے قابلِ تحسین ہو سکتا ہے۔‘‘ (۱۰)

 

          الفاظ کی قدر و قیمت کا عرفان رکھنے کے باوجود انہوں نے اپنی غزلوں میں کئی ایسے لفظ برتے ہیں جو غرابت اور ثقالت کے باعث شعر کے حسن کو مجروح کر تے ہیں ، ممسک، دلالّہ،استغراق، دھُرپت، چھٹواتے، لقمۂ چرب ، دُکھڑا،روبہ، برن ، بہیر، دَوں، قصاب، شمۂ مہر و وفا، اہلِ ورع ، حاصلِ افیون و بنگ، کحال، کحل الجواہر، فضلۂ روباہ و گرگ، لُٹّس، جھانجھ ایسے اجنبی اور غریب الفاظ و تراکیب کے استعمال نے ان کے شعروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ایسے غیر غزلیہ الفاظ کے برتاؤ سے ان کے لہجے کی روانی ٹوٹ ٹوٹ جاتی ہے ، چند مثالیں دیکھیے:

                                      رازِ دل کی سرِ بازار خبر کرتے ہیں

                                      آج ہم شہر میں خوں اپنا ہدر کرتے ہیں

                                                         

                             جب کہ عقبیٰ مل گئی دنیا ہے پھر سہل الوصول

                                      شیخ لگتے ہاتھ اس پر بھی تصرف کیجیے 

                                                         

                             چیونٹیوں میں اتحاد اور مکھیوں میں اتفاق

                                      آدمی کا آدمی دشمن ، خدا کی شان ہے

                                                         

ٍ                          اے غمِ دوست تُجھی پر نہیں اپنی گزراں

                                      کُچھ فتوح اس کے سوا اور ہے بالائی بھی

                                                         

          مولانا حالی شاعری میں وزن کی پابندیوں کے شاکی ہونے کے باوجود اس کی قدرو قیمت سے ناواقف نہ تھے اگرچہ انہوں نے وزن اور قافیہ کو شعر کی ماہیت سے خارج قرار دیا ہے اور شعر کی بہ جائے نظم سے مشروط ٹھہرایا ہے۔(۱۱ ) تاہم اس کے باوجود انہیں یہ احساس تھا کہ:

                   ’’ وزن سے شعر کی خوبی اور اس کی تاثیر دوبالا ہو جاتی ہے۔‘‘ (۱۲)

          مولانا حالی مشرقی علومِ شعر سے کماحقہ واقف تھے،پُرانی طرز کے مدرسوں میں انہوں نے صرف و نحو کے ساتھ ساتھ عروض و قوافی کا درس بھی سبقاً سبقاً لیا ہو گا تاہم انہوں نے اپنی فطری سادہ مزاجی اور صاف بیانی کے باعث پیچیدہ اور غیر مروج بحروں میں شعر کہنے کی شعوری کوشش نہیں کی۔ ان کے دیوان ( مطبوعہ ۱۸۹۳ء )میں جدید و قدیم رنگ کی حامل ۱۱۶ غزلیات کے عروضی مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے غزل کے لیے ایسے اوزان برتے ہیں جو عام فہم اور رواں دواں ہیں اور جن کی ادائیگی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ اگرچہ انہوں نے سترہ اوزان میں شعر کہے ہیں تاہم ان میں بھی کئی اوزان کا استعمال محض تبرکاً ہوا ہے ۔حالی کے مرغوب اوزان یہ ہیں:

                    ۱۔ بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف/ مقصور(مفعولُ فاعلاتُ مفاعیلُ فاعلن/ فاعلان)

                   ۲۔بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف/ مخبون مسکن محذوف(فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعلن)

                    ۳۔ بحرِ رمل مسدس مقصور/ محذوف ( فاعلاتن فاعلاتن فاعلن/ فاعلان)

                   ۴۔ بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف / مقصور( فاعلاتن مفاعلن فعلن)

          مولانا الطاف حسین حالی کے جدید رنگِ غزل کو قبولِ عام کا شرف عطا نہیں ہوا مگر ان کے تنقیدی خیالات بڑے دور رس ثابت ہوئے اور جدید غزل کی تعمیر و تشکیل میں ان کے خیالات کی روشنی نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ مولانا حالی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ’’مقدمۂ شعر و شاعری ‘‘ کے ذریعے پہلی بار غزل کے فکری اور فنی پہلوؤں پر گُفت گو اور مکالمے کو رواج دیا، ان سے پیش تر تذکرہ نگاروں نے اتنے بڑے تناظر میں شاعری کو بالعموم اور غزل کو بالخصوص دیکھنے کا جتن نہیں کیا تھا۔ مولانا حالی  نے اپنے اصلاحی جوش و جذبہ کے باعث غزل کو روایت کے چشمۂ صافی سے کاٹنے اور اسے اصلاحِ معاشرہ کا ایک ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔ ان کی ملت دوستی اور اخلاص میں کُچھ کلام نہیں مگر صدیوں کی روایت کو یوں یک قلم نظر انداز کر دینا ممکن نہ تھا۔ حالی  غزل کے مخالف یا دشمن نہ تھے مگر یہ درست ہے کہ ان کے افکار اور اصلاحات نے غزل کی مقبولیت کو نقصان پہنچایا۔ حالی نے غزل پر جو مکالمہ آغاز کیا تھا وہ چونکا دینے والا تھا اس لیے وقتی طور پر اس نے اربابِ شعر وسخن کو اپنی طرف متوجہ کیا، اسماعیل میرٹھی، چکبست اور اس عہد کے دیگر چند شاعروں نے حالی کے نقطۂ نظر کی اتباع کی اور اسے فروغ دینے کی کوششیں کیں مگر یہ کوششیں کام یاب نہ ہوئیں اور یہ نقطۂ نظر مجموعی طور پر فکر و نظر کو اپنا بنانے میں ناکام رہا، ڈاکٹر یوسف حسین خان نے اس ضمن میں بہت گہری بات کی ہے ،وہ لکھتے ہیں:

                   ’’ مولانا حالی  نے غزل پر جو نکتہ چینی کی وہ اصلاحی محرک کے تحت تھی نہ کہ ادبی مقاصد کے تحت،انہیں غزل پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ یہ حسن و عشق کے معاملات کی شاعری ہے۔ عشق ، عقل اور اخلاق کو خراب کر دینے والی چیز ہے اس سے جتنا بھی اجتناب کیا جائے اتنا ہی قومی مصالح کی ترقی کا موجب ہوگا۔ ان کے نزدیک عشق بے کاری کا مشغلہ ہے ، لیکن یہ نقطۂ نظر سطحی تھا، مولانا حالی کی نیک نیتی اور اخلاص میں شُبہ نہیں ،لیکن اس ضمن میں ان کا مشورہ قابلِ قبول نہ تھا۔ یہ بات ہمارے ادبی مزاج کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ مولانا حالی کے مشورے کو قبول نہیں کیا گیا۔‘‘ (۱۳)

باب (۳)

۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد دہلی اور لکھنؤ کے ادبی مراکز کی آب و تاب ماند پڑ گئی ، شعر و ادب کی محفلیں چوں کہ درباروں کے ساتھ وابستہ تھیں اس لیے درباروں کی تباہی و بربادی کے باعث شعر و ادب کی محفلیں بھی اجڑ گئیں۔ اس صورتِ حال میں شعرا نے ان ریاستوں کا رُخ کیا جہاں شعرو ادب کا چراغ ہنوز جھِلملا رہا تھا۔ ان ریاستوں میں الور، ٹونک، جے پور، گوالیار اور رام پور کے نام زیادہ قابلِ ذکر ہیں ۔ ان ریاستوں کے راجاؤں اور نوابوں نے اپنے محدود وسائل اور کم سروسامانی کے باوجود شعر و ادب کی سرپرستی کی۔ ملک کے سیاسی ، معاشرتی، اخلاقی اور تہذیبی حالات کی تبدیلی کے باوجود ان ریاستوں سے وابستہ شعرا اسی رنگِ سخن سے پیوستہ رہے جو کلاسیکی شعرا سے خاص ہے۔ ریاست رام پور اس لحاظ سے باقی ریاستوں پر فوقیت رکھتی ہے کہ دہلی اور لکھنؤ کے با کمال اور مسلم الثبوت اساتذہ نے یہاں شعر و ادب کا وہ ماحول پیدا کر دیا جو اپنی چمک دمک اور قدر و قیمت میں دہلی اور لکھنؤ کے ماحول سے کسی طرح کم نہ تھا۔ جس دور میں علی گڑھ اور انجمنِ پنجاب کی تحریکیں نئے مذاقِ سخن کو رواج دے رہی تھیں اُس دور میں کلاسیکی غزل کی حفاظت کا فریضہ رام پور اور دوسری ادب پرور ریاستوں نے ادا کیا ۔ کلاسیکی غزل کے نمائندہ شاعروں میں امیر مینائی، داغ دہلوی اور جلال لکھنوی کا نام سرِ فہرست ہے۔ ان شعرا نے اپنے اپنے انداز میں کلاسیکی غزل کی آب و تاب کو برقرار رکھا اور اس میں موضوعاتی، لسانی اور تکنیکی حوالوں سے کئی اضافے کیے۔ ذیل میں کلاسیکی غزل کے ان نمائندہ شاعروں کے کلام کا فنی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔

          امیر احمد امیر مینائی( ۱۸۳۲ء تا ۱۹۰۰ء)خالص لکھنوی ماحول میں آنکھیں کھولیں۔ ابتدا میں انہوں نے طرزِ ناسخ کا تتبع کیا۔ ان کااُس دور کا کلام رعایتِ لفظی، ابتذال اور بد نما تشبیہات واستعارات سے بوجھل دکھائی دیتا ہے۔ مضامین کا دائرہ محدود اور زبان و بیان رعنائی اور دل کشی سے عاری ہے، عورتوں کے ملبوسات اور ان کے سامانِ زینت و آرائش کے بے جا تذکرے سے کلام سطحیت کا شکار ہے مگر رفتہ رفتہ انہوں نے اس طرزِ سخن کو خیر باد کہا اور مشق و مزاولت سے وہ رنگ پیدا کر لیا جو دبستان ِ مصحفی کی جملہ خوبیوں کا مظہر ہے۔ رام پور میں مسابقت اور مقابلے کی فضا نے ان کی زبان و بیان کو اور زیادہ ہمہ رنگ بنا دیا ۔ داغ  دہلوی کے علاوہ کوئی دوسرا شاعر ان کے مقام و مرتبہ تک نہیں پہنچتا۔اگرچہ انہوں نے داغ دہلوی کے رنگِ سخن میں بھی شعر کہے ہیں مگر کسی لحاظ سے داغ سے کم مرتبہ نہیں۔ البتہ موضوعات کی وسعت ، فکر کی متانت اور خیال کی بلند پروازی میں انہیں داغ پر فوقیت حاصل ہے۔

          امیر  مینائی کی غزل کا تکنیکی مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے بوجھل تراکیب، دور از کار تشبیہات واستعارات اور بے محل محاورات سے اپنا دامن بچایا ہے۔ غزل کے لیے انہوں نے سادہ اور رواں دواں زمینوں کا انتخاب کیا اور ان میں وہ گُل بوٹے اُگائے ہیں جو لکھنوی زبان کی فصاحت، سلاست اور آراستگی سے معمور ہیں ۔ روزمرہ اور محاورے کے عمدہ استعمال نے ان کی غزلوں میں گفت گو کا حسن پیدا کر دیا ہے ۔ان کا کلام حشو و زوائد سے پاک اور تعقید سے صاف ہے ۔ انہوں نے ایسی بحروں کا انتخاب کیا جو زمانے کے مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں ، چھوٹی بحر میں ان کی غزلیں شیرینی اور مٹھاس میں لاجواب ہیں ۔ انہوں نے معاملاتِ زندگی اور کیفیاتِ ذہنیہ کو کمال مہارت اور فنی چابک دستی سے تشبیہ واستعارہ کے پیرائے میں پیش کیا ہے، ان کے کلام میں مضمون آفرینی اور پیکر تراشی کی نہایت عمدہ مثالیں ملتی ہیں ۔نمونۂ کلام دیکھیے:

تیرے جگنو کا اگر آنکھوں میں بندھتا ہے خیال
کرمکِ شب تاب بن کر صاف اُڑ جاتی ہے نیند

اے برق تو ذرا کبھی تڑپی ٹھہر گئی
یاں عمر کٹ گئی ہے اسی اضطراب میں

پہچان پر ہے ناز تو پہچان جایئے
کیا ہے ہمارے دل میں بھلا جان جایئے

تُم کو آتا ہے پیار پر غصہ
مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے

وہ اور وعدہ وصل کا قاصد نہیں نہیں!
سچ سچ بتا یہ لفظ انہی کی زباں کے ہیں

          نواب مرزا داغ دہلوی( ۱۸۳۱ء تا ۱۹۰۵ء) اپنے عہد کے سب سے مقبول اور پُر گو شاعر تھے۔ شاعرانہ مقام و مرتبہ کے باعث انہیں ’فصیح الملک‘ ،’جگت استاد‘ اور ’جہاں استاد ‘ کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے چار ضخیم دیوان یاد گار چھوڑے ہیں اور ان کے شاگردوں کی تعداد رام بابو سکسینہ کے مطابق پندرہ سو سے متجاوز ہے۔ ان کے نمائندہ تلامذہ میں بے خود  دہلوی، سائل دہلوی ، نوح ناروی ، علامہ اقبال، جگر مراد آبادی، احسن مارہروی، آغا شاعر دہلوی اور سیماب  اکبر آبادی کے نام شامل ہیں۔اس لیے اگر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں تو بے جا نہیں کہ:

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

           داغ کی نشوونما قلعہ معلیٰ میں ہوئی جہاں اُس وقت دہلی کے سربرآوردہ اور با کمال استاد شعرو ادب کی محفلیں سجائے بیٹھے تھے، ان با کمال اساتذہ کی صحبت اور شیخ محمد ابراہیم ذوق کی شاگردی نے اُن کی شاعرانہ تربیت پر دُور رس اور دیر پا اثرات مرتب کیے۔ روزمرہ اور محاورہ کے دل کش اور بر محل استعمال سے انہوں نے وہ اسلوب پیدا کیا جو اُردو شعر و ادب  میں انہی سے خاص ہے۔ ان کے اسلوب کی سحر کاری اور دل کشی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ ان کے سب سے بڑے حریف امیر مینائی نے بھی ان کے رنگ اور طرز میں کلام کہا ہے۔

          داغ زبان کے بے بدل شاعر تھے ، انہوں نے ظفر اور ذوق سے زبان کے جو اسرار و رموز سیکھے تھے انہیں اپنی لیاقت اور شوق سے مزید وسعت آشنا کیا ۔ روزمرے اور محاورے کو انہوں نے اس طرح برتا ہے کہ فصاحت و بلاغت منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ انہوں نے جرأت  کی معاملہ بندی کو آتش  کی صفائیِ زبان سے یوں گھُلا ملا دیا ہے کہ ایک بالکل نیا اور بولتا ہوا اسلوب پیدا ہو گیا جو داغ کی شناخت ٹھہرا۔داغ نے جس عیش و نشاط اور راحت و آسودگی میں زندگی کی اس کا حقیقی اور کھرا اظہار ان کے کلام میں دکھائی دیتا ہے ۔فکر وفلسفہ سے ان کا کلام مطلقاً نا آشنا ہے۔ انہوں نے جذبہ و شوق کو شعر کی اساس ٹھہرایا اور جذبے کی سرشاری اور وارفتگی نے ان کے کلام میں ڈھل کر اردو شعرو ادب کو غنائیت اور شیرینی کے نئے ذائقوں سے آشنا کیا ہے۔ کلامِ داغ کی تکنیکی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ:

          ’’ان(داغ) کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ پیچیدہ اور گُنجلک ترکیبوں اور موٹے موٹے غیر مانوس فارسی اور عربی الفاظ کو انہوں نے اپنے کلام میں جگہ نہیں دی۔ اس سے اُن کا کلام تصنع  اور تکلف سے خالی ہے۔ الفاظ نہایت سادہ اور معمولی ،ترکیبیں سیدھی سادی اوردرست،بندش  نہایت چُست، شعر کی ظاہری زیب و زینت یعنی صنائع بدائع کی کثرت اور دور از کار تشبیہوں اور مبالغہ اور حشو و زواید سے بھی اُن کا کلام پاک ہے۔ اشعار بالکل تُلے نپے، زور دار اور مؤثر ہوتے ہیں۔‘‘ (۱۴)

          داغ دہلوی نے اپنے شاگردوں کی اصلاح و رہنمائی کے لیے جو ہدایت نامہ نظم کیا ہے اس سے ان کی تکنیک آشنائی کا اظہار ہوتا ہے۔وہ نہ صرف تکنیکی عناصر کی قدرو قیمت کا کامل شعور رکھتے تھے بل کہ انہیں احساس تھا کہ تکنیکی عناصر کے فن کارانہ اور ماہرانہ استعمال سے شعر چمک چمک اٹھتا ہے۔ اس منظوم ہدایت نامے( ۱۵ ) کے چند شعر ملاحظہ ہوں:

چُست بندش ہو نہ ہو ُسست یہی خوبی ہے
وہ فصاحت سے گرا ، شعر میں جو حرف دبا

عربی، فارسی الفاظ جو اُردو میں کہیں
حرفِ علت کا بُرا ان میں ہے گرنا، دبنا

جس میں گُنجلک نہ ہو تھوڑی سی، صراحت ہے وہی
وہ کنایہ ہے جو تصریح سے بھی ہو اولیٰ

ترک جو لفظ کیا اب وہ نہیں مستعمل
اگلے لوگوں کی زباں پر ہی وہ دیتا تھا مزا

ہے یہ تعقید بُری بھی مگر اچھی ہے کہیں
ہو جو بندش میں مناسب تو نہیں عیب ذرا

شعر میں حشو و زواید بھی بُرے ہوتے ہیں
ایسی بھرتی کو سمجھتے نہیں شاعر اچھا

جو کسی شعر میں ایطائے جلی آتی ہے
وہ بڑا عیب ہے کہتے ہیں اُسے بے معنیٰ

استعارہ جو مزے کا ہو مزے کی تشبیہ
اس میں اِک لطف ہے اس کہنے کا ہے کیا کہنا

اصطلاح اچھی، مثل اچھی ہو بندش اچھی
روزمرہ بھی بہت صاف فصاحت سے بھرا

ہے اضافت بھی ضروری مگر ایسی تو نہ ہو
ایک مصرع میں جو ہو چار جگہ سے بھی سوا

عطف کا بھی ہے یہی حال یہی صورت ہے
وہ بھی آئے متواتر تو نہایت ہے بُرا

لف و نشر آئے مرتب تو بہت اچھا ہے
اور ہو غیر مرتب تو نہیں ہے بے جا

جو نہ مرغوبِ طبیعت ہو ،بُری ہے وہ ردیف
شعر بے لطف ، اگر قافیہ ہو بے ڈھنگا

شعر میں ہوتی ہے شاعر کو ضرورت اس کی
پڑھ لیا جس نے عروض اس کو کہیں گے دانا

بے اثر کا کبھی ہوتا نہیں مقبول کلام
کیوں کہ تاثیر وہ شے ہے جسے دیتا ہے خدا

          داغ دہلوی کے کلام کی جاذبیت اور دل کشی میں روز مرہ کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے، روزمرہ کے استعمال میں داغ نے جس قدرت و مہارت کا مظاہرہ کیا ہے اُس کی کہیں نظیر نہیں ملتی۔ روزمرہ کے استعمال نے ان کے کلام کو سادگی، سلاست،روانی اور کاٹ عطا کی ہے اور یہ تمام عناصر مل کر ان کے اسلوب میں یوں رچ بس گئے ہیں کہ ان کا علاحدہ علاحدہ تجزیہ ممکن نہیں۔ روزمرہ کی چاشنی کے باعث ان کی شاعری میں بے ساختگی اور بے تکلفی کی وہ فضا قائم ہوئی ہے جس نے اُن کے کلام کوبہ قول ڈاکٹر تاثیر’’ مسلسل گفتگو‘‘ کی صورت عطا کی ہے۔ (۱۶)

اس گفت گو میں کوئی تصنع ، کوئی بناوٹ اور کوئی پیچ داری نہیں۔ ان مکالموں میں نثر کی سادگی اور بول چال کی خوب صورتی بہ درجۂ اتم موجود ہے۔ ذیل میں روزمرہ کی چند نادر مثالیں دیکھیے:

مری التجا پر بگڑ کر وہ بولے
نہیں مانتے اس میں کیا ہے کسی کا

چاہ کا نام جب آتا ہے بگڑ جاتے ہو
وہ طریقہ تو بتا دو تمہیں چاہیں کیوں کر

خط مر ا پھینک دیا یہ کہہ کر
مجھ سے دفتر نہیں دیکھا جاتا

ناروا کہیے ، ناسزا کہیے
کہیے، کہیے ،مجھے بُرا کہیے

 دمِ رخصت یہ چھیڑ تو دیکھو !
مجھ سے کہتے ہیں کب ملیں گے آپ

پہلے گالی دی سوالِ وصل پر
پھر ہوا ارشاد کیوں کیسی کہی

          داغ کے کلام میں صنعتوں کا استعمال بہت کم ہے ، مگر جہاں انہوں نے کوئی صنعت برتی ہے وہاں اس استادی اور فن کاری کا مظاہرہ کیا ہے کہ صنعت کا استعمال اہلِ لکھنؤ کی طرح شعوری کوشش اور آورد کا نتیجہ معلوم نہیں ہوتا۔ صنعتوں کے استعمال نے شعر کی تاثیر اور مٹھاس میں اضافہ کیا ہے۔ سید عابد علی عابد ان کی صنعت آشنائی کو یوں داد دیتے ہیں:

’’ داغ صنعتوں کو ایضاحِ مطلب اور جلائے معنی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ صنعتوں کو ملحوظِ خاطر رکھنے کے لیے اسے انتخابِ الفاظ کے لیے رُکنا پڑتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک تو داغ مطابقتِ الفاظ و معانی میں ایک مقامِ بلند حاصل کرتا ہے ،دوسرے صنعتوں کے بر محل اور خوب صورت استعمال سے شعر کی مختلف سطحیں اُفقِ ذہن پر اُبھرتی ہیں۔ داغ کے ہاں صنعتوں کا استعمال بہت زیادہ نہیں لیکن جتنا بھی ہے، فن کارانہ ہے۔‘‘ (۱۷)

          تکنیکی اعتبار سے داغ کی غزل کا مطالعہ ادھورا رہے گا جب تک اس کے دو اہم تکنیکی اوصاف ’’مطلع کی یک آہنگی‘‘ اور ’’ ڈرامائی کیفیت‘‘ کا اجمالی تذکرہ نہ کیا جائے۔ یہ اوصاف داغ کے معاصرین کے ہاں تو کیا پُوری اُردو شاعری میں خال خال نظر آتے ہیں۔ مطلع کی بُنت عام شعر کی نسبت زیادہ پیچیدہ ہے، کیوں کہ مطلع کے دونوں مصرعوں میں ردیف و قافیہ کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ بڑے بڑے اساتذۂ فن کے مطلعے دو لخت ہوتے ہیں اور جہاں فکری طور پر ارتباط موجود ہو وہاں ایک مصرع کی ردیف ’’ حشوِ قبیح‘‘ کی صورت اختیار کر جاتی ہے ۔ اردو میں مطلع کی یک آہنگی کے سب سے خوب صورت اور قابلِ رشک نمونے استاد ذوق کے ہاں دکھائی دیتے ہیں۔ چوں کہ داغ کی شعری تربیت استاد ذوق  کے زیرِ اثر ہوئی اس لیے داغ کے مطلعوں میں یہ وصف پوری تابانی کے ساتھ موجود ہے، دو مثالیں دیکھیے:

خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں
کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں

لذتِ سیرِ دگر چشمِ تماشا لے گی
ایک بار اور بھی دُنیا ابھی پلٹا لے گی

          داغ کا دوسرا نمایاں تکنیکی وصف ڈرامائی کیفیت ہے۔ ان کے اکثر شعروں میں اس تکنیک کی جلوہ آرائی کے باعث شعر کی لذت و تاثیر میں اضافہ ہوا ہے۔ سید عابد علی عابد ان کی اس خوبی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

          ’’ واقعات کا پھیلاؤ، ان کا چڑھاؤ، کش مکش، نقطۂ عروج، مسئلے کا حل، واقعات کا سمٹنا اور انجام، سبھی کُچھ داغ کے اشعار میں پایا جاتا ہے۔‘‘ (۱۸)

          اشعارِ ذیل میں ڈرامائی کیفیت کا حسن دیکھیے:

تم کو ہے وصلِ غیر سے انکار
اور جو ہم نے آ کے دیکھ لیا

شکلِ یوسف کی جو تعریف سُنی ، فرمایا
’’ منصفی شرط ہے، دیکھو ادھر، ایسی تو نہ تھی‘‘

نگہ نکلی نہ دل کی چو ر زلفِ عنبریں نکلی
ادھر لا ہاتھ، مٹھی کھول یہ چوری یہیں نکلی

          داغ کی تربیت جس ماحول میں ہوئی اس میں نغمہ وموسیقی کو ایک بنیادی عنصر کی حیثیت حاصل تھی، داغ نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم پائی تھی ، تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ انہوں نے کئی دھنیں ترتیب دیں اور وہ باقاعدگی سے ستار کا ریاض کیا کرتے تھے۔ نغمہ وموسیقی سے گہری شناسائی نے ان کی شاعری میں نغمگیت کے جوہر کو نکھارا۔ لفظوں کی نشست و ترتیب میں ان کا ذوقِ نغمہ و آہنگ جھلکتا ہے۔ حروفِ صحیح اور حروفِ علت کا متوازن اشتراک بھی ان کی شاعری میں موسیقیت کا ایک ذریعہ ہے۔ داغ کے کلام کے عروضی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی استادی کا سکہ بٹھانے کے لیے پیچیدہ اور مشکل بحروں میں شعر نہیں کہے۔ بحروں کے انتخاب اور استعمال میں بھی ان کے ذوقِ موسیقی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے اپنے مزاج اور موضوعات کی مناسبت سے سادہ، سبک، رواں دواں اور خوش آہنگ بحروں کا انتخاب کیا ۔ چھوٹی بحر کے استعمال میں انہوں نے کمال مہارت اور مشاقی دکھائی ہے ، ان کے چھوٹی بحر کی اکثر اشعار سہلِ ممتنع کی خصوصیت سے متصف ہیں۔ اشعارِ ذیل میں آہنگ کی جلوہ فرمائی دیکھیے:

سر جاتا ہے ، سر سے ترا سودا نہیں جاتی
دل جاتا ہے ،دل سے تری الفت نہیں جاتی

نہ دلاسا ، نہ تسلی ، نہ تشفی ، نہ وفا
دوستی اُس بتِ بد خو سے نبھائیں کیوں کر

کیسا نیاز ، کس کی وفا ، کس کی عاشقی
تم جانتے نہیں، مجھے دعویٰ ہی اور ہے

          جلال لکھنوی ( ۱۸۳۴ء تا ۱۹۰۹ء) امیر اور داغ کے ہم عصروں میں بلند مقام رکھتے ہیں ، صحتِ الفاظ ، مضمون آفرینی اور شوخیِ بیان میں وہ امیر و داغ سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ ابتدا میں انہوں نے لکھنوی رنگِ سخن کو اپنایا مگر بعد میں رام پور میں دہلوی رنگِ سخن کی رعنائی نے انہیں اپنا گرویدہ کر لیا اور انہوں نے دہلی اور لکھنؤ کے امتزاج سے ایک نیا رنگ قائم کیاجس نے ان کے کلام میں لطفِ بیان کے ساتھ متانت اور گہرائی پیدا کر دی، جلال لکھنوی زبان کی لطافتوں اور نزاکتوں سے پوری طرح آگاہ تھے، انہوں نے’سرمایۂ زبان‘، ’مفید الشعرا‘ اور ’ قواعد المنتخب‘ کے نام سے جو رسالے لکھے ہیں ان سے ان کی زبان شناسی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ جلال لکھنوی کا نمونۂ کلام دیکھیے:

اِک قدم جانا جنہیں دشوار تھا
شوق لے کر سیکڑوں منزل گیا

حشر میں چھپ نہ سکا حسرت ِ دیدار کا راز
آنکھ کم بخت سے پہچان گئے تُم مجھ کو

گئی تھی کہہ کے کہ لاتی ہوں زلفِ یار کی بُو
پھری تو بادِ صبا کا دماغ بھی نہ ملا

          جلال  کے کلام میں رعایتِ لفظی کا جو اہتمام ملتا ہے وہ ان کے ہم عصروں کے ہاں دکھائی نہیں دیتا، یہ رعایتِ لفظی محض صنعت کی حیثیت نہیں رکھتی بل کہ تخلیقی عمل کا حصہ بن کر معانی میں اضافے کا سبب بنتی ہے:

کیا پھوٹ کے روئے ہیں مرے پاؤں کے چھالے
پوچھی تھی ذرا چھیڑ کے تکلیف ِ سفر آج

کیا جان پہ کھیلے گا اس انداز سے کوئی
اس کھیل کو سیکھے ترے جاں باز سے کوئی

آنسو رُکے تو کیا ، نہیں چھُپنے کا رازِ عشق
حسرت ٹپک پڑے گی ہماری نگاہ سے

(۳)

          جس وقت علی گڑھ اور انجمنِ پنجاب کی تحریکیں ہندوستانیوں کو مغربی خزانوں سے استفادہ کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع کر نے میں مصروفِ عمل تھیں اس وقت ردِ عمل میں ایک توانا اور بھرپور آواز گونج رہی تھی یہ آواز سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی( ۱۸۴۶ء تا ۱۹۲۱ء) کی تھی ۔ اکبر کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے کمال مہارت سے تہذیبِ مغرب کے کھوکھلے اور مصنوعی پن کو بے نقاب کیا اور اپنی تہذیب کے زندۂ جاوید پہلوؤں کی طرف توجہ دلا کر ذہنی آزادی اور خود اعتمادی کا درس دیا ۔ اکبر کو یہ خدشہ تھا کہ علی گڑھ تحریک کی انگریزی تعلیم کے فروغ کی کوششیں زوالِ مشرق کا باعث بن جائیں گی۔اس لیے وہ شد و مد کے ساتھ سرسید اور علی گڑھ تحریک کی مخالفت پر اتر آئے اور ’’اودھ پنچ‘‘ میں انہوں نے طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے ذریعے تہذیبِ مغرب کی مضحک صورتوں کو پیش کیا اور مقلدینِ تہذیبِ مغرب کی خوب خبر لی۔ اکبر کی اس شدت پسندی میں ان کے رجحانِ طبع کا بڑا عمل دخل ہے، وہ تہذیب و معاشرت اور مذہبی و اخلاقی اقدار اور روایات کے سچے امین اور پاس دار تھے۔ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے درست فرمایا ہے کہ :

          ’’ اکبر کو سلطنت چھن جانے کا اتنا غم نہیں تھا ، جتنا افسوس قدیم طرزِ معاشرت کے اختلال اور روایات کے زوال کا تھا۔‘‘ (۱۹)

          انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں اکبر نے غزل کو آبرو مند رکھا۔ غزل کو نئے رنگوں سے روشناس کیا۔ غزل کی تکنیک ، لفظیات اور موضوعات میں ایسے اضافے کیے جن سے غزل کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اوراس دور میں جب حالی، آزاد اور اسماعیل میرٹھی نظم نگاری کی تلقین و تخلیق میں مصروف تھے، اکبر نے غزل کی ہر دلعزیزی کو بحال رکھا۔اکبر نے غزل کی اشاریت اور ایمائیت کو نیا رنگ دیا اور اس کی صدیوں کی روایت کو اگلے زمانوں سے ہم کلام ہونے کا حوصلہ بخشا۔اکبر الہ آبادی نے گیارہ بارہ سال کی عمر میں سخن گوئی آغاز کی اور اس وقت کے صفِ اوّل کے استاد وحید الہ آبادی جو خواجہ آتش کے تلامذہ میں نمایاں مقام رکھتے تھے، سے کلام پر اصلاح لینے لگے۔ وحید الہ آبادی کے زیرِ اثر وہ لکھنوی روایات ، اندازِ کلام اور طرزِ سخن سے آشنا ہوئے اور زندگی بھر اسی دبستان سے اپنا تعلق قائم رکھا۔ ڈاکٹر عبدالاحد خان خلیل نے ان کی شاعری کو مندرجہ ذیل پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے(۲۰):

          دورِ اوّل                  :        ۱۸۶۲ء تا ۱۸۷۵ء

          دورِ دوم                  :        ۱۸۷۰ء تا ۱۸۸۶ء

          دورِ سوم                 :        ۱۸۸۷ء تا ۱۹۰۸ء

          دورِ چہارم     :        ۱۹۰۹ء تا ۱۹۱۲ء

          دورِ پنجم                 :        ۱۹۱۳ء تا ۱۹۲۱ء

          اکبر کی شاعری کے پہلے دو دور ( ۱۸۶۲ء سے ۱۸۸۶ء تک کا زمانہ) مکمل طور پر لکھنؤ کی شعری روایت کے تابع ہیں۔ اس زمانے میں ان کا اسلوبِ خاص وضع نہ ہوا تھا جو بعد میں ان کی شناخت بنا۔ ابتدائی دور کا غزلیہ کلام انہی تکنیکی عناصر کا حامل ہے جو اس وقت کے اساتذہ کے ہاں عام مستعمل تھے۔ اس دور کے کلام میں صنائع و بدائع کا استعمال رسمی و تقلیدی ہے۔استادی کا لوہا منوانے کے لیے بے رس تشبیہات ، پیچیدہ استعارہ سازی اور دقیق و غریب الفاظ کا چلن عام ہے۔ ابتدائی دور کا کلام فارسی تراکیب سے بھرا ہوا ہے، اگرچہ ان تراکیب میں کئی ایک ان کی اپنی کاوش و کوشش کا نتیجہ ہیں تاہم اُس شائستگی اور حسن سے خالی ہیں جو بعد کے ادوار میں دکھائی دیتا ہے، ابتدائی کلام میں مستعمل چند تراکیب ملاحظہ ہوں:

          اثرِ جذبۂ دل، غمِ شبِ ہجراں، جلوۂ رفتارِ جاناں، قرارِ دلِ بے تاب، موردِ طعنۂ بے گانۂ احباب، رو کشِ آئینۂ مہرِ جہاں تاب، مسببِ عالمِ اسباب، سیرِ طلسماتِ جہاں، فرقت ِ شیشہ وساغر، شرمندۂ فرمائشِ احباب، مصحفِ رخسارِ قاتل، غیرتِ دامانِ گُل چیں، جلوۂ شاہدِ معنی، بیاضِ چشمِ وحدت، قلزمِ اشکِ ندامت،خانۂ تن، کشتۂ تیغِ نگاہِ نازِ قاتل،شرارِ شعلۂ نے تابی ِ دل۔

          پہلے دور میں انہیں ترکیب سازی سے جو رغبت تھی اُس کا اظہار ذیل کی غزل میں مستعمل تراکیب سے کیا جا سکتا ہے، اس غزل میں تراکیب کا استعمال ایک صنعت سے کم ریاضت کا نتیجہ نہیں ۔ سوائے مقطع کے ہر مصرع میں دو تراکیب کی قید اور ہر ترکیب تین کلمات پر مشتمل :

 

وفورِ شوقِ قاتل سے نثارِ ہمت ِ دل ہوں
اُمیدِ جذبۂ دل سے مقیم ِ کوئے قاتل ہوں

ہجومِ آہِ سوزاں سے ،خیالِ روئے جاناں سے
فروغِ بزمِ ماتم ہوں، چراغِ خانۂ دل ہوں

حجابِ روئے قاتل سے ، غمِ ناکامی دل سے
نگاہِ چشم ِ حسرت ہوں، شہید ِ نازِ قاتل ہوں

وفورِ شوقِ ماتم سے، صدائے نالۂ غم سے
شریکِ حالِ حسرت ہوں، شکستِ شیشۂ دل ہوں

ہوائے باغِ عالم سے،جفائے خنجرِ غم سے
بقائے رنگِ عشرت ہوں، وفائے روحِ بسمل ہوں

بلائے یادِ گیسو سے ، خیالِ تیغِ ابرو سے
ظہورِ جوشِ سودا ہوں، گواہِ حالِ بسمل ہوں

خیالِ حسنِ صورت سے ، ہجومِ دردِ الفت سے
ہُمائے اوجِ معنی ہوں ، نشانِ عشقِ کامل ہوں

ہوائے شعلۂ غم سے،جفائے چرخِ اظلم سے
چراغِ داغِ حسرت ہوں،گرفتارِ غمِ دل ہوں

نسیمِ صبح ِ عشرت سے، فروغِ شوقِ دولت سے
ہجومِ خوابِ غفلت ہوں، چراغِ عمرِ غافل ہوں

لب ِ پیمانۂ دل سے ، وفورِ شوقِ کامل سے
مریضِ لذتِ غم ہوں، لبِ اظہارِ سائل ہوں

جفائے تیغ ِ فرقت سے،خیالِ رازِ الفت سے
زبانِ حالِ بسمل ہوں، سکوتِ شمعِ محفل ہوں

علوئے جوشِ مستی سے، صفائے طبعِ عالی سے
فدائے فکرِ اکبر ہوں، نثارِ شعرِ مشکل ہوں

درِ گنجینۂ اسرارِ معنی کھول دو اکبر
بس اب پیرِ خرد اقرار کرتا ہے کہ جاہل ہوں

          ابتدائی ادوار میں اکبر نے وفورِ شوقِ شعر میں دو غزلے،سہ غزلے بل کہ چہار غزلے  لکھے، مشاعروں میں ان کی استادانہ حیثیت کو تسلیم کیا گیا اور ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا پورا اعتراف ہوا، تحسین و تعریف کی اس فضا نے انہیں پُر گوئی اور صنعت کاری کا اسیر بنا دیا، ابتدائی کلام میں اکبر انوکھے قافیوں، طویل ردیفوں اور سنگلاخ زمینوں میں اپنی مہارت اور مشاقی کے جوہر دکھاتے نظر آتے ہیں۔ رعایتِ لفظی اور محاورہ بندی کا خالص لکھنوی انداز اپنے جوبن پر ہے۔ ابتدائی ادوار کے کلام کا تکنیکی رنگ ڈھنگ دیکھیے:

جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گلِ تصویر کا شید ا نہیں ہوتا

نزاکت کے اثر سے شعر میں بھی بندھ نہیں سکتا
بچا جاتا ہے پہلو مجھ سے مضمونِ کمر اپنا

بڑھا کر آرزو اتنا گھٹایا عشق نے مجھ کو
کہ کانٹا رہ گیا میں اپنے گل زارِ تمنا کا

          اکبر کے ابتدائی کلام میں ایک غزلِ مستزاد بھی ملتی ہے۔ اکبر نے غزل کی اس ہیئت کو پسندنہیں کیا کیوں کہ بعد میں ان کا کلام اس ہیئت سے عاری ہے۔ یہ غزلِ مستزاداُسی رنگ و آہنگ سے عبارت ہے جو مصحفی، جرأت ، انشا اور نظیر  کی مستزاد غزلوں میں دکھائی دیتا ہے، دو شعر بہ طور نمونہ دیکھیے:

چشمۂ چشم سے اشکوں کی بھی موجیں نکلیں       ٹھنڈی سانسیں بھی بھریں
آتشِ غم کی مگر دل میں حرارت ہی رہی              نہ ہوا فرق ذرا

کھائیں سو مرتبہ قسمیں کہ ہوں عاشق تُجھ پر         نہیں اوروں پہ نظر
بد گمانی مگر اُس شوخ کی عادت ہی رہی             صاف مُجھ سے نہ ہوا

          اکبر کا تیسرے دور کے بعد کا کلام ان کے اصل تخلیقی جوہر کاعکاس ہے۔ یہ کلام فکر اور فن کی اُس بلند تر سطح کا حامل ہے جو ایک زمانے کی ریاضت کے بعد ہاتھ آتی ہے۔ رعایتِ لفظی اور لکھنوی طرزِسخن کی چھاپ سے تو وہ آخر تک نہ بچ سکے مگر انہوں نے اپنی اختراعی صلاحیتوں سے لکھنوی رنگِ سخن کو مہذب اور مصفیٰ کر دیا ، انہیں احساس ہو گیا تھا کہ شاعری محض کھیل نہیں بل کہ افکارِ ذہنیہ کی ترسیل و تبلیغ کا مؤثر ذریعہ ہے، ان کے بہ قول:

معنی کو چھوڑ کر جو ہوں نازک بیانیاں
وہ شعر کیا ہے رنگ ہے معنی کے خون کا

          بے مقصد قافیہ پیمائی، سنگلاخ زمینوں کا انتخاب، پیچیدہ تراکیب و تشبیہات اور بے رس صنائع و بدائع کے استعمال کو ترک کر کے انہوں نے ایسا پیرایۂ سخن اختیار کیا جس کے وہ موجد و مخترع مانے گئے۔ طنز اور ظرافت کو اس قرینے سے متغزلانہ رویّے کا حصہ بنایا کہ اپنی مثال آپ ٹھہرے۔ مغرب کی تہذیبی اور ثقافتی یلغار کو روکنے کے لیے اکبر  نے طنز کے تیر و نشتر سے کام لیا، انہوں نے ریل، کالج،مِس،ڈگری، انجن اور ہوٹل جیسی علامات و استعارات کے صناعانہ استعمال سے مغربی تہذیب و تمدن کی مضحک صورتوں کو عکس انداز کیا۔ مقلدینِ تہذیبِ مغرب کی کج فہمی اور نادانی کو نشانۂ ملامت اور ہدفِ تنقید بنانے کے لیے انہوں نے کلّو، صلّو، بُدھو، جُمن،شیخ، سید،اونٹ، گائے، کلیسا، ٹٹو، مسجد، مندر،بُت،برہمن، لالہ اور ان جیسی دوسری علامتوں اور استعاروں کو ہنر مندی سے برتا۔ اکبر کی علامتیں محض دل لگی اور ظرافت کا نمونہ نہیں بل کہ گہری معنویت کی حامل ہیں۔ قدرتِ زبان و بیان کے باعث انہوں نے معمولی لفظوں اور ترکیبوں کو معانی کی وسعتوں سے ہم کنار کیا، یہ الفاظ و علامات روایتی غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں مگر اکبر کے اسلوب میں یوں گُندھے ہوئے ہیں کہ اجنبیت اور غیریت کا تأثر پیدا نہیں ہوتا۔انہوں نے عربی فارسی الفاظ کے ساتھ انگریزی الفاظ کو آمیخت کر کے فنی ہُنر مندی کا ثبوت دیا ہے ، محوِ نیچر، نگاہِ مسِ پُر فن، مصلحانِ نیشن، میخانۂ ریفارم اور ان جیسی دوسری تراکیب میں اکبر کی یہ ہُنر مندی دیدنی ہے، اسی قدرتِ زبان و بیان کے باعث انہوں نے اپنے زمانے سے’’ لسان العصر‘‘ کا لقب پایا۔اکبر اپنی اس اجتہادی حیثیت سے آگاہ تھے ان کا یہ کہنا صداقت سے خالی نہیں کہ:

نظمِ اکبر سے بلاغت سیکھ لیں اربابِ عشق
اصطلاحاتِ جنوں میں بے بہا فرہنگ ہے

          نام ور نقاد محمد حسن عسکری نے کلام ِ اکبر  کے تکنیکی اوصاف کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا ہے:

          ’’ اکبر اردو کا جدید ترین شاعر ہے، کیوں کہ اکبر نے جس قسم کی تکنیک استعمال کی ہے وہ تخلیقی اور شاعرانہ بنیادوں تک پہنچی ہے یوں ہی لیپ پوت نہیں ہے۔‘‘ (۲۱)

          اکبر الہ آبادی کی غزلیات کے عروضی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ہر قسم کے اوزان استعمال کیے ہیں۔ کوتاہ اور بلند بھی اور متوسط اور متناوب بھی۔ شانزدہ رُکنی بحروں میں بھی انہوں نے شعر کہے ہیں اور ایسے نا مقبول اوزان میں بھی کہ جن کا استعمال اُردو میں نہایت قلیل ہے۔مثال کے طور پر:

          بحرِ وافر مثمن سالم(مفاعِلَتن مفاعِلَتن مفاعِلَتن مفاعِلَتن)

قرار نہیں ذرا بھی مجھے یہ کیسی حیا کہو تو صنم
اٹھو بھی بس اب کرو نہ غضب گزر گئی شب خدا کی قسم

بحرِ ہزج مثمن مقبوض( مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن)

تصور اس کا جب بندھا تو پھر نظر میں کیا رہا
نہ بحثِ این و آں ر ہی نہ شورِ ماسوا رہا

اوّل الذکر بحر اُردو اور فارسی میں مستعمل نہیں یہ بحر اہلِ عرب کے لیے مخصوص ہے۔ ثانی الذکر بحر بھی اُردو میں کم کم استعمال ہوئی ہے ۔ اکبر نے اس بحر میں جو غزل کہی ہے اس کی پیشانی پر لکھا ہے ۔’’ اُردو میں وزنِ  قأنی کا نمونہ‘‘(۲۲)مجموعی اعتبار سے اکبر  نے متوسط اوزان میں زیادہ غزلیں کہی ہیں اس سے ان کے پسندیدہ اوزان کا اندازہ ہوتا ہے۔

باب (۴)

مولانا الطاف حسین حالی نے غزل کے دائرۂ موضوعات کو کشادہ کرنے کے لیے جو شعوری کوشش کی تھی وہ غزل کے مخصوص ایمائی مزاج سے ہم آہنگ نہ ہونے کے باعث ہدفِ تنقید بنی اور کلاسیکی غزل کے پرستاروں نے حالی کی اس اصلاحی کوشش کو ’’ غزل دشمنی‘‘ کے رنگ میں پیش کیا ۔ اس میں شُبہ نہیں کہ بدلتے ہوئے سماجی حالات کا یہ تقاضا تھا کہ غزل اگر عہدِ موجود کی ترجمانی کے فریضے سے سبک دوش ہونا چاہتی ہے تو اسے اپنے موضوعات ، اسالیب اور لفظیات کے دائرے کو وسیع کرنا ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکبر الہ آبادی جو ذہنی اور فکری رویوں میں مولانا حالی  کے ہم نوا نہ تھے انہوں نے بھی غزل کو زمانے کے تقاضوں کے مطابق بنانے کے لیے اسی طرح کا شعوری جتن کیا ۔حالی اور اکبر دونوں دلِ دردمند رکھتے تھے اور دونوں کے ہاں ملت دوستی کے جذبے کی فراوانی ہے تاہم دونوں کی فکر اور طریقۂ عمل مختلف تھا۔اقبال کی ذہنی اور فکری نشوونما میں حالی و اکبر  کے فکری رویوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔اقبال نے ان پیش روؤں کی کوششوں کو ایک مربوط اور منظم شکل دے کر نقطۂ کمال تک پہنچایا۔

          علامہ محمد اقبال ( ۱۸۷۷ء تا ۱۹۳۸ء) عہد آفریں تخلیق کار ہیں۔ انہوں نے اپنے حکیمانہ خیالات اور فلسفیانہ نظریات کے اظہار کے لیے شاعری کا انتخاب کیا اور اپنی اعلیٰ فکری و فنی صلاحیتوں کے باعث اسے اُس مقامِ بلند پر پہنچا دیا جہاں تک پہنچنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ فلسفہ اپنی سنجیدگی، پیچیدگی اور دقت کے باعث اُس دل کشی اور رعنائی سے عاری ہے جو شعر کا بنیادی وظیفہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طبائعِ انسانی کو شعر جتنا مرغوب ہے اُتنا فلسفہ نہیں ۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے فلسفے کو تغزل کی سرشاری اور جذبے کی وارفتگی سے آمیخت کر کے اس کی ناہمواری اور ثقالت کو لطافت و رعنائی کا لباس عطا کیا ہے۔ پروفیسر حمید احمد خاں کے بہ قول :

          ’’ اُس کا فلسفہ اس کے شعر سے، اس کا شعر اس کے فن سے ، منفصل نہیں ہو سکتا۔‘‘ (۲۳)

          اُردو میں اگرچہ اقبال سے پہلے مرزا غالب کے اشعار میں فلسفیانہ رنگ اپنی تمام تر نزاکتوں کے ساتھ دکھائی دیتا ہے مگر غالب کا کلام من حیث المجموع کسی فلسفیانہ نظام کے تابع نہیں ہے،جب کہ اقبال کے ہاں ایک مربوط اور منظم فکری نظام موجود ہے اور ان کا سارا کلام اسی فکری نظام کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے۔ اقبال کے کلام کو اُردو اور فارسی یا نظم اور غزل کے خانوں میں تقسیم کر نے سے اس فکری نظام کو پوری طرح سمجھنا دشوار ہے ۔ لیکن چوں کہ ان کے فکری نظام پر گفت گو ہمارے دائرۂ عنوان میں شامل نہیں اس لیے ہم یہاں صرف ان کی اُردو غزل کے تکنیکی اور فنی پہلو کا اجمالی جائزہ پیش کر رہے ہیں۔

          اقبال  نے شعر گوئی کا آغاز غزل سے کیا کیوں کہ اُس وقت اقلیمِ سخن میں غزل کا راج تھا اور انجمنِ پنجاب کی کوششوں کے باوجود نظم نگاری اُس مقام تک نہیں پہنچی تھی کہ غزل کا مقابلہ کر سکتی۔ انیسویں صدی کے رُبعِ آخر کے غزل گوؤں کو دو بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک گروہ قدیم رنگِ سخن کا نقیب تھا اور دوسرا جدید رنگِ سخن کا داعی۔ قدیم رنگِ سخن کے سربر آوردہ شاعروں میں داغ، امیر اور جلال شامل ہیں ۔ کلاسیکی غزل کے یہ رکھوالے اندازِ بیاں کی جدتوں سے گُل و بلبل اور عشق و محبت کے فسانے دُہرا رہے تھے، جب کہ جدید رنگِ سخن کے حاملین میں حالی  اور اکبر  کا نام سرِ فہرست ہے۔ اگرچہ فکری اعتبار سے حالی اور اکبر میں اختلاف تھا تاہم دونوں تخلیق کاروں نے غزل کو معاشرتی اصلاح کا ذریعہ بنایا اور اسے نئے موضوعات اور لفظیات سے روشناس کر کے اس کے عملی دائرے کو وسعت آشنا کیا ۔ حالی و اکبر کے موضوعات کی تازگی ابھی تک غزل سے پوری طرح ہم آہنگ نہ ہو پائی تھی اس لیے قبولِ عام کے شرف سے محروم تھی۔ اس کے مقابلے میں داغ ، امیر، جلال اور ان کے تلامذہ کی نغمہ سنجیوں سے پُورا ہندوستان گُونج رہا تھا۔ نوواردانِ ادب کی فطرت کے مطابق اقبال  نے روایتی غزل گوئی سے مشقِ سخن آغاز کی ۔ زبان و بیان کی صفائی اور روزمرے کے استعمال میں داغ کا کوئی مثیل نہ تھا اس لیے اقبال  نے اصلاحِ شعر کے لیے داغ سے رجوع کیا۔ اصلاح کا یہ سلسلہ اگرچہ زیادہ عرصے تک نہ چلا تاہم اس میں شبہ نہیں کہ زبان و بیان کے اسرار و رموز سے اقبال کی واقفیت داغ سے وابستگی کا نتیجہ ہے۔ سید عابد علی عابد لکھتے ہیں:

          ’’ داغ کی غزل میں اُردو شعری روایت کے تمام علائم اور رموز موجود تھے ۔ اقبال نے ان کا گہرا مطالعہ کیا اور پھر اپنے سیاسی، ملی اور فلسفیانہ افکار کے ابلاغ کے لیے انہی علائم و رموز کو نئی معنویت دی۔‘‘(۲۴)

          اقبال کی غزل مختلف ارتقائی مراحل سے گزر کر مکمل شکل میں ظاہر ہوئی۔ فکر و فن کے اعتبار سے اسے مندرجہ ذیل چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

          پہلا دور۔۔ ۱۸۹۳ء تا ۱۹۰۵ء

          دوسرا دور۔۔ ۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ء

          تیسرا دور ۔۔ ۱۹۰۸ء تا ۱۹۲۴ء ( بانگِ درا کی اشاعت تک)

          ۱۹۲۴ء تا ۱۹۳۶ء ( ضربِ کلیم کی اشاعت تک)

پہلے تین ادوار کا تعین خود علامہ اقبال  نے کیا اور بانگِ درا انہی ادوار کے مطابق ترتیب دی گئی۔ بالِ جبریل اور ضربِ کلیم کی غزلیں ایک ہی مزاج اور کیفیت کی حامل ہیں اس لیے یہ ایک الگ دورِ تخلیق میں شامل ہیں۔

          اقبال کی غزل گوئی کا پہلا دور تقلیدی رجحان کا غماز ہے۔ داغ دہلوی کے زیرِ اثر ان کی غزل روایتی موضوعات کے گرد گھومتی ہے۔ ان غزلوں کا تکنیکی رنگ و آہنگ بھی داغ سے مستعار ہے۔ موضوعات کا چُلبلا پن اور شوخی زبان و بیان کی نزاکتوں میں ڈھل کر لطف دیتی ہے۔ ان غزلوں میں محاورات، تشبیہات ، استعارات اور علامات کثرت سے استعمال ہوئی ہیں۔ تاہم یہ تمام بیانیہ عناصر بندھے ٹکے روایتی مفاہیم کے حامل ہیں اور ان میں اختراعی صلاحیت کی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ بانگِ درا کی ترتیب کے وقت اقبال نے پہلے دور کی اکثر غزلیں دائرۂ انتخاب سے باہر رکھیں۔ منتخب شدہ غزلوں کے چند اشعار دیکھیے:

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

تأمل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی

بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں
لرز جاتا ہے آوازِ اذاں سے

ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں

          غزل گوئی کا دوسرا دور بھی داغ کے اثرات سے خالی نہیں تاہم اس دور کی غزل میں اقبال کی حیثیت تابع مہمل کی سی نہیں۔ انہوں نے روایتی علائم و رموز کے آئینے میں عصری رجحانات کا عکس دیکھنے کی کوشش کی اس سے ان علامتوں کا نیا معنوی اُفق روشن ہوا۔مشاہدے اور تجربے کی گہرائی نے فکر کے ساتھ ساتھ فن کو بھی متأثر کیا ۔ فکر و نظر کی گہرائی نے انہیں تقلیدی روش سے دامن چھڑانے اور اپنا منفرد راستہ نکالنے کا حوصلہ بخشا:

تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کُشی
رستہ بھی ڈھونڈ ،خضر کا سودا بھی چھوڑ دے

          اقبال کی غزل گوئی کا تیسر دور اُردو غزل کے نئے جہانوں کی خبر دیتا ہے۔ اس دور کی غزل موضوعات، لفظیات، تکنیک اور اسلوب کے حوالے سے اُس انقلاب کے لیے زمین ہموار کرتی ہے جسے بالِ جبریل کی غزل میں اپنی کامل شکل میں ظاہر ہونا تھا۔ روایتی موضوعات اور فنی عناصر سے گزیر پائی کے باوجود ان غزلوں میں تغزل کی سرشاری اپنا جادو جگاتی ہے۔ تیسرے دور کی غزل کے تیور دیکھیے:

کبھی اے حقیقتِ منتظَر، نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثلِ کلیم
اپنی ہستی سے عیاں شعلۂ سینائی کر

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

          اقبال  کی غزل گوئی کا چوتھا دور کمالِ فن کی اُس بلند سطح کی نوید دیتا ہے جہاں بہ قول رشید احمد صدیقی ’’شاعری کا دین‘‘ مکمل ہو جاتا ہے۔ بال جبریل کی غزلیں( ضربِ کلیم کی چند غزلوں کو بالِ جبریل کا تتمہ خیال کرنا چاہیے۔)اقبال کی فکری اور فنی صلاحیتوں کا نقطۂ عروج ہیں۔ فکر و فن کے توازن و تناسب کی ایسی عظیم الشان مثال اُردو تو کیا دُنیا کی کسی زبان میں بھی نہیں ملتی۔بالِ جبریل کی غزل کا رنگ و آہنگ دیکھیے:

میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن

اسی طلسمِ کُہن میں اسیر ہے آ دم
بغل میں اس کی ہیں اب تک بتانِ عہدِ عتیق

          اقبال کی غزل فنی حسن کا بے مثل نمونہ ہے ۔ اقبال نے جا بہ جا ایسے خیالات کا اظہار کیا ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہیں فنی امور اور تکنیکی رموز سے مطلقاً آشنائی نہیں اور نہ وہ ان سے کُچھ سروکار رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک شاعری محض نظریات و خیالات کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور بس۔ خود اقبال کے الفاظ میں سُنیے:

 ’’ میرا مقصود شاعری سے شاعری نہیں ،بل کہ یہ ہے کہ اوروں کے دلوں میں بھی وہی خیالات موجزن ہوں جو میرے دل میں ہیں اور بس۔‘‘ (۲۵)

 

 ’’ مقصود اس شعر گوئی کا نہ شاعری ہے نہ زبان۔‘‘ (۲۶)

 

 ’’ شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کبھی میرا مطمحِ نظر نہیں رہا، کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔‘‘(۲۷)

 

 ’’ باقی رہی زبانِ اُردو اور فنِ شاعری ، سو ان سے مجھے کوئی سروکار نہیں ۔ میرے مقاصد شاعرانہ نہیں بل کہ مذہبی اور اخلاقی ہیں۔‘‘ (۲۸)

 

 ’’ آپ کو معلوم ہے کہ میں اپنے آپ کو شاعر تصور نہیں کرتا اور نہ کبھی بحیثیت فن کے میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے۔‘‘(۲۹)

 

 ’’ میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا اور فنِ شعر سے مجھے کبھی دل چسپی نہیں رہی۔‘‘ (۳۰)

          لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے ۔ اقبال جتنے بڑے مفکر ہیں اس سے کہیں بڑھ کر شاعر ہیں۔ اس قسم کے خیالات کا مقصد بہ جُز اس کے کُچھ نہیں کہ کہیں لوگ شاعرانہ محاسن اور تکنیکی اوصاف میں ہی اُلجھ کر نہ رہ جائیں اور پیغامِ شاعری اور روحِ کلام سے غافل نہ ہو جائیں۔ اقبال کا کلام فنی اسقام اور تکنیکی خامیوں سے پاک ہے ظاہر ہے یہ مرتبہ فن کے اسرار و رموز اور زبان و بیان کے کامل ادراک کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ اقبال کے مکاتیب اور مکالمات میں ایسے اشارے ملتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ شعر کے تکنیکی حسن کے لیے کڑی ریاضت کو لازمی اور ضروری سمجھتے ہیں وہ شعر کہہ کر فارغ نہیں ہو جاتے بل کہ اسے فنی اعتبار سے مزید خوب صورت بنانے کے لیے مسلسل مشقت اٹھاتے ہیں، و ہ مولانا گرامی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

 

          ’’ مجھے اپنا مصرع ابھی تک کھٹکتا ہے ۔ طبیعت حاضر ہوئی تو پھر غور کروں گا ۔ اس جگر کاوی کا اندازہ عام لوگ نہیں لگا سکتے۔ ان کے سامنے شعر بنا بنایا آتا ہے وہ اس روحانی اور لطیف کرب سے آشنا نہیں ہو سکتے جس نے الفاظ کی ترتیب پیدا کی ہے۔ جہاں اچھا شعر دیکھو سمجھ لو کہ کوئی نہ کوئی مسیح مصلوب ہوا ہے۔‘‘ (۳۱)

          اقبال کی غزل کے تکنیکی عناصر میں زبان کا معجزانہ استعمال سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ روایتی غزل مخصوص لفظیات پر اصرار کرتی رہی ہے اس کے باعث دوسری اصنافِ سخن کے برعکس اس کا دائرۂ لفظیات محدود رہا ہے۔ اقبال روایت کی قدرو قیمت کا گہرا عرفان رکھتے تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے محسوس کیا کہ غزل کے دائرۂ لفظیات میں وسعت پیدا کیے بغیر اس صنف کو جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ مخصوص دائرۂ لفظیات میں نئے زمانے کے افکار و نظریات اور رجحانات و مسائل کا اظہار ناممکن ہے۔ اقبال  نے روایتی الفاظ، استعارات اور علامات کو نئے معنوی آفاق سے روشناس کیا، اس سے روایتی غزل کا محدود و جامد دائرۂ لفظیات تحرک اور وسعت سے ہم کنار ہوا۔ ڈاکٹر تاثیر لکھتے ہیں:

          ’’ (اقبال نے )غزل کی قدیم صنف میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ یہاں تک کہ گھسے پٹے  استعارات میں بھی نئی توانائی پیدا کر دی ہے۔ گُل و بلبل، ساقی و مے خانہ، صیاد و غزال دیکھنے میں  تو وہی ہیں لیکن ان میں ایک نئی معنویت پیدا ہو گئی ہے۔ اس طرح اقبال نے ہماری ساری شاعری کا نظامِ اقدار ہی بدل ڈالا ہے۔ انہوں نے اس میں نئی معنویت کی جوت جگائی ہے۔‘‘ (۳۲)

          اقبال نے شعری زبان کو وسعت دینے کے لیے ترکیب سازی پر خاص توجہ دی۔ انہوں نے سینکڑوں ترکیبیں استعمال کی ہیں اور اکثر ترکیبیں ان کی اپنی اختراعی صلاحیتوں کا نتیجہ ہیں۔ اقبال کی ترکیب سازی نے ان کے مخصوص اسلوب کی تعمیر میں بھی بھرپور کردار ادا کیا ہے اور اس سے غزل کا لسانی قالب بھی وسیع ہو کر ہر قسم کے خیالات پر قادر ہوا ہے۔ بالِ جبریل کی غزلوں میں مستعمل تراکیب کی رنگا رنگی دیکھیے:

          ’’ نوائے شوق، بت کدۂ صفات، سینۂ کائنات، ہنگامہ ہائے شوق، زوالِ آدمِ خاکی، گیسوئے تاب دار، محیطِ بے کراں، دمِ نیم سوز، بندۂ آزاد، لذتِ ایجاد، جہانِ بے بنیاد،عالمِ رنگ و بو، غوغائے رستاخیز، متاعِ دین و دانش، آبِ نشاط انگیز، کشتِ ویراں، دولتِ پرویز، مرگِ دوام، عالمِ من وتو، شورِ چنگ و رباب، صفائے پاکیِ طینت، نگاہِ شاعرِ رنگیں نوا، مقامِ بندگی، کارِ آشیاں بندی، فیضانِ نظر، زیارت گاہِ اہل عزم و ہمت،تراشِ آذرانہ،بتانِ عصرِ حاضر، نوائے عاشقانہ، صلۂ شہید، تب و تاب ِ جاودانہ، ضمیرِ لالہ، ہنگام نشور،لذتِ آہِ سحر گاہی، حدیثِ بے خبراں، ذوقِ شکر خند، کمالِ نَے نوازی، سوزو سازِ رومی، پیچ و تابِ رازی، رسمِ شاہ بازی،خوئے دل نوازی، پردہ داری ہائے شوق، دانشِ برہانی، مردانِ صفا کیش و ہنر مند، شیشۂ تہذیبِ حاضر، موجِ تند جولاں، صاحبِ امروز، گوہرِ فردا، فروغِ وادیِ سینا، نگاہِ عشق و مستی، اندیشۂ دانا،ہنگامۂ رستا خیز، کشتِ وجود، کشادِ شرق و غرب، سوزِ دم بدم، سرمۂ افرنگ، محکومیِ انجم، علاجِ ضعفِ      یقیں، نکتہ ہائے دقیق، بہشتِ مغربیاں، رعشۂ سیماب، لذتِ نیاز، بانگِ صورِ سرافیل، ساقیِ فرنگ، زبورِ عجم، فغانِ نیم شبی، صحبتِ پیرِ روم، جلوۂ دانشِ فرنگ، نالۂ آتش ناک، آسودگیِ فتراک، شاخِ یقیں، آمادۂ ظہور، حدیثِ کلیم و طور، طلسمِ گنبدِ گردوں، سنگِ خارا، بازیِ افلاک، تاجرانِ فرنگ، عطائے شعلہ، روشِ بندہ پروری، عتابِ ملوک، مآلِ سکندری، مقامِ پرورشِ آہ و نالہ، اسیرِ مکاں، خلاصۂ علمِ قلندری، خدنگِ جستہ، حدیثِ رندانہ، نوائے پریشاں، محرمِ رازِ درونِ مے خانہ، میخانۂ یورپ، اسرارِ کتاب، شہیدِ کبریائی، نمودِ سیمیائی، سحرِ فرنگیانہ، گفتارِ دلبرانہ، کردارِ قاہرانہ، جذبِ قلندرانہ، مجذوبِ فرنگی، نوائے صبح گاہی، آدابِ خود آگاہی، طاہرِ لاہوتی، بوئے اسد اللہی، آئینِ جواں مرداں، مردِ تن آساں، تسکیرِ مقامِ رنگ و بو، مجبورِ پیدائی، ترکانِ تیموری، شاہینِ کافوری، غیرتِ جبریل، عذابِ دانشِ حاضر، نشاطِ رحیل،  درسِ فرنگ، حجابِ دلیل، ضمیرِ حیات، حیرتِ فارابی، جذبِ کلیمانہ، حیلۂ افرنگی، اندیشۂ چالاک، صیقلِ  ادراک،کارِ بے بنیاد، رموزِ قلندری، قبائے علم و ہنر، صاحبِ ساز، لذتِ نغمہ، عفتِ قلب و نگاہ، آئینۂ مہر و  ماہ، گرمِ طواف، میانِ غیب و حضور، مسائلِ نظری۔‘‘

 اقبال کی غزل میں صنائع و بدائع کا ہُنر مندانہ استعمال ان کے مذاقِ بلند کی شہادت دیتا ہے، انہوں نے ان عناصر کو اس بے تکلفی سے اظہارِ مطالب کا آئینہ دار بنایا ہے کہ کہیں بھی تصنع کا گمان نہیں گزرتا۔تضاد، حشوِ ملیح، مراة النطیر، حسنِ تعلیل اور ایہامِ تناسب جیسی صنعتوں کا استعمال ان کے کلام میں بہ کثرت دکھائی دیتا ہے۔ان صنائع کے فن کارانہ استعمال نے معنی کی تمام دلالتوں کو روشن کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ تشبیہات واستعارات کے استعمال میں بھی اسی حسن کاری کا اظہار ہوتا ہے۔ سید عابد علی عابد رقم طراز ہیں:

 

          ’’ اقبال کے کلام میں اکثر و بیش تر تشبیہات و استعارات کے استعمال کا مقصد محض آرائشِ کلام نہیں بل کہ توضیحِ معانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ فطرتِ خارجی کے مناظر کی تصویریں کھینچتے ہیں تو تشبیہات و استعارات میں وہ نزاکت نہیں ہوتی جو ان کے کلام کا شیوۂ خاص ہے۔ہاں جب وہ دقیق تعقلات، باریک تصورات اور لطیف افکار و اسرار کی توضیح کرنا چاہتے ہیں تو ایسی ایسی خوب صورت تشبیہیں اور استعارے استعمال کرتے ہیں کہ ان دیکھی چیزیں دیکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔‘‘ (۳۳)

          اقبال نے اُردو غزل کو ایک نئے اسلوب سے روشناس کیا۔ یہ اسلوب بلند آہنگ اور پُر جلال ہے اور اس میں مردانہ پن کی صفت پیدا ہو گئی ہے۔ شوکت و تجمل کے باوجود یہ اسلوب غنائیت اور نغمگیت کی تاثیر سے محروم نہیں۔ اقبال کے اسلوب کی تعمیر میں صرف فکر کی بلندی ہی اہم کردار ادا نہیں کرتی بل کہ لفظیات کا شکوہ اور اوزان کی بلند آہنگی بھی شامل ہے۔ یہ تمام عناصر آپس میں ایک لطیف ربط رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر سعد اللہ کلیم لکھتے ہیں:

          ’’ بلند آہنگی اگر صرف الفاظ کی ہو اور موضوع اس سے مطابقت نہ کر رہا ہو یا اگر کسی شاعر کے الفاظ اونچا بولتے ہوں اور معانی سرگوشیاں کرتے ہوں تو ظاہر و باطن کا تضاد شعر کا عیب ہے۔ علامہ اقبال کی غزل میں ہمیں یہ عیب نہیں ملتا ۔ان کے الفاظ کی گھن گرج ان کے افکار و خیالات کی گھن گرج سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔‘‘(۳۴)

          اقبال کے اسلوب کا یہ تجمل اور لفظیات کا یہ شکوہ روایتی غزل سے براہِ راست متصادم ہے۔ اس لیے روایتی غزل کے پرستاروں نے اقبال کی غزل کی اس بلند آہنگی پر نکتہ چینی کی ہے۔ ان کے بہ قول غزل گداز، لطافت، نرمی اور لوچ سے عبارت ہے یہ گھن گرج اور جلال و شکوہ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ڈاکٹر سعد اللہ کلیم  نے اقبال  کے پُر جلال اسلوب کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

          ’’ جب کسی شاعر کا مقصد دنیا کو بیدار کرنا ہو اور بیدار بھی اس مخلوق کو کرنا ہو جو صدیوں کی طویل جدوجہد سے تھک ہار کر سو چکی ہو تو آواز ذرا اونچی ہی رکھنا پڑتی ہے ۔آپ نے ان (اقبال ) کی غزل کو پڑھتے ہوئے محسوس کیا ہو گا کہ علامہ کی آواز نسبتاً اونچی ہے۔ اس میں ایک طرح کی بلند آہنگی کا واضح احساس ہوتا ہے اور اس بلند آہنگی میں ذرا سی کرختگی اور تلخی بھی مل جل گئی ہے۔ ہو سکتا ہے غزل کے مزاج شناس اور اس کی کانچ کی بنی ہوئی طبیعت سے واقف لوگ علامہ کو یہ مشورہ دیتے ہوں کہ:

سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے

لیکن علامہ کو تو اس روتے روتے سو جانے والے میر کے آس پاس چاروں طرف چڑھتے پانی کی دھار نظر آ رہی تھی۔ وہ وقت لوری گانے کا نہیں تھا، سرگوشی کرنے کا نہیں تھا۔ جھنجھوڑ کر جگانے کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ کی غزل میں سرگوشی اور خود کلامی کا انداز نہیں ملتا۔‘‘ (۳۵)

          اقبال نے غزل کی تکنیک کو نئی آب و تاب عطا کی لیکن غزل کے خارجی ڈھانچے(ہیئت) کو پوری پابندی سے برتا ۔و ہ جانتے تھے کہ غزل کا خارجی ڈھانچا ہی اس کی شناخت کا اہم ترین رُکن ہے اور غزل کی ہیئت سے انحراف کے نتیجے میں تخلیق ہونے والی شاعری کو غزل کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ بہ ایں ہمہ اقبال نے بالِ جبریل کی ایک غزل میں ہیئت کا تجربہ بھی کیا۔ اس تجربے کی شکل یہ بنی کہ غزل کا آخری شعر مطلع کی طرح ہم ردیف و ہم قافیہ ہے، تاہم یہ ردیف و قوافی غزل کے باقی اشعار کے ردیف و قوافی سے مختلف ہیں البتہ وزن میں اختلاف نہیں۔ متذکرہ غزل کا مطلع اور مبینہ آخری شعر ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:

                   مطلع   :

کیا عشق ایک زندگی ِ ناپائدار کا
کیا عشق پائدار سے ناپائدار کا

آخری شعر

کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو

          اقبال کی غزل کے متعلق عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی غزل تسلسلِ خیال کے باعث نظم کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہے ۔ وہ مزاجاً نظم کے شاعر تھے اس لیے ان کی غزل ان کی نظم تلے دبی معلوم ہوتی ہے۔ اس نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتے ہوئے صوفی تبسم  لکھتے ہیں:

          ’’ غزل کا ہر شعر الگ الگ ہوتا ہے ۔ اقبال جیسے فلسفی کے لیے، جس کا دل و دماغ ایک منطقی کی طرح سوچتا ہے اور بیان میں تعین اور صراحت چاہتا ہے، غزل کی صنف اور اس کا اسلوبِ بیاں موزوں نہ تھا لیکن اقبال نے اپنی غزلوں میں تغزل یعنی رمز و ایما اور علامات و تلمیحات کے       استعمال کے ساتھ ساتھ غزل کے اشعار میں جذباتی تسلسل پیدا کر کے اُسے نظم کا رنگ دے دیا۔‘‘(۳۶)

          میرے خیال کے مطابق یہ نقطۂ نظر درست نہیں ۔ اس میں شُبہ نہیں کہ اقبال کی غزلیں ایک ہی موڈ، کیفیت اور مزاج کی حامل ہیں لیکن ان غزلوں میں ہر شعر ایک منفرد یونٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال کی کسی غزل سے کوئی شعر نکال لیجیے غزل میں کوئی تبدیلی محسو س نہیں ہو گی اور شعر معنوی تشنگی کا شکار نہیں ہو گا۔لیکن اس کے برعکس نظم کے چند مصرعے نکال لینے سے اس میں خلا پیدا ہو جائے گا اور وہ چند مصرعے سیاق وسباق سے کٹ کر مبہم یا مہمل ٹھہریں گے۔ اقبال کی نظم و غزل میں قربت کا احساس شاید اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کی نظمیں بھی تغزل کے اُس رچاؤ سے محروم نہیں ہیں جو غزل میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔

          اقبال عروض کے اسرار و رموز اور اس کی اہمیت و افادیت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ ان کی شاعری کی ابتدائی نشو ونماشمس العلما مولوی میر حسن کے زیرِ سایہ ہوئی اس لیے یہ بات بعید از امکان نہیں کہ اقبال  نے ان سے عروض کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہو ۔ کیوں کہ بہ قول ڈاکٹر گیان چند :اقبال کو عروض پر جو عبور حاصل تھا ، اس کے زحافات کا وہ جس قدر عرفان رکھتے تھے، اُردو کے مشاہیر شعرا میں اور کہیں نہیں دکھائی دیا۔(۳۷) اقبال اس بات سے بہ خوبی آگاہ تھے کہ علمِ عروض کی پابندی کے بغیر شاعری اپنی حیثیت کھو دیتی ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر عباس علی خان لمعہ کو ایک خط میں لکھا:

’’ اگر ہم نے پابندیِ عروض کی خلاف ورزی کی تو شاعری کا قلعہ ہی منہدم ہو جائے گا۔‘‘ (۳۸)

          اقبال بحروں کے مزاج اور اوزان کی مخصوص خاصیتوں کا گہرا شعور رکھتے تھے اور اسی شعور کے باعث انہوں نے اپنے مزاج اور فکر کی مناسبت سے بحروں کا انتخاب کیا۔ اقبال نے غزل کے لیے بالعموم بلند آہنگ اوزان برتے ہیں جن سے ان کی غزل کو جوش و جذبہ اور جلال و شکوہ کا وہ لحن عطا ہوا جس کی مثال پوری اُردو شاعری میں نہیں ملتی۔ اقبال کی ابتدائی دور کی غزلیں اس جلال و شکوہ سے محروم ہیں کیوں کہ ان میں سادہ اور آسان اوزان کو روایتی انداز میں استعمال کیا گیا ہے۔ بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضرب کلیم کی ایک سو دس(۱۱۰) غزلوں میں بیس اوزان برتے گئے ہیں ان اوزان میں سے بعض ایسے ہیں جن میں صرف ایک غزل ملتی ہے اور بعض میں دو یا تین۔ غزل کے لیے آپ نے جن اوزان کو زیادہ استعمال کیا ان کی تفصیل یہ ہے۔(۳۹):

          ۱۔ مجتث مثمن مخبون محذوف / مقصور( مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن/ فعلان)

          ۲۔ ہزج مثمن سالم( مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن)

          ۳۔ رمل مثمن محذوف / مقصور( فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن/ فاعلان)

          ۴۔ رمل مثمن مخبون محذوف/مقصور( فعِلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعلن/ فعلان)

          ۵۔ ہزج مثمن اخرب سالم الآخر( مفعولُ مفاعیلن مفعولُ مفاعیلن)

باب (۵)

عہدِ اقبال میں اُردو نظم کو باقی اصناف ِ سخن کی نسبت تکنیکی، ہیئتی اور اسلوبیاتی سطح پر پھلنے پھولنے کے زیادہ مواقع میسر آئے۔ اگر مجموعی طور پر اس دور کو ’’ اُردو نظم کا سنہری دور‘‘ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو گا۔ اقبال نے نظم کو بلندی پر پہنچا کر اسے رفعتوں اور وسعتوں سے ہم کنا ر کیا۔نظم گوئی کے اس زمانۂ عروج میں غزل کی کلاسیکی قدروں کی حفاظت اور اسے نئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جو شعرا میدانِ عمل میں اُترے ان میں حسرت، فانی، یگانہ، اصغر اور جگر کے نام نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان شعرا نے اس عبوری دور میں غزل کا دفاع کیا اور اسے فکری اور فنی اعتبار سے با ثروت بنانے کی کوشش کی۔ یہ شعرا روایتی غزل اور جدید غزل میں ایک پُل کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔

          رئیس المتغزلین حسرت موہانی(۱۸۷۵ء تا ۱۹۵۱ء) جدید غزل کے پیش روؤں میں امام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے غزل کی صنفی حیثیت کو ابھارنے میں سرگرم کاری کا مظاہرہ کیا ، حسرت کی اس سرگرم کاری کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے رشید احمد صدیقی رقم طراز ہیں:

’’ حسرت نے غزل کی آبرو اس زمانہ میں رکھ لی جب غزل بہت بدنام اور ہر طرف سے نرغے میں تھی۔ انہوں نے غزل کی اہمیت و عظمت ایک نامعلوم مدت تک منوا لی۔‘‘(۴۰)

          حسرت موہانی نے اساتذۂ متقدمین کے کلام کا گہرا مطالعہ کی اور ان اساتذہ کے شعری اوصاف سے اپنی شاعری کو سجانے کی مقدور بھر کوشش کی ۔ اساتذہ سے کسبِ فیض کا انہوں نے جا بہ جا اعتراف کیا ہے، جیسے:

غالب و مصحفی و میر  و نسیم  و مومن
طبعِ حسرت نے اٹھایا ہے ہر استاد سے فیض

طرفہ حسرت  بہ شوخی ِ انشا
رنگِ جرأت مرے بیاں میں ہے

شیرینی ِ نسیم  ہے سوز و گداز میر
حسرت ترے سخن پہ ہے لطفِ سخن تمام

اُردو میں کہاں ہے اور حسرت
یہ طرزِ نظیری  و فغانی

حسرت یہ وہ غزل ہے جسے سُن کے سب کہیں
مومن  سے اپنے رنگ کو تو نے ملا دیا

          ان اشعار کے مطالعے سے یہ خیال گزرتا ہے کہ حسرت کا اپنا کوئی رنگِ سخن نہ تھا بل کہ انہوں نے محض مختلف اساتذہ کے رنگ میں شعر کہے ہیں، لیکن فی الواقع یہ خیال درست نہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں فرماتے ہیں:

’’اس میں شُبہ نہیں کہ حسرت  نے مختلف اساتذہ سے فیض اٹھایا ہے لیکن یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کہ ان کا شعری اسلوب تمام تر دوسروں سے مستعار ہے۔ ان کا اپنا رنگ ہے اور اس رنگ میں بڑی گہری انفرادیت ہے۔‘‘(۴۱)

          حسرت موہانی کی غزل کے تکنیکی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے دہلی اور لکھنؤ کے شعری دبستانوں کے صحت مند عناصر کو کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ لفظوں کی تراش خراش ، ترکیبوں کی تازگی اور سبک پن،محاوروں کی دل نشینی،لکھنوی اثر کی طرف صاف اشارہ کرتی ہے لیکن کہیں بھی تکلف اور ظاہری سجاوٹ نہیں ملتی جس کے باعث لکھنؤ والے بدنام ہوئے۔(۴۲) انہوں نے زبانِ لکھنؤ میں رنگِ دہلی کی نمود کا جو دعویٰ کیا ہے وہ غلط نہیں ۔ حسرت کے ہاں پیچیدگی،ژولیدہ بیانی اور ابہام کا گزر نہیں وہ سادگی اور صفائی کو شعر کی بنیادی صفت قرار دیتے ہیں:

شعر دراصل ہیں وہی حسرت
سُنتے ہی دل میں جو اُتر جائیں

          حسرت موہانی کا شمار اپنے دور کے سرگرم سیاسی راہ نماؤں میں ہوتا ہے ، انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں اور فرنگی ستم کا ہدف بنے، ان کی غزلوں میں ان کی سیاسی زندگی کی تمام جھلکیاں اور ان کے سیاسی تصورات تغزل کے سانچے میں ڈھل کر ظاہر ہوئے ہیں۔ انہوں نے پُرانے اور روایتی الفاظ و تراکیب کو نئے معنوی امکانات سے روشناس کیا ہے۔ حسرت  موہانی کی کئی غزلیں تسلسلِ خیال کے باعث ’’ نظمیہ رنگ‘‘ رکھتی ہیں ۔ اس نظمیہ رنگ کے باعث ان کی غزلیں یکسانیت کا شکار ہوئیں ، خلیل الرحمان اعظمی ان کی غزلوں کی اس خرابی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ حسرت کی غزلیں نظم یا ’’غزل نما نظم‘‘ ہیں، ضبط اور ٹھہراؤ کے بجائے جذبات میں ہیجانی     کیفیت غزل کے لیے بڑی تباہ کن ہے۔ یہ کیفیت شاعر سے رومانی نظم تو کہلوا سکتی ہے لیکن غزل نہیں۔ حسرت اس ہیجانی کیفیت پر قابو نہیں پا سکے جس کی وجہ سے ان کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے ہمیشہ مجھے ان کی ’’ نظمیت‘‘ کھٹکتی رہی ہے۔ ان کے دیوان میں وہ تمام غزلیں دیکھ ڈالیے جو حسرتکی منتخب اور نمائندہ غزلیں ہیں ،جن میں ان کی حیاتِ معاشقہ کا پورا سرمایہ ہے اور جن سے اشعار نکال نکال کر ہم ان کی داستان کو مکمل کرتے ہیں وہ سب دراصل نظمیں ہیں۔ نظم میں وحدتِ تأثر یا ایک موڈ کا ہونا کوئی عیب نہیں لیکن حسرت کے یہاں تو جو بات پہلے شعر میں ہے اس کے متعلقات کے بیان کے لیے یا اس کی فضا کو مکمل کرنے کے لیے بقیہ اشعار کہے گئے ہیں اس لیے ان غزلوں پر اگر آپ کوئی عنوان رکھ دیں تو یہ آسانی سے نظمیں کہی جا سکتی ہیں۔‘‘ (۴۳)

          فانی بدایونی( ۱۸۷۹ء تا ۱۹۴۱ء) کو ’’ یاسیت کا امام ‘‘ کہا گیا ہے۔ ہماری تنقید میں یہ روش عام ہو گئی ہے کہ کسی تخلیق کار کے متعلق ایک نقاد نے جو اچھی یا بُری رائے ظاہر کر دی بعد میں ناقدین نے اس رائے کے تجزیے کی کوشش نہیں کی بل کہ اسے فیصلہ جانتے ہوئے ہمیشہ وہی لکیر پیٹتے رہے ہیں۔ تنقید کی اس کج روئی کے باعث کئی اہم تخلیق کار اپنے جائز مقام سے محروم رہے ہیں اور ان کے بارے میں کئی غلط فہمیاں رواج پا گئی ہیں۔فانی کے متعلق بھی یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ ان کے کلام میں ماتم گُساری اور میت پرستی کے سوا کُچھ نہیں۔ اس میں شُبہ نہیں کہ فانی  کے ہاں موت اور اس کے متعلقات جیسے تابوت، میت، کفن، دفن، نزع، لحد وغیرہ کا استعمال کثرت سے ملتا ہے تاہم فانی کے ہاں یہ لفظ اکہری اور جامد حیثیت نہیں رکھتے بل کہ یہ متحرک اور کثیر المعنی علامتیں ہیں جن میں عصری زندگی کے رجحانات اور رویے اپنے تمام تر رنگوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئے ہیں۔فانی کے ہاں موت کے پہلو بہ پہلو زندگی کے رنگ بکھرے پڑے ہیں ۔ ذیل کے اشعار دیکھیے،  کیا یہ کسی مریضانہ ذہنیت رکھنے والے مایوسِ حیات شاعر کا نتیجۂ فکر ہیں؟ فانی کے ہاں ایسے شعروں کی کمی نہیں:

کیفیتِ نگاہِ سرور آفریں نہ پوچھ
شبنم کو جس نے بادۂ عرفاں بنا دیا

لبریزِ تموج تھا اک اک خط ِ پیمانہ
محفل سے جو وہ اٹھے لیتے ہوئے انگڑائی

اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر یا رب !
در و دیوار دیئے ان انہیں ویرانی دے

          فانی نے میر کے گداز اور غالب کی فکر کے امتزاج سے اپنا رنگِ سخن وضع کیا ۔ ان کے اسلوب میں مومن کے بانکپن کا بھی سایہ کہیں کہیں پڑتا دکھائی دیتا ہے ، مگر انہوں نے اسالیبِ سخن کی اندھی تقلید نہیں کی کیوں کہ ان کی جدت طراز طبیعت تقلیدی گھٹن کو گوارا نہیں کر سکتی تھی۔ فانی  کے ہاں فن اور زبان کا بڑا احترام ہے۔(۴۴) انہوں نے پُرانے اشاروں اور قدیم علامتوں میں نئے گوشے پیدا کر کے شاعری کو فرسودگی سے بچایا ہے۔(۴۵) فانی کے ہاں نے میر کے زیرِ اثر متروکات کا استعمال بھی دکھائی دیتا ہے ۔ فانی نے غزلوں میں فارسی کی نہایت عمدہ تراکیب کا استعمال بڑی کثرت سے کیا ہے ، انہوں نے خود بھی کئی تراکیب وضع کیں جو ان کے مذاقِ فکر کی عکاس ہیں ، علامہ سیماب اکبر آبادی نے ان کی وضع کردہ کُچھ ترکیبوں(جیسے گریۂ حیران، محشرِ سکوت وغیرہ) کو مہمل ٹھہرایا ہے۔

          فانی  نے متوسط اوزان میں کم غزلیں کہی ہیں ، بلند اور کوتاہ اوزان چوں کہ ان کی طبیعت اور مزاج سے ہم آہنگ تھے اس لیے ان اوزان میں ان کی غزلیں نغمگیت کی تاثیر سے مالا مال ہیں ۔ چھوٹی بحر میں فانی نے میر کے رنگ میں ایسے بے مثل شعر کہے ہیں جو سہلِ ممتنع کی خصوصیت کے حامل ہیں:

بُت نے ہر رنگ میں خدائی کی
دل مگر دیر سے حرم نہ ہوا

ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک

موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا ، نہ رہا

          یاس یگانہ چنگیزی( ۱۸۸۳ء تا ۱۹۵۶ء) کا شمار بیسویں صدی کے اکابر غزل گوؤں میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے اپنی آتش مزاجی کے باعث دنیا جہان سے جھگڑے مول لے کر اپنے تخلیقی جوہر کو نکھرنے کا موقع نہ دیا۔ ابتدا میں لکھنوی شعرا سے معاصرانہ چشمکوں اور بعد میں ’’ غالب شکنی‘‘ کے جنون نے انہیں بے قرار رکھا، یہی بے قراری ان کے فکر و فن کو رفعتوں سے محروم کر گئی:

ادب کے واسطے کتنوں کے دل دکھائے ہیں
یگانہ  حد سے گزرنا نہ تھا ، مگر گزرے

          یگانہ کا ابتدائی مجموعۂ کلام ’’ نشترِ یاس‘‘ لکھنوی رنگِ سخن کا نمونہ ہے۔ انہوں نے لکھنوی اساتذہ بالخصوص خواجہ آتش کے رنگ سے بہت استفادہ کیا۔ نشترِ یاس کی غزلیں تقلیدی اور روایتی ہیں ان میں یگانہ کا وہ مخصوص رنگ اور لہجہ دکھائی نہیں دیتا جو ’’ آیاتِ وجدانی‘‘ کا طرۂ امتیاز ہے۔ یگانہ نے اپنے آپ کو منوانے کے لیے مشکل اور سنگلاخ زمینوں میں طویل غزلیں کہیں اور زبان و بیان کی نزاکتوں ، صنائع و بدائع اور محاروں کے برجستہ استعمال میں لکھنوی روایات کا خیال رکھا تاہم محاورہ بازی کے شوق نے ان کے فن کو متأثر کیا ، محاورہ کے درست استعمال کے باوجود کئی مصرعے فن کارانہ حسن سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔ چند مثالیں دیکھیے:

ٹکٹکی بندھ جائے گی، مطلب ادا ہو جائے گا
لذت ہی اور ہوتی ہے چوری کے مال کی
چت بھی اپنی ہے پٹ بھی اپنی ہے
ہتھے سے بد مزاج یکا یک اکھڑ گیا
حوصلہ ہے تو باندھ ٹانگ سے ٹانگ
حسنِ یگانہ کس کی نگاہوں میں تڑ گیا

          ’’آیاتِ وجدانی‘‘ کی غزلیں فکر و فن کے اعتبار سے بلند مرتبہ کی حامل ہیں۔ ان غزلوں میں یگانہ کا تخلیقی شعور ایک مخصوص لہجے میں ڈھل کر ان کی شناخت کا سبب ٹھہرا۔ یگانہ  کی کئی غزلیں ایک ہی موڈ یا کیفیت کی حامل ہیں ، ان غزلوں میں فکر کی بلند پروازی اور اظہار کی رعنائی زیادہ توازن کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ یگانہ  نے عام طور پر مطلعوں میں تخلص استعمال کر کے اپنی انفرادیت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے۔یگانہ عمر بھر خواجہ آتش کے رنگِ سخن کے قتیل رہے، انہوں نے اس رنگ سے بھر پور استفادہ کر کے اپنا ایک مخصوص اسلوب وضع کیا جو اردو غزل میں ایک الگ ذائقہ رکھتا ہے۔ ڈاکٹر نجیب جمال لکھتے ہیں:

’’ یگانہ نے اُردو غزل کو جو کڑک دار لہجہ اور رجائی انداز دیا ہے اس نے غزل کی شعریت اور غنائیت کا پہلو بہت کم دبنے دیا ہے۔ لہجے کی توانائی اور کس بل کے ساتھ شعریت کو برقرار رکھنا اُردو غزل میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ (۴۶)

          یگانہ علمِ عروض سے جو واقفیت رکھتے تھے اس کا اندازہ ’’ چراغِ سخن‘‘ اور ان کے مضامین سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ یگانہ نے کم رواج اور پیچیدہ زحافات کے استعمال سے اپنے معاصرین کو چت کرنے کا کام لیا۔ مثال کے طور پر انہوں نے بحرِ منسرح میں خبن و طے وتسکینِ اوسط کے زحافات کے استعمال سے چند شعر کہہ کر اپنے معاصرین کا امتحان لینا چاہا۔ ثاقب لکھنوی نے ان اشعار کی تقطیع بحرِ بسیط میں کر دی۔ بس پھر کیا تھا یگانہ نے ہنگامہ برپا کر دیا اور ’’ میاں ثاقب کی عروض دانی‘‘ کا پول کھول دیا۔(۴۷)علم کی نمائش اور فضیلت جتانے میں تو اس طرح کی کوششیں اہمیت کی حامل ہوں گی تاہم اس طرح کی کوششوں سے شعر نغمگیت اور موسیقیت کے حسن سے محروم ہو جاتا ہے۔ یگانہ کے متذکرہ بالا اشعار دیکھیے، عروضی پیمانوں کی مطابقت کے باوجود موسیقیت کے حسن سے عاری ہیں:

آج وہ کیوں زیرِ خاک سوتے ہیں آرام سے
کانوں پہ رکھتے تھے ہاتھ جو موت کے نام سے
دنیا کی آرزو ، نہ دین کی آرزو
اڑے ہیں ایسے ہوش اب گردشِ ایام سے
جلوۂ معنی کُجا ، دیدۂ حیراں کُجا
باز آؤ یاس اس آرزوئے خام سے

          لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یگانہ کے ہاں اس طرح کے نا مطبوع اوزان ہی ملتے ہیں ۔ انہوں نے رواں دواں بحروں میں حسنِ صوت سے لبریز اشعار کہے ہیں ۔ چھوٹی بحروں میں ان کے اشعار کا آہنگ دیدنی ہے:

بن پڑے تو یگانہ بن کے دیکھ
عکس کوئی اُتر سکے تو اُتار

کس کی آواز کان میں آئی
دُور کی بات دھیان میں آئی

علم کیا ؟ علم کی حقیقت کیا ؟
جیسی جس کے دھیان میں آئی

          اصغر گونڈوی(۱۸۸۴ء تا ۱۹۳۶ء) کا شمار عبوری دور کے اہم غزل گوؤں میں ہوتا ہے۔ ان کا کلام میر درد کی طرح مختصر مگر منتخب ہے۔ انہوں نے متصوفانہ موضوعات کو اعلیٰ فنی بصیرت کے ساتھ جامۂ اظہار عطا کیا ہے۔ اصغر  کے ہاں زبان و بیان کی کرتب بازی اور صناعی عناصر کی مصنوعی چمک دمک دکھائی نہیں دیتی۔ انہوں نے روایتی الفاظ اور تراکیب استعمال کی ہیں مگر اس قرینے اور سلیقے کے ساتھ ان میں تصوف کی سرشاری شامل کر دی ہے کہ ان میں نئے معنوی امکانات چمک اٹھے ہیں۔ تصوف کے اثر میں ڈوبی ہوئی چند تراکیب ملاحظہ ہوں ، واضح رہے کہ یہ ساری تراکیب اصغر کی وضع کردہ نہیں ، اصغر کے ہم عصروں اور متقدمین کے ہاں ان کا استعمال دکھائی دیتا ہے مگر اصغر  نے ان تراکیب میں جو معنوی جوت جگائی ہے وہ کہیں اور نہیں ملتی:

          چشمِ تحیر، قطرۂ شبنم، ہنگامۂ طوفاں ، جُنبشِ نظر، حسنِ تعین، محوِ حیرت، بحرِ حقیقت، نشانِ مستوری،  نیرنگِ کمال، پرتوِ رخ، حاصلِ نظارہ، پردۂ دیر، شعاعِ مہر، پروازِ شبنم، صورتِ مستی، معنیِ میخانہ، طرزِ دید، چشمِ انجم باز، حقیقتِ ہستی، احساسِ خواب، نمودِ جلوۂ بے رنگ، آئینۂ حیرت، طرزِ نظر، نگاہِ برق ساماں، تشنگانِ حقیقت، وغیرہ۔

          اصغر  کی غزل کا ایک اور تکنیکی وصف یہ ہے کہ ان کی اکثر و بیش تر غزلیں مزاج اور کیفیت میں تسلسل رکھتی ہیں لیکن یہ تسلسل غزل کی ریزہ خیالی کو متأثر نہیں کرتا ، ہر شعر اپنی جگہ پر مکمل اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اصغر کی غزل کو نظم یا نظم نما غزل کا نام نہیں دیا جا سکتا ہر چند کہ انہوں نے اپنی غزلوں پر مصرع یا نصف مصرع بہ طور عنوان درج کیا ہے۔

          اصغر گونڈوی نے غزل کے لیے متوسط اوزان کو زیادہ استعمال کیا، ان کے ہاں بلند اور کوتاہ اوزان کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں جوش و خروش اور تندی و تیزی کی بجائے دھیما پن اور متانت پائی جاتی ہے۔ الفاظ کے در وبست سے بھی انہوں نے اس دھیمے پن کو نکھارنے کی کوشش کی ہے ، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی اس ضمن میں رقم طراز ہیں:

’’ اصغر کی غزلوں میں الفاظ کا درو بست ایسا ہے کہ اس سے ایک پُر کیف نغمے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، جس میں طوفانی لب و لہجہ کی جگہ نرم و سبک رو چشموں کا ترنم ملتا ہے۔‘‘(۴۸)

          اصغر کی اس پُر کیف نغمگیت کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

رقصِ مستی دیکھتے، جوشِ تمنا دیکھتے
سامنے رکھ کر تُجھے اپنا تماشا دیکھتے

پھر گرمِ نوازش ہے ، ضو مہرِ درخشاں کی
قطرہ میں سمندر ہے، ذرہ میں بیاباں ہے

رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے
جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی مے خانہ بنے

قطرۂ تنک مایہ ،بحرِ بیکراں ہے تُو
اپنی ابتدا ہو کر ، اپنی انتہا ہو جا

          جگر مراد آبادی( ۱۸۹۰ء تا ۱۹۶۰ء) کا شمار بھی جدید غزل کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے طبیعت کی شگفتگی، مزاج کی رنگینی اور رندانہ سرمستی کو غزل میں اس طرح شامل کیا کہ تکلف اور تصنع کا گمان نہیں ہوتا ، جگر کا یہ کہنا حقیقت سے خالی نہیں کہ:

تکلف سے تصنع سے بری ہے شاعری میری
حقیقت شعر میں جو ہے وہی ہے زندگی میری

          جگر نے اگرچہ اپنی عہد کی سیاسی اور معاشرتی صورتِ حال کو بھی اپنی غزلوں کا موضوع بنایا ہے تاہم ان کی کامیاب غزلیں وہی ہیں جن میں کیفیاتِ محبت کو والہانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے ، جگر کے ہاں محبت کی کیفیات کا بیان ابتذال اور لذتیت کو جنم نہیں دیتا بل کہ ایک خاص نوع کی روحانی سرشاری عطا کرتا ہے۔ جگر کی لفظیات میں سادگی اور شگفتگی کا جوہر گھُلا ہوا ہے۔جگر نے سادہ اور رواں دواں بحروں میں خوش آہنگ غزلیں کہی ہیں۔جگر نے ہندوستان پاکستان کے بڑے بڑے مشاعروں میں حرف و صوت کا جو جادو جگایا ہے اس سے غزل کی مقبولیت میں بلاشبہ اضافہ ہوا ہے۔ جگر کے چند شعر دیکھیے:

یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کیے جا رہا ہوں میں

وہ زلفیں دوش پر بکھری ہوئی ہیں
جہانِ آرزو تھرّا رہا ہے

سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا

          جدید غزل کے پیش روؤں میں اگرچہ حسرت، فانی، یگانہ، اصغر اور جگر کے نام خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں تاہم اس دور میں اور بھی کئی شعرا اس سفر میں ان کے شریک تھے۔یہ شعرا بہ ظاہر غزل کی کلاسیکی روایات سے جُڑے دکھائی دیتے ہیں تاہم انہوں نے تکنیک اور زبان و بیان کے اُن گوشوں کی نقاب کشائی میں حصہ لیا جو جدید غزل کی تعمیر میں معاون ٹھہرے۔ امیر مینائی، داغ دہلوی اور جلال لکھنوی کے تلامذہ نے کلاسیکی غزل کے نقوش کو مٹنے نہیں دیا۔ انہوں نے کلاسیکی غزل کے تکنیکی عناصر کو اسی کامیابی اور ہُنر مندی سے برتا جس طرح ان کے اساتذہ کے ہاں دکھائی دیتے ہیں۔ ان شاعروں نے دہلی اور لکھنؤ کے دبستانوں کے شعری خصائص کو باہم اکٹھا کر کے ایک نئے اور مخلوط دبستان کی داغ بیل ڈالی۔بیسیوں صدی کے آغاز میں میر اور غالب کے اسالیب سے استفادہ کا رجحان بڑھنے لگا اور اس رجحان کو تقویت دینے میں لکھنؤ کے شاعروں نے زیادہ اہم کردار ادا کیا۔ ان شعرا کے ہاں غزل اب محض زلف ورخسار کی کہانی اور ہجر و وصال کی داستان نہ تھی بل کہ اس میں نیا سیاسی اور سماجی شعور بھی شامل ہو رہا تھا۔

          شاد  عظیم آبادی(۱۸۴۶ء تا ۱۹۲۷ء) کی غزل پر اسلوبِ میر سایہ فگن ہے۔ خاص طور پر طویل بحر کی غزلوں میں یہ سایہ زیادہ گہرا ہو جاتا ہے:

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم

اے درد پتا تو ہی بتا ، ا ب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دلِ بے تاب نہاں، یا آپ دلِ بے تاب ہیں ہم

          عزیز لکھنوی(۱۸۸۲ء تا ۱۹۳۵ء)نے غالب کے خیال کی گہرائی اور میر  کے سوزوگداز سے استفادہ کر کے اپنا مخصوص لب و لہجہ وضع کیا۔ ان کی زبان کی سادگی تاثیر سے خالی نہیں ، انہوں نے اپنے عہد کے معاشرتی مسائل کو غزل کی مخصوص لفظیات میں پیش کیا جس سے لفظ کے امکانات کا دروازہ کھلا:

سحر ہونے کو ہے ہر چارہ گر کو نیند آئی ہے
چراغِ زندگی خاموش ہے بیمارِ ہجراں کا

وداعِ دل ہجومِ آرزو میں کیا کہوں تُجھ سے
بھرے گھر سے جنازہ جیسے اے ہم دم نکلتا ہے

          آرزو  لکھنوی(۱۸۷۳ء تا ۱۹۵۱ء)جلال کے شاگردوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کی ابتدائی دور کی شاعری لکھنوی دبستان کے مخصوص رنگ و آہنگ کی حامل ہے ، بعد میں میر کے اندازِ سخن کے اثرات نے ان کے اسلوب کو ایک نئی آب و تاب اور انفرادیت عطا کی۔ آرزو  طبعِ جدت پسند رکھتے تھے۔ ’’سریلی بانسری‘‘ کے نام سے ان کا ایک مجموعۂ غزل ہے جو بہ قول ان کے ’’خالص اُردو ‘‘ میں ہے۔ اس مجموعے میں ایسی زبان استعمال کی گئی ہے جس میں عربی اور فارسی کے الفاظ شامل نہیں ہیں۔ آرزو سے قبل نثر میں اس طرح کالسانی تجربہ انشا اللہ خاں انشا ’’ رانی کیتکی کی کہانی ‘‘ میں کر چکے ہیں۔سُریلی بانسری میں اگرچہ اچھے اشعار کی کمی نہیں تاہم اس شعوری التزام نے آرزو کی غزل گوئی کو نقصان پہنچایا ہے ۔ہندی آمیز لفظیات اور ہندی مزاج کی حامل بحروں کے استعمال کے باعث ان کی غزل میں ’’ گیت کا سا لوچ‘‘(۴۹) پیدا ہو گیا ہے،چند شعر دیکھیے:

جس نے بنا دی بانسری گیت اسی کے گائے جا
سانس جہاں تک آئے جائے ایک ہی دھن بجائے جا
دُکھ ہے یہ دل لگی نہیں ، کھیل نہیں ہنسی نہیں
پہلے لگاؤ کان ادھر پھر یہ کہو سُنائے جا
ہونٹوں پہ آئے کیا ہنسی ، جی ہے یہاں بُجھا ہوا
پلکوں پہ آنسو آ گئے اب تو نہ گُدگُدائے جا

          اثر  لکھنوی (۱۸۸۵ء تا ۱۹۶۷ء) عزیز لکھنوی کے شاگرد تھے۔ ان کے کلام پر بھی میر کے اسلوب کی چھاپ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ:

شعر آخر کہ ہے عطیۂ خاص
اثر  اعجازِ میرِ کامل تھا

          اثر نے غزل کے دائرۂ لفظیات میں ہندی الفاظ اور علائم کو خوش سلیقگی سے سمونے کی کوشش کی ، اس کوشش کے نتیجے میں ان کا کلام ایک خاص طرح کی موسیقیت اور نغمگیت سے متصف ہوا۔لمبی اور چھوٹی بحروں میں انہوں نے یکساں تکنیکی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے البتہ چھوٹی بحر میں میر کا رنگِ سخن اپنی تمام تر کیفیتوں کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے۔

ایک اُجڑا ہوا دیار ہوں میں
آگے آیا ہے سب کیا میرا

          سیماب اکبر آبادی( ۱۸۸۰ء تا ۱۹۵۲ء)داغ کے تلامذہ میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ جدید غزل کی فنی تعمیر میں سیماب اور ان کے تلامذہ نے اہم کردار ادا کیا۔ سیماب زبان و بیان کی نزاکتوں کا کامل ادراک اور عروض کے اسرار و رموز سے گہری شناسائی رکھتے تھے اس فنی مہارت کے باعث وہ اپنے عہد کے بلند مرتبہ استادتسلیم کیے گئے ان کے تلامذہ کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ انہوں نے رسائل اور مشاعروں کے ذریعے غزل کو مقبول بنانے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کی قدرتِ کلام کو خراج پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے لکھا ہے کہ:

’’ زبان و بیان اور فکر و خیال ،ہر جگہ ایک دوسرے سے اس طرح ہم آہنگ ہیں کہ اس سے بہتر کا تصور محال ہو جاتا ہے اس لیے میں اسے شاعری نہیں ،شاعری کی معراج کہتا ہوں۔‘‘(۵۰)

          سیماب کی غزلیات کے عروضی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے تمام مروجہ بحروں میں شعر کہے ہیں بل کہ بعض ایسے اوزان بھی ان کے ہاں دکھائی دیتے ہیں جن کا استعمال اُردو میں پہلے دکھائی نہیں دیتا۔ مثال کے طور پر’’کلیمِ عجم‘‘ میں ان کی غزل:

دل اک قطرہ لہو ہے ،یہ ہے اس کے سوا کیا

پھر اس کی آرزو کیا، پھر اس کا مدعا کیا

بحرِ عریض ( مفاعیلن فعولن مفاعیلن فعولن) میں ہے۔ یہ بحر دائرۂ مختلفہ سے نکلتی ہے مگر ابتدا میں ہی اس ترک کر دیا گیا تھا کہ یہ خوش آہنگ نہیں اس لیے عربی، فارسی اور اردو میں اسے کسی نے استعمال نہیں کیا۔سیماب کے پسندیدہ اوزان میں ہزج، رمل، مضارع اور مجتث کے اوزان شامل ہیں۔

باب (۶)

انجمنِ پنجاب کی تحریک کے زیرِ اثر اُردو میں نظم نگاری کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا ۔ مغربی اصناف کے سانچوں نے اپنی چمک دمک کے باعث تخلیق کاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ جدید ذہنوں کو اس چمک دمک نے کلاسیکی ادب اور روایاتِ ادب سے کسی حد تک بے گانہ کر دیا۔ غزل جو اُردو شاعری کی آبرو اور سب سے مقبول صنف رہی تھی اس ماحول میں نشانۂ ستم اور ہدفِ تنقید بنی۔ مولانا الطاف حسین حالی نے اس کی ریزہ خیالی اوراس کے موضوعات پر جو وار کیا تھا وہ کارگر ثابت ہوا۔ غزل کے خلاف اس رجحان کی نمو پذیری میں حالی  کے تنقیدی نظریات کے علاوہ انجمنِ پنجاب کی تحریک، مغربی ہیئتوں کی چکا چوند اور ماحول کی تبدیلی نے بھی اپنا پنا حصہ ڈالا۔ اقبال کی نظم گوئی بھی ایک لحاظ سے اس رجحان کی تقویت کا سبب ٹھہری۔وحید الدین سلیم، پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی، نظم طباطبائی ،تاجور نجیب آبادی اور کئی دوسروں کے ہاں’’ غزل دشمنی‘‘ کا رجحان دکھائی دیتا ہے تاہم ان تخلیق کاروں کے ہاں وہ زہریلا پن اور شدت نہیں ہے جو عظمت اللہ خاں کے نظریات میں پوری طرح سے ظاہر ہوئی۔عظمت اللہ خاں انقلاب پسند طبیعت کے مالک تھے ، مغربی تعلیم کے زیرِ اثر انہوں نے مشرقی ادب کے گنجینۂ گراں مایہ کو بے وقعت اور کم حیثیت جانا۔ انہوں نے انقلاب پسندی کے خمار میں صرف غزل کو ہی گردن زدنی قرار نہیں دیا بل کہ قافیہ اور عروض کے گلے پر بھی چھری پھیرنے کی تجویز پیش کی۔ ان کا مقالہ ’’ اُردو شاعری‘‘ پہلے پہل رسالہ ’’ اردو ‘‘ میں بالاقساط چھپا اور بعد میں ان کے مجموعۂ کلام ’’ سریلے بول‘‘ میں بہ طور مقدمہ شامل ہوا۔ اس مضمون میں انقلابی خیالات کی تندی اور شدت کا اندازہ ذیل کے اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے:

 ’’ ہماری شاعری محض قافیہ پیمائی ہے اور اس قافیہ پیمائی کے رواج کا سہرا غزل کے سر ہے جس میں تسلسل ایک طرح کا جُرم ہے۔‘‘(۵۱)

 ’’سب سے پہلی اصلاح اب یہ ہونی چاہیے کہ شاعری کو قافیہ کے استبداد سے نجات دلوائی جائے۔ اس بات کو واضح کر دیا جائے کہ شاعری قافیہ کے اشارے پر نہیں چلے گی بل کہ شاعر کے ارادہ اور خیال کی ضرورتوں کے آگے قافیہ کو سر خم کرنا پڑے گا۔۔۔۔ اب وقت آگیا ہے کہ خیال کے گلے سے قافیہ کے پھندے کو نکالا جائے اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ غزل کی         گردن بے تکلف اور بے تکان مار دی جائے۔‘‘(۵۲)

 ’’ غزل کا خاتمہ ضروری ہے ، جب تک غزل کا اُردو شاعری سے کالا منہ نہ ہو گا قافیہ پیمائی اور پریشاں گوئی کا زہریلا مذاق اُردو ادبیات کے جسم سے خارج نہ ہو گا۔‘‘ (۵۳)

 ’’اب صرف ایک اور اصلاح کی طرف توجہ دلانی ہے اور وہ یہ ہے کہ اُردو شاعری کے مروجہ اوزان اور بحریں مسلسل گوئی کے لیے رکاوٹ ہیں اور ان پر غور کرنا اور ان کی اصلاح کرنی بھی نہایت ضروری ہے تاکہ اُردو شاعری پوری طرح تسلسلَ خیال اور اصلیت میں رچ جائے اور ہماری زبان کی شاعری کا جدید آزادی کا دور شروع ہو۔‘‘ (۵۴)

          عظمت اللہ خاں کے ان انقلابی خیالات نے اگرچہ ایک زمانے کو چونکایا مگر عملی طور ان خیالات سے کوئی انقلاب پیدا نہیں ہوا اور عظمت اللہ خاں کی یہ آرزو کہ غزل کی گردن بلا تکلف مار دی جائے ،پوری نہ ہو سکی۔ ڈاکٹر حنیف کیفی رقم طراز ہیں:

’’اب اگر عظمت اللہ خاں کے وقت سے آج تک اُردو شاعری کے ارتقا کو پیش ِ نظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہو گا کہ دونوں محاذوں ( ۱:غزل کا خاتمہ ،۲:عروض کی بجائے پنگل کا استعمال)عظمت اللہ خاں کو ناکامی ہوئی۔ اُردو شاعری سے غزل کا نہ صرف یہ کہ ’’ کالا منہ‘‘ نہ ہوا بل کہ اس کی تاب ناکی اور توانائی میں روز بہ روز اضافہ ہوتا گیا۔ بیسویں صدی میں اُردو شاعری کے ’’نظم زدہ‘‘ ہونے کی وجہ سے کبھی عارضی طور پر غزل کی مقبولیت میں کمی آئی بھی تو اس کاسلسلہ عظمت اللہ خاں سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا ،محض عظمت اللہ خاں کی تحریر سے غزل کو نقصان نہیں پہنچا اور اگر کبھی نقصان ہوا بھی تو اس کی تلافی بھی جلد ہی ہو گئی، پہلے کی طرح آج بھی اُردو شاعری پر غزل کی حکومت ہے۔‘‘ (۵۵)

          عظمت اللہ خاں مروج عروضی نظام سے بھی مطمئن نہ تھے۔ وہ انگریزی عروض (Prosody) اور ہندی نظامِ اوزان ’’پنگل‘‘ کے اجتماع سے اُردو کا نیا عروض وضع کرنا چاہتے تھے ، انہوں نے نئے عروض کی تجویز پیش کرتے وقت اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ ہر زبان اپنا مخصوص تہذیبی مزاج رکھتی ہے اور اس کا نظم الاوزان اس تہذیبی مزاج سے مکمل طور پر وابستہ ہوتا ہے۔عروض اور Prosody میں جو بعد ہے وہ اسی تہذیبی مزاج کے باعث ہے۔ ریاض احمد لکھتے ہیں:

          ’’ انہوں(عظمت اللہ خاں ) نے انگریزی عروض کے تتبع میں جو بحریں اختیار کیں وہ کُچھ ایسی میکانکی ساخت کی مالک تھیں کہ نہ تو وہ مقبول ہی ہو سکیں اور نہ انہیں بعد کے شعرا اپنا سکے۔دراصل خود انگریزی میں یہ بحور شاید اتنی پابندی کے ساتھ استعمال نہیں کی جا سکیں۔ ہمارے عروضی نظام اور انگریزی کے عروض میں بنیادی اختلافات ہیں اور انہی کے پیشِ نظر انگریزی عروض کا تتبع ممکن نہ ہو سکا۔‘‘(۵۶)

           عظمت اللہ خاں کی صرف وہی نظمیں (لیرکیں) کامیاب قرار پائیں جو عربی نظامِ عروض کے تتبع میں ہیں۔ انہوں نے تسلسلِ خیال کے لیے انگریزی اور پنگل کے امتزاج سے جن نئے اوزان کو تجرباتی طور پر اپنی نظموں میں استعمال کیا اور انہیں’’ سریلے بول ’’کے نام سے پیش کیا وہ موسیقیت اور نغمگیت سے محروم ہیں، گیان چند لکھتے ہیں:

’’ ان میں موسیقیت اور روانی کا کہیں دور دور تک پتا نہیں، کوئی چھٹے ساتویں درجے میں پڑھنے والا لڑکا بھی اتنے غیر مترنم شعر نہیں کہے گا۔‘‘(۵۷)

حواشی

(۱)تذکرۂ حالی، اسماعیل پانی پتی، لاہور، ۱۹۳۵ء، ص ۵۶۔۵۷۔

(۲)ایضاً ص ۵۸۔

 (۳) مقدمۂ شعر و شاعری، لاہور، کشمیر کتاب گھر، س ن ، ص ۱۱۳۔

(۴)ایضاً ص۱۳۴، ۱۳۵، ۱۳۷۔

(۵)ایضاً ص۱۳۹۔

(۶)ایضاً ص۱۴۵۔ ۱۴۷۔

 (۷)ایضاً ص۱۵۵۔

(۸) ایضاً ص۱۶۰،۱۶۱۔

(۹)دیوان حالی، (مقدمہ رشید حسن خاں) ، لاہور، القمر انٹر پرائزرز، ۱۹۸۹ء ، ص ۱۸۔

(۱۰) مقدمۂ شعر و شاعری، ص ۵۰، ۵۲۔

 (۱۱) ایضاً ص ۳۵۔

(۱۲) ایضاً ص ۳۶۔

(۱۳) ڈاکٹر یوسف حسین خان، اردو غزل، لاہور ، آئینہ ادب، ۱۹۶۴ء ( پاکستان میں پہلی بار) ، ص ۱۸،۱۹۔

(۱۴)تاریخِ ادبِ اُردو(مترجم: مرزا محمد عسکری)، لاہور، لاہور اکیڈمی ، س ن ، ص ۳۷۱۔

(۱۵) شعرو قافیہ، صوفی وارثی میرٹھی، لاہور، القمر انٹر پرائزرز، ایڈیشن سوم، س ن ، ص ۸۲ تا ۸۵۔

(۱۶) مقالاتِ تاثیر (مرتب: ممتاز اختر مرزا، لاہور، مجلسِ ترقیِ ادب، طبع اوّل ،جون۱۹۷۸ء، ص ۳۷۹۔

(۱۷) مقالاتِ عابد ، سید عابد علی عابد، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۹ء ، ص ۱۹۵۔

(۱۸)ایضاًص ۱۸۹۔

ّ(۱۹)نقدِ اکبر، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۷۲ء، ص ۳۳۔

(۲۰)اُردو غزل کے پچاس سال، لکھنؤ، مکتبۂ کلیاں، دسمبر ۱۹۶۱ء، ص۳۶۰۔

(۲۱)مجموعۂ محمد حسن عسکری، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء، ص۹۳۱۔

(۲۲) کلیاتِ اکبر(حصہ اوّل)، کراچی، المسلم پبلشرز، س ن ، ص ۴۔

(۲۳)’’شعرِ اقبال میں فن کاری کا عنصر‘‘ (مضمون) مشمولہ : اقبال،بحیثیت ِ شاعر، مرتب : ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، لاہور، مجلسِ ترقیِ ادب، اوّل ،مارچ ۱۹۷۷ء، ص ۴۷۔

(۲۴) شعرِ اقبال، لاہور، بزمِ اقبال، دوم ،جون ۱۹۷۷ء، ص ۸۴۔

ّ(۲۵) بہ حوالہ: اقبال اور بعض دوسرے شاعر، خواجہ منظور حسین، لاہور، نیشنل بُک فاؤنڈیشن، اوّل، دسمبر ۱۹۷۷ء، ص۱۲۵۔

(۲۶)ایضاً ص ۱۲۵۔

(۲۷)ایضاً ص ۱۲۵۔

(۲۸)ایضاً ص ۱۲۵۔

(۲۹)ایضاً ص ۱۲۶۔

(۳۰)ایضاً ص ۱۲۶۔

(۳۱)ایضاً ص ۱۳۰۔

(۳۲)مقالاتِ تاثیر، ص ۲۷۵۔

(۳۳)شعرِ اقبال، ص ۳۷۶۔

(۳۴)’’علامہ اقبال کی غزل اور اس کا منفرد لہجہ‘‘(مضمون)مشمولہ: مشعل(علمی و ادب ی مجلہ)، اٹک ، گورنمنٹ کالج اٹک، مئی ۱۹۷۸ء، ص ۳۰۔

(۳۵)ایضاً ص۲۹۔

(۳۶)’’اقبال کے کلام میں موضوع اور ہیئت کی ہم آہنگی‘‘(مضمون)، مشمولہ: اقبال بحیثیت شاعر ، ص ۱۵۲۔

(۳۷) ’’اقبال کی مہارتِ عروض‘‘(مضمون)، مشمولہ: سہ ماہی اُردو، کراچی، انجمنِ ترقیِ اُردوپاکستان، ۱۹۸۰ء۔

(۳۸) اقبال نامہ(حصہ اوّل)، مرتب :شیخ عطااللہ، لاہور، (۱۹۴۴ء)، ص۲۸۰۔

(۳۹)بہ حوالہ: اوزانِ اقبال، ابوالاعجاز حفیظ صدیقی، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، اوّل ۱۹۸۳ء۔

(۴۰)کُچھ حسرت کے بارے میں(مضمون)، مشمولہ: نگار(حسرت نمبر)، ۱۹۵۲ء، ص ۲۲۔

(۴۱)حسرت کی شاعری، لاہور، آئینۂ ادب، (پاکستان میں پہلی مرتبہ) ۱۹۶۴ء، ص ۶۸۔

(۴۲)ڈاکٹر یوسف حسین خاں، حسرت کی شاعری، ص ۶۸،۶۹۔

(۴۳)فکر وفن، دہلی ، آزاد کتاب گھر، اوّل ۱۹۵۶ء، ص ۹۸،۹۹۔

(۴۴)غالب ، غزل اور حسرت ، مرتب : ڈاکٹر سید معین الرحمٰن ، لاہور، الوقار پبلی کیشنز، ص۵۸۔

(۴۵)سید احتشام حسین، تنقیدی جائزے، لکھنؤ، احباب پبلشرز، سوم ۱۹۵۶ء، ص۲۲۸۔

(۴۶)محاسن، ملتان، بیکن بُکس، بارِ اوّل ،۱۹۹۴ء، ص۱۲۶۔

(۴۷)اس عنوان سے یگانہ  کا مضمون پہلے رسالہ’’خیال‘‘ہاپوڑ بابت دسمبر ۱۹۱۵ء میں چھپا بعد میں اسے یگانہ کی کتاب ’’چراغِ سخن‘‘میں شامل کر دیا گیا۔

(۴۸) تاریخِ ادبیاتِ مسلمانانِ پاکستان و ہند(جلد دہم)، لاہور، پنجاب یونی ورسٹی، اوّل ۱۹۷۲ء، ص ۱۴۶۔

(۴۹) اُردو ادب کی مختصر تاریخ، ڈاکٹر انور سدید، لاہور، اے ایچ پبلشرز، اپریل ۱۹۹۶ء، ص ۲۲۸۔

(۵۰)ماہنامہ ’’شاعر‘‘(ہم عصر ادب نمبر۔جلد اول)، مدیر: افتخار امام صدیقی، ممبئی، مئی تا دسمبر ۱۹۹۷ء، ص ۹۷۔

(۵۱)’’اُردو شاعری‘‘ قسط ۲(مضمون) مشمولہ:اُردو، عظمت اللہ خاں، جنوری ۱۹۲۴ء، ص۹۰۔

(۵۲)            ایضاً ص۹۱۔

(۵۳)            ایضاً ص۹۲، ۹۳۔

(۵۴)            ایضاً ص ۹۴۔

(۵۵) اُردو میں نظمِ معرا اور آزاد نظم، لاہور، الوقارپبلی کیشنز، ۱۹۹۵ء، ص۸۸۔

(۵۶)ریاضتیں، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۶ء، ص۲۶۔

(۵۷)’’عظمت اللہ خاں کے عروضی اجتہادات کا جائزہ‘‘(مضمون)، گیان چند، مشمولہ اُردو، جولائی ۱۹۶۷ء، ص ۵۲۔

٭٭٭

تشکر: القلم لائبریری

غزل کا فنی سفر حالی سے اقبال تک

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔