08:56    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

997 0 0 00

ڈاکٹر محمدحسین مُشاہد رضوی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج مجھے ٹھکرا دو گے لیکن کل تم خود مانو گے

اپنے لب و لہجے کا اثرؔ سب سے نرالا شاعر تھا

نیا ملبوس بخشا ہے مری فکروں نے لفظوں کو

نئے ہونٹوں کی جانسوزی نئے لفظوں کی جھولی ہوں

                                                        (مقیم اثرؔ)   

 

        اردو میں ما بعد جدید نظریہ کے حامل شاعروں میں اپنی منفرد خصوصیات، اچھوتی اور نرالی نگارشات اور نو تراشیدہ لفظی ترکیبات کے سبب مقیم اثرؔ بیاولی ثم مالیگانوی کا نام ممتاز اور نمایاں مقام و منصب پر فائز ہے۔ آپ ادارہ رسیدہ روایتی ترقی پسندی، فیشن زدہ روایتی جدیدیت پسندی،  کوتا ہ رسیدہ اشتراکیت پسندی کے فرقہ وارانہ تعصبات کے خول سے ماورا ہمہ جہت و ہمہ گیر بلکہ عالمگیر و آفاقی روحانیت پسند، اخلاقیت پسنداور فطری انسانی بصیرت و بصارت کے حامل سکندرانہ اداؤں اور قلندرانہ جلال کے امیٖن ایک اچھے اور سچے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ انشاپرداز اور مایۂ ناز نثر نگار بھی ہیں۔ بقولِ نظام صدیقی :

        ’’ پچاسوں دیوانوں کا دیوانہ شاعر … مقیم اثرؔ کا ما بعد جدید تخلیقی شعری کردار اکیسویں صدی کو محیط وہ برق رَو معانی آفریں، جہت نما، روشن سفر ہے، جو بھٹکی ہوئی غزل اور نظم کا قبلہ درست کر دے گا۔ ‘‘

        مقیم اثرؔ کی شاعری کے موضوعات متنوع اور گوناگوں، ہمہ گیر و ہمہ جہت ہیں۔ آپکی شعر کائنات کے موضوعات کا دائرہ آدمی،  زندگی،  زمانہ،  کائنات،  خالقِ کائنات،  فطرت کے گہرے حقائق،  جبر و اختیار،   مقامِ آدمیت،  منصبِ رسالت،  عقیدے سے گہری وابستگی،  قضا و قدر،  جذباتی بے رشتگی سے پیدا شدہ تنہائی،  سماجی بے گانگی،  لایعنیت،  احساسِ زیاں،  احساسِ نا تکمیلیت،  لا حاصلی،  یاسیت،   لا حاصلی،  درد و غم،  شعلہ فگنی،  احتجاج،  انحراف،  جلال،  جمال،  عاشقی،  رندی،  سرمستی،  آلامِ روزگار،  دعائے بزرگاں،  جفائے دوستاں،  آزارِ دشمناں،  اعترافِ حقیقت،  پابندیِ وقت،  غمِ ذات،  غمِ کائنات،  اقدار کی پامالی،  مادیت کے فروغ سے بڑھتے جرائم وغیرہ کو اپنی وسعتوں میں محیط کرتا ہے۔

        آپ کا کلام ہر نوعیت کی تحریک شکنی، میلان شکنی، ساخت شکنی، اسلوب شکنی، لفظیات شکنی، نحویات شکنی اور صوتیات شکنی سے مملو ہے۔ تاہم بیک وقت خوب تر،  نئی اور البیلی، اچھوتی اور نرالی صوتی تخلیقیت، صرفی تخلیقیت، نحوی تخلیقیت، معنوی تخلیقیت، عروضی تخلیقیت اور بدیعی تخلیقیت کی امیٖن ہے، جو اپنے آپ میں مثالی بھی اور بے مثالی بھی …

        ذیل کی غزل سے ہمارا یہ دعویٰ مکمل طور پر مترشح ہوتا ہے۔ اس میں طرزِ اظہار کا انوکھا بانکپن اور اسلوب کی جدت و ندرت یہ ہے کہ ہر شعر کے دوسرے مصرعے کے شروع میں ہم قافیہ الفاظ کا ادیبانہ مہارت سے استعمال کیا گیا ہے جس کے سبب آہنگ درونِ آہنگ وجود میں آیا ہے، اسلوب کا یہ نرالا پن مقیم اثرؔ کے علاوہ کہیں اور نظر نہیں آتا     ؎

 

سر بُریدہ خداؤں کی پہچان کیا

نم،  نمیدہ ہواؤں کی پہچان کیا

 

کِشت لا حاصلی،  یاسیت درد و غم

نا شنیدہ دعاؤں کی پہچان کیا

 

کٹ کے سورج سے نذرِ ہوا ہو گئیں

غم رسیدہ شعاؤں کی پہچان کیا

 

دیدہ و دل کی حیرانیاں برف زار

دیدہ،  دیدہ اداؤں کی پہچان کیا

 

نیل کی موج پر حکم فرعون کا

پر بُریدہ عصاؤں کی پہچان کیا

 

کاسۂ ہر طلب،  گنجِ گوہر طلب

آفریدہ صداؤں کی پہچان کیا

 

گل سے چہرے ترس جائیں مسکان کو

آرمیدہ بلاؤں کی پہچان کیا

 

ہر بدن دھوپ کے پیرہن سے جلے

آبدیدہ اداؤں کی پہچان کیا

 

ایک اک حرف ہے مقتلِ آرزو

خط کشیدہ صلاؤں کی پہچان کیا

 

کاسۂ سے سے فکرِ رسا چھین لیں

برگزیدہ سبھاؤں کی پہچان کیا

 

        سربُریدہ،  نم نمیدہ،  نا شنیدہ،  غم رسیدہ،  پر بُریدہ،  آفریدہ،  آرمیدہ،  آبدیدہ،  خط کشیدہ،  برگزیدہ ہم قافیہ الفاظ ہیں۔  ان کے علاوہ دعاؤں، خلاؤں، فضاؤں، عصاؤں، اداؤں وغیرہ قافیے تو ہیں ہی۔ اس طرح ایک ہی غزل میں دو الگ الگ قوافی کی وجہ سے پوری غزل میں بڑی دلکش صوتی، نحوی، عروضی اور بدیعی نغمگی پیدا ہو گئی ہے۔ جو شاعر کی فنکارانہ چابکدستی اور ادیبانہ مہارتِ تامہ پر دال ہے۔

        مقیم اثرؔ کے کلامِ بلاغت نظام کو پڑھنے کے بعد قاری رو شناسی سے آگے روح شناسی کے جذبات سے ہمکنار ہو کر خود شناسی اور خدا شناسی کا شعور و ادراک لے کر اُٹھتا ہے۔ وہ مادّیت پسندی کے خول سے نکل کر روحانیت پسند بن جاتا ہے اور اسے مَن عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ کا عرفان حاصل ہوتا ہے، قاری مقامِ بشر و رسول سے بھی واقف ہوتا ہے، مقامِ آدمیت کی عظمت و رفعت کا ادراک بھی اسے ہوتا ہے اور وہ خود آگہی، کائنات آگہی سے آگے بڑھ کر خدا آگہی کے آفاقی تصورات سے ہم رشتہ ہوتے ہوئے اپنی حقیقت و ماہیت کو پہچان کر احساس و شعور میں جذباتی طہارت، جمالیاتی پاکیزگی اور روحانی ترفُّع پیدا کرتا ہے      ؎

 

ارض و سما سے اونچا اپنا مقام ہو گا

دل کو حرم بنا لو کعبہ غلام ہو گا

 

جب ہم نے درد و کرب کی سرحد عبور کی

معلوم یہ ہوا کہ ہمیں میں خدا بھی ہے

 

یہ فیض اس کا خطاؤں سے چشم پوشی کی

میں بد گماں تھا مگر آسرا دیا اُس نے

 

وہی فراق،  وہی جستجو،  وہی کاوش

چھپا اشارۂ ہجرت شبِ وصال میں ہے

 

کھلی جو چشمِ بصیرت تو میں نے یہ دیکھا

نئے عروج کا آغاز ہر زوال میں ہے

 

دل کے جھکنے کی خبر ہو پھر نہ سر کٹنے کا ہوش

ایک سجدہ ہو اگر ایسا جسے سجدہ کہوں

 

جس میں تیرا غم نہیں وہ دل نہیں کچھ اور ہے

کیسے خالی قبر کو راحت گہہ تقویٰ کہوں

 

کس لب پہ کس زباں پہ نہیں اس حسیٖں کی بات

جس نے غزل کو حُسنِ دو عالم عطا کیا

 

پہلے لازم ہے کہ ہستی کو سمجھ لے انساں

آدمی پھر کسی ہستی کا پرستار بنے

 

نیکیاں ہیں مری کہ تیرا خیال

راہ میں دور تک اجالا ہے

 

اسی کا رنگ مری حسرتوں کے قالب میں

بدن رُتوں میں مہکتا خطاب بھی وہ

 

رنگ بدلتے روپ بدلتے چہروں میں

کوئی تو ایسا ہو جس کو یاد کروں

 

اپنی توقیر کو دفنانا پڑے گا مجھ کو

اپنے ہونٹوں سے اگر اپنی ہی تحقیر کروں

 

واقف نہیں جو منزلِ راہِ سلوک سے

وہ بے اثر،  اثرؔ کو اثر مانتے نہیں

 

سب کے دامن سے چھٹے ہم تو یہ معلوم ہوا

سب کے دامن سے کُشادہ ہے خدا کا دامن

 

ہے اگر معنیٰ کی خوشبو تجھ میں لفظوں میں اُتر

پہلے اپنی جاں کا عارف بن تو غزلوں میں اُتر

 

        متذکرہ بالا اشعار تصوفانہ رنگ و آہنگ ڈھلے اور عارفانہ رنگ سے مملو ہیں۔ جو مَن عَرَفَ نَفسَہٗ فَقَد عَرَفَ رَبَّہٗ کے شارح نظر آتے ہیں۔

        اسی طرح مقامِ رسول و دیارِ رسول(ﷺ)کا یہ انداز مقیم اثرؔ کے بارگاہِ رسالت مآب  ﷺ کے ادب و احترام کے تئیں حزم و احتیاط کو جلوہ دکھاتا ہے۔

 

یہ بارگاہِ نبی ہے نہ تیز کر لَے کو

نہ سر اُٹھا کہ ادب میں یہی کھلا شر ہے

 

بشر تو خیر بشر ہے بشر کا دعویٰ کیا

کوئی بتائے کہ نبیوں میں اُن کو ہمسر ہے

 

تو وہ کعبہ ہے کہ کعبہ تری تعظیم کرے

جلوۂ حق ہے سراپا ہمیں تن من تیرا

 

ہوئی حقیقتِ مطلق سے گفتگو جس کی

وہ امتوں میں بشیر و نذیر ہوتا ہے

 

وہیں کے نُور سے پھیلے گی روشنی گھر گھر

زمانہ لاکھ رکھے دشمنی مدینے سے

 

        مقیم اثرؔ نے اپنے اشعار میں تشبیہات،  استعارات،  اشارات،  کنایات،  محاورات،  علامات،  تلازمات، محاکات اور پیکرات کے جِلَو میں نو تراشیدہ اور خود وضع کردہ ترکیباتِ لفظی کا جو نگار خانۂ رقصاں آراستہ و مزین کیا ہے اور ان ترکیبات کو روایتی شعری لفظیات میں مدغم کر کے جس منفر د اور اچھوتے انداز میں برتا ہے وہ اردو کے دیگر شاعروں کے یہاں تلاشِ بسیار کے باوجود نظر نہیں آتا۔ یہ شعری لفظیات اور نوتراشیدہ ترکیبات بظاہر سادہ معلوم ہوتی ہیں لیکن معنی آفرینی، مضمون آفرینی، جدتِ ادا، طرزِ ادا کے بانکپن، شوکتِ لفظی، بندش و چستی اور ندرتِ بیان کا ایک بحرِ بیکراں اپنے اندر سموئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ جن سے مقیم اثرؔ کی انفرادی اور امتیازی رفعت و عظمت مترشّح ہوتی ہے۔ ان نو تراشیدہ ترکیباتِ لفظی کو ’’مقیم اثری مجتہدانہ کاوش‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک سچائی ہے کہ مقیم اثرؔ ایک ایسا فنکار ہے جو ہر لمحہ نئی بات کی کھوج میں لگا رہتا ہے، خود کہتے ہیں     ؎

 

نہ کہی ہوئی نہ سُنی ہوئی،  نہ پڑھی ہوئی نہ لکھی ہوئی

کسی ایسی بات کی کھوج میں ہے اثرؔ تمہارا لگا ہوا

 

        مقیم اثرؔ کا شعری و ادبی سفر ’’لاتقنطوا‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ یہاں آپ نے یاسیت اور ناامیدی کے چاہِ عمیق میں امید و بیم کا آبِ شیریں بہایا ہے۔  یہ مجموعہ آپ کے ادبی و فنی جمالیات اور حسی و ادراکی جذبات واحساسات کا اوّلین نقش ہے، لیکن اس میں بچکانہ فہم و فراست اور طفلانہ شوخی کا کہیں بھی شائبہ نظر نہیں آتا۔ مکمل طور پر لا تقنطو ا کی غزلیں اور نظمیں آپ کے قادر الکلام اور ماہرِ فن شاعر ہونے کا بین اعلان کرتی ہیں۔ اس مجموعہ میں آپ کا نو تراشیدہ ترکیبی اظہاریہ اور خود وضع کردہ ترکیبی اشاریہ،  اردو ادب میں مقیم اثرؔ ی مجتہدانہ رمزیت و علامت کا آفاقی مکاشفہ بن کر اُبھرتا ہے جو قاری و سامع کو مسرت و بصیرت سے روشناس کرتا ہے، ذیل میں لاتقنطوا سے نئی ترکیباتِ لفظی ملاحظہ کریں  :

        ’’سلگتی ریت میں دریا بہا دیا …  شعورِ صنعتِ الفاظ …  خلوصِ بزمِ تخیل …  سارا بدن گونجتا نغمہ لگتا ہے …  پتھر غنچہ لگتا ہے …  ہنستی کھیلتی بارش دھوپ …  یاد کی منڈیریں  …  نشترِ غم …  قامتِ رعنا …  جھلس گیا رنگ آفتابوں کا …  غم شناس …  صحبتِ گل …  آگ برساتا ہوا ساون …  تہذیبی چٹانیں  …  افکار کے شیشے …  ساحلِ خفتہ …  آستانِ غرض …  پھول بنے انگارہ …  غزل کے مفتیِ اعظم …  سنگ میں تتلیاں  …  تن پہ سبزہ اُگا …  انائے تشنہ لبی …  سورج کا نگر، راحت اثر بن جائے گا …  پیاس کو پھر کربلا کا معرکہ درکار ہے …  ہماری پیاس نے توڑا سمندروں کا غرور …  لفظوں کے چراغوں سے منڈیریں روشن …  دشتِ خموشی …  فصیلِ شب پہ لہو کے چراغ جلتے ہیں  …  بولتے لفظ …  بجھا سکا نہ سمندر وہ پیاس ہوں  …  آبشارِ فکر …  تشنگی، جو کبھی ننگِ تشنگی نہ بنے …  شہیدِ فنا  …  صورتِ گل …  اس شوخ کا پیمانِ وفا …  خون ارزاں ہے …  پیٹ کی آگ …  وقت سفاک ہے …  جنم لیا ہے کسی آفتابِ رحمت نے …  سفر کا تجربہ …  غم کا دریا سرابوں کی بستی نہیں  …  بکھرتے ٹوٹتے موسم سے بچئے …  اصلاحِ تمدن کافساد …  ریشمی کفن …  ردائے مکر …  مطلعِ تہذیب …  آئینۂ حقیقت …  چاند زمینوں پہ اُگا کرتے تھے …  شعلۂ عریاں  …   مسر ّتِ جاوداں،  وغیرہ۔  ‘‘

        مقیم اثرؔ کی مذکورہ بالا رنگا رنگ شعری لفظیات میں ان کی نو تراشیدہ مجتہدانہ ترکیباتِ لفظی کا نظارہ کیا جا سکتا ہے،  پتھر غنچہ لگتا ہے، ردائے مکر، مطلعِ تہذیب، آبشارِ فکر، غزل کے مفتیِ اعظم وغیرہ ترکیبیں نئی حسیت کو اُجاگر کرنے والی وہ لفظیات ہیں جو آپ کی قادرالکلامی پر دال ہیں۔

        مقیم اثرؔ کا تخلیقی بصیرت و بصارت اور فنی ریاضت و مجاہدہ جب لاتقنطوا سے آگے کا سفر کرتا ہے تو وہ پتھروں سے روحانی، عرفانی، اقداری سرمدی نغمات ِ جانفزا کو جنم دینے کی کاوشِ جمیل کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جو نغمۂ سنگ کی صورت میں دنیائے ادب میں اپنے منفرد اور انوکھے اسلوب کا لوہا منواتا ہے۔  یہاں پہونچ کر مقیم اثرؔی نو تراشیدہ ترکیب سازی کا جوہر مزید نکھر جاتا ہے اور ہمیں ایک نئے جمالیاتی آہنگ سے ہمکنار کرتا ہے، ذیل میں نغمۂ سنگ سے چند شہ پارے ملاحظہ کریں  :

        ’’سورج نما اندھیرے …  تمنا جھلسی ہوئی ملے گی …  اشکوں کا سونا دریا … لفظ ی جھیلوں  …  بہتے ہوئے معنیٰ …  جھلسے پیڑ …  سلگتی شاخیں  …  ماتمی ترانوں  …  صبادستارِ گل باندھے کھڑی …  شاخوں کے گھونگھٹ …  کاسۂ سر …  حسنِ سبزہ و گل …  برقِ لفظ و بیاں  …  سرِ انا …  گلِ شبنم …  صحرائے شعلگی …  قصرِ انا …  بے حیا جسم گل لباسوں میں  …  غم کے پیوند …  وصل سلطاں، فراقِ تاج محل …  پانی جلتا ہے سنگ کٹتے ہیں  …  آئینہ بدن پتھر …  چشمِ غضب …  مقتولِ تمنا …  صحبتِ رنگِ جامِ طلائی …  حادثوں نے لبوں پر بچھا دی ہے آگ …  فرازِ دار …  جلوہ طراز …  مزاجِ گل …  پھول بھی ہوتے ہیں سخت دل …  رقصِ قلندر، نازِ بتاں  …  جلتے چاند کی ٹھنڈک …  آب پہ رقصاں شعلۂ جاں  …  سلگتی آشائیں  …  آفتابِ تبسم جو ہو لبوں سے طلوع …  مسلکِ شعر و سخن …  تفسیرِ محبت  …  ذوقِ بازاری …  جہازِ نطق …  آئینۂ حیرت بنیں معنیٰ موتی …  جل اٹھے ننگے شجر …  تہذیبِ بدن روحِ شرافت سے ہٹی …  ماتمِ شب نہ آرزوئے سحر …  شاخ شاخ روئے گی پھول پھول تڑپے گا …  طرزِ رقابت …  شرحِ رفاقت …  فسونِ چنگ و رباب …  جنونِ طوق و سلاسل …  بے حجابیِ گل …  فسردگیِ غم نہ ماتمِ فردا  …  شعاعِ عزم رگِ آفتاب …  جو طرفگی تری آرائش و جمال میں ہے …  شاخِ احتمال …  نشانِ پائے یقیں  …  قصرِ پُر جلال …  پُر شکوہ خلوت …  نُقرئی گذارشات …  صندلیٖں جبیٖں  …  بستیاں جل گئیں گلابوں سے  …  خلوص کی چھاگل …  مہذب وحشی …  مَے زمزمہ آثار …  چمپئی خواہشیں  …  سرمئی خواہشیں  …  شبنمی خواہشیں  …  ہنستے گلشن،  وغیرہ۔ ‘‘

        مقیم اثرؔ بیاولی کی یہ نت نئی اچھوتی، نرالی اور البیلی ترکیبات قاری کو کیف آگیں اور نشاط آگیں جذبات عطا کرتی ہیں۔

        لاتقنطوا سے نغمۂ سنگ اور اس کے آگے بدن نژاد قبا میں مقیم اثرؔ بیاولی نے شراب و شباب پسندروایتوں، ادارہ رسیدہ روایتی ترقی پسندی، فیشن زدہ روایتی جدیدیت پسندی، کوتاہ اندیش اشتراکیت پسندی کی برہنگی و عریانیت کو قبا پہنا کر انھیں ملبوسِ حنائی بخشنے کی کوشش کی ہے۔ جس کا نظارہ بدن نژاد قبا میں کیا جا سکتا ہے۔ اس مجموعۂ کلام میں کا شعری و شعوری، علمی و ادبی اور جمالیاتی و جذباتی سفر مقیم اثری شعری و فنی عُلو میں رفتہ رفتہ اضافہ ہی کرتا چلا جاتا ہے،  یہاں پہنچ کر آپ فکر و فن کے اوجِ ثریا تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور مقیم اثری نو تراشیدہ ترکیبوں میں یہاں ہمیں ایک بالکل نیا، اچھوتا، البیلا، نرالا، منفرد، امتیازی اور رفعت نشان انداز نظر آتا ہے جو اس بات کی علامت بن جاتا ہے کہ خود وضع کردہ ترکیبی انداز اور نو تراشیدہ ترکیبی اسلوب صرف اور صرف مقیم اثرؔ بیاولی کا خاصّہ بن گیا ہے۔ بدن نژاد قبا سے ترکیباتِ لفظی کی تازہ کاری و نادرہ کاری کے گلہائے رنگا رنگ ذیل میں ملاحظہ ہوں   :

        ’’پیٖلی رُتوں میں سبز کنارا …  دریا کی بھیگی پلکوں کا سپنا …  جلتے سفر …  رُ ویتِ سبزہ …  آنکھ دریا …  برف کے رستے …  آنکھ کے پیالے …  درد کا بازار …  تعبیرِخوش آثار …  بدن رُتوں میں مہکتا ہوا خطاب …  امڈتی شب میں تقسیمِ ماہتاب …  بے رنگ حسنِ زائی …  بجھ گیا شیشہ مگر جلتا ہے پتھر کا چراغ …  قیدِ طاق …  شعلۂ جاں  …  الفاظ بھی نکیلے ہوئے …  موسمِ زر کے سُرخ صحیفے …  نغموں کے ملبوس پہنتے ہیں الفاظ …  جذبوں کا انجماد …  دستار باندھے راستے …  گرد کے ملبوس …  جہلِ خط و خال …  جلوۂ شورشِ باطن …  کاسۂ ہر طلب، گنجِ گوہر طلب …  شبنم کے دریچے …  درد کو چمکاتا ہوں  …  شورشِ گل …  سلگتے ہونٹوں نے لالہ زار آہوں کو بے چراغ کر ڈالا …  غم نژاد …  ترجمانِ آب و گل …  شعلۂ مہ کامل …  جانِ مہرِ تاباں  …  سنک اپنے لہو کی …  اجتماعِ جلوۂ فردا …  ذروں کا بدن …  انبساطِ نور …  بجلیوں کا بانکپن …  شورشِ ناز و ادا …  گھنے اجالے …  کلفتِ جاوداں  …  غنچوں کے قفس …  شہرِ خورشید …  ہنستے شیشے …  ذات کی اندھی گپھا …  موجۂ ریگ  …  سلگتے کرب …  سمٹتے کوزے …  وحشت بڑھی گلابوں سے …  نکہتِ ایماں  …  شوریدہ پل …  اس کے لب سورج ہیں اس کی گفتگو پھولوں سی ہے …  بجھتی خاموشی، پتھروں کو شعلہ پیکر نغمگی دے جائیگی …  برگِ نوا شاداب تو ہو …  احساس کی سنّت …  انسان کی اُجڑی شکلوں  …  پتی پتی دھول بچھی …  شبنم شبنم آگ لگی …  گلشن پہ دھوئیں کا قبضہ …  خوشبو کا دریچہ …  پیمانۂ خوشبو …  پیکرِ دار کی گل پیرہنی …  میں فلک پیما نیا شعلہ صراطِ غم کا …  بجھتی کتابوں کے شراروں  …  دشتِ ویراں کو مری آبلہ پائی نکہت …  شعلۂ خاک …  تکمیلِ انا …  پھول کی چھاؤں جلاتی ہے …  تتلیوں کے مکان …  دریا لباس تھا اس کا  …  ریگِ دشتِ محبت …  نظر جھلسنے لگی ہے غرورِ شعلہ سے …  رات کی جھیل …  کنول خوابوں کے …  اڑتی تہذیب …  شجر کی تہی دستی …  شب کی گھنی تنگی …  حصارِ سنگ میں شعلوں کی پرورش …  چمکیلے عقائد …  ریت میں جذب دریا کی روانی …  الفاظ کی چھاگل …  شفق زارِ تمنا …  سلگتی شام …  ہوس گزیدہ جامِ طہور  …  نقطہ نقطہ ضو فگن بہتی لکیروں کا جمال …  نگاہوں کی تمازت …  انکشافِ جستجوئے ذات …  صحرائی مزاج …  شعلۂ نمو …  رگِ گل سے گرمیِ خار تک …  دھنک حصار …  سینۂ ریگ …  جگنو کی شال …  کاسۂ گل …  برف کھانے لگی ہے بازو کو …  آئینۂ تبسم …  خون کی غواصیوں کا تبصرہ  …  بھیگتی پلکوں کا شعلہ …  لکھنی تھی مجھ کو شہر کی تفسیرِ جاں گداز …  ویرانیوں کی بھیڑ …  ہنر کی تمازتیں  …  جاں سوزیِ خلوص …  نہ سورج میں نمی ہو گی نہ گرمی چاند میں ہو گی …  فسونِ جبر …  طوافِ حرف …  دمکتے موسم …  ہمارے نغموں سے نور اترے گا پتھروں میں  …  لفظوں کے آئینے …  چاند کے زخم …  لب کے شعلے …  مچلتے درد …  مہکتی ردا …  شبنمیں پوشاک …  پلکوں کی منڈیروں  …  بادل کے سلگ اٹھنے کا منظر …  شبنم ترے شعلوں کی ردا …  شمعِ نظر …  برف زار پل صراطِ تیٖشۂ نظر نہیں  …  بادل نژاد شبنمیں دمساز …  سنّائے ترجمانِ شعورِ حیات …  زندانِ شہر …  پیکرِ آواز …  بارش گھروں میں آگ لگا کر گزر گئی …  فسادِ ذہن …  نُدرتِ ہوش …  چنگاریوں کا سرد موسم …  سمندروں کو نگلتا حباب …  سسک رہی ہے رگِ ماہتاب …  طوافِ چہرہ غرض بوجتی عبادت میں  …  آنسووں کی سیج …  تیغِ حُسن …  برف کا کفن …  تہذیبِ تخت …  تبسم کے اجالے …  خوشبوؤں کا جال …  وہ خوش قبا بدن کی گپھا میں کیا رہتا …  ضعیف کمروں  …  یاد کی بارش …  زمینِ درد پہ سجدوں کی بارش …  شبوں کے تن میں اجالا ہمارے خوں سے ہے …  اشکوں کی تحریریں  …  پتھریلے سینے …  گدازِ قلب کی رعنائی …  آنکھوں کی سلگتی ہوئی محرابوں  …  حرفوں کی ٹہنیوں  …  دہکتے خوں  …  برفاب منزلیں  …  بدن کے پیڑ …  خون کے دشت …  آنکھ کے جزدان …  ملکوتی فضا …  پُر نور وسیلے …  امانتِ غم …  مشعلِ درد …  نکہتِ سیم بر …  ہنستا موسم …  جلتی فصل …  ظالم کالی شریعت پہ اِترائے گا …  آفتابی قبائیں  …  بیٖنا زخم …  مہکتی فصلیں  …  ہمکتے ہوئے دالان …  قصرِ ناقوس …  ہلالی جذبے …  نکہتِ کوے ہوس،  وغیرہ۔ ‘‘

        متذکرہ بالا جواہرِ عالیہ مقیم اثرؔ کی اردو ادب میں ترکیب سازی کے باب میں مجتہدانہ حیثیت کا اظہار کرتی ہیں۔ بدن نژاد قبا میں موجود یہ البیلی اور اچھوتی لفظی ترکیبوں کی جھلملاہٹ قاری کو نشاطیہ آہنگ سے ہمکنار کرتی ہے۔ ان میں بیشتر ترکیبیں دیگر شاعروں کے یہاں نظر نہیں آتیں جو دراصل مقیم اثری نو تراشیدہ ترکیبیں ہیں جنھیں ایجادِ مقیم کہنا مبالغہ نہ ہو گا۔

        علاوہ ازیں جب مقیم اثرؔ ی مجتہدانہ و عالمانہ طرزِ اظہار کا آفتابِ عالم تاب ’’سرحدِ لفظ نہیں ‘‘میں طلوع ہوتا ہے تو اس کا انداز ہی نرالا ہو جاتا ہے۔ مقیم اثرؔ نے یہاں وحدانیت،  رسالت،  روحانیت،  عرفانیت،  اثباتیت،  انسانیت،  اخلاقیت،  صالحیت،  بصیرت،  بصارت اور فعالیت کا جمالیاتی و جذباتی حسن و جمال اور خد و خال اجاگر کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ لفظ و معنیٰ اور صوت و صدا کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ مقیم اثرؔ کے نو تراشیدہ ترکیبی مکاشفہ کی درخشندگی و تابندگی اس موڑ پر پہنچ کر مزید روشن و منور ہو جاتی ہے۔ یہاں نو تراشیدہ لفظیات کی ترکیبات کی پختگی،  طرفگی، رنگارنگی، نادرہ کاری اور تازہ کاری کے گلہائے رنگا رنگ اپنے مکمل حُسن و دلکشی کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ اس میں پیش کیا گیا نو تراشیدہ ترکیبی اظہاریہ اور خود وضع کردہ ترکیبی اشاریہ مقیم اثرؔ کو اردو کے دیگر ہم عصر شاعروں پر ممیز کر دیتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ نغمۂ سنگ اور بدن نژاد قبا کی بہ نسبت اس مجموعۂ کا پیرایۂ زبان و بیان قدرے سہل اور آسان ہے اس لیے یہاں نو تراشیدہ ترکیبوں کے جوہر میں بھی یہ رنگ صاف جھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سرحدِ لفظ نہیں سے شعری لفظیات کا نو تراشیدہ ترکیبی اشاریہ ذیل میں ملاحظہ کیجیے  :

        ذوقِ شناوری …  عریانیِ بیان …  بندشوں کی تمازت …  تخلیقیت کا نور …  گھنی سرخیاں  …  سایہ بانٹتے کرب …  منظرِ حیرت فزا …  چاندنی سے دھوپ لیجے، دھوپ سے پھولوں کا نم …  ہنستے سایے،  ڈولتے جنگل …  حرَف خزانہ …  پیاسی شام …  آنکھ کے در …  بادل میری آگ میں جلتا …  مہتاب شکن شامِ جدائی تیری …  نُقرئی صبح …  زر پوش مہکتی شب …  پھول کھلاتے جھاگ …  سیپ میں درخشا ں ہے اب بھی تشنگی میری …  تخیل آسمانی، فکر اپنی آبدوزی ہے …  زکوٰۃِ حُسن …  نادار لفظوں  …  جھلستی خو روی …  دریا بار قلم …  چاند ورق …  گلِ رعنا طوافِ یار کو چلیں  …  نقشِ پُر خلوص …  دمکتے شیٖشوں  …  جوہری دَور کو نشّہ ہے فلک یابی کا …  کھلتے چاند …  لفظوں کے لشکر …  ساوَنی لہجہ …  اُتھلی سوچیں، اُتھلی آنکھیں  …  مہر پوش جلووں  …  چاند کے دھندلکوں  …  جل بجھے گی بیکسی …  کب نئی بارش سلگتے خواب کو مہکائے گی …  چلتے چلتے آگ بو دوں مچھلیوں کے پیٹ میں  …  ماہتابی سلوٹوں  …  شعاعِ درد …  جھلملاتی پیاس …  چشمِ صد سحر …  وحشت نثار نسبت …  طوافِ رنگ و بُو …  گدازِ عرش …  دہکتی فکر …  لبِ ایجاد …  لفظ کی میت …  جہاں افروز …  سنگِ خود بیٖں  …  شعاعِ عقل …  دھوپ کے کاغذ …  چراغوں کے مجاور …  ریگِ حق …  جگمگاتی شاخ …  فاصلہ آلود رستے …  پلکوں کے سورج …  بھٹکتے عصر …  شعلۂ برگِ خود نما …  گُل بنے ہیں سراب دستے بھی …  پتھروں میں گداز آئے گا …  انا پرور …  ہمکتے خواب …  لہو کی بے حجابی …  غم کی معجزہ کاری …  تیٖشۂ روشن …  زندہ ماتم …  جلتے بجھتے اشک …  آبی قفس …  بھٹکتی پیاس …  یاس کے جھومر …  قالیٖنِ غم …  آگ بن جائے گی شبنم، پاس کش، ہونٹوں کے بیٖچ …  کربلا میٖنارِ روشن …  یہ چراغِ کربلا ہے دل کے منبر پر جلے …  اے وفا افروز باغِ مصطفیٰ کے عندلیٖب …  نظر کی چاپ سے آنکھوں کے شیٖشے ٹوٹ جاتے ہیں  …  گھنی طغیانیوں  …  بھٹکتے ہوئے رستوں  …  عکاسِ غمِ باطن …  نقاشِ رمِ ظاہر …  آفتاب جھروکے …  ماہتاب چھتیں  …  کوہ شگافی …  سلگتی ہوئی تنہائی …  آنسووں میں درد کے وہ چاند بو کر جاؤں گا …  شوکتِ انا …  گلزارِ بیکسی …  چارہ گرانِ درد و فغاں  …  تاجورانِ علم و بیاں  …  اندھیرے لپیٹے بدن …  سفر آشنا …  دریا مزاجی …  فرعون دھارے …  بادل کی جلتی لٹوں  …  میں شبنم کا قاصد ہوں، گلوں کی صدا ہوں  …  بادل چھنی، سبز ہلکی ہوا …  محوِ نظّارۂ خورشید حنائی دستے …  دہکے ہوئے اشک سے پھوٹی خوشبو …  رودِ غم، سنّتِ تنگی کا نہیں ہے قائل …  زرد یادوں  …  دمکتے لفظ …  نُدرتِ خوں  …  سرِ دشتِ بدن …  عقل کی مشعل …  قلم کی آگ نوائی …  میں شب نژاد بُخل تو دلدار روشنی …  میراثِ درد بولتے لفظوں نے بانٹ لی …  ہر چاند میری آنکھ میں اُجڑی ہوئی کتاب …  حجابِ سنگ …  سبز دالان …  سرِ کوچۂ شب …  مہکتی ہمدمی …  شعلہ بار کشتی …  خوں ترنگ …  آئینہ بازی …  خورشید ڈھالیں ہم لہو کی تابناکی سے …  کاغذی پتوار لفظوں کی …  زخموں کی شادابی …  گل رنگ بے چینی …  درد بنجارہ …  درد کی آنکھ سے ٹپکا آنسو مہ پارہ …  کاغذ پر تو دیپ جلائے لفظوں نے …  لفظوں کے گلدان …  صدی افروز لمحے …  کرن خوشبو سے پھوٹے اور پت جھڑ سے بہاریں  …  جہاں انگیز دانائی …  روحِ حرفِ رواں  …  مجھ کو سورج ملاقات کی پیاس ہے …  لالۂ غم سے محروم ہے دشتِ دل …  جسم کے چوپال اب بھی نے نیازِ شامِ غم …  بھوک کے دربار سے کاسہ بکف لوٹے ہیں سب …  قحطِ سخی …  آیاتِ وفاق …  نازشِ پرواز محرومِ جزا …  پر شکستہ زینتِ قصرِ ہَوا …  اہلیت گوشہ نشیٖں، نوحہ بلب سیٖنہ فگار …  درد محرم، درد کی روشن صدا …  ابھی تو لفظ کی تلچھٹ ہی پی ہے …  بیعتِ خورشید …  نادیدہ حجابوں  …  ہنستی آنکھوں کا اُجڑنا …  ثواب زار کی وسعت …  حیات راستہ …  آنکھ نے کانٹے چنے ہیں  …  لَو افگن تسلی زرد عالم کے لیے …  نیند کا پھاہا …  سُبک سارانِ شیٖشہ …  روتی آنکھوں کا طواف …  تازہ البم …  آنسووں کی بھیڑ …  غربت زدہ گل …  مفاد غرق صفو …  لہو کے دشت میں خیمہ مرا تلاش کرو …  بُخل کی دہلیز …  پردہ دارانِ ہوس …  زمیں افروز لَو …  مسکراتی شبیں  …  گھنی بارشیں  …  ڈوبتی دھڑکن …  برف نَوردی …  ہمکتے آنسو، دہکتا لہجہ …  چمن کے طوافچی …  بول اُٹھی ہیں خموشیاں  …  آنسووں کی آگ …  گلابوں کی روش پر رقص کرتا واہمہ …  مہتاب گھروندے …  جلتے ارماں پیاس بجھائیں  …  بہتی لکیریں  …  خاک افروز …  دہکی رہِ گذر …  جھلستے چاند سے ایجاد کر نئی کرنیں  …  گُہر وقار …  دھواں اگلتے لہو رنگ …  مٹی میں انجانے فلک ہیں  …  شعلوں کی ردا …  تپی بینائیو …  رنگین دھوکہ …  دھوئیں کی موج سے ایجاد کر سورج بھری شمعیں  …  جھلسی ہوئی صبحیں  …  بدن زنداں  …  حبابی آرزو …  مہتابی اُڑانوں  …  جلتی خوشبو …  مرتعش غم …  دھواں شماری …  ریت پی جاتا ہے جسم کا خون …  درد پھواروں  …  دہکے منظر کی افق ہریالی …  سرنگوں چاند، شعاعیں زخمی …  بلوریں سمتیں  …  نیّرِ نظر …  آتشیں قفس …  ستارہ بار خواہش …  آگ تناظر …  لفظ گھروندے بول رہے ہیں  …  چمکتی رہِ گذاریں  …  ہمکتی غمگساری …  عروجِ غیرتِ یکتا …  زخمِ فرصتِ بیجا …  تحرُکِ پردہ …  مری پتھرائی آنکھوں سے بھی چشمے ہو گئے جاری  …  مسافت کوش حسرت …  بارش کا شعلہ …  ہُما افروز سایا …  منشورِ زراعت …  مومی عدالت …  برف کے تودے کا طواف …  مچھلیاں ریت میں بھی تیراؤ …  برف میں آگ بھڑکاؤ …  کوئی کانٹا فلک کی آب بنے …  عیش تلووں  …  اشکوں کی شفق …  شبنمیں روشن قبا …  آفتاب سازی …  ہزاروں چاند مرے خون میں بھی رقصاں ہیں  …  دود گامی …  آرزو رو رہی ہے خوں پیہم …  روشنیِ صراطِ غزل …  دلدلی تیرگی …  کجرویِ بیاں  …  مجھے دہکتی ہوئی بارشوں نے سیٖنچاہے …  ہے آگ کی آنکھوں سے ٹپکنے میں مزا اور …  تاریخِ بدن …  مصحفِ غم …  جُز دانِ ہست و بُود مجھے آبدانِ خاک …  چنگاریاں اُگلتی ہیں تہہ دار برف بھی …  جلتی حسرت …  تیکھے عکس …  ہوا افروز میری آنکھ کا نم …  ضعیفی شباب …  نظمِ صبا حصار …  میں حرفِ باریاب بھی ٹھکرایا لفظ بھی …  چاند بوتی حسرتوں  …  شبنم تراشی …  مہکتے سوز …  آنسو جگر تراش گلاب …  کاسۂ غم …  دل چوکھٹ …  آفتابِ شب …  دستاربندیِ غم …  اُس کی فکریں تمام مرّیخی …  آگ سے بھی مکاں سجاتے ہیں  …  اپنے خون میں پلکیں ڈبو نہیں پاتے …  عبادت کوش جلووں  …  طلائی اشک سیمیں دامنوں میں ڈوب جاتے ہیں  …  جبینِ شب …  غموں کی پھوار …  جلا کر آنکھ محرابوں میں آنسو …  سر کو پٹختی پیاس …  میں روشنی کی آنکھ سے ٹپکا ہُوا لہو …  اونگھتے ساحل …  گل کی آنکھوں میں رنج پھیلا ہے …  لفظ کے جھومر …  چاند طوافی …  اب طوق ہے گلے میں خوشبو کی لعنتوں کا …  خسروِ غم …  کہکشاں مزاجی …  مہکتی دھڑکنوں  …  منثورِ محبت …  قحطِ بینائی …  حجرۂ شام …  مردہ پانی …  یاد کا انجماد دل کی موت …  بینا کرن …  حُسنِ معنیٰ کا تموّج …  تتلیاں ہم سے جنوں سیکھیں گی …  احرامِ سفر …  انسان طوافی …  لفظوں کے گل دان …  چاند پیالہ ہاتھ میں لے کر، سورج بھکشا مانگ چکے ہم …  نیند چشمے ابلنے لگے ہیں مرے …  خاموشیاں بات کرنے لگیں  …  گل سپنے …  پتھر کے لب …  زلزلاتی تپتی خواہش …  اس کو عبور کرنے میں دریا جھلس گئے …  کاغذی گل کاریاں  …  بولتی پرچھائیاں  …  جاگتے فراق کا تاروں بھرا وصال …  چاند کو روند رہا تھا کوئی، آنکھ سورج کی بھی بھیگی ہو گی …  غم نصابوں  …  تن کے گلاب …  گلریز عزائم …  تن کی ریت شگافی …  پھر مجھ کو سرد ریت میں سورج اُگانے ہیں  …  آہوں کے دلکش مقبرے …  رینگتے ہیں جاگتی آنکھوں میں خواب …  برفاب کاری …  منتشر جسموں کے جمگھٹ …  منتشر روحوں کے غول …  کاغذی یلغار …  نقرئی جھنکار …  رقصِ خوں  …  دھندلے دھندلے خواب دریچے …  کالے چاند کی اُجلی باتیں  …  ظلم طنابیں  …   وغیرہ … ‘‘

        مقیم اثرؔ کی ان نت نئی اور اچھوتی ترکیبوں کا جائزہ لیتے ہوئے اشعار کے بین السطور میں پنہاں محاکات و علامات اور تلازمات و پیکرات کا دلکش و دلنشین انداز ہماری جمالیاتی حس کو بھر پور تسکین بخشتا ہے۔ یہ پیکری بیانیہ مذوقی،  سمعی،  بصری،  شامی،  حسّی،  آتشیں،  تحرکی،  لونی،  ادراکی،  جمالیاتی وغیرہ پر مشتمل ہے۔

        اس بات کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ مقیم اثرؔ بیاولی کی شاعری گوناگوں خصوصیات کی حامل ہے۔  پیشِ نظر مقالہ میں آپ کی نو تراشیدہ ترکیب سازی پر بحث مقصود تھی وگر نہ آپ کے جملہ شعری و فنّی محاسن پر تبصراتی کاوش کئی ضخیم کتب پر پھیل سکتی ہے۔ مقیم اثرؔ کی شاعری میں ندرتِ ادا کے ساتھ عالمانہ و مجتہدانہ اسلوب میں نو تراشیدہ ترکیبوں کے نجوم درخشاں ہیں اور جدّتِ اظہار کے مہر و ماہ روشن ہیں، جو ہمیں یہ کہنے پر مجبور کرتے ہیں کہ مقیم اثرؔ بیاولی اکیسویں صدی میں نو تراشیدہ ترکیبوں کا مجتہد شاعر ہے۔

        ابتدا میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ مقیم اثرؔ بیاولی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے نثر نگار اورمایۂ ناز انشاء پرداز بھی ہیں۔ آپ دراصل اردو دنیا میں ایک شاعر ہی کی حیثیت سے متعارف ہیں اور آپ کے شاعرانہ وصف میں نثری صلاحیتیں پس پردہ چلی گئی ہیں جب کہ آپ کی نثری کاوشات بھی اپنا جواب آپ نہیں رکھتیں۔  خود مقیم اثرؔ  کہتے ہیں کہ ’’مجھے میری شاعری کی بجائے میری نثر پر ناز ہے۔ ‘‘ مقیم اثرؔ کا یہ کہنا ہمیں اس بات پر انگیز کرتا ہے کہ ان کی نثری کاوشات کو پڑھا اور پرکھا جائے۔  جب راقم نے آپ کے مختلف مضامین کو پڑھا تو یہ واقعتاً ایسا محسوس ہوا کہ آپ کی نثر بھی خاصے کی چیز ہے۔  

        مقیم اثرؔ کی نثری نگارشات میں کتب و رسائل پر تبصرے، تنقید،  پیش لفظ اور انشائیے نیز مختلف شخصیات پر مضامین موجود ہیں۔ بعض غیر مطبوعہ تنقیدی مضامین راقم کو پڑھنے کا اتفاق ہوا جن میں مقیم اثرؔ ایک بے لاگ نقاد کے رُوپ میں نظر آتے ہیں۔ آپ کی نثری کاوشات کو دیکھ کر مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ آپ جہاں ایک بلند پایہ شاعر ہیں وہیں مایۂ ناز انشاء پرداز و نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ناقد بھی ہیں۔ آپ کا طرزِ تحریر اور اسلوب نگارش بھی اچھوتا اور نرالا ہے، کم سے کم لفظوں میں بڑی سے بڑی بات کہنے میں آپ کو مہارت حاصل ہے، سمندر کو کوزے میں بند کرنے میں آپ یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ آپ کی نثر میں بھی نو تراشیدہ ترکیبی وصف کے جلوے نظر آتے ہیں۔ یہاں آپ کے چند نثری شہ پارے پیش کیے جا رہے ہیں۔

        اعلیٰ حضرت اما م احمد رضا بریلوی کی شاعری پر مقیم اثرؔ کے تحریر کردہ غیر مطبوعہ مقالہ بعنوان ’’رہبرِ قطرہ بہ دریا ہے خوشا موجِ شراب‘ ‘ کا اک اقتباس ملاحظہ کریں  :

        (۱)   ’’اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی خان احمد رضا کی روحانی شخصیت ژرف نگاہی در احوال و معارف ِ شریعت و قرابت و محبتِ رسول(ﷺ)کی تہہ دار نسبتوں اور عشقِ والہانہ اور ان کی دروں بینی کو اُجاگر کرنے کے لیے اجمالاً میں نے عرض کر دیا ہے کہ آپ نے بواسطۂ کملیِ سیاہ و آستانۂ رسول(ﷺ) و صحابۂ کرام اجمعین و تابعین و تبع تابعین، غوث،  قطب، ابدال کے فیضانِ روحانی سے جو فیض حاصل کیا ہے مقدور بھر اس کی گرہ کُشائی میں آسانی ہو۔

        اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی کو کلامِ حق کی ترجمانی کے لیے جو آہنگِ خاص رب تعالیٰ نے عطا کیا ہے وہ اتنا پُر کشش اور والہانہ اور وجد آفریں ہے کہ چرند،  پرند،  درند،  انس و جن و ملائکہ سبھی اس میں گنگناتے ہیں۔ صبح تڑکے بعد نمازِ فجر اذان  و نماز کی پُر تجلی فضا میں نعتِ احمدِ مجتبیٰ (ﷺ) کی مہکتی گونج جو مشامِ جاں کو معطر کر جاتی ہے، آپ کی مقبولیت کی دلیل ہے۔

        محبانِ اراکینِ بزمِ رضا (سرشارانِ جامِ وحدت و محبتِ رسول  ﷺ)کی عقیدتوں اور محبتوں سے بندھا ادب کا یہ حقیر طالب علم لرز گیا جب ان حضرات نے اعلیٰ حضرت ذی وقار فاضلِ بریلوی خان احمد رضا کی مشہورِ عالم نعتیہ و  منقبتی تصنیف بعنوان ’’حدائقِ بخشش‘‘ کے کچھ مخصوص حصوں پر خیال آرائی کی دعوت یہ کہہ کر دی کہ ازروئے عاشقِ رسول(ﷺ)اس کتاب پر کچھ لکھانے کا ہمارا بھی حق بنتا ہے۔ التجا و اخلاص میں ڈوبی ہوئی اس محبت کا دبیز و مہین تاثُّر اس قدر ہیجان انگیز تھا کہ انکار اور گریز کا دامن مرے ہاتھ سے جاتا رہا اور میں نے اپنی بساط بھر خامہ فرسائی جو مکڑی کے نرم و نازک جال سے بھی نازک تر ہے کر لیا۔       ؎

ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس

جو تعلق کو نبھاتے ہوئے  مر جاتے ہیں ‘‘

 

        اس اقتباس کی یہ عبارتیں ’’ژرف نگاہی در احوال و معارف ِ شریعت و قرابت و محبتِ رسول(ﷺ)کی تہہ دار نسبتوں ‘‘ … ’’صبح تڑکے بعد نمازِ فجر اذان و نماز کی پُر تجلی فضا میں نعتِ احمدِ مجتبیٰ (ﷺ) کی مہکتی گونج جو مشامِ جاں کو معطر کر جاتی ہے‘‘ … ’’التجا و اخلاص میں ڈوبی ہوئی اس محبت کا دبیز و مہین تاثُّر اس قدر ہیجان انگیز تھا کہ انکار اور گریز کا دامن مرے ہاتھ سے جاتا رہا اور میں نے اپنی بساط بھر خامہ فرسائی جو مکڑی کے نرم و نازک جال سے بھی نازک تر ہے کر لیا‘‘ پڑھیے اور بار بار پڑھیے یہ چند جملے کئی صفحات پر پھیلنے والے مضامین کو اس حُسن و خوبی اور اختصار سے بیان کرتے ہیں کہ بے ساختہ دل سے داد نکلتی ہے۔ جو مقیم اثرؔ جیسے منفرد شاعر کی منفرد نثر نگاری کی روشن دلیل ہے۔  

        اسی طرح عبدالرشید ادیبؔ بھڑگانوی کے سفرنامے’’کاساً دہاقاً ‘‘پر مرقومہ مقیم اثرؔ بیاولی کا پیش لفظ ہمارے اس دعوے کی تصدیق کرتا ہے کہ مقیم اثرؔ اپنی نثر میں سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں اور وہ مختصر مختصر جملوں میں بڑی سادگی و صفائی سے بڑے سے بڑا مفہوم ادا کر دیتے ہیں اور یہاں آپ کا نو تراشیدہ ترکیبی انداز بھی اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے جو قاری کو مسرت و بصیرت کے احساس سے آشنا کرتا ہے۔ ’’کاساً دہاقاً ‘‘ کے پیش لفظ کا اقتباس ملاحظہ کیجیے  :

        (۲)   اے اہلِ نظر کیوں کہ میرے پیشِ نظر فولادی آئینہ نہیں قلبی آئینہ ہے، اور سب جانتے ہیں کہ اس صیقل نگہِ یار کی توجہ کے بغیر ممکن نہیں یہاں آگ کو وصلیہ صیقل بنانا بے سود ہو گا، اس لیے اپنی بے نوری، اپنی کم مائیگی کو رفو کرنے کے لیے،  منوّر کرنے کے لیے کیوں نہ اسی بارگاہِ بصیرت نواز میں خود کو بطورِ عجز پیش کر دوں جہاں ذرہ بھی آفتابی خلعتوں کا اعزاز پا کر شانِ خداوندی کی خاک نواز جہت کی روشن مثال بن جاتا ہے۔ شاید یہ عاجزی اس درِ کرم سے سعادت کا اعزاز ہی حاصل کر لے،  کہاں میں اور قلبی آئینے کا انعکاس،  جس کی ہر کرن میں ایک کائناتِ معانی جلوہ گر ہے،  جس کی دل فروز ضیا قبا اور ادا ہر سمتِ نظر کو خیرہ کیے ہوئے ہے۔  جس کا جمالِ جہاں افروز عرش و فرش کی سفر و قیام کی داخلی و بیرونی وارداتوں کو موسموں کی جملہ حیرت زائیاں عطا کر کے مجھے بھی حیرت آئینہ سے ہمکنار کر رہا ہے۔ فکر مند ہوں کہ ’’کاساً دہاقا‘‘ پر میری رائے کے اظہار کا کیا بنے گا؟واللہ ! دروبست الفاظ و معانی سے کھیلتی روح و بدن کی صد رنگ حیرت فزا رعنائیاں اور تابناکیاں اور ان کا نقرئی مترنم چشموں کا سا نور افشاں دلکش بہاوتسکینِ دل و جاں کا سامان بہم کرگیا، ایسا محسوس ہونے لگا ہے جیسے میں بھی اس سفر نامے کا ایک مجلا و مصفّیٰ ناقابلِ فراموش کردار بن گیا ہوں۔ ‘‘

(کاساً دہاقا پر پیش لفظ، مرقومہ مقیم اثرؔ بیاولی، بتاریخ ۲۵؍مارچ۲۰۰۱ء)

        متذکرہ بالا نثری شہ پارہ اپنے اندر متنوع انداز لیے ہوئے ہے۔ پیرایۂ زبان و بیان میں تصوفانہ آہنگ بھی ہے، سائنٹفک طرز بھی،  …  … یہ نو تراشیدہ ترکیبیں اپنے اندر ایک جہانِ معانی سموئے ہوئے ہیں ’’بصیرت نواز …  خاک نواز جہت …  آفتابی خلعتوں …  موسموں کی جملہ حیرت زائیاں  …  حیرت آئینہ‘‘ … اور یہ جملہ …  ’’دروبست الفاظ و معانی سے کھیلتی روح و بدن کی صد رنگ حیرت فزا رعنائیاں اور تاب ناکیاں اور ان کا نقرئی مترنم چشموں کا سا نور افشاں دلکش بہاوتسکینِ دل و جاں کا سامان بہم کر گیا‘‘ … تو وجدانی کیفیت سے دوچار کرتا ہے۔ مقیم اثرؔ کے نثری شہ پاروں میں اجمال کے ساتھ ایسی تفصیل پوشیدہ ہے جسے اہلِ نظر بہ خوبی محسوس کر سکتے ہیں۔ ذیل میں مقیم اثرؔ کے چند نثری اقتباسات بلا تبصرہ ملاحظہ کریں اور آپ کی اعلیٰ ترین ادبی صلاحیتوں، فصاحت و بلاغت کا نظارا کریں۔

        (۳)   ’’ادبی ادوار کی تقسیم و تہذیب و ترتیب کے ارتقائی جاری دور کا پوری معنوی، تہہ دار، غیب رس، صد رنگ ادبی منظر نامہ میری آنکھ میں بہ تمام و کمال اپنے پورے طمطراق کے ساتھ محوِ گردش ہے سوچ رہا ہوں،  روایتی ادب،  ترقی پسند ادب،  جدید ادب،  ما بعد جدید ادب،  ساختیات،  پسِ ساختیات،  اور نئے عہد کی شعری تخلیقیت سے مزین شاہ راہِ حیات سے گذر کر قبرِ نشاطؔ کا طواف کچھ اس انوکھے انداز سے کروں کہ رحمت و عقیدت و فضیلت بہم ہو کر ’’امر بیل‘‘ کی ترجمانی میں تجلی ریز،  شفق آلود افق بن کر نگاہ و دل کا مرکز بن جائیں۔ ‘‘

(اقتباس از:نشاطؔ … ایک شیریں زخم آلود دیوانگی، مرقومہ :مقیم اثرؔ بیاولی)

        (۴)   ’’ پڑھیے کہ یہی مقصودِ رب تعالیٰ بھی ہے، سوز و آہنگِ قلبی میں ڈھلے اُس سفرِ حرفِ نوری پر لکھی گئیں چند تاثراتی شعاعیں جن سے حیات کی صد رنگ بوقلمونی مترشح ہے۔  زندگی ایک منصوبہ بند،  راز دار،  طرح دار،  پیچ دار حکمت ہے،  جس کی گرہیں،  تدبر،  فکر،  عقل،  بصیرت،  بصارت،  شیریں دیوانگی،  مہکتی فرزانگی،   صبر واستقلال مسلسل جدوجہد کے ذریعے کھولی جا سکتی ہیں۔  یہ حکیمانہ،  فلسفیانہ،  شاعرانہ،  درد افروز تازیانہ،  ہمارے حکمتِ پرور ذہن کشا ہاتھوں کو ان نظموں کے وسیلے سے دستیاب ہوتا ہے …  …  … عہدِ موجود اور عقل کی نئی اڑانیں جو تاروں کی ہم نشینی کی آرزو مند ہیں،  نئے قدم جو زمیں فرسائی سے آزاد ہو کر فلک پیما ہو چکے ہیں۔  ایسے نورانی دورِ تغیر و ارتقا پذیر میں بڑی عمر کے تشنگانِ علم کی تربیت کی جانب اپنا رُخ کرنا صبح کے تختِ زریں سے اتر کر زوالِ شام کو نئے آفتابِ علم و ہنر کی روشنی سے ہمکنار کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ …  …  … میں ان نظموں کے عمیق مطالعے کے بعد پورے وثوق سے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ ان نظموں کے وسیلے سے ہم اکیسویں صدی کو درکار اُس بصیرت آگیں،  خیر پرور،  روشنی کشا،  درد آمیز،  خیرکش،  تمدّن نثار،  عدل بیز،  آبادی پسند،  پُر امن داعی وسائیں کی تخلیق کر سکتے ہیں۔  جس پر مہذب و متمدن نور افشاں معاشرت و معیشت آفاقی سطح پر ہمیشہ ہمیشہ ناز کرتی رہے گی۔ ‘‘

(اقتباس از :مرحبا اے ضیا پاش نجمِ حیات آفریں، مرقومہ :مقیم اثرؔ بیاولی، مشمولہ: کامیابی کے موتی، رمضان فیمس، )

        (۵)   ’’یہ غزلیہ تفکر نامہ برادرم ’’راحت اندوری‘‘ کی اس فکری جگر کاوی کے نام جو حقائق کش،  تیرہ و سنگلاخ،  زمینوں پر ’’دل و دماغ سے پھوٹتی لوؤں کے سہارے کشتِ حرف و نوا‘‘ کی نمو کاری کو مقصودِ حیات بنا کر درد کی روشن تفسیریں لکھنے میں ہمہ وقت سورج بنے اپنی ہی ذات میں سلگ رہے ہیں،   مہک رہے ہیں۔  اور دنیا گلاب رنگ آنکھوں سے اُن کے فن کے نظارے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ‘‘

(راحت اندوری کے لیے:از:مقیم اثرؔ بیاولی، بتاریخ ۲۹؍ دسمبر۲۰۰۷ئ)

        (۶)   ’’یہ غزل میرؔ و غالبؔ کی عظمتِ فن کے وسیلے سے اُس حساس قد آور فنکار احمد فراز کی نذر کر رہا ہوں جنہوں نے غزل کی روایت کو اپنے خون کی شرکت سے ایک نئی جہت،  اک نیا وقار،  اک نیا آہنگ،  اپنے عصر کی زندہ دھڑکنوں کی شمولیت کے ساتھ عطا کر کے آنے والوں کے لیے اُسے لالۂ صحرا کا بہشتی زیور پہنا دیا ہے۔  ‘‘(احمد فراز کی نذر، مشمولہ :سرحدِ لفظ نہیں :مقیم اثرؔ،  ص۲۹۹)

        (۷)   ’’ہرے بھرے دن،   سہاگنوں سے جگمگاتی راتیں،  شام کی اداسی میں گرم و تازہ لہو کی سرخیاں بھرنے کی آرزوئیں افقِ حیات پر جگمگاتے خواب،  موسموں کا سیلانی مزاج،  آبی برقی توانائیاں،   محبتوں اور دشمنی سے بھری جلتی مہکتی زرد سرخ بستیاں،  لہولہان ساعتیں،  حالات کی تمازت کی نذر ہو کر کافور سی پگھل چکی ہیں۔

        دوپہر کے جلتے سینے سے سبز گھاس کی نمود،  ویران تپتی رہِ گذاروں پر لوٹتے زہریلے سا نپوں کے منہ سے آبِ حیات کی توقع رکھنے کے مترادف ہے۔  درد و ٹیس سے بھری پیاس،  اپنے زخموں کی تلافی اور سیرابی کس چشمۂ حیات سے طلب کرے،  اس ایک سلگتے سوال نے ابھرتی مچلتی آرزوؤں کو بیوَگی کا لباس پہنا دیا ہے۔

        وقت ڈھونڈ رہا ہے پھر کسی عیسیٰ نفس،  کسی موسوی عصا اور اس انگشتِ قمر شکن کو جن کے روشن وجود کے سامنے ہمیشہ سر چڑھتی راتوں نے سجدے کیے ہیں۔

        اُڑتی ہوئی دھول کو نئے آئینوں میں ڈھال کر ان سے نئی پرچھائیاں ایجاد کر کے ’’مکانِ جامد‘‘ کو لا زمانی،  لامکانی تحرک سے آشنا کرانا ہی فقط ادب و فن کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس عجائب کدے کے تمام مبہم عجائبات کو کماحقہٗ نئے طور،  نئی طرز پر ’’مٹی ‘‘ میں گھول کر اک نئے جہانِ حسن کی تخلیق کا اعزاز عطا کرنا بھی اہلِ علم و ادب کا فریضہ و منصب بن جاتا ہے۔

        نئے خواب،  نئی دھوپ،  نئے سایے،  نئے نشیب،  نئے فراز،  نئے پیچ و خم،  نئی راہیں،  نئی منزلیں،  نیا اضطراب،  نیا سکون،  نئے قیاس و گمان،  نئے واہمے،  نیا یقین،  نیا ایقان،  نیا عرفان،  نئے پرندے،  نئی اُڑانیں،  نئے خورشید و قمر،  مِن جملہ غیاب و شہود کی نئی زمینوں پر کھینچے گئے خطوط پر اپنے افکار و خیالات کے روشن نقوش ثبت کرنے والا عبقری شاعر ایک عرصے بعد زمانوں کی سمجھ میں آتا ہے۔

 

لفظِ روشن،  مہر آگیں ہر جہت سے آشنا

مجھ کو ڈھلتے چاند کے ماتم کدوں سے دور رکھ

(دیباچہ سرحدِ لفظ نہیں :مقیم اثرؔ بیاولی)

 

        مقیم اثرؔ بیاولی کی نثری کاوشوں کے یہ سات اقتباسات آپ کے مایۂ ناز انشاء پرداز، بلند پایہ ادیب اور صاحبِ طرز نثر نگار ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ اہلِ علم و ادب ان اقتباسات کو پڑھ کر مقیم اثرؔ کی نثر میں پوشیدہ نو تراشیدہ اور خود وضع کردہ ترکیبوں کا انوکھا، اچھوتا اور البیلا نقش دیکھ سکتے ہیں۔ ان اقتباسات اور مضامین کو ملاحظہ کرنے کے بعد مقیم اثرؔ کا یہ کہنا کہ ’’مجھے میری شاعری کی بجائے میری نثر پر ناز ہے۔ ‘‘ہمیں بھی یہ کہنے پر انگیز کرتا ہے کہ مقیم اثرؔ کی شاعری تو شاعری نثر بھی اپنی مثال آپ ہے۔

        ذیل میں مقیم اثرؔ کے چند غیر مطبوعہ شعری مجموعوں کے نام درج کیے جاتے ہیں جو انوکھی اور نرالی لفظیات پر مبنی نو تراشیدہ ترکیبی اظہار ہیں اور اپنے اندر اک وسیع مفہوم سموئے ہوئے ہیں :

                شکستِ آواز …  زنجیرِ صبا …  سرودِ شام …  طاوسِ رنگ …  وحشتِ در …  رقصِ شرار …  جلوۂ سراب …  شعاعِ درد …  نگارِ دشت …  جرسِ گل …  غزالِ شوق …  شعورِ غم …  زخمِ جنوں  …  رَمِ غزل …  لمسِ ماورا …  آسمانِ بے زمین(برائے غالبؔ) …  موجِ بے زنجیر …  تیغِ خود نگر …  خاک خاک موج …  ورق ورق گلاب …  شعلہ زار حرف …  قطرۂ بحر کُشا …  لوحِ صحرا …  لہو بھی ایک معجزہ …  غمِ آتش خیز …  صدائے شہرِ اجنبی …  طوافِ نور …  پیراہنِ خاک …  تبسم اشک …  برقِ نظر …  رنگِ آبشار …  لَودیتی خوشبوئیں  …  دھوپ پتھراتی چھاؤں  …  چاک ہے پردۂ وجود …  سلگتے خواب دروازے …  تن تن عریانیاں  …  شہر جنگل نہ بنے …  آگ پر جلتی پیاس …  دھوئیں کے بل …  بجلیاں بم نہیں پھول برسائیں  …  سر کے بل چلیں (مجموعۂ نعت)‘‘۔

        اخیر میں مقیم اثرؔ بیاولی کی شاعرانہ جگر کاوی اور اعلیٰ ترین شعری،  فنّی اور فکری بصیرت و بصارت پر خراجِ تحسین کیلئے چار مصرعے تحریر کر کے مقالے کا اختتام کرتا ہوں۔

 

ٹھٹھرتے برف زاروں پر سلگتی بارشیں دیکھیں

ترے احساس نے اکثر مہکتی تابشیں دیکھیں

 

نرالے پیرہن بھی ہیں ترے حرف و معانی کے

یہیں آ کر گلابوں سے گزرتی آتشیں دیکھیں

٭٭٭

(بتاریخ : ۱۹؍ فروری ۲۰۱۰ء بمطابق ۴؍ ربیع الاول ۱۴۳۱ھ بروز جمعہ)

 

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔