11:24    , جمعہ   ,   17    مئی   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

1332 0 0 00

عشرت ظفر

غلام مرتضیٰ راہی کی غزل کا تنقیدی مطالعہ

سوادِحرف

میں  اس کتاب کو غلام مرتضیٰ راہی کی غزل کا بالاستیعاب مطالعہ تو نہیں  کہہ سکتا لیکن مجھے  یہ دعویٰ ضرور ہے  کہ میں نے  اسے  کسی حد تک سمجھنے  کی کوشش کی ہے۔ ہر فن پارہ تفہیم و تعارف کی منزلوں  سے  گزرنے  کے  بعد بھی بڑی حد تک تشنۂ تعارف و تفہیم رہ جاتا ہے  اور یہی اس فن پارے  کے  عظیم ہونے  کی دلیل ہوتی ہے  چنانچہ یہ کہنا کہ سب کچھ سمجھ لیا گیا قطعی بہتر نہیں  لیکن نقد شعر تو بہر حال ہونی ہی چاہئے  تاکہ نادیدہ جہات منکشف ہو سکیں  بقول شاعر

شعر گفتن گرچہ در سفتن بود

لیک فہمیدن بہ از گفتن بود

لیکن بہرحال اس منزل میں  گفتن کی دنیا پہلے  ہے  فہمیدن کی بعد میں  لیکن اگر فہمیدن نہ ہو تو پھر فن پارہ کی تکمیل بھی نہیں  ہو سکتی۔

          غلام مرتضیٰ راہی کی شاعری سے  میرے  تعارف کوچالیس سال گزر چکے  ہیں  جبکہ ان کی شخصیت سے  میرا تعارف بیس سال پر مبنی ہے  اور ان کے  شعر کے  تعارف میں  ماہنامہ شب خون الہ آباد کا  اہم کردار ہے۔ اس سلسلے  میں  وضاحت سے  میں  بہت کچھ لکھ چکا  ہوں  جواس کتاب سے  بہت پہلے  شائع بھی ہو چکا  ہے۔

          غلام مرتضیٰ راہی کی غزل پر حرفِ باریاب جیسی کتاب لکھنے  کا  منصوبہ بہت دنوں  سے  میرے  ذہن میں  تھا لیکن اب جا کر یہ لمحات میسرآ سکے۔ میں  اس میں  کہاں  تک کامیاب ہو سکا  ہوں  ظاہر ہے  کہ اس کا  فیصلہ میں  تو نہیں کر سکتا، ممکن ہے  کہ میرے  بنائے  ہوئے  نقش سے  کچھ راہیں  پھوٹ نکلیں، نئے  مسافرپیدا ہوں، نئے  سنگ میلوں  کی تنصیب ہو۔ ہمیشہ ہی کسی بھی موضوع پر لکھنے  کے  کچھ محرکات ہوتے   ہیں۔ میرے  یہاں  بھی ہیں، شاعر کا  فن بھی اس کی شخصیت بھی لیکن چونکہ دونوں  ہی ماورائے  کائنات کوئی شے  نہیں  ہیں  اس لئے  انہیں  سمجھنے  میں دشواری نہیں ہونی چاہئے۔ زمین سے  ہم سب کا  جو رشتہ ہے  اس کی وضاحت ضروری نہیں، مٹی سے  ہماری ہم رشتگی ہی ہمیں  ہر طرح سے  ممتاز و ممیز کرتی ہے  اور اس کی خوشبو ہی ہماراسب سے  بڑا سرمایہ ہے۔ ہم جس لمحے  کو عبور کرنے  کی کوشش کر رہے  ہیں  اس کے  تئیں ہمیں پر خلوص ہونا چاہئے  کہ دنیا کیا ہے  بقولِ کلیم ہمدانی

ما ز آغاز و انجام جہاں  بے  خبریم

اول و آخر ایں  کہنہ کتاب افتاد ست

میں  اس کتاب کی تصنیف میں  اپنے  دوستوں  کا  بے  حد ممنون و متشکر ہوں  جنہوں نے  مجھ سے  بیشتر اوقات میں غلام مرتضیٰ راہی کی شاعری سے  متعلق مکالمہ جاری رکھا اور یہ مختصر تحریراسی کا  ثمرہ ہے۔ اب اس کا  ذائقہ تلخ ہے  شیریں ہے  یا حامض، اس حرف کو باریابی ملے  گی یا نہیں  اس کا  فیصلہ قارئین کرام کریں گے۔ میں نے  تو بقول غالب بس یہ کوشش کی ہے 

بیا بہ کلبۂ ویران من کہ پنداری

ز شش جہت بہم آوردہ ایم صحرا را

                             عشرت ظفر          ۳۰/جون ۲۰۰۶ء

غلام مرتضیٰ راہی کی غزل کا روایت سے رشتہ

اس دور میں  جبکہ الفاظ کے  آفتاب غروب ہو رہے  ہیں۔ معنی کے  مہتاب بجھ رہے  ہیں۔ غلام مرتضیٰ راہی جیسی تہہ دار غزل کہنا ہفت خواں طے  کرنے  کے  مترادف ہے۔ ان کی غزل پوری کائنات کوسمیٹتی ہے  جس میں  کرب کے  سحاب آفریں  سمندربھی ہیں  اور نشاط کے  بہجت آفریں  بیکراں  لمحے  بھی۔ ان کی غزل اشیاء کے  منفی عکسوں سے  بھی مکالمہ کرتی ہے  اور مثبت چہروں کے  خدوخال بھی پڑھتی ہے۔ کولرج نے  کہا تھا کہ اس کائنات میں  خوبصورت کچھ نہیں ہے  سب کچھ ہولناک اور خوفزدہ کر دینے  والا ہے۔ عام انسان تو اشیاء و مظاہر فطرت کے  ظاہری حسن کو دیکھتے  ہیں اور اپنے  وجود کے  سمندرمیں  اٹھنے  والی لہروں کے  تابع ہیں۔ وہ جس شکل میں  ہمارے  سامنے  آتی ہیں  ہم انہیں  ویساہی سمجھتے  ہیں  چنانچہ راہی نے  اس کائنات کا  گہرا مشاہدہ کیا ہے۔ غزل کے  حوالے  اس کی روح تک پہنچنے  کی کوشش کی ہے  اور یہ حوالہ اس عہد کا  حوالہ ہے  جس میں  ماضی کی بازیافت بھی ہے  حال کا نوحہ بھی اور مستقبل کی پر شکوہ عمارت بھی اور سب اس لئے  ہے  کہ اردو غزل کی روایت سے  اس کا  رشتہ مستحکم ہے۔

          غلام مرتضیٰ راہی کی غزل کا تفصیلی مطالعہ شروع کرنے  سے  پہلے  میں  ان کی غزل کے  پوشیدہ اور غیر منکشف خزانے  کی ایک جھلک آپ کو دکھاؤں  گا یعنی ایک ایسا تعارف نامہ جو تابناک مشعل کی طرح ہو گا اور جس کی درخشانی میں  راہی کے  افکار کی بے  حدود مملکت کا سفرآسان ہو گا اور تمام منظر ناموں کے  خدوخال سے  آپ کی آنکھیں  مانوس رہیں گی۔

          نئی غزل اپنے  لمحہ آغاز سے  ہی اتہامات اور الزامات کا شکار رہی ہے  گویا اس بادۂ گلفام کو واعظ و شیخ نے  سرجوڑکربدنام کیا ہے۔ طعن و تعریض کا  ایک بے  ہنگم شور رہا۔ یہ کہا جاتا رہا کہ اس غزل کا  غزل کی روایت اور کلاسیکیت سے  کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اس کی جڑیں زمین میں نہیں ہیں۔ مخالفین میں  ترقی پسندپیش پیش تھے۔ ان کے  باطن کی سیاہی چاروں طرف سے  امڈ کر یلغار کرتی رہی مگر نئی غزل کا سفرجاری رہا کیونکہ اس کا  رشتہ پوری طرح روایت سے  استوارتھا۔ ترقی پسندوں کا خیال تھا کہ جس طرح انہوں  نے  قدیم غزل کو دفن کرنے  میں  کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں  کیا ہے  یہاں بھی کامیاب ہو جائینگے  مگر ایسانہیں ہو سکا وہ خود ہی اپنی تحریک سمیت دریائے  فنا کی گھاٹ اتر گئے  مگر جدید غزل کے  جسم پر کوئی خراش نہیں ڈال سکے  یہ کمال ان تمام رشتوں  کا  تھا جس کا  احترام نئی غزل نے  کیا اور آج ایک نئی آب و تاب سے  سامنے  آئی۔ یہ جو کہا گیا ہے  کہ کلاسیک ایسی زمین ہے  کہ تہیں الٹتے  جائیے  اور نئے  خزانوں سے  متعارف ہوتے  جائیے۔

          غلام مرتضیٰ راہی نئی غزل کے  ان بنیاد گزاروں میں سے  ہیں  جن کے  ذکر کے  بغیر نئی غزل کی تاریخ مکمل ہی نہیں ہوتی اور چشم حقیقت سے  اگر دیکھیں  تو ۱۹۶۰ء سے  ۱۹۷۰ء کے  درمیان ایسے  اہم ترین غزل گو پیدا ہوئے  جنہوں نے  ہمیشہ ہمیشہ کے  لئے  نئی غزل کو زندہ  جاوید کر دیا اس کے  بعد آنے  والی نسل ان راستوں پر تو چلتی رہی لیکن پوری طرح اس کے  مزاج سے  آشنا نہیں ہو سکی سبب اس کا یہ تھا کہ کلاسیک پراس کا مطالعہ کمزور تھا اور مطالعہ اسلئے  کمزور تھا کہ کلاسیک پڑھنے  کے  لئے  اعلیٰ ترین اردو اور فارسی سے  واقف ہونا ضروری ہے  یہی وجہ ہے  کہ بیسویں  صدی کے  ربع آخر میں  شعراء کی جونسل سامنے  آئی اس کا مبلغ علم نہایت کمزور اور بودا تھا۔

          یہاں  ان لوگوں کا ذکر کرنا ضروری ہے  جنہوں نے  جدید غزل کی بنیادیں  مضبوط کرنے  میں نمایاں کردار ادا کیا ان میں  غلام مرتضیٰ راہی کے  علاوہ بانی، زیب غوری، مصورسبزواری، سلطان اختر، مظفر حنفی، مدحت الاختر، نشتر خانقاہی، پرکاش فکری، شہریار، کرشن کمار طور، ظفر اقبال، شہزاد احمد، آزاد گلاٹی، عرفان صدیقی کے  نام بے  حد اہمیت کے  حامل ہیں  بہرحال یہ ایک طویل تاریخ ہے  جو پورے  بر صغیر کو محیط ہے۔ اردو کے  نامور ناقد و شاعر شمس الرحمن فاروقی کی قیادت میں اس قافلے  نے  اپناسفر شروع کیا اور تاریخ کے  صفحات پر اپنے  لازوال نقوش ثبت کر دئیے۔ جدید ادب کی تشہیر اور تبلیغ میں  الہ آباد کے  ماہنامہ شب خون کا بھی بڑا کردار ہے  جو ساتویں  دہائی کے  وسط میں  زیر ترتیب و تہذیب جناب شمس الرحمن فاروقی منصہ شہود پر آیا تھا اور گذشتہ چالیس برسوں میں  ادبی تاریخ کے  صفحات پر گہرے  نقوش مرتسم کر گیا۔

          میں نے  شروع میں عرض کیا تھا کہ نئی غزل کا روایت سے  رشتہ بے  حدمستحکم ہے  جس نے  اس کی آب و تاب میں اضافہ کیا اور غلام مرتضیٰ راہی کے  یہاں  ان جلووں  کی کثرت ہے۔ ان کے  یہاں  محسوسات کے  نئے  نئے  پیکر ہیں۔ آواز، رنگ، خوشبو اور روشنی کا  امتزاج ہے۔ الفاظ کا بے  داغ تخلیقی دروبست ہے  جو معنی سے  اس کے  رشتوں  کواستحکام عطا کرتا ہے۔ استعارے  کا منفرد نظام ہے  جو عصری اقدار کے  چہروں کو منکشف کرتا ہے  اور ان کے  خدوخال کے  مطالعہ کی دعوت دیتا ہے۔ مشاہدے  کا تعمق ہے  جو ذرے  میں  کائنات کا نظارہ کرنے  کے  عمل سے  متمیز ہے۔ عرفان ذات کی وہ جہتیں  ہیں جہاں  خود کو پہچان لینے  کے  بعد اس ذات بزرگ و برتر تک رسائی کے  پہلو ابھرتے  ہیں جہاں  دن خود ہی نخل طور بن جاتا ہے۔ تخلیقی تجسس شاعر کو ان نادیدہ اور ناآفریدہ جہانوں میں  لے  جاتا ہے  جہاں  کے  ذرے  ذرے  سے  ایک نئی کائنات ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ خیال بندی راہی کی غزل کا سب سے  بڑا طرہ امتیاز ہے  اور اس میدان میں  وہ اپنے  معاصرین میں  یکہ و تنہا نظر آتے  ہیں  اور غالب کے  بعد خیال بندی کی یہ جلوہ گری صرف انہیں  کے  یہاں نظر آتی ہے۔ اساطیر پران کی نگاہ گہری ہے  وہ اس کے  حوالے  سے  ماضی کی بازیافت کرتے  ہیں۔ تلمیحات کا  استعمال ان کے  یہاں  اس انداز سے  ہوتا ہے  کہ قدیم قصص کی تلمیحات سے  اپنے  عہد کے  مسائل کو اجاگر کرتے  ہیں  ا سکے  علاوہ ان کے  یہاں  واحد متکلم کا صیغہ اس طور پر آتا ہے  کہ وہ ایک فرد کی ذات سے  پوری کائنات کا مطالعہ و مشاہدہ کرتے  ہیں۔ ان تمام باتوں کے  علاوہ محاورات، محاکات، مصطلحات، ضرب المثال، صنائع و بدائع، اوزان و بحور، تراکیب و اضافت کسرہ کا طلسم ان کے  یہاں  دیدنی ہے  اور یہی تمام عناصر ان کی غزل کو غزل کی کلاسیکی روایت سے  وابستہ رکھتے  ہیں  جس طرح ناخن کی گوشت سے  وابستگی۔

          غلام مرتضیٰ راہی ان تمام منازل سے  گزرتے  ہوئے  جن الفاظ کا  انتخاب اپنے  اشعار میں  کرتے  ہیں  ان سے  معنی کی ہفت رنگ کرنیں پھوٹتی ہیں  جن میں  مذہب و تصوف وحدت الوجود، عصری حسیت، شخصی جمالیات، مناظر فطرت، کلاسیکیت و جدیدیت، امیجری، عرضیت اور تاریخیت کے  عکس روشن اور نمایاں  نظر آتے  ہیں۔ اس طرح ان کی غزل ایک نگار خانہ بن جاتی ہے۔

          غلام مرتضیٰ راہی کی غزل پانی کی سطح پر کھڑی ہوئی کوئی عمارت نہیں  ہے  بلکہ اس کی گہری جڑیں  قدیم ادبیات عالم کی زمین میں  پیوست ہیں۔ صرف متقدمین، متوسطین اور متاخرین اردو شعراء کے  افکار کے  تناظر میں  ہی نہیں  بلکہ اہم فارسی گو شعراء سے  بھی ان کی غزل اکتساب کرتی ہے  یہی وجہ ہے  کہ اس میں  رنگوں کا  ایک تلاطم ہے، ایک جہان غیر فانی ہے  اور ہزار شیو گی اس کے  مزاج کا  ایک ناقابل شکست عنصر بن چکا  ہے۔ یہ ہزار شیو گی لفظوں کی اس دروبست میں جلوہ ریز ہے  جس میں  غزل کی ریزہ خیالی کے  ساتھ ہی معنویاتی نظام کے  جگنوؤں کی فصل اگی ہوئی ہے۔ راہی کے  الفاظ کا تنوع ہے۔ کوئی لفظ اچھوت نہیں  وہ ہر لفظ کو اس کامناسب مقام دیتے  ہیں۔ اس میں  قدیم و جدید کا بھی کوئی امتیاز نہیں  لیکن شعری منظوم کے  اعتبارسے  الفاظ کا  انتخاب ہی ان کی فکر بلا خیزکا  اہم کارنامہ ہے۔ چنانچہ تیشہ، آبشار، کوہسار، آئینہ، سنگ، سمندر، آب وسراب، منظر، ستارہ، سفر، پرند، طائر، چاند، لشکر، پانی، سحاب جوئے  شیر، کوہکن، آرسی، دشت، نیزہ، سکندر، آزر، صحرا، آسمان، صدف اس طرح کے  لاکھوں الفاظ ہیں  جن کا  تخلیقی دروبست ان کی غزل میں  اہمیت کا  حامل ہے۔

          شاعری کے  لئے  علم اور وجدان دونوں  ضروری ہیں۔ کچھ نظریات ایسے  بھی ہیں  جہاں  وجدان کو علم پر ترجیح دی گئی ہے۔ حتی کہ یہ کہہ دیا گیا کہ علم شاعری کے  لئے  ضروری نہیں  بس وجدان ہی سب کچھ ہے۔ میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ علم کی دو قسمیں  ہیں، اکتسابی اور وہبی۔ کچھ لوگ اکتسابی علم حاصل کرتے  ہیں  کچھ وہبی علم کے  سرمایہ دار ہوتے  ہیں  مگرسچ تو یہ ہے  کہ بغیر علم کے  کچھ بھی وجود میں  نہیں آتا۔ بعض اذہان کو یہ دولت فطرت ودیعت کرتی ہے۔ بقول مرزا بیدل ...

نزد اہل حقیقت و ایجاد

ہیچ چیزے  بغیر علم نزاد

ظاہر ہے  کہ حقیقت پر نظر رکھنے  والوں کے  نزدیک علم سے  ہی ہر چیز پیدا ہوئی ہے  اور سچائی بھی یہی ہے  کہ ہر چیز کے  وجود کی بنیاد علم ہے۔ انسان کو اللہ نے  بہت کچھ سکھایا، اس کے  باوجود جہان معلوم سے  جہان نامعلوم اب بھی بہت وسیع اور بیکراں ہے۔ شاید زمین کے  نائب میں  اتنی توانائی نہ تھی کہ وہ سارے  علم کا بوجھ اٹھا پاتا اور دیکھنے  میں  یہی آتا ہے  کہ جس قدراسے  مل گیا ہے  اسی میں  وہ پھولا نہیں سما رہا ہے  اور اس کا  بوجھ اٹھانا بھی اس کے  لئے  کسی حد تک مشکل ہو رہا ہے۔ سارے  کرہ ارض پر دندناتا پھر رہا ہے۔ یہ پہلو بھی قابل دید ہے  کہ قلم اللہ کی مخلوق اول ہے  اور دنیا پر ہمیشہ قلم کی حکومت رہی۔ پہلے  بھی تھی اور آج بھی ہے  لیکن ابھی ہزاروں جہان ایسے  ہیں  جوانسانی علم اور اس کی دانش و آگہی کے  حصارسے  باہر فروزاں  اور منور ہیں۔ علم پیغمبروں کی میراث ہے۔ شاعری علم کا ثمرہ ہے۔ اس کی رگ رگ میں  وجدان کی شراب تیرتی ہے۔ اس لئے  جواس منزل تک پہنچتا ہے  وہ قابل احترام ہے  اور اس کا لمحہ نزول بے حدتقدس آمیز اور افتخار بیز ہے۔

          غلام مرتضیٰ راہی نئی غزل کے  اہم شاعر ہیں۔ جدیدیت اپنے  آپ میں  ایک انقلاب تھی جس کی خوشبو آج تک تمام بساط ادب پر پھیلی ہوئی ہے  لیکن جدید غزل قدیم رنگ سخن کی کوکھ سے  ہی برآمد ہوئی ہے۔ اس لئے  نئی غزل کے  مطالعہ سے  پہلے  ہمیں  قدیم رنگ سخن کو دیکھنا ہو گا ان تمام ادوار کا مطالعہ کرنا ہو گا جہاں  اس رنگ سخن نے  ایجادات کے  نئے  رنگ بوٹے  کھلائے  ہیں  اس لئے  راہی کی غزل کے  مطالعہ میں  لازم یہ ہے  کہ متقدمین، متوسطین اور متاخرین کے  رنگ سخن کو بھی دیکھا جائے  کہ کس طرح راہی کی غزل کا رشتہ اردو غزل کی روایت سے  ہم آہنگ ہوا ہے۔ اس سلسلے  میں  جناب شمس الرحمن فاروقی کا خیال ہے  :

          ’’قدیم کو جانے  بغیر جدید پنپ نہیں  سکتا۔ قدیم سے  انحراف کرنے  اور جدید کو قائم کرنے  کے  لئے  بھی قدیم کو جاننا ضروری ہے  ورنہ ہمیں کیسے  معلوم ہو گا کہ ہمیں  کس بات سے  انحراف کرنا ہے  اور کس حد تک انحراف کرنا ہے۔ ‘‘

          یہ سب کچھ تاریخ کے  حوالے  سے  ابھرتا ہے  جو آج قدیم ہے  کبھی جدید رہا ہو گاجو آج جدید ہے  کبھی قدیم ہو جائے  گا یہی قانون فطرت ہے  کہ آ رہی ہے  دما دم صدائے  کن فیکون۔

          ایک لمحہ وقت کے  صلب سے  جست بھر کر تاریخ کے  بطن میں  داخل ہوتا ہے  حالانکہ یہ ایک زنداں سے  نکل کر دوسرے  میں  اسیرہو جانے  کا  عمل ہے  لیکن تاریخ کے  بطن سے  باہر آتے  ہی وہ ایک نہال سبزبنتا ہے  جس کی چھاؤں  شاداب و جاوداں ہوتی ہے۔

          جیساکہ ہم جانتے  ہیں  کہ ہماری اردو غزل اپنے  ڈھانچے  اپنے  تار و پود میں  فارسی غزل سے  نکل کر آئی ہے۔ وہی تاب و توانائی وہی تنویر وہی ہفت رنگ تصویریں  اس نگار خانے  میں  بھی نظر آتی ہیں۔ اسی لئے  وہ خواہ کوئی بھی کروٹ بدلے  خواہ کسی بھی جہان کی سیرکونکلے  خواہ کوئی پیرہن اختیار کرے  خواہ کسی بھی اسلوب کو برتے  وہ اپنی بنیاد سے  الگ نہیں  ہو سکتی۔ اس سلسلہ میں  تمام مضامین خواہ وہ کرب کے  ہوں  نشاط کے  ہوں  ان پرفارسی سخن گوئی حکومت کرتی رہی۔ اس شکل میں  نئی غزل نے  بھی اسی آب و تاب کو برقرار رکھا اور نئی غزل کے  ہراول دستے  میں جو لوگ شامل تھے  ان کے  یہاں  اثرات اسی انداز سے   نموپذیر ہوئے۔ میں  یہاں  متقدمین اور متوسطین کے  کچھ اشعار نقل کروں گا پھر متاخرین کے  یہاں  بھی دیکھوں گا کہ رنگ سخن کس انداز سے  تبدیل ہوا ہے  اور اس نے  کیا پیرہن اختیار کیا ہے  لیکن ان سب سے  پہلے  ان شعرائے  فارسی کے  اشعار پیش کروں گا جو دراصل اردو غزل کی بنیاد تھے، آج بھی ہیں  اور کل بھی رہیں گے۔

حمائل کر د شیریں  دست خود در گردن خسرو

مگر میل حنابستن بخون کوہکن دارد 

                           غنی کاشمیریؔ

ناخن تمام گشت معطر چوں  بوئے  گل

بند قبائے  کیست کہ وامی کنیم ما

                           آنند رام مخلصؔ

تاک را سرسبز کن اے  ابرنیسانِ بہار

قطرہ تامے  می تواند شد چرا گوہر شود

                   رضی دانش

از بال و پر غبار تمنا فشاندہ ایم

تا برگ گل گراں  نہ شود آشیانِ ما

صائب

اختلاط شبنم و خورشید تاباں  دیدہ ام

جرأتے  باید کہ عرض شوق دیدارش کنم

غالبؔ

آں  نہ روئے  ست کہ من وصف جمالش دانم

ایں  حدیث از دگرے  پرس کہ من حیرانم

سعدیؔ

          اس طرح کی تاریخ ساز فارسی غزلوں نے  بھی اور اشعار نے  بھی اردو غزل کو بے  انتہا کس بل عطا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ وہ پورے  شکوہ و شان کے  ساتھ یوں   نمودار ہوئی :

 

چشم خوں  بستہ سے  کل رات لہو پھر ٹپکا

ہم توسمجھے  تھے  کہ اے  میرؔ یہ آزار گیا

میرؔ

گل غنچگی میں  غرقۂ دریائے  رنگ ہے

اے  آگہی فریب تماشا کہاں  نہیں

غالبؔ

سرخوشی ممکن نہیں  جب تک نہ چھلکے  جامِ عمر

یہ خراباتِ جہانِ خاک اک میخانہ ہے 

   ناسخ

تری اسیری میں  غم ہے  اگر تو اتنا ہے

کہ پہلے  کیوں  نہ میں  قید فراغ سے  نکلا

   قائم

اس کے  بدن سے  رنگ ٹپکتا نہیں  تو پھر

لبریز آب و رنگ سے  ہے  پیرہن تمام

  مصحفی

          صدیوں تک اس رنگ سخن کے  بعد کہ جس میں  ان زمانوں کی تہذیبی پرچھائیاں  بھی موجود ہیں  غزل رفتہ رفتہ کروٹ بدلتی ہوئی نظر آئی۔ صاف ظاہر ہوا کہ غزل ہر عہد میں  تہذیبی وسماجی اقدار کی کسی نہ کسی طرح پابند رہی لیکن اس کی لفظیات میں  معنی کی نئی تہیں  کھلتی اور اجاگر ہوتی رہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب غزل ایک خاص رنگ سخن میں  محدود تھی۔ شاعر نے  دیگر مضامین کے  لئے  جن میں  شکوۂ گردش روزگار وغیرہ جیسی چیزیں ہوا کرتی تھیں  شہر آشوب جیسی اصناف سخن کا سہارا لے  رکھا تھا لیکن بعد میں  صورت حال یہ نہیں  رہی خاص طور پرمتوسطین کے  یہاں  رنگ سخن میں  بے  حد تبدیلیاں نظر آئیں  جہاں  غزل کا وہ شکوہ بھی ہے  جو اس کا  طرۂ امتیاز بھی ہے  لیکن اس کے  علاوہ عصری کرب بھی ہے۔ اس سلسلے  میں کچھ اشعار جواس غزل کی کیفیت کو نمایاں کرنے  کے  لئے  ہیں  پیش کئے  جاتے  ہیں :

کیوں  سمٹ کر بیٹھئے  گوشے  میں  سائے  کی طرح

دھوپ بن کر پھیل جانے  کا  زمانہ آ گیا

سیمابؔ

          اور یہ دھوپ کچھ اس طرح پھیلی کہ تمام شعری افق نئے  رنگوں میں  نہا گیا۔ یہ رنگ بے  حد بسیط ہوتے  چلے  گئے  اور یہی وہ رنگ تھے  جن کی جڑوں سے  نئی غزل کے  رنگ بھی  نمودار ہوئے  لیکن اسی رنگ سخن میں یہ اشعار بھی قابل ملاحظہ ہیں :

کچھ سمجھ کر میں  ہوا ہوں  موج دریا کا  حریف

ورنہ میں  بھی جانتا ہوں  عافیت ساحل میں  ہے

  وحشت کلکتوی

ساقی وہ جام تیز عطا ہو مجھے  کہ آج

حل کر کے  پی لوں  گردشِ شام و سحر کو میں

مجروح

دورِ چمن ہے  کیسا اے  گردش زمانہ

پھولوں میں  زندگی ہے  کا نٹوں  میں  آشیانہ

کوثرجائسی

راہِ فنا میں جاتے  ہیں  بیباک سرکے  بل

دیکھے  نہیں ہیں پاؤں کسی نے  حباب کے

سیماب

          فارسی روایت سے  اکتساب واستفادہ کرتی ہوئی میر و غالب، داغ، سیماب، اقبال کے  فکری جہانوں سے  گزرتی ہوئی غزل بیسویں  صدی کے  وسط میں  اس نقطے  پر پہنچی جسے  نقطۂ منتہا تو نہیں کہاجا سکتا (کیونکہ غزل کا کوئی نقطۂ منتہا ہے  ہی نہیں ) لیکن ہاں  یہ کہاجا سکتا ہے  کہ اس کے  خدوخال میں  نئے  زمانوں کی تپش تھی اور اس کے  ساغر سے  نئے  نئے  رنگ چھلک رہے  تھے۔ انہیں  دنوں  ایک شاعر نے  یہ شعر بھی کہا :

فضائے  شعر و ادب پہ چھائے  ہوئے  ہیں  مایوسیوں کے  بادل

غزل نکھرنا تو چاہتی ہے  مگر ابھی کچھ جھجھک رہی ہے

          مگرایسانہیں ہوا کہ غزل نکھری نہیں ہوئی تھی یا نکھرنے  میں جھجھک رہی تھی اس کا  ایک عظیم الشان ماضی تھا ایک لامتناہی رہگزار تھی ایک غیر مختتم افق تھا، کبھی نہ ختم ہونے  والا لفظ و معنی، اسالیب و بیان کا سرمایہ تھا اس لئے  اس نے  یہ انداز اختیار کیا۔

 

چھتیں  تھیں  بند دھواں کھل کے  پھیلتاکیسے

ہوا نہ تھی تو اکیلا شرارا کیا کرتا

شمس الرحمن فاروقی

 

سبھی کو غم ہے  سمندرکے  خشک ہونے  کا

کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں  ڈبونے  کا

شہریار

 

آئی تھی اک صدا کہ چلے  آؤ اور میں

صحرا عبور کر گیا شوق فضول میں

وزیر آغا

 

شام ہوتے  ہی کچھ احساس زیاں مجھ کو ہوا

راکھ کے  ڈھیر میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا وہ بھی

     مصورسبزواری

 

ناقۂ حسن کی ہمرکابی کہاں  خلوت ناز میں  باریابی کہاں

ہم کہ اے  بانوئے  کشور دلبری ساربانوں  میں  ہیں  پاسبانوں  میں  ہیں

 عرفان صدیقی

 

میں  راکھ ہو گیا دیوار سنگ تکتے  ہوئے

سنا سوال نہ اس نے  کوئی جواب دیا

       زیب غوری

 

پھٹے  پرانے  دلوں  کی خبر نہیں  لیتا

اگرچہ جانتا ہے  حاجت رفو ہے  بہت

ظفر اقبال

 

قریب قریۂ جاں انتشارکیسا ہے

جو اڑ رہا ہے  لہو میں  غبار کیسا ہے

سلطان اختر

 

اے  گل آوارگی تیری مہک تاروں سے  کھیلے

اے  ندی بہتا رہے  دائم ترا بیدار پانی

بانی

 

سیکھی نہیں  جہاں  سے  شاید جہاں  شناسی

حیران ہے  ابھی تک چشم غزال حیرت

نشتر خانقاہی

 

اک جھرجھری سی دور تلک لی زمین نے

بچے  نے  شاخ گل سے  بندھا بم اٹھا لیا

مظفر حنفی

 

میں  وہی دشت ہمیشہ کا  ترسنے  والا

تو مگر کون سا بادل ہے  برسنے  والا

ساقی فاروقی

 

سرد پتھر جانفزا ملبوس میں  لپٹے  ہوئے

ہائے  وہ دنیا جہاں چہرے  نہ تھے  اور غازہ تھا

شہزاد احمد

 

نہ اجتناب نہ بیگانگی نہ رم نہ گریز

سپردگی کا یہ عالم تمہیں ہوا کیا ہے

شکیل رضا

 

یہ نشانہ بھی خطا جاتا تو بہتر ہوتا

آخری تیر نہ لگتا تو میں  پتھر ہوتا

عبداللہ کمال

 

اس پرندے  سے  معانی ہجرتوں  کے  پوچھئے

کا نپتی ٹہنی پہ جس نے  آشیاں  رہنے  دیا

آزاد گلاٹی

 

کسی حسین کو دیکھا خدا کو یاد کیا

کسی گناہ کا  دل میں  کہاں  خیال آیا

  اسعدبدایونی

 

          غلام مرتضیٰ راہی جونئی غزل کے  شہسوا رہیں  ان کی فکر صرف اپنے  عہدسے  ہی مکالمہ نہیں کرتی بلکہ اس تقویم میں  عصر رواں کے  سوادیگرزمانے  بھی ہیں۔ ان زمانوں کی تشریح و تعبیر اور خدوخال ابھارنے  میں  ان کی غزل نے  ایک نیا کردار ادا کیا ہے۔ وہ شاہراہیں  جن پر نقوش قدم کی ایک فصل آباد ہے  ان کے  سینوں سے  گزرتی ہوئی ان شاہراہوں کو بھی تلاش کرتی ہے  جو ابھی ناآفریدہ ہیں جہاں  نقوش قدم کا سرمایہ نہیں ہے  جہاں  سنگ میلوں کی تنصیب کا کام باقی ہے۔

 

رہ گیا تشنہ تعمیر صنم خانہ مرا

کبھی آزر کبھی تیشہ کبھی پتھر نہ ملا

 

مجھ پر نہ کوہکن ہوا مامور کس لئے

ہوں  جوئے  شیر پھر بھی ہوں  محصورکس لئے

 

مجھے  سمجھتا ہے  کوتاہ بیں  تو پھر مجھ پر

ہزار پردوں  میں  وہ آشکار کیسے  ہوا

 

سلام کرنے  لگے  سنگ و خشت اٹھ اٹھ کر

کسی گلی سے  گزر جب ہوا دوبارہ مرا

 

ہمارے  نام کی کاریگری نہیں  لیکن

ہمارے  نام کے  پتھر عمارتوں  میں  ہیں

 

ہر شے  پہ اک اچٹتی نظر ڈالتا چلوں

بیکار ہو گا میرا اترنا رکاب سے

 

میں  عندلیب ہوں لیکن الگ نوا ہے  مری

چمن کو خاک نہ کر دے  ’’سخن شرارہ‘‘ مرا

 

          شمس الرحمن فاروقی نے  راہی کے  یہاں  نئے  استعارے  کی خیال بند چمک یعنی تجریدی استعارے  کی بات کہی ہے  کہ تجریدی استعارہ جب گہری بات میں  بدل جائے  تو بیدل اور غالب کے  بلند منارے  نظر آنے  لگتے  ہیں  لیکن خیال بندی کا حسن جس اندازسے  راہی کے  یہاں  آیا ہے  وہ پوری طرح ثابت کرتا ہے  کہ ان کی غزل اس وقت کس مقام پر کھڑی ہے۔ اس طرح اردو غزل کی روایت غلام مرتضیٰ راہی کے  یہاں  آ کربڑی حد تک مکمل ہو جاتی ہے۔

          اردو غزل صدیوں کے  صحرائے  بے  کنار کو عبور کرتی ہوئی یہاں تک پہونچی ہے  اس نے  وہ رنگ روپ اختیار کیا ہے  جیساکہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں  ہے  کہ غزل کا وہ رنگ جوفارسی شعراء خصوصاً بیدل غالب نظیری عرفی سے  مستفاد ہے  اسی رنگ سخن نے  اردو غزل کو اک نئی تابناکی عطا کی ہے  اور راہی جیسے  شاعر کو بھی مسند اختصاص تفویض کی ہے۔ اس سلسلے  میں  یہ شعر دیکھئے :

 

نجانے  قید میں  ہوں  یا حفاظت میں کسی کی

کھنچی ہے  ہر طرف اک چاردیواری سی کوئی

 

سب ایک موڑ تک آئے  مرے  تعاقب میں

پھر اس کے  بعد سمجھنے  لگے  سراب مجھے

 

آپ ہی آپ جھٹک دیتا ہوں  دامن اپنا

اُف مرا خوف نہ جگنو نہ شرارا دیکھوں

 

کیسے  یہ تسخیر کر لیتی ہے  تیری کائنات

ٹھوکریں  کھاتی ہے  آ کر آگہی میرے  یہاں

 

اک آبشار سر کوہسار نکلا ہے

اک ایک سنگ کے  دل کا  غبار نکلا ہے

 

راہیؔ دم وصال وہ اس کی سپردگی

وہ اس کی کائنات مرے  اختیار میں

 

بے  تحاشا جئے  ہم لوگ ہمیں  ہوش نہیں

وقت آرام سے  گزرا کہ پریشانی سے

 

جھانکتے  ہیں  آسمانوں  سے  فرشتے

ایک بچہ ہاتھ میں  شیشہ لئے  ہے

 

دل نے  تمنا کی تھی جس کی برسوں تک

ایسے  زخم کو اچھا کر کے  بیٹھ گئے

 

          ان اشعارسے  غلام مرتضیٰ راہی کے  فکری افق کے  خدوخال نمایاں  ہوتے  ہیں  اور ابھی تو بات شروع ہوئی ہے  ابھی تواس بحر کی تہہ سے  بہت کچھ اچھلے  گا ابھی تو گنبد نیلوفری رنگ بدلے  گا۔ میں اس سلسلے  میں  غلام مرتضیٰ راہی کی فنکارانہ شخصیت کی تشریح کرتے  ہوئے  غالب کا یہ شعر پیش کرناپسندکروں گا:

تو اے  کہ محو سخن گسترانِ پیشینی

مباش منکر غالب کہ در زمانۂ تست

٭٭٭

معاصر جدید غزل گویوں میں راہی کا مقام

معاصر جدید غزل کم و بیش پچاس سال کے  عرصے  پر محیط ہے  اور اس افق پر جن ناموں کی درخشانی و ضیا باری ہے  ان میں سے  کئی اب اس جہانِ فانی سے  رخصت ہو چکے  ہیں  لیکن پچاس سال کا عرصہ یعنی نصف صدی کچھ زیادہ نہیں ہوتی اس لئے  ابھی بہت سے  عرصۂ حیات میں  متحرک اور کامراں بھی ہیں  اور وہ جدید غزل کی بساط پر اپنے  منفرد خدوخال سے  پہچانے  جاتے  ہیں اور ان کے  بغیر جدید غزل کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی اگرچہ بانی زیب غوری مصورسبزواری نشتر خانقاہی عرفان صدیقی جیسے  اہم ترین غزل گو آج موجود نہیں ہیں  لیکن سلطان اختر، شہریار، مدحت الاختر، کرشن کمار طور، غلام مرتضیٰ راہی، مظفر حنفی اور پرکاش فکری جیسے  شہسوارموجودہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جونئی غزل کے  ہراول دستے  میں  تھے۔ بعد میں  اور لوگ بھی آئے  اور کارواں بنتا گیا۔ جدید غزل کا منظرنامہ جیساکہ میں  نے  عرض کیا کہ کم و بیش پچاس برسوں  پر محیط تھا اس کو دو حصوں میں  تقسیم کیا جا سکتا ہے  اور پوری طرح سے  دونسلیں  نظر آتی ہیں۔ پہلی نسل کے  بنیاد گزاروں کا  ذکر سطور بالا میں  ہو چکا  ہے  بعد کی نسل میں  اسعدبدایونی، خورشید عالم، یاور وارثی، اسلم محمود، مصطفے ٰ فرازجیسے  اہم ترین نام ہیں  جن میں  سے  بیشتر ماہنامہ شب خون الہ آباد کے  توسط سے  ہی  نمودار ہوئے  اور پہچانے  گئے۔

          ترقی پسندیت تو پہلے  ہی اپنی نعرہ بازی کی وجہ سے  زوال پذیر ہو چکی تھی۔ جدیدیت کی حریف بن کر ما بعد جدیدیت ابھری، ہزاروں  اتہام جدیدیت پر لگاتی ہوئی کہ اس میں ترسیل کا  المیہ ہے، کہانی میں  کہانی پن نہیں ہے  لیکن کسی کا نعرہ بھی مؤثر نہیں ہوا۔ جدیدیت خود اپنا احتساب کرتی رہی اور بیسویں صدی کے  آخری دنوں میں  جو مناظر سامنے  آئے  جسے  یار لوگوں نے  ما بعد جدیدیت کا نام دیا دراصل وہ جدیدیت ہی تھی جس کی تنقیح و تطہیر کا کام مسلسل جاری تھا شروع میں  ہی کہہ دیا گیا تھا کہ جدیدیت ایک نئے  رنگ میں  علامتی ابعاد کے  ساتھ واپس آئے  گی سو وہی ہوا، جدید شاعری سے  متعلق شمس الرحمن فاروقی کی یہ رائے  قابل ملاحظہ ہے :

          ’’جدید شاعری نے  شاعری یا فن پارے  کے  خود مکتفی اور خود مختار ہونے  کا  دعویٰ کیا اس معنی میں  کہ فن پارہ بنانے  والی وہ چیزیں  ہیں  جواس کے  اندر ہی کوئی خارجی حوالہ چاہے  وہ نظریے  کا  ہو چاہے  سیاسی عقیدے  کا کسی تحریر کو فن پارہ نہیں  بنا سکتا۔ آزادی کے  اس اعلان کو ترقی پسندوں نے  سماجی شعور کے  فقدان اور سماجی معنویت سے  انکار کا نام دے  کر ردّ کرنے  کی کوشش کی۔ حقیقت محض اتنی سی ہے  کہ ہم میں  سے  اکثر کی وابستگی ادب کے  ساتھ سچی اور گہری نہیں ہے  اس لئے  ان لوگوں  کو ایسی شاعری ہمیشہ پریشان کن معلوم ہو گی جو خارج کو داخل کے  آئینے  میں  دیکھنے  کی سعی کرتی ہے  جو اس بات کی فکر نہیں کرتی کہ کلام میں  سماجی آگہی کا ظہور کتنا ہے  اور کیا اس کے  غیاب کو اس کے  ظہور کا نام دے  سکتے  ہیں۔ جواس بات کی فکر کرتی ہے  کہ کلام سچا اور ذاتی اظہار ہے  یا اس پر کسی فارمولے  کی رو سے  تنقید ہو سکتی ہے  ایسی شاعری اپنے  داخلی سرچشموں  کو اپنے  سچ کا  معیار مانتی ہے۔ ‘‘

          شروع میں  نئی غزل میں بھی کچھ ایسی تصویریں   نمودار ہوئی تھیں  جو اسے  پوری طرح سمجھ نہیں  سکی تھیں  لیکن جواس کے  بنیاد گزار تھے  وہ اس مسئلے  کو پوری طرح سمجھتے  تھے  اُن میں  غلام مرتضیٰ راہی کا نام بھی ہے  دلچسپ پہلو یہ ہے  کہ نئی غزل کے  آغاز میں  جو نام سامنے  آئے  تھے  اُن کے  لہجے  ایک دوسرے  سے  نہیں  ملتے  تھے  اور ایک انفرادی شان ہر جگہ موجود تھی۔ بانی، زیب غوری، مصورسبزواری، نشتر خانقاہی، غلام مرتضیٰ راہی سب اپنے  اپنے  لہجے  میں  ممتاز و منفرد تھے  اور ان منفرد لہجوں نے  ہی نئی غزل کو استحکام عطا کیا۔ یہاں  یہ بات کہنا ضروری ہے  کہ ابتدائی لمحوں میں  نمودار ہونے  والے  نئی غزل کے  شعراء نے  ہی جو خشت اول رکھی تھی اس پرساری عمارت تعمیر ہوئی اور ثریا کی رفعتوں  تک یہ دیوار سیدھی صاف ایک خط مستقیم کی طرح اپنی عمودی شان و شوکت کے  ساتھ مینارِ بابل کی طرح بلند ہوتی چلی گئی اور وہ تمام لہجے  اس ساحل بیکراں پر خذف ریزوں  کی طرح پڑے  رہ گئے  جنہیں  لہریں  بہا کر تو لاتی ہیں  لیکن از کار رفتہ اشیا میں  شمار کر کے  انہیں  ہاتھ نہیں  لگاتی ہیں۔ اس سمندرکے  ساحلوں کا  سفرشروع کریں  تو ان گوہروں  کے  رنگوں کا تموج نظر آئے  گا جوا تھاہ میں پڑے  ہیں  لیکن ساحلوں  پر ان کی قوس قزحی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ جس میں  بعد کی نسلوں نے  خود کوسجایاسنوارا اس طرح بیسویں  صدی کا نصف اول ختم ہوتے  ہی نئی غزل نے  جوشہسوارپیداکئے  ان میں  غلام مرتضیٰ راہی کا  نام اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹرسراج اجملی نے  اپنی تحریر میں  ان لوگوں کا نام بھی لیا ہے  جو راہی سے  کچھ پہلے  ہوئے  ہیں  اور جن کے  یہاں  روایت کی دریافت نو کا عمل ہے۔

          ’’ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی، ابن انشاء، شکیب جلالی وغیرہ کے  یہاں  روایت کی دریافت نو کا عمل جس طرح تخلیقی مزاج کا حصہ بنا ہے  اور اس نے  جدید شاعری کے  بنیاد گزاروں کو جس طرح متمول کیا ہے  وہ ہماری تاریخ ادب کا  نہایت درخشاں  باب ہے۔ راہی نے  بھی انحراف کے  بجائے  انجذاب کو اپنایا اور اپنے  پیش روؤں  کے  راستے  پر چلتے  ہوئے  ہی اپناسفر جاری رکھا۔ ان کے  جذبۂ تخلیق اظہار کی برملا صلاحیت اور حسن بیان نے  انہیں  توانا کیا اور جدید شعراء کی صف میں  ایک نمایاں  مقام عطا کیا۔ ‘‘

          اس تحریر سے  صاف ظاہر ہے  کہ جدید غزل میں  غلام مرتضیٰ راہی کا کیا مقام ہے  اور وہ کس مرتبے  پر فائز ہیں۔ لازم ہے  کہ راہی کی غزل کے  حوالے  سے  جن اساطین ادب کا نام لیا گیا ہے  ان کے  اشعار کی مثالیں  دی جائیں  ان کے  تناظر میں  بات ہو لیکن ایک بات جو گذشتہ برسوں میں  بار بارسامنے  آئی ہے  اس پر اظہار خیال کرنا ضروری ہے۔ ان کی غزل پر بہت لکھا گیا ہے  ان کی غزل پر مشاہیر ادب کی آراء ہیں  لیکن ان میں  ایسے  بھی ہیں  جونئی غزل کی تاریخ سے  قطعی واقف نہیں  ہیں  انہوں نے  راہی جیسے  نئی غزل کے  شہسوارکا نام بشیر بدر اور نامی انصاری جیسے  لوگوں  سے  جوڑ دیا ہے  ظاہر ہے  بشیر بدر ایک کاروباری شاعر ہے، مشاعرے  میں  پیسہ کمانے  کے  لئے  ایک مداری کا  کردار ادا کرنے  والا۔ نامی انصاری ترقی پسند شاعر ہیں جن کا نئی غزل سے  کوئی رشتہ ناطہ نہیں۔ ان باتوں  کی وضاحت ضروری ہے  کہ تجزیہ و تبصرہ میں  اس بات کا  خاص خیال رکھا جائے  کہ جوجس منصب پر فائز ہے  اسی سطح سے  بات کی جائے۔ مجھے  ادب کا مطالعہ کرتے  ہوئے  کم و بیش پچاس سال گزر چکے  ہیں  میں نے  وہ دن بھی دیکھے  ہیں جب جدید ادب کا سورج طلوع ہوا تھا وہ دن بھی دیکھے  ہیں  اس کے  ہراول دستے  میں کون کون لوگ تھے۔ جس کے  عظیم الشان پرچم تلے  ایک نسل نے  سفرشروع کیا تھا وہ اپنے  پیش روؤں  خصوصاً ترقی پسندوں کی نفی کرتی ہوئی بڑھ رہی تھی۔ میں نے  جدید غزل پر طعن و تعریض کا غوغا بھی دیکھا، الزامات و اتہامات کا منظر بھی دیکھا۔ میں  جانتا ہوں  کہ اس وقت کون کہاں  تھا۔ اس لئے  اس طرح کی باتیں  کرنا محض  کار فضول ہے  جو حقیقت سے  پرے  ہوں۔ راہی نئی غزل کے  بنیاد گزاروں  میں ہیں  اور اس قطار میں  ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی، ابن انشاء، شکیب جلالی کے  بعد جو نام آتے  ہیں  ان کے  اشعار پیش کرنے  کی جسارت کر رہا ہوں لیکن اس سے  پہلے  میں  ان چار اہم شاعروں  کا   نمونۂ کلام بھی پیش کروں گا جوبیسویں صدی کا نصف اول ختم ہونے  سے  پہلے  ہی اپنے  لہجے  سے  پہچانے  جانے  لگے  تھے۔ گویا اپنا مقام نئی غزل میں  بنا چکے  تھے  ایک قصر نو کی طرح ڈال چکے  تھے  یہ وہی تھے  جن کا ذکر میں نے  ابھی ابھی سطوربالامیں  کیا ہے۔

اس پر بھی دشمنوں  کا  کہیں  سایہ پڑ گیا

غم سا پرانا دوست بھی آخر بچھڑ گیا

 

غیروں  نے  مجھ کو دفن کیا شاہراہ پر

میں کیوں نہ اپنی خاک میں  غیرت سے  گڑ گیا

خلیل الرحمن اعظمی

 

ہم بھی وہاں  موجود تھے  ہم سے  بھی سب پوچھا کئے

ہم ہنس دئیے  ہم چپ رہے  منظور تھا پردہ ترا

 

کوچے  کو تیرے  چھوڑ کر جو گی تو بن جائیں  مگر

بستی تری صحرا ترا جنگل ترا دریا ترا

ابن انشاء

 

تو نے  بنجر زمیں  کو پھول دئیے

مجھ کو اک زخمِ دلکشا ہی دے

 

چاند نکلا تو ہم نے  وحشت میں

جس کو دیکھا اُسی کو چوم لیا

ناصر کاظمی

مری گرفت میں  آ کر نکل گئی تتلی

پروں  کے  رنگ مگر رہ گئے  ہیں  چٹکی میں

 

کہیں  جو بن نہ سکی وہ کلی کی تربت تھی

کوئی جو سن نہ سکا  وہ ہوا کا  نوحہ تھا

 شکیب جلالی

         

یہ وہ شعراء تھے  جنہوں نے  ترقی پسندیت سے  بغاوت کی۔ فرد کے  نہاں  خانوں میں  چھپے  ہوئے  کرب کو تلاش کیا اور اس کا  اظہار کیا کیونکہ بہت سی چیزوں کو اجتماعی طور پر بیان نہیں  کیا جا سکتا۔ یہ وہ درد ہے  جو قطرہ قطرہ اپنے  وجود کے  زنداں  میں  ٹپکتا ہے۔ ان شعراء کے  فوراً ہی بعد وہ شہسوار اُبھرے  اور انہیں  میں غلام مرتضیٰ راہی بھی تھے۔ یہ اشعار دیکھئے  :

کیا دلخراش کام ہوا ہے  مرے  سپرد

اک زرد رُت کے  برگ و ثمر چن رہا ہوں میں

 

اے  گل آوارگی تیری مہک تاروں سے  کھیلے

اے  ندی بہتا رہے  دائم ترا بیدار پانی

 

عجیب تجربہ تھا بھیڑسے  گزرنے  کا

مجھے  بہانہ ملا اس سے  بات کرنے  کا

 

سیاہ خانۂ امید رائیگاں  سے  نکل

کھُلی فضا میں  کبھی آ غبارِ جاں  سے  نکل

 

پرندے  پہلی اڑانوں کے  بعد لوٹ آئے 

چمک اٹھا کوئی احساس رائیگانی کا

بانی

 

میں  راکھ ہو گیا دیوارِ سنگ تکتے  ہوئے

سنا سوال نہ اس نے  کوئی جواب دیا

 

رات کے   ہاتھ میں  تھا گوہر یک دانہ کوئی

چاند تاریک سمندر میں  گرا آہستہ

 

یہ ڈوبتی ہوئی کیا شے  ہے  تیری آنکھوں میں

ترے  لبوں  پہ جو روشن ہے  اس کا  نام ہے  کیا

 

کبھی کبھی تو مکمل بنا کوئی تصویر

کہ زیب کچھ تو رہے  ذہن نارساکے  لئے

 

یہ ماہتاب ترے  رنگ سے  قریب سہی

کہاں سے  لائے  گا خوشبو ترے  بدن کی طرح

زیب غوری

 

شام ہوتے  ہی کچھ احساس زیاں مجھ کو ہوا

رات کے  ڈھیر میں  کچھ ڈھونڈ رہا تھا وہ بھی

یہ فیصلہ کریں  بنجر سماعتیں  مل کر

کہ نا شنیدہ صدا کو کہاں  پہ بونا ہے

 

سکوت آب سے  ڈر کر جو ماری چیخ اُس نے

تو اک کٹا ہوا دریا سے  سر نکل آیا

 

ذرا سی دیر میں  آسیب سامنے  ہو گا

کواڑ ٹوٹ چکے  ہیں  ہوا سے  لڑتے  ہوئے 

 

طعنہ گندے  عشق کا  سن کر وہ پہلے  چپ رہا

پھر اٹھا اور برہنہ تلوار پر چلنے  لگا

مصورسبزواری

 

دھوپ کے  قہر کا  ڈر ہے  تو دیارِ شب میں

سربرہنہ کوئی پرچھائیں  نکلتی کیوں  ہے

 

کوئی صورت ہو کہ پھر آگ رگ و پے  میں بہے

راکھ بننے  کو بکھر جانے  کو جی چاہتا ہے

 

میری مٹھی نے  رہا کر دیا صحراؤں  کو

ورنہ آوازِ جرس ساتھ میں  کیا لے  جاتی

 

سبھی کو غم ہے  سمندر کے  خشک ہونے  کا

کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں  ڈبونے  کا

 

میں  اپنے  جسم کی سرگوشیوں  کو سنتا ہوں

ترے  وصال کی ساعت نکلتی جاتی ہے

شہریار

 

تشنگی ڈھونڈ رہی ہے  ہمیں  صحرا صحرا

اور ہم ہیں  کہ لب آبِ رواں  بیٹھے  ہیں

 

غبار ختم ہوا روشنی سی بھر گئی ہے

کسی کے  نقش قدم سے  زمیں  سنور گئی ہے

 

بہت دنوں  میں  ہوئی ہے  رگِ گلو روشن

سناں  کی نوک پہ ہو جائے  پھر لہو روشن

سلطان اختر

 

وہ چاہے  جامۂ سرمد ہو یا سر منصور

اگر اناسے  ہے  نسبت تو لازوال ہے  خاک

 

چلو جہاں  پہ تو چمکی اس آفتاب کی لَو

ہمارے  دل میں  نہ روشن ہوئی کہیں  تو ہوئی

 

نہ خاکِ عالم بو اور نہ خیمۂ خوشبو

اک اس کی روشنی ہے  آئینے  میں  میں  اور تو

 

یہ ایک لمحۂ فانی ہماری ذات سے  ہے

ہمارے  خون سے  ہے  سینۂ حنا روشن

کرشن کمار طور

 

زمین گھومتی رہتی ہے  اپنے  محور پر

میں  بن چکا  ہوں  مجھے  چاک سے  اتارا جائے

 

چلے  چلو کہ خبر گرم ہے  ہواؤں  نے

حلف اٹھایا ہے  بازو ہمارے  توڑنے  کا

 

اک جھرجھری سی دور تلک لی زمین نے

بچّے  نے  شاخِ گل سے  بندھا بم اٹھا لیا

 

فنا کی چاردیواری یہاں  بھی ہے  وہاں بھی ہے

مکینوں کے  لئے  آسیب کس گھر میں نہیں  رہتا

 

اور پھر آخری درویش کی باری آئی

باغِ افسانہ میں  ندرت کی سواری آئی

مظفر حنفی

میں  ایک قطرۂ شبنم ہوں  دامنِ گل پر

اٹھائے  سیکڑوں  نیزوں  پہ آفتاب مجھے

 

دنیا بہت بری ہے  مگر بے  ہنر نہیں

ظالم نے  جو فریب دیا خوشنما دیا

 

مجھے  تمہارے  سوا کوئی چھو نہیں  سکتا

کہ میری روح تمہارے  بدن میں  رہتی ہے

 

میری خطا یہ تھی کہ جدا دوسروں  سے  تھا

اس واسطے  حنوط مجھے  کر دیا گیا

 

ہنر دیا بھی نہیں  لے  لیا انگوٹھا بھی

بڑے  کمال کی فنکار ہے  یہ دنیا بھی

مدحت الاختر

 

یہ دل یہ شہر خموشاں  مزار یادوں  کے

حنوط کی ہوئی لاشیں  دبی ہوئی ہیں  یہاں

 

ہیں  کس کے  تعلق سے  مری آنکھ میں  آنسو

مٹھی میں صدف کی یہ گہر کس کے  لئے  ہے

 

جھپکی نہ میری آنکھ نہ ویراں گگن ہوا

پچھلے  پہر کے  چاند سے  کیا کیا سخن ہوا

 

کچھ ایسا بود و باش کا  انداز تھا کہ ہم

تھے، پر کسی کو بے  سر و ساماں  نہیں  لگے

 

کوئی ہو گوہر یکتا تو سامنے  لاؤ

تمہارے  پاس ہماری مثال میں  کچھ ہے

نشتر خانقاہی

 

بہتی ندی کی موج نے  چپکے  سے  یہ کہا

نادان ایک خبط ہے  یہ لذتوں  کی پیاس

 

بشکل عمر ملی بھیک جس سے  لمحوں  کی

وہ وقت میرے  لئے  بے  کنار کیسے  ہوا

 

بہت ہی سرد ہے  ابکے  دیارِ شوق کا  موسم

چلو گزرے  دنوں کی راکھ میں  چنگاریاں ڈھونڈیں

 

ہنستی گاتی سب تصویریں  ساکت اور مبہوت ہوئیں

لگتا ہے  اب شہر ہی سارا ایک پرانے  البم سا

تھک کر ہوا تو کب کی خاموش ہو چکی ہے

اک برگ خشک لیکن رہ رہ کے  کانپتا ہے

پرکاش فکری

 

فضا میں  دور تک اڑتے  ہوئے  پرندے  ہیں

چھپا ہوا میں  کہیں  ان کے  بال و پر میں ہوں

 

اُدھر اُس پار کیا ہے  یہ کبھی سوچانہیں  میں نے

مگر میں  روز کھڑکی سے  سمندر دیکھ لیتا ہوں

 

یہ کون جھانکتا ہے  کواڑوں  کی اوٹ سے

بتی بجھا کے  دیکھ سویرا نہ ہو کہیں

 

اک ڈور سی ہے  دن کی مہینوں  کی سال کی

اس میں  کہیں  پہ ہم بھی پروئے  ہوئے  سے  ہیں

 

یہ سوچ ہی رکا  تھا کہ تو پکارے  گا

خبر نہ تھی کہ کھنڈر چار سو پکارے  گا

محمد علوی

          یہ جدید شعراء جن کے  اشعار میں نے  پیش کئے  یہ سب نئی غزل کے  ہراول دستے  کے  سپاہی ہیں  اور انہیں  میں  راہی بھی ہیں  جن کے  لئے  اکثر میں  بابا فغانی کا یہ شعر پڑھا کرتا ہوں  :

یک چراغ است دریں  خانہ کہ از پرتو آں

ہر کجا  می نگرم انجمنے  ساختہ اند

لیکن اس سے  پہلے  کہ میں  مذکورہ بالا شعرا کے  تقابل میں  راہی کے  اشعار پیش کروں  یا پھر اس انفرادی لہجے  سے  متعلق کچھ کلام کروں  جو انہوں نے  نئی غزل سے  تراشا ہے  جس کے  تیشۂ ہنر کے  لمس کے  لئے  وقت کی چٹانوں میں  ہزاروں اصنام اپنے  خدوخال کی نمائش کے  لئے  بے  قرار ہیں  جہاں  الفاظ کے  شریانوں میں  بے  شمار چراغ روشن ہیں  جن کامقدس دھواں  مشامِ جاں کو معطر کر رہا ہے  ان تمام باتوں سے  پہلے  کہ میں  نئی غزل کے  حوالے  سے  میں کچھ اور بھی کہنا چاہوں کہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان سے  قبل جب ترقی پسند تحریک نے  اس برصغیر میں سراٹھایا تواس کے  متوازی ہی ایک اور ادارہ افق ادب پر طلوع ہوا یعنی حلقۂ اربابِ ذوق، اس ادارے  نے  ایسے  شاعروں کو پیدا کیا جو آگے  چل کر نئی غزل کے  بنیاد گزاروں میں  شامل ہوئے۔ میں نے  گذشتہ صفحات میں  ناصر کاظمی، شکیب جلالی، ابن انشا کا ذکر بھی کیا ہے۔ میں اس لئے  اس منظر نامے  کواس سے  الگ کر کے  نہیں  دیکھ سکتا کہ سرحدیں  بنا دی گئیں  یہ تو ایک سیاست کا  عیارانہ کھیل تھا لیکن سرحد کے  اُس پار شاعری کے  چمنستان میں  برگ و بار کیا تھے  اُس پار پھولوں کی نکہت و بہار کیا تھی اس کا  اثر اس طرف کیسے  آیا اور کس طرح ۱۹۶۰ء کے  قریب جدیدیت  نمودار ہوئی اور پھر پورے  برصغیر پر اثر انداز ہوئی۔ اس میں  ماہنامہ شب خون کا  اہم کردار ہے  جو ۱۹۶۶ء میں  جناب شمس الرحمن فاروقی کے  زیر ترتیب و تہذیب الہ آباد سے  جاری ہوا۔ اس طرح شعرا کی موجودہ نسل نے  یہ جانا کہ سرحد پار ظفر اقبال، شہزاد احمد، وزیر آغا، اطہر نفیس، منیر نیازی جیسے  شاعر موجود ہیں اور سلیم احمد، حسن عسکری جیسے  ناقد بھی ہیں۔ یہاں  دو نکتے  اور ابھر کر سامنے  آتے  ہیں  کہ ترقی پسند تحریک نے  ادھر بھی شاعروں  اور ادیبوں کو متاثر کرنے  کی کوشش کی تھی مگر یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں  چل سکا  شاید اس زمانے  میں  سیاسی طور پر برصغیر کے  ان دو ملکوں  یعنی ہند و پاک پر دو بڑی طاقتوں کا  اثر تھا، سو ویت روس اور امریکہ ظاہر ہے  کہ ترقی پسند تحریک کو غذا تو سو ویت روس سے  ہی ملتی تھی دوسری بات یہ بھی ہے  کہ حسن عسکری جیسے  نابغۂ روزگار نے  پاکستان میں  بود و باش اختیار کی۔  اس طرح تنقید میں  ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ اسکول کے  فروغ کا منظر بھی سامنے  آیا گویا ایک نیا مکتب فکر ادب میں  پیدا ہوا جس نے  اہم ترین ادبی شخصیات کی ذہنی تربیت اور پرورش کی لیکن کچھ ہی دنوں  بعد حلقۂ اربابِ ذوق کے  زیر اثر تخلیق ہونے  والا ادب پورے  برصغیر پر حاوی ہو گیا اور ترقی پسند تحریک رفتہ رفتہ حاشیے  پر چلی گئی سو آج بھی ہے  حالانکہ جدیدیت کے  مقابلے  میں  ما بعد جدیدیت کو لانے  کی کوشش کی گئی مگر وہ نہیں  چل سکی وجہ اس کی صاف ظاہر ہے  کہ جسے  ما بعد جدیدیت کہا گیا وہ اصل میں  جدیدیت ہی تھی۔ آخر جدیدیت نے  جو رنگ و روپ اختیار کیا تھا روز اول سے  اسی سرزمین سے  پھر اسی طرح کے  نخل ثمر دار کو باہر  نکالنا  تھا تا کہ وہ اس وقت کی نسل کو اپنا شاداب اور گھنا سایہ فراہم کر سکے۔ پاکستان کے  ادیب شہیر نذر الحسن کی یہ تحریر قابل ملاحظہ ہے :

          ’’تقسیم کے  بعد پاکستان میں  بھی دلّی اور لکھنؤ اسکول کی طرح دو اسکول بن گئے  یعنی لاہور اسکول اور کراچی اسکول۔ لاہور والوں نے  ہیئت اور فن کے  نو ع بہ نوع تجربے  کئے۔ جدید حالات و افکار کو بھی اپنایا مگر بیشتر اپنی روایت سے  رشتہ توڑ بیٹھے  سوائے  حلقۂ ارباب ذوق والوں کے  جنہوں نے  ہر قسم کے  جدید تجربات کے  باوجود روایت سے  کسی نہ کسی نوع پر رشتہ برقرار رکھا۔ کراچی اسکول کے  لئے  روایت سے  رشتہ توڑنا ان کے  مزاج اور بس کی بات نہیں  تھی پھر ہجرت کے  کرب اور دوسرے  المیوں  اور تلخ تجربات نے  کراچی کے  شاعروں کے  احساسات میں  یک گونہ تلخی اور تلاطم پیدا کر دیا تھا جو اس دور کے  کراچی کے  تمام جدید غزل گو شعرا سلیم احمد، اطہر نفیس، فرید جاوید، رسا چغتائی اور محشر بدایونی کے  اشعار میں نظر آتا ہے۔ ‘‘

          نذرالحسن صدیقی کی اس رائے  میں  ہرچند کہ لاہور اور کراچی اسکول کا  فرق نظر آتا ہے  لیکن یہ سچ ہے  کہ جدید غزل دونوں  اسکولوں میں اپنے  اپنے  طور پر پھل پھول رہی تھی۔ سرحد کے  اس طرف یعنی ہندوستان میں  ترقی پسند تحریک کی آواز میں  آواز ملانے  والے  کم ہوتے  جا رہے  تھے  یا یوں  کہئے  کہ خال خال تھے۔ یہاں  اس بات سے  انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کراچی اسکول میں  چونکہ مہاجروں کی کثرت تھی اس لئے  انہیں  لاہور اسکول پنجابی نژاد ادیب کمتر سمجھتے  تھے۔

           لیکن جیسا کہ میں نے  عرض کیا کہ بیسویں  صدی کا نصف اول ختم ہوتے  ہی چھٹی دہائی میں  اس طرح کی تخلیقات اس طرف آنے  لگیں، افکار و خیالات کا عام طور پر چرچا اور شہرہ ہوا، اس میں  کراچی یا لاہور کی کوئی قید نہیں تھی، یہ کام شب خون نے  کیا جس میں  شائع ہونے  والے  ظفر اقبال، منیر نیازی، وزیر آغا، شہزاد احمد، مجید امجد بھی تھے  اور اطہر نفیس، ساقی فاروقی، احمد مشتاق، سلیم احمد اور احمد ہمیش بھی تھے۔ اس طرح جدیدیت کے  پرچم بردار تھیوری ساز نابغہ روزگار ناقد جناب شمس الرحمن فاروقی کے  زیر تربیت ایک ایسی نسل سامنے  آئی جو دہلی لکھنؤ کراچی لاہور  اسکولوں کا مشترکہ ورثہ تھی اور ان کی نمائندگی کرتی تھی۔ میں نے  کچھ ہی پہلے  ان تمام شاعروں کا ذکر کیا ہے   نمونۃ ً چند اشعار کراچی اور لاہور اسکول کے  شعراء کے  بھی پیش کرتا ہوں :

آئی تھی اک صدا کہ چلے  آؤ اور میں

صحرا عبور کر گیا شوقِ فضول میں

دن ڈھل چکا  تھا اور پرندہ سفر میں  تھا

سارا لہو بدن کا  رواں  مشت پر میں  تھا

وزیر آغا

ذہن کے  تاریک گوشے  سے  اٹھی تھی اک صدا

میں نے  پوچھا کون ہے  اس نے  کہا کوئی نہیں

 

میں  کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر

کانپ اٹھا ہوں  گلی کوچوں  میں  پانی دیکھ کر

شہزاد احمد

 

ظفر اک مشعل مہتاب گزری تھی کبھی دل سے

یہ شمع شعر میں نے  اس کے  شعلے  سے  فروزاں کی

 

کاغذ کے  پھول سر پہ سجا کر چلی حیات

نکلی برونِ شہر تو بارش نے  آ لیا

ظفر اقبال

 

پلٹ پڑا ہوں  شعاعوں  کے  چیتھڑے  اوڑھے

نشیب زینۂ ایام پر عصا رکھتا

 

میں  روز ادھر سے  گزرتا ہوں  کون دیکھتا ہے

میں  جب ادھر سے  نہ گزروں  گا کون دیکھے  گا

مجید امجد

 

اُس کی ہر موج سے  نوحوں  کی صدا آتی ہے

کن خرابوں  سے  گزر کر یہ ہوا آتی ہے

 

تم آؤ تو دکھاؤں  بے  درد بارشوں  نے

ڈالی ہیں  جو لکیریں  لوحِ جبینِ دل پر

احمد مشتاق

 خود اس کے  ہی اندر سے  ابھرتا ہے  وہ موسم

جو رنگ بچھا دیتا ہے  تتلی کے  پروں  پر

اطہر نفیس

دیوارِ ہجر پر تھے  کئی صاحبوں  کے  نام

یہ بستیِ فراق بھی شہرت سرا ملی

ساقی فاروقی

صحن کو چمکا  گئی بیلوں  کو گیلا کر گئی

رات کی بارش فلک کو اور نیلا کر گئی

منیر نیازی

          اس طرح ۱۹۷۰ء تک نئی غزل کے  شہسواروں کی ایک فہرست دونوں  ملکوں  میں  تیار ہو گئی۔ یہی نہیں  بلکہ دونوں  ملکوں کے  جرائد و رسائل میں ان کا  کلام بھی شائع ہوا، دونوں  ملکوں  کے  ادیب و شاعر ایک دوسرے  سے  باقاعدہ طور پر واقف ہوئے۔ یہ سلسلہ صرف غزل تک محدود نہیں  تھا دیگر اصنافِ سخن نظم، افسانہ، تنقید، ناول سبھی نے  جدیدیت کی راہ اختیار کی اور فضا یکسر بدل گئی۔ یوں  دیکھا جائے  تو بیسویں  صدی کے  نصف اول کے  بعد جواس قبیل کے  شاعر  نمودار ہوئے  وہ سب کم و بیش غلام مرتضیٰ راہی کے  معاصرین میں  تھے  کیوں کہ جہاں  تک اکتساب و استفادہ کا تعلق ہے  سب نے  ایک دوسرے  سے  کہیں  نہ کہیں  اکتساب کیا۔ اور اس آمیزش سے  لہجوں میں  انفرادیت  نمودار ہوئی کیونکہ دونوں  ملکوں کے  مسائل تقریباً یکساں تھے۔ برطانوی سامراج سے  آزادی کے  فوراً ہی بعد دو بڑی طاقتوں کے  زیر اثر زندگی گزارنے  کا جو عمل تھا اس نے  بڑی شاعری کو جنم دیا اور غزل نے  اس میں  بے  حد اہم کردار ادا کیا۔ وہ غزل جسے  ترقی پسند یہ کہہ کر ٹاٹ برادری باہر کر چکے  تھے  کہ یہ حکایت زلف و رخسار کے  سوا اور کچھ نہیں  لیکن انہیں  کے  یہاں  فیض احمد فیض ایک ایسا شاعر تھا جس نے  یہ ثابت کر کے  دکھایا کہ زلف و رخسار کے  تذکروں میں بھی زندگی کا  انقلاب پنہاں ہے۔ اگر لفظیات کو نئے  معنی دئیے  جائیں  تو غزل کا دامن اس قدر وسیع ہے  کہ اس میں  تمام انقلابات زمانہ سما سکتے  ہیں۔ متنوع مضامین باندھے  جا سکتے  ہیں  نئی غزل کے  شاعروں نے  یہ بات ثابت کر کے  دکھائی۔ غلام مرتضیٰ راہی کے  یہ اشعار دیکھئے  جو میرے  اس نظریے  کی تصدیق کرتے  ہیں :

سمائی جا رہی ہے  کائنات اس میں

ہے  ذرہ تنگ اپنی بے  کرانی میں

 

گرا زمیں  پہ تو حیران کر گیا وہ بھی

جو آئینہ بھی نہیں  تھا بکھر گیا وہ بھی

 

اتنی خشکی ہی کہاں تھی مرے  قدموں  کے  تلے

گھوم پھر کر وہی پانی کا  سفر تھا میرا

 

مہر جب پشت پناہی پہ اتر آیا ہو

اپنے  سائے  سے  کوئی آگے  نکلنے  کا  نہیں

 

رہا میں  نقطۂ پرکار کی طرح تنہا

ہزار گرد مرے  ایک وسیع حلقہ تھا

 

تعلق کی زنجیر پر زور مت دیں

کڑی اس میں  نازک سے  نازک پڑی ہے

پلٹنے  لگی دھار تلوار کی

یہاں  تک مری ضرب کاری ہوئی

 

دیکھا نہ آتے  جاتے  کسی نے  جنہیں  کبھی

ان کے  بھی نقش پا ہیں  تری رہگذار میں

 

پھرایا رخ بدل بدل کے  بحر بے  کنار میں

ہوا کی شہ پہ میری ناؤ بادبان لے  اڑا

          ان اشعار سے  وہ کیفیت مترشح ہے  جس میں  لہجے  پر گرفت مضبوط ہوتی ہے  تخلیق کے  چاروں طرف ایک روشنی سی برستی ہے۔ جناب صفوت علی صفوت نے  اس طرف اشارہ کیا ہے  :

          ’’اگر شعر میں گہرائی ہے  تو ایک کہانی بسی ہوتی ہے۔ ایک سمندر کوزے  میں  بند ہوتا ہے  یہی اچھے  شاعر کی نشانی ہے۔ ہمیں  غلام مرتضیٰ راہی کے  اشعار میں  یہی کہانی پن نظر آتا ہے۔ یہی گہرائی ہماری بینش کا  امتحان لیتی ہے  یہی الفاظ کا چناؤ ہمارے  ذہن میں  ایک ہیجانی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ راہی کی تصانیف لاریب، لاکلام، حرف مکر ر، لا مکا ں  اور لا شعور اسی بات کی دلیل ہیں۔ ‘‘

 (تذکرۂ راہی سے  اقتباس )

راہی کی غزل میں آفاقی جمالیات و زمانی تصور

آفاقی جمالیات اور زمانی تصور ہم رشتہ ہیں۔ بادی النظر میں  ایسا لگتا ہے  کہ شاید یہ کچھ نہیں  ہے  لیکن باطنی گرہ موجود ہے  لیکن دراصل سب سے  پہلے  ہمیں  سمجھنا ہوتا ہے  کہ آفاقی جمالیات کیا شئے  ہے۔ ظاہر ہے  کہ اس کا تعلق ہمارے  حواس سے  اور جمالیات حواس کے  پانچوں ایوانوں  میں  مشعلوں کی طرح روشن ہوتی ہے۔ اس کی ہمہ جہتی ہمہ گیریت جب شعر کے  پیکر میں   نمودار ہوتی ہے  تو بجلیاں  کوندتی ہیں لیکن شعر کے  حوالے  سے  جب ہم اسے  دیکھتے  ہیں  تو اس کرہ ارض پر ہمیں  انسانی کارناموں میں  لفظ کے  جہانوں  کی فتوحات کا  منظر نظر آتا ہے۔ لفظ ایک پُر اسرار شئے  ہے  جس کا نظام تخلیق رازوں سے  بھرا ہوا ہے  اور آفاقی جمالیات اس کے  ہر زاوئیے  سے  مترشح ہے  اور اسی جمالیات کے  دائروں میں  زمانی شراروں کے  بہنے  کا منظر بھی موجود ہے۔

          میں  غلام مرتضیٰ راہی کی غزل کے  حوالے  سے  بات کر رہا ہوں  میری کوشش ہے  کہ اس بحر بے  بیکراں میں  غواصی جاری رہے  اور اس کے  اعماق کی تہوں سے  ایسے  صدف نکالے  جائیں  جن کے  بطون میں  مسکن گزیں  گوہروں  کے  تموج کا  احساس ہمہ وقت ہوتا رہتا ہے۔

          زمانہ کوئی بھی ہو صدیاں، مہ و سال، لمحات و آنات تو خلائے  بسیط کے  پر ہجوم قافلوں  کی طرح موجود ہیں  جو رواں  دواں ہیں  لیکن لفظ اظہار کی ایک ظاہری شکل آواز انسانی جذبات کے  اظہار کا  نقش اول ہے  حالانکہ دونوں میں  گہرا رشتہ ہے  مگر آواز ایک نہ دکھائی دینے  والی شئے  ہے  جو سامع سے  تعلق رکھتی ہے  باصرہ سے  نہیں  لیکن لفظ ہلچل کے  بصری پیکر ہیں  لیکن اس میں  سمعی گونج بھی ہے۔ اس طرح صدف کے  بطن میں  گوہر کلام کرتا ہے  باہر آنے  کے  لئے  التماس کرتا ہے، سنگ میں  پیکر بے  قرار ہوتا ہے، ظہور کا متمنی ہوتا ہے  اسی طرح لفظ کے  بطن میں  معنی اپنے  ہونے  کا  احساس دلاتا ہے  کروٹیں  لیتا ہے  لیکن اہم بات یہ ہے  کہ گوہر ہو یا پتھر میں  سوئے  ہوئے  اصنام سب لمحاتی ہیں  فانی ہیں  لیکن لفظ کے  اندر متمکن معنی جاوداں  ہیں وہ غیر فانی ہیں  وہ اپنے  منکشف ہونے  کا متمنی ہوتا ہے  مگر اپنے  مسکن سے  اس کا رشتہ گہرا ہے۔ آواز نے  ہی حرف کو جنم دیا ہے  حرف اپنے  آپ میں  عمودی بھی ہے  افقی بھی۔ اسی آویزش سے  لفظ نے  زندگی پائی ہے  ایک جہان بسیط طلوع ہوا فکر و معنی کی گرہیں  کھُلیں  گویا لفظ نے  گونگے  جذبوں  کے  منھ میں  زبان رکھ دی اور اس سمندر میں  اٹھنے  والا مد و جزر ہی اصل میں  فشار حرف کہا جا سکتا ہے  اور اس کی تہہ سے  اٹھنے  والے  کف نے  نئے  آسمانوں کی تخلیق توکی ہی ہے  ایسے  آسمان بھی ہیں  جہاں  آفاقی جمالیات کا  لا انتہا منظر ہے۔ ہر بڑی شاعری آفاقی جمالیات کا  ایک فلک بے  کنار ہوتی ہے  اور میں  ایک ایسے  شاعر کی غزل کے  حوالے  سے  بات کر رہا ہوں  جو اس عہد میں  نہیں  بلکہ ہر عہد میں  ایک بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا رہے  گا۔

میں  عندلیب ہوں  لیکن الگ نوا ہے  مری

چمن کو خاک نہ کر دے  سخن شرارہ مرا

          میں نے  کبھی سنگ مرمر میں ڈھلا ہوا حسن ہوشربا کا حامل یونان کی دیوی زہرہ کا  ایک مجسمہ دیکھا تھا جو سرتاپا عریاں ہونے  کے  باوجود کہیں  سے  عریاں  نہیں  تھا۔ صرف یہ احساس کیا جا سکتا تھا کہ اس کے  تمام خدوخال کی جلوہ گری کیا ہے۔ جسم کے  کساؤ اور ڈھلانوں  کے  علاوہ سامنے  کے  حصے  پر بکھری ہوئی اس کی گھنی زلفیں  اس کے  سینے  کے  مخروطی ابھاروں کو نمایاں  نہیں  کرتی تھیں  لیکن اس کے  وجود کا  احساس دلاتی تھیں۔ غزل میرے  نزدیک انہیں  کیفیتوں کی حامل ہوتی ہے  جو عریاں  ہونے  کے  باوجود سات پردوں میں  چھپی ہوتی ہے۔ معنی کی زہرہ کے  ہوشربا خد و خال کی پردہ پوشی لفظ کرتا ہے۔ شاید صائب تبریزی نے  ایسے  ہی موقع کے  لئے  کہا تھا:

صائب بکش از چہرۂ معنی ورق لفظ

تاکے  ز بروں  سیر کنم باغِ ارم را

صائب کو یہ غم ہے  کہ باغ ارم کی سیر باہر سے  کب تک کی جائے۔ چہرۂ معنی سے  ورق لفظ کو ہٹایا جائے  ظاہر ہے  کہ لفظ ایک پردہ ہے  ایک پیرہن ہے  شاعر بھی چاہتا ہے  کہ قید قبا و پیرہن ختم ہو دریچہ بند قبا کشادہ ہو تاکہ آئینے  جیسا بدن سامنے  آئے۔ بدن سنورنے  کی چیز نہیں ہے  اس کی اصل ہی سب کچھ ہے  اسی میں  عالم اسرار پنہاں ہیں  لیکن مرزا عبد القادر بیدل جو میرے  نزدیک فارسی کے  سب سے  بڑے  جدید شاعر ہیں  اور ہمیشہ ہی رہیں گے  کچھ اس طرح کلام کرتے  ہیں :

 

دریں  گلشن کہ رنگش ریختند از گفتگو بیدلؔ

شنیدن ہاست دیدن ہا ودیدن ہاشنیدن ہا

 

غزل ایک گفتگو ہے  اور ہر بڑے  شاعر کے  یہاں  سامعہ میں  باصرہ اور باصرہ میں  سامعہ موجود ہے۔ راہی کے  یہاں  بھی اس کیفیت کا نظارا یوں کیا جا سکتا ہے  :

قصر ہستی کا میاں  تم گوشہ گوشہ چھان لو

اس کا  زینہ مل گیا تو بام پر لے  جائیگا

 

وہ کُل ہے  جز میں  سمانا محال ہے  اس کا

کسی نے  دیکھا تو خواب و خیال ہے  اس کا

 

تم کو ہے  سایۂ دیوار کی عجلت لوگو!

اتنی جلدی کبھی سورج مرا ڈھلنے  کا  نہیں

 

بجھتے  بجھتے  مل جاتی ہے  اس کو شہ

چنگاری سے  خاکستر شرمندہ ہے

 

دی ہوا آنکھ موند کر جس نے

دیکھے  پرواز وہ شرارے  کی

 

اطراف مرے  خاک اڑا کرتی ہے  اکثر

طے  اب مری جانب بھی سفر ہونے  لگا ہے

 

ٹلا نہ آ کے  مرا وقت ایک پل کے  لئے

جسے  قیام نہیں  تھا ٹھہر گیا وہ بھی

 

کوئی بھی غم نہیں  ایسا کہ جو نہ جاتا ہو

اک اور غم سے  مجھے  ہمکنار کرتے  ہوئے

          میں  نے  شروع میں  ہی بیدل کا جو شعر پیش کیا ہے  وہ بے  حد سحر انگیز ہے۔ اس میں  جو کیفیت موجود ہے  وہ ہر شاعر کی شاعری میں  نہیں  پیدا ہو سکتی یہاں  سامعہ باصرہ ایک دوسرے  سے  ہم آہنگ بھی ہوں  مختلف بھی ہوں  ایسی گفتگو جس میں  جھنکار سنی جا سکے  جس میں  پیکر پیدا ہوتے  ہوں  جو دیکھے  جا سکیں  آنکھیں  صرف دیکھتی ہی نہیں  بلکہ سنتی بھی ہیں  کا ن صرف سنتے  ہی نہیں بلکہ دیکھتے  بھی ہیں۔ راہی کی شاعری میں  ہزاروں  پیکر اسی انداز کے  ہیں  ان کے  شعری مجموعے  لا شعور پر وقیع رائے  دیتے  ہوئے  اردو کے  نامور ناقد ڈاکٹر اسمٰعیل آزاد فتح پوری نے  لکھا ہے  :

          ’’لا شعور کے  شاعر نے  بہت سے  معمولی واقعات سے  غیر معمولی نتائج اخذ کر کے  اپنی غیر معمولی ژرف نگاہی اور استنباط نتائج کے  باب میں  اپنی ذہنی زرخیزی کا  ثبوت دیا ہے۔ تخلیق کار نے  کائنات کے  مشاہدے  اور مشاہدات عالم کے  مطالعے  میں  قابل تحسین تجسس سے  کام لے  کر اپنی بالغ نظری کا لوہا منوا لیا ہے  راہی کے  یہاں  تشبیہات سے  زیادہ استعارات ہیں  وہ کنایات و رمز و تعریض سے  خاص وابستگی رکھتے  ہیں  اور علامات کا  استعمال ایک خاص طرز اور منفرد طریقے  سے  کرتے  ہیں  ان کے  لب و لہجے  میں  ایک نمایاں  انفرادیت ہے۔ انفرادیت میر و غالب و اقبال کے  یہاں  بھی ہیں  لیکن راہی کی انفرادیت متذکرہ بالا ابطال شعر و سخن سے  الگ لب و لہجہ کی حامل ہے  اس لئے  ان کے  یہاں  طرحداری تہہ داری اور معنویت بالکل نئے  خدوخال لئے  ہوئے  ہے۔ ان کی تشبیہات جامد اور ساکت و صامت نہیں  بلکہ متحرک دم دار فعال بولتی چہکتی ہر لحظہ رواں  اور ہر دم جواں  ہیں۔ شاعر فرسودگی کہنگی کا  نہیں بلکہ شگفتگی اور شادابی کا  دلدادہ ہے  اور بذات خود سانس روکنے  کی مشق کا قائل ہے۔ ہر بحر  بیکنار میں  اتر کر نئے  جہانوں  کو تہہ آب دیکھ لینے  کا حوصلہ اور ملکہ رکھتا ہے۔

          غلام مرتضیٰ راہی کے  تمام شعری اثاثے  کا  استیعابی مطالعہ ہوشمند قاری پر یہ حقیقت منکشف کرتا ہے  کہ انہوں نے  ابھی اپنے  آپ کو دہرانا شروع نہیں کیا ہے  نہ الفاظ و تراکیب میں  نہ معنی و مفاہیم میں۔ نئے  نئے  مضامین کے  اختراع اور ما قبل باندھے  گئے  مضامین کی تفہیم نو میں  وہ ابھی منہمک ہیں۔

          لا شعور کے  مشمولات میں  لفظوں کا در و بست تراکیب کا  اِتّقان اور مضامین کا  طمطراق دیدنی ہے۔ راہی ماضی و حال پر زبردست گرفت کے  ساتھ مستقبل بینی میں  بھی مہارت رکھتے  ہیں  کہ ان کے  مشہور اشعار میں  ضرب الامثال کے  خواص کچھ اس طرح در آئے  ہیں  کہ وہ ملتے  جلتے  واقعات کے  ظہور پذیر ہونے  پر بے  ساختہ لوگوں  کی زبان پر آ جاتے  ہیں۔ آخر میں  یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے  کہ جدید اردو غزل کے  صاحب طرز علمبرداروں  کی ہر فہرست (خواہ وہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو )غلام مرتضیٰ راہی کے  نام کے  شمول کے  بغیر نامکمل اور تشنہ رہے  گی۔ ذیل میں  لا شعور کے  چند اشعار سے  ما سبق میں  معروضہ بیشتر نظریات کی تائید و توثیق ہوتی ہے  :

بعض خوشیاں  نہیں  جینے  دیتیں

بعض غم عمر بڑھا دیتے  ہیں

 

ہم کو بھی خبر کرنا کہ بے  چین رہیں  گے

دنیا میں  کہیں  بھی تمہیں  حاصل جو سکوں  ہو

 

گرنے  والی ہوئی جب سے  دیوار

اپنے  سائے  سے  ڈری رہتی ہے

 

مشق ہو سانس روکنے  کی جسے

میرے  ہاں  دیکھ جائے  تہہ داری

 

کیسے  جی بھر کے  دیکھئے  اس کو

دیکھنے  میں  کمی سی رہتی ہے

 

تعمیر کے  لئے  مجھے  درکار ایک عمر

تخریب کے  لئے  مجھے  اک لمحہ چاہئے

 

وہ وہاں  سے  بھی آ رہا ہے  نظر

دیکھنے  ہم جہاں  سے  آئے  ہیں

 

مجھ کو اسے  گلزار بنانے  کی پڑی ہے

صحرا میں  بھی رہ کر مجھے  وحشت نہیں  آئی

 

کبھی اترتے  ہیں  جب بحر بے کنار میں  ہم

تو اک جہاں  کو تہہ آب دیکھ لیتے  ہیں

 

بہت خون اس میں  بہا خواہشوں  کا

وہ اک جنگ دل سے  جو میں  نے  لڑی ہے

 

روانہ کیا اس نے  ایسے  سفر پر

مری واپسی کا  نہ امکا ن رکھا

 

ایسی کہاں  کسی کو بلندی ہوئی نصیب

لینے  کو اک بشر کے  قدم آسماں  اٹھا‘‘

ڈاکٹر اسمٰعیل  آزاد کی اس رائے  میں  اس بات کی طرف اشارہ نہیں  کیا گیا کہ راہی کی تمام تر شاعری آفاقی جمالیات کا آئینہ ہے۔ لا شعور ان کا  اب تک کا آخری شعری مجموعہ ہے۔ اس میں  یہ کیفیت بہت زیادہ نظر آتی ہے  جیسا کہ جناب اسمٰعیل آزاد نے  استعارات کی طرف اشارہ کیا ہے  دراصل نئی غزل بغیر استعارے  کے  ایک بساط ویراں کے  سوا کچھ نہیں۔ اس راز کو راہی خوب اچھی طرح سمجھتے  ہیں  اور انہوں نے  کہا بھی ہے  :

پل پل کی میں  روداد رقم کرتا چلا جاؤں

صدیوں  کے  لئے  خود کو بہم کرتا چلا جاؤں

پل پل کی روداد رقم کرنے  کی توفیق ہر شاعر کو نہیں ہوتی ہے  کیونکہ جو پل پل کی روداد اس انداز سے  رقم کرے  گا وہ وقت کی بساط بیکراں  پر خود کو ایک دوامی پیکر میں  ڈھالنے  میں  کامیاب ہو جائے  گا۔

          رونق شہری نے  ’’جدید غزل کا سنگ میل غلام مرتضیٰ راہی‘‘ جیسے  وقیع و مبسوط مقالے  میں  راہی کی شاعری کے  مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے  جس میں  ان کے  یہاں  واحد متکلم کے  حوالے  سے  بات کی گئی ہے۔ واحد متکلم میں  ایک زمانی و آفاقی تصور موجود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ غالب نے  اپنے  یہاں واحد متکلم کا  استعمال سب سے  زیادہ کیا تھا۔ نئی غزل کے  شعرا کے  یہاں بھی اس صیغے  کے  حوالے  سے  پوری کائنات کو دیکھنے  کی کوشش کی گئی ہے۔ رونق شہری کا خیال ہے :

          ’’نئی غزل میں  فردیت پسندی ایک عام رجحان رہی ہے۔ اسے  دوسری صورت میں  واحد متکلم کی موجودگی سے  موسوم کیا گیا ہے۔ پوری اردو شاعری میں  واحد متکلم کا  جتنا بلیغ اظہار غالب کے  یہاں  ملتا ہے  اس کا دس فیصد حصہ بھی نئی غزل کے  معماروں کے  یہاں  نہیں  ہے۔ ناقدین غزل نے  جن جدید شعرا کی فہرست سازی کی ہے  اس میں  فردیت پسندی کے  لحاظ سے  بیشتر ایک جیسے  ہیں۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ غالب اپنے  عہد کا معقول نباض ہے۔ ۱۸۵۷ء کا غدر کھُلی آنکھوں  سے  دیکھنے  والا اپنے  ذہنی انتشار سے  بھی کم پریشان نہ تھا۔ اسی فردیت نے  انفرادیت کے  زمرے  میں  آنے  کے  بعد غالب کو شخصی  اظہار کا  شاعر بنا دیا۔ نئی غزل میں  بانی ذہنی اعتبار سے  غالب کے  اتنے  قریب رہے  کہ اس نے  بھی اپنے  طرز اظہار میں  تنہا انسان کی سائیکی کو بڑے  فطری ڈھنگ سے  شعر کے  کینوس پر اتارا۔ میں  سمجھتا ہوں کہ بانی کے  بعد اردو  غزل میں  فردیت اور شخصی مطالعہ کے  باب میں  غلام مرتضیٰ بمشکل حیثیت ثانی کے  حامل قرار دئے  جا سکتے  ہیں کیونکہ بانی کا شعری سرمایہ غلام مرتضیٰ راہی سے  کم ہے  اس لئے  مبادیات کے  اعتبار سے  غلام مرتضیٰ راہی ان پر بھاری پڑتے  ہیں حالانکہ بانی کی طرح غلام مرتضیٰ راہی کو اپنی منفرد طبیعت کے  لئے  اس طرح کا شعر کہنے  کی ضرورت پیش نہیں  آئی۔ ‘‘

          اس مضمون میں  رونق شہری نے  واحد متکلم کے  حوالے  سے  بات توکی ہے  لیکن زیادہ اشعار پیش کرنے  کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے  ظاہر ہے  کہ یہ ایک کمی ہے  چنانچہ میں  راہی کے  ایسے  اشعار پیش کرتا ہوں جن میں  واحد متکلم کے  حوالے  سے  پوری کائنات کو دیکھا گیا ہے  اور آفاقی تصور ابھرتا ہے  :

 

دبا ہے  میرے  زمانے  کا  شور و شر مجھ میں

کھنڈر سمجھ کے  سکوں  مت تلاش کر مجھ میں

 

لگے  تھے  آگ کے  انبار میرے  چاروں  طرف

عجیب آگ تھی مجھ میں  کہ میں  دبا نہ سکا

 

معرکہ سخت تھا لیکن مجھے  سر کرنا تھا

جان پر کھیل گیا جان کے  ڈر سے  اب کے

 

رکھ دیا دقت نے  آئینہ بنا کر مجھ کو

روبرو ہوتے  ہوئے  بھی میں  فراموش رہا

 

سب ایک موڑ تک آئے  مرے  تعاقب میں

پھر اس کے  بعد سمجھنے  لگے  سراب مجھے

          میں  محسوس کرتا ہوں کہ راہی کی شاعری پر باستثنائے  چند تمام مشاہیر ادب کی آراء ان اسرار کو نہیں  کھول سکی ہیں  جو ان کے  یہاں  پائے  جاتے  ہیں۔ یہ حجرہ ہائے  ہفت بلا نہیں  ہے  بلکہ جس ایوان کے  دروازے  کو کھولئے  تازہ ہوا کا جھونکا  آپ کا خیر مقدم کرے  گا ایسے  جہانوں میں  لے  جائیگا جہاں  زندگی کی ہفت رنگی قوس قزحیں  جولاں  و درخشاں  نظر آئیں گی۔

          آفریدہ و ناآفریدہ زمانوں کو سمیٹتی ہوئی راہی کی غزل اپنے  عہد سے  مکالمہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے  اس طرح جب وہ ایک اکا ئی کی شکل میں  ابھرتی ہے  تو عصری اقدار سے  کلام کرتی ہے، ہر عہد کے  ساتھ سفر کرتی ہے۔ ان کے  شعری مجموعے  لا کلام پر اظہار خیال کرتے  ہوئے  میں نے  برسوں  پہلے  لکھا تھا کہ ان کے  معاصرین کے  فکری آبشار اب یا تو سست رو ہیں  یا پھر ٹھہر گئے  ہیں  لیکن اس کے  علی الرغم راہی کے  یہاں  ایسا نہیں ہے  ان کی غزل گزرتے  ہوئے  لمحوں  کی مزاج داں  ہے  اور یہی اس کی سرشت ہے  کہ تمام زمانوں کو اپنے  اندر جذب کر لیتی ہے  اور الفاظ سے  تصویروں کا  انعکاس ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً وہ اشعار جو ہر نکتہ نظر سے  بے  مثال ہیں  میں  ان پر اکثر مختلف زاویوں  سے  سوچتا رہتا ہوں  اور ان کے  نئے  معنی کا  استخراج کرتا رہتا ہوں  :

اک آبشار سر کوہسار نکلا ہے

اک ایک سنگ کے  دل کا  غبار نکلا ہے

 

اچھلتے  کودتے  لہراتے  آبشار ملے

بلندیوں  سے  اترتے  ہوئے  سوار ملے

          میں  محسوس کرتا ہوں  کہ آبشار راہی کے  یہاں  ایک جذبۂ ترحم ہے  لیکن بے  حد پُر جلال جسے  پہلے  تو غبارِ دلِ سنگ کہا گیا، اُچھلتا کودتا کہہ کر انہیں  سوار بتایا گیا دونوں  حالتوں میں  آبشار کا شکوہ برقرار ہے۔ یہ لفظ ان کے  یہاں  بار بار آتا ہے  اور اپنی معنویت کے  ساتھ ایک نیا منظر نامہ بن جاتا ہے  جس میں  حواسی رنگوں  کا  استماع ہوتا ہے  یہ استماع ایک غیر فانی بنات النعش کی تخلیق کرتا ہے  ان کے  ذخیرۂ الفاظ خاصہ معقول ہے  لیکن وہ اپنی حسب منشاء لفظ تراشتے  ہیں  تراکیب بنا لیتے  ہیں  بعض الفاظ ان کے  یہاں  بے  حد محبوب و مرغوب ہیں  ان میں  تخلیقیت کی نئی شان در آتی ہے  وہ ہر بار ان کے  استعمال میں  نئے  تنوع بھر دیتے  ہیں  آئینہ، آب، دریا، شجر، سمندر، آبشار، دیوار، سراب جیسے  الفاظ ان کے  یہاں  خوب استعمال ہوئے  ہیں  ان میں  سے  بیشتر مظاہر فطرت کے  شاہکار ہیں  لیکن ان میں  اصل چیز معنویت کی تازگی ہے  اور یہ بات متحیر کن نہیں ہے  کیونکہ ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا ہے  یہ ان کے  مزاج کے  عناصر ہیں  جو معنوی طرز اختیار کرتے  ہیں  مثلاً دیوا رہی کو لیجئے  اس لفظ میں  ان کے  یہاں  معنویت کی نئی نئی جہتیں  اجاگر ہوتی ہیں :

 

کہیں  دیوار کو کھولا کہیں  در باز کئے

تب کہیں  روشنی گھر آنے  کو تیار ہوئی

 

جو ہم نے  رخنۂ دیوار چھوڑ رکھا تھا

نظر اسی سے  وہ صورت کبھی کبھی آئی

 

پہلے  دیوار میں  چنوا دیا مالک نے  مجھے

پھر عمارت کو مرے  نام سے  موسوم کیا

 

یوں  بھی اردو غزل میں  لفظ دیوار کی زبردست معنویاتی جہتیں  ابھرتی رہی ہیں  میر نے  تو یہاں  تک کہہ دیا تھا :

چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے  دہر

منھ نظر آتے  ہیں  دیواروں  کے  بیچ

          اردو کے  ذہین ناقد ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط نے  تو ایک وقیع مضمون میں  راہی کی غزل پر دیوار کے  حوالے  سے  ایک مقالہ قلم بند کیا ہے  جس میں  راہی کے  یہاں سے   مثال میں  چالیس اشعار پیش کئے  گئے  ہیں اور دوسروں کے  یہاں  سے  اس لفظ کے  حوالے  سے  بہت کچھ دکھایا گیا ہے  فارسی اشعار کا  ذکر بھی زور شور سے  کیا گیا ہے  لیکن راہی کے  یہاں  دیوار کی کیا حیثیت ہے  اس پر بات کچھ کم ہی ہوئی ہے۔ پھر بھی ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے  :

          ’’شاعری میں الفاظ کا حسن ترتیب نثر سے  زیادہ اہم ہوتا ہے  لیکن شاعری صرف الفاظ کا  گورکھ دھندا نہیں ہوتی اس میں  معنویت کا جمال لفظوں کو خوبصورتی عطا کرتا ہے  شاعری وادیِ  ہائم ہے  وہ جولاں  گاہ رخش خیال اور رمنۂ آہوئے  افکار ہوتی ہے  کہ الفاظ کی کمان اور روح معانی پر شاعر کی گرفت مضبوط ہو وگرنہ خیال و افکار کے  رخش و آہو مجروح ہو جائینگے  بس ثابت ہوا کہ خیال کا حسن و جمال شوکت الفاظ کا  رہین منت ہوتا ہے  شاعر الفاظ کے  استعمال سے  شاعری کے  گلشن کو خوبصورت بنا سکتا ہے  یا بدصورت شاعری میں  الفاظ کی پچی کاری شاعر کی کہنہ مشقی پر منحصر ہوتی ہے  وہ اگر الفاظ کے  نگینوں کو صحیح طور سے  جڑے  تو شعری حسن نکھرے  گا اور الفاظ کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے  تو شعری حسن بکھر جائے  گا۔

          شاعری میں  مضمون ہائے  رنگارنگ اور ایک مضمون کو سو طرح سے  باندھنے  کے  دعوے  غالب اور انیس جیسے  استادانِ فن نے  کئے  ہیں  لیکن ایک لفظ کو سو طرح سے  باندھنے  کا دعویٰ اردو شعر و ادب میں  کسی نے  نہیں  کیا ہے  عصر جدید کے  شاعر غلام مرتضیٰ راہی نے  بھی اگرچہ ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے  لیکن ان کے  مجموعۂ کلام لا کلام میں  ایک لفظ کو سو طرح سے  باندھنے  کی مثال مل جاتی ہے۔

          غلام مرتضیٰ راہی نے  لا کلام میں  لفظ دیوار کو سو طرح سے  باندھا ہے  اور اس طرح کہ اس پامال لفظ کا  شعری حسن نکھر آیا ہے  اور لفظ کی معنوی خوبی دو چند ہو گئی ہے۔ راہی کی غزلوں میں  فن کی تازہ کاری افکار کی تہہ داری اور تخیل کی بلندی پائی جاتی ہے  ان کے  یہاں  غزل کے  اشعار میں  جذبات کا  تموج معنی کی زیریں  لہروں میں  پایا جاتا ہے  سطح شعر کا سکوت البتہ ان کے  الفاظ کی گہرائی کا پتہ ضرور دیتا ہے  راہی کی شاعری کا  انداز ان حقائق کا کاشف ہے  کہ وہ حوادث اور اس سے  غیر آشنا نہیں  بلکہ تجربے  کی بھٹی سے  تپ کر نکلے  ہیں۔ ‘‘

(دیوار ..راہی کے  کلام میں  .....یحییٰ نشیط)

          فاضل مضمون نگار نے  راہی کے  اشعار میں  لفظ دیوار کو مختلف معنی کی تہہ داریوں  کے  ساتھ ظاہر کرنے  کی کوشش کی ہے  اور چالیس سے  زیادہ مثالیں  صراحت کے  ساتھ پیش کی ہیں۔ میں  محسوس کرتا ہوں کہ راہی کی شاعری میں  الفاظ کی ظاہری تنوع آمیزی سے  زیادہ معنوی تنوع آمیزی ہے۔ اس لئے  لفظ ان کے  یہاں  نئے  معنوی پیرہن بدلتا ہے  میں نے  لفظ آبشار سے  متعلق یہی بات کہی تھی۔ یہ بات کسی ایک لفظ سے  مخصوص نہیں ہے  راہی بڑے  شاعر ہیں  ان کے  یہاں  شوکت لفظی سے  زیادہ معنوی تنوع ہے  جو انہیں  بڑا بناتی ہے۔ غالب کے  یہاں  یہی کیفیت ہے  کہ حسن خیال بندی سے  کچھ اور زیادہ نمایاں  ہوتا ہے۔

          راہی کی غزل کے  بارے  میں  مجھے  یہاں  یہ کہنے  میں  کچھ باک نہیں  ہے  کہ ان کی شاعری پر ہر کس و ناکس نے  قلم اٹھایا ہے  دفاتر کا  ایک انبار لگا دیا ہے  مگر بہت کم لوگ ان کی شاعری کی روح تک پہونچ سکے  ہیں۔ مجھے  یہ شرف حاصل ہے  کہ میں  نے  وہ تمام تحریریں  پڑھی ہیں  جوان پر لکھی گئی ہیں  لیکن بیشتر اصحاب ادھر ادھر کی باتیں  کہہ کر نکل گئے  ہیں  اس سلسلے  میں  جناب رونق شہری کی رائے  مستحکم بھی ہے  اور معنی آفریں  بھی انہوں نے  اشعار کے  حوالے  سے  ثابت بھی کیا ہے  جس سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ انہوں نے  اسے  سمجھنے  کی کوشش کی ہے  اور اس بحر کی تہہ میں  ان کی تلاش نا کامیابی یا مایوسی یا محرومی پر منتج نہیں ہے  :

          ’’غلام مرتضیٰ راہی کا  آفاقی قدروں  کے  اس حوالے  سے  بہت کچھ دریافت شدہ ہے  میں  سمجھتا ہوں  کہ شعری حسن میں  معاملہ فہمی کے  ساتھ اگر تھوڑی سی کج روی بھی برتی جائے  تو ایک حساس شاعر کی شناخت آسانی سے  ہو سکتی ہے۔ میں  غلام مرتضیٰ راہی کے  ذہن کی ایک اہم جہت حیرت ناکی کی طرف آتا ہوں  اس باب میں  سلسلہ تحریر شروع کرنے  کی از سر نو غرض و غایت یہ ہے  کہ راہی کے  اس مخصوص ذہنی رویے  کے  بغیر ان پر مطالعہ ادھورا رہے  گا بلکہ خام بھی ہو گا۔ میں  عرض کر چکا  ہوں  کہ راہی کے  لا مکا ں  سے  لیکر لاریب تک کا  شعری سفر حیرت ناک اور مظاہر فطرت سے  عبارت ہے۔ حرف مکر ر میں  یہ راہی کی طبیعت میں  شیر و شکر کی طرح گھل مل جانے  کے  با وصف شعر کا  چہرہ لا کلام میں  مزید صناعی کے  ساتھ جلوہ گر ہوتا نظر آتا ہے۔ حیرت و استعجاب کے  مظاہرے  یوں  تو دیگر معاصرین کے  یہاں  بھی آتے  ہیں  لیکن آٹے  میں  نمک کے  برابر۔ بغور ان پر نگاہ ڈالنے  سے  پتہ چلتا ہے  کہ ایک مصنوعی خوف طاری کرنے  کی وجہ سے  شعر یا تو گنجلک ہو گیا ہے  یا پھر فیشن زدگی کا  شکار ہو کر مزاح کا  پہلو اجاگر ہوا ہے  لیکن راہی کے  یہاں  جو تحیر خیزی ہے  وہ شعری ضرورت بنکر جیسے  داد خواہی کی طلب گار ہے  مثال کے  طور پر درج ذیل اشعار میرے  اس دعوے  کے  بین ثبوت ہیں :

مجھے  خبر ہے  کہ پانی ہے  کہ کس بلندی پر

یہ کم نہیں  کہ مرا سر دکھائی دیتا ہے

 

اتر کے  رہ گیا ہو جیسے  کوئی خنجر سا

کھڑا ہے  دشت کے  پہلو میں  اک شجر ایسا

 

میں  اپنی نیند سے  آنکھیں  چرا نہیں  سکتا

پلک جھپکتے  ہی قصہ مرا تمام سہی

 

نہ لا سکے  تاب لوگ میرے  کمال فن کی

تراش کے  رکھ دیا جو پتھر تومیں نے  دیکھا

          جدید غزل میں  تحیر خیزی کے  سلسلے  میں  مجھے  ایک شعر نشتر خانقاہی کا  بھی یا د آ رہا ہے  :

میں  گھر بنا کے  سمندر کے  بیچ سویا تھا

کھُلی جو آنکھ تو شعلوں  میں  تھا مکا ن مرا

          اس شعر کے  منظر پس منظر آور پیش منظر میں  شاعر کی  زود حسی ملاحظہ فرمائیے  تو کھلے  گا کہ انسان اپنے  حسب حال ترجیحات کے  لئے  جو قدم اٹھاتا ہے  اس کے  برعکس ہی تو ایسا سانحہ ہو سکتا ہے  جس پر مشکل سے  یقین کیا جا سکتا ہے۔ گھر بنا کر سمندر کے  بیچ سونا اور آنکھ کھلنے  کے  بعد گھرکا شعلوں میں  گھرا دیکھنا تعجب خیز واقعہ ہے۔

          راہی نے  اس سانچے  کو بالکل نیا روپ دے  دیا ہے  چراغ روشن کی موجودگی بھی اسے  بجھا دینے  کے  عمل سے  اطمینان قلب حاصل کرنے  کے  بعد آنکھ کھلتے  ہی جلتے  ہوئے  مکا ن کو دیکھنے  کے  بعد ششدر آنکھوں میں  ریت بھرنے  کی خواہش سے  کون بھلا روک سکتا ہے  :

بجھا کے  سویا تھا میں  ایک اک چراغ مگر

کھلی جو آنکھ تو جلتا ہوا مکا ن ملا

          یہاں  نشتر خانقاہی اور غلام مرتضیٰ راہی کے  بیچ اس شعر کے  مطالعے  سے  کوئی تقابلی نتیجہ اخذ کرنا مقصود نہیں ہے  بلکہ یہ بتانا ضروری ہے  کہ ایک ہی طرح کے  شعری ٹریٹ منٹ کے  لئے  ایک سچا فنکار کس طرح اپنے  بیان سے  ششدر کرنے  کی صلاحیت رکھتا ہے۔ موضوع شعر میں  یکسانیت یا پھر ترتیب میں  مواصلت ہر بڑے  شاعر کے  یہاں  پائی جاتی ہے  غلام مرتضیٰ راہی بھی اس سے  مستثنیٰ نہیں  ہے  تاہم ان کا  انوالومنٹ ہونے  کی وجہ سے  شعر یادگار بن جاتا ہے۔ ‘‘

جدید غزل کا سنگ میل غلام مرتضیٰ راہی

جناب رونق شہری نے  راہی کی غزل کے  حوالے  سے  تحیر کا  جو موضوع اٹھایا ہے  وہ ان کی شاعری کا  اہم ترین جوہر ہے  یہ سلسلہ ان کے  یہاں  غالب کے  یہاں  سے  وابستہ ہے  تحیر کے  حوالے  سے  اگر دیکھیں  تو آفاقی جمالیات اور زمانی تصور دونوں  سامنے  آتے  ہیں۔ یہ کائنات چونکہ اسرار سے  بھری ہوئی ہے  اس لئے  یہاں  صرف تحیر ہی تحیر ہے  ہم اس کائنات کے  اس حد تک عارف ہیں  بس ہمارا تجربہ اسی حد تک ہے۔ میر تقی میر کا ’’حیرتی ہے  یہ آئینہ کس کا ‘‘، غالب کا  ’’طوطی کو شش جہت سے  مقابل ہے  آئینہ‘‘ اس سلسلے  کی کڑیاں ہیں  اور یہ سلسلہ غلام مرتضیٰ راہی جیسے  فنکار تک پہونچتا ہے۔ بیدل نے  کہا ہے  کہ کائنات ایک نقش حیرت ہے  اس کے  مناظر سے  آنکھ مسلسل آبشار حیرت میں  غسل کرتی رہتی ہے  ایک تحیر ہے  ایک تماشا ہے  جو مسلسل جاری و ساری ہے 

نزاکت ہاست در آغوش مینا خانۂ حیرت

مژہ برہم مزن تابشکنی رنگ تماشا را

          غلام مرتضیٰ راہی کے  یہاں  بھی بہت تحیر ہے  وہ کائنات کے  اسرار میں  غواصی کرتے  ہیں  کیونکہ یہ ان کی فطرت کا  تقاضہ ہے  لیکن جو گوہر آبدار ان کے  ہاتھ آتا ہے  وہ ایک جہانِ حیرت ہوتا ہے  وہ اس کے  طلسم میں اسیر ہوتے  ہیں  سربستہ منظروں  کو فاش کرنے  کی کوشش کرتے  ہیں  اس صورت میں  وہ بکھرتے  بھی ہیں  پھر خود کو سمیٹ کر سفر شروع کرتے  ہیں  وہ سبک ساران ساحل میں  سے  نہیں ہیں  شناوری ان کی فطرت ہے  اس لئے  ان کا سفر جاری ہے  :

عجیب دشت ہوں میں  بھی کہ ایک اک ذرہ

اڑائے  پھرتا ہے  مدت سے  دربدر مجھ کو

 

ابل پڑا یک بیک سمندر تو میں نے  دیکھا

کھلا جو راز سکوت لب پر تو میں  نے  دیکھا

 

ہوا ہوں  جب سے  میں  صحرا کی وسعتوں میں گم

غبار اٹھا ہے  نہ کوئی سوار نکلا ہے

          اس سلسلے  میں  ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی کی رائے  بے  حد مبسوط اور وقیع ہے  :

          ’’انکشاف ذات اور فرد و کائنات کے  درمیان نئے  رشتوں کی دریافت کے  عمل نے  بیسویں  صدی کی ساتویں  دہائی میں  ایک نئے  طرز احساس کو جنم دیا جس کی بدولت اردو شاعری بالخصوص غزل ایک نئے  زاویے  سے  روشناس ہوئی علامت اور استعارے  کی نوعیت یکسر بدل گئی وہی غزل جو ولی سے  لیکر فراق تک ایک خاص لہجے  سے  مانوس تھی اس کا  رنگ اور آہنگ اس کا منظر نامہ کچھ کا کچھ نظر آنے  لگا۔ یہ تبدیلی اتنی فطری اور نا گزیر تھی کہ ذہین قاری نے  اسے  خوش آمدید کہا اور اسے  بہت جلد درجہ استناد مل گیا مگر اسے  اردو زبان کی بدقسمتی سمجھئے  یا غزل کی تعمیر میں  کوئی خرابی کی صورت مضمر ہے  کہ غزل کا یہ نیا طرز بھی دیکھتے  دیکھتے  پامال ہونے  لگا نئی لفظیات کے  میکا نیکی وغیرہ تخلیقی استعمال نے  ایک ایسی نام نہاد نئی غزل کو جنم دیا جو بے  جان اور نچوڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے  رسالوں  کی ورق گردانی کیجئے  ہر طرف چھلکوں کے  ڈھیر لگے  ہوئے  ہیں۔

          اس طوفان بد مذاقی میں  چند ہی ایسے  شاعر ہیں  جن کا چہرہ پہچانا جا سکتا ہے  غلام مرتضیٰ راہی اس اعتبار سے  ہماری توجہ کے  مستحق ہیں  انہوں نے  اپنے  ذاتی تجربے  پر بھروسہ کیا اور اسلوب کو اپنی فکر سے  علاحدہ رکھنے  کے  بجائے  اس کے  صحیح امتزاج پر نظر رکھی راہی کی غزل میں  تہہ داری اور فکری دبازت ملتی ہے  اور ان کے  لہجے  کی تازگی ان کے  تخلیقی عمل کا  ایک فطری نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔

                 

میں  ترے        واسطے      آئینہ     تھا

 اپنی   صورت   کو  ترس   اب   کیا    ہے 

         

کچھ    تمہارا     پتہ     نشاں     تو    ملے 

اپنی   جگہ     سے     دھول     اڑاؤ

           

پتہ  نہیں   کہ  وہ  پتھر تھا، پھول تھا، کیا تھا

جدھر سے   آیا  تھا  میں   نے  ادھر  اچھال  دیا

         

کن  قدموں    کی   چاپ   ملا  کر تی  تھی

سارا  منظر  آنکھ   سے    اوجھل   تھا   جب

         

مری  بساط  ہی کیا  ہے   مگر  نہ  جا نے  کیوں 

وہ  معرکے  کی  طرح  کر  رہا  ہے   سر  مجھ کو

راہی کے شعری مجموعوں لا کلام ولا شعور کے نئے شعری افق

اکیسویں  صدی کے  طلوع ہونے  سے  کم و  بیش پچیس سال قبل ہی ایک گہری شفق ماہ و سال کے  افق بیکراں  پر پھیل چکی تھی۔ ایک جوالا مکھی تھا جس کے  شعلوں  کے  رنگ لمحات کے  آئینوں میں  نمودار ہونا شروع ہو چکے  تھے۔ وقت کا  قافلہ بہت تیزی سے  رواں  تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا گویا کوئی اہم ترین واقعہ رونما ہونے  والا ہے  یا کوئی ایسا منظر طلوع ہونے  والا ہے  جو اس سے  پہلے  دیکھا نہ گیا ہو گا اور جس کی چمک آنکھوں  کو خیرہ کر دے  گی۔ لمحات کی تیزی گام تمام منازل کو قطع کرتی چلی جا رہی تھی پوری کائنات اس سے  متاثر تھی۔ لازم تھا کہ حساس و دور بین اذہان بہت کچھ محسوس کر رہے  تھے  دیکھ رہے  تھے  ان میں  ادبی جہانوں کے  درخشاں آفتاب بھی تھے  چنانچہ اگر غلام مرتضیٰ راہی کے  دو شعری مجموعوں لا کلام ولا شعور کا گہرائی سے  مطالعہ کیا جائے  تو وہ سب کچھ ملے  گا جو اکیسویں  صدی کی آمد سے  کچھ برسوں پہلے  وقوع پذیر ہو رہا تھا۔ لا شعور ان کی پانچویں  شعری کتاب ہے  جو۲۰۰۶ء میں  شائع ہوئی اس میں  انہوں  نے  لکھا بھی ہے  ’’اکیسویں  صدی کی غزلیں ‘‘ لیکن لا کلام جو ۲۰۰۰ء میں  شائع ہوئی تھی اسے  بھی اکیسویں صدی سے  الگ کر کے  نہیں  دیکھا جا سکتا اس لئے  بیسویں  صدی کے  اختتامی لمحوں  اور اکیسویں  صدی کی آغاز یہ ساعتوں کے  تناظر میں  جو کچھ انقلاب پذیر ہو رہا تھا وہ ان دونوں  کتابوں میں  غزل کے  حوالے  سے  بیان کیا گیا ہے۔ لا کلام پر تو مشاہیر اپنی رائے  دے  چکے  ہیں  لیکن بہ استثنائے  چند زیادہ تر لوگ ان تمام جہانوں کو منکشف نہیں  کر سکے  ہیں  جو راہی کی غزلوں میں  سانس لے  رہے  ہیں۔ میں  چاہتا ہوں  کہ ان کے  اس کلام کا  تجزیہ کیا جائے  تاکہ پتہ چلے  کہ شاعر شعور و افکار کے  کس مینارِ بابل پر قیام پذیر ہے  اور وہاں  سے  اپنے  گرد و پیش پھیلی ہوئی دنیا کو کس طرح دیکھ رہا ہے  اور دور افق پر شعلہ خیز شفق ایام کے  پھٹتے  ہوئے  آتش فشاں میں  وہ کن کن مناظر کا  نظارہ کر رہا ہے۔ میں  نے  کئی سال پہلے  لا کلام پر تبصرہ کرتے  ہوئے  یہ اشارے  دئیے  تھے  :

          ’’آفریدہ ونا آفریدہ زمانوں کو سمیٹتی ہوئی راہی کی غزل اپنے  عہد سے  مکالمہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے  اس طرح جب وہ ایک اکا ئی کی شکل میں  ابھرتی ہے  تو عصری مکالمہ بن جاتی ہے  اور ہر عہد کے  ساتھ سفر کرتی ہے۔ ان کے  معاصرین کے  فکری آبشار یا تو اب سست روی میں مبتلا ہیں  یا پھر ٹھہر گئے  ہیں  لیکن اس کے  علی الرغم راہی کے  یہاں  ایسا نہیں ہے  ان کی غزل گزرتے  ہوئے  لمحوں کی مزاج داں  ہے  اور یہی اس کی سرشت کہ تمام زمانوں کو اپنے  اندر جذب کر لیتی ہے  اور ہر لفظ سے  آئندہ زمانوں کی تصویروں کا  انعکاس ہوتا ہے۔ یہ اشعار توجہ طلب ہیں :

 

کہیں  دیوار کو کھولا کہیں  در باز کئے

تب کہیں  روشنی گھر آنے  کو تیار ہوئی

 

ملی راہ وہ کہ فرار کا  نہ پتہ چلا

اڑا سنگ سے  تو شرار کا  نہ پتہ چلا

 

رہی سوا مری منزل ہر اک تعیّن سے

کہیں  پہ ختم میں  اپنا سفر نہ کر پایا

میں نے  یہاں  مثال میں جو اشعار پیش کئے  ہیں  ان میں  بیسویں  صدی کی بجھی ہوئی راکھ میں  چنگاریاں تلاش کرنے  کا عمل توہے  ہی وہ لمحات جو اپنے  مرکز سے  طوفانوں  کی طرح اٹھے  تھے  لیکن وقت کی گرد میں  گم ہو چکے  ہیں  مگر شاعر کا سفر جاری ہے  اس کی فکر بہت تیزی سے  اکیسویں صدی کی طرف رواں ہے  اس کے  سامنے  نئی صدی کی درخشاں  دہلیز ہے۔ اسے  پھلانگ کر وہ ایک نئے  عہد میں  داخل ہونے  کے  لئے  بیقرار ہے۔ میں نے  یہ بھی اشارہ دیا تھا کہ ایسا نہیں سوچنا چاہئے  کہ راہی کی غزل اپنے  نقطۂ منتہا کو پہونچ چکی ہے  بلکہ وہ ہر لمحہ نئے  پیرہن میں  نمودار ہو رہی ہے۔ اس کا  رشتہ اپنے  ماضی سے  وابستہ ہے  مگر وہ طلوع ہونے  والے  زمانوں  کے  خدوخال پڑھنے  کے  ہنر سے  واقف ہے۔ ایسے  خدوخال جن میں  بے  حد تازگی اور کھلاوٹ ہے  راہی پہلے  بھی اس میدان کے  شہسوار تھے  اور آج بھی ہیں۔ وہی طمطراق اور طنطنہ وہی اسلوب اور وہی جلال لیکن مجھے  یہ کہنے  میں  کچھ باک نہیں ہے  کہ جب لا شعور میرے  زیر مطالعہ آیا تو میں  نے  اس میں  پوری اکیسویں  صدی کے  منظر نامے  کو دیکھا اور اس کا  ذکر میں  آئندہ صفحات میں  کروں گا۔ میں  یہاں  وہ اشعار پیش کر رہا ہوں جو بیسویں صدی کے  اختتامی لمحوں میں  لکھے  گئے  تھے  لیکن جن سے  اکیسویں صدی کے  مناظر قطرہ قطرہ خاکدانِ حیات میں  تراوش کر رہے  ہیں  اور اس تراوش کی گونج واضح طور پر سنائی دیتی ہے  :

تعبیروں  سے  بند قبائے  خواب کھُلے

مجھ پر میرے  مستقبل کے  باب کھُلے

 

جب آگ میں  ہم پنہ گزیں  تھے

اشجار کو برف ڈھک رہی تھی

 

تاخت و تاراج کے  دیکھے  گئے  منظر کیا کیا

قہر ڈھاتے  رہے  ساحل پہ سمندر کیا کیا

 

کھنڈر سے  ہوکے  محل تک رسائی تھی میری

گئے  زمانے  کی منزل کا  وہ نشاں  تھا بہت

 

کہیں  شجر کہیں  سبزہ اُگا لیا اس نے

شناخت ہو گئی دشوار مجھ کو صحرا کی

 

جھانکتا بھی نہیں  سورج مرے  گھر کے  اندر

بند بھی کوئی دریچہ نہیں  رہنے  دیتا

ان اشعار میں  ماضی کی نوحہ گری نہیں ہے  بلکہ آئندہ زمانوں کے  شعلہ ہائے  جوالہ کا  پیچ و تاب ہے۔ ان میں  سے  بہت کچھ وہ بھی ہے  جو ابھی  نمودار نہیں ہوا ہے  مگر آئندہ ماہ و سال میں یقینی طور پر وہ بساطِ وقت پر ظہور پذیر ہو گا اور اس وقت کی موجودہ نسلیں  اسے  دیکھیں گی کیونکہ شاعر نے  جہانِ گزراں کے  آئینے  میں  جن تصویروں کو منعکس ہوتے  ہوئے  دیکھا ہے  اس حوالے  سے  اس نے  بات بھی کی ہے۔ یہاں  شاعر کا  وجود نظیری کے  اس شعر کے  مترادف ہے۔

پروانہ ایم شعلہ بود آشیان ما

آب از شرار سنگ خورد گلستانِ ما

ڈاکٹر سراج اجملی نے  راہی کی غزل کے  حوالے  سے  دلچسپ اور متاثر کرنے  والی باتیں  کہی ہیں  :

          ’’غلام مرتضیٰ راہی کے  اشعار پر غور کرنے  سے  پتہ چلتا ہے  کہ انسان کے  ازلی مسائل زندگی کے  حوالے  سے  اس کے  تصورات و تعصبات راہی کے  منفرد اسلوب میں  کس طرح جدید محاورے  اور غزل کے  لباس میں  قرطاس کی زینت بنے  ہیں  فطرت انسانی میں  نا آسودگی پریشان خیالی ثابت قدمی اور ارادے  کا  اٹل ہونا وغیرہ متضاد جذبات بیک وقت جس طرح موجود ہوتے  ہیں  اور وقتاً فوقتاً جس طرح ان کا  اظہار معاشرے  میں  مختلف کرداروں کو پیدا کرتا ہے  پھر اس سے  جو کیفیات ظاہر ہوتی ہیں  جس طرح کے  معاملات و مسائل درپیش آتے  ہیں  ان کی روح تک پہونچنا اسے  تخلیقی تجربے  میں  ڈھالنا اور پھر ان سب کو غزل کے  پیرائے  میں  بیان کرنا راہی کی اپنے  عہد سے  تخلیقی وابستگی کا  بین ثبوت ہیں۔ ترقی کی مختلف صورتوں کا  سامنا کرتے  ہوئے  ’’شد پریشاں  خوابِ من در کثرتِ تعبیرہا ‘‘ والی صورت کو نہ صرف محسوس کرنا بلکہ اس کا تخلیقی اظہار بہت خوبصورت پیرائے  میں  اپنے  عہد کے  جس تخلیق کار کے  یہاں  نظر آتا ہے  اس کا  نام غلام مرتضیٰ راہی ہے۔ ‘‘

          ڈاکٹر سراج اجملی کی یہ رائے  ان تمام زمانوں کو سمیٹتی ہے  جو راہی کے  غزلیہ اشعار میں  سانس لیتے  ہیں  اس تقویم میں  عصر رواں  بھی ہے  وہ زمانے  بھی جو ابھی پیدا نہیں ہوئے  اور ان کے  کچھ نام بھی نہیں ہیں۔

          اس عہد میں  جبکہ تمام تہذیبی اقدار جن سے  انسانی شعور کی رفعت و عظمت مترشح ہے  حنوط شدہ لاشوں کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ راہی نے  اپنے  کلام کے  ذریعہ بیداری پیدا کرنے  کی کوشش کی ہے  انہوں نے  مظاہر فطرت کے  حوالے  سے  بات کی ہے  تاکہ عزم و عمل کی روشنی بھی پیدا ہو سکے  انہیں  اس بات کا  احساس ہے  کہ سب کچھ تباہ و برباد ہو رہا ہے  وقت کے  کہنہ مقبروں میں  ان اقدار کو دفن کیا جا رہا ہے  جن سے  انسانیت عبارت تھی۔ اب صورت حال یہی ہے  کہ لوگ اس طرح کی باتوں  کا  ذکر کرتے  ہیں  کہ کبھی ایسا ہوا کرتا تھا اب اس پر عامل کوئی نہیں ہے۔ سرکشی غرور انا نمائش اپنی انتہا کو ہے۔ صارفیت کے  اس دور میں  اصل انسانی قدروں کی تبلیغ و تشہیر کرنا کس قدر مشکل ہے۔ جہاں  یہ صورتِ حال ہے  کہ کس کس کی پرستش کی جائے  ہر شخص تو خدا ہونے  کا دعویٰ کرتا ہے  اس صورتِ حال میں  جب چاروں طرف اقدار کش دبیز دھند پھیلی ہوئی ہے  اپنا راستہ تلاش کرنا مشکل ہے۔ وہاں  شاعر اس طرح کی بات کرے  جس کو لوگ توجہ سے  سنیں  اور دیکھیں  کہ کس طرح تازہ کٹے  ہوئے  لمحوں  سے  زندہ خون ٹپک رہا ہے  :

 

عرفان و آگہی کی یہ ہم کس ہوا میں  ہیں

جنبش تک اس کے  پردۂ اسرار میں  نہیں

 

تڑپتا تلملاتا رہتا ہوں  دریا کی مانند

پڑی ہے  ضرب احساسات پر کاری سی کوئی

 

یہ شیشہ گر اسی انسان کے  نسب سے  ہے

جو پتھروں  کے  زمانے  میں  کامراں  تھا بہت

 

مزے  سے  پیڑ کے  نیچے  گزر رہے  تھے  دن

ہمارے  واسطے  پتوں  کا  سائباں  تھا بہت

 

ہے  آبگینۂ احساس پارہ پارہ مرا

انہیں  جھروکوں  سے  دیکھو گے  تم نظارہ مرا

 

علم کی طرح لئے  جا رہی تھی کوئی سپاہ

قلم کیا ہوا دستِ ہنر اٹھائے  ہوئے

بشر تھے  شاخوں  پہ پتوں کی طرح آویزاں

رواں  تھے  جوش میں  دریا شجر اٹھائے  ہوئے

 

اب ان کی آب و تاب سے  گھٹنے  لگا ہے  دم

گدڑی مری ادھیڑ کے  لعل و گہر نکال

 

سب کچھ ہے  میرے  ہاتھ میں  راہی مگر میں  خود

باہر ہوں  اپنے  دائرہ اختیار سے

          یہ اشعار ایک عظیم و بسیط آئینے  کی طرح ہیں  جو بلندی پر نصب ہے۔ اپنے  گرد و پیش کے  منظروں کو سمیٹنے  کا کام تو کر رہی رہا ہے  لیکن ان خدوخال کی بھی نمائش کر رہا ہے  جو اس کے  سینے  میں  محفوظ ہیں  اور ادھر بھی اشارے  کر رہا ہے  جو  نمودار ہونے  والے  ہیں  جس طرح لا کلام میں  شامل تمام کلام عہد گزران و آئندہ دونوں  کو پیش کرتا ہے۔ بیسویں صدی کیسی تھی اب وہ تاریخ کے  صفحات میں  محفوظ ہے  لیکن جنہوں نے  اسے  اپنی آنکھوں  سے  دیکھا اس کا مکمل مشاہدہ و مطالعہ کیا وہ شاذ و نادر ہی ملیں گے  لیکن وہ منظر نامے  جو صفحۂ قرطاس کے  حوالے  کئے  گئے  یاوہ مناظر جو آئینوں نے  سمیٹ لئے  وہ ہمیں  بتاتے  ہیں  کہ ایک بحر پُر آشوب تھا جس میں  پوری نسل انسانی ڈوبتی اور ابھرتی رہی یہ سفینہ ایسے  ناخداؤں کے  ہاتھ میں تھا جن کے  پاس اُن کے  اپنے  مفادات تھے  انسانی نسل کو تو وہ محض کھلونے  کے  طور پر استعمال کرتے  تھے  جس طرح ٹرائے  کی جنگ دیوتاؤں  کی آپسی رسہ کشی کا نتیجہ تھی۔ بغض و حسد، انتقام و بدکاری ان کا  طرۂ امتیاز تھا اور ٹرائے  کے  فاتحین یونانی سورما جب اپنے  گھروں کو واپس آ رہے  تھے  تو ان کے  ساتھ دیوتاؤں نے  کیا کیا سلوک نہیں کئے۔ بالکل یہی صورتِ حال بیسویں  صدی کی تھی حساس انسانوں  کی فکر ان لمحات میں  خاموش نہیں  بیٹھتی ہے۔ پھر ایک شاعر جو اپنے  دور کے  ماہ و سال ساعت و آنات کو سمجھنے  کا کام کرتا ہے  وہ اس سے  متاثر ہوئے  بغیر نہیں  رہ سکتا۔ غلام مرتضیٰ راہی جو بیسویں  صدی کے  نصف اول کے  آخری حصے  میں  پیدا ہوئے  تھے  انہوں نے  کم   و بیش بیسویں صدی کو نصف سے  زیادہ خود اپنی آنکھوں  سے  دیکھا گزرے  ہوئے  لمحوں کے  مزاج، انسانوں  کے  غرور و تمکنت کو تاریخ کے  حوالے  سے  جانا۔ سرکشی، تمرد، تعلق، تملق اِن تمام کیفیات کو بیسویں صدی کے  حوالے  سے  محسوس کیا اور انہیں  اشعار میں ڈھالا کیونکہ قدرت نے  انہیں  یہی پیرایۂ اظہار ودیعت کیا تھا اور وہ اس میدان کے  شہسوار تھے۔ رشید افروز نے  اپنے  مضمون میں  اس طرف ہلکا سا اشارہ بھی کیا ہے  :

          ’’لا کلام کی غزلیں  ماندگی اور جمود کا وقفہ گزارنے  کے  بعد اور آگے  چل نکلنے  کی خبر دیتی ہیں۔ ان کا شعری کینوس پہلے  سے  کہیں  زیادہ وسیع نظر آتا ہے۔ فکری دبازت اور تہہ داری بھی پہلے  سے  کہیں  زیادہ ہے۔ اظہار میں  رچاؤ اور پختگی بھی پہلے  سے  سوا ہے۔ ‘‘

          رشید افروز نے  کچھ اس طرح کے  اشعار بھی مثال میں  پیش کئے  ہیں :

 

اک ذرے  میں  سمائی ہوئی کائنات ہے 

وسعت کو میری دیکھ مرا اختصار دیکھ

 

بجائے  نقشِ قدم آب و دانہ چھوڑ آیا

کہ مجھ کو ڈھونڈنے  والوں  کو سبزہ زار ملے

 

اے  مرے  پایاب دریا تجھ کو لیکر کیا کروں

ناخدا، پتوار، کشتی، بادباں  رکھتے  ہوئے

 

نکالا کا نٹے  سے  کا نٹا کسی طرح ہم نے

چبھے  تھے  دونوں  مگر ایک مہرباں  ٹھہرا

 

          لا کلام کے  حوالے  سے  نئے  شعری افق کی بات چل رہی ہے  تو کرشن کمار طور کی یہ رائے  بھی پیش نگاہ رکھنی چاہئے  :

          ’’غلام مرتضیٰ راہی نے  اپنے  آئینۂ احساس سے  محرکات کی جو رمز سازی کی ہے  وہ نہ صرف فعال ہے  بلکہ ان کے  شعری ارتکاز کی ایک نادر مثال بھی ہے۔ انہوں  نے  بلند آہنگ غزلیہ تفکر کے  بجائے  سامنے  کی علامتوں  استعاروں سے  اپنے  اشعار کی تخلیق کی ہے  اور اسے  براہ راست اپنے  پڑھنے  والوں کے  سامنے  پیش کر دیا ہے۔ ایسا کرنے  میں  ان کے  اور ان کے  قاری کے  درمیان ایک خاص قسم کا ذہنی اور قلبی رشتہ استوار ہو جاتا ہے۔ ان کی شعری ملکیت ان کی اندرونی قلبی واردات میں  قاری ان کی مشترک وراثت کا  حصہ دار بن جاتا ہے  اور وہی شاعر کر سکتا ہے  جو انسانی رفعت اور جذباتی قدروں کو احترام کی نظروں سے  دیکھتا ہے۔ غلام مرتضیٰ راہی کے  یہاں  اپنے  قرب  و جوار کے  مظاہر واقعات اور حالات سے  شعر اخذ کرنے  کی جو قوت متخیلہ موجود ہے  وہ انہیں  اپنے  ہم عصر شعرا میں  ایک ممتاز فوقیت عطا کرتی ہے۔ یہ کشف عصری وسیلے  سے  ہی ان کے  یہاں  موجود ہو پایا ہے  اور ایسے  شعروں کے  نزول کا  باعث بنا ہے  :

اگلا سا مجھ میں  شوق شہادت نہیں  اگر

پہلی سی کا ٹ بھی تری تلوار میں  نہیں

 

رسم باقی رہے  غم خواری کی

آ مری آگ میں  جل جا تو بھی

          میں نے  ابتدا میں  ہی عرض کیا تھا کہ لا کلام میں  شامل تمام شاعری پر مشاہیر ادب اپنی رائے  دے  چکے  ہیں  مگر ان میں سے  چند کی ہی آرا غلام مرتضیٰ راہی کے  طلسم فکر کو وا کرتی ہیں  گویا اس طلسم کی لوح سب کے  پاس نہیں ہے۔ چند ہی رندانِ قدح خوار ہیں جو اس فرقۂ زہاد سے  کامل اٹھے  ہیں۔ حالانکہ لا کلام میں  شامل ان کے  ایک شعر نے  یہ بتایا ہے  کہ کس طرح ان کی شاعری تیزی سے  قطع منازل کرتی ہوئی اکیسویں  صدی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ شعر دیکھئے :

اب انتظار کے  دن ختم ہو گئے  راہی

گلے  لگائے  گی اکیسویں  صدی مجھ کو

          غلام مرتضیٰ راہی کا  پانچواں  شعری مجموعہ لا شعور ۲۰۰۶ء میں  شائع ہوا ہے  اس لئے  اس پر ابھی تک خاطر خواہ آرائے  گرامی نہیں  آئی ہیں  چنانچہ اس مجموعے  میں  شامل غزلوں  پر تفصیل سے  منفرد انداز میں  کلام کیا جا سکتا ہے۔ راہی کی غزل روح عصر سے  کس حد تک مکالمہ کرتی ہے  اور وہ کون سے  جہانِ تازہ ہیں  جن کی دید و دریافت کر رہی ہے  وہ کون سے  نئے  افق ہیں  جنہیں  شاعر کی نگاہ نے  تلاش کیا ہے  اور یہ کہ مسلسل پھٹتے  ہوئے  شفق کے  جوالہ مکھی سے  کس طرح کے  پھول پیدا کئے  ہیں  یعنی آتش کدۂ نمرود کو گلزار ابراہیم بنایا ہے۔ اس سلسلے  میں  میں  ایک ہلکا  سا اشارہ گذشتہ صفحات میں  بھی کر چکا  ہوں۔

          چونکہ لا شعور کے  آغاز میں  ہی درج ہے  ’’اکیسویں صدی کے  غزلیں ‘‘اس لئے  لا شعور میں  شامل غزلوں میں  عصری مکالمے  کی تلاش لازم ہو گی۔ اس سے  پہلے   میں  رفتہ و موجودہ صدی کے  تعلق سے  کچھ عرض کروں گا تاکہ میں  اپنے  اصل موضوع سے  کلام کر سکوں  اور اس سفینے  کو ساحل تک لے  جا سکوں۔

          اس بات سے  کس کو انکار ہو سکتا ہے  کہ اکیسویں صدی وقت کی قوس قزحی بساط پر قدم نہیں  رکھ چکی ہے  لیکن میں  کہنا چاہتا ہوں  کہ اس کی تیزی گام مسلسل منزلوں  کو قطع کرنے  میں  مصروف ہے  لیکن درحقیقت وہ ایک طفل شیر خوار کی طرح گہوارے  میں  پڑی ہوئی ہے۔ لیکن اس کے  چہرے  پر قرنوں کی سنجیدگی ہے  ایسی سنجیدگی جو گلاب کی طرح تر و تازہ ہے  مگر خون میں  بھیگی ہوئی مشعلوں کی طرح روشن ہے۔ ہوتا یہ ہے  کہ ہر رفتہ صدی اپنے  عقب میں  سوالات کا  ایک انبار عظیم چھوڑ جاتی ہے  جو آئندہ صدی کے  افق پر طلوع ہونے  والی نسلوں کا سرمایہ ہوتے  ہیں  اور انہیں  نسلوں کو ان سوالوں  کے  جوابوں کا حق ادا کرنا ہوتا ہے۔ جس طرح رفتہ صدی میں  ظہور پذیر ہونے  والی نسلوں  نے  اپنی پس رو صدی کے  سوالات کا  حل تلاش کیا تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے  کہ جوابات تلاش کرنے  کا دورانیہ مزید سوالات کو جنم دیتا ہے  اور پھر کتنے  ہی سوالات تشنۂ جواب رہ جاتے  ہیں  اور وہ صدی زمان و مکا ں کے  صحرا میں  روپوش ہو جاتی ہے۔ ابھی کچھ ہی دنوں  پہلے  بیسویں صدی ہم سے  رخصت ہوئی ہے  لیکن ہمارے  سامنے  رقصاں  و متحرک سوالوں کا  ایک ہجوم ہے۔ سوالات جو دربدر ٹھوکریں کھا رہے  ہیں  اور جواب ان سے  مجرم کی طرح گریزاں ہیں۔

          ان تمہیدی سطور کی ضرورت یوں  پیش آئی کہ لا شعور کی شاعری میں  غلام مرتضیٰ راہی نے  جن تازہ فکری افقوں کی بشارت دی ہے  وہ اکیسویں صدی کے  آئندہ برسوں  میں طلوع ہونے  والے  ہیں۔ راہی اپنے  اشعار کے  توسط سے  جن لمحوں  کے  بند قبا کھول رہے  ہیں  مستقبل انہیں  لمحوں سے  تشکیل پائے  گا ان کے  چہروں  پر لہو کا  غازہ کس حد تک درخشاں  اور تابناک ہو گا۔ اس طرح کا  احساس ہوتا ہے  خاص طور پر اس منظر نامے  میں  جب بیسویں صدی کا آفتاب بالائے  بام پہونچ کر ایک ٹھیکرے  کی طرح وقت کے  تاریک سمندرمیں  گم ہو چکا  ہے  لیکن مابعد غروب کی شفق ابھی مغربی افق کے  حاشیوں  پر پھیلی ہوئی ہے  اور اس خاکستر احمریں  کو چھاننے  پھٹکنے  اور پچھورنے  کا کام شروع ہو چکا  ہے  اور یقینی طور پر اکیسویں صدی کی کوکھ میں  کلبلاتی ہوئی نسلوں  کو اپنی آخری سانس تک خود کو اس کام میں مصروف رکھنا ہو گا۔ یہ اشعار قابل توجہ ہیں :

 

پل پل کی میں  روداد رقم کرتا چلا جاؤں

صدیوں کے  لئے  خود کو بہم کرتا چلا جاؤں

 

پاؤ گے  نہ اُور چھور میرا

میں  ذرۂ کائنات کتنا

 

بن کر مرا رگ رگ میں  ابھی دوڑنے  لگ جائے

بہتا ہے  وہی خون تو میرا نہیں  لگتا

 

اس کے  پیچھے  اس سے  بڑھ کر اک انسان

آگے  آگے  اک خونخوار درندہ ہے

 

تمازت چاند سے  دن بھر چھنی ہے

شعاعِ مہر شب میں  چاندنی ہے

 

در پئے  امن بھی رہیں  گے  ہم

جنگ کی بھی کریں  گے  تیاری

 

ترتیب سے  حسن ہے  جہاں  کا

اک چیز ادھر ادھر نہیں  ہے

 

          راہی کے  یہاں  گہرا مشاہدہ توہے  ہی اس سے  بڑا کارنامہ اس مشاہدے  کو شعری پیکر دینا ہے۔ دنیا اکیسویں صدی کے  ان آغاز یہ لمحوں میں  تاریخ ارتقائے  تہذیب انسانی کے  اس موڑ پر کھڑی ہے  جہاں اعلیٰ اخلاقی علوم و فنون زمین کی دبیز تہوں  میں  دفن ہوتے  جا رہے  ہیں۔ تاریخ خود کو مرتب کر رہی ہے  لیکن یہ عمل سسک سسک کر پورا کیا جا رہا ہے۔ عظیم حکمراں  طاقتیں  جارحیت پر آمادہ ہیں  وہ تمام اقدار و تہذیب کو نگل لینا چاہتی ہیں۔ صارفیت زندگی کا  اہم ترین جزو بن چکا  ہے  صنعتی نظام نے  تمام اخلاقی اقدار کو تباہ کر دیا ہے۔ لمحاتی لذت کے  لئے  انسان اپنے  جسم کو بیرونی نشہ آور اشیاء سے  سرشار کرنے  کے  شوق میں  مبتلا ہے۔ جس امن جس تہذیب جس اخلاقی ارتفا کی بات کی جاتی ہے  اس کا  کہیں  دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ ذہنی کرب کا  ایک تسلسل ہے  اور ہونا بھی چاہئے  کیونکہ ایک حقیقی فنکار وقت کے  ہولناک گرداب میں خس بے  مایہ کی طرح مسلسل گردش کرتا رہتا ہے۔ ماضی و حال کے  مناظر سے  اخذ و اکتساب کئے  جانے  والے  اضطراب کی پرچھائیاں  جس قدر پہلے  پراسرار اور شدید نہیں  ہوتی ہیں  جیسی کہ اس وقت جب ذہن کی بساط پر مستقبل کے  مناظر  نمودار ہوتے  ہیں  اس میں  اندیشوں کی ایک فوج ہوتی ہے  جو قدموں  سے  زمین کو پامال کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان اشعار میں  وہی کرب پوشیدہ ہے  جو لمحۂ گزراں کا بھی ہے  لیکن اس تک محدود نہیں  ہے۔ آنے  والے  زمانوں  پر محیط ہے۔ راہی کا لہجہ صاف ہے  وہ بے حد موثر اور منفرد انداز میں  اپنا تجربہ اپنے  قاری کے  سامنے  رکھتے  ہیں  ان کے  اشعار میں  بقول بیدلؔ ایسا کچھ نہیں  ہے  :

گر جستجوئے  ما نہ کشی زحمتِ سراغ

آنجا رسیدہ ایم کہ عنقا نمی رسید

          وہ تمام مناظر کے  دریچوں کو اس انداز سے  کھولتے  ہیں  کہ ان دریچوں  میں  روشن چراغوں کی فصل کھلکھلا کر ہنستی ہوئی نظر آتی ہے  لیکن اس بے  ساختہ اور پراسرار ہنسی میں  محزونی کی گہری لہر بھی ہے۔ گویا وہ بیدل کی زبان میں کہہ رہے  ہوں  :

ستم است گر ہوست کشد کہ بہ سیر سروسمن درا

توزغنچہ کم نہ دمیدہ ای درِدل کشا بچمن درا

ان کے  یہاں  درِ دل کھلا ہوا ہے  ہر لمحہ ایک غنچۂ دمیدہ ہے۔ وہ اپنے  چمن میں  سب کو بلا رہے  ہیں  لیکن یہ سیر گاہ کوئی معمولی نہیں ہے  وہاں  قدم رکھنے  کے  بعد ہی اس بات کا  احساس ہوتا ہے  کہ ہم نے  کہاں  کیا کیا شروع کیا ہے  اور ہمیں  کیا کیا دیکھنا ہو گا۔

دیکھا نہ آتے  جاتے  کسی نے  جنہیں  کبھی

ان کے  بھی نقش پا ہیں  تری رہگزار میں

 

اسی کے  طول سے  نکلے  گے  ماہ و سال مرے

جیا میں  جس کے  سہارے  وہ ایک لمحہ تھا

 

جو کہلائے  حاصل تری زندگی کا

اُسی ایک لمحے  کو تسخیر کر لے

          قدم قدم پر احساس ہوتا ہے  کہ اکیسویں صدی کا  کرب گذشتہ تمام صدیوں  سے  زیادہ ہے۔ ابتدائی لمحوں میں  صورتِ حال یہ ہے  تو پھر جب یہ صدی اپنے  نصف تک پہونچے  گی تو کیا عالم ہو گا۔ دنیا جس انقلاب سے  دوچا رہے  وہ دیدنی ہے  ایسے  میں  ایک حساس مصنف با شعور ادیب چشم گریہ ناک رکھنے  والا فنکار کیا محسوس کرتا ہے  لا شعور کی شاعری اس کی تشریح و توضیح کرتی ہے۔ ماہ و سال جس سرعت سے  فاصلوں  کو قطع کر رہے  ہیں  تہذیبیں  جس طور پر متصادم ہو رہی ہیں  دنیا اپنے  آپ میں  سمٹ کر گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر چکی ہے  یک قطبی نظام کی خواہش توسیع سلطنت کا  جنون، جابرانہ طرز حکومت بہ نام جمہوریت اس عہد کا طرۂ امتیاز بن چکا  ہے۔ نام نہاد جمہوریت جو طبقاتی کشمکش کو مزید فزوں تر کر رہی ہے  انسانی خون کی ارزانی ذاتی مفادات کا  حصول عام ہے۔ خود کو اعلیٰ تہذیبی قدروں کا  امین اور جمہوریت کا علمبردار کہنے  والے  اس قدر وحشی اور سفاک ہیں  کہ ہلاکو اور چنگیز بھی شرم سے  اپنے  منھ چھپائے  ہوئے  ماضی کی دبیز دھند میں لپٹے  ہوئے  پڑے  ہیں۔ دنیا جس اسلوب حیات میں  ڈھلتی جا رہی ہے  اس کے  مناظر راہی کی شاعری میں  صاف نظر آتے  ہیں۔ ظاہر ہوتا ہے  کہ شاعر کی نظر میں  ہر لمحۂ رواں  ایک بحرِ طوفاں خیز ہے  جس میں  گردابوں  کی فصل لہلہا رہی ہے  مگر اس میں غواصی کا عمل بھی جاری ہے  اس کی خبر سبک سارانِ ساحل کو کہاں ہے  لیکن مصائب کی اس پوٹلی میں  کہیں  کسی گوشے  میں  اُمید بھی موجود ہے  جو رہ رہ کر چمک اٹھتی ہے۔ حالانکہ یہ چمک جگنو کی روشنی کی بوند سے  زیادہ نہیں  ہے  مگر اس روشنی ہی میں  شاعر سنگ میلوں کی تنصیب کرتا ہوا چلا جا رہا ہے۔

 

جو اس طرف سے  اشارہ کبھی کیا اس نے

میں  ڈوب جاؤں گا دریا کو پار کرتے  ہوئے

 

اتنی خشکی بھی کہاں  تھی مرے  قدموں  کے  تلے

گھوم پھر کر وہی پانی کا  سفر تھا میرا

 

مہر جب پشت پناہی پہ اتر آیا ہو

اپنے  سائے  سے  کوئی آگے  نکلنے  کا  نہیں

 

آب جو نکلے  ورنہ چنگاری

ضرب تیشہ ہو سنگ پر کاری

 

تو کون ہے  کیا چاہتا ہے  جلد بتا

سب نشہ ترے  آگے  ہرن دیکھتا ہوں

 

گنتی مرے  سانسوں  کی لگاتار بڑھے  گی

جتنی بھی کمک پہونچے  گی یلغار بڑھے  گی

 

کھلی وہ کون سی سرحد نہیں ہے  ان کے  لئے

بنائے  آشیاں  طائر کہاں  نہ رکھیں گے

 

جب اپنے  گھر میں  ہی اپنی انا کو خطرہ ہے

ہم اپنے  پاس یہ جنسِ گراں نہ رکھیں  گے

 

          راہی کے  یہاں  تجربات و حوادث کے  حوالے  سے  بات کرتے  ہوئے  پروفیسر شارب ردولوی نے  ان کی شاعری کا بہتر تجزیہ کرتے  ہوئے  دلچسپ بات کہی ہے۔ ساحر لدھیانوی کا  حوالہ دیتے  ہوئے  انہوں نے  کہا ہے :

          ’’ساحر نے  اپنی شاعری کو زندگی کے  حوادث اور تجربات کی تصویر قرار دیا ہے۔ ساحر کے  عہد اور راہی کے  عہد میں  بہت فرق ہے۔ محسوسات وہی ہو سکتے  ہیں  لیکن حوادث اور تجربات میں  فرق آ جاتا ہے۔ اظہار و بیان کے  انداز بھی بدل جاتے  ہیں  اور خاص طور پراس عہد میں جدیدیت کے  رجحان کے  تحت اظہار و بیان اور زبان دونوں میں  بہت فرق آ گیا ہے۔ اس وقت مرکزیت زندگی کو حاصل تھی جبکہ بعد کے  عہد میں  اس کی جگہ ذات نے  لے  لی۔ زبان بھی تجربات کا شکار ہوئی اس لئے  شاعری کا  منظرنامہ بھی بڑی حد تک تبدیل ہو گیا۔ راہی نے  ان تبدیلیوں کو صرف قریب سے  ہی نہیں  دیکھا تھا بلکہ وہ ان سے  گزرے  بھی تھے۔ اور ان کے  ابتدائی مجموعوں میں  موضوع زبان اور اظہار کے  ان تجربات کی جھلکیاں  دیکھی جا سکتی ہیں  لیکن بعد کی شاعری ان کے  تجربات و حوادث کی ہی رہین ہے۔ جنہیں  وہ بڑی خوبصورتی سے  نظم کرتے  ہیں  کا نٹے  سے  کا نٹا نکالنا صرف ایک واقعہ ہی نہیں  بلکہ زندگی کا  ایسا تجربہ ہے  جس سے  تہہ داری اور معنویت کا  احساس اسی وقت ہو سکتا ہے  جب انسان ان حالات سے  گزرے۔ ‘‘

          عام طور پر یہ کہہ دیا جاتا ہے  کہ جدید غزل کا شاعر یا جدید شاعر صرف اپنی ذات میں  اسیر ہے  خاص طور پریہ ڈھول ترقی پسندوں نے  پیٹا تھا کہ صرف اپنی ذات کے  گرد گھومنا ادب نہیں ہے  لیکن نکتہ یہاں  دوسرا تھا کہ جدید ادب لکھنے  والوں  کے  دو چہرے  نہیں تھے  جیسے  کہ ترقی پسندوں کے  پاس تھے۔ ظاہر ہے  کہ کچلے  ہوئے  انسانوں  اور استحصال میں  مبتلا عوام کے  گیت گانا لیکن خود اپنی زندگی امراء کی طرح بسر کرنا باستثنائے  چند سارے  ترقی پسندوں کا  ایک جیسا حال تھا۔ جدید شاعر اپنی ذات کے  حوالے  سے  ساری کائنات کو دیکھتا ہے  خود اس میں جذب ہو جاتا ہے  اسے  خود میں  جذب کر لیتا ہے۔ اس کا  کرب بنی نوع انسان تک ہی محدود نہیں ہوتا اس لَے  کا  ہمنوا سارا نظام فطرت ہوتا ہے۔ جیسے  کہ لا شعور میں شامل یہ اشعار ہیں جن میں  واحد متکلم کی ضمیر اسی انداز سے  جلوہ ریز ہے  :

 

دریا کی خوشامد نہ کروں  پیاس کے  ہوتے 

ہونٹوں  پہ زباں  پھیر کے  نم کرتا چلا جاؤں

 

چلا تھا کون ملا کر مرے  قدم سے  قدم

وہیں  وہیں  وہ رکا  میں  جہاں  جہاں  ٹھہرا

 

کیا اس سے  سوا مجھ سے  بیاں  حالِ زبوں  ہو

جیسے  مری بستی نہ ہو صحرائے  جنوں  ہو

 

تھا خطرۂ جاں  میرے  کمالات میں  شامل

دیکھا ہے  جو تم نے  وہ تماشا بھی نہیں  تھا

          ان اشعار سے  یہ بات پوری طرح مترشح ہے  کہ جدید شاعر کس طرح اپنی ذات کے  آئینے  میں  سب کچھ دیکھ لیتا ہے  اور وہاں  پوری کائنات موجود ہوتی ہے۔ وہ سب سے  ربط رکھتا ہے  لیکن اپنی عزت نفس اور خود داری کو رائیگاں نہیں کرتا۔ شعر اول میں  جو مضمون پیش کیا گیا ہے  وہ غالب کے  اس فارسی شعر سے  بہت قریب ہے :

تشنہ لب برساحل دریا زغیرت جاں  دہم

موج اگر افتد گمان چین پیشانی مرا

میں نے  شروع میں ہی یہ عرض کیا تھا کہ اکیسویں  صدی کے  بطن میں  ابھی جو کچھ چھپا ہوا ہے  شاعر کی نگاہ اسے  دیکھ رہی ہے  اسے  اپنے  سریع الحس فکر و شعور سے  کئی جہانوں کو اپنی تحویل میں لے  رکھا ہے  اور انہیں  اپنے  اشعار میں متشکل کر کے  پیش کیا ہے  ہر تجربہ ایک نئے  افق سے  پیش ہوتا ہے  اور کائنات کا  ذرہ ذرہ صر ف اس کا  ہمنوا ہی نہیں  بلکہ اس کا  ہمسفر بھی ہے۔ اس طرح شعر کی جہتیں  لا محدود ہو جاتی ہیں  جن سے  ہر لمحہ نئے  مناظر منکشف ہوتے  ہیں  حوادث و تجربات قطرہ قطرہ فکر کی صراحی سے  تراوش کرتے  ہیں  اور شاعر دانے  دانے  بوند بوند کو محفوظ کرنے  کی کوشش کرتا ہے  اس طرح سے  نئے  شعری پیکر ڈھلتے  ہیں  لمحات آئندہ کی ایک جلوہ گاہِ مسلسل ہے  جس میں  کائنات کے  ابتدائے  آفرینش کے  رنگ ہیں  جو گزرتی ہوئی صدیوں ماہ و سال کو خود میں  سمیٹ رہے  ہیں  اور ایک ایسی جاوداں  قوس قزح تخلیق ہوتی جا رہی ہے  جو ناآفریدہ زمانوں  میں  بود و باش رکھنے  والوں کے  لئے  سنگ میل کا کام کرے  گی۔

راہی کی غزل میں تمثال سازی و حواس و عناصر کی رمزیت

غلام مرتضیٰ راہی کی غزل کا تعلق براہ راست زمین اور اس کے  سرمایۂ خوشبو سے  ہے  اس لئے  ان کے  یہاں  حواس و عناصر کی رمزیت بھی خوب خوب نظر آتی ہے۔ اور تمثال سازی بھی۔ انہوں نے  اپنی فکری توانائی کی بنیاد اسی پر رکھی ہے۔ بڑے  شاعر کے  یہاں  اس کی فنی اور ادبی شخصیت ہی دلکش ہوتی ہے  اس کے  اندر وہ تمام کائنات سانس لیتی ہے  جس کا تعلق عام طور پر جہانِ نامعلوم سے  ہوتا ہے۔ یوں  بھی جہانِ معلوم سے  جہانِ نامعلوم بے حد طویل وبسیط ہے  اور حقیقی فنکار کے  یہاں  دنیا ایسی ہی ہوتی ہے  جو عام انسانوں  کی آنکھوں سے  اوجھل ہوتی ہے  اس کے  یہاں  زندگی کے  مختلف رنگ ہوتے  ہیں۔ سورج کی روشنی تالاب کے  پانی میں  منعکس ہوتی ہے  لیکن ایک دن ایسا ہوتا ہے  کہ پانی سوکھ جاتا ہے، سورج کی روشنی کا  انعکاس ختم ہو جاتا ہے  مگر آفتاب کا وجود برقرار رہتا ہے۔ یوں  دیکھیں  تو پانی  نمودار ہوتا ہے  خشک ہو جاتا ہے  لیکن پانی کا سرچشمہ تو اصل میں  آفتاب ہی ہے  وہ ایک خاص لمحے  میں  پانی کو واپس لے  لیتا ہے  پھر جب ضرورت محسوس ہوتی ہے  تو زمین کوسیراب کر دیتا ہے  پھر اس پانی میں  اپنے  خدوخال کا مطالعہ و مشاہدہ کرتا ہے۔ سورج اس کائنات میں  سرچشمۂ تخلیق ہے۔ حواس و عناصر دودمانِ آفتاب کے  ہی اراکین ہیں  اس لئے  وہ مختلف پیکروں  میں  ظہور کرتے  ہیں  اور ان عناصر کا  انسانی حواس سے  چونکہ گہرا تعلق ہوتا ہے  اس لئے  ان سے  تمثال وجود میں  آتی ہیں اور جوفنکاراس دولت سے  مالامال ہوتے  ہیں  ان کے  اس کے  جلوے  واضح طور پر نظر آتے  ہیں  یہ اپنے  آپ میں  ایک الگ دنیا ہے  جو اپنے  تنوع کا پر شکوہ اظہار کرتی ہے۔

          ہمارے  ناقدین نے  تمثال نگاری کے  خدوخال ابھارنے  پر کم توجہ دی ہے  حالانکہ اسے  یورپ میں  ایک تحریک کے  طور پر قبول کیا گیا تھا۔ حالانکہ تمثال کاری تمثال پسندی اور تمثال سازی یہ ایک تثویث ہے  اور اس کی مثالیں  فارسی اور اردو شعراء کے  یہاں  بہت ملتی ہیں  اور یہ بھی شعر کا بڑاحسن ہے  کہ کس طرح شاعر تصویریں  بناتا ہے  اس میں  کیا کیا عناصر شامل ہوتے  ہیں  یہ ایک طرح کی پیکریت ہے  جس کو ناقدین نے  اسی اصطلاح کے  ساتھ استعمال کیا ہے  گویا ہر منظر کے  اندر ایک تمثال پوشیدہ ہے  اسے  باہر لانا ہوتا ہے۔ راہی کے  یہاں  بھی یہ عمل کثرت سے  آتا ہے  تمثال سازی اصل میں  ایک تہہ دار پیچیدہ عمل ہے۔ پیچیدگی دراصل الفاظ کی ہی نہیں  بلکہ معانی کی بھی ہے  جس طرح کہ پردۂ سنگ میں  تصویر پوشیدہ ہوتی ہے  اور بقول مائیکل اینجلو  پتھر کے  فاضل ٹکڑے  نکال دئیے  جاتے  ہیں  شبیہ ابھر آتی ہے  بالکل اسی طرح تمثال سازی بھی ہے  جو لفظ میں  پنہاں ہوتی ہے۔ اس کے   نمونے  اس انداز سے  غلام مرتضیٰ راہی کے  یہاں  دکھائی دیتے  ہیں  جہاں  بقول غالب کوہکن نقاش یک تمثال شیریں  نظر آتا ہے۔ اردواورفارسی شاعری میں  شیریں  فرہاد قیس و لیلیٰ کے  کردار عاشق و معشوق کی شکل میں  نظر آتے  ہیں  ان کے  پس منظر میں  جو واقعات ہیں  ان کو استعاراتی طور پر ہمارے  یہاں  استعمال کرنے  کا خوب رواج ہے۔ لیکن ان کرداروں کا  ایک خاص کلچر تھا جو اب نہیں  ہے۔ اب نہ فرہاد کوہ بے  ستوں  توڑتا ہے  شیریں  کے  وصل کے  لئے  نہ مجنوں  لیلیٰ کے  ناقے  کے  پیچھے  بھاگتا ہے۔ آج کی لیلیٰ ناقے  پر رکھے  ہوئے  محمل پر نہیں  بیٹھتی ہے  آج کا مجنوں  دشت کے  بجائے  شہر میں  رہتا ہے۔ آج کا فرہاد پتھر کاٹنے  کی زحمت نہیں  اٹھاتا کیونکہ اب وصل شیریں  و لیلیٰ آسان ہے۔ لیکن یہ سب کچھ آج بھی غزل میں  موجود ہیں  یعنی عشق کے  معیارات اسی مقیاس و میزان میں  تولے  ناپے  جاتے  ہیں ظاہر ہے  کہ عشق رہے  گا پہلے  بھی تھا اب بھی ہے  بعد میں  بھی رہے  گا تو کیا شیریں  فرہاد لیلیٰ مجنوں  نہیں  رہیں  گے۔ یقیناً انہیں  رہنا چاہئے  ہرچند کہ پیمانے  بدل چکے  ہیں  لیکن اب یہ الفاظ معانی کی نئی نئی تمثالوں کے  ساتھ آ رہے  ہیں۔ اسی معنویت کا نام تمثال کاری و تمثال سازی ہے۔ تمثال پسندی اسی لئے  موجو دہے  کہ بڑے  شاعران الفاظ کو نئے  نئے  معنی پہنا رہے  ہیں  نئی غزل کا  یہ سب سے  بڑا کمال ہے  کہ اس نے  اپنے  شعری پیکر کو ایک تازہ بیان کی لذت سے  آشنا کیا الفاظ کو نئی معنویت دی۔ انہیں  نئی جہتوں سے  آشنا کیا اس کے  طور طریقے  بدلے  فنی بیوہار میں  تبدیلی پیدا کی جو پہلے  نہیں تھی۔ تمثال سازی کے  نئے  طریقے  حواس و عناصر کے  مخفی جہانوں کو کھولتے  ہیں  ضرورت اس بات کی ہے  کہ نئی منزلوں کی تلاش جاری رکھی جائے۔ آج کا  انسان اپنے  ان مقاصد کے  حصول کے  لئے  جو زندگی گزارنے  کے  لئے  بے حد ضروری ہے  رات دن جدوجہد کرتا ہے۔ جو مقاصد شیریں  کے  حصول کے  لئے  تھے  انہیں  حاصل کرنے  کی تگ و دو کرنے  والا آج کا فرہاد مقاصد کا حصول شیریں  کے  لذت وصل کے  لئے  نہیں  بلکہ دیگر دنیا کے  لئے  کرتا ہے۔ میں جب بھی ان باتوں  پر غور کرتا ہوں  راہی کے  یہاں  تمثال سازی کا عمل کثرت سے  پاتا ہوں۔

 

فضائے  دشت بڑی دیر سے  مکدر ہے

پس غبار کوئی قافلہ نہ آتا ہو

 

بلیوں  اچھلا تھا جب چاند نے  ڈالی تھی نظر

میں نے  پتھر بھی جو پھینکے  توسمندر نہ اٹھا

 

قیاس ہے  کہ تہہ سنگ جوئے  شیر ہوں میں

مری تلاش میں  مامور کوہکن ہیں  بہت

 

ترس رہا ہوں  سمندر کی طرح قطروں  کو

صدف پڑے  ہی نہ رہ جائیں  بے  گہر مجھ میں

 

مثالِ سنگ ہوں  میں  اس کی بے  رخی کے  سبب

سراپا آئینہ اس کی توجہات سے  تھا

 

جنوں  سرشت شہر شہر خاک چھاننے  لگے

نظر میں وسعتیں نہ تھیں  کہ دشت بیکراں  نہ تھا

 

پہلے  بھی اپنی جگہ پر تھا نشانہ میرا

گل کھِلاتا رہا کہساروں  میں  تیشہ میرا

          تمثال سازی کے  حوالے  سے  راہی کے  یہاں  طرح طرح کے  پیکر بنتے  ہیں  جو تلازمے  آتے  ہیں ان میں  وحدت کا تاثر ہوتا ہے  تمثال سازی کی بدیہیات میں  یہ بات شامل ہے  جو پیکر بنے  گا وہ بادی النظر میں  لفظوں کا  ہو گا اسکی شریانوں میں  زندگی متحرک رہے  گی۔ اس طرح انسانی وجود کی عظمت کا  اعتراف بھی ہوتا ہے  جہاں  بیدل نے  کہا تھا:

بے  وجود و باہمیں  ہستی عدم خواہد شدن

تادریں  آئینہ پیدا ایم عالم عالم است

غالب نے  بھی اس خیال کو اٹھایا ہے  اور بہت خوبصورت کر کے  پیش کرنے  کی کوشش کی ہے  :

ز آفرینش عالم غرض جز آدم نیست

بگرد نقطہ ما دور ہفت پرکار است

غلام مرتضیٰ راہی کے  یہاں  ایسی تصویریں  بھی ہیں  جن سے  انسانی عظمت کا  پتہ چلتا ہے  :

تشنگی پر مری اس طرح نہ جل پتھر سے

اے  مری جوئے  طلب پھوٹ نکل پتھر سے 

 

لگے  تھے  راکھ کے  انبار میرے  چاروں  طرف

عجیب آگ تھی مجھ میں  کہ میں  دبا نہ سکا

 

بشر تھے  شاخوں  پہ پتوں کی طرح آویزاں

رواں  تھا جوش میں  دریا شجر اٹھائے  ہوئے

 

علم کی طرح لئے  جا رہی تھی کوئی سپاہ

قلم کیا ہوا دست ہنر اٹھائے  ہوئے

 

تبھی اسے  یقین آئے  گا کہ میں  سفر میں  ہوں

مرا گواہ بن کے  جب غبار راہ پیش ہو

          ان اشعار میں  اگر غواصی کی جائے  تو بہت سے  مناظر منکشف ہوتے  ہیں  لیکن سب سے  اہم ہیں  عظمت انسانی کے  طربناک اور شعلہ بار احساسات جس میں  جوئے  طلب سے  کہا جا رہا ہے  کہ پردۂ سنگ سے  باہر آ  مگر پوری روانی اور جلال کے  ساتھ۔ یہ شعر ہمیں  بتاتا ہے  کہ شاعر تشنگی کی سیرابی کے  لئے  عصائے  موسوی کا  استعمال نہیں  کرتا بلکہ وہ چاہتا ہے  کہ جوئے  طلب خود بھی میرے  ہونٹوں  کے  اتصال کیلئے  بیقرار ہو چنانچہ وہ اسے  اذن دیتا ہے  اسے  کامل یقین ہے  کہ وہ عظمت کی ان منزلوں پر ہے  جہاں  جوئے  طلب تو کیا بحر طلب کو بھی اگر وہ حکم دے  توسمٹ کر ایک بوند بن جائے  اور اوس کی بوند اس کے  حکم کی تعمیل میں  ایک بحر بیکراں کی شکل اختیار کر سکتی ہے  دوسرے  شعر میں  انسان کے  اندر پناہ گیر آگ کا ذکر ہے  جس نے  تمام خاشاک عالم کو جلا کر راکھ کر دیا ہے  کیونکہ اس کی آنچ کو قابو میں  نہیں رکھا جا سکتا ہے  اگر وہ پھوٹ نکلے  تو پھر ایک لاوا بنے  گی ایک آتش فشاں بنے  گی جس کی زد میں آ کرسب کچھ راکھ ہو جائے  گا اور ہوتا بھی ہے  کہ ایک آتش دوام جوگہوارۂاحساس میں  غیر فانی آتش کدوں  کی طرح فروزاں ہوتی ہے  وہ دبائے  سے  نہیں  دبتی۔ اس طرح چاروں  طرف پھیل جاتی ہے  کہ انسانی وجود گہوارۂ آتش بن جاتا ہے۔ وہ خود خاکسترتونہیں ہوتا کیونکہ وہ آگ کامسکن ہے  اگر آگ اپنے  مسکن کو جلا دے  گی تو کہاں  بود و باش اختیار کرے  گی۔ تیسرے  شعر میں  اس منظر کو بیان کیا گیا ہے  اس میں  بادی النظر میں  ایک طلسمی فضا لگتی ہے  کہ انسان شاخوں  پر پتوں کی طرح آویزاں تھے  ظاہر ہے  کہ انسان ایک پتے  کی طرح ہے  جیسے  ہی  نموکا رشتہ ختم ہوا پر زور ہوا اسے  نیچے  گرا دے  گی اور اڑا دے  گی یعنی آخر میں  وہ باد فنا کے  ہاتھوں میں  پہونچ جاتا ہے۔ انسان کی مثال شاخ پر لگے  ہوئے  پتے  سے  دینا شعر کی بہت بڑی کیفیت کو اجاگر کرنا ہے  اور ظاہر ہوتا ہے  کہ راہی کے  یہاں  استعارہ سازی کا عمل کس قدر مضبوط مستحکم اور دلچسپ ہے  بہرحال استعارے  پر بعد میں  گفتگو ہو گی دوسرا مصرع تو دریائے  وقت کے  تند و تیز بہاؤ کی طرف اشارہ کرتا ہے  جس کی زد میں  پتہ ہی نہیں  بلکہ پورا شجر ہے  دریا جب جو ش میں  ہوتا ہے  تو وہ اسی غضب ناکی سے  رواں ہوتا ہے  کہ وہ اپنے  بہاؤ میں جنگلوں کے  سر  توڑ دیتا ہے  جو کچھ بھی ہوتا ہے  وہ اس کی گرفت میں ہوتا ہے۔ یہ شعر کسی زوال یاشکست کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ ایک تمثال پیش کرتا ہے  زندگی کی تمثال سازی کا  یہ عمل دراصل راہی نے  غالب سے  سیکھا ہے  جس طرح خیال بندی کا عمل ان کے  یہاں  اپنے  معاصرین میں  سب سے  زیادہ مضبوط ہے۔ اس میں  ایک طرح کا  عارفانہ استحکام بھی ہے  اور غالب کے  بعد ان کے  یہاں خیال بندی کے  جو مناظر ملتے  ہیں  وہ بے  حد پر شکوہ اور توانا ہیں۔ اس طرح کی تمثالیں  ان کے  یہاں  شعروں میں  کثرت  سے  ہیں  مذکورہ بالا شعر کے  تعلق سے  جس میں  تمثال سازی کے  مکمل عمل کو پیش کیا گیا ہے  پڑھ کر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے  جس کی مثال یہاں  بے حد ضروری ہے۔

چوں  تواں  در سایہ آرائید کز جوشِ جنوں

نخل چوں  طائر بہ پرواز است در صحرائے  من

          اس شعر میں  تمثال سازی کا  زبردست عمل دیکھا جا سکتا ہے  نخل خود میں  سایہ دار ہے  پرندہ پرواز کے  دوران پر پھیلاتا ہے  گویاسایہ بکھیرتا ہے۔ دل جوش جنوں  یعنی قوت  نمود دونوں  کے  ساتھ وابستہ ہے۔ درخت زمین کی تہیں  توڑ کر باہر آتا ہے  پھیلتا ہے  سایہ دار بنتا ہے  دوسروں کے  لئے  مفید ہوتا ہے  سایہ دیتا ہے  اسی میں  اس کی معراجِ حیات ہے  کہ اس کی شاخوں میں  پرندے  آرام کریں  اس کے  نیچے  انسان یا دیگر مخلوق پناہ گیر یا آرام گیر ہو۔ پرندہ بھی درخت کی مانند ہی  نمو کرتا ہے۔ بس بقول ارسطو زندگی کرہ ارض پر مختلف سطحوں  پر اپنا اظہار کرتی ہے  کہیں  متحرک ہے  کہیں  غیر متحرک لیکن سب میں  اس سطح پر مماثلت یقینی ہے  کہ سب قوت  نموسے  ہی وجود میں  آتے  ہیں لیکن قوت  نمو اپنا  اظہار چونکہ بہت سے  پیکروں میں کرتی ہے  اس لئے  درخت طائر کی طرح اڑتا ہے  گویا سبزہ جب سارے  براعظم پر پھیل جاتا ہے  پھر بھی جوش  نمو باقی رہتا ہے  تو وہ سطح آب پر کا ئی بن کر ظہور کرتا ہے۔ دراصل پیدا ہونا اُگنا متحرک ہونا سب قوت  نمو کی علامتیں  ہیں۔ قوت  نمو کا یہی اظہار راہی کے  ایک شعر میں  بھی ہوا ہے  جہاں  درخت کا  بے  برگ و بار ہونا پھر پھل پھول آنا زندگی کی مسلسل گردش کا عمل ہے۔ دریاؤں کا  رو میں  اشجار کا بہنا قوت  نمو کو ہی ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح کہ جیسے  کہ سیل آب میں بھی ایک شعلہ  نمو ہے  اپنی راہ میں  کسی چیز کو بھی آنے  نہیں دیتا سب کو خود میں  سمیٹ لیتا ہے۔ یوں  دیکھیں  تو تمام عناصر اس کیفیت کا  اظہار کرتے  ہیں  مٹی آگ پانی ہوا سب ایک دوسرے  کی تخلیقات کو خود میں سمیٹ لیتے  ہیں  تاکہ ارتقا کا عمل جاری رہے۔

          تمثال سازی کے  حوالے  سے  بھی راہی کے  کچھ اشعار پیش کئے  جائیں گے  لیکن مجھے  کہنا ہے  کہ پیکر یا امیجری جیسی اصطلاحیں  تو بہت بعد میں  آئیں  اور تمثال سازی کی اصطلاح کے  مقابلے  میں  کا فی کوتاہ قد بھی ہیں  کیونکہ تمثال جو اپنے  خد و خال میں  ایک تجسیم شدہ منظر ہوتا ہے  خود میں  حکا یتوں  کے  کئی پہلو رکھتا ہے  لیکن اس صورت میں  اسے  تمثیل نہیں  سمجھناچاہئے  کیونکہ اس کی نازکی خود میں  ایک مثال ہے  جیسے  کہ سعدی کا  یہ شعر:

اے  بلبل اگر نالی من با تو ہم آوازم

تو عشق گلے  داری من عشق گل اندامی

اس شعر میں  دیکھنے  کا پہلو یہی ہے  کہ عاشق دونوں  ہیں  بلبل بھی شاعر بھی لیکن ایک عشق کا  پھول سے  ہے  دوسرے  کا  اس سے  جس کا بدن پھول جیسا ہے، نالہ و شیون میں  عاشق شاعر عاشق بلبل کی ہمنوائی کو تیار ہے۔ نکتہ یہ ہے  کہ زمین سے  دونوں  برآمد ہوئے  ہیں  گل بھی گل اندام بھی۔ لیکن گل اندام دراصل لذت ومستی کا  ایک خزانہ ہے  جبکہ پھول جلوے  کی اس منزل پر فائز نہیں ہے  لیکن پھول نے  اپنی نازکی جسے  دے  دی ہے  وہ اس سے  زیادہ خوبصورت ہو گیا ہے  یہی مٹی کا  اعجاز ہے۔ یہی کرشمہ راہی کے  یہاں  تمثال سازی کا  ہے۔ لیکن اس کے  حوالے  سے  نئی باتیں  ابھرتی ہیں۔ اشعار ثبوت میں پیش کئے  جا سکتے  ہیں  جن میں  عشق کی سرمستی ہے  لیکن اس سرمستی کا تعلق اس نشاط انگیزی لذت خیزی سے  ہے  جو گہوارۂ خاک کی زائیدہ بھی ہے  پروردہ بھی اور عشق دراصل اسی منزل پر جاوداں ہوتا ہے  جب وہ ان تمام جہانوں  کو عبور کر لے۔ مثالاً یہ اشعارسامنے  آتے  ہیں :

برق سے  رسم و راہ تھی اس کی

مدتوں  میں  کہیں  کھلا پانی

 

جانے  کب سے  تھی پتھر کے  اندر آگ

تیشے  کی آہٹ پر نکلی باہر آگ

 

عجب کیا نکل آئے  صورت کوئی

ملا آگ پانی ہوا خاک میں

 

دیر سے  توڑتی بناتی ہے

بلبلوں  سے  بہل رہی ہے  ہوا

یہ ان عناصر کا ذکر ہے  جن سے  پوری زندگی تخلیق ہوئی ہے۔ انہیں  عناصر کی کوکھ سے  حواس کی قوتیں  نکلتی ہیں  جو انسان کو زندگی کرنے  کا  تجربہ عطا کرتی ہیں۔ قدم قدم پر اس کا  تحفظ کرتی ہیں  خیر و شر نیک و بدکی تمیز عطا کرتی ہیں  پھر پانچ حواسی قوتوں سے  بات کا  سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔ بالخصوص فنون لطیفہ میں انہیں  بے حد بلند مقام حاصل ہے۔ جہاں  گفتگو کے  انداز میں  آواز رنگ خوشبو سبھی شامل ہیں۔ کہیں  آواز پیرایۂ اظہار بنتی ہے  کہیں  رنگ اظہار کی محفل سجاتے  ہیں  کہیں  الفاظ رخش تیز گام کی طرح رقصاں  و جولاں  نظر آتے  ہیں  لیکن الفاظ کا  ایک خاص پہلو یہ بھی ہے  کہ ان کی اپنی تمثالیں  ہیں  ان تمثالوں  میں  رنگ آواز دونوں  موجود ہیں  اس طرح سارے  عناصر الفاظ میں  سمٹ آتے  ہیں  شاعر نے  چونکہ الفاظ کو ہی پیرایۂ اظہار بنایا ہے  اس لئے  اس کے  یہاں  تمام حواسی رنگ اکٹھا ہو جاتے  ہیں  جو مختلف پیکروں کو تخلیق کرتے  ہیں  اس لئے  اس کی جولاں گاہ زیادہ بلند ہے۔ پھر یہ کہ الفاظ براہِ راست کلام نہیں کرتے  ان کے  مختلف اسالیب ہیں  جس میں  صناعیات بھی ہیں  اور بدیعیات بھی اس طرح شعر جس سطح پر اپنا اظہار کرتا ہے  وہ دیدنی ہے  بڑے  شاعروں کے  یہاں  یہ سب کچھ بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے۔ میں  اس حوالے  سے  غلام مرتضیٰ راہی کی غزل اس کی ساخت اس کے  نظام بیان و اسالیب پر بات کروں گا۔

          حواس و عناصر کی رمزیت خود میں  ایک سحرآفریں جذبے  کو جنم دیتی ہے  گویا ذرے  ذرے  میں  بجلیاں  کوندتی ہیں  ایک روشنی ہے  جو حریم ذہن کو منور سرشار و شاداب رکھتی ہے۔ فنکار ہمیشہ ارتقا کے  مینار بابل پر متمکن ہوتا ہے  حالانکہ وہاں  وہ بادی النظر میں  غیر متحرک نظر آتا ہے  لیکن اس کے  اندر چراغوں کا  سفرجاری رہتا ہے۔ وہ چراغ مختلف رنگوں کے  ہوتے  ہیں۔ غلام مرتضیٰ راہی کی شاعری بھی ادوار کے  سیا ق وسباق میں  مطالعے  کا تقاضا رکھتی ہے  لیکن گرد و پیش پھیلی ہوئی اشیاء مناظرو واقعات کو احساس کے  نازک لمس سے  سمیٹ لینا اسے  شعر بنا دینا انہیں  ہمہ وقت آتا ہے  اسلئے  ادوار کے  تناظر میں  جو آراء دی گئی ہیں  ان میں  ایک قدر مشترک توہے  ہی سب نے  راہی کو جدید غزل کا بڑا شاعر مانا ہے۔ جہاں  تک مسلسل ارتقائی عمل سے  گزرنا ہوتا ہے  تو یہ فنکار کی فطرت ہے  اس کے  وجود میں  تخلیق کا  شعلہ مضطرب ہے  اور یہ آگ اسے  خالق کائنات کی طرف سے  ودیعت ہوئی ہے۔ بات تو خود کلامی سے  شروع ہوتی ہے  مگر ایمائیت رمزیت ان تمام تلازموں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے  جو شعری پیکر کو تخلیق کرتے  ہیں  اور اسی تناظر میں  ہم ان محاسن شعری کا جائزہ لے  سکتے  ہیں  جو شاعر کے  یہاں  موجود ہیں۔ ان بدیعیات کا  ایک ایسانظام ہوتا ہے  جو بدیہی ہے۔ ایک وہبی کی سوچ ہے  جوساری کائنات فکر کو محیط ہوتی ہے۔ اس میں  اکتسابی عمل اگر ہوتا بھی ہے  تو اپنے  وجود پذیر ہونے  سے  پہلے  شاعر کے  ذہن پرمنعکس ہو چکا  ہوتا ہے  اس تخلیقی نظام سے  متعلق شمس الرحمن فاروقی کی یہ رائے  بے حد اہم ہے :

          ’’تخلیقی زبان چار چیزوں سے  عبارت ہے، تشبیہ پیکراستعارہ اور علامت۔ استعارہ اور علامت سے  ملتی جلتی اور بھی چیزیں  ہیں  مثلاً تمثیل آیت وغیرہ۔ لیکن یہ تخلیقی زبان کی شرائط نہیں  اوصاف ہیں  ان کا نہ ہونا زبان کے  غیر تخلیقی ہونے  کی دلیل نہیں۔ علاوہ بریں  انہیں  استعارے  کی ذیل میں  رکھا جا سکتا ہے  لیکن تشبیہ پیکر استعارہ اور علامت میں سے  کم سے  کم دو عناصر تخلیقی زبان میں  تقریباً ہمیشہ موجود ہوتے  ہیں۔ اگر دو سے  کم ہوں  تو زبان غیر تخلیقی ہو جائے  گی اور یہ اصول اس قدر بین اور شواہد و براہین کے  ذریعہ اس قدرمستندہے  کہ جس سے  اختلاف شاید ممکن نہیں۔ تشبیہ کی تعریف بہت آسان اور بہت معروف ہے۔ دو مختلف اشیاء میں  نکتہ اشتراک کی دریافت اور اس نکتہ اشتراک کی وضاحت کے  ساتھ ان مختلف اشیاء کا ذکر ....‘‘

          مجھے  شمس الرحمن فاروقی کی تحریر کا حوالہ اس لئے  دینا ضروری معلوم ہوا کہ اسی اصول پر غلام مرتضیٰ راہی کی شاعری میں  ان چار چیزوں کی تلاش کی جا سکتی ہے۔ مثال دیکھیں :

 

شرمائے  رہتے  تھے  جو کبھی اپنے  آپ سے

مجھ کو بنا کے  آئینہ بیباک ہو گئے 

 

پڑے  ہیں  پاؤں  میں  چھالے  پہ چھالے

بڑی مشکل سے  پگڈنڈی بنی ہے

 

دوسرا کوئی تماشا نہ تھا ظالم کے  پاس

وہی تلوار تھی اُس کی وہی سر تھا میرا

رہا میں  نقطۂ پرکار کی طرح تنہا

ہزار گرد مرے  اک وسیع حلقہ تھا

ان اشعار میں  حواس کے  مناظر کی رمزیت توہے  ہی پیکر استعارہ اور علامت بھی موجود ہیں۔ آخری شعر میں  تشبیہ بھی موجود ہے  وہ پانچ قوتیں  جوحواس سے  تعلق رکھتی ہیں  یعنی باصرہ سامعہ شامہ لامسہ ذائقہ ان کا گہرا تعلق ان چاروں  سے  ہے۔ الفاظ اپنے  انداز میں  ان قوتوں کی گرہیں  کھولتے  ہیں  اسرار منکشف کرتے  ہیں  پیکر تجسیم ہوتے  ہیں  جن میں  بصری سمعی مشامی لمسی مذوقی کیفیتیں  ظاہر ہوتی ہیں۔ جو اشعار میں نے  اوپر درج کئے  ہیں  ان میں  ان جہانوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم جس کائنات میں  رہتے  ہیں  اس میں  ان طاقتوں کا بڑا دخل ہے  یہ طاقتیں  باطنی طور پر ایک دوسرے  سے  بے حد مربوط ہیں۔ ان میں  نازک احساسات بھی ہیں  یعنی باصرہ کے  ساتھ ذائقہ و لامسہ بھی موجود ہیں۔ آنکھ دیکھتی ہی نہیں ہے  کسی منظر کو اس کے  ذائقے  کا بھی احساس کراتی ہے۔ کریہہ مناظراسے  تلخی دیتے  ہیں  وہ انہیں  دوبارہ دیکھنا نہیں  چاہتی۔ ملیح مناظر اسے  بار بار مجبور کرتے  ہیں  کہ انہیں  دیکھا جائے  ظاہر ہے  کہ ذائقے  کی ناخوشگواریت و خوشگواریت یہی توہے۔ گویا ذائقہ باصرہ اور لامسہ تینوں  باہمی طور پر لازم و ملزوم ہیں۔ دیکھنے  میں  چھونے  کا عمل بھی ہے  لطف و احتظاظ بھی ہے۔ نا خوشگواریت بدمزگی اور تکدر بھی۔ سامعہ کا تعلق بھی اسی اندازسے  ہے۔ ہم جن اشیاء کو دیکھتے  ہیں  ان میں  سے  سبھی کلام کرتی ہیں۔ اب ہم ان کی آواز کس حد تک سن سکتے  ہیں۔ کچھ اشیاء ارتعاش اور جھنکار رکھتی ہیں  کچھ ٹھوس اور غیر متحرک ہیں  خاموش ہیں  مگر کلام سب میں  ہے۔ گویا سکوت لالہ و گل میں  کلام کی جس کیفیت کا بیان کیا گیا ہے  ا سکے  اندر سامعہ بھی ہے۔ گفتگو کرنے  میں چونکہ ہونٹ ملتے  ہیں  تولامسہ بھی ہے  گفتگو تلخ بھی ہے  شیریں  بھی اس لئے  ذائقہ بھی ہے۔ مشامی طاقت کو ہم اس سے  الگ نہیں  کر سکتے  اس میں  بھی ذائقہ ہے  بدرو سے  نکلنے  والی بو ذہن کو مکدر کرتی ہے  پھول کی خوشبو فرحت دیتی ہے  گویا لامسہ و ذائقہ دونوں  موجود ہیں۔ فیثا غورث نے  کہیں  لکھا ہے  کہ تمام اجرام فلکی محو خرام ہیں  ان کے  خرام ناز سے  ایک موسیقی کی لہر ابھر رہی ہے  جسے  انسانی سامعہ اپنی گرفت میں نہیں  لے  سکتا جبکہ جانوراسے  سنتے  ہیں  اور اس موسیقی کی لہر پر رقص کرتے  ہیں  ظاہر ہے  کہ نظام شمسی میں کروڑوں  اربوں  سیارے  ہیں  آفتاب ماہتاب اور کہکشائیں  جو خلا میں  گردش کر رہے  ہیں  ان میں  سے  بعض ایک دوسرے  سے  ٹکراتے  بھی ہیں  چنگاریاں  اڑتی ہیں  شہابچے   خلا میں  تیرتے  نظر آتے  ہیں  پھر راکھ بن کر خلاء کی وسعتوں میں گم ہو جاتے  ہیں  زمین پر ذخیرہ آب اور خلا میں  انبوہ سیارگاں  ایک عظیم الشان بصری پیکر ہے  لیکن یہ پوری کائنات جزوی طور یا کلی طور پر جب شعر کے  حوالے  سے  جلوہ ریز ہوتی ہے  تواس میں  احساس کی یہی قوتیں  کارفرما ہوتی ہیں۔ چارلس بودلیئر نے  کہا تھا شاعر مترجم ہوتا ہے  وہ مظاہر فطرت کی زبان کو سمجھتا ہے  اور ہماری زبان میں  ہم تک پہونچاتا ہے  کیونکہ ہم براہ راست مظاہر فطرت کی زبان سے  ناآشنا ہوتے  ہیں  اب جب شعری زبان کا  آغاز ہوتا ہے  تو وہ پیکر استعارہ علامت و تشبیہ کے  حوالے  سے  بات کرتی ہے  کیونکہ شاعری کوئی خط مستقیم نہیں ہے  کہ بس یونہی گزرتے  چلے  جاؤ یہ دشت پر خار بھی ہے  اور پیچیدہ بھی۔ تفکر سے  بھرپور اپنے  جلو میں  پوری کائنات کو لیکرسفرمیں  مصروف ہیں  اور یہی اس کا حسن ہے۔ اس طول طویل تمہید کے  بعد ان اشعار پر نظر ڈالئے  کہ کس طرح راہی کے  یہاں  یہ پیکر  نمودار ہوتے  ہیں  اور پورے  انسانی وجود و احساس پر کیا تاثر قائم کرتے  ہیں :

 

درخت راستے  انساں  عمارتیں  سورج

اٹھا غبار تو اک اک نشان ختم ہوا

 

مری گرفت میں  ہے  طائر خیال مرا

مگر اڑائے  لئے  جا رہا ہے  جال مرا

 

چاند کی نظروں  کے  جادو کا  اثر ہونے  کو ہے

تو اے  بحر بیکراں  زیر و زبر ہونے  کو ہے

 

جھوما کئے  بہار میں  سبزہ بنے  ہوئے

آئی خزاں  توہم خس و خاشاک ہو گئے

 

ہر طرف سے  وہ سمندر سے  گھری ہونے  پر

بیچ میں  آگ کا  رہ رہ کے  بھڑکتے  جانا

 

رکھتے  ہیں  یوں  توسب قدم کر کے  مگر شمار ہم

لاکھوں  میں  کوئی نقش پا بنتا ہے  راہ کا  چراغ

 

پھرایا رخ بدل بدل کے  بحر بیکنار میں

ہوا کی شہ پہ ناؤ میری بادبان لے  اڑا

 

ہوا ہوں  جب سے  میں  صحرا کی وسعتوں  میں  گم

غبار اٹھا ہے  نہ کوئی سوار نکلا ہے

 

دی ہوا آنکھ موند کر جس نے

دیکھے  پرواز وہ شرارے  کی

 

سمائی جا رہی ہے  کائنات اس میں

ہے  ذرہ تنگ اپنی بیکرانی سے

 

تھی جوئے  آب کہ سینے  میں  جیسے  زخم کوئی

شجر کہ دشت کے  چہرے  پہ جیسے  داغ ملا

 

کہیں  دیوار کو کھولا کہیں  در باز کئے

روشنی تب کہیں  گھر آنے  کو تیار ہوئی

 

اچھلتے  کودتے  لہراتے  آبشار ملے

بلندیوں  سے  اترتے  ہوے  سوار ملے

 

رہائی چاہتی تھی بازگشت سے  اپنی

صدا نے  گنبد بے  در میں  خود شگاف کیا

 

ایک صدی نے  لوٹ کے  گھر پر دستک دی

اک پل نے  اُٹھ کر دروازہ کھول دیا

 

فاصلہ میں نے  جو طے  کیا ہے  اس کی روداد کچھ اس طرح ہے

تیرہ وتارسنسان جنگل صاف شفاف ہموار صحرا

 

مدتوں  بعد نقاب اس نے  اٹھائی رخ سے

سربسر شعلہ وہ نکلا جوسیہ پوش رہا

 

ان اشعار میں  حواسی پیکر مختلف انداز اور مختلف ابعاد میں ابھرتے  ہیں  اور مکالمہ کرتے  ہیں  یہی اس کی جمالیات ہے  اس کے  جہان بسیط میں سفر کرنے  سے  یہ انکشاف ہوتا ہے  کہ کیسی شاہراہیں  ہیں  جن پر کس کس شکل و صورت سے  سنگ میل نصب ہیں۔ جب صبح کا  اجالا پھیلتا ہے  نقوش ابھرتے  ہیں  صدیوں  کے  خدوخال کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ رات آتی ہے  تو ایک ریشمی سکوت پھیل جاتا ہے  لیکن ایسامحسوس ہوتا ہے  کہ ہزاروں  مشعل بکف ستاروں  کے  کارواں  محوسفرہیں  حالانکہ یہ سب احساسات کی دنیا ہے  جہاں  حواس کی تمام طاقتیں  کام کرتی ہیں۔ کائنات وجود میں  غیر فانی سازوں  کا  ارتعاش ابھرتا ہے۔ جس میں  زمانوں  کی مضرابیں  ان سازوں کو متحرک اور مرتعش کرتی ہیں  جن میں  بیک وقت سحربیانی کے  جلوے  بھی ہیں  اور سیف بیانی کے  بھی۔ جو راہی کے  کلام کا خاصہ ہے۔ صدی کا  اپنے  گھر لوٹ کے  آنا پھر ایک پل کا دروازہ کھولنا ایک طلسمی عمل ہے  اس میں  احساسات کی تمام تر قوتیں  کارفرما ہیں۔ چاروں  طرف سمندر کا  حصار پانی کے  حصار میں  آگ کا بھڑکنا زندگی کے  تحرک کا پتہ دیتا ہے  لیکن فناسے  ہمکنار ہونے  کا  بھی۔ یعنی پانی آگ کو بجھانے  کی قوت رکھتا ہے  لیکن ایک بصری پیکر بن جاتا ہے  پانی کا حصار بھڑکتی ہوئی آگ زندگی کی لمحاتی کیفیتوں کا پتہ دیتی ہے  ایک آتش کدہ جس کا محافظ پانی ہے  جہاں  ایک مفاہمت ہے  معاندانہ رویہ نہیں۔ جہاں  شدید گرمی میں  سیاہ افعی زیر سایہ شہپر طاؤس پناہ گیر ہے۔ لفظوں  کے  لف و نشر سیاق و سباق کے  تعلق سے  اشعار میں  معنی کے  دروازے  کس کس طرح سے  کھول دئیے۔ یہ بیان راہی کے  اشعار میں  بکثرت ہے  اور یہی کیفیت انہیں  نئی غزل کے  شہسواروں میں  شامل کر دیتی ہے۔ میں نے  جب بھی ان کا کلام پڑھا ہے  ایک جہانِ دگر کی سیرکی ہے۔ اگر میں  یہاں  اس بات کا ذکر کروں تو کچھ بیجا نہ ہو گا کہ وہ شعرا جن کی شاعری میں  بار بار پڑھتا ہوں  آسودگی حاصل کرتا ہوں  نشاط آفریں  لمحوں  کے  وجود کا  احساس کرتا ہوں  ان میں  غلام مرتضیٰ راہی کی شاعری بھی ہے۔ اچھی شاعری میں  آگ ہوتی ہے  لیکن وہ آگ مجھے  جلاتی نہیں ہے  بلکہ بالیدگی عطا کرتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے  کہ جب پروانہ شعلے  میں پناہ گیر ہوتا ہے  تو اپنا ہی شعلہ ہوتا ہے  جو  وجود کو ارتفاع عطا کرتا ہے  جیساکہ اقبال نے  کہا ہے :

کرمک ناداں  طوافِ شمع سے  آزاد ہو

اپنی فطرت کے  تجلی زار میں   آباد ہو

تخلیق کار کا  کرب یہی ہے  کہ وہ مسلسل شعلوں کے  گہوارے  میں  قیام پذیر ہوتا ہے  یہ شعلے  خود اس کی ذات کا حصہ ہوتے  ہیں  چونکہ ان میں  تمام عناصر کی کارفرمائی ہوتی ہے  اس لئے  اضطراب وجود میں  آتا ہے  گویا ایک طرح سے  یہ عناصر کی بازی گاہ ہوتی ہے  لیکن اس صحرا میں  سفر خود اپنے  ساتھ ہی ہوتا ہے  یعنی بیدل کی زبان میں 

ہر طرف نظر کر دیم ہم بہ خود سفر کر دیم

اے  محیط حیرانی ایں  چہ بیکرانی ہاست

شاعر کی پوری کائنات ایک تحیر آفریں  لمحہ میں  اسیرہوتی ہے۔ ایک محیط حیرانی جس کے  حاشیوں پر تخلیقی کہکشاؤں  کی ایک سپاہ خیمہ زن ہوتی ہے۔ وزیر آغا نے  اس حقیقت کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے :

          ’’تخلیقی عمل کیا ہے۔ اصلاً وہ عمل ہے  جس کی مددسے  انسان اپنے  وجود کی با مشقت قیدسے  رہائی پاتا ہے۔ بالکل جیسے  کوئی شئے  کسی مدار میں  مسلسل گھومے  چلے  جانے  کے  بعد معاً لپک کر ایک نئے  اور کشادہ مدار میں  چلی جائے۔ جسم معاشرہ اسطور تاریخ اور فن ہی میں نہیں  کائنات کے  محیط وبسیط نظام میں یہی اصول کارفرما ہے۔ خود حقیقت اولیٰ بھی جو وحدت کی علمبردار نام اور روپ سے  بے  نیاز ہے  اپنے  تخلیقی عمل میں  دو واضح سطحوں کا  احساس دلاتی ہے  ایک خود فراموشی کی سطح جو سکون اور ٹھہراؤ سے  عبارت ہے  اور ایک جہد مسلسل کی سطح جو بے  قراری اور کلبلاہٹ کی مظہر ہے  اور جو لازمی طور پر پہلی سطح کے  بطون سے   نمودار ہوتی ہے۔ مگر اس طور پر کہ اس کا  اچانک ظہور تجلیات کے  ایک نئے  سلسلے  کا نقطہ آغاز قرار پاتا ہے۔ ‘‘

          ظاہر ہے  کہ پورے  تخلیقی عمل کا تعلق احساسات سے  ہے  محسوسات کی دنیا میں  رہ کر شاعر نئے  فن پارے  تخلیق کرتا ہے  گویا ایک سیل تند میں  حواس کی تمام طاقتیں  جولانی میں مصروف ہوتی ہیں۔ جو اس کے  قبضے  میں  ہوتا ہے  اس سیل تند کی عنان شاعر کے  ہاتھ میں ہوتی ہے  لیکن اس رخش کو جب اپنے  تھان سے  آزادی دی جاتی ہے  تو ساری کائنات اس کی ٹاپوں  کی آوازسے  گونجنے  لگتی ہے۔ منظرسے  پس منظر اور پیش منظر تک ایک گرد ہوتی ہے  جس میں  لاکھوں  ستارے  تیر رہے  ہوتے  ہیں اور ان میں  معلوم و نامعلوم محسوس ونامحسوس کے  جہان بسیط کو بیدل نے  اس انداز میں  سمیٹا ہے۔

چیست علم؟ اصل قدرت بیچوں

نظم جمعیت ظہور و بطوں

 

حسنِ مرآۃِ عالم و معلوم

نور تمئیز حاکم و محکوم

 

نزد اہل حقیقت و ایجاد

ہیچ چیزے  بغیر علم نزاد

 

ہر چہ بینی ز مفرد و ترکیب

دارد از علم جوہر ترتیب

 

لیکن یہ سب کچھ ایک بوند میں  ہی قید نظر آتا ہے  کیونکہ نامعلوم کی دنیا آج بھی جہان معلوم سے  وسیع تر ہے۔ کائنات ابھی محدود دائروں میں  منکشف ہو سکی ہے۔ ابھی نا موجود کی دنیاوسیع تر ہے۔ جو لاتعداد آفاقی ابعاد کی جلوہ گری ہے۔ غلام مرتضیٰ راہی کے  یہ اشعار دیکھئے۔

 

                 دکھائی   دیتا   نہیں    دُور  دُور    تک   لیکن

                 کوئی  اشاروں    سے    جیسے    ہمیں    بلاتا  ہو

 

                الگ   نام    اُس  کا     بتاتے      ہیں    سب

                مگر   پاس    سب    کے    پتہ     ایک   ہے 

         

                کئی  با ر  میرے   قریب   سے    وہ  گزر  گیا

                مجھے   پھر  بھی  کوئی  گلہ  نہیں   کہ  غبار  تھا

 

                کاریگری  دکھا  کے   میں   ہو   جاؤں   گا   الگ

                لڑتا   رہے   گا    آخری     پتّا   ہواؤں    سے 

         

                آثارِ    تشنگی    سرِ     آ سودگی    نہ    پُوچھ

                صحرا   کا    نقش   تھا   لبِ    در یا   بنا     ہُوا

         

                رکھے ّ        وہ       لحاظ       فاصلے       کا  

                کم       زور      مری     نظر    نہیں    ہے 

راہی کی غزل اور بیسویں صدی میں غزل کے نئے موڑ

غلام مرتضیٰ راہی کی غزل کے  قوس قزحی جہانوں کی سیرمیں  بہت سی شاہراہیں  آتی ہیں  بہت سے  سنگ میل آتے  ہیں  جن کے  چہرے  آفتابوں  کی طرح روشن ہیں  لیکن ان رنگوں  کے  سحرمیں  بھی ایک لامحدود دنیا ہے  یہاں  بہت سے  سوالات اس بات کے  متقاضی ہوتے  ہیں  کہ انہیں  حل کیا جائے  کیونکہ ماہتاب چہرہ ان سنگ میلوں کا یہ تقاضا بھی ہوتا ہے  کہ ان آفتابوں کا سراغ لگایا جائے  جن کی روشنی کی دلربا چھوٹ سے  یہ جگمگا رہے  ہیں۔ جو خزانہ گوہر اس ا تھاہ میں پڑا ہوا ہے  اس کے  رنگوں  کا تموج یہاں  ایک نئی بہار کی طرح بکھرا ہوا ہے  حالانکہ یہ منزل بے  حد دشوار ہے  لیکن اگر عزم کے  ساتھ سفرشروع کیا جائے  تو کچھ مشکل نہیں ہے۔ ہمیں  بیسویں صدی میں  غزل کی مختلف کروٹوں کو دیکھنا ہو گا جن کروٹوں کی جڑوں  سے  نئی غزل کا آغاز ہوتا ہے  اور جس نے  غلام مرتضیٰ راہی جیسے  شاعر کو جنم دیا لیکن بیسویں صدی سے  قبل جب ہم نظر ڈالتے  ہیں  تو ہمیں  دنیا اور ملتی ہے۔ حالانکہ مرزا اسداللہ خاں  غالب کی دراصل اپنے  عہد میں  ایک باغیانہ لہجے  کی نمائندگی کرتی ہے  جب غزل میں مخصوص مضامین نظم کئے  جاتے  تھے  اس زمانے  میں  ان دائروں کو توڑ کر آگے  نکلنے  کا عمل غالب کے  یہاں  تھا۔ اس کے  لئے  ان کو سنگ ریزہ ہائے  دشنام اور طعن و طنز کی بوچھاروں میں  منھ دھونا پڑا۔ معتوب بھی ہوئے  مطعون بھی ہوئے  لیکن اپنی روش نہیں  چھوڑی۔ گویا اس شاہراہ میں  وہ سنگ میلوں کی تنصیب نہیں کر رہے  تھے  بلکہ روشنی کا  ایک مینار بابل تعمیر کر رہے  تھے۔ ایسامیناربابل جو شش جہت سے  نظر آ سکے۔ اس میں  وہ کامیاب بھی ہوئے  انہوں  نے  غزل کے  ان جہانوں کو منکشف کیاجس کے  کوچہ و بازار میں  سیر کرنے  والے  بہت بعد میں  پیدا ہوئے۔ غزل میں  تبدیلی کی ایک وجہ سیاسی تہذیبی اور ثقافتی اقدار کی شکست و ریخت بھی ہے۔ جو سب سے  زیادہ بیسویں صدی میں  نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ غزل نے  کروٹیں  بدلیں۔ غالب نے  جو کچھ کہا تھا یا جو کچھ کیا تھا وہ تھا تو بہت اہم وہ مینارۂ نور روشن بھی رہا اس کا وجود کہیں  بھی کسی منظر نامے  سے  منہا نہیں  کیا جا سکتا لیکن ا سکی تقلید زیادہ دنوں نہیں ہوئی ا سکے  پس منظر میں کچھ ایسے  سیاسی حالات بھی تھے  کہ لوگ دبیز دھند میں  اپناراستہ تلاش کر رہے  تھے  کہ اچانک ہی نظم اپنے  پورے  کس بل کے  ساتھ  نمودار ہوئی۔ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے  انیسویں  صدی کے  ربع آخر سے  لیکر بیسویں  صدی کے  ربع اول کے  ختم ہونے  تک صورت حال کچھ ایسی ہی رہی کہ جس میں نظم اپنے  خدوخال سنوارتی رہی۔ غزل بھی تھی لیکن اس میں  کوئی کروٹ نہیں  تھی۔ لیکن غالب کی غزل تو بہر حال غزل کے  معاشرے  میں  موجود تھی۔ جس سے  انکار تو نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اسے  اس عہد میں بھی نشانہ بنایا گیا گویا اس کے  وجودکوتسلیم کیا گیا۔ یگانہ اگرچہ غالب کی غزل کے  مخالف نظر آتے  ہیں  لیکن بنیادی طور پر ان کا  چراغ فکر غالب کی غزل سے  ہی کسب نور کرتا ہے۔ نفسیاتی طور پر ہوتا بھی یہی ہے  کہ ہم جس کا مخالفانہ انداز میں  مسلسل ذکر کرتے  ہیں  وہ ہمارے  ذہن سے  بہت قریب ہوتا ہے  یہ فلسفہ ہم وجودیت تھیوری ہے۔ یگانہ خود میں  سرکشی و غرور رکھتے  تھے۔ لکھنؤ کے  شعرا کو اپنی خاک پاسے  بھی کمترسمجھتے  تھے۔ اور کسی کو خاطر میں نہیں  لاتے  تھے۔ غالب پربھی اعتراضات کرتے  تھے  حالانکہ دل سے  قائل تھے۔ جس کا  اظہار ان کی تحریروں میں جگہ جگہ ہوتا رہا ہے۔ اس کی وجہ ان کی نفسیاتی ٹیڑھ تو تھی ہی وہ غالب کو خود پر حاوی ہونے  نہیں  دینا چاہتے  تھے۔ چنانچہ یہ طریقہ اختیار کیا کہ غالب کومسلسل نشانہ بنایا جائے۔ نفسیاتی تاثر یہ ہے  کہ ان کے  یہاں  بہت سی غزلیں  غالب کی زمینوں  میں  موجود ہیں۔ گویا اپنے  معاصرین کو دکھانے  کی کوشش ہے  کہ مرزا اسد اللہ خاں  غالب ہی نہیں  میں خود بھی ان زمینوں کو پانی کر سکتا ہوں۔ لیکن عجیب بات تھی کہ اس ہجر تمکنت سرکشی اور غرور میں  یگانہ غزل کو ایک نیا لہجہ دیتے  چلے  گئے۔ اس لئے  اس حقیقت سے  انکار ممکن نہیں ہے  کہ بیسویں صدی کے  ربع اول میں  سیاسی حالات کچھ بھی ہوں  ظاہر ہے  کہ برطانوی سامراج کے  خلاف جنگ چھڑ چکی تھی لیکن یگانہ غزل کو ایک نئی جہت سے  آشنا کرا رہے  تھے  اس لئے  ان کا نا م سب سے  پہلے  آتا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے  ہیں  کہ بیسویں صدی کے  نصف اول کے  ابتدائی برسوں  سے  لیکر نصف صدی ہونے  تک دو نام سامنے  آتے  ہیں  جنہوں نے  اس دور میں  جبکہ ایک طبقہ نظم کو طاقت بخشنے  کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن غزل کو نئے  جہانوں  سے  روشناس کرنے  والوں  میں  یگانہ کے  بعد شاد عارفی کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جوش ملیح آبادی جیسے  نظم گو کا پرچم بلند تھا اس کے  سائے  ترقی پسندوں کی ایک نسل کھڑی تھی۔ جو غزل کی مخالف تھی۔ ہندوستان میں  تحریک آزادی چل رہی تھی اشتعال انگیز تقریروں  میں نظم زیادہ کام کر رہی تھی۔ غزل میں چونکہ بات داخلی کرب کی ہے  زندگی کے  معیارات ہیں  عیش کو داخل کرنے  کی بات نہیں  تھی اور ترقی پسندوں کی کوشش تھی کہ نظم پوری طرح محیط ہو جائے  لیکن غزل کا رخ موڑنے  والے  اپنے  کام میں مصروف تھے  لیکن اندرونی ذات کا  کرب کچھ اور ہی تھا جس کا  مداوا عیش کی زندگی سے  نہیں  ہو سکتا تھا۔ میں یہ نہیں  بتانا چاہتا ہوں  کہ بیسویں صدی کے  نصف اول میں غزل نے  جو کروٹیں  بدلیں  اسے  کتنے  شعرا نے  قبول کیا ظاہر ہے  کہ یہ انگلیوں پر گنے  جانے  والے  تھے  اس لئے  بات مقبولیت کی نہیں  بلکہ غزل کے  لہجے  اس کے  تنوع اور کروٹ کی ہے۔ یہ سچ ہے  کہ شاعروں  کی ایک بڑی صف غزل سے  دور تھی ایک زمرہ ایسابھی تھا جو غزل میں  تبدیلی پسند نہیں  کرتا تھا۔ کچھ تھے  جو یگانہ اور شاد عارفی جیسے  شاعروں کو سمجھنے  کی کوشش کر رہے  تھے  ان تبدیلیوں کو قبول بھی کر رہے  تھے  ان میں فراق گورکھپوری بھی جنہوں نے  غزل کے  نئے  خال و خد کو عشقیہ لہجے  میں  ابھارنے  کی کوشش کی وہ کسی گہرے  فلسفے  کے  پیرو نہیں تھے  دبستان داغ کے  شعرا میں  صرف اقبال ہی ایسے  تھے  جو نظم گوئی کے  شعار کے  دلدادہ تھے  لیکن ان کی نظم گوئی ترقی پسندوں کی طرح اشتعال انگیز نعرہ نہیں ہے۔ غزل سے  ان کی وابستگی کم تھی۔ لیکن دبستان داغ میں  نوح ناروی سیماب اکبرآبادی جیسے  شعرا بھی تھے۔ جنہوں نے  دبستانِ داغ کی شناخت برقرار رکھنے  کی کوشش کی۔ حالانکہ سیماب کے  یہاں  اس طرح کے  اشعار بھی مل جاتے  ہیں :

 

باغباں  تختۂ گل دیکھ لے  کلیاں  گن لے

وہ گیا پھاند کے  دیوارِ گلستاں  کوئی

 

نکلے  ہیں  سیر کرنے  شہیدانِ فصلِ گل

خاکِ چمن سے  بھیس بدل کر گلاب کے

          گویا یہ بھی اثرات وہی ہیں  جن کا  غبار یگانہ اور شاد عارفی کی غزل سے  اٹھ رہا تھا۔ فراق نے  بھی اسی طرح کے  اشعار کہے  تھے۔

رات خواب میں  دیکھا حلقہ حلقہ ہر جانب

مجمع گنہگاراں  اور اہرمن تنہا

 

جو چھپ کے  چاند ستاروں سے  پاؤں  دھرتا تھا

اُسی کے  نقش کف پاسے  جل اٹھے  ہیں  چراغ

 

          فراق مرزا یگانہ سے  بے حد متاثر تھے  انہوں نے  بار بار یہ خواہش ظاہر کی ہے  کہ کا ش وہ اپنا کلام مرزا یگانہ کوسناسکتے۔ انہوں نے  اس کا  اظہار یوں کیا ہے  :

 

کا ش یہ غزل سنتے  میرزا یگانہ بھی

مجھ سے  اٹھ سکے  کیسے  بار فکر و فن تنہا

لیکن یہاں  بات شاد عارفی اور مرزا یگانہ کی ہے  جنہوں نے  بیسویں صدی میں  غزل کے  رخش پا در ہوا کے  منھ میں  لگام دے کر اسے  دوسرے  راستے  پر لگایا گویا غالب کی زبان میں  توسن طبع لگام کا خواہاں  تھا پھر وہ غزل کی روش پر چل نکلا۔ چنانچہ غزل نے  اس طرح کی روش اختیار کی :

 

پہاڑ کاٹنے  والے  زمیں  سے  ہار گئے

اسی زمین میں  دریا سمائے  ہیں  کیا کیا

 

کوئی میری آنکھ سے  دیکھتا یہ زوال دولت رنگ و بو

کہ بہارِحسن کی شام کو بھی عجیب جلوہ گری رہی

مرزا یگانہ

 

کیا تعجب ہے  کہ تیشوں  کی طرف مڑ جائیں

لوگ ہاتھوں  کو سوالوں سے  جو مہلت دے  دیں

 

ہاتھ سے  جام اٹھانا تو بڑی بات نہیں

کوئی کا نٹا کوئی پتھر رہِ منزل سے  اٹھا

شاد عارفی

میں نے  کچھ دیر قبل عرض کیا تھا کہ بیسویں صدی میں  غزل کے  کئی رنگ اس طرح سے  سامنے  آئے  کہ سیاسی و تہذیبی قدریں  بدل رہی تھیں  برطانوی سامراج کے  خیموں  کی طنابیں  ہل چکی تھیں۔ پاکستان وجود میں  آ چکا  تھا۔ ہندوستاں میں  ترقی پسند تحریک کے  کارواں  میں  شامل افراد مارکس اور لینن کے  نظریات کا  اتباع کر رہے  تھے  گویا سوویت یونین کے  اثر میں پوری طرح تھے۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہو چکی تھی ایک نئے  طرز پر دنیا تقسیم ہو رہی تھی۔ بیسویں صدی اپنے  نصف اول کے  اختتام کے  کگار پر کھڑی تھی۔ پاکستان میں  حلقہ ارباب ذوق قائم ہو چکا  تھاجوکسی طرح بھی ترقی پسند تحریک کا  ہمنوا نہیں  تھا۔ ظاہر ہے  کہ ادب کے  متضاد دھارے  پیدا ہو چکے  تھے۔ وہاں  نظم گو شعرا ن۔ م۔ راشد، میرا جی، یوسف ظفر، قیوم نظر، مجید امجدجیسے  اہم نام تھے  جن میں  سے  بیشتر غزل گوئی میں  بھی کمال رکھتے  تھے  لیکن ان کی فکر کا دھارا مجاز اور سردارجعفری سے  بے حد مختلف تھا۔ لیکن جہاں  تک غزل کی نئی کروٹوں کا معاملہ ہے  وہاں  اس کی کمی تھی۔ ترقی پسندوں میں سے  بھی کسی نے  غزل کی طرف توجہ نہیں دی۔ بنیادی طور پران کا  شعار فکر غزل گوئی سے  میل نہیں  کھاتا تھا کیونکہ وہ ایک خاص نظریے  کی شاعری کرتے  تھے۔ یگانہ اور شاد عارفی نے  غزل کو جو نئی کروٹیں  دی تھیں  ان کے  اثرات ہندوستان اور پاکستان میں  بیک وقت موجود تھے  ہندوستان میں  مجروح سلطانپوری پاکستان میں  فیض احمد فیض اسی مکتب فکر کی دین ہیں۔ غزل کو نئے  جہانوں سے  ہمکنار کرنے  والوں  میں  اس کے  لہجے  کی توسیع کرنے  والوں میں  بیسویں صدی کے  نصف اول میں جو نام ابھرتے  ہیں  ان میں  کوثرجائسی کا نام بھی اہم ہے۔ حالانکہ انہوں نے  کانپور جیسے  صنعتی شہر میں  گمنامی کی زندگی بسرکی لیکن انہوں نے  غزل کو ایک نئی کروٹ دی۔ اس طرح یگانہ اور شاد عارفی کے  لہجے  کو مزید وسعت فراق نے  عطا نہیں  کی جیساکہ کمال کوثر جائسی کی غزل میں نظر آتا ہے۔ یہ الگ بات ہے  کہ فراق کے  مقابلے  میں  کوثرجائسی کو شہرت حاصل نہیں ہو سکی۔ لیکن ادب کا کوئی بھی طالب علم اگرسنجیدگی سے  اس موضوع کا  مطالعہ کرے  گا تو وہ فراق کو نظر انداز کر سکتا ہے  کوثرجائسی کو نہیں۔ لیکن یہ سب کچھ بیسویں  صدی کے  نصف اول میں ہی رونما ہو گیا تھا نصف ثانی میں  تو غزل کو نئی کروٹ سے  ہمکنار کرنے  والوں میں  ایک نام ناصر کاظمی اور شکیب جلالی کا بھی ہے۔ اور یہی وہ سلسلہ تھا جس میں  آگے  چل کر انہیں  نقوش قدم پر چلنے  والوں میں  غلام مرتضیٰ راہی بھی پیدا ہوئے  لیکن ان پر میں تفصیل سے  بات بعد میں کروں گا۔

          یگانہ کو غزل کے  عشقیہ لہجے  سے  بھی اتفاق نہیں تھا۔ انہوں نے  لکھنوی شعراء آرزو، ثاقب، صفی اور عزیز کی کوششوں کو سراہا ہے  لیکن اس پر اعتراضات بھی کئے  ہیں  خاص طور پر ان تلازموں  پر جوان حضرات کی غزل میں تھے۔ گویا مطالبہ یہ تھا کہ غزل کے  تلازمات بدلے  جائیں  اور اگر نہ تبدیل کئے  جائیں  تو انہیں  نئے  معنی دئیے  جائیں  خود یگانہ نے  ایسا کرنے  کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہوئے۔

دھواں  سا جب نظر آیا سواد منزل کا

نگاہ شوق سے  آگے  تھا قافلہ دل کا

 

دیدنی ہے  یاس اپنے  رنج و غم کی طغیانی

جھوم جھوم کر کیا کیا یہ گھٹا برستی ہے

مرزا یگانہ

          شاد عارفی اور یگانہ اگرچہ اپنی مثال آپ تھے  تو دوسری طرف بے حد ضدی بھی تھے  نتیجے  کے  طور پر افلاس، نکبت اور رسوائی جیسی چیزیں  ان کے  دامن میں ہمیشہ رہیں۔ مختصراً یہ عرض کرنا ہے  کہ نئی غزل میں جو موڑ آئے  ان کا سلسلہ ناصر کاظمی اور شکیب جلالی پر ختم ہو جاتا ہے۔ شکیب جلالی نے  بہت کم عمر پائی۔ ۱۹۶۶ء میں  راہی ملک عدم ہوئے  لیکن کوثرجائسی جو ۱۹۱۶ء میں  پیدا ہوئے  اگست ۲۰۰۵ء میں  اس جہان فانی سے  رخصت ہوئے  اور خاصا کلام چھوڑ گئے۔ کا نپور میں یوں بھی معروف شعراء نے  گمنامی کی زندگی گزاری۔ زیب غوری نئی غزل کے  اہم شاعر تھے  مگر ان کا ذکر بھی خال خال ہی ہوتا ہے۔ بعد میں  ایک بڑی نسل نئی غزل کے  حوالے  سے  ابھرتی ہے  جس میں  بہت سے  نام ہیں  کانپور میں بھی لکھنؤ میں بھی لیکن میرا مقصود اس تحریر میں  غلام مرتضیٰ راہی کی غزل سے  بات کرنا ہے  ان کی غزل کا سلسلہ نسب کیا ہے  اس کے  سوتے  کہاں  سے  پھوٹتے  ہیں  انہیں  ان اساطین کی صف میں  نہیں کھڑا کیا جا سکتا جنہوں نے  بیسویں صدی میں  غزلوں کو نئی کروٹوں سے  ہمکنار کیا تھا۔ میں یہاں  مثالاً کچھ اشعار کوثرجائسی اور شکیب جلالی کے  پیش کرتا ہوں :

 

نقوش عمر گذشتہ سمیٹ لاتے  ہیں

یہ رنگ رنگ کے  بادل کہاں  سے  آتے  ہیں

 

ٹھہرا لیا ہے  خاکِ فسوں ساز نے  اسے

بھٹکا  ہوا ستارہ ہے  شبنم کہیں  جسے

 

 چاند چمکا  شفق ابھری ہوئی ضو بار سحر

اس نے  اک پرتو رخسار سے  سو کام لئے

کوثرجائسی

 

تم چل سکو تو چلو آگہی کی سرحد تک

یہ رہگزار اترتی ہے  گہرے  پانی میں

 

یہ کائنات ہے  میری ہی خاک کا  ذرہ

میں  اپنے  دشت سے  گزرا تو بھید پائے  بہت

 

کہیں  جو بن نہ سکی وہ کلی کی تربت تھی

کوئی جو سن نہ سکا  وہ ہوا کا  نوحہ تھا

شکیب جلالی

واضح رہے  کہ میرا مقصود نظر ان شعرا کا تقابل نہیں ہے  میں توبیسویں صدی کے  مختلف ادوار میں  غزل کو نئے  موڑ دینے  والوں  کی بات کر رہا ہوں۔ جنہوں  نے  غزل کے  سفینے  کو اس بحر بیکراں میں  ایک نادیدہ ساحل کے  خدوخال سے  آشنا کیا۔ غالب نے  بقدر شوق تنگنائے  غزل کی بات کی تھی ان شعرا نے  بتایا کہ غزل تنگنائے  نہیں  ہے  بلکہ ایک بحر عمیق وبسیط ہے۔

          بیسویں صدی کا نصف اول ختم ہوتے  ہی ترقی پسندیت کے  آفتاب کے  چہرے  پر زردی کے  آثار  نمودار ہوئے  کیونکہ لوگ انقلاب آمیز نعروں کی شاعری سے  تھک چکے  تھے  پھر یہ ہندوستان آزاد ہو چکا  تھا۔ برطانوی سامراج کے  خیموں  کی طنابیں  اکھڑ چکی تھیں  اور سو ویت یونین بھی اپنے  اقتصادی نظام میں  رفتہ رفتہ زوال کی طرف بڑھ رہا تھا۔ حالانکہ نظم بھی اس مقام پر پہونچ چکی تھی کہ اس پر نگاہیں  مرکوز ہونے  لگی تھیں  اشتعال انگیز فضاسے  نکل کر اس میں  ایک عارفانہ مضبوطی آ چلی تھی پاکستان میں  مجید امجد منیر نیازی ابن انشاء جیسے  اہم شاعروں کی آوازیں  گونج رہی تھیں۔ ہندوستان میں  ۱۹۶۰ء کے  آس پاس جدیدیت آئی اور فضایکسر بدل گئی۔ وہاں  احمد ندیم قاسمی تھے  یہاں  مجروح تھے  جعفری تھے  لیکن غزل جو کروٹ لے  چکی تھی اس میں  بے حد درخشانی تھی۔ ہندوستان کے  جدید غزل گو شعرا میں  خلیل الرحمن اعظمی کی حیثیت ایک سرخیل کی تھی اس طرح کم و بیش چالیس برسوں  تک یہ قافلہ پوری شان و شوکت سے  رواں  رہا۔ نئی غزل کے  حوالے  سے  اگر دیکھیں  تو بانی، زیب غوری، مصور سبزواری، غلام مرتضیٰ راہی، نشتر خانقاہی، محمد علوی مظفر حنفی پہلی صف کے  اہم شعراء کہے  جا سکتے  ہیں۔ دوسری صف میں  عرفان صدیقی اور اسعدبدایونی جیسے  شعراء نے  اپنی فکر کا  پرچم بلند کیا اور نئی غزل کو مزید استحکام عطا کیا۔ ۱۹۶۶ء جون میں  الہ آباد سے  ماہنامہ شب خون کا  اجرا جناب شمس الرحمن فاروقی کے  زیرسرپرستی ہوا اس طرح نئی غزل میں  آبیاری کا  ایک نیاسلسلہ شروع ہوا۔ غلام مرتضیٰ راہی جو ۱۹۳۷ء میں پیدا ہوئے  تھے۔ ابتداسے  ہی غزل کے  اس لہجے  کے  دلدادہ تھے  جس میں  بیان واسالیب کی رعنائی پائی جاتی ہے  یہی وہ وجہ ہے  کہ وہ نئے  غزل کے  شہسواروں میں  شامل ہوئے۔ مجھے  یہ کہنے  میں کوئی باک نہیں ہے  کہ غلام مرتضیٰ راہی کی غزل نے  ان کے  بعد آنے  والے  جدید شعراء کو نمایاں  طور پر متاثر کیا۔ شعراء کی یہ نسل ہند و پاک کے  طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے۔ بہار کے  متعدد شاعروں  اور ناقدوں نے  ان کی شاعری پر مختلف انداز سے  اظہار خیال کیا ہے۔ یوپی میں  علی گڑھ اور الہ آباد کے  جدید شعراء کے  یہاں  ان کی فکر کا  پرتو نظر آتا ہے۔ کانپور میں  خصوصاً یاور وارثی، غلام مصطفے ٰ فراز اور اسلم محمود نے  بھی ان کی غزل کو نئی غزل کی شاہراہ میں  ایک سنگ میل کی حیثیت سے  تسلیم کیا ہے۔

          نئی غزل میں  دراصل یہ مکتب فکر مرزا اسد اللہ خاں  غالب سے  مستفادہے۔ جہاں  بیان کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ میں نے  بیسویں صدی کے  تعلق سے  جن اہم ترین غزل گو شعراء کے  نام لئے  ہیں  وہ سب اپنے  عہد میں جدید ہیں۔ ان کے  مفاہیم کا  تنوع بھی ہے  لیکن بیان کی شیرینی اور لطافت بنیادی چیز ہے۔ اس بیان کے  حوالے  سے  زمانوں  کو سمیٹاجا سکتا ہے  وہ زمانے  جو ماضی کے  نہاں خانوں میں  روپوش ہیں۔ ان کا  جلوہ بھی دکھایا جا سکتا ہے۔ وہ زمانے  جو ابھی طلوع نہیں ہوئے  ہیں  ان کو عکس ریز بھی کیا جا سکتا ہے۔ عصری حسیتوں کے  بیان کے  لئے  نئے  تلازمات تراشے  جا سکتے  ہیں  اور پرانے  تلازمات کو نئے  معنی پہنائے  جا سکتے  ہیں۔ پس ظاہر ہوا کہ بیان کا  میدان بے حدوسیع اور اس کا  افق بے حد ضو فشاں ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ بیسویں  صدی کا  نصف اول ختم ہونے  کے  بعد غزل میں جو موڑ آیا اس نے  ایک نئی دنیا جو جنم دیا نئے  اسالیب اور بیان ظہور پذیر ہوئے  گویا کم  و بیش ایک صدی بعد پھر اس غزل نے  بساط فکر پر انگڑائی لی جس کا  مرکز مرزا اسدخاں غالب کے  یہاں  تھا۔ درمیان میں  جو مناظر آئے  وہ اطمینان بخش نہیں تھے  یہی وجہ ہے  کہ ہم غالب کے  یہاں  آج کے  زمانے  کو دیکھتے  ہیں  اور مجھے  یقین ہے  کہ غلام مرتضیٰ راہی کے  یہاں  سوبرسوں  بعد بھی ماضی کی ان تصویروں کا عکس ہے  اور اپنے  عہد کی تصویریں  بھی۔ کیونکہ حقیقی فنکار ہر عہد کا  ترجمان ہوتا ہے  اس کے  یہاں  ایک اضطراب ہوتا ہے  گویا اضطراب ایک موقلم ہے  شاعر کا  ذہن کینوس ہے  جس پر تصویریں  بنتی رہتی ہیں۔ اجلی درخشاں  تصویریں  غیر فانی تصویریں۔ خواجہ شیرازی کا قول ہے

موجیم کہ آسودگی ما عدمے  ماست

ما زندہ ازانیم کہ آرام نہ گیریم

سچافنکار ہمہ وقت بگولوں اور گردابوں  کی یورش کی زد پر ہوتا ہے۔ کسی طرف حلقہ ہائے  کمند ہیں  توکسی طرف سے  پیروں  کی سمت بڑھتے  ہوئے  سلاسل۔ یہ چیزیں  اسے  قید کرنا چاہتی ہیں  جامد کرنا چاہتی ہیں  لیکن چونکہ اس کا پیالہ متحرک غبار شیشہ ساعت سے  لبریز ہوتا ہے  اس لئے  وقت کی آندھیاں  اس پر یورش تو کرتی ہیں  مگر اس کا  بال بیکا  بھی نہیں کر پاتیں۔ اس میں  ایک طرح کے  استحکام کا تسلسل اور استقامت ہوتی ہے۔ حالانکہ اس کے  نیسانِ فکر سے  تراوش کرنے  والے  قطرے  گہر ننے  تک بڑے  عذابوں  میں  مبتلا ہوتے  ہیں  طرح طرح کے  نہنگوں سے  نبرد آزما ہوتے  ہیں  لیکن تخلیقیت کی آندھی اس قدر شدید ہوتی ہے  کہ وہ جنگلوں  کا سرقلم کرتی چلی جاتی ہے  اس کے  ہاتھ میں  شمشیر ہوتی ہے  جو شاخوں  سے  گزر کر خراج وصول کرتی ہے  گویا یہ ایک طرح کی سیف بیانی ہے  جس سے  شاعر مالامال ہوتا ہے  وہ باغ سے  تہی سبد واپس نہیں ہوتی بلکہ اس کے  پاس ایسے  پھول ہو تے  ہیں  جن کی رگوں میں غیر فانی شعلوں  کی لپک ہوتی ہے۔

          ہر عہد کے  اپنے  سوالات ہوتے  ہیں۔ جن کے  جوابات اسی عہد کی قدروں  کی تحویل میں  ہوتے  ہیں  تلاش وتجسس اور یافتگی ہی وہ بنیادی عمل ہے  جس سے  ہم کو گزرنا ہوتا ہے  یہ ایک مہم ہوتی ہے  اور ہمیں  مہم جو بننا پڑتا ہے۔ ہر عہد نئی قدروں کا  امانت دار ہوتا ہے۔ پرانی قدریں  شکست و ریخت سے  ہم آغوش ہو کر دریائے  فنا کے  گھاٹ اتر جاتی ہیں۔ جس موقع پر اقدار کش کی اصطلاح بھی ہوتی ہے  اور بے  ضمیری کی بھی۔ چونکہ انسانی قدروں کی اہمیت انسانی معاشرے  میں  سب سے  زیادہ ہے  چنانچہ جب یہ ٹوٹتی بکھرتی ہیں  تو اذیتوں کا  زہر تراوش کرتا ہے  لیکن دیکھنا یہ بھی چاہئے  کہ ہم جس دورسے  گزر رہے  ہیں  اس میں اخلاقی قدروں کو دیمک لگ چکی ہے  اگر ایسا نہ ہوتا توانسان ماضی کی طرف مراجعت کیوں کرتا۔ اس سے  مایوسی کی کوئی وجہ نہیں  ہے  جن قدروں میں ہم کو جینا پڑ رہا ہے  وہ دراصل ان سے  انحراف کرتی ہیں  جن کے  گہواروں  میں ہماری پرورش ہوئی ہے  اس لئے  بھی ہمیں  ناگوار خاطر ہیں  اگر ایک زمانہ اخلاقی قدروں کی ارتقا کا  تھا تو ایک زمانہ اس کے  انحطاط و زوال کا بھی ہے۔ یہ الگ بات ہے  کہ عروج و ارتقا کا دور آدمی کوانسان بنا دیتا ہے  اور زوال کا زمانہ آدمی میں  وحشی پن پیدا کر دیتا ہے۔ یہی قانون فطرت ہے  اسی کھنڈرسے  ایک نئی عمارت برآمد ہو گی جو اس سے  زیادہ طویل عمر رکھتی ہو گی۔ تہذیب کے  عروج و ارتقا میں  ایک لمحہ نراج اور انتشار کا ضرور ہوتا ہے  اس سے  نئی اقدار طلوع ہوتی ہیں۔ شاعراس کا  راز داں  ہوتا ہے  وہ اسے  منکشف کرتا ہے  کیونکہ یہ اس کی مجبوری ہوتی ہے۔ ایک ایسے  لہجے  میں جس میں  چنگاریاں  پوشیدہ ہوتی ہیں۔ ایسی چنگاریاں  ایسے  شرارے  جو تمام کائنات کو راکھ کا  ڈھیربناسکتے  ہیں لیکن شاعران چنگاریوں کو پھول بنا دیتا ہے  کیونکہ وہ ان کامزاج داں  ہے۔ آہنی زنجیروں کو پگھلا دیتا ہے  انہیں  پھولوں  میں  تبدیل کر دیتا ہے  وہ انگاروں  سے  شبنم کشید کرنے  کے  ہنرسے  واقف ہوتا ہے  لیکن غزل میں  یہ اعجاز بھی پنہاں  ہے  کہ وہ پھولوں  کی زبان میں  کلام کرتی ہے  ایسے  عہد میں  بھی جہاں  ناہموار چٹانیں  ہوتی ہیں  کھردرے  راستے  ہوتے  ہیں  اور یہی نہیں  ان حشرات الارض کا  ایک جم غفیر بھی ہوتا ہے  جوانسانی گوشت کی خوشبو پر لپکتے  ہیں  اسے  آن کی آن میں  چٹ کر جاتے  ہیں۔ دراصل ہم جس دورسے  گزر رہے  ہیں  وہ ایساہی دور ہے  جہاں  حشرات الارض کا  ایک ہجوم ہے  اور سب انسانی گوشت کی خوشبو کے  دیوانے  ہیں۔ اس طرح سچے  انسان کو اپنے  وجود کا  تحفظ کرنا مشکل ہے۔ راہی کی غزل اسی موڑ پر نظر آتی ہے  اور بیسویں صدی میں  غزل کا یہ وہ موڑ ہے  جہاں  سریع الرفتار صدی تیزی سے  اپنے  قعر عمیق کی طرف جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے  اور اب جہاں  وہ پہونچ چکی ہے  لیکن اکیسویں  صدی بھی کچھ کم رفتار نہیں ہے۔

          میں نے  بیسویں صدی میں  غزل کو نیا موڑ دینے  والے  جن اساطین ادب کی بات کی تھی ان کے  دبستان وگلستان کے  خوشہ چیں  غلام مرتضیٰ راہی بھی ہیں  جہاں  سے  وہ لہجہ پھوٹتا ہے  اسے  دبستان غالب کا نام دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ مرزا اسداللہ خاں  غالب اپنے  عہد کے  اپنی غزل کے  جدید ہونے  کی وجہ سے  ہی معتوب و مطعون ہوئے  تھے۔ اس طور پربھی غلام مرتضیٰ راہی کی غزل کا مطالعہ بے حد ضروری ہے  چنانچہ یہ اشعار قابل غور ہیں :

ہر دن یہ تردد کہ قریب آنے  لگی شام

ہر رات یہ کھٹکا  کہ سحر آئے  نہ آئے

 

عرفان و آگہی کی یہ ہم کس ہوا میں  ہیں

جنبش تک اس کے  پردۂ اسرار میں  نہیں

 

سوکھے  درخت نیزوں کی صورت گڑے  ہوئے

وہ برگ و گل وہ شاخ و ثمر کون لے  گیا

 

دنیا مری آنکھوں  سے  ہوئی جاتی ہے  اوجھل

سوچا نہ تھا اتنی مری رفتار بڑھے  گی

 

کب کھیل ہو کب جنگ کسی کو نہیں  معلوم

میدان کو دونوں  پہ برابر سے  کھلا رکھ

 

رائیگانی وہ اُجالوں  کی مرے  ہاتھوں  سے

میرا وہ شمع لئے  شب میں  بھٹکتے  رہنا

 

اسی کے  طول سے  نکلیں گے  ماہ و سال مرے

جیا ہوں  جس کو میں  لیکر وہ ایک لمحہ تھا

 

نوع بشر کا  وحشی پن جب یاد کرو

یہ مت بھولو جنگل کا  باشندہ ہے

 

جس کے  ہاتھ میں  دیکھو زہر کا  پیالہ ہے

آستیں  میں  ہر اک نے  جیسے  سانپ پالا ہے

 

سب آستینیں  ٹٹولنے  میں  لگے  ہوئے  تھے

کھلی جوسانپوں کی اک پٹاری تومیں نے  دیکھا

یہ دس اشعار جو میں نے  حرف مکر ر، لا کلام اور لا شعورسے  منتخب کئے  ہیں  غزل میں  راہی کی ارتقائی شاہراہ کے  سنگ میل ہیں اس طرح کے  اور بھی اشعار ہیں  لیکن غزل جس طرح اپنی کلاسیک کی زمینوں  سے  ہر مرتبہ نخل کوہسار کی طرح برآمد ہوتی ہے  اس کی مثال یہ  اشعار ہیں  جن میں  روایت کے  حوالے  سے  زندگی جدید ترین تقاضوں کی بات کرتی ہے  میں ان اشعار کے  پس منظر میں  غزل کے  لہجے  کی تبدیلیوں کو تو دیکھتا ہی ہوں  لیکن اس کے  ساتھ ہی پیرائے  اظہار کا حسن علاوہ ازیں  وہ تمام مناظرجوبیسویں  صدی میں  طلوع ہوئے  یا پھر ابھی طلوع ہونے  کے  لئے  بیقرار ہیں۔

          میں  یہاں  اشعار کی توضیح کے  حوالے  سے  بات کروں گا لیکن بیسویں صدی کا  ایک اجمالی جائزہ ضروری ہے  جو بنی نوع انسان کے  لئے  اگرچہ بہت سی بشارتیں  لائی تھی تو کلفتوں اور صعوبتوں کا  ایک انبار عظیم بھی ا سکے  ساتھ تھا۔ اگر میں  ہومر کی زبان میں  کہوں  تو پھر یہ کہوں  گا کہ ٹرائے  کی جنگ کے  بعد جو کچھ ہوا کیا ان تباہیوں  کے  ذمہ دار دیوتا نہ تھے۔ لفظ دیوتا میں  بڑی وسعت ہے  اسے  صرف اساطیر و صنمیات کے  حوالے  سے  نہیں  دیکھنا چاہئے  دیوتا پہلے  بھی تھے  آج بھی ہیں  اور ہمیشہ رہیں گے  لیکن اس نکتے  کوسمجھناضروری ہے  کہ دیوتا کے  ساتھ تقدس تو بعد کی چیز ہے  اقبال کے  یہاں  ایک نظم جس میں  برہمن سے  خطاب ہے  اس کا  ایک مصرع ہی اس لفظ کی توضیح کرتا ہے۔ ’’اپنوں سے  بیر رکھنا تو نے  بتوں  سے  سیکھا، ، دیومالا کے  اعتبارسے  اگر دیوتاؤں  کے  افعال و کردار کا مطالعہ کیا جائے  تو وضاحت ہو جاتی ہے  کہ دیوتا کیا تھے  اور جو طاقت اور وسائل کے  حامل ہیں وہ بھی دیوتاؤں  کی طرح ہی پوجے  جاتے  ہیں۔ ان سب کے  عوامل مختلف نہیں ہیں  جو دیو مالاؤں میں  دیوتاؤں  کے  ناموں  سے  جانے  جاتے  ہیں  مجھے  یہاں  یہ تفصیل مقصود نہیں  ہے  نہ میں دیوتاؤں کے  کرداروں کی بات کر ر ہا ہوں  کیونکہ وہ توسب پر ہمیشہ سے  ہی روشن ہے۔ لیکن دیومالائی کرداروں  سے  ماورا کرۂ ارض پر انسان نے  جو کچھ کیا وہ کیا نہیں  تھا۔ حسدانتقام ظلم بربریت کیا اس تباہی کے  ذمہ دار وہ لوگ نہیں ہیں  جن کے  شکنجے  میں  جکڑی ہوئی انسانی نسل آج کراہ رہی ہے  کیا دیوتاؤں  کی طرح سارے  وسائل پران کا قبضہ نہیں ہے۔ کیا بنی نوع انسان پر چند افراد کی حکومت نہیں ہے  وہ جو کرۂ ارض پر خدا کا نائب تھا محرومی اور مایوسی سے  دوچار ہے۔ راہی کی غزل میں  بیسویں صدی جگہ جگہ پر جلوہ گر ہے  انہوں نے  اگر ماضی کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے  تو موجودہ دور کے  لمحوں میں  غواصی کی ہے  یہ ان کے  حساس اور مشاہداتی ذہن کی علامت ہے  ان کے  یہاں  شعر میں  فضاؤں کے  پیچاک میں ہزاروں  جہاں  آباد ہیں  کہکشاؤں کے  اندر کہکشائیں  چھپی ہوئی ہیں  اور یہ تمام درد و کرب انہیں  بیسویں  صدی نے  عطا کیا ہے۔ یہاں  مجھے  یہ کہنے  میں  یہ باک نہیں  ہے  کہ جدیدیت نے  غزل گویوں  کو بھی عظیم تر بنایا ہے  کہ قدیم الفاظ کو ہماری نئی غزل کے  شعرا نے  نئے  معنی دئیے  ہیں  بیمار لفظوں کے  حلق میں  آب حیات ٹپکا یا ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ الفاظ کے  چہرے  درخشاں ہیں  میں نے  کچھ دیر پہلے  اس حوالے  سے  جو اشعار پیش کئے  تھے  ان میں  بیسویں صدی سانس لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انسان عرفان و آگہی کی عظیم تر منزلوں پر جا رہا ہے  خلائیں  خود کواس پر منکشف کر رہی ہیں  چاروں  طرف نئی روشنی پھیلی ہوئی ہے  ایک جہان نامعلوم ابھی اس کی عقل و دانش کی حدوں  سے  بہت پرے  ہے  وہاں  تک اس کی رسائی نہیں ہو پا رہی ہے  کائنات کے  ذرے  ذرے  میں  آج بھی ایک جہان نامعلوم پوشیدہ ہے  جو اپنی بسیط اقدار کے  ساتھ دعوت فکر دے  رہا ہے  لیکن شاید جو مادیت کا نظام عروج حاصل کر رہا ہے  وہ کچھ بھی منکشف نہیں  ہونے  دے  گا اور دیوتا خصال عناصر جو کرہ ارض کی تباہی کے  ذمہ دار ہیں  وہ عفریت کی طرح قہقہے  لگاتے  رہیں گے۔

          میں نے  کچھ دیر پہلے  بیسویں  صدی میں غزل کے  نئے  موڑ کے  حوالے  سے  بات شروع کی تھی جس میں کچھ اہم ادوار کے  شاعروں کا ذکر بھی کیا تھا۔ میں  یہ نہیں  کہتا کہ غلام مرتضیٰ راہی نے  غزل میں  کوئی نیا موڑ پیدا کیا ہے  لیکن غلام مرتضیٰ راہی کا  پیرایہ اظہار واضح اور روشن ہے۔ انہوں نے  ان تمام اسالیب کو برتا ہے  جو یگانہ شاد عارفی اور بعد میں  خلیل الرحمن اعظمی کوثرجائسی اور شکیب جلالی کے  یہاں پائے  جاتے  ہیں۔ اسالیب و بیان کی اس دنیا میں  کہیں  کہیں  خود کو دہرانے  کا عمل بھی ہے  لیکن میرے  نزدیک نہ تو خود کو دہرانے  کا عمل غیر مستحسن ہے  اور نہ دوسروں کے  یہاں  سے  استفادہ کرنے  کا عمل غیر مستحسن ہے۔ فارسی اردو کے  بڑے  شاعروں کے  یہاں  یہ باتیں  پائی جاتی ہیں۔ شاعری بیان واسالیب کی تازگی کا نام ہے۔ خاص طور پر غزل میں  اسالیب و بیان کی تازگی ہی اسے  ممتاز و ممیز کرتی ہے۔ رہا مفاہیم کی تازگی کا معاملہ تو وہ مشاہدے  سے  تعلق رکھتا ہے  شاعر کا مشاہدہ جس قدر تیز اور عمیق ہو گا مفاہیم کا  تنوع اسی قدراس میں  ہو گا چنانچہ راہی کے  یہاں  غزل میں  اسالیب و بیان کی تازگی توہے  ہی گہرے  مشاہدے  کی بنا پر مفاہیم کا تنوع بھی ہے۔  

         

رکھ  دی  گئی  تھی  قدموں   پر  اس   کے   اُتار  کر 

دستار    جانتی   ہے     کہ   سر   کون   لے    گیا

 

دستک   سی   کو ئی   ہو تی   ہوئی   دور   دور    تک

کھلتا    ہوا   کہیں    نہ   کہیں    کوئی    باب   سا

         

وہ    ایک    ضرب   لگا   کر   نکل  گیا  اُس   پار

تڑپ   کے    ر ہ   گیا    دریائے    نیل    اپنی  جگہ

 

لو   اب  یہ   چاند   ستاروں    میں   بھی  نکل  آئے 

یہ   آئینوں    میں    کہاں    سے    سما    گئے     پتھر

 

راہی کی غزل جمال فطرت کی جولاں گاہ  خلائے  بسیط انسان کے  لئے  ایک زنداں ہی سہی لیکن اس زنداں میں  بود و باش کا دورانیہ اس لئے  خوشگوار اور دلچسپ ہو جاتا ہے  کہ یہاں  انسان ہی نہیں  مظاہر فطرت کی بھی ایک بہت بڑی بستی ہے۔ یہاں  تنہائی کا  احساس نہیں ہوتا ایسامحسوس ہوتا ہے  کہ ہمارے  ساتھ ایک انبوہ کثیر ہے  یہ انبوہ کثیر متحرک بھی ہے  جامد بھی۔ بے  زبان بھی ہے  متکلم بھی۔ لطف سے  مالامال ہے  لیکن اس کی زبان کو کتنے  لوگ سمجھتے  ہیں  یہ اہم سوال ہے۔ جو زبان شناس ہیں  ان کی دنیا خوبصورت ہے  فنون لطیفہ کے  دلدادہ وہ سچے  فنکارجواس دنیا میں  بود و باش رکھتے  ہیں  وہ مظاہر فطرت کی زبان سے  آشنا ہوتے  ہیں  وہ جانتے  ہیں  سکوت گل اور سکوت کوہسارمیں  کس قدر تکلم پنہاں ہے۔ وہ اپنے  اپنے  اسالیب میں  اپنے  جذبے  کا  اظہار کرتے  ہیں۔ شاعری کے  حوالے  سے  الفاظ مصوری کے  تعلق سے  رنگ اور موسیقی کی نسبت سے  آواز مختلف روپ اختیار کرتے  ہیں۔ روح کو طمانیت وسرشاری ملتی ہے۔ کرہ ارض پر بود و باش اختیار کرنے  کے  بعدانسان نے  اپنے  قدموں تلے  اگر ایک عظیم الشان دنیا کو متحرک متکلم پایا تو سر کے  اوپر بھی ایک جہان بسیط کو مصروف گفتگو ہی نہیں  دیکھا بلکہ ہر لفظ ہر نگاہ میں  ایک بلاوا پوشیدہ تھا اس کا  احساس بھی کیا۔ چنانچہ آب و گل کی دنیا میں  اپنے  گرد و پیش پھیلے  ہوئے  مناظر کو اور اشیاکواس نے  سمجھا اور مزید سنواراسجایابھی۔ جس کا  اظہار اقبال کی ایک نظم میں  کیا گیا ہے  جس میں  اشیاء کی تخلیق اس کے  سنوارنے  سجانے  کا  ذکر بھی ہے۔ لیکن انسان چونکہ شعور کی اعلیٰ منزلوں پر فائز ہے  اس لئے  اس نے  ان تمام مظاہر فطرت سے  جواس کے  قدموں  تلے  تھے  یا گرد و پیش تھے  یا پھر سروں  پر متمکن تھے  انہیں  دیکھ کر اپنی ضرورت کے  مطابق اشیاء کی ایجاد بھی کی۔ لیکن ان تمام باتوں کے  ساتھ چونکہ اس کی جبلت میں  سفاکی بھی تھی شقاوت بھی تھی حکمرانی کا جنون بھی تھا اس نے  بہت سی تباہ کن چیزیں  بھی بنائیں  اور جن کے  اختیار میں  سب کچھ رہا وہ دوسروں  پر حکمراں  رہے  بہرحال یہ بحث طویل ہے  مجھے  تو یہاں  صرف یہ بات کرنی ہے  کہ مظاہر فطرت یا پھر ان سے  تخلیق ہونے  والی ایجاد کی جانے  والی اشیاء کے  باطن میں  اتر کر نئی معنویت کی تلاش کی گئی اس طرح انسان نے  ان تمام چیزوں کو نام دئیے  انہیں  معنویت عطا کی ایک پیرایۂ اظہار دے  دیا اس میں شاعری کا بڑا کردار تھا کیونکہ شاعری انسانی فطرت کا  ایک حصہ تھی۔ موسیقی اس کے  وجود میں موجود تھی خوبصورت مناظر اس کی روح میں  تیر رہے  تھے۔ چونکہ جذبوں کی لہروں کے  لئے  کوئی زبان نہیں تھی اس لئے  آوازسے  لفظ ایجاد ہوئے  اور لفظوں میں جذبوں کو سمویا گیا جو عوامل اور ظواہر مختلف ناموں سے  جانے  جاتے  ہیں  وہ پیرایہ اظہار کا  بار اٹھانے  لگے  اس طرح ادب کی مختلف اصناف پیدا ہوئیں  جن میں  غزل بھی تھی جس نے  سب سے  زیادہ گہری معنویت جمال فطرت کو عطا کی۔

          ان تمہیدی سطورکے  حوالے  سے  میں  غلام مرتضیٰ راہی کی غزل کو اس بساط پر دیکھ رہا ہوں  جہاں  پروہ جمال فطرت کی جولاں گاہ ہے۔ ان کے  یہاں  وہ بھی سب کچھ ہے  جواس کائنات میں حرف کن سے  پیدا ہوا ہے  وہ بھی سب کچھ ہے  جوانسان نے  اپنی ضرورت کے  لئے  ایجاد کیا ہے  ظاہر ہے  کہ اگراس لفظ کے  منظر نامے  کو سمیٹا نہ جائے  تو بات نہیں  بنتی ہے۔ چنانچہ راہی کے  یہاں  اس حوالے  سے  جو الفاظ آئے  جو اصل میں  اشیاء کے  نام تھے  وہ کچھ اس طرح دیکھے  جا سکتے  ہیں  آفتاب، ماہتاب، شبنم، سمندر، دریا، ستارہ، شرارہ، کوہسار، آبشار، بہار و خزاں، پھول، درخت، جنگل، کہکشاں، آسمان، زمین، مٹی، روشنی، اندھیرا، آگ اس کے  علاوہ تیشہ آئینہ، تصویر، دیوار، در، مکا ن، کشتی، شہر اس طرح کے  ہزاروں الفاظ ہیں جو راہی کی غزل میں  آتے  ہیں  اور طرح طرح کی معنویت دے  جاتے  ہیں۔ غزل ہمیشہ اس بات کی متقاضی رہی ہے  کہ اسے  نئی معنویت دی جائے  الفاظ جو ہمارا وسیلۂ اظہار ہیں  بہت قدیم ہونے  کے  باوجود بھی جدید ہیں کیونکہ ہم انہیں  ہر دور میں  نئی معنویت کے  ساتھ استعمال کرتے  ہیں  اس طرح انہیں  نئی زندگی دیتے  ہیں۔ یہ کام سب سے  بہتر ایک حقیقی شاعر کرتا ہے  اور راہی کی شاعری کواگراس نقطہ نظرسے  پڑھا جائے  تواس میں  عجیب عجیب زاوئے  جہتیں  اور پہلو پیدا ہوتے  ہیں  ظاہر ہے  کہ ایک حساس شاعر پتھر کی طرح زندگی تو گزارتا نہیں  بلکہ وہ تو فن کے  مواج سمندروں کے  حوالے  خود اپنے  وجود کو کر دیتا ہے۔ اس طرح نئے  نئے  ساحلوں  تک اس کی رسائی ہوتی ہے۔ موجیں  اسے  کہیں  بھی لے  جا سکتی ہیں  جمال فطرت کے  حوالے  سے  میں  ان اشعار پر کچھ بات کرنے  کی کوشش کروں گا۔

 

پہاڑ دشت سمندر فضا کھنڈر بستی

نہ روکے  کوئی کہ درپیش ہے  سفر مجھ کو

 

بیکار میری سمت کوئی کیوں  نظر کرے

شبنم بھی مجھ پہ صورتِ شعلہ اثر کرے

 

سمیٹا ہاتھ جو میں  نے  تو آئینہ کیا تھا

دیا تو سنگ کو بھی حسن بے  مثال دیا

 

ہے  بحر بحر تلاطم تو دشت دشت سکوت

ادھر ادھر مجھے  اپنا ہی رخ دکھائی دے

 

مہر نے  جال شعاعوں  کا  سمیٹا جس وقت

جسم سب رہ گئے  لیکن کوئی سایہ نہ بچا

 

آنسو کا  اپنے  دیکھتے  رخسار پر اثر

شبنم سے  گل کو اور نکھر جانا چاہئے

 

جھکتا ہوا زمیں  کی طرف آبشار دیکھ

اپنی بلندیوں  پہ مرا انکسار دیکھ

 

ہے  اس میں  بھی ذوق  نمو مثل سبزہ

مرا زخم پھر سے  ہرا ہو رہا ہے

 

تمازت چاند سے  دن بھر چھنی ہے

شعاعِ مہر شب میں  چاندنی ہے

 

دی ہوا آنکھ موند کر جس نے

دیکھے  پرواز وہ شرارے  کی

 

نواح صبح کا  سورج سواد شام میں  ہے

سفر کا  سلسلہ مضمر مرے  قیام میں  ہے

 

چمک رہے  ہیں  برابر سے  سنگ و آئینہ

عجیب دھند ہے  چھٹتی نظر نہیں  آتی

 

چوٹیوں  کی طرح اٹھے  بادل

پتھروں  کی طرح گرا پانی

 

عجب کیا نکل آئے  صورت کوئی

ملا آگ پانی ہوا خاک میں

 

ناخدا بن گئی سمندر میں

کشتیاں  لے  کے  چل رہی ہے  ہوا

 

سائبان کے  نیچے  بیٹھا ہوں  پھر بھی

برس رہی ہے  جیسے  میرے  سر پر آگ

مظاہر فطرت کو غزل کا حوالہ بنا دینا بے حد چابک دستی کا کام ہے  لیکن راہی کی غزل میں  یہ اعجاز ہے  کہ وہ مظاہر فطرت سے  اس طرح کام لیتے  ہیں  کہ ان کا مزاج ان کا جمال ان کی جبلت اور سرشت سامنے  آ جاتی ہے۔ لیکن یہ محض بیان نہیں ہوتا ہے  بلکہ وہ غزل کا  ایک جزو بن جاتا ہے۔ اور پھر اس وحدت سے  کثرت کے  جلوے  اس طرح پھوٹتے  ہیں  کہ ساری کائنات ایک جولاں گاہ بن جاتی ہے۔

          راہی کے  یہاں  بعض مظاہر فطرت کا بیان کثرت سے  پایا جاتا ہے  جن میں  پانی سمندرشجرآئینہ سنگ ان کے  مرغوب و محبوب الفاظ ہیں  ظاہر ہے  کہ ان تمام اشیاء میں  ایک باطنی ہم رشتگی ہے  یعنی شجر آئینہ سنگ یہ سب پانی اور سمندرسے  گہرا تعلق رکھتے  ہیں  اس ربط باہمی کو ان کی غزل منکشف کرتی ہے۔ ان کے  یہاں  شبنم کا  استعمال ایک خاص اندازسے  آیا ہے  انہوں نے  شبنم کے  مثل شعلہ اثر کرنے  کی بات کہی ہے  یا پھر اس سے  دھل کر نکھرنے  کا ذکر کیا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے  کہ شبنم ایک ایساآئینہ ہے  جس میں  فطرت اپنے  عکس کی جلوہ باریوں کا نظارہ کرتی ہے۔ شبنم کی بوند کے  ساتھ ایک طرح کا تقدس بھی وابستہ ہے۔ فطرت کے  انمول خزانوں میں  شبنم کے  موتی بے حد اہمیت رکھتے  ہیں۔ اس کا شعلے  کی طرح اثر کرنا ظاہر ہے  کہ یہ کرب کی ایک منزل ہے  دراصل نگار خانہ فطرت میں جو تصویریں ہیں  جو متاع بے  بہا محفوظ ہے  اس کا  احساس وہبی سوچ ہی کراسکتی ہے  ا سمیں  اکتسابی عمل کو دخل نہیں۔ شبنم آنسوکا تلازمہ بھی ہوتا ہے  پھول رخسارکا تلازمہ ہے  حالانکہ روایت کے  حوالے  سے  اس طرح بھی بیان کیا گیا ہے۔

تمام شبنم و گل ہے  وہ سرسے  تابہ قدم

رکے  رکے  سے  کچھ آنسو دبی دبی سی ہنسی

راہی کے  شعر میں  اس طرح کے  تلازمات ہیں  لیکن اس کا بیان منفرد ہے۔ انہوں نے  شبنم سے  متعلق جو اشعار کہے  ہیں  ان کا  انداز رومانوی ہے  شبنم اور سورج کا  گہرا ارتباط ہے۔ ان اشعار میں  سورج تو نہیں  ہے  لیکن اس کی تمازت شعلے  یارخسارکی شکل میں  موجود ہے۔ غالب نے  اپنے  یہاں  اس مضمون کو خوب باندھا ہے  :

اختلاط شبنم و خورشید تاباں  دیدہ ام

جرأت باید کہ عرض شوق دیدارش کنم

اسی طرح سمندرپانی آئینہ سنگ شجر جیسے  مظاہر فطرت نے  جو تازہ معنویت کے  ساتھ ان کے  یہاں  آتے  ہیں  یہ تمام اشیاء باہمی و باطنی ربط رکھتی ہیں۔ یہ کرہ ارض پر موجود ہیں  تقریباً ہماری دسترس میں ہیں۔ پانی میں  آئینہ پوشیدہ ہے۔ سنگ سے  آئینہ  نمودار ہوا ہے۔ شجروسنگ کے  رشتے  پوری طرح واضح ہیں۔ شجر کا  انسانی زندگی سے  گہرا تعلق ہے۔ جو طمانیت انسان کے  درخت کے  سائے  میں  بیٹھ کر محسوس کرتا ہے  دیگر اشیاء کے  سائے  میں  وہ طمانیت نہیں۔ یہ ایک عرضی رشتہ ہے۔ یوں  دیکھیں  تو راہی کی غزل کا  ہر پیکر ارضی ہے۔ مٹی سے  اس کا گہرا رشتہ ہے۔ انہوں نے  جہاں  آگ پانی ہوا مٹی کی آویزش کی بات کہی ہے  وہاں  تشکیل و تعمیر کے   پہل و اجاگر ہوئے  ہیں۔ ظاہر ہے  کہ یہ وہ عناصر ہیں  جن سے  انسان کی تخلیق ہوئی ہے  یہ عناصر بے حد شفیق بھی ہیں  بے حدسفاک بھی۔ اس بات کو فراموش نہیں کیا جا سکتاکہ یہ عناصر ہمارے  سب سے  بڑے  دوست ہیں  ہم ان کے  بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ لیکن اگر یہ اپنی طاقت کے  اظہار پر آمادہ ہوں  تو قطعی طور پر انسان کو فنا کے  گھاٹ اتارسکتے  ہیں۔ قوت  نمو کے  حوالے  سے  اگراس شعر کو دیکھا جائے  جہاں  زخم سبزے  کی طرح  نمو کرتا ہے  زخم کا سبزے  کی طرح  نمو کرنا یہ شاعر کے  تخلیقی ذہن کا  ایک بڑا کارنامہ ہے۔ قوت  نمو کا  ہماری فارسی اور اردو شاعری میں  خاصہ بیان ہوا ہے  لیکن زخم کی قوت نامیہ کا بیان اس طرح نہیں  آیا ہے  کہ وہ اس طرح  نمو خیز ہو رہا ہے۔ غالب نے  سبزے  کے  پھیلاؤ کو کا ئی کہا ہے  زخم کو ناخون سے  کریدنے  کی اور ہرا کرنے  کی بات کہی ہے  لیکن زخم کا خود میں  قوت  نمو رکھنا اور سبزے  کی طرح پھیلنا ایک منفرد خیال ہے۔

          غلام مرتضیٰ راہی نے  اس طرح کے  مضامین کو خوبصورتی سے  ادا کیا ہے  ظاہر ہے  کہ اگر زخم  نمو کرتا رہا تو کبھی اچھا نہیں ہو گا اور بہتر بھی یہی ہے  کہ وہ ہرا رہے۔ زخم کا  ہرا ہونا خود میں  زندگی کا  ایک ایسا اعلامیہ ہے  جہاں  ایک جہانِ کرب و لذت نظر آتا ہے۔ عام طور پر ذات کی تہہ داری کا بہت ذکر ہوتا رہا ہے  لیکن اسے  کبھی کسی نے  واضح کرنے  کی کوشش نہیں کی کہ اس خلائے  بسیط میں جو کچھ پھیلا ہوا ہے  اس کا ہماری ذات سے  کیا تعلق ہے۔ ہمارے  وجود کے  عمیق و بے  کراں سمندروں میں  تمام مظاہر فطرت کس کس اندازسے  قلانچیں  بھر رہے  ہیں۔ پرندہ اگر پرواز کرتا ہے  تواس کی پرواز اس کی اپنی نہیں ہوتی ہے۔ اس سے  انسان کا گہرا تعلق ہوتا ہے  اس کے  شہپروں میں  کہیں  نہ کہیں  ہمارا وجود کروٹیں  لیتا رہتا ہے۔ شاعر نے  ان کیفیات کو یوں  بیان کیا ہے :

ہزاروں  سال سروں  سے  کہیں  گزرنے  پر

پرند سے  ہمیں  پرواز کا  سراغ ملا

 

رنگ رنگ کے  جھونکے  کھڑکیوں  سے  در آئے

کاغذوں کے  پنجروں میں  پھڑپھڑائیں  تصویریں

 

مری گرفت میں  ہے  طائر خیال مرا

مگر اڑائے  لئے  جا رہا ہے  جال مرا

راہی کے  یہاں  لفظوں کو نئی معنویت ملی ہے  اس کا ذکر میں نے  پہلے  بھی کیا ہے۔ اس حوالے  سے  اندرونِ ذات کا  ایک منظرنامہ ابھرتا ہے۔ پرندہ رات گئے  چیختا ہے  آشیانے  میں  پھڑپھڑاتا ہے  صبح کے  وقت پرندے  اجتماعی طور پر آسمانوں  میں  تیرتے  ہیں۔ ان تمام تر مناظر کا تعلق اندرونِ ذات کے  جہانوں سے  ہے  جو تہہ در تہہ خود میں  ایک وسیع و عریض کائنات ہے۔ علامہ اقبال نے  بہت پہلے  کہا تھا ندی فراز کوہ سے  اتر رہی ہے، شاہد قدرت کو آئینہ دکھا رہی ہے  لیکن اقبال نے  یہ خیال اپنی نظم ہمالہ میں  پیش کیا ہے۔ لیکن راہی نے  اسے  غزل کا  ایک حصہ بنا لیا ہے  جو ہمارے  عہد کا  حوالہ بن گیا ہے۔

ہمالہ کی چوٹی کو پکڑے  ہوئے 

سمندر میں  دریا اترتا ہوا

ظاہر ہے  کہ سارے  دریاسمندرمیں  جا کر گر جاتے  ہیں۔ اس لئے  گنگا بھی ہمالہ کی چوٹی سے  اتر کر سمندرمیں  مل گئی ہے۔ لیکن اقبال کے  یہاں  ندی کا فراز کوہ سے  بس یہی رشتہ ہے  کہ وہ وہاں سے  آ رہی ہے  لیکن راہی نے  ہمالہ کی چوٹی کو پکڑے  ہوئے  کہہ کر ایک خاص ہم رشتگی ظاہر کی ہے  یعنی دریاسمندرمیں مل جاتا ہے  اس سے  ہم آغوش ہو جاتا ہے  لیکن جس چوٹی کو پکڑکراس کا سہارالیکر وہ نیچے  اترا ہے  اس سے  اس کا رشتہ منقطع نہیں ہوتا۔

          راہی جمال فطرت کے  مزاج داں ہیں  مظاہر فطرت کی زبان سمجھتے  ہیں  اور ہم تک اس زبان کا شعری پیکر میں  ترجمہ کر کے  پہونچاتے  ہیں  ان کے  یہاں  مظاہر فطرت کے  ان محسوسات کا بھی بیان ہے  جن کا  اظہار تو بادی  النظر میں  نظر نہیں آتا لیکن سکوت کا تکلم اپنی جگہ پر ایک چیز ہے  اور راہی اس سکوت سے  تکلم کو تراش لیتے  ہیں۔ اور ہمارے  سامنے  ایسے  اصنام کا ڈھیر لگا دیتے  ہیں  کہ ذرا دیر کے  لئے  یہ جولاں  گاہ الفاظ کے  رخش ہائے  بے  زمام سے  بھر جاتی ہے  اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے  کہ ہم فطرت کی درس گاہ میں ہیں  یا پھر الفاظ و آواز کی کوئی ایسی دنیا ہے  جہاں  کوندے  لپک رہے  ہیں  شعلے  چمک رہے  ہیں  یہ اشعار بھی قابل ملاحظہ ہیں :

دے  دیا تہہ نے  سمندر کی مجھے  صاف جواب

اور گہرائی میں  جب میں نے  اترنا چاہا

 

سلام کرنے  لگے  سنگ و خشت اٹھ اٹھ کر

کسی گلی سے  ہوا جب گزر دوبارہ مرا

 

میری زنجیر مرے  پاؤں  کا  کر بیٹھی سوال

میری تلوار مرے  سر کی طلب گار ہوئی

 

ہر ایک ذرے  سے  آتی ہے  العطش کی صدا

سمندروں  پہ کسی روز میں  برس نہ پڑوں

کسی بھی بڑے  شاعر کے  فکری ارتفاع کا  انداز اس بات سے  کیا جا سکتا ہے  کہ اس کے  یہاں  ان اشیاء کو متحرک و تکلم بنا دیا جاتا ہے  جو خود اپنے  وجود میں  جامد ہیں۔ میں نے  ابھی کہا تھا کہ جامد اشیا کو زبان دینا کہ وہ اپنے  محسوسات ظاہر کر سکیں  بڑا کارنامہ ہے۔ سچ تو یہ ہے  کہ اس کیفیت کی متحمل صرف غزل ہو سکتی ہے  جو پوری کائنات کے  حوالے  سے  بات کرتی ہے۔ اس کائنات میں زندگی کی جو بھی شکل و صورت ہے  ان تمام منظروں  کو غزل سمیٹ لیتی ہے۔ راہی کے  یہاں  مناظر فطرت گفتگو کرتے  ہیں  گفتگو میں  شوخی بھی ہے  کرب بھی ہے۔ اصل یہ وہ مقام ہے  جہاں ذات انسانی مظاہر فطرت کے  حوالے  سے  اپنے  وجود کا  اظہار کرتی ہے۔ گویا پھول، پتھر، سمندر، ستارے، چاند نہیں  بولتے  ہیں  بلکہ انسانی جذبے  مختلف شکلیں  اختیار کرتے  ہیں  اور بولتے  ہیں۔ میں  نے  جو اشعار پیش کئے  ہیں  ان میں  ان اشیاء کا بھی ذکر ہے  جوانسانی ایجادات میں  سے  ہیں  لیکن جامد ہیں۔ کلام نہیں کرتی ہیں۔ متکلم نہیں ہیں  اگر متحرک ہیں  بھی تو دوسروں  کے  دست عنایت کی رہین ہیں۔ مثال کے  طور پر زنجیر متحرک ہے  مگر خود میں  نہیں  بات کرتی ہے  لیکن جھنکار کے  اسالیب میں۔ اس کی جھنکا ر ہی اس کی گفتگو ہے۔ اس اسلوب کی تفہیم ہو جانے  کے  بعد منزل آسان ہو جاتی ہے  مثلاً ظفر اقبال کا یہ شعر:

میں  بکھر جاؤں  گا زنجیر کی کڑیوں  کی طرح

اور رہ جائے  گی اس دشت میں  جھنکار مری

اس شعر میں انسانی ذات کو زنجیر میں متشکل کر کے  دیکھا گیا ہے۔ راہی کہتے  ہیں  کہ میری زنجیر میرے  پاؤں کا  سوال کر بیٹھی، ظاہر ہے  کہ زنجیر کی معراج یہی ہے  کہ کسی کے  ہاتھ یا پاؤں  کی زینت بنے۔ بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دینا زنجیر کا زینت پائے  جنوں  ہونا سب اردو غزل کی مثالیں ہیں۔ لیکن غالب نے  اس خیال کو کچھ اس طرح پیش کیا ہے  :

 

ہوا چرچا جو میرے  پاؤں  کی زنجیر بننے  کا

کیا بیتاب کا ں  میں  جنبش جوہر نے  آہن کو

 

یعنی لوہے  کے  بطن میں جو جوہر تھا وہ باہر آنے  کے  لئے  بیتاب ہوا تھا۔ کہ مجھے  جلد از جلد زنجیر کے  پیکر میں ڈھال دوکہ میں  عاشق کے  پاؤں کی زینت بن سکوں۔ راہی نے  پہلے  مصرع میں زنجیر دوسرے  میں  تلوار کا  استعمال کیا ہے  جو خود میں  ایک صنعت بھی ہے  زنجیر بھی لوہے  سے  بنتی ہے  تلوار بھی لوہے  سے  ڈھالی جاتی ہے  ایک کی معراج ہے  پاؤں  کی زینت ہونادوسرے  کی معراج ہے  رگ گلو کے  خون سے  اپنی تشنگی بجھانا۔ یہ شعر خود میں  بہت عجیب ہے  کس خوبصورتی سے  ان کیفیات کا  بیان کیا گیا ہے۔ محولہ بالا اشعار کے  پہلے  اور آخری شعر میں  سمندرکا لفظ آیا ہے  لیکن دونوں  میں محاورے  اپنی چمک دکھا رہے  ہیں۔ یعنی سمندرنے  صاف جواب دے  دیا یعنی صاف گوئی بڑی حد تک بے  مروتی کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ اس شعر میں  دو پہلو ہیں  یاتوسمندر جو صوری اعتبار سے  سمندرتھا لیکن اس میں  گہرائی نہیں تھی ظاہر ہے  کہ شناور کو جب گہرائی نہیں  ملی تو سمندر شرمندہ ہوا۔ اس لئے  اس شناور کو خود میں  اترنے  سے  منع کیا یا یہ کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس گہرائی کوئی ناپ سکے  گا ا سلئے  اس نے  بے  مروتی کا مظاہرہ کیا آخری شعر کے  پہلے  مصرع میں  ذرے  سے  العطش کی صدا آ رہی ہے  یعنی ذرہ پیاسا ہے  پانی چاہتا ہے۔ شاعر نے  اس شعر میں  خود کو پوشیدہ رکھا ہے۔ لیکن اپنی صفت کا  اظہار کر کے  یہ ثابت کر دیا ہے  کہ وہ سحاب ہے، ایک محاورہ ہے  جس کے  معنی ہوتے  ہیں  کسی پر اپنا غصہ اتارنا چنانچہ ذرے  پیاسے  ہیں  مگر سمندران کی پیاس نہیں بجھاتا تومیں  سمندر پر اپنا غصہ اتاروں۔ اسے  انتباہ دوں  کہ وہ ذرے  کی پیاس بجھائے  یا پھر یہ بھی معنی ہیں  کہ میں  براہ راست ذرے  کی پیاس نہ بجھا کر سمندرکو پانی فراہم کروں۔ سحاب ریگزار پر برسے  گاسمندر پر برسے  گا لیکن سحاب کہاں برسے  گاکس پر برسے  گا کس کی پیاس بجھائے  گا کسے  پیاسارکھے  گا تشنہ لبوں  میں سے  کسی کو یہ بات معلوم نہیں۔ بیدل نے  کیا خوب کہا ہے :

از سبزہ تا نہال جگر تشنہ اند لیک

بر رشحہ سحاب کرم اختیار کیست

راہی کی غزل کا فنی میزانیہ

فن پارہ، فنون لطیفہ کے  کسی بھی زمرے  سے  تعلق رکھتا ہو مصوری ہو موسیقی ہو یا پھر شاعری ہو ہر فن پارہ خود میں  پراسرار ہوتا ہے، تشنۂ تفہیم وترسیل ہوتا ہے  وہ اسالیب و بیان کی کیفیات ہیں جو آوازوں  رنگوں  اور الفاظ کی شکل میں طلوع ہوتی ہیں۔ شاعری چونکہ لفظوں  کی بازی گاہ ہے  الفاظ کی خوش خرامی کے  قدموں  کی آہٹ گونج اور جھنکار سے  ابھرتی ہے  اسی لئے  وہ اس معیار پر اپنی تفہیم وترسیل کے  پیمانے  بھی رکھتی ہے  وہ پیمانے  جو الفاظ کی میزان پر پورے  اترتے  ہیں  چنانچہ اساطین فصاحت و بلاغت نے  شعرکوپراسرار بنانے  کے  لئے  اسے  ترسیل و تفہیم کے  خوشنما و دلگداز پیمانے  عطا کرنے  کے  لئے  مختلف تنوع آمیز پیکر فراہم کئے  ہیں  انہیں  میں  بدیعیاتی نظام بھی ہے۔ صناعی کا  ایک طویل سلسلہ بھی ہے  عروض کی میزان اسے  خوش آہنگ پیمانے  دیتی ہے  لسانی نکات جس میں  محاورات و مصطلحات علم قافیہ معیارات صرف و نحو وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب شعر کا جزو خاص ہیں  یہی وہ فنی میزانیہ ہے  جس پر اچھی شاعری کو پرکھا جا سکتا ہے  اور تولا ناپا جا سکتا ہے۔ معیارات مقرر کئے  جاتے  ہیں  فنی امتیازات کی دنیا بھی اسی سے  طلوع ہوتی ہے  عام طور پر خیال ہے  کہ فن پارہ ان تمام باتوں کا  پابند نہیں ہوتا۔ ایسا محض خیال ہے  فن پارہ انہیں  سب چیزوں سے  مکمل ہوتا ہے  ورنہ تشنہ تکمیل رہ جاتا ہے۔ صحت مند متن ان سب معیارات کا  حامل ہوتا ہے۔ ہاں  نثری اور شعری متن میں  کچھ فرق ہو سکتا ہے  مثلاً نثری متن عروض کا پابند نہیں  ہوتا اوزان و بحور کے  حصارسے  آزاد ہوتا ہے  لیکن لوازمات کے  بغیر مکمل نہیں ہوتا ادب تاریخ نگاری کا  نام نہیں ہے  کہ واقعات کے  بیان کا تسلسل ہو اور ایک خط مستقیم پر سفر جاری رہے۔ جہاں  پر پیچ راستے  ہیں  خاردار جھاڑیاں ہیں، بھول بھلیاں ہیں، کمیں  گاہوں  میں بیٹھے  ہوئے  شکاری بھی ہیں  اسی لئے  اس میں  تفہیم وترسیل کے  معیارات بھی ہیں  پیمانے  بھی۔ ان پیمانوں کو سمجھنابے حد ضروری ہے  اور انہیں سے  فنکار کی عظمت کا  احساس ہوتا ہے۔

          غلام مرتضیٰ راہی کے  یہاں  بھی یہ سب کچھ ہے  اور پورے  شکوہ و طمطراق کے  ساتھ۔ وہ ان میں  سے  نہیں ہیں  جو شعری محاسن و معائب سے  واقف نہ ہوں  اور فنی میزان و معیار کو برتنے  کا سلیقہ نہ رکھتے  ہوں۔ جبکہ آج اردو شاعروں کی ایک نسل اس سے  بیگانہ روی اختیار کر چکی ہے۔ وہ ان پیمانوں  کی قائل نہیں ہے  ظاہر ہے  کہ ہونا بھی نہیں  چاہئے  کیونکہ یہ نسل فارسی اور عربی زبان سے  نابلد ہے  اور پیمانے  انہیں  زبانوں  کے  توسط سے  ہم تک پہونچتے  ہیں  لازم تو یہ تھا کہ زبان سیکھی جاتی اس تک رسائی حاصل کی جاتی صحت مند فن پاروں کی تخلیق کی جاتی لیکن یہ کہنا کہ اب ان باتوں  کی کوئی ضرورت نہیں دراصل راہ فرار اختیار کرنے  کے  مترادف ہے  ان حالات میں  اردو شاعری کا  کیا مستقبل ہو سکتا ہے ؟ لیکن راہی کا مکتب فکریہ نہیں ہے  وہ اس چمن کے  خوشہ چیں ہیں  جو نک سک سے  درست آراستہ وپیراستہ کیل کا نٹے  سے  لیس ہے۔ اس لئے  ان کی شاعری صحت مند زبان و بیان کے  معیارات پر پوری اترتی ہے۔ اگر کہیں  کوئی سہوہے  بھی تو اسے  محض انسانی غلطی پر محمول کیا جانا چاہئے۔ کسی ایک بات سے  نہ شاعر کو متہم کیا جا سکتا ہے  اور نہ شاعری کو اور پھر یہ کہ ادب بیباکی اظہار اور جرأت افکار کا  نام ہے  کسی کی دل آزاری کا نام نہیں۔ فنکار کے  یہاں  تخلیق کی مختلف جہتیں ہوتی ہیں۔ جیساکہ میں نے  پہلے  عرض کیا تھا اس لئے  فن پاروں کو صحیفوں  کی زبان نہیں  سمجھنا چاہئے۔ یہ انسانی کلام ہے  جو بے  داغ نہیں ہو سکتا۔ بہرحال کچھ ناقدین کم نظر یا پھر یارانِ کم عیار اس طرح کی باتیں  پیدا کرتے  ہیں۔ آئندہ بھی وہ یہ کام کرتے  رہیں  گے  لیکن ان تمام باتوں  سے  اچھی شاعری متاثر نہیں  ہو سکتی۔

          راہی کے  یہاں  فنی میزانیہ کے  حوالے  سے  اگر بات کریں  تو عروض و معانی زبان و بیان کا  فن شعر کی بلاغت اس کا صناعانہ نظام صوفی و نحوی معیارات دیکھنے  کو ملتے  ہیں۔ عام طور پر یہی ہوتا ہے  کہ اردو کے  شاعر خود اپنے  اشعار کے  محاسن سے  واقف نہیں  ہوتے  ہیں  چند معائب شعری کے  بارے  میں  جان تو لیتے  ہیں  کیونکہ اس پر ان کی گرفت ہو سکتی ہے  لیکن خود اپنے  کہے  ہوئے  شعر کے  محاسن سے  واقف نہیں ہوتے۔ اصل میں  ان کے  بیشتر قاری یاسامع محاسن سے  کچھ واسطہ خود بھی نہیں رکھتے  ہیں  چنانچہ تعریف ہوتی رہتی ہے  شاعر خود بھی جاننے  کی ضرورت محسوس نہیں  کرتا کہ  جو فن پارہ وہ تخلیق کر چکا  ہے  اس میں  کیا کیا ماہ و نجوم پوشیدہ ہیں۔ ساری زندگی شعر کہتا رہتا ہے  تمام تلازمات و لوازمات شعری آتے  رہتے  ہیں  اپنی جگہ اختیار کرتے  رہتے  ہیں  ظاہر ہے  کہ ایسا کوئی بھی متن صرفی و نحوی معیارات کے  بغیر صنائع کے  بغیر فصاحت و بلاغت کے  بغیر مکمل نہیں ہوتا چنانچہ یہ سب کچھ خود بہ خود شعر کے  اندر در آتا ہے  اور خود تخلیق کار کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ بہت کم ایسے  شاعر ہیں جوان باریکیوں  کوسمجھتے  ہیں  ایک طلسمی عمل ہوتا ہے  جو تخلیق شعر میں کارفرما ہے، میں  دیکھتا ہوں  کہ راہی کے  یہاں  ان تمام اوزان و بحور کا  استعمال ہوا ہے  جو غنائیت سے  لبریز ہیں  مترنم فضا بنتی ہے  لفظ خود میں  مترنم ہوتا ہے  انہوں نے  لفظوں  کے  انتخاب کا فن غنائیت آمیز فضا کی تخلیق کا  عمل غالب سے  سیکھا ہے  جہاں  لفظ لفظ ڈھل کر نکلتا ہے  معانی کی شراب سے  لبریز ساغر خوش اندام، انہوں  نے  مشکل بحروں  سے  اجتناب کیا ہے  رواں  مترنم اور خوبصورت بہاؤ رکھنے  والی بحروں  کا زیادہ استعمال کیا ہے  انہیں  عروض دانی کا دعویٰ نہیں ہے  ان کی نگاہ شعری محاسن اور شعری بیانیہ پر زیادہ رہتی ہے  اس میں  وہ مکمل طور پر غالب کے  پیرو نظر آتے  ہیں۔ غالب کے  یہاں  شاذونادر ہی مشکل اور پیچیدہ بحروں کا  استعمال ہوا ہے۔ راہی نے  بھی یہی روش اختیار کی ہے  لیکن جہاں  بھی انہوں نے  مشکل بحروں  کو اٹھایا ہے  سخت زمینوں  پر اپنے  سحاب فکر کو برسنے  کی اجازت دی وہ زمینیں  پانی بن گئیں  ان کا ذرہ ذرہ سیراب و شاداب ہوا ہے۔ یہ فکر کی ارتفاعی منزل ہے۔

          ان کے  اشعار میں  صرفی و نحوی نظام بے  حد صحت مند و منفرد ہے۔ محاورات و اصطلاحات میں بھی ان کے  اپنے  مزاج کی انفرادیت کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ جہاں  تک شعری صنعتوں کا معاملہ ہے  اس میں  بھی انہوں نے  طرح طرح کے  گل بوٹے  کھلائے  ہیں۔ استعارہ تشبیہ کنایہ مجاز مرسل مراعاۃ النظیر تجنیس لفظی وغیرہ ان کے  یہاں  خوب استعمال ہوتی ہیں۔ یہ قطعی نہیں کہا جا سکتا ہے  کہ وہ فنی نکات سے  واقف نہیں  ہیں ورنہ شعر میں اس طرح کی وسعتیں  شگفتگی و شادابی کہاں  سے  آ سکتی ہے۔ ان کا فنی میزانیہ متوازن ہے  معتبر ہے  اور بے حد غنائیت آمیز ہے۔

اب دور نہیں  رہائی میری

دیوار سے  در نکل رہا ہے

 

اُدھر پڑی ہے  تاک میں  ساری رات الگ

اِدھر لگائے  بیٹھا ہے  دن گھات الگ

 

رہ گیا تشنۂ تعمیر صنم خانہ مرا

کبھی آذر کبھی تیشہ کبھی پتھر نہ ملا

 

چل نہ سکے  تو میل کا  پتھر بن کر ہم

اس کی سمت اشارہ کر کے  بیٹھ گئے

 

گرج چمک کے  نہ جانے  کدھر گئے  بادل

ملا نہیں  مجھے  پانی قریب و دور کہیں

 

میں  نے  دروازے  پہ دستک دی تھی

اپنے  آپے  سے  وہ باہر آیا

 

یہ شیشہ گر اسی انسان کے  نسب سے  ہے

جو پتھروں  کے  زمانے  میں  کامراں  تھا بہت

 

ندی کی دھار پلٹتی نظر نہیں  آتی

ادھر کگار بھی کٹتی نظر نہیں  آتی

 

چہرے  کو اپنے  دیکھنا چاہا تھا چاند نے

آئینہ لے  کے  پہونچا سکندر زمین کا

 

پہلے  اس نے  مجھے  پھیلا دیا عالم عالم

اور پھر سوئی کے  ناکے  سے  نکالا مجھ کو

 

ایک کی پیاس بجھتی نہیں ہے  دوسرا ہوتا جاتا ہے  خالی

کیوں  نہ دریا ہوصحراسے  نالاں  اور دریاسے  بیزار صحرا

 

 

چھت لے  کے  مجھے  بیٹھ بھی سکتی ہے  کسی دن

میں  جس کی اماں میں ہوں  وہ سفاک بہت ہے

 

آزر ہے  کب سے  میرے  اشارے  کا  منتظر

سنگ وجود سے  مرے  تیشے  کا  ڈر نکال

 

توپ بندوق سناں  تیر کماں  تیغ سپر

سب ملے  خاتمۂ جنگ پہ لشکر نہ ملا

 

نکالا کا نٹے  سے  کا نٹا کبھی کبھی ہم نے

چبھے  تو دونوں  مگر ایک مہرباں  ٹھہرا

 

ملاح بن کے  میں  نے  گزاری ہے  زندگی

پانی پہ داستاں  مری تحریر ہو گئی

 

گل سخت زمینوں  میں  کھِلانے  کا  نتیجہ

بھونروں  کا  ادھر بھول کے  پھیرا نہیں  لگتا

 

بھیگنا میرا وہ بارش کے  نکل جانے  پر

قطرے  قطرے  کا وہ شاخوں سے  ٹپکتے  رہنا

 

 

میں  اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے  چلتا ہوں

اب اس سے  بڑھ کے  کوئی مجھ سے  اور کیا لے  گا

 

کس نے  میری آنکھوں  میں  جھونکی ہے  دھول

چاند ستارے  لگتے  ہیں  ویران مجھے

 

نہ جانے  کون سا بیڑا اٹھالیا میں نے

قدم قدم پہ کوئی جیسے  آزماتا ہو

 

بلیوں  اچھلا تھا جب چاند نے  ڈالی تھی نظر

میں  نے  پتھر بھی جو پھینکے  تو سمندر نہ اٹھا

 

تکمیل کی نہ صورت نکلی مری کہیں  بھی

ہر آئینے  میں  رہ کر میں  ناتمام آیا

 

مری نگاہ میں  اونچے  سے  اونچا منظر تھا

ندی پہاڑ کی چوٹی سے  چل کے  آئی تھی

 

گزر جائے  پانی نہ سر سے  کہیں

ہو قطرہ سمندر تو احسان لے

 

 

آتا تھا جس کو دیکھ کے  تصویر کا  خیال

اب تو وہ کیل بھی مری دیوار میں  نہیں

 

چوٹیوں  کی طرح اٹھے  بادل

پتھروں  کی طرح گرا پانی

 

دیکھ پتھر کا  کلیجہ میرا

یہ چمک تھی کہاں  خنجر پہ ترے

 

تیشہ لئے  تیار کھڑے  ہیں  کہ کسی دن

سمتوں  کا  تعین ہو تو ہم راہ نکالیں

 

اندھیروں  کو پناہیں  دینے  والو

سوا نیزے  پہ سورج آ رہا ہے

 

جانے  کن حیرتوں  میں  دم نکلا

منھ کھُلے  کے  کھُلے  ہیں  غاروں  کے

 

سیاہ غار میں  لفظوں  کے  کون اترے  گا

چھپی ہوئی ہیں  کہاں  پر تجلیات مری

 

 

راہی گرا ضرور تھا میں  آسمان سے

لیکن کسی کھجور سے  اٹکا  نہیں  ہوں  میں

 

چن دئیے  میں نے  دیوار میں  سب ہنر

ہاتھ کٹ بھی گئے  تو اثر کیا ہوا

 

ایک آہٹ سے  کھلنے  لگے  سب دریچے  مگر

آگ پانی ہوا اور مٹی کے  گھر چپ رہے

 

کفن سے  عریانیاں  چھپائے  کھڑے  تھے  منظر

ہوئی درختوں  پہ برف باری تومیں  نے  دیکھا

 

کیسی آواز مرے  خشک گلے  سے  آئی

سچ بتا کیا تری تلوار میں  پانی بھی ہے

 

جھانکتے  ہیں  آسمانوں  سے  فرشتے

ایک بچہ ہاتھ میں  شیشہ لئے  ہے

 

چاہتا ہے  وہ کہ دریا سوکھ جائے

ریت کا  بیوپار کرنا چاہتا ہے

 

بیٹھے  بٹھائے  سوجھتی ہے  دور کی ہمیں

یونہی گزرتے  رہتے  ہیں  ہم دھوپ چھاؤں سے

 

گھسی پٹی آنکھوں  کے  دھندلے  پردے  پر

نئی نئی تصویریں  چلتی رہتی ہیں

          میں نے  غلام مرتضیٰ راہی کی غزل میں ان کے  فنی میزانیہ کے  حوالے  سے  جن باتوں کا ذکر شروع میں کیا تھا محولہ بالا اشعار میں  وہ سب کچھ ملتا ہے  اس سے  صاف ظاہر ہوتا ہے  کہ راہی ایک باخبر اور معتبر شاعر ہیں  انہوں نے  نئی غزل کے  دشت میں  جو مشعلیں  روشن کی ہیں  ان کی روشنی غیر فانی ہے  اور یہ جو کچھ میری نوک قلم سے  تراوش کر گیا ہے  غلام مرتضیٰ راہی کی غزل کا مختصر مطالعہ ہے  کیونکہ ان کی غزل نہ صرف عہد ماضی بلکہ عہد آئندہ کا  اعلامیہ بھی ہے  اور ابھی تو اس حوالے  سے  بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔

متاع حرف و ہنر سے  میں  نا امید نہیں

مرا قلم مری ناآفریدہ آل کے  نام

عشرت ظفر

٭٭٭

 

غلام مرتضیٰ راہیؔ  کی اجازت اور تشکر کے ساتھ جنہوں نے فائل عطا کی

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔