12:45    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

1440 0 0 00

ڈاکٹر سیّد محمد یحیٰی صبا

دم توڑتا شعری سناٹا اور قمر رئیس

یہ سناٹا تو دم توڑے، ہر اک آواز آنے دو

نہ کچھ آئے، تو آواز شکست ساز آنے دو

          ’’شام نوروز‘‘  بلیغ فکرو شعور کے ترجمان پروفیسر قمر رئیس کے شعری سفر کا سراغ دیتی ہے حالانکہ لفظ ’’شام نو روز‘‘ پیری اور شب زیست کا استعارہ ہے لیکن اس کی شاعری کے اندر جاگیر داروں کے ظلم و ستم ، دستکاروں اور کسانوں کی مفلوک الحالی ، قومی اور جغرافیائی سرحدوں کا انہدام اور انسانیت کا معتبر و مستند تصور پنہاں ہے۔ قمر رئیس جن کے قلم کی جنبش سے تخلیق و تہذیب کی گنگا بہتی ہے۔ مجموعے میں بھی انہوں نے  زندگی پر محیط کئی دہائیوں کی سرگزشت کا راز افشا کیا ہے جو اقوام عالم کے فن جمالیات اور زندگی کا افسانہ  بیان کرتی ہے۔ مجموعے کے نام کے حوالے سے شاعر کا یہ شعر کتنا سچا ہے کہ   ؎

میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گم تھا

مگر  اب  شام  ہوتی  جا  رہی   ہے

شاعر کی شخصیت اتنی اظہر من الشمس ہے کہ اس پر سوانحی نوٹ لکھنا تضیع اوقات کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ ہم سب جانتے میں کہ موصوف کو ادب اور شعرو شاعری وراثت میں ملی ہے انہوں نے وراثت لوح و قلم کو صرف اپنے لئے استعمال نہیں کیا، بلکہ ملک ہی نہیں  بیر رون ملک تک میں اس وراثت کی  امانت کو تقسیم کرنے کا کام کیا ہے اور آج جب وہ شاکی ہیں اپنی عمر بھر کی کاوشوں کے تو حالت یہ ہے کہ دنیا بھر میں ان کے ہزاروں شاگردان کے ذریعہ و دیعت کئے ہوئے علم و ادب سے گہوارۂ تہذیب و ثقافت کو مالا مال کر رہے ہیں۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک پروفیسر قمر رئیس کی کاوشوں کا ذکر کرنے کے لئے یقیناً کوئی ایک مضمون کافی نہیں اس لئے اپنی قلم کا رخ صرف ان کی شاعری کی طرف موڑتا ہوں لیکن کیا میں انکی اس شاعری کا احاطہ بھی کر سکتا ہوں جس کا دائرہ تقریباً نصف صدی تک پھیلا ہوا ہے ؟ اور وہ نصف صدی بھی ایسا ہنگا مہ خیز جس میں جنگ آزادی سے لے کر بٹوارے تک کے خونچکاں واردات کا زہر ہے ساتھ ہی ان ادوار میں ادب میں بھی جتنے کار زار گرم ہوئے ہیں شاید ہی کسی اور صدی میں اتنے پئے بہ پئے ہنگامے ہوئے ہوں۔ ترقی پسند تحریک سے شروع ہوکر ما بعد جدیدیت تک کے بدلتے ہوئے ادبی رجحانات کے مابین ان کی شاعری مسلسل سفر کرتی رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی شاعری پر ترقی پسند تحریک کا رنگ گہرا چڑھا ہے اور کیوں نہ چڑھے کہ اس تحریک کے عنا صر کا تعلق انسانی اقدار و تہذیب کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ ان کی شعری کائنات میں تازگی شادابی اور رنگارنگی جہاں سورج کی جگمگاتی روشنی کی طرح حکمرانی کرتی  ہے۔ وہیں انہیں ایشیا کا روشن اور گرم سورج بہت پیارا لگتا ہے۔ ان کی شاعری میں صنف نازک کو ایک خاص انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرقی تہذیب ان کے رگ رگ میں جاری و ساری ہے۔ وہ محبت کے روایتی تصور کے بجائے زندہ اور شاداب عشق کے قائل ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں عورت کو لطافت کا ستودۂ صفات مجسمہ بنا کر پیش کیا ہے اور عشق کو حاصل زندگی قرار دیا ہے ان کی ایک نظم ’’ایک آرزو‘‘  میں جو والہانہ پن ہے وہ میرے بات کی دلیل ہے   ؎

         

         جس درپن کے سامنے، اکثر دلہن بن کر تم سجتی ہو

         جس آسن پر بیٹھ کے ، پہروں ،گھنگروں بن کر تم بجتی ہو

         جس آنگن میں ، اپنے چنچل پیروں کی مہدی رچتی ہو

          اس درپن پر

          اس آسن پر

          اس آنگن میں

          اپنے نینوں کے کجرے سے

          اپنے ہونٹوں کی لالی سے

          تن کی جھومتی ہریالی سے

          ہاتھوں کی نازک ڈالی سے

          نام اپنا ایسے لکھ جاؤ

          موسم بدلیں

          برف پڑے یا بادل برسیں

          صدیاں گزریں ، یا جگ بیتیں

          کوئی اس کو مٹا نہ پائے

          انجانے میں

          چپکے چپکے

          جیسے تم نے

          کالے کیسوں کی کا لک سے

          جلتے ہونٹوں کی رنگت سے

          پینی پلکوں کے خنجر سے

          ایک بوڑھے چھتنار پیڑ کے

          ہرے بھرے تن پر لکھا ہے

          البیلے من پر لکھا ہے

          اپنا نام

ان کی شاعری میں دھڑکنوں کو تیز کر دینے کی صلاحیت ہے اور ان کے لہجے میں صوفیانہ لئے صاف محسوس کی جا سکتی ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان کی شاعری کا یہ لہجہ انہیں شاہ جہاں پور نے دیا ہے۔ یہ وہ دیار ہے جہاں ان کی پیدائش ہوئی ہے اور یہ وہی جگہ ہے جو عہد وسطیٰ کی سب سے بڑی صوفیانہ تحریک بھکتی آندولن کا مرکز و  محور رہی ہے جہاں کی فقر و درویشی کی روحانی روایت نے ہندوستانی فلسفے موسیقی ، راس لیلا اور گیت نے ہندوستان کے ادب کو خاص طور پر متاثر کیا۔ موصوف کا سال پیدائش بھی نئی شاعری اور نئی تنقیدی فکر کے طلوع کا زمانہ ہے جو اردو شعر و ادب کی تاریخ میں نشان منزل کی حیثیت رکھتے ہیں۔اردو شاعری پر فکری اور فنی اعتبار سے سنجیدہ گفتگو، اس میں انسانی معاشرے کی بہتر اقدار کی تر جمانی ،زبان کے حسن و قبح پر نئے نقطۂ نگاہ کے ساتھ گفت و شنید اردو شاعری کو انفرادی و معاشرتی فکر کے بعض کثافتوں اور آلودگیوں سے پاک کرنے کی کوشش اسی زمانے میں شروع ہوئی۔ اس زاویہ نگاہ اور اس کے جواز و عدم جو از پر مباحثے اسی زمانے میں شروع ہوئے۔

قمر رئیس نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اردو زبان و ادب کے قافلہ سالار ہیں  انہوں نے زندگی کے اسرار و رموز کو اپنی شاعر ی میں حکمت عملی کے ساتھ برتا ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں ہمارے عہد کی زندگی سانس لیتی ہے وہیں کلاسیکی روایت کے جوہر کی چمک بھی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ ان کے لہجے میں وارفتگی ہے ، سوز ہے، اپنا پن ہے اور ایک خاص قسم کی حلاوت ہے جو دلوں کو ہیجان سے بچاتی ہے۔لیکن گداخت کرتی ہے۔ ان کے تجربات عام انسانوں کے تجربات ہیں۔ جن کی ترجمانی انہوں نے کائنات کے واسطے سے کم اپنی ذات کے واسطے سے زیادہ کی ہے۔ موصوف معاملات غزل کی راہوں سے ایسے گذرتے ہیں جیسے دیگر شعرا گذرتے ہیں لیکن ان گزرگاہوں کی نمائندگی وہ اپنے ماحول کی روشنی میں کرتے ہیں اور روایتی فرسودگی سے دامن کشا فکری توانائی سے انہیں منزہ کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جہاں روایتوں کا احترام ہے وہیں زندگی کے بدلتے ہوئے اقدار پر نظر ڈالی ہے۔ روایتوں کی پر چھائیں اس امر کا ثبوت ہیں کہ وہ معاشرہ کا حصہ ہیں۔ جہاں شاعر نے زندگی کی حقیقتوں کا اعادہ کیا ہے اور ان حقیقتوں میں لطف و انبساط کے ساتھ کرب و درد کی تصویروں کو بھی ابھار ا ہے    ؎

          شاید نو دس کا سِن ہو گا

          میں نے تجھ سے پیار کے پینگ بڑھائے تھے

          کچھ سہما سہما سا ،

          تیری گود میں ، دوڑ ا آیا تھا

          تو نے پیار سے ، پانی کی تھپکی دے دے کر

          تن من مرا جگایا تھا

          گرم ہواؤں کے تپتے جھونکوں سے بچا کر

          ٹھنڈی لہروں کی دھاروں سے

          خوب مجھے نہلایا تھا

          اکثر فالیزوں سے توڑ کر

          کچے پکے خربوزوں سے

          باغوں کی شاخوں سے اچک کر

          خوش رو، گدّر آموں سے

          میں نے تجھے سجایا تھا

          تیری ٹھنڈک سے یہ پھل

    کتنے شیریں

  کتنے شیتل ہو جاتے تھے

  منہ میں رس بھر جاتے تھے

  جیٹھ کی تپتی دھوپ میں ، اک دن

  یاد ہے تجھ کو

  تیرے ہی پہلو میں ، میں نے

  اک میلی سی ، بھیگی بھیگی ساڑی پہنے

  ایک سلونی سی لڑکی کے

  تن کو ہاتھ لگا یا تھا

  لو کے تیز تھپیڑوں میں محسوس ہوا تھا

  ہم دونوں پر جیسے

سورگ کا سایہ تھا

برکھا رُت کی طوفانی موجوں میں تیری

میں اکثر بہہ جاتا تھا

ایسا ہی اک سانحہ اب تک یاد ہے مجھ کو

تیرے تٹ کے پودوں کی شاخوں میں الجھی

میں اک گوری سی عورت کی

ننگی لاش سے ٹکرایا تھا

خوف سے کتنا گھبرا یا تھا

اس عورت نے ، جس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں

مجھ کو کتنا دہلا یا تھا

کئی دنوں تک

مجھ پر ، انجانی دہشت کا سایہ تھا

تیرے ساتھ

مرے بچپن کی ساری یادیں

میری نو عمری کے ، خواب

جو بہہ بہہ کر آتے ہیں

تیری طرح

جینے کی امنگیں لاتے ہیں

تو میری ہمجولی، ساتھی

میرے من آنگن میں اب تک بہتی ہے

میرے اندر رہتی ہے

قمر رئیس کی شاعری میں سب سے غالب تصور کائنات کے گوشے گوشے میں حسن مطلق کی جلوہ گری اور دنیا کی بے ثباتی ہے۔ موصوف نے کائنات کے خالق کے جمال کی جھلک جملہ مظاہر فطرت میں دیکھی ہے۔ اس قوت مشاہدہ کی بدولت ان کی شاعری میں آفاقیت پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے ان کو حدود زمان و مکان اور امتیاز رنگ و نسل سے اوپر اٹھ کر ساری انسانیت کو محبت کرنے کا شعور عطا کیا ہے اور اسی کے باعث انہوں نے دل کی عظمت اور انسانیت کے احترام کے نغمے فضا میں بکھیرے ہیں اور قطرہ میں قلزم بند کرنے کی حکمت و ہنر سیکھی اور پیدا کی ہے بے ریائی ،پاکیزگی قلب، خلوص نیت، اور حسن عمل کو دنیا کی سب سے بڑی دولت قرار دیا ہے۔ یہ کائنات اپنی تمام عشوۂ طرازیوں اور جلوہ سامانیوں کے با وجود انہیں ایک فریب نظر معلوم ہوتی ہے اور انہوں نے بڑے اعتماد و یقین کے لہجے میں اسی بنا پر مینائے نیرنگی دوراں کو طاق نسیاں پر رکھنے اور حرف حسن مطلق کی تابش جمال کو منتہائے نظر بنانے کا درس دیا ہے۔ موصوف کا فلسفہ یہ ہے کہ ہر کام میں احتیاط لازم ہے افراط سے پرہیز کر و اور صرف دنیاوی لذتوں پر جان و دل نچھاور نہ کرو کسی کی برائی نہ کرو نہ سنو اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ دو جب تک زندگی ہے خوش رہو اور ہر ایک سے نیکی اور صلہ رحمی کرو ان کے کلام میں یہ باتیں اتنے شاعرانہ انداز میں پیش ہوئی ہیں کہ ان پر کہیں بھی تلقین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ان کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی اور انسانی حیات مختصر کی اصل غرض و غایت پوشیدہ ہے اور ان کا یہ نقطۂ نظر انہیں اپنی تہذیب کے اس واضح رجحان سے ملا ہے جس کے مطابق یہ دنیا صرف ایک گزرگاہ ہے یا عارضی قیام گاہ ان کی شاعری انسانی اخوت اور ہمدردی کا بلند اور با عظمت تصور پیش کرتا ہے۔ صوفیائے کرام نے بھی اسی تصور کی روشنی میں سارے انسانوں کو سینے سے لگا نے اور دل کے آبگینہ کو ٹھیس نہ پہنچانے کا سبق دیا ہے۔تصوف کی ساری عمارت اسی احترام آدمیت، تجلیّ حق اور درد انسانی کے مضبوط تصور پر کھڑی ہے۔ ان کی شاعری میں دل کی عظمت اور انسان سے محبت کا ایک سیل رواں ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے۔ انہوں نے عظمت آدم کے تصور کے ذریعہ انسانی زندگی کی بے ثباتی اور فنا کے تصور سے ایک توازن پیدا کیا ہے تا کہ انسان میں خود سری اور تکبر کے عناصر پروان نہ چڑھیں  ؎

کہاں چھپاؤں اسے، کس طرح بچاؤں اسے

چراغ ایک، ہوا تیز، اور اندھیری رات

 

فراغ جسم کا ، دل کا سکوں ، نظر کا قرار

تمہارے درد کے دشمن ہیں ، یہ سبھی حالات

 

میں اس مقام پہ پہنچا ہوں ، ان دنوں کہ جہاں

نہ کاہش غم دوراں ، نہ کاوش غم ذات

 

بس اک خلش کے سوا، ایک آرزو کے سوا

عجیب شہر خموشاں ہے، شہر احساسات

 

داغ دامن کے تو دھُل جائیں گے، سب اک دن مگر

ایک دھبہّ، ہے جو خون دل میں تر، رہ جائے گا

 

اے فسون آگہی ،یہ بد دعا کس کی لگی

آدمی ہی ، آدمی سے بے خبر،رہ جائے گا

 

صدائے نغمۂ گل ہے ، بصد انداز آنے دو

فضائے خیمۂ جاں میں ، چمن کا راز آنے دو

 

بہ طائر اونگھتے رہتے ہیں ، بیٹھے سبز گنبد پر

اگر چگ لیں کہیں سے ، ہمت پرواز، آنے دو

٭٭٭

مثنوی فریادِ داغ

اگر ہم اردو ادب کی مشہور مثنویوں کو دیکھیں تو تقریباً تمام مثنویاں عشقیہ جذبات سے لبریز ہیں۔ملّا وجہی کی قطب مشتری ہو کہ سراج اورنگ آبادی کی پرستانِ خیال۔ میر تقی میر کی مثنوی دریائے عشق ہو یا میر حسن کی مثنوی سحر البیان۔ میر اثر کی مثنوی خواب و خیال ہو کہ دیا شنکر نسیم کی مثنوی گلزارِ نسیم۔ نواب مرزا شوق کی مثنوی زہرِ عشق ہو یا پھر داغ دہلوی کی مثنوی فریادِ داغ۔ عبدالقادر سروری غنائی شاعری کے باب میں لکھتے ہیں :

’’شاعری کی اس نوع کو انگریزی میں ’’لریکل‘‘ شاعری کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ وہ نظمیں ہیں جن میں حسن و عشق کے داخلی جذبات اور قلبی واردات کے بیان کے ساتھ غنا کی رعایت بھی ملحوظ رکھی جاتی ہے۔ غنائی شاعری عموماً گہرائی میں جانے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ پر جوش جذبات اس کے محرک ہوتے ہیں ، اس لیے یہ فطرت انسانی کے جذباتی پہلو سے زیادہ واسطہ رکھتی ہے۔ فکر یا قوتِ استدلال کو متاثر کرنا اس نوع کی شاعری کا کام نہیں ہے۔‘‘

عبدالقادر سروری کی رائے میں صرف اس بات کا اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ پر جوش جذبات کے اظہار کا ماحول و معاشرہ بھی اس شاعری میں خود بخود شامل ہو جاتا ہے۔وارداتِ قلب سے گزرنے والا شخص جب تڑپتا ہے، بلبلاتا ہے یا خوشی سے بے خود ہو جاتا ہے تو اس کے شامل رونے اور گانے والے کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں ، حالات ہوتے ہیں ، کوئی نہ کوئی موسم ہوتا ہے، علاقہ ہوتا ہے اس علاقے کی زبان ہوتی ہے، تہذیب ہوتی ہے ان کے رسم و رواج ہوتے ہیں مذہب ہوتا ہے اور ساتھ ہی غم و خوشی کے اظہار کا وہ وسیلہ بھی اس سماج کا زائیدہ ہوتا ہے جس میں وہ شاعر رہ رہا ہوتا ہے۔

زیرِ نظر مثنوی ’’فریادِ داغ‘‘ کو بھی ان معروضات کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

’’فریادِ داغ‘‘ مرزا داغ دہلوی کی واحد مثنوی ہے۔ حالاں کہ یہ رائے بھی ہے کہ انھوں نے بہت ساری مثنویاں لکھی تھیں لیکن ابھی تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے اس لیے ’’فریادِ داغ‘‘ کو ہی ان کی واحد مثنوی قرار دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں سید محمد عقیل رقمطراز ہیں :

’’داغ کا جتنا بھی کلام شائع ہو چکا ہے اور سامنے ہے اس میں صرف ان کی ایک مثنوی ہے جو ’’فریادِ داغ‘‘ کے نام سے 1884میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی ہے۔‘‘

عبدالقادر سروری بھی اپنی کتاب ’’اردو مثنوی کا ارتقا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’داغ نے صرف ایک مثنوی فریادِ داغ لکھی تھی۔‘‘

جہاں تک سوال ہے مرزا خاں داغ دہلوی کی شاعری کا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ داغ نے غالب و ذوق کے بعد اپنے فن کا لوہا تمام اہالیانِ ہند سے منوایا اور اگر ذوق کا کوئی سچا جانشین کہے جانے کے لائق ہے تو وہ داغ ہیں جنھوں نے صرف اپنے پر تاثیر کلام سے اپنی شناخت قائم کروائی کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ ذوق پایہ کے شاعر ہونے کے باوجود اگر بادشاہِ وقت کے استاد نہ ہوتے تو انھیں وہ قدر و منزلت نہ ملتی لیکن داغ نے غالب، شیفتہ،شاہ نصیر جیسے استادوں کے درمیان اپنی انفرادیت قائم کر لی تھی۔ برا ہو غدر1857کا کہ اس نے ان نامورانِ ادب و شعر کو تنگ دست و خستہ حال ہی نہیں غریب الدیار بھی بنا دیا۔ ذاتی ضروریات اور فکرِ معاش سے مجبور ہو کر جہاں جس کو پناہ ملی وہ وہاں چلا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریاست رام پور علمی قدر افزائی کی وجہ سے مشہور تھا۔ اسیر، امیر، تسلیم، جلال، قلق جیسے نامی گرامی شعرا وہاں شعر و ادب کی قلمرو کو سجانے سنوارنے کا کام انجام دے رہے تھے اس وقت نواب یوسف علی خاں ناظم مسند آرا حکومت تھے۔ علم دوستی ان کا وطیرہ تھا اور شعرا و ادبا کی قدر ان کا شعار تھا۔ انھوں نے داغ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ نواب کلب علی خاں کا زمانۂ ولی عہدی تھا۔ داغ ان کے مصاحب مقرر ہوئے۔ قیام رامپور میں داغ کے جوہر اور کھلے اور وہ بہت جلد آسمانِ شعر و سخن کے آفتاب قرار دیے جانے لگے۔ رامپور کے قیام کا زمانہ ہی ’’فریادِ داغ‘‘ کی بنیاد ہے۔ فریادِ داغ در اصل داغ کی آپ بیتی کا ایک حصہ ہے جس میں جہاں داغ نے اپنے نا مکمل عشق کی داستان بیان کی ہے وہیں نواب رامپور سے اپنی دلی محبت اور ان کے اکرام کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔مثنوی کے شروع میں ہی انھوں نے رامپور کا اور اپنے محسن نواب رامپور کا جس شان سے ذکر کیا ہے وہ ان کی وابستگیِ رامپور کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

مدح نواب نامدار کروں

جان قربان دل نثار کروں

حاجی و زائر و خدا آگاہ

شاہ، درویش خوئے ظل اللہ

وہ رئیس دلاور اخترِ ہند

وہ مخاطب شیر قیصرِ ہند

قیصرِ ہند سے شیر خطاب

اور فرزند دلپذیر خطاب

اس سخی کا ہے کام دینے کا

اس کے دینے سے نام دینے کا

کیا خزانہ بھرا پرا پایا

دل خزانے سے بھی بڑا پایا

سو مزے ایک بات میں دیکھے

سو ہنر ایک ذات میں دیکھے

سب اسے رام پور کہتے ہیں

ہم تو آرام پور کہتے ہیں

خیر نواب کی مناتے ہیں

جس کا کھاتے ہیں اس کا گاتے ہیں

مثنوی فریادِ داغ کی مختصر کہانی یہ ہے کہ کلکتہ کی ایک مشہور طوائف ماں منیر متخلص بہ حجاب رامپور بے نظیر کے میلے میں شرکت کے لیے آتی ہے داغ نے اسے وہیں دیکھا اور عشق کی آگ میں جلنے لگے۔آگ دونوں طرف لگی تھی اس لیے کچھ دنوں تک تو وہ رامپور میں رہی اور داغ کی دلدہی کرتی رہی لیکن پھر واپس کلکتہ چلی گئی۔ وصال چند روزہ کے بعد ہجر کے کالے کوس کٹنے مشکل ہو گئے۔ ادھر حجاب کا بھی وہی حال تھا، وہاں کلکتہ میں اس کے پرانے عاشقوں نے جب حجاب کی یہ حالت دیکھی تو انھوں نے یہ چال چلی کہ حجاب سے یہ کہنا شروع کیا تم یکطرفہ محبت کر رہی ہو داغ کو تمھاری مطلق فکر نہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو داغ کو کلکتہ بلاؤ اگر وہ آیا تو اندازہ ہو گا کہ وہ بھی تم سے عشق کرتا ہے ورنہ نہیں۔سب جانتے تھے کہ نواب کو چھوڑے بغیر داغ کلکتہ نہیں آ سکتے اور آئے تو رامپور کی نوکری جائے گی۔ حجاب کی سمجھ میں یہ بات آ جاتی ہے اور وہ داغ کو کلکتہ آنے کی دعوت بھجواتی ہے۔ حالاں کہ داغ حجاب کے عشق میں مرغِ بسمل کی طرح تڑپ رہے تھے اور معشوق کا بلاوا ان کے لیے مژدۂ جانفزا سے کم نہ تھا لیکن نوکری کی مجبوری بھی مانع تھی۔یہ الگ بات ہے کہ عشق صادق اگر دل میں جاگزیں ہو تو وہ بھلا دنیاوی مشکلات کو کب خاطر میں لاتا ہے لہٰذا انھوں نے رخصت لی اور کلکتہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ راستے میں الٰہ آباد، کانپور اور لکھنؤ ہوتے ہوئے عظیم آباد میں بھی قیام کیا اور پھر اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ اپنی منزل کو پا کر ایک انسان جتنا خوش ہوتا ہے داغ بھی ہوئے، لیکن اس سر خوشی میں وہ رامپور کو فراموش نہیں کرتے اور وہاں سے بلاوہ آتے ہی وہ خلوت نازنین سے اٹھ کر پھر رامپور آ جاتے ہیں۔

فریادِ داغ اسی ہجر و وصال کی کہانی ہے جو اپنے آٖ میں مثنوی کی تمام خوبیاں لیے ہوئے ہے۔ اس مثنوی کا تجزیہ کرتے ہوئے سید محمد عقیل رضوی رقمطراز ہیں :

’’داغ کی زندگی، ان کی شخصیت، ان کا ماحول اور افتادِ طبع بہت رنگین تھی۔داغ کی ساری زندگی شاہد بازی میں گزری مگر ان کی مثنوی میں کوئی ٹکڑا ایسا نہیں ملتا جسے دیکھ کر شرم و حجاب کی آنکھیں جھپک جائیں۔مومن اور اثر کی دبی ہوئی جنسیت کا داغ کے یہاں کوسوں پتہ نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان کے مصرعوں اور اشعار میں نوجوانی چہکارتی ہے مگر کہیں ایسی عریانی نہیں جو پڑھتے وقت گرد و پیش پر نظرِ احتیاط ڈالنے پر مجبور کرے۔‘‘

پاکیزہ جذبات اور حسنِ تخیل کی مثال ان کی مثنوی کچھ ایسی دلفریب ہے کہ والہانہ پن کے نازک سے نازک موقع پر بھی زبان کی سادگی جو داغ کا خالص وصف ہے ان کے ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔متقدمین اور متاخرین میں سے بھی اکثر نے ان مضامین کو باندھا ہے لیکن ان کا اسلوبِ بیان اس قدر صاف و شستہ نہیں بلکہ مغلق الفاظ اور پیچیدہ عبارت سے مطالب اکثر عسیر الفہم ہو گئے ہیں۔ داغ کی امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ مشکل مضمون کو بھی آسان زبان میں ادا کر دیتے ہیں اور اس مثنوی میں بھی اس کی مثالیں وافر تعداد میں موجود ہیں۔ داغ کی زبان کے بارے میں بات کرنا ایسا ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا کیوں کہ ان کے معترضین کو بھی اس کا اعتراف ہے کہ جو سادگی اور صفائی اردو میں انھوں نے پیدا کی ہے وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ فصیح الفاظ، عام فہم ترکیبیں ، برجستہ محاورے،سلجھی ہوئی بندشیں اور روز مرہ کی صفائی ان تمام اعتبار سے فریادِ داغ بھی بے نظیر ہے۔ اسالیبِ بیان کی خوبیاں ہی ہیں جس کی وجہ سے فریادِ داغ اردو کی چند مقبول مثنویوں میں سے ایک ہے۔اس مثنوی میں صناعی کو بالکل دخل نہیں۔ انھوں نے محاورے اور چٹکلے بھی اسی طرح نظم کر دیے ہیں جس طرح روز مرہ کی گفتگو میں بولے جاتے ہیں۔ زبان کی طرح داغ نے جہاں کہیں بھی حسبِ ضرورت تشبیہات و استعارات سے کام لیا ہے وہاں میانہ روی کو مد نظر رکھا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ مثنوی فریادِ داغ جب شروع ہوتی ہے تو اس میں روایت کی پاسداری کرتے ہوئے داغ حسبِ روایت حمد، نعت اور منقبت کے مصرعے اور اشعار کہتے ہوئے مدح نواب پر آ جاتے ہیں اور دل کھول کر نواب کی تعریف کرتے ہیں۔ جس زبان کی خوبی کے لیے داغ مشہور ہیں اس کا نمونہ یہاں بھی موجود ہے میں صرف پہلے حصے کے آخری شعر کا حوالہ دوں گا:

خیر نواب کی مناتے ہیں

جس کا کھاتے ہیں اس کا گاتے ہیں

ضرب المثل کا یوں بے محابہ استعمال داغ کے حصے کی چیز ہے اور اس سے جو کام انھوں نے لینا تھا وہ لیا بعد از تمہید ’’عشق کی تعریف‘‘ کے نام سے کچھ اشعار ہیں جس میں داغ نے ماحول خلق کرنے کی کوشش کی ہے اور پوری طرح کامیاب ہوئے ہیں۔ داغ نے یہاں بھی اپنی راہ الگ نکالنے کی کوشش کی ہے فرماتے ہیں :

خوبیاں عشق کی بیان کروں

کچھ طبیعت کا امتحان کروں

سب نے کی ہیں برائیاں اس کی

میں نے لکھیں بھلائیاں اس کی

دل بنا ہے اسی مزے کے لیے

میں نے یہ لطف جان دے کے لیے

عشق کی تعریف کے بعد ساقی نامہ ہے اور پھر عشق کی ابتدا کے عنوان سے اصل قصہ سامنے آتا ہے۔اس میں بھی کئی عنوانات ہیں جیسے ’’پہلا آمنا سامنا‘‘، ’’معشوقہ کی تعریف‘‘، ’’معشوق کی روانگی‘‘، ’’جدائی‘‘، ’’عاشق کی تصویر سے معشوق کی مخاطبت‘‘، ’’معشوقہ کی آمد‘‘، ’’واپسی‘‘، ’’بلاوا‘‘، ’’معشوق کا خط‘‘، ’’جواب‘‘ اور ’’کلکتہ کو جانا‘‘۔

یوں تو یہ پوری مثنوی اپنی خوبیوں سے مالا مال ہے مگر خاص طور پر عاشق کی تصویر سے معشوق کی مخاطبت بار بار پڑھنے کی چیز ہے جس میں داغ نے اپنے تخیل کی بلند پروازی کے بہترین جوہر دکھائے ہیں۔ داغ نے اس حصے میں اپنے دلی جذبات کو جس طرح پیش کیا ہے وہ ڈراما کا ایک بہترین سین معلوم ہوتا ہے:

یہ سنا ہے کہ وہ پری پیکر

یاد کرتا ہے مجھ کو یوں اکثر

میری تصویر رکھ کے پیشِ نظر

کوسنا، چھیڑنا، یہ کہہ کہہ کر

اس ڈھٹائی سے تو ادھر دیکھے

آنکھیں پھوٹیں ہمیں اگر دیکھے

کس طرح گھورتا ہے مجھ کو شریر

جی میں آتا ہے پھونک دوں تصویر

تو سہی رات دن رلاؤں تجھے

دیکھنے کا مزہ چکھاؤں تجھے

ایسی صورت پہ یہ دماغ ترا

خوب رکھا ہے نام داغ ترا

حسن ہوتا ہے حاصلِ تصویر

رو سیہ تو ہے قابلِ تصویر

شکل منحوس کیوں نظر آئے

مول لے کر بھی ہم تو پچھتائے

ایسی تصویر کس کو بھاتی ہے

پر بلا سے ہنسی تو آتی ہے

تجھ سے رونق نہیں بے گھر کے لیے

رکھ لیا ہے نظر گزر کے لیے

مصرع لکھتے وقت قلم کو روکنا ہوتا ہے۔ہر مصرع اپنی جگہ اگلے مصرع کی فہمائش کرتا ہوا ہر شعر فرطِ جذبات میں ڈوبا ہوا اور کمال یہ ہے کہ داغ نے کس خوبی سے خود ہی معشوق کی طرف سے اپنے پرزے اڑائے ہیں ورنہ مثنوی میں مستقل ایسے اشعار جو اپنے آپ میں ایک دوسرے سے بغیر کسی واقعے کے بندے ہوئے مشکل سے ملتے ہیں۔ ہم نے مثنویوں کو پڑھتے وقت دیکھا ہے اس میں واقعے کی دلچسپی اور تحیر خیزی قاری کو باندھے رکھتی ہے لیکن یہاں زبان کی چاشنی اور تخیل آفرینی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ کچھ اشعار تو اتنے بر محل اور عورتوں کی نفسیات سے بھر پور ہیں کہ وہ مثنوی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں :

دام دے کر تجھے خریدا ہے

تجھ پہ ہر طرح اپنا دعویٰ ہے

ہاں زلیخا مجھے نہ ٹھہرانا

بن کے یوسف کہیں نہ اترانا

بال باندھا مرا غلام ہے تو

اسی باعث سے نیک نام ہے تو

مثنوی میں اس کے علاوہ بھی کچھ اور چیزیں ہیں جس کا ذکر کرنا ضروری ہے خاص طور پر رامپور سے کلکتہ کے سفر میں الٰہ آباد، کانپور، لکھنؤ اور پھر عظیم آباد کا ذکر جس طرح داغ نے کیا ہے وہ سارے حصے اس وقت کے حالات اور وہاں کے لوگوں کا حسنِ اخلاق جس طرح داغ کو گرویدہ کرتا ہے اس سے داغ کی اعلیٰ ظرفی کا پتہ چلتا ہے۔

آخر میں عبدالقادر سروری کے اس اقتباس پر مضمون ختم کرتا ہوں کہ:

’’داغ نے صرف ایک مثنوی ’’فریادِ داغ‘‘ لکھی تھی جو نہایت دلچسپ ہے۔ اس میں حسن و عشق کی واردات بیان کی ہیں زبان میں سلاست کے باوجود شعری لذتیں موجود ہیں لیکن صرف ایک مثنوی کسی شاعر کے انداز کا تصفیہ کرنے کے لیے ناکافی مواد ہے۔ ’’فریادِ داغ‘‘ سے اس قدر ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اگر داغ اس طرف خاص توجہ کرتے تو یقیناً عمدہ مثنویاں سرانجام دے سکتے تھے۔‘‘

٭٭٭

قومی شعور کے فروغ میں ادب کا کِردار

(اردو زبان کے حوالے سے)

(1)

ہر چند کے ’’ادب‘‘ کی تعریف کے لیے کوئی معقول کلّیہ ایسا نہیں ہے جس پر مشرق و مغرب کے تمام مفکرین کا اجماع ہو لیکن ادب کے ناگزیر سماجی رشتے سے بھی کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ ’’عربی زبان میں ادب کا لغوی مفہوم وہی تھا جو انسان کے بلند شریفانہ خصائل کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ اور یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جو مختلف ’’توجیہات کے ساتھ آج بھی کم و بیش رائج ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے ادب کی تمام قابلِ لحاظ تعریف کو یکجا کر کے ایک جامع تعریف بنانے کی کوشش کی ہے جس کے مطابق

’’ادب وہ فن لطیف ہے جس کے ذریعے ادیب جذبات و افکار کو اپنے خاص نفسیاتی و شخصی خصائص کے مطابق نہ صرف ظاہر کرتا ہے بلکہ الفاظ کے واسطے سے زندگی کے داخلی اور خارجی حقائق کی روشنی میں ان کی ترجمانی و تنقید بھی کرتا ہے اور اپنے تخیل اور قوتِ مخترعہ سے کام لے کر اظہار و بیان کے ایسے موثر پیرائے اختیار کرتا ہے جس سے سامع و قاری کا جذبہ و تْخیل بھی تقریباً اسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح خود ادیب کا اپنا تخیل اور جذبہ متاثر ہوا۔‘‘(1)

اس جامع تعریف کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ ادب کسی ماورائی شئے کا نام نہیں اس کا تعلق عام انسانی معاشرے سے ہے اور انسانی معاشرے میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات سے اس کا تعلق ہونا فطری ہے۔

جہاں تک سوال قومی شعور کا ہے تو ادب میں اس کا اظہار ہر دور میں ہر ملک اور زبان میں ہوتا رہا ہے کیونکہ قومی شعور کا تعلق بھی بلند شریفانہ خصائل سے ہے اور اس خصوصیت کے اظہار کے لیے ادب ہی اصناف فراہم کرتا ہے، ہیئت تجویز کرتا ہے اور حسنِ اظہار کے قواعد عنایت کرتا ہے۔

قومی شاعر ی یا قومی شعور سے مملو شاعری کا ذکر کر نے اور اس کی مثالیں پیش کر نے سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہے کہ قومی اور ملی شاعری ایک سکے کے دو پہلو ہیں واضح ہو کہ جب شاعر کی شاعر ی میں ملک کے تمام عوام کی فلاح و بہبود کی بات ہو اور قوم کا درد قوم کی خوشحالی کی تمنا ، قوم کی تعلیمی پسماندگی ان پر گھرے ہوئے ادبار کی بدلی اور اس بدلی سے نجات دلا نے کے لئے کوئی تدبیر اور کوشش شاعر کے پیش نظر ہو تو وہ قومی شاعری ہو گی لیکن جب شاعر کے سامنے پوری دنیا میں پھیلے ایک مخصوص مذہب کے ماننے والے ہوں گے تو اسے ملی شاعری کہیں گے۔ اسی لئے 1947کے پہلے کے ہندوستان میں اکبر الٰہ آبادی ہوں حالی ہوں یا پھر اقبال ہوں ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ قومی شعور کی نشاندہی کرتا ہے اقبال کی نظم ہمالہ ، نیا شوالہ ، ترانۂ ہندی، تصویر درد، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت وغیرہ قومی شاعری کی مثال ہے لیکن شکوہ جواب شکوہ ، لینن خدا کے حضور میں ، مسجد قرطبہ وغیرہ ملی شاعری کی مثال ہیں۔

قومی شاعری عام طور پر موضوعاتی شاعری ہو تی ہے۔ طنزیہ اسلوب میں بھی قومی شاعری کے بیش بہا نمو نے ہیں اور اس کے مثالی شاعر اکبر الٰہ آبادی ہیں حالی کی شاعری کا بڑا حصہ ملی شاعری کے لئے مخصوص ہے لیکن قومی شعور کی شاعری بھی ان کے یہاں وافر مقدار میں ہے۔

ادب قومی شعور کے اظہار کے لیے انقلابی جدوجہد کے موضوعات کو اپنا متن بناتا ہے لیکن ساتھ ہی فطرت کے حسین مناظر کو بھی دامِ قلم میں اسیر کرتا ہے ماضی کی تاریخ کے سنہرے اوراق کو تخیل کے سان پرصیقل کرتا ہے تاریخی شخصیات کے بلند کر دار کو موضوعِ سخن بناتا ہے، اعلیٰ فلسفۂ حیات و کائنات اور ان سے متعلق نکتوں کو مختلف پیرایۂ ظہار میں پیش کرتا ہے اور یہ سلسلہ اس قدر موثر ہوتا ہے کہ عام عوام قومی شعور کو اپنے لیے ایک فطری ضرورت تصور کرنے لگتے ہیں۔

ہندوستان میں اردو زبان و ادب اس کی بہترین مثال ہے۔ انگریز استعماریت کے خلاف 1857میں کی گئی مسلح جدو جہد میں ادب کے رول کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے اردو شاعری نے اس جدو جہد کے بعد بھی مستقل آزادی کی جنگ میں ہرا ول دستے کے طور پر کام کیا ہے، چاہے وہ برٹش مصنوعات کے مقاطعے کا مسئلہ ہو یا پہلی جنگِ عظیم جیسا اہم واقعہ ہو۔1903کا دلی دربار ہو یا 1906میں پرنس آف ویلز کی آمد ہو۔ قیامِ مسلم لیگ ہو یا کانگریس کی تقسیم ہو 1913میں کانپور کے مچھلی بازار مسجد کا سانحہ ہو یا پھر دوسری جنگ عظیم 1914میں جانی و مالی قربانیوں کے باوجود سامراجی حکومت کے نظرانداز کیے جانے کا معاملہ ہو یا 1916کا ہوم رول موومنٹ ہو یا 1919میں جلیانوالہ باغ سانحہ ہو۔ایک طویل فہرست ہے جو 1947تک دراز ہے لیکن بات وہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ بٹوارے کے خونچکاں داستان کو بھی ادب نے جس طرح تاریخ کا حصہ بنایا اور جس طرح قومی شعور کو بیدار کرنے میں ادب نے معرکۃ الآرا کارنامے انجام دیے وہ سب تاریخ کا حصہ ہیں۔

قومی شعور کے فروغ میں ادب کے اس کر دار کو آج عالمی پیمانے پر نظر انداز کیا جا رہا ہے اور یہ وہ کارگر ہتھیار ہے جسے غلاف میں لپیٹ کر میوزیم کی زینت بنا دینے کی سازش کی جا رہی ہے ضرورت ہے کہ ادب کے ذریعہ تمام عالم میں انسانی اقدار کی بحالی کی کوشش کی جائے۔

میر تقی میر نے بہت پہلے کہا تھا:

وجہِ بیگانگی نہیں معلوم

تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

لیکن افسوس کہ آج ہم اس خیال کو قطعی طور پر نظر انداز کر بیٹھے ہیں۔ادب اگر کسی معاشرے میں کمزور ہوتا ہے تو اس قوم کی ترقی میں استحکام کا ہونا نا ممکن ہے۔ آج عالمی پیمانے پر سماج اور اس کے اقدار کو سخت خطرہ در پیش ہے اور اس خطرے کے سدِّ باب کے لیے قومی شعور کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ادب کے ذریعہ اس قومی شعور کو ایک بار پھر بیدار کیا جا سکتا ہے جس کی سرکردگی میں پوری دنیا نے انسانی حقوق کی بحالی انقلابات کی جنگ کا ہدف حاصل کیا ہے۔ اور جس کے لیے حسرت موہانی نے کہا تھا   ؎

 

اے کہ نجاتِ ہند کی دل سے ہے تجھ کو آرزو

ہمتِ سر بلند سے یاس کا انسداد کر

حق سے بہ عذرِ مصلحت وقت پہ جو کرے گریز

اس کو نہ پیشوا سمجھ اس پر نہ اعتماد کر

خدمتِ اہلِ جور کو کر نہ قبول زینہار

فن و ہنر کے زور سے عیش کو خانہ زاد کر

غیر کی جدو جہد پر تکیہ نہ کر کہ ہے گناہ

کوششِ ذاتِ خاص پر ناز کر اعتماد کر

(2)

قومی شعور کے فروغ میں اردو شاعری کا رول اتنا جامع ہے کہ اس کے لیے دور کی کوڑی لانے کی ضرورت نہیں۔ ولی سے لے کر ہمعصر شعرا تک مثالوں کا لا متناہی سلسلہ ہے۔ میں اس کو مختصر کرتے ہوئے میر کے ہمعصر شاعر ضیا سے شروع کرتا ہوں ضیا کا ایک شعر ہے   ؎

کل کی رسوائی تجھے کیا کم نہ تھی اے ننگِ خلق

اس کے کوچے میں ضیا توُ آج پھر جانے لگا

(3)

اس شعر میں ہمارے موضوع سے متعلق کچھ کلیدی الفاظ ہیں جیسے رسوائی، ننگ خلق، پھر جانے لگا؟۔ یہ وہ الفاظ یا جملے ہیں جس کی روشنی میں ہم کسی عہد کے شریفانہ خصائل کو دیکھ سکتے ہیں۔ رسوائی تو عام سا لفظ ہے اور بہت زیادہ سنگین نہیں ویسے بھی ہمارے شعرا عشق کی رسوائی کو تمغۂ افتخار سمجھتے رہے ہیں لیکن اس رسوائی کے پیشِ نظر اگر کسی عاشق کو ننگِ خلق قرار دیا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ اس دور کے معاشرے میں بھی اخلاقی اقدار کا معیار کیا تھا اور نابغہ شعرا قومی سطح پر بلند شریفانہ خصائل کو کتنی اہمیت دیتے تھے اس کا پتہ چلتا ہے۔ قومی شعور کا ایک اور اہم نقیب نظیر بھی ہے جسے قوم کی سرزمین یا دنیا سے اس قدر عشق ہے کہ اس کی پوری شاعری میں دنیا کی رنگینیاں قوس قزح کی طرح جلوہ گر نظر آتی ہیں

 

دیکھ لے اس چمنِ دہر کو دل بھر کے نظیر

پھر ترا کاہے کو اس باغ میں آنا ہو گا

(4)

یہ وہ خوبی ہے جس کی وجہ سے نظیر ممتاز شعرا کی فہرست میں جگہ پاتا ہے اور اسی خوبی کی وجہ سے شاعری سامعین و قارئین کے جذبہ تخیل کو متاثر کرتی ہے۔اس چمن دہر کو یہاں نظیر نے صرف دہر نہیں کہا کہ دہر میں صرف چمن نہیں رہگزار بھی ہیں اس کے سامنے تو دہر کا وہ حصّہ چمن ہے جہاں وہ آباد ہے اس کے تخیلات آباد ہیں اور اسی لیے اس چمن دہر کو وہ آنکھوں میں نقش کر لینا چاہتا ہے اس کی رنگینیوں سے جی بھر کر سیراب ہونا چاہتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ان دلفریبیوں سے خانۂ دل کو معمور کرنے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے خود کہتا ہے   ؎

یوں کارواں شباب کا گذرا کہ گوش زد

آواز پا ہوئی نہ صدائے درا ہوئی

(5)

یہ سب میں تمہیدی طور پر کہہ رہا ہوں کہ یہ وقت 1857سے قبل کا ہے جب دہلی اجڑی اس کے پہلے کا یہ بیان اپنے آپ میں کلاسیکی روایت کا نادر نمونہ ہے۔ دہلی اجڑنے کا واقعہ معمولی تو نہیں لیکن اتنی بار دہرایا جا چکا ہے کہ لوگوں کو ازبر ہے۔ دہلی کے اجڑنے اور انگریزی استعماریت کے ہندوستان پر پوری طرح قابض ہونے کی کشا کش میں ہمارے شعرا خاموش نہیں بیٹھے بلکہ اس دور میں ہمارے ادبی سرمائے میں شہر آشوب کا نئے انداز میں اضافہ ہوتا ہے ہم خوب جانتے ہیں کہ شہر آشوب کو جو وقار سودا کے عہد میں حاصل ہوا اس کے پہلے اس صنف کے حصے میں نہ تھا۔ خاص طور پر ہمارے موضوع کے لیے شہر آشوب کا ذکر نہایت ضروری ہے کیونکہ قومی شعور کی بیداری میں اس نے بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ 1857میں دہلی جس طرح تا راج کیا گیا اور مسلمانوں پر انگریزوں نے جو ظلم و جور کیے اس کی مثال تاریخ میں خال خال ملتی ہے۔ وہ شہر جس میں اپنے اپنے فن کے با کمال رہا کرتے تھے اور جہاں ساری دنیا کے لوگ انواع و اقسام کی نعمتیں حاصل کرتے تھے اسی شہر میں وہاں کے عوام تو عوام خواص کا جو حال تھا اس کا نقشہ شہر آشوب کی نظموں میں صاف صاف جھلکتا ہے۔ اور اس سلسلے میں سودا، میر، قائم، حسرت (مراد جعفر علی حسرت ہے)۔ جرات، راسخ وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ شاید آپ کو مغالطہ ہو تو یہاں وضاحت کر دوں کہ دہلی اجڑنے کا یہ واقعہ 1857سے قبل کا ہے یعنی نادر شاہ کے حملے کے وقت اور سودا وغیرہ کا دور بھی وہی ہے۔ اس عہد کے شہر آشوب کے چند بند ملاحظہ کریں پھر آگے چلیں گے دم لے کر۔ سودا کا قصیدہ شہر آشوب چھیانوے اشعار پر مشتمل ہے مطلع کے ساتھ چند اشعار یوں ہیں۔

اب سامنے میرے جو کوئی پیر و جواں ہے

دعویٰ نہ کرے یہ کہ مرے منہ میں زباں ہے

گھوڑا لے اگر نوکری کرتے ہیں کسو کی

تنخواہ کا پھر عالمِ بالا پہ نشاں ہے

گذرے ہے، سدا یوں علف و دانہ کی خاطر

شمشیر جو گھر میں تو سپر بنیے کے ہاں ہے

ملّائی اگر کیجیے تو ملا کی ہے یہ قدر

ہوں دور بیٹھے اس کے جو کہ مثنوی خواں ہے

 

(6)

 

یعنی قومی شعور کا یہ عالم کہ لوگ اسی دور سے اپنے حالاتِ حاضرہ کا بیان کھل کر شاعری میں کرنے لگے تھے اردو کے کلاسیکی سرمائے پر یہ الزام کہ اس میں بجز بوس و کنار کے کچھ نہیں کتنا لغو ہے اس کو آپ آگے بھی دیکھیں گے۔ 1857کے بعد کا عہد غالب و ذوق کا عہد ہے اس کا نقشہ غالب نے اپنے خطوط میں کھینچا ہے۔

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مغلوں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ہندوستان میں قومی شعور کا احساس پیدا کیا،پورے ملک کو شمال تا جنوب اور مشرق تا مغرب ایک ملک بنایا ورنہ اس سے پہلے دیشی رجواڑے تھے ملک نہیں تھا۔مغلوں کا کا دوسرا کارنامہ زبان اردو بھی ہے جس میں قومیت کا شعور ایک اہم جز کی طرح جاری و ساری ہے 1857کی جنگ میں یہ شعور کھل کر سامنے آیا اور پورا ملک انگریزوں کی مخالفت میں آواز بلند کرتا نظر آیا۔ واضح ہو کہ انگریز مخالف اس آواز کو دبانے میں اگر نظام حیدر آباد، نواب اودھ یا پھر ترکی کے شاہ نے انگریزوں کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو آج ہماری تاریخ مختلف ہوتی۔ جہاں تک سوال ہے اس عہد کی اردو شاعری کے رول کا تو ایک بڑا ذخیرہ ہماری لائبریریوں میں موجود ہے اس دوران لکھی گئیں وہ نظمیں اور غزلیں جنھیں انگریزوں نے ضبط کر لیا تھا۔(ضبط شدہ نظمیں ) کے عنوان سے چھپ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ’’آزادی کی نظمیں ‘‘، ’’قومی شاعری کے سو سال‘‘ وغیرہ۔خود غالب کی شاعری اور ان کے خطوط اس کی مثال ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ اس دور میں جو لوگ یا جو طبقہ انگریزوں کا ساتھ دے رہا تھا ان کی اپنی اپنی مجبوریاں تھیں۔ لیکن ادب ہمیشہ ان مجبوریوں سے آزاد ہوتا ہے اس پر تاریخی جبر کا اثر پڑتا ضرور ہے لیکن اسی ادب میں اس جبر سے انکار کا رویہ بھی ملتا ہے۔اردو زبان نے اس سلسلے میں ہمیشہ جبر کا انکار کیا۔ احتجاج کیا اور وہی انکار اور احتجاج قومی شعور کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ حالانکہ انکار کا یہ رویہ نثر اور صحافت میں بھی کم نہیں اس دور کی ہماری صحافت تو آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ کس طرح لوگ سر سے کفن باندھ کر انگریزوں کی مخالفت میں اخبار نکالتے تھے اور ضمانتیں ضبط کرواتے تھے لیکن شاعری میں یہ احتجاج یا انکار کا رویہ قومی شعور کی شکل میں نہایت لطافت سے بلیغ پیرائے میں جلوہ گر ہوئی ہے۔

قومی شعور کے اظہار کا نمونہ ہمیں شاعری کی ایک فراموش شدہ صنف شہر آشوب میں نظر آتا ہے حالانکہ شہر آشوبیہ شاعری کا سراغ ہمیں 1700سے ہی ملنا شروع ہو جاتا ہے اور 1700سے1857تک کے درمیانی مدت میں لکھے گئے شہر آشوبیہ نظموں میں اس دور پر آشوب کا ذکر ہے جس میں نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی، مرہٹوں ، سکھوں ، جاٹوں ، اور روہیلوں کے حملوں کے باعث دہلی تباہ و برباد ہوئی اور اس کے نتیجے میں دہلی کی تباہی ، بے وطنی، معاشی بحران، مختلف صنعتوں کی تباہی، ہنر مندوں کی بے کاری امیروں اور رؤسا کی پریشان حالی اور شعرا کا بادشاہوں اور امیروں کے دربار سے نکل جانے سے جو بحرانی کیفیت پیدا ہوئی اور شعرا کو گوشۂ گمنامی و تنگ دستی میں گذارنا پڑا اس کی مرقع کشی کی گئی ہے۔ چونکہ میرے مقالے کی بنیاد اس کلیے پر ہے کہ ادب زندگی کے داخلی و خارجی حقائق کا ترجمان اور نقیب ہے اس لیے اس دور کے شہر آشوب کا ذکر کرتے ہوئے صرف ان شاعروں کا نام لینا ضروری سمجھا کہ ان کے بنائے ہوئے راستے پر چل کر ہی 1857اور اس کے بعد کی شاعری نے قومی شعور کا درک حاصل کیا۔یہ کیسے ممکن ہے کہ جس صنف میں جعفر زٹلی سید محمد شاکر ناجی، پیر خاں کمترین، شیخ ظہور الدین حاتم، درگاہ قلی خاں ، اشرف علی خاں فغاں ، قیام الدین قائم، سعادت یار خاں رنگین، لچھمی نارائن شفیق، جعفر علی حسرت، مرزا رفیع سودا، محمد تقی میر، ولی محمد نظیر اکبر آبادی، غلام علی راسخ عظیم آبادی جیسے با کمال شاعروں نے طبع آزمائی کی ہو اس صنف میں قومی شعور کا احساس کمتر درجے کا ہو لیکن مجھے تو 1857اور اس کے بعد کے شعرا کا ذکر کرنا ہے اس لیے وہیں سے شروع کرتا ہوں۔

1857تاریخ کا ایسا باب ہے جہاں مغلیہ حکومت کا کلّی طور پر خاتمہ ہو گیا اور اس قوم کا والی قید کر لیا گیا جسے قوم نے اپنا سرپرست تصور کیا ہوا تھا۔ ایک اور بڑی بات یہ ہوئی کہ اس پر شکوہ سلطنت مغلیہ کا خاتمہ ان کے ہاتھوں ہوا جو دربار میں حاضری دینے کو فخر سمجھتے تھے جنھوں نے اسی مغلیہ سلطنت کے ایک بادشاہ کا علاج کرنے کی اجرت کے طور پر ہندوستان میں تجارت کرنے کی اجازت لی تھی۔ اور اس سلطنت کا زوال ہوا تھا جس کی سلطنت میں نفرت و عداوت کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، جس سلطنت میں ہولی اور عید سب مل کر مناتے تھے اسی لیے اس سے قبل کی شاعری میں اور 1857کے بعد کی شاعری میں نمایاں فرق یہ ہے کہ سماجی، معاشی اور مختلف طبقوں کی بد حالی کے علاوہ انگریزوں کے ذریعہ لائی گئی تہذیب سے بیزاری کا اظہار بھی شامل ہو گیا ہے اور تہذیب و تمدن کے خطرے میں پڑنے کا یہ احساس ہی قومی شعور کی بیداری کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس دور کے ایک شاعر حافظ غلام دستگیر مبین ہیں جنھوں نے 1857کے بعد کے حالات کا یوں بیان کیا ہے واضح ہو کہ بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹوں کو قتل کر کے ان کے سر کو خان پوش سے ڈھک کر ظفر کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

 

پدر کے سامنے بیٹے کو ہائے قتل کیا

غم آئے یاد نہ کیونکر جنابِ اصغر کا

یہ کربلا کا نمونہ دکھاتی ہے دہلی

پدر کو نعشِ پسر پر رلاتی ہے دہلی

 

(7)

 

اسی دور کو داغ نے یوں بیان کیا ہے   ؎

یہ وہ جگہ ہے کہ عبرت پہ عبرت آتی ہے

یہ وہ جگہ ہے کہ شامت پہ شامت آتی ہے

یہ وہ جگہ ہے کہ آفت پہ آفت آتی ہے

یہ وہ جگہ ہے کہ حسرت پہ حسرت آتی ہے

 

یہ وہ جگہ ہے جہاں بے کسی بھی ڈر جائے

یہ وہ جگہ ہے اجل خوف کھا کے مر جائے

 

لکھوں کہاں تلک القصہ ہائے بربادی

لکھوں کہاں تلک اس آسماں کی جلاّدی

کسی کو قیدِ محن سے نہیں ہے آزادی

کہ داغ داغ ہے دل پر کوئی  ہے فریادی

 

الٰہی پھر اسے آباد و شاد دکھلا دے

الٰہی پھر اسے حسبِ مراد دکھلا دے

 

(8)

 

داغ دہلوی کا یہی وہ مشہور شہر آشوب ہے جس کے متعلق ڈاکٹر سر محمد اقبال نے فرمایا تھا۔

نالہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر

داغ رویا خون کے آنسو جہان آباد پر

 

(9)

 

قومی شعور کا یہ احساس دھیرے دھیرے ادب کے لیے نا گزیر ہو گیا۔ اردو ادب کو اس سلسلے میں اولیت حاصل ہے کہ اس کے شعرا و ادبا کی تحریریں پڑھ کر پورے عہد کی حقیقی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔

1857کے بعد ہماری شاعری میں دو طرح کے نظریات صاف صاف نظر آتے ہیں ایک تو یہ کہ جدید تعلیم اور نئی روشنی کی آمد آمد سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور دوسری طرف نئی تہذیب جس طرح ہمارے پرانے قدروں کو تبدیل کر رہی تھی اس سے ایک خاص قسم کی افسردگی یا سراسیمگی کا احساس بھی صاف صاف نظر آتا ہے اور یہی افسردگی بالیدہ ہو کر انگریزوں کے ظلم پر احتجاج کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ 1857بظاہر ہماری تاریخ کا بہت اہم باب ہے لیکن اس باب کے مرتب ہونے کی وجوہات اس سے بہت پہلے سے رونما ہونا شروع ہو گئے تھے انگریزوں نے جب تجارتی چولے کو بدلنا شروع کیا تو ہر سطح پر اس کی مخالفت ہونی شروع ہو گئی تھی 1857میں پلاسی کی جنگ سے پہلے سراج الدولہ کے نانا نے ان سے کہا تھا کہ مجھے موقع نہیں ملا ورنہ میں انگریزوں کو ملک سے نکال دیتا اور سراج الدولہ کو تلقین کی کہ انھیں باہر نکالیں۔ لکھنؤ جہاں شاعری کا مزاج ہی دوسرا تھا لیکن وہاں بھی شعرا کے اندر قومی شعور کا فقدان نہیں تھا۔ شاہ کمال الدین کا وہ مخمس کون بھول سکتا ہے جس میں 1796میں رونما ہونے والے واقعات کی عکاسی یوں جھلکتی ہے۔

 

نہ ہو وے دیکھ کے کیونکر نہ اپنا دل مغموم

ہو جب کہ جائے ہما آج آشیانۂ بوم

وہ چہچہے تو بس اس ملک میں ہیں سب معدوم

فرنگیوں کے جو حاکم تھے ہو گئے محکوم

تو ہم غریبوں کا پھر کیا ہے یاں شمار و قطار

 

(10)

 

خود مصحفی کا مشہور شعر ہے   ؎

ہندوستاں میں دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی

کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی

 

(11)

 

کافر فرنگی ہندوستانی دولت و حشمت سمیٹنے کے بعد اقتدارِ اعلیٰ پر بھی قبضہ جمانے کی تدابیر کے تانے بانے بننے میں مصروف تھے اور با فہم طبقہ سنجیدگی سے ان عزائم کے خطرات کو محسوس کرنے لگا تھا جرات کہتے ہیں۔

کہیے نہ انھیں اب امیر و  وزیر

انگریزوں کے ہاتھ یہ قفس میں ہیں اسیر

جو کچھ یہ پڑھائیں سو یہ منہ سے بولیں

بنگالے کی مینا ہیں یہ پورب کے اسیر

 

(12)

 

1857کی آمد کے پہلے شعوری یا غیر شعوری طور پر شعرا انقلاب کی دھمک محسوس کرنے لگے تھے جبھی تو انشا اللہ خاں انشا کہتا ہے   ؎

بے خوشی سب طرح کی ناحق کا

خطرۂ انقلاب باقی ہے

 

(13)

 

اور پھر انقلاب رونما ہوا اور ایسا ہوا کہ پورا ہندوستان ایک بوڑھے بادشاہ کی قیادت میں ابل پڑا لیکن اس قوم کے اندر ضمیر فروش ہر دور میں رہے ہیں انھوں نے انگریزوں کی مرضی پر ملک کے اتنے بڑے انقلاب کو فروخت کر دیا اور پھر جو کچھ ہوا تاریخ اس کی گواہ ہے۔

بہادر شاہ ظفر خود بھی اعلیٰ پائے کے شاعر تھے ان کی شاعری میں حرماں نصیبی اور نشاطِ غم کا پر تو صاف صاف نظر آتا ہے۔ انسان جب اپنے سامنے اپنا زوال ہوتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے دل پر کیا گذرتی ہے اسے ظفر کی شاعری میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ بادشاہ تو تھا لیکن ایک دلِ درد مند رکھتا تھا اور اسے یقین ہو چکا تھا کہ یہ انقلابِ وقت ہے کہ اب اس کے سامنے انگریز اس پر حاکم تھے حالات کا جبر تھا کہ وہ انگریزوں کی ہر بات مانتا چلا جا رہا تھا یہاں تک کہ وہ انگریزوں کا پنشن خوار بھی ہو گیا لیکن اپنا تمام کرب اس نے شعری پیرائے میں پیش کر دیا   ؎

باد صبا اڑاتی چمن میں ہے سر پہ خاک

ملتے ہیں دم بدم کفِ افسوس برگِ تاک

غنچے ہیں دل گرفتہ گلوں کے جگر ہیں چاک

کرتی ہیں بلبلیں یہی فریاد درد ناک

 

شاداب حیف خار ہوں گل پائمال ہوں

گلشن ہوں خار نخلِ مغیلاں نہال ہوں

 

جائیں نکل فلک کے احاطے سے ہم کہاں

ہووے گا سر پہ چرخ بھی جاویں گے ہم جہاں

کوئی بلا ہے خانۂ زنداں پہ آسماں

چھٹنا محال اس سے ہے جب تک ہے تن و جاں

 

جو آ گیا ہے اس عملِ تیرہ رنگ میں

قیدِ حیات سے ہے وہ قیدِ فرنگ میں

 

(14)

 

دربار سازشوں کا مرکز تھا، شہزادوں کی نالائقی اور سازشوں کا شکار بادشاہ کے لیے بس شاعری ایک ذریعہ تھا جہاں وہ اپنے دل کی کیفیت کا بیان کرتا ہے۔اسے احساس تھا کہ عوام ہمارے ساتھ ہے قوم ہم پر جان دیتی ہے لیکن انگریزوں کی چالبازیوں سے مفر نہیں۔

غالب نے حالانکہ خطوط میں اس دور کی بڑی حقیقی تصویر کشی کی ہے لیکن شاعری میں جو گہرائی و گیرائی ہوتی ہے نثر میں وہ بات کہاں اس لیے غالب نے نہ چاہتے ہوئے بھی شاعری میں حالات کی عکاسی یوں کی ہے۔   ؎

بس کہ فعال مایرید ہے آج

ہر سلحشور  انگلستاں کا

گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے

زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا

چوک جس کو کہیں و مقتل ہے

گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا

کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک

آدمی واں نہ جا سکے یاں کا

میں نے مانا کہ مل گئے پھر کیا

وہی رونا تن و دل و جاں کا

گاہ جل کر کیا کیے شکوہ

سوزشِ داغ ہائے پنہاں کا

شہر دہلی کا ذرہ ذرہ خاک

تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا

گاہ رو کر کہا کیے با ہم

ماجرہ دید ہائے گریاں کا

اس طرح کے وصال سے یارب

کیا مٹے دل سے داغ ہجراں کا

(15)

غالب کو ہم سب جانتے ہیں اس کو آخری وقت دربار میں رسائی ہوئی ویسے بھی اس صاحبِ نظر نے اس بات کو محسوس کر لیا تھا کہ اب دربار کے چل چلاؤ کا وقت ہے اور انگریزوں کی سرپرستی ہندوستان کا مقدر ہے لہٰذا انگریزوں کے خلاف اس کے یہاں اشعار معدودے چند ہیں مندرجہ بالا اشعار کے علاوہ ایک قطعہ اور بھی ہے   ؎

ایک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس

یوں کہا آتی نہیں کیوں اب صدائے عندلیب

بال و پر اپنے دکھا کر یوں کہا صیاد نے

یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب

 

(16)

 

غالب نے بھلے ہی سیاسی مصلحت سے انگریزوں کے ظلم و ستم کا ذکر نہ کیا ہو لیکن شاعری ایسی شئے نہیں جس میں سب کچھ خود سے کیا جائے مذکورہ بالا اشعار اس امر کی گواہ ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی جو حقائق تھے ان سے غالب کی شاعری بھی بچ نہیں پائی ہے۔قومی شعور کا ایک دوسرا زاویہ بھی غالب کے یہاں نظر آتا ہے اور وہ ہے ان کی مثنوی ’’ابرِ گوہر بار‘‘ جس میں غالب نے دخانی جہازوں کا ذکر کرتے ہوئے اسے حرکت و عمل کی نشانی قرار دیا ہے۔

حکیم آغا جان عیش کہتے ہیں   ؎

غم میں دلی کے گلوں کے تو گریباں چاک ہیں

اور سوسن ہے چمن میں سوگوارِ لکھنؤ

ٹکڑے ہوتا ہے جگر دلّی کے صدمے سن کے عیش

اور دل پھٹتا ہے سن کے حالِ زارِ لکھنؤ

 

(17)

 

یقیناً قومی شعور کا تعلق بلند شریفانہ خصائل سے ہے اور اس کا اظہار ہر سطح پر اردو شعر و ادب میں ہوتا رہا ہے۔ ہر سطح سے مراد یہ ہے کہ نہ صرف پختہ شاعری بلکہ بچوں کی نظموں میں بھی قومی شعور کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی نظر آتی ہے۔ اسمٰعیل میرٹھی نے جس طرح حریت اور قومی شعور کو بچوں کے ذہن میں منتقل کیا وہ ایک کارنامہ ہے   ؎

ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر

تو وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر

جو ٹوٹی ہوئی جھونپڑی بے ضرر ہو

بھلی اس محل سے جہاں کچھ خطر ہو

 

(18)

 

اتحاد کے حوالے سے اسمٰعیل میرٹھی کہتے ہیں   ؎

جب تک کہ سبق ملاپ کا یاد رہا

بستی میں ہر اک شخص دلشاد رہا

جب رشک و حسد نے پھوٹ دل میں ڈالی

دونوں میں سے ایک بھی نہ آباد رہا

 

(19)

 

قومی شعور کا بہت بالیدہ اظہار اکبر الہ آبادی کے یہاں بھی ملتا ہے۔حالانکہ وہ انگریزوں کے ملازم تھے لیکن حقیقتِ حال کا اظہار کرنے سے کبھی نہ چوکے۔   ؎

اوجِ بخت ملاقی ان کا

چرخِ بخت طباقی ان کا

محفل ان کی ساقی ان کا

آنکھیں میری باقی ان کا

 

(20)

 

ان کی نظم ’’برق کلیسا‘‘ میں برق کلیسا ایک کر دار ہے اور اس کا مکالمہ قومی شعور کا جیتا جاگتا نمونہ، برق کلیسا کہتی ہے۔

 غیر ممکن ہے مجھے انس مسلمانوں سے

بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے

لن ترانی کیا کرتے ہیں نمازی بن کر

حملے سرحد پہ کیا کرتے ہیں غازی بن کر

اور دوسرا کر دار ’’مسلمان‘‘ یوں گویا ہوتا ہے

جوہرِ تیغِ مجاہد ترے ابرو پہ نثار

نور ایماں کا ترے آئینۂ رخ پہ نثار

میرے اسلام کو اک قصّہ ماضی سمجھو

ہنس کہ وہ بولی، تو پھر مجھ کو بھی راضی سمجھو

 

(21)

 

ہندوستان میں آزادی سے قبل قومی شعور پیدا کرنے میں اکبر کا رول بہت اہم ہے وہ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ   ؎

انقلابِ دہر دیکھو بن گیا آقا غلام

قصر کا مالک جو تھا اب اس کا درباں ہو گیا

 

(22)

 

بیسویں صدی کا آغاز ہی قومی شعور کی بیداری سے ہوا اس دور کے چند ایسے واقعات ہیں جس نے یہ واضح کر دیا کہ انگریزوں کے خلاف جہدِ پیہم کی ضرورت ہے۔اس عہد میں جو بتدریج واقعات ہوئے ان سب کا اثر اردو شعرا پر پڑا اور انھوں نے بغیر خوف بلا کم و کاست سب بیان کیے۔

1905میں تقسیم بنگال، 1906میں قیامِ مسلم لیگ،1907میں کانگریس کی تقسیم، 1911کا دہلی دربار 1911میں ہی جنگ طرابلس 1912میں جنگ بلقان 1913میں کانپور مسجد کی شہادت اور پھر 1914میں پہلی جنگ عظیم۔ یہ سب وہ واقعات ہیں جنھوں نے اردو شاعری کو از حد متاثر کیا۔

ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ مغل عہد کے زوال کے بعد غدر کی جانکاہ پسپائی اور قتل و غارت گری نے مسلمانوں کو اس طرح خوفزدہ کر دیا تھا کہ وہ سیاست سے بالکل کنارہ کش ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ 1906تک کانگریس میں مدراس کے سید محمد اور بمبئی کے بدرالدین طیب جی کے علاوہ دوسرا نام نہیں آتا۔ اس کے بعد کانگریس میں جو پہلا شخص داخل ہوتا ہے وہ حسرت موہانی ہیں جنھوں نے علی گڑھ میں زمانۂ طالب علمی میں ہی علی گڑھ کی پالیسی کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ مولانا حسرت موہانی نے نہ صرف سودیشی تحریک کی موافقت میں اردوئے معلیٰ میں لکھا بلکہ سودیشی اسٹور بھی قائم کیا۔ اکبر الٰہ آبادی دوسرے شاعر تھے جنھوں نے حسرت موہانی کا دل یوں بڑھایا۔

دل مسرت سے بھرا ارمان میں

ہم نے لکھ بھیجا انھیں موہان میں

بھائی صاحب رکھ دو تم اپنا قلم

ہاتھ میں لو اب تجارت کا علم

ہو چکی غیروں سے خویشی کی بہار

بس دکھاؤ اب سودیشی کی بہار

 

(23)

 

ان کی تجارتی سرگرمی کو دیکھ کر ایک بار مولانا شبلی نعمانی نے ان سے کہا تھا تم آدمی ہو یا جن پہلے شاعر تھے پھر سیاستداں بنے اور اب بنیے بن گئے۔ قومیت کے جذبے سے جب کوئی شخص پوری طرح مزین ہو تو اس کی شخصیت کس طرح کی ہو گی اس کی مثال حسرت موہانی تھے ایک واقعہ کا ذکر سید سلیمان ندوی نے یوں کیا ہے کہ ’’میری اور حسرت کی ملاقات 1910میں ہوئی۔ میں لکھنؤ کے اخبار حق کے دفتر میں رہتا تھا مولانا کو ایک بار شب کو وہاں قیام کرنا پڑا۔ سردی کا زمانہ تھا ان کے پاس کمبل رکھ دیا گیا تھا جو ولایتی تھا۔ حسرت نے اس سردی کی رات بغیر کمبل کے کاٹ دی مگر کمبل نہیں اوڑھا۔ ان کے اشعار میں بھی قومیت کا یہ جذبہ پوری طرح رواں دواں ہے۔

روح آزاد ہے خیال آزاد

جسمِ حسرت کی قید ہے بیکار

ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی

یا پھر۔

غضب ہے کہ پا بندِ اغیار ہو کر

مسلمان رہ جائیں یوں خوار ہو کر

اٹھے ہیں بہت پیشگانِ مہذب

ہمارے مٹانے پہ تیار ہو کر

تقاضائے غیرت یہی ہے عزیزو

کہ ہم بھی رہیں ان سے بیزار ہو کر

کہیں صلح و نرمی سے رہ جائے دیکھو

نہ یہ عقدۂ جنگ دشوار ہو کر

وہ ہم کو سمجھتے ہیں احمق جو حسرت

وفا کے ہیں طالب دل آزار ہو کر

 

(24)

 

جیسا کہ میں نے اس سے پیشتر ذکر کیا ہے کہ کانگریس کا قیام 1885میں ہو چکا تھا۔سر سید بھی مسلمانوں کو سیاست سے دور دور ہی رکھنا چاہتے تھے لیکن حسرت اور شبلی نعمانی ایسا ہرگز نہیں چاہتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہو گا کہ مولانا شبلی اور مولانا حسرت موہانی کی مساعی جمیلہ ہی تھی جس سے شمالی ہندوستان کے مسلمان علیحدگی پسند سیاست سے باہر نکل کر سیاست میں داخل ہوئے اور سوئے اتفاق کہ یہ دونوں شاعر تھے۔ ان لوگوں کی نظر صرف ہندوستان پر نہیں بلکہ جنگ طرابلس اور بلقان پر بھی تھی شبلی نعمانی کا شہر آشوبِ اسلام اسی کا نمونہ ہے۔   ؎

 

حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشاں کب تک

چراغِ کشتۂ محفل سے اٹھے گا دھواں کب تک

کوئی پوچھے کہ اے تہذیبِ انسانی کے استادو!

یہ ظلم آرائیں تا کَے یہ حشر انگریزیاں کب تک

یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانی ہے

ہماری گردنوں پر ہو گا اس کا امتحاں کب تک

 

(25)

 

کانپور کے محلہ مچھلی بازار میں ایک مسجد کے وضو خانے کو توڑنے کا واقعہ پیش آیا اور اس پر جب مسلمانوں نے احتجاج کیا تو ڈپٹی کمشنر نے ان پر گولیاں برسانے کا حکم دے دیا۔ یہ وہی دور ہے جب ترکی اور بلقان میں جنگ ہو رہی تھی۔ شبلی نے ’’ہم کشتگانِ کانپور‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی۔   ؎

کل مجھ کو چند لاشۂ بے جاں نظر پڑے

دیکھا قریب جا کے تو زخموں سے چور ہیں

کچھ طفلِ خورد سال ہیں جو چپ ہیں خود مگر

بچپن یہ کہہ رہا ہے کہ ہم بے قصور ہیں

کچھ نوجواں ہیں بے خبرِ نشّۂ شباب

ظاہر میں گرچہ صاحبِ عقل و شعور ہیں

کچھ پیرِ کہنہ سال ہیں دلدادۂ فنا

جو خاک و خوں میں بھی ہمہ تن غرقِ نور ہیں

پوچھا جو میں نے کون ہو تم؟آئی یہ صدا

ہم کشتگانِ معرکۂ کانپور ہیں

(26)

 

یہ بات طے رہی کہ قومی شعور کے فروغ میں شبلی کا نامِ نامی بہت اہم ہے ان ہی کی محنت اور جانفشانی کے دم پر نوجوانوں کی ایک پوری کھیپ تیار ہوئی جس میں مولانا محمد علی جوہر اور اقبال کا نام نامی بطور خاص پیش کیا جا سکتا ہے۔اقبال کی شاعری میں قومی شعور کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اگر یہ کہیں تو بیجا نہ ہو گا کہ شبلی نے جو کچھ سوچا تھا اقبال نے اس فکر کو بہت آگے تک پہنچا دیا۔ قومی شعور کا جو زاویہ اقبال کے سامنے تھا اس کا پرتو شبلی اور حالی کے یہاں تو ملتا ہے لیکن اس کے بعد اس کا سراغ بھی نہیں ملتا۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کے یہاں قومی شعور کا ادراک وطنیت سے ہوتا ہوا بین الاقوامی سطح تک جا پہنچا ہے انھوں نے ہنگامی حالات پر نہیں بلکہ ہنگامۂ دنیا رونما ہونے والے اسباب کو بھی قومی شعور کا حصہ بنا دیا۔ اقبال کے اشعار کا نمونہ صرف طوالت کے خوف سے نہیں بلکہ عام لوگوں کے ازبر ہونے کی وجہ سے نہیں دے رہا ہوں ہاں! جوہر کے دو شعر ضرور نقل کروں گا۔

یہ نظر بندی تو نکلی ردِّ سحر

دیدہ ہائے جوش اب جا کر کھلے

فیض سے تیرے ہی اے قیدِ فرنگ

بال و پر نکلے قفس کے در کھلے

 

(27)

 

قومی شعور کا جو تانا بانا اس دور میں بُنا گیا اور جس شدّ و مد سے ادب کو آہنگِ رزم کا ہم نشیں بنایا گیا وہ ادبی تاریخ کا حصّہ ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد جلیاں والا باغ سانحہ یا پھر پورے ملک میں آزادی کی لڑائی کا جوش و خروش سب کچھ اردو شاعری میں جس طرح محفوظ ہے تاریخ بھی اس سے تہی دامن ہے۔ بلاغت شاعری کی میراث ہے اور جب شعری کائنات میں لائق و فائق لوگ حسبِ مراتب اپنی جگہ بیٹھے ہوں تو کہیں تشنگی رہے یہ ممکن ہی نہیں لہٰذا ادب کی تمام تعریفوں کی روشنی میں اردو شاعری کو پرکھنے کے بعد بھی جو سرمایہ اس معیار پر کھرا اترے گا اس میں پیشتر کا تعلق قومی شعور کے فروغ سے ہو گا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے یہ الگ بات ہے کہ اب قومی شعور نام کا سکہ سکہ رائج الوقت نہیں رہا اب اسے کلاسک کہا جاتا ہے اور قوموں کے زوال کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس نے ہر دور میں چلنے والے سکّے کو میوزیم کی زینت بنا دیا ہے۔

1947میں ہندوستان کو انگریز حکمرانوں سے آزادی ملی اور پھر ایک ہندوستان سے دو ملک ہندوستان اور پاکستان وجود میں آئے۔لیکن یہ واقعہ کوی یکا یک ظہور پذیر نہ ہوا تھا 1857میں جس جنگ آزادی کی آگ جلائی گئی تھی 1947تک  90سالوں کے سفر میں ہندوستان میں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو مستقل انگریزوں کی مخالفت کرتا رہا اور اس مخالفت کو تیزی اس وقت ملی جب انگریزوں نے ان قوم پرستوں کے خلاف ظلم کی چکی کو تیز کر دیا یہ عام بات ہے کہ جدو جہد آزادی کی تحریک کو بزورِ  شمشیر کبھی اور کہیں روکا نہیں جا سکا ہندوستان میں بھی یہی ہوا اور بلآخر ہم آزاد ہو گئے۔ لیکن آزادی کے خواب کو تعبیر سے آشنا کرانے میں اردو زبان و ادب کا جو رول رہا ہے بطور خاص اردو شاعری کا اس کی نظیر دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ قومی شعور کی بیداری اور ہندوستان میں جدو جہد آزادی کی تاریخ یکساں ہے اور آزادی کی تحریک کے جیالوں کی زبان پر پورے ہندوستان میں اردو شاعری نعرۂ مستانہ بن کر مچلتی رہی اور آزادی کی جدو جہد چلتی رہی۔ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ جیسا نعرہ دینے والی زبان اردو کے دامن میں شاعری کے جو جواہر ریزے ہیں ان میں قومی شعور کے ہر رنگ قوسِ قزح کی طرح جھلملاتے ہیں اور اسی قومی شعور سے مزین شاعری کی فضا بندی تھی جس نے ہندوستان کو گنگا جمنی تہذیب کا نمو نہ بنا یا اور بعد از آزادی ہندوستان دنیا کی ایک بڑی جمہو ریت کی شکل میں نمو دار ہوا۔

اردو شاعری نے آزادی کی جدو جہد کو جس طرح سیالِ آتش کا ایندھن فراہم کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

 

الٰہی زنجیر ٹو ٹ جائے اسیر غم اب تو چھوٹ جائے 

چمن کو لوٹا ہو باغباں نے ، تو آ کے گلچیں بھی لو ٹ جائے

ستم بھی ہو گا تو دیکھ لیں گے کرم کا بھانڈہ تو پھوٹ جائے

یہ دوستی کا طلسم ٹوٹے یہ مہر بانی کا جھوٹ جائے

بلا سے قزّاق آ کے لو ٹیں یہ پاسبانوں کا لوٹ جائے

اچک لیں شاہیں تو غم نہیں ہے قفس تو کمبخت ٹو ٹ جائے

 

(28)

 

ایک طرف انگریزوں سے ہندوستان کے عام لوگ متنفر تھے اور انگریزوں کو جنگ عظیم کے شدائد برداشت کر نے پڑ رہے تھے۔انگریز ہندوستانیوں کو محاذ جنگ پر بھیج رہے تھے ایک بڑا طبقہ جو اس جنگ میں شمولیت کے خلاف تھا ان میں شاعروں کی بھی کثیر تعداد تھی۔ ان لوگوں نے شعری پیرائے میں انگریزوں کے اس جبر کی جس طرح مخالفت کی وہ اردو شعری روایت کا روشن حصہ ہے۔ جر منی واٹلی کے افواج نے اتحادیوں کو حواس باختہ کر رکھا تھا یہ وقت سنہ 1942کا ہے جب سر اسٹیفورڈ کرپس ہندوستان اسی غرض سے آئے تھے کہ ہندوستانیوں کو بہلا پھسلا کر اپنا ہمنوا بنا یا جائے۔ اس سلسلے میں کر پس کا کہنا تھا کہ ہندوستانیوں کے مطالبات ما ن لئے جائیں گے لیکن بعد از جنگ، اور ایک ہفتے تک کانگریس سے ہو نے والی گفت و شنید اسی ضد کی نظر  ہو گئی کہ پہلے ہمارے مطالبات ما نے جائیں اور ہندوستانیوں کی ایک با اختیار حکومت بنا دی جائے۔ ظاہر ہے  انگریز تو صرف دھو کہ دینا چا ہتے تھے لہٰذا کانگریس نے کرپس مشن کے تجاویز رد کر دئیے۔ اس موقع پر نذیر بنارسی کی نظم کے ابتدائی ا شعار سنا نا چاہتا ہوں جس میں قومی شعور کا رنگ صاف نظر آتا ہے۔

 

بن کے غدار آج تم سے اک غلام ابن غلام

نظم کے پر دے میں چھپ کر ہو رہا ہے ہمکلام

آج لندن سے منا نے کو چلے آتے ہو کیوں

اب تمہارے سر پہ آئی ہے تو چلاّ تے ہو کیوں

نند کو پھانسی کے تختے پر چڑھا یا کس نے تھا

لفظِ آزادی پہ رحمت خاں کو ما را کس نے تھا

جب کھلیں آنکھیں نہ اختر کا جنازہ دیکھ کر

جب نہ گر ما یا لہو ٹیپو کا لاشہ دیکھ کر

 

(29)

 

جوش ملیح آبادی نے اس موقع پر کہا۔

بڑی کاریگری کے ساتھ شاطر نے تراشے ہیں

نئے دھو کے، نئے حیلے،نئے چکمے ، نئے جھانسے

ہزاروں تجربوں کے بعد اب یہ عقل آئی ہے

کسے تھپکے ، کسے گھڑ کے ، کسے چھوڑے ، کسے پھانسے

 

(30)

 

کر پس مشن کے حیلے جب نا کام ہوئے اور ہندوستانیوں پریہ واضح ہو گیا کہ اب زیادہ دن انہیں بے وقوف بنا کر غلام نہیں رکھا جا سکتا تو پھر انگریزوں نے سختی میں اور اضافہ کر دیا کانگریسی لیڈر بھی جو اس کے پہلے صرف انگریزوں سے مراعات کا مطالبہ کر رہے تھے یکا یک بے قا بو ہو گئے اور انگریزوں بھارت چھوڑو کا نعرہ بلند ہو گیا۔

شمیم کر ہانی کی نظم کے یہ چند اشعار دیکھیں جس میں  1942کی جدو جہد آزاد ی کی دھمک سنائی دی رہی ہے

اللہ یہ کیسے بندے ہیں بیزار خود اپنی ہستی سے

موت آنکھ کے آگے رقصاں ہے دل جھوم رہے ہیں مستی سے

تنگ آ کے غلامی سے انساں زنداں ہی کو ڈھانے والا ہے

دیوار سے طوفاں ٹکرا کراب راہ بنا نے والا ہے

گو ان کے لہو سے پچھلے تک اس پل کے گڑھے بھر جائیں گے

جیسے نہ بچیں گے دیوانے پر کام بڑا کر جائیں گے

ما نا کہ مکمل آزادی پُل ڈھا کے نہیں مل جائے گی

مغرب کے سہانے محلوں کی بنیاد مگر ہل جائے گی

 

(31)

 

یہی نہیں کہ اردو شاعروں نے جنگ آزادی کے ترانے گائے بلکہ یہ وہی دور ہے جب بنگال قحط کا شکار ہوا اور ہزاروں افراد اس قحط کی نظر ہو گئے اس موقع کی تاریخ بھی اردو شاعری سے بہتر اور کہیں نہیں وامق جون پوری کی مشہور نظم بھو کا بنگال اس کی ایک مثال ہے ورنہ ہزاروں نظمیں اور غزلوں کے اشعار صرف اس قحط پر لکھے گئے بھو کا بنگال کے چند اشعار دیکھیں۔

یو رب دیس میں ڈگّی با جی پھیلا سکھ کا کال

دکھ کی اگنی کون بجھائے سوکھ گئے سب تال

جن ہاتھوں نے مو تی اولے آج وہی کنگال رے ساتھی

آ ج وہی کنگال

ندی نا لے گلی ڈگر پر لاشوں کے انبار

جان کی ایسی مہنگی شئے کا الٹ گیا بیوپار

مٹھی بھر چاول سے بڑھ کر سستا ہے یہ مال

رے سا تھی ہے سستا ہے یہ مال

 

(32)

 

قومی شعور سے گردن گردن ڈوبی اردو شاعری کا ہر باب اپنے اندر تاریخ و تہذیب کے ہر عہد کا نقشہ چھپائے بیٹھی ہے اور بر صغیر میں جتنی بھی زبانیں ہیں ان میں اس زبان کا قد اسی لئے سب سے اونچا ہے کہ اس زبان نے کبھی اپنے عہد کے جملہ رجحانات و تحریک سے خود کو الگ نہیں کیا بلکہ ہر وقت عوام کے دکھ درد میں شریک رہی۔

جگر مرادآبادی کے چند اشعار دیکھیں :

 

کیا خبر مجھ کو مسلماں ہوں کہ کافر ہوں میں

ناز پروردۂ جمعیت خاطر ہوں میں

دیکھتا رہتا ہوں ہنگامۂ شب خونِ حیات

فاتحہ خوانِ مزار ات و مقابر ہوں میں

کسی جانب نہیں ملتا مجھے منزل کا سراغ

راہ گم کردۂ دنیائے مناظر ہوں میں

میکدہ  میرا، حرم میرا صنم میرے ہیں

تجزیہ کارِ نواہی و ا وا مر ہوں میں

 

(33)

 

اردو زبان نے یہ سب کیا لیکن افسوس کہ جنگ آزادی کے ہر اول دستے میں شامل اردو زبان کو بعد از آزادی ہندوستان میں ہی جس طرح پا مال کیا گیا وہ اپنے آپ میں 1857کی تاریخ سے کم نہیں حالانکہ اس کی پیشن گوئی پہلے ہی دن فیض احمد فیض نے یہ کہہ کر کر دیا تھا کہ :

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

تلاش جس کی تھی مجھ کو یہ وہ سحر تو نہیں

٭٭٭

حواشی

1۔      ڈاکٹر سید عبداللہ، کشاف تنقیدی اصطلاحات۔ ص :9

2۔      کلیات حسرت حصّہ اول : ص۔113

3۔      کلیات ضیا فتح آبادی ، ص۔203

4۔      ہندوستان ہمارا جلد دوم ہندوستان بک ٹرسٹ بمبئی۔1974

5۔      علی جواد زیدی اردو میں قومی شاعری کے سو سال ، ص۔82-83

6۔      شہر آشوب ایک تجزیہ، پروفیسر امیر عارفی، ص۔160

7۔      امداد صابری 1857کے مجاہد شعرا، ص۔311

8۔      شہر آشوب ایک تجزیہ ، پروفیسر امیر عارفی، ص۔112

9۔      علامہ فضلِ حق خیر آبادی ، باغی ہندوستان، ص۔436

10۔    شہر آشوب ایک تجزیہ، پروفیسر امیر عارفی، ص۔42

11۔    ڈاکٹر تارا چند ،تاریخ تحریک آزادی ہند، جلد سوم

12۔    سبطِ حسن، آزادی کی نظمیں ، ص۔30

13۔    تاریخِ ادبِ اردو، پروفیسر وہاب اشرفی، ص۔305

14۔    قومی شاعری کے سو سال،ص۔222

15۔    شہر آشوب ایک تجزیہ، پروفیسر امیر عارفی، ص۔237

16۔    شہر آشوب ایک تجزیہ، پروفیسر امیر عارفی، ص۔321

17۔    غلام حسین ذوالفقار، اردو شاعری کا سیاسی و سماجی پس منظر، ص۔114

18۔    اردو کی تیسری کتاب ، ص۔17

19۔    اردو کی تیسری کتاب، ص۔17

20۔    نوائے آزادی ، ادبی پبلشرز، بمبئی،ص۔71

21۔    انتخابِ اکبر الٰہ آبادی، ص۔19

22۔    انتخابِ اکبر الٰہ آبادی، ص۔43

23۔    کلیات اکبر الٰہ آبادی، حصّہ سوم، ص۔151

24۔    دو ماہی، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ، ص۔6

25۔    کلیات شبلی، ص۔73-74

26۔    کلیات شبلی، ص۔61

27۔    مجموعہ کلامِ جوہر،ص۔5

28۔    کلیات سہیل ، ص۔240

29۔    امرت لعل عشرت، سلسلہ مصحفی کے سخنوران بنارس، ص۔239-240

30۔    جوش ملیح آبادی، سیف و سبو، ص۔34-35

31۔    شمیم کرہانی، روشن اندھیرا، ص۔63

32۔    وامق جونپوری، جرس، ص۔121-124

33۔    کلیات جگر، ص۔163

 

حوالہ جاتی کتابیات

1۔      ہماری آزادی، ابوالکلام آزاد مولانا، مترجم محمد مجیب، اورینٹ لونگ مین لمٹیڈ۔1976

 2۔     روشنی کے دریچے، احتشام حسین سیّد، مرتبہ:  جعفر عسکری، احتشام اکیڈمی، الٰہ آباد 1973

3۔      کلیات اکبر، اکبر الٰہ آبادی، حصّہ چہارم کتابستان کراچی و الٰہ آباد، 1948، طبع اول

4۔      تاریخ آزاد ہند فوج ، حالی پبلشنگ ہاؤس، کتاب گھر دہلی

5۔      انقلاب 1857، پی سی جوشی، نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا، دہلی 1992

6۔      مجموعہ کلامِ جوہر، مرتب :  تاج الدین، مسجد فتحپوری، دہلی1918

7۔      تاریخ تحریک آزادی ہند، جلد اول، مترجم قاضی محمد عدیل عباسی، ترقی اردو بیورو1980

8۔      فغانِ دہلی، تفضل حسین کوکب، اکاڈمی پنجاب، لاہور 1952

9۔      خاک دل، جانثار اختر، لاہوتی پرنٹ ایڈس، دہلی 1973

10۔    ضبط شدہ نظمیں ، مرتب:  ڈاکٹر خلیق انجم و مجتبیٰ حسین، مجلس جشنِ علی جواد زیدی، نئی دہلی1975

11۔    اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ

12۔    نئی دنیا کو سلام اور جمہور، علی سردار جعفری، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ نئی دہلی 1972

13۔    یوپی کے مسلمان اور محاذِ آزادی، جلد اول، قاضی پبلشرز، دہلی2003

14۔    اردو شاعری کا سیاسی و سماجی پس منظر، غلام حسین ذوالفقار، مطبع پنجاب لاہور1977

15۔    شہر آشوب، پروفیسر امیر عارفی، ساقی بک ڈپو جامع مسجد دہلی

16۔    شہر آشوب، نعیم احمد، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی 1986

17۔    ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں اردو شاعری کا حصّہ، نصرت پبلشرز، لکھنؤ 1991

18۔    سیرتِ محمد علی، رئیس احمد جعفری ندوی، مکتبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ، طبع اول 1932

19۔    نظموں کا انتخاب، راہی معصوم رضا، اسرار کریمی پریس الٰہ آباد1960

20۔    آزادی کے ترانے، راجیش کمار پرتی، نیشنل آرکائیوز، نئی دہلی1976

21۔    ہمارا ہندوستان، مرتب:  جاں نثار اختر، بمبئی 1938

 

رسائل

1۔      آجکل (ماہنامہ) دہلی، جنوری 1957

2۔      آجکل (ماہنامہ) دہلی، آزادی نمبر، اگست 1957

3۔      اردو ادب، شبلی نمبر، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی

4۔      اکادمی لکھنؤ، (دو ماہی) یادگار حسرت نمبر، اتر پردیش

5۔      افکار جوش نمبر، مکتبہ افکار ، کراچی، اکتوبر۔نومبر1961

6۔      ایشیا ، سہ ماہی، میرٹھ اپریل، مئی، جون1961

7۔      خاتون، علی گڑھ، اپریل 1913

8۔      فروغِ اردو (ماہنامہ) لکھنؤ، جنگِ آزادی نمبر،1957

9۔      کیرتی، امرتسر، مئی 1930

10۔    نیا ادب اور کلیم، حلقۂ ادب لکھنؤ، نومبر1940

11۔    ہمایوں (ماہنامہ) لاہور، فروری1938

12۔    یادگارِ حسرت نمبر(دو ماہی)اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ 1918

٭٭٭

منٹو شناسی میں ایک اضافہ

یہ بات عام ہے کہ ادب اور بالخصوص نثری ادب کا تعلق سماج کے اس طبقے سے ہوتا ہے جس میں زندگی اپنے اصلی مفہوم میں فعال نظر آتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعری کے ذریعہ انسان اپنے خفتہ جذبات و احساسات کو بروئے کار لاتا ہے اور سماج پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی تجربہ میں آتی ہے کہ "نثر"اپنی زود حسی کی وجہ سے براہِ راست سماج کو متاثر کرنے والی صنف ہے۔ اور صنفِ نثر میں افسانہ تیر بہ ہدف کا مقام حاصل کر چکا ہے۔بقول پروفیسر قمر رئیس کہ افسانہ پہلے عشق کا تیر ہے جو سینے کے پار ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس صنف نے ایک طویل عرصے تک اردو نثر پر حکومت کی ہے۔ اور اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ابھی اس کی حکمرانی کا ہی دور ہے اور اردو فکشن آج بھی "افسانہ"کے بل پر ہی دیگر زبانوں کے مقابل کھڑی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس قدر کم سِن صنف کو وہ کون سی جڑی پلا دی گئی یا کس فقیر نے اسے بقائے دوام کی دعا دے دی، جو اس کی خیرگی ختم ہونے میں نہیں آتی بلکہ روز بروز ترقی کے منازل طے کرتی جا رہی ہے۔ اس سوال کو حل کرنے کے لئے زیادہ نہیں بس چند لمحے غور کرنے کی ضرورت ہے۔اور وہ یہ کہ جس طرح اردو شاعری کو اگر اوائل عمری میں ہی ولیؔ جیسا شاعر نصیب ہو گیا تھا اور بعد میں متواتر میرؔ و غالبؔ ملتے رہے تو یقیناً اردو افسانے کو بھی ولیؔ کی طرح پریم چند ملے۔ اور اس کے بعد کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی مل گئیں۔ اب میں تمہید کو یہیں ختم کر کے اپنے مطلب پر آتا ہوں کہ ان بڑے افسانہ نگاروں میں سب سے نمایاں نام سعادت حسن منٹو کا ہے۔ جن کی شخصیت اور فن پر کام کرنے والوں کی ایک طویل قطار ہے۔  لیکن پھر بھی ان کا فن آج بھی دعوتِ قلم زنی دیتا رہتا ہے۔ منٹو ایک نابغہ تھا ، منٹو نبّاضِ انسانیت تھا، منٹو دیوانگی کی حد تک انسانیت پرست تھا ، منٹو قدروں کا پرستار تھا ، منٹو درندگی سے بیزار تھا، منٹو کیا تھا؟منٹو کیسا تھا؟ اس پر بہت ساری کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔لیکن اگر ان کتابوں کی افادیت کے لحاظ سے اگر کوئی فہرست بنائی جائے تو ایک نمایاں نام جو اُبھر کر آئے گا وہ نام ہو گا"فسانے منٹو کے اور پھر بیاں اپنا"اور یہ کاوش ہے شعبۂ اردو، کروڑی مل کالج کے سینئر استاد ڈاکٹر خالد اشرف کی، جنھوں نے منٹو نامے کی فہرست میں بڑی خاموشی سے اپنا نام رقم کروا لیا۔ لیکن ادب نواز جانتے ہیں کہ ان کا یہ کام منٹو پر کام کرنے والوں کے لئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس سے پہلے کہ اس ہفت اقلیم کی سیر کی جائے مشہور ناقد اور ڈرامہ نویس پروفیسر محمد حسن کی رائے ملاحظہ کر لیں۔ جو انھوں نے اس کتاب کے سلسلے میں پیش لفظ میں رقم کی ہیں :

’’بڑی مسرت ہے کہ خالد اشرف نے اس طرف توجہ کی ہے اور کسی قدر معروضیت کے ساتھ اس میدان میں قدم یا قلم رکھا ہے۔ گو اب بھی مجھے ان سے بہت سی اور توقعات ہیں۔ میں ان کی کاوش کا خیر مقدم کرتا ہوں اس توقع کے ساتھ   ؎

ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلّی

اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طئے

مجھے یقین ہے کہ ان کی یہ کاوش اردو فکشن کی تنقید کو نئی روش کی طرف رہنمائی کرے گی اور نئی آگاہیوں سے مالامال کرے گی۔ منٹو ایسے مقبول اور قدرِ  متنازعہ فیہ فنکار کے تعینِ قدر کے سلسلے میں ہی نہیں دورِ حاضر میں ادبی تنقید کے منصب و منہاج کے سلسلے میں بھی ان کی تصنیف فکر و تامل کے نئے باب کا اختتامیہ ثابت ہو گی۔ خالد اشرف نے منٹو شناسی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اور اس امتیاز کے لئے وہ دلی مبارکباد کے مستحق ہیں ‘‘۔

مندرجہ بالا اقتباس میں نے محض ستائش کے لئے پیش نہیں کئے ہیں بلکہ اس اقتباس میں جس طرح پروفیسر محمد حسن نے ان امور کی وضاحت  کی ہے وہ قابلِ غور ہے:

(الف)  یہ کاوش اردو فکشن کی تنقید کو نئی روش کی طرف رہنمائی کرے گی اور نئی آگاہیوں سے مالا مال کرے گی۔

(ب)             منٹو ایسے مقبول اور قدرے متنازعہ فیہ فنکار کے تعین قدر کے سلسلے میں رہنمائی کرے گی۔

(ج)              دورِ حاضر میں ادبی تنقید کے منصب و منہا ج کے سلسلے میں بھی اہم رول ادا کرے گی۔

(د)               ان کی تصنیف فکر و تامل کے نئے باب کا اختتامیہ ثابت ہو گی۔

                    اور پھر اس اقتباس کے آخری حصے پر غور کریں۔

(ر)              ڈاکٹر خالد اشرف نے منٹو شناسی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔

اب غور کریں تو اس ایک پیراگراف میں پانچ ایسے بڑے دعوے اس کتاب کے سلسلے میں پروفیسر محمد حسن نے یوں ہی نہیں کیے ہیں کیونکہ ہر ادب نواز پروفیسر محمد حسن کے مزاج اور ان کے کارناموں سے واقف ہیں۔ تو کیا سچ مچ ایسا ہے؟ آئیے ان دعووں کی دلیل ڈھونڈیں۔ اردو اکادمی دہلی سے انعام یافتہ یہ کتاب ڈمائی سائز میں 520صفحات پر محیط ہے اور صفحہ نمبر 13سے 131تک کے مضمون کا عنوان ہے ’’زندگی: ایک ٹیڑھی لکیر‘‘ دوسرا مضمون ’’تصانیف کا اجمالی جائزہ‘‘ ہے جو صفحہ نمبر132سے صفحہ نمبر 154تک پھیلا ہوا ہے۔ تیسرا مضمون ہے ’’فن کے مختلف پہلو اور نظریہ‘‘ جو صفحہ نمبر155سے صفحہ نمبر210پر محیط ہے اور پھرصفحہ نمبر 212سے 510تک ڈاکٹر خالد اشرف نے منٹو کے تیس مقبول افسانوں کا تجزیہ کیا ہے۔ اور آخر میں اشاریہ ہے۔

کتاب کا یہ اسٹرکچر جو بظاہر ایک علمی و تحقیقی مصنف کے تجربات کا غمّاض ہے لیکن سب سے بڑی بات جو اس کتاب میں نظر آتی ہے وہ ہے اس کا پسِ نوشت یا فٹ نوٹ جس پر موصوف نے جتنی عرق ریزی کی ہے وہ حاصل کتاب ہے۔ خاص طور پر ’’زندگی: ایک ٹیڑھی لکیر‘‘ کے فٹ نوٹس کو پڑھ کر یقیناً ایسا لگتا ہے کہ نوجوان ناقد نے تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر میں صفحہ نمبر15پر رقم صرف ایک فٹ نوٹ کا حوالہ دینا چاہتا ہوں ،جو انھوں نے اس بات کی وضاحت کے لیے درج کیے ہیں کہ آیا منٹو کا مسلکِ دینی کیا تھا۔

’’سعادت حسن دہلی میں نکلسن روڈ کشمیری گیٹ پر واقع حسن بلڈنگ کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ والد اور بھائیوں کے نام میں بھی حسن مشترک تھا۔ منٹو کی بیوی صفیہ کے چچا ملک حسن ممبئی میں جعفر ہاؤس میں قیام پذیر تھے۔ افسانہ ’’آخری سیلوٹ‘‘ کا صوبہ دار رب نواز لائسنس کا یکّہ بان ’’ابو‘‘ اور ’’ننگی آوازیں ‘‘ ’’کالوبھولو‘‘ پنجتن پاک کی قسم کھاتے ہیں لیکن پروفیسر زماں آزردہ کے مطابق ’’منٹو ‘‘ سنّی ہوتے ہیں اور سری نگر میں بھی موجود ہیں۔ نواب کاشمیری کے خاکے میں منٹو نے جو تحریر کیا ہے وہ نہایت خوبصورت ہے ’’نواب بڑا طہارت پسند تھا، شیعہ تھا۔ کوئی کام بغیر استخارے کے نہیں کرتا تھا۔ سنّی اور شیعہ ہونے میں کیا فرق ہے؟ لیکن جب ان دو فرقوں میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں تو اتنا سمجھ میں آتا ہے کہ ان کے دماغوں میں مذہبی فتور ہے۔‘‘

جی ہاں یہ اقتباس اس فٹ نوٹ کا ہے جو انھوں نے ایک صفحے پر درج کیے ہیں۔ ایسے اور اس سے بڑے بڑے 128فٹ نوٹس صرف ’’زندگی: ایک ٹیڑھی لکیر‘‘ کے مضمون سے منسلک ہیں۔ جو یقیناً پروفیسر محمد حسن کے دعوے کی دلیل ہیں۔

جہاں تک سوال ہے متنازعہ فیہ کا، تو یہ بات اب اظہر من الشمس ہے کہ سعادت حسن منٹو پر فحاشی کا الزام ناروا اور سراسر عصبیت پر مبنی تھا لیکن اس کے لیے ڈاکٹر خالد اشرف نے جس تحقیقی انداز سے بحث کی ہے اور مواد فراہم کیے ہیں۔  وہ اس لائق ہیں کہ اب اس الزام کی کوئی حقیقت نہیں۔

ڈاکٹر خالد اشرف ایک نہایت کھلے ذہن کے اسکالر ہیں ، اپنے کام کو وہ جس طرح ایک مشن سمجھ کر کرتے ہیں اسے دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ اردو کا مستقبل نہایت روشن ہے۔ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ اس دنیا میں صداقت، خیر اور حسن کی باز آفرینی سے ہی اعلیٰ اقدار کی حصولیابی ممکن ہے اور غالباً انھوں نے منٹو کو اس پیمانے پر پوری طرح پرکھا ہے۔ کیونکہ ان کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے بھی ڈاکٹر خالد اشرف نے اس بنیادی کلیے کو فراموش نہیں کیا ہے۔

منٹو کے ایک افسانے ’’سوراج کے لیے‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کا اشہبِ قلم یوں رواں ہوتا ہے:

’’کیا غلام علی اور نگار کے جسمانی لذت حاصل نہ کرنے اور اولاد پیدا نہ کرنے کے فیصلے سے سامراجی قوتوں کو واقعی کوئی نقصان پہنچ سکتا تھا؟ اس سوال کا جواب نفی میں بھی ہو سکتا ہے اور اثبات میں بھی۔ یہ تو اظہر من الشمس ہے کہ غلام علی کے ایک غلام بچّہ پیدا کرنے یا نہ کرنے سے انگریزی سامراج فوری طور پر متاثر نہیں ہو سکتا تھا۔ تا ہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑی بڑی جابر قوتیں عوامی آدرشوں اور ارادوں کے سامنے ایک نہ ایک دن لڑکھڑا کر منہدم ہو ہی جاتی ہیں۔ ان ارادوں اور آدرشوں پر عمل کرنے کے لیے ایک انقلابی آگ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ آگ سب سے پہلے ان لوگوں کے سینے میں پیدا ہوتی ہے ،جن کی شخصیت میں ہیروازم کے عناصر پہلے سے موجود ہوتے ہیں — یہی ہیرو ہوتے ہیں جو بڑی سماجی تحریکات کی رہنمائی کرتے ہیں اور معاشرتی تبدیلیوں کے لیے زمین تیار کرتے ہیں۔‘‘

آپ نے دیکھا کہ ڈاکٹر خالد اشرف نے تجزیہ نگاری کے فن کا حق کیسے ادا کیا۔یہاں سیاست بھی ہے اور معاشرے کے موجود مسائل کا حل بھی، تشکیک بھی ہے ،لیکن تشکیک محض تشکیک نہیں۔اس کے جواب کے لیے ان کے پاس معقول جواز ہے اور اس طرح وہ منٹو کے اس قدر کی وضاحت بھی کر دیتے ہیں ، جس قدر کی چھوٹ ان کے تمام افسانوں پر برنگِ دیگر پڑ رہی ہے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ:

 ’’زبان تحریری اور غیر تحریری علامات کا ایک ایسا روایتی نظام ہے جس کے ذریعہ انسان ایک سماجی گروہ کے رکن اور اس کے تہذیبی عمل میں شریک ہونے والے فرد کی حیثیت سے اپنا اظہار کرتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر خالد اشرف کا تعلق جس ادبی نسل سے ہے اس نے خود تو نہیں لیکن اپنے پیش روؤں کو ادبی دھول دھپّا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ جدیدیت اور ترقی پسند ادب کی کشا کش کو تو خود خالد اشرف نے بھی دیکھا ہے لیکن اس کے بعد اور خاص طور پر سوویت روس کے منتشر ہونے کے بعد جو ایک خاموشی تحریکات پر طاری ہے اس سکون کے دور میں ڈاکٹر خالد اشرف کا ذہن پر سکون یا تعطل کا شکار نہیں ہوا اور وہ اس بات سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ زبان کی بقا کے لیے جس جدو جہد کی ضرورت ہے وہ ان کی نسل کو کرنی ہے لیکن افراد اور خاص طور پر ذہین افراد کے اس قحط الرجال میں انھوں نے اپنے حصّے کے کام کا انتخاب کر لیا۔ اور بڑی بالغ نظری سے انھوں نے نثر کو اپنا موضوع بنا لیا۔ کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ اب شاعری کا وہ دور لوٹ کر آنے والا نہیں بلکہ یہ صدی بھی یقیناً نثر کی صدی ہی رہے گی اور اس نسل کو اگر نثری اسرار و رموز سے آگاہی نہ ہوئی تو یہ ایک بڑا خسارہ ثابت ہو گا۔ انھوں نے اپنے پیش روؤں کو محض چند جملے بازوں کے حوالے کر دیا تو پھر نیا افسانہ لکھنے کے لیے بنیاد کمزور ہو جائے گی۔ اس کے پیشِ نظر انھوں نے اس کے پہلے ’’عزمی دہلوی کی شخصیت اور ناول نگاری‘‘ ’’بر صغیر میں اردو ناول‘‘ پر ایک جامع کتاب لکھی اور اب منٹو پر ان کا یہ شاہکار یقیناً دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔

اس کتاب کے مطالعے سے ایک بات اور واضح ہو جاتی ہے کہ بھلے ہی بٹوارے کے خونچکاں واقعات کو قلمبند کرنے میں منٹو نے کمال کر دیا ہو لیکن جب وہ خود پاکستان جاتے ہیں تو وہاں وہ کوئی خاص کمال نہیں کر پاتے اور بری طرح ٹوٹ جاتے ہیں اور اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ انا پرست انسان یعنی منٹو پیٹ کی آگ بجھانے کی مشین کا ایک معمولی پرزہ بن جاتا ہے۔بے تحاشہ لکھتا ہے لیکن وہ میر مدن والی بات نہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر خالد اشرف نے تحقیقی انداز میں منٹو کی کہانی کو اختتام تک پہنچایا ہے۔ ’’فسانے منٹو کے اور پھر بیاں اپنا‘‘ یقیناً ایک ایسی تحقیقی کتاب ہے، جس پر ڈھیر سارے علمی تحقیقی تنقیدی سوالات قائم کیے جا سکتے ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اب یہ سوالات قائم کون کرے کہ ’’پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے‘‘ بر طرف سیاست کی گرم بازاری ہے اور یہ سیاست ادب میں مدغم ہو کر انصاف پسند مصنفین کا قلع قمع کر رہی ہے۔ کاش یہ کتاب اس زمانے میں شائع ہوتی جب قدر شناسی عنقا نہیں تھی۔ لیکن ’’نہ ہو نومید‘‘ کے مصداق اس بات پر بھروسہ قائم رہنا چاہیے کہ جب بھی کوئی ناقد یا محقق اب منٹو شناسی کی راہ میں قدم بڑھائے گا تو اس کتاب کے بغیر اس کا کام ادھورا رہے گا۔ خدا ڈاکٹر خالد اشرف کو نظرِ بد سے بچائے یقیناً مستقبل میں ابھی ان کے قلم اور دماغ میں بہت جان باقی ہے عین ممکن ہے کہ وہ دوسرے کسی ایسے ہی پروجیکٹ کا لائحہ عمل مرتب کر چکے ہوں۔

٭٭٭

جلالؔ ہری پوری : پس منظر و پیش منظر

کسی بھی ملک کی شناخت تاریخ تہذیب کے آئینے میں کی جاتی ہے اور دیکھا یہ جاتا ہے کہ تہذیب کی اساس کیا تھی۔ کس حد تک اس میں اخذ و قبول کی صلاحیت تھی۔ اور اس میں کس حد تک دوسرے تہذیبی دھاروں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی قوت تھی ، ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مختلف تہذیبی دھاروں نے اپنی شناخت یا پہچان بنائی ہے۔ اور ہزار ہا برس کی اقوام عالم کی تاریخ اگر آج بھی زندہ ہے تو اس کی وجہ وہ تہذیبی دھارے ہیں جو ایک دوسرے سے اختلافات کے با وجود باہم ربط کے خصوصی جوہر اپنے اندر پوشیدہ رکھتے ہیں ان تمام تہذیبوں کے مختلف رنگ ہیں مگر سب رنگ مل کر ہندوستانی تہذیب کی بنیاد کا پتھر قرار پاتے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے انسانی جسم میں ہاتھ کی انگلیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے سے بڑی چھوٹی ہوتے ہوئے بھی ایک ہی ہاتھ کا حصہ ہوتی ہیں۔ سنگم پر گنگا اور جمنا کے پانی کا رنگ مختلف ہوتے ہوئے بھی ایک ہوتا ہے اور ان نکات کی نشاندہی کا سب سے موثر ذریعہ تصنیف و تالیف ہے۔کتابیں تہذیب  و ثقافت کی امین ہوتی ہیں اور اس کے ذریعہ ماضی کے ورثہ کو مستقبل کے لوگوں تک پہنچا کر کامیابی کی راہیں متعین کی جاتی ہیں انسانی تاریخ کے ہر عہد میں کتابوں کی اہمیت تسلیم کی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت کے لیے خدائے پاک نے انبیائے کرام پر چار آسمانی کتابیں نازل فرمائیں ان کتابوں کے نزول کو فرزندان آدم کے لئے نعمت اور ہدایت کا منبع و مرکز قرار دیا دنیا کی تاریخ میں پیغمبر ، صحابہ کرام اولیا و صوفیاء ، شاعر و ادیب اور ان جیسی ہستیاں گزریں ان سبھوں نے معاشرتی و انسانی نظام کی تشریح کتابوں کے ذریعہ ہی کی۔ لہذا جلال ہری پوری کے پوتے رضوان ندوی نے اپنے جلیل القدر داد کے کلام کو جمع کر کے ان کے خیالات ان کی فکر اور ان کے تہذیبی ورثے کو عوام کے لیے شائع کیا ہے۔

          ہندوستان میں بے شمار مشہور صوفی و علما گزرے ہیں جنہوں نے ہندوستانی سماج کی تعمیر میں نہایت ہی اہم رول ادا کیا ہے۔ ان صوفیا اور علماء کی اخلاقی بلندی کے نتیجے میں بہت سے کنبوں اور طبقوں نے اسلام قبول کیا ، صوفیوں نے اسلام کو پھیلا نے کی غرض سے ہندوستان کے علاوہ دوسرے ممالک کا بھی سفر کیا شہروں سے قصبات تک اور قصبات سے دیہات تک انھوں نے رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری کیا۔خانقاہیں اور مدرسے بھی اسی تحریک کا مر ہون منت ہیں۔ خانقاہوں اور مدرسوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ صدیوں سے رشدو ہدایت اور علم و دانش کا منبع و مرکز رہے ہیں اور ہر دور میں صوفیوں ،مجتہدوں اور درویشوں کی بدولت ان کی نمایاں حیثیت رہی ہے۔ ہمارے وطن کی تاریخ میں صوفیائے کرام نے جس طرح اپنا کر دار ادا کیا اور خدمات انجام دی ہیں وہ  ہندوستانی تہذیب و کی سنہری روایات کا روشن ترین حصہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ عالمگیر پیمانے صوفیوں اور عالموں کا کوئی تصور ہندوستان کے صوفیوں اور عالموں کے  بغیر نا مکمل اور کسی حد تک معنویت سے خالی ہے بہرحال ہے         اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ جلال ہری پوری اپنے عہد کے نامور اہل نظر اور نہایت جید عالم و سالک بزرگ گزرے ہیں۔ ان کی زندگی ایک بین الاقوامی دستور حیات ہے جو قرآن کے ابدی اصولوں کی تعبیر ہے۔موصوف کا ایک ہی مدعا رہا ہے کہ صوفیوں کی طرز زندگی اور سماج کی بہتری کی روح کو سمجھنا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ جملہ اوصاف و کمالات اردو زبان و ادب کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف ہیں۔ ادیب اور صوفی کو اپنی تحریروں میں قدم قدم پر تاریخ کی ورق گردانی کرنی ہوتی ہے۔ سنین و شہود کے تعین کے بغیر ان کی مطابقت کے لئے کاوش کرنی پڑتی ہے مختلف زبانوں میں اس طرح کے جدول موجود ہیں۔ قاضی جلال ہری پوری نے زندگی میں تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں میں خوب حصہ لیا ہے۔کسی بھی شائستہ سماج میں تعلیم کا جو مقام ہے وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے معلم اور دانشور نہ صرف علم کی روشنی پھیلانے اور نوجوان نسلوں کو خاص طور سے طالبعلموں کو سنوارنے اور آراستہ کرنے کے ذمہ دار ہیں بلکہ ساری تہذیبی روایتوں کا سر چشمہ بھی ہیں۔ ہندوستان کے سیکولر زم نظام کے چو کھٹے میں صحیح سماجی شعور کو پیدا کرنا بھی ہمارا فرض ہے اور خاص طور سے اردو کے اساتذہ کے ذمہ یہ بھی مزید فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ زبان اور ادب کی تعلیم و تدریس اور تحقیق کی بنیاد اس نہج پر اٹھائیں کے ان کی پیداوار یعنی جن طلبہ کو تعلیم و تربیت دے کر فراغت و سند فراہم کروانے میں کلیدی رول ادا کیا ہندوستان کے رنگا رنگ کلچر اور اس کے مضمرات اور امکانات کی صحیح نمائندہ ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم کی جبّلی رواداری ہم آہنگی اور گوناگوں عناصر کی انضمامی روایات کا بھی نمونہ ہو نیز ہماری تعلیم و تربیت قومی عزائم کے حصول کا زینہ ثابت ہو۔ایک زمانہ تھا اردو شعر و ادب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اردو شاعری میں گل و بلبل اور لب و رخسار کی باتیں ہی قلمبند کی جاتی ہیں۔ اسی طرح اردو ادب عشقیہ داستانوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ لیکن حالیہ برسوں میں اس سلسلے میں غیر معمولی تبدیلیاں آئی ہیں اور اب اردو شعر و ادب میں زندگی کے سلگتے مسائل سے بھی بحث کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود ہو سکتا ہے کہ اردو ادب میں زندگی کے سنجیدہ مسائل پر بحث کی مزید گنجائش نکل سکتی ہے۔

          کئی دفع شاعر و ادیب سماجی رویوں سے ناراض بھی رہتا ہے اور برسوں ناراض رہتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس ناراضگی کا ادب میں براہ راست اظہار ہو۔ حالانکہ شعر و ادب میں زیادہ تر یہی ہوتا ہے۔ نیاز نے جو ش کی شاعری کے بارے میں کہا تھا کہ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ان کے یہاں گالی دینے کا جذبہ گھٹ کر شعر ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔

          وہ ادیب اور شاعر جن کی جڑیں ہمارے معاشرے میں پیوست نہیں ہیں۔ جو شاید کہیں دور جا بسے ہیں۔یا وہ اپنی ذات کے حصار میں کھو گئے ہیں جن کے یہاں محض تشکیک ہی نہیں بلکہ بیزاری بھی ہے۔ اور وہ جو مغرب کے توسط سے ہندوستانی معاشرے پر نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تنہائی کا شکار ہو گئے ہیں ان کے موضوعات بھی سکر سمٹ گئے ہیں۔ انکی لفظیات بھی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ انہیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ ہمارا معاشرہ کن مسائل سے دوچار ہے۔ آج ہمارا خاندان ٹو ٹ کر ایک نئی شکل اختیار کر رہا ہے۔ ملک کی آبادی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ تجارت اور کاروبار کو زبردست فروغ حاصل ہوا ہے۔ جمہوری اقدار کے مثبت پہلو اتنے نمایاں نہیں ہوئے جتنے منفی پہلو اپنی گھناؤنی شکلیں دکھا رہے ہیں۔ یعنی صنعتیں فروغ اور کاروبار کی ترقی نے عوام تک رسائی حاصل نہیں کی بلکہ ان کا اثر قیمتوں کے بڑھنے اور کالے بازار کے وجود میں آنے کی شکل میں ہوا ہے۔اس کے ساتھ ہی ساتھ غیر قانونی در آمد و برآمد کا بڑھتا ہوا کاروبار ، رشوت ستانی اور قتل و غارت گری جیسے جرائم بھی آگے بڑھتے ہوئے معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہے ہیں۔ایسے دور میں جلال ہری پوری کی شاعری اگر چہ کوئی منزل مقصود کا پتہ دینے والی نہ ہو لیکن انسانی ذہن وہ تقویت ضرور بخشتی ہے جس سے کہ مایوسی اور frustrationکا شکار ہونے سے آدمی بچ جائے گا۔

          کوئی ضروری نہیں کہ ہمیں اپنے دور کی سچائیوں کو دیکھنے کے لیے سر سید ، اقبال اور پریم چند کی روایات پرہی آگے بڑھانا ہو گا اور اس عہد کی سچائیوں کو اپنے ادب میں سمونا ہو گا۔ بلکہ اپنے ہاتھ اپنے معاشرے کی نبض پر رکھنا ہو گا۔ آج سماج و معاشرہ بالکل ہی بدل چکا ہے۔ اس کی ضرورتیں اور ترجیحات مختلف ہو چکی ہیں لہذا اسی کا لحاظ و پاس رکھتے ہوئے کوئی بہبود و ترقی کا عمل پیدا کرنا ہو گا۔ ادب و تخلیق میں یہ کام اور بھی زیادہ وقت کے تقاضے کا متمنی ہے۔ اس لحاظ سے جلال ہری پوری کی شاعری کو آئڈیل نہیں مان سکتے لیکن اس آئڈیل شعر و ادب کا ایک نمونہ ضرور کہ سکتے ہیں کیوں کہ ان کی شاعری میں معاشرے اور سماج کی جھلک بڑے صاف صاف لفظوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

          تاریخ عالم اس قسم کے بہتیرے واقعات نظر آتے ہیں جنھوں نے ایک قلیل عرصہ میں ایک نئے سماج کی داغ بیل ڈالی یا کم از کم ایک نیا سماجی شعور پیدا کیا۔ بدھ مت کی ترویج اسلام کے فروغ یا فرانسیسی و روسی انقلابات ان کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان سبھوں میں ہمیں سماج کے ہمہ گیر نظریات ملتے ہیں اور ان سے کسی طرح کی سماجی تبدیلی یا سماجی انقلاب کا وجود سامنے آیا اس سے ہم سبھی اچھی طرح واقف ہیں۔ مگر ہر سماجی تبدیلی اتنی تیز گام نہیں ہوتی۔عام طور پر سماج کا ارتقائی سفر دھیما ہوتا ہے۔ کاشتکاری کی ابتداء ہی اکثر سماج کی ابتداء کے مترادف سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس سے قبل انسان جب تک اپنی روزی کے لیے محض شکار پر منحصر تھا نہ تو مستقل مکان بنائے جاتے تھے اور نہ ہی بستیاں اور شہر آباد کیے گئے۔ بعد میں جب کاشتکاری کے طریقوں میں نمایاں تبدیلی ہوئی تو ان سے بھی انسانوں کے درمیان نئے رشتوں کا آغاز ہوا جس نے سماج کے ڈھانچہ کو بدل ڈالا۔ دنیا میں جاگیر دارانہ نظام بہت طویل عرصہ تک قائم رہا اور کہیں کہیں کسی نہ کسی شکل میں آج بھی مو جود ہے۔اور اسی نظام کا پروردہ سماج دنیا کے بیشتر ملکوں میں قائم ہوا۔ بعد میں مختلف ممالک میں مختلف وجوہات کی بنا پر جب سر مایہ داری کا رواج ہوا تو اس کے ساتھ سماج نے بھی اپنے آپ کو ان نئے حالات کے مطابق بنا لیا۔ صنعتی انقلاب ، نشاۃ الثانیہ ، اشتراکیت اور دیگر تحریکیں سماج کو بدلنے میں بیحد موثر ہوئیں۔ اسی طرح مختلف ادوار اور مختلف خطوں میں مذاہب نے بھی سماج میں نمایاں اثرات ڈالے۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ جب سماج میں اہم تبدیلیاں ہوتی ہیں ہمارا سماجی نظریہ بدلتا ہے مگر اکثر ایک نیا سماجی نظریۂ سماج میں نئی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بھی بنتا ہے۔ پس ایک سماجی نظریہ ایک مخصوص سماج کا پروردہ بھی ہوتا ہے اور کبھی کبھی ایک نئے سماج کا خالق بھی۔ ہیگل کا سماجی نظریہ اپنے وقت کے سماج کا جواز بنا جبکہ مارکس کا سیاسی نظریہ ایک نئے سماج کا نقیب۔

          ہمارا موجودہ سماج ان گنت نئے اثرات و تصورات کا مخزن ہے۔ آج ہم اس دور سے بہت آگے نکل آئے ہیں جہاں تعصبات و اوہام کا بول بالا تھا اور مذہب کے نام پر غلط تصورات اور جاہلانہ خیالات اور رویوں کو شہ دی جاتی تھی۔ مجموعی طور پر بیسویں صدی میں ہر ملک اور ہر سماج میں تیزی سے تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ اپنے گردو پیش پر نظر ڈالنے کی کو شش کروں تو یہ نظر آتا ہے کہ صنعتی ترقی اور سائنس و تکنالوجی کی جولانیوں نے ہمارے رہن سہن کا طریقہ ، ہمارے مشاغل اور ہمارے رشتوں کو یکسر بدل ڈالا ہے۔ مگر ان تمام تبدیلیوں کے باوجود ہمارا سماجی نظریہ اور سماجی اداروں کے تئیں ہمارے رویوں میں اب تک وہی دیرینہ رجحان پایا جاتا ہے جو پرانے حالات کے مطابق تھا۔ یہ عام بات ہے کہ داخلی تبدیلیوں کی نسبت خارجی تبدیلیاں تیزی سے نمایاں ہوتی ہیں۔ مادی یا معاشی تبدیلی زود گام ہوتی ہے مگر ان کے متوافق نفسیاتی تبدیلیوں میں بہت دیر لگتی ہے۔

          غور کیجئے تو دونوں ہی راستے ، یعنی قوم پرستی اور بین الاقوامیت انسان نے اپنی ضرورتوں کے ماتحت بنائے ہیں۔ خواب دیکھنے والے کسی ایسے وقت کا تصوّر کر سکتے ہیں جب بین الاقوامیت ہی رائج الوقت سکہّ رہے گی اور قوم پروری کی حیثیت بالکل ہی ثانوی ہو جائے گی۔ لیکن خواب خواب ہیں ، حقیقتوں کی عملی دنیا میں قومیت کی بڑی اہمیت ہے اور مجھے تو یہ اہمیت گھٹنے والی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ایک مبہم سے بین الاقوامی تصوّر کے لئے جس کے خد و خال بھی ابھی پوری طرح واضح نہیں ہو پائے ہیں اور جو عمل کی دنیا میں ابھی ’’اقوامِ  متحدہ ‘‘ کے تصوّر سے آ گے نہیں بڑھ پایا ہے قوم جیسی قریبی ، حقیقی ماہیت سے کوئی کیسے منھ پھیر سکتا ہے؟ منھ پھرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیوں کہ قوم پروری اور بین الاقوامیت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ آج دنیا میں کو ئی قوم بالکل الگ تھلگ اور علیٰحدگی پسندی کا جذبہ لے کر آگے نہیں رہ سکتی کیونکہ فاصلے اس طرح سمٹ گئے ہیں کہ ایک جگہ کے واقعات دوسری جگہ پر بھی اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ آج کی بین الاقوامیت ہماری ہمدردیوں اور ارادوں کی وسعت اور قوموں کے درمیان ہم آہنگی ،ہم زیستی اور مفاہمت و مصالحت ہی کا دوسرا نام ہے۔ وہ لوگ بھی جو عقیدتاً بین الاقوامیت ہی پر ایمان رکھتے ہیں ، قوم پروری کو تر ک نہیں کرتے اور بین لاقوامیت کے فروغ کے لیے اختیار کرنے میں جھجھکتے نہیں۔

          ہر چند کہ ’’ادب‘‘ کی تعریف کے لیے کوئی معقول کلّیہ ایسا نہیں ہے جس پر مشرق و مغرب کے تمام مفکرین کا اجماع اور اتفاق ہو لیکن ادب کے ناگزیر سماجی رشتے سے بھی کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ ’’عربی زبان میں ادب کا لغوی مفہوم وہی تھا جو انسان کے بلند شریفانہ خصائل کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ اور یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جو مختلف ’’توجیہات کے ساتھ آج بھی کم و بیش رائج ہے۔ ادب کی تمام قابلِ لحاظ تعریف کو یکجا کر کے ایک جامع تعریف بنانے کی کوشش کی جائے تو اس کے نتیجے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادب وہ فن لطیف ہے جس کے ذریعے ادیب جذبات و افکار کو اپنے خاص نفسیاتی و شخصی خصائص کے مطابق نہ صرف ظاہر کرتا ہے بلکہ الفاظ کے واسطے سے زندگی کے داخلی اور خارجی حقائق کی روشنی میں ان کی ترجمانی و تنقید بھی کرتا ہے اور اپنے تخیل اور قوتِ مخترعہ سے کام لے کر اظہار و بیان کے ایسے موثر پیرائے اختیار کرتا ہے جس سے سامع و قاری کا جذبہ و  تْخیل بھی تقریباً اسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح خود ادیب کا اپنا تخیل اور جذبہ متاثر ہوا۔اس جامع تعریف کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ ادب کسی ماورائی شئے کا نام نہیں اس کا تعلق عام انسانی معاشرے سے ہے اور انسانی معاشرے میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات سے اس کا تعلق ہونا فطری ہے۔

          اس تعریف کی روشنی میں ہم اردو ادب کا ایک عظیم سرمایہ پاتے ہیں لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ شاعرو ادیب خود کو مشتہر کرنے اور محض لوگوں کی واہ واہی اور نقادوں کی چپقلش میں لگا رہتا ہے۔سستی شہرت اور ادبی گروہ بندیوں سے الگ رہ کر زبان و ادب کی خدمت انجام دینے والوں کی فہرست اردو ادب کی دنیا میں بہت طویل نہیں ہے۔ اس کی وجہ اردو والوں کی ذہنیت اور ایک خاص قسم کا ماحول ہے ،کسی مخصوص ادبی تحریک سے وابستہ نہ ہونے کا مطلب تمام کاوشوں کے باوجود گمنامی کے غار میں اپنے آپ کو ڈالنے کے مترادف ہے، ان خدشات کے باوجود جن لوگوں نے اپنا مطمح نظر اردو ادب کی خدمت رکھا ان میں سے ایک نام قاضی جلالؔ ہری پوری مرحوم کا ہے۔ قاضی جلالؔ ہری پوری ضلع پورنیہ، بہار کے اس علاقے سے تعلق رکھتے  جہاں تک پہنچنا آج بھی ایک جہاد سے کم نہیں مانا جاتا۔ ’’پورنیہ‘‘ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سنسکرت اصل ہے ’’پورنا-ارنیہ‘‘ یعنی مکمل جنگل۔ ایک اندازے کے مطابق کہ ’’پورَین‘‘ سے بنا ہے جس کا معنی کنول کا پھول ہوتا ہے۔ ان دونوں کو ہی اگر صحیح مانا جا سکتا ہے کیوں کہ پورنیہ سے کچھ ہی دوری پر ہمالیہ کی خوبصورت وادی شروع ہو جاتی ہے۔ جس کی ہوا پورنیہ تک اسی طرح پہنچتی ہے جیسے کہ دوسری نیپال کے خوبصورت شہروں تک۔ اس کے علاوہ چائے کے کھیتوں کے لیے مشہور چائے باسہ کچھ ہی میل دور ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ جگہ جدید ترقی یافتہ شہروں کے مقابلے بہت کم ترقی یافتہ ہے لہذا جنگل اور مکمل جنگل سے کسی طرح بعید از قیاس نہیں۔یہاں بجلی آج بھی سب سے کم پہنچتی ہے، سانپ کے کاٹنے پر لوگوں کی موت ہو جاتی ہے، عام بیماریوں میں بھی لوگ دعا تعویذ اور اوجھا کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسا اس لیے نہیں ہے کہ وہاں کے لوگ پرانے خیالات کے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہار کے ان علاقوں میں سب سے کم ترقی ہوئی ہے۔  الکشن کے موقعے پر بھی وعدے وعید یہاں کم ہی ہوتے ہیں۔ لیکن داد کے قابل ہیں یہاں کے لوگ کہ پھر بھی زندگی جینے کی دوڑ میں  پیچھے نہیں رہنا چاہتے اور حتی الامکان نئی نئی دنیاؤں تک پہنچ بنانے میں کامیابی حاصل کرتے رہتے ہیں۔ یہاں علم و ادب کا چراغ بھی ہمیشہ روشن کیا جاتا رہا ہے، جلال ہری پوری کے دادا اور چچا بھی شاعر ہو گزرے ہیں اور اسی روایت کی پاسداری میں جلالؔ بھی مستعدی کے ساتھ لگ گئے۔

          جلالؔ ہری پوری نے شاعری کو اپنا فرض اولین نہیں جانا بلکہ زندگی کی مصروفیات سے وقت نکال کر اردو کی اس خدمت کو انجام دیا ہے۔ پھر بھی شعری آگہی اور زبان و بیان کی روانی موضوع کا تنوع کسی کہنہ مشق پیشہ ور شاعر سے کہیں کم نہیں۔جلالؔ ہری پوری کی شاعری مثبت فکر کی ترجمان ہے آپ نے حالات و زمانہ کو جیسا دیکھا اپنے اشعار میں بے تکلف بیان کر دیا، نظم، غزل ،نعت اور حمد ہر صنف شاعری پر آپ نے خامہ فرسائی کی۔ ان کی غزلوں میں نظموں کے مقابلہ میں تنوع زیادہ ہے ان کی نظم گوئی چند ایک موضوعات کے دائرے میں گھومتی ہے۔جلال ہری پوری  چونکہ عربی و فارسی زبان کے ماہر تھے پھر بھی خواہ مخواہ عربی و فارسی تراکیب  کا استعمال نہیں کرتے  بلکہ سادہ اور ترسیلی کا اسلوب استعمال کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جلال صاحب کی شاعری سمجھنے کے لئے عربی اور فارسی زبان کی واقفیت بہت ضروری نہیں ہے۔

          جلالؔ ہری پوری کا رشتہ ایک طرف قدیم کلاسیکی شاعری سے ملتا ہے تو دوسری طرف جدید لب و لہجہ کی شاعری سے بھی انہوں نے اپنا تعلق جوڑے رکھا، بجا طور پر جلال کی شاعری قدیم وجدید کا سنگم ہے۔ انہوں  نے اپنا رشتہ میرو داغ سے بنائے رکھا اور اسی معیار کی شاعری پوری زندگی کرتے رہے۔ نمو نے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

پوچھنا ہے گردش ایام سے

کیا عداوت ہے دل ناکام سے

 

چپکے چپکے کیا انہوں نے کہ دیا

ہو گئے احباب میں بدنام سے

 

کہیں مذہب کہیں ہے ذات کی جنگ

مرا خلوت کدہ ہی خوب تر ہے

 

شکار تنگ نظری ہے نظام دہر بھی شاید

غریبوں پر نظر اس کی کڑی معلوم ہوتی ہے

 

کبھی بھرنے نہ پایا زخم دل زخم جگر میرا

عدو بدنام ہے پر دوستوں کے پاس ناخن تھا

          آج کے طوفان مغرب میں جلال کی مشرقیت اپنی جگہ ایک مضبوط ستون ہے اور یہ ایقان شاعر کے فکری رسوخ اور ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔ وہ صوت و لفظ کے نازک رشتے کے محرمِ راز ہیں۔ جلال ان معدودے چند ممتاز شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی مشاقی اور قدرتِ اظہار کلاسیکی روایت سے ان کی دلچسپی اور وابستگی کا پتہ دیتی ہے اور نئے شعری رجحانات کی ان کی شاعری کو نئے اسالیب اظہار اور نئے طرز احساس سے ہم رشتہ کرتی ہے۔  جلالؔ بہت محنتی آدمی تھے، وہ کام کرتے ہوئے نہیں تھکتے وہ تمام عمر اپنے فرائض سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ ان کی شخصیت کے کئی رنگ ہیں جو بہ حیثیت استاد وہ سارے طلباء کو ایک نگاہ سے دیکھتے تھے،  ساتھ ہی گھر ا ور سماج کی ذمہ داریوں سے خود کو کبھی غافل نہیں ہونے دیا۔ اسی لیے حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے اس قدر شاعری کے لیے وقت کہاں سے نکالا ہو گا۔  اور زندگی میں ادب و شاعری اور سماج کے بیچ یہ Balanceکیسے بنائے رکھا ہو گا۔

          شاعری انہوں نے بہت کم عمری میں ہی شروع کر دی تھی۔ شاعری میں انہوں نے کسی سے اصلاح نہیں لی نہ ہی کسی کو استاد بنایا اس سلسلے میں خود ایک انٹرویو میں کہتے ہیں :

’’بہت افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ مجھے اس سلسلے میں کسی سے شرف تلمذ حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اگرچہ  ابتدا میں چند غزلیں  اور نظمیں  میں نے اپنے چچا  نجم صاحب ک مرحوم کے سامنے پیش کی تھیں لیکن گھریلو چپقلش  کی وجہ سے ان سے اکثر میرے تعلقات خراب رہے لہذا میں اس سلسلے میں ان کی ذات سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکا حالانکہ چچا مرحوم کی ذات اس کے لیے غنیمت تھی۔ لہذا ابتدا سے اب تک صرف اپنی کوشش سے لکھتا چلا آ رہا ہوں۔‘‘

          قاضی جلالؔ ہری پوری  نے اپنے سرمایہ فن کو محفوظ رکھنے کی طرف کبھی دھیان نہیں دیا اسی لیے ان کے بہت سے کلام وقت کی گرد میں کھو گئے۔ انہیں شہرت و اشاعت کا بھی کوئی خاص شوق نہیں تھا کہ کلام محفوظ رہتے پھر بھی چند کلام اخبار و رسائل میں شائع ہوئے تھے جن میں  ’آئینہ‘، ’’انسان‘‘ ’’طاؤس‘‘ صبح نو‘‘ ساحل‘‘ اور ’’افکار‘‘ وغیرہ اہم ہیں۔ انہیں میں سے تلاش و جستجو کے بعد اور گھر میں بکھری بیاضوں اور ڈائریوں سے نکال کر ان کے حقیقی پوتے محمد رضوان ندوی نے یکجا کر کے ایک اہم کام انجام دیا ہے اور ساتھ ہی اپنی علمی اور ادبی دیانت داری کا ثبوت پیش کیا ہے۔ محمد رضوان ندوی اپنے دادا کی طرح ہی محنتی اور ایماندار ہیں۔ علم کی پیاس بجھانے کے لیے بہار کے پورنیہ سے نکل کر یو پی کے ندوہ تک کی خاک چھانی اور اب زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر علم و ادب

          جلال ہری پوری کے جو کلام دستیاب ہیں ان کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں کئی اصناف پر دسترس حاصل تھی۔ انہوں نے نظمیں اور موضوعاتی نظمیں بھی کہیں۔ غزلوں میں اپنا زیادہ زور مارا لیکن حمد، نعت ، منقبت، قطع اور قطع تاریخ کے ساتھ واقعات و حکایات اور قرآنی آیات پر بھی اشعار خوب خوب کہے ہیں۔ اگر چہ انہوں نے اردو کی کلاسیکی اصناف مثنوی، مرثیہ، قصیدہ کو اپنے قلم کا شکار نہیں بنایا لیکن ان کی شعر گوئی میں ایسی روانی اور تسلسل ہے کہ ان کے کلام کا مثنوی نگاری کے فن سے قریب کا رشتہ معلوم ہوتا ہے اسی کے ساتھ ساتھ کلام میں بلند آہنگی اور لفظوں میں وہ زور اور پختگی ہے کہ قصیدے کے اشعار ہونے کا گمان گزرتا ہے اور مناسب و موزوں الفاظ کا استعمال ، علم بیان اور صنعتوں کی در  و بست ایسی چست و درست ہے کہ مرثیہ کے استاد اپنے دانتوں تلے انگلی دبائیں۔

جمال یار کا کرتا رہوں ہر وقت نظارہ

اسی شغل حسیں میں زندگی کی شام ہو جائے

 

سر آنکھوں پر تیری ساری نصیحت  حضرت ناصح

محبت کا مگر دل سے مرے سودا نہ کم ہو گا

 

برنگ کاہ چاہا حاسدوں نے پیس ہی ڈالیں

جلالؔ بے نوا کو مطمئن جب اپنے گھر دیکھا

 

تم نے یہ پایا کہاں حسن تکلم اے جلال

تم کو حاصل کب یہ انداز فصیحانہ ہوا

 

          جلال ہری پوری کے کلام ویسے تو اردو دیگر نابغوں تک بہت کم پہنچے ہیں لیکن اگر ان کے کلام کی رسائی کسی اہم شخصیات تک ہوئی ہے وہ ان کے کلام کی خوبی کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد نے قاضی صاحب کے کلام کا بغور مطالعہ کیا  اور اس کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ:

          ’’قاضی جلال ہری پوری نے اگر ایک طرف  اپنے دل کے داغوں کی بہار اپنے کلام میں دکھلائی ہے تو دوسری جانب ماورائے ذات جو منظر نامہ ہمارے چاروں طرف بکھیرا ہوا ہے اس کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔ بصائر و تاملات کے اعلی و ارفع انسانی قدریں جنہیں دنیا نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے ان کے کلام میں ابھر کر  ہمارے سامنے آتی ہیں ‘اندرون ذات’ اور‘ بیرون ذات’ دونوں منظر ناموں کو انہوں نے بڑی فن کاری کے ساتھ  اپنی غزلوں میں اس طرح ہم آہنگ کیا ہے کہ تغزل اور غنائیت کی ایک موجِ تہ نشیں جس کے بغیر کوئی غزل اچھی غزل نہیں ہو سکتی ہر جگہ اپنی توجہ مبذول کراتی ہے، وہ اپنی ذات میں اس قدر گم نہیں ہوتے کہ گرد و پیش کے مسائل سے بے خبر ہو جائیں اور نہ گرد و پیش کے مسائل میں اتنے الجھتے ہیں کہ انہیں اپنی ذات میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے غافل ہو جائیں ’’ذات‘‘ اور بیرون ذات کے مسائل کا ایک خوش گوار امتزاج قاضی جلال ہری پوری کے کلام میں ہر جگہ فنی مہارت کے ساتھ موجود ہے۔‘‘

          آگے چل کر ان کی فکر و احوال ظرف کے متعلق ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد فرماتے ہیں :

          ’’قاضی جلال ہری پوری کی تشکیل فکر جن احوال و ظروف میں ہوئی ہے وہ وہی ہیں جن سے اردو غزل کے قدما نے کسب فیض کیا ہے۔ اسی لیے حسن و عشق کے موضوعات کے علاوہ تصوف اور اعلی و ارفع انسانی اقدارِ حیات کی ترجمانی بھی بڑی مضبوط فنی بنیادوں پر ان کے کلام میں ہر جگہ ملتی ہیں۔ غزلوں کے علاوہ ان کے نعتیہ کلام اور ان کی منظومات میں بھی وہ تمام خصوصیات نظر آتی ہیں جو ہمارے کلاسکی شعرا کے لیے باعث فخر و افتخار رہی ہیں۔‘‘

          قاضی جلال ہری پوری نے کئی مختلف موضوعات پر نظمیں و اشعار قلم بند کیے ہیں جن کی اپنی ایک شناخت بنتی ہے۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہر موضوع کا تعلق بہ ظاہر محدود متن اور پس منظر سے ہوتا ہے مگر جہاں تک اس کے دائرہ کار کا تعلق ہے تو یہ لا محدود ہوتا ہے۔ماضی میں اس رجحان کو انجمن پنجاب کی خیال انگیز اور فکر پرور تحریک سے ایک ولولہ تازہ نصیب ہوا۔آقائے اردو مولانا محمد حسین آزاد ،خواجہ الطاف حسین حالی ،شبلی نعمانی ،اسمعیل میرٹھی اور متعدد زعما نے خون جگر سے اس صنف شاعری کی آبیاری کی اور اسے پروان چڑھانے میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کیں۔موضوعاتی شاعری اور اس کے پس پردہ کارفرما لا شعوری محرکات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ معاصر ادبی دور میں موضوعاتی شاعری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت میں اپنی افادیت کا لوہا منوا لیا ہے۔اس طرح یہ روایت تاریخ کے مسلسل عمل کے اعجاز سے پروان چڑھتی ہوئی دور جدید میں داخل ہوئی۔اس عہد میں ہمیں تمام اہم شعرا کے ہاں اس کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔عالمی شہرت کے حامل نامور پاکستانی ادیب اور دانشور محسن بھوپالی کا ایک شعری مجموعہ ’’موضوعاتی شاعری ‘‘ کے نام سے آج سے پندرہ برس قبل شائع ہو ا تھا۔اس طرح اولیت کا اعزاز انھیں ملتا ہے۔ اردو کے روشن خیال ادیبوں نے نئے افکار،جدید اسالیب،اور زندگی کی نئی معنویت کو موضوعاتی شاعری کی اساس بنایا۔ جلال ہری پوری نے بھی اس میں قدم رکھ کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا یا۔ لیکن اگر جلال ہری پوری کے یہاں موضوعات کو اور تنوع مل جاتا  تو یہ دعوے کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جلال ہری پوری آج کے عہد کے ایک اہم ابی شخصیت میں شمار کیے جاتے۔ ان کے کلام کا چند نمونہ دیکھیے:

چاند جب میری نگاہوں میں نہاں ہوتا ہے

تو ستاروں میں مجھے تیرا گماں ہوتا ہے

 

سرخ ہونٹوں کے تلے دانت وہ اجلے اجلے

آگ میں برف چھپی ہے یہ گماں ہوتا ہے

 

کیا ملا مجھ کو خوش بیاں ہو کر

دوست نالاں ہے بد گماں ہو کر

کوئی پوچھا نہیں حقیقت کو

اڑ گئی بات داستاں ہو کر

جل گیا کب خبر نہیں گلشن

برق گزری تھی آشیاں ہو کر

 

بیٹھے بیٹھے ہی نہ تم شکوہ تقدیر کرو

اٹھ کے تقدیر سنور جانے کی تدبیر کرو

نا امیدی کا نہ جلایا کرو منحوس چراغ

شمع امید سے کاشانے کی تنویر کرو

          مذکورہ اشعار میں آپ کو شاید کوئی نئی بات نہ ملے لیکن اگر آپ ان اشعار ان کے موضوعات پر غور کریں تو اس طرح کے موضوع پر ٹھہر کر بات کرنے کا انداز آپ کو رک کر مطالعے کی تکرار پر ضرور اسرار کرے گا۔ ان کے نعتیہ اور منقبتیہ کلام میں بھی موضوعات کی وہی گونج ہے۔ نعتیہ اور منقبتیہ شاعری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہوتی ہے۔ شاعر ذرا بھی اس راہ میں ڈگمگایا تو کفر کے قعر مزلت میں جا گرتا ہے۔ منقبت میں احتیاط کی بے حد ضرورت ہے۔ جذبات میں گم ہو کر گزرنے والے احاطہ شریعت  سے  الگ ہو کر دینی مجرم کہلائے جاتے ہیں۔ لیکن قاضی جلالؔ ہری پوری نے اس بات کا پورا پورا پاس و لحاظ رکھا ہے۔اسی کے ساتھ شعری محاسن کو بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔ سورہ فاتحہ کی روشنی میں ایک حمد باری تعالیٰ لکھی جس کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

سزاوار ستائش لائق حمد و ثنا تو ہے

کہ پالنہار ساری خلق کا میرے خدا تو ہے

تری ذات مقدس رحمت و رافت کا سر چشمہ

تو حاکم حاکموں کا مالک روز جزا تو ہے

عطا کر ہم کو سیدھی راہ اپنے نیک بندوں کی

نہ ان کی جس سے یارب دونوں عالم میں خفا تو ہے

 

          ان کی نعتیہ شاعری کے منفرد اشعار ملاحظہ کیجیے:

 

حضرت عیسی نے مردوں کو جِلایا تھا مگر

آپ نے سے پتھر بھی بولا اللہ اللہ یہ کمال

 

مینار روشنی کا شہ لا مکاں ہیں آپ

ہر ذرہ جہاں پہ ہے احسان آپ کا

 

مبارک ہو زاہد تمہیں قصر جنت

رضا اپنے مولا کی ہم چاہتے ہیں

 

سرمہ کے عوض لا کے بہت جلد طبیبو!

خاک در مولا میری آنکھوں میں لگا دو

          اب چند مثال ان کی موضوعاتی شاعری کے حوالے سے بھی دیکھ لیں کہ اس رنگ میں بھی آپ نے کس کس قدر گل بوٹے کھلائے ہیں۔ نظموں میں انہوں نے اپنے موضوع طے کر کے جس شعری ہنر مندی سے کام لیا ہے اس کی مثال صرف استاد شاعروں کے یہاں ہی ملتی ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ جلال ہری پوری کی نظمیں علامہ اقبال کی نظموں کا extension ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے:

تمہارے چاہنے والے پہ جور آسماں کیوں ہو

محبت کرنے والا دل نوا سنج فغاں کیوں ہو

 

دل مسلم میں یا رب جذبہ بیدار پیدا کر

عطا کر حوصلہ ایمان میں انوار پیدا کر

محبت دے مروت دے وہی پچھلی اخوت دے

کوئی ایوب سا پھر صاحب ایثار پیدا کر

                                      شاعر کی دعا

 

اک نئی دنیا نئے شمس و قمر پیدا کریں

پھر وہی اسلاف کی شام و سحر پیدا کریں

کام رہ رو کا نہیں ہے راستے میں بیٹھنا

ذوق منزل ہے تو سورج کا جگر پیدا کریں

                                      دعوت عمل

 

تزلزل تھا ہمارے رعب سے ایوان باطل میں

بہادر تھے، جری تھے، پنجہ شیر قضا ہم تھے

اخوت اور ہم دردی کا ہم دنیا میں تھے پیکر

غریبوں بے کسوں کے درد اور دکھ کی دوا ہم تھے

زمانہ کانپ جاتا تھا ہمارا نام سنتے ہی

جواب زور میں سہراب و رستم سے سوا ہم تھے

ہماری ہی حکومت شرق سے تا غرب تھی جاری

زمانہ بن کے تھا اور فرماں روا ہم تھے

                                      ہم کیا تھے

          یہ طے ہے کہ ادب کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے اور کوئی ادب اپنی سماجی ذمہ داریوں سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ بقول ایک مغربی ادیب کے۔ ’’کسی ادیب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ محض ایسے ادب کی تخلیق کرے جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہو بلکہ اس کو ایسے ادب کی تخلیق پر بھی قدرت ہونا چاہئیے جو ایک لمحے کے لیے ہو لیکن اس ایک لمحے میں اس کی قوم کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہو۔ ’’معاشرے میں ایسے لمحے اکثر آتے ہیں اور ادیبوں نے اپنے عہد کے مظالم جبرو تشدد اور استحصال کے خلاف آوازیں بلند کی ہیں اور یہ سب اس لیے کہ ادیب اور شاعر انسانی تہذیب کی اعلا ترین قدروں کا نہ صرف حامی ہوتا ہے بلکہ ان کا پاسبان اور انہیں فروغ دینے والا بھی ہوتا ہے اور جب یہ قدریں پامال ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں تو کبھی کبھی وہ چیخنے لگتا ہے ، اس لیے وہ راتوں کی نیندیں حرام کرنے والے پاسبان کی طرح جاگتے رہو ، جاگتے رہو، بھی کہتا ہے۔اور ایسے موقعوں پر جب اس کی آواز کے صحرا میں گم ہونے کا خطرہ ہوتا ہے تو وہ یا تو اس کی آواز کو تیز کرتا ہے یا پھر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتا ہے۔ جلال ہری پوری کے یہاں بھی سے اشعار ملتے ہیں لیکن بظاہر یوں تو جلال ہری پوری نے ملک کی سیاست اور بد نظمی کے حوالے براہ راست کچھ نہیں لکھا لیکن ایک نظم ’’ضمیر کی پکار‘‘ کے عنوان سے ملتی ہے جس کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جلال ملک کے حالات سے بہت مغموم رہا کرتے ہوں گے۔ انہیں حیرت بھی ہوتی ہو گی کہ آخر یہ دنیا و ملک کے لوگ آپس میں اس قدر نا اتفاقی کیوں برتتے ہیں۔ اور آخر کار مجبور ہو کر انہوں نے  نظم ’’ضمیر کی پکار‘‘  کی تخلیق کی ہو گی جس کا پیغام دور دور تک پہنچنا چاہیے تھا لیکن زمانے کے چند مفاد پرستوں کی وجہ سے یہ کام بھی التو ی میں ہے۔ نظم کے چند مصرعے دیکھیے کس قدر احساس و گہرائی کا پرتو ہیں :

وطن کے رہنے والو آؤ یک جا ہو کے ہم بیٹھیں

خلوص و آشتی سے متحد ہو کر بہم بیٹھیں

سناؤ تم بھی اور ہم بھی سنائیں اپنی بپتائیں

کہ شاید اس طرح سے غم کے شعلوں کو بجھا پائیں

ہوئے پچھلے دنوں کیا کیا ہمارے دیش بھارت میں

ہوئے برباد کتنے خانماں اس قتل و غارت میں

کہیں بیتاب تھا مسلم کہیں ہندو پریشاں تھا

ہراس و خوف کا ہر سمت برپا ایک طوفاں تھا

مفید اب ہے نہیں ماضی کا لانا لب پہ افسانہ

بہر صورت ہے اچھی فکر  مستقبل اے فرازانہ!

 

چلو اب مل کے پختہ عہد کر لیں اور قسم کھائیں

کیے پر اپنے پچھتائیں عمل سے اپنے شرمائیں

پکاریں ہم مصیبت میں تمہیں تم دوڑ کر آؤ

ہمیں بھی اپنے آڑے وقت میں تم یاد فرماؤ

          اس نظم کی خاص بات یہ ہے کہ جلال نے بڑے سادہ انداز میں دونوں قوموں کو قصور وار ٹھہرایا ہے اسی لیے اپیل اور درخواست کی ہے دونوں قوم

آپس میں بیٹھ کر بات چیت کریں۔ ایک دوسرے غلطیاں بتا کر مزید ہنگامہ برپا کرنے کی بجائے اپنی اپنی غلطیو پر پچھتائیں اور پھر سے عام انسان کی طرح اخوت اور بھائی چارے کی زندگی گزاریں۔انسان کا سماجی نظریہ ہمیشہ اس کے سماج کی مخصوص ارتقائی منازل اور اس کے فروغ سے وابستہ ہوتا ہے۔ یہ نظریہ کبھی تو سماج تاریخ کا محض ایک پر تو ہوتا ہے ، جو محض سماجی حالات کا عکاسی کرتا ہے اور انہی پر مکمل طور پر منحصر ہوتا ہے اور کبھی یہ نظریہ ایک بہتر سماج کی نشاندہی کرتا ہے ، اور اس طرح سماجی تبدیلی کا محرک بنتا ہے۔ میرے خیال میں ہر سماجی نظریہ ان ہر دو عمل کا مرتکب ہوتا ہے۔ کوئی بھی نظریہ ان حالات سے یکسر آزاد نہیں ہو سکتا جن کے درمیان یہ پنپتا اور پروان چڑھتا ہے۔ عموماً ایک مخصوص سماجی نظریہ اپنے گردو پیش کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے اور ان رجحانات و اثرات کی عکاسی کرتا ہے جو سماج میں رائج ہوتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک زندہ اور صحت مند نظریہ خود ان سماجی روایات اور اداروں کا ناقد بھی ہوتا ہے جو اس نظریہ کو جنم دیتے ہیں۔

          جلال ہری پوری کی اس قسم کی شاعری میں موضوعات کا تنوع ،جدت اور ہم گیری ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے۔ان کی موضوعاتی شاعری جہاں کلاسیکی روایات کا پر تو لیے ہوئے ہے وہاں اس میں عصری آگہی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔معاشرے ،سماج اور اقوام عالم کے ساتھ قلبی وابستگی کے معجز نما اثر سے ا ن کے ہاں ایک بصیرت اور علمی سطح فائقہ دکھائی دیتی ہے۔وہ جس علمی سطح سے تخلیق فن کے لمحوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں اس کا براہ راست تعلق آفاقیت سے ثابت ہوتا ہے۔فرد ، معاشرے،سماج،وطن ،اہل وطن،حیات، کائنات اور اس سے بھی آگے ارض و سما کی لا محدود نیرنگیاں ان کی موضوعاتی شاعری میں اس دلکشی سے سما سکتی تھیں لیکن انہوں نے نہ تو  اس کو اتنی جگہ دی نہ ہی ان کے قاری و سامع کا حلقہ اس قدر تھا کہ ان کے اس رنگ کو جلا بخشتا۔ان کی یہ موضوعاتی شاعری منظوم تذکرے کی ایک منفرد صورت قرار دی جا سکتی ہے اس موضوعاتی شاعری میں منظوم انداز میں جو تنقیدی بصیرتیں جلوہ گر ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔وہ لفظوں میں تصویر کھینچ کر رکھ دیتے ہیں اور قاری چشم تصور سے تمام حالات و واقعات سے آگاہ ہو جاتا ہے۔وہ اصلاحی اور تعمیری اقدار کو اساس بنا کر پرورش لوح و قلم میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں قصیدہ گوئی یا مصلحت اندیشی کا کہیں گزر نہیں۔وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز حریت فکر کے مجاہد کی طرح اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حرف صداقت لکھتے چلے جاتے ہیں۔

          ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے جلالؔ ہری پوری نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی جو کامیاب سعی کی ہے وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ان کا تشخص اپنی تہذیب ،ثقافت ،کلاسیکی ادب اور اقوام عالم کے علوم و فنون کے ساتھ قرار پاتا ہے۔وہ اقتضائے وقت کے مطابق تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ عہد وفا استوار رکھتے ہیں اور اسی کو علاج گردش لیل و نہار قرار دیتے ہیں۔وہ اس امر کی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی قوم اپنے اسلاف کی عظمت اور فکری میراث سے چشم پوشی کی مہلک غلطی کی مرتکب ہوتی ہے تو اس نے گویا یہ بات طے کر لی ہے کہ اسے اپنی ترقی اور عظمت سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔اسی لیے جلال ہری پوری نہایت خلوص اور درد مندی سے کام لیتے ہوئے مثبت شعور اور آگہی پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے۔ کلاسیکی اردو شعرا کے مقابلے  ان کی موضوعاتی شاعری ان کی انفرادیت کے حیران کن پہلو سامنے لاتی ہے۔اس موضوعاتی شاعری میں ایک دھنک رنگ منظر نامہ ہے۔تخلیق کار نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے۔اس میں موضوعات کی ندرت،معروضی حقائق،خارجی اور داخلی کیفیات، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے جملہ معمولات اس مہارت سے اشعار کے قالب میں ڈھالے گئے ہیں کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ نظم ’’عورت ‘‘ کے چند اشعار  دیکھیے:

شام کا دلکش سمے اودی گھٹا چھائی ہوئی

دھندلی دھندلی چاندنی ہر سمت لہرائی ہوئی

سیر کی خاطر میں گھر سے جانب صحرا چلا

اضطراب دل کو تھورا تھوڑا بہلاتا چلا

ناگہاں حد نظر میں کچھ چراغاں ہو چلا

رونقیں دونی ہوئیں  صحرا پرستاں ہو گیا

محو حیرت ہو کے میں نے غور سے دیکھا ادھر

چلتا پھرتا اک ہیولا حسن کا آیا نظر

چاند سا مکھڑا قیامت کی ادا رفتار میں

سیکڑوں لذت کے چشمے موجزن گفتار میں

 

ناک نقشہ دل ربا آنکھیں سراپا نرگسی

اجلے اجلے دانت میں ہلکا سا کچھ رنگ مسی

زلف ناگن کی طرح تھی پیچ و خم کھائی ہوئی

رینگتے ہی رینگتے زیر کمر آئی ہوئی

          اس طرح یہ نظم آگے بڑھتی چلی جاتی ہے جلالؔ ہری پورے کے بیان کا جادو قاری کو مسحور کیے جاتا ہے۔ ایک اور نظم ہے اسی طرح کی ’’تخیل کی پری‘‘ کے عنوان سے جس میں اسی طرح ساحری ہے۔ ملاحظہ ہو:

یاد آئے گا مجھے یہ زندگی بھر بار بار

شام کا منظر حسیں کٹیہار کی دلکش بہار

ایک دن شوق سفر نے گھر سے باہر کر دیا

جا کے ’دلکولہ‘ ہوا میں ریل گاڑی پر سوار

الغرض سیٹی بجی گاڑی چلی تیز ہو گئی

 

جس طرح چلتی سویرے ہے نسیم خوش گوار

کیا بتاؤں راہ میں کیا کیا مجھے آیا نظر

بستیاں ، آبادیاں ، سوکھی زمیں اور کوہسار

چند گھنٹوں کی مسلسل تیز رفتاری کے بعد

مجھ کو گاڑی نے دیا کٹیہار جنکشن پہ اتار

سامنے آنکھوں کے اک بجلی چمک کر رہ گئی

تختہ پل پر قدم کو جوں ہی رکھا خاکسار

جس پہ تارے ہو رہے تھے آسماں پر سے نثار

جس کے رنگیں ہونٹ کرتے تھے شفق سے ہمسری

جس کے گل رخسار میں تھے رنگ و بوئے صد بہار

          اس طرح یہ نظم اپنے اختتام تک پہنچتے پہنچتے جس احساس اور دل کی کیفیات ظاہر کرتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسی طرح ’’اپنی سلمی سے‘‘  بھی زبان و بیان  عمدہ مثال پیش کرتی ہے لیکن ’’اپنی سلمی سے‘‘ میں جذبات کی لو ذرا تیز ہو گئی ہے:

          اگر آپ غور کریں تو زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس اور اس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ان کے اسلوب میں پائی جانے والی اثر آفرینی قلب اور روح کی گہرائی میں اتر کر دامن دل کھینچتی ہے۔

انسانیت اور زندگی کی اقدار عالیہ کے ساتھ جلال ہری پوری کی والہانہ محبت ان کی شاعری میں جس انداز میں جلوہ گر ہے وہ ان کے ندرت تخیل اور انفرادی اسلوب کی شاندار مثال ہے۔ بے لوث محبت اور درد کا یہ رشتہ ان کی ایسی تخلیق ہے جس میں کوئی ان کا شریک اور سہیم نہیں۔وہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے داعی اور علم بردار ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جغرافیائی حدود اور زمان و مکاں کے دائروں سے آگے نکل کر انسانیت کے آفاقی محور میں اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سائنس کے غیر شخصی انداز سے قطع نظر ان کے اسلوب میں شخصی اور انفرادی انداز کی بو قلمونی اپنا رنگ جما رہی ہے۔ان کی شاعری میں ان کا انفرادی اسلوب اس دلکش انداز میں صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتا ہے کہ ان کے قلبی احساسات،سچے جذبات،الفاظ اور زبان کی گہری معنویت،پر تاثیر اشاراتی کیفیات اور سب سے بڑھ کر تہذیبی میراث کا تحفظ ان کا مطمح نظر قرار دیا جا سکتا ہے۔انھوں نے ہمارے ادب ،تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی مستحسن اور عزیز ترین اقدار و روایات کو صیقل کیا ہے ان کی اس فکری و فنی کاوش نے متعدد تجربات ،مشاہدات اور بصیرتوں کو پیرایہ ء اظہار عطا کیا ہے۔ان کے سوتے ہمارے اسلاف کی فکری میرا ث سے پھوٹتے ہیں۔

دل مسلم میں یا رب جذبہ بیدار پیدا کر

عطا کر حوصلہ  ایمان میں انوار پیدا کر

محبت دے مروت دے وہی پچھلی اخوت دے

کوئی ایوب سا  پھر صاحب ایثار پیدا کر

شاعر کی دعا                   

 

اخوت اور ہم دردی کا ہم دنیا میں تھے پیکر

غریبوں بے کسوں کے درد اور دکھ کی دوا ہم تھے

زمانہ کانپ جاتا تھا ہمارا نام سنتے ہی

جوابِ زور میں  سہراب و رستم سے  سوا ہم تھے

ہماری ہی حکومت شرق سے تا غرب تھی جاری

زمانہ بن کے تھا محکوم اور فرماں روا ہم تھے

                                      ہم کیا تھے    

 

بالیقیں نا آشنا ہیں جذبہ کامل سے ہم

لرزہ بر اندام ہوتے  ورنہ کیوں باطل سے ہم

بڑھ چکی ہر قوم آگے ہم پہ طاری ہے جمود

کس قدر بے فکر ہیں اے وائے مستقبل سے ہم

عکس احوال                     

          ان کے مطالعہ سے قاری ان تمام مآخذ اور منابع سے آگہی حاصل کر لیتا ہے جن پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ چکی ہے۔ہمارا معاشرہ اور فطرت کے تقاضے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ رخش عمر مسلسل رو میں ہے انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی اس کے پاؤں رکاب میں ہیں۔ان تمام تناسبوں اور تقاضوں کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے۔ یہ سب کچھ تاریخی شعور کا مرہون منت ہے جو حدود وقت،زماں اور لا مکاں اور ارضی و سماوی قیود سے بالا تر ہے۔ایک جری اور زیرک تخلیق کار اسی شعور کو رو بہ عمل لاتے ہوئے روایت کو استحکام عطا کرتا ہے۔وہ اپنی داخلی کیفیت سے مجبور ہو کر کسی بھی موضوع پر بر جستہ اور فی البدیہہ لکھنے پر قادر ہیں۔یہ ان کی قادر الکلامی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ ان کی تخلیقی فعالیت اور ادب پاروں سے اردو زبان و ادب کی ثروت میں جو بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہ تاریخ ادب کا ایک درخشاں باب ہے۔ شاعری کا حقیقی استحسان کرنے کے لیے ذوق سلیم کا ہونا اشد ضروری ہے۔وہ تزکیہ نفس کی ایسی صورتیں تلاش کر لیتے ہیں کہ فریب سود و زیاں سے گلو خلاصی کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔انھوں نے مواد اور ہیئت کے جمالیاتی عناصر کو اس طرح شیر و شکر کر دیاہے کہ ان کی شاعر ی پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ان کی ادبی کامرانیوں کا اعتراف بہت ضروری ہے۔ تاریخ ہر دور میں اس نابغہ روزگار ادیب کے نام کی تعظیم کرے گی۔اپنے جذبات کا اظہار کرتے وقت وہ نہایت دل نشیں انداز میں تمام حقائق کو اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔  حقانی القاسمی فرماتے ہیں :

’’قاضی جلال ہری پوری کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے کلاسیکی تخلیقی وراثت کا نہ صرف مطالعہ کیا ہے بلکہ اس کی آہٹوں کو اپنے احساس و اظہار میں ڈھالا ہیاپنے فنکارانہ تخیل سے تخلیقی احساس و اظہار کو نئی شکل عطا کی ہے۔ قاضی جلال کے شعری علائم، تشبیہات اور استعارات وہی ہیں جو کلاسیکی شاعروں کے ہیں۔ مگر طرز ادا اور اسلوب کی ندرت اور جدت کی وجہ سے ’’قیس‘‘ سے ان کی رہ گزر الگ ہو گئی ہے۔

          جلال ہری پوری  ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے ان کی زندگی قرآن حکیم ،اسلامی تعلیمات ،توحید ،رسالت اور سنت نبوی کے مطابق بسر ہو ئی ہے۔ان کی شاعری میں اس عشق کا بر ملا اظہار ملتا ہے۔کسی قسم کی عصبیت ان کے اسلوب میں نہیں پائی جاتی۔ان کا پیغام محبت ہے اور وہ اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کے مبلغ ہیں۔ انھوں نے اپنی مستعدی اور تخلیقی فعالیت سے جمود کا خاتمہ کیا اور دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے میں اہم کر دار ادا کیا۔ان کے بارے میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ادب کا کوئی دیانت دار نقاد ان ان کے فن پارے کو دیکھ لے تو ان کی اس تخلیقی فعالیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔انھوں نے قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بھی انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ان کی شاعری اور اسلوب جس حسین اور دلکش انداز میں قاری کے شعور کو وسعت اور ذہن و ذکاوت کو لطافت سے فیض یاب کرتا ہے وہ ان کے بلند پایہ تخلیق کار ہونے کی دلیل ہے۔ لفظوں کی پاکیزگی عشقیہ شاعری میں بھی اسی قدر ہے جیسے کہ ان کے مذہبی عقیدے والی حمدیہ، نعتیہ اور منقبتی شاعری میں موجود ہے۔

ہر سمت تیرگی کی ہے بارش کا زور شور

جگنو کی روشنی بھی ہوئی گم دیہات میں

 

بِس بھرے کانٹے ہیں اس میں ہر قدم ہے خار دار

عشق بازی بھی کوئی کیا دل لگی ہونے لگی

 

ہزاروں سال سے سورج سفر میں ہے مصروف

زمانہ پا کے بھی تنہا اسے ستا نہ سکا

          علامہ اقبالؔ نے کہا تھا کہ :

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

لیکن یہاں جلال ہری پوری فرماتے ہیں :

 

دل کی کلی ہی کھل نہ سکے جس بہار میں

چولہے میں جھونک دیجیے ایسی بہار کو

 

          جلالؔ کی شعری صلاحیت کا اعتراف کرنے والا کوئی نقاد نہ انہیں ان کی زندگی میں ملا اور نہ ہی ان کے کلام کی اشاعت کے بعد ورنہ یہ پودا ہرا ہو کر ایسا برگ و بار پھیلاتا کہ دنیا دیکھتی رہتی۔  جلال ہری پوری نے غلام ہندوستان بھی دیکھا اور آزاد بھی انہیں اپنے سماج میں کوئی تبدیلی نظر نہیں اور نہ ہی انہوں نے موجودہ رہنماؤں کو دیکھ کر اس کی توقع کی تھی۔ اسی لیے بغیر کسی انگشت نمائی کے اپنا کام مرتے رہے اور ادب و علم کی خدمت انجام دیتے رہے۔

٭٭٭

 

مصنف کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔