02:39    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

طنز و مزاح

5671 0 0 00

دیسی لائف ان کینیڈا - مرزا یٰسین بیگ

پیش لفظ

قلم دیکھو، قلم کی دھار دیکھو

مجھے بچپن سے سنجیدگی اور چاپلوسی سے بیر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہوش اور قلم سنبھالتے ہی مزاح نگاری کی طرف توجہ دی۔ پہلی ہی غیر سنجیدہ تحریر پر ’’بزمِ سنگر‘‘ سے انعام اور بزمِ طلباء کراچی سے انٹر ویو کے لیے بلاوا آیا۔ یہ غالباً 1981ء کی بات ہے صرف دو سال بعد میں ریڈیو کے جن پروگراموں میں خطوط لکھتا تھا، انہی پروگراموں کا کمرشل رائٹر بن گیا۔ اسلم بٹ کی حکمرانی میں اس مسکین اور تابعدار رائٹر نے ریڈیو پاکستان کے ہزارہا کمرشل پروگرام لکھے اور بعد ازاں ہزار ہا روپوں کی پونجی بخش کر اپنی جان کی بخشش کروا ئی۔

پھر رسالوں میں تحریرو ادارت کا دور شروع ہوا جو ’’دوشیزہ‘‘ ڈائجسٹ سے شروع ہو کر روپ، صبح نَو، ٹی وی ٹائمز، ٹی وی ٹیمپو، بچوں کا رسالہ اور نجانے کتنے اور رسالوں تک جاری و ساری رہا۔ یہ بزرگوار ضیاء الحق مرحوم کا دور تھا جس میں ‘ میں اور میرا قلم خواہ مخواہ ہی جوان ہو گئے تھے۔ بزم طلباء میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی غیر مراعات جاب بھی نبھائی، ورلڈ سروس کے متعدد پروگراموں کا سالہا سال تک میزبان بننے کی سعادت بھی حاصل رہی۔تحریری امتحان میں نمایاں کامیابی کے باوجود اس وقت کے اعلیٰ عہدیدار نے مجھے ریڈیو پروڈیوسر بنانا گوارہ نہ کیا محض اس لیے کہ کراچی کا کوئی کوٹہ نہ تھا۔

چنانچہ لائف کے تیسرے فیز میں ایم اے صحافت کرنے کے بعد میں نوکری یاترا کے لیے نکل گیا اور فار ایسٹ کے کئی ممالک کی چھان مار کر بلآخر بیوی کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔ اسی دوران جاپان کے پہلے اردو رسالے نوائے ٹوکیو اور ایگری ریسرچ کی ادارت کی اور محمود شام کی خصوصی نگاہِ کرم کے طفیل روزنامہ جنگ میں شامل ہو گیا۔ یہاں میگزین سیکشن میں کام کیا، پاکستان کے 50سال مکمل ہونے کی خوشی میں جنگ کی ریسرچ ٹیم کا اہم رکن رہا اور کئی موضوعات پر مہینوں کی ریسرچ کے بعد خصوصی ضمیمے پیش کیے جو بیک وقت جنگ کے تمام ایڈیشنز میں شائع ہوئے۔ جنگ شکایات سیل کا انچارج رہا اور پھر نیوز ڈیسک میں مدثر مرزا کی شاگردی اختیار کی۔ قسمت کے کھیل نے مجھے سلطان لاکھانی کے دربار میں لا کھڑا کیا۔ سلطان صاحب کے چہیتوں میں شمار رہا۔ روزنامہ ایکسپریس کے پہلے میگزین ایڈیٹر بننے کا اعزاز حاصل رہا۔ بڑی محنت اور دلجوئی سے یہ فرائض نبھائے اور کئی درباریوں کی نگاہوں میں بری طرح کھٹکا۔ اسی دوران کینیڈا کے امیگریشن کی سوغات ملی اور بزرگوں کے مشوروں کے ساتھ فیملی سمیت کینیڈا ہجرت کر گیا۔

کینیڈا میں کیا گزری، اس کی روداد کتاب میں موجود ہے۔ کچھ آپ بیتی ہے اور کچھ جگ بیتی۔ جہاں جہاں آپ ہنسیں گے ، سمجھ لیں وہاں میں رویا ہوں۔ اب زندگی کے 47برس گزر چکے ہیں۔ پی ٹی وی پر بچوں کی دو سیریلز اور ففٹی ففٹی (دوسرا جنم) سمیت متعدد کامیڈی شوز لکھے۔ ان دنوں ٹی وی کے جو بڑے تھے وہ چھوٹا سمجھ کر قریب آنے نہیں دیتے تھے۔ میرے کئی آئیڈیاز پر بڑوں نے اپنے نام سے سیریلز لکھ ڈالے۔ سینکڑوں مزاحیہ جملوں کا سرقہ ہو گیا۔ تب بھی میں خوش تھا، اب بھی خوش ہوں۔

کینیڈا جا کر کالم نویسی کی جو گالم نویسی سے قدرے بہتر شئے ہے۔ اُردو ریڈیو کے لیے کینیڈا کا پہلا کامیڈی شو ’’دیسی اپارٹمنٹ‘‘ تحریر کیا اور پچھلے تین سال سے کینیڈا کا پہلا 24گھنٹے چلنے والا اُردو آن لائن ریڈیو www.DesiRadioCanada.com(دیسی ریڈیو کینیڈا) چلا رہا ہوں۔

شکر گزار ہوں اپنے والدین، رعنا فاروقی، دانش دیروی(مرحوم) ،سلطانہ مہر، محمود شام، سلطان لاکھانی، ارشد بھٹی، بدر منیر چوہدری اور آج اپنے پیارے چھوٹے بھائی عامر آرائیں کا جنہوں نے ہمت بندھا کر مجھ میں جینے اور لکھنے کی آس برقرار رکھی۔

اس کتاب کو آپ آغاز، درمیان اور آخر کہیں سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ ایک ناکام انسان کے کامیاب جملے ہیں جو کالم کی شکل میں کینیڈا کے اُردو اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ خالد عرفان اور مجیب لودھی نے اسے نیوز پاکستان امریکہ میں شائع کیا ، صبیح منصور اور بدر منیر چوہدری نے اسے پاکیزہ اور اخبار پاکستان میں پرنٹ کیا اور میرا چھوٹا بھائی عامر آرائیں اب اسے پاکستان پوسٹ میں شائع کرتا ہے۔ اب جہاں ہوں ، جیسا ہوں ، خوش ہوں۔ اطہر شاہ خان (جیدی) کی نصیحت پر عمل کر کے میں نے چراغ تلے اندھیرا نہ ہونے دیا۔ اب ماشاء اللہ میرے چاروں بچے کینیڈا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور میں الیکٹرانک میڈیا کے سیلاب کے درمیان اپنی کتاب کی گٹھری ایک کشتی میں رکھ کر ادب اور صحافت کے دریا کے کنارے آپ لوگوں میں اپنی کتاب ’’دیسی لائف ان کینیڈا‘‘ تقسیم کر رہا ہوں۔ پڑھئے او رہو سکے تو اپنی رائے سے ضرور نوازیئے۔ دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر جوہر شناس نظروں میں آ گیا تو مزاح کا وہ قلعہ تعمیر کر سکتا ہوں کہ جس میں جو داخل ہو، ہنستا ہوا باہر نکلے۔

عزت افزائی کا منتظر

مرزا یٰسین بیگ

مسی ساگا، کینیڈا

1-416-648-9622 , E-mail: myasinb@yahoo.com

راز کی بات

اطلاع ملی ہے کہ مرزا یٰسین بیگ اپنے کالموں کا مجموعہ ’’دیسی لائف اِن کینیڈا‘‘ کتابی صورت میں شائع کر رہے ہیں۔ ہم ہر خاص و عام اور احباب کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مرزا یٰسین بیگ کی اس واردات میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں ہے ، نہ ہم سے مشورہ مانگا نہ کانوں کان خبر ہونے دی اور بات کتاب کی طباعت تک پہنچ گئی۔ اگر ان کالموں کا مجموعہ آنے کے بعد کوئی ہنگامہ بپا ہو، کہیں سے انقلاب کی خبر ملے ، بات تھانے کچہری تک پہنچے تو ہمارا نام کہیں نہ آئے۔

مرزا یٰسین بیگ اگر کتاب کی طباعت سے پہلے ہم سے مشورہ کر لیتے تو اُنہیں اس حرکت سے باز رکھنے کی پوری کوشش کرتے۔ اس سے پہلے جن احباب نے مشورہ کیا یا نہ کیا ہم نے انہیں کتاب شائع کرنے سے روکا اور آج وہ صحافیوں ، نقادوں اور پبلشروں کے سامنے دندناتے پھرتے ہیں۔ موقع ملے تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے بات کرتے ہیں۔ جو سکّہ رائج الوقت وہ دائیں بائیں سے حاصل کرتے ہیں اپنے ہی اہل خانہ پر خرچ کرتے ہیں اور کیونکہ کتاب کے بنڈل گھر میں نہیں ہوتے اس لیے بیگم سے تعلّقات خوشگوار رہتے ہیں۔

ہندوستان سے جب انگریز صاحب بہادر گیا تو ہر شخص صاحب بننے کے خواب دیکھنے لگا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے موقع دیا وہ صاحبِ ثروت بن گیا ، کچھ صاحب جائیداد ہو گئے اور جن سے کچھ نہ ہو سکا وہ صاحبِ اولاد ہو گئے۔ لیکن بعض ایسے بھی تھے جو صاحبِ کتاب بننا چاہتے تھے اور وہ ایسا کر گزرے۔ لوگوں نے انہیں سودائی اور دیوانے تک کا خطاب دے دیا ؎

وہ بھلا کس کی بات مانے ہیں

مرزا یٰسین تو دیوانے ہیں

پہلے زمانے میں جب کوئی فارغ البال اور فرصت میں ہوتا ، بزرگ مشورہ دیتے ’’بکری پال لو‘‘ لیکن اب زمانہ چڑیا کے بچے تک کے پالنے کا نہیں ہے۔ اس لیے رقیب اور دشمنِ جاں یہی مشورہ دیتے ہیں کہ کتاب چھاپ لو، مرزا یٰسین بیگ جب تک پاکستان میں رہے وہ صاحبِ عقل و دانش رہے۔ لکھا تو بہت لیکن کتاب شائع کرنے کا خیال تک نہ آیا۔ اب کینیڈا میں رہنے کے بعد کالموں کو کتاب کی صورت میں مرتب کرنے کا خیال آیا ہے ، ان دنوں پاکستان میں لوگ کتاب سے زیادہ آٹا خریدنا پسند کرتے ہیں اور چند ہی ایسے لوگ ہیں جو اپنے ڈرائنگ روم کے پردوں اور فرنیچر کے رنگ سے ملتی جلتی کتابیں آرائش و زیبائش کے لیے خرید لیتے ہیں۔ یورپ امریکہ کینیڈا میں کتاب شائع کرنا بالکل ایسے ہے جس طرح پتنگ کٹ کر قبرستان میں آ کر ڈولنے لگے اور لوٹنے والا کوئی نہ ہو۔

مرزا یٰسین بیگ کی تحریروں سے ہم پرانے واقف ہیں۔یہ اخباروں میں رسالوں میں کثرت سے شائع ہوتے تھے ہم جہاں ان کا نام دیکھتے وہ تحریر ضرور پڑھتے ہیں خاص طور سے انہوں نے ممتاز شخصیات کے انٹرویو کیے ہیں ہمیں ان افراد سے زیادہ ان کی تحریر کا لطف آتا تھا۔ ان کا انداز سادہ ، دلچسپ اور شگفتہ ہے۔ ان کے جملوں میں تازگی اور ہلکا پھلکا پن ہوتا ہے یہ ایک پارہ صفت انسان ہیں کبھی ایک ادارے میں زیادہ عرصے تک نہیں رہے۔ جب ہم ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر تھے تو ہم نے ان کو گھیرنے کی بڑی کوشش کی لیکن یہ ہاتھ نہیں آئے اور لوگ ان کے اندازِ بیاں سے محروم رہے۔

پاکستان کے لوگوں کا خیال ہے کہ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال اور دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ ہے ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان سے با صلاحیت لوگوں کو مغرب میں خوش آمدید کہنے میں بھی ایک چال ہے۔کتنے ایسے لوگ امریکہ ، کینیڈا اور یورپ میں آ بسے جو پاکستان میں رہتے تو بڑا اچھا ہوتا۔ ان میں مرزا یٰسین بیگ کا شمار بھی ہے۔ یہ وہاں ہوتے تو ان دنوں جو ٹی وی کے نئے چینلز آ رہے ہیں ان کے لیے یہ لکھتے اور خوب لکھتے ، لیکن یہ کینیڈا میں ’’دیسی لائف‘‘ سنبھالے بیٹھے ہیں۔

پاکستان میں دیسی چیزوں کو پسند کرنے کا بڑا رواج ہے۔ دیسی گھی سے لے کر دیسی مرغی تک بازار میں زیادہ قیمت پاتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ’’دیسی لائف ان کینیڈا‘‘ وہاں کے قارئین کو یقیناً متوجہ کرے گی۔

جب کوئی چیز بنائی جا رہی ہو ، تعمیر کی جا رہی ہو تو اسے روکنا آسان ہے لیکن جب مکمل ہو جائے تو اسے ستائش کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ اب چوں کہ مرزا یٰسین بیگ کتاب شائع کرنے کا کام کر بیٹھے ، اس لیے ہماری دعائیں اور مبارک باد ڈھیروں ان کے ساتھ ہیں۔ خدا کرے یہ کتاب انہیں ہر شر سے بچائے اور آنے والی زندگی میں بہاریں لائے۔

نیک خواہشات اور دعائیں !

قمر علی عباسی

(امریکہ)

کینیڈا کی دیسی باتیں اور یٰسین بیگ

یٰسین بیگ نے ٹورانٹو سے مجھے فون کر کے کہا ’’ میں اکثر آپ کے ماہ نامہ ’’روپ‘‘ کے زمانے کا ذکر کرتا ہوں۔ میری بیوی آپ سے اور میری ماں سے ملنے کی منتظر ہے ، کیونکہ آپ سے متعلق میں نے اس سے اتنا کچھ کہا ہے کہ … …‘‘ ۔

اور پھر یٰسین نے ہمارے ماہ نامے ’’روپ‘‘ کراچی کے زمانے کی باتیں یاد دلائیں۔ یٰسین ’’روپ‘‘ کے معاون ایڈیٹر تھے۔ ہمارے ساتھ نزہت بیگ بھی تھیں۔ دونوں ہی محنتی تھے اور دونوں کے مضامین، انٹرویوز اور فیچرز بہت ہی منفرد، دل کش اور دل موہ لینے والی بانکی تحریروں پر مبنی تھے۔ نزہت تو گھریلو خاتون ہو کر صحافت چھوڑ بیٹھیں لیکن یٰسین صحافت کی دل ربا پری سے آزاد نہ ہو سکے۔ میں تو خود بھی ماجدہ (یٰسین کی بیگم) سے مل کر جاننا چاہتی تھی کہ مرزا یٰسین بیگ کیا اب بھی ویسی ہی لا اُبالی لڑکے جیسی خوبیاں پالے ہوئے ہے۔جیسا شادی سے پہلے تھا یا اب دو تین بچوں کا باپ بن جانے کے بعد اس یٰسین میں تبدیلی آئی ہے۔یقیناً آئی ہو گی۔ اب یٰسین کے بچے لڑکپن کی حدود پار کر رہے ہیں۔ وہ اب یقیناً ویسا غیر ذمہ دار نہیں ہو گا جیسا ’’روپ‘‘ کے زمانے میں تھا۔ ورنہ وہ اپنی فیملی کے لیے ایک خوبصورت گھر تعمیر نہ کر پاتا۔

یٰسین بیگ نے مجھ سے اور کچھ سیکھا ہو یا نہ سیکھا ہو مگر یہ ضرور سیکھا کہ ایک اچھے باپ کو صحافتی امور نبھانے کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار باپ بننے کے لیے کن کن اصولوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے تاکہ دونوں محاذوں پر کامیابی اس کے قدم چومے۔ یٰسین نے ان اصولوں کو رہنما بنایا اور آج غیر ممالک میں بھی اس نے اپنی ادبی صحافتی اور گھریلو سرخروئی کے جھنڈے گاڑ دیے۔

یٰسین کی طرح اس کے ایک پرانے دوست ڈاکٹر اختر گلفام نے بھی انہی اصولوں کو رہنما بنایا اور آج لندن سے ’’نوائے وقت‘‘ کے اجراء کا اعزاز انہیں حاصل ہے۔

یٰسین کے ساتھ میرے مسرّت کے گنے چنے واقعات میں سے ایک اہم واقعہ یہ بھی ہے کہ یٰسین کے صحافتی کالموں پر مشتمل کتاب ’’دیسی لائف ان کینیڈا‘‘ کے عنوان سے اشاعت کی منزلوں سے گزر رہی ہے۔ یٰسین کی محنت کی پری نے خوش ہو کر اسے انعام سے نوازا ہے۔

یٰسین باتوں کا بادشاہ نہیں ، مگر قلم کا شہ سوار ہے۔ اس کے کالموں میں جملوں کی کاٹ کبھی ہمارے ماضی کے کالم نویس ابراہیم جلیس مرحوم اور ابنِ انشاء مرحوم کی یاد دلاتی ہے ، تو کبھی منّو بھائی اور عطا الحق قاسمی کے شہد، کریلے اور لیموں کے رس میں گھلے ملے کھٹے میٹھے اور کڑوے ذائقے سے بھی احساسات کی زبان آشنا ہوتی رہتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’کینیڈا میں دیسی اُسے کہتے ہیں جس کے بچے اس سے زیادہ اچھی انگریزی بولتے ہوں۔ جو بس اور ٹرین میں سفر کرتے ہوئے کتاب نہیں چہرے پڑھتا ہے۔جو تقریبات میں ریڈ وائن پیتا ہے اور کھانے کے لیے حلال چکن ڈھونڈتا ہے۔ امیر اور پرانا دیسی وہ ہوتا ہے جو گرمیوں میں میلے ٹھیلے لگاتا ہے اور اپنے کونسل جنرل کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تصاویر کھنچواتا ہے۔ کینیڈا کے انتخابات میں کئی بار ’’کھڑے ‘‘ ہو کر ’’بیٹھ ‘‘ چکا ہوتا ہے۔ جو نئے دیسیوں کو ہمیشہ بُرا بھلا کہتا ہے۔ اسے پاکستان کی کوئی چیز اچھی نہیں لگتی پھر بھی پاکستانی بیوی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ کینیڈا کی مساجد میں حاضری کم اور گروسری اسٹور میں زیادہ ہوتی ہے۔ ’’گروسری اسٹورز‘‘ اس جگہ کا نام جہاں ہر چیز مہنگے داموں ملتی ہے سوائے اُردو اخبار کے جو مفت بٹتے ہیں۔ کینیڈا میں پاکستانی اشیاء میں سب سے زیادہ ’’امپورٹ‘‘ ہونے والی چیز ’’سیاسی خبریں ‘‘ ہیں۔ لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ پاکستان میں ان کے والدین کس حال میں ہیں ؟ مگر وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ پرویز مشرف نے وردی کب اتاری؟ (دھلائی کے لیے ) ، ان کے خاندان کا کون سا رشتے دار کب کس فلائٹ سے واپس سعودی عرب بھیج دیا گیا؟ وغیرہ وغیرہ۔یہاں آ کر لوگ اکثر والدین، بہن بھائی، عزیز و اقارب اور اللہ سے دور ہو جاتے ہیں۔ نزدیک ہوتی ہے تو صرف ’’گرل فرینڈ‘‘ ۔

ایک اور کالم میں کینیڈا کی عورتوں کے حوالے سے لکھا ہے : ’’ہمارے دوست شعیب کا کہنا ہے کہ پاکستانی مرد کینیڈا اس لیے پسند نہیں کرتے کہ یہاں نوکری اور چھوکری کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ اگر خوش قسمتی سے دونوں مل جائیں تو پلّے کچھ نہیں بچتا سوائے اس پاکستانی بیوی کے جو گھر پر بھوکی بیٹھی شوہر کے آنے کا انتظار کرتی ہے۔ یہاں کی عورتوں کو دیکھ کر بس یہی نعرہ لگانے کو جی چاہتا ہے ’’پاکستانی عورت زندہ باد‘‘ ۔

اسی کالم میں رقم طراز ہیں : ’’یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عورتیں کینیڈا آ کر بہت خوش رہتی ہیں۔ یہاں آ کر پاکستانی مرد کو احساس ہوتا ہے کہ غصہ اور عورت کو کنٹرول کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ یہاں بیوی کو بھی محبوبہ کی طرح رکھنا پڑتا ہے۔ آپ اس کی مرضی کے بغیر بیڈ روم میں اسے بلا سکتے ہیں نہ کچن میں۔ یہاں عورتیں خود کماتی ہیں اور خود خرچ کرتی ہیں۔ مرد بھی کماتا ہے ، مگر خرچ عورتوں پر کرتا ہے۔ کریڈٹ کارڈ کے سارے دھندے عورتوں کی دم سے آباد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بد دل مرد یہاں GAYبن جاتے ہیں اور جو نہیں بن پاتے وہ بھی اندر سے اپنے آپ کو GAYجیسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ یہاں مردوں کی بالکل نہیں چلتی۔ یہی وجہ ہے کہ عورتیں ہر جگہ چلتی پھرتی بلکہ دندناتی اور مردوں کے سینے پر مونگ دلتی نظر آتی ہیں۔‘‘

مرزا یٰسین بیگ نے صرف طنز و مزاح ہی نہیں لکھا۔ انہوں نے سنجیدہ کالم بھی لکھے ہیں۔ ان مقالوں میں یٰسین کی ادب سے روشناسی نئی نہیں معلوم ہوتی۔ یہ مضامین ادبی اور افسانوی رنگوں کی ایسی دھنک لیے ہوتے ہیں۔ جیسے وہ گزشتہ دنوں کی کہانی کی رنگین تصاویر دکھا رہے ہوں۔ مصنف سے یٰسین کی گہری واقفیت نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی تحریروں کے ذریعے وہ اتنی اپنائیت برتتا ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ مقالہ نگار اپنوں میں سے ہے۔ ٹورانٹو کینیڈا میں پاکستان کی نامور شاعرہ محترمہ شاہدہ حسن کے کلام کے دوسرے مجموعے ’’یہاں کچھ پھول رکھے ہیں ‘‘ کی تعارفی تقریب کے لیے یٰسین نے جو مضمون لکھا اس میں مرد شعراء کے لیے انہوں نے کہا کہ ’’مرد شاعر ہو تو شعر کہنے میں اتنا وقت خرچ کر دیتا ہے کہ باقی خرچوں کے لیے اس کی بیوی بچے اپنا سر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔اور اکثر ایسے شاعر کے شعر سن کر سامعین بھی اپنا سر پیٹ لیتے ہیں۔شاہدہ حسن نے زندگی اور اپنے ذہن کو بہت خوب صورتی سے برتا ہے کہ کسی کو بھی ان سے شکایت نہیں۔ جب وہ اپنی ذات ،اپنے دل اور اپنی خوشیوں کی بات کرتی ہیں تو ان کے اشعار کچھ یوں ہوتے ہیں ؎

عجب اِک تضاد کی زندگی میرے پاس ہے

کبھی اشک ہیں تو کبھی ہنسی میرے پاس ہے

یہ کیسی بستیاں ہیں جن کی دیواروں پر ہر سُو

اندھیروں کی مسلسل حکمرانی دیکھتی ہوں

آگے وہ لکھتے ہیں شاہدہ نے کینیڈا آ کر ہم سب پر احسان کیا ہے۔ ہم تو اپنے سرہانے تارے رکھنا اور پہلو میں پھول اور کتاب دیکھنا ہی بھول گئے تھے۔ہمارے سرہانے اب تو الارم کلاک ہوتا ہے۔ ہم دل کی ٹک ٹک بھول کر کارخانوں کی ٹھک ٹھک میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شاہدہ اور اُن کی نئی کتاب نے ہمیں پھر سے اپنے باطن کی ،اپنی خواہشوں کی، اپنے قلم کے وظیفے کی یاد دلا دی ہے۔ انہوں نے ہمارے لیے کچھ پھول رکھے ہیں ، ان پھولوں میں اتنی خوشبو اور مہک ہے کہ میں آج ٹرین میں پہلی بار چہرے پڑھنا بھول کر ان کی کتاب پڑھتا رہا۔ خوش قسمت ہے وہ گھر اور گھر والے جہاں شاہد ہ حسن رہتی ہیں۔ مردوں کو اکثر ذہین عورتوں سے ڈر لگتا ہے۔ مگر شاہدہ کی ذہانت اور ان کی سوچ کی خوشبو ہمیں ڈراتی نہیں مہکاتی ہے۔

ان کے لہجے سے عورت کی بغاوت کی نہیں ، شانہ بشانہ چلنے کی آرزو جھلکتی ہے۔ شاہدہ حسن کا ایک شعر مجھے اپنے دل کی آواز لگتا ہے ؎

اپنے دادا پر ہی گیا ہے میرا بیٹا بھی

پہلے جھوٹ بولتا ہے پھر اس پر ڈٹ جاتا ہے

ابھی میں دادا بنا ہوں ، اور نہ ہی نانا۔ اس لیے میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آج میرے سرہانے الارم کلاک کے علاوہ شاہدہ حسن کی کتاب بھی ہو گی۔‘‘

یٰسین کی کامیابیوں کے لیے دعاؤں کے ساتھ میری پیش گوئی ہے کہ اگر وہ اسی طرح سنجیدگی سے قلم کی شہ سواری کرتے رہے تو یقین ہے کہ وہ کالم نگاروں کی صفِ اوّل کی فہرست میں بھی سر فہرست ہوں گے … انشاء اللہ۔

سلطانہ مہر

(برطانیہ)

عصری بصیرت اور شائستہ ظرافت

دنیائے ادب میں طنز و مزاح سے مراد وہ تحریف ہے جس میں جارحیت ہوتی ہے۔ ادیب ظرافت میں اس جارحیت کی تہذیب کرتا ہے۔ ادبی نظم و نثر کی کسی بھی صنف میں اس رنگ کے شکارانہ اظہار کو ہم ادبی طنز، مزاح اور تحریف سے تعبیر کرتے ہیں ‘ جو طبیعت کا رجائی رنگ اور ردّ عمل ہے۔ کسی ظریفانہ خیال، طنز، خاکہ اڑانے ، چربہ اتارنے ، نقّالی، صورت حال اور انکشاف سے ادبی طنز، مزاح، تحریف کے کینوس پر نظم و نثر کے سماجی اور معاشرتی کیریکچر ابھرتے ہیں ، ہر تخلیقی سرگرمی کا آغاز اسی تکون سے ہوتا ہے ، اس طور پر تخلیق ظرافت کے احاطے میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس کا مقصد مسرّت، حِس اور صداقت کی تلاش ہے۔ طنز و مزاح نگار کا جذبۂ انصاف اگر جوش میں آ جائے تو پھر وہ سماجی نقائص کو دور کرنے کے لیے ناتمامی کے احساس سے اسے اپنے طنز کا نشانہ بناتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ عمل برہمی یا جھلّاہٹ کا ہوتا ہے۔ اس طور وہ طنز یا ہجوکی قلمرو میں داخل ہو جاتا ہے۔ طنز نگار صناع ہے۔اس کے کارنامے تخلیقی ہوتے ہیں۔ طنز نگار معاشرتی، معاشی یا سیاسی، تہذیبی اور تمدّنی استحصال کا نشانہ بناتا، ناہمواری، برائی، بد نمائی اور بے اعتدالی پر نظر رکھتا ہے۔

مرزا یٰسین بیگ نے بڑی شائستگی اور تخلیقی حُسن کے ساتھ ظرافت کے فن کو برتا ہے۔ ان کے ہاں عصری بصیرت میں سماجی، معاشرتی، اخلاقی اقدار کی ترجمانی کے ساتھ تجربات و مشاہدات میں وسعت اور گہرائی ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں زندگی کی ناہمواریوں سے بشاشت کا مواد فراہم کیا ہے۔ ان کے موضوعات میں تنوع اور پیشکش میں ندرت ہے۔ ان کے ہاں سادہ مگر پُرکار زبان کا تخلیقی استعمال ہے۔ ان کی شگفتگی میں درد مندی ہے۔ ان کے طنز و مزاح میں ذہانت، زورِ بیان اور حسنِ انتخاب کا خوشگوار انتخاب ہے جس سے انفرادیت ابھرتی ہے۔ مزاح تخلیق کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اوّل تو جب تک لکھنے والے کو قدرت کی طرف سے ہنسنے ہنسانے کی صلاحیت ودیعت نہ ہوئی ہو، وہ مزاح تخلیق کرنے کی کوشش میں اپنا چہرہ ہی بگاڑ لے گا۔ پھر اس صلاحیت کے علاوہ سلیقہ درکار ہوتا ہے ، جو صدیوں کے تہذیبی ارتقاء کی دین ہے۔ اس سلیقے کے بغیر مزاح پھکّڑ پن کی حد تک بھونڈا ہو سکتا ہے اور فن کی کسی بھی صنف میں اگر پھکّڑ پن داخل ہو جائے تو وہ فن پارے کے مرتبے سے گر جاتی ہے۔ مزاح میں تضحیک نہیں کی جاتی اور اگر کوئی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو مصنّف اپنے آپ کو ہی اس تضحیک کا نشانہ بنانے کے بعد آگے بڑھتا ہے۔ مرزا یٰسین بیگ کے مزاح میں چھپے ہوئے طنز کے نشتر ہمارے معاشرے کے ناسوروں میں اُتر اُتر جاتے ہیں۔ ہر کر دار معاشرے کے ایک طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کی حیثیت ایک علامت ہوتی ہے اور علامت کی مثال آئینے کی ہے جس کے مختصر وجود میں ایک دنیا منعکس ہوتی ہے۔ مرزاؔ صاحب کے فن کی دنیا ایک آئینہ خانے میں داخل ہونے کے مترادف ہے۔ اگر ہماری اس بات میں آپ کو مبالغے کی بُو آتی ہے تو ان کے ’’پارچوں ‘‘ کا مجموعہ ’’دیسی لائف ان کینیڈا‘‘ پڑھ کر دیکھ لیجئے۔

مرزا یٰسین بیگ کے طنز و مزاح کے کئی پرتو ہیں۔ وہ پہلو دار بات کرتے ہیں ، جس کی تہہ میں چھپے ہوئے معانی تہہ در تہہ کھلتے چلے جاتے ہیں۔ وہ انسان کا تمسخر نہیں اڑاتے بلکہ ان کا نقطۂ نظر بہت ہمدردانہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کے چہرے پر پڑے ہوئے ماسک کو الٹ دیتے ہیں اور ان کے اصلی چہرے سامنے لے آتے ہیں۔ اس عمل میں تھوڑا بہت تشدد لازمی ہوتا ہے۔ انسانی کمزوریوں پر ان کی بھرپور نگاہ ہوتی ہے اور ان کا ذکر کرتے ہوئے ان کے لہجے میں تلخی نہیں بلکہ حلیمی در آتی ہے۔ ان کا یہ روّیہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انہیں زندگی سے محبّت ہے اور انسانوں سے پیار ہے۔ وہ انسانوں کی بشری کمزوریوں کے باوجود ان سے ہمدردانہ روّیہ رکھتے ہیں۔ یہی چیزیں انہیں دوسرے مزاح نگاروں سے الگ کرتی ہیں۔ مرزا صاحب کے ہاں معاشرے کے ابنارمل روّیوں پر ہمیں کہیں کہیں طنز بھی ملتا ہے ، لیکن اس طنز میں زیادہ کاٹ نہیں ہے۔ اس کی وجہ ان کی اپنی منفرد شخصیت اور اس کی طبعی شگفتگی ہے اور وہ بڑی سے بڑی تلخ حقیقت کو بھی بڑے سلجھے ہوئے اور نہایت شگفتہ انداز میں پیش کرنا جانتے ہیں۔ ان کے ہاں طنز و مزاح یوں شیر و شکر ہو گئے ہیں کہ ان کا الگ الگ سراغ لگانا بہت مشکل ہے اور یہ ایک ایسی خوبی ہے جو بہت کم شگفتہ نگاروں کے ہاں نظر آتی ہے۔

کینیڈا آنے کے بعد مرزا یٰسین بیگ صاحب گویا ایک نئی دنیا میں آ گئے !… ہر چیز اور ہر بات بدل گئی، ماحول بدلا، مناظر بدلے ، موسم بدلا، لوگ بدلے ، تہذیب بدلی، ثقافت بدلی، رسم و رواج بدلے ، طور طریقے بدلے ، رہن سہن بدلا، معمولات بدلے ، زبان بدلی… گویا مرزا صاحب کو لکھنے کے لیے موضوعات کا ایک خزانہ مل گیا!۔ پھر کیا تھا… تو چل میں آیا کے مصداق انہوں نے ’’پارچے ‘‘ کے عنوان سے مقامی جرائد میں کالموں کی لائن لگا دی… ہر مرتبہ یہاں کی معاشرت کو اپنے مخصوص مشرقی زاویۂ نگاہ سے دیکھ کر اسے یوں بیان کیا کہ ہم جیسے یہاں کے پرانے باسی داد دیے بغیر نہ رہ سکے … حیرت اس بات پر ہے کہ ہم نے ان چیزوں ، باتوں اور معاشرت کو کبھی اس رُخ سے نہیں دیکھا… جس پہلو سے اپنے بیگ صاحب نے الفاظ میں ان کی تصویر کشی کی ہے۔ البتّہ ایک بات ہم نے ہمیشہ نوٹ کی کہ مرزا صاحب کے مخاطب ہمیشہ Back Homeبسنے والے لوگ ہی رہے ، اور ان کا اندازِ تخاطب ایسا، گویا خط لکھ رہے ہیں۔ دوسرے نووارد ان کی طرح مرزا صاحب بھی شروع شروع میں تو بہت پھڑپھڑائے ، بِدکے ، دل برداشتہ بھی ہوئے … لیکن پھر رفتہ رفتہ ٹھنڈے پڑتے گئے … اور پھر فیملی کے یہاں آ جانے کے بعد تو گویا یہ بھی ہم لوگوں کی طرح یہاں کی Routine Lifeمیں شامل ہو گئے ، اور اب یہ بھی نوواردان کو حوصلہ دیتے اور ہمت بندھاتے نظر آتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ’’دیسی لائف ان کینیڈا‘‘ کی ’’آیات‘‘ کا نزول بھی مکمل ہو گیا ہے ، لہٰذا کینیڈا کے اس ’’مکمل ضابطۂ حیات‘‘ کو کتابی شکل میں لایا جا رہا ہے۔

یہاں تک تو سب ٹھیک ہے … لیکن اب یہاں کے بسنے والے ’’دیسی‘‘ اپنے مرزا صاحب سے بچے بچے پھرتے ہیں ! شاید اس ڈر سے کہ کہیں اب یہ ان کا پھُلکا نہ اڑا دیں !! ادھر اپنے مرزا صاحب بھی ان سے تفریح لیتے ہیں اور انہیں دیکھ دیکھ کر، اہتمام سے رکھی اپنی گھنی مونچھوں پر انگلیاں پھیرتے رہتے ہیں۔

مونچھوں پر انگلیاں پھیرنے پر ہمیں یاد آیا کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے مرزا یٰسین بیگ کو نکتہ رَس قلم کار بنایا ہے وہاں ایک خوب صورت آواز کا مالک، اور بڑی حد تک اداکار بھی بنایا ہے … اور یہی وجہ تھی کہ ان کے کالم پڑھ کر ہم نے انہیں بارہا اپنے ٹی وی شوز میں بلایا ، جہاں انہوں نے اپنے انہی کالموں کو اتنی خوب صورتی سے آوازیں بدل بدل کر پرفارم کیا ہے کہ ہمارے ٹی وی کے سارے ناظرین ان کے دیوانے ہو گئے ہیں اور ان کا مستقل پروگرام پیش کرنے کا تقاضہ کرتے ہیں۔ لیکن اب کیا کیا جائے کہ مرزا صاحب ناظرین کے اس تقاضے کو بھی اپنی گھنی مونچھوں پر انگلیاں پھیر کر ٹال دیتے ہیں !!

بہر حال … ہم مرزا یٰسین بیگ صاحب کو ان کے کالموں کے انتخاب کی اشاعت پر دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ وہ اسی رفتار سے لکھتے رہیں تاکہ اگلے دو سال میں پھر ان کے شگفتہ کالموں کے انتخاب ہمارے لیے باعث افتخار ہو۔

تسلیم الٰہی زلفی

(کینیڈا)

وقار مصطفیٰ

یٰسین اور ان کے کام۔۔۔ ایک تجزیہ

فرمانِ یٰسین ہے کہ ان کے مجموعۂ قلم اور فن و زندگی پر ’’روشنی‘‘ ڈالوں۔ مگر سچ یہ ہے کہ ہمارے تبصرے کی ٹارچ کی بیٹریز اس موضوع کے چوتھائی سے بھی کم حصے کو ہائی لائٹ کرنے سے پہلے ہی جواب دے جائیں گی۔یٰسین بیگ ایک ایسا دریا ہے جسے کوزے میں بند کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اس سے صحیح معنوں میں انصاف وہی کر سکتا ہے جو ان کی سوانح حیات قلم بند کرے اور جو کوئی بھی اس کام کا بیڑا اٹھائے ، اس کے لیے ہمارے دعائے اخلاص ہے … Good Luck!

اب نہ وہ میں ہوں ، نہ وہ توُ ہے ، نہ وہ ماضی ہے فرازؔ

جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں

اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ، اوروں کی مانند، یٰسین اور ہم بھی اب وہ نہیں جو کبھی ہوا کرتے تھے۔ لیکن مثبت پہلو یہ ہے کہ ملاقات باہمی کے لیے ہم ہائی وے 401یا GTAٹرانزٹ کے محتاج ہیں ، تمنا کے سرابوں کے نہیں۔

یٰسین سے ہماری شناسائی کافی پرانی ہے۔ اگرچہ ان کے مستند ہم پیالہ و ہم نوالہ ہونے کی سند کبھی ہمیں عطا نہیں کی گئی، لیکن ہماری اقدارِ مشترک کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہمارا آبائی وطن و علاقہ بھی ایک ہی تھا اور ہمارا نیا لے پالک وطن و علاقہ بھی ایک ہے۔ اس لے پالک وطن میں (مثبت اور منفی طور پر) انسانوں اور ان کی اندرونی صلاحیتوں کی اہمیت کاغذی اسناد سے زیادہ ہے۔ ہمارے زمان و مکاں کی تاریک (اور حال!) میں پیچ و خم بھی ہیں اور طویل خلاء بھی، لیکن زمانۂ طالب علمی کے رشتے دیر پا ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ، ہمارا اظہارِ فن کا ریڈیائی ناطہ اتنا مضبوط ہے کہ اس میں دراڑیں تو پڑسکتی ہیں لیکن (بشرط زندگی) یہ ٹوٹ نہیں سکتا۔لہٰذا اکثر قدم بوسی اور حاضری نہ لگانے کے باوجود ان کے اندرونی اور مخصوص حلقۂ احباب کی ممبر شپ کے لیے ہمیں کسی آفیشل سر ٹیفکیٹ کی حاجت ہے اور نہ آرزو۔

قدر دانِ فن اور جوہر شناس سینیئرز نے بہت پہلے یٰسین کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا تھا۔ خواہ وہ ضمیر علی ہوں یا خواجہ بیگم، قمر جمیل ہوں یا قمر علی عباسی،رضی اختر شوقؔ ہوں یا عبدالکریم بلوچ۔ یٰسین اپنے ان سینئر افرادِ مخصوص کی آنکھوں کے تارے تو تھے ہی، مگر ہم سمیت بیشتر ’’عوام‘‘ بھی یٰسین کے زبان و قلم کے گواہی(یا درپردہ!) معترف تھے اور عموماً ان سے مرعوب۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یٰسین نے اپنا فنی (اورFunny!) سفر شارٹ کٹس کے سہاروں پر طے کیا یا انکا رستہ کٹھن نہیں تھا۔ جو افراد یٰسین کی زندگی کے (تلخ و شیریں دونوں ) حقائق سے واقف ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ یٰسین ہمیشہ سے بہت محنتی رہے ہیں۔ شاید دیگر لوگوں کے لیے اس میں کوئی سربستہ راز ہو مگر ہمیں یٰسین کی کامیابیوں پر تعجب نہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ یٰسین ان میں سے ہیں جو قسمت پر تکیہ کرنے کے قائل نہیں۔ یٰسین ان میں سے ہیں جو اپنی (نادیدہ) زنبیل میں ہمیشہ زبان کے روڑے ، قلم کی بجری، زرخیز ذہن کا تارکول، ناقابل مزاحمت شخصیت کی کدال، قوتِ ارادی کا ایندھن اور وسائل کا مسخرکن رولر انجن ساتھ لے کر چلتے رہے ہیں۔اپنے اگلے سنگِ میل کی راہ میں جب کبھی خود کو کسی Dead Endپر پایا، تو ان اوزاروں کو اپنی جفا کشی سے استعمال میں لا کر ایک نیا رستہ خود بنا لیا۔

یٰسین نے جرنلزم یعنی سنجیدہ صحافت میں ماسٹرز کیا اور جنگ گروپ سمیت کئی سنجیدہ صحافتی اور اشاعتی اداروں میں کام بھی۔ مگر ان کی اوّلین شناخت ہمیشہ بحیثیت ایک مزاح نگار کے رہی ہے۔ یٰسین جب چاہیں سنجیدہ گفت و شنید سے بھی انصاف کر سکتے ہیں اور ان کی سنجیدہ تحاریر قارئین کو اشکبار ہونے پر مجبور بھی کر دیتی ہیں لیکن یٰسین اپنی قدرتی حس مزاح کی الارم کلاک کو Snoozeبٹن دبا کر وقتی طور پر Muteتو کر سکتے ہیں مگر اس کلاک کو مستقل طور پر سوئچ آف نہیں کر سکتے ! طنز و مزاح ان کے خون میں رچا بسا ہے اور کسی بھی معاشرے کے "Serious"مزاح نگار کی طرح، یٰسین کا اصل ہنر بھی یہی ہے کہ سنجیدہ موضوعات میں بھی مزاح کے پہلو دریافت کیے جائیں اور تلخ معاشرتی مسائل و حقیقتوں کو مزاح کی چاشنی میں گھول کر اس طرح پیش کیا جائے کہ قارئین و سامعین اسے قابلِ قبول ٹانک جان کر نوشِ جاں کر لیں۔ یٰسین نے طنز و مزاح کو صرف اپنا ذریعۂ معاش نہیں بنایا بلکہ اس بھاری ذمہ داری کو فرض شناسی کے ساتھ نبھایا بھی ہے۔

غالب نے کہا تھا کہ ؎

ڈبویا مجھ کو ہونے نے

نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

یٰسین کا مزاج اتنا قلندری نہیں ! وہ اپنے جنم پذیر ہونے پر شکر گزار ہیں مگر ان کا شکوہ اپنے وجود سے نہیں بلکہ اپنے زمانے سے ہے۔ بالفاظِ دیگر وہ میڈیا کے پرائم ٹائم سے کافی پہلے پیدا ہو گئے۔اگرچہ ہم اصولی طور پر ان کی اس رائے سے متفق ہیں ، تاہم انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ خوش نصیبی وہ چوراہا ہے جہاں محنت و تیاری کی راہ ، موقعے کے رستے سے ملتی ہے۔ اس تعریف کے مطابق یٰسین پھر بھی ’’خوش نصیب‘‘ رہے۔ کیونکہ آتش کی نوجوانی کا دور وہ تھا جب اس کے ہم عصروں اور دوستوں سمیت فنکاروں اور لکھاریوں کی ایک پوری نسل محدود مواقع، اقربا پروری اور سرکاری میڈیا کی اجارہ داری اور پالیسیز کی بھینٹ چڑھ گئی۔

ہمارے خیال میں اگر یٰسین کو سیکنڈ چانس مل جائے تو وہ شاید اس زمانے میں آنکھیں کھولنا پسند کریں گے جب وہ (اس زندگی میں ) ریڈیو پاکستان میں بزمِ طلباء سے لے کر جنرل سیکشن تک بے تاج بادشاہ بن کر گھوما کرتے تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے تصور کیجئے کہ وہ اگر آج کالج اسٹوڈنٹ ہوتے تو وہاں سے لے کر یہاں تک دیسی(اور بدیسی) میڈیا میں کیا گُل کھلا رہے ہوتے !… ریڈیو کے دھنی تو وہ غالباً پھر بھی ہوتے مگر ریڈیائی بزمِ طلباء شاید ان کی نظروں میں نہ جچتا بلکہ اپنے کیریئر کی سیڑھی کے پہلے پائے پر وہ اپنا ریڈیائی آغاز ’’السلام علیکم پاکستان‘‘ یا "Must time with Yasin"سے کرتے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود اور کامران خان کے پہلے Apprenticeبننے کا اعزاز بھی شاید ان کے حصے میں آتا۔اس بات کا بھی کافی امکان ہے کہ وہ Dubai Media Centre (DMC) میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہوتے۔ ثنا مرزا اور ثنا طارق، ان کی فین ہوتیں اور ان سے اصلاح لے رہی ہوتیں !

American Idol کے ایگزیکٹو پروڈیوسر Simon Cowellسے ان کی negotiationsچل رہی ہوتیں کہ بطور میزبان ، یٰسین Pakistani Idolمیں کیسے چار (یا چار سے زائد) چاند لگائیں گے۔ شاید وہ رنگون والا ہال میں اسٹیج پر کھڑے کسی Participantسے یہ پوچھ رہے ہوتے کہ……!No Deal یا Dealیٰسین نے ہمیشہ On Airہونے پر پسِ پردہ اسکرپٹ نگاری کو ترجیح دی ہے لہٰذا وہ مائک اور کیمرے پر ہوتے یا نہ ہوتے ، ان کے لکھے ہوئے ڈرامے اور خاکے ARY, GEOاور دیگر نیٹ ورکس کی لائن اپ کا جزوِ لاینفک ہوتے۔یٰسین معروف اور آزمودہ MCبھی رہے ہیں اور لائیو اسٹیج پرAdlibbing ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔چنانچہ کچھ عجب نہیں کہ وہ نہ صرف ہالی وڈ کے Comic Competitionمیں جھنڈے گاڑ کر آتے بلکہ پاکستان سے لے کر شمالی امریکہ تک Standup Comedy Circuitمیں اپنی موشگافیوں سے قہقہوں کے طوفان برپا کر رہے ہوتے۔ان کا ایک اہم پراجیکٹ آج کی '' Hot " Comedienneسبرینا جلیس کے ساتھ Comic ’’جوڑی ‘‘ بنانا ہوتا اور دوسرا پراجیکٹ (کینیڈین ٹیلی وژن) CTVکے مقبول شو Little Mosque on the Prairieمیں Sitara Hewitt کے مقابل پاکستانی نژاد امام Amaar Rashid کا مرکزی کر دار۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

نکلے مرے ارماں بہت، مگر پھر بھی کم نکلے

اربابِ اختیار کے منظور نظر افراد کے برخلاف ، یٰسین کو کبھی ’’تیسری دنیا‘‘ میں بھی کامیابی اور ستائش ، حلوے کی طرح پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کی گئیں ،کینیڈا تو پھر ’’پہلی ‘‘ دنیا ہے ، جہاں وہForeigner یا Alienہیں۔اپنے کیریئر کے پرائم ٹائم میں یہاں آنے والے لاکھوں Immigrantsکی طرح یٰسین نے بھی ایک نئی زندگی کا آغاز Blank Slateسے کیا اور دن رات محنت و مشقت کی چکی میں پس کر خود اور اپنی فیملی کو Establishاور یہاں کے سسٹم میں ایڈجسٹ کیا۔ ہم نے جس (فرضی) سیاق و سباق میں سیکنڈ چانس کا تذکرہ اوپر کیا، وہ تو ممکن نہیں لیکن یہ یٰسین کی سیکنڈ لائف ضرور ہے (نوٹ برائے کاتب: ’’سیکنڈ لائف‘‘ کو اچھی طرح پروف ریڈ کیجئے گا ورنہ ماجدہ بھابی اس مضمون یا شاید پوری کتاب کے مسودے کو ویٹو کر دیں )۔ جس طرح چور چوری سے جائے ، ہیرا پھیری سے نہیں جاتا۔ اسی طرح میڈیا اور براڈ کاسٹنگ کے دھتی بھی اپنی عادت سے مجبور ہوتے ہیں !

یہاں کے بکھیڑے الگ ہیں اور یہاں کا دیسی میڈیا بھی پاکستان سے بہت مختلف۔ جیسا کہ یٰسین نے خود اپنے ایک کالم میں ذکر کیا ہے کہ یہاں جو ایڈیٹر ہے ، وہی کمپوزر بھی ہے ، وہی پبلشر بھی ہے اور وہی ہاکر بھی! اگرچہ یہاں قدم ٹکانے کے بعد یٰسین نے وقتاً فوقتاً AM/FM ریڈیو اور TVپر کئی پروگرامز کیے ہیں ، تاہم تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود، کم از کم پاکستانی الیکٹرانک میڈیا ابھی بمشکل اپنے لڑکپن تک پہنچاہے اور کوئی قابل ذکر Infrastructureبنیادی طور پر ناپید ہے۔ یٰسین نے ان ناسازگار حالات اور غمِ روزگار کے مسائل کے باوجود اکتوبر 2005ء میں انٹرنیٹ پر کینیڈا کے پہلے 24گھنٹے نشریاتی اردو ریڈیو اسٹیشن ’’دیسی ریڈیو کینیڈا‘‘ کی بنیاد رکھی اور اپنی تمام مصروفیات کے باوجود اسے جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ www.desiradiocanada.com اپنی متنوع اور معیاری پروگرامنگ کے باوصف دنیا کے دور افتادہ کونوں تک سنا جاتا ہے اور شمالی امریکہ اور یورپ کے سامعین میں بطورِ خاص مقبول ہے۔ یٰسین کی اس Pioneerکاوش میں دیگر مہرنان اور مہربانانِ فن و ثقافت کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی، حسبِ توفیق، ان کی ہم رکابی کا شرف حاصل رہا ہے۔

یٰسین بنیادی طور پر ایک قلم کار ہیں اور سرجن یٰسین کا نشتر ان کا یہ قلم ہی ہے۔ بزمِ طلباء پروڈکشنز سے لے کر ورلڈ سروس براڈ کاسٹنگ تک ، ’’دوشیزہ‘‘ کے انٹرویز سے لے کر ’’عبرت‘‘ کے آرٹیکل تک ، ’’ایکسپریس‘‘ کی سرخیوں سے لے کر ’’مڈویک میگزین‘‘ کے فیچرز تک ، اور ’’ففٹی ففٹی‘‘ کے معنی خیز مکالموں سے لے کر کینیڈا کے warehousesتک، بقول خود یاسین ، انہوں نے اپنی زندگی میں سب سے بھاری جو چیز اٹھائی وہ ان کا قلم تھا… اور ہے۔ یٰسین کو بخوبی احساس ہے کہ تجربے کی آنچ پر دہکنے اور تحریر کی بھٹی میں کندن بننے کے باوجود قلم کار کا قلم زیادہ عرصے خشک رہے تو اس پر زنگ کی تہیں ، غیر محسوس طور پر ڈیرہ جمانے لگتی ہیں۔یٰسین نے اسی لیے یہاں الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ اپنا ناطہ پرنٹ میڈیا کے ساتھ استوار کیا ہے۔ ان کی تحریری ’’چٹکیاں ‘‘ اور مصالحے دار قلمی ’’پارچے ‘‘ کینیڈا سے لے کر امریکہ تک کے اخبار و جرائد میں کم و بیش باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کے یہ مضامین، رپورٹس اور کالم، شائقین زبانِ اردو کے لیے بالعموم اور مداحین طنز و مزاح کے لیے بالخصوص، ادبی سوغات کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یاسین Side benefitکی صورت میں ایک اور اہم خدمت بھی سر انجام دے رہے ہیں۔ان کے اس ثانوی کر دار کا ادراک آپ کو تب زیادہ ہو گا جب آپ سرسری ورق گردانی کے بعد ان کے اس قلمی مجموعے کے چھوٹے چھوٹے مگر تند و تیز چشموں میں بتدریج آگے تیریں گے۔ یٰسین کی نوک قلم سے امڈتے یہ نشتر پارے آپ کو زبانی چٹخارے فراہم کر رہے ہیں اور آپ کی مزاح کی تشنگی کو بھی بجھا رہے ہیں لیکن دوسری جانب یٰسین، اپنی ذات اور اپنے انفرادی تجربوں کو تختۂ مشق بنا کر ہم قارئین کو آئینہ دکھا رہے ہیں اور اس کشتی میں سوار دیگر لاکھوں تارکینِ وطن کی ، اس نئے ملک میں ، اجتماعی زندگیوں کے نشیب و فراز کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ان کی یہ کتاب تاریخی ناول نہیں مگر ایک Time Capsuleہے جو اس نئی دنیا میں نئی صدی کے اوائل کی ، روز مرہ سطح پر، دیسی نقطۂ نظر سے ، ایک اجتماعی تاریخ رقم اور محفوظ کر رہا ہے۔

Yasin knows the art of selling himself and his ideas very well ......!

اس کے ساتھ ساتھ، انہیں جب موقع ملے ، یٰسین پتّے لگانے سے نہیں چوکتے اور جب صورتحال متقاضی ہو تو اپنے مخاطب کو آڑے ہاتھوں لینے سے بھی نہیں گھبراتے۔ وہ اکثر، اپنے کمالِ مہربانی سے جو تا مخمل میں لپیٹ کر پھینکتے ہیں یا چیرا لگانے سے پہلے سن کر دیتے ہیں (مگر ٹانکے نہیں لگاتے !) عموماً ان کے مزاج میں رسانیت کم ہوتی ہے اور انکسار زیادہ، جسے بعض نئے پنچھی ان کے چھپے رستم ہونے کی نشانی سمجھتے ہیں (پرانے واقف کاروں کو بہت پہلے سے کنفرمیشن ہے !)۔

؎ رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد

اس بارے میں دو رائے نہیں کہ یٰسین نے اپنے ذہن، زبان اور قلم کے ہیروں کو محنت ، پریم اور تحمل کی کنی سے تراش کر انہیں اپنے فن کی جگمگاتی مالا میں پُرویا ہے۔ جب ہم نے اپنے Insiderہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ان کی حسِ مزاح کا اصلی تے وڈّا راز پوچھا … تو مسکرا کر بولے …

"Allah made me funny ......"!

وقار مصطفیٰ

اسکاربرو، کینیڈا

’’دیسی لائف ان کینیڈا‘‘

نپنے او سب سے مقبول کر کِھو کینیڈا نے بہت سوں کو سیدھا کر دیا۔ سست لوگوں کو چوکس کر دیا، نکمّوں کو ’’کامہ‘‘ بنا دیا، دیر سے اُٹھنے والوں کو سورج دکھا دیا، گھڑی سے نفرت کرنے والوں کو وقت کا پابند کر دیا، امیگریشن کا تحفہ پا کر کچھ عرصے ہوش نہیں آتا اور جب ہوش آتا ہے تو ’’عزت سادات‘‘ منظر عام سے غائب ہو چکی ہوتی ہے۔ میدان اور ریگستان سے برفستان تک ہجرت، بہت سے لوگوں کے پیشوں ، نیتوں ، ارادوں اور روّیوں کو تبدیل بلکہ ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ میں نوائے وقت لاہور میں رپورٹنگ کے علاوہ طنز و مزاح لکھتا تھا مگر یہاں کی یخ بستہ ہواؤں نے میرے قلم پر اتنا اثر کیا کہ سیاسہی منجمد ہو گئی اور جب جب قلم کو جنبش ملی تو اس نے افسردہ لفظوں کو اُگلا اور جملوں نے ہمیشہ آنسو نکالے۔

مرزا یٰسین بیگ کے ساتھ یہ سب کچھ الٹا ہو گیا ہے۔ پیشہ صحافت کے اس فرزند نے ہجرت کو ’’ایزی‘‘ لیا اور دل پر نہ لیا۔ روزنامہ ایکسپریس کراچی کے میگزین سیکشن میں سنجیدہ موضوعات پر فیچر لکھنے والے مرزا یٰسین بیگ نے کینیڈا کی سرحدیں کیا پارکیں طنز و مزاح لکھنا شروع کر دیا۔ اگرچہ اس نوجوان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو یہاں آنے والے ہر پڑھے لکھے کے ساتھ ہوتا ہے۔ بھلا ہو، یہاں کی فیکٹریوں کا جہاں ’’کہیں تجربہ کم، کہیں تعلیم زیادہ‘‘ والا فارمولہ لاگو نہیں ہوتا۔ بس ڈیل ڈول بظاہر صحت مند نظر آنا چاہیے۔ اسے بھی اسی دشت کی سیاحی کرنی پڑی۔ مرزا یٰسین بیگ بھی اندر سے ایک نرم و نازک دل رکھنے والا انسان ہے۔ یہاں کے موسم نے اس کے رویوں کو بھی ’’سرد‘‘ کر دیا ہو گا مگر وہ عظیم آدمی ہے کہ اس کی تحریروں سے پتہ نہیں چلتا یا وہ پتہ چلنے نہیں دیتا کہ وہ ’’مہاجر‘‘ ہے (یہاں میرا مطلب ایم کیو ایم والا مہاجر نہیں ہے )۔

’’پارچے ‘‘ کے نام سے مرزا یٰسین بیگ نے جتنے کالم قلم بند کیے ، سب اچھوتے موضوعات پر اور سب تیکھے عنوانات پر۔ اس نے یہاں کے معاشرے اور اس کے ہر زاویہ پر کھل کر طنز کیا، اس نے کئی بار اپنی تصویر کشی بھی کی اور اپنے دوستوں کو آئینہ بھی دکھایا۔ اس کی تحریروں میں بعض جملے نشتر سے بھی تیز تھے مگر ہم لوگ محسوس اس لیے نہیں کر سکے کہ بقول اس کے کہ وہ تو صرف مزاح لکھ رہا ہے۔ شاباش مرزا۔

مرزا یٰسین بیگ کو ابھی کینیڈا آئے سات سال کا عرصہ ہوا ہے۔ وہ صاحب شہریت اور صاحب کتاب بن گیا ہے۔ اس کے کالموں کا مجموعہ ’’دیسی لائف ان کینیڈا‘‘ کے نام سے چھپ رہا ہے۔ آپ بار بار اس کے کالم پڑھ سکیں گے اور خود پر ہنس سکیں گے۔میں مرزا یٰسین بیگ سے پہلے اس کے کالموں سے ملاقات کر چکا تھا۔ یقیناً آپ کو بھی اس کے کالموں سے ملاقات کرنے کے لیے اس کی کتاب کہیں سے چوری کروا نا پڑے گی۔ طنز و مزاح کی کتاب چوری کر کے پڑھنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔

بدر منیر چوہدری

چیف ایڈیٹر اخبار پاکستان(کینیڈا)

دُکھ میں سُکھ

جب آدمی دیس میں ہوتا ہے تو وہاں دُکھ سُکھ ساتھ ساتھ چلتے ہیں کیونکہ زندگی دُکھ اور سُکھ دونوں کا ہی نام ہے پھر جب آدمی پردیس میں آ جاتا ہے تو سُکھ دیس میں رہ جاتے ہیں اور یہاں دُکھ ہی دُکھ ہوتے ہیں۔مرزا یٰسین بیگ کی خوبی یہ ہے کہ وہ دُکھ میں بھی سُکھ تلاش کر لیتے ہیں۔ ان کا تعلق قلم قبیلہ سے ہے اور پاکستان سے ہی اُن کا صحافتی تجربہ بہت زیادہ ہے۔ جب تک پاکستان میں رہے اُ س وقت تک ملک کے سب سے بڑے ادارے ’’جنگ‘‘ سے وابستہ رہے۔ جب سے پاکستان چھوڑ کر ٹورانٹو میں آباد ہو گئے ہیں اُسی نام کی نسبت سے زندگی کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ ان کی مثال اس محنتی کسان جیسی ہے جو بنجر اور بارانی زمینوں سے بھی وافر رزق پیدا کر لیتے ہیں۔ آپ اس ماحول میں جہاں دُکھ ہی دُکھ ہیں وہاں سے بھی سُکھ اُگا لیتے ہیں۔ آپ کینیڈا کی جیتی جاگتی زندگی پر قلم زن ہوتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں خوشی کے شگوفے وہاں سے پھوٹتے ہیں جہاں ہم جیسے عام لوگ افسردہ اور غم زدہ ہو کر مایوس ہو جاتے ہیں لیکن یہ وہاں بھی امید کا دامن ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑے رکھتے ہیں۔ یہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ دل سے مانتے ہیں۔شاید قرآن پاک کے اس فرمان پر عمل پیر اہیں ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا‘‘ ۔

میں نے جب بھی اُن کی تحریر کبھی پڑھنا شروع کی تو ختم کیے بغیر نہ رہ سکا۔ دوران مطالعہ ان کی تحریر نے مجھے مجبور کیے رکھا کہ میں مسکراتا جاؤں اور پھر کبھی کبھی میرے ہونٹوں پر قہقہہ بھی آ گیا جو بے ساختہ ہوتا ہے۔ مزاح لکھنا اور مسلسل لکھتے رہنا بہت کٹھن کام ہے۔ لیکن مرزا صاحب بہادر آدمی ہیں کہ یہ مشکل کام آسانی سے کیے جا رہے ہیں۔ نئی کتاب آنے کے موقع پر مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ ’’آنسوؤں کو مسکراہٹ میں بدل دیں تو زندگی میں خوشیاں ڈھونڈنا آسان ہو جاتا ہے ‘‘ اور مرزا یٰسین بیگ آنسوؤں کو قہقہوں میں بڑی خوبی اور آہستگی سے مسلسل تبدیل کیے جا رہے ہیں۔

محمد اسلم (کالم نگار، کینیڈا)

’’منی ورلڈ‘‘ ٹورنٹو۔ آپ کی فراست اور تجربے کا امتحان

کراچی ’’ منی پاکستان‘‘ تھا تو ٹورنٹو ’’منی ورلڈ‘‘ ہے۔ ہر ملک ، زبان اور مذہب کا انسان آپ کو ٹورنٹو میں چلتا پھرتا نظر آئے گا۔ آپ بس میں سوار ہوں ، ٹرین میں سفر کریں ، کسی اپارٹمنٹ میں داخل ہوں ، کسی مال میں شاپنگ کریں یا فٹ پاتھ پر چل رہے ہوں آپ قسم قسم کے لوگوں کو دیکھتے اور سنتے رہیں گے۔

ایک چڑیا گھر میں بھی اتنے رنگ برنگے چرند پرند نہیں ہوتے جتنا کہ ٹورنٹو میں رنگ برنگے لوگ بستے ہیں۔ خود ہم جس اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں وہاں بارہ پاکستانی فیملیز کے علاوہ کینیڈین ، سری لنکن ، بنگالی، ویت نامی ، چینی، یمنی، انڈین، فلپینی، میکسیکن فیملیز رہتی ہیں۔ یہ تو وہ ہیں جنہیں ہم سرسری طور پر جانتے ہیں ، بہت سے اس کے علاوہ بھی ہیں۔

کراچی میں چار زبانیں بولنے والے ہم مذہب ، ہم وطن مل جل کر نہیں رہ سکتے ، برسہا برس سے دنگا فساد ، قتل عام، لوٹ مار جاری ہے۔ یہاں پوری دنیا اپنی اپنی زبان ، کلچر اور مذہب سمیت آباد ہے اور پُر سکون ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے لہجے میں انگریزی بولتا ہے ، کچھ سمجھتا ہے ، کچھ سمجھاتا ہے اور خوش رہتا ہے۔

صبح آپ بچوں کو اسکول جاتا دیکھیں تو قوس قزح کا تصور جاگ اٹھتا ہے۔ اسکولوں میں یونیفارم کی قید نہیں ، ہر بچہ اپنے رنگ اور مستی میں بسا اسکول کی جانب رواں دواں رہتا ہے۔ سب مل کر پڑھتے ہیں۔ اپنے اپنے لنچ بکس کھول کر اپنی اپنی پسند کا کھانا کھاتے ہیں ، ساتھ کھیلتے ہیں ، ٹیچر سے ہنستے بولتے اور پڑھتے ہیں اور واپس اپنے گھر آ جاتے ہیں۔ یہی حال کالج اور یونیورسٹی کاہے۔ بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ اپنے کلچر سے بے نیاز ٹورنٹو کے موسم کے مزے لوٹتے ہیں۔ جو،ان باتوں کو پسند نہیں کرتے وہ اسکارف پہن کر ، اپنے پورے لباس میں اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ اپنی دوستیاں شئیر کرتے اور باقی سب کو ہم جماعت کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں

عبادت گاہوں پر کوئی پابندی نہیں۔ سب اپنی اپنی طرح اپنے رب کو یاد کرتے ہیں۔ا پنے مقدس مقامات پر یکجا ہوتے ہیں ، اپنے مذہبی تہوار اور رسومات مناتے ہیں۔ کوئی کسی کو نہیں چھیڑتا ، کوئی کسی کے مذہب کو گالی نہیں دیتا۔ سب کا اپنا کلچر اور اپنی روایات ہیں مگر بحیثیت کینیڈین سب ایک ہیں۔

پہلے پہل جب ہم کینیڈا آئے تو بعضوں نے بہت ڈرایا۔ بچے خراب ہو جاتے ہیں ، مذہب سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ ماں باپ کی نہیں سنتے ، اسکولوں میں سیکس کی تعلیم دی جاتی ہے اور بھی بہت کچھ۔ ہم بھی ڈر گئے تھے۔ مگر رفتہ رفتہ دس ، پندرہ سالوں میں کینیڈا میں رہنے والی فیملیز کے ساتھ دوستیاں ہوئیں تو دل کو تسلی ہوئی، ڈھارس بندی۔ اب ہمارے سامنے دسیوں مثالیں ہیں۔

طارق حسین کی دو بیٹیاں ہیں۔ ایک ہائی اسکول بھی جاتی ہے۔ میں نے آج تک انہیں اسکارف اور نماز کے بغیر نہیں دیکھا۔ نسرین کے دو بچے ہیں ، دس اور آٹھ سال کے۔ دونوں پابندی سے مدرسے جاتے ہیں ،قرآن اور نماز پڑھتے ہیں۔ جہاں جاب کرتا ہوں وہاں کئی نوجوان لڑکے ملے جو کالج کے طالب علم ہیں ، جاب کے دوران بھی وقفے میں پابندی سے نماز پڑھتے ہیں۔ میں جہاں رہتا ہوں ، قریب ہی خدا ترس لوگوں نے مل کر ایک اپارٹمنٹ میں مسجد بنا دی ہے۔پانچوں وقت کی نماز ہوتی ہے اور اب مدرسہ بھی کھل گیا ہے۔ مدرسے میں بچوں کے بیٹھنے کی جگہ تنگ ہونے لگی ہے۔

بات صرف اتنی ہے کہ کینیڈا نے ایک ماحول دیا ہے ، ایک قانون دیا ہے اور ایک سسٹم میں سب کچھ ڈھال رکھا ہے۔ سسٹم انسانوں کی پوری رکھوالی کرتا ہے۔ ہر ایک کو اس کا پورا حق دیتا ہے اور اس سے پوری ذمہ داری کی امید بھی رکھتا ہے۔ قانون سب کے لیے ایک ہے۔ کسی کو بھوکا سونے کی حاجت نہیں اور کسی کو یہ ضرورت نہیں کہ وہ اپنے مذہب اور کلچر کی پاسداری نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا یہاں گھل مل کر چل رہی ہے۔ کوئی دنگا نہیں ، کوئی فساد نہیں۔ ہر چیز کی آزادی ہے مگر مشروط۔ آپ وہ شرطیں پوری کیجئے اور اپنی دنیا آپ بنائیے۔ کینیڈا کا ملٹی کلچر معاشرہ پوری دنیا کے لئے ایک ’’ماڈل‘‘ ہے۔

نئے آنے والوں کو چاہیئے کہ وہ خوف نہ کھائیں۔ اگر آپ اپنے بچوں کے ساتھ ذمہ دار والدین کا کر دار نبھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو کوئی آپ کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ رہ گئی بات جاب اور معاشی ضرورتوں کی تو اگر آپ کینیڈا کے جاب کلچر کو سمجھ لیں تو میرا دعویٰ ہے کہ تین سے پانچ سال میں وہ مقام حاصل کر سکتے ہیں جو اپنے وطن میں آپ کو حاصل تھا۔لوگوں کی باتوں اور کالموں سے خوف نہ کھائیں ، اپنے تجربے اور فراست کو کام میں لائیں ، منزل آپ کے عین قریب ہے۔

کینیڈا FlyerاورSexکے نرغے میں

کینیڈا کی زندگی Flyerکی زندگی ہے۔ یہاں قدم قدم پر Flyerاور Sex کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر Summerکے شروع ہوتے ہی Flyerاُڑ کر اور Sexکھُل کر سامنے آنے لگتا ہے۔ آپ گھر میں ہیں Flyerسے بھرا ایک خوبصورت بیگ حاضر۔ ہر فلائر گویا چاہتوں اور ارمانوں کا خزانہ ہوتا ہے۔ آپ کے دل کی تمام اُمنگیں و آرزوئیں اس فلائر میں درج ہوتی ہیں۔شاید پاکستان میں پولیس رپورٹنگ کا معیار بھی اتنا اعلیٰ نہ ہو جتنا کہ ان فلائر میں درج ہماری خواہشات کا ہوتا ہے۔ ہم چونکہ نئے ہیں اور پڑھنے لکھنے کے شوقین بھی اس لیے ہر فلائر کو شروع سے آخر تک باریک بینی سے پڑھتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ان دکانداروں کو ہماری آرزوؤں کی خبر کیسے ہو گئی؟ جو ہم خریدنا چاہتے ہیں اس کا تذکرہ ان فلائر ز میں ہوتا ہے وہ بھی Saleکے ساتھ۔ سیل کا مطلب ہے پیسے وہی دیجئے مگر اس سادہ دلی کے ساتھ کہ دکاندار نے ہمیں نہیں بلکہ ہم نے دکاندار کو لوٹا ہے۔ یہاں کے ڈاکو یہ فلائر ہیں جو آپ کے کریڈٹ کارڈ پر آپ کی رضا مندی سے ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ ہمارے دوست فجے میاں کا کہنا ہے کہ Flyerاور عورتوں کے بغیر شاید کینیڈا جہنم لگے اور ان کا ساتھ ہو تب بھی انہیں جہنم ہی ملے گی۔ فلائر اور عور ت میں قدر مشترک یہی ہے کہ دیکھنے میں دونوں بے حد خوبصورت لگتے ہیں۔ گہرائی سے مطالعہ کرو تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں ہی مہنگے اور دھوکہ دہی میں طاق ہیں۔ آپ Flyerپر درج قیمت اور عورت کے ہونٹوں پر درج مسکراہٹ پر کبھی نہ جائیں ، دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا۔

پاکستان میں بیویاں ٹی وی پر اشتہار دیکھ کر شوہروں سے فرمائش کیا کرتی تھیں۔ یہاں یہ کام وہ فلائر سے لیتی ہیں۔ جہاں نیا نیا فلائر پہنچا ، نئی فرمائش شروع۔ بڑے بڑے اسٹور والے تو ایسا لگتا ہے اپنا چھاپہ خانہ لے کر بیٹھے ہیں ، روزانہ رنگ برنگے فلائرز ایسے چھاپتے ہیں جیسے پاکستان میں جعلی نوٹ چھاپے جاتے ہیں۔ فلائر پر جو رقم چھپی ہوتی ہے ، اتنی ہی رقم چھُپی ہوتی ہے ، دونوں کو جمع کر لیجئے پھر ’’چیز‘‘ خرید لیجئے۔ فلائر ایسا رنگین اور خوبصورت دھوکہ ہیں جو کینیڈا کی سماجی اور معاشرتی زندگی کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔

فجّے میاں کا کہنا ہے کہ افسوس یہاں ردّی نہیں بکتی ورنہ میں ان فلائرز کو بیچ بیچ کر کروڑ پتی بن چکا ہوتا۔ یہاں تو اخبار خرید کر انسان اس شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ اسے پڑھ کر پھینکے گا کہاں ؟ یہاں کے اخبارات بھی فلائر ہی محسوس ہوتے ہیں۔ ہر صفحے پر پہلے اشتہار لگایا جاتا ہے پھر جو تھوڑی بہت جگہ بچتی ہے اس پر کوئی خبر چپکا دیتی جاتی ہے۔ ہم بڑی مشکل سے اشتہاروں سے بچتے بچاتے ایک آدھ خبر پڑھ لیتے ہیں اور دل ہی دل میں اس کا ترجمہ کرتے ہوئے دو تین دن میں کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔

Summerکے آغاز سے ہی Flyerاور عورتوں کی جوبہار آئی ہوئی ہے اس نے ہمارے چودہ طبق روشن کر دئیے ہیں۔ویسے بھی یہاں کی عورتیں کسی Flyerسے کم نہیں ، فرق صرف یہ ہے کہ یہ سانس بھی لیتی ہیں۔ ہر عورت ایک زندہ اشتہار ہے۔ وہ کپڑوں کے چند ٹکڑے اس سلیقے سے اپنے جسم پر سجاتی ہے کہ ہر عضو بامعنی ہو جاتا ہے اور ہم جیسے ان پڑھ اسے ہجّے کر کے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گرمیوں کا یہ احسان ہمیں پاکستان میں کبھی نظر نہیں آیا اس لئے ہر پاکستانی یہاں آ کر شروع کے چند سالوں کی گرمیوں میں بڑی حدت اور تپش محسوس کرتا ہے پھر سردیوں کی برف سے اپنے جسم کو ڈھانپ لیتا ہے۔

ہمیں تو حیرت ہوتی ہے فلائر میں تو ہر چیز کی قیمت درج ہوتی ہے مگر عورتوں پر نہیں۔اس معاملے میں فجّے میاں کی رائے ہم سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عورت بے مول ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ کینیڈا میں عورت نے خود کو اتنا سستا بنا دیا ہے کہ وہ ایک پینی سے بھی کم درجہ رکھتی ہے۔ کہنے کو تو یہاں عورتوں کے حقوق کے لئے بڑے قوانین ہیں مگر ان کا ’’بڑا ہی مذاق‘‘ بھی ہے۔ یہاں مرد شادی ہی نہیں کرتا پھر بیوی کے حقوق کیسے ادا کرے ؟عورت اس بات پر خوش ہے کہ کوئی اس کی رضا مندی کے بغیر اسے چھو نہیں سکتا مگر رضامندی کے نام پر وہ ’’گرل فرینڈ‘‘ بن کر بچے بھی پیدا کر لیتی ہے اور ایک دن کسی پرانے فلائر کی طرح ’’گاربیج‘‘ یعنی کچرے کا حصہ بن جاتی ہے۔

ہرSummerکی طرح اس سمر میں بھی بڑے رونق میلے لگیں گے۔ پھول کھلیں گے ، تفریحات ہوں گی۔ آج ہی ایک فلائر سے پتہ چلا کہ فلاں پارک میں عورتوں کا ڈانس مقابلہ ہو گا اور صرف وہی عورتیں اس میں حصہ لے سکتی ہیں جنھوں نے ’’بکنی‘‘ پہنی ہوں گی۔ شرط کافی خوبصورت ہے۔ فجیّ میاں کہتے ہیں کہ میں تو ضرور جاؤں گا۔ انہوں نے اس فلائر کو اس طرح سنبھال کر رکھا ہے جیسے پاکستان میں فیشن شو کے ٹکٹ سنبھال کر رکھے جاتے ہیں۔

ایک فلائر ایسا ہے جس میں خبر سنائی گئی ہے کہ ہم کمپیوٹر آدھی قیمت پر دے رہے ہیں۔ ہماری شدید خواہش ہے کہ ہم ایک کمپیوٹر لیں تاکہ پاکستان میں رشتے داروں اور دوستوں سے ای میل کے ذریعے بر ق رفتار رابطہ رہے اور ہم انہیں یہاں کی ’’چکنی چپڑی‘‘ باتیں سنا کر ان کی رال ٹپکا سکیں۔ فجے میاں کبھی پاکستان میں اپنے دوستوں کو یہ نہیں بتلاتے کہ وہ ایک فیکٹری میں ’’جنرل لیبر‘‘ ہیں ، بس یہ اطلاع دے دیتے ہیں کہ فلاں گوری نے انہیں آج کیسے دیکھا۔ فلاں گوری کا حدود اربعہ یہ تھا اور یہ کہ بچوں کا سرکاری الاؤنس وہ زور و شور سے وصول کر رہے ہیں۔ خیر قصہ مختصر ہم براستہ فلائر جب وہ آدھی قیمت والا کمپیوٹر خریدنے پہنچے تو پتہ چلا کہ وہ فروخت ہو چکا ہے ، اب وہ باقی ہے جو اتنی ہی قیمت پر ہمیں گھر کے قریب کی دکان سے مل رہا تھا اور وہ بھی دو تین بونس کے ساتھ۔ یہ دھوکے عام ہیں ، کسی ایک چیز کی قیمت اتنی کم رکھ دی جاتی ہے کہ آپ اس کی وجہ سے دس میل دور کسی دکان پر پہنچ جاتے ہیں پھر اگر جیب صاف ہونے سے بچ جائے تو کم از کم طبیعت تو ضرور صاف ہو جاتی ہے۔

کہتے ہیں کہ کینیڈا میں تین ڈبلیو یعنی "Weather` Womenاور"Work"کا کوئی اعتبار نہیں مگر ہم اس میں Flyerکو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہماری بیگم کہتی ہیں کہ ہمیں آپ پر اعتبار نہیں ، کہا تھا کینیڈا پہنچ کر ہیرے کی انگوٹھی دلوائیں گے اب جس فلائر میں کم دام کی ہیرے کی انگوٹھی دکھاتی ہوں ، آپ ہیرے پر شک کرنے لگتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ اپنا آبائی وطن ہیرا ہی ہوتا ہے وہاں سے نکل آئے تو ناقدروں کے شہر میں Flyerبن کر رہ گئے ہیں آج ہاتھوں میں ہیں ، کل گاربیج میں ، پرسوں پھر ہاتھوں میں یا پھر کسی خوبصورت بیگ میں۔

پاکستان میں گھوڑے بیچ کر سونے والے کینیڈا میں صبح سویرے اٹھ کر مرغی بیچتے ہیں

کینیڈا آ کر پتہ چلا کہ وقت کی کیا اہمیت ہے ؟ آپ بس اسٹاپ پر ایک منٹ دیر سے پہنچتے ہیں ، پتہ چلا کہ بس جاچکی ہے اور اگلی بس بیس منٹ کے بعد آئے گی۔ یوں آپ سب وے سے جو ٹرین پندرہ منٹ بعد پکڑنا چاہتے تھے وہ بھی آپ کے ’’بس ‘‘ میں نہ رہی اور ایک منٹ کی غفلت سے آپ جاب پر آدھا گھنٹہ لیٹ ہو گئے اور یوں آپ کے پانچ ڈالر کٹ گئے۔ وقت اور ڈالر کے اس حساب کتاب نے یہاں بڑے بڑے ’’نوابوں ‘‘ کو خواب غفلت سے جگا دیا ہے۔ وہ لوگ جو پاکستان میں گھوڑے بیچ کر سوتے تھے یہاں مرغی بیچنے کے لیے صبح چھ بجے اٹھ جاتے ہیں۔ یہاں صبح کی شفٹ عموماً سات بجے سے شروع ہوتی ہے اور جاب پر پہنچنے کے لیے چھ بجے صبح بس اسٹاپ پر پہنچنا ہوتا ہے اور اس کے لیے پانچ بجے صبح کا الارم ضروری ہوتا ہے۔

اگر آپ اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں تو عموماً دو بیڈ کے ساتھ ہی ایک باتھ روم ملتا ہے جسے یہاں واش روم کہا جاتا ہے۔ بچوں نے اسکول جانا ہے اور آپ نے جاب پر۔ ریس لگی ہوئی ہے ، ایک واش روم میں ہے تو چار باہر انتظار کر رہے ہیں۔ پانی گرم ہے ، ٹب عمدہ ہے مگر وقت قیمتی ہے ، جتنا وقت ہم پاکستان میں منہ دھونے کے لیے لیتے تھے اتنے ہی وقت میں غسل، شیو اور دانت کی صفائی سب کر لیتے ہیں۔ زندگی فاسٹ ہے ، چائے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر نوش کی جا رہی ہے۔ اخبار بس میں بیٹھ کر پڑھا جا رہا ہے اور بینکنگ فون پر ہو رہی ہے۔ گروسری اسٹور بھی ٹائم سیونگ کے اصول پر قائم ہیں۔ یہاں چاول ، دال ، آٹا سے لے کر مرغی کا گوشت، گائے ، دنبے اور بکری کا گوشت ، کالنگ کارڈ ، سبزیاں ، پھل ،آڈیو کیسیٹ سبھی کچھ دستیاب ہے۔ اسٹور کا مالک خود ہی گوشت کاٹتا ہے ، پان بھی لگاتا ہے اور پچاس ڈالر سے زیادہ کی خریداری کریں تو سامان گھر پر چھوڑ کر بھی آتا ہے۔ ہائے ! وہ بھی کیا دن تھے قصائی کی دکان پر گئے تو اس کی زبان اور چھری کے مظاہرے گھنٹوں دیکھ رہے ہیں۔ بون کے گوشت اور پائے کی قسموں پر باتیں ہو رہی ہیں۔ پان کی دکان پر محلے کی خواتین موضوع گفتگو ہیں۔چال چلن سے لے کر ہر طرح کے اشاروں کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے۔ اب وہ پان کی ’’پیک‘‘ کہاں ؟ اب تو انگریزی کا Peakحاضر ہے ، ہر کوئی فکر میں ہے کہ پیک پر کیسے پہنچیں گے ؟

شام کو Per Hourکی ڈیوٹی نمٹا کر باہر نکلے تو فکر ہے کہ جلدی گھر پہنچنا ہے تاکہ قریبی مال سے ضروری سامان خرید لیں۔ مال نو بجے بند ہو جاتا ہے۔ آج Zellerسے کیلیں اور ہتھوڑی لینی ہے۔ گھر میں دروازوں کی مرمت کرنی ہے ، ایک لاک خراب ہے وہ لگانا ہے۔ سب کام خود کرنے ہیں۔ بیوی بھی مصروف ہے ، صبح بچوں کو اسکول چھوڑ کر قریبی اسٹور پر کام کرنے چلی جاتی ہے۔ پاکستان میں ان کے گھر تین ماسیاں اور دو خانساماں کام کرتے تھے۔ یہاں یہ اسٹور پر سامان لگاتی ہیں۔ گھر آ کر کھانا پکاتی ہیں ، جھاڑو دیتی ہیں اور Coin Laundryمیں جا کر کپڑے دھوتی ہیں۔میاں بیوی رات کو بستر میں پاس پاس لیٹیں تو چار جملوں کے بعد خراٹے لینے لگتے ہیں۔ کہاں کی محبت ، کہاں کے جذبات ، صبح پھر جانا ہے ، محبت کے لیے ویک اینڈ کافی ہے۔ ساتھ چل کر گروسری لائیں گے ،کسی ہفتے مہمان آئیں گے اور کسی ہفتے خود کسی کے مہمان بنیں گے۔ رشتے ناتوں کا پتہ تو یہاں آ کر چلتا ہے۔

پاکستان میں تو جب تک پڑوسن سے ’’تُو تُو میں میں ‘‘ نہ ہو کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا۔ فکر رہتی تھی کہ پڑوسن کیا پکا رہی ہے ؟ کیا پہن رہی ہے ؟اور کیا نئی چیز خرید رہی ہے۔ یہاں تو خود تالا کھولو اور گھر میں داخل ہو۔پرانے پڑوسی کون تھے ؟ نئے پڑوسی کب آئے ؟ یہ بھی پتہ نہیں چلتا۔ کسی دن ’’فائر الارم‘‘ بجتا ہے تو گھر سے بھاگ کر نکلتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ پڑوسن جوان اور خوبصورت ہے اور یہ کہ اس نے ’’بوائے فرینڈ‘‘ بدل لیا ہے۔ایک جانب تو بے نیازی کا یہ عالم ہے اور دوسری جانب بس میں سوار ہو تو ڈرائیور گڈ مارننگ کہتا ہے اور بس سے اترتے ہوئے ڈرائیور کو Have A Nice Dayکہنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ایسے پڑھے لکھے ،ٹائی پہننے والے ڈرائیور کبھی دیکھنے کو نہیں ملے۔ انہیں تو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ کون سا مسافر کب اترا اور کب سوار ہوا ؟ وہ خود ہیروئن کے نشہ میں مدہوش ہوتے تھے۔ کنڈیکٹر کی جھڑکیوں اور بد تمیزیوں کے ساتھ سفر طے ہوتا تھا۔ یہ مزے بھی نہیں تھے کہ سیٹ پر آپ کے ساتھ کوئی حسینہ بیٹھی ہو گی۔ وہاں تو خواتین کے حصے میں چلے جاؤ تو صلواتیں سننے کو ملتی تھیں ، سیٹ تو دور کی بات ہے ، کھڑے رہنے کو جگہ بھی مل جائے تو شکر ادا کیا جاتا تھا۔ یہاں تو بس بھی کسی ’’جنت ‘‘ سے کم نہیں۔ سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ’’ٹھنڈی‘‘ ایسی صاف اور نفیس کہ گمان ہوتا ہے کہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں۔معاف کیجئے گا، یہاں ڈرائنگ روم کہاں ، یہاں تو لیونگ روم ہے اور وہ بھی ایسا کہ ایک جوڑی صوفے ڈالو تو بھر جاتا ہے ، ساتھ ہی کچن ہے ، جس میں جو کچھ پک رہا ہوتا ہے ، اس کی خوشبو ہی سے مہمانوں کو Menu کا اندازہ ہو جاتا ہے

پاکستان میں ’’باغ‘‘ تو ڈھونڈے نہیں ملتے خصوصاً کراچی میں۔ یہاں تو پورا ٹورانٹو ہی ایک باغ ہے جسے دیکھ کر دل باغ باغ ہونے لگتا ہے۔ ایسا سبزہ ایسے پھول، ایسی صفائی۔ جی چاہتا ہے کہ گھر نہ جائیں بس گھومتے پھرتے رہیں۔ بڑے بڑے مال، چاہے آپ کے پاس جتنا ہی مال کیوں نہ ہو ، سب خرچ ہو جائے گا مگر یہ مال خوبصورت اشیاء سے بھر ے رہیں گے۔جتنی گاڑیاں ، اتنی بڑی پارکنگ۔ پاکستان میں پلازہ تو تیار ہو جاتے ہیں مگر گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے کوئی جگہ نہیں رکھی جاتی۔ اگر پارکنگ بنائی بھی جاتی ہے تو بعد میں اسے فروخت کر کے گودام گھروں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تو ڈالر دیجئے اور پارکنگ لیجئے۔

غرض یہ کہ اس نئی دنیا میں سب کچھ ہوشربا اور انوکھا ہے۔ یہاں آپ زندگی کی تمام رنگا رنگی سمیٹ سکتے ہیں بشرطیکہ آپ ڈالر اور وقت (ٹائم) سے مالامال ہوں۔ آپ کمانا جانتے ہوں تو خرچ کرنے کے لئے ہزارہا بہانے موجود۔ یہاں وقت اور ڈالر ہاتھ سے یوں سرکتا ہے جیسے ریت ، صبحیں اور شامیں یوں گذرتی ہیں جیسے سر پر سے ہوائی جہاز۔ اگر جیب بھاری نہ ہو تو یہاں سر بھاری رہنے لگتا ہے اور تب پاکستان کی یاد مزید شدت سے آنے لگتی ہے۔

کینیڈین کتّے بلّیوں کو ’’بیڈ کریڈٹ‘‘ کا کوئی خطرہ نہیں

میں اپنی بائیں بازو کی پڑوسن مارتھا کے کتّے ’’ ٹومی‘‘ اور دائیں بازو کے پڑوسی ڈیرل کی بلّی ’’شی زی‘‘ کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان پر بڑا رشک آتا ہے۔ ٹومی اور شی زی کیا ، مجھے تو ہر کینیڈین جانور پر رشک آتا ہے۔ کینیڈا میں انسان، انسان سے اتنا پیار نہیں کرتا جتنا کہ جانور سے۔ اگر یہاں کے کتے ، بلی کو کمیونیکیشن کی سہولت حاصل ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ ہر ملک کا جانور کینیڈین امیگریشن کے لیے اتنا ہی بے تاب نظر آتا جتنا کہ آج تھرڈ ورلڈ کے انسان بیقرار ہیں۔

کینیڈا میں انسان تو ’’بے گھر‘‘ نظر آ سکتے ہیں مگر کتّے ، بلّی نہیں۔ یہاں بڑے بڑے اسٹور میں ایک حصہ بلّی اور کتّے کے عیش و آرام کی چیزوں سے بھرا ہوتا ہے۔ بیڈ، لحاف ، تکیہ ، کشن ، کھانے کے برتن، گلے ، پیر ، کان کی سجاوٹ کی اشیاء کھانے پینے کی دسیوں چیزیں پیک شدہ ، امپورٹڈ غذائیں ، اور نہ جانے کیا کچھ۔ اکثر ہم جیسے نئے آنے والے پہلے پہل دھوکے میں ان چیزوں کو انسانی استعمال کی اشیاء سمجھ کر دیکھنے لگ جاتے ہیں۔

یہاں اکثر بچوں کو شکایت رہتی ہے کہ مائیں ان سے زیادہ کتّے اور بلّیوں پر توجہ دیتی ہیں۔ بوائے فرینڈ شاکی رہتے ہیں کہ ان کی گرل فرینڈ کی گود کتّے یا بلّی سے بھری رہتی ہے۔ یہاں کے کتے اور بلّیاں اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ انہیں بہترین ’’لیونگ اسٹینڈرڈ‘‘ کے لیے ذرا سی بھی محنت نہیں کرنی پڑتی۔سوائے اس کے پیارے سے دُم ہلا دی یا محبت کے جوش میں مالکن یا مالک کے گال چاٹ لیے۔ اس کے عوض انھیں رہنے کو پیارا سا گھر ملتا ہے جس کا کوئی ’’رینٹ ‘‘ نہیں دینا پڑتا۔ انہیں جاب کی بھی کوئی حاجت نہیں رہتی۔ ’’گاربیج‘‘ اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر نہیں پھینکنا پڑتا۔ کار کی سیر مفت میں ہوتی ہے۔ انشورنس اور ڈرائیونگ لائسنس کی جھنجھٹ سے بھی دور رہتے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ کی پے منٹ اور بیڈ کریڈٹ کا انہیں کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

ہماری پڑوسن مارتھا کو ہم نے جب بھی دیکھا اس کے کتے ’’ٹومی‘‘ کے ساتھ دیکھا۔ وہ ’’مال‘‘ اپنے لیے کم اور ٹومی کے لیے زیادہ جاتی ہے۔ ایک با ہم نے ٹومی کو پیار سے پچکارا تو مارتھا خوشی سے نہال ہو گئی اور بولی ’ٹونی میرا بڑا پیارا کتا ہے ، اسے میری ماں نے گفٹ کیا ہے۔ وہ اسے اپنے ساتھ اولڈ ہوم میں نہیں رکھنا چاہتی ، اسی لئے میں نے اسے ’’گود‘‘ لے لیا ہے۔ ماں سے فون پر بات کرتی ہوں تو وہ مجھ سے زیادہ ٹومی کے بارے میں بات کرتی ہے۔ ٹومی کو میرا بوائے فرینڈ پسند نہیں تھا اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ اس کے بعد جب بھی مارتھا ملی تو وہ ٹومی کے بارے میں بولتی رہی۔ ٹومی سے اس کا عشق مثالی ہے۔ کہتی ہے ’’مجھے بچے کی ضرورت نہیں ، ٹومی میرے لئے کافی ہے ، وہ میر ابہت خیال رکھتا ہے ، یہ اب جوان ہو گیا ہے اس کے لیے میں کوئی اعلیٰ نسل کی کتیا ڈھونڈ رہی ہوں۔‘‘

یہی حال ڈیرل کاہے۔ وہ اپنی بلّی ’’شی زی‘‘ پر اپنی جان اور اعلیٰ درجے کی پرفیوم دونوں یکساں چھڑکتا ہے کہتا ہے کہ شی زی کو صرف فرانس کے اعلیٰ درجے کے پرفیوم ہی سوٹ کرتے ہیں۔ گھٹیا پرفیوم سے اسے الرجی ہو جاتی ہے ، بال جھڑنے لگتے ہیں۔ میں نے ڈیرل کے سر کی جانب دیکھا جو بالوں کی سجاوٹ سے ننانوے فیصد مبرّا تھا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’تم اپنے سر کے بالوں پر بھی تو ،توجہ دو ‘‘ وہ مسکرایا اور بولا ’’ میں نے ایک مہنگی وگ خرید ی تھی مگر مجھے اس وگ کے ساتھ دیکھ کر شی زی مضطرب ہو جاتی ہے تب ہی میں نے وگ پہننا چھوڑ دی۔‘‘ ڈیرل کے دو بیٹے بھی ہیں مگر وہ بیٹوں سے زیادہ شی زی کو پسند کرتا ہے۔ کہتا ہے ’’ شی زی میری محبوبہ کی نشانی ہے شی زی خوش رہتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ میری محبوبہ آسٹریلیا کے حسین جزیرے میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ خوش و خرم ہو گی۔‘‘

کینیڈا میں بچے تو کم ہو سکتے ہیں مگر جانور نہیں۔ ہر گھر میں دو انسان رہتے ہیں تو تین جانوروں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ لوگ بیوی ، بچے پالنے سے بہتر یہ سمجھتے ہیں کہ جانور پال لیں۔ کتّوں اور بلّیوں کے لیے یہاں اعلیٰ درجے کے ہسپتال بھی ہیں جہاں اپائنٹمنٹ زیادہ آسانی سے مل جاتی ہے۔ اب تو شاعروں نے محبوبہ کے بجائے اپنے کتّے بلیوں پر شاعری شروع کر دی ہے۔ یورپ کے ایک شاعر نے اپنے کتّے کی محبت میں شاعری کی ایک پوری کتاب لکھ ماری ہے۔ کچھ سنگرز ایسے ہوتے ہیں جو صرف کتّے اور بلیوں کی محبت سے پُر نغمے گاتے ہیں۔ بعض گھروں پر مر جانے والے کتوں اور بلیوں کی قد آور تصاویر بھی ٹنگی ملتی ہیں۔اب تو کتّے اور بلّیوں کو اعزاز کے ساتھ دفنانے کی خبریں بھی عام ہیں۔ بعض ممالک میں ان کے لئے علیحدہ قبرستان بھی بنا دئیے گئے ہیں۔

اب انسانوں کی پہچان ا س بات سے ہونے لگی ہے کہ اس نے کتنی اعلیٰ نسل کا جانور پالا ہے۔ جانوروں کے شکار کے لیے لائسنس کی ضرورت پڑتی ہے دوسری جانب عراق ، افغانستان ، فلسطین میں انسانوں کے شکار پر کوئی پابندی نہیں۔ صحافت میں بڑی خبر یہ نہیں کہ کتّے نے انسان کو کاٹ لیا بلکہ بڑی خبر یہ ہے کہ انسان نے کتّے کو کاٹ کھایا۔ امریکہ جانے کے لیے کتے کو ویزے کی ضرورت نہیں البتہ انسان کو چیک کرنے کے لیے کتے موجود ہیں۔ لڑکیاں اپنے آپ کو Bitchکہلانے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ ایسے میں اگر میں کبھی کبھی کینیڈین کتّوں اور بلّیوں پر رشک کرنے لگتا ہوں تو اس میں غلط کیا ہے۔

پاسپورٹ مہنگا انسان سستے !

ایک خبر کے مطابق بلیک مارکیٹ میں کینیڈین لینڈنگ پیپر 25ہزار ڈالر اور کینیڈین پاسپورٹ 50ہزار ڈالر میں فروخت ہو رہا ہے۔ خبر پڑھ کر فجّے میاں کے منہ میں پانی آ گیا۔ انہوں نے فوراً اپنے بچوں کی تعداد اور پاسپورٹ کی تعداد کو پچاس ہزار ڈالر سے ضرب دینا شروع کر دیا۔ اگرچہ اس کام کے لئے انہیں کئی بار اپنے سر پر ضرب بھی لگانی پڑی مگر وہ پیسے جوڑنے میں مصروف رہے۔ یہاں تک کہ انہیں کیلکولیٹر کی خدمات بھی حاصل کرنا پڑیں۔ بالآخر انہوں نے بتایا کہ چھ پاسپورٹ کے عوض وہ ایک کروڑ بیس لاکھ پاکستانی روپوں کے مالک بن سکتے ہیں۔ یعنی پاکستان میں ایک نئے کروڑ پتی کا اضافہ ہو سکتا ہے پھر وہ اس حساب کتاب میں جُت گئے کہ ایک کروڑ پر انہیں منافع کتنا مل سکتا ہے ؟ پتہ چلا کہ اس کے بعد وہ دو لاکھ روپے ماہانہ با آسانی منافع کما سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خوش کن انکشاف تھا کہ انہوں نے فوراً پوچھنا شروع کر دیا کہ کون ان کے پاسپورٹ خرید سکتا ہے ؟ ہم نے انہیں یاد دلایا کہ ابھی پاسپورٹ کے حصول میں ساڑھے تین سال کا طویل عرصہ پہاڑ بن کر کھڑا ہے۔ اس دوران انہیں کینیڈا میں رہنا ہے ، گھر چلا نا ہے ، نوکری کرنی ہے بلکہ نوکری ڈھونڈنی ہے ، ٹیکس دینا ہے ، سردیاں برداشت کرنی ہیں وغیرہ وغیرہ۔یہ سب سن کر وہ واپس ’’حال‘‘ میں آ گئے اور ان کا گلنار چہرہ ایک بار پھر مرجھا گیا۔

ہمیں یقین ہے کہ فجّے میاں کی طرح اور بھی سینکڑوں پاکستانیوں نے اس کالم کو پڑھ کر جمع خرچ کیا ہو گا اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہوں گے کہ تین سال کی محنت و مشقت کے بعد ان کی نہ سہی ان کے پاسپورٹ کی اتنی وقعت ہو گی۔ ایک ہمارا پاسپورٹ ہے ، سبز ہلالی پاسپورٹ جو کسی بھی ایجنٹ کو پانچ سو روپے دینے پر با آسانی بن جاتا ہے۔ چاہے اس پاسپورٹ پر آپ اپنا نام بندر درج کروا ئیں ،آپ کو کوئی دقت نہیں پیش آتی۔ اس پاسپورٹ کی قیمت یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ایئر پورٹ کے امیگریشن کاؤنٹر پر جب وہ پاسپورٹ پہنچتا ہے تو تیزی سے لگنے والے ٹھپّے اچانک رک جاتے ہیں۔ پہلے کاؤنٹر پر ہی سوال جواب ہوتے ہیں ، پاسپورٹ کو رگڑ رگڑ کر چیک کیا جاتا ہے ، پھر پاسپورٹ ، پاسپورٹ ہولڈر سمیت ایک امیگریشن آفیسر کے قبضے میں چلا جاتا ہے۔ پھر دو تین گھنٹے کی چھان بین کے بعد یا تو آپ کو ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے یا خوش قسمتی سے اگر سب کچھ اصلی ہے تو آپ ائیر پورٹ سے باہر جاتے ہیں۔

فجّے میاں اسی لئے پاکستان کو بڑی جیل کہتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ملک اس جیل کے قیدی کو رہائی دلانے میں مدد نہیں کرتا ہے۔ پاکستانی انسانوں اور منشیات کی اسمگلنگ کے حوالے سے اس قدر بد نام ہیں کہ سبزپاسپورٹ دیکھتے ہی ہر امیگریشن کاؤنٹر پر سرخ بتی جل اٹھتی ہے۔ پچھلے ہی ہفتے سے اب کینیڈین لینڈنگ پیپر رکھنے والوں کو کینیڈا آنے کے لیے ایک نئی ہدایت کا سامنا ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ اگر آپ قومی ایئر لائن سے کینیڈا آ رہے ہیں تو امریکی ٹرانزٹ ویزا بھی لگوائیے کیوں کہ یہ پرواز نیویارک سے ہوتے ہوئے کینیڈا آتی ہے۔ سنا ہے کہ متعدد پاکستانی کینیڈین لینڈنگ پیپر رکھنے کے باوجود نیویارک میں Slipہو جاتے ہیں۔فجے میاں کا کہنا ہے کہ Slipہونا پاکستانیوں کی پرانی عادت ہے۔ لڑکی ہو یا کوئی امریکی، یورپی ایئر پورٹ پاکستانیوں کی رال ٹپکنے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہر پتھر کے نیچے ایک پاکستانی ضرور چھُپا ملتا ہے۔ہمیں تو ڈر ہے کہیں کوئی پاکستانی چوری چھپے ابھی سے جنت میں بھی نہ پہنچ گیا ہو۔ فجّے میاں کا کہنا ہے کہ اگر جنت میں ڈالروں میں نوکری ملتی تو ہر پاکستانی وہیں جانے کی تمنا رکھتا مگر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ سبز پاسپورٹ پر جنت کا ویزہ مل جاتا ہے۔

ادھر ہماری بیگم صاحبہ نے بھی کینیڈین پاسپورٹ اور لینڈنگ پیپرز کی خرید و فروخت کی خبر کو دلچسپی سے پڑھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کینیڈین پاسپورٹ کی اتنی قیمت ہے تو بیگمات کو چاہیئے کہ وہ زیور کے بجائے پاسپورٹ جمع کریں۔ سونے کی بھی اب وہ ویلیو نہیں جو کینیڈین پاسپورٹ کی نظر آ رہی ہے۔ اس خبر کو پڑھتے ہی انہوں نے اپنے اہل خانہ کے لینڈنگ پیپرز کی بار بار نظر اتارنی شروع کر دی ہے۔ پاکستان سے جو بھی فون کال آ رہی ہے بیگم صاحبہ سب کو یہ بتانا نہیں بھولتیں کہ ان کے ’’ہونے والے ‘‘ پاسپورٹ کی بلیک مارکیٹ میں کیا ویلیو ہے۔

ویسے اس خبر سے پہلے ہم بھی یہ سمجھتے تھے کہ بلیک مارکیٹنگ صرف پاکستان میں ہوتی ہے مگر مقامی انگریزی اخبار کے اس انکشاف نے ہمیں خواب خرگوش سے جگا دیا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ جن پاکستانیوں کو کینیڈین جاب مارکیٹ میں صرف ۸ ڈالر فی گھنٹہ سے زیادہ کی نوکری نہیں ملتی جن کے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کو یہاں کوئی گھاس نہیں ڈالتا ، انہی کے پاسپورٹ کی اتنی قیمت ہے۔ کاغذ کے چند ٹکڑے جو انسانوں کے مرہون منت ہیں انہیں انسان پر اتنی سبقت حاصل ہو جائے گی ، یہ تو ہم نے کبھی سوچا نہ تھا۔ اب تک تو ہم نوٹوں کو سلام کرتے آئے تھے ، کل سے کینیڈین پاسپورٹ کو بھی سیلوٹ کیا کریں گے۔ فجے میاں کا حساب کتاب بھی اب درست محسوس ہو رہا ہے۔ تھکا دینے والے تین سالوں کا صلہ اگر پاسپورٹ بیچ کر مل سکتا ہے تو یونہی سہی وگرنہ کینیڈین حکومت کو سوچنا چاہیئے کہ وہ ایمگرینٹس کو کیا دے رہی ہے ؟ ویلفیئر کی بھیک ؟ اس سے بہتر ہے کہ وہ عارضی مدت کی جاب کا انتظام کرے ، جہاں ابتدائی دنوں کی زندگی گذارنے کے لیے ایک معقول وظیفہ بھی ہو اور جاب مارکیٹ کے لیے تیاری کا موقع بھی۔ ورنہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ایمگرینٹس بھی بلیک مارکیٹ میں کینیڈین پاسپورٹ بیچنے پر مجبور ہو گئے تو اس کی ذمہ داری صرف اور صرف حکومت کینیڈا پر ہو گی۔

جان کریچاں ، ای میلز اور فیمیلز

کینیڈین وزیر اعظم جان کریچاں نے عراق کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ نہ دینے کا جو فیصلہ کیا تھا اس کی حمایت میں انہیں 4576ای میلز ملی ہیں اور 632نے انہیں فون کر کے انہیں اس فیصلے پر مبارکباد دی ہے۔ یہ با ت وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک خبر میں بتائی گئی ہے۔

ہم حیران ہیں کہ کینیڈا جو دنیا بھر میں انٹر نیٹ کے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے دس ممالک میں شمار ہوتا ہے ، وہاں وزیر اعظم کو صرف 4576ای میلز ملیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اس اہم فیصلے کی حمایت میں ’’ جان‘‘ کو اتنی ای میلز ملتیں کہ ان کا میل بکس بھر جاتا اور نئی ای میلز کے لئے انہیں زیادہ گنجائش والے میل بکس کا اعلان کرنا پڑتا۔ ممکن ہے کہ بہت سوں کو ’جان، کا ای میل ایڈریس ہی معلوم نہ ہو۔ ویسے بھی انٹر نیٹ کی دنیا میں ’’میل‘‘ کے ای میل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ای میل تو بس ’’ فیمیل‘‘ ہی کا پاپولر ہوتا ہے۔ مرد تو منتظر ہی رہتے ہیں کہ انہیں کسی خاتون کا ای میل ایڈریس مل جائے اور وہ انہیں بغیر کسی خرچ کے روزانہ ’’ حالِ دل‘‘ سناتے رہیں۔

ویسے بھی لوگوں کو اندازہ ہو چلا ہے کہ جب لاکھوں کے مظاہرے بھی عراق کی جنگ بند نہیں کروا سکتے تو چند ہزار ای میلز کسی پر کیا اثرانداز ہوں گی۔ ہمارے وزیر اعظم واقعی لائقِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے انتہائی دلیری سے اپنے ’’دوست‘‘ کا ایک برے کام میں ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ ان کے اس فیصلے پر کینیڈا ان کا ممنون و مشکور ہے۔ جان کریچاں کو چاہیئے کہ وہ اپنا ای میل تمام اخبارات میں شائع کروا کر لوگوں سے ا س فیصلے پر رائے مانگیں۔ پھر انہیں اندازہ ہو گا کہ انہوں نے کتنا جراتمندانہ فیصلہ کیا ہے۔اس طرح یہ بات بھی عیاں ہو جائے گی کہ ای میلز صرف فی میلز کے لئے مخصوص نہیں ہوتیں۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’ جان، کو فی میلز کی ای میلز ملنا شروع ہو جائیں۔ کچھ ان سے کینیڈا کا موسم کا حال پوچھیں اور کوئی دل کا حال۔ کوئی خاتون یہ بھی پوچھ سکتی ہیں کہ جان تمہاری تنخواہ کتنی ہے۔ ویسے ’ جان، کو چاہیئے کہ اپنی ای میل کا ’’پاس ورڈ‘‘ اپنی بیگم کو نہ دیں۔ ’’پا س ورڈ‘‘ جدید دور کا وہ کوڈ ورڈ ہے جس میں ہر ایک کی جان بند ہوتی ہے۔ اگر بیگمات اپنے شوہروں کے ’’پاس ورڈ‘‘ کھوج نکالیں تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ طلاق کی شرح میں یکدم سے ایسا ہی اضافہ ہو جائے گا جیسا کہ آج کل پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں ہو رہا ہے جبکہ کینیڈا میں اس کے برعکس ہو رہا ہے لوگ حیران ہیں کہ پیٹرول کی قیمت یکدم سے 70سینٹ سے بھی نیچے کیسے آ گئی ہے ؟ ابھی تو تیل کے کنوؤں پر قبضہ بھی نہیں ہوا۔

ہم خود چاہتے ہیں کہ جان کریچاں کو ای میل کر کے پوچھیں کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اس اچانک کمی کا راز کیا ہے ؟ منیر سامی اگر اجازت دیں تو ان کے بھیجے گئے ادبی لنکز بھی ہم جان کو ارسال کر سکتے ہیں تاکہ جان کی ادب نوازی کو پرکھا جا سکے۔ ہمیں ویسے بھی بڑا اشتیاق ہے کہ ایک بار جھانک کر دیکھیں تو سہی کہ جان کریچاں کی ای میل بکس میں کیا کچھ پڑا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ صحافتی اعتبار سے کوئی ایسی ’’ پھڑک دار‘‘ ای میل مل جائے کہ ہماری خبر کینیڈا کے اخبارات کی شہ سرخی بن جائے۔

ہمیں جنگ و جدل سے بھر پور اس دنیا کی بجائے اب ای میل اور انٹر نیٹ کی دنیا بہت بھاتی ہے اگر وائر س نہ ہوں تو انٹر نیٹ سے زیادہ لاجواب شے ہمارے نزدیک اور کچھ نہیں۔ اس انٹرنیٹ کی دنیا میں کیا کچھ نہیں۔ آپ کی پسند اور مرضی کا ہر سامان موجود ہے۔ نایاب کتابوں سے لے کر ڈالر کمانے کے ہزار طریقے مگر افسوس کہ ہم یہاں بھی کتابوں اور موسیقی ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب جان کریچاں کے ای میل ایڈریس نے ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم جان کے ’’ ای میل فرینڈ‘‘ بن جائیں اور انہیں بتائیں کہ ہم جیسے ہزاروں ایمگرینٹس ان کے ملک میں کیاکرنے آئے تھے اور کیا کر رہے ہیں ؟ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جن میں ہزارہا طرح کی توانائیاں موجود ہیں جن کا صحیح استعمال کینیڈا کی تقدیر بدل سکتا ہے ’’ جان‘‘ اگر آپ اجازت دیں تو ہم سب اپنی قابلیت کے سرٹیفیکٹس آپ کو ای میل کریں تاکہ آپ ہمارے لئے اچھی ملازمتوں کا بندوبست کریں اور ہماری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں تاکہ کل آپ اور زیادہ طاقت اور ہمت کے ساتھ سچ کا ساتھ دے سکیں اور آپ کو چار ہزار کی بجائے چار لاکھ حمایتی ای میلز مل سکیں۔

فجّے میاں اِن ٹورنٹو

فجّے میاں ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں۔عمر،تجربے اور نیکیوں میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ انہوں نے چار عورتوں کا گھر بسایا یعنی چار منکوحائیں ان کے دل کی زینت بنیں۔نکاح خوانوں اور دستر خوانوں سے ان کی دوستی مثالی ہے۔ منہ سے یہ دو کام مسلسل لیتے ہیں یا تو بولتے رہتے ہیں یا پھر کھاتے رہتے ہیں۔ان کے گھر جاؤ تو ہر بار ایک نئے بچّے کا منہ دیکھنا اور نام سننا پڑتا ہے۔بعض اوقات ہم انہیں شرارتاً کہا کرتے ہیں کہ پاکستان کی آبادی میں اضافے کے ’’اکیلے ‘‘ ذمہّ دار آپ ہیں۔

ہم کینیڈا آئے تو فجّے میاں بھی بوریا ،بستر اور بچوّں سمیت ٹورنٹو آ دھمکے۔اب بہت خوش ہیں کہتے ہیں ’’بچوں کی انوسٹمنٹ کام آ گئی ،ہر ماہ اتنی رقم مل جا تی ہے کہ کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘ ان کی وجہ سے ہماری زندگی بھی رنگین ہو گئی ہے۔جہاں جاتے ہیں ،ہمیں ساتھ لے جاتے ہیں۔ایک مرتبہ ٹی وی خریدنے گئے۔دوکاندار سے پوچھا ’’تمھارے پاس رنگین ٹی وی ہیں ؟‘‘ دوکاندار نے جواب دیا ’’جی بالکل!‘‘ بولے ’’اچھا!تو پھر مجھے ایک گرین ٹی وی دے دو‘‘ ان کا کہنا ہے کہ جہاں بیوی ہو وہاں ٹی وی ضرور ہو۔راجزر کیبل کے چینلز اتنے پسند ہیں کہ آدھی رات کو بیوی کا ساتھ چھوڑ کر ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے ہیں۔کہتے ہیں ’’کینیڈا میں بیوی دن میں اچھی لگتی ہے اور ٹی وی رات کے ۲ا بجے کے بعد اچھا لگتا ہے۔‘‘

پچھلے دنوں ہمارے مسلسل اصرار پر ایک جاب ایجنسی چلے گئے۔وہاں جاب فارم بھرتے ہوئے NAME, ADDRESS وغیرہ تک تو قلم چلاتے رہے مگر آگے ایک جگہ آ کے ٹھہر گئے لکھا تھا SALARY EXPECTEDکافی دیر تک سوچتے رہے پھر لکھ دیا ''YES''ان کا کہنا ہے کہ PER HOURکی جاب پاکستانیوں کے شایانِ شان نہیں۔ایسی ملازمتوں کے لئے 12-12گھنٹے مسلسل کھڑا رہنا پڑتا ہے ،اس کے باوجود انسان اپنے پاؤں پہ کھڑا نہیں ہو پاتا اس لئے آج کل کینیڈا کے الیکشن میں کھڑے ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کینیڈا کی سیا ست میں گولی اور گالی کا رواج نہیں۔ ’’فوجی بوٹ‘‘ بھی نظر نہیں آتے البتّہ ’’سیفٹی بوٹس‘‘ کی بڑی بہتات ہے۔

فجّے میاں کل ایک تھرماس پکڑے چلے آئے۔ہم نے کہا یہ کیا ہے ؟بولے ’’بڑی اچھی چیز ہے کہ گرم چیز کو دیر تک گرم اور ٹھنڈی چیز کو دیر تک ٹھنڈا رکھتی ہے۔‘‘ ہم نے پوچھا ’’پھر آپ اس میں کیا بھر لائے ؟‘‘ سادگی سے بولے ’’دو کپ گرما گرم چائے اور ایک گلاس ٹھنڈا پیپسی کولا۔‘‘

ایک دن بڑے اداس نظر آئے ہم نے پوچھا کیا بات ہے ؟ بولے ’’ بڑی چاہ سے سسر جی کو کینیڈا سے ان کے گاؤں Answering Machineبھجوائی تھی۔ آج سسر نے فون پر بری طرح ڈانٹ دیا‘‘ ۔ ہم نے پوچھا ’’ وہ کیوں ؟‘‘ بولے ’’ سسر جی بہت ناراض ہیں کہتے ہیں ان کے سارے دوستوں نے ان سے بول چال بند کر دی ہے ، سب کہتے ہیں یہ بہت جھوٹا ہے ، فون اٹھاتا ہے اور کہتا ہے میں گھر پر نہیں ہوں۔‘‘

ایک دن ہمیں کھانے پر ایک ریسٹورنٹ لے گئے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم نے دیکھا کہ وہ واش بیسن پر ہاتھ دھونے کے بجائے واش بیسن دھو رہے ہیں۔ ہم نے استفسار کیا تو بولے ’’ یہ دیکھو دیکھو ، یہاں کیا لکھا ہے "Wash Basin"

ایک مرتبہ کہنے لگے ’’آج دل چاہ رہا تھا 911ملاؤں مگر ملا ہی نہیں پایا۔‘‘ ہم نے پوچھا ’’ وہ کیوں ؟‘‘ بولے ’’ میرے ٹیلی فون پر 9 کا ہندسہ تو ہے مگر 11 ہے ہی نہیں۔‘‘

ایک دن بڑی تیزی میں آئے اور بولے ’’جلدی سے 18آدمی جمع کر لو ، آج سینما ہال جا کر فلم دیکھنے کا موڈ ہے۔‘‘ ہم بہت حیران ہوئے پوچھا ’’ مگر 18آدمی کیوں ؟‘‘ بولے ’’ جو فلم میں دیکھنا چاہ رہا ہوں اس کے لئے اشتہار میں لکھا ہے

"Below 18 Is Not Allowed"

ایک مرتبہ ہمیں بہلا پھسلا کر بار لے گئے۔ ابھی بیئر کی تین بوتلیں ہی ختم کی تھیں کہ ان کے سیل فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ دوسری طرف سے ان کی ’’بیوی نمبر ون‘‘ تھیں۔ گھبرا کر بولے ’’بیگم تمہیں کیسے پتہ چلا میں یہاں ہوں ؟‘‘

ایک دن انہیں Appliancesخریدنے کا شوق چرایا۔دکاندار سے کہا ’’یہ ٹی وی کتنے کاہے ؟‘‘ دکاندار بولا ’’ ہم پاکستانیوں کو مال فروخت نہیں کرتے ‘‘ فجے میاں غصے میں تھن پھن گئے مگر انگریزی سے نابلد ہونے کی وجہ سے خاموشی سے چلے آئے۔ گھر آ کر اپنی مونچھیں صاف کر دیں۔ شلوار قمیض کی جگہ سوٹ پہن لیا۔ بالوں پر Gelلگایا ، سن گلاسز پہنے اور دوبارہ اسی دکان پر پہنچ کر اسی ٹی وی کی جانب اشارہ کر کے بولے ’’یہ ٹی وی کتنے کاہے ؟‘‘ دکاندار نے وہی جواب دیا ’’ ہم پاکستانیوں کو مال فروخت نہیں کرتے ‘‘ بہت حیران ہوئے اور بولے ’’ اب تم نے کس طرح پہچانا کہ میں پاکستانی ہوں ‘‘ دکاندار مسکرایا اور بولا ’’ آپ جس ٹی وی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں وہ ٹی وی نہیں ، مائیکرو ویو ہے۔‘‘

ٹورنٹو کی بکرا منڈی

کینیڈا میں بقر عید منانا ایسا ہی جیسے نو بیاہتا دلہن زیور کے بغیر نظر آئے۔دور دور تک بکروں کا نشاں نہیں ملتا ، نہ ہی گائے اور بیل کے درشن ہوتے ہیں۔ ان جانوروں کے بغیر عید ، بقر عید لگتی ہی نہیں۔225ڈالرگروسری والے کو دئیے اور عید کے پہلے یا دوسرے دن قربانی کا گوشت وصول کر لیا۔ بکرا کیسا تھا ؟ کس رنگ کی چمڑی تھی؟ سائز کیا تھا ؟ چارے میں کیا پسند کرتا تھا؟ آوازیں کیسی نکالتا تھا؟ سینگ کیسے تھے ؟ گلے پر چھری پھیرتے ہوئے کتنا زور لگانا پڑا؟ حضرت قصائی کون تھے ؟ کتنے میں دستیاب ہوئے ؟ کھال کیسے اتاری؟ بوٹیاں کتنی دیر میں بنیں ؟ ان سارے مراحل پر پردہ ہی پڑا رہتا ہے۔

گوشت مل جائے تو بس پکا لو یا سخت سردی میں جیکٹس اوڑھ کر چند دوستوں کے گھر گوشت دے آؤ، بس یہی کینیڈا کی بقر عید ہے۔ گوشت دینے جاؤ بھی تو کوئی نہیں ملتا۔ ابو جاب پر ہیں اور امی جاب سے آ کر سو رہی ہیں۔ بچے ایک دن کی ’’عید چھٹی‘‘ پر ہیں۔کل سے وہی اسکول اور وہی روٹین۔ بچوں کو بٹھا کر چند منٹوں کے لئے بقرعید کا Lessonدینا پڑتا ہے کہ ہم بقرعید کیوں مناتے ہیں ؟ اور راہ حق کی یہ قربانی مسلمانوں میں کیوں مروّج ہے ؟ اب تو راہِ خدا کی قربانی کی تفصیلات سمجھاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں دہشت گردی کی کوئی شق اس lessonپر بھی حارج نہ ہو جائے۔

عید کے دن فون کر کے پاکستان میں بکروں کے بھاؤ پوچھ لیے اور CAMپر قربانی کے جانور کی تصویریں دیکھ لیں۔ کلو قصائی پھر بھی نظر نہ آیا کہ جس وقت بھائی نے CAMآن کیا کلو کھال اتار کر پڑوس کی گائے پر چھری پھیرنے گیا ہوا تھا۔دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر کلیجی کھانے کے مناظر یاد کر کے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ چھت پر رات گئے تک قربانی کے گوشت سے بنے کباب کی محفلوں کا تذکرہ سن کر دل جل کر کباب ہو جاتا ہے۔

عید کے دن جاب پر ایک پاکستانی سے اداس دل سے کہہ دیا کہ پانچ سال ہو گئے کوئی چلتا پھرتا قربانی کا بکرا نہیں دیکھا۔ بس وہ شروع ہو گیا ’’ میاں کیا مجھے نہیں دیکھتے اور کیا آئینہ نہیں دیکھتے ، ہم خود یہاں قربانی کے بکرے ہیں۔ روز ہماری کھال اتاری جا رہی ہے اور روز بوٹی بوٹی میں مشقت کا درد Injectکیا جا رہا ہے۔ ہمارے لئے تو ہر روز ، روز قرباں ہے۔

اب تو عید دیکھنی ہو تو پاکستانی ٹی وی چینل لگاتے ہیں۔ عید خود بخود ہمارے کمرے میں اتر آتی ہے۔ عید کے ڈرامے ، عید کے شوز احساس دلاتے ہیں کہ بقرعید ایسی ہوتی ہے۔ فریج گوشت سے یوں بھرتا ہے۔ غریبوں کے لئے ہڈیوں والا گوشت اور قریبی عزیزوں کے لئے رانوں کے تحفے۔ ٹی وی پر انور مقصود تو گھر ، گھر کلو قصائی کی دید ہے۔ بقرعید اور عید الفطر میں فرق ہی یہی ہوتا ہے کہ عید کے دن عزیزوں کا اور بقرعید کے دن قصائی کا انتظار رہتا ہے۔ بعض بے صبرے جن سے قصائی کا انتظار برداشت نہیں ہوتا خود چھرا لے کر قصائی بن جاتے ہیں۔

اصل عید تو کھال جمع کرنے والوں کی ہوتی ہے۔ ایدھی اپیل کر کے کھال جمع کرتے ہیں اور مسٹنڈے دھمکی کے زور پر۔ یہ دھمکیاں فون پر بھی ملتی ہیں اور اچانک پاس کھڑے شخص کی پستول سے بھی۔سنا ہے بعض تنظیمیں سال کے صرف تین دن کھال جمع کرتی ہیں جبکہ بقیہ 362دن ان ہی کھالوں پر عیش کرتی ہیں۔

برس گذر گئے ہم نے کھال دیکھی نہ کھال جمع کرنے والوں کی شکلیں۔ سالم سانس لیتا بکرا دیکھنے کی خواہش ہر سال تیز ہوتی جا رہی ہے۔ وہ دن کب آئے گا جب ٹورنٹو میں بھی ’’بکرا منڈی‘‘ لگا کرے گی اور بدر منیر ، لطافت صدیقی ، ارشد بھٹی، صبیح منصور اور متانت و شاہین بکرے تلاش کرے نظر آئیں گے۔ ساتھ ہی ایک Legalمذبحہ خانہ ہو گا جہاں اشفاق حسین ،خالد عثمان جانوروں کے گلے پر چھری پھیر رہے ہوں گے۔اتنے میلے ٹھیلے لگتے ہیں اگر اگلے سال سے ایک ’’بکرا منڈی ‘‘ بھی شروع کر دی جائے تو شاید مسلمانوں کو تھوڑا چین نصیب ہو جائے۔ چھری پکڑنے اور گلے پر پھیرنے کا اپنا ایک مزہ ہے اس لطف سے محرومی کئی نفسیاتی الجھنوں کا باعث بن رہی ہے۔اگر عدنان ہاشمی اور عشرت نسیم ہر سال قربانی کا جانور خود اپنے ہاتھوں سے حلال کریں تو شاید الیکشن میں ایک دوسرے کے خلاف طنز و نفرت کی چھریاں یوں نہ تانیں۔بات نکلی تھی بقرعید کے ’’تان‘‘ سے اور چلی گئی عدنان و عشرت کے الیکشن ’’سین‘‘ پر۔اسے قلم کی بے راہروی کہہ لیجئے یا اس بات کا گلہ کہ ۲۶دوستوں کی فہرست میں سے صرف ۲ نے ہمیں قربانی کا گوشت بھیجا باقی سب نے بکروں سے معذرت کر لی کہ اگلے سال وہ بقرعید پر انہیں INVITEکریں گے۔بیشتر یہ کہہ کر دامن بچا گئے کہ ہم نے پاکستان پیسے بھیج دئیے ہیں قربانی وہیں ہو گی۔منی ایکسچینج والوں تم ہی بتاؤ کس کس نے قربانی کے جانوروں کے پیسے بھجوائے۔دوستو!ہمیں قربانی کا بکرا ضرور بناؤ مگر اُلّو نہیں۔

بے ایمان موسم میں ایمان دار ’’باربر ‘‘ کے قصے

ارمانوں پر اوس پڑتے تو سنا تھا مگر اس بار ارمانوں پر مسلسل برف پڑتی دیکھ رہے ہیں۔اہل ٹورانٹو نے اپریل میں موسم کا یہ حال نہیں دیکھا تھا جو اس بار دیکھ رہے ہیں۔اپریل اپنے دوسرے ہفتے میں ہے ، گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے ہو چکی ہیں مگر برف ہے کہ ٹلنے کا نام نہیں لیتی، یوں مورچہ جمائے بیٹھی ہے اور بار بار حملے کر رہی ہے جیسے یہ ٹورنٹو نہیں ، بغداد ہے۔جب دیکھو موسمیات والے طوفان کی وارننگ دے رہے ہیں۔موسم بہار اور گرما کے کپڑے انسانی جسموں کے لمس کے لیے بے چین ہیں۔آنکھیں برف اور نمک دیکھ دیکھ کر تھک چکی ہیں اور نمکین جسموں کی گرمی و بہار کے لیے بیقرار ہیں۔ہمارے ایک دوست شعیب نے تو اپریل کی پہلی تاریخ ہی کو سر منڈوا لیا تھا۔وہ اکثر بہار اور گرما کا لطف اپنے سر سے لیتا ہے بلکہ سر لے لیتا ہے مگر اس بار یکم اپریل کو سر منڈواتے ہی اولے پڑ گئے۔ہم نے یہاں لوگوں کا بھر پور موٹاپا تو دیکھا تھا مگر برف کا موٹاپا اتنی شدت کے ساتھ کبھی نہیں دیکھا۔بعض اولے تو اتنے موٹے تھے کہ انہیں برف کی ’’ منی سل‘‘ کہا جائے تو مضائقہ نہ ہو گا۔شعیب ابھی تک موسم کے ’’اپریل فول‘‘ سے لطف اندوز ہو رہا ہے اور اپنے کٹ جانے والے بالوں کو یاد کر رہا ہے۔

ویسے بھی بالوں کی کٹنگ ٹورنٹو میں بڑی مہنگی ہے۔یہاں حجامت کروا نے جاؤ تو تھوڑے سے بالوں کے ساتھ بڑی رقم کٹ جاتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ’’بار بر‘‘ بال نہیں ڈالر کاٹ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے گھروں میں بال کاٹنے کی مشینیں رکھی ہوئی ہیں۔پاکستان میں بیویاں شوہروں کی جیبیں کاٹا کرتی تھی یہاں بال کاٹتی ہیں۔ایسے میں ہم اکثر اپنے گھنے بالوں پر افسوس کرتے رہتے ہیں۔یہاں آ کر سمجھ میں آیا کہ گنجے دولت مند کیوں ہوتے ہیں ؟اگر دنیا کے سارے مرد گنجے ہو جائیں تو بچت کی شرح تیزی سے بڑھ جائے اور باربر دنیا کی غریب ترین مخلوق بن جائیں۔

ہم جس بلڈنگ میں رہتے ہیں وہیں ایک فلور پر ایک باربر نے ’’ہوم کٹنگ‘‘ کا انتظام کر رکھا ہے وہ بارہ سال سے اسی جگہ پر اہل محلہ کی حجامت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ میں آج تک ’’لے آف‘‘ نہیں ہوا۔ان کی بیگم بھی ان سے گھبراتی ہیں کیوں کہ ان کے ہاتھ میں ہر وقت اُسترا یا قینچی ہوتی ہے۔مہمان بھی گھر میں کم ہی آتے ہیں کیوں کہ گھر بالوں سے بھرا رہتا ہے اور بیٹھنے کے لیے بال برابر جگہ بھی مشکل ہی سے ملتی ہے۔ان کے گھر کے کھانوں میں بھی اکثر طرح طرح کے بال ملتے ہیں۔وجہ یہ نہیں کہ ’’کُک‘‘ بدل جاتا ہے بلکہ روزانہ نئے نئے لوگ بال بنوانے آتے ہیں۔باربر دنیا کی واحد مخلوق ہے جس کی بات کوئی نہیں کاٹتا کیوں کہ خطرہ رہتا ہے کہ ادھر بات کٹی اور ادھر سر کٹا۔ہم سر جھکا کر اپنے باربر صاحب کی باتیں سنتے رہتے ہیں۔ان کی قینچی اور زبان کی رفتار ہمیشہ یکساں رہتی ہے بلکہ کبھی کبھی زبان زیادہ تیز چلنے لگتی ہے۔

شعیب ان سے بال کٹوانے گیا تو باربر صاحب نے ایک عراقی کا قصہ شروع کر دیا۔اس کا کہنا تھا کہ وہ عراقی 10سال پہلے عراق سے فرار ہوا تھا اور صدام حسین کا اس قدر مخالف ہے کہ بیوی کے بعد تمام بچا کھچا وقت صدام کی غیبتوں میں گزار تا ہے۔وہ بول رہا ہو تو ایسا لگتا ہے کہ بش کا عراقی ورژن ٹیلی کاسٹ ہو رہا ہے۔کل بال بنوانے آیا تو بہت خوش تھا کہنے لگا ’’میں نے تو پچھلے ہی ہفتے سی این این سن کر عراق جانے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر عین وقت پر ’’الجزیرہ ٹی وی‘‘ نے میرے ارمانوں پر کینیڈا کی برف ڈال دی۔خیر! میں اب بھی پُر اُمید ہوں کہ اپریل کے آخر تک بغداد پہنچ جاؤں گا۔اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر اپنے مکان کی تعمیر نو کروں گا اور اگر امریکیوں کو شیشے میں اتار لیا تو ’’بغضِ معاویہ‘‘ کے صلے میں کسی نہ کسی وزارت کا وزیر بن جاؤں گا، خود بھی عیش کروں گا اور امریکنوں کو بھی عیش کراؤں گا۔‘‘ شعیب نے کہا ابھی وہ کہاں ہے ؟ باربر نے قینچی چلاتے ہوئے کہا ’’ٹی وی پر کیمیکل کے ڈرموں میں سے جراثیمی ہتھیار نکلتے دیکھ رہا ہے۔ویسے امریکیوں کو داد دینا پڑے گی جو کام اقوامِ متحدہ کے نمائندے مہینوں میں نہ کر سکے وہ انہوں نے بصرہ پہنچتے ہی کر لیا۔کاش اسی طرح امریکن اگر اسامہ کو بھی ڈھونڈ نکالیں تو پھر دنیا میں کوئی بھی دہشت گرد نہ ہو…سوائے امریکہ کے۔‘‘

کل ہم بال بنوانے گئے کہ بابر صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ پہلے شیو بنوائیں۔ آپ کی بڑھی ہوئی شیو دیکھ کر تو ایسا لگ رہا ہے کہ عراقیوں کا غم اکیلے آپ ہی اٹھا رہے ہیں۔ پھر مشورہ دیتے ہوئے کہنے لگا آپ ٹی وی دیکھنے سے پرہیز کریں۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو آپ کی ملاقات ٹونی بلیر سے کروا دیتا۔ وہ بے چارہ بھی بڑا دکھی اور بے چین ہے کہ کہیں امریکی اکیلے تیل کی دولت پر قبضہ نہ کر لیں اسی لئے تو اس کو دلاسہ دینے جارج بش آئر لینڈ گئے ہیں۔ آپ کا دکھ ٹونی کے دکھ سے زیادہ تو نہیں پھر آپ اکیلے شیو کیوں بڑھا رہے ہیں۔حوصلہ رکھیں اور عراق کی تعمیر نو کا انتظار کریں۔ دیکھ لیجئے گا اس وقت تک عراق کی بچی کھچی مخلوق کس قدر عیش کرے گی۔ امریکی بڑے رحم دل ہیں ، وہ اپنے ملک سے تو چُن چُن کر عراقیوں کو نکال دیتے ہیں مگر عراق میں چُن چُن کر ان عراقیوں کو ضرور رکھیں گے جو ’’صدام مخالف‘‘ ہوں گے۔ وہ وہاں بھی رجسٹریشن کا قانون لاگو کریں گے تاکہ…

ہم نے پہلی بار باربر صاحب کی بات کاٹی اور کہا ’’ بس بھی کریں ، ایسا لگتا ہے کہ اب دنیا میں عراق کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ فوراً بولے ’’ باقی دنیا کا کیا سناؤں ؟ باقی دنیا تو ’’سارس‘‘ سے خوفزدہ ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ سارس کی بیماری چین سے چلی اگر افغانستان سے نکلتی تو سب یہی کہتے کہ یہ جرثومہ القاعدہ نے پھیلا یا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ ’’سارس‘‘ جو تباہی پھیلا رہی ہے وہ اتحادی فوج کے مقابلے میں کچھ نہیں مگر دنیا ہے کہ سارس سے بچاؤ کی ترکیبیں ڈھونڈ رہی ہے مگر اتحادی فوج کو کوئی نہیں روک رہا ہے جو روزانہ سینکڑوں بے گناہوں کو مار رہی ہے۔ میں تو داد دوں گا اپنے جین کریچاں کو کہ انہوں نے عین موقع پر امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔‘‘

ہم نے بھی انکار کر دیا کہ باربر صاحب آج ہم آپ سے بال نہیں بنوائیں گے۔ آپ بالوں پر کم اور عالمی سیاست پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ آپ اپنا ریڈیو چینل کھول لیں۔ آج کل ٹورنٹو میں ریڈیو والے اپنا وقت اتنے سستے داموں بیچ رہے ہیں کہ تین ہیئر کٹنگ کے معاوضے میں آپ روزانہ ایک گھنٹہ ریڈیو پر با آسانی اپنی نشریات پیش کر سکتے ہیں۔

یہ سن کر باربر صاحب خفا ہو گئے۔ بولے ’’ بہتر ہے کہ آپ باہر جا کر اپریل کے موسم کا مزہ لیں ، برف دیکھیں ، برف محسوس کریں۔ آپ میری گرمیِ گفتار سے ناراض ہو رہے ہیں ، جیکٹ اٹھائیں ، ٹوپی اوڑھیں ، دستانے پہنیں اور برف پر مٹر گشت کریں۔ آپ کے لیے یہی مناسب ہے۔‘‘

ہم دل شکستہ، نیم بجھے باہر نکل آئے۔ ہم نے اپنے باربر صاحب کو ناراض کر دیا ہے۔ اب ہمارے بال کون کاٹے گا ؟ بہتر ہے کہ ہم بھی ایک ہیئر کٹنگ مشین خرید لیں اور بیوی کو زحمت دیں۔ کم از کم بیوی تو بال کاٹتے ہوئے عراقیوں کا تذکرہ نہیں کرے گی۔ وہ پڑوسنوں کی رُوداد سنائے گی ، گوریوں کے قصے دہرائے گی اور ایسے بے ایمان موسم میں غالبؔ یہ خیال اچھا ہے۔

دلربا ٹورانٹو میں ویک اینڈ کے مزے

مارگیج اور مہمان کے بغیر کینیڈا میں گھر کا کوئی تصور نہیں۔یہاں ہر گھر میں ویک اینڈ پر مہمان اور مہینے کے ’’اینڈ‘‘ پر مارگیج کی قسط موجود ہوتی ہے۔یہاں کے مہمان ’’بلائے جان‘‘ نہیں ہوتے اور نہ ہی ’’بن بلائے ‘‘ ہوتے ہیں۔ہر ویک اینڈ پر کسی کو کسی کے پاس جانا اور کسی کو کسی کے یہاں آنا ہوتا ہے۔میل ملاپ کا یہ شیڈول مہینہ بھر پہلے سے طے ہوتا ہے۔پاکستان کی طرح نہیں کہ جب دل چاہا منھ اٹھایا چلے آئے۔فون پر اطلاع دینے کی حاجت نہ کال بیل دبانے کی ضرورت۔آپ گھر میں اپنا اور اپنے کمرے کا حلیہ بگاڑے بیٹھے ہیں یکدم سے پھوپھی جان اپنے بچوں کی بارات لئے آپ کے سرہانے کھڑی ہیں۔اب چاہے آپ نیند میں ہوں یا کہیں جانے کا ارادہ رکھتے ہوں سب کچھ بھول کر آپ کو مہمان کی خاطر داری کرنی ہے۔

کینیڈا میں ایسا کچھ بھی نہیں۔مہینے بھر پہلے طے ہوتا ہے کہ ہفتہ کی شام آپ کے گھر تین دوست اور ان کی بیگمات آ رہی ہیں جو چار بجے پہنچیں گے اور دس بجے رخصت ہو جائیں گے۔خاطر داری کی بھی کوئی فکر نہیں دس افراد کا کھانا کیٹرنگ آرڈر کے مطابق آٹھ بجے گھر کے دروازے پر پہنچ جائے گا۔تین گھنٹہ کینیڈین سسٹم کی برائیوں پر بحث ہو گی، ایک گھنٹہ عزیز رشتہ داروں کی غیبت ہو گی، دو گھنٹے کھانے پر صَرف ہوں گے ، کچھ دیر ٹی وی دیکھا جائے گا یا پھر پچھلے ہفتے کی دعوت کی البم دیکھی جائے گی۔اسی دوران فون آ جائے تو اسے ’’میسج‘‘ پر جانے دیا جائے گا تاکہ فون کرنے والا یہ سمجھ لے کہ اہل خانہ گھر پر نہیں ، دروازے پر دستک ہو نہیں سکتی کیوں کہ نیچے انٹر کام یا پھر سیکورٹی گارڈ کا پہرا ہے۔سمر میں یہی دعوتیں کسی باغ میں ہوتی ہیں۔باربی کیو کے نام پر مرغیوں کی نسلوں کو برباد کیا جاتا ہے یا پھر ویل کے گوشت کے تکّے دانتوں تلے داب کر ذرا دور بیٹھے کسی مغربی صورتوں کو ’’تاکا‘‘ جاتا ہے۔شام کی فکر نہیں کیوں کہ سورج نے دس بجے غروب ہونا ہے۔

کینیڈا کے مہمانوں کا مقابلہ اگر پاکستان کے مہمانوں سے کیا جائے تو یہ اتنے مسکین اور مظلوم لگتے ہیں کہ بس۔یہاں جو مہمان آتا ہے وہ ساتھ اکثر کوئی نہ کوئی ڈش پکا کر لاتا ہے یا پھر کوئی نہ کوئی گفٹ ہاتھ میں ضرور ہوتا ہے۔پاکستان میں بھی لوگ خالی ہاتھ نہیں آتے ، ہر انگلی کے ساتھ کوئی نہ کوئی بچہ بندھا ہوتا ہے۔ ویسے پاکستان میں دس ’’مہمان بچوں ‘‘ کو آپ ایک ڈانٹ کے ساتھ کنٹرول کر سکتے ہیں۔یہاں آپ ’’برتھ‘‘ پر تو کنٹرول کر سکتے ہیں مگر جو بچہ دوسری ’’برتھ ڈے ‘‘ منا لے پھر وہ آپ کو کنٹرول کر سکتا ہے ، آپ اسے نہیں۔

یہاں کی مہمان خواتین ساس اور نندوں کی باتیں نہیں کرتیں ، ہوم ڈپو،زیلّرز ، کینیڈین ٹائر اور وال مارٹ کی باتیں کرتی ہیں۔ڈاکٹر کی اپائنٹمنٹ ، ڈرائیونگ کی کلاسیں ، جاب کی چغلیاں ان کے پسندیدہ ٹاپک ہوتے ہیں۔درمیان میں کبھی کبھی شوہر کا تذکرہ آ جاتا ہے جو ’’لے آف‘‘ سے شروع ہو کر مارگیج کی قسطوں پر ختم ہو جاتا ہے۔

نوجوان بچے اور بچیاں علیحدہ کمروں میں بیٹھ کر گپّیں لگاتی ہیں۔ان کے موضوعات کو سمجھنا خاصا مشکل ہوتا ہے کیوں کہ جہاں کوئی بزرگ ان کی باتوں پر کان لگاتا ہے یہ انگریزی بولنا شروع کر دیتی ہیں۔ان کے ٹاپک میڈونا کا نیا گانا، راجرز کی ’’پے پر ویو‘‘ کی نئی انگریزی مووی اور کالج کے فرینڈز ہوتے ہیں۔جو زیادہ بولڈ ہوتی ہیں وہ ’’چاٹ روم‘‘ کے قصے اور ’’ویب کیم‘‘ کی رنگین کہانیاں شروع کر دیتی ہیں۔مہمانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ وزیٹرز کی کار پارکنگ ہوتی ہے۔اکثر سلام کے بعد پہلا جملہ یہی بولتے ہیں ’’آپ کی پارکنگ خالی نہیں تھی میں تیسری سڑک کے آخری کونے پر گاڑی پارک کر کے آیا ہوں ‘‘ ۔یہاں ویک اینڈ کہتے ہی ہیں اس دن کو ہیں جب آپ کی گاڑی اپنی پارکنگ سے باہر ہو۔ہم نے بھی اس دلربا ٹورانٹو میں بہت سے دوست بنا لئے ہیں۔اسی لیے ویک اینڈ پر اکثر کافی ’’ویک‘‘ نظر آتے ہیں۔پاکستان میں اتوار آ جائے تو ہم ’’سونا‘‘ مناتے ہیں یہاں ’’رت جگا‘‘ مناتے ہیں۔کچھ دوستوں سے مل کر چھٹی کا مزہ آ جاتا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کی وجہ سے چھٹی نہ کرنے کو دل چاہتا ہے۔

پاکستان میں ہر منہ گالیوں سے اور کینیڈا میں پزّا سے بھرا ہوتا ہے

پاکستانیوں میں آج کل نکاح کے پیپر سے زیادہ کینیڈا کے لینڈنگ پیپر کا چرچا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ لینڈنگ پیپر حاصل کر لے چاہے اس کے لیے اسے ہزار پیپر کا فارم کیوں نہ بھرنا پڑے۔ صبح و شام جاگتے ،سوتے سب کی اکلوتی خواہش کینیڈا میں قدم رکھنا ہے۔ حالانکہ کینیڈا پہنچتے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ قدم اس کے لئے کتنے بھاری قدم ثابت ہوئے ہیں۔ کینیڈا دور کا وہ ڈھول جو جب بجتا ہے تو اس سے خوشی کے شادیانوں کی نہیں ،غم و افسوس کی آہ و بکا آتی ہے۔

ہمیں کینیڈا آئے ہوئے 20ماہ ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں ہم نے کینیڈا کو جتنا سمجھا ہے ، وہ ہماری سمجھ کی چولیں ہلانے کے لیے کافی ہے۔ کینیڈا ایسی سسرال ہے جو شادی سے پہلے بہت خوبصورت اور دلآویز لگتی ہے مگر داماد بن کر پتہ چلتا ہے کہ یہ ولیمے کی بریانی نہیں بلکہ لوہے کے چنے ہیں۔بیس ماہ میں کینیڈا نے ہم سے اتنی محنت کروا لی ہے جتنی کہ ہم نے 20سال میں پاکستان میں نہیں کی تھی۔ ہم سمجھتے تھے کہ کینیڈا جائیں گے تو ڈالروں کی برسات ہو گی مگر اب تو آنسوؤں کی برسات ہے۔ وہ کام جو ہم پاکستان میں کرنا اپنی اور خاندان کی عزت کے خلاف سمجھتے تھے یہاں وہ کام اپنی عزت کی خاطر کرتے ہیں۔

کینیڈا میں جاب حاصل کرنا ایسا ہی ہے جیسے کنویں سے ڈول بھر بھر کر پانی نکالنا۔ یہاں ہماری وہی عزت ہے جو کراچی میں پہلی بار بنگلہ دیش، پنجاب اور سرحد سے آنے والوں کی ہوتی ہے۔ پہلی نوکری ایسے ملتی ہے کہ سالوں تک عزیزوں کو یہی بتانا پڑتا ہے کہ ہم بے روزگار ہیں۔ پٹرول پمپ جہاں ہم کار لے کر پٹرول بھروانے جاتے تھے وہاں ہمیں ’’بے کار ‘‘ بن کر روزی کمانے کے لیے جانا پڑتا ہے۔ برسوں اسی آس میں گزر جاتے ہیں کہ کب صاحب کار ہوں گے اور ’’گیس اسٹیشن ‘‘ سے ’’زوں ‘‘ کر کے نکل جائیں گے۔ یہاں تو مہنگے ترین اپارٹمنٹ میں رہنے کے لیے چند گھنٹے میّسر آتے ہیں اور ’’جاب‘‘ کی جگہ پر ’’آور ‘‘ گزر تے چلے جاتے ہیں۔

کینیڈا کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ یہاں پر لوگ صبح کو اس وقت اٹھتے ہیں جس وقت ہم پاکستان میں سویا کرتے تھے۔ ایسی ’’سحر خیزی‘‘ کی عادت ہم پاکستان میں اپنا لیتے تو آج اپنے ’’ابا ‘‘ کے نور نظر ہوتے۔ یہاں سورج نکلنے سے پہلے گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔

موسم کا یہ حال ہے کہ چھتری، گرم کپڑے سب کچھ ساتھ لے کر نکلنا پڑتا ہے۔ سب سے اچھا مذاق کینیڈا کا موسم کرتا ہے۔ ابھی گھر سے نکلے موسم گرم ہے ، صرف ایک ٹی شرٹ کافی ہے۔ دوپہر تک اچانک بارش شروع ہو جاتی ہے جیسے بہت سارے امیگرنٹس مل کر رو رہے ہوں۔ کبھی دھواں دار اور کبھی رم جھم۔ شام تک موسم اتنا سرد ہو جاتا ہے جیسے گرمی اس کی سوتیلی اولاد ہو۔ واپسی پر گرم کپڑے یوں لادنے پڑتے ہیں کہ جیسے یہ ہم نہیں کوئی دھوبی جا رہا ہو۔

جاب پر بات چیت اور چائے پانی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا، نہ کوئی دوست ملنے آتا ہے۔ فون پر بھی گپ لڑانے کی کوئی روایت یہاں نہیں ہے۔ تنخواہ فی گھنٹہ کے حساب سے ملتی ہے۔ یہاں لوگ چائے نہیں کافی پیتے ہیں۔ کافی کی اتنی قسمیں ہیں جتنی امیگرنٹس کی۔ ہر نسل ، عمر اور ملک کا آدمی اور کافی یہاں جگہ جگہ ملتی ہے۔سخت گرمی میں بھی کافی یوں پی جاتی ہے جیسے ٹھنڈا مشروب پیا جاتا ہے۔ ہمیں تو اشتیاق تھا کہ کینیڈا جا کر وہ کچھ پئیں گے جس کی پاکستان میں ممانعت تھی۔ ایسی ’’حرام ڈرنکز‘‘ مل تو جاتی ہیں مگر اتنی رقم اور تاکید کے ساتھ کہ پینے کا لطف ہی جاتا رہتا ہے۔ یہاں کوئی لڑھکتا ، لڑکھڑاتا ، ڈولتا نہیں جاتا۔ سب گھر میں بیٹھ کر اطمینان سے گرل فرینڈ کے ساتھ پیتے ہیں۔شوق کا یہ عالم ہے کہ ہر ہفتے گرل فرینڈ اور مشروب کا برانڈ بدل جاتا ہے۔ ہماری زندگی میں تو ایک بیوی اور ایک ہی برانڈ کا سگریٹ آ کر ٹھہر گیا ہے۔ دونوں دل جلاتے ہیں اور چنگاریاں اڑاتے ہیں۔یہاں کی عورتیں بھی ایسی ہیں کہ اپنے سوا کسی پر نظر ہی نہیں ڈالتیں۔ خاص طور پر ہم جیسا ایشین پاس بیٹھا ہو تو۔ یہاں کی عورتوں سے دوستی کرنے کے لیے انگریزی کا جاننا اور نوٹوں کا ہونا ضروری ہے اور ہم دونوں معاملے میں قلاش ہیں۔ بس میں بیٹھو ،ٹرین میں سفر کرو تو ہر عورت کے ساتھ کوئی نہ کوئی بوائے فرینڈ چپکا ہوا پاتے ہیں۔ حسرت ہی رہی کہ کسی سنگل عورت کو اپنی جانب مسکراتا ہوا دیکھ لیں۔ ایک بڑی کمی ٹھیلے والوں کی ہے۔ یہاں راستے اور بازار ٹھیلوں سے پاک ہیں۔ کوئی چھولے بیچتا ہے نہ پاپڑ۔ پان کھانے کے لیے اتنی دور جانا پڑتا ہے کہ دونوں ’کلّے ، بھی بھر لیں تو واپسی تک منہ اور جیب دونوں خالی ہو جاتی ہے۔

بسیں ایسی عالی شان ہیں کی جی نہیں چاہتا کہ اتر کر گھر جائیں۔ کنڈیکٹر کی بیماری سے مبرّا یہ بسیں مجال ہے کہ کبھی کسی کو بغیر ٹکٹ بٹھالیں۔ ڈرائیور اتنے ادب سے استقبال کرتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ اس ایک استقبال کے لیے بار بار بس میں چڑھیں۔ بسوں میں سینئر ز کا اتنا احترام ہوتا ہے کہ اتنا تو ہم اپنے والدین کا بھی نہیں کرتے۔ گھر سے میلوں دور نکل جاؤ ، جوتوں پر ذرا سی دھول نہیں جمتی ، کپڑے ہفتوں میلے نہیں ہوتے۔ ہمارے دھوبی یہاں آ جائیں تو فاقوں سے مر جائیں۔ ہر بلڈنگ میں کپڑے دھونے کی مشین لگی ہوئی ہیں ، سکّے ڈالیے اور دھو لیجئے ، ہاتھ سے رگڑنے کی زحمت نہ صابن گھسنے کی ضرورت۔ بیگمات اسی لیے فارغ رہتی ہیں کہ انہیں شوہر کے کپڑوں اور جوتوں کو دھونے کی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی۔ ہر ڈش پکی پکائی مل جاتی ہے ورنہ پزّا تو ہے ہی۔ پزّا یہاں ایسے کھایا جاتا ہے جیسے ہمارے یہاں گالیاں۔ پاکستان میں ہر منہ گالیوں سے اور یہاں پزّا سے بھرا ہوتا ہے۔ نیا پاکستانی یہاں آتا ہے تو یہی سمجھتا ہے کہ کسی نے روٹی پر رکھ کر سالن دے دیا ہے یہاں ہر ایک کے منہ میں پزا اور بغل میں لڑکی ہوتی ہے۔

کینیڈا کی ایک بُرائی یہ بھی ہے کہ یہاں رات کے نو بجتے ہی سارے بازار اور دکانیں بند ہو جاتی ہیں۔ اگرچہ چوری اور ڈکیتی کا کوئی خطرہ نہیں اس کے باوجود نو بجے کا ایسا احترام ہم نے کہیں نہیں دیکھا۔صرف ریسٹورنٹ اور بار کھلے ہوتے ہیں جہاں آدمی بار بار جائے تو ہوش اور جیب دونوں ٹھکانے لگ جاتے ہیں۔

جو لوگ امریکہ سے آتے ہیں وہ کینیڈا کو گاؤں کہتے ہیں۔ کینیڈا ایسا گاؤں ہے جہاں کوئی چوہدری نہیں مگر پھر بھی سب کے پاس بڑی بڑی کاریں ہیں اور کریڈٹ کارڈ بھی۔ کریڈٹ کارڈ کے بغیر یہاں جو بھی پایا جاتا ہے۔ اُسے انسان نہیں جانور کہا جاتا ہے۔ جیب میں دھیلا نہیں مگر ہزاروں کا کریڈٹ کارڈ ہوتا ہے۔ ہر اسٹور والا ادھار دیتے ہوئے خوش ہوتا ہے۔ پاکستان میں تو ہر دوکان پر ’’ادھار بند ہے ‘‘ کی تختی لگی ہوتی ہے۔ مگر یہاں کیش دو تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ بندہ نیا ہے۔

کینیڈا کے 20 ماہ ہم نے حیرتوں کے سمندر میں گزارے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ان حیرتوں کو فوراً لکھ لیا کروکیوں کہ حیرت ختم ہو گی تو لکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں رہے گا اور ہم بھی لینڈنگ پیپر چھوڑ کر کینیڈا کا پاسپورٹ لے چکے ہوں گے۔

ذکر گھر ، فون نمبر اور نگاہوں کے بدلنے کا

کینیڈا آ کر کئی نئے پیشوں سے تعارف حاصل ہوا ، ان میں سے ایک Moving (موونگ) بھی ہے۔ اگر آپ مکان تبدیل کر رہے ہیں یا دکان چلا رہے ہیں آپ کو اپنے سامان کی شفٹنگ کے لئے ’’موونگ‘‘ والوں کی خدمات حاصل کرنا پڑیں گی۔ کینیڈا میں لوگ مکان اس قدر تبدیل کرتے ہیں کہ کتے ، بلیوں کو گھر تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ویسے بھی یہاں انسان سے زیادہ جانور وفادار ہوتے ہیں۔ گوریاں ہر سال مکان اور بوائے فرینڈز تو بدل لیتی ہیں مگر کتا یا بلی ہمیشہ ایک ہی رکھتی ہیں۔ ہم اپنے محلّے کی ہر عورت کو اس کے جانور کے حوالے سے جانتے ہیں اور ہمیں پوری امید ہے کہ یہ ’’پالتو‘‘ ہمیں بھی اچھی طرح جانتے ہوں گے کیوں کہ جتنی دیر ہم ان کے رکھوالوں کو گھورتے ہیں ، اتنی ہی دیر وہ ہمیں۔

ہم جس اپارٹمنٹ میں دو برس سے رہ رہے ہیں وہاں اتنے دنوں میں تقریباً 90فیصد مکین Movingکی نذر ہو چکے ہیں۔ ہر ماہ کی آخری تاریخوں میں جب داغی میٹریس ، لولی کرسیاں ، پھٹے صوفے ، اُدھڑا ہوا قالین، کٹے تاروں کے ساتھ کمپیوٹر ، مانیٹر ، انٹر نیٹ شیلف اور اسی نوعیت کی دوسری چیزیں آپ کو اپنے اپارٹمنٹ کے ’’کوڑا گھر‘‘ میں نظر آئیں تو سمجھ جائیے کوئی فیملی Moveہو رہی ہے ، اسی رات کسی نئے ایمگرنٹس کو آپ وہی سامان واپس اوپر لاتے بھی دیکھ سکتے ہیں بشرطیکہ آپ رات 12بجے کے بعد جاگنے کے عادی ہوں۔

موونگ ایک بڑا تکلیف دہ اور آزمائشی مرحلہ ہے جو ہر کینڈین کی زندگی میں تیسرے ، چوتھے سال ضرور آتا ہے۔ کبھی لوگ کرائے کی زیادتی کی وجہ سے ’’موو‘‘ ہوتے ہیں ، کبھی ملازمت کی تبدیلی کی وجہ سے اور کبھی اپنا گھر خریدنے کی خوشی میں۔ اس موقع پر Movingوالوں کی ’’مہنگی خدمات ‘‘ سے بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کہ گھر کی پرانی چیزیں وہیں چھوڑ دی جائیں۔

ہر اخبار میں موونگ کمپنیوں کے اشتہارات باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہ انتہائی کم لاگت میں موونگ کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کی خدمات کا ان سے پوچھیے جو انہیں بلاتے ہیں۔ یہ فی گھنٹہ کے حساب سے کام کرتے ہیں اور کام کم کرتے ہیں ، آپ سے زیادہ کروا تے ہیں۔ ہر چیز آپ نے خود سلیقے سے پیک کرنی ہوتی ہے۔ ان کا کام صرف ٹرالی میں لادنا اور اپنے ٹرک پر چڑھوانا ہوتا ہے۔ اس کام کو بھی یہ اتنی سستی سے انجام دیتے ہیں کہ سامان شفٹ کروا نے والوں کا دل ’’ہول‘‘ اٹھتا ہے۔

کئی دوستوں کی موونگ کے حالات دیکھ کر ہم نے آج تک اپارٹمنٹ تبدیل کرنے کی ہمت نہیں کی۔ ویسے بھی آ پ مکان تبدیل کر رہے ہوں تو پڑوسیوں پر آپ کی اصلیت کھُل جاتی ہے۔ پچھلے مہینے ایک صاحب ’’موو‘‘ ہو رہے تھے۔ ان کی پڑوسن بچے کے ساتھ کھڑی خاتون کو کم اور ان کے شوہر کو زیادہ الوداع کر رہی تھیں کہ اچانک بچہ چیخا ’’ امی ، امی! یہ دیکھو ہمارا ٹی وی جو ہم نے پچھلے سال گاربیج کر دیا تھا ‘‘

ایک خاتون نے دوسری خاتون سے کہا میں ’’موو‘‘ کر رہی ہوں ، میرے پاس ایک بہت اچھا ڈائننگ ٹیبل ہے ، تم جتنی قیمت دو گی، میں لے لوں گی۔‘‘ دوسری خاتون اشتیاق سے وہ ڈائننگ ٹیبل دیکھنے گئیں تو ان پر انکشاف ہوا یہ وہی ٹیبل ہے جو وہ پچھلے سال پرانے گھر سے موو کرتے ہوئے وہیں چھوڑ آئی تھیں۔

ہمارے برعکس ہمارے دوست شعیب کو ’’موونگ‘‘ کا بڑا شوق ہے۔ وہ ہر سال گھر تبدیل کرتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ اپنے دفتر میں اپنے کسی دوست کے گھر کا پتہ لکھوا دیتا ہے۔ دفتر سے اسے تنخواہ کے ساتھ ایک دن کی ’’ موونگ‘‘ کی چھٹی مل جاتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ تنخواہ کے ساتھ چھٹی کرنے کا اس کے سوا اس کے پاس اور کوئی طریقہ نہیں۔

ہم نے اپنے ایک دوست کو فون کیا اور پوچھا ’’ تم گھر پر ہو ، میں ملنے آ رہا ہوں ‘‘ دوست نے ہمیں بلا لیا۔ ہم اس کے گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ اس گھر سے تو وہ پچھلے ماہ ہی ’’موو‘‘ ہو چکا ہے۔ ٹیلی فون واحد شے ہے جو ’’موو‘‘ ہونے پر بھی اکثر تبدیل نہیں ہوتا۔ نئے گھر میں گرل فرینڈ سمیت ہر چیز نئی ہوتی ہے۔ سوائے پالتو جانور اور فون نمبر کے۔ ہمارے ایک جاننے والے ہر ماہ نئے قرض داروں سے جان چھڑانے کے لئے اپنا فون نمبر تبدیل کروا لیتے ہیں۔ وہ گھر نہیں بدلتے ، فون نمبر اور نگاہیں بدل لیتے ہیں۔

ہماری بیگم آج کل روزانہ ہمیں جلی کٹی سناتی ہیں ، گرمی کے اس موسم میں ان کی گرم گفتگو کا ٹاپک بس یہی ہوتا ہے کہ دیکھو اس ماہ فلاں نے بھی گھر بدل لیا اور ہم اب تک ایک ہی اپارٹمنٹ میں پڑے ہیں۔ پاکستانی بیوی ہونے کا یہی نقصان ہوتا ہے کہ گھر ’’موو‘‘ ہوتا ہے نہ بوائے فرینڈ۔ بیگم کی گرمیِ گفتار سے تنگ آ کر ہم نے بھی اپارٹمنٹ بدلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آج کل مدثر بیگ ہمارے لئے گھر ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ روز کہتے ہیں ، پانچ فیصد ڈاؤن پے منٹ کا بندوبست کر لیجئے ، نیا گھر حاضر ہے۔ ہم انہیں روزانہ زیرو ڈاؤن پے منٹ کی یاد دلاتے ہیں۔ ویسے بھی ہمیں گھر بدلنے میں کسی دقّت کا سامنا نہیں ہو گا اور نہ ہی موونگ والوں کی خدمات درکار ہوں گی اس لئے کہ ہمارے گھر میں سامان کم اور بچے زیادہ ہیں اور بچوں کا کیا ہے وہ اپنی سائیکلوں پر بیٹھ کر بھی ’’موو‘‘ ہو جائیں گے۔

کینیڈا میں ہمارا سچّا دوست۔ ٹیلی فون

کوئی ہم سے پوچھے کہ کینیڈا میں ہمیں سب سے زیادہ اچھی چیز کیا لگی؟ تو ہمارا فوری جواب ہو گا ’’ٹیلی فون‘‘ ۔ اتنا سستا اور کار آمد دوست ہم نے یہاں کسی کو نہیں پایا۔لوکل کال فری اور ہر مرض کا علاج یہی ’’فون‘‘ ہے۔ اس فون سے یہاں وہ ،وہ کام لیے جاتے ہیں کہ اس کا تصور ہم نے پاکستان میں نہیں کیا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ہم بچوں اور بیوی کی سنیں یا نہ سنیں ٹیلی فون کے پیغامات ضرور سنتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے اس فون کا جس کی پہلی کا ل پر ہی ہمیں کینیڈا آنے کے پانچویں روز ہی نوکری مل گئی تھی۔ہم نے مولانا وصی مظہر ندوی کو فون کیا ، انہوں نے طارق حسین کا نمبر دیا جو انٹر نیٹ ریڈیو شروع کر رہے تھے اور یوں ہماری نوکری شروع ہو گئی۔ یہ اور بات کہ چوتھے مہینے ہم جب نوکری سے واپس گھر لوٹے تو ایک ہی گھنٹے بعد طارق صاحب کا فون آیا۔ بھائی کل سے نہ آنا۔ ہم نے ریڈیو بند کر دیا ہے۔ یوں ہم Hireبھی فون کے ذریعے ہوئے اور Fireبھی۔

اسی فون کے ذریعے ہم نے یہ بھی سیکھا کہ مسی ساگا ٹرانزٹ کو فون کر کے کیسے پتہ کیا جاتا ہے کہ کس روٹ کی بس ہمارے قریبی بس اسٹاپ پر کب آ رہی ہے ورنہ اس سے قبل ہم بس اسٹاپ پر کھڑے کھڑے ’’برفانی مجسمہ‘‘ بن جایا کرتے تھے۔ اسی ٹیلی فون کے ذریعے ہم نے Optionsسے ’’کھیلنے ‘‘ کا طریقہ سیکھا۔ اپنی انگریزی کی استعداد میں اضافہ کیا اور Pardon,pardonکہہ کر کینڈینز کے کان اور اپنے منہ کے درد میں اضافہ کیا۔ کئی گوریوں سے خواہ مخواہ طویل باتیں کیں اور ڈکشنری دیکھ دیکھ کر اپنے علم اور ’’ طلب زن‘‘ میں اضافہ کیا۔ پاکستان میں ایسا کرتے تو صرف بل میں اضافہ ہوتا۔

سب سے زیادہ خوشی تو ہمیں اس وقت ہوئی جب ہم نے ٹیلی فون کنکشن کے لیے Bellوالوں سے رجوع کیا۔ انہوں نے کوئی پیسے لیے بنا ہی تیسرے دن گھر پر فون لگا دیا۔ مار ے حیرانی کے ہم نے تین دن تک فون کو ہاتھ نہیں لگایا کہ خدا جانے یہ بولے گا بھی کہ نہیں۔ پاکستان میں تو مشہور تھا کہ درخواست دادا دے اور فون کی سہولت پوتا اٹھائے۔ مقام شکر کہ اب پاکستان نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ باپ کی درخواست پر بیٹے کو فون مل جاتا ہے۔

پھر مزید حیرت یوں ہوئی کہ دو سال کے عرصے میں ایک بار بھی ’’لائن مین‘‘ کی شکل دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ پاکستان میں ہر فون وائر کے ساتھ وائرس کی طرح ایک ، دو لائن مین جڑے ہوتے تھے۔ ٹیلی فون بعد میں آتا تھا اور لائن مین پہلے آنا شروع ہو جاتے تھے۔ ان کی پہلی تنخواہ محکمہ ٹیلی فون سے ملتی تھی جو دس دن میں صاف ہو جاتی تھی بقایا بیس دن کے گزارے کے لیے ہم جیسے ’’صارفین‘‘ ہی ان کے کام آتے تھے۔ جس گھر میں فون ہو وہاں لائن مین فیملی ممبر کی حیثیت رکھتا تھا بلکہ عزیز رشتے دار اتنی پابندی سے نہیں ملنے آتے تھے جتنا کہ لائن مین۔ انہیں اپنے صارفین سے اتنی محبت ہوتی تھی کہ اگر دس دن فون خراب نہ ہو تو خود خراب کر دیا کرتے تھے تاکہ ’’میل ملاپ‘‘ برقرار رہے۔

اپنے دیس کی ٹیلی فون لائنیں اتنی نازک مزاج ہوا کرتی تھیں کہ بارش کے ایک چھینٹے سے انہیں نزلہ زکام ہو جایا کرتا تھا اور فون میں سے طرح طرح کی کھانسیوں کی آوازیں آنے لگتی تھیں۔ بہو ماں کو فون کرتی تھی تو ریسیور پر ساس کی آواز آنے لگتی تھی۔ الطاف حسین لندن سے نائن زیرو ملاتے تھے تو ’’ بلاول ہاؤس‘‘ سے بے نظیر کا سکریٹری بولنے لگتا تھا۔پرویز مشرف کو فون کرو تو واجپائی کی درد سے کراہتی ہوئی آواز آتی تھی ’’ نہیں نہیں گھٹنے میں درد ہے تو کیا ہوا ، مشرف کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکوں گا ‘‘ ایک کینیڈا کی ٹیلی فون لائنیں ہیں ، مجال ہے جو بارش اور برف باری کا ان پر کوئی اثر ہو۔ بیوی کو فون کرو تو اپنی ہی بیوی کی آواز آتی ہے ،مجال ہے جو پڑوسن ذرا بھی ڈسٹرب ہو۔ پھر ہر گھر میں کالر آئی ڈی کا رواج ہے۔آواز سے پہلے نمبر ڈسپلے ہو جاتا ہے۔ آپ رانگ نمبر پر کسی کو چھیڑ بھی نہیں سکتے۔لوگ فون اٹھانے کی زحمت بھی نہیں کرتے ، میل بکس سے پیغامات سن لیتے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو ان ’’کنوارے ‘‘ دوستوں کا جن کے گھر ہم پہلے پہل آ کر ٹھہرے تھے۔ انہوں نے ہمیں بتادیا تھا کہ 67٭دبا کر فون ملانے سے نمبر ڈسپلے نہیں ہوتا۔ ورنہ ہم نے تو دیکھا ہے کہ پاکستان کے نامی گرامی ’رانگ نمبر ‘‘ کے کھلاڑی برسوں یہاں فون پر چھیڑ خانی اس لیے نہیں کر پائے کہ انہیں 67٭کی خوبی کا علم نہ تھا۔ پھر کال فارورڈنگ کا کرشمہ ایسا ہے کہ آپ گھر سے میلوں دور رہ کر بھی گھر کی کالوں سے باخبر رہتے ہیں۔

گھر کا فون ہی کم تھا کہ موبائل فون معاف کیجیے گا Cell Phoneنے ہمارا دماغ مزید چکرا دیا۔ یوں تو پاکستان میں بھی اب یہ ’’اسٹیٹس سیمبل‘‘ میں شمار ہونے لگا کہ ہر گھر کے آگے پولیس موبائل اور کان کے آگے موبائل فون ضرور ہونا چاہیئے۔ مگر کینیڈا میں تو سیل فون کھلونوں کی طرح بکتے ہیں۔ بچہ گریڈ 10میں آیا ہی نہیں کہ اس کے ہاتھ میں سیل فون اور بغل میں گرل فرینڈ نظر آنے لگتی ہے۔ لوگ چلتے پھرتے ، سفر کرتے ، سیل فون پر اس طرح باتیں کرتے ہیں جیسے ہماری پڑوسنیں دروازوں پر کھڑے ہو کر باتیں کرتی ہیں۔اب تو سیل فونزپر Text Massagingاور Internetکی سہولت نے ہر ایک کو دوسرے سے مزید بیگانہ کر دیا ہے۔ پاکستان میں بسوں اور ٹرینوں کے سفر کے دوران دھکوں کے علاوہ خواتین کو گھورنے کی سہولت عام تھی یہاں لو گ سیل فون کو گھورتے ہیں۔ ساتھ Femaleنہ ہو تو Email دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔

ایک حساب کتاب Toll Freeنمبرز کاہے۔ ہر ادارے نے Toll Free نمبر دے رکھے ہیں جن میں اکثر خواتین کی Softآوازیں سنائی دیتی ہیں کیوں کہ وہ Softwareکے ذریعہ بولتی ہیں۔ ان نمبروں کا بل نہیں آتا اور آپ کوئی کام جا کر کرنے کے بجائے گھر بیٹھے کر لیتے ہیں۔ بل جمع کرانے ہوں ، بینکنگ کا کام ہو ، نوکری کی تلاش ہو ،Sin، ہیلتھ یا کریڈٹ کارڈ بنوانے ہوں ، آپ رشوت دئیے بغیر گھر بیٹھے جملہ کاموں سے فارغ ہو جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم یہاں آ کر کافی اپ ٹو ڈیٹ ہو گئے ہیں۔ پھر یہ کہ گھر کا کمپیوٹر بھی فون کے ذریعے ہی چلتا ہے۔ کمپیوٹر کی مرمت بھی فون پر ہی ہو جاتی ہے۔ قسم قسم کی ’’ڈیلز‘‘ اور نئی آفرز بھی آپ کو فون ہی کے ذریعے ملتی ہیں۔ لانگ ڈسٹینس کی بیل بالکل علیحدہ آواز میں بجتی ہے جسے سن کر ہم امیگرنٹس فون کی جانب یوں بھاگتے ہیں جیسے بھائی ملنے آ گیا ہے ، بہن دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے یا والدین نے آواز دی ہے۔ ان آوازوں ہی کے دم سے ہم سب میں ’’دم خم‘‘ باقی ہے۔

اگر آپ رات کے ایک بجے کے بعد بھی ٹی وی چینلز دیکھنے کے عادی ہیں تو آپ کو پتہ ہو گا کہ ایک ’’خاص‘‘ قسم کی بازاری سہولت بھی انہیں فونز کے دم سے آباد ہے۔ سنا ہے کہ کینیڈینز کے بھاری ٹیلی فون بلوں کا راز بھی یہی فون کالز ہیں۔ بل کو بھاری بنانے کا کام یہاں ’’لائن مینوں ‘‘ کی بجائے یہ ’’ کال وومینز ‘‘ کرتی ہیں۔ ایسے موقعوں پر ہمیں والدین کی وہ نصیحت یاد آ جاتی ہے کہ مغرب کے بعد گھر سے باہر نہ رہا کرو اور جلدی سو جایا کرو۔کینیڈا آ کر پتہ چلا کہ اس نصیحت کے پیچھے کون سا راز پوشیدہ تھا۔جو لوگ Cordlessسسٹم کے تحت والدین کی اس نصیحت کو سن لیتے ہیں ، ان کے بارے میں ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ کینیڈا کی کوئی برائی ان کے نزدیک نہیں پھٹک سکتی۔

’’ ضرور ت ہے‘‘ اس کالم کو پڑھنے والوں کی !

کینیڈا آتے ہی نئے امیگرنٹس کا پہلا کام نوکری کی تلاش میں ’’ضرور ت ہے ‘‘ کے اشتہارات دیکھنا اور Resumeتیار کر کے انہیں فیکس کرتے رہنا ہوتا ہے۔ یہ کام تو کئی سالوں تک چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ امیگرینٹس قناعت کی چادر اوڑھ کر فیکٹریوں کی Continental Shiftمیں سو جاتا ہے یا پھر ٹیکسی ڈرائیور بن کر اپنی منزل بھول کر دوسروں کو منزل تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کر لیتا ہے۔

نوکری کے اشتہارات پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ان اشتہارات میں چند مخصوص جملے ناگزیر ہوتے ہیں۔ آئیے آج میں آپ کو بتاؤں کہ ان جملوں کا اصل مطلب کیا ہوتا ہے ؟

"Competitive Salary"اس کا مطلب ہوتا ہے وہ Salaryجو دوسرے ادارے دیتے ہیں ، اس سے زیادہ مگر کن کٹوتیوں کے ساتھ اس کا اندازہ Salaryلینے والے کو بعد میں ہوتا ہے۔

"Join Out Fast-paced Company"مطلب یہ کہ ہماری کمپنی اتنی فاسٹ اور بڑی ہے کہ آپ کو ٹریننگ دینے کا اس کے پاس وقت ہی نہیں۔ اس لیے خود ہی train ہو کر آئیے یا پھر "Go Train"آپ کو Trainکر دے گی۔

"Casual Work Atmosphere"مطلب یہ کہ اپنی پسند کا لباس خود گندہ کیجیے۔ ہمارے پاس آپ کو پہنانے کو کچھ نہیں ہے۔ اپنے ورکر بوٹ اور ’’ورک گلاسیس‘‘ کی ذمہ داری آپ کی اپنی ورنہ ہاتھ ، پاؤں اور آنکھوں کو کچھ ہو جائے تو ہماری کمپنی کو بدنام نہ کیجئے گا۔

"Some Over Time Required"مطلب یہ کہ ویک اینڈ پر چھٹی کا تقاضا کر کے ہمیں تنگ مت کیجئے نہ ہی عام کام کے دنوں میں گھر جانے کی جلدی کیجئے گا۔ ہاں جس دن کام کی کمی ہو گی ، اس دن ہم آپ کو گھر بٹھادیں تو ناراض مت ہوئیے گا۔

"Duties Will Vary"ہم آپ کو کسی بھی وقت بلا سکتے ہیں۔ آپ اپنا ٹائم ٹیبل نہ بنائیے بلکہ ہمارے ٹائم ٹیبل کے مطابق چلیں ورنہ…!

"Must Have An Eye For Detail" مطلب یہ کہ ہم کسی بھی چیز کی گارنٹی نہیں دے سکتے۔ ہمارے Contractپر دستخط کرنے سے پہلے آنکھیں دھو کر چشمہ لا کر تمام شرائط تفصیل سے 5منٹ میں پڑھ لیں۔ پھر نہ کہئے گا کہ ہمیں خبر نہ تھی۔ اگر آپ کی انگریزی خراب ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بعد میں آپ ہمارا دماغ خراب کریں۔

"Career Minded"یہ جملہ خواتین کے لئے ہوتا ہے لہذا مردوں کو توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ خواتین اپنے دماغ میں صرف Careerرکھیں بغل میں بوائے فرینڈ یا گود میں بچہ رکھنے والی خواتین کی ہمیں ضرورت نہیں کیوں کہ ہمارے منیجرز کے دماغ میں ہمیشہ حسین خواتین بسی ہوتی ہیں۔

"Apply In Person"یعنی اگر آپ بوڑھے ہوئے یا بد صورت نکلے تو کمپنی آپ سے کہہ سکتی ہے کہ جگہ بھر چکی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی شکل پچھلے کسی ایسے ملازم سے ملتی جلتی ہو جس نے ’’یونین‘‘ بنانے کی کوشش کی تھی ، اس صورت میں بھی آپ کوملازمت ملنے کا چانس کم ہو جاتا ہے۔

"Seeking Candidates With a Vide Of Experience"مطلب یہ کہ ہم نے پچھلے ہفتے جن تین ملازمین کو نکالا تھا آپ کو ان تینوں کے برابر کام کرنے کا ہنر آنا چاہیے۔ آپ کو بیک وقت ایک اچھے کار آمد ٹیکنیشن ،ا چھا مزدور اور اچھا کلینر بن کر دکھانا ہو گا۔

"Problems-Solving Skills Amusیعنی ہمارے منیجرز اور کو۔ ورکرز کے بھروسے پر نہ رہیے۔ آپ کا کام آپ کو خود آنا چاہیئے۔ اگر ہمارے ملازمین پہلے سے مشکلات حل کرنے کی صلاحیت رکھتے تو ہم آپ کو بلانے کی زحمت نہ کرتے۔

"Requires Team Leader Ship Skills"یعنی کہ آپ منیجر جیسا کام کریں گے مگر کمپنی سے یہ توقع نہیں رکھیں گے کہ آپ کو تنخواہ یا عزت منیجر جیسی دے گی۔ اگر آپ نظریں نیچی اور زبان دانتوں کے اندر رکھ کر کام کرنے کا ہنر جانتے ہیں تو 14kپر برسوں ملازمت جاری رکھ سکتے ہیں۔

"Good Communication Skills"اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو بولنا اور اپنا کام سمجھانا اچھے سے آتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے باس کی باتیں منہ بند کر کے سن سکتے ہوں اور اچھی بری بات پر صرف سر ہلا سکتے ہوں۔ وہ بھی ’’ہاں ‘‘ کے زاوئیے میں ’’نہ‘‘ کے زاوئیے میں سر ہلنے پر راستہ کمپنی سے باہر کی طرف جاتا ہے۔

اگر آپ نے ان باتوں کا صحیح مطلب سمجھ لیا ہے تو ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ کینڈا میں آپ کے لئے ملازمتوں کا انبار لگا ہے۔

2سالہ نظر۔ کینیڈا پر

کینیڈا میں آئے ہمیں دو سال ہو چکے ہیں ، آمد کی دوسری سالگرہ پر ہم نے کینیڈا کو جس نظر سے دیکھا اور کینیڈا نے ہمیں جس نظر سے ’تاڑا‘ ان تجربات کو آج ہم اپنے قارئین کے ساتھ ’’شیئر‘‘ کرنا چاہتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ ہماری ان باتوں سے اتفاق کریں ، اگر آپ مختلف رائے رکھے ہیں تو ہمیں بذریعہ ای میل ضرور آگاہ کریں ، ہو سکتا ہے کہ کینیڈا کے چند ’’خفیہ گوشے ‘‘ آپ کے پاس بھی محفوظ ہوں تو لیجئے پڑھیئے کہ ہم نے کینیڈا کو کیسا پایا؟

٭ کینیڈا ایک ایسے ملک کا نام ہے جہاں آنے کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک کے لوگ بے چین رہتے ہیں اور جو یہاں رہتے ہیں وہ کینیڈا چھوڑنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔

٭ کینیڈا کی سرکاری کرنسی کا نام کینیڈین ڈالر ہے اور غیر سرکاری کرنسی کا نام ویزا اور ماسٹر کارڈ ہے۔ یہاں کے باشندے کرنسی اور بیوی کا منہ دیکھے بغیر صرف پلاسٹک کارڈز اور ’سلم گرل فرینڈ، کے سہارے پوری زندگی گزار لیتے ہیں۔

٭ کینیڈا میں پانچ چیزیں بہت مشکل سے ملتی ہیں۔ امیگریشن ، ڈرائیونگ لائسنس، کنوارا پن ، نوکری اور رشوت۔

٭کینیڈا بھر میں چھ چیزیں با آسانی دستیاب ہیں ، نوکری سے بر خاستگی( فائیر یا لے آف) طلاق ، بس اور ٹرینیں ، پیزا ، الکحل اور ہر طرح کے فلائرز۔

٭ کینیڈا میں چار سیCکے بغیر گزارا ممکن نہیں ، کار ، کریڈٹ کارڈ، کمپیوٹر، اور کونڈو۔ کونڈو ایسے اپارٹمنٹ بلڈنگ کو کہتے ہیں جس کی بلڈنگ اور قیمت دونوں آسمان سے باتیں کرتی ہیں ان کے کمرے چھوٹے اور کارپارکنگ کی جگہ بڑی ہوتی ہے۔ آسائش کی جملہ چیزیں اپارٹمنٹ سے باہر مگر بلڈنگ کے اندر ہوتی ہیں مثلاً جِم ( ورزش کی جگہ) سوئمنگ پول ، لاکرز اور حسین کلینر(Cleaner)

٭ کینیڈا سیفٹی کے اصولوں پر سختی سے کاربند ہے۔ کار میں سیفٹی بیلٹ ، کارخانے میں سیفٹی شوز ، سیفٹی گلاسز ، اور گھروں میں سیفٹی لاک ، ہر امیگرنٹ آتے ہی سب سے پہلے سیفٹی شوز خریدتا ہے اور تا زندگی اسے حسرت ہی رہتی ہے کہ وہ سیفٹی شوز اور ٹیکس کے بغیر اس ملک میں کچھ کما کے دکھائے۔

٭ کینیڈا میں پولیس ، چور اور ڈاکو لوگوں کو کم ہی تنگ کرتے ہیں۔ یہ ذمہ داری حکومت نے ’’مارگیج‘‘ والوں کے سپرد کر رکھی ہے۔ مارگیج اور سردی یہاں کی وہ دو بڑی بلائیں ہیں جن سے کوئی شہری بچ نہیں پاتا۔

٭ یہاں جو جتنے بڑے گھر کا مالک ہوتا ہے اسے اتنی ہی زیادہ دیر گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے۔

٭ کینیڈا میں چائے کے ’کھوکے‘ کم اور کافی کے ’بھوکے‘ زیادہ ہوتے ہیں۔صبح سویرے ’کافی، پی جا رہی ہے اور شام سویرے ’تھوڑی،۔

٭ کینیڈا میں ’’ دیسی ‘‘ اسے کہتے ہیں جس کے بچے اس سے زیادہ اچھی انگریزی بولتے ہوں ، جو بس اور ٹرین میں سفر کرتے ہوئے کتاب نہیں ، چہرے پڑھتا ہے ، جو تقریبات میں ریڈ وائن پیتا ہے اور کھانے کے لیے حلال چکن ڈھونڈتا ہے۔ امیر اور پرانا دیسی وہ ہوتا ہے جو گرمیوں میں ’’میلے ٹھیلے ‘‘ لگاتا ہے اور اپنے کونسل جنرل کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تصاویر کھنچواتا ہے ، کینیڈا کے انتخابات میں کئی بار ’کھڑے ہو کر ، ’’ بیٹھ ‘‘ چکا ہوتا ہے۔ جو نئے دیسیوں کو ہمیشہ بر ا بھلا کہتا ہے ، اسے پاکستان کی کوئی چیز اچھی نہیں لگتی پھر بھی پاکستانی بیوی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔

٭ کینیڈا کی مساجد میں حاضری کم اور گروسری اسٹورز میں زیادہ ہوتی ہے ، گروسری اسٹورز اس جگہ کا نام ہے جہاں ہر چیز مہنگے داموں ملتی ہے سوائے اردو اخبارات کے جو مفت بٹتے ہیں۔

٭کینیڈا میں پاکستانی اشیاء میں سب سے زیادہ امپورٹ ہونے والی چیز ’’سیاسی خبریں ‘‘ ہیں ، لوگوں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ پاکستان میں ان کے والدین کس حال میں ہیں ؟ مگر وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ پرویز مشرف نے وردی کب اتاری ؟( دھلائی کے لئے ) شریف خاندان کا کون سا رشتے دار کب کس فلائیٹ سے واپس سعودی عرب بھیج دیا گیا ؟ بے نظیر نے آج کا ڈنر کس ملک میں کیا ؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہاں آ کر لوگ اکثر والدین ، بہن بھائی ، عزیز و اقارب اور اللہ سے دور ہو جاتے ہیں ، نزدیک ہوتی ہے تو صرف ’’گرل فرینڈ‘‘ ۔

کینیڈین ڈریسنگ کے سنہرے اصول

دفتر سے تھکا ہارا شوہر گھر آیا ، چہرہ تو اترا ہوا تھا ہی ، کپڑے بھی اتارے اور خود ’’باتھ ٹب‘‘ میں اتر گیا ، تب کہیں جا کر تھکن اتری، اب کھانے کا انتظار ہے ، وقت گزارنے کے لئے کمپیوٹر پر اپنی ’’میلز ‘‘ دیکھنے لگا۔ آدھا گھنٹہ گذر گیا مگر کھانا ندارد۔ بیگم کو آواز لگائی ، بیٹی نے آ کر بتایا ’’ امی ڈریسنگ کر رہی ہیں ‘‘ یکدم غصہ آ گیا ، بھڑک کر اٹھا ’’ یہ کون سا وقت ہے ڈریسنگ کا؟‘‘ بیٹی نے پیار سے سمجھایا ’’امی کھانے کی ڈریسنگ کر رہی ہیں ‘‘ غصہ اور شوہر دونوں جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔

پاکستان میں صرف کپڑوں کی ڈریسنگ تھی ، یہاں ہر کھانے کی۔ یہاں بیگمات صرف ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے نہیں بلکہ کچن میں بھی ڈریسنگ کرتی ہیں چاہے وہ پیزا ہو یا سبزی پلاؤ ، ڈریسنگ کے بغیر کوئی بھی ڈش اچھی نہیں لگتی۔ ہر ڈش 15منٹ میں پک جاتی ہے اور اس کی ڈریسنگ پر گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر گھر میں صرف ایک ’’ساس‘‘ ملتی تھی یہاں کچن طرح طرح کی ’’ساس‘‘ (Sauce)سے بھرا ہوتا ہے۔

یہاں مردوں اور عورتوں کو اپنی ڈریسنگ کی فکر کم ہی رہتی ہے۔ مہینے میں 25دن تو ’’جاب‘‘ پر گزرتے ہیں بقیہ 5دنوں میں 4دن گھر اور بچوں کی صفائی ستھرائی ، دیکھ بھال اور گروسری کی خریدار ی پر صرف ہو جاتے ہیں اب ایک دن کے لیے کیسے ڈریسنگ کرے ؟ ہمیں 3سال ہو گئے۔ پاکستان سے جو کپڑے لائے تھے ، ا ب تک وہ سارے بھی پہن نہیں پائے۔ ناصر کاظمی بہت یاد آتے ہیں ، شاید انہوں نے پاکستانی کینیڈینز ہی کے لیے کہا تھا کہ:۔

نئے کپڑے پہن کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا ، میں باہر جاؤں کس کے لیے

پاکستان میں ہر ایک کا اپنا سنگھار تھا۔ جو ذہین ہوتے تھے وہ ذہن کی ڈریسنگ کر کر کے محترم بن جاتے تھے۔ جو امیر ہوتے تھے وہ قرضے لے لے کر ہڑپ کر کر کے امیر ترین بن جاتے تھے۔ جو غریب ہوتے تھے وہ سوچ سوچ کر اور کڑھ کڑھ کر مزید غریب ترین ہو جاتے تھے۔ جو بے کار پھرتے تھے ، ایک دن ’’ گھر داماد‘‘ بن جاتے تھے۔ جو لاچار ہوتے تھے ، بیویاں ان کی ڈریسنگ کر کے ’’آئیڈیل شوہر‘‘ بنا لیتی تھیں۔ شرفاء اپنی اَنا مار کر گونگے بن جاتے تھے۔ گونگوں کی ڈریسنگ انہیں ’’عوام‘‘ بنا دیتی تھی۔ جو پڑھ لکھ کر اپنی ڈریسنگ کرتے تھے وہ بالآخر بیوروکریٹ بن جاتے تھے۔ جو نہیں پڑھ پاتے تھے ، ان کی ڈریسنگ انہیں ’’اداکار‘‘ بنا دیتی تھی اور جو اداکار ہوتے تھے وہ آخر کار سیاستدان بن جاتے تھے۔

کینیڈا کا باوا آدم بلکہ ’’حوا آدم‘‘ ہی نرالا ہے۔ یہاں ’’ضرورت ‘‘ ہر شیر کو لومڑی بنا دیتی ہے اور ہر امیگرنٹ اس کہاوت پر عمل پیرا نظر آتا ہے کہ کل کے دو سے آج کا ایک بہتر ہے۔ یہاں جو امیگرنٹ بنتا ہے وہ ڈریسنگ کر کے بالآخر ٹیکسی ڈرائیور ، پیزاڈلیور یا پھر کارخانے کا مزدور بن جاتا ہے۔ جو ٹورانٹو میں رہتا ہے وہ پانچ سو ڈالر بچاکر ، باقی سب اپنے گھر کے کرائے پر خرچ کر دیتا ہے۔ پانچ سال تک ذاتی گھر کے خواب دیکھتا ہوا جب بچت کے اصولوں پر چلنے کے لیے بیسمنٹ سے ’’بھر پور‘‘ ایک ٹکٹ میں دو مزے والا گھر خریدتا ہے تو اس کی ڈریسنگ اسے ’’ سپرنٹنڈنٹ‘‘ بنا دیتی ہے۔ پھر وہ شوق اور ضرورت کے ہاتھوں چھٹی کے دن گھر کے نلکے ٹھیک کرتا ہے ، بجلی کی فٹنگ میں اپنی انگلیاں مروڑتا ہے۔

تنخواہ پارٹ ٹائم کے ساتھ تھوڑی بہتر ہو جائے تو اسے کار لینے کی سوجھتی ہے۔ کار کی ڈریسنگ اسے ڈرائیور بنا دیتی ہے۔ اب اس کاکام بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا ، بیوی کو جاب پر لے جانا اور واپس لانا ہے۔ گروسری کے لیے بھاگنا ہے اور مہمان آ جائے تو آدھی رات کو اٹھ کر کسی کنوینس اسٹور سے دودھ لانا بھی ہوتا ہے۔

بیچلر کینیڈا آ جائے تو کسی ایسی ’’دیسی بیگم‘‘ کو ڈھونڈتا ہے جس کے پہلے شوہر کی ’’لائف انشورنس ‘‘ کی رقم تگڑی ہو ، اس سے گھر خرید کر وہ ’’بیسمنٹ ‘‘ کی زیر زمین دنیا سے باہر نکل آتا ہے۔ بیوی کی کار پر اکیلا ’’اسٹرپ کلب‘‘ کے چکر لگاتا ہے اور چار سالوں تک سسرال کے پیسوں سے ’’مارگیج‘‘ بھر بھر کر ایک دن مکان بیچ کر بھاری رقم کے ساتھ انگلینڈ پرواز کر جاتا ہے جہاں پہلے سے اس کی اصلی بیگم بچوں کے ساتھ بلا لی جاتی ہے۔

یہ ہے کینیڈا کی ’’لائف ڈریسنگ‘‘ اگر بہت سے اس ’’ڈریسنگ‘‘ کے سنہرے اصولوں سے واقف نہیں تو کسی بھیڑ کی طرح باپ کو نہیں صرف گھاس کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ ’’کارپوریشن‘‘ بنا کر بھاری قرضہ لے لیتے ہیں اور اخبار نکالتے ہیں اور بالآخر ڈریسنگ کے اصولوں کے تحت ’’بینک کرپسی‘‘ شو کر کے لاکھوں روپوں کے ساتھ پاکستان واپس چلے جاتے ہیں ، اپنے عزیزو اقارب اور دوستوں کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے۔ اور لیجئے شوہر کا انتظار ختم ہوا ، مونگ کی دال آ گئی۔ ڈریسنگ کے ساتھ۔

’’میں جس ’’مکان ‘‘ میں رہتا ہوں اسے ’’گھر‘‘ کر دے

پچھلے تین ہفتے میری زندگی کے اہم ترین دنوں پر محیط رہے۔ ان تین ہفتوں کے دران میں بیمار رہا ، دفتری معاملات میں زیادہ مصروف رہا اور ساتھ ہی ساتھ کرائے کے گھر سے ’’اپنے گھر‘‘ میں منتقل ہونے کے مراحل طے کرتا رہا۔ اس دوران پاکیزہ میں ایک ہفتے کی غیر حاضری رہی اور معذرتی نوٹ کی وجہ سے عیادتی فون کالز کی بھر مار رہی۔ میں ان تمام دوستوں کا بے حد مشکور ہوں جنہوں نے مختصر بیماری میں میری عیادت کر کے ہمیشہ کے لئے میرے دل میں جگہ بنا لی ہے۔

ویسے جگہ بنانا ہی سب سے مشکل کام ہوتا ہے چاہے وہ دل میں ہو ، اپنے پروفیشن میں یا کسی نئے ملک میں۔ ڈھائی سال پہلے جب کینیڈا آیا تھا تو مجھے جو چیز سب سے زیادہ کھلتی تھی وہ تھا یہاں کے اپارٹمنٹس کا کرایہ۔ جتنا کرایہ ہم پاکستان میں سال بھر میں کسی اچھے اپارٹمنٹ کا دیتے ہیں تقریباً اتنا ہی ہم یہاں ایک ماہ میں ادا کر دیتے ہیں۔ یہاں آ کر ہم بیوی سے ’’نیا بچہ‘‘ مانگتے رہے اور بیوی ہم سے اپنا مکان۔ ہمیشہ کی طرح شوہر کی حیثیت سے ہم ناکام ہو گئے اور بیوی کامیاب۔ بیوی کی ایک ہی رٹ تھی کہ میں زندگی بھر کرائے کے مکان میں نہیں رہی ، اب کیوں رہوں ؟

چھ ماہ پہلے ہم نے گھر دیکھنا شروع کیا اور بالآخر تیسرے روزے کے دن ہم ’’اپنے مکان‘‘ میں موو(Move)ہو گئے۔ اس چھ ماہ کے دوران ہمیں طرح طرح کے تجربات ہوئے ،اچھے برے اسٹیٹ ایجنٹوں سے آمنا سامنا ہوا۔ مارگیج ، کیش بیک اور لائن آف کریڈٹ کے گورکھ دھندوں سے واقفیت ہوئی۔ یہ بھی پتہ چلا کہ یہاں کے گھر اندر سے کیا ہوتے ہیں اور باہر سے کیا ؟

میں تو آخر دم تک یہی کہتا رہا کہ ہم کرائے دار ہی بھلے مگر بھلا ہو بیوی کے اصرار اور رئیل اسٹیٹ کی دنیا کے مدثر بیگ کا۔ آخر کار مجھے اپارٹمنٹ سے نکل کر ’’گھر‘‘ کی طرف آنا ہی پڑا۔ مدثر کی جانفشانی اور کار مسلسل نے مجھے ’’سوپر ‘‘ کے چنگل سے نکال کر مارگیج کی بانہوں میں ڈال دیا ہے۔

’’گھر داری ‘‘ کا یہ کارزار بھی خوب ہے۔ آپ جتنے اسٹیٹ ایجنٹوں سے ملتے ہیں ، اتنے ہی طرح کے قصے اور کہانیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ آپ کا اصرار ہوتا ہے کہ ’’زیرو ڈاؤن پے منٹ‘‘ میں گھر دلائیے جیسا کہ تقریباً ہر اسٹیٹ ایجنٹ کے اشتہار میں درج ہوتا ہے اور یہی اصرار آپ کو ایک سنہرے جال میں پھنسا دیتا ہے۔ ایجنٹ ’’کیش بیک‘‘ کی خوبصورت آفر آپ کی نذر کرتا ہے جو بظاہر تو بڑی خوش کن بات لگتی ہے مگر عملی طور پر آپ کی رقم کو لمبے عرصے تک ہڑپ کرنے کی ایک گہری چال ہوتی ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ لیں مگر ایجنٹ ایک بڑے گھر کا خواب اس طرح دکھاتا ہے کہ جیسے سب کچھ دسترس میں ہو۔ ان ہی لمحوں میں آپ اچھا ، بُرا سیکھتے اور سمجھتے ہیں۔

کینیڈا میں گھر خریدنے کا عمل ایسا ہی ہے جیسے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں کوشش کیجئے 5یا 10فیصد ڈاؤن پے منٹ ضرور دیں اس طرح آگے کئی سالوں کی مشکلات سے بچ سکتے ہیں۔

مکان کے لئے بینک کی مارگیج مناسب ریٹ پر حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ مارگیج کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ اپنے لئے مناسب ترین مارگیج کا انتخاب بھی آسان کام نہیں۔ تین سال کی مارگیج ، پانچ سال کی مارگیج ، اوپن مارگیج ان سب کا فرق معلوم ضرور کیجیے۔ پھر مارگیج کی رقم کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی نتھی ہوتی ہیں ، ان کا بھی کھوج لگائیے۔

کینیڈا میں گھر خریدنا آسان ہے مگر گھر خریدنے کے بعد اس کی مارگیج ادا کرنا ، بجلی ، پانی اور گیس کے بل اور انشورنس و ٹیکس کی ادائیگی بر وقت کرنا آپ کے سلیقے اور تنخواہ کا امتحان ہے۔ میں نے جب حسب طریقہ دو ماہ قبل اپنے سوپر کو گھر چھوڑنے کی اطلاع دی تو وہ بڑے زور سے ہنسا اور بولا ’’ مجھے پتہ ہے تم نے گھر خرید لیا ہے۔ اب تم سوپر کی خدمات سے محروم ہو جاؤ گے ، تم کو اپنے گھر کا چھوٹا بڑا ہر کام خود کرنا پڑے گا۔ اب اگر تمہارے واش روم میں گرم پانی نہ آ رہا ہو تو تم کس پر ’’گرم‘‘ ہو گے ؟ تمہاری کھڑکی کے کسی پوشیدہ سوراخ سے ٹھنڈی ہوا آ رہی ہو یا تمہارا ہیٹر صحیح کام نہ کر رہا ہو تو تم بھاگے بھاگے کس سوپر کے پاس جاؤ گے ؟ تم مالک مکان نہیں ، سوپر بننے جا رہے ہو ‘‘ پھر وہ ہنستا چلا گیا۔

آج یہ حال ہے کہ میں اپنے کمرے کا سامان خودسیٹ کرنے کے بعد کمپیوٹر ٹیبل پر بیٹھا حساب لگا رہا ہوں کہ اگلے ماہ بھی ہمارا بیسمنٹ کرائے پر نہ چڑھا تو بقایا رقم کا انتظام کہاں سے کروں گا؟ صبح مجھے بھاگ کراس بینک جانا ہے جس نے اپنی شرائط کے ساتھ لائن آف کریڈٹ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ادھر بیوی پاکستان میں اپنے میکے اور سسرالیوں کو فون کر کے بتا رہی ہے کہ اس نے کینیڈا میں ایک کروڑ( پاکستانی) کی مالیت کا شاندار گھر خرید لیا ہے جس میں باغیچہ بھی ہے اور موٹر گیراج بھی۔ جس کے گھر کی تینوں کھڑکیاں باہر کھلے آسمان میں کھُلتی ہیں۔ وہ یہ بتا رہی ہے کہ وہ مالکہ مکان بن گئی ہے۔ اِدھر میں سوچ رہا ہوں کہ ایک کمپنی کے بجائے اب میں سود خور بینک کا کانپتا ، لرزتا ،نیا کرایہ دار بن گیا ہوں۔

دانتوں کو ان کا جمہوری حق دیجئے

اب تک ہم دانتوں کو بہت حقیر اور معصوم سمجھتے آئے تھے۔ا گرچہ انسانی اعضاء میں جمہوری اعتبار سے دانتوں کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی ہے مگر ایک ’’ منہ‘‘ انہیں جس طرح اپنے اندر دبائے رکھتا ہے ، اس سے ہماراخیال یہی تھا کہ دانت کبھی ، کسی طرح ہمیں ’’زک‘‘ نہیں پہنچا سکتے۔ دانتوں کو ہم پاکستانی ’’عوام‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے تھے جنہیں ایک منہ یا ایک ’’مشرف‘‘ جس طرح چاہے استعمال کر سکتا ہے مگر گذشتہ دنوں ہم پر یہ حقیقت کھلی کہ دانت انتقام لینے پر اتر آئیں تو آپ کی پوری شخصیت کو ہلا کر رکھ سکتے ہیں۔

درد مند تو ہم ہیں ہی ، غریبوں کا درد ، دل کا درد، بدن کا درد، سب کچھ رکھتے ہیں مگر دانت کا درد ہم نے گذشتہ دنوں پہلی بار سہا اور وہ بھی اپنا نہیں بلکہ اپنی بیگم صاحبہ کا۔ بیگم صاحبہ جو ہمیں اکثر دانت پیس کر اور دانت پنجے تیز کر کے دکھایا کرتی تھیں ، اس بار دانت کا درد لے بیٹھیں۔ درد بھی ایسا کہ رات کو اٹھا ، اور صبح تک بیگم صاحبہ کا منہ پھول کر کپّا ہو گیا۔ پہلی بار ہمیں لگا کہ شاید ہم نے بیگم بدل لی ہے مگر دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس گئے تو نام وہی پرانی بیگم کا نکلا۔ وہ تو شکر ہے کہ پرس میں ’’ ڈینٹل بینی فٹ‘‘ کا انشورنس کارڈ پڑا تھا ، اس لیے جیب صرف 20 فیصد ہلکی ہوئی ، اب احساس ہوا کہ کینیڈا میں لوگ دانتوں کے علاج کو اتنا مہنگا کیوں بتاتے ہیں ؟ اگر آپ صرف ایک مصنوعی دانت لگانے جائیں تو سرجری سمیت 300سے 400ڈالر کا خرچہ ہے۔ پھر ڈاکٹر کی اپائنمنٹ ، وقت پر پہنچ کر باری کا انتظار اور یکے بعد دیگرے ایک ڈاکٹر سے دوسرے ڈاکٹر تک رسائی۔ اُف میرے خدا! بیگم کے اس ایک دانت کو کس ، کس نے چیک نہیں کیا۔ پاکستان میں شادی کے لیے لڑکی بھی اتنی بار نہیں دکھائی جاتی ہو گی جتنا کہ ہماری بیگم نے اپنا ایک دانت دکھایا۔

پاکستان میں ہماری لمبی چوڑی فیملی تھی۔ ابا قدرت پر بھروسہ رکھتے تھے اور خاندانی منصوبہ بندی پر سسرالیوں کی طرح گھر کے دروازے بند تھے۔ چنانچہ بھائی بہنوں کی کمی نہ تھی۔ اس کے باوجود ہم نے کبھی دانتوں کے سلسلے میں کسی بھی فرد کو ڈاکٹر سے رجوع کرتے نہ دیکھا۔ ابا ایک ’’خصوصی منجن‘‘ پابندی سے تیار کرتے تھے جسے دانتوں پر لگانا ہم سب کا فرض تھا۔ اس منجن نے ہمارے دانت اتنے مضبوط رکھے کہ ہم نے سب کے دانت کھٹے کئے مگر کبھی اپنے دانتوں پر آنچ نہ آنے دی۔ اکثر ہمارے دل میں خیال آتا تھا کہ کیوں نہ ہم بھی یہ منجن بیچنا شروع کر دیں۔ کئی بار بیروزگاری کے دنوں میں دوستوں کے ساتھ مل کر پلاننگ کی ، چوری چھپے 50-60منجن کے ڈبے تیار کئے ، ایک دوست نے مارکیٹنگ کا ذمہ لیا اور سب ڈبے اٹھا کر چلا گیا ، پیسے آج تک نہیں ملے۔

اب پتہ چلا ہے کہ پاکستانی دانتوں کے بارے میں اتنے لاعلم ہیں۔ ہم تو صرف دانت سے دانت بجاتے ، دانت کچکچاتے ، دانت کاٹی روٹی کھاتے ، دانت توڑتے یا دانتوں تلے انگلیاں دبا لیتے ہیں مگر دانتوں کو اس کے حقوق نہیں دیتے۔ بہت ہوا تو کوئلے سے دانت مانجھ لیے یا کُلّی کر کے کھانے پر بیٹھ گئے۔ کینیڈا میں اگر ایسا کیا جائے تو دانت بیٹھ جاتے ہیں بلکہ منہ سے باہر نکل آتے ہیں۔ یہاں دانتوں کی بیماریاں عام ہیں اور محبت کے اثر میں مسوڑے اور گلے بھی خراب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں دانتوں کے ڈاکٹر کو ڈاکٹر بھی نہیں سمجھا جاتا ، بے چارے سڑکوں کے کنارے چھوٹی سی دکان لے کر دانتوں کی ورکشاپ چلاتے ہیں اور اتنی فرصت میں ہوتے ہیں کہ اکثر موٹر مکینک ان سے ، ان کے اوزار ادھار لے جا کر گاڑیوں کی مرمت کرتے ہیں۔

کینیڈا میں لوگ ملازمت اس شرط کے ساتھ قبول کرتے ہیں کہ انہیں Dental Benifitبھی ملے گا۔ یہاں ہر سال لوگ دانتوں کی صفائی کروا تے ہیں ، کئی طرح کے ٹوتھ پیسٹ ، ڈینٹل چیونگم اور ماؤتھ واش استعمال کرتے ہیں۔ ہر Kissسے پہلے اور بعد میں دانت صاف کرنا نہیں بھولتے۔ دانتوں کی Fillingsان کے معمولات میں شامل ہے۔ شکل ٹیڑھی ہو تو بندہ Coolاور دانت ٹیڑھے ہوں تو نامعقول۔

ہم نے اس سے پہلے کسی کے دانتوں کو اتنے غور سے نہیں دیکھا تھا جتنا اب دیکھتے ہیں۔ ویک اینڈ پر جو بھی ملنے آ جائے اسے دانت صاف کرنے کی نصیحت کرتے ہیں یہاں تک کہ ایک صاحب ہماری بیسمنٹ کرائے پر لینے آئے تو ہم نے انہیں ان کے دانتوں کی وجہ سے بیسمنٹ دینے سے انکار کر دیا۔ موصوف پان کھانے کے عادی تھے۔ ان کے دانت پاکستان کے کسی پان فروش کی دکان کا اشتہار لگ رہے تھے اور ہمیں محسوس ہوا کہ اگر وہ ایک سال ہماری بیسمنٹ میں رہ گئے تو ’’ گُل کاریوں ‘‘ کا وہ نقشہ بیسمنٹ میں ملے گا جو شاید ’’وانا آپریشن‘‘ جیسا کوئی بڑا آپریشن کرنے کے بعد ہی دور ہو سکے گا۔ اب تو ہم سب سے یہی کہتے ہیں کہ 32دانتوں کو ان کا جمہوری حق ضرور دیجئے ورنہ ان میں درد ہونے میں 32سیکنڈ بھی نہیں لگتے۔

برگر کھائیں برگر فیملی بننے کی کوشش نہ کریں

ہماری خواتین اکثر پریشان رہتی ہیں کہ آج کیا پکایا جائے ؟ اسی طرح کالم نویس بھی کبھی کبھی یہی سوچتے رہ جاتے ہیں کہ آج کس موضوع پر لکھا جائے ؟ آج ہمارا بھی یہی حال ہے کہ اب تک یہی سوچ رہے ہیں کہ کس موضوع پر گفتگو کریں۔خبریں تو بہت سی ہیں مگر اظہار خیال کے لیے کوئی سرا نہیں مل رہا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے تک یہ سوچ رہے تھے کہ آج میکڈونلڈ والی خبر کو موضوع بنائیں۔ خبر کچھ یوں ہے کہ مشہور زمانہ برگر کمپنی میکڈونلڈ کے چیئرمین دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ آنجہانی کی جگہ جن صاحب نے پُر کی ہے ان کا نام ہے چارلی بل اور موصوف صرف ۴۳ سال کے ہیں۔ اس کم عمری میں اتنی بڑی کمپنی کا چیئرمین بن جانا کوئی معمولی بات نہیں۔ ہم نے ذرا تفصیل سے چارلی صاحب کی زندگی کے اوراق پلٹے تو پتہ چلا کہ انہوں نے تو کامیابی کے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔ چارلی بل ابھی پندرہ سال ہی کے تھے کہ انہوں نے سڈنی ، آسٹریلیا میں واقع میکڈونلڈ ریسٹورنٹ میں پارٹ ٹائم معمولی نوکری سے اپنے کیئریر کا آغاز کیا تھا۔ ۹ا سال کی عمر میں انہوں نے کمپنی کے سب سے کم عمر اسٹور منیجر بننے کا اعزاز حاصل کیا ، ۲۷ سال کی عمر میں وائس پریزیڈنٹ بن گئے اور ۲۹ سال کی عمر میں انہیں میکڈونلڈ آسٹریلیا کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کر لیا گیا۔ ایسی شاندار ترقی قسمت ہی سے کسی ، کسی کو ملتی ہے۔ نجانے چارلی جی میں کون سی ایسی خوبیاں ہیں کہ وہ کمپنی کی نظروں میں سما گئے اور آج پوری کمپنی کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ چارلی اعلیٰ دماغ کا حامل ، پھرتیلا ، محنتی انسان ہے۔

محنت تو ہم سب بھی کر رہے ہیں۔ جو جو کینیڈا آیا ہے ، محنت اور حلال ہی کھا رہا ہے ، میکڈونلڈ کے برگر نہ سہی ، گھر کی دال روٹی تو ’’توڑ ‘‘ ہی رہا ہے۔ سب کے من میں یہی ہے کہ وہ ترقی کریں اور جہاں آج ’، مزدور‘‘ ہے وہاں ’’ افسر‘‘ بنے کیوں کہ ’’افسر شاہی‘‘ ہی ہم سب کا ، من پسند کھانا ہے۔ چارلی بل کی خبر پڑھ کر ہمت بڑھتی ہے کہ شاید کسی دن ہم سب کے دن بھی پھریں۔ کینیڈا نے تو ہم سب کے کیریر کو ریورس گیئر میں ڈال دیا ہے۔ پہلے کیا تھے ، اب کیا ہو گئے ؟ مگر ڈھارس بندھتی ہے ان بہت سوں کو دیکھ کر جو ہم سے پہلے آئے تھے اور دس ، بیس سال محنت کر کے آج زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں مگر دوسری جانب دیکھیں تو ترقی کرنے والوں سے بھی زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو بچوں کے مستقبل او راعلیٰ تعلیم کے خواب میں اپنا کیرئیر ، سائیکل کاکیرئیر بنا گئے۔ صبح اٹھتے ہیں ، میلے کپڑے پہنتے ہیں اور کارخانوں میں جاکر جُت جاتے ہیں۔8ڈالر سے 12ڈالر فی گھنٹے کی نوکری اور وقت کا پہیہ ، زندگی گزرتی چلی جا رہی ہے۔ بچے اسکول ، اور ہائی اسکول سے یونیورسٹی میں پہنچ گئے۔ جمع پونجی جھونک کر ، تعلیمی قرضے لے کر بچوں کو پڑھایا لکھایا ، ان کی اچھی ملازمت کے لیے گڑگڑا کر دعائیں کیں اور جب بچے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے تو ماں باپ ہی ان کو کھٹکنے لگے۔ یہ ایک نہیں ، سینکڑوں گھروں کی کہانیاں ہیں ؟ باپ انجینئر تھا ، ڈاکٹر تھا ، وکیل تھا۔ بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کینیڈا آیا اور سیکورٹی گارڈ بن گیا۔ آج دس پندرہ سال بعد اس کی اپنی ’’سیکورٹی‘‘ نہیں۔ ایک باپ سات بچوں کو پال پوس لیتا ہے ، سات بچے ایک باپ کا خیال نہیں رکھ سکتے۔

میں جدھر جاتا ہوں ، قسم قسم کی کہانیاں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کہیں والدین کا دکھ ہے ، کہیں عورت کا ستم ہے ، کہیں مرد کی بے وفائی ہے ، کہیں جوان بچیوں کی باغیانہ روش ہے۔جو یہاں آ چکے ہیں وہ سوچ رہے ہیں کہ وہ یہاں کیوں آئے تھے ؟ اور جو آنا چاہتے ہیں ان کا تانتا بندھا ہے جیسے امریکہ اور کینیڈا میں ڈالرز کا باغ لگا ہے۔ آنا ہے اور اچھل کر ڈالر توڑنا شروع کر دینا ہے

ایسے میں چارلی بل کی کہانی پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کاش میں بھی گوری چمڑی ہوتا اور آسٹریلیا میں پیدا ہوتا۔ عزت چمڑی کی ہے ، راحت چمڑی کی ہے۔حکمرانی چمڑی کی ہے۔ اپنے وطن میں تو اگر چپراسی بھرتی ہو جاؤ تو ساری زندگی چپراسی بن کر جینا پڑتا ہے۔ افسر بن جاؤں تب بھی راحت اس وقت تک نہیں ملتی جب تک رشوت اور قرضوں کا جنجال نہ پال لیا جائے۔ اب ہم میں سے جو ۴۳ سال کی عمر میں میکڈونلڈ میں عام کارکن کی حیثیت سے کام شروع کرتے ہیں آخر وہ کب اور کس عمر میں اسٹور منیجر بننے کا اعزاز حاصل کریں گے ؟ آخر کو یہ عہدہ بھی تو چمڑی کی فرمائش کرتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ صرف برگر کھائیں ، برگر فیملی بننے کی کوشش نہ کریں۔

موسم کی ’’خبر ‘‘ سنئے ورنہ موسم آپ کی ’’خبر ‘‘ لے لے گا

پاکستان میں تھے تو ہم محکمہ موسمیات کو نجومیوں کی ’’ملازمت گاہ‘‘ سمجھتے تھے کیونکہ موسم کے بارے میں جو بھی پیش گوئی محکمہ موسمیات والے کرتے تھے وہ کبھی پوری نہیں ہوتی تھی۔ہم ٹی وی پر موسم کی خبریں ، خبریں پڑھنے والی کی وجہ سے دیکھا کرتے تھے۔ ایک بار ’’موسم والی ‘‘ آنکھوں کو بھلی نہ لگی تو ہم نے دو سال تک ’’موسم کا حال‘‘ دیکھا ہی نہیں۔

کینیڈا آئے تو پتہ چلا کہ یہاں تو ہر گھنٹے موسم کا حال معلوم کرنا پڑتا ہے۔ یہاں موسم کا مزاج ہماری فلمی ہیروئنوں کی طرح ہے ، پل میں تولہ، پل میں ماشہ۔ پہلے پہل تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ لوگوں کو یہ کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ آج بارش ہو گی۔ اچھی خاصی صحت مند ’’دھوپ‘‘ نکلی ہوئی اور لوگ ہیں کہ ہاتھوں میں چھتریاں تھامے گھوم رہے ہیں۔ آدھے ہی گھنٹے میں وہ بارش ہوئی کہ ہم بھیگتے اور منہ دیکھتے رہ گئے۔ اچھی خاصی گرمی میں نکلے ،شام ہوتے ہی وہ ٹھنڈی ہوا چلی کہ ہر ایک نے بیگ سے نکال کر ایک ہلکا گرم کوٹ جسم پر ’’بچھا ‘‘ لیا صرف ہم دانت بجاتے اور ہاتھ مسلتے رہ گئے کیوں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ شام کو اچانک سردی پڑنے والی ہے۔ آہستہ آہستہ سمجھ میں آیا کہ یہاں گھر سے نکلنے سے پہلے ابّا کی تنبیہ کے مطابق آیت الکرسی پڑھنا اور پیشتر اس کے موسم کا حال سننا ضروری ہے۔

انگریزوں کے بارے میں سنا تھا کہ ان کی گفتگو اکثر موسم کے احوال سے شروع ہوتی ہے۔ جسے آپ جانتے نہیں ، پہچانتے نہیں ، اس سے بات چیت شروع کرنے کا بہتر طریقہ یہی ہے کہ آپ موسم کا حال بتانا شروع کر دیجئے۔ ’’آج تو بڑا پیارا موسم ہے ، صبح سے سورج چمک رہا ہے ‘‘ یہ سنتے ہی انجان ہم سفر بولنا شروع کر دے گا ’’ ہاں واقعی مگر کیا کروں جاب پر جا رہا ہوں ، جس دن موسم اچھا ہو میں ملازمت پر ہوتا ہوں ‘‘ لیجئے انجانا پن دُور، اب جو چاہے بولتے جائیے۔

کینیڈا والے گرمیوں پر ایسے مرتے ہیں جیسے ہم پاکستانی ڈالر یا لڑکی پر مرتے ہیں۔ عورتوں کے سارے فیشن گھومنا ، پھرنا تفریح سب کچھ موسم سے مشروط ہے۔ سردیوں میں عورتوں کو دیکھو تو ایسا لگتا ہے کہ بے لباسی محض ان پر تہمت ہے اور گرمیاں آتے ہی سورج اور بدن دونوں کی چمک سے آنکھیں خیرہ ہونے لگتی ہیں۔ بسوں ، ٹرینوں ، اور ’’مال‘‘ میں گھومنے پھرنے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ دن شیطان کی آنت کی طرح طویل ہو جاتا ہے۔ دس بجے کہیں جا کر مغرب ہوتی ہے سوتے ہوئے خراٹے اور ایئر کنڈیشنڈ کی آواز ساتھ ساتھ چلتی ہے۔

اس کے برعکس سردی دن کو بھی ایسے سکیڑ لیتی ہے جیسے کاٹن کی چادر دھلائی کے بعد رومال بن کر نکلتی ہے۔ سارا گھومنا پھرنا بند ہو جاتا ہے۔ لوگ پانچ بجتے ہی گھروں میں دبک لیتے ہیں۔ باہر صرف اور صرف ٹھنڈی ہوا اور برف باری کا راج ہو جاتا ہے۔ یہ سردیاں اتنی طویل ہوتی ہیں کہ اکثر مالدار کینیڈین یہ وقت گرم ملکوں میں جا کر گزارتے ہیں۔

بارش کے دنوں میں ایسی بارشیں ہوتی ہیں کہ ہر طرف جل تھل نظر آتا ہے مگر صرف بارش کے ساتھ۔ ادھر بارش رکی، پتہ ہی نہیں چلتا کہ پانی کدھر گیا۔ اتنا اچھا ڈرینج سسٹم ہے کہ جی کرتا ہے کہ اپنے ملک کی میونسپلٹی والوں کو لا کر دکھلایا جائے۔

ان سارے موسموں کے بیچ خزاں بھی آتی ہے۔ اور جب آتی ہے تو سارے شہر میں پتّوں کا بستر بچھادیتی ہے۔ اس پت جھڑ کی اپنی ایک خوبصورتی ہوتی ہے۔ گھر والوں کے ساتھ میونسپلٹی پتّے سمیٹتی ہے اور پھر بہار کے کیا کہنے برف کی چادر پھینکوتو اندر سے گھاس کی ہریالی نکلتی ہے۔ ہر درخت ہرا بھرا ہو جاتا ہے۔ چاروں طرف رنگ برنگ پھول ہی پھول نظر آتے ہیں۔ لوگ اپنے گھروں کے لان میں پھول پودے اگاتے ہیں۔ جگہ جگہ نرسریاں کھل جاتی ہیں ہر کوئی بیلچہ لیے زمین ہموار کر رہا ہوتا ہے۔ گھاس کاٹی جا رہی ہوتی ہے اور شام کو جسے دیکھو پارک میں یا اپنے ’’بیک یارڈ‘‘ میں نظر آتا ہے۔

ان سارے موسموں کے بیچ محکمۂ موسمیات کا کمال اپنی جگہ ہے۔ موسم کی تبدیلی کی ہر خبر یوں دیتا ہے جیسے وہ اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا ہے۔اگر محکمہ کہہ دے کہ کل سہ پہر کو بارش ہو گی تو واقعی سہ پہر ہوتے ہی رِم جھم شروع ہو جاتی ہے۔ یہاں بچوں کو ابتدائی جماعتوں میں ہی تربیت دے دی جاتی ہے کہ کس طرح ہر پل موسم کی خبروں پر نظر رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیگرنٹس کے بچے اپنے والدین کو ہر پل بتاتے ہیں کہ آج گرم کوٹ پہن کر نکلنا ہے ، آج چھتری ساتھ رکھنی ہے ، آج برف والے جوتے پہننے ہیں وغیرہ وغیرہ۔وہ بالغان جو ’’لنک کلاس‘‘ میں جاتے ہیں انہیں بھی موسم کا حال سننے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

سچ تو یہی ہے کینیڈا میں موسم کا حال جانے بغیر گھر سے باہر نکلنا ایسے ہی ہے جیسے اپنے آپ کو چور ڈاکوؤں کے حوالے کر دینا۔ جو موسم کی خبریں نہیں سنتے ، موسم ان کی ایسی خبر لیتا ہے کہ چند تھپیڑوں کے بعد وہ خود ہی راہ راست پر آ جاتے ہیں۔ کیا آپ بھی ان میں سے ایک ہیں ؟

وہ آئے ہماری ’’بیسمنٹ‘‘ میں خدا کی قدرت ہے

کینیڈا آنے والوں کی پہلی BaseعموماًBasementہوتی ہے۔ بیسمنٹ اپارٹمنٹ ایسے گھر وں کو کہا جاتا ہے جو گھر کے نچلے حصے میں زمین کے اندر واقع ہوتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اکثر امیگرنٹس کینیڈا آ کر ’’انڈر گراؤنڈ‘‘ ہو جاتے ہیں۔ ایشیائی ممالک سے آنے والوں کے لیے ایسے گھر حیران کن ہوتے ہیں۔ ان گھروں کے کرائے اپارٹمنٹ سے کم اور سہولتیں تقریباً یکساں ہوتی ہیں۔ یہ بیسمنٹ بآسانی مل جاتے ہیں اور کرائے داروں سے زیادہ ’’پوچھ گچھ ‘‘ نہیں ہوتی۔

امیگرنٹس اپنی کینڈین زندگی کے ابتدائی دو تین سال ان ہی بیسمنٹس میں گزارتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہم ایک ایسے صاحب سے ملے جو کئی بیسمنٹس کے مالک ہیں اور انہیں کرائے پر دینے کے ماہر۔ ان سے ہماری گفتگو کافی دلچسپ رہی ہم نے ان سے مذاقاً کہا کہ اگر پاکستان کی چند مشہور شخصیات کینیڈا آ جائیں اور بیسمنٹ کرائے پر لینا چاہیں تو وہ انہیں کن شرائط پر کرایہ دار بنائیں گے۔ جواباً انہوں نے جو کچھ کہا وہ آپ سب بھی پڑھ لیں۔

پرویز مشرف:۔ میں بہت زیادہ جمہوری آدمی ہوں اگر پرویز وردی اتار کر آئیں گے تب ہی میں انہیں اپنی بیسمنٹ کرائے پر دوں گا۔ اس کے علاوہ میں ان سے پہلے طے کروں گا کہ وہ یہاں سے کوئی کال امریکہ نہیں کریں گے۔ مولویوں اور سیاست دانوں کے خلاف بیان نہیں جاری کریں گے۔ واجپائی کو کھانے پر نہیں بلائیں گے اور اگر نواز شریف مجھ سے ملنے آئے تو اسے اپنے خلاف سازش نہیں سمجھیں گے۔

نواز شریف:۔ نواز شریف سے پہلے طے کروں گا کہ وہ زیادہ کھانے نہیں پکائیں گے۔ کینیڈا میں اسٹیل مل لگائیں گے تو اس کا منیجر مجھے بنائیں گے۔ کوئی خاندانی میٹنگ ہو تو اس کا انتظام کسی ہوٹل میں کریں گے۔ شہباز شریف ملنے آ رہے ہوں گے تو پہلے اس کی اطلاع مجھے کریں گے۔ کارکنوں سے نعرے نہیں لگوائیں گے۔

بے نظیر بھٹو :۔ بے نظیر اس وقت تک میری بیسمنٹ کی کرائے دار رہ سکتی ہیں جب تک کہ آصف زرداری رہا نہ ہوں۔ ان کے تینوں بچوں کے لیے ’’آیا ‘‘ کا انتخاب میں کروں گا۔ مجھے جب بھی کار کی ضرورت ہو گی بے نظیر اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ اپنی کار مجھے ڈرائیو کرنے دیں۔ ان کی سالگرہ کا کیک میں خود لاؤں گا۔ ہر ماہ انہیں میرے ساتھ ایک تصویر کھنچوانی ہو گی۔

الطاف حسین:۔ کارکنوں سے خطاب کی اجازت بیسمنٹ سے نہیں ہو گی۔ اپنی سیکورٹی گارڈز کا انچارج مجھے بنائیں گے۔ ایم کیو ایم کے سالانہ تہنیتی اور تاسیسی کارڈ ز پر اپنے ساتھ میری تصویر بھی چھپوائیں گے۔ منحرف کارکنوں کو میری دوسری بیسمنٹ کرائے پر دینے پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔

عبدالستار ایدھی:۔کھالیں بیسمنٹ میں رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ بلقیس ایدھی کے علاوہ کوئی اور خاتون بغیر میری اجازت ملنے نہیں آ سکیں گی۔ تمام بیانات اور اخباری اشتہارات مجھ سے لکھوائیں گے۔ پاکستان جانا ہو تو کینیڈین ایدھی سینٹر کا قائم مقام انچارج مجھے بنا کر جائیں گے۔ روزانہ واشنگ مشین سے کپڑے دھوکر پہنیں گے۔

عمران خان:۔ بیگم کے ساتھ رہیں گے تو انہیں روزانہ دو وقت کھانا مفت فراہم کیا جائے گا صبح دس بجے تک بستر اور بیوی سے الگ ہونا پڑے گا۔ تحریک انصاف کی فنڈ ریزنگ کے لیے جتنی بھی ڈنر پارٹیز کا اہتمام کریں گے اس کا ’’مفت پاس ‘‘ مجھے دینا پڑے گا۔بانڈ پیپر پر لکھ کر دینا پڑے گا کہ وہ جب بھی پاکستان کے وزیر اعظم بنے ، مجھے وزیر خارجہ بنائیں گے۔

ریما:۔ فنانسر کے علاوہ کوئی اور مرد ملاقات کے لیے بیسمنٹ میں نہیں آئے گا۔صبح اٹھتے ہی ’’بیڈ ٹی‘‘ مجھ سے طلب کریں گی۔تمام فلمی شوٹنگز کا شیڈول میرے پاس ہو گا۔رات دو بجے کے بعد گھر آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔جب تک کرائے دار ہیں گی،شادی کی اجازت نہیں ہو گی۔

اداکار ندیم:۔ پکا وعدہ کرنا ہو گا کہ اگلے دو سال کے دوران دو فلموں میں بطور ’’ہیرو‘‘ آنا چھوڑ دیں گے۔ برسوں سے بیانات کی حد تک شروع ہونے والی فلموں کو چھ ماہ کے اندر شوٹنگز پر لے آئیں گے۔ شبنم کو بھی کینیڈا بلوالیں گے اور کینیڈا میں نئی فلم کی شوٹنگ شروع کر دیں گے جس کا ہیرو ان کا نہیں بلکہ میرا بیٹا ہو گا۔

احمد فراز :۔ احمد فراز روزانہ مجھے ایک غزل سنائیں گے اور مجھ سے بھی ایک غزل روزانہ ضرور سنیں گے۔ LCBOجاتے ہوئے اپنے تمام کریڈٹ کارڈز میرے پاس رکھوا کر جائیں گے۔ کسی خاتون کا فون آیا تو ایکسٹینشن پر مجھے بھی فون سننے کی اجازت ہو گی۔ کینیڈا سے باہر کے تمام مشاعروں کے لیے مجھے بھی فری ائیر ٹکٹ لے کر دیں گے۔

مولانا طاہر القادری:۔کینیڈا میں جو بھی فتوی ٰ دیں گے اس کی ایک تحریری سند مجھے دیں گے۔ کینیڈا میں جو بھی چندہ جمع کریں گے اس کا دس فیصد مجھے ملے گا۔ بجلی کم سے کم استعمال کریں گے۔ کارکنوں کے گھر دعوت پر جاتے ہوئے مجھے بمع فیملی لے جانا نہیں بھولیں گے۔

جانوروں کا ہیلتھ کارڈ کیوں نہیں ہوتا !

ایک خبر کے مطابق ہمسایوں کی شکایت پر حکومت نے کیلی فورنیا کے شہر بیوری ہلز کے سابق میئر کے گھر سے 165پالتو جانور نکال دئیے ہیں جن میں 135کتّے اور 30بلیاں شامل ہیں۔ جو میئر جانوروں سے اتنی محبت کرتا ہو وہ انسانوں کا کتنا خیال رکھتا ہو گا ، اس کا اندازہ خبر پڑھنے والے بخوبی لگا سکتے ہیں۔ ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ اگر یہ میئر جنگل کی طرف نکل جائیں تو بہت جلد جنگل کے میئر بلکہ گورنر اور صدر بھی بن جائیں گے۔ ایک وقت آئے گا کہ وہ جنگل میں صدارتی پیڑ پر بیٹھے شیر کی گوشمالی کر رہے ہوں گے اور ہاتھی کی سونڈ میں ہاتھ ڈالے اسے گُدگُدی کر کے ہنسا رہے ہوں گے۔

امریکیوں کے بھی کیا کہنے ؟ وہ امریکیوں کے سوا کسی کو انسان نہیں سمجھتے اور ان سے جانوروں سے بد تر سلوک کرتے ہیں اور جانوروں کے ایسے ناز اٹھاتے ہیں جیسے ان سے کوئی آبائی رشتہ ہو۔ وہ مزاح کے موڈ میں ہوں تو کتّے کے کارٹون بنا کر اس پر ’’پاکستان‘‘ لکھ دیتے ہیں اور دشمنی پر اتر آئیں تو صدام حسین کو انڈر وئیر پہنا کر اس کی تصویر اخبار کے سرورق پر چھاپ دیتے ہیں۔ کتوں اور بلیوں کے لیے عالی شان اسپتال بنا دیتے ہیں اور افغانستان اور عراق کے انسانوں کو بہ یک جنبش گولی سڑکوں پر خون میں نہلا دیتے ہیں۔ کاش یہ میئر ہی امریکہ کے صدر بنائے جائیں تاکہ اپنے پالتو جانوروں کی طرح انہیں عراقیوں اور فلسطینیوں کا خیال آ جائے۔

اس جانور دوستی میں کینیڈا بھی امریکہ سے کم پیچھے نہیں۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق کینیڈنیز اپنی تنخواہ کا 13فیصد اپنے پالتو جانوروں پر خرچ کرتے ہیں۔ اگر اس رقم کا ایک چوتھائی بھی دنیا کے غریب انسانوں کو مل جائے تو دنیا سے بھوک اور افلاس کا خاتمہ چند سالوں میں ہو سکتا ہے۔ ہم نے تو کینیڈا میں جانوروں سے محبت کے ایسے ایسے نظارے دیکھے ہیں کہ بس دل چاہتا ہے کہ انسان سے جانور بن جائیں اور جانوروں میں بھی ’’کتّے ‘‘ جیسا خوش قسمت کوئی نہیں۔ اگر پطرس بخاری امریکہ اور کینیڈا کے کتے دیکھ لیتے تو اپنے ’’کتّوں ‘‘ پر وہ معرکۃ آلارا ء مضمون لکھنا بھول جاتے جنہیں ہم نے نویں جماعت کی کتاب میں بار بار پڑھا اور پڑھ کر ایسے مرعوب ہوئے کہ سالوں تک کتّے کو منہ نہیں دکھلایا اور جہاں کتّا دیکھا ، دور سے ہی لاحول پڑھی اور اپنا راستہ بدل لیا۔

کچھ دن پہلے ہی کی بات ہے ہم نے بس میں ایک حسینہ دل نواز کو دیکھا جو اپنے گود میں بیٹھی اپنی کتیا کو یوں بوسے دے رہی تھی جیسے وہ اس کی اکلوتی اولاد ہو۔ وہ بوسے دیتی جاتی اور ٹشو پیپر سے اپنے آنسو پونچھتی جاتی۔ پاس بیٹھی ہماری ایک دیسی خاتون سے رہا نہ گیا انہوں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اس سے پوچھ ہی لیا کہ بوسے دینا تو سمجھ میں آتا ہے مگر یہ رونا سمجھ سے باہر ہے۔ حسینہ دل نواز نے انہیں بتایا کہ ان کی کتیا نے غلطی سے زہر پی لیا تھا ، بڑی مشکل سے جان بچی ہے۔ چونکہ جانوروں کا ہیلتھ کارڈ نہیں ہوتا چنانچہ کتیا کی زندگی بچانے کے لیے اسے اپنے کریڈٹ کارڈ سے 1200ڈالر خرچ کرنے پڑے۔ مگر یہ غم کے آنسو نہیں ، خوشیوں کی پھوار ہے کہ میری کتیا کی جان بچ گئی۔

دیکھا جائے تو 1200ڈالر کمانے کے لیے اس کینیڈا میں امیگرنٹ مہینے مہینے بھر کارخانوں کی بھٹی میں اپنا خون جلاتا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ کتّے اور بلیّاں جو کینیڈا میں پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں نہ گھر کا رینٹ دینا ہوتا ہے اور نہ ہیٹ کا بل۔ وہ کار کی انشورنس دئیے بغیر ٹھاٹ سے سیر سپاٹے کرتے پھرتے ہیں۔ ہر بڑے اسٹور میں ان کے اسپیشل کھانوں اور ضروریات کا علیحدہ سیکشن ہوتا ہے جس کی ادائیگی بھی ان کے مالکان کرتے ہیں۔ وہ کبھی جاب سے فائر نہیں ہوتے ، نہ ہی انہیں بیڈ کریڈٹ کا خطرہ ہوتا ہے۔

ہماری پڑوسن کی بلّی کو بیڈ سے کودتے ہوئے ٹانگ پر ذرا سی چوٹ آ گئی تو انہوں نے 9-11کو کال کر لیا۔ بلی ایمبولینس پر اسپتال گئی اور دو ہفتے تک مالکن کی گود میں بیٹھی پڑوس کے کتے سے اٹکھیلیاں کرتی رہی۔ ہم تھرڈ ورلڈ کے لوگ ان جانوروں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے محترم صدر ، وزیر اعظم اور وزرا ، بینک بیلنس اور خوشیوں میں جھول رہے ہیں اور ہمارے بچے ٹاٹ اور فرش پر بیٹھے پڑھائی کرتے ہیں۔ دوائی نہ ملنے پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔اسپتالوں ، سڑکوں پر ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔ مہنگائی کی اذیت ہمیں جینے نہیں دیتی۔ روٹی کپڑا اور مکان کا ہم صرف نعرہ سنتے ہیں۔ سیلاب ، طوفان اور قدرتی آفات ہمیں دم نہیں لینے دیتے۔ ایسے میں امریکہ کا میئر اپنے گھر میں 165جانور پالتا ہے تو ہمیں رشک آتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ہم امریکہ کے ’’کتّے ‘‘ بن جائیں۔ ہمارے گلے میں پٹاّ ہو اور مالک غذائیت سے بھری ٹرے ہماری نذر کر رہا ہو ہم میں سے بہت سے امریکہ کے ’’کتّے ‘‘ ہی ہیں۔ اس کے لئے وفاداری کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ’’نذرانہ ‘‘ وصول کر کے ہر دم خوش و خرم رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی کارٹونسٹ ہمارا ’’کارٹون ‘‘ بنا دیتا ہے تو ہم غصہ کر جاتے ہیں مگر یاد رہے مالک اپنے کتوّں کا بھونکنا پسند نہیں کرتے۔ اگر آپ بھونکنے کی آزادی چاہتے ہیں تو پھر جنگل کی طرف نکل جائیے۔ انسانوں کی دنیا سے جانوروں کا جنگل زیادہ مہذب اور پُر سکون ہے بشرطیکہ آپ کے پاس پستول نہ ہو۔

بکرے ، مشرف اور الطاف … ان کے بغیر عید کیسی!!

بکرے ، مشرف اور الطاف حسین کو دیکھے اب تو کئی سال ہو چکے۔ کینیڈا آ کر ہم نے کیا کھویا ، کیا پایا؟ اس کا تجزیہ کرنے بیٹھیں تو اوّل الذکر تینوں جاندار ہمیں بے حد یاد آتے ہیں۔ کیا دن تھے وہ بھی، مشرف اور الطاف ہمارا اوڑھنا بچھونا تھے۔نیوز ڈیسک پر بیٹھے ہوں ، کھانے کی میز پر یا کمپیوٹر ٹیبل پر ان دونوں کے بنا ہمارا گزارا نہ تھا۔ صبح آنکھ کھلتے ہی ہم اخباروں کی چادر اوڑھ لیا کرتے تھے اور اس چادر کی ہر پرت پر ان دونوں کے کارہائے نمایاں ہی نمایاں نظر آتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ان دونوں کے بغیر ہم چل سکتے ہیں نہ ہماری عوام۔

الطاف حسین تو برسہا برس سے روزانہ کراچی والوں کے لیے کوئی نہ کوئی بیان لے کر حاضر ہو جایا کرتے تھے جو چار یا پانچ کالمی نہ ہوں تو الطاف حسین اسے پھیکا اور اخبار کا ایڈیٹر کڑوا محسوس کرتا تھا۔ا گر کسی دن الطاف بھائی کا کوئی بیان پڑھنے کو نہ ملے تو ہمیں اخبار اور شہر میں اداسی ،سی لگتی تھی۔ سٹی پیج(City Page)تو ایم کیو ایم ہی کے لیے مخصوص تھا۔ ایم کیو ایم کا ہر بڑا عہدیدار ان صفحات پر یوں براجمان تھا جیسے ہر گلی میں ایم کیو ایم کا جھنڈا اور چندہ ، بری بھلی جیسی بھی تھی، زندگی میں بڑی ہلچل اور امنگ تھی۔ گولیوں کے سائے اور پولیس والوں کی امان میں ہم شہر میں مصروف زندگی گزار ا کرتے تھے۔ ہڑتال کے الگ مزے تھے۔۔ جہاں جاب سے چھٹی کی نیت کی وہیں کوئی نہ کوئی سیاسی پارٹی ہڑتال کی کال دے دیا کرتی تھی چولہے میں آگ جلتی ہو یا نہ جلتی ہو ، شہر میں جلاؤ گھیراؤ کا بڑا اہتمام ہوا کرتا تھا۔

مشرف نے طیارے سے لینڈ کیا تو شہر کا یہ منظر ، قومی منظر میں تبدیل ہو گیا۔ پی ٹی وی کے خبر نامے سے بغیر بالوں کی لشکر موج غائب ہو گئی اور ہر طرف بالوں اور وردی والے نظر آنے لگے۔ لوگوں کی بوریت دور ہو گئی۔ جو اندر تھے ، وہ باہر آ گئے اور جو باہر تھے وہ اندر چلے گئے۔ جو ملک چوروں کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دیا کرتا تھا اس نے ڈاکوؤں کو اپنے حرم میں شامل کر لیا۔ نامحرم ، محرم بن گئے اور محرم ، مجرم یا مرحوم ہو گئے۔ ووٹوں کی گنتی متروک ہو گئی اور نادہندگان کی گنتی شروع ہو گئی۔ جج ، حج پر چلے گئے اور وزارتوں کا طواف شروع ہو گیا۔ ’’ نیب‘‘ نے ’’ جیب ‘‘ میں ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا اور بلیک منی ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل ہونی شروع ہو گئی۔ مشرف بہ اسلام لوگوں کو سلام کرنے کی روایت ٹھنڈی کر دی گئی اور ’’مشرف بہ اسلام آباد‘‘ کی راہداری کھل گئی۔ کارگل کے راستے پر بگلیہار ڈیم کے پانی کا چھڑکاؤ شروع ہو گیا۔ باغیچوں میں امریکن پودوں کی کاشت شروع ہو گئی۔ غرضیکہ ایک انقلاب برپا ہو گیا۔

ایسے بہار بھرے موسم میں ہم ٹورانٹو کی سردی اور برف سے کھیلتے رہے۔ نائن الیون کا ماتم، اسامہ کے کارنامے ، افغانستان اور عراق کی جمہوریت میڈیا کے راستے ہماری آنکھوں اور کانوں کا رزق بنتی رہی اور ہم خود اپنے رزق کے حصول کے لیے گوروں کی چکّی میں مشقت کا ٹائم ٹیبل پڑھتے رہے۔ اس دوران کئی عیدیں آئیں اور چلی گئیں ، ہم الطاف اور مشرف کے بعد بکروں کو بھی جیتا جاگتا اپنے سامنے نہ دیکھ سکے۔ بھلا ہو ڈش کا ’’ جیو اور اے آر وائی‘‘ کا جس نے ہمیں اس عید پر دوبارہ بکرا دکھلا دیا۔ ہائے سب کچھ بدل گیا مگر بکرے نہ بدلے۔ وہی دام، وہی شان وہی عظمت۔ اب تو ہم یہ بھی بھول چکے کہ بکرا خریدنے کے سنہرے اصول کیا ہیں ؟ بکرے کو،کون سا چارہ پسند ہے اور قصائی چھرے کی نوک پر کیسے بھاؤ تاؤ کرتا ہے ؟ ہائے ہمارا کلّو قصائی۔ ہمارے بغیر وطن میں کتنا اداس ہو گا۔ اسے یقیناً ہماری منتیں ، چاپلوسیاں اور لطیفے ضرور یاد آتے ہوں گے۔ اب تو کوئی ہم سے قربانی کی کھال بھی مانگنے نہیں آتا۔ کوئی دھمکی بھی نہیں ملتی کہ جانور کی کھال نہ ملی تو ہم تمہاری کھال اتار لیں گے۔ ہم تو ایدھی صاحب کو بھولتے جا رہے ہیں۔ کئی سال سے کچھ پتہ نہیں کہ انہوں نے کتنی کھالیں جمع کیں اور کتنی کھالیں ڈاکو ان سے چھین کر لے گئے۔ مشرف اور الطاف کے دیس کے مزے ہی کچھ اور تھے۔بے نظیر کو وہ مزے یاد آتے ہیں تو وہ بیان داغ دیتی ہیں مگر ہم اپنے سینے کے ’’ داغ ‘‘ کسے دکھلائیں ؟ یہاں بقر عید آتی ہے تو ’’ڈکسی گروسرز‘‘ سے شہباز اور اعجاز کا فون آ جاتا ہے ’’بکرا بُک کروا لیں ‘‘ ہم جو ساری زندگی ایک اپارٹمنٹ، بک نہ کروا سکے بکرا بُک کروا کر اپنے نفس کو تسلی دے دیتے ہیں۔ پھر عید کی شام قربان شدہ بکرے کی ’’بوٹیاں ‘‘ مل جاتی ہیں اور ہم چند مخصوص دوستوں کو بلا کر عیدِ قربان منا لیتے ہیں۔ ہمارا وطن جانا اتنا ہی مشکل ہو گیا ہے جتنا کہ الطاف ، بے نظیر اور نواز شریف کا۔ بلّے بلّے مشرف جی! پاکستانی ، پاکستان چھوڑ کے جا رہے ہیں اور آپ انڈیا اور امریکہ والوں کو بلاتے جا رہے ہیں۔ کبھی ایک ’’ کال‘‘ ہمیں بھی تو دیں !

قربانی کے بکرے اور ’’ حسینہ پاکستان‘‘ کی رونمائی

اس ہفتے دو موضوعات نے ہمیں مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ ایک تو ’’مس پاکستان‘‘ مقابلہ اور دوسرا قربانی کے بکرے۔ مقابلۂ حسن کے ججوں نے تو ’’ مس پاکستان‘‘ چن لی ہے مگر ہم اب تک بکرے کی تلاش میں ہیں۔ بکرے یوں تو ہزار مگر کوئی ہماری حسن نظر اور کریڈٹ کارڈ پر فٹ نہیں بیٹھ رہا۔ جو نظر میں سماتا ہے وہ کریڈٹ کارڈ کی رسی تڑوا کر بھاگ جاتا ہے اور جو کریڈٹ کارڈ کے ’’چارے ‘‘ پر منہ مارنے لگتا ہے ، اسے ہماری نظر پسند نہیں کرتی۔

پاکستان میں بکروں اور وقت کی کمی نہ تھی۔ عید الاضحی کا چاند دیکھتے ہی ہماری شامیں بکرا پیڑیوں میں گزرا کرتی تھیں۔ کبھی ہم بکرے کے دانت دیکھتے تھے اور کبھی گائے اپنے دانت نکال کر ہمیں گھورا کرتی تھی۔ گھر میں بیگم اور بچے روز اس انتظار میں رہتے تھے کہ آج قربانی کا ’’جانور ‘‘ آیا ہی آیا اور بالآخر ہم آ جایا کرتے تھے ، اکیلے اور افسردہ۔

ا ب وہ بکرا پیڑیاں ہیں اور نہ قربانی کے ولولے۔ اب تو ہم خود بکرا بنے ہوئے ہیں۔ ہماری زیادہ سے زیادہ عیاشی اخبار پڑھنا رہ گیا ہے۔ پچھلے کئی ہفتوں سے ہم ’’مس پاکستان مقابلہ حسن‘‘ کی خبریں پڑھ رہے تھے یا پھر کراچی میں کھالوں کے جمع کرنے کی خبریں۔ حیران تھے کہ ہم ادھر کے ہیں نہ اُدھر کے۔ نہ کوئی کھال لینے کے لیے تنگ کر رہا تھا نہ کسی نے مقابلہ حسن دیکھنے کی دعوت دی تھی۔ کچھ خبریں ایسی بھی تھیں جس میں مقابلہ حسن میں شرکت کرنے والی لڑکیوں کی کھالیں کھینچنے کی دھمکیاں بھی تھیں مگر بھلا ہو مقابلہ حسن کی آرگنائزر کا انہوں نے عورت ہو کر مردوں جیسی بہادری دکھلائی اور پندرہ لڑکیوں کے حسن کے جلوے دکھانے کے لیے پندرہ سو افراد کو مدعو کر لیا۔ سنا ہے سب اسی طرح حسن کی جلوہ آرائی دیکھتے رہے جیسے ہم پاکستان میں بکرے دیکھا کرتے تھے۔

ہمیں نوجوانی سے مقابلہ حسن کے ’’جج‘‘ بننے کا شوق رہا ہے۔ ہم نے قلم سے بہت کچھ لکھا مگر افسوس کہ قلم سے کبھی کسی حسینہ کو اس کے حسن بلا خیز پر ’’نمبر ز ‘‘ نہ دے سکے۔ لڑکی کو جب بھی دیکھا ہونے والی بیوی کی نظر سے دیکھا مگر کسی کو بھی بیوی بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔قسمت میں وہی بیوی آئی جسے اماں نے سب سے زیادہ نمبر دئیے۔ امید تھی کہ اس بار کینیڈا میں ہونے والے اس ’’حسینہ مس پاکستان‘‘ میں ہمیں جج منتخب کر لیا جائے گا مگر مایوسی ہوئی۔ اتنی دور آ کر بھی ہم ’’دیدار حسن ‘‘ سے محروم رہ گئے۔

خوشی اس بات کی ہے کہ ’’مس پاکستان‘‘ مشرقی طریقے سے منتخب ہوئیں۔ ان کی ’’دید، سے بہت سوں کی ’’عید ‘‘ ہو گئی۔ سنا ہے مقابلہ حسن دیکھنے والوں نے عید کا چاند دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ انہیں ’’چاند ‘‘ اسٹیج پر ہی دیکھنے کو مل گیا تھا ، آسمان پر بھلا کیا دیکھتے ؟

اٹھارہ سالہ زہرہ شیرازی اب ’’مس پاکستان‘‘ ہیں۔ انہیں ’’تاج‘‘ تو مل گیا اب ’’سرتاج‘‘ کی ضرورت ہے۔سونیا احمد خوش ہیں کہ ان کی محنت ٹھکانے لگی۔ انہوں نے پاکستانی لڑکیوں میں نیا ولولہ اور جوش پیدا کر دیا ہے۔ سونیا جس طرح حسن کی تلاش میں سر گرم ہیں اس طرح تو لڑکے بھی نہیں رہتے۔ اس کریڈٹ پر ہم سونیا جی کو ایک بکرا تحفہ میں دینا چاہتے ہیں مگر ڈرتے ہیں کہ انہیں بکرا بھی حسین نہ چاہیے ہو۔ ویسے اگر وہ بکروں کا مقابلہ حسن کرا دیتیں تو عید الاضحیٰ پر بہت سوں کا بھلا ہو جاتا جو بکرا ’’مسٹر پاکستان‘‘ بنتا اس کی قربانی کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا۔

بکروں اور لڑکیوں میں ویسے بھی بہت فرق ہے۔ بکرے میک اپ نہیں کرتے اور نہ انہیں انڈین گانوں پر ڈانس آتا ہے۔ بکروں کا IQبھی کم ہوتا ہے۔ بکروں کو ’تاج ، پہننے کا شوق نہیں ہوتا۔ ویسے بکروں کو دیکھنے بھی کون آتا ؟ وہ نئے امیگرنٹس کی ’’مس پاکستان ‘‘ کی طرح رہنمائی بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ویسے ہمیں زہرہ شیرازی کے اس بیان کی سمجھ نہیں آئی کہ وہ نئے امیگرنٹس کی رہنمائی کرنا چاہتی ہیں۔ نئے امیگرنٹس کو تو اچھی نوکری کی تلاش ہوتی ہے۔ اگر زہرہ شیرازی نوکریاں بانٹ سکتی ہیں تو ہم بھی انہیں ’’رہنما‘‘ تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان میں ’’رہنما‘‘ نوکریوں کا لالچ دے کر ووٹ حاصل کرتے ہیں ، ہم بھی اپنا ووٹ زہرا کو دینے کو تیا رہیں اگر وہ نوکری دلا سکیں تو ؟ اس کے سوا وہ اور کیا رہنمائی کر سکتی ہیں ؟ اگر ان کا اشارہ نئی امیگرینٹس لڑکیوں کی ایسے مقابلوں کی جانب رہنمائی کی طرف ہے تو پھر ہمارا سہم جانا ہی بہتر ہے ویسے بھی حسن سے سہما رہنا ہی زیب دیتا ہے۔

’’مس پاکستان ‘‘ مقابلہ تو گزر گیا مگر عید سر پر ہے۔ ہم جس ملک میں اب رہتے ہیں وہاں ’’کتا ‘‘ گھر میں رکھنا آسان ہے مگر قربانی کا جانور نہیں۔ اس کے لیے لائسنس یافتہ ذبیحہ خانے ہیں۔ یہاں گلیوں میں انسانوں اور جانوروں کا خون بہانا ممنوع ہے۔ سوچتے ہیں عید کی نماز پڑھ کر ذبیحہ خانے چلے جائیں گے ، گوشت لائیں گے۔ خود بھی کھائیں گے اور دوستوں کو بھی کھلائیں گے۔ افسوس کہ اس ضمن میں ہمیں ایک بھی ’’فلائر‘‘ نہیں ملا جس میں بکرے کی خریداری کی دعوت ہو۔ ڈسکاؤنٹ کی سہولت ہو اور ’’ذبیحہ فری‘‘ کی نوید ہو۔ مقابلہ حسن کا اتنا چرچا رہا مگر قربانی کے حوالے سے کسی کی رہنمائی کی کینیڈین اخبارات میں سخت کمی رہی۔ اگر زہرہ شیرازی اس موقع پر نئی امیگرنٹس کی رہنمائی کر دیتیں ا ور انہیں مناسب بکروں تک پہنچا دیتیں یا ذبیحہ خانے میں ہاتھ بٹا دیتیں تو شاید ’’ثواب‘‘ کما لیتیں۔ ویسے بھی کینیڈا میں نوٹ اور ثواب کمانا بہت مشکل کام لگتا ہے۔

نکاح کے بعد بیوی اور لینڈنگ پیپرز ملنے کے بعد کینیڈا نے دم بخود کر دیا

کینیڈا آنے سے قبل پاکستان میں بیٹھ کر ہم کینیڈا کے بارے میں جو کچھ سوچتے تھے ، کینیڈا ویسا نہیں نکلا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے شادی سے پہلے بیوی کے بارے میں سوچنا۔ ضروری نہیں کہ بیوی میں وہی خوبیاں اور خامیاں ہوں جیسا کہ کنوارے سوچتے ہیں۔ ہمارے دوست فجّے میاں کا کہنا ہے کہ ہمیں نکاح کے بعد بیوی نے اور لینڈنگ پیپرز ملنے کے بعد کینیڈا نے دم بخود کر دیا۔ ہم ماہ فروری میں کینیڈا آئے تھے ، جتنی سردی ہم نے برداشت کی ، اس کی ہمیں توقع تھی مگر جتنی گرمی سمر کے نام پر اب ہم سہہ رہے ہیں یہ تو کینیڈا میں سوچا بھی نہ تھا۔ اپارٹمنٹ کرائے پر لیتے ہوئے ہمیں حسین لیکن نک چڑھی ’’سوپر‘‘ نے بتایا تھا کہ اگر آپ سمر میں ’’اے سی‘‘ استعمال کریں گے تو اس کی بجلی کے پیسے علیحدہ سے دینے ہوں گے۔ہم دل ہی دل میں ہنس دئیے تھے کہ ہم جس ملک کے باسی ہیں وہاں کی گرمی سے بھلا کوئی زیادہ گرمی ہو گی یہاں پر؟ مگر بقول فجّے میاں ’’کینیڈا ‘‘ کا نام ہی چونکا نے والے ملک کاہے۔

ہم سمجھتے تھے کہ یہاں قدم قدم پر حسینوں کا میلا ہو گا۔ لوگ آدھی راتوں کا اپنا حسن اور نشہ سنبھالتے ، لڑھکتے ، گرتے پڑتے گھروں کوجا رہے ہوں گے۔ دوکانیں را ت بھر کھلی ہی ہوں گی مگر ہماری تو آنکھیں ہی کھُل گئیں۔ دس بجتے ہی تمام ’’مال‘‘ بند ، روشنیاں بند ، حسینائیں بند۔ یہاں تو بس میں کاندھا ملائے بیٹھی حسینہ بھی دل جوئی کی باتیں نہیں کرتی۔ جب تک دس بار نہ چھیڑو کوئی ڈھنگ سے ’’فری‘‘ بھی نہیں ہوتا۔

ہمارے دوست ارشد عثمانی جس طرح کئی سالوں سے یہاں رہ رہے ہیں اس سے ہم یہی سمجھتے تھے کہ وہ سینکڑوں حسیناؤں کو اپنی ’زلف، کا اسیر بنا چکے ہوں گے مگر پتہ چلا کہ قونصل جنرل افتخار آرائیں اور لطافت علی صدیقی کے علاوہ بہت کم اُن سے رات کے دس بجے کے بعد گفتگو کرتے ہیں۔ فجے میاں کو اپنی کمیونٹی میں دو ہی اشخاص بے حد بھائے ہیں۔ ایک ارشد عثمانی اور دوسرے شاہد ہاشمی۔ ایک نام سے پہچانے جاتے ہیں اور دوسرے کین پاک چیمبر آف کامرس کے حوالے سے۔خدا ان کی شہرت میں مزید اضافہ کرے بلکہ انہیں مستقبل کا ایم پی بنائے جو کہ پاکستان میں شریفوں کے لیے بد دعا ہے اور کینیڈا میں دعا۔

کینیڈا میں آنے کے بعد ہم نے اپنی جاب کے لئے جتنی دعا مانگی اتنی دعاؤں میں تو ہمیں پاکستان میں دس جاب مل جاتیں اور وہ بھی اپنے شعبے کی۔ یہاں تو صحافت ، قینچی اور فیملی بزنس کا نام ہے ، چاہے فیملی میں کسی کا دور دور سے بھی صحافت سے تعلق نہ ہو۔ چند کے سوا اکثر ہفت روزہ نکالنے والے ، پروفیشنل صحافیوں سے ایسے گھبراتے ہیں جیسے وہ صحافی نہیں کوئی بلا ہوں۔ پاکستان سے چلے تھے تو یہی سوچا تھا کہ وہاں جا کر کسی اردو اخبار میں نوکری کریں گے ، ایف ایم ریڈیو پر کام کریں گے۔ ٹی وی کے لیے لکھیں گے اور بولیں گے ، یوں گھر کا ’کچن، چل پڑے گا۔ مگر یہاں آ کر پتہ چلا کہ ان شعبوں میں ہمیں کام کرنا ہے تو خود ہی اخبار نکالو، ریڈیو اور ٹی وی پر وقت لو پھر تمہارا وقت بدلے گا۔ ورنہ ’’پرانوں ‘‘ میں سے گھاس کوئی نہیں ڈالتا کیوں کہ فیملی سے باہر کے لیے گھاس بچتی نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ایک سے دو ہاتھ ہوں تو ادارہ بھی ترقی کر سکتا ہے اور آپ معیار کی بلندی کی جانب بھی سفر کر سکتے ہیں۔ یہاں اردو اخبارات کی مارکیٹ بہت چھوٹی ہے ، اس میں ہر ماہ ایک نئے اخبار کا اضافہ وہی کر دار ادا کرے گا جو غریب کے گھر دس اولادیں پیدا ہونے سے ہوتا ہے۔

پاکستان میں بیٹھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہ کنیڈا میں نوکریوں کی اتنی قلت ہے اور یہ کہ یہاں پاکستان کے انجنیئر، ڈاکٹر اور پی ایچ ڈی حضرات بھی ’’سیکورٹی گارڈ‘‘ بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔اگر سیکوریٹی گارڈ ہی بننا ہم سب کا مقدر ٹھہرا تو فجّے میاں دعا کرتے ہیں کہ وہ کسی مالدار خاتون کے ’’باڈی گارڈ‘‘ بن جائیں۔ ایک زمانے میں یہ پیشہ پاکستان میں بہت عام ہو چلا تھا۔ ہمارے الطاف بھائی نے باڈی گارڈز رکھنے کی ایسی وبا عام کی تھی کہ ہر سیاست دان بغیر باڈی گارڈ کے نظر ہی نہ آتا تھا۔ بے نظیر کی تو باڈی نظر ہی نہ آتی تھی کیوں کہ ان کے اطراف اتنے گارڈز ہوتے تھے۔ ہم نے بھی کینیڈین تجربہ حاصل کرنے کے لئے اپنی Resumeمیں سیکوریٹی گارڈ ہونے کا دو سالہ پارٹ ٹائم تجربہ شامل کر دیا ہے۔ ہم نے لکھ دیا ہے کہ ہم فل ٹائم ’’قلم‘‘ اور پارٹ ٹائم ’’کلاشنکوف‘‘ تھامتے تھے۔

ایک اور چیز جس نے ہمیں یہاں آ کر چونکا دیا وہ Value-Villageیا Goodwill Shopجیسا کاروبار ہے جسے ہم عرف عام میں ’’لنڈا کا کاروبار‘‘ کہہ سکتے ہیں۔پہلے پہل تو ہم سخت پریشانی میں تھے کہ گھر کا سامان کیسے خریدیں ؟ وہ چیزیں جو ہم نے پاکستان میں برسہا برس کی محنت کے بعد یا بیوی کے جہیز کے ذریعہ حاصل کی تھیں انہیں یہاں دوبارہ ڈالرز دے کر خریدنا ہمیں بے حد بار محسوس ہو رہا تھا۔فجّے میاں نے تو خیر شارٹ کٹ ڈھونڈا اور ایک گوری کے ’’بوائے فرینڈ‘‘ بن گئے مگر ہم پرانی بیگم کے لیے پرانا فرنیچر خرید کر خوش ہو رہے ہیں کیوں کہ یہی ہماری یہاں کی Valueاور Goodwillہے۔ پاکستان سے فون آتا ہے تو چیخ کر کہہ دیتے ہیں کہ ٹی وی خرید لیا ہے ، اس بار صوفہ آ گیا ہے۔ ایک کمرے میں کارپٹ بھی ڈال دیا ہے اور سیکورٹی آفیسر کی جاب بھی مل گئی ہے۔ پاکستان میں عزت بڑھ رہی ہے اور یہاں عمر بڑھ رہی ہے۔

نئے چیلنج اور نئے تقاضوں کو ہم، آپ سب کی طرح پورا کر رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ آپ ذرا پرانے ہیں ، عزت بچانا جانتے ہیں۔ ہم نئے ہیں اور صحافی بھی ہیں اس لیے سچ کہنے اور لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کینیڈا کے باسیوں سے ہم نے فی الحال یہی سیکھا ہے۔ یہ لوگ ہم سے زیادہ سچے اور کھرے ہیں۔ ہم جو کام دروازہ بند کر کے کرتے ہیں ، یہ دروازہ کھلا رکھ کر انجام دیتے ہیں۔

عید منائیے کالنگ کارڈ کے سنگ

کینیڈا اور پاکستان کی عید میں ایک بات ہمیں مشترک نظر آتی ہے اور وہ ہے ’’چاند ‘‘ ۔ پاکستان میں عید کا چاند دیکھنے کے لیے ’’رویت ہلال کمیٹی ‘‘ بیٹھتی ہے اور ادھر کینیڈا میں ہر ایک کو بیٹھنا پڑتا ہے ، ٹیلی فون کے سامنے۔ تین مساجد کو فون کرو تو دو سے جواب ملتا ہے کہ جی ہاں کل عید ہے اور ایک مسجد والے کہتے ہیں کہ ’’پرسوں ‘‘ عید ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کل عید مناتے ہیں یا پھر پرسوں۔ عید کے دن بھی عید کے لباس سے زیادہ سردی کے آداب کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ لوگ نماز پڑھ کر گلے ملتے ہی گھر کی بجائے دفتر کی جانب بھاگتے ہیں۔ عید کی نماز میں گہما گہمی تو ہوتی ہے مگر پاکستان جیسی رونق نہیں۔ چپلیں چوری ہوتی ہیں نہ ہی راستے میں گداگر ملتے ہیں۔ جیب کٹنے کا ڈر ہوتا ہے نہ ہی عیدی کے نام پر جیبیں لٹ جانے کا خوف۔

جن کو دفترو ں سے چھٹی مل جاتی ہے وہ بے خوف ہو کر گھر آ کر سو جاتے ہیں۔ کوئی رشتہ دار عید کے نام پر گھر پر نہیں ٹپکتا۔ عید کی ساری مبارکبادیں فون ہی سے در آمد یا بر آمد ہوتی ہیں۔ پوسٹ مین ، جمعدار ، چوکیدار اور ان جیسی دوسری بلائیں عید ی کے نام پر دروازہ نہیں پیٹتیں۔ اب تو عید کارڈ کے جھمیلوں سے بھی نجات مل گئی ہے۔ آن لائن گئے ، کارڈ سلیکٹ کیا اور ای میل کر دیا۔ ہلدی لگی نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا۔ بس مصیبت ہے تو کالنگ کارڈ کی ہے۔سویاں آئیں نہ آئیں ، عیدسے پہلے 9,10کالنگ کارڈ ضرور خریدنا ہیں۔بیگم نے تین کارڈز مانگے ہیں ، بچوں کو پانچ کارڈ زکی ضرورت ہے اور خود ہمیں دو کارڈز درکار ہیں۔یہاں آ کر گلے ملنا کم اور فون پر پاکستانی عزیزوں سے ’’گِلے ‘‘ کرنے کا کام زیادہ ہے۔ چاند دیکھا کینیڈا میں ، عید مل رہے ہیں پاکستان میں۔ یہ کالنگ کارڈز نہ ہوتے تو ہم سب کی عید آدھی رہ جاتی۔

کینیڈین پریشان ہوتے رہتے ہیں کہ یہ ٹوپی اور عجیب و غریب لباس والی مخلوق نے آج کس سیّارے سے کینیڈا پر ہلّہ بول دیا ہے۔ اکثر کو سمجھانا پڑتا ہے کہ آج ہمارا ’’مذہبی دن ‘‘ ہے اور یہ ہمارا اسلامی لباس ہے۔ بچے الگ پریشان رہتے ہیں کہ ہمارے والدین کو یہ ’’سالانہ ‘‘ کون سا دورہ پڑتا ہے کہ ہمیں یکایک کچھ سے کچھ بنا دیتے ہیں۔ جن بچوں کو عیدی کا پتہ ہوتا ہے وہ اس دن کی آمد پر خوش ہوتے ہیں کہ چلو چند ڈالر تو ملیں گے۔پاکستان میں بیٹھے دادا ، دادی ، نانا ، نانی ، چاچا ، چاچی ، ماموں کو ڈھارس رہتی ہے کہ ’’ Web Cam، پر نظر آنے والے بچوں کو عیدی نہیں دینی پڑتی۔

عید جس دن بھی ہو ہم کینیڈین پاکستانی اسے مناتے ہفتہ اور اتوار کو ہی ہیں۔ عید کے بعد کا پہلا ہفتہ، اتوار ہر گھر میں ’’ہاؤس فل ‘‘ کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ اس عید پر ملنے والے عید کی باتیں کم اور پاکستانی سیاست پر گفتگو زیادہ کریں گے۔ دانتوں سے گوشت توڑتے ہوئے پیپلز پارٹی سے ٹوٹنے والوں کا ذکر ہو رہا ہو گا ، کہیں مشرف میاں کو داد مل رہی ہو گی تو کہیں نورانی میاں کا تذکرہ چل رہا ہو گا۔ کہَں گریجویٹ اسمبلی کا ’’ویٹ‘‘ کیا جا رہا ہو گا تو کہیں مجلس عمل کا اعمال نامہ کھلا ہو گا۔ نو گو ایریاز سے لے کر نائن زیرو تک کی کہانیاں زیر بحث ہوں گی۔ ’’ اسلامک ری پبلک تھارن کلف ‘‘ کے فٹ پاتھوں پر جگہ جگہ دس بارہ کے ٹولوں میں لوگ کھڑے ہو کر سندھ اسمبلی کے اجلاس ملتوی کیے جانے پر رائے زنی کر رہے ہوں گے۔ البتہ خواتین کے لیے عید وہی پرانی عید جیسی ہو گی۔ ’’بہن میں نے یہ چوڑیاں جیراڈ اسٹریٹ سے خریدی ہیں ،برامپٹن میں اب کے عید کے جوڑوں کی بہار آئی ہوئی تھی، عید کا یہ جوڑا مجھے میری ساس نے پاکستان سے بھجوایا ہے۔‘‘

عید کے ان ہی رنگوں سے ہم سب کینیڈا میں آباد ہیں۔ عید آتی ہے تو چاند آنکھوں میں ہی نہیں ، دل میں اتر آتا ہے ،پلکیں نمکین پانی سے بھرے ستاروں سے چمکنے لگتی ہیں۔ اپنے وطن کا آسمان اور زمین دونوں یاد آنے لگتے ہیں۔

کینیڈا ڈے پر وزیر اعظم جان کریچان کے نام ایک کھلا خط

ڈیئر جان کریچان !

یوں تو میری اور آپ کی ایسی بے تکلفی نہیں کہ آپ کو خط لکھوں مگر کینیڈین ہونے کے ناتے مجھے یہ پتہ ہے کہ آپ ایسی بے تکلفی پر برا بھی نہیں مناتے۔ میں نے سوچا کہ اس بار کینیڈا ڈے اس طرح مناؤں کہ آپ کو ایک کھلا خط لکھ دوں۔ اس طرح کے خط کے کئی فائدے ہیں۔ یہ خط آپ پڑھیں نہ پڑھیں ، میرے ہزاروں قارئین پڑھ لیں گے۔ اس خط میں صرف میری باتیں نہیں ہیں بلکہ ہماری پوری کمیونٹی کی اجتماعی کیفیت کی عکاسی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ کو اردو نہیں آتی مگر یہ بھی معلوم ہے کہ اس خط کا انگریزی ترجمہ آپ تک ضرور پہنچے گا۔

دراصل مجھے آپ کی شخصیت سے پیار ہے۔ آپ کا 40سالہ بے داغ کیریر مجھے ہر لمحہ آپ کی جانب متوجہ رکھتا ہے۔ آپ نے اس عرصے میں کئی چونکا دینے والے اہم فیصلے کیے۔ آپ کا آخری اہم فیصلہ عراق کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ نہ دینا تھا۔ اس فیصلے سے کینیڈا کا اخلاقی اور اصولی کر دار دنیا کے سامنے ابھر کر سامنے آیا۔ اسی طرح کے فیصلے قوموں کا وقار بلند کرتے ہیں۔ کینیڈا مجھے اسی لئے اچھا لگتا ہے کہ یہ ایک ’’منی ورلڈ ‘‘ ہے۔ آپ نے دنیا بھر کے اقوام کے ’’خاص ‘‘ افراد کو اپنے ملک میں جگہ دی ہے اور انہیں ’’کینیڈین سٹیزن‘‘ کا درجہ دیا ہے ان ہی اقوام میں ایک ’’پاکستانی کمیونٹی‘‘ بھی ہے جو کثیر تعداد میں یہاں آباد ہے اور نہایت جانفشانی اور محنت سے کینیڈا کی خدمت کر رہی ہے۔

ڈئیر جان! کیا کبھی آپ نے سوچا کہ آپ کی امیگریشن پالیسی اور اسٹیٹ پالیسی میں کتنا تضاد ہے ؟ جب آپ دنیا بھر سے ’’خاص الخاص‘‘ لوگ امیگریشن کے لئے چنتے ہیں تو آپ کس معیار کے ساتھ یہ انتخاب کرتے ہیں ؟ اور جب یہ ’’چنیدہ‘‘ شخصیات کینیڈا آ جاتی ہیں تو ان کی تعلیمی قابلیت ، پروفیشنل مہارت اور تجربے کا یہاں کس طرح استحصال ہوتا ہے ؟ آپ خود ہی جس تعلیمی قابلیت اور پروفیشنل تجربے کو معیار مان کر انہیں کینیڈین سٹیزن بننے کا موقع فراہم کرتے ہیں اسی قابلیت کے ساتھ کینیڈا میں کیا سلوک ہوتا ہے ؟

اب یہ باتیں ڈھکی چھپی نہیں ہیں کیوں کہ دنیا بھر کے قابل ترین افراد ’’کینیڈین سسٹم ‘‘ میں جس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کا علم آپ جیسے وزیر اعظم سمیت ہر پارلیمانی ممبر کو ہے۔ دنیا بھر کے انجینئرز ، اساتذہ ، ڈاکٹرز ، ایم بی اے ، صحافی اور دیگر اعلیٰ مہارت کے حامل ہنر مند کینیڈا میں ’’لیبر جاب‘‘ پر گزار ہ کر رہے ہیں۔

ایسے لوگوں کی حیثیت اب ’’ بے پیندے کے لوٹے ‘‘ جیسی ہے۔ وہ واپس اپنے ملک جا سکتے ہیں نہ یہاں اپنی اہلیت کے مطابق روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک کا باسی جب کینیڈین امیگریشن حاصل کرتا ہے تو وہ اپنی جاب پر لات مار کر اور اپنے جملہ اثاثے سمیت کینیڈا آتا ہے جہاں آپ کا سسٹم اس کی زندگی بھر کی کمائی سے تو استفادہ کر لیتا ہے مگر اس کی زندگی بھر کے پروفیشنل تجربے کا کوئی صلہ نہیں دیتا۔ یہ اس کی ذات اور ہنر مندی کی توہین ہے۔ وہ بقیہ ساری زندگی سسکتا اور کڑھتا رہتا ہے۔

ہم کینیڈا آنے کا فیصلہ اپنے اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کرتے ہیں مگر آپ کا سسٹم ہمیں ابتدائی سالوں میں ہی ذہنی اور جسمانی طور پر علیل کر دیتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ لاکھوں پاکستانی ہنر مند یہاں سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے آج تک اپنی اجتماعی آواز بلند نہیں کی ، مل جل کر ، ایک آواز ہو کر آپ کے ایوانوں کے سامنے شور نہیں مچایا مگر اس کے باوجود سارے حالات کا علم آپ کو ہے۔ آپ ہمارے تجربے اور مہارت سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ؟ ہماری پروفیشنل ڈگریوں اور تجربے کا احترام کیوں نہیں کرتے ؟ آپ فیصلہ کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ آپ کے پاس ابھی چند ماہ باقی ہیں ، آپ جاتے جاتے ہم جیسے لاکھوں امیگرنٹس کے احترام کا بھی کوئی قانون لاگو کر جائیے۔‘‘ بل پاس ہونے کی نوید ہم کئی سالوں سے سن رہے ہیں ، اسے عملی طور پربھی نافذ کرنے کا بھی اہتمام کیجئے۔

میں اپنے اس کالم میں ہمیشہ ہنسنے مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اپنے لوگوں کا مورال بلند رکھنے اور انہیں کینیڈا میں پرسکون زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہوں مگر ایسا کب تک ہو گا؟ ہم سب کب تک اپنے زخموں پر پھایا رکھے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ زندگی گزارتے رہیں گے ؟ آپ چاہیں تو ہمارے یہ مسائل منٹوں میں حل ہو سکتے ہیں۔ آسٹریلیا کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ وہ اپنے امیگرنٹس کی پروفیشنل صلاحیتوں سے کس طرح فائدہ اٹھا رہا ہے۔ آپ کا ایک فیصلہ کینیڈا کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ یہ انسانی حقوق کی بھی بات ہے۔ غور کیجئے اور جلد سے جلد قدم اٹھائیے تاکہ ’’نیا کینیڈا ڈے ‘‘ میں خط لکھ کر نہیں ، اپنی کار پر کینیڈا کا جھنڈا لگا کر ٹورانٹو کی سڑکوں پر گھومتے پھرتے مناؤں۔

آپ کا مخلص۔مرزا یٰسین بیگ۔ ایک پاکستانی کینیڈین۔

بچوں کو بگڑنے کے لیے بُری صحبت کی ضرورت نہیں کینیڈین قوانین ہی کافی ہیں

کینیڈا میں جاب کے بعد سب سے مشکل کام بچے پالنا ہے۔ بچے اتنا تنگ نہیں کرتے جتنا کہ بچوں کے حوالے سے کینیڈین قوانین کرتے ہیں۔ یہاں بچوں کو بگڑنے کے لیے بری صحبت کی ضرورت نہیں ، کینیڈین قوانین ہی کافی ہیں۔ اس سلسلے میں مشہور زمانہ فون نمبر نائن ون ون(911)وہی کر دار ادا کرتا ہے جو پاکستان میں ’’مولا بخش‘‘ کا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ’’مولا بخش‘‘ سے وہاں کے والدین بچوں کو ڈرایا کرتے تھے یہاں 911سے بچے والدین کو ڈراتے ہیں۔ بات یہ نہیں ہے کہ حکومت کینیڈا بچوں کو بگاڑنا چاہتی ہے بلکہ حکومت کی مثال پاکستانی دادی اور نانیوں جیسی ہے جو بچوں کو ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار دے کر ان کی عادتیں خراب کر دیتی ہیں۔ ہم جیسے ایشینز جب اپنے بچوں کو لے کر کینیڈا پہنچتے ہیں تو فیملی کی مثال مرغیوں جیسی ہوتی ہے۔ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں میں دبا کر بیٹھتی ہے ویسے ہی شروع میں بچے والدین کے ساتھ دبک کر بیٹھتے ہیں۔ اماں جو کہتی ہے سنتے ہیں ، ابا جس راستے پر چلانا چاہتے ہیں چلتے ہیں مگر جیسے ہی اسکول میں چند مہینے گزرتے ہیں وہی چوزے پر پرزے نکالنے لگتے ہیں ، ٹھونگے مارنا سیکھ لیتے ہیں اور بانگ دینے سے بھی باز نہیں آتے۔

اسکول میں اساتذہ بچوں سے ایسے پیش آتے ہیں کہ لگتا ہے بچے استاد ہیں اور استاد ذاتی ملازم۔ ہر جماعت میں صرف چند بچے ہوتے ہیں۔ استاد ہر ایک اسٹوڈنٹ کا نام ، اس کے گھر کا پتہ ، فون نمبر ، والدین کے کوائف سب زبانی یاد رکھتا ہے۔ بچہ ایک دن اسکول نہ آئے تو گھر پر استاد فون کرتا ہے ، تین دن کا ناغہ ہو جائے تو استاد شاگرد کے گھر پہنچ جاتا ہے اور پندرہ دن اسکول میں غیر حاضری لگ جائے تو پولیس گھر پہنچ جاتی ہے کہ کہیں بچے کے ساتھ کوئی بے رحمانہ سلوک تو نہیں ہو گیا۔

فجّے میاں بتاتے ہیں کہ ایک بار ان کی بچی کی آنکھ تھوڑی سرخی مائل ہو گئی ، شاید نہاتے ہوئے صابن آنکھ میں چلا گیا تھا۔ اسکول میں ٹیچر آنکھ پکڑ کر بیٹھ گئی۔ پہلے تو سوالات کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ والدین میں سے کسی نے مار پیٹ کی کوشش تو نہیں کی۔ بعد ازاں بہن بھائیوں سے ہوتے ہوئے بات ڈاکٹر تک پہنچ گئی اور جب تک ڈاکٹر نے اطمینان کا اظہار نہیں کر دیا۔ ٹیچر نے بچی اور اس کی آنکھ کو نہیں چھوڑا۔

جب تک بچہ تمام ٹیکوں کا کورس نہ کرے ، اسکول میں داخلہ نہیں دیا جاتا۔ عمر کے حساب سے کلاس ملتی ہے اور بچہ ذرا سا بھی ابنارمل ہو تو اس کے لیے خصوصی اساتذہ اور ماحول کا انتظام کیا جاتا ہے۔ معاملہ یہاں تک تو بالکل ٹھیک ہے مگر اس کے آگے کے نخرے بچوں کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ آپ بچوں کو ڈانٹ نہیں سکتے ، ہاتھ لگانا تو دور کی بات ہے۔ اسکولوں میں سکھایا جاتا ہے کہ اگر Parentsڈانٹیں یا ماریں تو فوراً 911پر فون کر دو۔911پر اطلاع ملنے کی دیر ہے ، پولیس آپ کا ایسے محاصرہ کرتی ہے کہ پاکستان میں شاید چوروں اور ڈاکوؤں کا بھی نہ کیا جاتا ہو۔ اتنے لیکچرز اور تنبیہ ملتی ہے کہ لگتا ہے کہ بچہ آپ کا نہیں حکومت کینیڈا کاہے۔ محلے میں علیحدہ سبکی ہوتی ہے۔ گھر میں ہر دیوار پر 911کا اسٹیکر چسپاں کر دیا جاتا ہے اور ہدایت ہوتی ہے کہ اسے نکالا نہ جائے۔ پھر کئی ماہ تک آپ کو ’’زیر نگاہ‘‘ رکھا جاتا ہے۔

911کی اس ’’بیک‘‘ پر بچے شیر ہو جاتے ہیں۔ اپنی کہتے ہیں اور اپنی سناتے ہیں۔ والدین صرف ’’ بین ‘‘ بجا سکتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کا تمام ٹھیکہ اسکول والوں کے پاس چلا جاتا ہے۔ جہاں پانچویں جماعت سے سیکس کی تعلیم شروع ہو جاتی ہے۔ لڑکے لڑکیاں ساتھ بیٹھ کر سیکس کی عملی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ شرم ، خود شرم سے خود کشی کر لیتی ہے۔ اساتذہ اور والدین سے بچے سیکس کی اتنی کھلی گفتگو کرتے ہیں کہ والدین کے ماتھے پسینے سے بھیگ جاتے ہیں۔ اکثر سوچتے ہیں کہ وہ کینیڈا کیوں آئے تھے ؟ کیا اپنے بچوں کو غیروں کے حوالے کرنے ؟؟

دوسری جانب حکومت 18سال تک ہر بچے کو ماہانہ معقول الاؤنس دیتی ہے۔ اس الاؤنس کے لالچ میں کینیڈا آ کر چینی بھی چار چار بچے پیدا کر رہے ہیں۔ جتنے زیادہ بچے ، اتنا زیادہ الاؤنس … عجب منظر ہوتا ہے جب مائیں بچوں کو اسکول سے لینے آتی ہیں۔ ایک بچہ ’’بچہ گاڑی‘‘ میں ہے ، ماں اسے دھکیل رہی ہے ، دو بچے اسکول کے ساتھ شرارتیں کرتے ہوئے چل رہے ہیں اور ’’ہم جیسے نئے آنے والے ‘‘ اکثر سوچتے ہیں کہ اگر ہم کینیڈا میں پیدا ہوئے ہوتے تو مزے کرتے۔ ابا سے صرف ٹافیاں کھاتے مار نہیں۔ اماں کی صرف مسکراہٹ ملتی ،ڈانٹ نہیں۔ پھر خیال آتا ہے کہ یہ ماں باپ کی ڈانٹ ہی تو ہے جو آج ہم انسان ہیں۔ یہ ڈانٹ نہ ہوتی تو آج شاید ہم بھی مادر پدر آزاد معاشرے کا ایک فرد ہوتے۔رشتے ناتوں کا ہمیں کوئی احساس نہیں ہوتا۔ کس کے ساتھ سونا ہے ؟ کیا پینا ہے ؟ نکاح کیا ہوتا ہے ؟ شوہر بیوی کا رشتہ کیا ہوتا ہے ؟ حرام اور حلال کی تمیز ہم میں نہ ہوتی۔

آئے دن اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ فلاں ٹیچر نے اقرار کیا ہے کہ اس نے 13لڑکیوں کو خراب کیا تھا۔ فلاں ٹیچر نے اپنی اسٹوڈنٹ کے ساتھ زبردستی کی۔Gayاور Lesbianکے اس معاشرے میں اپنے درست ہونے کا فخر ہمیں کینیڈا آ کر ہوا۔ قابل فخر ہیں وہ والدین جو کینیڈا میں رہ کر بھی اپنے بچوں کی تربیت میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے۔ سخت جاب کرنے کے بعد بھی اپنے بچوں کو نرم گرم موسموں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کے مذہب کو ان کے ذہن اور عمل میں زندہ رکھتے ہیں ، ان کی مادری زبان کو برباد نہیں ہونے دیتے اگرچہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ کینیڈا میں سینکڑوں گھر ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔ نئے آنے والوں کو چاہیئے کہ ڈالر کمانے کے ساتھ ساتھ اپنی نسلوں کی حفاظت بھی جی جان سے کریں۔ پودا لگانا آسان ہے مگر اسے جوان کرنا مشکل۔ پاکستان کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہاں ابھی موسم اتنا بد مزاج نہیں ہوا کہ نسلوں کو بے اخلاق اور بے حیا بنا دے۔

ڈکسی بلور کے پاکستانی مکینوں سے ایک مکالمہ

ڈکسی (Dixie)اور بلور(Bloor)مسی ساگا کا وہ ایریا ہے جو ’’منی پاکستان‘‘ کا منظر پیش کرتا ہے۔پاکستان سے آنے والے نئے امیگرنٹس اکثر پہلی بار یہیں آباد ہوتے ہیں۔قرب و جوار کے تقریباً تمام ہی اپارٹمنٹس میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ان میں سے تین اپارٹمنٹس بلڈنگ کے مالکان بھی پاکستانی ہیں۔

یہاں کی ہر صبح پاکستانی بچوں کے کھلکھلاتے چہروں اور اسکول بسوں کے ساتھ طلوع ہوتی ہے۔یہ وہ بچے ہیں پاکستان میں اسکول جانے کے نام سے روتے تھے۔انہیں اسکول کی اساتذہ کی روایتی سختی اور بے تحاشہ ہوم ورک کا لوڈ اسکول جانے سے بیزار رکھتا تھا مگر یہاں ان ہی بچوں کو اگر سخت سردی میں بھی اسکول جانے سے روکا جائے تو وہ بضد رہتے ہیں کہ اسکول ضرور جانا ہے۔ان بچوں کے ساتھ روایتی شلوار قمیض اور دو پٹے میں ملبوس عورتیں ،دور سے پتہ دیتی ہیں کہ پاکستان،پاکستان ہے۔ڈکسی بلور کی اطراف کی گلیوں سے سینکڑوں بچے اپنے والدین کے ساتھ اسکول کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔انہیں سڑک پار کرانے والی ’’گوری عورتیں ‘‘ ویلکم کرتی ہیں اور یہ بھی انہیں مسکرا مسکرا کر ’’گڈ مارننگ‘‘ کہتے ہیں۔

یہ علاقہ اس لیے بھی ہماری کمیونٹی میں زیادہ مقبول ہے کہ مسی ساگا کا ایک طویل صنعتی علاقہ ڈکسی روڈ کے ساتھ ساتھ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ان کارخانوں کو آباد رکھنے میں ڈکسی بلور کی اس آبادی کا بڑا ہاتھ ہے۔صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے چھوٹی موٹی پرانی کاروں میں ہر گھر کے ’’ابا‘‘ اپنی اپنی فیملیوں کا پیٹ پالنے کے لیے گھر چھوڑ دیتے ہیں۔کچھ وہ ہیں جو سہ پہر کو نکلتے ہیں اور کچھ کے حصے میں رات کی مشقت ہے۔ ’’اماّئیں ‘‘ بھی ان ہی نوکریوں کی عادی ہیں کہ یہاں گھر کے ہر فرد کو کام کرنا پڑتا ہے۔

سبھی خوش ہیں کہ اس علاقے میں ان کی مطلب اور مقصد کا سب سامان موجود ہے۔گریڈ 12تک کے اسکول،ایک مسجد جہاں بچوں کو دینی تعلیم دینے کا اہتمام ہے۔پہلے یہ مسجد ایک بلڈنگ کے اپارٹمنٹ میں قائم تھی۔اب کسی مخیر شخص نے نسبتاً بڑی جگہ مسجد کی صورت میں خرید کر دے دی ہے۔آس پاس ایسے گرو سری اسٹورز بھی ہیں جہاں پاکستانی اور حلال اشیاء خورد و نوش باآسانی دستیاب ہیں۔ڈکسی ساؤتھ پر چلے جائیں تو ڈنڈاس (Dundas)کی پٹّی کے ساتھ ’’دیسی دکانوں ‘‘ کی ایک قطار ہے جس میں مزے بھی وہی پاکستانی اسٹائل دکانوں کے ہیں۔چیزیں بکھری ہوئی ، گندگی، مول تول، بھاؤ کا اتار چڑھاؤ۔آپ دو سو ڈالر کا بھی سامان خرید لیں پر مغرور دکان مالک آپ سے مسکرا کر بات نہیں کرے گا۔کسی چیز کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے آپ اسٹور کے جواں سال مالک کو پکاریں گے۔وہ گردن موڑ کر دیکھنا پسند نہیں کرے گا۔شکریہ کہنے اور خیریت دریافت کرنے کی کوئی روایت یہاں نہیں۔

اسی طرح ڈکسی نارتھ کی پٹّی پر بھی کچھ اسٹورز اور ریسٹورنٹس موجود ہیں۔ایک ’’ٹیک آؤٹ‘‘ کے کاؤنٹر پر مالک نے ایسا شخص بٹھا رکھا ہے جس سے 60ڈالر ز کی خریداری کے بعد بھی اگر آپ سلاد یا رائتہ کے بارے میں پوچھیں تو وہ ایسے جھڑک کر جواب دے گا جیسے آپ لنگر سے کھانا لے رہے ہوں۔یہی وجہ ہے کہ کمیونٹی بد دل ہو کر دوسرے مسلم ممالک کے ریسٹورنٹس اور دکانوں کا رخ کر لیتی ہے۔

یہاں کے اپارٹمنٹ میں بھی اکثر پاکستانی بستے ہیں۔بلڈنگ کے مالکان نے بھی سمجھ لیا ہے کہ ان ساؤتھ ایشین کو کینیڈین قوانین اور اپنے حقوق سے صحیح طرح آگاہی نہیں ہے۔چناں چہ بعض ’’بلڈنگ سو پر‘‘ بھی توہین آمیز رویہ اختیار کئے رکھتے ہیں۔اکثر اپارٹمنٹس میں چولہے بہت دیر سے گرم ہوتے ہیں اور شوہر بہت جلدی۔بیگمات کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اگر فریج ٹھنڈا نہ ہو رہا ہو اور نلکے سے پانی بہہ رہا ہو یا گرم پانی نہ آتا ہو تو وہ کس سے ،کس طرح رجوع کریں ؟بعض بلڈنگوں میں صفائی کا انتظام انتہائی ناقص ہے۔

اب اسی ڈکسی بلور کے اطراف ایک نئی واردات شروع ہو گئی ہے۔کچھ جنسی ابنارمل سڑک پر چلتی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کر رہے ہیں۔اس طرح کی پندرہ رپورٹ شدہ وارداتوں کے بعد ’’پیل پولیس‘‘ اور دیگر محکمے حرکت میں آ گئے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی وارداتیں ڈکسی ،بلور پر ہی کیوں ہو رہی ہیں ؟وجہ اس کی یہی ہے کہ یہاں کی خواتین نے ایسی وارداتوں پر پولیس کو رپورٹ نہیں کی جس کی وجہ سے جرائم کرنے والوں کے حوصلے بڑھے۔یہ پاکستان نہیں کہ اگر کوئی کسی خاتون کو چھو کر گزر جائے ، اس پر فحش جملے کسے یا اسے جسمانی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کرے تو خاتون پولیس تو پولیس اپنے گھر والوں کو بھی کچھ نہیں بتاتی۔کیوں کہ ایسی باتوں پر وہاں صرف مذاق بنتا ہے مگر کینیڈا میں ایسے قوانین ہیں کہ آپ کی ذات، شخصیت اور کر دار کی ذرا سی بھی توہین پر توہین کرنے والے کی سرزنش کی جا سکتی ہے اور اسے سزا بھی مل سکتی ہے۔

پیل حکام کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی وارداتوں میں اضافہ اس لیے ہوا ہے کہ خواتین نے تغافل سے کام لیا بر وقت پولیس کو رپورٹ نہیں کی۔اگر کوئی خاتون اس بارے میں کسی واقعے کا شکار ہوئی ہوں یا کسی کو اس جرم میں ملوث دیکھا ہو تو وہ آج بھی پولیس کو اس نمبر پر کال کر سکتی ہیں 905-453-212

توہین اگر بلڈنگ میں ہو رہی ہو ،دکان یا سڑک پر آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ توہین کرنے والے کے خلاف رپورٹ درج کروا ئیں۔ہم بابے ، مامے ، چاچے ، گروپس اور سیاسی پریشر کے ماحول سے دور نکل آئے ہیں۔اپنے آپ کو دوسرے اور تیسرے درجے کے نفسیاتی شہری سے باہر نکالئے اور ایک با وقار کینیڈین کی طرح جینا سیکھئے۔قانون کی پاسداری ہر ایک کا فرض ہے۔آپ کا ہاتھ اور دوسرے کی ناک ، بلا اجازت مَس نہیں ہو سکتی۔

جنت کی سواری ، کینیڈا کی ٹرینیں اور بسیں

پاکستان سے کینیڈا آنے والوں کے لئے یہاں کی سب سے دلچسپ چیز سب وے اور بسوں کا نظام ہے۔ا یسی بسیں اور ٹرینیں ہم پاکستانیوں نے خواب میں بھی نہیں دیکھی ہوں گی۔ وقت کی پابندی کا پہلا سبق ہمیں ان بسوں اور ٹرینوں سے ہی ملتا ہے۔ مجال ہے جو کوئی بس اور ٹرین لیٹ ہو جائے۔سسٹم ایسا کہ گھر بیٹھے فون پر اپنے قریبی بس اسٹاپ کا نمبر فیڈ کیجئے اور معلوم کر لیجئے کہ پہلی بس کتنے بجے اور دوسری کتنے بجے آنے والی ہے۔ ٹھیک وقت پر بس اسٹاپ پر پہنچیئے اور اپنی مطلوبہ بس پر سوار ہو جائیے۔ بسیں ایسی شفاف ، آرام دہ اور پُر سکون کہ لگتا ہی نہیں کہ منزل کتنی دور ہے۔ بس میں بیٹھئے ، کتاب کھولیے یا پھر مائیک کانوں سے لگائیے اور میوزک یا کتاب کی دنیا میں کھو جائیے۔ نئے آنے والوں کے لئے کتاب اور میوزک بس میں سننا ذرا کچھ دیر سے ہی سمجھ میں آتا ہے۔ پاکستان میں تو یہ کام ڈرائیوروں کا تھا کہ وہ زور دار میوزک کے ساتھ ایسے سیکسی گانے سب کو سنایا کرتے تھے کہ عورتوں کے ماتھے پر پسینہ اور مردوں کے چہرے پر غصہ اتر آتا تھا۔ یہاں تو بس بھی ایک ’’منی ورلڈ ‘‘ سے کم نہیں ہوتی۔ اگر آپ صرف مسافروں کو ہی چڑھتے اترتے دیکھتے رہیں تو سفر کی کوفت دور ہو جاتی ہے۔ ٹکٹ کنڈیکٹر کی کوئی جھنھجٹ نہیں ، چڑھتے ہوئے اپنا کرایہ کرنسی یا ٹکٹ کی شکل میں ڈرائیور کے ساتھ لگے ہوئے بکس میں ڈال دیجئے اور ایک ’’ٹرانسفر‘‘ لے لیجئے۔یہ ٹرانسفر آپ کو تین گھنٹے تک کسی بھی ٹکٹ سے بے نیاز کر دیتا ہے۔بسیں سکون سے چلتی ہیں۔ لوگ اترتے اور چڑھتے ہیں۔ مجال ہے کہ کوئی کسی کو چھو بھی لے ، پاکستان میں جب تک دس کندھے اوردو جوتے آپ سے نہ ٹکرائیں ، سفر کا اطمینان نصیب نہیں ہوتا تھا۔ ہم اکثر آٹھ بار اپنے جوتے پر دوسرے کا جوتا چڑھا ہوا دیکھ کر سمجھ جاتے تھے کہ ہمارا اسٹاپ آ گیا ہے۔

ڈرائیور بھی اتنے مہذب اور پُرسکون ہوتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے وہ بس نہیں چلا رہے بلکہ اپنے لیونگ روم میں بیٹھ کر قیلولہ کر رہے ہیں۔ ہر مسافر کو گڈ مارننگ اور بائی بائی کہنا جیسے ان کی زبان پر رکھا ہوتا ہے۔ آج تک ہم نے بس میں کسی کو ایک دوسرے سے لڑتے یا زبان کی جُگالی کرتے نہیں سنا۔ بس اسٹاپ پر بس رکوانے کے لیے بس کو پیٹنے کی حاجت بھی نہیں ہوتی۔ خاموشی سے ڈور ہلا دیں ، ڈرائیور آپ کو منزل پر اتار دیتا ہے۔

مسافر ایسے بے نیاز اور شاندار کہ آپ کے برابر بیٹھ کر بھی آپ کی طرف نہیں دیکھتے۔ پتہ نہیں چلتا کہ جو کندھے سے کندھا ملائے بیٹھا ہے وہ مسٹر ہے یا مس۔ بس یہاں لوگ تنگ ہوتے ہیں تو صرف Smellسے۔ پڑوسی مسافر کے کپڑوں یا جسم سے اچھی Smellنہ آ رہی ہو تو اکثر دوسرے کا منہ بن جاتا ہے۔ ان میں سے بعضے بغیر کسی تردّد کے سیٹ چھوڑ کر کسی اور سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔

جاب کے علاوہ کوئی اور وقت ہو تو بس میں ہر طرح کے قہقہے ، گفتگو اور تبصرے بھی سننے کو ملتے ہیں۔ جوان لڑکیاں ہوں تو وہ آپس میں بوائے فرینڈ زکی باتیں کرتی ہیں اور ویک اینڈ نائٹ کے وہ وہ راز فاش کرتی ہیں کہ اکثر اگر آپ کا کان اس طرف ہو تو اسے سرخ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

بوڑھی عورتوں اور بوڑھے مردوں کا پسندیدہ موضوع RSSPیا پھر گھر کی مارگیج ہوتا ہے۔ درمیان میں وہ Discountکوپن یا کہیں لگی ہوئی کسی خاص Sellپر بھی دل کھو ل کر باتیں کر لیتے ہیں۔

ٹرین میں بیٹھو تو دل ہی نہیں کرتا کہ ٹرین سے اتریں۔ ایسی تیز رفتار اور آرام دہ کہ لگتا ہے جیسے ہوائی جہاز میں بیٹھے ہیں۔ ٹرینوں کو بسوں میں یوں لنک کر دیا گیا ہے کہ ہر ٹرین کے بعد بس اور بس کے بعد ٹرین مل جاتی ہے۔ لوگ صبح سویرے جب کسی سب وے پر کار پارک کر کے دور دراز علاقے کے لیے ٹرین میں بیٹھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کاروں کا جمعہ بازار لگا ہے۔ کئی فرلانگ تک کاریں ہی کاریں نظر آتی ہیں۔ یہاں آ کر ہم یہی سوچتے ہیں کہ اگر پاکستان میں صرف بسوں اور ٹرینوں کا ایسا ہی سسٹم رائج کر دیا جائے تو ہماری زندگی کا بے ڈھنگا پن خود بخود دور ہو جائے گا۔ ان ٹرینوں اور بسوں کی وجہ سے ٹورانٹو کی سردی اور گرمی بالکل نہیں کھلتی۔ ان ٹرینوں اور بسوں میں بیٹھ کر اندازہ ہوتا کہ یہاں کے لوگ کتنے مہذب ، کتنے محنتی ہیں اور یہ کہ یہاں کی حکومت اپنی عوام کے لیے کس قدر چاہ اور اخلاص رکھتی ہے۔ مسی ساگا کا بسوں کا نظام تو فی الواقعی تعریف کے قابل ہے۔ آپ جہاں جانا چاہتے ہیں گھر بیٹھ کر فون کیجئے اور معلوم کر لیجئے کہ مطلوبہ سفر کے لیے آپ کو کون سی بس ، کہاں سے کتنے بجے ملے گی۔ کینڈینز کلچر کی آدھی شدھ بدھ ہم نے ان بسوں اور ٹرینوں میں سفر کر کے ہی حاصل کی ہے۔ اگر جنت میں کوئی سواری ہو گی تو شاید یہی کینیڈین بسیں اور ٹرینیں ہوں گی۔

ہر ہفتے چھ نئی خواتین کی تصاویر

پتہ نہیں کیسے ان کے ہاتھ ہمارا پتہ لگ گیا ہے اور کیوں کہ انہیں یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ ہم ’’سنگل ‘‘ ہیں۔ چنانچہ ہر ہفتے ہمیں ڈاک سے ایک لفافہ ملتا ہے جس میں ہر بار 6نئی تصاویر ہوتی ہیں ’’سنگل ‘‘ خواتین کی ،جومسی ساگا ہی میں رہتی ہیں اور جلد سے جلد ’’بوائے فرینڈ‘‘ بنانا چاہتی ہیں ، لفافہ بھیجنے والے بار بار تاکید کرتے ہیں کہ ہم جلد از جلد فون پر ان سے رابطہ کریں اور بتائیں کہ ہم کس خاتون کو Datingکا شرف بخشنا چاہتے ہیں۔ اچھے مسلمان کو چھ خو ف لاحق ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا خوف کہ وہ اس سے ایمان کی دولت نہ چھین لے۔فرشتوں کا خوف کہ وہ اس کے گناہ نہ دیکھ لیں۔ شیطان کا خوف کہ وہ اس کو اپنے جال میں نہ جکڑ لے۔ موت کے فرشتے کا خوف کہ وہ اچانک روح نہ قبض کر لے ، دنیا کا خوف کہ آخرت سے غافل نہ کر دے ، اہل و عیال کا خوف کہ انسان اس میں مشغول ہو کر اللہ کو نہ بھول جائے۔

اچھے شوہر کو بھی چھ خوف لاحق ہوتے ہیں۔ بیوی فون پر اس کی گفتگو نہ سن لے ، بیوی اس کی ای میل یا خطوط نہ پڑھ لے ، بیوی اس کی تنخواہ کی سلپ یا بنک ریکارڈ نہ چیک کر لے ، شاپنگ مال میں اس پر نظر نہ رکھے کہ وہ کس کے پیچھے پیچھے جا رہا ہے ، یہ نہ دیکھ لے کہ دفتر سے چھٹی کے بعد وہ کس خاتون کو اپنی کار میں بٹھا کر گھر ’’ڈراپ‘‘ کرنے جاتا ہے۔ گھر دیر سے آنے پر بیوی یہ نہ پوچھ لے کہ چار گھنٹے کہاں غائب رہے ؟

سمجھنے کو تو شوہر حضرات اپنے آپ کو معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ سمجھتے ہیں مگر یہ بات سچ ہوتی تو شوہروں کے لیے بھی ’’این جی اوز ‘‘ کام کرتیں اور ان کے لیے ’’دارلامان‘‘ یا ’’ایدھی ہوم‘‘ ہوتے۔ شوہروں کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ احمق شوہر:۔ یہ وہ شوہر ہوتے ہیں جو کسی عورت سے خوبصورتی کے لیے شادی کرتے ہیں۔

لالچی شوہر :۔ یہ وہ شوہر ہوتے ہیں جو دولت کی خاطر دولت مند عورت سے شادی کرتے ہیں۔

حقیقی شوہر :۔ یہ وہ شوہر ہیں ،مجھ سمیت جو حسن سیرت کی وجہ سے کسی کو اپنی بیوی کا درجہ دیتے ہیں مگر بعد میں شوہر کو کیا درجہ ملتا ہے اس کے لیے یہ قطعہ ہی کافی ہے :۔

میری بیگم سے اک دن یہ کہا اس کی سہیلی نے

امور خانہ داری کے لیے نوکر نہیں رکھتی

کہا بیگم نے کہ بڑی نادان ہو تم بھی

بھلا نوکر کیوں رکھوں ، کیا شوہر نہیں رکھتی

مگر شوہر آخر شوہر ہوتا ہے وہ پھر بھی کبھی کبھی خود کو گھر میں بادشاہ محسوس کرتا ہے ؟ مگر کب ؟ جب اس کی بیگم میکے گئی ہوئی ہوتی ہے۔ مجھ میں اور میری بیوی میں ایک فرق بہت زیادہ ہے جب فون آتا ہے اور میں ریسیور اٹھاتا ہوں تو ساتھ ہی ساتھ قلم اٹھانے کی فکر کرتا ہوں اور اگر میری بیوی فون اٹھا لے تو وہ بیٹھنے کے لیے کرسی تلاش کرتی ہے۔ اسے زیورات سے سخت الرجی ہے ، بشرطیکہ وہ کسی اور کو پہنے دیکھ لے۔ کل میں نے اپنی بیگم سے فخریہ انداز میں کہا کہ تم نے دیکھا کل رات پارٹی میں ایک عور ت مجھے دیکھ کر مسکرائی تھی۔ بیگم نے قطعی برا نہیں منایا اور بولیں ’’ یہ میرے لئے کوئی نئی بات نہیں ، جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو میری بھی ہنسی چھوٹ گئی تھی‘‘

ہمارے لیے تو نئی بات وہ تصاویر ہیں جو ہر ہفتے ہمیں بذریعہ ڈاک موصول ہوتی ہیں اور جنہیں ہم بیگم سے چھپ کر دیکھتے رہتے ہیں۔ دل ہی نہیں کرتا کہ ان میں سے کسی کو بھی جواب دیں کیوں کہ ہر ایک کی عمر 45سال سے کم نہیں۔ یہ کوئی "Single Again"قسم کا کلب ہے جہاں بڑھاپے کی دہلیز پر بیٹھی خواتین ایک بار پھر ’’پیا ، پیا‘‘ ڈھونڈتی ہیں۔ ہمارے یہاں اس عمر میں خواتین اپنے بچوں کی شادی کی فکر میں ہوتی ہیں۔ جہیز کے کپڑے ٹانکتی ہیں ، روپے پیسے جمع کرتی ہیں ، بچوں کے سسرالیوں کی دعوتوں کا اہتمام کرتی ہیں۔ ہمیں تو بس ایک قطعہ یاد آ رہا ہے :۔

اگر بیوی ہو خوش اخلاق تو سسرال والے خوش

سسر بھی ، ساس بھی ،دیور ، نند بھی اور ہم بھی

اگر بیوی ہے بد خو، چڑچڑی تو روز جھگڑے ہوں

عمل سے زندگی بنتی ہے ، جنت بھی جہنم بھی

آصف زر داری کینیڈا میں ’’بلیو کالر جاب‘‘ کریں گے ؟

ایک خبر کے مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو کے اکلوتے ، لاڈلے شوہر آصف زر داری نے جیل میں سات سال مکمل کر لیے ہیں۔ اس موقع پر ان کی رہائی کے لیے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو کبھی آصف کو اسیری میں دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے اور انہیں جیل کی ہوا کھلانے میں ان لوگوں کا ہاتھ نہیں تو انگلیاں ضرور تھیں۔ اب چونکہ اقتدار کے لیے نواز شریف اور بے نظیر کی باری باری اننگز لینے کی پریکٹس ختم ہو چکی ہے اس لیے دونوں متحدہ اپوزیشن کے بینر تلے اکٹھے ہو چکے ہیں اور مل کر آصف زرداری کی رہائی کے لیے احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔

آصف زر داری ہماری سیاسی تاریخ کا ایک ’’عجیب و امیر ‘‘ کر دار ہیں۔ شیخ رشید نے ’’کنوارے ‘‘ رہ کر سیاست میں شہرت حاصل کی اور آصف نے ’’شادی شدہ‘‘ ہو کر۔ کنوارے آصف سے آئینہ واقف تھا یا پھر ان کے والد مرحوم حاکم علی زر داری، حاکم زر داری کی زندگی بھرکی ’’کمائی ‘‘ آصف ہیں اور آصف کی ’’کمائی‘‘ کیا کچھ ہے۔ اس کا پتہ ’’نیب‘‘ والے ہی جانتے ہیں۔

آصف زرداری پاکستان کے واحد مرد ہیں جن کی بیوی وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔ بے نظیر جب اقتدار میں ہوتیں آصف ’’وزیر اعظم ہاؤس ‘‘ میں رہتے اور جیسے ہی وہ اقتدار سے الگ ہوتیں آصف جیل چلے جاتے ہیں۔ اب پچھلے سات سال سے وہ ’’اندر‘‘ ہیں اور بے نظیر ’’باہر‘‘ ۔ آصف کے چہرے پر دو چیزیں بہت سوٹ کرتی ہیں ، نمبر ایک عینک ، نمبر دو مونچھیں۔ ان میں سے موخر الذکر کا وجود اب چہرے پر باقی نہیں۔ سنا ہے کسی نے آصف زرداری سے کہا تھا ’’ ہم آپ کو کلین دیکھنا چاہتے ہیں ‘‘ چنانچہ آصف ’’کلین شیو ‘‘ ہو گئے۔ ان کی مونچھیں اڑانے کے واقعہ کا کئی دن تک اخبارات اور خواتین میں چرچا رہا۔ کسی نے اس واقعہ کو ان کے مرحوم سالے مرتضیٰ بھٹو سے بھی منسوب کرنے کی کوشش کی۔ آج کل آصف کے چہرے پر صرف عینک ہے۔ اس عینک کے بارے میں مشہور ہے کہ اس سے پاکستان کا قومی خزانہ صاف صاف دکھائی دیتا ہے۔ مقام شکر ہے کہ آصف کا اب کوئی ’’سالا‘‘ بقید حیات نہیں ورنہ ’’عینک اسکینڈل‘‘ بننے میں بھی دیر نہیں لگتی۔

پاکستان میں دو شوہر مثالی تسلیم کئے جاتے ہیں ، آصف زرداری اور عمران خان۔ ان دونوں کی بیویاں بھی مثالی ہیں۔ بیویاں عموماً شوہر کا بینک اکاؤنٹ کم کرنے میں مہارت رکھتی ہیں مگر آصف اور عمران کی بیویوں نے ان کے بینک بیلنس میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ ویسے بھی آصف کی ترقی غیر معمولی رہی ہے۔

پہلی بار جب بے نظیر اقتدار میں آئیں تو آصف ’’ مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کہلائے اور دوسری بار ’’مسٹر ہنڈریڈ پرسنٹ‘‘ ۔شادی مرد کے لیے اصل میں ’’عمر قید ‘‘ ہوتی ہے اور حکومت پاکستان آصف کو مسلسل جیل میں رکھ کر یہی ثابت کرنا چاہتی ہے۔

آصف کی صحت اور بیانات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جیل کی دیواروں نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ اقتدار میں تھے تو پانی فرانس سے منگواتے تھے اور جیل میں ہیں تو دوبئی سے۔ ان کی جیل کی زندگی بھی پاکستان کے کروڑوں غریبوں کی آزاد زندگی سے بہتر ہے۔ شادی کے بعد سے انہوں نے ’’سرکاری کھانے ‘‘ کی جو عادت ڈالی ہے وہ ’’سرکاری مہمان‘‘ بن کر آج بھی جاری ہے۔

ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اگر آصف کو جیل میں رکھنے کی بجائے کینیڈا بھیج دیا جاتا اور ایک عام آدمی کی طرح ان سے بلیو کالر جاب کروا ئی جاتی تو شاید وہ پھر بھولے سے بھی سیاست کے راستے اسلام آباد جانے کا نہ سوچتے۔ ویسے بھی اب بے نظیر بھٹو کو اپنے بیرونی دورے کم کر کے آصف کو بیرون ملک بھیجنے کا سوچنا چاہیئے۔ا گر نواز شریف راتوں رات جیل سے نکل کر سعودی عرب روانہ ہو سکتے ہیں تو آصف سوئیزر لینڈ کیوں نہیں ؟

آصف نے جیل کے یہ سات سال بڑے بھر پور طریقے سے گزار ے ہیں ، کبھی بلیڈ سے گلا کاٹنے کا قصہ، کبھی بیساکھی لے کر چلنا ،کبھی نواز شریف کو کمر کا درد دور کرنے والی اپنی مشین بھجوانا ، کبھی دانتوں کے درد کی کہانی اور ہر پیشی پر پیر پگاڑا جیسا کوئی کھلکھلاتا بیان جاری کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ بقول آصف ہی کے ’’جیل میرے لیے سسرال بن گئی ہے ‘‘ یعنی انہیں بحیثیت قیدی جیل میں وہی مزے مل رہے ہیں جو داماد کو سسرال میں ملتے ہیں۔

آصف نے تازہ بیان یہ دیا ہے کہ بے نظیر اگلے سال دوبارہ وزیر اعظم بننے والی ہیں گویا دوسرے معنوں میں وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگلا سال ان کی رہائی کا سال ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کے اس بیان کا وزیر اعظم ’’یرغمالی‘‘ نے کتنا اثر لیا ہے۔ کیا خبر کہ ایک ڈیل کے ذریعہ جس ’’ا تھارٹی‘‘ نے ایک وزیر اعظم کو سعودی عرب بھیجا تھا ، وہی دوسری ڈیل کے ذریعہ ایک اور وزیر اعظم واپس پاکستان بلا رہا ہو۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم سب آصف کو جیل میں دیکھنے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ان کی رہائی کی بات کچھ عجیب سی لگتی ہے۔ اب تو آصف ہم سب کو ’’ہنڈریڈ پرسنٹ قیدی ‘‘ لگتے ہیں۔

کینیڈا میں ریڈیو پروگرام کرنا اور اخبار نکالنا سب سے آسان کام ہے

ہم ایک خبر پڑھ کے بہت خوش ہوئے۔ خبر یہ تھی کہ کینڈا اگلے پانچ سالوں میں دنیا کا سب سے بڑا تجارتی مرکز بن جائے گا۔ پاکستان میں تھے تو ایسی خبریں سیاست دانوں سے سنا کرتے تھے مثلاً کراچی کو پیرس بنا دیں گے ، پاکستان ایشین ٹائیگر بننے والا ہے ،اقتصادی ترقی کی شرح کے اعتبار سے پاکستان پڑوسی ممالک میں سب سے آگے ہے۔ یہ سب خبروں کی حد تک ہوا کرتا تھا۔ عوام تک اس کا فیض پہنچتے نہیں دیکھا مگر کینیڈا کے حوالے سے ہمیں اس خبرپر پورا بھروسہ ہے کیوں کہ کینیڈا میں جو کہا جاتا ہے اس پر عمل کیا جاتا ہے۔

کینیڈا جس طرح نئے ایمگرنٹس بلا رہا ہے اس سے ایمگرنٹس کے چہروں اور گھروں میں نہ سہی یہاں کے کارخانوں اور تجارتی مراکز میں رونق بڑھتی جا رہی ہے۔ آنے والے اپنے پیشوں میں نہ سہی کارخانوں کی مشینوں کے ساتھ ضرور منسلک ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں کا سسٹم کچھ ایسا کہ ایک چھوٹی موٹی نوکری سے بھی زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں۔ اگر چہ حکومت دھوم دھڑکے سے اچھا خاصا ٹیکس لے لیتی ہے اور دوسری جانب کم تنخواہ داروں کی مناسب مدد بھی کرتی ہے۔ چائلڈ ٹیکس بینی فٹس ، ٹیکس ریٹرن ، جی ایس ٹی ریٹرن ، ویلفیئر ، ان ایمپلائمنٹ بینی فٹس جیسی سہولتیں بھی براہ راست ماہانہ یا ہفتہ وار ضرورت مندوں کو رقم فراہم کرنے کا ذریعہ ہے ، بہت سارے ایمگرنٹس جنہوں نے زندگی میں کبھی لیبر جاب نہیں کی تھی یہاں کی لیبر لائف سے سخت پریشان ہو جاتے ہیں ، بعض ایمگرنٹس جو 40سال کی عمر میں یہاں آتے ہیں ، ان کے لیے کینیڈین جاب کلچر زیادہ پریشانی کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسے لوگ اگر مالدار ہوتے ہیں تو ملازمت کی بجائے کوئی کاروبار ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں۔

پاکستانی کمیونٹی میں جو لوگ کاروبار کرنا چاہتے ہیں وہ زیادہ تر ڈالر اسٹور ، گروسری اسٹور یا ریسٹورنٹ بزنس کی طرف آنا چاہتے ہیں ،کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو لوگوں کو ڈالر اسٹور کھلوا کر دینے کا کام کرتے ہیں اس کام کے لیے یہ لوگ نئے آنے والوں سے مخصوص رقم طلب کرتے ہیں ان میں سے بعض رقم لے کر اپنے کلائنٹ کو تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ نئے آنے والوں کو چاہیئے کہ وہ جو بھی کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں اس کا تجربہ حاصل کریں۔ چند مہینے ایسے اسٹور پر ملازمت کر کے دیکھیں۔ بعض کاروبار دور سے اچھے اور منافع بخش نظر آتے ہیں مگر جب خود کرو تو اصلیت کھلتی ہے۔ گروسری اسٹور ز کو عموماًً منافع بخش سمجھا جاتا ہے مگر در حقیقت یہ انتہا ئی مشقت اور محنت طلب کاروبار ہے۔اس میں وقت زیادہ دینا پڑتا ہے۔ خصوصاً کینیڈا میں یہ کاروبار انتہائی محتاط ہو کر کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ ہر وقت فوڈ انسپکٹر آپ کے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں پھروہی گروسری اسٹور زیادہ کامیاب رہتا ہے جس میں میٹ شاپ بھی ہو۔ یہ میٹ شاپ ایک الگ درد سری ہے ، گوشت کاٹنے والے اور بنانے والے کم ملتے ہیں۔ اس کاروبار میں صرف وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اسے فیملی بزنس کی طرح چلاتے ہیں۔ ریسٹورنٹ کے لیے زیادہ سرمائے اور افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک چیلنجنگ کاروبار ہے۔ ڈالر اسٹورز کے لئے مارکیٹ سے مناسب واقفیت نہایت ضروری ہے۔ اگر آپ نئے ہیں تو تھوڑا وقت گزارئیے۔ اطمینان سے سوچ سمجھ کر کاروبار میں ہاتھ ڈالیے۔ یہاں کاروبار ڈوبنے میں دیر نہیں لگتی۔ اگر آپ ایک مرتبہ بینک کرپٹ ہو گئے تو کینیڈا میں بغیر کریڈٹ کارڈ اور قرضوں کے زندگی گزارنا محال ہو جاتا ہے۔

بہت سے پاکستانی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں کھول لیتے ہیں جیسے مارگیج کا لین دین، ایکسیڈنٹ کے بعد کی خدمات ، گھروں کی تعمیر و مرمت ، ڈرائیونگ سکھانے کے انسٹی ٹیوٹ ، کمپیوٹر کی خرید و فروخت اور مرمت وغیرہ وغیرہ۔ اگر آپ کو کوئی کام نہیں آتا تو آپ اخبار نکال سکتے ہیں یا ریڈیو پروگرام کر سکتے ہیں۔ یہ دو کام ایسے ہیں جن کے لیے کسی صلاحیت یا لائسنس کی ضرورت نہیں۔ اس کام کی تفصیلی معلومات کے لیے آپ ہمیں ای میل کر سکتے ہیں۔

ہمیں پوری امید ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں کینیڈا تجارت اور صنعت کے میدان میں جو مقام حاصل کرنے جا رہا ہے اس میں پاکستانی ایمگرنٹس کا بھی بہت ہاتھ ہو گا۔ ہم من حیث القوم بہت توانائی اور صلاحیت رکھتے ہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا جائے۔

لائسنس لیجئے ، ریڈیو پر کام کیجئے

اور پھر یوں ہوا کہ ’’چٹکیاں ‘‘ کے پچھلے دو کالم کمیونٹی میں موضوعِ بحث بن گئے۔ فون کالز آئیں ، ای میلز ملیں اور چند فیمیلیز ملیں ، ہر ایک نے کچھ نہ کچھ کہا۔ کسی نے برا بھلا ،کہا کسی نے تعریف کی۔ کسی نے مشورہ دیا ’’ریڈیو والوں کو کیوں مفت کی پبلسٹی دے رہے ہو ؟‘‘ ایک صاحب نے پوچھا ’’یہ اندھے کو اندھیرے میں ریڈیو کی کیوں سوجھی؟‘‘ غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی خفا ، کوئی خوش ، ہم نے یہ ضروری جانا ہے کہ کسی اگلے ریڈیو پروگرام پر تبصرہ کرنے سے قبل کچھ باتیں ریڈیو والوں سے کر لی جائیں۔ مانا کہ وہ وقت خریدتے ہیں اور بڑے مہنگے بھاؤ خریدتے ہیں مگر اسی خریدے ہوئے وقت کو جب وہ ہوا کے دوش پر سامعین تک پہنچاتے ہیں تو خود ’’فنکار ‘‘ یا صدا کار بن جاتے ہیں اور جو کچھ انہوں نے کہا اور کیا ہوتا ہے وہ سامعین کا اثاثہ بن جاتا ہے جس پر ہر ایک اپنی رائے محفوظ رکھتا ہے۔ ہمارے کالم بھی ہماری اپنی رائے کا آئینہ ہیں ، اگر کوئی اس سے متفق نہیں تو ہمیں اپنی رائے اور وضاحت سے آگاہ کر سکتا ہے جسے ہم اگلے کالم میں امانت سمجھ کر اپنے قارئین تک پہنچا دیں گے۔ ہمارا مقصد ان ریڈیو پروگراموں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اور انہیں بہتر سے بہتر صورت میں دیکھنا ہے۔

اب اس واقعہ کو ہی لے لیجئے کہ ریڈ یو پروگرام کرنے والی ایک خاتون ایک گروسری اسٹور پر گئیں اور مالک سے بولیں ’’آپ دوسری خاتون کے ریڈیو پروگرام میں اپنے گروسری اسٹور کا اشتہار دیتے ہیں ، مجھے بھی دیجئے نا‘‘ مالک مسکرایا اور بولا ’’ وہ خاتون میرے اسٹور کے بارے میں اپنے ریڈیو پر جتنا جھوٹ بولتی ہیں ، اگر آپ بھی اتنا بول سکتی ہیں تو میرا اشتہار آپ کے لیے بھی حاضر ہے۔‘‘

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟ اسی لئے ہمارے ذہن میں دو سوال آئے۔ پہلا یہ کہ کیا اخبارات میں ریڈیو پروگراموں پر تبصرہ ہونا چاہیئے ؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ کینیڈا میں ہر کام کے لیے لائسنس حاصل کرنا ضروری ہے سوائے اخبارات اور ریڈیو ، ٹی وی کے جہاں بغیر لائسنس لئے کوئی بھی طبع آزمائی کر سکتا ہے تو کیا یہاں بھی لائسنس کا حصول لازمی قرار دینا چاہیے ؟ تاکہ پروفیشنل اور نان پروفیشنل کا جھگڑا ہی ختم ہو جائے۔

ان سوالات کے ساتھ ہماری پہلی فون کال تھی۔ ریڈیو پاکستان ٹورانٹو کے میزبان ارشد بھٹی کے لیے ، معصوم سی صورت والے ارشد بھٹی نے صرف ڈھائی سال میں ریڈیو کی دنیا میں وہ نام کما لیا ہے جس نے بڑوں بڑوں کو دنگ کر دیا ہے۔ اسی لئے پیٹھ پیچھے اس پروفیشنل انسان کو ’’ریڈیو ٹیکنیشن‘‘ کہہ کر ان کی تضحیک سے بہت سے اپنے ظرف کا پیٹ بھرتے ہیں۔ چند کو یہ اعتراض بھی ہے کہ TCSصرف ان کے پروگرام ہی کو اتنا اسپانسر کیوں کرتا ہے ؟ ہمارے سوالات کے بھٹی صاحب نے بڑے شائستہ انداز میں جواب دئیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اخبارات میں ریڈیو پروگراموں پر تبصرہ ضرور ہونا چاہیئے تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ ہم کہاں بہتر ہیں اور کس جگہ پر غلطی کر رہے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ تبصرہ نگار جانبدار نہ ہو۔ لائسنس کے حوالے سے ارشد صاحب کی رائے تھی کہ لائسنس ضرور ہونا چاہیئے تاکہ ریڈیو پروگراموں کی کوالٹی میں اضافہ ہو اور اس طرح سامعین کی تعداد خود بہ خود بڑھے گی اور اہل افراد کی شرکت سے انہیں نان پروفیشنل کہنے کی روایت بھی ختم ہو جائے گی۔

ہمارے دوسرے مخاطب تھے بینڈ باجا کے معین جمال۔ ان کا کہنا تھا کہ ریڈیو پروگراموں کے سب سے بڑے جج ہمارے سامعین ہیں ، وہ اتنے باریک بین ہیں کہ ہماری ہر غلطی کو سیکنڈوں میں پکڑ لیتے ہیں۔ میں اپنے پروگرام ان کی رائے کی روشنی میں ترتیب دیتا ہوں۔ جہاں تک لائسنس کا تعلق ہے یہاں ریڈیو سرکاری نہیں ، نہ ہی ہم ملازمت کرتے ہیں۔ یہ اوپن مارکیٹ ہے ، وقت خریدا جاتا ہے ، جو اچھے پروگرام نہیں کرے گا خود بخود مارکیٹ سے آؤٹ ہوتا جائے گا۔ راج وہی کریں گے جنہیں پروفیشنل سوجھ بوجھ ا ور لگن ہو گی ، لہذا ہمارا لائسنس ہمارے سامعین ہیں۔

ریڈیو پاکستان ٹورانٹو کی میزبان ثمینہ ریاض اب ہمارے ساتھ فون پر ہیں۔ ان کا جواب بڑا فلسفیانہ تھا ’’ریڈیو پروگرام کو کسی اخباری تبصرے یا تنقید کی ضرورت نہیں کیوں کہ یہاں ریڈیو کا معاملہ بیک ہوم سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں ایک ہی کاندھے پر پورا بوجھ ہوتا ہے پھر کینیڈین معاشرہ کچھ اس طرح کاہے کہ ہر شخص تنہا ہے ، کسی سے اپنے دل کی بات شیئر نہیں کرتا۔ روز صبح ایک بوجھ لیے گھر سے نکلتا ہے اور اس سے زیادہ بھاری بوجھ لیے شام ڈھلے گھر واپس لوٹتا ہے۔ ایسے میں اگر ریڈیو پروگرام والے اپنے آپ میں مست ہیں اور اس خوش کن خیال میں مگن ہیں کہ وہ سب کچھ بہترین کر رہے ہیں تو خدارا ان کے خواب نہ توڑئیے۔ یہ خوش کن خیال ہی انہیں اچھے سے اچھا پروگرام کرنے پر اکساتا ہے۔ اگر تبصرے شائع ہوں گے تو وہ برہم ہو جائیں گے۔ جھنجلا جائیں گے ، انہیں خوش رہنے دیں ، ان پر مزید بوجھ نہ لادیں۔‘‘

سن شائن ریڈیو کے متانت صاحب اور شاہین صاحبہ سے ہماری رات گئے ڈیڑھ گھنٹے تک گفتگو جاری رہتی ہے۔ اس خوش باش جوڑے سے بات چیت کر کے اندازہ ہوا کہ تمام ریڈیو پروگراموں پر ان کی گہری نظر ہے بقول ان کے وہ صرف ڈالرز کی ریس نہیں جیتنا چاہتے بلکہ ریڈیو کے ذریعے اپنے پاکستانی اور مسلمان ہونے کے تشخص کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ شاہین کا خیال تھا کہ ریڈیو اور اخبارات کو مل جل کر کام کرنا چاہیئے۔ ریڈیو والوں کو پرنٹ میڈیا کی پبلسٹی کرنی چاہیئے اور پرنٹ میڈیا کو ریڈیو والوں کا ہاتھ تھامنا چاہیئے۔ متانت لائسنس کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے تین سالوں میں اردو ریڈیو نے بڑی ترقی کی ہے۔ نامی گرامی پروفیشنلز آئے اور ہاتھ ملتے چل دیئے کیوں کہ کینیڈا کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ یہاں ریڈیو کو عروج نئے لوگوں نے دیا ہے۔ ہم نے خون جگر سے اس میڈیا کو سینچا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اشتہارات دینے والے اور حکومت پاکستان ہمارا ہاتھ تھامے کیوں کہ ہم پردیس میں بیٹھ کر اردو زبان اور اپنے کلچر کو زندہ رکھ رہے ہیں۔ مشتہرین ریڈیو پروگراموں کو اشتہارات دیتے ہوئے انصاف کا دامن تھامیں اور نظر رکھیں کہ کون کمیونٹی کی خدمت کر رہا ہے ، کون اہل ہے اور کون نا اہل؟

اگر آپ بھی اس حوالے سے اپنی رائے دینا چاہتے ہیں تو مجھے ای میل کیجئے۔ اگلے ہفتے کسی نئے ریڈیو پروگرام پر دلچسپ تبصرے کے ساتھ حاضری ہو گی۔ پھر ملیں گے گر خدا لایا۔

ٹورانٹو کے مولانا اور کرینہ کا ’’شانہ ‘‘

اِدھر ٹورانٹو میں برف پڑنی شروع ہوئی ہے اور ادھر انڈیا اور پاکستان کے درمیان میں بھی سرد مہری کی برف پگھلنی شروع ہوئی ہے۔ کہتے ہیں جوان اولاد ، ماں باپ، کو علیحدہ نہیں ہونے دیتی۔ یہی کام اٹھارہ سالہ جوان ’’سارک‘‘ نے کر د کھایا۔ دو روٹھے ملک ’’سارک کانفرنس‘‘ کی بدولت ’’مشترکہ اعلامیہ‘‘ کی منزل تک پہنچ گئے ورنہ ڈھائی سال پہلے آگرے میں یہی ملاقات ایک مشترکہ اعلامیہ کو بھی ’’جنم‘‘ نہ دے سکی تھی۔

اسلام آباد میں سارک اجلاس کے دنوں سے ہماری نظریں اسی پر جمی رہیں۔ بیگم تک متفکر رہیں کہ آج کل آپ ہمیں دیکھتے ہیں نہ پڑوس کو۔ انہیں کیا خبر تھی کہ اس دن سے الرٹ بیٹھے تھے جس دن سے ارملا اور پوجا بھٹ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ افسوس کہ ایسے ’’حسین دنوں ‘‘ میں ہم الطاف حسین ، بے نظیر اور نواز شریف کی طرح ’’ملک بدر ‘‘ ہیں۔ اگر جہانگیر بدر ہوتے تو آج ارملا کے ساتھ لاہور میں تصویریں کھنچوا رہے ہوتے۔ ارملا کے ’’نیک قدم‘‘ اور پوجا بھٹ کی ’’پوجا ‘‘ کا ہی اثر ہے کہ واجپائی جی نے مشرف صاحب سے ون ٹو ون ملاقات کر لی اور پاک بھارت تعلقات کے ساتھ فضائی رابطے بھی بحال ہو گئے۔

سارک کانفرنس کے انعقاد سے قبل اور دوران کئی دلچسپ واقعات ہوئے۔ مثلاً حکومت پاکستان نے ۲ جنوری کو شیخ رشید احمد کو بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی میزبانی سے ہٹا کر ان کی جگہ وزیر خزانہ شوکت عزیز کو میزبان وزیر کے فرائض سونپے تھے۔ ایک اعلیٰ پاکستانی عہدیدار کے مطابق یہ فیصلہ بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے شیخ رشید احمد کی نامزدگی پر اعتراض کے بعد کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ شیخ رشید کچھ عرصہ سے بھارتی نائب وزیر اعظم لال کرشن ایڈوانی کے بیانات کے مقابلے میں بیانات دے رہے تھے اور ان کا یہ بیان کافی متنازعہ بنا تھا کہ اگر بھارت نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو اس کو اس طرح تباہ کر دیا جائے گا کہ وہاں گھاس بھی نہیں اگے گی۔ شاید اسی وجہ سے بھارت نے ارملا اور پوجا جیسی آنکھیں پاکستان بھیجی تھیں۔ جو شیخ رشید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی جرا ت رکھتی تھیں اور جسے بقول شخصے ’’شیخ رشید چراگاہ سمجھتے ہیں۔‘‘

خود ہمارا یہ حال تھا کہ ہم پوری کانفرنس کے دوران مشترکہ اعلامیہ کا انتظار کرتے رہے۔ دو ملکوں کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہوں تو مشترکہ اعلامیہ کی وہی اہمیت ہوتی ہے جو شادی اور اور اس کے بعد اولاد کی پیدائش کی خبر کی ہوتی ہے۔ مقام شکر ہے کہ مشترکہ اعلامیہ آ گیا اور یہ بھی طے پا گیا ہے کہ فروری میں مزید مذاکرات ہوں گے مگر کس سطح پر یہ طے ہونا ابھی باقی ہے۔

ہمارا تو یہی خیال ہے کہ اگلے مذاکرات عوامی سطح پر ہونے چاہئیں کیوں کہ پاکستان اور ہندوستان کی دوستی نہ ہونے کا سب سے زیادہ نقصان دونوں ملکوں کے عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ وہ پیسہ جو عوامی سہولتوں کے لیے ، غربت دور کرنے کے لیے استعمال ہونا چاہیئے ، وہ فوجی طاقت بڑھانے پر صرف ہو رہا ہے۔ واجپائی، پائی پائی جوڑ کر میزائل بنا رہے ہیں۔ شکر ہے کہ اٹل بہاری نے مشرف سے نہ ملنے کا اٹل فیصلہ تبدیل کیا اور بند کمرے میں ایک گھنٹے تک ملاقات کی۔

ہمیں خطرہ تھا کہ جب ارملا اور پوجا بھٹ پاکستان آئی تھیں تو شیخ رشید ان سے بھی بند کمرے میں ملاقات کرتے شاید اسی ڈر سے پوجا اپنے ساتھ اپنے والد مہیش بھٹ کو بھی لے کر آئی تھیں۔

انڈین وزیر خارجہ یشونت سنگھ سنہا نے پاکستان پہنچتے ہی نعرہ لگایا تھا کہ آؤ معاشی تقسیم ختم کریں۔ ہم نعرہ لگاتے ہیں کہ آؤ معاشی اور فلمی تقسیم ختم کریں ، بقول سری لنکن نمائندے کے کہ جنوبی ایشیا میں انسانی وسائل کی کمی نہیں اگر اس کا مشترکہ استعمال ہو اور سارک ممالک مل کر ایک پاسپورٹ بنا لیں تو ہم لوگ بھی ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ چل سکتے ہیں۔ خاص طور پر اگر ’’شانہ ‘‘ کرینہ کپور کا ہو تو ہمیں ’’بشانہ‘‘ چلنے پر کوئی اعتراض نہیں۔

اعتراض تو ہمارے ڈکسی اور بلور کی مسجد کے مولانا صاحب کو تھا کہ ارملا آئی تو پاکستانیوں نے ان کا اتنا بڑھ کر استقبال کیوں کیا؟ انہوں نے یہ بات پچھلے جمہ کو خطبے کے دوران کہی جس پر بعد نمازِ جمعہ، نمازیوں کے درمیان کافی دلچسپ بحث چھڑی رہی۔ ادھر اسلام آباد میں ایک کافی ہاؤس میں ’’واجپائی کپ آف کافی‘‘ اور ’’مشرف اسپریسو ‘‘ کے نام سے کافی بکتی اور فروخت ہوتی رہی۔ کافی شاپ کے مالک بھٹی صاحب کا کہنا تھا کہ اگر لوگ واجپائی کے نام کی کافی پی رہے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ انڈیا ، پاکستان کافی ، حد تک ایک دوسرے کے قریب آتے جا رہے ہیں۔ رہ گئے کشمیری تو، توقع کی جا رہی ہے کہ ان کی تقدیر کا فیصلہ امریکہ کی خواہش کے عین مطابق ہونے جا رہا ہے کہ اب کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ رہے گا نہ پاکستان کا ، اب کشمیر صحیح معنوں میں آزاد ہو گا۔ اتنا آزاد کہ پاکستان کی سڑکوں پر ارملا اور دہلی کی سڑکوں پر ریما ناچ رہی ہو گی۔

کینیڈا کا ایک وائرس کئی سو ڈالر ڈکار جاتا ہے

گزشتہ چھ دنوں سے بیمار ہوں ، گلے کے انفیکشن ، بخار اور کھانسی نے بے دم کر دیا ہے۔ پہلی بار جاب سے بھی چھٹی لینی پڑی۔ کینیڈا میں کسی نے گلے لگایا ہو یا نہیں ، بیماری نے پہلی بار گلے سے لگالیا ہے بلکہ گلا ہی پکڑ لیا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بیماریاں کم سے کم ہوں گی مگر پتہ چلا کہ یہاں تو بیماریاں بھی بڑی ترقی یافتہ ہیں ، کئی مہینوں تک ہمیں یہ غلط فہمی رہی کہ کینیڈا مکھی اور مچھروں سے آزاد ہے مگر کچھ ہی دنوں بعد ایسے کنگ سائز مچھر اور مکھیاں دیکھیں کہ اپنے ملک کی مکھیاں اور مچھر حقیر سے نظر آئے۔

یہی حال بیماریوں کا نکلا جب تک اسپتال اور ڈاکٹر کی صورت نہیں دیکھی تھی۔ یہی سمجھتے رہے کہ شاید یہاں بیمار ہونے کے لیے خصوصی کوششیں کرنی پڑتی ہیں مگر بیٹے نے سائیکل چلاتے ہوئے ٹانگ توڑ ڈالی تو اسپتال جانا پڑا۔ وہاں اندازہ ہوا کہ ایک نرس کو کتنے مریض سنبھالنے پڑتے ہیں اور ڈاکٹر کے دیدار کے لیے کتنے گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ یہاں کے سرکاری اسپتال ہمارے یہاں کے پرائیویٹ اسپتالوں سے بھی بہتر لگتے ہیں مگر فری میڈیکل کی سہولت کی وجہ سے باری مہینوں میں آتی ہے۔ بیٹے کی ہڈی جوڑنے گئے تو ایسا لگا کہ جیسے سارا شہر ہڈی تڑوا بیٹھا ہے۔ا گرچہ یہاں والدین اور اساتذہ کو بچوں کی ہڈیاں توڑنے کی اجازت نہیں ، اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ کینیڈا میں زندگی میں ہر شخص ایک بار ضرور ہڈی تڑواتا ہے۔ کچھ کھیل اس طرح کے ہیں اور رہی سہی کسر برفباری میں پوری ہو جاتی ہے۔ برف میں پھسل کر ہڈی تڑوانے کے اتنے واقعات ہوتے ہیں کہ ان کی گنتی کلکولیٹر ہی میں ممکن ہے۔ پہلی بار جب ہم برف پر پھسلے تھے ہڈی تو بچ گئی تھی مگر درد کئی دنوں تک رہا تھا۔ ہمارے ایک دوست نے اس پھسلنے کے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا ’’ چلو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کینیڈا نے تمہیں قبول کر لیا ہے۔‘‘

یہ کینیڈا کے قبول کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم بیمار پڑے ہیں۔اس بیماری کی وجہ سے کئی کام ادھورے رہ گئے اور کئی ادھورے کام مکمل ہو گئے مثلاً بے خوابی اور نیند میں کمی کی جو شکایت ہمیں کینیڈا آ کر لاحق ہو گئی تھی وہ دور ہو گئی۔ ہم نے بستر کا اور بستر نے ہمارا منہ جی بھر کر دیکھا۔ بیوی کو بھی احساس ہوا کہ شوہر اس کا اپنا ہے ، اس نے کئی بار ہمیں وہ محاورہ با آواز بلند سنایا کہ لوٹ کر بدھو گھر کو آئے۔ اس دوران دوبارہ ڈاکٹر کو دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی اور یہ بھی اندازہ ہوا کہ کینیڈا میں اپنا علاج خود نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں ڈاکٹر کی پرچی کے بغیر کوئی دوا نہیں ملتی۔ ڈاکٹر بھی وقت پر ملتا ہے۔ پہلی بار ہیلتھ کارڈ استعمال ہوا اور اندازہ ہوا کہ کینیڈا میں اچھی ہیلتھ کے لیے ہیلتھ کارڈ کا ہونا کتنا ضروری ہے۔ خدا بھلا کرے ہماری کمپنی کا جو دواؤں کے پیسے ادا کر دیتی ہے ورنہ تو اچھی بھلی رقم اکاؤنٹ سے چلی جاتی۔

اس بیمار ی نے ہمیں کینیڈا کی کئی بیماریاں یاد دلا دیں۔ گرمیوں میں ویسٹ نائل وائرس ، سردیوں میں سارس ، ان کے بیچ میڈ کاؤ۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ دمہ کینیڈا میں ہوتا ہے پھر ذیابیطس اور دل کے امراض کی بھی بہتات ہے۔ ہر دو ماہ بعد کوئی نہ کوئی وائرس شہر میں موجود ہوتا ہے۔ جب تک آدھے سے زیادہ شہر وائرس کا شکار نہ ہو جائے وائرس غائب نہیں ہوتا۔ پھر ہر مرض کے پیچھے اتنی انویسٹی گیشن ہوتی ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ ڈاکٹر اتنے محتاط ہیں کہ جب تک ایکسرے اور خون کا ٹیسٹ نہ کروا لیں دوا نہیں دیتے۔ مریض چھوٹی بیماری کے ساتھ ڈاکٹر تک پہنچتا ہے اور جب تک اسے بڑی بیماری نہ جکڑ لے دوا نہیں ملتی۔ پھر ڈاکٹر اور میڈیا والے ہر بیماری سے اتنا ڈراتے ہیں کہ جو بیمار نہیں ہوتے وہ بھی بیمار نظر آتے ہیں۔ ہیلتھ کارڈ سے ڈاکٹر کی فیس تو ادا ہو جاتی ہے مگر دوائیاں اپنے پیسوں سے لینی پڑتی ہیں۔ کمپنی میڈیکل پلان اور میڈیکل انشورنس کی بڑی اہمیت ہے۔ بیماری سے صحیح معنوں میں سبق کینیڈا میں ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

کچھ ہی عرصہ قبل بچوں کا آئی ٹیسٹ کرایا۔ بیٹی کو چشمہ لگا تو اسے لگانے میں مہینوں نکل گئے۔ دو ماہ بعد آئی ٹیسٹ ہوا۔ چشمہ خریدنے گئے تو چشمہ تیار ہونے میں ایک ہفتہ لگ گیا ’’نظر ‘‘ کو ’’نظر ‘‘ لگ جائے تو ’’نظر ‘‘ ٹھیک کروا نے میں بھی اچھی خاصی جان نذر کرنی پڑتی ہے۔

ہم تھوڑے سے بہتر ہوئے تو دفتر گئے۔ پتہ چلا ہر دوسرا بندہ اس وائرس کا شکار ہے۔ جدھر دیکھو کھانسی کی آوازیں ، لوگ مارے ڈر کے چھٹی نہیں کرتے ، چھٹی کرو تو پیسے کٹ جاتے ہیں۔ پاکستان میں کیا شان تھی ذرا سی چھینک آئی اور بستر میں دبک گئے۔ فون کر دیا کہ آج دفتر نہیں آئیں گے ، طبیعت ناساز ہے۔ یہا ں یہ حال ہے کہ اب پیسے گن رہے ہیں کہ اس بار مہینہ کیسے گزرتا ہے۔ بستر کی راحت آئندہ دنوں کے لیے زحمت بن گئی ہے۔ اپنا ملک اپنا ملک ہے۔ وہاں ایسی بیماریوں کا علاج ہم خود کر لیا کرتے تھے۔ چھٹی کر کے تنخواہ بھی لے لیا کرتے تھے۔ یہاں تو ایک وائرس کئی سو ڈالر ڈکار جاتا ہے۔ واہ رے کینیڈا ! واہ!

کینیڈین پاسپورٹ کے لیے مسکراتی تصویروں پر پابندی

ایک خبر کے مطابق حکومت کینیڈا نے پاسپورٹ کے لیے مسکراتے ہوئے تصویر کھنچوانے پر پابندی عاید کر دی ہے۔ وزارت خارجہ کی ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہر صورت میں پاسپورٹ کے لیے منہ بند رکھ کر تصویر کھنچوائی جائے۔ اس خبر کو پڑھتے ہی ہم نے ’ منہ بند کر لیا‘‘ اور کالم ’’قلم بند ‘‘ کرنا شروع کر دیا۔ اب تک تو ہم یہی سمجھتے آئے تھے کہ کینیڈا میں ’ منہ کھولنے ‘‘ اور مسکرانے پر کوئی پابندی نہیں مگر اس خبر نے ہمیں ہوشیار کر دیا۔ لگتا ہے کینیڈا میں غیر شادی شدہ افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور وہ بیوی سے زیادہ کینیڈین پاسپورٹ کے حصول میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔ یہ سب ہی جانتے ہیں کہ شادی شدہ کی زندگی میں مسکراہٹ کا عمل دخل کم ہی ہوتا ہے۔ ہر مرد آخری بار ’’ نکاح‘‘ کے دن مسکراتا ہے۔ عورت شادی کے دن روتی ہے کیوں کہ بعد میں س کا کام سسرالیوں کو رلانا ہوتا ہے۔ ممکن ہے کینیڈین اس لیے زیادہ مسکرانے لگے ہیں کی ان کے یہاں شادی کا تصور کم ہی ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ’’کامن لاز ‘‘ کے تحت زندگی گذاری جاتی ہے۔ کامن لاز کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کسی بھی وقت بنا ء ’’کچھ لیے دئیے ‘‘ الگ ہو سکتے ہیں۔

کینیڈا میں ہم نے جس کو دیکھا وہ مسکرا رہا ہوتا ہے۔ بس ڈرائیور مسکراتا ملتا ہے ، پولیس مین مسکراتی نظر ڈالتا ہے اور مال کی کاؤنٹر گرل ہر وقت مسکراتی نظروں سے ہیلو کہتی ہے۔ یہ عادت اب اتنی پختہ ہوتی جا رہی ہے کہ لوگ پاسپورٹ کی تصویر کھنچواتے وقت بھی مسکرانے لگے ہیں۔

لگتا ہے کہ کینیڈا کی وزارت خارجہ میں کوئی ایسا شخص آ گیا ہے کہ جسے لوگوں کا مسکرانا اچھا نہیں لگتا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس شخص کی تصویر کھینچ کر تمام اخبارات میں شائع کرا دے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ کینیڈین بغیر مسکرائے کیسے لگتے ہیں ؟ ہم تو سمجھتے ہیں کہ پاسپورٹ پر مسکراتی ہوئی تصویر زیادہ بھلی لگتی ہے۔ اس طرح دنیا بھر کے امیگریشن حکام کو پتہ چلتا ہے کہ کینیڈین خوش باش لوگ ہیں۔ ان کی زندگی میں کوئی غم نہیں۔ ان کے یہاں ویسٹ نائل وائرس نہیں ، مزید بلیک آؤٹ کا کوئی خطرہ نہیں ، میڈ کاؤ ان کی زندگی سے دور جاچکی ہے ، ہر طرف شادمانی ہی شادمانی ہے جب ہی تو ہر کینیڈین مسکراتا رہتا ہے۔

مسکرانا ویسے بھی زندگی کی علامت ہے۔ مسکراہٹ آپ کے جسم کا صدقہ ہوتی ہے۔ دوسروں کے لیے مسکرانا نیکی ہے یہ اور بات ہے کہ مرد اس نیکی کو ہمیشہ عورتوں کے لیے مخصوص رکھتے ہیں۔ بیگمات کو اکثر شکایت رہتی ہے کہ شوہر ان کی طرف دیکھ کر مسکراتے نہیں ہیں ، قہقہہ لگاتے ہیں۔ اس راز کو جاننے کے لیے ہم نے ایک پرانے شادی شدہ سے مدد لی۔ ان کا کہنا ہے کہ میں جب بھی بیوی کی طرف دیکھتا ہوں ، منہ سے قہقہہ ابل پڑتا ہے۔ یہ سوچ کر کہ میں بھی کتنا احمق تھا ، اس عورت سے شادی کر لی ، بیوی کی طرف دیکھ کر مسکراتا اس لیے نہیں کہ جب بھی مسکراتا ہوں وہ کہتی ہے کہ ’’یہ طنزیہ مسکراہٹ کس لیے ؟‘‘

ایک صاحب نے کافی دنوں بعد تھری پیس سوٹ پہنا ، ٹائی لگائی اور گھر سے نکلنے سے پہلے بیوی سے کہا ’’ بیگم! ذرا مجھے زور سے ڈانٹنا ‘‘ بیوی نے حیران ہو کر پوچھا ’’مگر وہ کیوں ؟‘‘ وہ صاحب بولے ’’بیگم! کینیڈین پاسپورٹ کے لیے تصویر کھنچوانے جا رہا ہوں کہیں چہرے پر مسکراہٹ نہ رہ جائے۔‘‘

ایک پاکستانی امیگرنٹ کا کہنا ہے کہ وزارت خارجہ نے جن مسکراتی تصویروں کو دیکھا ہو گا، ان میں سے کوئی ایک بھی پاکستانی نہیں ہو گا۔ پاکستانی کینیڈا آ کر جن جن مسائل سے دو چار ہوتا ہے اس کے بعد چہرے پر مسکراہٹ باقی ہی نہیں رہتی۔ ویسے بھی وزارت خارجہ کو چاہیئے کہ وہ لوگوں کی بجائے فوٹو گرافرز کو متنبہ کرے کہ کوئی فوٹو گرافر فوٹو کھینچتے وقت یہ نہ کہے کہ ’’Smile Please‘‘

فوٹو کھنچوانا ویسے بھی بعض لوگوں کے لیے ایسا عمل ہے جیسا کہ کان کھنچوانا۔ ہم نے بڑے بڑوں کو دیکھا ہے کہ کیمرے کے سامنے ایسے ہو جاتے ہیں کہ ان کی تصویر نہ کھینچی جا رہی ہو بلکہ جان نکالی جا رہی ہو۔حکومت کینیڈا کو اپنے شہریوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ ملکی معاشی اتار چڑھاؤ کے باوجود اپنے چہرے پر مسکراہٹ برقرار رکھتے ہیں ورنہ جاب سے ’’فائر ‘‘ کرنے کا جو ’’چلن ‘‘ کینیڈا میں ہے اس کے بعد تو چال چلن بھی مشکوک ہو جاتا ہے۔ یہاں بعضے ایسے بھی ہیں جو ایک سال جاب پر ، ایک سال ان ایمپلائمنٹ کی تنخواہ پر، ایک سال ویلفیئر پر گزارتے ہیں مگر مجال ہے جو ان کے چہرے سے مسکان غائب ہو۔

اگرچہ وزارت خارجہ نے حکم دیا ہے کہ ’’منہ بند ‘‘ رکھنا ہے مگر ہم ہیں کہ پھر بھی لکھے چلے جا رہے ہیں۔ ہم یہ بھی لکھنا چاہتے ہیں کہ اگر حکومت کو فی الواقعی لوگوں کی بغیر مسکراہٹ والی تصویر درکار ہے تو یہ کام اپنے سر کاری فوٹو گرافر کے سپرد کر دے۔ حکومت اپنے خرچ پر ’’منہ بند ‘‘ تصویر کھینچے۔ اس طرح سرکاری فوٹو گرافرز کو بھی کام ملے گا اور عام لوگوں کی بھی تسلی ہو گی۔ بہر حال مسکراہٹ کے بغیر تصویر کا حکم نامہ ’’سرکار ‘‘ کا ایسا کارنامہ ہے کہ اس بارے میں جس نے بھی پڑھا ہو گا ایک بار ضرور کھلکھلا کر ہنسا ہو گا۔اس حکم نامے کے اجراء سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ حکومت کینیڈین بھی اب حکومت پاکستان جیسی ہوتی جا رہی ہے ۔ کیا خبر کل کلاں سڑکوں پر بھی یہ لکھا ہو ’’ یہاں ہنسانا منع ہے ‘‘

ایک بار پھر وہی ’’سارس‘‘

امریکہ کا نام اگر دنیا میں کسی نے مشہور کیا ہے تو وہ ہیں ہمارے ’’بڑے بھیا‘‘ بش۔ بش جی صدر کیا بنے امریکہ کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ جدھر دیکھو امریکہ ہی امریکہ۔ افغانستان میں امریکہ ، عراق میں امریکہ، سعودیہ میں امریکہ اور تو اور پاکستان میں امریکہ۔ پہلے دنیا میں ہوائی ’’اڈے ‘‘ مشہور ہوتے تھے اب امریکہ کے ’’اڈے ‘‘ مشہور ہیں۔ امریکہ کی دیکھا دیکھی کینیڈا نے بھی مشہور ہونے کی ٹھان لی ہے۔ پچھلے دو مہینوں سے کینیڈا کا نام بھی دنیا کے کونے کونے میں لیا جا رہا ہے۔ اس شہرت میں ’’بڑے بھیا ‘‘ کا نہ سہی ، ان جیسی خصوصیات کے حامل ایک مرض کا ہاتھ ہے ، جس کا نام ہے ’’سارس‘‘ ۔ بقول ہمارے دوست شعیب ، سارس اور بڑے بھیا میں کوئی فرق نہیں ، دونوں ہی دنیا والوں کے لیے یکساں خطرے کے حامل ہیں۔

اس سے پہلے کینیڈا کی پہچان نیا گرا فال تھا یا پھر سی این ٹاور مگر سارس نے ان دونوں کی ایسی جگہ لی ہے کہ اب دنیا میں کینیڈا کی پہچان یہی بن گیا ہے۔ اب تو ہمیں جو بھی ای میل یا فون کال ملتی ہے اس میں یہی پوچھا جاتا ہے کہ سارس کا کیا حال ہے ؟ پھر ہمارے لیے دعائے خیر ہوتی ہے کہ خد ا تمہیں سارس سے بچائے۔ کینیڈا کا کوئی اخبار ایسا نہیں جس میں روزانہ سارس کے بارے میں خبر نہ چھپتی ہو۔ ٹورانٹو میں رہنے کے ناتے ہر گھڑی ہر پل ہمارے کانوں میں سارس کا لفظ ضرور سنائی دیتا ہے۔

بچوں کے لیے اسکول سے فون آئے ، ہمیں ڈاکٹر سے اپائننمنٹ لینا ہو یا کسی میلے ٹھیلے میں جانا ہو پہلا سوال یہی ہوتا ہے آپ کو سارس تو نہیں ؟ پچھلے ویک اینڈ پر ہم سمر کا لطف اٹھانے ’’ڈاؤن ٹاؤن‘‘ کی طرف نکلے تو عجب سا سماں دیکھا۔ اکثر نے منہ پر ماسک چڑھا رکھا ہے۔ بس یا ٹرین میں کوئی چھینک دے یا کسی کی ہلکی سی کھانسی کی آواز نکل جائے تو سب سہم کر دیکھنے لگتے تھے۔ خاص طور پر کسی چھوٹی اور چپٹی ناک سے ذرا سی بھی آواز نکلے تو لوگ بدک کر ادھر اُدھر ہو جاتے تھے۔

ایک مخصوص کمیونٹی کے ریسٹورنٹ اور دکانیں تو اس طرح ویران ہیں کہ چیونٹی بھی ان کے ہاں ’’چینی ‘‘ لینے نہیں آ رہی ہے۔ کل ہمارے گھر مہمان آئے تو ہم نے ان سے کہا کہ کیا خیال ہے آپ کو آج چائنیز نہ کھلائیں ؟ مہمانوں نے گھور کر ہمیں دیکھا اور بولے ’’خدا کا خوف کیجیے ، کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہم طبعی موت مریں ‘‘

عام لوگوں سے زیادہ کینیڈین گورنمنٹ پریشان ہے کہ سارس سے کیسے نپٹیں ؟ روزانہ اخبارات ، ٹی وی اور ریڈیو سے اعلانات ہو رہے ہیں۔ حکومت نے کہہ رکھا ہے کہ جسے ذرا سا بھی شبہ ہے کہ اس پر سارس کا حملہ ہوا ہے۔ وہ فوراً اطلاع دے اور گھر میں بند ہو جائے۔ کم از کم بارہ دن کی تنخواہ اسے گھر بیٹھے دیں گے۔‘‘

کل ہم دفتر پہنچے تو دیکھا منیجر بہت پریشان ہے ، ہم نے پوچھا کیا ماجرا ہے ؟ بولا ’’آج دس ورکر نہیں آئے ہیں ، انہیں شبہ ہے کہ ان پر سارس کا حملہ ہوا ہے۔‘‘ لوگوں نے اس طرح فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ گھر بیٹھے تنخواہ ملے تو کون جائے دفتر۔

دنیا بھر کے لوگ ہمارے سمر کا لطف اٹھانے ٹورانٹو آتے ہیں۔ طرح طرح کے شور، پروگرامز ، ہلا گلا ہوتا ہے۔ حکومت کو لاکھوں ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے مگر اس سال سارس نے وہ غضب ڈھایا ہے کہ لوگ ٹورانٹو آنے سے کترا رہے ہیں ۔ شاپنگ مال ویران پڑے ہیں۔ کوئی ترغیب ، کوئی ڈسکاؤنٹ ، کام نہیں آ رہا ہے۔ لوگ سمر کے کپڑوں کے بجائے صرف ’’ماسک‘‘ طلب کر رہے ہیں۔ سارس کا ایک مریض اسپتال آ جائے تو دس دوسرے مریض ، مرض سمیت لاپتہ ہو جاتے ہیں۔

ہماری بیگم نے ہم پر پابندی لگا رکھی ہے کوئی ’’مارکھم‘‘ نہیں جائے گا اور نہ ہی وہاں سے کوئی ملنے آئے گا۔ فون بھی آئے تو پہلے پوچھا جاتا ہے ’’آپ مارکھم سے تو نہیں بول رہے ، اگر کوئی مارکھم والا ہے تو پہلے دوپٹہ ناک پر چڑھایا جاتا ہے پھر ناک چڑھا کر جواب دیا جاتا ہے ’’ ہم مصروف ہیں ، اگلے ہفتے فون کیجئے گا ‘‘

ہم نے زندگی میں بہت سی بیماریاں ، آفتیں دیکھیں مگر اس سارس جیسی چیز پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ کینیڈا آ کر سمجھے تھے کہ بیماری اور افلاس کا منہ کبھی نہیں دیکھیں گے۔یہ سچ بھی ہے پرانی بیماریاں یہاں نہیں دیکھیں مگر روزانہ نئی نئی بیماریوں کا ضرور سنتے ہیں۔ پاکستان میں روزانہ سینکڑوں مچھروں کی کانا پھوسی سنتے تھے مگر یہاں ایک مچھر بھی نظر آ جائے تو ساری فیملی رت جگا کرتی ہے ’’بڑے بھیا ‘‘ کا ڈر ہی کافی نہ تھا کہ اب ’’سارس‘‘ بھی جی کو ہولانے لگا ہے۔ مرض وہی اچھا ہے جس کی دوا ہو۔ سارس کی کوئی دوا نہیں اور ہمیں اپنی دعاؤں پر اعتبار نہیں۔

کاش اسی طرح کا ووٹ میں اپنے سیاستدانوں کو بھی دے سکتا !!

آج آپ میرا کالم پڑھ رہے ہیں اور کل آپ کو ووٹ دینے جانا ہے۔ پورے اونٹاریو میں انتخابات کی چہل پہل ہے۔ نوری پارٹی ، لبرل پارٹی اور این ڈی پی اپنے اپنے امیدواروں کے ساتھ ’’میدانِ انتخابات ‘‘ میں اُتر چکی ہیں۔ ایسے الیکشن میں نے کبھی نہیں دیکھے۔ کوئی دنگا ، نہ کوئی فساد ، کہیں گولی چلی نہ کہیں گالیاں چلیں ، سارے شہر کی دیواریں بھی صاف ستھری ہیں۔ کوئی چندہ مانگنے آیا نہ کسی نے آنکھیں دکھائیں ، مجھے تو لگتا ہی نہیں الیکشن سر پر ہیں۔ شہر میں کہیں بھی بڑے بڑے بینرنہیں ، نہ ہی قد آور الیکشن سائن بورڈ ہیں۔ سڑکوں کو گھیر کر ، شاہراہیں بلاک کر کے کوئی جلسے نہیں ہوئے۔ پولیس کو ،کوئی مشتعل ہجوم نظر نہیں آیا ،جھنڈا لہرانے پر کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ کہیں آنسو گیس استعمال نہیں ہوئی۔ کوئی مرا نہ کوئی زخمی ہوا۔ واہ رے کینڈین الیکشن۔

اخبارات میں بھی الیکشن جیسی کوئی بات نہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتا کوئی اشتہار نہیں۔ کوئی امیدوار دوسرے امید وار کی پگڑی نہیں اچھال رہا اور اچھالے بھی کیسے پگڑی پہننے کا یہاں کوئی رواج نہیں۔ البتہ ٹوپی کی اور بات ہے یہ Coolلوگوں کا پہناوا ہے۔ انتخابی نشانات پر بھی کوئی جھگڑا نہیں۔ کوئی ’’پتنگ‘‘ نہیں اڑا رہا ، نہ کوئی ’’شیر ‘‘ کی طرح دھاڑ رہا ہے۔ کسی کے پاس ’’تیر ‘‘ نہیں ، کوئی نشانے پر نہیں۔ ’’کتاب ‘‘ ہے نہ ’’لالٹین ‘‘ اور نہ ہی ’’حقہ‘‘ کوئی کسی کا ’’حقہ پانی‘‘ بند کرنے کا دعویدار نہیں۔ کسی کو یہ گلہ نہیں کہ حکومت فلاں پارٹی کی مدد کر رہی ہے ، نہ کوئی یہ چیخ رہا ہے کہ الیکشن شفاف نہیں ہوں گے۔ فوج سے کوئی مدد نہیں لی جا رہی ، الیکشن آفس بند کرنے ، کھولنے اور قبضہ کرنے کی بھی کوئی خبر نہیں۔ بڑی خاموشی سے الیکشن مہم چل رہی ہے ، کسی ’’کمانڈو مہم ‘‘ کا دور دور تک نہیں پتہ۔ میں روزانہ ٹی وی دیکھ رہا ہوں۔کوئی شور شرابہ نہیں۔ بڑی نرم روئی اور مہارت کے ساتھ ساری پارٹیوں کا مطمع نظر دکھایا جا رہا ہے۔ ہر ایک کی الیکشن کمپین کے تجزئیے پیش کیے جا رہے ہیں۔ کوئی بیان بازی نہیں ، اعداد و شمار کے آئینے میں ہر پارٹی عوام کی بھلائی کے لیے اپنی قابل عمل تجاویز پیش کر رہی ہیں۔ امیدواروں کے انٹرویوز بھی آ رہے ہیں ، عوامی رائے بھی بلا کسی سنسر کے پیش کی جا رہی ہے۔

عوامی رائے کی طرف چلو تو لوگ باتیں کر رہے ہیں مگر جذباتی ہیجان کے ساتھ نہیں ، شخصی تعریف و توصیف بھی ہو رہی ہے مگر کسی فرشتہ کو بنایا جا رہا ہے نہ کسی شیطان کو ، لوگ پارٹی منشور پر رائے زنی کر رہے ہیں مگر ہا تھا پائی اور گالی و گولی کی زبان نہیں بکی جا رہی۔ کسی کو دیواروں پر چاکنگ کرتے نہیں دیکھا۔ چھوٹے بڑے بورڈ بڑی خوبصورتی کے ساتھ گھروں کے سامنے نصب کیے جا رہے ہیں ، کوئی کسی کا بورڈ نہیں اکھاڑ رہا ، کسی کے لیے کسی تیوری پر بل نہیں۔ اسکول بند ہو رہے ہیں نہ کالج و یونیورسٹی۔ دفاتر اور کارخانوں میں معمول کے مطابق کام ہو رہا ہے ، الیکشن کے دن دفتر جانے سے قبل یا دفتر سے آتے ہوئے عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کر لیں گے۔ بیلٹ بکس پر کوئی تنقید نہیں۔ کسی کو یہ شبہ تک نہیں کہ جعلی ووٹ بھگتائے جائیں گے یا بیلٹ بکس چوری ہو جائیں گے۔

امید واروں کا یہ عالم کہ اکثر سڑکوں اور گلیوں میں خود ہی اپنے فلائر تقسیم کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ چیلوں اور چمچوں کا کوئی ہجوم نہیں۔ کوئی امید وار اپنے لئے فلک شگاف ، کان پھاڑ نعرے نہیں لگو ارہا ہے۔ مہذب دنیا کا ،جمہوریت کے دلدادوں کا یہ الیکشن میرے لیے بالکل ایک نئی چیز ہے۔

میں سوچ رہا ہوں اس موقع پر نواز شریف ، بے نظیر ، الطاف حسین ، نصر اللہ خان،طاہر القادری ، عمران خان سب کو یہاں ہونا چاہیئے تھا ، سب کو دیکھنا چاہیئے تھا کہ جمہوریت، ووٹ اور عوامی بھلائی کا یہ سیاسی عمل کس طرح الیکشن سے گزر کر حکومت کی تبدیلی کے مراحل طے کرتا ہے۔ پرویز مشرف امریکہ اور کینیڈا کے دورے پر آئے تھے انہیں بھی الیکشن کے دن رک کر دیکھنا چاہیے تھا کہ یہاں پارٹیوں کے حصے بخرے نہیں ہوتے ، ذاتی ترجیحات اور ’’ن‘‘ یا ’’ق‘‘ پر ہوم ورک نہیں ہوتا۔ ووٹ کے دن عوام نظر آتے ہیں ’’آسمانی مخلوق ‘‘ نہیں۔

ووٹ کا تقدس ، عوام کی پسند کی اہمیت ، ان کے حقوق کی حفاظت کے یہ مناظر مجھے سرشار کر رہے ہیں دل چاہتا ہے کہ ایسا ہی سب کچھ اپنے وطن میں بھی ہو۔ یہ کس طرح سیکھا جاتا ہے ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ کیا ہم اپنی زندگی میں ایسا سیاسی منظر اپنے ملک میں بھی دیکھ سکیں گے ؟ ووٹ میں نے پاکستان میں بھی دیا ہے ، اگلے سال میں بھی یہاں کا ووٹر ہوں۔ کاش میں اسی طرح نواز شریف ،بے نظیر ، الطاف حسین ، عمران خان اور طاہر القادری کو بھی ووٹ دے سکتا ، اے کاش!

خوشیوں کا کیلنڈر اور ٹی ٹی سی

ٹورانٹو کی ہر ادا نرالی ہے۔ خاص طور پر ٹورانٹو کی ٹی سی بڑی بانکی ، سجیلی اور ذہین ہے۔ یہ صرف مسافروں کو سفر کی سہولت فراہم نہیں کرتی بلکہ انہیں دوست بنا کر رکھتی ہے۔ ان کے سلوگن، پیغامات اور اشتہارات پڑھو تو ایسا لگتا ہے کہ ٹی ٹی سی ہمارا ، ہمدم ، دوست اور رفیق ہے۔ گھر سے باہر نکلو تو گھر والے دعائیہ کلمات کے ساتھ رخصت کرتے ہیں اور گھر سے نکل کر ٹی ٹی سی کی بس ، ٹرین یا اسٹریٹ کار پر سوار ہوں تو لگتا ہے کہ کوئی شناسا ہاتھ پکڑ کر ، زاد راہ کے ساتھ منزلِ مقصود تک پہنچا رہا ہے۔ اجنبیت کا احساس مٹ جاتا ہے اور سفر کی طوالت طبیعت پر گراں نہیں گزرتی۔

مغربی دنیا کی خوبی یہی ہے کہ یہاں کوئی کام چھوٹا اور بڑا نہیں ہوتا اور کسی بھی کام میں تحقیق ختم نہیں ہوتی۔ آپ ’’برگر‘‘ کیوں نہ بناتے ہوں مگر برگر بیچتے بیچتے آپ کو کل کی سیل کے لیے کوئی نئی بات سوچنی پڑتی ہے۔ یہاں آپ کی ترقی کام کی مہارت کے ساتھ ساتھ آپ کی انفرادیت کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔اگر آپ ہتھوڑا چلاتے ہیں تو اس میں بھی روزانہ ایک نئے ’’ رِدم ‘‘ کی تلاش جاری رکھنی پڑتی ہے۔

ٹی ٹی سی کا مقابلہ بھی روزانہ ان ہزاروں کار ڈیلروں سے ہوتا ہے جو اپنی کار بیچنے کے لیے نئے نئے آئیڈیاز روزانہ اپنے خریداروں تک پہنچاتے ہیں۔ کہتے ہیں ٹورانٹو میں کار ’’ضرورت‘‘ ہے ’’لگژری‘‘ نہیں۔ بغیر کار کے اس شہر میں گزارا نہیں۔ اس کے باوجود روزانہ لاکھوں لوگ ٹی ٹی سی سے سفر کرتے ہیں۔سب وے پر ہر تین منٹ بعد ایک ٹرین آپ کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ ٹی ٹی سی کے ایک نئے بروشر کے مطابق 1921سے اب تک اس ’’بانکی سواری‘‘ نے 25بلین لوگوں کو منزل مقصود تک پہنچایا ہے۔ یہ تعداد دنیا کی کل آبادی کا چار گنا ہے۔ اس سے قبل ہم نے ایک بار ٹی ٹی سی ہی کی زبانی یہ سنا تھا کہ 1921ء سے اب تک وہ ٹرین کی پٹریوں پر اتنے پھیرے لگا چکی ہے جو دنیا کے گرد چار بار چکر لگانے کے برابر ہے۔

واہ ری ٹرین واہ! سوا دو ڈالر کے ٹکٹ میں کیا کچھ نہیں کرتی۔ صاف شفاف ٹرینیں ، بسیں اور اسٹریٹ کارز ، ایک دوسرے سے اس طرح کا لنک کہ ٹرین سے اترو تو بس حاضر ، بس سے اترو تو ٹرین دستیاب۔ سب وے اور بس اسٹاپ انتہائی صاف ستھرے ، تھوڑی سی بھی پرابلم ہو تو سب وے پولیس مدد کے لیے حاضر۔آ پ سفر کرتے ہوئے کچھ بھول جائیں تو ’’گمشدہ چیز‘‘ کی دستیابی کا پورا انتظام ، ویک اینڈ پر فیملی پاسز کا خصوصی اہتمام اور تو اور ٹی ٹی سی کی آن لائن سائٹ ہمیشہ اپ ٹو ڈیٹ۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں لوگ کار رکھتے ہوئے بھی ٹی ٹی سی سے سفر کرنا فخر سمجھتے ہیں۔ لاکھوں سیاح خوشی خوشی اس شہر میں آتے اور ٹی ٹی سی کی سیر کا لطف اٹھاتے ہیں۔

یہ سب کچھ ہمارے ملک میں کیوں نہیں ہوتا؟ حساب لگایا جائے تو ہماری بسیں اور ٹرینیں بھی دنیا کی آبادی کے برابر لوگوں کو منزل مقصد تک پہنچا چکی ہوں گی۔ مگر حساب کون رکھے ؟ اور کیوں رکھے ؟ ہم تو ’’رونے گانے ‘‘ والے لوگ ہیں۔ بس مالکان اپنی جگہ روتے ہیں اور مسافر اپنی جگہ۔ ہم ایک دوسرے کے لیے کبھی کوئی اچھا پیغام نہیں چھوڑتے صرف شکایتیں ہمارا مقدر ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارے یہاں ٹرینوں میں کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے پوری زندگی ان ٹرینوں میں یہی کام کرتے گزار دیتے ہیں مگر وہ خوش ہو کر یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے 30سال میں ٹرین میں اتنا سفر کر لیا جو دنیا کے گرد چکر لگانے کے برابر تھا کیوں ؟ صرف اس لیے کہ ہمیں خوش رہنے کی عادت نہیں یا پھر ہمیں خوش رہنے نہیں دیا جاتا۔ ہم نے ایسا سسٹم بنایا ہی نہیں جو کیلنڈر میں خوشیاں مار ک کرنا سکھائے۔ ہم کام کو کام سمجھ کر نہیں کرتے اسے اسٹیٹس سمبل بنا لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں بس یا ٹرین ڈرائیور ہمار ا مدد گار تو ہے مگر معاشرے میں ہمارا ساجھے دار نہیں۔ اسے ہم گالیوں سے تو نواز سکتے ہیں مگر کبھی ’’تھینک یو ‘‘ نہیں کہہ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسے پیشوں سے منسلک افراد ’’منشیات ‘‘ میں پناہ ڈھونڈتے ہیں کیوں کہ ان کا معاشرہ انہیں اپنے اندر پناہ نہیں دیتا۔ چھوٹے پیشے تو دور کی بات ہے ، بڑی بڑی کمپنیوں میں بھی تحقیق پر پیسہ خرچ کرنا ’’شاہ خرچی‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف نے اپنی سائٹ آن لائن کی تو ہم حیرت زدہ رہ گئے۔ ہم بحیثیت قوم ’’پہریداری ‘‘ پسند کرتے ہیں۔ فوج سیاست دانوں کی پہریدار، افسر ملازموں کا پہریدار ، استاد شاگردوں کا پہریدار ، والدین اولاد کی پہریدار ، ملا مذہب کا پہریدار ، ہم سوچ اور عمل پر پہرہ لگانے والی قوم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی ملک میں ٹی ٹی سی جیسی کمپنی دیکھی اور نہ اس جیسی ٹرین ، بسیں اور اسٹریٹ کارز۔

پیچھے پیچھے اسامہ، آگے آگے اینتھریکس

ہمارے پیارے امریکیوں کے لیے اسامہ کا نام کافی نہیں تھا کہ یہ انتھریکس (Antharax)اچانک نہ جانے کہاں سے آن ٹپکا ؟پوری میڈیا اسامہ کو بھول کر انتھریکس سے خوف دلانے پر تُل گئی۔ جدھر دیکھو انتھریکس ہی انتھریکس کے چرچے ہیں۔ سنا ہے ایک امریکی کانگریس مین کو بھی انتھریکس پاؤڈر سے بھرا لفافہ بذریعہ ڈاک ملا ہے۔اُف کیا زمانہ آ گیا ہے۔ پہلے ڈاک آتی تھی تو خوشی ہوتی تھی اب تو خوف آنے لگا ہے۔ لفافہ دیکھ کر مضمون بھانپتے ہی دَم نکل جاتا ہے۔ میڈیا نے آواز لگادی ہے کہ یہ انتھریکس بھی اسامہ کے آدمیوں کا کارنامہ ہے ، انہوں نے امریکیوں کو ہلاک کرنے کے لیے اب وائرس کا سہارا لیا ہے۔

ہمیں بہت افسوس ہوتا ہے جب کوئی امریکہ کو برا بھلا کہتا ہے۔ یہ قوم جب سے واحد سُپر پاور بنی ہے ، سب کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی ہے۔ دنیا میں کہیں کوئی مسئلہ ہو ،سب امریکہ کا نام لے اٹھتے ہیں۔ روس ٹکڑے ٹکڑے ہوا ، یہ امریکہ کی کارستانی ہے۔ فلسطین میں اسرائیل ظلم ڈھا رہا ہے ، اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے ، بھارت پاکستان کو آنکھیں دکھاتا ہے۔ضرور امریکہ نے کہا ہو گا، مشرقی تیمور آزاد ہوا، امریکہ نے زور ڈالا تھا۔ ذرا سوچیں ایک امریکہ اتنے سارے کام کیسے کر لیتا ہے اور اگر کر لیتا ہے تو باقی ممالک کیوں سو رہے ہیں ؟ وہ کیوں نہیں کر لیتے ؟

اس بار امریکہ نے کئی شعبوں میں نوبل انعام جیت لیے۔ اس پر بھی شک کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بھئی امریکہ اگر ایکٹو ہے ، تیز ہے ، محنت کر رہا ہے ، آگے بڑھ رہا ہے تو دنیا کے باقی ممالک کو کس نے روکاہے ؟ اگر وہ سعودی عرب میں بیٹھا ہے ، اس نے عراق کو زندہ در گور کر دیا ہے تو یہ اس کی شان ہے ، اس کا زور ہے ، اس کا دَم ہے ، آپ ایسی حرکت کرتے ہی کیوں ہیں کہ امریکہ آپ کے پیچھے پڑ جائے ؟

کتنی بُری بات ہے کہ آپ نے اس کے ملک میں گھس کر ، اسی کے طیارے اُڑا کر اس کی سب سے بلند ترین عمارت کو ڈھا دیا۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ اس نفرت انگیز مہم میں کتنے بے گناہ افراد مارے جائیں گے۔ اب اگر امریکہ کہتا ہے کہ یہ حملہ اسامہ نے کیا تھا تو آپ لوگ مان کیوں نہیں لیتے ؟ یہ کیا بات ہوئی بھلا کہ آپ ثبوت مانگ رہے ہیں ؟بڑوں سے بد تمیزی اچھی نہیں ہوتی۔ اب اگر اس نے افغانستان پر حملہ کیا ہے تو کون سا ظلم کر دیا؟ افغانستان میں رکھا ہی کیا ہے ’سوائے اسامہ کے اور اگر ملاّ عمر جی اسامہ کو امریکہ کے حوالے کر دیتے تو یہ نوبت ہی کیوں آتی؟ کیوں بے چارہ امریکہ مٹی کے گھروں کو توڑنے کے لیے بیس بیس لاکھ ڈالر کے کروز میزائل پھینکتا۔ اب گیہوں کے ساتھ گھُن تو پِستا ہی ہے۔ پاکستان کو دیکھ لو ، اس نے کس طرح امریکہ کی بات مان لی۔ جو کہا وہ کر دیا۔ صاف کہہ دیا کہ طالبان پر حملہ کرنے کی اجازت ہے۔ امریکہ اب پاکستان سے بہت خوش ہے۔ اس نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ جلد پاکستان کو مالی امداد دیں گے۔یہ ’’بہت جلد ‘‘ کب آئے گی ، اس کے لئے پاکستان کو انتظار کرنا پڑے گا۔

دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہ آج صرف امریکہ نہیں کہہ رہا ، اس کے ساتھ برطانیہ، کینیڈا ، جرمنی ، اٹلی ، سعودی عرب، مصر ، ہندوستان ، پاکستان سب کہہ رہے ہیں۔ امریکہ کوئی غلط کام اکیلے نہیں کرتا ، اقوام متحدہ کو بھی ساتھ لے کر چلتا ہے۔ جب اقوام متحدہ راضی تو کیا کرے گا قاضی؟

اب اسامہ بن لادن کے آدمیوں نے نئی چال چل دی۔ انتھریکس جرثومے لفافوں میں بند کر کے امریکہ بھیجنے شروع کر دئیے۔ امریکیوں کے دلوں میں اسامہ کا خوف کیا کم تھا کہ اب انتھریکس کے لفافوں نے ان کا جینا حرام کر دیا۔ پہلے امریکی طیارے میں بیٹھنے سے خوف کھا رہے تھے اب گھر کے لیٹر بکس کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈر رہے ہیں اور تو اور کینیڈین عوام کی بھی نیندیں اُڑی ہوئی ہیں۔ امریکہ میں انتھریکس کے چار مریضوں نے لاکھوں کینیڈین عوام کو ڈرا دیا ہے۔ ہم نے ایک امریکی سے کہا کہ تم لو گ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ انتھریکس کا ایک لفافہ اسامہ کو بھی بھجوا دو۔ امریکی ہماری سادہ لوحی پر ہنسا اور بولا ’’ کہاں بھجوائیں ،ا س کا کوئی ٹھکانہ ہمیں معلوم ہو تب نا!‘‘

کینیڈین عوا م کا یہ حال ہے کہ ٹی وی پر انتھریکس کے لفافے دیکھ دیکھ کر یہ فیصلہ کرنے جا رہے ہیں کہ دو تین ماہ کے لیے ’’ کینڈا پوسٹ‘‘ ہی بند کروا دیں۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ کینیڈین میڈیا نے یہاں کے عوام کو اس قدر ڈرا دیا ہے کہ گذشتہ دنوں ایک پانی کی پائپ لائن کے قریب کیمیکل کا ڈرم رکھا ملا تو حکومت نے مارے ڈر کے اس علاقے کا پانی ہی بند کر دیا۔ ڈرم کا معائنہ ہوا ،لیب ٹیسٹ ہوئے تو پتہ چلا کہ کچھ بھی نہ تھا !!

اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ امریکی اور کینیڈین قوم بڑی پیاری ہے۔ وہ تو اپنے خوابوں میں مست رہتی ہے ، اسے بُرا بھلا کہنے والے کیا کم تھے کہ اب خود ان کے میڈیا نے اسامہ اور انتھریکس سے انہیں اس قدر ڈرانا شروع کر دیا کہ لگتا ہے کہ کہیں امریکہ اور کینیڈا خالی ہی نہ ہو جائے

ہمارا تو سبھوں کو یہ مشورہ ہے کہ پلیز امریکہ کو برا بھلا نہ کہیں۔ امریکی صدر کی تقریریں سنیں وہ کتنی بھلی باتیں کرتے ہیں۔ وہ تو اتنے رحم دل ہیں کہ ایک طیارے سے بم پھینکتے ہیں اور دوسرے طیارے سے کھانے کے پیکٹ۔ آج پوری دنیا امریکہ کا دیا کھا رہی ہے اور افسوس کہ اسی کو برا بھلا کہہ رہی ہے۔ پوری دنیا میں لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں ،امریکہ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں ، صدر بش کے پتلے جلا رہے ہیں اور امریکی پرچم نذر آتش کر رہے ہیں۔ دنیا کے شریف ترین ملک کے لیے ایسے نعرے ہم نے پہلے نہیں سنے تھے۔ امریکہ کے خلاف یہ نعرے بازی بند ہونی چاہیئے۔ صرف نعرے بازی نہیں بلکہ جو انتھریکس کے لفافے بھیج رہا ہے وہ بھی انتھریکس بھیجنا بند کر دے۔ افغانی عوام کو چاہیے کہ وہ کھانے کے پیکٹ اٹھائیں اور اسامہ وانتھریکس بھیجنے والوں کو ڈھونڈنے نکل جائیں۔جس دن انہوں نے اسامہ کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کر دیا امریکہ اپنی بمباری بند کر کے خاموشی سے افغانستان میں بیٹھ جائے گا۔

کیا یہ امریکہ کی خاندانی شرافت کا اہم ثبوت نہیں ہے ؟؟

جو ڈر گیا وہ مرگیا

اگر چہ اب ہمیں ٹورنٹو میں آئے پانچ ماہ ہو چکے ہیں مگر اردو اور پاکستان سے محبت اب بھی کم نہیں ہوئی جہاں Resumesبھیجنے سے فرصت ملتی ہے ہم اردو اخبارات یا کتابیں لے کر بیٹھ جاتے ہیں کل ایک مُڑا تڑا پاکستانی اخبار ملا اس میں ایک فلم کا نام لکھا تھا ’’ جو ڈر گیا وہ مرگیا ‘‘ ۔ایسا لگا کہ اس فلم کا مرکزی خیال کسی شادی شدہ مرد کی کہانی پر مبنی ہو گا کیوں کہ شادی نام ہی مرد کے ڈر جانے اور فلم کے مطابق جیتے جی مر جانے کاہے۔ ہماری اس بات سے کسی شادی شدہ مرد کو اختلاف ہو نہیں سکتا کیوں کہ اختلاف بہادری کی علامت ہے اور یہ علامت شادی شدہ مرد میں کیسے پائی جا سکتی ہے۔کیسی عجیب بات ہے کہ جو لڑکی پیاری ، حسین اور مسکین لگتی ہے اسے بیوی بنا لیں تو ڈر لگنے لگتا ہے۔ مرنے والوں میں ہمیشہ مردوں کی تعداد زیادہ رہی ہے کیوں کہ وہ خواتین پر بھی مرتے ہیں۔

کسی شادی شدہ مرد کی زندگی پر نظر ڈالیے وہ ہر کام ڈر ڈر کر کرتا ہے۔فلمی صفحہ ہو یا شادی کے اشتہارات کا کالم بیوی سے چھُپ چھُپ کر پڑھتا ہے۔ اسے سگریٹ پینا ہویا پان کھانا ہو، پڑوسن کے خد و خال یا حال معلوم کرنے ہوں ،یہاں تک کہ اپنی تنخواہ کی سلپ بھی دیکھنی ہو تو پہلے بیوی کو دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ قریب تو نہیں۔بیوی قریب ہو جائے تو سوائے ایک کام کے ہر کام کی اجازت کے لئے منت سماجت کرنی پڑتی ہے …

’’بیگم کل شام محمود کے گھر پارٹی ہے ، چلا جاؤں ؟‘‘

’’ ہاں چلے جاؤ مگر دیکھو اس کی سالی پر نظر ڈالی نا تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا‘‘

شوہر ڈر کے مارے دل ہی دل میں کہتا ہے کہ ہاں واقعی تم سے بُرا تو کوئی بھی نہیں۔ دور کیوں جائیں صدر مشرف کے حالیہ دورۂ بھارت ہی کو دیکھ لیں سنا ہے ان کی بیگم صہبا نے کہہ دیا تھا کہ میرے بغیر آپ بھارت گئے تو جہاز کیس کے تمام خفیہ پہلو افشاء کر دوں گی۔ بھارت میں بھارتی انٹیلی جنس سے زیادہ خود صہبا نے پرویز مشرف پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ تاج محل کے سامنے تصویر بنواتے ہوئے دو بار صہبا نے پرویز کو ٹوکا۔ویسا پوز بناؤ جیسا گووندا اور رانی مُکر جی بناتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ فلم جو ڈر گیا وہ مرگیا میں یہی پیغام ہو دیکھو ڈرو مت ورنہ جیتے جی مر جاؤ گے۔ اگر یہ بات ہے تو ہر شوہرکو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیئے مگر بیوی کی اجازت اور گیلری کے ٹکٹ کے پیسے لے کر۔اپنے نواز شریف بھی سنا ہے کلثوم نواز سے بہت ڈرتے ہیں۔ پچھلے دنوں نواز شریف نے کلثوم نواز سے کہا کہ میں نے تمہیں آلو پراٹھے بنانے کو کہا تھا مگر اس پراٹھے میں آلو بالکل نظر نہیں آ رہے۔ کلثوم نے اطمینان سے جواب دیا ’’نواز !کل کو اگر تم مجھے کشمیری پلاؤ بنانے کو کہو تو کہیں کشمیری پلاؤ میں کشمیر ڈھونڈنے نہ بیٹھ جانا۔‘‘

عجیب بات یہ ہے کہ جب تک شادی نہ ہو تو لڑکیاں اپنے ہونے والوں کے ساتھ فخریہ فلم دیکھتی ہیں یہ اور بات ہے کہ ہونے والا فلم کم اور لڑکی زیادہ دیکھتا ہے مگر شادی کے بعد بیوی کو ڈر لگتا ہے کہ شوہر اگر نرما کی تین فلمیں دیکھ لے تو کہیں اسی کا ہو کر نہ رہ جائے۔ یہ تو شکر ہے کہ ہمارے یہاں فلموں کی ’’بندی‘‘ پر پابندی ہوتی ہے ورنہ بیویاں شادی ہال کے باہر اپنے سر تاجوں سے قسم لے لیں کہ خبردار نرما کی فلم دیکھنے سنیما ہال نہ جانا۔ ایک صاحب گزشتہ دس سالوں سے ریسرچ کر رہے ہیں کہ آخر شوہر بیویوں سے کیوں ڈرتے ہیں ؟ ہم کل ان کے گھر گئے اور ان کے ریسرچ پیپرز کا مطالعہ کرنا چاہا تو وہ بولے ’’کل آنا۔ بیوی میکے جانے والی ہے پھر اطمینان سے ریسرچ پیپر پڑھیں گے۔‘‘

کراچی میں لوگ بیوی کے بعد پولیس والوں سے ڈرتے ہیں۔آج کل وہاں سب سے زیادہ غیبت پولیس والوں کی ہو رہی ہے یہاں تک کہ لڑکا محبوبہ سے ملتا ہے تو پہلا ذکر پولیس کا کرتا ہے جس کی چیکنگ کی وجہ سے وہ ایک گھنٹہ لیٹ پہنچا۔ پولیس کے بعد دوسرا ڈر ڈاکوؤں کا ہوتا ہے آج کل کراچی میں جس بڑی تعداد میں ڈکیتیاں ہو رہی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکوؤں کا ڈر ختم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ خود ڈاکو بن جاؤ۔ ہمارے ایک دوست فخریہ کہا کرتے تھے کہ انہیں ڈاکوؤں سے نہ ڈرنے کے پانچ نفسیاتی طریقے آتے ہیں ایک دن ڈاکو ان کے گھر میں کودے تو وہ ڈر کے مارے سارے طریقے بھول گئے۔ ایک عالمگیر خوف انکم ٹیکس والوں کا ہوتا ہے انکم ٹیکس والوں سے صرف وہ ڈرتے ہیں جن کی انکم ہوتی ہے اور جن کی انکم کم کم ہوتی ہے وہ مہنگائی سے ڈرتے ہیں ، مہنگائی دنیا کی واحد مخلوق ہے جو صرف بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی۔محکمہ برتھ کنٹرول کو چاہیئے کہ وہ مہنگائی کی برتھ کنٹرول کرے۔برتھ میں اضافہ صرف ریل گاڑی کے لیے اچھا لگتا ہے۔ واجپائی اور پرویز مشرف کی ملاقات بھی ایک ڈر کی وجہ سے ہوئی ہے وہ ڈر ہے ایٹم بم کا۔ دونوں کے پا س ایٹم بم ہے اور دونوں ڈرتے ہیں کہیں دوسرا اس کے استعمال میں پہل نہ کر دے دونوں اس معاملے میں اتنا ڈرے ہوئے ہیں کہ ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہ کر سکے۔اب مارے ڈر کے ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں کہ فریق مخالف کی وجہ سے بات چیت آگے نہ بڑھ سکی۔ ویسے بھی ڈرنے کے سو بہانے ہیں۔ عورتیں چھپکلی سے ڈرتی ہیں ، بچے غیر شادی شدہ بوڑھی استانیوں سے ڈرتے ہیں۔ عاشق رش سے ڈرتے ہیں۔ سرکاری ملازم کام سے ڈرتے ہیں۔ مریض ڈاکٹر کی فیس سے ڈرتے ہیں۔حکومت اپوزیشن سے ڈرتی ہے اگر لوگ ڈرنا چھوڑ دیں تو کیا ہو؟ سب سے زیادہ اثر بیویوں پر پڑے گا۔شوہر ڈریں گے نہیں تو بیویاں خوش کیسے رہیں گی۔لوگ ڈریں گے نہیں تو پولیس کی کمائی کیسے ہو گی؟ انکم ٹیکس کا محکمہ مکھیاں اور ڈاکو اپنے سر ماریں گے۔ کوئی ڈرے گانہیں تومرے گا کیسے ؟ مرے گا نہیں تو گورکن کو رزق کہاں سے ملے گا ؟

ڈرنا بہت ضروری ہے ، بہت سی چیزوں سے ڈرنے سے بہتر ہے کہ صرف ایک خدا کی ذات سے ڈرا جائے جس کے دل میں یہ ڈر ہو اس سے بڑا بہادر کوئی نہیں۔ بیویاں چاہیں تو مجازی خدا سے بھی ڈر سکتی ہیں اسی آسرے پہ سارے شوہر زندہ ہیں۔

کیش ، عیش اور دہشت گرد

گذشتہ دنوں انٹر نیٹ پر پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کی تفصیلات اور تصاویر دیکھ کر ہم حیران رہ گئے۔ ہمارا جی چاہا کہ کاش ہم دہشت گرد ہی ہوتے۔ کم از کم انٹر نیٹ پر ہماری تصویر اور کارناموں کی تشہیر تو ہوتی۔ورنہ ادھر تو یہ حال ہے کہ اگر اخبار میں ہم اپنی تصویر بھیجیں تو چھپتی نہیں ، چھُپ جاتی ہے ، پتہ نہیں شہرت کو ہم سے اتنا بیر کیوں ہے ؟ویسے بھی دہشت گرد ہونے کے پاکستان میں بے شمار فائدے ہیں۔ آپ اطمینان سے ہر چیز چھین اور جھپٹ سکتے ہیں ، کیش اور عیش آپ کی زندگی کا حصہ بنا رہتا ہے۔ ہر جیب اور لڑکی اپنی محسوس ہوتی ہے مگر افسوس کہ ہم نے ریلوے کا ’’ٹی ٹی‘‘ تو دیکھا ہے مگر گولی والی ’’ٹی ٹی ‘‘ آج تک نہیں دیکھی۔ پاکستان چھوڑنے سے پہلے بطور آخری فرمائش ہم نے ایک پولیس والے سے کہا ’بھیا ! ہمیں ایک دہشت گرد بہ نفس نفیس دکھا سکتے ہو ؟‘‘ پولیس والا زور سے ہنسا اور بولا ’’ کیا وردی کے بغیر دیکھو گے ؟‘‘ پاکستان تھا تو پتہ نہیں ہم کیا کچھ دیکھتے رہے تھے۔ یہاں کینیڈا میں جو کچھ دیکھتے ہیں ، افسوس کہ وہ لکھ نہیں سکتے ، ہمیں شرم آتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہاں کے لوگ اتنے بے شرم کیوں ہیں ؟ جو کام اکثر ہم تنہائی میں مارے شرم کے نہیں کر پاتے تھے یہاں لوگ ٹرینوں ، بس اسٹاپوں پر سب کے سامنے آسانی سے کر لیتے ہیں۔ مردوں کو پریشانی ہوتی ہے نہ عورتوں کو۔ ایک پاکستانی عورتیں ہیں شوہر ڈانٹ دے تو دریا میں کود جاتی ہیں۔ یہ خبر سرگودھا کی ہے کہ شوہر کے ڈانٹنے پر بیوی دریا میں کود گئی۔ حیرت ہے پہلے تو دریا میں نیکیاں ڈالی جاتی تھیں اب نیک بیبیاں کود رہی ہیں۔ پتہ نہیں یہ کیسی بزدل بیوی تھی جو ایک ڈانٹ سن کر دریا میں کود گئی۔ہمارے دوست فجے میاں کا کہنا ہے کہ تم نے پوری خبر نہیں پڑھی ، بیوی کو تیرنا آتا تھا اور اس کا میکہ دریا کے اس پار تھا۔ چلو کچھ بھی سہی، شوہر کی قسمت تو ’’پار ‘‘ ہو گئی۔ ہم تو اس شوہر سے انٹر ویو کرنا چاہ رہے تھے کہ آخر اس میں اتنی ہمت کیسے پیدا ہوئی کہ وہ بیوی کو ڈانٹ سکے ؟ہم پچھلے دس سالوں میں ایک بار بھی بیوی کو ڈانٹنے کی ہمت پیدا نہیں کر سکے۔ ہمارا تو یہی خیال ہے کہ بیوی کو ڈانٹنا امریکہ کو آنکھیں دکھانے کے مترادف ہے۔ پاکستانی شوہر اور حکومت کم از کم یہ کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتے۔

کارنامہ تو پاکستان میں مقیم بھارتی کمشنر نے انجام دیا ہے کہ انہوں نے بیان دے ڈالا کہ ہم پاکستان کو اہم پڑوسی تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے اس بیان سے ہی یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے کتنے اچھے پڑوسی ہیں۔ ہمارے دل میں تو بھارت کی عزت صرف اس لئے ہے کہ وہاں حسینہ عالم کے علاوہ سونالی بیندرے رہتی ہے۔ اگر یہ دونوں پاکستان آ جائیں تو ہم بھارت کی طرف کبھی بھی میٹھی نظریں نہ ڈالیں۔ سونالی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے ہمیں کبھی نہیں دیکھا۔ ہم شارجہ کے اسٹیڈیم میں اس لیے پابندی سے جاتے تھے کہ جب سونالی شاہد آفریدی کو دیکھنے آئے گی تو شاید اس کی نظر ہم پر بھی پڑ جائے۔ویسے شاہد بھی اب شادی شدہ ہو چکا ہے ، حسن اور شہرت کو الگ کر دیں تو ہم با آسانی اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ بھارتی کمشنر اگر چاہیں تو اس سلسلے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں ان کے لئے اہم پڑوسی نہ سہی ، ہو سکتا ہے کہ ہم بھارتی ’’ناریوں ‘‘ کے لئے اچھے دوست ثابت ہو جائیں۔

جیسے ایک خبر نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکی شہری بھی ہر معاملے میں پاکستانیوں سے آگے ہیں۔ خبر کے مطابق امریکی شہریوں کے پاس 25کروڑ بندوقیں ہیں جبکہ فائرنگ سے سب سے زیادہ ہلاکتیں بھی امریکہ میں ہوتی ہیں۔اس خبر سے ہمیں اور فجّے میاں دونوں کو بے حد خوشی ہوئی کہ چلو کسی حوالے سے امریکن پاکستانیوں جیسے تو ہوئے۔ ہمیں ایک اطمینان یہ بھی ہوا کہ کبھی امریکہ گئے تو ماحول کراچی جیسا ملے گا ورنہ کینیڈا میں تو امن و سکون دیکھ دیکھ کر ہم بور ہو گئے ہیں۔ جب سے آئے ہیں ایک بار بھی گولی چلنے کی آواز سنی نہ کسی پولیس مقابلے کی خبر پڑھی۔ ہڑتال تو درکنار کبھی کسی کو دست و گریباں بھی نہیں دیکھا۔ فجّے میاں کا کہنا ہے کہ جس رفتار سے پاکستانی کینیڈا میں آ رہے ہیں ، ہو سکتا ہے آئندہ چند سالوں میں ٹورنٹو میں کچھ ہلچل پیدا ہو جائے ورنہ یہاں تو انتخابات بھی ایسے ہوتے ہیں جیسے لوگ فلم دیکھنے جا رہے ہوں۔

اب ازبکستان جانے والے دو پاکستانیوں کی خبر سن لیجئے۔ سنا ہے کہ ان دونوں نے ازبکستان جا کر ۲۶ ہزار امریکی ڈالر کے جعلی چیک کیش کروا لیے۔ اسے کہتے ہیں ’’سفر وسیلۂ ظفر‘‘ ڈالر نے ہمیں جس طرح رُلایا ہے اس کا بدلہ تو اسی طرح لیا جا سکتا ہے۔ پاکستانیوں کی یہ عادت ہے کہ وہ بُرے کام کے لیے مقام دیکھتے ہیں نہ وقت۔ یہ کیا کم وطن پرستی ہے کہ بُرا کام ازبکستان جا کر کیا۔

جیسے بے نظیر بھٹو کا اب یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ملکوں کے دورے کریں اور ہر ملک جا کر ایک نیا بیان دیں۔ ان کا حالیہ بیان یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت مل بیٹھ کر مسئلہ کشمیر حل کریں۔ مل بیٹھنا اتنا آسان ہوتا تو آج سیاچن پر برف کے علاوہ محفل بھی جمی ہوتی۔ واہگہ بارڈر نہ ہوتا اور بقول فجّے میاں وہ ملکہ حسن کے ساتھ بولی ووڈ میں رقص کر رہے ہوتے۔ مل بیٹھ کر مسئلہ حل کرنا اتنا ہی آسان ہے تو بے نظیر ، نواز شریف کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھ پائیں ؟ ایک خبر یہ ہے کہ پاکستان میں صابن انڈسٹری بیٹھتی جا رہی ہے۔ صابن انڈسٹری سے وابستہ افراد نے دہائی دی ہے کہ اس کو تباہی سے بچایا جائے۔ ایک زمانہ تھا کہ بابرہ جیسی مایہ ناز اداکارہ بھی لکس صابن بیچا کرتی تھیں اور ہم بھی ’’لکس ہمارا! لکس تمہارا!‘‘ گا گا کر یہ صابن استعمال کیا کرتے تھے مگر اب تو صابن کا معیار جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ صابن انڈسٹری کو سہارا دے یہ اور بات ہے کہ صابن کو سہارا دینے والا خود بھی پھسل سکتا ہے۔اگر آج کی فلمی اداکارائیں صابن کے اشتہار میں مفت کام کرنے کا اعلان کر دیں تو شاید اس انڈسٹری میں ’’جان‘‘ پڑ جائے۔ مگر سنسر والوں کا کام بڑھ جائے گا ظاہر کہ نہانے دھونے کا صابن کپڑوں پر نہیں جسم پر مَلا جاتا ہے۔

قصہ ائیر ہوسٹس اور مرغیوں کو دانہ ڈالنے کا

کینیڈا میں بیٹھے بیٹھے کبھی کبھی پاکستان سے ایسی خبر مل جاتی ہے کہ رگِ ظرافت پھڑک اٹھتی ہے۔مثلاً ایک خبر یہ ہے کہ کراچی میں جو برائلر مرغی 65روپے کلو بک رہی ہے وہی مرغی لاہور اور اسلام آباد میں 40روپے کلو میں دستیاب ہے۔

کراچی میں جہاں انسان دن بہ دن سستے ہوتے جا رہے ہیں ،مرغی کے نرخوں میں اضافے کا سبب ایک پائلٹ کو قرار دیا گیا ہے جو اپنے محکمے سے کروڑوں روپے کا ٹینڈر حاصل کرنے کے لئے کراچی کی مرغیوں کی ذخیرہ اندوزی میں مصروف ہے تاکہ مہنگے داموں اپنی کمپنی کا ٹینڈر منظور کروا سکے۔

اب تک پائلٹوں کا تذکرہ جہاز یا ایئر ہوسٹسوں کے ساتھ ہوا کرتا تھا لیکن ایک پائلٹ اور مرغی کا ساجھا پہلی بار سامنے آیا ہے جو یقیناً غیرت مند مرغوں کے لئے نیا چیلنج ہو گا۔

یہ خبر پڑھ کر یقیناً کراچی کے مرغی خوروں میں اس مبینہ پائلٹ کے خلاف غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہو گی۔ ان کا جی چاہ رہا ہو گا کہ وہ پائلٹ کے ساتھ بھی مرغیوں جیسا سلوک کریں۔ ہم نے اب تک آٹے ، دال ، چینی ، گھی ، تیل وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی کا تو سنا تھا مگر مرغیوں کی ذخیرہ اندوزی کی خبر بالکل انوکھی ہے۔ ہم اس انوکھی اڑان پر پائلٹ کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔انہیں مبارکباد پیش کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی اس ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے مرغیوں کے جو ریٹ بڑھے ہیں اس بہانے سے ہمارے کراچی میں مقیم غریب بھائی نے اپنے فریج اور گھر والوں کے پیٹ کو مرغی کے گوشت سے یکسر محروم کر دیا ہے۔ یوں وہ اس مہینے دوستوں سے قرض لینے سے بچ گئے ہیں۔اس سے جہاں دوستوں میں ان کی عزت بڑھی ہے وہیں محلے کے مرغی فروشوں نے انہیں سلام کرنا چھوڑ دیا ہے اور ان کی غربت بالآخر ظاہر ہو ہی گئی۔

پائلٹوں کی ایئر ہوسٹسوں سے دوستی تو سمجھ میں آتی ہے مگر مرغیوں سے یارانہ کچھ پلّے نہیں پڑتا۔ اس سلسلے میں ہمارے ایک ائیر ہوسٹس دیدہ دوست کا کہنا ہے کہ ایئر ہوسٹس سے دوستی ہو تو خرچ میں اضافہ ہوتا ہے اور مرغیوں سے ہو تو آمدنی میں۔ غالباً یہ نکتہ ان پائلٹ صاحب کی بھی سمجھ میں آ گیا ہو گا چنانچہ انہوں نے مرغیوں کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی ہے۔ویسے پائلٹ صاحب کو مرغیاں پالنے میں چنداں دشواری کا سامنا نہیں ہوا ہو گا اور کیوں کہ ایئر ہوسٹس اور مرغیوں میں کئی چیزیں مشترک ہوتی ہیں دونوں اڑان کی شوقین ہوتی ہیں ، دونوں ہی کو دانہ ڈالنا پڑتا ہے اور فضائی مسافر دونوں سے یکساں لطف اندوز ہوتے ہیں۔ دونوں ہی کی عمر زیادہ ہو جائے تو جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ہمی بھی کئی بار ہوائی سفر کا اعزاز حاصل ہوا ہے اور ہم ہمیشہ اس بات کا شکوہ کرتے رہے کہ جہاز میں پیش کی جانے والی مرغیوں کا وزن کم اور ائیر ہوسٹس کا زیادہ کیوں ہوتا ہے ؟ جہاز اغوا کرنے والوں کے علاوہ یہ اعزاز صرف پکی ہوئی مرغیوں اور بنی سنوری ایئر ہوسٹسوں ہی کو حاصل ہوتا ہے کہ وہ جہاز کے پائلٹ تک رسائی حاصل کر سکتی۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہماری زندگی میں اب تک صرف مرغیاں مرغیاں آئیں ، کوئی ایئر ہوسٹس نہیں۔

یہ پائلٹ صاحب بڑی خوبیوں کے مالک ہیں کہ جہاز کے ساتھ ساتھ پولٹری فارم بھی ’’چلاتے ‘‘ ہیں ہم میں پائلٹ بننے کا حوصلہ ہے اور نہ چار مرغیوں سے زیادہ مرغیاں خریدنے کا دم خم۔ یہ چار مرغیاں بھی ہم ایک ساتھ اس وقت خریدتے ہیں جب ہمارے گھر ساس آتی ہیں یا پھر ہمارے افسران۔ ورنہ ہم تو صرف ’’پتلی دال‘‘ شوق سے کھاتے ہیں۔ اس کے سوا کچھ اور کھائیں تو معاشی حالت ’’پتلی ‘‘ ہونے لگتی ہے۔

پتہ نہیں کراچی کی مرغیاں مہنگی ہو کر خوش ہوتی ہیں یا ناراض۔ پھر بھی اس خبر کے چھپنے کے بعد تمام پائلٹوں کو چاہیئے کہ وہ مرغیوں سے دور دور رہیں۔ کیا پتہ مرغیوں کی خفیہ کانفرنس منعقد ہو چکی ہو اور انہوں نے پائلٹوں سے انتقام لینے کا سوچ لیا ہو۔بہتر تو یہ ہے کہ کچھ عرصے کے لئے متعلقہ ائیر لائن اپنے کھانوں میں سے مرغیوں کو خارج ہی کر دے۔ اس طرح مرغیاں کھانے کے لئے فضائی ٹکٹ خریدنا ضروری نہ ہو گا اور عوام بھی چند دنوں تک بازار کی مرغی دال برابر محسوس کریں گے۔

پاکستان میں سفید مرغی( فارمی مرغی ) کا رواج ہماری قومی ایئر لائن نے ہی ڈالا تھا جسے کھانا اب قومی فریضہ بن چکا ہے۔ دیسی مرغیاں اب صرف بیماروں کے کام آتی ہیں۔ کاش ان سفید مرغیوں کی طرح ہمارا کر دار بھی بے داغ ہو جائے اور ہم بلیک منی کی جگہ وائٹ منی پر گذارا کرنے کا سلیقہ سیکھ جائیں۔

YAHOOکے پاکستانی چاٹ روم، سنی ان سنی کہانیاں

انٹر نیٹ کا سب سے بڑا تحفہ کم از کم میرے لئے ’’پی سی فون‘‘ ہے۔ اس سہولت کو www.Yahoo.comنے مزید پُر لطف بنا دیا ہے۔ جب میں Messengerپر Talkکا بٹن دبا کر پاکستان میں اپنے عزیزوں رشتے داروں اور دوستوں سے بغیر کسی Paymentکے گھنٹوں بات کرتا ہوں ، تو اپنی قسمت پر رشک آتا ہے۔یقین ہی نہیں آتا کہ میں کینیڈا میں بیٹھا ہوں اور سات سمندر پار پاکستان میں اپنے احباب سے مخاطب ہوں۔

کمپیوٹر کے اس کرشمے نے مجھ سے میرے عزیزوں کو قریب کر دیا ہے۔ اب میں جس گھڑی چاہوں ان کی آواز سن سکتا ہوں ،Webcamپر انہیں باتیں کرتا دیکھ سکتا ہوں ، صرف ایک لمس کی کسر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم دور نہیں صرف ایک شیشے کے دو جانب ہیں۔ جیسے میں امریکہ یا کینیڈا کے کسی جیل کا قیدی ہوں۔ میرے عزیز سامنے بیٹھے ہیں اور میں مائکرو فون پر ان کی چاہت سے لبریز گفتگو سن رہا ہوں۔ کسی فلمی منظر کی طرح ہم شیشوں پر ہاتھ ٹیکے ایک دوسرے سے مصافحے کی خواہش کو پورا کر رہے ہیں۔ ہم بہت قریب ہیں مگر ایک دوسرے کو چھو نہیں سکتے۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس کمرشل دنیا میں یہ سب کچھ بالکل ’’مفت‘‘ ہے۔ ٹیلی فون پر دس منٹ کی گفتگو کے میں پانچ ڈالر ادا کرتا ہوں مگر Messengerپر گھنٹوں کی گفتگو بالکل ’’مفت‘‘ ہے۔ واہ رے کمپیوٹر واہ!

اس کمپیوٹر کی وجہ سے یہ ہوا ہے کہ میں اپنی ماں کی آواز روز صبح و شام سن لیتا ہوں۔ میری بیوی اپنی بہنوں سے روزانہ کی مصروفیات پر بات کر لیتی ہے یہاں تک کہ آج ہم نے کیا کھایا ، کل کیا پکنا ہے اور مہمانوں نے کب آنا ہے۔ اس کی خبر بھی پاکستان میں میرے سسرال میں رہتی ہے۔ اسی کمپیوٹر کے طفیل میرے بچے آج بھی دادا، دادی ، پھوپھو، چاچا، ماموں ، خالہ اور اپنے کزنوں کی آواز اور صورتوں سے آشنا ہیں۔ کوئی بیمار ہوتا ہے تو گھر بیٹھے بیٹھے تیمار داری ہو جاتی ہے۔ کسی کے گھر کوئی تقریب ہو تو ہم بھی بلا جھجک شریک ہو جاتے ہیں۔ ایئر پورٹ جانے کی زحمت اور طیارے میں 24گھنٹے قید کی مشقت ، سب کچھ آسان اور حیرت انگیز۔

ابھی صرف پانچ سال پہلے نظر ڈالیے ! ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ چند مخصوص لوگوں کی ان چیزوں پر اجارہ داری تھی مگر اب تو کمپیوٹر کسی فیملی ممبر کی طرح ہر خاندان کی خدمت کر رہا ہے۔ صرف یہی نہیں اس کمپیوٹر نے پوری دنیا کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔Yahooسمیت متعدد ویب سائٹس پر ’’چاٹ روم‘‘ دستیاب ہیں جہاں آپ ہر ملک کے باشندے سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ Yahooنے ہر ملک کے نام کے ساتھ ’’چاٹ روم‘‘ بنا دئیے ہیں۔ ہم پاکستانی ، پاکستانی چاٹ روم میں جمع ہو جاتے ہیں ، چاہے ہم دنیا کے کسی ملک میں رہتے ہوں یہ ’’چاٹ روم‘‘ ہمارا مشترکہ ’’ٹھیّہ‘‘ ہے۔ اسی پاکستانی چاٹ روم کی بدولت آج جرمنی میں عظیم کراچی والا میرا دوست ہے۔ آسٹریلیا میں ایک پیاری سی شوخ دوست سے اکثر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ مانچسٹر میں ایک ’’چاچا‘‘ سے بڑی زبردست یاری ہے۔ جاپان میں پان کھانے والے ایک پیارے میمن سے گپ شپ رہتی ہے۔ نیویارک کی ایک سانولی دوست کو تو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ اسی طرح لاہور کے کئی دوست ہیں ، کراچی میں بھی مستقل گپ لگانے والے مل گئے ہیں۔ ہم میں سے جو بھی جب بھی آن لائن ہوتا ہے ، ایک دوسرے سے بات کر لیتے ہیں۔ اگر ملاقات ضروری ہو تو Off line Messageدے کر وقت بھی طے کر لیا جاتا ہے۔

اسی طرح کینیڈا کی ’سرد فضاؤں ‘‘ میں چند ’’ گرم‘‘ دوست بھی میں نے چاٹ روم کے ذریعہ ہی بنائے ہیں جن میں Desiboyسر فہرست ہے۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ ہم دونوں کا کینیڈا میں پروفیشن بھی ایک ہے۔ اسی طرح دو پاکی کالج گرلز ہیں جو مجھ کو یہاں کی تعلیمی فضاؤں کی آلودگی اور نوجوانوں کی اچھائیوں ، برائیوں سے آگاہ کرتی رہتی ہیں۔ ایک آنٹی ہیں جن کی گپ شپ کا انداز انوکھا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دیار غیر میں ایک دوسرے کو دوستی کے ’’جھولے ‘‘ میں جھولا دے رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے غم اور خوشیوں کو شیئر کر رہے ہیں ، زندہ باد چاٹ روم!

کہا جاتا ہے کہ واش روم گھر کے مکینوں کا آئینہ اور کسی بھی ملک کا ٹریفک سسٹم اس ملک کے عوام کی قانون کی پاسداری کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ آج میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کو دنیا بھر کے اقوام کے ڈسپلن ، جذبات اور مہذب ہونے کا معیار ناپنا ہے تو ان کے مخصوص چاٹ روم میں چلے جائیے۔ ان کی طرز گفتگو ، اجنبیوں کو ویلکم کرنے کا انداز اور عورتوں ، مردوں کی باہمی گفتگو آپ کو ایک گھنٹے میں سمجھا دے گی کہ دنیا کی کونسی قوم سب سے زیادہ مہذب ، کلچرڈ اور ترقی یافتہ ہے۔ اس اعتبار سے آپ پاکستانی چاٹ روم میں جائیں تو آپ کو حد درجہ مایوسی ہو گی۔ 24گھنٹوں میں شاید ہی کسی چاٹ روم میں چند گھنٹے خیریت کے گزرتے ہوں جب آپ کے کانوں میں گالی کی آواز نہ آتی ہو۔ ایک دوسرے کو انتہائی درجے گالیاں دینا پاکستانیوں کے لئے چاٹ روم میں عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے بلکہ بعض اوقات تو گھنٹوں گالیاں دینے کا مقابلہ ہوتا ہے جس میں پورا چاٹ روم جوش و خروش سے حصہ لیتا ہے۔ بعض لوگ روزانہ نئے نئے انداز کی گالیوں کا ہوم ورک کر کے آتے ہیں۔ اس مقابلے میں بعض اوقات بعض پاکستانی خواتین بھی انتہائی جوش و مسرت کے ساتھ حصہ لیتی ہیں۔ پچھلے چھ ماہ کی آبزرویشن کے مطابق مجھے MoonshahکیIDرکھنے والا نوجوان اس معاملے میں سب سے زیادہ متحرک نظر آیا جبکہ خواتین میں Shabana Azmiنے سب کو مات دیا ہوا ہے۔ یہ گالیاں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر کوئی شریف آدمی صرف چند منٹ سن لے تو شرم سے پانی پانی ہو جائے۔

آج کل انڈین اور پاکستانی چاٹ روم میں ان دونوں ممالک کے نوجوانوں کے درمیان گالیوں کا منہ پھٹ مقابلہ جاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے انڈیا اور پاکستان کی جنگ اسی چاٹ روم میں لڑی جا رہی ہے۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ دونوں جانب سے اسلام اور ہندو مذہب پر ایسی شرمناک گفتگو کی جاتی ہے کہ یقین نہیں آتا کہ کیا مذہب اسی کام کے لئے ہے ؟ ؟ بحیثیت صحافی میں نے ان چاٹ روموں میں کئی طرح کے تجربے کیے ، کئی سروے انہی چاٹ روموں میں مکمل ہوئے ہیں اور کئی پُر لطف اور اذیت ناک کہانیوں کو سننے کا موقع بھی یہیں ملا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان چاٹ روموں کے ذریعے انسانی نفسیات کے کئی اہم پہلو پہلی بار مجھ پر آشکار ہوئے ہیں۔

انصاف کے پلڑوں کی چوری

کل پاکستان کے اُردو اخبار میں ایک تصویر چھپی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے صدر دروازے کے باہر نصب انصاف کی علامت ’’ترازو‘‘ کے دونوں پلڑے غائب ہیں۔ ہم اب تک یہی سمجھتے آئے تھے کہ انصاف کا پلڑا سب سے بھاری ہوتا ہے ، اسے کوئی اپنی مرضی سے اٹھا کر اپنے قبضے میں نہیں لے سکتا ، مگر اس تصویر نے ہماری ساری خوش خیالی لمحوں میں دور کر دی۔

ترازو کے پلڑے انصاف کی علامت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں قدم قدم پر ’’ترازو‘‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر ہم ایک بار پھر اپنے پورے وجود کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے جہاں سبزی ، پھل ، گوشت ، اناج سے لے کر سونا چاندی یہاں تک کہ کسی زیادتی کی صورت میں عدالت میں ، یہی ترازو ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔ امیر ہوں یا غریب دنوں ہی ترازو سے یکساں فیضیاب ہوتے ہیں۔

پہلے پہل ترازو کی شکایتیں عموماً دکانداروں سے پیدا ہوتی تھیں۔ گوشت والے نے گوشت کم تو ل دیا ، پرچون والے کے باٹ ٹھیک نہیں۔ سبزی والے کے ایک پلڑے میں خرابی ہے ، وغیرہ وغیرہ۔ پھر نا انصافی کی یہ صورتیں سینما اسکرین کی طرح بڑھنے لگیں۔ نا انصافی کے سو ، سو رنگ ایجاد ہونے لگے۔ ترازو سے کام نہ چلا تو ملاوٹوں کے دھندے نے زور پکڑا۔ پہلے اصلی چیز میں تھوڑی نقلی چیز ملائی جانے لگی اور اب نقلی چیزوں میں تھوڑی سی اصلی چیز ملا کر کام چلا لیا جاتا ہے۔

ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ، کئی طرح کے ترازو دیکھے۔ پہلا ترازو وہ دیکھا جس کے دونوں پلڑوں کو ڈوری سے باندھا جاتا تھا اور درمیان میں کانٹا ہوتا تھا۔ بعض دکاندار کانٹے کی جگہ موٹی ڈور سے بھی کام چلا لیتے تھے۔ بے ایمانی اتنی عام نہ تھی۔ گاہک اسی ڈور سے بندھا رہتا تھا۔ غریب دکاندار باٹوں کی جگہ مساوی وزن کے پتھر رکھتے تھے جس کی وجہ سے بعض اوقات انہیں گاہکوں سے بحث کر کے سر پھوڑنا بھی پڑتا تھا۔ پہلے سودا سیر اور پاؤ کے وزن میں ملتا تھا اور ساجھے داری اس روپے سے تھی جس میں سولہ آنے ہوتے تھے۔ دکاندار کوئی چیز تولنے سے پہلے دونوں پلڑے برابر کر کے دکھاتا تھا اور سودا کئی بار تو ل کر گاہک کی پوری تسلی کرتا تھا۔ آج کل دکاندار صرف آنکھیں دکھاتے ہیں اور گاہک کے پیسوں سے اپنی تسلی کرتے ہیں۔

پھر ترازو بدلے ، نئے نئے طرح طرح کے پلڑے آئے۔ پھر سیر پر سوا سیر ’’گرام‘‘ ثابت ہوا۔ لوگ برسوں گرام اور کلو گرام کو سمجھنے میں گذار گئے۔ اس دوران میں دکانداروں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اب بھی 200گرام اور 250گرام اور 100گرام اور 125گرام کی نزاکتیں اکثر سروں پر سے گذر جاتی ہیں۔ مائع کے تول کے لیے لیٹر اور لمبائی کے لیے میٹر جب سے رائج ہوا ، اس میں بھی فائدہ دودھ ، تیل ، گھی اور کپڑے والوں نے ہی اٹھایا۔ ایسا لگتا ہے کہ عوام کو فائدہ پہنچانے کا چلن اب ہماری حکومتوں میں نہیں رہا ، اس معاملے میں ہر حکومت بد چلن ہو چکی ہے۔

ان ترازوؤں سے انصاف دلانے کے لئے حکومت پاکستان نے انسپکٹر مقرر کئے ، جو علاوہ دکانداروں کے کبھی کسی مظلوم خریدار کو نظر نہ آئے۔ آج کل تو بھاؤ تاؤ کرنا اور دکاندار کو اس کی نا انصافی کا احساس دلانا ایسا ہی ہے جیسے آپ کوئی جرم کر رہے ہوں۔ یہاں تک کہ آپ کے ساتھ کھڑے دوسرے خریدار آ پ کی جائز پوچھ گچھ پر آپ کو ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے آپ انتہائی ناشائستہ اور بد مزاج آدمی ہیں۔ ہمار ے یہاں معیارات بھی ترازو اور باٹوں کی طرح بدلتے جا رہے ہیں۔

بات اگر ان ترازوؤں تک رہتی تو یقیناً عام آدمی کبھی ، دکاندار ، کبھی بیوی سے لڑ جھگڑ کر اور بچوں و ملازم کو تھپڑ مار کر اپنا گذارا کر ہی لیتا مگر جب سے انصاف دلانے والے ترازوؤں میں گڑ بڑ پیدا ہوئی ہے ، پورا معاشرہ ہی اتھل پتھل ہو کر رہ گیا ہے۔ ایسے میں سند ھ ہائی کورٹ کے صدر دروازے پر نصب ترازو کے دونوں پلڑوں کا غائب ہو جانا ، پاکستان کی موجودہ صورت حال کی ایک بھر پور علامت بن کر سامنے آیا ہے۔ اگر یہ کسی دانشورانہ سوچ کا نتیجہ ہے تو خوب ہے اور محض عام سے ایک چور کی چوری ہے تو یقیناً چور کے لیے اتنی فائدہ مند ثابت نہیں ہو گی جتنا کہ غور و فکر کرنے والوں کے لیے۔ مزہ تو یہ ہے کہ چور پکڑا جائے یا پھر عدالت کے سامنے آ کر خود اقبالِ جرم کر لے کہ اسی نے یہ پلڑے چرائے ہیں ، پھر دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کیا فیصلہ سناتی ہے۔

ویسے اگر چور اس کے بجائے کوئی اور چیز چرا لیتا تو معاشی طور پر زیادہ فائدہ میں رہتا۔ اس چوری کا اصل فائدہ اخبار کے فوٹوگرافر نے اٹھایا۔ اس نے اپنے کیمرے کے ایک ’’کلک‘‘ سے وہ معرکۃ الآرا ء خیال پیش کر دیا ہے جسے لفظوں میں سمیٹنا آسان نہیں۔ اس نے ایک تصویر سے سسٹم کی پوری برائی کو اُجاگر کر دیا ہے۔ یہ تصویر مونا لیزا کی پینٹنگ سے بھی زیادہ اہم ہے۔ جنہیں پاکستان محبوب ہے ، وہ اس تصویر کو اپنی محبوبہ کی تصویر کی جگہ بھی ٹانگ سکتے ہیں۔ ایک جج جو ہزاروں مجرموں کو تختۂ دار پر ٹانگ سکتا ہے ، اسے یہ تصویر اپنے ڈرائنگ روم میں ٹانگ دینی چاہیئے۔

پتہ نہیں چرانے والے نے ان دو پلڑوں کا کیا ، کیا ہو گا ؟ انصاف کے ان پلڑوں کو بیچنے پر اسے کتنے پیسے ملے ہوں گے ؟ سو یا دوسو روپے ، انصاف کا ترازو اتنا سستا تو نہیں ، کوئی کسی غریب مجبور سے پوچھے کہ اسے پاکستان میں انصاف کتنا مہنگا ملتا ہے۔

’’ یہ منہ اور سربراہان مملکت ‘‘

کولون سے ایک دلچسپ خبر ملی ہے کہ ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران ، مظاہرے میں شریک ایک خاتون نے سوئیڈن کے وزیر اعظم کے منہ پر ایک کیک دے مارا۔ واہ صاحب! اس کیک کی بھی کیا قسمت تھی کہ کن ہاتھوں سے چلا اور کس منہ تک آپہنچا۔ آج تک منہ پر تھپڑ پڑتے تو سنا تھا مگر کیک پڑنے کا معاملہ پہلی بار سامنے آیا ہے۔ احتجاج کا یہ انوکھا انداز ، علاوہ وزیر اعظم سوئیڈن کے ، پوری دنیا نے یقیناً پسند کیا ہو گا۔

یوں بھی آج کل دنیا قسم قسم کے مظاہروں کی زد میں ہے۔ کہیں جنگ کے خلاف مظاہرہ ہو رہا ہے ، کہیں کرکٹ ٹیم کی ہار پر غصہ نکالا جا رہا ہے ، کہیں حکومت کی نا اہلی پر خفگی ظاہر کی جا رہی ہے۔ اس طرح کے مظاہرین عموماً پُتلے جلاتے ، پتھر مارتے ہیں مگر کیک مارنے کی یہ ادا واقعی قابل تحسین ہے۔

ہو سکے تو کوئی ہمارا یہ پیغام اس ’’کیک نواز ‘‘ خاتون تک پہنچا دے کہ وہ کیک مارنا چاہے تو ہم اپنا منہ پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے اکثر کامیڈی فلموں میں دیکھا ہے کہ کامیڈین ایک دوسرے کو کیک مار کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ شاید ان کے یہاں کیک سستا ہوتا ہے یا پھر کیک کی وہ توقیر نہیں جو مشرق میں اسے حاصل ہے۔

ہم تو کیک صرف سالگرہ یا پارٹیوں کے لیے منگواتے ہیں۔ پھر ایک کیک کے اتنے ٹکڑے کیے جاتے ہیں کہ شاید دل کے بھی اتنے ٹکڑے نہ ہوتے ہوں۔۔ ویسے بھی ہمارے غریبوں کو دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ وہ ساری زندگی ، آٹے دال کے بھاؤ سے باہر نہیں نکل پاتے ، بھلا کیک کھانے کا تصور کیسے کر سکتے ہیں ؟

وزیر اعظم سوئیڈن کے منہ پر کیک پڑنے سے یقیناً ان کے مخالفین کے دلوں میں ٹھنڈک پڑ گئی ہو گی اور وہ کیک کے ساتھ ’’نمک مرچ‘‘ لگا کر اسے حزب اختلاف کے دیگر لیڈروں کو سنارہے ہوں گے۔ خبر میں واضح نہیں کہ کیک پڑنے کے بعد وزیر اعظم کا کیا رد عمل رہا ؟ وہ کیک کھانے میں مصروف ہو گئے یا غصہ پینے میں ؟ کیک کے ساتھ ان کے چہرے کی جو تصویر یں کھینچی گئی ہوں گی یقیناً وہ بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہوں گی۔ اس واقعے کے بعددیگر ممالک کے سربراہان کو بھی چوکنا ہو جانا چاہیئے کہ نجانے ان کے منہ پر کب کیا پڑ جائے ؟

احتجاج کے رنگ ڈھنگ بھی نرالے ہوتے جا رہے ہیں یہ نہ ہو کہ امریکی صدر گزر رہے ہوں اور کوئی ان کے منہ پر دودھ پھینک دے اور کہے کہ کیا تم دودھ پیتے بچے ہو ، تمہاری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تم دنیا کو کس آگ میں جھونکنے جا رہے ہو۔ کہیں بمبار طیارہ بھیجتے ہو اور کہیں جاسوس طیارے اور توقع رکھتے ہو کہ خود چین سے رہو گے ؟

یوں بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی وزیر اعظم جان کریچاں کے منہ پر ’’ پی آر کارڈ‘‘ دے مارے کہ اس کارڈ کے حصول نے ہمیں گھنٹوں کے حساب کتاب والی نوکری کے قابل بھی نہ چھوڑا۔ ڈالر بھی دیں اور تصدیق نامے ، تصاویر اور بینک کی رسید کے لیے ’ونڈچل ‘‘ میں اِدھر ،ا دھر مارے مارے پھریں۔ ایمگرینٹس کی بے توقیری پہلے ہی کیا کم تھی ؟ اتنی ’’پی آر‘‘ ہوتی تو ٹورنٹو میں پی آئی اے کے جنرل منیجر بن کر نہ آ گئے ہوتے ؟

ہو سکتا ہے کو ئی بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے منہ پر دال دے مارے اور کہے کہ یہ منہ اور مسور کی دال؟ بہاری جی ! آپ سے خود تو چلا نہیں جاتا اور حکومت چلانے کے چکر میں مگن رہتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ کشمیر کے معاملے میں گھٹنے ٹیک دیں۔ آپ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے خلف جیتی تھی تو آپ نے ان کا ٹیکس معاف کر دیا اور آپ جو خود ’’نام‘‘ کے اجلاس میں ’’ نام‘‘ کما کر آئے ہیں ، اس کی فکر کریں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے منہ پر کوئی گائے کا گوشت مار جائے کہ تمہارے جانوروں کی کھُراور منہ کی بیماری کی وجہ سے پہلے ہی دنیا بھر کے جانور پریشان تھے اب تمہاری ’’زبان‘‘ کی وجہ سے دنیا بھر کے انسان پریشان ہیں۔ ’’بڑے بھیا‘‘ تو بڑے بھیا ’’چھوٹے بھیا‘‘ بھی سبحان اللہ۔

ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی صدر پاکستان پرویز مشرف کے منہ پر ’’برقعہ ‘‘ مار جائے کہ اجی حضرت بہت ہو چکا ، اب برقعہ پہن لیجئے ، انٹلی جنس کے پہرے سے زیادہ اب آپ کا بچاؤ برقعہ ہی کر سکتا ہے۔ دو جہاز حادثے کا شکار ہو گئے ، جماعت اسلامی والوں کے گھر سے آپ نے ’’ماسٹر مائنڈ‘‘ کو گرفتار کروا دیا ، Never mindاب قوم کی حفاظت کا بھول کر اس برقعے سے اپنی حفاظت کیجئے کیوں کہ ’’بڑے بھیا ‘‘ ایک ٹشو پیپر زیادہ دیر تک استعمال نہیں کرتے۔

دیکھ لیجئے اگر منہ وزیر اعظم کا ہو اور اس پر کیک بھی آنے لگے تو کیسی کیسی خبریں بنتی ہیں اور اگر منہ کسی غریب کا ہو تو وہ سوکھ جائے ، سوج جائے ، بگڑ جائے ، نکل آئے تو اس کی کسی کو فکر نہیں ہوتی۔ اگر ایسا واقعہ ہمارے ساتھ پیش آتا تو ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوتے مگر سیاست دانوں کے پاس اس کی سو تاویلیں ہوتیں۔ خود ہمارے اپنے ملک پاکستان میں ایسے ہزاروں منہ ہیں جو کرپشن کے حوالے سے بدنام ہیں مگر پھر بھی ڈھٹائی سے اخبارات میں اخلاقیات پر بیانات دے رہے ہیں ، تقریبات میں قانون کی پاس داری پر لیکچر جھاڑ رہے ہیں اور اب بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ا یسے ہی لوگوں کے ہاتھوں ہم نے ’’منہ کی کھائی‘‘ ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو خود تو کیک کھا رہے ہیں اور عوام کو روٹی کھانے کا حق بھی دینے کو تیار نہیں۔ عوام کو چاہیئے کہ ایسے لوگوں کا ’’منہ در منہ‘‘ مقابلہ کریں اور ان کے لئے ایسی ’’کم ترین‘‘ شے تیار رکھیں جو بوقت ضرور ت ان کے منہ پر ماری جا سکے۔

یہ ہفتہ کیسا رہے گا؟

آپ میں سے اکثر نے اس عنوان کے تحت پیش گوئیاں پڑھی ہوں گی۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے معمولات ان ہی پیش گوئیوں کو پڑھ کر طے کرتے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ اس ہفتے ہم بھی آپ کو بتائیں کہ آپ کا یہ ہفتہ کیسا رہے گا؟ مگر التماس ہے کہ اس سے صرف لطف لیں شاید کسی منجم نے کہیں لکھ رکھا ہو کہ آج کا دن ، لطف لینے کا دن ہے :۔

ARIES؛ آپ کے لیے یہ ہفتہ مشکلات کا ہفتہ ثابت ہو گا کیوں کہ روٹھی ہوئی بیوی یا روٹھا ہوا شوہر واپس آپ کے پاس آنے والا ہے۔ گھر کی صفائی ستھرائی فوراً مکمل کر لیجئے۔ بستر اور واش روم سے داغ، دھبے اور ’’بال‘‘ برابر اشیاء غائب کر دیجئے۔ صفائی کے لیے ’’سن لائٹ‘‘ استعمال کیجئے کیوں کہ سن لائٹ بنانے والوں کے لیے یہ ہفتہ منافع کاہے۔

TAURUS:۔ کہیں سے بھاری رقم ملنے والی ہے۔ شوہر کے پرس پر گہری نظر رکھیے یا ساس بستر مرگ پر ہیں تو ان کی خدمت میں اضافہ کر دیجئے۔ پچھلی بار ہم نے بھاری رقم کی پیش گوئی کی تھی تو ایک صاحب کو PENNYسے بھری پانچ کلو وزنی تھیلی ملی تھی، واہ! کیا ’’بھاری رقم ‘‘ تھی۔

GEMINI:۔ اس ہفتے گروسری کرتے ہوئے اردو اخبارات لینا نہ بھولیے گا کیوں کہ اس میں ایک گروسری اسٹور کے افتتاح کی نوید ہے ، ایک نئے پاکستانی ، انڈین ریسٹورنٹ کے شروع ہونے کی خبر ہے۔ خبر صرف پڑھئیے گروسری اسٹور اور ریسٹورنٹ تک جانے کی کوشش نہ کیجئے کیوں کہ سڑک پر برف بہت ہے اور کریڈیٹ کارڈ میں رقم کم۔ کھانا گھر پر پکائیے ، نمک کم ہو تو قریبی فٹ پاتھ سے اٹھا لیجئے۔ فٹ پاتھ پر اس ہفتے نمکین چہرے کم اور صرف ’’نمک‘‘ زیادہ دکھائی دے گا۔

CANCER:۔ پڑوسن سے ہوشیار رہیے ، وہ بیوی سے آپ کی شکایت کر سکتی ہے۔ غصے اور جیب پر قابو رکھئے۔ نیا کام شروع کرتے ہوئے زیادہ امید نہ رکھیے۔ البتہ وہ خواتین جو ’’امید‘‘ سے ہیں وہ اپنی خوراک اور ’’سہیلیوں ‘‘ کی حرکتوں پر ’’نظر ‘‘ رکھیں۔ یہی موقع ہے جب شوہر ہاتھ سے نکلتا ہے۔ اگر شوہر ہاتھ سے نکلتا محسو س ہو تو ہاتھ ذرا بھاری کر لیجئے ، اگرچہ آپ کا ’’پاؤں ‘‘ بھی بھاری ہے۔

LEO:۔تین دن کے لیے Job Agency سے بلاوا آ سکتا ہے۔ صبح چھ بجے اٹھنے کی مشق کیجئے۔جس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پوری رات جاگ کر گذارئیے۔ اگر رات کاٹنی مشکل ہو جائے تو سیکوریٹی کی نوکری ڈھونڈ لیجئے۔ کوئی غیر متوقع صورت حال رونما ہو سکتی ہے اس لئے پیر اور دل جما کر چلیے۔

VIRGO:۔ ورگو عموماً فضول گو ہوتے ہیں۔ فضول گوئی آپ کو رسوا کر سکتی ہے۔ جب بھی بولنے کو دل چاہے ، منہ میں انگلیاں ڈال لیجئے۔ا س ہفتے چینی زبان آپ کی سب سے بڑی دشمن ثابت ہو گی۔ بہتر یہ ہے کہ اردو اور انگریزی کی بجائے اس ہفتے چینی زبان میں گفتگو کی مشق کیجئے۔دقّت ہو تو کسی چینی دوشیزہ سے اتنی ہی مدد لیجئے کہ اسے 911 سے مدد لینے کی ضرورت پیش نہ آ جائے۔

LIBRA:۔ آپ کی آزاد خیالی ، آپ کو نئی دنیا دکھائے گی۔کسی خوبصورت ’’پیکیج‘‘ کو آزمائیے اور چھٹیاں گذارنے کسی ساحلی گرم علاقے کی طرف نکل جائیے کیوں بیوی پہلے ہی آپ پر گرم ہے۔ جاتے ہوئے اپنی ٹیلی فون انڈیکس چھپا کر جائیے کیوں کہ گھر کے ’’شاہین‘‘ کی نظریں ’’عقابی ‘‘ ہیں۔

SCORPIO:۔ اپنا پھٹا ہوا جوتا اب اتار کر پھینک دیجئے مگر پھینکئے گا شمال کی جانب کیوں کہ اس ہفتے جنوب آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ ’’فیکٹری عشق‘‘ کا تذکرہ اپنے روم میٹ سے ہر گز نہ کیجئے کیوں کہ دو دن بعد وہ آپ ہی کی فیکٹری میں آپ کی جگہ ملازم ہونے والا ہے۔

SAGITARIUS:۔ ایک نسوانی فون کال آپ کی قسمت بدل دے گی کیوں کہ اس نسوانی آواز کے کہنے پر آپ ’’راجززکیبل‘‘ لگوالیں گے اور 32چینل 24گھنٹے سڑک کے کنارے سے اٹھائے ہوئے ٹی وی پر دیکھ سکیں گے۔ کچن میں چوٹ لگنے کا خطرہ ہے۔ چھری، آگ اور بیوی سے دور رہیں۔

CAPRICORN؛ـ ایک بیوہ آپ کے دل پر دستک دے گی مگر دروازہ کھولئے گا مت کیوں کہ اس کے ساتھ اس کے مرحوم شوہر کی ’’ نشانیاں ‘‘ بھی ہیں۔20ڈالر کا نوٹ آپ کی جیب میں جاتے ہی غائب ہو سکتا ہے کیوں کہ آپ کی جیب پھٹی ہوئی ہے۔

AQUARIUS:۔ یہ ہفتہ گویا بنا ہی آپ کے لئے ہے۔ تمام رکے اور بگڑے کام سنور جائیں گے۔ یہاں تک کہ دو سال قبل گُم ہونے والی انگوٹھی بھی مل جائے گی بشرطیکہ آپ ہر ’’انگلی‘‘ پر نظر رکھیں۔ مشروبات میں صرف لسّی سے کام چلائیں دیگر ’’مشروب‘‘ کو ہاتھ لگائیں نہ منہ۔

PIECES:۔ اے اللہ میاں کی گائے ! کچھ عقل سے کام لو ، اس ہفتے نوکری پر ’’سوتے ‘‘ ہوئے اور گھر پر ’’جاگتے ‘‘ ہوئے پکڑے جاؤ گے۔ اتنا کچھ پڑھنے کے بعد بھی اگر تمہاری آنکھیں نہیں کھلیں تو تمہارا اللہ ہی حافظ ہے۔

کھانے کے ’’مینو‘‘ میں لال بیگ کا اضافہ کیجئے

ایک خبر کے مطابق بھارتی شہری رمیش کمار ایک منٹ میں 50لال بیگ کھا کر پُر اُمید ہے کہ اس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کر لیا جائے گا۔ خبر کے مطابق رمیش بچپن ہی سے لال بیگ کھانے کا عادی ہے۔ بھوک کی خاطر الا بلا کھانے کا تو ہم نے بھی سنا تھا مگر ورلڈ ریکارڈ کی خاطر لال بیگ جیسا گندہ اور نجس کیڑا کھانے کی خبر ہم نے پہلی بار پڑھی ہے۔

اب تک لال بیگ کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ اسے دیکھتے ہی مار دیا جائے اور اس کی افزائش کو روکنے کے لیے طرح طرح کی کیڑے مار دواؤں کا استعمال کیا جائے۔ رمیش کمار کی اس حرکت سے یقیناً ’’قومِ لال بیگ‘‘ میں سنسنی دوڑ گئی ہو گی۔ لال بیگ کے قومی رہنماؤں نے اپنے اپنے علاقوں میں ’’ریڈ سگنل‘‘ الرٹ کر دیا ہو گا۔ بھارت میں بسنے والے لال بیگوں نے احتجاجی جلوس نکالے ہوں گے اور رمیش کمار کے خلاف نالیوں اور گٹروں کی دیواروں کو مذمتی بیانوں سے بھر دیا گیا ہو گا۔ ممکن ہے لال بیگوں کی اسمبلی میں Serial Killerرمیش کمار کے خلاف سزائے موت کی قرار داد بھی پیش کر دی گئی ہو۔

ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کرانے اور عالمگیر شہرت حاصل کرنے کا انوکھا اور کراہیت آمیز نسخہ رمیش کمار نے پیش کیا ، اس نے یقیناً ان لوگوں کو بے چین کر دیا ہو گا جو غذائی اجناس کو پاک صاف اور جراثیم سے مبرّا رکھنے کے جدید اصول ہر دم لوگوں کو سمجھاتے رہتے ہیں۔ دنیا میں آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے ، بھوک و افلاس کی شرح میں اسی قدر اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں رمیش نے کھانے کے ’’مینو‘‘ میں ایک نئی چیز کا اضافہ کر کے یقیناً بھوکوں کی توجہ اپنی اور لال بیگ کی جانب مبذول کرالی ہو گی۔

ہم اب تک دنیا کے بعض اقوام کے مینڈک ، چھپکلی ، سانپ ، کتّے اور دیگر کیڑے مکوڑے کھانے پر ہی حیران تھے کہ رمیش کی جرات نے ہمارے اوسان خطا کر دئیے۔ رمیش ان لوگوں کے لئے خوشی کی لہر بن کر آئے ہی جو کوششوں کے باوجود اپنے کچن اور واش رومز کو ’’لال بیگ پروف ‘‘ نہیں کر سکے ہیں۔ اگر حکومت کینیڈا اجازت دے تو رمیش کمار کو کینیڈین شہری دعوت دے کر کینیڈا بلا سکتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں میں چند دنوں کے لیے مہمان بنا کر ٹھہرا سکتے ہیں۔ رمیش تکلّف سے کام نہ لیں تو پکڑ پکڑ کر ہزار ہا لال بیگوں سے ان کی تواضع کی جا سکتی ہے۔ ایسے مہمان کی میز بانی پر بھلا کسی کوکیا اعتراض ہو گا جو ناشتے ، لنچ اور ڈنر میں نمک اور کالی مرچ کے ساتھ لال بیگ مزے سے کھاتا ہو۔

ایک بار ہم نے دو لا ل بیگوں کی ایک گندی نالی میں دوران ڈنر گفتگو چپکے سے سنی تھی۔ ایک لال بیگ لقمہ چباتے ہوئے دوسرے لال بیگ سے کہہ رہا تھا ’’یار تمہیں پتہ ہے پڑوس کے اپارٹمنٹ میں جو نئے امیگرنٹ آئے ہیں ان کا کچن اس قدر صاف ستھرا ہے کہ چھک چھک چمکتا ہے۔ برتن ،سنک ، فریج ہر چیز نیٹ اینڈ کلین‘‘ دوسرے لال بیگ نے برا سا منہ بنایا اور بولا ’’یار ڈنر کرتے ہوئے اتنی گندی باتیں مت کیا کرو، متلی آتی ہے۔‘‘

رمیش اور ان جیسے تھرڈ ورلڈ کے باسیوں کا المیہ یہی ہے کہ وہاں غریبوں کے لیے کھانے کو کچھ نہیں ، فضا بھی اتنی آلودہ کہ مفت کی ہوا خوری بھی مہنگی پڑتی ہے۔ آٹا ،چاول ، دالیں اور سبزیاں بھی اب رسائی سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان ممالک میں غریب کا ’’پیٹ سے ‘‘ ہونا ہی جرم ہے۔ پیٹ والے ’’توندو‘‘ صرف سیاست دان ہی نظر آتے ہیں جو فائیو اسٹار ہوٹلوں کے کھانوں سے لے کر قومی خزانے بھی یک جنبش قلم ہڑپ کر جاتے ہیں۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والے اگر تھوڑی سی کوشش کریں تو ’’قومی خزانے ‘‘ کھانے والوں کا عالمی ریکارڈ ان ممالک سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اب تو کینیڈا میں بھی ’’عوامی خزانہ ‘‘ چپکے سے کھا جانے کی روایت عام ہوتی جا رہی ہے۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم کینیڈا نے جس طرح ٹی وی پر آ کر کینیڈین عوام سے اسپانسر شپ کے نام پر ملین ڈالر چپکے سے کھا جانے پر اپنی جماعت کے اراکین کی جانب سے معافی مانگی تو ہمیں اپنا بیک ہوم یاد آ گیا۔ ایسے میں عام آدمی لال بیگ کا رخ نہ کرے تو اور کیا کرے ؟ کیوں کہ غریبوں کے کچن میں آٹا ، چاول کم اور لال بیگ ہی زیادہ ملتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ’’بیگ‘‘ ہونے کے ناتے بچپن میں ہمیں اسکول کے ساتھی ’’لال بیگ‘‘ کے نام سے چھیڑا کرتے تھے اور ہم سچ مچ لال بیگ کے جانی دشمن ہوا کرتے تھے مگر جس طرح کا بدلہ رمیش کمار نے لال بیگوں سے لیا ہے ، اس کی ہمت ہمیں کبھی نہ ہوئی۔ ہم دعا گو ہیں کہ رمیش کمار جیسے ہزارہا لوگ اور سامنے آئیں اور لال بیگ کی مزیدار ڈشوں سے فیض یاب ہوں۔ لال بیگ نہیں ہوں گے تو دنیا بھر کے ہزارہا ’’بیگ فیمیلز ‘‘ چین اور سکون کا سانس لیں گی۔

’’ب‘‘ کا بول بالا

لگتا ہے کہ اب صحافیوں کا اس کے سوا اور کوئی کام نہ ہو گا کہ وہ امریکی فوجیوں کے ساتھ ملک ملک گھومیں اور جنگوں کا نظارہ کریں۔ ابھی افغانستان میں گولہ باری بند ہی ہوئی تھی کہ عراق کا چرچا ہونے لگا۔ادھر بغداد میں قدم جمے بھی نہیں کہ ’’بڑے بھیا‘‘ یہ ’’شام‘‘ اور تیرا نام والا گیت گنگنانے لگے ہیں۔جس دن کا اخبار پڑھو، جس گھڑی ٹی وی ، ریڈیو یا آنکھیں کھولو توپ یا پھر ’’بڑے بھیا‘‘ کی لفظوں کی بمباری سنائی اور دکھائی دینے لگی ہے۔کبھی ایک مثل پڑھی تھی کہ جو گرجتے ہیں ، وہ برستے نہیں مگر اب یہ عالم ہے کہ گرج بھی وہی رہے ہیں اور برس بھی وہی رہے ہیں۔

ملکی سیاست اور شوبز کی خبروں میں اب کوئی مزہ نہیں رہا۔پرویز مشرف سیاست دانوں سے ملاقاتیں کریں یا ظفر اللہ جمالی چین جانے کے لیے پر تولیں ، سرخی سے آگے متن تک نظر جاتی ہی نہیں۔بس ہر صبح یہی معلوم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ہمارے ’’بڑے بھیا‘‘ نے آج کیا کہا ہے اور یہ کہ آج ان کا روئے سخن کس کی جانب ہے۔

اب تو اسامہ بھی باسی کڑی بن گئے ہیں۔وہ کہاں چھپے ہیں ، زندہ ہیں ، شہید ہو گئے ہیں یا گرفتار ہو گئے ہیں ، ان کی خبروں میں اب کوئی سنسنی باقی نہیں رہی۔اب تو صدام حسین ہی ساری نگاہوں کا مرکز ہیں۔حال یہ ہے کہ اربوں نگاہیں ، لاکھوں جاسوسی کے آلات ان کی جانب مرکوز ہیں مگر وہ ہیں کہ کسی کو نظر نہیں آ رہے ہیں۔البتہ ہمیشہ کی طرح ’’بڑے بھیا‘‘ کی نظریں کام دکھا رہی ہیں۔وہ روز کہہ رہے ہیں ، صدام زندہ ہیں اور ملک شام میں ہیں۔شام وہ اس لیے گئے ہیں کہ شام میں بھی ان کا من پسند ’’کیمیائی ہتھیار‘‘ موجود ہے۔بڑے بھیا کی نگاہیں بڑی دور رس ہیں۔انہوں نے عراق کے بعد اب ’’شام‘‘ میں بھی کیمیائی ہتھیاروں کی بو سونگھ لی ہے۔

لگتا ہے کہ افغانستان کی طرح عراق کی تعمیر نو کا کام اب ’’شام‘‘ کی فتح کے بعد شروع ہو گا۔ہم تو سمجھتے تھے کہ عراق کے بعد ایران کی باری آئے گی اس کے بعد شمالی کوریا کی ’’گوشمالی‘‘ ہو گی مگر قرعۂ فال ’’ شام کے نام نکل آیا ہے۔اب سارے کیمرے اورسارے صحافیوں کے چہرے ’’ شام‘‘ کی طرف ہیں۔ادھر مسلمان لیڈروں کا یہ حال ہے کہ یاسر عرفات اپنے نامزد وزیر اعظم محمود عباس کی جانب سے مرتب کی گئی وزراء کی فہرست مسترد کرنے میں مصروف ہیں۔عرب لیگ گھٹنوں میں منہ دیئے ادھ کھلی آنکھوں سے ’’بڑے بھیا‘‘ کا منہ تک رہی ہے۔ظفر اللہ جمالی ہاتھ باندھے پرویز مشرف سے پوچھ رہے ہیں ’’سر! قوم سے کیا کہوں آپ فوجی وردی اُتار رہے ہیں کہ نہیں۔‘‘

ہم جو کبھی ریشم، ریما اور ثناء کے اسکینڈل چٹخارے لے لے کر پڑھا کرتے تھے اب فلمی صفحے کا ورق یوں الٹ دیتے ہیں جیسے اس صفحے پر ہماری بیگم کی تصویر چھپی ہو۔ ’’بڑے بھیا‘‘ کے نام سے اب ہمیں صرف صدرِ امریکہ یاد آتے ہیں۔حالانکہ دو معروف ’’بڑے بھیا‘‘ ٹورنٹو آ چکے ہیں ایک ہیں تاجدار عادل کے بڑے بھائی معروف افسانہ نگار سلطان جمیل نسیم اور دوسرے فلمی لیجنڈ اداکار محمد علی کے بڑے بھائی ارشاد علی۔کئی بار ہمت کی کہ جا کر ان سے انٹرویو کر آئیں مگر دل ہے کہ بغداد سے باہر ہی نہیں نکلتا۔ کانوں میں بغداد کے زخمی بچوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں ، بیواؤں کی آہ و بکا گونجتی ہیں اور مرنے والوں کے چہرے آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتے ہیں۔

اب ’’بڑے بھیا‘‘ نے شام، شام کی پکار شروع کی ہے تو دل مزید ہولنے لگا ہے۔کیا وقت آ گیا کہ جنگجو، ظالم میڈیا کے ہیرو بن گئے ہیں۔بڑے بھیا تو بڑے بھیا اب تو واجپائی بھی للکارنے لگے ہیں۔ جن کے گھٹنوں میں درد ہے وہ بجائے گھٹنے ٹیکنے کے آنکھیں دکھا رہے ہیں ، سبق سکھانے کی باتیں کر رہے ہیں۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ بوتل کا جن باہر آ چکاہے اسے واپس بوتل میں کون بند کرے گا؟

آج کہا جا رہا ہے کہ ہر عراقی سولہ ہزار امریکن ڈالر کا مقروض ہے۔لگتا ہے بڑے بھیا عراقی تیل بیچ بیچ کر ہر عراقی سے قرض واپس لیں گے۔کچھ بعید نہیں کہ کسی ’’صبح‘‘ وہ ’’شام‘‘ پرچڑھائی کر دیں۔صدام اور کیمیائی ہتھیار کی تلاش انہیں کسی بھی عرب ملک پر حملہ کرنے کا جواز مہیا کر سکتی ہے۔اقوام کا بس چل رہا ہے ، نہ اقوامِ متحدہ کا۔سب تماشائی ہیں اور سانس روکے ، گردن نکالے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔آج دنیا میں ’’ب‘‘ کا ’’بول بالا ‘‘ ہے۔بش اور بلیئر نے ساری دنیا کو دست بستہ کر دیا ہے۔اسامہ اور صدام تو ڈھونڈے بھی نہیں مل رہے ہیں مگر ’’یاجوج ماجوج‘‘ ہر گھڑی ہمارے سامنے ہیں۔

رچمنڈ ہل ، زلف و زلفی اور ہمارا سفر نامہ

بالآخر ہماری زندگی میں بھی وہ دن آہی گیا جس کے لیے ہم قلم سنبھالنے کے بعد سے منتظر تھے۔ برسوں سے ہماری خواہش تھی کہ ہم سفر نامہ لکھیں۔ اس سفر نامے کی خاطر پہلے پہل ہم نے شہری دورے کئے۔ ابھی ہمیں قلم پکڑے دو ہی سال ہوئے تھے اور ہماری تحریریں جنگ اور نوائے وقت کے طالب علموں کے صفحات پر چھپنی شروع ہی ہوئی تھیں کہ ہمارے ہاتھ مستنصر حسین تارڑ کا ایک سفر نامہ لگ گیا۔ اسے پڑھتے ہی ہمار ے دل اور تلووں میں خارش ہونے لگی۔ اس وقت تک ہمیں کسی سے عشق بھی نہیں ہوا تھا سوائے اپنے قلم کے چنانچہ سوچا کہ اگر ہم بھی سفر کریں گے تو یقیناً کسی نہ کسی زلف دراز کے کٹورے نینوں میں پانی کی طرح جا بیٹھیں گے۔ چنانچہ ہم نے بڑے طمطراق سے لاہور کا دورہ کیا۔ ان دنوں لاہور نواز شریف نہیں بلکہ بابرا شریف کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ چنانچہ داتا دربار میں حاضری دیتے ہی ہم نے بابرا شریف کی فلمیں دیکھنا شروع کر دیں۔سات دنوں میں ہم نے بابرا کی ۴ا فلمیں دیکھیں۔ فلمیں دیکھتے ہوئے ابا جان کا چہرہ ہمیں بار بار ڈراتا رہا مگر بابرا کا حُسن غالب آ جاتا اور یہ سوچ کر ہمت بڑھ جاتی کہ ہم کراچی میں نہیں بلکہ لاہور میں ہیں ، ابا ّکی آواز اور لاٹھی کی پہنچ سے بہت دور۔ فلموں کے بعد جو وقت ملا وہ ہم نے شہر کی سیر میں گذارا۔ واپس آئے تو لاہور کا سفر نامہ تین راتیں کالی کر کے لکھا اور نوجوانوں کے صفحہ کے لئے روانہ کر دیا۔ یہ سفر نامہ چھپتا کیا ، الٹا اس نوٹ کے ساتھ واپس آ گیا کہ اس میں لاہور کم اور بابرا بہت زیادہ ہے لہذا آپ اسے کسی فلمی صفحہ کے لیے بھیج دیجئے۔ اس سے قبل کہ ہم اسے فلمی صفحہ کے لئے بھیجتے ، یہ سفر نامہ ہمار ے ابا ّجان کے ہتھے چڑھ گیا اور انہوں نے یہ کہہ کر ڈنڈے سے ہماری بلائیں لیں کہ بر خوردار یہ سفرنامہ نہیں ، آپ کا اعمال نامہ ہے۔ ہم نے آپ کو لاہور ’’تعلیمی سفر ‘‘ کے لیے بھیجا تھا مگر یہ تو ’’نوجوانی کا سفر ‘‘ لگتا ہے۔

اس کے بعد ہم برسوں سفر اور بابرا شریف سے پرہیز کرتے رہے۔ ابا جان نے ڈائجسٹ کے ساتھ ساتھ سفر نامے پڑھنے پر بھی پابندی لگادی۔ یوں ہمیں پتہ ہی نہ چل سکا کہ مستنصر حسین تارڑ نے مزید کہا ں کہاں کاسفر کیا اور کن کن غیر ملکی دوشیزاؤں سے عشق لڑایا۔ پھر جب ہم اتنے بڑے ہو گئے کہ ابا ّکے ڈنڈے پر بڑھاپا اور ہماری جیب اور حرکتوں پر جوانی کا نشہ چھا گیا تو ہم نے اپنے سیاست دانوں کی طرح غیر ملکی دوروں کی ٹھانی۔ بہانہ یہ بنایا کہ روزگار کی تلاش ہے۔ چنانچہ ہم ہانگ کانگ گئے ، جاپان دیکھا ، کوریا کی سیر کی ، سری لنکا گئے ، سنگا پور کو روندا اور کئی سالوں کے بعد جب گھر لوٹے تو سفر نامہ لکھنے سے پہلے ہی نکاح نامہ ہمارے سامنے رکھ دیا گیا اور یوں ہم بھی مشرقی روایات کی بھینٹ چڑھ گئے۔

بیوی آئی تو ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو نئی جلا ملی۔ ہر سال ہم تہیہ کرتے کہ ’’صاحب کتاب‘‘ بنیں گے۔ روزانہ رات کو قلم پکڑتے مگر بیوی ہاتھ پکڑ لیتی۔ چنانچہ صاحبِ کتاب نہ ہو سکے ، صاحب اولاد ہوتے چلے گئے۔ بیرونی دوروں کی یادیں بجھتی چلی گئیں اور ذمہ داریوں کے نئے دئیے روشن ہوتے چلے گئے۔

کینیڈا کی ایمیگریشن ملی تو پھر دماغ میں چھپاکے ہونے لگے۔ اب تو ہم کینیڈا اور امریکہ کا سفر نامہ لکھیں گے۔ کینیڈا آئے تو بیوی بچے ساتھ تھے۔ سفر کیا کرتے ، ملازمت کرنے لگے۔ دو سال ہو گئے ، سوچتے رہے کہ مسی ساگا کا ہی سفر نامہ لکھ دیں کیوں کہ جب سے آئے ہیں مسی ساگا کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ مسی ساگا کا بھی وہی روٹ ہمارا ہم سفر رہا جو گھر سے ملازمت گاہ تک جاتا ہے۔ اس کے سوا محلے کا مال(Mall)ہی وہ جگہ جہاں ہم ہر ہفتے پابندی سے گروسری کرنے جاتے ہیں۔ ایک بار فیمیلی پاس لے کر ٹورنٹو گھومنے گئے۔ پورے دن بیوی بچوں کے سوا کسی کو نگاہ بھر کر دیکھنے کی حسر ت ہی رہی۔ کئی گوریاں پاس سے گذریں مگر بیوی کا حدّ ادب ملحوظ رہا۔

مگر اس ہفتے تو کمال ہو گیا۔ آخر ہماری زندگی میں وہ دن آ ہی گیا کہ ہم سفر نامہ لکھیں۔ ہمار ے دوست تسلیم الٰہی زلفی نے دعوت دی کہ رچمنڈ ہل آئیے اور پورا دن گزارئیے۔ ہم بہت خوش ہوئے کہ چلو ’’سفر نامہ رچمنڈ ہل‘‘ کے قابل ہوئے۔ چنانچہ بیوی بچوں سمیت تیار ہو کر رچمنڈہل کی جانب روانہ ہوئے۔ Finchکے سب وے پر زلفی صاحب اپنی گاڑی سمیت موجود تھے۔ پھر ان کی گاڑی دوڑتی رہی اور ہم سفر کرتے رہے۔ مارکھم سے سعادت علی خان ہم سفر بنے جو اپنے ’’ترجمان‘‘ آپ ہیں۔ اسی طرح اسکاربرو سے یٰسین معصوم ہم سفر بنے جو خود ایک سفر نامے ’’گھڑی مسافرت کی‘‘ سے مالا مال ہیں۔ یوں کبھی ہم معصوم کو اور کبھی ان کے سفر نامے کو پڑھتے رہے۔ مارکھم میں ہم نے ضد کی گاڑی سے باہر نکلیں اور مارکھم کو دل بھر کر دیکھیں مگر زلفی نے یہ کہہ کر ڈرا دیا ’’باہر نہ نکلئے گا ، سارس پکڑ لے گا ‘‘ چنانچہ بیوی نے دونوں ہاتھوں سے ہمیں پکڑ کر واپس گاڑی میں انڈیل دیا۔ یہاں تک کہ رچمنڈ ہل میں زلفی کا گھر آ گیا۔ یہاں ارشاد علی اور سلطان جمیل نسیم ملے پھر ایسی محفل جمی کہ جیسے چند ہفتوں پہلے تک ٹورنٹو میں برف جمی ہوئی تھی۔ خواتین کے حصے میں ساری مسز اپنی بولیاں بولتی رہیں اور مردانے میں ہم سب بولتے رہے۔ا یسے ایسے چٹکلے اور قصے کہ ہم سفر نامہ بھول ہی گئے۔

ارشاد علی کراچی میں پی ٹی وی کے آغاز کی یادیں تازہ کرتے رہے۔ سلطان جمیل نسیم اپنی کہانیوں کے سحر میں مبتلا کرتے رہے۔ یٰسین معصوم اپنے بچوں اور سفر کی یادیں سناتے رہے۔ سعادت علی خان اپنے لقموں سے محظوظ کرتے رہے۔ تسلیم الہیٰ زلفی اپنے ریڈیو اور ٹی وی پروگراموں کی بُنت میں ہم سب کو گھسیٹتے رہے یہاں تک کہ کھانے کی میز سج گئی۔ بھابی نزہت زلفی نے اپنے چٹ پٹے کھانوں سے ہماری زبانوں کو نیا لطف دیا۔ پھر تصویریں اور باتیں کھنچتی رہیں۔ یہاں تک کہ رات کا دوسرا پہر آ گیا۔ پھر واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔

ہم نے سوچا کہ چلو رچمنڈ نہ سہی وہاں کے ایک گھر کا سفر نامہ لکھیں گے۔ ایسا گھر جو ’’زلف اور زلفی‘‘ کی حکایتوں سے منوّر ہے۔ ابھی ہم نے سفر نامہ لکھنے کا آغاز ہی کیا تھا کہ فون پر صبیح منصور کی گرج دار آواز گونجی ’’یٰسین میاں ! آپ کا کالم کہاں ہے ؟ میں انتظار کر رہا ہوں ‘‘ ہم نے سفر نامے کے صفحات پھاڑے اور نئے کورے کاغذ پر کالم لکھنا شروع کر دیا۔ حسرت ہے ان غنچوں پر جو بن کھِلے مرجھا گئے۔

’’پوچھ گچھ‘‘ اور خورشید محمود قصوری

ایک خبر کے مطابق پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں در اندازی کی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی ہے ، اگر کوئی خودکش حملے کرتا ہے تو وہ صدر پرویز مشرف سے پوچھ کر نہیں کرتا۔بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں باقی سارے کام پرویز مشرف سے پوچھ کر ہو رہے ہیں۔ ہم پہلے ہی اپنے صدر کے ’’پاور‘‘ کے بارے میں پر عزم تھے کہ ان سے بڑی ’’پاورنگ ا تھارٹی‘‘ پورے ملک میں کوئی نہیں ، اب ان ہی کے وزیر خارجہ نے یہ بیان دے کر ہمیں مسرت سے ہمکنار کر دیا ہے۔لگتا ایسا ہے کہ قصوری جی نے یہ بیان صدر سے پوچھ کر نہیں دیا ورنہ ایسا راز یوں سرِ عام طشت از بام نہیں ہوتا۔

’’پوچھ گچھ‘‘ یوں بھی پاکستان میں رائج الوقت سب سے مقبول کرنسی ہے۔یہاں ہر بڑی مچھلی، چھوٹی مچھلی سے پوچھ گچھ میں مصروف رہتی ہے اور جب بات صدر پاکستان کی ہو جو فوجی وردی بھی ساتھ لیے پھرتے ہیں تو ’’پوچھنے ‘‘ کا عمل مزید تیز ہو جاتا ہے۔وزیر خارجہ کے اس بیان پر ہم نے کالم لکھنے کے لیے بیوی سے پوچھا یعنی اجازت طلب کی تو وہ بھی صدر کی طرح مزید اکڑ گئیں۔پہلو بدل کر بولیں ’’دیکھ لیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ سمجھیں کہ آپ نے بھارت کے حق میں کالم لکھ ڈالا ہے۔ویسے بھی کینیڈا میں ایجنٹی کا الزام زیادہ آسانی سے لگ جاتا ہے ، کہیں آپ پر بھی قلم کے خود کش حملے شروع ہو گئے تو آپ آئندہ قلم نہیں اٹھا سکیں گے۔‘‘

ہم نے بیوی کو سمجھای اکہ ہم بات صرف اس موضوع پر کرنا چاہتے ہیں کہ کیا باقی سارے کام پرویز مشرف سے پوچھ کر ہوتے ہیں ؟کراچی میں گزشتہ دنوں ایک ساتھ 16پیٹرول پمپوں پر بموں کے دھماکے ہوئے تو وہ کیا صدر پاکستان سے پوچھ کر ہوئے ؟ روزانہ سیکڑوں کاریں چوری ہوتی ہیں ، درجنوں ڈکیتیاں پڑتی ہیں اور دسیوں لوگ مار دیئے جاتے ہیں تو کیا یہ سب کچھ ’’صدر‘‘ سے پوچھ کر کیا جا رہا ہے ؟

’’پوچھنا‘‘ بڑی اچھی بات ہے ، کم از کم ہم نے ظفر اللہ جمالی سے یہی سیکھا ہے۔وہ روزانہ پارلیمنٹ ہاؤس جانے سے پہلے جس طرح مودب ہو کر صدر پاکستان سے ہر بات پوچھ لیتے ہیں اس سے پاکستان میں جمہوریت کی بساط بچھی رہنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔اپو زیشن کو چاہئے کہ وہ بھی ’’پوچھنے ‘‘ کے نکتے پر غور کرے اور صدر کی وردی یا دیگر معاملات پر مخالفت ترک کر دے۔ا س سلسلے میں وزیر خارجہ سے مدد لی جا سکتی ہے جنہوں نے صدر سے پوچھ کر ہر کام کرنے کے عمل کو آگے بڑھایا ہے۔

خورشید محمود قصوری کے اس بیان سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے جہاں دیدہ قسم کے وزیر خارجہ ہیں انہیں دنیا کے بارے میں صحیح طرح سے آگہی حاصل ہے۔وہ جانتے ہیں کہ اس وقت دینا ’’پوچھ پوچھ‘‘ کر ہی قدم اٹھا رہی ہے۔اگر ساری دنیا ہمارے ’’بڑے بھیا‘‘ سے پوچھ پوچھ کر فیصلے کر سکتی ہے تو پاکستانی اپنے صدر سے پوچھ کر ہر کام کیوں نہیں کر سکتے ؟

ویسے یہی سوال اگر پرویز مشرف سے کیا جائے کہ وہ کس سے پوچھ کر سارے کام کرتے ہیں ؟تو ان کا جواب وہی ہو گا جو اس وقت برطانیہ سمیت دنیا کے تقریباً ہر ملک کے سربراہ کاہے۔ویسے بیگم پرویز ساتھ کھڑی ہوں تو وہ مسکرا کر کہہ سکتی ہیں ’’پرویز بڑے با ادب شوہر ہیں ، ہر کام مجھ سے پوچھ کر کرتے ہیں۔‘‘

کینیڈا میں بھی ہر کام پوچھ کر کیا جاتا ہے۔کپڑے کم پہننا ہوں یا زیادہ، یہ بات موسم سے پوچھی جاتی ہے لانگ ویک اینڈ پر کہاں جانا ہے ؟ آج کیا خریداری کرنی ہے ؟ اس کی اجازت کریڈٹ کارڈ سے لینی پڑتی ہے۔آج جاب پر جانا ہے کہ نہیں یہ بات ’’جاب ایجنسی‘‘ سے پوچھنی پڑتی ہے۔گرل فرینڈ کا ہاتھ کب پکڑنا ہے ، کب اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرانا ہے اور کب محبت کا لفظی یا عملی اظہار کرنا ہے ، اس کے لیے بھی بوائے فرینڈ کو ’’پوچھنے ‘‘ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے ورنہ بقیہ پوچھ گچھ پولیس والے کرتے ہیں۔آج کل کینیڈا کے وزیر اعظم سے بار بار پوچھا جا رہا ہے کہ کیا وہ واقعی نو ماہ بعد ’’سابق وزیر اعظم‘‘ کہلانا پسند کریں گے ؟

بحیثیت مسلمان ہم سب ہر کام اللہ سے پوچھ کر کرتے ہیں۔یہ اور بات کہ بہت سے کام ہم اللہ کی پسند کے بغیر بھی کر لیتے ہیں ، یہ سوچ کر کہ اللہ معاف کرنے والا ہے۔

اگلے 48گھنٹے … کرکٹ اور بڑے بھیا کا ’’فائنل‘‘

’’عظیم جنگیں ‘‘ ہم نے اب تک صرف گھروں میں ہی دیکھی ہیں۔ جن دنوں ہم یونیورسٹی کے طالب علم ہوا کرتے تھے ، کبھی کبھار ناشتہ کرنے یونیورسٹی کی کینٹین چلے جاتے تھے۔ دوست حیرت سے پوچھتے ’’ کیا آج اباّکے ہوسٹل سے ناشتہ نہیں ملا۔‘‘ ہم ہنس کر بتاتے ’’ یار ! کل رات اباّ اور امّی کے درمیان ’’پانی پت کی لڑائی‘‘ چھڑ گئی تھی ، سو امّاں مارے غصّے کے صبح نہیں اٹھیں۔‘‘ ایسی ہی گھریلو لڑائیوں کو ہم ’’ جنگ عظیم‘‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے مگر اب لگتا ہے کہ ہمارے ’’بڑے بھیا ’’ امریکہ والے ‘‘ ہمیں جنگ عظیم سوم دکھا کر ہی رہیں گے۔

آج ’’بڑے بھیا ‘‘ نے جس جارحانہ انداز میں قوم سے خطاب کیا ہے ، اسے سن کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ہم کینیڈا اس لیے آئے تھے کہ سنا تھا کہ یہاں بڑا امن و سکون ہے۔ ’’گولیوں ‘‘ کا کاروبار صرف ڈاکٹر کرتے ہیں مگر ہم بھول ہی گئے تھے کہ نیاگرا کے اس پار ہمارے ’’بڑے بھیا‘‘ رہتے ہیں جنہیں آج کل عراق کو غیر مسلح کرنے کا جنون سوار ہے اور اس دھُن میں وہ ہزاروں مسلح فوجی عراق میں اتارنے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ آج تو انہوں نے حد ہی کر دی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صدام حسین سے براہ راست کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں سمیت 48گھنٹے میں عراق چھوڑ دیں ورنہ بقول بڑے بھیا ’’ وہ بندوق والا ہاتھ چھوڑ دیں گے ‘‘

بڑے بھیا کو ورلڈ کپ کا بھی پاس نہیں۔ ابھی ورلڈ کپ کا سیمی فائنل شروع ہوا تھا کہ بڑے بھیا نے خود فائنل کھیلنا شروع کر دیا۔ حالانکہ ان کی ٹیم کے کئی کھلاڑیوں نے ان کی طرف سے کھیلنے سے انکار کر دیا ہے۔ پوری دنیا شور مچا رہی ہے کہ ہم ’’ جنگی میچ‘‘ نہیں دیکھیں گے مگر بڑے بھیا بضد ہیں کہ وہ ‘‘ جنگ جنگ ‘‘ ضرور کھیلیں گے۔

پچھلے ماہ تک ہم یہی سمجھ رہے تھے کہ ’’بڑے بھیا ‘‘ شہرت کے لیے یہ سارا ڈرامہ رچا رہے ہیں۔کئی ماہ سے میڈیا پر تو امریکہ عراق جنگ زور و شور سے جاری تھی۔ ہر نیوز بلیٹن ’’بڑے بھیا ‘‘ کی للکار سے شروع ہوتا تھا۔ ہر گھر میں ’’بڑے بھیا ‘‘ کے بیانات سنائے جاتے تھے ،بیگمات کسی بھی تقریب میں ’’ مجازی خدا‘‘ سے زیادہ ’’ بڑے بھیا ‘‘ پر باتیں کرتی تھیں۔ شاپنگ کے لیے بھی ’’بڑے بھیا ‘‘ ہی کا بہانہ تھا۔ ’’ بہن! میں تو آج دس تولے سونا خرید لائی ، کیا خبر بڑے بھیا نے عراق پر حملہ کر دیا تو سونا مہنگا ہو جائے گا۔‘‘ ادھر دنیا بھر کے تاجروں کا سونا حرام تھا۔ اسٹاک ایکس چینجوں میں مندی اور گھر کے کھانے کے اسٹاک میں اضافہ کر لینے کی خبریں عام تھیں۔ مگر پھر بھی یہ خیال عام تھا کہ شاید بڑے بھیا مان جائیں اور جنگ کی نوبت نہ آئے۔

پھر ہمارے فرانس والے یاک شیراک بھیا جس طرح بڑے بھیا کی مخالفت کر رہے تھے اس سے امید ہو چلی تھی کہ بڑے بھیا کمزور پڑ جائیں گے مگر ’’قوم سے خطاب ‘‘ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حالانکہ برطانیہ کے جونیئر وزیر صحت اور وزیر داخلہ تک جنگ کی مخالفت کرتے ہوئے مستعفی ہو گئے ہیں مگر ٹونی بلیئر پھر بھی بڑے بھیا سے ہاتھ ملائے کھڑے ہیں۔ چین کے نئے وزیر اعظم کو اقتدار سنبھالے صرف چند دن ہوئے ہیں ، وہ بھی بڑے بھیا کے خلا ف ڈٹ گئے ہیں۔ عرب لیگ جو ’’سونے ‘‘ کے لیے مشہور تھی وہ بھی جاگ گئی ہے۔ مگر ہمارے ضدی بڑے بھیا دنیا کو جنگ کی ہولناکی اور عذاب میں مبتلا کرنے کا تہیہ کر بیٹھے ہیں۔ انہیں اپنے پڑوسی اور پیارے دوست وزیر اعظم کینیڈا جان کریچان کے مشوروں کا بھی کوئی احساس نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بڑے بھیا کے سامنے بس ’’نومن تیل، ، یا پھر ’’تیل کی دھار ‘‘ رقص کر رہی ہے۔

ہم نے بھی قسم توڑ دی ہے اور ’’لوکل مصنوعات‘‘ سے باہر نکل کر ’’بڑے بھیا‘‘ پر دوسرا کالم لکھ رہے ہیں۔ بڑے بھیا کو اگر اردو زبان پڑھنی آتی ہوتی تو وہ یقیناً رحیم انجان کے چار کالم پڑھ کر ہی جنگ سے توبہ کر لیتے۔بعض کالم نگاروں کے کالم پڑھ کرتو یوں لگتا ہے کہ جیسے انہیں بیوی سے بھی زیادہ ’’ بڑے بھیا ‘‘ پر غصہ آریا ہے مگر سوال یہ ہے کہ بڑے بھیا کا غصہ کون ٹھنڈا کرے ؟ ایسا لگتا ہے کہ بڑے بھیا کو کسی نے اچھی طرح سبق پڑھا دیا ہے کہ امریکہ کی آئندہ اقتصادی ترقی کا راستہ عراق کے تیل کے کنوؤں سے گزر کر ہی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ کبھی کبھی بڑے بھیا خبر کا ذائقہ بدلنے کے لیے اسامہ بن لادن کو بھی یاد کر لیتے ہیں ورنہ اب تو ان کی زبان پر دو ہی لفظ ہیں عراق اور صدام۔

آج سے دنیا 48گھنٹوں کے لیے دم سادھے بیٹھی ہے۔ نجانے 48گھنٹوں کے بعد کیا ہونے والا ہے ؟ کیا خبر کس دن ہم نہار منہ ٹی وی کھولیں تو پتہ چلے کہ صدام نے دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے عراق چھوڑ دیا ہے یا کیا خبر کہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے اور بڑے بھیا عراق پر حملہ ہی کر دیں۔ اگر بڑے بھیا نے ایسا کر دیا تو پوری دنیا ڈسٹرب ہو کر رہ جائے گی۔ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہو جائے گی۔ نجانے پھر کتنے صدام اور اسامہ اور پیدا ہو جائیں گے۔ یہ کیا غصب کی غلطی بڑے بھیا کریں اور خمیازہ پوری دنیا بھگتے۔

آج تک تو ہم انہیں ’’بڑے بھیا ‘‘ کہہ کر پکار رہے ہیں نجانے کل انہیں کس ، کس نام سے پکارا جائے۔ ہٹلر ، مسولینی ، فرعون ان سب کو ہم نے ’’تاریخ‘‘ میں پڑھا ہے ، کل کی ’’تاریخ‘‘ میں جب لوگ ’’بڑے بھیا‘‘ کو پڑھیں گے تو کیا کہیں گے ؟ برً ے بھیا ’’تاریخ‘‘ آپ سے بھی زیادہ ظالم ہے ، کیا آپ اس ظالم کے ہتھے چڑھ جانا چاہتے ہیں ؟ بہتر ہے کہ ہمیں ورلڈ کپ کا فائنل دیکھنے دیں اور آپ اپنا ’’فائنل‘‘ ملتوی کر دیں۔

آج ’’مزاح‘‘ نہیں ’’نوحہ‘‘ لکھیں گے

ہر ہفتے اگلے کالم کے لئے ہم ہنستے مسکراتے موضوعات کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ اس ہفتے بھی سوچا کہ ایک ایسے شخص کے بارے میں لکھوں جو مجھے کینیڈا میں نہیں ملا۔ ہزاروں آ رہے ہیں کوئی انجینئر ہے ، کوئی ڈاکٹر ہے ، کوئی پروفیسر ہے۔ جس سے پوچھو وہ ’’ بیک ہوم‘‘ میں 30ہزار روپے سے کم ماہانہ تنخواہ نہیں پاتا تھا۔ پھر بھی وہ یہاں چلا آیا صرف اس لیے کہ ’’خواب کی کوئی قیمت نہیں ہوتی‘‘ ۔ہم اپنے وطن میں سب کچھ رکھتے تھے مگر امریکہ اور کینیڈا تک پہنچنے کی ’’ پہنچ ‘‘ نہیں۔ اسی لیے جب ایمگریشن ملی تو ہم نے سوچا کہ میاں یہاں کچھ نہیں۔ اصل زندگی تو کینیڈا میں ہے۔ کینیڈا میں امن ہے ، سکون ہے۔ محنت کریں گے تو بہترین مستقبل ہے مگر یہاں آئے تو Per Hourکی ملازمت نے ہوش ٹھکانے لگادئیے۔ ہر پل وہاں کی نوکری، وہاں کے مزے ، وہاں کی ’’دفتری عزت‘‘ یاد آنے لگی۔ دن بھر چائے کے دور ، دوستوں سے ٹیلی فون پر گپیں ، ماتحتوں سے کام کرانے کی آزادی، غرض مندوں کی منتیں اور آپ کا بے نیازی سے اصرار ’’فکر نہ کریں آپ کا ، کام ہو جائے گا۔‘‘

یہاں سب کام آپ نے کرنے ہیں۔ جس دفتر میں چلے جائیں۔ ایک ایک منٹ مصروفیت کاہے۔ تھکن اتارنے کے لیے ’’منٹوں کا ٹائم ٹیبل ہے ‘‘ دفتری وقت ختم ہونے سے پہلے سب کچھ سمیٹنا بھی ہے ، صفائی بھی خود کرنی ہے ، آپ منیجر ہیں یا فیکٹری ورکر ’’جھاڑو‘‘ آپ نے خود مارنی ہے۔ وہ دن ہوا ہوائے جب ’’چپراسی‘‘ آپ کی ملکیت ہوا کرتا تھا۔ یہاں ہر دفتر میں مجھے ہر کوئی ملا، نہیں ملا تو ایک ’’چپراسی‘‘ نہ ملا۔ پورے کینیڈا میں چپراسی کا کوئی وجود نہیں۔ پلٹ کر دیکھتے ہیں پاکستان میں ہر دفتر چپراسی سے شروع ہوتا ہے اور چپراسی پر ختم ہوتا ہے۔ چائے وہ لا رہا ہے ، صفائی وہ کر رہا ہے ، فائل اٹھا کر وہ لا رہا ہے ، حتیٰ کہ صاحب کا کھانا بھی وہ گرم کر رہا ہے۔ سرکاری دفتروں میں ’’صاحب‘‘ سے ملاقات بھی چپراسی سے بہتر تعلقات کے بغیر ممکن نہیں۔

بہت دنوں سے ہم سوچ رہے تھے کہ ’’چپراسی‘‘ پر ایک بھر پور کالم لکھیں۔ مزے مزے کے جملوں اور دلچسپ واقعات کے ساتھ۔ بھلا ہو عراق پر حملہ کرنے والوں کا انہوں نے عراقیوں کی زندگی اور ہماری ’’حسِ مزاح ‘‘ کو برباد کر کے رکھ دیا۔ اب تو مشتاق یوسفی کی کتابیں بھی اٹھاتے ہیں تو ہر صفحے کے درمیان سے بغداد کے بم دھماکے ، آہ و بکا، خون اور معصوم لہو کی پکاریں سنائی دینے لگتی ہیں۔

دل پر جبر کر کے سوچا کہ اس بار ’’ کباڑئیے والے ‘‘ کو یاد کریں۔ کینیڈا میں سب کچھ ہے مگر ’’کباڑیا‘‘ نہیں۔ کباڑئیے کی جگہ Recycleمشینیں ہیں جو ردّی، ٹین ڈبوں ، بوتلوں کسی کی کوئی قیمت نہیں دیتی۔ اخبار خریدو تو ضخامت دیکھ کر خبر پڑھنے سے پہلے ہم یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ سخت سردی میں اس اخبار کو پڑھنے کے بعد کہاں ٹھکانے لگانا ہے ؟ کباڑئیے کی صنعت پر ہم ایک ضخیم مزاحیہ کالم لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر بھلا ہو نئے اور پرانے اخبارات کی سرخیوں کا اور ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے حرص اور طمع کے طوفان میں سب کچھ روند دیا ہے۔ انسانیت اب محض ڈکشنری کا ایک لفظ محسوس ہونے لگی ہے۔ ہمیں ایسا لگ رہا ہے کہ بموں کی یلغار بغداد پر نہیں ہمارے دل پر ہو رہی ہے ، ہمارے دماغ پر ہو رہی ہے۔ اپنی لیبر جاب کی شکایتیں ہمیں بغداد کے بے گھر ، بھوکے بچوں کے سامنے شرمندہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔

اب تو یہ حال ہے کہ کھانے بیٹھو تو نوالہ حلق سے نہیں اترتا۔ سونے کی کوشش کرو تو بغداد کی گلیوں میں ابلیس کا رقص یادآنے لگتا ہے۔ مزاح تو دور کی بات ہے اب تو سادہ سے جملے بھی حلق میں اٹکنے لگے ہیں۔ چند فوجیوں کی لاشوں پر رونے والوں سے کوئی پوچھے کہ ان ہزاروں معصوم جانوں نے کیا قصور کیا تھا؟ جانوروں کے تحفظ کے لیے انجمنیں بنانے والے انسانوں کا درندگی سے شکار کرنے کا حوصلہ کہاں سے لا رہے ہیں ؟ کیا انسانی خون کی قیمت تیل سے بھی ارزاں ہے ؟ ہر نئے دن کے ساتھ تیل کے کنووں کے قریب پہنچنے کی نوید سنانے والے کیا عراقیوں کو اپنے جیسا انسان نہیں سمجھتے ؟ آج دنیا کا جغرافیہ نہیں ، انسانیت کی تاریخ تبدیل ہو رہی ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح کا خط مرزا یٰسین بیگ کے نام

ڈئیر یٰسین بیگ

تمہیں کینیڈا کے پتے پر خط لکھتے ہوئے دل بہت دکھی ہے ، اس لیے کہ تم ہی وہ صحافی ہو جو کراچی میں میرے مزار کے عین قریب رہا کرتے تھے اور اکثر اپنے بچوں کو لے کر تفریح نہیں بلکہ تعظیم کی نیت سے مجھ سے ملنے آیا کرتے تھے۔ میں خاموشی سے تمہاری اور بچوں کی گفتگو سنا کرتا تھا۔ بچوں کے سامنے میری شخصیت کے دریچے کھولنے کا تمہارا انداز بہت د ل نشیں ہوا کرتا تھا۔ یہ تم ہی تھے جو ’’قائد اعظم اکیڈمی‘‘ کے بارے میں اخبارات و رسائل میں آرٹیکلز لکھا کرتے تھے۔ نوجوانی کے دنوں میں تم 25 دسمبر اور11ستمبر کے موقعہ پر میری شخصیت کے حوالے سے خصوصی ’’ معلومات عامہ کے مقابلے ‘‘ کروا یا کرتے تھے جس کے انعامات کے حصول کے لئے تمہیں پاکستانی بزنس مینوں سے جس طرح منتیں کرنی پڑتی تھیں ، دل شکنی اور تمہاری مجھ سے خاموش محبت کے وہ خفیہ واقعات میرے دل میں نقش ہیں۔

مجھے حیرت ہے کہ تم جیسا میرا چاہنے والا اس سرزمین اور ’’بابائے قوم‘‘ کی قربت کو چھوڑ کر کینیڈا کیسے آ گیا؟ خاموش محبتوں کو میں نے اسی طرح مزار بنتے دیکھا ہے اور جنہوں نے میرے نام کی محبت کی تختی گلے میں لٹکا کر قوم سے خطابات کئے ہیں ، ان کے اعمال نامے بھی میں نے اپنے مزار کے احاطے میں دفن کر رکھے ہیں۔

مجھے افسوس نہیں کہ میں پاکستان بنا کر اتنی جلدی ابدی نیند سو گیا مگر مجھے افسوس ہے کہ جس قوم کو میں نے جگایا اور قومی حمیّت و غیر ت سے روشناس کرایا وہ بھی جاگ نہ سکی۔ میرے وہ بچے جن کے دلوں میں ’’بابا‘‘ کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی جو بابا کے پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک زندہ پاکستان بنانا چاہتے تھے انہیں پنپنے اور پروان چڑھنے نہیں دیا گیا۔ میرے بعد نوٹوں کی شکل میں میری تصویریں تو ہر جیب میں رہیں مگر میرے اصول ، میری سوچ، میرے قومی مقاصد کو کھوٹا سکّہ بنا دیا گیا۔اس کے برعکس ہندوستان کو دیکھ لو وہ اپنے ’’بابو‘‘ کو آج بھی کیسے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے منّا بھائی جیسے آج کے کر دار کے ذریعے بابو کے کر دار کو دوبارہ ہر دل میں زندہ کر دیا۔ تم لوگوں نے بڑی مشکل سے مجھ پر ایک فلم بنائی اور اس میں بھی میرا کر دار ایک ایسے شخص سے کروا یا جو ’’ڈریکولا ‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ جس ملک میں محمد علی جناح ، لیاقت علی خان ، حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر قدیر خان جیسی شخصیات کو جینے نہیں دیا جاتا وہاں قوم سمجھ بوجھ اور بصارت کیسے پاسکتی ہے ؟

یٰسین بیگ تم ہرگز دکھی نہ ہونا ، تمہارا بابا آج بھی پر امید ہے کہ پاکستانی ضرور جاگیں گے ، پاکستان ضرور اپنا مقام پائے گا۔ میں نے بڑ ے بڑے ناموں کو چھوڑ کر اپنی ’’برتھ ڈے ‘‘ پر صرف تم کو خط اس لیے لکھا کہ مجھے تم جیسے لوگوں سے پیار ہے جو دکھاوے کے لئے ہر سال ’’گارڈ آف آنر ‘‘ دینے میرے مزار پر تو نہیں آتے مگر جہاں اور جس حال میں رہتے ہیں مجھے دل ہی دل میں یاد کرتے رہتے تھے اور کوشش کرتے رہتے ہیں کہ میرے خیالات اور افکار کا اپنی پہنچ کی سطح تک پرچار کرتے رہیں۔ مجھے تمہاری یہ بات بھی بھلی لگی کہ تم نے کینیڈا آنے سے پہلے میرے حقیقی محقق رضوان احمد کو ایک بار پھر میڈیا میں زندہ کیا تھا۔ تم رضوان احمد کو اسی لئے پوجتے تھے کہ اس کے دل میں میری محبت کی حقیقی چنگاری روشن تھی۔ اس سال بھی میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تم دیسی ریڈیو کینیڈا (www.desiRadioCanada.com)پر میری سالگرہ منانے کے لئے کئی ہفتوں سے ریسرچ کر رہے ہو۔ تم بار بار کوشش کرتے ہو کہ میرے حوالے سے ٹورنٹو میں مجلسیں کرو ، نوجوان پاکستانی نسل کے دلوں میں میری شخصیت کی حرارت پیدا کرو، تم اس کے لئے لوگوں کو فون کرتے ہو ، انہیں ہلاتے جُلاتے ہو کہ وہ مل کر کچھ ایسا کریں کہ مجھے قبر میں سکون میسر ہو۔اگرچہ تم ناکام ہی رہتے ہو مگر مجھے تمہاری اس ناکامی ہی سے پیار ہے۔ حوصلہ رکھو اور بابا کی اس بات پر یقین کرو کہ ایسے ہزارہا ناکام افراد کی فہرست میرے پاس موجود ہے جو آج بھی میرے نام کو پڑھ کر اخبار چومتے ہیں اور انہی ناکام لوگوں کی وجہ سے آج بھی تمہارا بابا پر امید ہے کہ پاکستان کو کوئی ختم نہیں کر سکتا۔

ڈئیر یٰسین ! خط طویل ہو رہا ہے۔ دیکھو آج دسمبر کی 12تاریخ ہے ابھی میری سالگرہ میں 13دن باقی ہیں مگر ابھی تک میرے مزار کی صفائی ستھرائی شروع نہیں ہوئی ہے۔ تم میرا مزار جس طرح ویران دیکھ کر گئے تھے ، یہ پانچ سال بعد اب بھی ویسا ہی ویران ہے۔ سینکڑوں لوگ ہر ویک اینڈ پر میرے مزار کے احاطے کے سبزہ زار پر آتے ہیں۔ خوش گپیاں کرتے ہیں ، چاٹ کھاتے ہیں ، آئس کریم چوستے ہیں ، کولڈ ڈرنک پیتے ہیں اور گرم شاموں کی ٹھنڈی ہوا کھا کر چلے جاتے ہیں۔ بہت کم ہیں جو اوپر آ کر میرے لئے دعا ئیہ ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ اب تو یہ ہونے لگا ہے کہ شام ڈھلے ، سورج ڈوبنے کے بعد یا دوپہر کی کڑی سنسان دھوپ میں یہاں وہ عورتیں آ کر کھڑی ہونے لگی ہیں جنہیں بابا کے پاکستان میں شوقینوں کی گاڑیوں میں بیٹھ کر چند گھنٹے گذارنے کی مزدوری ملنے لگی ہے۔ بابا اب قبر میں لیٹے لیٹے اپنے اطراف Dating کرتے پاکستانی خوش باش نوجوان جوڑوں کو بھی دیکھنے لگا ہے۔

تمہارا بابا کرنسی نوٹوں پر اپنی تصویر کی بہتات سے گھبرانے لگا کیوں کہ یہ نوٹ اب غریبوں کے بس میں نہیں رہے۔ ان نوٹوں سے وہ کھیل رہے ہیں جن کا کھیل ’’ بابا‘‘ کے پاکستان کے لئے نقصان دہ ہے۔ مگر تم گھبرانا نہیں اور ہو سکے تو ایک چکر پاکستان کا ضرور لگا لینا جہاں تمہاری ماں اپنی ڈبڈباتی آنکھوں سے دروازے پر تمہارے مخصوص دستک کی منتظر ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ شاید آج بھی تم رات کے دو بجے ضرور دستک دو گے اور ہولے سے کہو گے ’’ ا می سورۃ یٰسین ختم ہونے سے پہلے آپ کا یٰسین آ گیا ہے ‘‘ جلدی آ کر مل لو کہ اب تو تمہارے دل میں بسنے والی تہذیب صرف قبرستانوں میں ملنے لگی ہے۔

تمہارا اپنا۔

قائد اعظم

ایک کالم جوتوں کے نام

ایک خبر کے مطابق آسٹریلیا میں ایک شخص کو جوتوں کی جوڑیاں جمع کرنے کا شوق ہے۔ اس نے 55سال میں 98ہزار نادر قسم کی جوتوں کی جوڑیاں جمع کی ہیں۔ اس کے گھر کا ایک بڑا کمرہ صرف جوتوں کی جوڑیوں سے بھرا ہوا ہے۔

آج کی مہذّب دنیا میں ویسے بھی جوتوں کی بڑی اہمیت ہے۔ شخصیت کی پہچان اکثر جوتوں سے ہوتی ہے۔ لوگ کپڑوں سے زیادہ جوتوں پر رقم خرچ کرتے ہیں۔ جوتے اتنے مہنگے ہو گئے ہیں کہ اب جوتوں میں دال بٹنی بھی بند ہو گئی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ والدین جوتوں سے اولاد کی پٹائی کرتے تھے۔ جہاں طیش آیا ، وہاں جوتا اٹھایا۔جسے جوتے لگتے وہ بڑا شرمسار ہوتا تھا مگر اب تو ماڈرن جوتے صرف پہننے کے کام آتے ہیں۔ اب نیا جوتا سال میں صرف ایک بار خریدا جاتا ہے۔ پاکستان میں تھے تو عید کی خریداری میں جوتے سر فہرست ہوتے تھے۔ ایک عید پر جو جوتا خریدا وہ اگلی عید تک ساتھ دیتا تھا۔ باٹا اور سروس کے جوتے بڑے پائیدار تصور کئے جاتے ہیں۔ نیا جوتا مسجد پہن کر جاؤ تو نماز کے دوران بھی نگاہ جوتے پر ہی ہوتی تھی۔ جوتے چوری کی اکثر وارداتیں مسجد میں ہوتی ہیں۔ لوگ پرانے جوتے پہن کر آتے ہیں اور کسی دوسرے کا نیا جوتا پہن کر چلے جاتے ہیں۔ کینیڈا آنے والے جہاز پر سیفٹی بیلٹ باندھ کر آتے ہیں اور جہاز سے اترتے ہی ’’سیفٹی بوٹس ‘‘ پہن لیتے ہیں۔ کینیڈا میں کوئی دیسی گھر ایسا نہیں جہاں سیفٹی بوٹس نہ ہوں۔ انہی بوٹس کے طفیل یہاں پہلی نوکری ملتی ہے۔

شادی شدہ کی زندگی میں بھی جوتوں کی بڑی اہمیت ہے۔ جب تک ’’جوتا چھپائی‘‘ کی رسم نہ ہو جائے دلہن کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں کو جوتے بغل میں دبانے کی عادت ہوتی ہے ، کچھ جوتیاں سیدھی کرنے میں کمال کا ہنر رکھتے ہیں۔ کچھ کو جوتیوں سمیت آنکھوں میں بیٹھنے کی حاجت رہتی ہے کچھ جوتے کی ضرب پر یقین رکھتے ہیں۔ آسٹریلیا کا جوتوں کا شوقین یقیناً جوتیاں چٹخانا بھی جانتا ہو گا۔

ماؤں کو جوتے گھسنے کا شوق ہوتا ہے۔ وہ بیٹے کی دلہن لانے کے شوق میں اپنی جوتیاں گھس دیتی ہیں۔ کچھ جوتیوں کے صدقے میں بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔

کینیڈا میں جوتوں کی دکانیں دیکھ کر رشک آتا ہے۔ ایسے ایسے حسین جوتے کہ دل چاہتا ہے جوتے خرید کر پہنے نہیں بلکہ ہاتھوں میں لٹکا کر گھومیں۔ پاکستان میں موچی فٹ پاتھ پر غربت کی زندگی بسر کرتا ہے یہاں جوتے مرمت کرنے پر اتنی ہی رقم خرچ ہو جاتی ہے جتنی کہ ٹی وی یا فریج کی مرمت پر خرچ ہوتی ہے۔ جوتے کی پالش اتنی مہنگی ہے کہ لگتا ہے کہ ہم جوتے پر پالش نہیں بلکہ ڈالر چسپاں کر رہے ہیں۔

عورتوں کے جوتے اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ پاؤں دیکھتے دیکھتے ہی حسینہ پاس سے گزر جاتی ہے جوتے پہننے والے پاؤں کی بد بو دور کرنے کے لئے اسپیشل ’’جوتا پرفیوم‘‘ خریدتے ہیں۔ یہاں سردی کے جوتے الگ ، برف باری کے جوتے الگ ، کام کے جوتے الگ اور گرمیوں کے جوتے الگ ہوتے ہیں۔ گرمیوں میں چپلیں اتنے شوق سے پہنی جاتی ہیں کہ یاد ہی نہیں رہتا کہ گھر میں دیگر جوتے بھی ہیں۔ اتنے جوتوں کے باوجود ہم نے کبھی کینیڈا میں جوتے چلتے نہیں دیکھے نہ کسی کو جوتے کی نوک پر دیکھا۔ یہاں برف تو خوب برستی ہے مگر جوتے نہیں برستے۔

کمال کاہے وہ شخص جو آسڑیلیا میں 98ہزار جوتوں کے ساتھ رہتا ہے۔ ہم نے تو ساری عمر میں 100ہی جوتے خریدے ہوں گے۔ جوتے واحد شے ہے جو کرائے پر نہیں ملتے۔ آج کل پاکستان میں سائنس دانوں اور عوام کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو ہم پرانے جوتوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ پاکستان میں آج کل فوجی بوٹوں کا بہت تذکرہ ہے۔ پہلے فوجی بوٹ صرف محاذ پر نظر آتے تھے آج کل ہر اچھی کرسی کے ساتھ فوجی بوٹ منسلک ہے۔ ساری دنیا کو یہ کہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ بش کا جوتا سر آنکھوں پر۔ مشرف جی کا بس چلے تو وہ سارے امریکی بوٹس اسلام آباد میں لا کر رکھ دیں۔ دنیا میں جوتے نہ ہوتے تو ہر پاؤں یتیم کہلاتا۔ جوتا ، جوتے پر آ جائے تو اسے سفر کی نشانی کہا جاتا ہے اور جوتے کے بغیر سفر ہی ممکن نہیں۔ویسے بھی غریبوں کے لیے دنیا میں اتنے کانٹے ، نوکیلے پتھر اور ناہموار راہیں ہیں کہ اسے جوتے کی امان ڈھونڈنی ہی پڑتی ہے اور تو اور محبوبہ بھی کہتی ہے :

انہی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آؤ

میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

مونچھ نہیں تو کچھ نہیں

پڑھنے کا ہمیں بہت شوق ہے ، کچھ نہ ملے تو چہرے پڑھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ کینیڈا اس لحاظ سے ہمیں کافی زرخیز لگا کہ یہاں پڑھنے کے لیے قسم قسم کے چہرے ہیں۔ ویسے چہرے تو اللہ میاں بناتے ہیں مگر حضرت انسان کے کیا کہنے وہ اللہ میاں کے تیار کردہ چہرے پر اپنی پسند کی اتنی ’’گُلکاریاں ‘‘ کر لیتا ہے کہ بعض اوقات ’’قدرتی چہرہ ‘‘ گہرائیوں میں چھپ جاتا ہے کہ ہمیں خود حیرت ہوتی ہے کہ اللہ میاں اپنے بندے کو پہچانتے کس طرح ہیں ؟ ہمیں تو تجسس ہی ہے کہ کبھی اللہ میاں کے پاس موجود ہماری Picture I.DاورSin Cardتو دیکھیں۔ پڑھیں تو سہی کہ اس میں اللہ میاں کے فرشتوں نے ہمارے لیے کیا ، کیا لکھ رکھا ہے ؟

اب مونچھوں کو ہی لے لیجیے۔ جب ہم پیدا ہوئے تھے تو ہمیں مونچھوں کے لیے ایک خالی جگہ ملی تھی ،ا گر ہم اپنے بڑوں کے چہرے نہ دیکھتے تو ہمیں علم ہی نہ ہوتا کہ اس جگہ کو کبھی بالوں سے بھرنا بھی ہے۔ جگہ تو وہی ایک چھوٹی سے ہوتی ہے مگر اس پر مونچھوں کے ’’لگاؤ‘‘ کی ہزاروں قسمیں ہیں۔ ہر مرد اپنے اپنے طریقہ سے اس جگہ پر مونچھیں اُگتی دیکھتا ہے۔کسی کی ہلکی مونچھیں ہوتی ہیں۔ کسی کی گھنی ، کسی پر کھڑے بال ہوتے ہیں اور کسی پر لیٹے ہوئے۔پھر مونچھیں اُگتے ہی حضرت انسان اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس کی کٹنگ اور بناوٹ شروع کر دیتا ہے۔ کوئی اسے سائیکل کے ہینڈل کی طرح بنا لیتا ہے ، کوئی اسے سیدھی لکیر کی شکل دے دیتا ہے ، کوئی اسے مکھی کی طرح بٹھا لیتا ہے ، کوئی اسے شیو کر کے اس جگہ کو پہلے کی طرح خالی رکھنے پر ہی مُصر ہوتا ہے۔

بھارت سے تعلق رکھنے والے کلیان رام جی سین 1976سے اپنی مونچھیں بڑھا رہے ہیں ، گنیز بک2004 کے حیرت انگیز ریکارڈ کے مطابق آج کلیان رام جی سین کی مونچھیں دنیا کی سب سے بڑی مونچھیں ہیں جن کی لمبائی گیارہ فٹ ایک انچ ہے۔ اف میرے خدا! ہمیں تو لگتا ہے کہ مونچھیں رکھنے کا سب سے زیادہ رواج بھارت، پاکستان ، سری لنکا اور بنگلہ دیش ہی میں ہے۔ آج ہم ٹورانٹو میں جتنے ’’مونچھ والے ‘‘ دیکھتے ہیں ان میں سے اکثریت ان ہی ممالک کے لوگوں کی ہوتی ہے۔ کینیڈین مونچھوں کے معاملے میں کافی ’’بد قسمت ‘‘ ہیں وہ چہرے پر بلیڈ ایسے چلاتے ہیں جیسے برف صاف کرنے والی گاڑیاں سڑکوں پر اپنی مشین چلاتی ہیں۔ ویسے بھی ہمار ے یہاں مونچھوں کو ’’مردانگی‘‘ کی علامت سمجھا جاتا ہے جس سے شوہر حضرات اپنی بیگمات کو ڈراتے ہیں۔ جبکہ کینیڈین قانون کے مطابق ڈرانا ، دھمکانا بہت بڑا جرم ہے۔یوں یہاں مونچھوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ پاکستان میں مونچھیں نہ ہوں تو آپ کے دن اور رات کے آدھے کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔ بس میں سفر کرو توبغیر مونچھوں والوں کو سیٹ نہیں ملتی، سینما کے ٹکٹ کے لیے لائن میں کھڑے ہو تو ہر کوئی دھکا مار کر پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ پاکستان کے سب ہی حکمران سوائے نواز شریف کے مونچھوں والے تھے اور ہیں۔قیاس کیا جاتا ہے کہ اگر نواز شریف کے بھی مونچھیں ہوتیں تو وہ یوں دن دہاڑے کرسی سے محروم نہ کر دئیے جاتے۔

مونچھیں نہ ہوں تو پاکستانی بچے ، باپ کو باپ کی طرح تسلیم نہیں کرتے۔ حکم چلانے کے لیے ہاتھ میں ڈنڈا اور منہ پر مونچھیں ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بے نظیر اپنی مونچھوں کی کمی ، آصف زرداری کے ذریعہ پوری کرتی تھیں۔ آصف زرداری پر بھی افتاد اس وقت سے پڑنی شروع ہوئی تھی جب سے اُنہوں نے اپنی مونچھیں صاف کی تھیں۔

کینیڈا میں سردی کے دنوں میں جب سب کچھ جیکٹوں اور موٹے کپڑوں سے ڈھکا ہوتا ہے یہ پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ سامنے سے کوئی آ رہا ہے یا آ رہی ہے۔ یہاں مرد و عورت میں کوئی ’’امتیاز ‘‘ ہے نہ کوئی کسی سے ’’ممتاز‘‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں مرد کی قابل قدر نشانی ’’شیونگ جیل‘‘ کی نظر ہو جاتی ہے۔ جب کینیڈین آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ دیکھ کر بور ہو جاتے ہیں تو وہ کبھی ’’فرنچ کٹ‘‘ رکھ لیتے ہیں ، کبھی چہرے کی آخری حدود کے ساتھ پورے چہرے کے کناروں پر داڑھی کی باریک سی لکیر کھینچ لیتے ہیں۔ اس طرح اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے چہرے کا اصل حدود اربعہ کیا ہے۔

ہم نے بھی اپنی زندگی میں بعض دوست ایسے پائے جنہیں کبھی مونچھوں کے ساتھ نہ دیکھا ، ان میں سے جو خواتین تھیں وہ تو ہمیشہ ہمیں پیاری لگیں مگر جو مرد تھے انہیں ہم نے کئی بار ٹوکا ’’یار کبھی مونچھوں کو بھی تو اگنے کا موقع دو ، یہ کیا کہ فصل پر روزانہ ہل چلا دیتے ہو ‘‘

اب آپ سے کیا پردہ ! آپ جو ہماری یہ تصویر ہر بار کالم کے ساتھ دیکھتے ہیں ، اب ہم اس تصویر جیسے نہیں رہے۔ ہمارا اس سے یہ مطلب نہیں کہ ہم نے تسلیم الہیٰ زلفی کی طرح شادی سے صرف دو دن پہلے کی تصویر لگا رکھی ہے۔ جی نہیں !ہمارا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہم بھی اب ’’ مونچھ والے ‘‘ نہیں رہے۔ کینیڈا نے ہم سے ہماری مونچھیں اور ہمارا پروفیشن چھین لیا ہے۔

گھڑیاں آگے اور ’’خوف ‘‘ پیچھے پیچھے

گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے ہو چکی ہیں۔ اب ہم شام کی جاب سے واپس آ رہے ہوں تو لگتا ہے جیسے جلدی گھر لوٹ آئے ہیں ورنہ اس سے قبل تو سورج بھائی کو ’’ڈوبا ‘‘ کر ہی ہم ’’اُبھرا‘‘ کرتے تھے۔ کینیڈین گورنمنٹ بہت اچھی ہے ، ہمیں ’’اندھیرے ‘‘ میں نہیں رکھنا چاہتی ، ہر سال گھنٹہ آگے کر دیتی ہے اور پھر گھنٹہ پیچھے۔

وقت اور توانائی کی قدر کرنے والی قومیں ہی آج دنیا میں کامیاب ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم کامیاب قوم کے ’’ہم رکاب‘‘ چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسے آپ ’’جنگی مشقیں ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مگر کل ہم ایک خبر پڑھ کر بہت سٹپٹا گئے۔ لکھا تھا ’’رات کا خوف ایک عالمی مسئلہ ہے ‘‘ افریقہ ، لاطینی امریکہ ، اور مشرقی یورپ میں رات کو بے حد خوفناک سمجھا جاتا ہے۔ ان ملکوں کی آدھی عوام اندھیرے میں خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہے۔ اسپین کے 39فیصد، جرمنی کے 34فیصد ، اور فرانس کے 29فیصد افراد راتوں کو گھر سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے۔ البتہ شمال اور جنوب کے لوگ اس معاملے میں خاصے نڈر اور بے خوف ہیں۔

اس تفصیل میں جانے کا مقصد صرف یہ باور کرانا تھا کہ اگر ہم بھی رات اور اندھیرے سے ڈرتے ہیں تو ہمیں تنہا ’’ڈرپوک‘‘ ہونے کا طعنہ نہ دیا جائے۔ بقول ہمارے دوست فجے میاں کہ رات اور بیوی ہوتی ہی اس لیے ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔یہ اور بات کہ بیویاں شوہروں سے نہیں بلکہ لال بیگ اور چوہوں سے ڈرتی ہیں۔ ان کے نزدیک شوہر کا درجہ اس سے بھی کمتر ہوتا ہے۔

انسان ہر عمر میں کسی نہ کسی سے ڈرتا ضرور ہے۔ چھوٹا ہو تو گھر میں باپ اور اسکول میں استاد سے ڈرتا ہے ، بڑا ہو جائے تو استاد اور باپ اس سے ڈرنے لگتے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹی لائف میں کتابوں اور امتحانوں سے ڈر لگتا ہے۔ ڈگری لے چکے ہوں تو نوکری نہ ملنے کا ڈر لاحق ہو جاتا ہے اور نوکری مل جائے تو ’’نکالے ‘‘ جانے کا خوف ذہن پر چپک کر رہ جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں تو وزیر اعظم اور صدر تک خوفزدہ رہتے ہیں کہ نہ جانے کب اقتدار کا ’’ہما‘‘ ان کے سر پر سے اُڑادیا جائے۔آج ساری دنیا امریکہ سے ڈرتی ہے اور امریکہ پر القاعدہ کا خوف سوار ہے۔ بقول فجے میاں ’’بے خوف ‘‘ زندگی گزارنا کم ازکم آج کے معاشرے میں ممکن نہیں۔ جب تک سانس ہے جب تک خوف ہے بلکہ سانس رکنے کے بعد بھی نیا خوف پیدا ہو جائے گا کہ پتہ نہیں فرشتے کیا کچھ پوچھیں گے ؟ اللہ میاں کے حساب کتاب سے ڈر لگے گا اور دل ہولنے لگے گا کہ جنت ملے گی یا دوزخ؟

ہمارے دوست فجّے میاں دوستوں کے سامنے شیر اور بیوی کے سامنے گیدڑ بن جاتے ہیں۔ گھر میں ان کا مقام ’’شرم کا مقام‘‘ ہے اس لیے وہ زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزارتے ہیں۔ بیوی انہیں ایسے پکارتی ہے جیسے نوکر کو آواز دی جا رہی ہو۔ نوکر آئے نہ آئے بیگم کی آواز پر فجّے میاں ضرور پہنچ جاتے ہیں۔ گھر میں ان کا درجہ دیکھ کر ہمیں تو ’’حد درجہ‘‘ ندامت ہوتی ہے۔

اس کے باوجود فجّے میاں ’’نائٹ ‘‘ سے بالکل نہیں ڈرتے اور اکثر ان کا وقت ’’نائٹ کلب‘‘ میں گزرتا ہے۔ رات کی ’’روشنی‘‘ سے انہیں بے حد پیار ہے اور یہ ’’دیسی روشنی‘‘ بھی انہیں اس وقت تک اپنے پاس بٹھائے رکھتی ہے جب تک وہ جیب اور ہوش سے بیگانے نہ ہو جائیں۔

جب سے ہم کینیڈا آئے ہیں ہمارا خوف کافی حد تک کم ہو گیا ہے کیوں کہ دہشت گرد اور قرض خواہ ہم کراچی میں ہی چھوڑ آئے ہیں۔ یہاں رات کو باہر نکلتے ہوئے ہمیں ذرا سا بھی ڈر نہیں لگتا یہ اور بات ہے کہ دوسرے ہمیں دیکھ کر ڈر جاتے ہیں۔ یہاں تو ہم گاڑی بھی ڈرائیو کر رہے ہوں تو لوگ مارے ڈر کے راستہ دینے لگے ہیں۔ ٹورانٹو آتے ہی لوگوں نے ہمیں دو چیزوں سے بہت ڈرایا جس میں ایک ٹیکس کا محکمہ ہے۔ صرف محکمہ ٹیکس کے ڈر سے شہر میں ہزاروں اکاؤنٹنٹوں کا کاروبار چل رہا ہے۔ دوسرا خوف یہ بٹھایا گیا کہ کبھی کسی اسٹور سے کوئی چیز چرانا نہیں۔ اللہ تو معاف کر سکتا ہے مگر یہاں کے کیمرے معاف نہیں کرتے پھر Sin Cardمیں آپ ایک بار بحیثیت چور رجسٹرڈ ہو گئے تو ساری زندگی چور ہی کہلائیں گے۔ نامہ اعمال کا ایسا خوف تو بحیثیت مسلمان بھی کبھی ہم پر طاری نہ ہوا تھا۔

یہاں آ کر پتہ چلا کہ اصل خوف تو دلوں میں اللہ کا ہونا چاہیئے۔ یہاں تو قدم قدم پر ایسے چسکے اور مزے ہیں کہ اللہ کا خوف نہ ہو تو زندگی کہیں کی نہ رہے۔ واقعی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی انمول ہوتی ہے بشرطیکہ وہ اپنی ’’شیرنی‘‘ سے نہ ڈرتا ہو۔

طارق نسیم بمقابلہ ڈاکٹر شاردا

طارق نسیم کو میں نے بارہا دیکھا مگر صرف تصویروں میں ، انہیں مسلسل سنا مگر صرف ریڈیو پر ، ان کی شخصیت نہ سہی مگر تحریریں ضرور پڑھیں۔ انہوں نے ’’کارواں ‘‘ کے نام سے ہفت روزہ اخبار نکالا۔ میں بھی قاری بنا ، ان کا کوئی خاص امیج مجھ پر نہ بن سکا۔ پھر یوں ہوا کہ Radio Voice 101.3fmپر ڈاکٹر شاردا کے ساتھ روزانہ ان کے ’’ٹاکرے ‘‘ سننے کو ملنے لگے۔ وہاں ایک نیا طارق نسیم میرے سامنے کھڑا ھا۔ ایک پکّا سچا ،علم کی دولت سے مالامال محب وطن پاکستانی کینیڈین۔ ڈاکٹر شاردا اور طارق نسیم کی یہ نوک جھونک اور معلومات افزا گفتگو مجھے اس قدر بھائی کہ میں وقت نکال کر شام چار بجے ان دونوں کو سننے لگا۔

معاملہ ہندوستان ، پاکستان کا ہو یا کینیڈا کا یہ دونوں میزبان اس میں مجھے اس قدر انوالو نظر آئے کہ قدرے حیرت ہوئی کہ کیا یہاں اردو اور ہندی میڈیا میں حالاتِ حاضرہ پر اس قدر گہری نظر رکھنے والے صحافی بھی موجود ہیں ؟ دونوں اس طرح لڑتے ، بحث کرتے اور بے باک گفتگو کرتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ اگلے دن یہ دونوں منہ موڑے کھڑے ہوں گے ، ریڈیو کی بجائے کسی گروسری اسٹور پر ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہوں گے مگر اگلے دن چار بجے ہوا کے دوش پر یہ پھر ہنستے بولتے اسی طرح اختلاف رائے کرتے نظر آتے ہیں۔کینیڈا جہاں کوئی دیسی کسی دوسرے ہم پیشہ کو کبھی اپنے ریڈیو ، ٹی وی یا اخبار میں جگہ نہیں دیتا وہاں ڈاکٹر شاردا نے طارق نسیم کو ’’ہوائی وقت ‘‘ دے کر سامعین کے دل جیت لئے۔ میں جو اس پروگرام کو صرف ایک ہندی پروگرام سمجھ کر سنا کرتا تھا ، اب اسے ہندوستان، پاکستان کا مشترکہ سب سے اہم ’’پلیٹ فارم ‘‘ سمجھتا ہوں۔ حالات حاضرہ پر ان دونوں کی دسترس اور ہندی واردو سامعین کے دلی جذبات کی ترجمانی جس طرح طارق و شاردا کرتے ہیں ایسا دلی میل ملاپ میں نے کسی ریڈیو پر نہیں سنا۔ طارق نسیم کی مونچھوں کا ’’تاؤ‘‘ اور ڈاکٹر شاردا کے سفید بالوں ’’ تجربہ کاری‘‘ ان کے لفظوں اور انداز بیان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی نظرآتی ہے۔ کاش یہ دونوں پاکستان اور ہندوستان کے سربراہ ہوتے تو آج ہمارے ملک ترقی کی کسی اور منزل پر ہوتے۔

اب طارق نے ریڈیو شروع کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دیسی ’’ تخلیق‘‘ کے نام پر صرف ’’اولادیں ‘‘ ہی پیدا نہیں کرتے بلکہ اپنی اپنی فیلڈ میں بھی جوہر تخلیق کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ہر کامیاب آدمی کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے مگر طارق کے معاملے میں یہ کہاوت تبدیل شدہ شکل میں نظر آتی ہے۔ ان کی کامیابی میں عورت کا ہاتھ پیچھے سے نہیں بلکہ برابر سے ہے۔ عشرت وہ پاکستانی عور ت ہے جو اپنے شوہر کا شانہ بشانہ ساتھ دے رہی ہے جس وقت طارق اپنے ریڈیو اور اخبار کے لیے اشتہارات جمع کرنے ادھر ادھر بھاگ رہے ہوتے ہیں عشر ت ریڈیو یا اخبار کی میز پر بیٹھی اپنے ہنر سے میڈیا کے رنگوں کو سمیٹ رہی ہوتی ہے۔ خدا اس Activeجوڑی کو کسی کی نظر نہ لگائے۔ مجھے تو شبہ ہے کہ یہ دونوں روزانہ ایک وقت کا کھانا بھی ساتھ مل بیٹھ کھاتے ہیں کہ نہیں۔انٹر نیٹ ریڈیو چلانا اتنا آسان نہیں۔ فروری 2001 میں یہی کوشش ایک اور ’’طارق ‘‘ بھی کر چکے ہیں جس میں کینیڈا میں قدم رکھنے کے پانچویں دن سے میں بھی شریک تھا۔ میں نے اس کے لئے سینکڑوں پروگرام لکھے ، ریکارڈ کئے۔ ان میں سنجیدہ گفتگو بھی تھی ، مزاحیہ پروگرام بھی اور منفرد آئیڈیاز کے ساتھ محافل موسیقی بھی مگر یہ سب کچھ صرف تین ماہ میں ختم ہو گیا اور میں اپنا صحافتی اور ریڈیائی وسیع تجربہ برف تلے دبا کر ، رزق کی خاطر اندھی بہری مشینوں میں غرق ہو گیا۔ طارق نسیم کی اس کاوش میں اب میں اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھتا ہوں اس لیے دلی دعا گو ہوں کہ خدا انہیں کامیاب کرے اور ہاں طارق اس ریڈیو پر تم ڈاکٹر شاردا کو شامل کرنا نہ بھولنا کہ ہم سب تم دونوں کی نوک جھونک تفصیل سے سننے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ جو کام ہمارے سربراہان مملکت نہ کر سکے ، وہ تم دونوں اگر کینیڈا میں کر دو تو ’’دیسی‘‘ کا حقیقی مفہوم پوری کینیڈین قوم پر واضح ہو جائے گا۔

Backyardسے Graveyardتک

سستی چیزوں کا طلب گار کون نہیں ہوتا ؟ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے اس کی پسند کی شے اچھی اور سستی مل جائے Sale` Deal` Discountیہ سارے الفاظ اسی لیے استعمال ہوتے ہیں کہ خریدار کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی جائے۔ سستی اشیاء کی خریدار ی کا شوق اور جستجو کوئی بری بات نہیں کہ اس ملک میں ڈالر بڑی محنت اور خون پسینہ ایک کرنے کے بعد کمائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اخبارات میں Saleاور Discountوالے اشتہارات ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتے ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی پر کسی سیل کی خبر سن کر فوراً فون نمبر نوٹ کرتے ہیں۔ جس جگہ سیل لگی ہو وہاں پارکنگ لاٹ گاڑیوں سے بھر جاتا ہے۔

دکانداری کا یہ ہنر اب ان لوگوں کے بھی زیر استعمال آ گیا ہے جو شہرت کے بھوکے اور میڈیا میں اپنے نام اور تصویر دیکھنے کی حرص میں مبتلا ہیں۔ ایسے ہی حریص ، لالچی لوگوں کے لئے ’’سستی شہرت ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

’’سستی شہرت ‘‘ کے حریص مریض اپنے نام کو روشن کرنے کے خبط میں کچھ اس طرح مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ اپنے ضمیر ، مذہب ، اعتقاد ، ایمان سب کچھ بیچ کر صرف شہرت کے گھوڑے پر دنیا کی شہ سواری کا خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے کینیڈا ایک آئیڈیل سرزمین بن گئی ہے۔ یہاں کی آزاد فضاؤں کو انہوں نے اپنے شاطر ذہنوں کے لیے سازگار سمجھ لیا ہے۔ چنانچہ کوئی شاعر بن گیا ، کسی نے کالم نگار کا روپ دھار لیا ہے ، کوئی اپنے تئیں دانشور بن گیا ، کسی نے سیاست کی چادر اوڑھ لی ہے اور کوئی مذہبی رہنما کے روپ میں جلوہ گری دکھا رہا ہے۔

ان سارے روپ میں انہیں ’’اسلام‘‘ ہی وہ پسندیدہ مذہب نظر آ رہا ہے جس پر آج کے زمانے میں آسانی سے حملہ کیا جا سکتا ہے۔ بڑے جادوگروں کی ہمنوائی میں بعض بونے بھی اپنے چھوٹے چھوٹے منتروں سے اسلام کی فصیل میں دراڑیں ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اسلام کو برا بھلا کہنے والے اور اس میں جادوئی ترجیحات کے خواہاں خود کو بھی ’’مسلمان ‘‘ کہلوانا چاہتے ہیں۔ انہیں ولدیت بھی اسلامی چاہیئے اور والد کا چہرہ بھی پسند نہیں۔ وہ بضد ہیں کہ ان کے باپ اپنے چہروں پر ان کی پسند کا کارٹونک ماسک پہن لیں۔

اپنی اپنی دکانداری چمکانے کے لیے اسلام کے نام کا ’’لیبل ‘‘ لگانے والے ان لوگوں کو اگر اپنا مذہب پسند نہیں تو اسے بدل کیوں نہیں لیتے ؟ انہیں یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ اپنی توتلی اور ہلکی زبانوں سے فتنے اور فساد کے فرمان جاری کریں ؟ چند سطحی کتابیں اور تراجم چھاپ کر اگر وہ ’’عقلِ کُل ‘‘ کے زعم میں مبتلا ہو گئے ہیں تو اس بیماری کا علاج کروائیں۔ اگر انہیں حلال اور حرام کی دیواریں گراں گزر رہی ہیں تو لکیر کے اس طرف چلے جائیں جو ان کی پسندیدہ ہے اور وہاں بیٹھ کر اپنا اور اپنے مذہب کا کوئی نیا نام تجویز کریں۔ اسلام کی تھالی میں کھانا ،کھانا اور پھر اسی میں چھید کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟

صرف اخبار اور ’’ویب سائٹ‘‘ کی شہرت کے لیے منافقین اور اسلام پر کیچڑ اچھالنے والوں کو فخریہ چھاپنا اور اپنی سائٹ پر جگہ دینا کیا معنی رکھتا ہے ؟ جو شخص آپ کے والدین کو گالی دے کیا آپ اسے اپنے لیونگ روم میں بٹھائیں گے ؟ پچھلے سال تو آپ چیخ رہے تھے ، چلّا رہے تھے ، لوگوں سے رائے طلب کر رہے تھے کہ کیا ماہ رمضان میں گانا بجانا اور میلے ٹھیلے لگانا جائز ہے ’ اور آج آپ ایک ایسی تحریر کو جگہ دے رہے ہیں جس کے ہر لفظ سے شر انگیزی اور کفر کی Smellآ رہی ہے۔ کیا یہی آپ کی اسلام سے محبت ہے ؟

میں مزاح لکھنے والا آدمی آج سخت کرب میں مبتلا ہوں ، مجھ سے مزاح لکھا نہیں جا رہا۔ یہ ہم مسلمانوں کو کیا ہوتا جا رہا ہے ؟ ہمارا ایمان اتنا کمزور اور سستا کیوں ہے ؟ ہم محض دنیاوی لالچوں کی خاطر اپنے آپ سے کیا کروا رہے ہیں ؟ اسلام کے بارے میں کوئی غیر کچھ کہے تو دکھ نہیں ہوتا مگر جب اپنوں ہی میں سے کوئی بد کلامی پر اتر آتا ہے تو دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ وطن سے دور ہوئے تو کیا مذہب سے بھی بیگانگی اختیار کر لیں ؟ آج اسلام بظاہر کمزور دکھائی دینے لگا ہے تو ہم اپنے Back yardمیں عورت کی امامت کروا نے پر اُتر آئے ہیں۔ میں اپنے Back Yardمیں کھڑا ہوتا ہوں تو مجھے اپنا Graveyardیاد آنے لگتا ہے۔ کیا یہ منظور نہیں کہ مجھے کلمہ نصیب ہو اور میں احترام کے ساتھ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہوں ؟ چند سانسوں کی خوشی کے لیے اتنا بڑا سودا۔

اے اللہ ! اسلام اور مسلمانوں پر رحم فرما (آمین)

بدر منیر چوہدری کے نام ایک کھُلا خط!

ڈئیر بد رمنیر!

جیتے رہو ، خوش رہو۔ تمہارے اخبار کے لئے پہلا کام لکھتے ہی مجھے جتنی فون کالز اور ای میلز ملی ہیں ، اس پر جی خوش ہو گیا۔ ہر ایک نے دل بھر کر تعریف کی۔ کالم کی نہیں بلکہ کالم کے ساتھ جُڑی میری تصویر کی۔ پہلی بار تصویر دیکھ کر تو میں بھی دنگ رہ گیا۔ میں اور اس قدر ہینڈ سم۔ میں نے تصویر میں موجود اپنی توانا مونچھوں پر ہاتھ پھیرا کیوں کہ ایسی مونچھیں میں نے پچھلے تین سال سے اپنے چہرے پر نہیں دیکھی تھیں۔ تھوڑی سی مایوسی بھی ہوئی کیوں کہ تصویر میں آدھا سر ننگا تھا۔ خیال آیا کہ شاید تم نے یہیں سے بال چُرا کر مونچھوں کی جگہ لگا دئیے ہیں۔ تمہاری کاری گری کو داد ہی دے رہا تھا کہ چشمے پر نظر پڑی۔ علم کا چشمہ تو میرے اندر سے پھوٹتا ہی ہے مگر یہ نظر کا چشمہ تم نے کہاں سے لگا دیا ؟ بقول شخصے میں تو بغیر چشمے ہی کے دور تک بلکہ اندر تک بُری نظر ڈال لیتا ہوں پھر بھلا چشمے کی کیا ضرورت؟ سوچا کہ شاید تمہاری کم نظری یا پھر تنگ نظری نے کام دکھایا ہے۔ غور سے تصویر کو دوبارہ دیکھا تو اپنے آپ پر ٹوٹ کر پیار آیا، تمہارے کمپیوٹر کی شرارت نے مجھے کیا سے کیا بنا دیا۔

بیوی کو تصویر دکھائی تو اس نے مجھے آنکھ دکھائی ’’شرم نہیں آتی آپ کو ، رات کے بارہ بجے بیڈ پر نامحرم کی تصویر دکھلاتے ہیں ‘‘ غور سے دیکھا تصویر کے نیچے میرا نام ہی لکھا تھا۔ پھر مجھے شرارت سوجھی ، میں نے سوچا ’’ خیال شہر‘‘ میں تمہارے نام کے اوپر فلم والے ’’بدر منیر‘‘ کی تصویر چسپاں کر دوں وہ بے چارا ’’ دلہن ایک رات کی‘‘ جیسی فلموں میں کام کر کے بھی اتنا رسوا نہ ہوا ہو گا جتنا تمہارے ایک کالم کی بد نامی اسے چاٹ جائے گی۔ برا مت ماننا ، ہم تم بچپن میں یہی تو کیا کرتے تھے۔ ایک تصویر میں محمد علی زیبا گلے میں ہاتھ ڈالے پیار کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ ہم نے اسی سائز کا بھٹو صاحب کا چہرہ ڈھونڈ اور کاٹ کر محمد علی کے چہرے پر لگا دیا۔ دوسرے دن اسکول میں سب کو تصویر دکھائی اور خوش ہولیے۔

بائی دا وے ! ایک بات تو بتلاؤ !یہ تصویر بدل کر تم نے مجھ پر ’’طنز کیا ہے یا ’’مزاح‘‘ سے کام لیا ہے۔ تمہارا قلم تو آنسو اُگلتا ہے مگر کمپیوٹر کیا اُگلتا ہے ؟ میں تو ٹھہرا ’’مزاح نگار‘‘ تمہاری ’’ غلطی‘‘ کو بھی سینے سے لگا لوں گا مگر ایسا دوسروں کے ساتھ ہو تو کیا کیا گُل کھلیں گے کبھی یہ بھی سوچا۔ہو سکتا ہے اگلے شمارے میں بش کی تصویر کے نیچے نام لکھا ہو ’’ اسامہ بن لادن‘‘ پرویز مشرف کے نام کے اوپر براجمان ہو نواز شریف یا الطاف حسین کی تصویر کے نیچے نام کندہ ہو قاضی حسین احمد۔ یہ دیکھ کر تو کئی لوگ بے ہوش بھی ہو سکتے ہیں کہ ریما کی تصویر کے نیچے لکھا ہو شیخ رشید۔

خدارا اپنے کمپیوٹر کو کنٹرول کرو ، یہ نہ ہو کہ ٹورانٹو میں ’’ سونامی‘‘ کی وجہ ’’اخبار پاکستان‘‘ بن جائے۔ تم پر لاٹھی چارج بھی ہو سکتا ہے۔ اگر تم طارق خان کی تصویر تلے نام لکھ دو صبیح الدین منصور یا پھر انجم قریشی کے اشتہار میں نام لکھا ہو ’’انیس فاروقی‘‘ ۔ عامر آرائیں کا درجہ حرارت چیک کرنا ہو تو تم آفاق خیالی کی تصویر کے ساتھ مجیب لودھی کا نام بھی لکھ سکتے ہو۔ شعرا ء برادری کے ساتھ تو خاص احتیاط کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ ایک دوسرے کے ’’کلام‘‘ کی واہ واہ نہیں کرتے پھر ’’ تصویر دری ‘‘ پر تمہیں کیسے معاف کر سکتے ہیں۔

میرے دوست ! میں یہ سب کچھ تمہیں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ تم پروفیشنل صحافی ہو چہرے اور لفظوں کی پہچان رکھتے ہو۔ تم سے غلطی کی ’’امید‘‘ ہماری پیاری بھابی کو تو ہو سکتی ہے مگر قارئین کو نہیں۔ اپنے بارے میں تو میں کبھی اتنا ’’ خوش فہم‘‘ رہا ہی نہیں جتنا کہ تمہاری ’’فوٹو سرجری ‘‘ نے بنا دیا۔ جانتے ہو ، بہت سی ای میلز میں مجھے ایک ’’ ای میل‘‘ ایسی ’’فی میل‘‘ کی بھی ملی ہے جو عین جوانی میں شوہر کو پیاری ہو کر کینیڈا شفٹ ہو گئی تھی۔ اُس نے اِس تصویر کو دیکھ کر لکھا ہے ’’یٰسین ! بڑے ہو کر تم اتنے خوبصورت ہو جاؤ گے ، میں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا ، میں اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ بہت خوش ہوں اور آج برسوں بعد تمہارا دیدار کر کے میری خوشی دوچند ہو گئی۔ اپنا خیال رکھنا اور میرے بارے میں بھول کر بھی نہ سوچنا۔‘‘

اتنا سب کچھ لکھنے کے بعد جب میں نے تمہیں فون کیا تو تم نے عادتاً سب کچھ مذاق میں اُڑا دیا اور 15منٹ کی گفتگو میں کام کی بات یہ بتائی کہ یہ تصویر مرزا برجیس بیگ کی ہے۔ برجیس یقیناً Sueکرنے کا سوچ رہے ہوں گے۔ میں یہ کام اس لیے نہیں کر سکتا کہ مجھے آئندہ بھی تمہارے اخبار میں کالم لکھنا ہے۔ غصہ اتارنے کے لیے میں نے یہ گانا سننا شروع کر دیا ہے

تصویر بناتا ہوں ، تصویر نہیں بنتی……

کمپیوٹر کے چوکیدار

’’چوکیداری‘‘ کا پیشہ کینیڈا میں سہل اور معزز مانا جاتا ہے ، نئے امیگرنٹس کے لیے اس میں بڑی کشش ہوتی ہے۔ پہلے پہل کے مہینوں میں یہ پیشہ ’’ کچن‘‘ کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں بڑا معاون ثابت ہوتا ہے۔ اسے معزز زبان میں ’’سیکورٹی گارڈ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس پیشے سے ہزاروں ایشنیز کی روزی روٹی چل رہی ہے۔ با وقار وردی کے ساتھ چند راؤنڈ لگا کر اور چند ’’لاگ بکس‘‘ پر کالی دھاریاں مار کر با آسانی Per Hourکما لیا جاتا ہے۔

انسان اگر بے ایمان نہ ہو تا تو چوکیداری کا پیشہ کبھی وجود میں نہیں آتا۔ چوکیدار ایسے شخص کو کہتے ہیں جو چور اور ڈاکوؤں کو ان کے کام سے روکتا ہے اور خود نظر بچا کر پسندیدہ اشیاء غائب کر دیتا ہے۔ کینیڈا میں چوکیداروں پر نظر رکھنے کے لیے کیمرے ’’آن‘‘ ہوتے ہیں۔ اگر آپ نائٹ شفٹ میں جاب کرتے ہیں اور نظر بچا کر سونا چاہتے ہیں تو کیمرے آپ کو سونے نہیں دیتے۔ اکثر کاہل اور سست افراد اس پیشے کو منتخب کر لیتے ہیں اور زندگی بھر اس سے وابستہ رہتے ہیں۔ یہ پیشہ ’’پارٹ ٹائم‘‘ بھی آپ کی مدد کرتا ہے۔اسٹوڈنٹس اپنے جیب خرچ کے لیے سیکوریٹی گارڈ کی جاب ڈھونڈتے ہیں۔ اکثر کمپنیوں میں جب سب کام کر کے گھر کی راہ لیتے ہیں تو بے چارہ سیکوریٹی گارڈ تنہا وہاں بیٹھا ڈیوٹی دے رہا ہوتا ہے۔ ایک تجربہ کار سیکوریٹی گارڈ اپنے ساتھ ریڈیو ضرور رکھتا ہے یا پھر وہ فون پر ’’دل ‘‘ لگائے رکھتا ہے۔ سیکورٹی گارڈز کی گرل فرینڈز ان سے ’’فون‘‘ پر ہی ملتی ہیں۔ چند نوجوان سیکورٹی گارڈز اپنے ساتھ لیپ ٹاپ بھی رکھتے ہیں۔ جہاں موقع ملا لیپ ٹاپ آن کیا اور چیٹنگ شروع کر دی۔

انسان کو یہ زمین کم پڑ گئی تھی یا پھر اس کے ذہن رسا کو نئی تازگی یا ندرت کی تلاش تھی جس نے اُس سے ’’انٹر نیٹ‘‘ دریافت کروا لیا۔ انٹر نیٹ ایک الگ دنیا ہے جہاں کا ماحول ، ضرورتیں سب علیحدہ ہیں۔ اس دنیا سے انسان نے ایسا ناتا جوڑا کہ آج ایک پورا جہاں انٹر نیٹ پر آباد ہے۔ کتابیں ، موسیقی ، فلمیں ، تکنیکی علوم اور زمانے بھر کی تجارت انٹر نیٹ کے ذریعہ ہو رہی ہے۔ چنانچہ اب ’’ چوکیداری‘‘ کی ضرورت انٹر نیٹ پر بھی پڑ سکتی ہے۔

سیاہ وسفید قسم کے وہ تمام مقابلے جو اس دنیا میں ہوتے ہیں وہ انسانی ذہن کے ذریعے اب انٹر نیٹ پر بھی ہو رہے ہیں۔ ہر قسم کے بینک، امپورٹ،ایکسپورٹ کمپنیاں ،سروسز فراہم کرنے والے ادارے انٹر نیٹ پر موجود ہیں اور جو کام چور اور ڈاکو یہاں کرتے تھے اب انٹر نیٹ پر بھی انجام پانے لگے ہیں۔ اب جیب کترے کو آپ کی جیب کاٹنے کی ضرورت نہیں وہ بٹوے کے بجائے انٹر نیٹ پر آپ کا پورا اکاؤنٹ ہڑپ کر لیتا ہے۔ لاکھوں ، کروڑوں کی رقم انگلیوں کے چند اشاروں سے ادھر سے اُدھر ہو جاتی ہے۔ آج کل بڑی ڈکیتیاں دنیا میں نہیں ، انٹر نیٹ پر ہو رہی ہیں۔رات کو کسی کو آپ کے دروازے کا لاک کھولنے کی ضرورت نہیں وہ خاموشی سے آپ کے کمپیوٹر میں داخل ہوتا ہے اور آپ کے سارے راز حاصل کر لیتا ہے۔ اب بیویاں شوہروں کے خطوط نہیں پڑھتیں ان کے ای میل چیک کرتی ہیں۔

انٹر نیٹ پر بڑھتی ہوئی چوری اور ڈکیتیوں نے انسانوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ انٹر نیٹ کی دنیا کے لیے بھی قوانین بنائیں اور اپنے اپنے ویب سائٹس کے لیے ’’چوکیدار‘‘ مقرر کریں۔آج کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں آپ کو ’’سیکورٹی اسپیشلسٹ‘‘ کی سینکڑوں آسامیاں نظر آئیں گی۔ کمپیوٹر کی تعلیم دینے والے ادارے اپنے اشتہارات میں آج کل ’’ سیکورٹی اسپیشلسٹ ‘‘ کے کورسز کو نمایاں اہمیت دے رہے ہیں۔

کمپیوٹر پر سیکورٹی سسٹم کی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کی بھی آج کل بہتات ہے۔ روزانہ سینکڑوں طرح کے ’’سیکورٹی سوفٹ وئیرز‘‘ متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ یہ سب دراصل ’’ Hacking ‘‘ کو روکنے کا انتظام ہے آج امریکہ صرف اپنے ’’اڈوں ‘‘ کا تحفظ نہیں کر رہا ہے بلکہ کمپیوٹر پر بھی وہ اپنی فوجی اور دفاعی نوعیت کی سائٹس کو ہیکرز سے بچانے کے لیے دن رات کام کر رہا ہے۔ اب جنگیں کمپیوٹر پر لڑی جائیں گی۔ کسی بھی ملک کے دفاعی نظام کو توڑنے کے لیے اس پر ایٹم بم سے حملہ ضروری نہیں ہو گا بلکہ کمپیوٹر کے ذریعہ اس کے کمپیوٹرائزڈ نظام کا راز چرانا اور اس نظام کو ’’بلاک‘‘ کر دینا ہی کافی ہو گا۔

آج کے غنڈے اور بد معاش گلیوں میں نہیں پھرتے وہ کمپیوٹر پر لڑکیوں کو چھیڑتے اور ان سے Datingکا بھتہ طلب کرتے ہیں۔ پولیس اور جرائم پیشہ افراد کی آنکھ مچولی اب کمپیوٹر پر بھی ہوتی ہے۔ کئی ممالک میں ہیکرز اور جرائم پیشہ افراد کو کمپیوٹر پر مجرمانہ حرکتیں کرنے کی پاداش میں سزائیں بھی سنائی گئی ہیں یہ اور بات ہے کہ انہیں سزا کے لیے اسی دنیا کی جیل میں بھیجا گیا ہے جہاں انہیں تمام بنیادی سہولتیں میسر ہیں سوائے کمپیوٹر کے۔

مائیکل جیکسن بمقابلہ جارج بش

بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔ اس ہفتے کی خبروں کے مطابق عالمی شہرت یافتہ گلوکار مائیکل جیکسن ایک بار پھر ایک بارہ سالہ بچے کے ساتھ ’’زیادتی‘‘ کے الزام میں گرفتار ہو کر تین ملین ڈالر کی ضمانت پر رہا ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب برطانوی حکومت نے امریکی صدر جارج بش کی آمد پر صرف سیکورٹی کے انتظامات پر پچاس لاکھ پونڈ خرچ کئے ہیں۔

عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہم ان دونوں شخصیات کے مداح ہیں۔ اگر ایک چینل پر مائیکل اور دوسرے پر جارج بش آ رہے ہوں تو ہم اکثر جھوٹ اور سُر کو ملا کر سنتے ہیں اور خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ ویسے بھی مائیکل اور بش میں کئی باتیں مشترک ہیں جیسے دونوں نے تہیہ کررکھا ہے کہ نسلِ انسانی کو مرتے دم تک جھنجوڑے رکھنا ہے ، دونوں پبلک فگر ہیں اور دونوں ہی آج کل زیرِ عتاب ہیں ، دونوں امریکی ہیں اور کالے اور گورے ہونے کے ناتے مل کر امریکنوں کی نمائندگی بہت اچھی طرح کرتے ہیں۔

مائیکل نام سے مرد ، حلیے سے عورت لگتے ہیں۔ مگر بیٹھنا اور لیٹنا ’’بچکانہ‘‘ ڈبے میں پسند کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں اتنی انفرادیت ہے کہ کروڑوں کے مجمع میں بھی الگ پہچانے جاتے ہیں۔ میوزک کے بعد انہیں سرجری سے بھی بہت زیادہ شغف ہے۔ انہوں نے اپنے جسم کی اتنی سرجری کروا ئی ہے کہ ان میں گانے کی صلاحیت کے سوا کوئی اور چیز ’’خداداد‘‘ نہیں۔ ہم انہیں ہمیشہ پیار سے ’’سر، جری‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔1992تک اپنے تین البمز کی وجہ سے مشہور رہے بعد ازاں اچانک انکشاف ہوا کہ وہ بچوں سے بے حد پیار کرتے ہیں مگر اپنے نہیں دوسرے کے بچوں سے ، خبر کو سن کر لاکھوں حسین کنواری عورتوں نے اپنے دانتوں تلے انگلیاں دبالیں اور جو شادی شدہ تھیں انہوں نے بچے اپنے بغل میں دبا لیے۔ اب دس گیارہ سال بعد مائیکل جیکسن کو ایک بار پھر اسی طرح کے ’’ بچکانہ ‘‘ الزام کا سامنا ہے۔

اصل میں یہ ساری شرارت Sleep Overکی ہے۔ ویسٹرن بچوں میں یہ طریقہ عام ہے کہ وہ اکثر اپنی تعطیلات کے دنوں میں اپنی کسی سہیلی یا دوست کے گھر رات گزارنے جاتے ہیں۔ رات بھر باتیں ہوتی ہیں ، کھیل کود اور کھانا پینا۔ اسی Sleep Overکے راستے بہت سارے بچے "Over"ہو جاتے ہیں۔ اور کئی طرح کی برائیاں اسی ایک ’’سلیپ اوور ‘‘ سے جنم لیتی ہیں۔

اس بار مائیکل جیکسن بھی Sleep Overکا شکار ہوئے ہیں۔ ہمارا مائیکل کو برادرانہ تو نہیں مگر عام سا مشورہ ہے کہ اس طرح کے الزامات سے بچنے کا واحد راستہ اب یہی رہ گیا ہے کہ وہ ایک آخری سرجری کروا کر مستقل اور پائیدار عورت بن جائیں۔ اس طرح وہ الزامات کے بجائے موسیقی میں صرف ’’میڈونا ‘‘ کا سامنا کریں گے۔

مائیکل جیسے حلیے کا کوئی شخص اگر عام راستے سے گزر رہا ہو تو لوگ اسے ’’عورت ‘‘ ہی سمجھیں گے۔ بہتر یہ ہے کہ بچوں کو ’’باپتا ‘‘ نہیں ’’مامتا ‘‘ ملے۔ ویسے بھی آج کی دنیا میں مرد ہونا صرف جارج بش کو زیب دیتا ہے۔ محبوبہ سے ملنے پر بھی اتنی رسوائی نہیں ہوتی جتنا کہ چند دن پہلے جارج بش اور ٹونی بلیئر کی ملاقات پر کسی ایک کو ہوئی۔ بلیر حکومت نے اس ملاقات کے حفاظتی انتظامات پر پانچ لاکھ پاؤنڈ خرچ کئے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے باوجود لاکھوں لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور صدر بش کے خلاف نعرے لگائے۔

شاباش ہے بش جی کو کہ وہ ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود وہی کچھ کر رہے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ا دھر ہم ہیں کہ بیوی ایک بار ڈانٹ دے تو چار روز تک گھر سے باہر نہیں نکلتے۔ بہتر یہی ہے کہ بش جی کو بھی ان کی بیگم سے ڈانٹ پڑوائی جائے۔ ان کی بیگم کو بتایا جائے کہ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ بش جی کے معاملات میں ٹانگ اڑائیں۔ بالکل اسی طرح جیسے بش جی دنیا کے ہر معاملات میں اڑا رہے ہیں۔ بش جی کو احساس ہو جانا چاہیئے کہ جس راستے پر وہ ’’سفر‘‘ کر رہے ہیں اس کا انجام ’’صفر‘‘ ہے۔ وہ جس طرح تیزی سے دنیا کو اسامہ اور صدام جیسے نئے لیڈر مہیا کر رہے ہیں اور جس رفتار سے اپنے لیے عوامی مخالفت خرید رہے ہیں اس سے ان کا اور امریکہ کا مستقبل عیاں ہوتا جا رہا ہے۔

دنیا کی بہتری اور بچوں و بڑوں کے تابناک مستقبل کے لیے اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ بش اور مائیکل جیکسن مل کر ایک مشترکہ پریس کانفرنس کریں ،بش عراق اور مائیکل بچوں کا پیچھا چھوڑنے کا وعدہ کریں۔

اس کے بعد دوسرے مرحلے میں ٹونی اور مشرف کا تحریری بیان پڑھ کر سنایا جائے کہ انہوں نے اپنے استاد بش جی سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ بعد ازاں ایک میوزیکل شو منعقد کیا جائے جس میں مائیکل کو پوری آزادی دی جائے کہ جس طرح چاہے اچھلے ، کودے اور گائے۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو دنیا ویسی ہی رہے گی جیسی آج ہے۔

پاکستان کہاں نہیں ہے ؟

پاکستان سے باہر نکلا تو ڈر تھا کہ ڈار سے بچھڑے پرندے کی طرح میں ساری زندگی پھڑپھڑاتا ، ترستا نہ رہ جاؤں۔ ٹورانٹو میں قدم جمے تو یہ خوف کچھ کم ہوا۔ سائنس کی کرامت نے مجھے اپنوں سے بھی دور نہیں کیا تھا اور جو کچھ نزدیک تھا اس میں بھی پاکستان کی خوشبو ہی خوشبو تھی۔

کینیڈا کے شہر ’’ مسی ساگا‘‘ میں اپنا گھونسلہ بنایا اور پاکستان سے بیوی بچوں کو بلا کر تنکے جمع کرنے شروع کر دئیے۔ فیلڈ کی جاب نہ ملی مگر اتنے پیسے ضرور ملنے لگے کہ کچن کی ضرورتیں باآسانی پوری ہونے لگیں۔ لکھنے اور پڑھنے کا جو ’’جسیمہ‘‘ خون کے اندر تھا وہ پھر جوش مارنے لگا۔ خالد عرفان نے نیویارک سے کالم کا تقاضا شروع کیا تو ٹورانٹو کی پانچویں رات سے ہی قلم اور کاغذ دوبارہ سرہانے آ گیا۔ چند مہینے گزرے تو 25سال سے ٹورانٹو سے نکلنے والے ہفت روزہ ’’پاکیزہ‘‘ میں بھی ’’قلم بیتی‘‘ کو جگہ مل گئی۔

بچوں نے اسکول جانا شروع کیا ، بیوی نے کچن او ر ’’روٹی روزی ‘‘ کا ساتھ دینے کی ابتدا کی تو زندگی ایک ڈھب پر آ گئی۔ کچھ لوگ مسلسل ڈراتے رہے۔ بچے بگڑ جائیں گے ، بیوی ہاتھ سے نکل جائے گی ، مذہب چھوٹ جائے گا ،کلچر کے گراس روٹ پر دراڑیں پڑنی شروع ہو جائیں گی مگر الحمد للہ چوتھا سال لگ چکا ہے ، سب کچھ ٹھیک اور مشرقی سمت میں ہے۔

میں کبھی بھی ان معنوں میں پکّا مسلمان نہیں رہا کہ پنچ وقتہ نمازیں پڑھتا رہوں اور اللہ سے ڈر کر اسے عبادت کی رشوت پیش کرتا رہوں۔ میں نے کبھی اللہ سے خوف نہیں کھایا اسے دوست بنا کر رکھا۔ اس سے باتیں کرتا رہا ، اس سے مدد مانگتا رہا ، اسے بتاتا رہا کہ تم ہی میرے ہمدم اور مسیحا ہو، میں تمہاری فرضیت پوری کرنے میں غفلت ضرور کرتا ہوں مگر تمہارے بغیر جی نہیں سکتا۔ اللہ نے بھی شاید یہ بات سمجھ لی کہ میں اس کی اور اس کے بندے کی پوری تعظیم کرتا ہوں۔ محنت کرتا ہوں اور دنیا وی ہوس کے لیے اس کے بندوں کو شکار نہیں کرتا۔ وہ میری محنت اور لگن کا صلہ جتنے ڈالر میں بھی ادا کر دیتا ہے اسے خاموشی سے اکاؤنٹ میں رکھ کر اپنی جائز ضرورتوں کے لیے خرچ کرتا رہتا ہوں۔

اپنی اور اپنوں سے منسلک رشتوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد جب میں نے اپنے اطراف نظر ڈالی تو مجھے ایسا لگا جیسے کچھ نہیں بدلا۔ جس مٹی پر میرے ہاتھ پاؤں پڑتے ہیں اس میں وطن کی خوشبو تو نہیں مگر اس میں اجنبیت کی باس بھی نہیں۔ میں ایک ایسا پودا ہوں جسے ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگا دیا گیا ہے۔ اب اس نئی مٹی میں جڑ پکڑنے کے لیے مجھے وقت اور موسم کے تقاضوں کا انتظار کرنا ہے۔ مجھے وقت سے پہلے یہ دہائی دینے کی ضرور ت نہیں کہ میرے پتّے ہرے کیوں نہیں ہو رہے ؟ میری شاخوں میں کونپلیں اور پھول کیوں نہیں پھوٹ رہے ؟ میں پھل دار کیوں نہیں ہو رہا ؟ مجھے خوشی اور اطمینان ہے کہ میری جڑوں نے کینیڈا کی سرد سرزمین میں اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں مجھے بھی اس چمن میں اپنے آپ کو بار آور کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی جگہ مل گئی ہے۔

پاکستان سے نکل رہا تھا تو ہر طرف صدائیں تھیں کہ یہ ملک ٹوٹ جائے گا۔ پاکستان کمزور ترین ملک ہے ! پاکستان دن بہ دن انجام کو پہنچ رہا ہے ؟ پاکستان کو کوئی Likeنہیں کرتا ! پاکستان اقوامِ عالم میں تنہا رہ گیا ہے ! پاکستان Brain Drainکا شکار ہے ! میں ڈپریشن کے ساتھ پاسپورٹ پر Exitکی مہر لگوا رہا تھا۔ مگر اب چار سال بعد پاکستان سے دور رہ کر مجھے اندازہ ہوا کہ پاکستان اور پاکستانی دونوں مضبوط ہیں۔ پاکستان سے جو بیج باہر کسی دیس میں گرا ،ا س نے نمو پاکر پاکستانی درخت کی ہی شکل اختیار کی۔ کینیڈا میں بیٹھ کر میں نے جہاں جہاں ، جس جس ملک میں نظر دوڑائی ہر جگہ ’’ منی پاکستان‘‘ ہی کا شور سنا۔ امریکہ کے پاکستانی ، کینیڈا کے پاکستانی ، یورپ کے پاکستانی، مڈل ایسٹ کے پاکستانی ہر ملک میں ایک ’’منی پاکستان‘‘ موجود ہے۔

کیا فرق پڑتا ہے کہ ان میں سے کچھ ، پاکستانیوں کا نام بدنام کر رہے ہیں مگر ان میں بڑی تعداد ایسی ہے جو پاکستان کا نام روشن کر رہی ہے۔ بدیس میں بیٹھ کر اپنے دیس ، اپنے کلچر ، اپنے وطن کی خوشبوؤں سے ہواؤں کو معطر کر رہی ہے۔ اگر میرے موجودہ شہر میں 20نائٹ کلب ہیں تو 10مساجد بھی ہیں۔ میں باہر ننگے جسموں کی نمائش دیکھتا ہوں تو گھر آ کر اپنی بیوی کی مشرقیت اور پاکیزیت میں سب کچھ بھول جاتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں چوائس کی دنیا میں ہوں۔ مجھے اب حسرت نہیں رہی کہ الکحل اور ننگے جسم کی پوشیدہ سائیکی سے اپنی نیت کو ہمیشہ خراب رکھوں۔ اب میں تھرڈ ورلڈ کا وہ باشندہ ہوں جس میں اب کوئی حسرت اور بے اطمینانی نہیں۔ میرے بچے زیادہ پکّے مسلمان ہیں اس لیے کہ وہ دوسرے مذاہب کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی پسند اور سوالوں کے تسلّی بخش جوابوں کے ساتھ اسلام کی پٹری پر چل رہے ہیں۔

وہ کچھ کھانے سے پہلے Ingredientکو خود چیک کرتے اور اپنے لیے حلال چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ حلال کی اتنی پہچان شاید ہمارے پاکستان میں بسے مسلمانوں کو بھی نہ ہو۔

میں بہت خوش ہوں کہ دنیا کے جس ملک سے بھی اپنے کسی دوست کا فون وصول کرتا ہوں وہ خوش دلی سے بتاتا ہے کہ اس کے شہر میں کتنے پاکستانی ہیں ؟ کتنی مساجد ہیں ؟ کتنے اردو اخبار ہیں اور کتنے ٹی وی چینل چل رہے ہیں ؟

آج شہزادہ گلفام سے فون پر بات ہوئی تو ایک بار پھر باغ باغ ہو گیا۔ سلطانہ مہر اور جاوید چوہدری صاحب نے ان کے شہر کی ادبی سرگرمیوں کی تفصیلات بتائیں تو میں کھِل کھِل اٹھا۔ پتہ نہیں وہ کون ہیں جو دیار غیر میں بھی ڈپریس رہتے ہیں۔ پتہ نہیں وہ کون ہیں جو اس بات کا دکھ اٹھائے پھرتے ہیں کہ ان کے بچے اب ان کے نہیں رہے ؟ کہیں نہ کہیں ہمارے اندر کوئی کمی تھی شاید انہوں نے اللہ کو اپنا دوست نہ بنایا ہو صرف اللہ سے خوف کھاتے رہے ہوں جبھی زندگی کا کوئی پہلو ان سے دور ہو گیا۔

گلفام 23سال پہلے یو۔ کے آیا تھا اورآج 23سال بعد میں نے فون پر اس کے قہقہے میں پہلے جیسی تر و تازہ پاکستانی کی رمق محسوس کی۔ سلطانہ مہر آج یہاں بھی اسی ’’روپ‘‘ میں ہیں جیسی وہ پاکستان میں ہوتی تھیں۔ میرے ٹین ایجر بچے آج بھی صبح اٹھتے ہی کلمہ پڑھتے ہیں اور ہم سب کو سلام کرتے ہیں ایسے میں کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ پاکستان کمزور ہے یا پاکستان ٹوٹ رہا ہے۔ پاکستان تو اُبھر رہا ہے۔ جگہ جگہ ، ملک ملک ، خطے خطے ، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان کو ایک لڑی میں پرو کر رہنے کا ہنر آ جائے۔

صدّام اور مشرّف … خبر ہے گرم

میڈیا نے بہت ترقی کر لی ہے ، دنیا بھر کی خبریں پل بھر میں وہاں سے یہاں تک پہنچ جاتی ہیں مگر خبروں پر اعتبار کسے ہے۔ اس بات کا اندازہ ہمیں اس ہفتے ہوا۔ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ جھوٹ صرف بچے بولتے ہیں یا پھر خواتین۔ مگر اب اندازہ ہوا کہ جھوٹ تو میڈیا بھی بولتا ہے اگر نہ بولتا ہوتا تو لوگ خبروں پر پکا یقین کرتے اور ایک خبر کو سن کر اس سے دس خبریں نہ بناتے۔ اس اتوار کو صبح ہمیں بذریعہ ٹی وی دو خبریں ملیں۔ صدام حسین پکڑے گئے اور مشرف ایک ایسے حملے میں بال بال بچ گئے کہ جس پل پر سے وہ دو منٹ پہلے گذرے وہ پُل دھماکے سے اُڑا دیا گیا۔

ان دو خبروں کے ساتھ ساتھ ہمیں جو ٹیلی فون ملے یا جن ساتھیوں سے ملاقاتیں ہوئیں انہوں نے طرح طرح کے تبصرے کئے اور اپنے جن خیالات کا اظہار اس سے آپ سب بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ آج کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور سچ و جھوٹ کو ملا دئیے جانے کے باعث سننے والے خبروں کے بارے میں کس قدر بے اعتباری محسوس کرتے ہیں۔

ایک مسلمان ایسٹ انڈین دوست کا چھوٹتے ہی یہ اصرار تھا کہ یہ اصلی صدام حسین نہیں۔ امریکہ جھوٹ بول رہا ہے۔ ہمیں صدام حسین کے ڈی این اے کے ٹیسٹ سے زیادہ امریکہ کی جھوٹ کا لیبارٹری ٹیسٹ کرانا چاہیئے۔وہ مسلمانوں کا مورال ڈاؤن کرنے کے لئے اب نئی کہانی لے کر آیا ہے۔ یہ وڈیو کسی ہم شکل صدام کی ہے۔ بش اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اب دنیا کو نئی کہانی سنا رہا ہے۔

ایک جاننے والے فون پر کہہ رہے تھے صدام کو انہوں نے آج نہیں کئی ہفتوں پہلے پکڑ لیا تھا جب امریکی صدر "Thanks Giving Day"پر خفیہ دورے پر عراق گئے تھے اس سے پہلے ہی صدام کو گرفتار کیا جا چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہی دنوں انہوں نے برطانیہ جا کر ٹونی بلیئر سے ملاقات کی تھی اور ان ہی دنوں کے دوران ’’عراقی ٹریبونل‘‘ بھی قائم کر دیا گیا تھا کہ جب صدام کو دنیا کے سامنے لایا جائے تو اس سے آگے مقدمہ چلانے اور دیگر کارروائی کے لیے تمام حالات امریکیوں کے ہاتھ میں رہیں۔

ایک صاحب کا اصرار تھا کہ صدام حسین کی گرفتاری کے لیے سوچ سمجھ کر اتوار کا دن رکھا گیا تاکہ سب لوگ گھروں میں رہیں اور اطمینان سے ٹی وی پر خبریں دیکھ سکیں۔ ایک اور کا کہنا تھا کہ صدام بہت دنوں سے نظروں میں تھا ، امریکیوں نے بطور خاص اسے کرسمس کا تحفہ بنا کر اپنے عوام کے سامنے پیش کیا۔

ایک صاحب پُر زور طریقے سے کہہ رہے تھے کہ صدام آج بھی بش کے کام آیا ہے۔ اس کی گرفتاری ایک ایسے موقع پر پیش کی گئی ہے جب امریکی صدر الیکشن اور مقبولیت میں تیزی سے نیچے کی طرف آ رہے تھے۔ اب صدام کی گرفتاری ظاہر کر کے امریکی صدر الیکشن جیتنے کی فکر میں ہیں۔ اب امریکی مبصرین اندازہ لگائیں کہ بش الیکشن جیت سکتے ہیں کہ نہیں۔ ورنہ الیکشن سے کچھ ہی دن قبل اسامہ بن لادن کو بھی دنیا کے سامنے گرفتار کر کے پیش کر دیا جائے گا۔

ایک صاحب اس بات کو مضحکہ خیز بتا رہے تھے کہ صدام حسین کے پاس ساڑھے سات لاکھ ڈالر بھی برآمد ہوئے ہیں۔ بہت سے اس بات سے سخت نالاں تھے کہ میڈیا صدام حسین کے لیے ایسے الفاظ استعمال کر رہا ہے جو توہین آمیز ہیں اور جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ اس سے صاف اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ میڈیا کتنا متعصب اور یکطرفہ ہے۔

ایک خاتون نے تقریباً چلّاتے ہوئے اپنے جذبات کی عکاسی کی۔ وہ کہہ رہی تھیں صدام اچھا تھا یا برا اس کا فیصلہ عراقی عوام کو ہی کرنا چاہیئے ان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ عراق پر قبضہ کرے اور صدام پر مقدمہ چلائے۔ صدام نے جو کچھ کیا اپنے ملک کے دفاع کے لیے کیا اور آج دنیا کا ہر ملک ایسا ہی کر رہا ہے۔ سب کو اپنے دفاع اور ملکی سا لمیت کا حق حاصل ہے۔

ہم ا س ہفتے اپنے قارئین اور ملنے والوں کے طرح طرح کے خیالات کے اس قدر ’’زیر بار ‘‘ ہو گئے کہ ’’پارچے ‘‘ کے مزاح کی تلاش کا کام کر ہی نہ پائے۔ سچ پوچھیے تو واقعی صدام اور پرویز مشرف کی خبروں نے ہمارے ذہنی قیلولے کا رخ موڑ دیا ہے۔ ہم بھی سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ کیا سچ ہے اور کیا فسانہ ؟

میری بیٹی پوچھتی ہے ’’پپّا! یہ میڈیا والوں کو ساری خبریں فوراً کس طرح مل جاتی ہیں ؟‘‘ ہم اسے کیا بتائیں کہ کچھ واقعات واقعی وقت کے سائے میں ڈھل کر پروان چڑھتے ہیں اور کچھ دماغوں میں پرورش پاکر کسی فلمی کہانی کی طرح وڈیو کے فیتے پر ’’شوٹ ‘‘ ہوتے ہیں۔ ہمیں حیرانگی ہوتی ہے ان مغرب کے لوگوں پر جو اپنے ٹی وی ، ریڈیو اور اخبارات پر اس طرح کا بھروسہ کرتے ہیں کہ جو آج دیکھا سنا اور پڑھا اسی کو سچ مان لیا۔ خبر کا جبر اُن کے حواسوں پر اس طرح بٹھا دیا گیا ہے کہ وہ صرف یہی سمجھ رہے ہیں کہ عراقی صدام حسین کی گرفتاری پر بڑے خوش ہیں اور جشن منا رہے ہیں۔ انہیں تصویر کا وہ رخ دیکھنے کی خواہش ہی نہیں جہاں ان کا کیمرہ فوکس نہیں کر رہا۔ اسے ہم کیا کہیں ؟ ہو سکے تو اس پر بھی رائے دیجئے اس ہفتے میں صرف اپنے قارئین کو سننا چاہتا ہوں۔

شادی کی لائن … آن لائن

سیاست دان، اخبار اور ڈاکٹر وہی کامیاب ہوتے ہیں جو نبض شناس ہوں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو علامہ اقبال کے بعد دوسرے حکیم الامت میر خلیل الرحمن تھے۔ کہتے ہیں کہ ’’جنگ ‘‘ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں مگر روزنامہ جنگ آج دنیا بھر کے قارئین کے لیے ہر مسئلہ کا حل ہے۔ ایک ’’میر‘‘ نے جنگ کے ذریعے پرنٹ میڈیا پر راج کیا تو آج جونیئر میر ’’جیو‘‘ کے ذریعے الیکٹرانک میڈیا پر راج کر رہا ہے۔ اسی ’’جیو‘‘ پر گزشتہ دنوں ایک پروگرام دیکھا ’’شادی آن لائن‘‘ اس سے قبل میں اس پروگرام کی ’’انٹر نیٹ سائٹ‘‘ دیکھ چکا تھا۔ یہ ان پاکستانیوں کے لیے بڑی اہم اور دلچسپ سائٹ ہے جو، اب تک غیر شادی شدہ ہیں۔ شادی شدہ لوگوں کے لئے یہ سائٹ محض ایک پچھتاوا ہے۔ اسے آپ ’’ضرورت رشتہ‘‘ کا کمپوٹرائزڈ ایڈیشن بھی کہہ سکتے ہیں جس میں دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں ’’شائقینِ شادی‘‘ ( مرد و خواتین) اپنے تعارف اور تصاویر کے ساتھ موجود ہیں۔ آپ جس عمر کی لڑکی یا لڑکا چاہتے ہیں ،عمر درج کر کے ان کا تعارف و تصویر گھر والوں سے چھپ کر یا پھر دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ سائٹ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ کی درج معلومات کی مدد سے کمپیوٹر ایک فہرست بھی آپ کو تھما سکتا ہے کہ اتنے لڑکے یا لڑکیاں آپ کی پسند کے مطابق دستیاب ہیں۔

کمال یہ ہے کہ اسی سائٹ کی مد د سے اب جیو ایک ٹی وی پروگرام بھی کر رہا ہے جس کے میزبان مستنصر حسین تارڑ اور مس عالیہ ہیں۔ مستنصر دنیا بھر کی سیاحت کے دوران ملک ، ملک کی لڑکیوں سے ملاقاتیں کرنے کے بعد اب ’’سینئر بابے ‘‘ کے روپ میں نئے جوڑوں کی شادیاں کروا نے کا کام ، اس پروگرام میں بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ اس پروگرام میں ایک پیکیج کے ذریعے لڑکے ، لڑکیوں اور ان کے گھر والوں کا تعارف ناظرین سے کروا یا جاتا ہے۔

پروگرام دیکھ کر اور سائٹ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دولہا یا دلہن بننے کا شوق ہمارے نوجوانوں میں اب بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ ہماری جوانی میں پایا جاتا تھا بلکہ اب تو محلوں اور گلیوں میں دلہن ڈھونڈنے کی بجائے ملکوں ، ملکوں کی خاک چھانی جا رہی ہے۔ اکثر دولہے یہی کہتے پائے گئے ہیں کہ وہ امریکہ ، کینیڈا یا یورپ میں مقیم کسی پاکستانی لڑکی سے شادی کے خواہش مند ہیں گویا ایک پنتھ دو کاج ’’ نکاح نامہ بھی اور ویزا نامہ بھی‘‘ ۔کئی دولہوں کا اصرار تھا کہ لڑکی کے گھر والے ان کے کاروبار کو کامیاب بنانے میں مدد کریں۔ کچھ یہ بھی کہتے سنے گئے کہ لڑکی گھر میں نہ سہی دفتر میں ضرور کام کرتی ہو۔

اکثر دولہے ذہنی طور پر اتنے نا بالغ تھے کہ لگتا تھا کہ جیو کے ’’ٹی وی پیکیج‘‘ کی رقم بھی انہوں نے والدین سے ضد کر کے حاصل کی ہو گی۔ اس پروگرام کو دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ من الحیث القوم ہم تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہیں نہ اپنے بزرگوں سے۔ غم روزگار نے ہمیں اتنا پریشان کر دیا ہے کہ اب شادی ہی کو ذریعہ روزگار سمجھ بیٹھے ہیں۔ پروگرام میں بعض والدین اپنے بچوں کے بارے میں ایسے ریمارکس بھی دیتے ہوئے سنے گئے جیسے وہ بچے کی شادی نہ کروا رہے ہوں بلکہ انہیں سزا دینا چاہتے ہوں۔

مستنصر کے بعض طنزیہ سوالات دولہے حضرات کے لئے کسی بھاری حق مہر کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔ اکثر دولہے ادب اور سفر ناموں سے نابلد محسوس ہوئے۔ ان کی زندگی کا اولّین مقصد دلہن کی سٹیزن شپ حاصل کرنا محسوس ہوتا ہے اور اس کے لئے وہ کسی بھی ’’شپ‘‘ پر بیٹھنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ عالیہ میزبان سے زیادہ پروگرام کی مہمان لگتی ہیں اور ان کا وجود اس وقت بھلا لگتا ہے جب کانوں میں مستنصر کی آواز آ رہی ہو اور آنکھیں عالیہ کا طواف کر رہی ہوں۔

اس عمر میں اس پروگرام اور سائٹ کا ہمارے لیے اس کے سوا کوئی مصرف نہیں کہ ہم جیو والوں کو یہ آفر کریں کہ کینیڈا کے کنواروں کا پیکیج تیار کر کے انہیں بھیجنے کی ذمہ داری ہم تین مرتبہ قبول کرتے ہیں اور بونس میں کینیڈین شادیوں میں دولہا اور دلہن کی طرف سے گواہ بھی بننے کو تیار ہیں۔ ویسے دل میں ہولے سے یہ خیال بھی آتا ہے کہ کاش اس وقت ہم کنوارے ہوتے مگر اس خیال کے ساتھ بیوی کی آواز کانوں سے ٹکراتی ہے ’’سنئے ! یہ شادی آن لائن دیکھنا بند کیجئے اور جلدی سے سٹیزن شپ کا فارم بھر دیجیے۔ سٹیزن شپ ملتے ہی میں پاکستان جاؤں گی ، تین سال ہو گئے اماں کے ہاتھ کا پراٹھا نہیں کھایا۔‘‘ اور ہم یہ سوچ کر کانپنے لگتے ہیں کہ بیوی میکے جائے گی تو دس ہزار ڈالر سے کم کا خرچہ نہیں ہو گا۔ شادی کے بعد کا یہ پیکیج ہونے والے ان دولہاؤں کو ذہن میں ضرور رکھنا چاہیے جن کی بیویاں امریکن ، کینیڈین یا یورپین سٹیزن ہوتی ہیں۔ آن لائن شادی کی اتنی لمبی لائن دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ سہرے کے پھول کھلنے کے لئے بہار کا انتظار ضروری نہیں ، یہ وہ پھول ہیں جو کسی بھی ’’فول‘‘ کے آنگن میں کبھی بھی کھِل سکتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے ، آئیے ’’شادی آن لائن‘‘ چلتے ہیں۔

برف میں پھول کھِلنے لگے اور شاید کانٹے بھی

میں بہت خوش ہوں ، بہت زیادہ خوش کہ اب برف میں بھی پھول کھلنے لگے ہیں۔ میری بستی اب میرے حسین لوگوں سے بھرتی جا رہی ہے۔ وہ خوشبو ، وہ مہک ، وہ رنگ جو میں اپنے آبائی وطن میں چھوڑ آیا تھا ، وہ تر و تازگی اب یہاں بھی میری سانسوں میں مہکنے لگی ہے۔ گرمیاں میرے لیے کبھی بھی اہم نہ تھیں۔ اس لیے کہ گرم ہواؤں میں پلا بڑھا ہوں مگر برف کے اس دیس میں تازہ گرمیوں کے موسم نے میرے اندر بھی پھول کھلا دئیے ہیں۔ اس بار گرمیوں کے موسم میں ، میں نے اپنے ہم وطنوں کو زیادہ سرگرم اور سرخرو دیکھا ہے۔ اس بار ٹورانٹو کی فضاؤں میں اردو اور پاکستان کا نام ابھرے لفظوں میں چمکاہے۔ ثقافتی اور ادبی پروگراموں کی بہار نے مجھے دور ہی دور سے شادماں کر دیا ہے۔ چند محفلوں میں گیا اور خوش و خرم لوٹا کہ اب لوگوں کو جینے کا مزہ آنے لگا ہے۔ گہوارۂ ادب کی تقریب ہو ، رائٹرز فورم کا پروگرام ہو یا۴ا/اگست کی یاد منانے والوں کے میلے ہوں سب جگہ ایک نئی طرح کی شادمانی اور مسرت تھی۔ امریکہ اور پاکستان سے اس بار ایسے ایسے لوگ ٹورانٹو آئے کہ جی خوش ہو گیا۔ گلوکاروں میں ابرار الحق کی اپنی شان تھی۔دیسی رنگ کے اس سجیلے سجن نے ایسے سر بکھیرے کہ سننے والے کئی دن تک مدہوش رہے۔ صحافیوں کی بھی ایک نئی بہار اس بار ٹورانٹو میں اتری۔ کئی تو مستقل طور پر قیام پذیر ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اخبارات بھی اب زیادہ معیاری اور ’’خبریلے ‘‘ نظر آنے لگے ہیں۔ روزنامہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر اور میرے استاد محترم محمود شام کی آمد سے ٹورانٹو کے ادبی اور سخن نواز حلقوں میں ایک نیا جوش و خروش پیدا ہو گیا۔ محمود شام کی وجہ سے پاکستان کے حالات کی صحیح صورت حال سے آگاہی ہوئی۔ ان کی فلسفیانہ اور عام فہم گفتگو نے کئی محفلوں کو گرمائے رکھا۔ وہ لوگ بڑے پریشان رہے جو پاکستان کے بارے میں دانستہ طور پر دل گرفتہ گفتگو کر کے یا پھر ’’خلفشاری‘‘ کالم لکھ کر اپنے آپ کو بڑا کالم نگار کہلوانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

شان الحق حقّی اور شاہدہ حسن کی آمد نے اردو ادب اور شاعری کی شان بڑھائے رکھی۔ ہم سب کو دوبارہ احساس ہوا کہ اردو، اردو ہے ، اس زبان میں آج بھی عمدہ ادب اور شاعری پروان چڑھ رہی ہے۔ آج ہی میں نے سنا کہ پاکستان ٹیلی ویژن سنٹر کراچی کے سینئر پروڈیوسر اور ممتاز شاعر اقبال حیدر بھی مستقل طور پر ٹورانٹو آ گئے ہیں۔ ٹورانٹو کے اشفاق حسین نے حسب روایت ایک عمدہ مشاعرہ کر کے اس سمر میں بھی اپنی لاج رکھ لی۔ ان کے مشاعرے کے طفیل عطا الحق قاسمی اور ضیا الحق قاسمی کے درشن ہو گئے۔ ان دونوں بھائیوں کے کیا کہنے

بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں بھی سبحان اللہ

یہ تو میں اپنے پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود اندازہ لگائیں کہ عطا اور ضیا ء میں کون چھوٹا اور کون بڑا ہے ؟ ہم چونکہ ضیا کے شہر کے رہنے والے ہیں اس لیے انھی کے زیادہ گُن گاتے ہیں۔ مزاح کو 90 کی دہائی میں ضیا الحق قاسمی نے جتنا فروغ دیا اس پر ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ان کا سہ ماہی ’’ظرافت‘‘ اور اس کے مخصوص ’’مزاحیہ نمبر‘‘ ادب کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اب جب تک ٹورانٹو میں وہ ہیں جہاں جائیں گے پھلجڑیاں چھوڑیں گے۔ آج مزاح میں ان جیسی ’’قد آوری‘‘ کسی کسی کو نصیب ہے۔ آتے ہی ہمیں فون کیا، ان کی گرجدار آواز سے نیند اور خواب دونوں ہم سے چھوٹ گئے مگر پھر بھی ہم خوش اور بہت خوش ہوئے کہ ان کے پاس باتوں اور مزاحیہ اشعار کا خزانہ ہوتا ہے۔

ستم ظریفی دیکھئے کہ جہاں برف میں پھول کھلنے لگے ہیں وہیں چند کانٹوں نے بھی چمن کا رخ کر لیا ہے۔ پاکستانی نوجوان طالب علموں کی گریٹر ٹورانٹو سے گرفتاری ایک افسوس ناک واقعہ ہے۔دہشت گردی کے شبہ میں گرفتار ان نوجوانوں میں سے دو تا دم تحریر کوئی ٹھوس ثبوت نہ ملنے کا باعث رہا ہو چکے ہیں۔ باقی کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ ان کے موکلین بے قصور ہیں۔ ان نوجوانوں کی گرفتاری امیگریشن ایکٹ کے تحت عمل میں آئی ہے اور شبہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے عزائم رکھتے تھے۔ ا ا ستمبر کے سانحے کے بعد سے پاکستانی ہونا جرم بنتا جا رہا ہے اور ایسے میں انسانی حقوق کے قوانین کی بے چارگی سب کو رُلاتی ہے۔ ابھی اس واقعہ پر آنکھوں کی نمناکی کم نہ ہوئی تھی کہ ٹورانٹو کے ممتاز شاعر اور ’’بزم فانوس‘‘ کے کرتا دھرتا منیف اشعر اور اہل خانہ کی ٹریفک کے حادثے کی خبر نے پوری کمیونٹی کو رُلا کر رکھ دیا ہے۔ اس حادثے میں منیف اشعر کا جواں سال میڈیکل کا طالب بیٹا اللہ کو پیارا ہو چکا ہے جبکہ خود منیف ، ان کی بیگم ، سالی اور ایک جواں سال بیٹا زخمی حالت میں اسپتال میں ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ ’’گرما ‘‘ جاتے جاتے آنکھوں میں نمناکی اور دل میں غم کی برسات دے گیا ہے۔ میرے ’’پارچے ‘‘ دلوں میں گدگدی کرتے ہیں مگر کیا کروں میں بھی انسان ہوں اور اس ’’پارچے ‘‘ کو ایک انسان کے دل کی آواز سمجھ کر پڑھئیے۔ گرمی جذبات نے آج قلم کو بھی پریشان کر دیا ہے۔

قہقہہ کلب اور مشرف کی وردی

بلجیم کی ایک خاتون نے ’’قہقہہ کلب‘‘ قائم کر کے تمام ہنسنے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔ خاتون کا کہنا ہے کہ آج کل لوگوں میں ہنسے ہنسانے کا شوق کم ہوتا جا رہا ہے۔ خصوصاً عمر رسیدہ افراد بہت کم ہنستے ہیں۔ چنانچہ ان کی ہنسی کی مقدار بڑھانے کے لیے میں نے یہ کلب قائم کیا ہے۔ یہاں آ کر آپ لطیفے سن اور سنا سکتے ہیں۔ ہر وہ حرکت کر سکتے ہیں جس سے آپ کا اور دیکھنے والوں کا خون بڑھ سکے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہر انسان کو روزانہ چھ منٹ ضرور ہنسنا چاہیئے۔ بچے عام طور سے روزانہ 300سے 400 مرتبہ ہنستے ہیں جبکہ بڑے 15مرتبہ سے زیادہ نہیں ہنستے۔

ہمارا دوست شعیب یہ خبر پڑھ کر ہنستا چلا گیا۔ ہم نے وجہ پوچھی تو بولا جس خاتون نے یہ قہقہہ کلب کھولا ہے انھیں چاہیئے کہ سب سے پہلے اپنے شوہر کو اس کلب کا ممبر بنائیں کیوں کہ خاتون کی شکل ایسی ہے کہ انہیں دیکھ کر ہنسی کم اور رونا زیادہ آتا ہے۔ دنیا میں اگر ہنسی کی مقدار کم ہو رہی ہے تو اس کی وجہ بیویاں یا پھر ہمارے ’’بڑے بھیا ‘‘ ہیں۔ اگر بیویاں فرمائش کرنا اور بڑے بھیا جنگ کرنا بند کر دیں تو لبوں پر ہنسی اور قہقہے واپس آ سکتے ہیں۔

خود ہم جب سے کینیڈا آئے ہیں تو ہمارے قہقہے کافی کم ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں ہمیں جب بھی قہقہہ لگانا ہوتا تھا تو ہم ’’پی ٹی وی ‘‘ کھول کر خبر نامہ دیکھنا شروع کر دیتے تھے ہر خبر کو سن کر ہمارے منہ سے ہنسی کا فوارہ چھوٹ پڑتا تھا۔ یہ کمی کچھ کچھ اب یہاں ’’دیسی اخبارات ‘‘ سے پوری ہو جاتی ہے جو کثرت سے پاکستانی خبروں کو چھاپتے ہیں۔ ان خبروں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آج کل پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مشرف کی وردی ہے۔ پوری اپوزیشن اس بات کے پیچھے پڑی ہوئی ہے کہ مشرف اپنی وردی اتاردیں جبکہ مشرف بضد ہیں کہ وہ وردی نہیں بلکہ قوم کی کھال اتاریں گے۔ ان کا کہنا ہے قوم اور اپوزیشن نے مختلف جانوروں کی کھالیں پہن رکھی ہیں کوئی انہیں گیڈر کی کھال میں ڈراتا ہے تو کوئی شیر کی کھال پہن کر سامنے آتا ہے۔ خود واجپائی کو بھی مشرف کی وردی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ان کا بس چلے تو پوری پاکستانی فوج کی وردی اتروا لیں۔

ویسے دنیا بھر میں اگر فوج رکھنے کا رواج ختم ہو جائے تو لوگوں کی ہنسی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ یہ فوج ہی ہے جو عام لوگوں کا بجٹ ہضم کر جاتی ہے اور بھوکے پیٹ بھلا کیسے ہنس سکتے ہیں ؟ مقام شکر ہے کہ ایک خاتون نے قہقہہ کلب قائم کر دیا۔ انہیں چاہیئے کہ وہ اس کلب میں دنیا بھر کے سربراہان مملکت کو مدعو کریں اور انہیں باہم مل کر ہنسنے پر مجبور کریں۔ اگر ’’بڑے بھیا‘‘ اس کلب میں آئے تو ا نہیں ہنسانے کے لئے ضروری ہو گا کہہ دو بڑے پنجروں میں صدام اور اسامہ کو بند کر کے ان کے سامنے پیش کیا جائے پھر ہمیں یقین ہے کہ بڑے بھیا ہنستے چلے جائیں گے اور جب وہ ہنسیں گے تو ٹونی بلیر کی ہنسی بھی خود بخود پھوٹ پڑے گی ۔ ان دونوں کے ہنسنے سے دنیا میں ہنسی کو بھی فروغ ملے گا۔

پرویز مشرف کی ہنسی دیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں وردی سمیت تسلیم کیا جائے۔ ویسے بھی مشرف وردی میں ہی اچھے لگتے ہیں۔ اگر اس کلب میں انہیں چار چھ وردیوں کا تحفہ دیا جائے تو وہ ہنس ہنس کر گلنار ہو جائیں گے۔ بلجیم کی خاتون کو چاہیئے کہ اس کلب میں بیویوں کا داخلہ قطعی ممنوع قرار دیں اور صرف کنواری خواتین کو مدعو کریں پھر دیکھیں کہ پورے دن میں 15مرتبہ ہنسنے والے ایک منٹ میں 15 قہقہے لگائیں گے۔ ویسے ہمیں اس کلب میں جانے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ ہمارے لیے ٹورانٹو کی سڑکیں ہی کافی ہیں۔ ہمیں جب بھی ہنسنے کو دل چاہتا ہے ہم ’’ینگ اسٹریٹ‘‘ پر چہل قدمی شروع کر دیتے ہیں۔ پاس سے گزرنے والوں کے لباس اور بالوں کے اسٹائل ہی اکثر ہمیں ہنسنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ لباس اور بالوں کی جو ترکیبیں ہم نے ٹورانٹو میں دیکھی ہیں اس کی تصاویر اگر ہم اپنے ملکی اخبارات کے لئے بھجوا دیں تو پوری قوم سیاست دانوں کی طرف سے نگاہ ہٹا کر ان کی تصاویر کو دیکھ دیکھ کر ہنسنا شروع کر دے گی۔

ویسے ہمیں ہنسی تو جمالی بھیا کو دیکھ کر بھی آتی ہے بے چارے اپوزیشن اور مشرف کے سینڈوچ کا کباب بن کر رہ گئے ہیں۔ وزیر اعظم کا عہدہ تو انہیں مل گیا مگر اختیارات شوہر جتنے بھی نہیں۔ اپنی مرضی سے بات کر سکتے ہیں نہ سرکاری مال خرچ کر سکتے ہیں۔ اس وقت قہقہہ کلب کی سب سے زیادہ ضرورت جمالی کو ہے۔

قہقہہ کلب کا آئیڈیا برا نہیں اگر اس میں داخلے کے لیے کوئی فیس نہ ہو، فیس دے کر ہنسنا ایسے ہی ہے جیسے لاٹری کے ٹکٹ خرید کر امیر بننے کا انتظار کرنا۔ا یسے کھوکھلے قہقہے توہر شوہر ہر گھر میں بھی لگا سکتا ہے ویسے ہر بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کو قہقہہ کلب جانے پر مجبور کرے۔ اس طرح تھوڑی دیر کے لیے وہ بھی آزادانہ قہقہے لگا سکتی ہے۔ سنا ہے کہ کولن پاول بھی عراق میں ’’قہقہہ کلب‘‘ کھولنے کا سوچ رہے ہیں۔ اس کے لئے وہ بلجیم کی امداد کے منتظر ہیں۔

قصہ بیگم کی افطار پارٹی سے سیاسی پارٹیوں تک کا

رمضان کا مقدس مہینہ سروں پر سایہ فگن ہے اور ہمیں ’’پاکستان‘‘ کی یاد آ رہی ہے ، روزوں کی اصل بہار تو وہاں تھی۔ سائرن کی آواز ، مسجد سے اعلان ، سحری جگانے والوں کی آوازیں اور شام ہوتے ہی پکوڑوں اور پھلوں کی خوشبو، پھر افطاریوں کا تبادلہ۔ گیارہ مہینے ہم نے کچھ بھی کیا ہو مگر رمضان ہوتے ہی پکّے مسلمان بن جاتے تھے۔ سحر خیزی کا لطف بھی اٹھاتے تھے اور پانچوں وقت کی نماز بھی پابندی سے پڑھتے تھے۔

یہاں تو کچھ بھی نہیں۔ اپنی گھڑی دیکھ کر اٹھنا ہے اور اپنی گھڑی دیکھ کر افطار کرنا ہے۔ باہر نکلو تو کوئی تبدیلی نہیں۔ سب کچھ ہمیشہ جیسا۔ گوری کے کندھے سے کندھا ملا کر سفر کرنا ہے اور نگاہ نیچی رکھ کر اپنے ’’روزے ‘‘ کی حفاظت کرنی ہے۔دفتر میں افطار اور سحری کی کوئی رونق نہیں۔ کام کرتے کرتے کھجور کھانا ہے اور پانی پیتے پیتے کام کرنا ہے۔

پھل خریدنے گئے تو دام میں کوئی اضافہ نہیں۔ کوئی آواز دے کر پھل خریدنے نہیں بلاتا۔ افطار سے پہلے کوئی رش نہیں۔ گھر بھاگنے کی جلدی نہیں ، دفتر کا ٹائم ٹیبل وہی اور ہماری ٹیبل پر کام اتنا ہی۔

شلوار قمیض کو کلف لگانے کی ضرورت نہیں۔ بیسن اور چنے کے لیے مارے مارے پھرنے کی افتاد نہیں۔ کہیں سے افطاری آتی نہیں۔ وہی بیگم کے ہاتھ کی تعریفیں کرتے ہیں اور سر جھکا کر لقمے توڑتے ہیں۔ افطار ی سے پہلے ٹریفک جام نہیں ہوتا۔ ہارن سننے کو نہیں ملتے۔ نہ ہی ٹوپیوں والے سر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

رمضان میں بھی وہی روٹین اور اخبارات کی خبریں بھی وہی۔ سحری اور افطاری کے نظام الاوقات بھی پڑھنے کو نہیں ملتے۔ ایسا لگتا ہے کہ روزہ صرف ہم ہی رکھ رہے ہیں۔ کسی کو افطار کی دعوت دینا ہو تو پہلے اس کے دفتر ی اوقات دیکھنا پڑتے ہیں۔ افطار پارٹی میں بھی لوگ جینز اور ٹی شرٹ پہن کر آتے ہیں۔ کچھ پتہ نہیں چلتا کون سی پارٹی کتنی افطار پارٹیاں دے رہی ہے۔

پاکستان میں تو کوئی شام ایسی نہیں جاتی تھی کہ ہم نے کسی اور کے یہاں روزہ نہ کھولا ہو۔ آج نورانی میاں نے بلایا ہے تو کل پروفیسر غفور کے یہاں جانا ہے۔ ایم کیو ایم کی افطار پارٹی میں سہم سہم کر پکوڑے کھایا کرتے تھے کہ کیا پتہ کسی ’’بھائی‘‘ کو برا لگ جائے کہ ہم نے چار پکوڑے کھا لیے۔ پیپلز پارٹی کی افطار پارٹی میں ’’زرداری‘‘ کا تذکرہ کیے بغیر کچھ بھی منہ میں رکھنے کی ممانعت تھی۔ پھر گورنر اور وزیر اعلیٰ کی افطار پارٹیوں کا کچھ اور ہی لطف تھا سرکاری ’مال‘ ہم نے صرف افطار پارٹیوں میں ہی کھایا ہے۔ جاتے جاتے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک سرکاری بیان ہوتا تھا کل کے اخبار میں ضرور چھاپنا ہے ورنہ اگلے سال کی افطار پارٹی میں بلاوا کینسل۔

یہاں ہمیں کوئی نہیں بلاتا ، روزانہ انتظار کرتے ہیں ، لپک کر فون اٹھاتے ہیں مگر فون پر بچوں کے دوستوں کے علاوہ کسی کی آواز سننے کو نہیں ملتی۔ گل نواز سے توقع ہے کہ شاید وہی ہی ہمارے اعزاز میں کوئی افطار پارٹی منعقد کر دیں کہ آخر انہوں نے پاکستانی کمیونٹی سے فارم بھی تو بھروانے ہیں۔ پاکستانی ’’نواز ‘‘ تو افطار پارٹیاں دینے میں مشہور تھے مگر کینیڈین ’’نواز ‘‘ اس معاملے میں پیچھے لگتے ہیں۔انہیں شاید علم نہیں کہ افطار پارٹیاں ووٹرز کو جمع کرنے میں کتنی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔

کینیڈا کی پاکستانی سیاسی پارٹیوں کو افطار پارٹیوں کے سلسلے میں ضرور ایکٹو ہونا چاہیے تاکہ روزے داروں کا کچھ تو بھلا ہو۔ ہمارے ایک دوست روزہ رکھتے ہی اس لیے تھے کہ ’’افطار‘‘ سے محظوظ ہو سکیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی فضا میں افطار پارٹیوں نے زبردست سیاسی اہمیت حاصل کر لی ہے پرویز مشرف کی افطار پارٹی میں جس جس کو مدعو کیا جائے گا ، اسی کے وزیر اور وزیر اعظم منتخب کئے جانے کے چانسز بڑھ جائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن جن کو اپنی افطار پارٹی میں بلائیں گے وہی انہیں قومی اسمبلی میں سپورٹ کرے گا۔ اگر الطا ف حسین نے اپنی افطار پارٹی میں عمران فاروق کو بلالیا تو ان کی بنیادی رکنیت بھی بحال ہو جائے گی۔ غرض یہ کہ یہ افطار پارٹیاں میل ملاپ کا زبردست بہانہ ہیں۔

لکھنے کو تو افطار پر ہم اور بھی بہت کچھ لکھ سکتے ہیں مگر کیا کریں افطار کا وقت ہوا چاہتا ہے اور بیگم افطار کے سائرن کی طرح ’’بج ‘‘ رہی ہیں تو صاحب ہم تو چلے ایک بار پھر بیگم کی افطار پارٹی جوائن کرنے۔

’’بڑے بھیا ‘‘ ورلڈ کپ اور ورلڈ گپ

آج کل پوری دنیا کرکٹ میچز دیکھ رہی ہے یا پھر مظاہرے کر رہی ہے۔ ٹی وی کھولو یا دروازہ کھولو، آنے والا اسکور یا پھر ’’بڑے بھیا ‘‘ کا بیان دہرانے لگ جاتا ہے۔ بیگمات بھی ’پچ، اور عراق کی باتیں اس طرح کر رہی ہیں جیسے ہانڈی کے ساتھ ان کا دل بھی جل رہا ہو۔ وقار یونس اور ’’بڑے بھیا‘‘ دونوں سوالات کی زد میں ہیں۔ ہم اتنے مجبور ہیں کہ ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں نہ ’’بڑے بھیا ‘‘ کا دل۔

ویسے بھی ہمارے ’’بڑے بھیا‘‘ آج کل صرف ’’جنگ جنگ ‘‘ کھیلنے کے موڈ میں ہیں ـ۔ انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے ،سوائے صدام حسین کے۔ ایسا لگتا ہے صدام کسی ’’خزانے ‘‘ کے سانپ ہیں اور بڑے بھیا اس خزانے کو حاصل کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ دنیا حیران و پریشان ہے۔ ابھی حملہ ہوا نہیں کہ تیل اور پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ مگر ’’بڑے بھیا ‘‘ کو دنیا والوں ، انسانی جانوں کسی کی بھی پروا نہیں۔ وہ تو صرف یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کے ملک میں تیل کا ذخیرہ صرف بارہ سال کاہے۔ اب چاہے پوری دنیا کا تیل نکل جائے ، وہ عراق کے تیل کے کنویں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔

کل تک ہم پڑھتے آئے تھے کہ دنیا میں اگلی جنگیں پانی کے لیے ہوں گی کیوں کہ دنیا بھر میں پانی کا ذخیرہ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ اس پر ہم نے ایک مضمون بھی لکھا تھا ’’کیا پانی دنیا میں آگ لگا دے گا ؟ مگر اب تو پانی کی جگہ ’’ بڑے بھیا ‘‘ نے لے لی ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں سے زائد افراد ’’بڑے بھیا ‘‘ کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں ، انہیں سمجھا رہے ہیں کہ دیکھو انسانی جانوں سے نہ کھیلو ،مگر ’’بڑے بھیا ‘‘ کی ایک ہی رٹ ہے۔ ’’ میں نہ مانوں ‘‘ خود ’’بڑے بھیا‘‘ کے شہر نیویارک میں پانچ لاکھ افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ لاس اینجلس میں ایک لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم جان ہارورڈ بڑے بھیا کے چرن چھونے امریکہ گئے ہوئے ہیں اور ان کے اپنے شہر سڈنی میں ڈھائی لاکھ افراد نے سڑکوں پر آ کر جنگ مخالف جذبات کا مظاہرہ کیا۔خود ہمارے شہر ٹورانٹو کی سڑکوں پر برف کے ساتھ ساتھ ہزاروں مظاہرین نے محفل جمائی۔ اتنی ٹھنڈ میں اتنے گرما گرم جنگ مخالف جذبات ہم نے خود اپنے آنکھوں سے دیکھے اور سنے۔مگر ایسا لگتا ہے کہ ’’بڑے بھیا ‘‘ کو کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ا نہوں نے شاید فیکٹری ورکرز کی طرح کانوں میں شور سنائی نہ دینے کے لیے Ear Bidsپہن لیے ہیں۔ خود ان کے ریڈیو ، ٹی وی چیخ رہے ہیں۔ اب کچھ امریکی فوجیوں نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے کہ بڑے بھیا کو حملے کا اختیار نہیں۔ ان لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ ’’بڑے بھیا ‘‘ کانگریس کی منظوری کے بغیر بادشاہوں کی طرح فیصلے کر رہے ہیں۔ہم تو خوش ہیں کہ ’’بڑے بھیا‘‘ بادشاہ کا درجہ اختیار کرتے جا رہے ہیں ، ہٹلر کے بعد اب ’’بڑے بھیا‘‘ نے ہمارے لیے ہیرو کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ البتہ ہم سائڈ ہیرو ٹونی بلیر سے سخت ناراض ہیں۔ ٹونی کی وجہ سے ہم سائیڈ ہیرو نہ بن سکے۔ اگر ’’بڑے بھیا ‘‘ ٹونی کی جگہ ہمیں دے دیں تو ہم ان کے حق میں سینکڑوں آرٹیکلز لکھ سکتے ہیں ممکن ہے کہ چند ہزار افراد کا جنگ کی حمایت میں ٹورانٹو میں مظاہرہ ہی کروا دیں۔ ٹورانٹو میں ہزاروں امیگرنٹس بے روزگار ہیں اگر بڑے بھیا ان کی امداد کے لیے فنڈ قائم کر دیں تو مظاہرہ کرنے والوں کی کمی نہیں رہے گی۔ جب امریکہ میں ہزاروں عورتیں ، مادر زاد برہنہ ہو کر جنگ تھوپنے والوں کے خلاف احتجاج کر سکتی ہیں تو ہم جنگ کے حق میں ڈالر لے کر مظاہرے کیوں نہیں کر سکتے ؟

’’بڑے بھیا ‘‘ عراق کی ’’پچ‘‘ پر اترنے کے لیے بے چین ہیں وہ ’’نا ٹ آؤٹ‘‘ رہ کر عراق کو ’’فالو آن‘‘ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وقار یونس بھی بڑے بھیا بن جائیں۔ اقوام متحدہ کی طرح ورلڈ کپ کو اپنی میراث سمجھ لیں۔ اپنے لڑکوں سے اتنے ‘‘ چھکّے ‘‘ لگوائیں کہ سب کے ‘‘ چھکے ‘‘ چھوٹ جائیں۔ جس دن میچ ہوتا ہے ہم ٹی وی پر ’’بڑے بھیا ‘‘ کو اور ریڈیو پر کمنٹریٹر کو سنتے رہتے ہیں۔ درمیان میں بیوی کی بھی سننی پڑتی ہے۔ جو ہمیں ٹونی بلیئر سمجھتی ہیں۔ کہ بس ہم ان کی ہاں میں ہاں ملاتے جائیں۔ کبھی کبھی ہم اپنی بیگم کے لیے فرانسیسی صدر یارک شیراک بھی بن جاتے ہیں ، سنتے اسی کی ہیں مگر کرتے اپنی ہیں۔ بیٹا اسکول سے آتا ہے تو سلام کے بعد اسکور پوچھتا ہے۔ ہم بتاتے ہیں ’’پانچ لاکھ‘‘ وہ حیران ہو جاتا ہے کہتا ہے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا اسکور پوچھ رہا ہوں۔ نیویارک کے مظاہرین کا نہیں۔

ہمیں داد دینی چاہیئے تھی اپنی پاکستانی کرکٹ ٹیم کو مگر ا س کے بجائے ہم داد ے رہے ہیں پوجا بھٹ کے ابا مہیش بھٹ کو جنہوں نے ’’بڑے بھیا ‘‘ کے ڈنر کی دعوت بطور احتجاج ٹھکرا دی۔ ایک ہم ہیں کہ اللہ کے بعد ’’بڑے بھیا ‘‘ کا ہی دیا کھاتے ہیں۔ گندم ’’بڑے بھیا ‘‘ بھیجتے ہیں ، اسلحہ ’’بڑے بھیا ‘‘ کی دین ہے ، احکامات ’’بڑے بھیا ‘‘ کے آتے ہیں ، کرتے وہی ہیں جو ’’بڑے بھیا ‘‘ کہتے ہیں۔ اب تک تو سنا تھا کہ پوجا بھٹ ، مہیش بھٹ کا کہنا نہیں مانتی اور اکثر صاف ستھری فلموں میں کام کر لیتی ہے مگر اب مہیش بھٹ نے ’’بڑے بھیا ‘‘ کا کہنا نہ مان کر ہمیں حیران کر دیا ہے۔ ہمارے ایک وزیر اعظم تو ایسے بھی (گئے ) گزرے ہیں جو مسائل بیان کرنے سے زیادہ ’’بڑے بھیا ‘‘ کے ساتھ تصویر کھنچوانے کے شوقین تھے۔ ایک مہیش بھٹ ہیں کہ وہائٹ ہاؤس کی دعوت سے انکار کر بیٹھے۔ مگر اس سے ’’بڑے بھیا ‘‘ کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ جب وہ ’’یورپی یونین‘‘ کی پروا نہیں کرتے ،کانگریس کو منہ نہیں لگاتے تو ایک فلم ڈائریکٹر کا احتجاج ان کا کیا بگاڑ لے گا؟

ویسے بھی اگلے چند دن ’’بڑے بھیا ‘‘ اور وقار یونس دونوں کے لیے بہت اہم ہیں۔ مظاہرین بڑے بھیا اور سٹیّ باز وقار یونس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ سٹے بازی کے ہیڈ کوارٹر دبئی سے وقار یونس کو مسلسل کالیں آ رہی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بڑے بھیا عراق پہلے فتح کرتے ہیں یا وقار یونس ورلڈ کپ؟ ایک سے دنیا کی تفریح اور دوسرے سے دنیا کا امن وابستہ ہے۔ یہ نہ ہو کہ بڑے بھیا کی فتح دنیا کا سب کچھ چھین لے۔ ہمیں سنسناتی کرکٹ کی گیندوں کی ضرورت ہے ، بڑے بھیا کی سنسناتی ، دندناتی گولیوں کی نہیں۔

’’جی میل‘‘ سے ’’جی حضوری‘‘ تک

ممتاز نقاد ، شاعر قمر جمیل مرحوم ہمارے لیے استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ بہت پہلے انہوں نے ہمیں ایک نصیحت کی تھی کہ ادب میں ہمیشہ پرانی اور سائنس میں نئی کتابیں پڑھا کرو۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان کی نصیحت پر عمل کرتے رہیں۔ اس بار سائنسی خبریں پڑھنے کو دل چاہا تو ہم نے کتاب کی نئی نئی صورت ’’انٹر نیٹ‘‘ کے صفحات الٹنے شروع کر دئیے۔ قسم قسم کی نئی تحقیقات نے ہمارے دماغ کے ’’بلب‘‘ روشن کر دئیے۔مثلاً ایک تازہ تحقیق کے مطابق گرمیوں کے مہینے میں پیدا ہونے والے بچے سردیوں کے مہینے میں پیدا ہونے والے بچوں سے زیادہ روشن دماغ اور خوش قسمت ہوتے ہیں۔ ہم نے فوراً حساب لگانا شروع کر دیا کہ ہمارا کون سا بچہ خوش قسمت ہے ؟ بھائی بہنوں میں کس کا دماغ زیادہ روشن ہے ؟ اور یہ کہ ابا اور امی میں کسے زیادہ خوش قسمت کہا جا سکتا ہے ؟

ویسے بھی اب ہمیں گرمیوں سے زیادہ پیار ہو گیا ہے۔ دیگر کینیڈیز کی طرح ہم بھی دن گن گن کر گرمیوں کا انتظار کرتے ہیں۔ پاکستان میں روزانہ اپنے عزیزوں سے دریافت کرتے ہیں کہ درجہ حرارت کتنا تھا ؟ کراچی آج کل گرمیوں کے لپیٹے میں ہے۔پانی اور بجلی عوام سے آنکھ مچولی کھیل رہی ہے اور کبھی کبھی تو اتنی دیر کے لیے غائب ہو جاتی ہے کہ لوگ مظاہرے کر کے ’’تلاش گمشدہ‘‘ کی دہائی دے رہے ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں ( حالانکہ نومبر کی سرد راتوں میں پیدا ہوئے ) کہ ایسے ملک میں ہیں جہاں ان چیزوں کے لیے دہائی نہیں دینی پڑتی صرف ’’تگڑے ‘‘ بل دینے ہوتے ہیں۔ اُدھر پاکستان سے ہر کوئی کہہ رہا ہوتا ہے ’’اللہ! تمہارے یہاں اب تک کتنی سردی ہے ،کتنا مزہ آتا ہو گا؟‘‘ ہم ان سے کہتے ہیں ’’ ہاں ! آم تم کھاؤ، تازہ تربوز اور خربوزوں کے مزے تم لوٹو اور ہمیں خوش قسمت جانو۔‘‘ ہم جب سے یہاں آئے ہیں آم کا اصلی مزہ بھول گئے ہیں۔ اشتہار پڑھ کر گروسری اسٹور بھاگتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب فروخت ہو گئے۔ جو بچا کچھا رکھا ہوا ہے اسے خریدنے کو دل نہیں چاہتا۔ میکسیکو کے آم ایسے ہیں جیسے اونچی دکان ، پھیکے پکوان۔پاکستان کے عام لوگ نہ سہی صرف ’’آم‘‘ بہت یاد آتے ہیں۔ کینیڈا میں گرمیوں کے ویسے بہت مزے ہیں۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے کپڑے لادنے نہیں پڑتے ، پارکوں اور تفریح گاہوں کی باآسانی سیر کی جا سکتی ہے ، لانگ ویک اینڈز کی خوشیاں ملتی ہیں ، قسم قسم کی تقریبات میں شرکت کا موقع ملتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گھر کے سامنے سے برف صاف کرنے کی مشق سے نجات ملتی ہے۔

ویسے ہماری آج کی مشق یہ ہے کہ نئی سائنسی خبریں پڑھیں ، ایک نئی خبر کے مطابق انٹر نیٹ ، سرچ انجن گوگل (Google)، ’’ یا ہو ‘‘ اور ’’ہاٹ میل‘‘ کی طرز پر جلد ہی اپنی میل سروس شروع کرنے والا ہے اور اس نے اپنی ای میل سروس کا نام جی میل(Gmail)رکھا ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ اس کی سروس میں غیر ضروری ای میلز کو ڈیلیٹ کرنے کا مسئلہ نہیں ر ہے گا اور وہ اپنے صارفین کو ایک ’’گیگا بائٹ‘‘ کی اسٹوریج فراہم کرے گا۔ منیر سامی جی ! آپ خوش ہو جائیں کہ آپ کے ادبی گروپ کو الفاظ کی زیادتی کی جس دقت کا سامنا تھا ، اب وہ جی میل کے ذریعے دور ہو جائے گی۔ ویسے بھی ’’جی‘‘ کا لفظ اُردو زبان میں بہت مستعمل ہے۔ ’’ہاں جی‘‘ اور ‘‘ نہیں جی‘‘ سے لے کر جی چاہنے تک ہم جی کی ’’ جی حضوری‘‘ میں لگے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری بیگمات بھی الف کے اضافے کے ساتھ ہمیں ’’اجی سنتے ہو‘‘ کہہ کر مخاطب کرتی ہیں۔ ہمارے کچھ انڈین دوستوں کو ہم اس وقت تک پیارے ہی نہیں لگتے جب تک کہ انہیں ’’سردار جی‘‘ کہہ کر نہ پکار لیں۔

فون صرف ایسی چیز ہے جو گھنٹی بجا کر بلائے تو ہم ’’ جی ‘‘ نہیں کہتے ’’ہیلو ‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں۔سائنس دانوں کی تازہ تحقیق ( تحقیق ہمیشہ تازہ ہوتی ہے ، باسی نہیں ) کے مطابق موبائل (سیل) فون کے استعمال سے خون میں شامل خلیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے یعنی اب دشمنوں کا خون بہانے کے بجائے اگر اسے سیل فون خرید کر دے دیا جائے تو وہ اپنی موت آپ مر سکتا ہے۔ اگر آپ کا دشمن سگریٹ پی رہا ہے اور ساتھ ہی سیل فون پر گفتگو بھی کر رہا ہے تو خوش ہو جائیے کہ وہ زیادہ دن زندہ نہیں رہے گا۔

دوسری جانب امریکی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آپریشن کے ذریعے اب بوڑھی اور لرزی ہوئی آواز وں کو بھی جوان بنایا جا سکتا ہے۔ گویا وہ عورتیں جو بینکوں سے قرضے لے کر اپنی ناک اور چہرے کی سرجری کروا یا کرتی تھیں ، اب آوازوں پر بھی کریڈٹ کارڈ کی رقم خرچ کریں گی کیوں کہ ہر عورت نہ نور جہاں ہو سکتی ہے نہ لتا منگیشتر۔چلتے چلتے آخری خبر یہ ہے کہ ویاگرا کی کامیابی کے بعد اس کا نعم البدل ’’لبوترا ‘‘ کے نام سے تیار کر لیا گیا ہے جو سستی بھی ہے اور اسے عام فروخت کی اجازت مل گئی ہے۔ خود کھائیں اور اپنے پڑوسی کو بھیجنا نہ بھولیں۔

ایٹمی سائنس دان، قربانی کے بکرے

عقل حیران ہے ، دل پریشان ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ ایٹمی سائنس دانوں کو آخر کس جرم کی پاداش میں تذلیل کی ان راہوں سے گزارا جا رہا ہے۔ عیدِ قرباں تو گزر گئی مگر سائنس دان ہنوز قربانی کے بکرے بنے ہوئے ہیں۔ پچھلے ایک ہفتے سے پاکستانی اخبارات جس طرح عبدالقدیر خان کی کر دار کشی کی مہم پر لگے ہوئے ہیں اسی سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ یہاں تک کہ ایک دن قبل ’’حکومتی سرکلر‘‘ آ گیا کہ قدیر خان نے بارہ صفحات کے تحریری بیان میں اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ایران ، لیبیا اور شمالی کوریا کو ذاتی سطح پر ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل کی تھی اور اس کام میں تین ریٹائرڈ بریگیڈیرز بھی ان کے ساتھ شریک تھے۔

پاکستان دنیا کی واحد ایٹمی قیادت ہے جہاں ایٹمی طاقت کا کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم فوج کے ہاتھ میں ہے اور اس ’’مقد س گائے ‘‘ نے ایک بار پھر اپنے ’’جرم‘‘ کی پردہ پوشی کے لیے کسی اور کی گردن کو اپنی ڈھال بنا لیا ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ’’محفوظ ہاتھوں ‘‘ کا نظام صرف ایک شخصیت کی ذاتی خواہش پر ایران ، شمالی کوریا اور لیبیا تک پہنچ جائے۔ کہوٹہ لیبارٹری جس کا دورہ بطور وزیر اعظم نواز شریف اور بے نظیر بھی نہ کر سکے کیوں کہ اس وقت کے فوجی افسران اس کے لئے راضی نہ تھے تو پھر بغیر ’’چوکیداروں ‘‘ کی رضا مندی کے اتنے بھاری راز مع ساز و سامان دوسرے ملکوں تک کیسے پہنچ گئے ؟ صاف ظاہر ہے کہ تین ریٹائرڈ بریگیڈیرز کے ناموں کو استعمال کر کے اصل کر داروں کو بچایا جا رہا ہے۔

اور آج قاضی حسین احمد اور ڈاکٹر قدیر خان کی ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو سے بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان نے صاف لفظوں میں قاضی صاحب کو بتایا ہے کہ انہوں نے کوئی اعترافی بیان زبانی دیا ہے نہ تحریری۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ خیریت سے ہیں تاہم ان کی بیوی کی طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ ہائی بلڈ پریشر کی تکلیف میں ہیں۔ یاد رہے کہ قاضی حسین احمد نے ڈاکٹر قدیر کے خلاف سرکاری تفتیش پر چھ فروری کو پاکستان بھر میں کاروبار بند رکھنے اور عام ہڑتال کی کال دی ہوئی ہے۔

ہمیں یقین نہیں آتا کہ پرویز مشرف جنہیں ’’مدبرّ پاکستان‘‘ کے خطاب سے نوازا جا چکا ہے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے عالمی ادارے کے ایک نوٹس پر اس قدر کیوں بوکھلا گئے ہیں اور اگر وہ امریکی دباؤ کا شکار بھی ہوئے ہیں ،تب بھی انہیں سوچنا چاہیئے کہ وہ جو ’’جواز ‘‘ ڈھونڈ رہے ہیں اور جس طرح سے ملکی قیمتی سائنس دانوں کی توہین کر رہے ہیں کیا ا س کے بعد وہ اس دباؤ سے باہر آ جائیں گے ؟ اس طرح تو وہ جوہری پروگرام کو جو پاکستان کی طاقت ہے ، پاکستان کے لیے مصیبت بنارہے ہیں۔ پاکستان میں ’’ڈی بریفنگ‘‘ کا مقامی مطلب ’’چھتر پریڈ ‘‘ لیا جا رہا ہے۔ جو سائنس دان کل تک ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے ، انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا ،آج انہیں اٹھا کر خفیہ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے اور مخصوص صحافیوں کے ذریعے ان کی کر دار کشی کی کہانیاں اخبارات کو فراہم کی جا رہی ہیں۔ کیا ایسا کرنے سے مشرف حکومت کو امریکی دباؤ سے نجات مل جائے گی؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایٹمی ٹیکنالوجی دنیا بھر میں کیا صرف پاکستان نے ہی منتقل کی ؟ جوہری پروگرام کے بارے میں کون سا ملک ایسا ہے جسے ذمہ دار ملک کا درجہ دیا جا سکتا ہے ؟ تاریخ اٹھا کر دیکھیں امریکہ نے ایٹمی طاقت بننے کے لیے نازی جرمنی سے بھاگنے والے سائنس دان اوین بائر کو ’’ہائر‘‘ کیا تھا۔ روس کو ایٹمی راز روزنبرگ نے فراہم کیے تھے۔ خود دنیا میں ایٹمی ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی منتقلی امریکہ سے جرمنی، فرانس اور اسرائیل تک ہوئی۔ اسرائیل نے جنوبی افریقہ کو ایٹمی پروگرام منتقل کیا۔ چین کے ایٹمی طاقت بننے میں سوویت یونین کا ہاتھ رہا۔ ایسے میں پاکستان صرف بوکھلاہٹ کا شکار کیوں ہے ؟

ہمیں امریکی سی آئی اے کی ایک عہدیدار کا وہ بیان یاد آ رہا ہے جو اس نے تین سال پہلے بھارت کے دورے کے موقع پر دیا تھا۔ اس نے بھارتی ایٹمی خالق ابوالکلام سے ملاقات کے دوران کہا تھا آپ عظیم ہیں اور دیکھنا کہ ہم بہت جلد ڈاکٹر عبدالقدیر کو کس طرح رسوا کرنے والے ہیں۔

قدیر خان تو اس وقت سے ساری دنیا کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں جب 1972میں وہ ہالینڈ سے ایٹمی افزودگی کا پروگرام چُرا کر پاکستان پہنچے تھے۔ سی آئی اے دس سال سے ان کے خلاف پیپرز تیار کر رہی تھی اور آج افسوس کا مقام ہے کہ ان ہی سائنسدانوں کی اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں تذلیل ہو رہی ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ عالمی ایٹمی عدم پھیلاؤ کے ادارے کو اصل ثبوت بھی مشرف حکومت کے وزیر تجارت کی بے وقوفی سے ملے 24جولائی 2000کو اخبارات میں مشرف حکومت کے وزیر تجارت کی جانب سے افزودہ یورینیم کے فروخت کا ایک ٹینڈر نوٹس شائع ہوا تھا اور یہی عالمی ادارے کے پاس پاکستان کی جانب سے ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی کا سب سے بڑا ثبوت بنا۔ انہی دنوں پرویز مشرف خود لیبیا گئے تھے۔

اصل میں ہم بحیثیت قوم بہت جذباتی ہیں۔ ضیا الحق نے اپنے دور میں خود نعرہ لگایا تھا کہ یہ صرف پاکستان کا ایٹم بم نہیں بلکہ اسلامی ایٹم بم ہے۔ دنیا بھر میں ایٹمی ٹیکنالوجی کو منتقل کرنے والا سب سے بڑا ملک امریکہ آج خود الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے کیوں کہ پاکستان اسلامی ملکوں کو ایٹمی طاقت سے مالا مال کرنا چاہتا ہے۔ اگر دنیا سے ایٹم بم کا خاتمہ کرنا ہے تو اس وقت سب سے زیادہ ایٹم بم امریکہ، جرمنی اور فرانس کے پاس ہیں۔ پرویز مشرف اگر واقعی بڑے لیڈر ہیں اور امریکہ کے قریب بھی تو وہ امریکہ سے کیوں نہیں کہتے کہ کس ملک نے ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل نہیں کی ؟ پھر سارا دباؤ پاکستان پر کیوں ؟ پرویز اپنی حکومت بچانے کے لئے آج جو کچھ کر رہے ہیں ،کیا اس کے بعد اُمید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان بچ جائے گا؟

میں رہوں نہ رہوں ، اے عید تو ہمیشہ رہے گی

دیکھتے ہی دیکھتے ایک اور عید آ گئی۔ ویسے تو عید ایک روحانی مسرت اور سرشاری کی کیفیت کا نام ہے ، رب کریم کی بارگاہ میں شکر بھیجنے اور رمضان المبارک کے ایام سے فیض یاب ہونے کی خوشی کے اظہار کا ذریعہ ہے مگر اب اس سے بھی زیادہ ایک ایسا اسلامی تہوار ہے جو دنیاوی اعتبار سے اب نئے کپڑے پہننے ، لوگوں سے ملنے ملانے اور کھانے پینے کا دن ہے۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک عید ایک ’’سالانہ مہمان‘‘ ہے جو ہر سال ایک مقررہ دن آپ کے دروازے پر دستک دیتی ہے ، آپ سے مصافحہ کرتی ہے ، گلے ملتی ہے 24گھنٹے بلکہ72گھنٹے آپ کے ساتھ رہتی ہے اور پھر اگلے سال آنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو جاتی ہے۔

جب آپ بچے تھے تو عید کا تصور آپ کے لیے کچھ اور تھا۔ عید آنے والی ہے ، میں نئے کپڑے بناؤں گا ، پینٹ شرٹ تو پہنتا ہی ہوں عید کے دن خصوصی طور پر شیروانی پہنوں گا ، پاجامہ کرتا سلے گا ،ابو کے ساتھ عید گاہ جاؤں گا ، نماز پڑھوں گا۔ عید گاہ میں سارے محلے کے بچے ملیں گے ، ان سے گلے ملوں گا ، عید گاہ میں خصوصی طور پر چپل کی حفاظت کروں گا۔ نماز پڑھ کر واپس آؤں گا تو امی کے ہاتھوں کی سویاں کھانے کو ملیں گی اور بھی بہت سے کھانے ہوں گے۔ واہ! میرے منہ میں تو ابھی سے پانی آ رہا ہے۔پھر میں سب سے عید ملنے جاؤں گا۔ دادا ، دادی ، نانا ، نانی ، چچا ، چچی تایا ، تائی ، پھوپا ،پھوپی ، خالو ، خالہ ،ماموں ،ممانی ، چھوٹے بڑے کزن غرض یہ کہ سب کے گھر جانا ہے یا سب کو ہمارے گھر آنا ہے ، پھر مجھے ڈھیر ساری عیدی ملے گی۔ یہ عیدی ہی تو ہوتی ہے جس کے لیے ہر سال عید کا خاص طور پر انتظار کرتا ہوں۔ ہر سال ڈھیر ساری رقم جمع ہو جاتی ہے جس سے میں کھلونے خریدتا ہوں ، اسکول میں طرح طرح کی چٹپٹی چیزیں خرید کر کھاتا ہوں۔ مجھے وہی رشتہ دار سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے جو سب سے بڑی رقم بطور عیدی دیتا ہے۔

لیجیے عید مناتے مناتے اب ہم بڑے ہونے لگے۔ 20سے 25عیدیں اگر آپ نے دیکھ لی ہیں تو گویا آپ نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا ہے۔ اب عید آپ کے لیے کچھ اور ہو گئی ہے۔ عیدی جمع کرنے اور گھومنے پھرنے کا اشتیاق اب عید کی آمد کے ساتھ نہیں بڑھتا۔ اب تو ٹیوشن یا دوسرے ذریعہ سے آپ خود بھی کچھ نہ کچھ کمانے لگے ہیں مگر کالج اور یونیورسٹی جاتے ہوئے ابو ، امی یا بڑے بھائی سے آپ کو کافی ساری رقم ویسے ہی بطور ’’جیب خرچ‘‘ مل جاتی ہے۔ اب آپ کو عید ی لینے کی نیت سے رشتہ داروں کے گھر ملنے جانا بھی اچھا نہیں لگتا ہے۔ اب تو عید آپ کے لیے کوئی اور حوالہ بن گئی ہے۔ آپ کو عید پر کسی خاص ’’عید کارڈ‘‘ کی آمد کا انتظار رہنے لگا ہے۔ عید سے پہلے آپ خود بھی عید کارڈ کی دکانوں کے چکر کاٹتے ہیں۔ نئے کپڑے خریدنے کے لیے آپ اتنا وقت صرف نہیں کرتے جتنا کہ ایک ’’خصوصی عید کارڈ‘‘ کا انتخاب آپ کو پریشان کرتا ہے۔ پھر عید کے اشعار جمع کرتے ہیں۔ عید کارڈ پر کون سا شعر لکھوں ، کیا لکھوں جو میرے دل کی کیفیت کو عیاں کر دے۔ پھر آپ عید کارڈ بھیج دیتے ہیں۔ لوگ عید کا چاند دیکھنے کے لیے بے چین رہتے ہیں مگر آپ کی عید تو کسی اور کی ’’دید‘‘ کے ساتھ منسلک ہے۔ عید کی نماز پڑھ کر آتے ہی آپ سب سے پہلے چپکے سے ’’اسے ‘‘ فون کر کے عید کی مبارکباد دیتے ہیں۔ اگر اس نے فون وصول کر لیا ، آپ سے بات کر لی اور آپ نے کسی طرح عید کے دن اس کی ایک ’’چھب ‘‘ دیکھ لی یا دو گھڑی کے لیے اس سے ملاقات کر لی تو گویا آپ کی ’’عید ‘‘ ہو گئی۔

اب آپ 35یا 36عیدیں دیکھ چکے ہیں۔ اب آپ شادی شدہ ہیں آپ کی بیوی ہے ، بچے ہیں ، اب آپ کی عید کسی اور طرح کی ہے۔ اب آپ رمضان شروع ہوتے ہی کسی اور مخمصے میں ہیں۔ آپ اپنی تنخواہ اور بینک بیلنس کا حساب کرتے ہیں۔ اس عید پر آپ نے گھر کے لیے کیا خریدنا ہے ؟ بیوی کی فہرست آپ کے سامنے ہے۔ کچھ نیا سامان ڈالنا ہے ، صوفہ بدلوانا ہے ، نیا گلدان لانا ہے ، بچوں کے کپڑے بنانے ہیں ، کچن کی ضروریات منہ پھاڑے کھڑی ہیں۔ چاند رات آپ دودھ اور گوشت کے چکر میں ہیں۔ پھر گھر آنے والے بچوں اور اپنے بچوں کے لیے آپ نے عیدی کی رقم علیحدہ سے رکھی ہے۔ سسرالیوں سے ملنے کا خصوصی اہتمام کیا ہے ، اپنے والدین کے لیے بھی کچھ خاص چیزیں خریدی ہیں جو چھوٹے بہن بھائی ہیں ان کے لیے ’’گفٹس‘‘ کا انتظام کیا ہے۔ عید کے دن آنے والے مہمانوں کے لیے آپ نے خصوصی تیاری کی ہے۔ عید آپ کے لیے ایک بھاری ذمہ داری بن گئی ہے۔ پھر عید کے دن تمام مصروفیات میں چپکے سے ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب ہولے سے ایک یاد آپ کے دل پر دستک دیتی ہے ’’وہ کیسی ہو گی؟ کیا کر رہی ہو گی؟ اس نے مجھے یاد کیا ہو گا ؟ کیا بیتے عید کے مناظر اس کے ذہن میں بھی تازہ ہوئے ہوں گے ؟‘‘ اور یوں یہ عید بھی گزر گئی۔

اب آپ بوڑھے ہو چکے ہیں۔50یا 65عیدیں آپ کی زندگی میں آ چکی ہیں۔ اس عید پر آپ کا جواں سال بیٹا آپ کو سہارا دے کر گاڑی میں اٹھا کر عید گاہ لے جا رہا ہے۔ عید کی نماز پڑھ کر آپ گھر آ چکے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ دوسرا بیٹا امریکہ میں کیسے عید منا رہا ہو گا؟ بیٹی لندن میں عید کے دن اس کے لیے بے چین ہو گی کہ نہیں ؟ پوتے ، پوتیاں ، نواسے ، نواسیاں آپ کو سلام کرنے آ رہے ہیں اور آپ سوچ رہے ہیں کہ اگلی عید مجھے نصیب ہو گی کہ نہیں ؟ ہائے عید، اُف عید… اے عید میں رہوں یا نہ رہوں تو ہمیشہ رہے گی۔

آج کے دروازے

آج کل اکثر سیاسی پارٹیاں بیان دیتی ہیں کہ ہمارے دروازے سب کے لیے کھُلے ہیں۔ دنیا کا پہلا دروازہ کس نے اور کب بنایا تھا ، اس سے کم از کم ہم ضرور لاعلم ہیں۔ دروازہ بنانے والے نے کبھی یہ نہ سوچا ہو گا کہ اس کی اس ایجاد کو سیاست میں گھسیٹ لیا جائے گا اور وہ بھی اس طرح کہ تقریباً ہر اخبار میں سیاسی دروازے کھلنے کی نوید سنائی جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے ملک کے اکثر سیاست دان حکومت یا مخالف پارٹی میں چور دروازے سے داخل ہوتے ہیں۔

گئے برسوں کی باتیں ہیں کہ لوگ مکان بناتے تھے تو دروازوں کی مضبوطی پر اس قدر زور دیتے تھے کہ جب دیواریں کھڑی ہو گئیں ، چھت پڑ گئی، فرش پکّا ہو گیا تو پھر ایک دروازہ بھی لگا دیا گیا۔ دروازے میں زیادہ سے زیادہ ایک چٹخنی ہوتی تھی جو صرف رات کو لگانے کے کام آتی تھی۔ اب تو کراچی میں دروازوں کو کشمیر کی طرح حسّاس معاملہ قرار دے دیا گیا ہے جس طرح شرٹ پر آٹھ دس بٹن ٹانکے جاتے ہیں ، اسی طرح اب دروازوں کو قسم قسم کے دیسی بدیسی تالوں ، کنڈیوں اور زنجیروں کی مالا پہنائی جاتی ہے۔ پھر دروازوں میں ایک عدد ’’آئی سپاٹ‘‘ بھی لگایا جانے لگا ہے جس سے مکین گھر کے اندر سے آنے والے کے چہرے اور نیت کو ٹٹولتے ہیں اور پھر دروازہ کھولنے یا نہ کھولنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

کراچی میں اب دروازوں کے ساتھ لوہے کی گرلیں بھی لگائی جانے لگی ہیں جس میں صرف اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ بغیر گرل کھولے پڑوسنیں مرچ، مصالحے اور ہڑتال کے دنوں میں وڈیو کیسٹوں کا تبادلہ کر سکتی ہیں۔ جوان امنگیں رکھنے والے ان چھوٹے بڑے سوراخوں سے نگاہوں اور اپنے مطلب کے خفیہ اشاروں اور ’’دستاویزات‘‘ کا تبادلہ بھی کر لیتے ہیں۔

کھڑکی اور روشن دان کو آپ دروازے کا چھوٹا بھائی اور بہن کہہ سکتے ہیں۔ اکثر کھڑکیوں پر پردے اور روشندانوں پر جالے پڑے ہوتے ہیں۔ کراچی میں ہونے والی ہڑتالوں کا سب سے زیادہ نقصان ان روشن دانوں میں رہنے والی مکڑیوں کوپہنچ رہا ہے جن کے جالے بیوی کے غصہ دکھلانے پر ہڑتال کے دنوں میں مرد صاف کرتے ہیں۔ کچھ روشن دانوں میں چڑیاں اپنے گھونسلے بناتی ہیں جن میں ان کے بچے اور انڈے خاندانی منصوبہ بندی، لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات کی بیماریوں سے محفوظ پلتے اور بڑھتے ہیں۔

آجکل صرف سیاست کے دروازے کھلے رہنے کی خبر ملتی ہے وگرنہ کراچی میں فیکٹریوں اور گھروں کے دروازے تو مقفل ہی رہتے ہیں۔ گھر والے نہ ہوں تو باہر سے اور اگر ہوں تو اندر سے۔ ڈاکوؤں کی بہتات نے دروازے کے ’’ پٹوں ‘‘ سے ان کی ’’شخصی ‘‘ آزادی بھی چھین لی ہے۔ اقوام متحدہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ سب کام چھوڑ کر پہلے ان دروازوں کی آزادی بحال کروا ئے۔ اگر گھر کا کوئی فرد نشئی یا غصے کا تیز ہو تو ان دروازوں پر ضرب کی آوازیں اکثر اہل محلہ سنتے ہیں مگر چند سالوں سے کراچی میں یہ کام پولیس اور رینجرز نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ اس کی شہادت ٹوٹنے ، پھوٹنے اور زخمی ہونے والے ہزاروں دروازے بغیر ’’ریمانڈ‘‘ کے دے سکتے ہیں۔

مال دار اشخاص کا گذارہ صرف دروازوں سے نہیں ہوتا ، وہ لوہے کے بڑے بڑے گیٹ لگواتے اور اس کے باہر چوکیدار بمع اسلحہ بٹھاتے ہیں۔ چوکیدار سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ گھر والوں سے ملا ہوا ہو ، باہر والوں سے نہیں۔ ایک زمانے میں کراچی میں آہنی گیٹوں کا بڑا چرچا تھا۔ الطاف حسین سے ملنے کے لیے ایسے بیسیوں گیٹوں اور سینکڑوں گارڈز سے ہو کرگذرنا پڑتا تھا

مضبوط دروازوں نے سب سے زیادہ نقصان چوروں اور ڈاکوؤں کو پہنچایا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ پیشہ اب ’’انڈور‘‘ کے بجائے ’’آؤٹ ڈور ‘‘ گیم کے طور پر اپنایا جا رہا ہے۔ کسی بھی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر بذریعہ پستول آپ کے منہ کے دروازے کو بند رکھنے کا اشارہ دے کر سب کچھ لوٹ لیا جاتا ہے۔

ایک دروازہ ایسا بھی ہے جو ہر غریب ، شریف اور بے ضرر پاکستانی کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے اور وہ ہے ’’لاک اپ‘‘ یا جیل کا دروازہ۔ اگر ایک بار آپ زبردستی اس دروازے کے اندر دھکیل دئیے گئے تو اپنے ’’نازک‘‘ یا ’’سخت ‘‘ عضو کی مرمت کروا ئے اور رشوت کھلائے بغیر کبھی باہر نہیں آ سکتے۔

کینیڈا میں بیٹھے بیٹھے ایک سیاسی پارٹی کا بیان پڑھ کر ماضی کے سب دروازے ہم پر کھل گئے اور ہم نے کراچی کی صورت حال آپ سب کے گوش گذار کر دی۔ جہاں تک کینیڈا کے دروازوں کا تعلق ہے تو اگر آپ اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں تو ان دروازوں کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے۔ آپ نیچے ہی دھر لیے جاتے ہیں۔ جہاں Buzzerنمبر کے ذریعے آپ فون پر بات کر سکتے ہیں اور فون ہی کے ذریعے اپنے کمرے میں بیٹھا شخص اپارٹمنٹ کا مرکزی دروازہ ایک معمولی کوڈ کے ذریعے کھول سکتا ہے۔ یہاں ایک گھر میں رہنے والے ہر فرد کے پاس چابی ہوتی ہے جو جاتا اور آتا ہے وہ چابی کے ذریعے دروازہ کھول لیتا ہے۔ یہاں دل اور دروازے پر دستک دینا Privacyمیں مداخلت کے مترادف ہے۔ حالانکہ دل کے دروازے کے بارے میں ہم نے تو یہی سنا ہے کہ یہ دروازہ لڑکیاں ایک بار اور لڑکے بار بار کھولتے ہیں۔ ہم بھی عرصے سے دل کا دروازہ کھولے بیٹھے ہیں یہ سوچ کر کہ

کس کونپل کی آس میں اب تک ویسے ہی سرسبز ہو تم

اب تو دھوپ کا موسم ہے برسات گذر گئی جاناں

ریما ! ’’کوئی تم سا کہاں ؟‘‘

ایک خبر کے مطابق پاکستانی اداکارہ ریما اپنی نئی فلم ’’ کوئی تم سا کہاں ‘‘ کا افتتاح شہزادہ چارلس کے ہاتھوں کروا نے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں شہزادہ چارلس نے ایک انڈین فلم ’’دی رائزنگ ‘‘ کا افتتاح کیا تھا۔چونکہ ریما کی فلم کے پروڈیوسر شعیب عالم برطانوی نژاد پاکستانی ہیں ، اس لیے ریما چاہتی ہیں کہ ان کی فلم کا افتتاح برطانیہ میں شہزادہ چارلس کریں۔

یوں تو اب پاکستانی فلمیں اس حال میں ہیں کہ انہیں خود پاکستانی بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے اس لیے ریما عالمی شہرت حاصل کرنے کے لیے اب شہزادہ چارلس کے ذریعہ ’’شارٹ کٹ ‘‘ راستہ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس طرح فلم نہ سہی ریما ہی مقبولیت کے افق پر تھوڑی دیر کے لیے چمک جائیں گی۔ ریما میں بڑی صلاحیتیں ہیں۔ وہ فلم ’’بلندی‘‘ کے ذریعے سینما اسکرین پر نمودار ہوئی تھیں اور بہت جلد شہرت کی ’’بلندی‘‘ کو چھونے لگی تھیں۔ ان کے ڈانس ہمیشہ سے فلم بینوں کی مرغوب ’’غذا‘‘ رہی ہے۔ وہ جتنا اچھا ناچتی ہیں ، اس سے زیادہ اچھی طرح لوگوں کو نچاتی ہیں۔ ان کی انگلی اور کمر کے اشارے بہت سے فلمی پروڈیوسرز کی کمزوری بن چکے ہیں۔ ہمیں پوری امید ہے کہ اگر ریما نے خود جا کر شہزادہ چارلس سے درخواست کی تو چارلس اس کی درخواست کو کبھی رد نہیں کر سکیں گے۔ ویسے بھی شہزادہ صاحب آج کل فارغ ہیں ، مصروفیت اور خواتین سے میل ملاپ کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ ان کی عمر کے اکثر مرد و خواتین اپنی جوانی سے تائب ہو چکے ہیں مگر چونکہ وہ شہزادے ہیں اس لیے اب بھی ’’ماہ رخوں ‘‘ کے پسندیدہ ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ لیڈی ڈیانا نے شہزادے جی کو پوری دنیا میں مقبول بنا رکھا تھا مگر جب سے وہ اللہ کو پیاری ہوئیں اور ٹونی بلیر نے جارج بش کی بغل میں پناہ لی۔برطانیہ کے حوالے سے صرف ٹونی کا نام گونجتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ ریما کے ذریعے شہزادہ چارلس کی توجہ پاکستانی ہیروئنوں کی طرف بھی مرکوز ہو جائے ورنہ تو آج کل حسنِ نازک کے حوالے سے بھارت ہی دنیا پر چھایا ہوا ہے۔

ویسے اگر ریما ’’ورلڈ افیئر ‘‘ کے حوالے سے کسی نئے افیئر کی تلاش میں ہیں تو انہیں شہزادہ چارلس کے بجائے پرویز مشرف سے اپنی فلم کا افتتاح کروا نا چاہیے۔ اسامہ اور صدام کے بعد اگر آج کی دنیا میں کسی کا نام گونجتا ہے تو وہ پرویز مشرف ہی ہیں۔ ریما اگر صدر پرویز مشرف کی طرف صرف اشارے ہی سے کہہ دیں کہ ’’ کوئی تم سا کہاں ‘‘ تو یقیناً پرویز مشرف اس طرح افتتاح کے لیے کھنچے چلے آئیں گے جیسے بش کے اشارے پر امریکہ آتے ہیں۔

ریما کی فلم کے افتتاح کے لیے مفتی منیب الرحمن کی شخصیت بھی بُری نہیں۔ موصوف آج کل قومی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور ’’چاند ‘‘ ڈھونڈتے پھرتے ہیں ، انہیں ریما جیسا ’’چاند چہرہ‘‘ بھی یقیناً پسند آئے گا اور وہ بادل و گھٹا سے نکل کر ریما کی فلم کے افتتاح کے لئے ضرور دستیاب ہو جائیں گے۔ اس طرح ریما کو بھی پہلی بار یہ موقع ملے گا کہ وہ قومی اخبارات کے مذہبی صفحات پر نمودار ہو جائیں گی مگر بات وہی ہے کہ گھر کے مرغے دال برابر۔ ریما کی نظریں آج کل عالمی شہزادوں پر ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ اگلے ہفتے فلمی اخبارات پر ریما کا یہ بیان چھپے کہ وہ بش سے اپنی فلم کا افتتاح کروا نے جا رہی ہیں۔ اس لئے ضروری ہو گا کہ ریما ’’اسامہ میری جان‘‘ کے نام سے فلم بنائیں۔ اس فلم کے افتتاح کے لئے جارج بش راضی ہو جائیں گے صرف اس شرط کے ساتھ کہ اصلی اسامہ بن لادن کو بھی فلم میں شامل کیا جائے۔

اگر ریما ’’صدام زندہ باد ‘‘ کے نام سے کوئی فلم شروع کریں تو اسے زیادہ پذیرائی ملنے کا امکان ہے۔ صدام کے کر دار کے لیے شبیر جان کی خدمات حاصل کر سکتی ہیں۔ جنہیں فلم میں کام کرنے اور صدام سے ملنے کا بہت شوق ہے۔ اس فلم کے لیے مولانا نورانی با آسانی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ ریما شوٹنگ کے لیے عراق جا سکتی ہیں اس طرح ساری دنیا میں ان کی شہرت ہو سکتی ہے۔

ویسے بھی ریما سرمایہ کاروں کو فلمی دنیا اور اپنی جانب راغب کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ جب وہ برطانیہ کے شعیب عالم کو ’’کوئی تم سا کہاں ‘‘ بنانے کے لیے راضی کر سکتی ہیں تو وہ گویا سب کچھ کر سکتی ہیں۔ اب فلم بینوں کو ریما کی فلموں سے زیادہ ان کے ’’دولہے ‘‘ سے دلچسپی ہے۔ ریما کو چاہیئے کہ اب وہ فلم ساز نہ بنے شوہر تلاش کرے۔ اس کام کے لیے اگر وہ کینیڈین نژاد پاکستانیوں کی جانب توجہ مبذول کرے تو یقیناً کامیاب ہو سکتی ہے۔ ہم ایک ایسے صاحب کو جانتے ہیں جو کینیڈا سے جب بھی پاکستان جاتے ہیں تو سب سے پہلے ریما کی نئی پرانی فلمیں دیکھتے ہیں۔ انہیں ریما کی تمام فلموں کے نام اور کہانیاں یاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر میں شادی شدہ اور پچاس سال کا نہ ہوتا تو ریما کے گھر کے دروازے پر جا کر بیٹھ جاتا۔ ریما کو چاہیئے کہ اب وہ خود ان صاحب کے گھر کے دروازے پر دستک دے ،ا گر ریما کو ان کے گھر کا ایڈریس درکار ہو تو وہ ہم سے رجوع کر سکتی ہے۔ ویسے بھی کسی فلمی ہیروئن کا گھر بسانا دنیا کی سب سے بڑی نیکی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایسے گھر صرف چند دنوں کے لیے بستے ہیں مگر ہمیں امید ہے کہ جب ریما گھر بسائے گی تو اسے ساری زندگی بسا ہی رہنے دے گی ، اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ ریما ! ’’کوئی تم سا کہاں … ؟‘‘

جیبیں انسان کی انٹر نیشنل ضرورت ہیں

پاکستان کے ایک انگریزی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق 20فیصد پاکستانیوں کی جیبوں میں جعلی شناختی کارڈ ہیں۔ رپورٹ میں اس کا تذکرہ نہیں ہے کہ ’’جعلی پاکستانیوں ‘‘ کی جیبوں میں کتنے فیصد ’’اصلی شناختی کارڈ ہیں ‘‘ ۔ قصور شناختی کارڈ کا نہیں جیبوں کاہے۔ اگر جیب ہی نہ ہوتی تو شناختی کارڈ کے اصلی یا جعلی ہونے کا پتہ ہی نہ چلتا۔ ویسے جیب کے رواج کی تاریخ آج تک کسی جیب سے برآمد نہیں ہوئی۔ہم جو کچھ پہنتے ہیں مثلاً شیروانی ، کوٹ پینٹ، قمیض تقریباً سب میں ہی جیبیں ہوتی ہیں علاوہ پاجامے کے۔ پاجامے میں ازار بند کے سوا کوئی اور قابل تحریر چیز نہیں ہوتی۔ اس ازار بند کو بھی لوگ ’’آزار بند ، ،کہتے ہیں کیوں کہ یہ اکثر وقت پر ’’دغا ‘‘ دے جاتا ہے۔

جیبیں ’’ہلکی‘‘ بھی ہوتی ہیں اور ’’بھاری ‘‘ بھی۔ ’’ٹھنڈی ‘‘ بھی اور ’’گرم ‘‘ بھی۔ شخصیت کا بھاری پن جیب کے بھاری پن سے متناسب ہوتا ہے۔ کاروبار جتنا ناجائز ، نوکری جتنی مشہور اور نیت جتنی خراب ہو ، جیب اتنی ہی بھاری اور گرم ہوتی ہے۔ مردوں کی جیبیں ٹھنڈی اور ہلکی ہوں تو ان کی محبوبائیں اور بیویاں ان پر گرم اور بھاری رہتی ہیں ۔ ہر ٹھنڈی اور ہلکی جیب کے پیچھے کسی نہ کسی عورت یا ذاتی شرافت کا ہاتھ ہوتا ہے۔

کسی کے کر دار پیشے اور ذوق کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی جیب کی تلاشی کافی ہے۔ کسی نوجوان کے شریف ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کی جیب میں یونیورسٹی کا کارڈ ، چند سکّے اور صرف ایک لڑکی کی تصویر ہو۔ا گر کنگھی بھی نکلے تو سمجھ لیں کہ لڑکا منچلا ، فیشن زدہ اور لڑکیوں کا دل دادہ ہے۔ا گر جیب سے سفارشی خطوط اور رومال نکلے تو سمجھ لیں ’’صاحبِ جیب‘‘ بے روزگار ہے اور دھوپ میں پھرنے کا عادی ہے۔

جن کی جیبوں میں بجلی ، گیس اور فون کے بل ہوتے ہیں وہ شادی شدہ ہوتے ہیں۔ جیبوں میں پرس رکھنے والے ’’شوباز ‘‘ کہے جا سکتے ہیں۔ ان کے پرسوں میں اکثر بڑے عہدے والے دور پرے کے رشتے داروں کے وزیٹنگ کارڈ ، فلمی ہیروئنوں کی تصاویر اور محبوباؤں کے خطوط ہوتے ہیں۔

آج کل جیبوں میں بینکوں کے کریڈٹ کارڈ رکھنا ’’اسٹیٹس سمبل ‘‘ بن گیا ہے۔ ایک کریڈٹ کارڈ ، ایک موبائل فون اور ایک نئے ماڈل کی کار دکھا کر آپ پاکستان میں سینکڑوں لڑکیوں کو اپنا گرویدہ بنا سکتے ہیں۔

دنیا کی سب سے بد نصیب جیب شاعروں کی ہوتی ہے جن میں سوائے غزلوں اور نظموں کے کچھ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعروں کی بیویاں جیبوں کی تلاشی لیے بغیر کپڑے لانڈری کے لیے بھجوا دیتی ہیں۔ یوں شاعروں کے دوستوں پر احسان عظیم کرتی ہیں۔ اگر دھوبی نہ ہوتے تو آج دنیا میں شاعری کا ذخیرہ دگنا ہوتا۔

آج کل جیبوں میں پستول بھی ملتی ہے۔ آپ اپنے سامنے ہاتھ پھیلائے اس فقیر کو سب کچھ دینے پر راضی ہو جائیں گے جس کی جیب بالکل خالی ہو سوائے ایک بھرے ہوئے ریوالور کے۔ جیبوں میں سوراخ ہو جائے تو اکثر چیزوں کا سراغ نہیں ملتا۔ ہم بچپن میں چوّنی کی ٹافی کھا کر اپنی جیب میں سوراخ کر دیا کرتے تھے۔ اس طرح والدہ مطمئن ہو جاتی تھیں کہ چوّنی گری ہے ، بچے کا اخلاق نہیں۔

دنیا میں جیب کاٹنے کا کام صرف دو افراد کرتے ہیں۔ جیب کترے یا پھر درزی۔ پہلے کو جیب کاٹنے پر سزا اور دوسرے کو جزا ملتی ہے۔ وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جو زندگی میں صرف درزی سے جیب کٹواتے ہیں۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عورتوں کے لباس جیب سے یکسر محروم رہتے ہیں۔ عورتیں اپنے لیے مردوں کی جیبوں ہی کو کافی سمجھتی ہیں۔ عورت کی فطرت ، کر دار اور تنخواہ کا اندازہ اس کے پرس سے لگایا جا سکتا ہے جسے وہ اپنے بچے کے بعد سب سے زیادہ سینے یا گود سے چمٹائے رکھتی ہے۔ کسی مرد کا خط یا عورت کا پرس کھولنا معیوب بات سمجھتی جاتی ہے۔ مگر یہ معیوب حرکت کرنے والے جانتے ہیں کہ اس میں مزہ کتنا ملتا ہے۔

کینیڈا میں گھر سے باہر نکلنے کے لیے جیب ہی کافی نہیں ہوتی ہے یہاں جیب صرف ایک پھولے ہوئے پرس سے بھر جاتی ہے۔ جس میں کریڈ ٹ کارڈ ، سن کارڈ، ہیلتھ کارڈ ، غرض یہ کہ بیسیوں طرح کے کارڈ ہوتے ہیں۔ یہاں انسان کی شناخت اس کے کارڈ سے ہوتی ہے۔ جیب کے علاوہ یہاں ہر ہاتھ میں ایک بیگ ہوتا ہے جس میں اس کے ’’جملہ حقوق‘‘ ٹھونسے ہوئے ہوتے ہیں۔ انسان گھومنے جا رہا ہو یا جاب پر ، اس بیگ کا ساتھ ضروری ہوتا ہے۔

جیب انسان کی انٹرنیشنل ضرورت ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے کا انسان جیب کے بغیر مکمل نہیں رہتا۔ ضرورت کی روح اس کی ’’جیب‘‘ ہے۔ جیب نہیں تو ہم اور آپ کچھ نہیں۔ کیا پتہ قیامت کے روز،نامہ اعمال بھی جیب سے برآمد ہو۔

شاہدہ حسن اور کینیڈا کی ’’دیسی ‘‘ زندگی

کینیڈا میں جہاں پڑوسی بھی ایک دوسرے کو ’’کھانے پینے ‘‘ کی چیز مفت نہیں بھیجتے ہم شکر گزار ہیں منیر پرویز عرف منیر شامی کے جو روزانہ ہماری ای میل کا پیٹ بھرتے ہیں بلکہ بعض اوقات گو ان کی ای میلز اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ہمارے ’’میل بکس‘‘ کو بد ہضمی کی شکایت ہو جاتی ہے انہوں نے yahooپر ادبی گروپ بنا کر ادب کی جو ’’الیکٹرانک ‘‘ خدمت شروع کی ہے اس پر اردو زبان کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیئے۔ البتہ ہمیں ان سے ایک شکایت بھی ہے کہ وہ اپنی ’’رائٹرز فورم‘‘ کی ہر تقریب اس دن رکھتے ہیں جس دن ہماری ’’جاب ‘‘ ہوتی ہے اور جس ویک اینڈ پر ہم چھٹی مناتے ہیں اس ویک اینڈ پر منیر جی کی تقریب کی بھی چھٹی ہوتی ہے ، 6جون کو منیر پرویز کی ایک ای میل سے ہمیں اطلاع ملی کہ شاہدہ حسن ٹورانٹو تشریف لا رہی ہیں اور 15جون کے رائٹرز فورم کے پروگرام میں بھی مدعو ہیں۔ حسب سابق یہ دن بھی ہماری جاب کا تھا اور ہم ایک بار پھر تقریب میں شرکت نہ کر سکے۔

شاہدہ حسن کی ٹورانٹو میں آمد کا سن کر ہمیں ایسا لگا کہ جیسے دوبارہ کراچی آ گئے ہیں۔ ہمیں پھر سے بھولی بسری یادوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ ہمیں وہ دن یاد آ گئے جب ریڈیو پاکستان کراچی کے طالب علموں کے پروگرام ’بزم طلبا، میں شاہدہ حسن نے صدر تقریب کی حیثیت سے ہمیں ایک تحریری مقابلے میں پہلا انعام دیا تھا اور پروگرام کے پروڈیوسر قمر جمیل اور ضمیر علی بدایونی نے ہماری تحریر کی کافی تعریف کی تھی۔ خواتین کے منہ سے اپنی تعریف ہم کبھی نہیں بھولتے مگر شاہدہ حسن کی تعریف اس لیے زیادہ یاد ہے کہ ہم شاہد ہ حسن اور فاطمہ حسن کے ہی عہد میں ان دونوں شاعرات کا کلام پڑھ پڑھ کر جوان ہوئے تھے۔ یوں تو ہم نے پروین شاکر کو بھی پڑھا مگر پروین شاکر کی شاعری ’’خوشبو ‘‘ کی حد تک سننے میں بھلی لگتی تھی اور ’’صد برگ‘‘ کا کلام اُس وقت اچھا لگتا تھا جب ہم پروین کو دیکھ بھی رہے ہوں۔ جب پروین شاکر کا تیسرا مجموعہ ’’خود کلامی‘‘ شائع ہوا تو تاجدار عادل نے باتوں ہی باتوں میں ہم سے پوچھا ’’خود کلامی کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟‘‘ ہم نے چھوٹامنہ اور بڑی بات کی اور بولے ’’خود کلامی در حقیقت پروین شاکر کی اپنے شوہر کے خلاف ’’بد کلامی ‘‘ ہے۔ ‘‘ یہ وہ دور تھا جب پروین کا اپنے شوہر سے جھگڑا عروج پر تھا صرف دو ماہ بعد ہم نے اپنا یہ جملہ پاکستان کے ایک مشہور اخبار میں ایک معروف شاعر کے انٹرویو میں لکھا دیکھا تو

ہم ہنس دئیے ، ہم چپ رہے کہ منظور تھا پردہ تیرا

فاطمہ حسن کے بارے میں کیا کہیں کیوں کہ وہ ہمارے بارے میں زیادہ کہہ سکتی ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم ملیر ہالٹ ، الفلاح سوسائٹی میں فاطمہ حسن کے پڑوسی رہ چکے ہیں اور اسی وقت اپنے گھر کی چھت پر پتنگ اُڑانے چڑھا کرتے تھے جس وقت فاطمہ اور ان کی بہنیں اپنی چھت پر ٹہلا کرتی تھیں۔ یہ انکشاف ہم پر کافی عرصے بعد ہوا تھا کہ فاطمہ حسن شاعرہ بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب فاطمہ ریڈیو پاکستان میں قمر جمیل سے ملنے آیا کرتی تھیں تو ہم اکثر ان کے سامنے آنے سے پرہیز کیا کرتے تھے۔

قصہ کوتاہ ،شاہدہ حسن کی ٹورانٹو آمد ہمارے لیے ایسی ہی ہے جیسے باسی کڑھی میں ابال آنا۔ ہماری یہ بے چینی ہمارے دوست شعیب سے چھپی نہ رہی۔ وہ بار بار ہم سے پوچھتا رہا کہ آخر کیا بات ہے ؟ کیا کوئی ’’دیسی‘‘ آنکھوں کو بھا گئی ہے۔ ہم نے اسے غصے کے ساتھ چپ کرایا اور بولے ’’خبر دار شاہدہ حسن کا نام ادب سے لو وہ ہمارے ملک کی قابل احترام شاعرہ اور پروفیسر ہیں۔‘‘ یہ سن کر شعیب نے معذرت کی اور بولا ’’اچھا تو تم شاعرہ شاہدہ حسن کا ذکر کر رہے ہو ، ان کے کلام کا تومیں بھی دیوانہ ہوں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں کینیڈا کی جس طرح عکاسی کی ہے ، اس کی وجہ سے میں ان کا معترف ہو گیا ہوں۔‘‘ یہ سن کر ہمارا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ شاہدہ حسن کے کلام میں کینیڈین معاشرت کا تذکرہ ، یہ پہلو تو اب تک ہم سے بھی مخفی تھا۔ ہم نے تجسس کے ساتھ شعیب سے پوچھا ’’ کیا تم ان کے چند ایسے شعر سنا سکتے ہو؟‘‘ شعیب نے جواب دیا ’’بالکل ! نہ صرف شعر بلکہ اس کی تشریح بھی سنا سکتا ہوں ، لو سنو شاہدہ حسن نے عرض کیا ہے :۔

کوئی بے سبب ہی قرار دے ،کہیں یہ نہ ہو

رگ جاں میں برف اتار دے ، کہیں یہ نہ ہو

اس شعر میں شاہدہ حسن نے کینیڈا کی سخت برف باری کا تذکرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایسی برفباری ہے جو رگ جاں میں اتر جاتی ہے اور انسان کو اندر سے بیقرار کر دیتی ہے کہ وہ آٹھ مہینے تک گھر میں کیسے قید رہے ؟

شعر اور محبوبہ کی تشریح کے ہم بھی ماہر ہیں مگر شعیب کی اس تشریح کو سن کر ہم مسکرا دئیے۔ شعیب نے دوسرا شعر سنانا شروع کیا :۔

کیا خاک سکون سے ناؤ چلی

جب موج ہی بے آرام چلی

اب رات سے مل کر پلٹوں کیا

جب صبح سے میں تا شام چلی

اس شعر میں شاعرہ نے ان پاکستانی امیگرنٹس کا تذکرہ کیا ہے جو بغیر کچھ جانے اور پوچھے کینیڈا چلے آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہاں ان کی ’’ناؤ‘‘ خوب مزے سے چلے گی مگر جب انہیں جاب کی تلاش میں صبح سے شام تک پیدل چلنا پڑتا ہے ، تب انہیں یاد آتا ہے کہ پاکستان میں ان کی زندگی کتنے سکون سے بسر ہوتی تھی۔

شعیب اپنے ترنگ میں آ چکا تھا اس نے تیسرا شعر سنانا شروع کیا

رفو میں کرتی رہی پیراہن کو اور ادھر

گماں اسے میرے زخموں کے اندمال کا تھا

اس شعر میں شاعرہ نے یہ بتایا ہے کہ کینیڈا آ کر پاکستانیوں کا کیا حال ہوتا ہے ؟ وہ برسوں تک کس مفلسی میں زندگی گزارتے ہیں اور ادھر پاکستان میں اس کے عزیز رشتہ دار سمجھتے ہیں کہ وہ بڑی شاہانہ زندگی گزار رہا ہے۔

اس بار ہم نے زور کا قہقہہ لگایا اور سوچنے لگے اب تو شاہدہ حسن سے ٹورانٹو میں ملنا نہایت ضروری ہو گیا ہے تاکہ ان سے پوچھا جا سکے کہ ان کے اشعار میں اتنی ’’عالمگیریت ‘‘ کیسے آئی ؟

حسیناؤں کو بھون کر کھانے کا فیشن

ایک خبر کے مطابق میکسیکو کے ایک ادیب و شاعر ہوزے لوئس پر اپنی 32سالہ گرل فرینڈ کو قتل کرنے کے بعد فرائی پین میں بھون کر کھانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ شاعر کے ریفریجریٹر سے محبوبہ کے جسم کے ٹکڑے بوٹیوں کی شکل میں بھی بر آمد ہوئے ہیں۔ خبر کافی ہولناک اور دنیا بھر کے ادیبوں اور شاعروں کے لئے دردناک و خطرناک ہے۔

اب تک تو یہی سنتے آئے تھے کہ شاعر و ادیب نسوانی حسن پر جان چھڑکتے ہیں۔ اپنی محبوبہ کی تعریف میں الفاظ کا ذخیرہ استعمال کر بیٹھتے ہیں۔ محبوبہ کے اعضائے جسمانی کی توصیف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا بیٹھتے ہیں۔ محبوبہ کے حُسن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے غزلوں اور نظموں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں مگر یہ پہلا شاعر و ادیب دیکھا جو اپنی محبوبہ ہی کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بھون کر کھا گیا۔

اس خبر سے یقیناً وہ خواتین بھی انتہائی دہشت زدہ ہوئی ہوں گی جو شاعروں کی فین اور ان کی نظموں کا مرکز ہوں گی۔ اب وہ شاعروں سے ملیں گی تو یقیناً سب سے پہلے یہ دیکھیں گی کہ آج اُن کا من پسند شاعر قلم ہاتھ میں لیے بیٹھا ہے یا خنجر۔ وہ شاعر کی میز پر اپنے لیے لکھی گئی نظم ڈھونڈنے سے پہلے اس کا فریج چیک کریں گی کہ کہیں وہاں کسی حسینہ نازک کا دل یا نازک انگلیوں کے ٹکڑے تو نہیں۔ وہ شاعر کے پاس بیٹھنے سے پہلے اندازہ لگائیں گی کہ ان کا شاعر دلنواز آج رومانٹک موڈ میں ہے یا ’’بار بی کیو ‘‘ کھانے کے موڈ میں۔ اس خبر کے بعد شاعروں کی خواتین فین کی تعداد میں یقیناً کمی واقع ہو جائے گی۔ گرل فرینڈ بننے سے پہلے ہر حسین لڑکی اپنے بوائے فرینڈ سے یہ ضرور پوچھے گی ’’ کہیں تم شاعر اور ادیب تو نہیں ؟‘‘ کوئی اور محبوبہ کسی شاعر سے کہہ رہی ہو گی ’’گوشت میں تمہیں چکن ، بیف اور مٹن کے علاوہ گرلز کی گرل(Grill)تو پسند نہیں ؟‘‘

اگر یہ خبر گھر ، گھر پہنچ گئی تو ہمارے شاعروں کی بچی کھچی شہرت بھی کتنی متاثر ہو گی، اس کا اندازہ کسی سروے رپورٹ ہی سے لگایا جا سکے گا۔ گیلپ والے اپنی سروے میں بتائیں گے احمد فراز کی خواتین 25فیصد ، فرحت عباس شاہ کے فین میں 30فیصد اور سحر انصاری کی خواتین فینز میں ایک فیصد کمی ہو گئی ہے جس کے بعد سحر انصاری کسی خاتون کے ساتھ نہیں دیکھے جائیں گے۔

احمد فراز کی تازہ ترین غزل پڑھتے ہوئے ان کی تازہ ترین محبوبہ ان کا گلاس چیک کر رہی ہو گی کہ اس میں الکحل کی مقدار زیادہ ہے یا کسی حسینہ کے خون کے سرخ جسیمے۔ محمود شام اور جاوید صبا ہر خاتون کے سامنے صفائی پیش کر رہے ہوں گے کہ ہم فل ٹائم جرنلسٹ ہیں اور صرف پارٹ ٹائم شاعر۔ پیرزاد ہ قاسم کہہ رہے ہوں گے ’’ آپ تو خواہ مخواہ گھبرا رہی ہیں میرے لہو میں جامعہ کراچی کا چانسلر زیادہ دوڑ رہا ہے اور شاعر کم‘‘ وصی شاہ وضاحت پیش کر رہے ہوں گے ’’ارے ارے یہ میں غزل نہیں ، ٹی وی ڈرامے کا اسکرپٹ لکھ رہا ہوں۔‘‘ تسلیم الہیٰ زلفی اپنے آپ کو عالمی شاعر کے بجائے مقامی کالم نگار کہلانے پر زور دے رہے ہوں گے۔ اشفاق حسین نے اپنے کمرے میں شاعری کی کتابیں چھُپا دی ہوں گی اور تنقید نگار و ٹی وی ہوسٹ کی تختی لگا دی ہو گی۔ قمر علی عباسی میکسیکو کا سفر نامہ لکھنے ’’اسپانسر ہوائی ٹکٹ ‘‘ پر جب میکسیکو پہنچیں گے تو ان کے ہوٹل کی میزبان کہہ رہی ہو گی ’’ذرا دور ہٹ کر کھڑے ہوئیے آپ سے ادیب اور پاکستانی ہونے کی بو آ رہی ہے۔‘‘ ضامن جعفری اپنی عینک کے اوٹ سے کسی ’’صنف فربہ‘‘ سے کہہ رہے ہوں گے ‘‘ توبہ کیجئے ، میں شاعر نہیں ، مزاحیہ کالم نگار ہوں۔‘‘

غرض یہ کہ میکسیکو کے اس ’’محبوبہ خور ‘‘ شاعر و ادیب نے دنیا بھر کے ادب نواز حلقوں میں سنسنی پھیلا دی ہے۔ ادیب و شاعر ای میلز کے ذریعے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں گے ’’یار! تم تو سینئر شاعر ہو، یہ بتاؤ محبوبہ کا گوشت زیادہ مزے دار ہوتا ہے یا بیوی کا ؟‘‘ ایک جونیئر شاعر دوسرے جونیئر ادیب سے کہہ رہا ہو گا ’’ یار نمک مرچ کے ساتھ رانیں زیادہ مزہ دیتی ہیں یا کالی مرچ کے ساتھ بریسٹ‘‘ خدا نظر بد سے بچائے حسین عورتوں کو۔ اگر انہیں بھوننے کا فیشن عام ہو گیا تو دنیا میں حُسن کی جو کمی ہو گی وہ انڈیا اور چین کی اربوں آبادی بھی پورا کرنے سے قاصر نظر آئے گی۔ فریج حسین ’پارچوں‘ سے بھرے ہوں گے اور ہمیں پی آئی اے کی ایئر ہوسٹس دنیا کی خوبصورت ترین عورت نظر آ رہی ہو گی۔

قصہ سعودیہ میں صحافیوں کے لیے زمینیں ملنے اور عمران و قاضی کے بائیکاٹ کا

اکیلے مشرف جی نے سب کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ جب تک ایمرجنسی نہیں لگائی تھی مشرف اور ان کے مصاحبین ناچ رہے تھے اب ایمرجنسی اور جنوری کے الیکشن نے سب کو نچا رکھا ہے۔کسی کی کوئی کل سیدھی نہیں ، کل کا کام بھی آج نمٹایا جا رہا ہے۔ہر کوئی بے چین و بے قرار ہے۔ کیا کریں کہ نام اونچا ہو جائے ‘‘ ووٹ مل جائے ‘‘ ووٹ ملے نہ ملے کرسی مل جائے۔ دونوں بھائی بھاگے دوڑے آئے تھے ،اب کے لینڈنگ بھی ہو گئی مگر … انتخابی عمل سے باہر کر دئیے گئے۔ ’’ن ‘‘ الیکشن لڑے گی تو اپنی بنائی ہوئی ’’اے پی ڈی ایم‘‘ سے ہی باہر نکال دی جائے گی۔بے نظیر اور الطاف ’’فل تیار ‘‘ ہیں دونوں نے تہیہ کر لیا ہے ،اب فوج کے بغیر نہیں رہیں گے۔ دونوں نے ایک ایک ’’دُم‘‘ خرید لی ہے ، سر بھی ہلائیں گے اور دُم کا دَم بھی لگائیں گے۔فضل الرحمان اور اے این پی نے بھی راہ منتخب کر لی ہے جو سیدھی اسلام آباد سے جا ملتی ہے۔

اب بد معاش رہ گئے صرف دو۔ عمران اور قاضی جو الیکشن کا ’’بائی۔کاٹ‘‘ چاہتے ہیں اور ان کے چاہنے یا نہ چاہنے کی مشرف جی کوکوئی فکر نہیں۔ وہ تو آئینی ترامیم میں لگے ہوئے ہیں تاکہ اپنے آپ کو پورا پورا تحفظ دے سکیں۔انہوں نے 15نومبر کو ایمرجنسی اٹھالی ہے۔اب فوج بھی اُس طرح ان کے ساتھ نہیں۔ ایسا نہ ہو بھاری ایمرجنسی کے اٹھانے کے چکر میں کوئی چوٹ لگ جائے۔ احتیاطی تدابیر سوچی جا رہی ہیں۔ سنا ہے ایک بھاری بھرکم اناؤنسمنٹ ہونے والی ہے ، جیو تادم تحریر 37دن سے زیر حراست ہے۔ اب صرف پارٹی منشور سامنے آ رہے ہیں۔ سنا ہے سب سے زیادہ امید وار پیپلز پارٹی نے کھڑے کیے ہیں مگر یہ بھی خبر ہے کہ پنجاب میں تگڑے امیدوار مسلم لیگ ’’ق‘‘ کے ہیں اور ’ن‘‘ ، والے بھائیوں نے الیکشن لڑا تو فائدہ پیپلز پارٹی کو ہو گا۔ اس بار ایم کیو ایم کی کچھ سیٹیں بڑھا دی جائیں گی اور بڑھی ہوئی سیٹوں کے ساتھ ان کا ظرف چیک کیا جائے۔ یہ بھی سنا گیا ہے کہ لندن میں دو مخالف سیاست دانوں کی ہم خیال سابق بیویاں ’’جلوس‘‘ نکالنے کی کوشش کریں گی۔

بائیکاٹ کی قیادت عمران اور قاضی حسین مل کر ، کریں گے۔ بوجھ آدھا آدھا بانٹا جائے گا۔ ’’بائی‘‘ کا بوجھ عمران کے کاندھے پر جبکہ قاضی ’’کاٹ‘‘ کریں گے۔اس بار مسرت شاہین تو نہیں البتہ میرا الیکشن لڑنے کے لئے بڑا زور لگا رہی ہے۔ سنا ہے الطاف بھائی کو روز ’’کالیں ‘‘ کر رہی ہیں کہ پنجاب سے اُسے بھی لڑا دیا جائے۔ فاروق ستار کی سفارش بھی میرا کے ساتھ ہے ، لگتا ہے دو ایکس ہزبینڈ میرا کو کچھ بنا کر ہی چھوڑیں گے۔

پاکستانیوں نے فی الحال سائٹوں پر جا کر لطیفے پڑھنے چھوڑ دئیے ہیں ، آج کل ہنسنے ہنسانے کے لیے صرف پارٹی منشور ہی پڑھے جا رہے ہیں ’’ق‘‘ لیگ کے منشور میں درج ہے ’’پہلے دین پھر پاکستان۔ ‘‘ گویا چوہدری شجاعت حسین کو الیکشن کے نام پر دین یاد آ گیا ہے۔ ’’ق‘‘ لیگ نے اپنا انتخابی نعرہ رکھا ہے ’’جیو اور جینے دو‘‘ شجاعت سمجھ رہے ہیں اب ’’جیو‘‘ مستقل بند ہو گیا ہے اور اس کی ’’نیم پلیٹ ‘‘ خالی پڑی ہے۔ ان کے منشور میں یہ بھی درج ہے کہ ملک میں سائیکل کلچر کو فروغ دیا جائے کیوں کہ خودکش بمبار سائیکل کی سواری استعمال نہیں کرتے۔

دوسری جانب وکلاء کو جیل سے نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ سنا ہے اگلے ہفتے تک اعتزاز اعزاز کے ساتھ رہا ہو جائیں گے اور بڑے وکیل صاحب حج پر چلے جائیں گے کیوں کہ خرچہ سرکاری ہے۔ عاصمہ جہانگیر نئی کوڑی لائی ہیں کہ منیر ملک کو جوس میں ڈال کر زہر دیا گیا ہے۔ سیاسی جوس پینے پلانے والے سب ہوشیار ہو جائیں۔ غرض یہ کہ ملک بھر میں ہلچل ہے کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ تازہ تازہ سابق ہونے والے وزیر اعظم تک بے چین ہیں ، کوئی کہتا ہے ٹکٹ نہیں ملا ، کسی کا کہنا ہے ٹکٹ کٹ گیا۔واشنگٹن جا رہے ہیں وہاں کے ایک شاپنگ مال میں Toysکی دکان کھول لی ہے۔

پاکستان اتھل پتھل ہے اور ادھر کینیڈا کے پاکستانی چین و سکون میں ہیں۔ امجد صابری کی قوالیاں سنی جا رہی ہیں ، طباق کے کھانے کھائے جا رہے ہیں ، دوست اور ہوسٹ مزے سے ریڈیو شو کر رہے ہیں۔ثمینہ بکر عید ڈنر کھلانے جا رہی ہیں ، فیاض حیدر دو کتابوں ، چار بچوں اور ایک بیوی کے ساتھ سالگرہ منا رہے ہیں۔ہاں دوستوں ، دشمنوں کے دلوں میں کھد بد ہے تو صرف ایک کہ بدر منیر چوہدری اسی سال حج کرنے کیوں گیا ہے ؟ کہیں اللہ میاں سے ’’جیو ‘‘ کھلوانے تو نہیں گیا ہے ؟ کہیں افتخار چوہدری اور بدر منیر چوہدری کا مل کر شیطان کو کنکریاں مارنے کا پروگرام تو نہیں ؟ ایک نے تو راز فاش ہی کر دیا کہ اس بار سعودیہ کے کنگ ، ٹائیوں والے صحافیوں میں زمین بانٹ رہے ہیں اور قونصل جنرل پاکستان کی سفارش پر بدر کو سعودیہ کے لیے کینیڈا بدر کر دیا گیا ہے۔ اس بات پر جی کرتا ہے کہنے والے کا سوشل ’’بائی کاٹ ‘‘ کر دیا جائے۔

شوق کی تشنگی ، تضاد کی زندگی … شاہدہ حسن

یہ مضمون 19جولائی 2003ء کی شام رائٹرز فورم کے زیر اہتمام ممتاز شاعرہ شاہدہ حسن کے ساتھ منائی جانے والی شام میں پڑھا گیا

کینیڈا میں آج کی شام میرے لیے ایک مختلف شام ہے۔ آج میں ٹورانٹو کی خوبصورت بلڈنگوں اور نمائشی جسموں کے بجائے ایک ایسی شاعرہ کو دیکھ رہا ہوں جس کے سرہانے تارہ ہوتا ہے اور جو لوگوں میں پھول بانٹنا پسند کرتی ہے۔ جس شاہدہ حسن کو میں نے 1955میں اس کی پہلی کتاب سے پرکھا تھا ، آج 2003میں وہ اپنی نئی کتاب سے نئی شاہدہ کے روپ میں میرے سامنے ہے۔

کہتے ہیں کہ محبوبہ کو دس ، پندرہ سال بعد دیکھو تو خوشی ہوتی ہے کہ چلو اچھا ہوا یہ میری نہیں کسی اور کی بیوی ہے۔ گذرتے وقت کے ساتھ عورتیں اپنا وزن بڑھاتی ہیں اور حسُن کھوتی ہیں۔ شاہدہ اس کے برعکس نکلیں کیوں کہ ان کا حُسن میک اپ بکس سے نہیں قلم کی نوک سے عیاں ہوتا ہے۔ ان کی نئی غزلیں اور نظمیں ذات کے اظہار سے شرو ع ہو کر کائنات کی وسعت کا عکس بن جاتی ہیں۔ ان کا نیا مجموعہ ’’ یہاں کچھ پھول رکھے ہیں ‘‘ ایک ایسی دستاویز ہے جس میں عورت کے شعور ، خاندان کی کہی ان کہی، زمانے کی بدلتی اقدار اور مشرق و مغرب کی تہذیبی کشمکش کی داستانیں انتہائی سلیقے سے رقم کی گئی ہے۔ اکثر عورتیں گھر داری کا سلیقہ سیکھنے میں ہی ساری زندگی صَرف کر دیتی ہیں مگر شاہدہ نے صرف تین عشرے میں دو کتابیں اور تین لائق بیٹے دے کر ثابت کر دیا ہے کہ ان میں ’’تخلیقی ہنر ‘‘ کی کتنی بہتات ہے۔

مرد شاعر ہو تو شعر کہنے میں اتنا وقت خرچ کر دیتا ہے کہ باقی خرچوں کے لیے اس کے بیوی ، بچے اپنا سر پیٹتے رہ جاتے ہیں اور اکثر ایسے شاعر کے شعر سن کر سامعین اپنا سر پیٹ لیتے ہیں۔ شاہدہ حسن نے زندگی اور اپنے ذہن کو اس خوبصورتی سے برتا ہے کہ کسی کو بھی ان سے کوئی شکایت نہیں۔ جب وہ اپنی ذات ، اپنے دل ، اپنی خواہشوں کی بات کرتی ہیں تو ان کے اشعار کچھ یوں ہوتے ہیں :۔

عجب اِک تضاد کی زندگی مِرے پاس ہے

کبھی اشک ہیں ، تو کبھی ہنسی مرے پاس ہے

یونہی بے جواز بڑھی نہیں تری سمت مَیں

کسی شوق کی کوئی تشنگی مرے پاس ہے

ملے نہیں ہیں مدتوں سے میرے خیریت طلب

مری طرح سپرد ماہ و سال ہو گئے ہیں کیا؟

اکیلی کیوں ہوں دل کے راستے میں

سبھوں کے درمیاں ، میں کیوں نہیں ہوں

اور یہی شاعرہ جب ذات کے حصار سے کنبے کی جادو نگری میں پہنچتی ہے تو توازن کا سلیقہ اس کے شعروں کو یہاں بھی ترو تازہ اور منفرد رکھتا ہے۔

چھوٹی چھوٹی رنجش پہ کنبہ بٹ جاتا ہے

ایسی باتیں ہوتی ہیں بس دل کٹ جاتا ہے

اُجلا اُجلا رکھتی ہوں ہر چیز کو میں پھر بھی

اکثر مٹی میں یہ سارا گھر اَٹ جاتا ہے

کنبے سے ، گھر کے دالان سے ، اپنی اندر کی آنکھ سے جب وہ اپنے وطن کو ، اپنی دنیا کو دیکھتی ہیں تو ان سے پوچھنا پڑتا ہے ’’آپ کی نظر کا چشمہ کون سا ہے ؟‘‘ کس چشمے سے اپنے شعروں کو غسل دیتی ہیں۔

جنگل سا بنا لیا گیا ہے

اس دیس کو کھا لیا گیا ہے

:جو سنگ بھی راہ میں پڑا تھا

ہاتھوں میں اٹھا لیا گیا ہے

شہر میں ہو گئے ہیں پتھر سب

مُڑ کے اب کوئی دیکھتا بھی نہیں

یہ کیسی بستیاں ہیں ، جن کی دیواروں پہ ہر سو

اندھیروں کی مسلسل حکمرانی دیکھتی ہوں

شاہدہ نے کینیڈ ا آ کر ہم سب پر احسان کیا ہے۔ ہم تو اپنے سرہانے تارے رکھنا اور پہلو میں پھول اور کتاب دیکھنا بھول ہی گئے تھے ۔ ہمارے سرہانے اب تو الارم کلاک ہوتا ہے ، ہم دل کی ٹک ٹک بھول کر کارخانوں کی ٹھک ٹھک میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شاہدہ اور ان کی نئی کتاب نے ہمیں پھر سے اپنے باطن کی ، اپنی خواہشو ں کی ، اپنے قلم کے وظیفے کی یاد دلا دی ہے۔ انہوں نے ہمارے لیے کچھ پھول رکھے ہیں۔ ان پھولوں میں اتنی خوشبو اور مہک ہے کہ میں آج ٹرین میں پہلی بار چہرے پڑھنا بھول کر ان کی کتاب پڑھتا رہا۔ خوش قسمت ہے وہ گھر اور گھر والے جہاں شاہدہ حسن رہتی ہیں۔ مردوں کو اکثر ذہین عورتوں سے ڈر لگتا ہے مگر شاہدہ کی ذہانت اور ان کی سوچ کی خوشبو ہمیں ڈراتی نہیں ، مہکاتی ہے۔ ان کے لہجے سے عورت کی بغاوت کی نہیں ، شانہ بشانہ چلنے کی آرزو جھلکتی ہے۔

شاہدہ حسن کا ایک شعر مجھے اپنے دل کی آواز لگتا ہے

اپنے دادا پر ہی گیا ہے میرا بیٹا بھی

پہلے سچ کہتا ہے پھر اس پر ڈٹ جاتا ہے

میرا ایک دوست شعیب میرے منہ سے بار بار یہ شعر سننے کے بعد بولا ’’مگر یار! میرا معاملہ بالکل اُلٹ ہے ، میں تو کہتا ہوں

اپنے نانا پر ہی گیا ہے میرا بیٹا بھی

پہلے جھوٹ بولتا ہے پھر اس پر ڈٹ جاتا ہے

ابھی میں ’’نانا‘‘ بنا ہوں نہ ہی ’’دادا‘‘ اس لیے میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آج سے میرے سرہانے الارم کلاک کے علاوہ شاہدہ حسن کی کتاب بھی ہو گی۔

فیاض حیدر کی کتاب اور بائیں ہاتھ کا فرشتہ

میرے اور فیاض حیدر کے ’’ایج گروپ‘‘ میں جہاں لوگ اپنی دوسری شادی کی تقریب منعقد کرتے ہیں ، فیاض بڑی فیاضی سے آج اپنی دوسری کتاب کی تقریب رونمائی کر رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کینیڈا میں ان کا کالم سب سے زیادہ پڑھا اور ان کا فون سب سے زیادہ سنا جاتا ہے۔ جو باتیں وہ اخلاقی قیود کی وجہ سے لکھ نہیں پاتے وہ فون پر بر ملا اور دو ٹوک کہہ دیتے ہیں۔ وہ گفتار اور قلم کے ’’غازی‘‘ ہیں اور کینیڈا میں رہنے کی وجہ سے اب تک ’’شہید‘‘ کا درجہ حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ میں شکر گزار ہوں فیاض حیدر کا کہ انہوں نے مجھے اپنی دونوں کتابوں سے نوازا جس کی وجہ سے میری لائبریری میں اچھی اور بری کتابوں کا توازن قائم ہوا۔

فیاض حیدر کا قلم بڑا کٹیلا ، رواں اور بے ساختہ ہے۔ ان کے جملے ، جملے نہیں بلکہ حملے ہوتے ہیں۔ بے نظیر کی ریلی میں بھی شاید اتنے لوگ زخمی نہ ہوئے ہوں جتنا کہ فیاض حیدر کی دونوں کتابوں میں درج ’’بے نام‘‘ زخمیوں کی تعداد ہے ، جن کی شناخت لوگ محفلوں میں بیٹھ کر یا پھر فیاض حیدر کو دیکھ کر کھڑے ہو کر کرتے ہیں۔ دراصل فیاض نہیں چاہتے کہ ان کی کمیونٹی میں ہر ایرا غیرا نتھو خیرا ، غلط کام کرتا پھرے ، وہ یہ ذمہ داری بھی اپنے سر لینا چاہتے ہیں۔ فیاض کی وجہ سے کینیڈا میں تعینات الٹے ہاتھ کا فرشتہ فارغ بیٹھا ہے ، اس کا کہنا ہے کہ جب اللہ میاں ریکارڈ طلب کریں گے تو فیاض حیدر کے کالمز تھما دوں گا۔

تا دم تحریر مجھے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ فیاض خواتین کے فین ہیں یا خواتین فیاض کی لیکن سچ یہ ہے کہ فیاض کے کالم خواتین زیادہ شوق سے پڑھتی ہیں ، یہ جاننے کے لئے کہ ان کا بوائے فرینڈ یا ہز بینڈHis-Bandاس ہفتے کسی کریمنل ایکٹی ویٹی میں ملوث تو نہیں رہا اور شاید اسی وجہ سے وہ بقیہ حالات کے لیے فیاض کو فون کرنے سے بھی نہیں چوکتیں …

فیاض کی دونوں کتابیں بڑی مقبول ہیں۔ میں آپ کو اس کی تین مثالیں پیش کرتا ہوں۔ ٹورنٹو پولیس ان کی دونوں کتابوں کا انگریزی ترجمہ کروا رہی ہے۔ لوگ شادی بیاہ سے پہلے ان کی دونوں کتابیں ضرور پڑھتے ہیں تاکہ ان کی بیٹی غلط گھرانے میں نہ چلی جائے۔ ان کی کتابیں پڑھ کر کئی لوگوں نے پاکستان سے کینیڈا آنے کا ارادہ ترک کر دیا تاکہ بُری صحبت سے بچا جا سکے۔

فیاض حیدر کی سب سے اہم خصوصیت ان کا محنتی ہونا ہے۔ جو لوگ انہیں شہر میں تقریبات منعقد کرتے ، کالم لکھتے ، ٹی وی شوز کرتے اور حسین چہروں کو پک اینڈ ڈراپ کرتے دیکھتے ہیں ، وہ حیران ہوتے ہیں کہ فیاض حیدر جاب کب کرتا ہے ؟ اور جو لوگ فیاض حیدر کے ساتھ جاب کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ تم باقی کام کیسے کر لیتے ہو؟ فیاض حیدر خوش نصیب ہیں کہ انہیں ایسی بیوی ملی جو افواہوں اور تصویروں پر آنکھ اور کان نہیں دھرتیں مگر گھر کے بھیدی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ صرف ہاتھ دھرتی ہیں۔اگر شہر میں فیاض حیدر جیسا دوسرا کالم نگار پیدا ہو جائے تو شا ید یہ راز بھی سامنے آ جائے۔

ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں اور فیاض حیدر کی دوسری کتاب کے بھی دو رخ ہیں اور ہر رخ پر کُل ملا کر ان کی چھ تصویریں ہیں ، جس کے بعد مجھے کتاب کا نام سمجھ میں آ گیا ’’مذاق تو مذاق ہے ‘‘

آخر میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ فیاض کینیڈا میں رائٹرز اور ایکٹرز کی آبرو ہیں۔ پارکنگ لاٹ ہو رائٹرز اور ایکٹرز گلڈ، وہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں ، سوائے اپنے گھر کے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کبھی کبھار دو گھنٹے کے لیے گھر چلے جاتے ہیں تو جس طرح پاکستانی جنرل مشرف سے پوچھتے ہیں وردی کب اتارو گے ، بیگم فیاض ، فیاض حیدر سے ’’شائستہ‘‘ لہجے میں پوچھتی ہیں ’’فیاض! ٹائی اور سوٹ کب اتارو گے ؟‘‘

( یہ مضمون فیاض حیدر کی دوسری کتاب کی تقریب رو نمائی میں پڑھا گیا)

’’بینڈ باجا‘‘ ۔نام کے سوا بہت کچھ اچھا ہے

پاکستان میں تھے تو ’’بینڈ ماسٹر‘‘ کو سنتے رہے ، کینیڈا آئے تو ’’بینڈ باجا‘‘ سن رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اوّل الذکر ’’کمال‘‘ کا تھا اور موخر الذکر ’’ جمال‘‘ کاہے جس کے پہلے ’’معین‘‘ بھی لگانا پڑتا ہے۔ ایک بار ہم نے مہین اختر کے بارے میں کچھ لکھا تھا ، کمپوزر نے کمالِ مہربانی سے اسے ’’مبین اختر‘‘ کر دیا۔ پوچھنے پر بڑی سنجیدگی سے جواب دیا ’’شخصیت پر مہین اختر زیادہ سوٹ کرتا ہے ‘‘ امید کرتے ہیں کہ معین جمال کے لیے ایسی غلطی نہیں ہو گی۔

ایسے میں جبکہ کینیڈا کے دیسی ریڈیو پروگراموں پر سے ہمارا اعتبار اٹھتا جا رہا تھا ’’بینڈ باجا‘‘ نے ہمیں تسلی دی اور ریڈیو کے آگے کان دھرنے کا شوق جگایا ورنہ اس سے پہلے تو جی کرتا تھا کہ ان ریڈیو والوں کے سامنے جا کر ’’دھرنا ‘‘ ماریں۔ لوگ ریڈیو پر آتے ہیں تو آواز میں شعوری طور پر دھیما پن ، نرماہٹ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،بعض الفاظ کو چباتے بھی ہیں۔ اس کے برعکس معین آواز اور الفاظ دونوں کو تیز رکھتے ہیں۔ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ الفاظ آگے بھاگ رہے ہیں کہ آواز، خصوصاً ڈرائیو کرتے وقت گاڑی کو بریک لگایا جا سکتا ہے مگر معین جمال کی رفتار کلام کو نہیں۔

’’لفظ ‘‘ ایف۔ ایم‘‘ کا صحیح مفہوم معین ہی کو معلوم ہے یعنی ’’ فل میوزک‘‘ وِد بینڈ باجا۔ معین کو سننے والے یہی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ’’لوری‘‘ کے بعد کچھ نہیں سنا بلکہ کسی کی نہیں سنی، سوائے ہندوستانی موسیقی کے۔ ساؤتھ ایشین موسیقی کے بارے میں ان کی معلومات نے بڑے بڑوں کو مات دے دی ہے۔ ہر گانے سے پہلے گانے کی تاریخ اور گلوکار کا جغرافیہ بتانے کا منفرد انداز معین کے سامعین کو بے حد بھاتا ہے۔ خصوصاً جب وہ نغمے کی ردھم اپنے منہ سے پلے کرتے ہیں تو جی کرتا ہے کہ اسے بار بار ’’ ری پلے ‘‘ کیا جائے۔ اگر یہ کام معین کسی انگریزی پروگرام میں کرتے تو ممکن تھا کہ ان کا منہ بیسیوں بار چوما جا چکا ہوتا۔

معین ہمہ صفت ہیں اور پارہ صفت بھی۔ جب وہ ’’بش‘‘ کو یاد کرتے ہیں تو مچل مچل کر ایسی ایسی دلیلیں دیتے ہیں کہ اگر بش کو اردو آتی ہوتی اور وہ تین بار ’’بینڈ باجا ‘‘ سن لیتے تو اپنی حرکتوں پر تین حروف بھیج کر سادھو بن جاتے اور بقیہ زندگی معین جمال کی پیش کردہ ’’سی ڈیز‘‘ سن کر گزارتے۔ رزم حق و باطل میں فولاد بن جانے والا ’’ معین‘‘ حلقۂ یاراں میں ریشم کی طرح نرم نظر آتا ہے خصوصاً جب حلقۂ یاراں میں ’’مشتہرین ‘‘ بیٹھے ہوں۔ پاکستان میں ایڈورٹائزنگ فیلڈ سے وابستگی کا پورا پورا فائدہ معین جمال نے کینیڈا میں اٹھایا ہے۔ کارپوریٹ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے ایڈ بنانے والے معین یہاں ان گروسری اسٹورز اور ریسٹورنٹ والوں کو سلوگن ، برانڈ نیم اور جنگلز کی خوبیاں سکھا رہے ہیں جو ’’ ایڈ ‘‘ اور ’’ایڈز‘‘ کو ایک ہی بیماری سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں ایک نمبر کے لوگوں کو ’’ دو نمبرز‘‘ کبھی آگے نہیں آنے دیتے تھے۔ کینیڈا میں نمبر ایک والوں کا تو نمبر ہی نہیں آتا۔ ہجرت کرنے والی نسل ، اگلی نسل کی ترقی کے خواب دیکھتے ہوئے برف اور سسٹم تلے آنکھیں موند لیتی ہے۔ معین لکّی ہے کہ اپنے اندر چھپے ’’گلوکار ‘‘ کو بھی نمایاں کر رہے ہیں۔ جنگلز گا رہے ہیں ،حسن شہید مرزا اسٹائل میں آواز کی چھب دکھلا رہے ہیں اور تو اور بنگالی زبان سیکھنے کا فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ا تنے فائدے تو ’’معین قریشی‘‘ کو بھی پاکستان آ کر نہیں ملے تھے جتنے کہ معین جمال کو کینیڈا آ کر ملے ہیں۔

ایشین بندے امریکہ ، یورپ، کینیڈا آ جائیں تو اکثر برتن مانجھتے ہیں ، معین یہاں ٹیلنٹ کو مانجھ رہے ہیں۔ علی احمد اس کی ایک پکّی اور سونیا صدیقی کچّی مثال ہیں۔ وہ اکثر اسپانسرز کو براڈکاسٹر بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ علی احمد کو بینڈ باجا سے اعتماد ملا ہے اور سونیا کو اعتماد کے ساتھ کلائنٹس بھی۔

آج کل ’’بینڈ باجا ‘‘ کی ’’سی ڈیز‘‘ کا بھی چرچا ہے۔ جو لوگ 70کی دہائی میں کینیڈا آ گئے تھے اور مرحوم گلوکاروں کی گائیکی سے محروم ہو گئے تھے ، معین جمال اپنی سی ڈیز میں ایسے ایسے گانے چن چن کر ان سبھوں کو سنا رہے ہیں۔ یادِ ماضی کبھی کبھی سریلا بھی ہو جاتا ہے بشرطیکہ معین جمال کی ’’سی ڈیز‘‘ آپ کے پاس ہوں۔

معین جمال کے پاس یادوں کا بھی ایک ذخیرہ ہے۔ جب وہ اپنے علم اور تعلقات کے ذخیرے میں سے کوئی واقعہ چن کر سامعین کے سامنے پیش کرتے ہیں تو جھومنے والے جھومتے ہیں اور جلنے والے جلتے ہیں۔ ان کا ’’بینڈ‘‘ کسی مشرقی ’’ ہسبینڈ‘‘ کی طرح ہے جو اپنے ’’گھریلو کمیونٹی‘‘ کے ہر فرد کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور ’’باجا‘‘ مغربی شوہر کی طرح جو کبھی اِدھر منہ مارتا ہے اور کبھی اُدھر۔ ’’بینڈ باجا‘‘ میں بہت کچھ اچھا اور منفرد ہے سوائے اس کے نام کے۔ ممکن ہے اس بات سے معین جمال اتفاق نہ کریں کیوں کہ وہ ’’اتفاق‘‘ سے براڈ کاسٹر نہیں بنے۔ اس کے لئے انہوں نے بڑا دَم لگا یا ہے اور بہت سوں کا دَم مارا ہے۔ ہماری بہت ساری وہ دعائیں معین جمال اور علی احمد کے لیے جو خود ہمارے کام نہیں آئیں۔

کینیڈا میں دیسی ریڈیو کے مزے

کینیڈا میں اُردو ریڈیو سننے کا الگ مزہ ہے۔ ایسا مزہ آپ کو پاکستان میں ریلوے اسٹیشن پر تو مل سکتا ہے مگر کسی ریڈیو اسٹیشن پر نہیں۔ یہاں ریڈیو پروگراموں میں سب کچھ ہوتا ہے سوائے ترتیب اور پیش کے۔یہاں کے لائف اسٹائل نے ریڈیو پروگراموں میں بھی ایک منفرد سی چاشنی پیدا کر دی ہے۔ یہاں ریڈیو پروگرام کرنے والا سرکار، کی نہیں صرف اپنی تعریف کرتا ہے یا پھر ان مشتہرین کی جو ہزاروں سیکنڈوں کا سودا صرف چند ڈالرز میں کرتے ہیں۔آٹے دال کا صحیح بھاؤ یہاں ریڈیو والے ہی بتاتے ہیں۔ا گر آپ چند دن ، چند ریڈیو پروگرام باقاعدگی سے سن لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کون یہاں کیا بیچتا ہے اور کس کی کیا اوقات ہے ؟

وقت کتنا قیمتی ہوتا ہے یہ کوئی ان سے پوچھے جو یہاں اے ایم یا ایف ایم پر ریڈیو پروگرام کرتے ہیں۔ گانے ، باتیں ، قصے کہانیاں یہاں ریڈیو کے لیے اہم نہیں ، اہم تو صرف اشتہار ہیں جن سے سب کا پیٹ بھرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے چارہ ریڈیو پروڈیوسر اشتہارات پڑھتے پڑھتے جب تھک جاتا ہے تو سماعتوں کا ذائقہ بدلنے کے لئے گانے کے ’’دو بول‘‘ لگا دیتا ہے یا پھر فون پر کسی سے بات کر لیتا ہے۔

اس قدر مشکل حالات میں بھی چند سر پھرے یہاں پابندی سے ریڈیو پروگرام کرتے ،وقت نکال کر اپنے وطن کو یاد کرتے ، وہاں کی خبریں سناتے اور بھولے بسرے نغمے یاد دلاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا اسٹائل ہے۔ مثلاً عارفہ مظفر کا ریڈیو پروگرام سن کر ایسا لگتا ہے کہ کوئی جانی پہچانی عورت ، محلے والوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لڑا رہی ہے۔ اکثر ان کا پروگرام کوئی اور شروع کرتا ہے اور یہ درمیان میں ایسے آتی ہیں جیسے بہت دور سے سفر کر کے آئی ہیں۔ اشتہارات تو روانی سے پڑھ دیتی ہیں مگر جب فون نمبر بتانے کی باری آتی ہے تو کاغذ گم ہو جاتا ہے اس کا فائدہ سامعین اٹھاتے ہیں اور جلدی سے اپنا قلم کاغذ ڈھونڈ کر لے آتے ہیں۔ یہ پہلی خاتون ہیں جو کسی دوسری خاتون کی تعریف دل کھول کر کرتی ہیں۔ ہر پروگرام میں مذہب اور اپنے بچے کا ذکر کرنا نہیں بھولتیں۔ عربی اس طرح پڑھتی ہیں جیسے خود نہیں بلکہ ان کا بچہ پڑھ رہا ہو۔ ان کے منہ سے اشتہار سن کر جی کرتا ہے کہ وہ چیز فوراً خرید لی جائے۔ کریڈٹ کارڈ ز پر قرضہ چڑھ جانے کی ایک وجہ عارفہ کا ریڈیو پروگرام ہی ہے۔

عارفہ کی آواز میں ایک خاص طرح کی شوخی ہے جو اسی دن کم محسوس ہوتی ہے جس دن ’ریکوری‘ کی شرح کم ہو۔ عارفہ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اپنے ریڈیو پروگرام میں اپنے علاوہ دوسروں کو بھی موقع دیتی ہیں۔ طارق حسین اور ماجد جمال اس کی دو مثالیں ہیں۔ موقع پا کر یہ دونوں بھی خوب بولتے ہیں۔ عارفہ کے ساتھ ان دونوں کی نوک جھونک اکثر مزہ دیتی ہے۔ بعض اوقات عارفہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہیں جیسے ٹیچر کمرہ جماعت میں طالب علموں کے ساتھ کرتا ہے۔

پاکستان کے مقبول نیوز کاسٹر زبیر الدین بھی عارفہ کے پروگرام میں خبریں اور کالم پڑھتے ہیں اور اس کے لئے وہ مدد بھی پاکستانی اخبارات سے لیتے ہیں۔ کینڈین خبروں اور مقامی کالموں پر اب تک ان کی نظر نہیں پڑی ہے۔زبیر کو سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ چور ، چوری سے اور نیوز کاسٹر خبریں پڑھنے سے باز نہیں رہ سکتا ،چاہے خبر سچّی ہو یا جھوٹی۔

عارفہ کا ایک رنگ اس وقت سامنے آتا ہے جب کوئی اسپانسر بہ نفس نفیس ان کے ساتھ ہوا کے دوش پر موجود ہو۔ ایسے میں عارفہ پورا زور لگاتی ہیں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ ’’کال‘‘ ملیں اور وہ اسپانسرکو بتا سکیں کہ ان کے ریڈیو پروگرام کے سامعین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس زور اور جوش کی تصویر کشی لفظوں میں ممکن نہیں اس کے لیے عارفہ کو ریڈیو پر ہی سننا پڑے گا۔

عارفہ کو ریڈیو پر سن کر ان کے شوہر کی بڑی یاد آتی ہے۔ عارفہ کے شوہر مظفر اور نیلما حسن کے شوہر ذوالفقار میں فرق یہ ہے کہ مظفر عارفہ سے صرف گھر پر ملتے ہیں اور صرف اس وقت جب عارفہ ریڈیو پر بول بول کر تھک چکی ہوتی ہیں۔ مظفر کا کہنا ہے کہ اچھی ریڈیو براڈ کاسٹر کی تعریف یہ ہے کہ جس کا تلفظ اور دوپٹہ درست ہو، اس لحاظ سے میری بیوی عارفہ آدھی براڈ کاسٹر ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ عارفہ مظفر دیسی عورتوں کے لئے ایک روشن مثال ہے۔ اس نے نامساعد حالات کے باوجود جس طرح دن ، رات ایک کر کے میڈیا میں اپنی جگہ اور اپنے ریڈیو کو ہزاروں سماعتوں کی دھڑکن بنایا ہے ، ایسا مقام کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ وہ ریڈیو پر ہے ، گھر پر ہے ، شوہر کے دل میں اور ’’جائے نماز‘‘ پر بھی ، دین و دنیا کو ساتھ ساتھ رکھنے کا سلیقہ کوئی عارفہ مظفر سے سیکھے۔

نثار بزمی سے مظفّر علی تک

ایک ہاتھ اِدھر چھوٹا ، ایک ہاتھ ادھر۔ بے کسی ، بے چارگی دیکھنی ہو تو میرے قلم سے نکلے لفظوں کو دیکھ لو ، یوں لگا کہ ہم بد قسمتی کے جہاز پر سوار ہیں اور جہاز فضا میں ہچکولے کھا رہا ہے۔ وطن سے نکلے تو کالر اونچے تھے ، چہرے پر فخر کی مسکراہٹ دمک رہی تھی جیسے ہم نے دنیا داری فتح کر لی ہو اور آج جب چھ سال بعد بیک وقت نثار بزمی اور مظفّر علی کے انتقال کی خبر ملی تو لگا کہ ہم مٹّی کے رہے ، نہ ہوا کے۔

نثار بزمی سے تعلق خاص رہا۔ ان کی سوانح حیات میں نے قسط وار شائع کی۔ یوں صحافی کی حیثیت سے ملتے ملتے میں ان کا مرید بن گیا۔ کراچی میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ان کے ساتھ شام منانے کا اعزاز مجھے حاصل رہا۔ کیا شخصیت تھی ان کی ، موسیقی کے سبق دیتے تھے تو یوں لگتا تھا جیسے کائنات کے اسرار و رموز سمجھا رہے ہوں۔ آخری عمر میں دس بارہ سال جو میں نے ان کے قریب گذارے یوں لگتا تھا جیسے وہ موسیقار نہیں بلکہ ملنگ ہیں۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے 1968ء سے 1985ء تک سات نگار ایوارڈ حاصل کئے ہیں۔ نیشنل ایوارڈ اور تمغۂ حسن کارکردگی بھی اس کے ماتھے پر سجا۔ 71سال تک موسیقی کی دنیا سے وابستہ رہے۔ ابتداء گیارہ سال کی عمر میں قوالوں کے ساتھ بیٹھ کر تالی بجانے سے شروع کی۔ محمد رفیع، آشا بھوسلے ، لتا منگیشتر ، منّا ڈے ، نور جہاں ، مہدی حسن ، احمد رشدی، ندیم ، رونا لیلیٰ ، مسعود رانا ، سبھوں نے ان کی موسیقی میں گیت گائے۔ عالمگیر ،لکشمی کانت پیار ے لعل اور آنند بخشی کو عروج دلانے میں نثار بزمی ہی کا ہاتھ تھا۔

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ صرف آٹھویں جماعت پاس تھے مگر بہترین موسیقار ہونے کے ساتھ ساتھ کمال کے فوٹو گرافر اور معیاری شاعر تھے۔ ان کا مجموعہ کلام ’’پھر ساز صدا خاموش ہوا ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ 80-پاکستانی اور 40انڈین فلموں میں موسیقی دینے کے بعد 1986میں فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور خاموشی سے نارتھ ناظم آباد کراچی کے ایک گوشے میں موسیقی کی تعلیم دینے لگے۔

نثار بزمی کا نثار بزمی بننا اور پاکستان آنا بھی ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔1962تک نثار بزمی انڈیا کی 40فلموں میں موسیقی دے چکے تھے مگر یہ سب سی کلاس فلمیں تھیں اور کوئی انہیں بی یا اے کلاس فلموں میں بحیثیت موسیقار چانس نہیں دے رہا تھا۔ یہی حال ان کے ایک دوست لقمان کا تھا۔ وہ ہیرو بننے کے شوق میں برسہا برس سے انڈین فلمی دنیا کے چکر کاٹ رہا تھا مگر کوئی بڑا رول اس کے ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔ بالآخر لقمان ہیرو بننے کا خواب لئے لاہور فلم انڈسٹری چلا گیا۔ لقمان کے والدین نے نثار بزمی سے کہا کہ تم ہی اس کے قریبی دوست ہو ، کسی طرح لقمان کو واپس انڈیا لاؤ۔ نثار بزمی 1962میں لقمان کو لینے لاہور آئے۔ لقمان انہیں لے کر فضل کریم فاضلی کے پاس چلا گیا جو ان دنوں فلم ’’ایسا بھی ہوتا ہے ‘‘ بنا رہے تھے۔ نثار بزمی کے ٹیلنٹ سے متاثر ہو کر انہوں نے انہیں ’’ایسا بھی ہوتا ہے ‘‘ کا موسیقار چن لیا۔ لقمان تو واپس انڈیا چلا گیا اور نثار بزمی لاہور کے ہو کر رہ گئے۔ اس کے بعد نثار بزمی نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔ عروج ان کے ماتھے کا زیور بن گیا اور وہ خود انکساری کی تصویر بن گئے۔ ایسا وضعدار اور خود دار انسان میں نے فلم انڈسٹری میں بہت کم دیکھا۔

نثار بزمی ہی کے گھر میری پرویز ملک، اقبال شہزاد ، اقبال یوسف اور کئی دیگر مایہ ناز فلم سازوں اور ہدایت کاروں سے ملاقات رہی۔ کراچی چھوڑ کر جہاں میں دیگر کئی قابل ستائش ہستیوں کی شفقت سے محروم ہو گیا وہیں ان میں ایک نثار بزمی تھے۔

مظفّر علی سے میری سرسری ملاقاتیں رہیں۔ تفصیل سے بات چیت تب ہوئی جب میں نے ان کے ریڈیو پروگرام ’’ساز و آواز ‘‘ پر ایک کالم لکھا تھا جو خاصا متنازعہ رہا۔ اس کالم کے بعد ان کے اور میرے ایک مشترکہ دوست نے مظفرّ علی سے میرا تعارف کروا یا۔ وہ مسکرائے اور دھیمے لہجے میں بولے ’’ آپ ریڈیو شروع کیجئے ، پھر آپ سے پوچھوں گا ‘‘ مظفر علی ٹورنٹو سے Weekdaysکے اُردو ریڈیو کے بانیوں میں سے تھے۔ وہ ساز و آواز کا دماغ تھے مگر انہوں نے اپنی بیگم عارفہ مظفر کو ہمیشہ آگے آگے رکھا۔ بیگم کے ٹیلنٹ کی قدر کرنے والا ایسا شوہر میں نے ٹورانٹو میں ایک ہی دیکھا۔ وہ خاموشی سے پس پردہ کام کرنے کے قائل تھے۔ عارفہ کی تعریف سن کر دل سے خوش ہوتے تھے۔ ان دونوں میاں بیوی میں رشتے کی جو فریکوینسی تھی وہ کم کم دیکھنے میں آتی ہے۔ ان کے ریڈیو نے پاکستانی کمیونٹی میں بے پناہ مقبولیت اور عزت حاصل کی۔ یہاں تک کہ 770اے ایم کا سارا وقت ان کے ہاتھ آ گیا مگر میں نے مظفر علی کو ہمیشہ ایک جیسا ہی پایا۔ میں ٹورنٹو میں خاموش زندگی بسر کر رہا ہوں اور سوشل تقریبات میں کم کم شرکت کرتا ہوں۔ اس کے باوجود مظفر علی سے جب بھی ملاقات ہوئی ایک ہی طرح کی مسکراہٹ ان کے لبوں پر کھلتی دیکھی۔ کام کا بار ، مصروفیت کی درازی کبھی ان کے چہرے پر تھکن نہ لاسکی۔ مگر اس کے باوجود وہ سانسوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔

مظفر علی کی موت نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ بے وطنی کی موت کا دکھ میرے سینے میں اتر چکا ہے۔ میں رزق کی چکی میں وقت کے طنابوں پر قابو نہیں پاسکا ہوں۔ میں نے جسمانی طور پر ان کے جنازے اور دعا میں شرکت نہیں کی مگر مظفر اپنی موت کے دن سے میرے بانہوں میں ہیں ، میں انہیں قبر میں نہیں اتار سکا۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اگر میں نے مظفر کو دفن کر دیا تو خود بھی گورکن کی کدال کی زد میں آ جاؤں گا۔

نثا ربزمی اور مظفّر علی کے بعد پاکستان اور کینیڈا کی مٹی مجھے ایک جیسی لگنے لگی ہے۔ موت کا ساز میرے اندر بھی بج رہا ہے اور میں منتظر ہوں کینیڈا کے دوستوں کا جو ایک دن مجھے بھی مٹی دینے آئیں گے۔

WRITER`S NIGHT & GAY WRITERS

رائٹرز کے بارے میں یہ سنا تھا کہ وہ ’’نائٹ ٹائم ‘‘ میں لکھتے ہیں مگر رائٹرز کے ساتھ نائٹ منائی جائے گی ،یہ پہلی بار سنا اور دیکھ رہا ہوں۔ اصل میں فیاض حیدر کو اللہ نے آئیڈیاز دینے میں بڑی فیاضی سے کام لیا ہے۔ ان کی چابک دستی اور چابک زبانی مثالی ہے۔ کینیڈا کا کوئی اخبار ان کے کالم اور نیوز کے بغیر شائع نہیں ہوتا۔ اگر میں کینیڈا میں سیدھی راہ پر چل رہا ہوں تو اس کی وجہ فیاض حیدر کے کالم ہیں۔ یہ دوسری بات کہ وہ اپنی راہ پر بھی کسی کو چلنے نہیں دیتے۔ میں ان کے نیوز لکھنے کے اسٹائل سے بے حد متاثر ہوں۔ اگر وہ پاکستان میں ہوتے تو آج محمد علی درانی کی جگہ پرویز مشرف کے ہر دلعزیز ہوتے۔ مجھے ان کے ٹی وی پروگرام کے اشتہار کا ایک جملہ جو اخبار میں شائع ہوا بے حد پسند ہے ’’ آپ بھی اس پروگرام کا حصہ بن سکتے ہیں ، اگر آپ چاہیں۔‘‘

خیر! آئیے ایک رائٹر کی بات چھوڑ کر سارے رائٹرز کی بات کرتے ہیں۔ میں کینیڈا کے بیشتر قلم کاروں کو قلم کار مانتا ہی نہیں کیوں کہ وہ قلم سے نہیں بلکہ Inpageپر انگلیوں سے لکھتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں ہمارے کالموں کو پڑھنے والے بھی انگلیوں پر ہی گنے جا سکتے ہیں۔ کینیڈا نے اچھے اچھے قلم کاروں کو خاموش کروا دیا ہے اور بہت سوں کو لکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ یہاں اتنی بڑی تعداد میں اردو اخبارات شائع ہو رہے ہیں جنہیں اشتہارات کے بعد کالم نگاروں کی اشد ضرورت رہتی ہے بلکہ اکثر صورتوں میں اشتہارات اور کالم نگار ایک ہی جگہ سے پیدا کئے جا رہے ہیں۔

یہ بات بھی مجھے کینیڈا آ کر پتہ چلی کہ لکھنے کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک خوبصورت سی رائٹنگ ٹیبل ، نئے ڈیزائن کی اجلی ٹیبل لیمپ اور انگلیوں کو آرام پہنچانے والا ایک مہنگا قلم۔ ہمار ے ایک کالم نگار بیمار ہو کر ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو ڈاکٹر نے دوا تجویز کرنے کے بعد کہا ’’ آپ دو ماہ تک کوئی ذہنی کام نہ کریں ، ذہن کو مکمل ریسٹ دیں ‘‘ کالم نگار گھبرا گئے بولے ’’ مگر ڈاکٹر صاحب میں تو کالم نگار ہوں ، ہر ہفتے کالم لکھتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے اطمینان سے کہا ’’آپ کالم نگاری جاری رکھ سکتے ہیں۔‘‘

اگر میری اب تک کی گذارشات سے یہاں بیٹھے کالم نگار پہلو بدل رہے ہیں تو ان کے اطمینان کے لئے عرض کر دیتا ہوں کہ ڈاکٹر کے پاس جانے والا وہ کالم نگار میں ہی تھا۔

کینیڈا میں اردو زبان میں دو طرح کے لکھنے والے موجود ہیں۔ ایک وہ جو ادب تخلیق کر رہے ہیں اور صرف کتابیں لکھتے ہیں ، ان کے خیال میں ادب اخبار کے ذریعے پروان نہیں چڑھتا ، کتابوں میں بند ہوتا ہے اور اسے صرف خرید کر پڑھا جا سکتا ہے۔ اور کینیڈین ڈالر میں قوت خرید کتنی ہے اس کا اندازہ ہم سب کو ہے۔

دوسری طرح کے لکھنے والے وہ ہیں جو اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ یہ مفت میں لکھتے ہیں اور مفت میں پڑھے جاتے ہیں۔ کینیڈا کی تیز رفتار زندگی میں باقاعدگی سے جاب کرنا اور باقاعدگی سے لکھنا بے حد مشکل کام ہے اس پر میں تمام لکھاڑیوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ یہاں باقاعدہ لکھنا زیادہ مشکل کام ہے کیوں کہ اس پر کوئی ’’پگار‘‘ بھی نہیں ملتی، نہ E.Iملتی ہے اور نہ ہی ٹیکس ریٹرن بلکہ بعض اوقات الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں جس کا اندازہ آپ کو جواد فیضی سے مل کر ہو جائے گا۔ ہمارے یہاں تین طرح کے کالم نگار ہیں۔ ایک وہ جو خود ہی سوچتے اور خود ہی لکھتے ہیں۔ دوسرے وہ جو سوچتے نہیں صرف لکھتے ہیں اور تیسرے وہ جو پرانے انگریزی اخبارات کے کالم یا پھر انہیں موصول شدہ چٹپٹی ای میلز کا ترجمہ پیش کر کے ’’کالم نگار ‘‘ بن جاتے ہیں۔ تیسری قسم ہمیشہ خطرناک ہوتی ہے اور ہمیں اپنی صفوں سے ان Gay Writersکا خاتمہ کر دینا چاہیئے۔

سنا ہے آج اس تقریب کے انعقاد کا مقصد قلم کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور ان کا جائز حق دلانا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ فیاض حیدر کینیڈا کے نصر اللہ خان ہیں ، انہیں آرٹسٹوں اور رائٹرز کو جمع کرنے کا بہت شوق ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے اس شوق کے طفیل ہمیں بہت سے نئے لکھنے والے مل جائیں۔ میں نے دیسی ریڈیو کینیڈا پر ایک رائٹر کا انٹرویو کیا اور ان سے پوچھا آپ رائٹر کیوں بنے ؟ ان کا جواب تھا ’’کینیڈا میں بیوی ہاتھ سے نکل گئی تو میں نے انگلیوں میں قلم تھام لیا۔ کم از کم قلم انگلیوں کے اشارے پر تو چلتا ہے ‘‘ ہم بھی آرٹسٹ اینڈ رائٹرز گلڈ کے اشاروں پر چلنا چاہتے ہیں بشرطیکہ وہ ہمیں صرف ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ کریں بلکہ ہمارے بینک اکاؤنٹ میں بھی کچھ جمع کریں۔ اخبارات سے کہیں کہ وہ لکھنے والوں کوبھی تھوڑا سا معاوضہ دیں۔ ہماری سوچ اور دماغ کا نہ سہی کم از کم ، قلم ، کاغذ اور وقت کا معاوضہ تو ملے۔ ہم سب Writersجو آج یہاں جمع ہیں ہم میں اتنی تخلیقی صلاحیت موجود ہے کہ ہم 8ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے بھی لکھ کر اخبارات کے صفحات بھر سکتے ہیں۔

میں امید کرتا ہوں کہ آج کی رائٹرز نائٹ ہمارے کالموں کی طرح روکھی پھیکی نہیں ہو گی اور آج جب ہم یہاں سے اٹھیں گے تو کچھ پا کر ہی اٹھیں گے۔ میرا مطلب آج کے ڈنر سے ہرگز نہیں ہے۔

آخر میں شکریہ صاحبِ کتاب، صاحب اولاد، صاحبِ وائف اور صاحبِ کو ہوسٹ اور کو پروڈیوسر فیاض حیدر اور ان کے ساتھیوں عبدالحمید باشانی ، ہاشمی خان کا جنہوں نے مجھے یہاں مدعو کیا اور اتنے اچھے اچھے کالم نگاروں سے بہ نفیس نفیس ملنے کا موقع فراہم کیا۔ (یہ کالم رائٹرز گلڈ کینیڈا کی تقریب میں پڑھا گیا)

الوداع۔2007کے فرعونوں۔ الوداع

ہم پاکستانیوں کے لیے محبوبہ کو الوداع کہنا مشکل ہوتا ہے اور حکمرانوں کے لئے کہنا آسان۔ مگر کبھی کبھی ایسا ’’چپکو ‘‘ حکمران کرسی پر آ کر بیٹھ جاتا ہے جو خدا حافظ کا مطلب بھی ’’خوش آمدید ‘‘ سمجھنے لگتا ہے۔ ہمارے مشرف بھائی بھی ان میں سے ایک تھے۔ میں نے ’’تھے ‘‘ کا صیغہ اس لیے استعمال کیا ہے کہ وہ آدھے رخصت ہو چکے ہیں اور آدھے باقی ہیں۔

مشرف بھائی نے جب جنم لیا تھا تو ’’ایک‘‘ تھے مگر جب سے اقتدار سنبھالا تو قوم کے لیے ’’جڑواں ‘‘ بن چکے تھے۔ انہوں نے اپنے لیے دو ، دو کرسیاں رکھیں ، دو لباس پہنا شروع کیا اور ان کا چہرہ بھی دو چہروں میں تبدیل ہو چکا تھا۔ وہ پاکستانیوں کے لیے کچھ اور تھے اور امریکیوں کے لیے کچھ اور۔ طالبان کے لیے کچھ اور ’’تالیوں ‘‘ کے لئے کچھ اور۔ وہ کہنے میں کچھ اور تھے ، کرنے میں کچھ اور۔ انہوں نے دو سیاست دانوں کو دوست بنایا، شجاعت اور فضل الرحمن اور دو سیاست دانوں سے بھر پور دشمنی کی ، بے نظیر اور نواز شریف۔ وہ قوم کو ایک ہاتھ سے آزادی دیتے تھے اور دوسرے ہاتھ سے چھین لیتے تھے۔ ان کا یہ کرتب قوم آٹھ سال تک دیکھتی رہی۔ ایک دن کرتب کے دوران ان کی چھڑی گھومتی ہوئی عدلیہ کے ترازو سے مس ہو گئی۔ ترازو والے بڑے جادوگر کو یہ بات بری لگی، وہ اس کا معاوضہ طلب کرنے پر تل گیا۔ دونوں اپنے اپنے حواریوں کے ساتھ گھمسان کی لڑائی میں جت گئے۔ ریفری نے ترازو والے جادوگر کو کامیاب قرار دے دیا اور ہارے ہوئے مشرف بھائی نے ریفری سمیت جادوگر کی پوری ٹولی کو اپنی چھڑی کے منتر سے ناک آؤٹ کر دیا۔ قوم تماش بین بنی رہی اور لڑنے والے اعلان کرتے رہے کہ یہ ’’دنگل‘‘ قوم کے فائدے کے لیے لڑ ا جا رہا ہے۔ چھڑی کے منتر سے مشرف بھائی نے ان لوگوں کو بھی زیر کرنے کی کوشش کی جو اپنے ’’بھونپو‘‘ سے دنگل کی کمنٹری کر رہے تھے۔ بس پھر کیا تھا مشرف بھائی اپنے جال میں پھنس گئے۔ انہیں اندازہ ہی نہ ہوا کہ 2001کی فضا اور تھی اور اب2007 کی فضا اور … وہ امریکہ وار کی لاٹھی سے میڈیا سے وار کرنے پر تل گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جادو والی چھڑی ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور جب وہ ایوان صدر سے سویلین صدر کی وردی پہن کر نکلے تو ان کا چہرہ چھوٹا اور بدن و ارادہ کمزور ہو چکا تھا۔ اپنے ’’جڑواں بھائی‘‘ کی موت پر وہ کئی بار رو پڑے۔ شاباش2007ء کم از کم تم نے جاتے جاتے ایک ڈکٹیٹر کو آدھی موت تو دے دی۔

کہتے ہیں ڈکٹیٹر شپ ہمارے خون میں شامل ہے۔ ہمارے ہر گھر میں بھی ایک ڈکٹیٹر ہوتا ہے جسے لوگ ’’ابّا ‘‘ یا ’’شوہر ‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی میں جب مرد کی کہیں نہیں چلتی تو وہ ’’ابّا‘‘ یا ’’شوہر‘‘ بن جاتا ہے۔ کینیڈین اس نعمت سے محروم ہیں۔ ان کے ہاں ابا اور شوہر ٹشو پیپر کی طرح ہوتے ہیں ، استعمال کیا اور ڈسٹ بن میں ڈال دیا۔ اس سوسائٹی میں ہمارا ایک پائلٹ آفیسر 70کی دہائی میں ٹورنٹو آیا اور کاروں کی بزنس میں جڑ گیا۔ کار اس کے لئے کار آمد بن گئی اور وہ بڑا بزنس مین بن گیا۔ فوجی تھا ، اسے بھی سیاست میں آنے کی سوجھی۔ لبرل پارٹی جوائن کی اور ’’پارٹیز‘‘ کرتا ہوا اپنے اچھے لہجے کی انگریزی کی وجہ سے جلد گوروں میں مکس ہو گیا۔ 2004اور2006 میں دوبار پارلیمنٹیرین بننے کی سعادت حاصل کی اور اسی سعادت نے اس سے ’’سعادتمندی‘‘ چھین لی۔ اس کا پاکستانی خون یہ سمجھنے لگا کہ یہ ساری کامیابی اس کی اپنی شخصیت کی وجہ سے ہے۔ لوگ ’’لبرل‘‘ کو نہیں ’’خان‘‘ کو ووٹ دیتے ہیں۔ کرسی کا نشہ دوسرے اور کئی نشوں کے ساتھ مل کر ’’خان ‘‘ کو لبرل سے ‘‘ کنزرویٹو‘‘ پارٹی میں لے گیا جو، اب برسر اقتدار تھی اور خان کو وزیر اعظم کینیڈا کا مشیر بنا دیا گیا۔ خان خوش تھا اور مغرور تھا۔ کینیڈین سیاست کو بھی پاکستانی سیاست دانوں کی طرح کھیل رہا تھا۔ الیکشن مہم پر ا س نے مخصوص رقم سے زیادہ خرد کی اور ’’پارٹی بدلو ،اقتدار پکڑو‘‘ کو اپنا موٹو بنا لیا مگر یہ کینیڈا تھا ، پاکستان نہیں۔ قوانین حرکت میں آئے اور ’’خان ‘‘ کو جس نے 5جنوری 2007کو ہارپر کے ساتھ دوستی کی تھی نومبر 2007میں اعلان کرنا پڑا کہ وہ مشیر کا عہدہ اور پارٹی سب کچھ چھوڑ رہے ہیں اور عین ممکن تھا کہ اگر نہ چھوڑتے تو نکال دئیے جاتے۔ ان پر جن مبیّنہ الزامات کی تحقیقات ہو رہی ہیں ، اگر وہ ثابت ہو گئے تو انہیں پانچ سال کی قید بھی ہو سکتی ہے۔

خان صاحب اب بھی پاکستانی سوچ کے ساتھ یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ آئندہ الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑ ے ہوں گے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ دو بڑی پارٹیوں سے ’’طلاق شدہ‘‘ مرد کو تو بوڑھی عورتیں بھی منہ نہیں لگاتیں ، شاباش2007ء تو نے پاکستانی کینیڈین کو بھی ایک ’’ فوجی سوچ‘‘ رکھنے والے سے نجات دلائی۔

اقصیٰ پرویز کی ’’قربانی‘‘

پاکستان میں ایک پرویز ایمرجنسی ہٹا کر سرخرو ہوئے ہیں تو کینیڈا میں دوسرے پرویز اسی ہفتے اپنی سولہ سالہ بیٹی کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے ہیں۔ اپنی صحافتی زندگی میں ، میں پہلی بار ہفتوں اس وقت آبدیدہ رہا جب کراچی کے علاقے ملیر میں ایک جواں سال لڑکی نے اپنے والدین اور اکلوتے بھائی کو قتل کر دیا تھا اور آج ایک بار پھر مجھے وقفے وقفے سے آبدیدہ ہونا پڑرہا ہے ، جب میں اقصیٰ پرویز کے بارے میں خبریں ’’سرچ‘‘ کر رہا ہوں۔

عید الاضحی کے عین قریب اقصیٰ کی اس ’قربانی‘‘ نے پاکستانی کمیونٹی ، مسلم کمیونٹی اور کینیڈا کے مین اسٹریم میں بیک وقت کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ کینیڈین میڈیا نے جس طرح اس خبر کے آغاز ہی سے مسلم، اسلام اور حجاب کے الفاظ کے ساتھ خبر کی ہیڈ لائینز لگانی شروع کی اور اس کے فوراً بعد ہی اس ’’صدماتی واقعہ‘‘ کی آڑ لے کر Face BookاورYouTube اور دیگر چھوٹی بڑی ویب سائٹس پر اسلام اور مسلمانوں کے لئے مغلظات ’’ پوسٹ‘‘ کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اس سے ایک بار پھر مغربی میڈیا کا تعصب اور امتیازی رویہ سب پر عیاں ہو گیا۔ خود ہمارے درمیان وہ ’’اشتہاری مینڈک‘‘ دوبارہ پھدکنے اور اغیار کی زبان بولنے لگے جنہیں اسلام اور مسلمانوں پر رکیک حملے کر کے اپنے نام اور چہروں کو چمکانے کا شوق ہے۔

اقصیٰ صرف ایک نام نہیں ، کینیڈا میں مقیم ان ہزاروں مسلم گھرانوں کی کشمکش آمیز زندگی کا ایک رخ ہے جو ہجرت کے نام پر ان کے نصیب کا حصہ بنا ہے۔ یہ ہمارے نصیب کی وہ بیماری ہے جس پر ہم خاموشی سے اپنے اپنے صبر کا پھایا رکھ کر جیتے ہیں۔ اچھے ذریعہ معاش، سکون بھری ٹھاٹ کی زندگی اور بچوں کے اچھے مستقبل کی خواہش لئے جب ہم اپنے وطن کی مٹی چھوڑ کر برفیلے ، ٹھنڈے موسم کو اپنے لہو اور وقت کا نذرانہ دیتے ہیں تو اس وقت احساس ہی نہیں ہوتا کہ اپنے گھروں کے باہر کچھ زہریلی گیسیں بھی ہیں جو ہمارے اقدار اور روایتی اصولوں کو جھلسا سکتی ہیں۔

اقصیٰ کا واقعہ ہمیں سبق سکھاتا ہے بیک ہوم میں بچے پالنا کس قدر آسان ہے کیوں کہ وہاں آپ کی روایات ، اصولوں اور مذہبی اقدار کو چیلنج کرنے کے لئے کوئی اور طاقت موجود نہیں لیکن اگر آپ مغربی دنیا میں ہیں تو پھر آپ کی سوچ کو وسعت درکار ہے۔ یہاں گھرانے کی سربراہی موروثی اصولوں کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے۔ یہاں نئی نسل آپ کے حکم نامے پر تعمیل کی مہر نہیں لگاتی ہے۔ یہاں مکالمے اور دوستانہ روئیے کی ضرورت ہوتی ہے اور پردے شرم و حیا کے تقاضے کافی ترمیمات کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اگر آپ صرف اپنے ڈھب کے ہیں تو بہتر ہے کہ اس سر زمین کو چھوڑ دیں تاکہ کوئی سانحہ آپ کو برباد اور پوری کمیونٹی کو شرمسار نہ کرے۔

اقصیٰ کی کہانی تو اب شروع ہوئی ہے ، آنے والے دنوں میں واقعات اس کا بات تعین خود کریں گے کہ والد اور بچی میں کون زیادہ قصور وار تھا ؟ تا دم تحریر واقعات کی جو کڑیاں سامنے آئی ہیں اس نے یہ تو عیاں کر دیا ہے کہ میڈیا نے ’’حجاب‘‘ کی جو رٹ لگائی تھی وہ اس قتل کا سبب نہ تھی کیوں کہ اقصیٰ سے بڑی تین بہنوں کو بھی مخصوص حجاب میں نہیں دیکھا گیا۔ اقصیٰ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جس گھر میں مقیم تھی اس گھر کی مالکہ لبنیٰ طاہر نے کہا ہے کہ ا قصیٰ ماڈرن لباس ضرور پہنتی تھی مگر وہ پانچ وقت کی نمازی بھی تھی اور جب ایک مسجد کے مولوی نے جمعہ کے خطبے کے دوران یہ کہا تھا کہ اقصیٰ کے قتل کی ایک وجہ اس کا ’’خفیہ بوائے فرینڈ‘‘ تھا تو لبنیٰ طاہر سمیت کئی نے بلند آواز ہاتھ اٹھا کر اس موقع پر اس بیان کی تردید کی تھی اور میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی لبنیٰ طاہر نے یہی کہا تھا۔ واقعاتی شہادتیں بھی یہ بتا رہی ہیں کہ لبنیٰ کے گھر اقصیٰ کے قیام کے دوران اس کے والدین اس سے ملنے آئے تھے اور بعد ازاں وہ لبنیٰ کے گھر اقصیٰ کے قیام پر نیم رضا مند بھی ہو گئے تھے۔ اگلے تین چار دنوں میں ملزم پرویز نے مقامی کافی شاپ پر اقصیٰ کے ساتھ کافی پیتے ہوئے بات چیت بھی کی تھی اور اسے آفر کی تھی کہ اگر اسے 15,16 افراد پر مشتمل چھوٹے گھر میں رہنے میں تکلیف پیش آ رہی ہے تو وہ ’’بیسمنٹ‘‘ میں مکمل پرائیویسی کے ساتھ رہ سکتی ہے۔ اقصیٰ نے اس آفر پر صرف یہ کہا تھا ’’سوچوں گی‘‘

اب سوچنے کا وقت ہمارا ہے کہ فی گھنٹہ ڈالر کمانے کی ریس میں جُتے رہنا زیادہ اہم ہے یا نئے معاشرے اور بچوں کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے وقت نکالنا بھی ضروری ہے۔ سوچئے اور خوب سوچیے اگر آج آپ اپنے بچوں کو وقت دیں گے تو کل وقت آپ کے ہاتھ سے نہیں نکلے گا۔

اللہ الصَّمَد

بی بی چلی گئی۔ سورہ اخلاص کا ورد کرنے والی ،گاڑی کے لیور ، گولیوں کے نشانے ، خود کش حملے ، ایمن الظواہری کے پلان، بیت اللہ محسود کے لڑکوں کے بیچ اپنا لہو اور چاروں قل کے کڑھے دوپٹے کو بُلٹ اور بم پروف گاڑی کے سیٹ پر چھوڑ کر چلی گئی ، اس جہاں ، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ جہاں سے دنیا کا ’’باقاعدہ نگہبان، دنیا کی نگہبانی کرتا ہے ، یہ کہہ کر کہ… اللہ الصَّمَد

بی بی کو سورۂ اخلاص بہت پسند تھا۔ جب ضیا الحق نے 1977ء میں بی بی کو قید کر دیا تھا تو جیل کی ایک داروغہ نے بی بی کو سورہ اخلاص کی تلقین کی تھی۔ بی بی نے ورد کیا تو اس کی مشکلیں آسان ہو گئیں۔ اس کے بعد سے بی بی تھی اور سورہ اخلاص … اللہ الصَّمَد

اللہ بے نیاز ہی تو ہے۔ ایک ایسے شخص کے ہاتھوں اسلامی ملک کی بنیاد رکھوائی جس کے ’’فرقہ‘‘ کو خود اس کے اسلامی ملک میں ’’مسلم‘‘ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اللہ بے نیاز ہے کہ اس نے اپنے ہی مذہب کے ماننے والوں سے اس کا آدھا وطن علیحدہ کروا دیا۔ حکم ربّی سے نیازی نے ہتھیار ڈال دئیے … اللہ الصَّمَد

اگر سب کچھ خدا کے حکم سے ہو رہا ہے تو قائد اعظم اگر راستے میں دم توڑ دیتے ہیں تو شکوہ کیسا؟ اگر لیاقت علی خان مکّا دکھاتے ہوئے سینے پر گولی کھا لیتے ہیں تو کیا غم؟… اللہ الصَّمَد

مسلم پاکستان میں اگر غریبوں کو پیٹ بھر کر روٹی نہیں ملتی۔ انصاف نہیں ملتا۔ اپنی پسند کا لیڈر منتخب کرنے کا حق نہیں ملتا تو کیسا احتجاج؟ جہاں تین بھٹو کی زندگیوں کو ختم کر دیا جاتا ہو۔ جہاں حکیم سعید کو مار دیا جاتا ہو۔ جہاں گل جی کا چراغ زبردستی گُل کر دیا جاتا ہو۔ وہاں … اللہ الصَّمَد…

جہاں جابر ، راشی یا زانی برسوں حکومت کرتے ہوں۔ جہاں قاتلوں کا سراغ نہ ملتا ہو، جہاں عوام اسٹیٹ کرائمز کے بادلوں تلے روتے ہوں۔ جہاں حق داروں کو نوکریاں نہ ملتی ہوں۔ جہاں بوریوں میں لاشیں بھرنے والوں کو ’’خدا‘‘ تسلیم کیا جاتا ہو۔ وہاں صرف ایک ’’بی بی‘‘ کے سورۂ اخلاص کے ورد سے دنیا کی نگہبانی کرنے والے کو کیسے متوجہ کیا جا سکتا ہے کہ … اللہ الصَّمَد

جہاں حکمرانی اور قانون صرف غریبوں کے حقوق دبانے کے لئے ہو۔ جہاں بولنے ، کھانے ، پینے اور سکھ کا سانس لینے کی آزادی احسان سمجھ کر دی جاتی ہو۔ جہاں سے لوگ سات سمندر پار صرف اس لئے ہجرت کر جاتے ہوں کہ دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر مل جائے گی اور بے وقت کی گولی سے اولادوں کے بچھڑنے کا دکھ جاتا رہے گا وہاں اللہ کو یاد کرتے کرتے یہی آیت زبان پر آ جاتی ہے … اللہ الصَّمَد

میرا مسلم پاکستان جہاں مساجد ، امام بارگاہ خون سے رنگ دئیے جاتے ہیں۔ جہاں مذہب، رنگ ، نسل، زبان ہر انسانی خوبی کے نام پر قتل عام ہوتے ہیں۔ میرا مسلم پاکستان جہاں ہم اکٹھا مل کر رہنے کے لیے الگ ہوئے تھے اب اللہ ہی کے نام پر ہم گروہوں میں تقسیم ہیں۔ مظلوم صرف جنازے اٹھاتے ہیں اور ظالم ، قاتل رقص کرتے اور حکومت کرتے ہیں۔ بے نیازی ، نیاز مندی کی جھولی کو چھلنی کر چکی ہے اور سوراخ ، سوراخ جالیوں سے لکھا نظر آ رہا ہے … اللہ الصَّمَد

صرف مسلم پاکستان ہی کیوں ؟ ساری دنیا میں قرآن پڑھنے والوں کے سینوں میں گولیاں پیوست ہیں۔ ان کے لہولہان چیتھڑے بکھرے پڑے ہیں۔ افغانستان ، عراق ، فلسطین ، مظلوم بھی مسلمان اور ظالم بھی مسلمان۔ زمین پر کوئی مسلم لیڈر ہے اور نہ آسمان پر کوئی ہمدرد نظر آ رہا ہے … اللہ الصَّمَد

جنت کی بشارتیں تو ہیں مگر زمین پر مسلمان اتنا ذلیل و رسوا کیوں ہو رہا ہے ؟ اتحادی فوج کی طاقت ، ڈالرز کی تقسیم کا کرنٹ کیا ایمانی ،الہامی اور روحانی قوتوں کو بھی شکست دے چکا ہے ؟ کیا سائنس کی منفی قوتوں نے ابابیلوں کو بھی زیر کر لیا ہے ؟ دنیا میں 24گھنٹے جو لاکھوں ، کروڑوں ، اربوں سجدے کیے جا رہے ہیں اس نے بھی عرش کو نہیں ہلایا ہے ؟مت کہو کہ ہم میں جوش ایمانی نہیں رہا ، ذرا ایک بار خود کش جیکٹ پہن کر تو دیکھو۔ اللہ تمہاری رگوں کے قریب نظر آئے گا۔ جب وہ اتنا قریب ہے تو پھر اس کا رحمن اور رحیم ہونا نظر کیوں نہیں آ رہا ہے ؟ میں صرف یہ ورد کیوں کر رہا ہوں ، اللہ الصَّمَد،اللہ الصَّمَد،اللہ الصَّمَد

٭٭٭

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے ہی کتاب کی فائل عطا کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل :اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔