11:00    , اتوار   ,   05    مئی   ,   2024

طنز و مزاح

1768 0 0 00

کبھی خوشی کبھی غم - ڈاکٹر نذیر مشتاق

محمد انور میرے مطب میں میرے سامنے کھڑا تھا۔ اس کا بیٹا کرسی پر بیٹھا سرجھکائے کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ محمد انور کی پلکوں پر آنسو لرز رہے تھے اور چہرے پر بے بسی اور پریشانی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اچانک اس کے ہونٹ ہلنے لگے ....اس کی آواز جیسے دور کہیں دور سے آ رہی تھی ’’ڈاکٹر صاحب، میرے بیٹے نے مجھے خاک میں ملا دیا۔ اس نے مجھے کہیں کا نہ رکھا، مجھے بادشاہ سے گدا بنا دیا....چھ ماہ پہلے یہ لڑکا زندگی کی لیلیٰ سے مجنوں کی طر ح عشق کرتا تھا ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتا تھا، ہر پل خوشی کے گیت گاتا اور شادمانی کے جھولے جھولتا رہتا تھا۔ صرف چار گھنٹے نیند کی بانہوں میں جھولنے کے بعد، صبح تازہ دَم اٹھ کر خوب پیٹ بھر کر ناشتہ کرتا اور دن بھر پھرتی چستی سے ہر کام انجام دیتا تھا، ہر کسی کے ساتھ ’اچھا‘ سلوک اور ہنسی مذاق کرتا تھا۔ اونچے اونچے سپنے دیکھتا اور آسمان سے تارے توڑ دلانے کے وعدے کرتا تھا۔ کہتا تھا کہ و ہ صرف ایک دو ماہ میں کروڑوں کا منافع حاصل کرے گا۔ اس نے مجھے اتنے پیار اور اعتماد سے سپنے دیکھائے کہ میں نے بنا سوچے سمجھے اپنی ساری پونجی اس کے حوالے کر دی اور اس نے بڑے پیمانے پر کاروبار شروع کیا....میری اُمید کے مطابق وہ ’’شاہراہِ تجارت ‘‘ پر بڑی تیزی سے دوڑنے لگا۔ ہر کوئی اس کی محنت اور لگن دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا کہ یہ لڑکا کاروباری حلقوں میں جلد ہی ایک اونچا مقام حاصل کرے گا....میں بھی اس کی کارکردگی سے مطمئن تھا اور اندر ہی اندر خوش ہو رہا تھا کہ میرا بیٹا زندگی کی دوڑ میں بہت آگے نکل جائے گا....مگر....میرے سپنوں کا شیش محل چُور چُور ہوا۔ جب ایک ماہ قبل میں نے دیکھا کہ اس نے کا م میں دلچسپی لینا چھوڑ دیا اور وہ ہر وقت اُداس رہنے لگا ہے۔ کھانے پینے، دسروں سے ملنے جلنے میں اس کی دلچسپی ختم ہو گئی۔ وہ زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں گذارنے لگا۔ صبح کے وقت بسترے سے نکلنے کا نام ہی نہیں لینے لگا۔ ہر وقت صرف ’’کبھی خوشی کبھی غم تارا رم پم پم‘‘ گنگنانے لگا۔ میرے پوچھنے پر کہ تم ہر وقت یہی ایک گیت کیوں گنگناتے ہو، کچھ اور کیوں نہیں کرتے، آخر وجہ کیا ہے ؟ تو جواب ملتا ’’زندگی یہی ہے کبھی خوشی کبھی غم‘‘۔

جب اس نے کاروبار کی طرف توجہ دینا چھو ڑ دیا تو میں نے سوچاشاید وہ ہم سے ناراض ہوا ہے یا اسے کاروبار کے لئے مزید رقم کی ضرورت پڑی ہو۔ میں نے ایک دوست سے کچھ رقم اُدھار لے کر اس کے سامنے رکھ دی مگر اس نے یہ کہہ کر وہ رقم لینے سے صاف انکار کیا ’’ میں ایک نکمّا، نالائق اور نا اہل انسان ہوں، میں اب کچھ نہیں کرسکتا ہوں، اب ڈوب گیا ہوں۔ میں گناہگار ہوں، اب مجھے اپنے ہر گناہ کی سزا ملے گی، اب مجھے خدا بھی معاف نہیں کرے گا....اب میں کسی کے لئے کچھ نہیں کرسکتا ہوں۔ اب مجھے مر جانا چاہئے، اب صرف موت ہی میرے غموں کا علاج ہے ‘‘۔ اس کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ‘‘۔

میں حیران و پریشان ہوا اور میں نے چند دوستوں اور رشتہ داروں سے اس بارے میں بات کی۔ کسی نے کہا ’’ اسے نظر لگ گئی ہے ‘‘۔ کسی نے کہا ’’ وہ کم عمری میں اتنا بڑا کاروبار سنبھال نہ سکا، اس پر بوجھ پڑا اور وہ ٹوٹ گیا‘‘۔ کسی نے کہا ’’ وہ بہانے بازی کرتا ہے ‘‘۔ کئی رشتہ داروں نے اس کی ماں سے کہا کہ ’’دشمنوں نے تعویذ کئے ہیں ‘‘ .... ہم اسے پیروں فقیروں کے پاس لے گئے۔ انہوں نے تعویذ دیئے، دَم کیا ہوا پانی دیا، سر اور سینے پر مالش کے لئے مٹی دیدی، طرح طرح کے نسخے دیئے مگر اس کی حالت میں سدھار آنے کے بجائے بگاڑ آتا گیا.... اب آپ دیکھئے کس طرح کرسی پر سرجھکائے بیٹھا اپنے خیالوں میں گم ہے ....میرے ایک تعلیم یافتہ دوست نے مجھ سے کہا کہ یہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہے۔ اس نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں اسے ’’مینٹل ہاسپیٹل‘‘ لے جاؤں یا کسی سائیکٹریسٹ کو دکھاؤں مگر....مجھے نہیں لگتا کہ یہ ’’پاگل‘‘ ہے۔ آپ کے بارے میں سنا ہے کہ آپ مریض کے ساتھ اچھی طرح بات کرتے ہیں اس لئے آپ مجھے مشورہ دیں کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ کیا میرا بیٹا بیمار ہے یا ....‘‘ یہ کہہ کر محمد انور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا‘‘۔

میں نے اسے تسلی دی اور اسے تھوڑی دیر کے لئے چیمبر سے باہر جانے کا مشورہ دیا۔

اب میں نے کرسی پر بیٹھے ہوئے نوجوان سے پوچھا ’’تمہارا نام کیا ہے ؟‘‘ ’’ عرفان انور‘‘ اس نے دھیمی آواز میں جواب دیا ’’ کیا کام کرتے ہو؟‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

’’کچھ بھی نہیں ....کبھی خوشی کبھی غم تارا رم پم پم‘‘ اس نے جواب دیا اور اپنی قمیض کی جیب میں کچھ ٹٹولنے لگا۔

’’کیا ڈھونڈ رہے ہو‘‘۔ میں نے پوچھا

’’اپنے آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں ‘‘۔

’’مجھے لگتا ہے اس بھری دنیا میں کہیں کھو گیا ہوں ‘‘۔ اس نے کاغذ کا ایک پرزہ میری طرف بڑھایا۔ میں نے کاغذ کا پرزہ کھولا....

’’یہ تو کورا کاغذ ہے ‘‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔

’’میری طرح‘‘۔ اس نے مختصر سا جواب دیا اور پھر سے سرجھکائے گنگنانے لگا ’’ کبھی خوشی کبھی غم ....‘‘

میری دلچسپی کا کینواس وسیع تر ہوتا گیا اور میں نے مریض اور اسکی بیماری میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ میں نے اسے یہ تاثر دیا کہ میں اس کا ہمدرد دوست ہوں اور اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے تفصیل کے ساتھ اس کے ساتھ بات چیت کی۔ اس کی زندگی کے ہر شعبے میں جھانک کر دیکھا اور تشخیص دینے میں کامیاب ہوا کہ وہ ایک ذہنی بیماری میں مبتلا ہے جس کے لئے اسے طویل مدت تک ادویات کے علاوہ سائیکوتھراپی کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اتنی دیر میں محمد انور واپس لوٹا اور میں نے اسے سمجھایا کہ اس کا بیٹا کس مرض میں مبتلا ہے اور اسے کیا کرنا ہے۔

ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جس میں کوئی بھی انسان زندگی کے کسی بھی موڑ پر مبتلا ہو سکتا ہے۔ یہ بیماری بلا لحاظ مذہب و ملت، رنگ ونسل، سماجی رتبہ، تعلیمی قابلیت، کسی بھی فرد کو اپنی گرفت میں لے سکتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد مریض کے جسم کے علاوہ اس کی مزاجی کیفیت اور خیالات بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ مریض کا طرز زندگی، طرزِ فکر، طرز خوردو نوش بدل جاتا ہے اور مریض سماجی علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ڈپریشن کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک قسم کی ڈپریشن کا نام بائی پولرموڈڈس آرڈر (Bipolor Mood Disorder)، اسے پہلے مینک ڈپریسو سائکوسس (MDP)کہا جاتا تھا۔

گو کہ ڈپریشن کی یہ قسم باقی اقسام سے کم پائی جاتی ہے لیکن پھر بھی ہمارے سماج میں اس بیماری کی شرح (نوجوانوں میں) اچھی خاصی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا نوجوان ’’کبھی خوشی ‘‘ اور ’’کبھی غم‘‘ کا اظہار کرتے ہیں۔ جب وہ حد سے زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں تو وہ مینیا (Mania)میں ہوتے ہیں۔

مینک اپسوڈ (Manic Episode) میں مبتلا مریض متذکرہ بالا علائم میں سے کسی علامت کا اظہار کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو وقت کا بادشاہ سمجھتا ہے اور و ہ کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ اسے اپنی قابلیت پر فخر ہوتا ہے اور وہ یہ سوچتارہتا ہے کہ وہ اپنی قابلیت کی بناء پر ساری دنیا کو فتح کرسکتا ہے۔ وہ اپنی دولت بے دردی سے لٹاتا ہے اور اسے کوئی افسوس بھی نہیں ہوتا ہے۔ اسکی جنسی خواہش بلندیوں کو چھو لیتی ہے اور وہ اس دوران جنسی بے راہ روی کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔ وہ ایسے عقائد و ارادوں کا اظہار کرتا ہے کہ سننے والا حیران رہ جاتا ہے۔ یہ سارے علامات وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتے ہیں اور اگر مریض کو بروقت مناسب علاج نہ ملے تو وہ کسی جرم کی پاداش میں قانون کی گرفت میں بھی آسکتا ہے۔ یا کسی ہسپتال برائے امراض نفسیات میں داخل ہو سکتا ہے۔ یا پھر وہ مینیا (Mania) سے نکل کر ڈپریشن میں چلا جاتا ہے اور اس میں درج ذیل علامات ظاہر ہو جاتی ہیں۔

یہ سبھی علامات بیک وقت ایک مریض میں نہیں پائی جاسکتی ہیں۔ علامات کا کم یا زیادہ ہونا، مریض کی شخصیت پر منحصر ہے۔ ڈپریشن کے اپسوڈ میں مبتلا مریض کو ہر وقت ہر طرف صرف غم کے بادل چھائے ہوئے نظر آتے ہیں اور مینک اپسوڈ (Manic Episode)میں اسے ہر وقت خوشی ہی خوشی نظر آتی ہے۔ محمد انور کا بیٹا، عرفان انور بائی پولر ڈس آرڈر بیماری میں مبتلا تھا۔ ایسے بیماروں کو ماہر امراض نفسیات کے علاج کی ضرورت ہے۔ ایسے مریضوں کو کسی خاص مدت کے لئے اسپتال میں بھی بھرتی کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے اور انہیں ایک طویل مدت تک ادویات کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مریض کی حالت بالکل دربار مو کی طرح ہوتی ہے۔ ان مریضوں میں ’’موڈ موو‘ ہوتا ہے۔ وہ سال کے بارہ مہینوں کے دوران، چھ ماہ حد سے زیادہ ’’خوش اور گرم ‘‘ ہوتے ہیں اور چھ ماہ حد سے زیادہ ’’اُداس اور سرد‘‘ ہوتے ہیں۔ مریضوں (خاص کر جب وہ Mania میں ہوں )پر کڑی نگاہ رکھنا لازمی ہے تاکہ وہ کوئی ایسی حرکت یا فیصلہ نہ کریں جس سے بعد میں انہیں یا ان کے ’’رشتہ داروں ‘‘ کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔

٭٭٭

ماخذ:

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔