مضطر خیرآبادی نے اپنے طرحدار معشوق کے بارے میں ایک بے مثال شعر کہا تھا.
زندگی میں وقت دو ہی مجھ پہ گزرے ہیں کٹھن
اِک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
ہم کہاں اور مضطر خیرآبادی کہاں۔ یہ اگلے وقتوں کے لوگ تھے جنہیں معشوق بھی ایسے ملتے تھے جو کم از کم ان کے دو وقتوں کو کٹھن بنا کر ان کی زندگی کو ایک خوشگوار تجربے سے ہمکنار کر دیتے تھے۔ اب ہم جیسے لوگ ان کے پیارے پیارے کٹھن وقتوں کے حوالے سے اپنی زندگی کے بے معنی اور لاحاصل کٹھن وقتوں کو یاد کرتے ہیں۔ ہم یہ کالم اس برے وقت لکھ رہے ہیں جب ملک میں عام انتخابات کے سارے کٹھن مرحلے گزر چکے ہیں وہ گہما گہمیاں اور ساری ہنگامہ آرائیاں ماند پڑ گئی ہیں جو امیدواروں کی انتخابی مہم کا لازمی حصہ ہوتی ہیں۔ بس دو دن گزر جائیں تو دوسرے کٹھن وقت کا مرحلہ شروع ہو جائے گا۔ بلکہ جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے تو انتخابی نتائج کے سیلاب میں گلے گلے ڈوبے ہوئے ہوں گے۔ سمجھئے کہ دو طوفانوں کے بیچ جو ایک پر اسرار خاموشی کا وقت ہوتا ہے اس میں بیٹھ کر ہم یہ کالم لکھ رہے ہیں۔ ہمیں پتہ نہیں کہ جب طوفان آئے گا اور خاموشی ٹوٹے گی تو ہمارا کٹھن وقت کاٹنا جان لیوا ہو گا اور یہ کب تک جاری رہے گا۔ دیکھا جائے تو معشوق اور انتخابات کے ذریعہ عطا ہونے والے کٹھن وقت کا تقابل ہی غیر منطقی ہے۔ کیونکہ معشوق اپنے آنے اور جانے سے پہلے جو کٹھن وقت عطا کرتا ہے۔ اس میں بڑا گداز اور بڑی مٹھاس ہوتی ہے جبکہ عام انتخابات اپنے آنے اور جانے سے پہلے جو کٹھن وقت عوام کو عطا کرتے ہیں اس میں آدمی اس وقت کو گزارنے کی کوشش میں بسا اوقات خود دنیا ہی سے گزر جاتا ہے۔
آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ اس ملک کی جمہوریت میں ہم نے عملاً نصف صدی کا وقت گزارا ہے۔ خیال رہے یہ پل دو پل کی بات نہیں ہے۔ اس ملک کے دوسرے عام انتخابات میں جب ہم ووٹ دینے کے لئے پہلی مرتبہ پولنگ بوتھ پر گئے تھے اتفاق سے ہم جس قطار میں کھڑے ہوئے تھے وہاں ہم سے آگے ایک بزرگ بھی تھے جو خود بھی زندگی میں پہلی بار اس عظیم جمہوری تجربے میں شریک ہو رہے تھے۔ ان کے چہرے پر جو آثار نمایاں تھے ان سے لگتا تھا کہ بہت سراسیمہ اور پریشان ہیں۔ بار بار ہم سے پوچھتے تھے۔
’’ میاں ! سنا ہے کہ ووٹ دیتے وقت انگلی پر کوئی نشان لگا دیتے ہیں۔ کہیں اس عمل سے تکلیف تو نہیں ہو گی۔ زندگی میں دوچار مرتبہ ڈاکٹر سے انجکشن ضرور لگوایا ہے۔ اگر چہ ڈاکٹروں نے مجھے دلاسہ دینے کی خاطر ہر بار یہی کہا کہ انجکشن لیتے وقت تمہیں یوں محسوس ہو گا جیسے کیس چیونٹی نے تمہیں کاٹ لیا ہو۔ حالانکہ چیونٹی اتنی بے درد نہیں ہوتی۔ جتنے ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ کیونکہ چیونٹی کاٹنے کی کوئی فیس نہیں لیتی۔ جبکہ ڈاکٹر تکلیف پہنچانے کے بعد فیس بھی وصول کر لیتے ہیں۔
بیٹے مجھے صاف صاف بتا دو کہ ووٹ دینے کے لئے نشان لگاتے وقت کوئی تکلیف تو نہیں ہوتی۔ ؟ ’’ ایمان کی بات تو یہ ہے کہ اس معاملہ میں ہم بھی بالکل اناڑی تھے۔ کیونکہ ہم بھی زندگی میں پہلی بار ووٹ دینے والے تھے۔ تاہم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ بیشتر جمہوری ممالک کے حالات اور خود جمہوریت کے بارے میں ابراہم لنکن کے فرمودات اور ان فرمودات کے حشر وغیرہ سے ہم بخوبی واقف تھے۔ لہذا بڑے میاں موصوف سے جو نئے نویلے ووٹر بنے تھے ہم نے دست بستہ عرض کی۔ ’’ حضور میں بھی آپ ہی کی طرح پہلی مرتبہ ووٹ دے رہا ہوں۔ ناتجربہ کار ہوں۔ تاہم جمہوری نظام حکومت کے بارے میں بہت کچھ پڑھ رکھا ہے۔ جس کے مطابق اتنا جانتا ہوں کہ ووٹ دیتے وقت آپ کی انگلی میں تو کوئی درد نہیں ہوتا۔ لیکن آپ کے ووٹ کی مدد سے جب سرکار بن جاتی ہے تو لگاتار پانچ برسوں تک آپ سخت تکلیف سے گزر تے رہتے ہیں۔ دل کا درد تو معمولی بات ہے۔ آپ کے جوڑ جوڑ میں درد سما جاتا ہے۔ اتنا سنتے ہی بڑے میاں نے قطار میں سے اپنی جگہ چھوڑ دی اور راہ فرار اختیار کی۔
ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہماری ذراسی بات پر وہ اتنے برافروختہ ہو جائیں گے کہ اس ملک کے عظیم جمہوری تجربہ میں شامل ہونے سے اپنے آپ کو محروم کر لیں گے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اس کے بعد شاید ہی کبھی انہوں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہو۔ کیونکہ جمہوری تجربے کی قطار سے نکلتے وقت ہی ان کی عمر کچھ ایسی تھی کہ لگتا تھا موصوف پہلی اور آخری بار اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہو۔ کیونکہ جمہوری تجربے کی قطار سے نکلتے وقت ہی ان کی عمر کچھ ایسی تھی کہ لگتا تھا موصوف پہلی اور آخری بار اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہوں۔ ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام پر جو دو وقت کٹھن گزرتے ہیں ان کی صحیح عکاسی کرنے کے لئے مضطر خیرآبادی کے مصرعہ کی ترتیب میں ذراسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اور مصرع اس طرح لکھا جانا چاہئے۔
اِک ترے جانے سے پہلے
اِک ترے آنے کے بعد
اگر آپ مصرعہ کی الٹی ترتیب کو بغور پڑھیں تو عوام اور عاشق کے کٹھن وقت کے کرب کی مدد سے حکومتوں اور معشوق کی آمدورفت کے صحیح پس منظر سے کماحقہ لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ایک اور دوست تھے۔ بے حد جذباتی مگر رکھ رکھاؤ والے۔ اس ملک کے تیسرے عام انتخابات میں پہلی بار اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کے لئے جب وہ اپنے گھر سے چلے تو کچھ اس شان سے کہ نئی شیروانی اور نئے جوتے پہن رکھے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ زیر جامہ اور رومال بھی نیا تھا۔ آنکھوں میں سرمہ اور کان میں عطر کا پھاہا بھی رکھ چھوڑا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے عید کی نماز پڑھنے کے لیے جا رہے ہوں۔ یا سہرے کے بغیر خود اپنے ’عقد ثانی‘ میں شرکت کی غرض سے جا رہے ہوں۔ جمہوریت کا نیا نیا تجربہ تھا۔ اور ان دنوں عوام میں جوش و خروش بھی بہت پایا جاتا تھا۔ چنانچہ بعض جوشیلے رائے دہندے ایک ہی پولنگ بوتھ پر دس دس بوگس ووٹ ڈال کر آتے تھے۔ آج جب ہم جمہوریت سے اپنے پچاس سالہ شخص تعلق پر نظر ڈالتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے حقیر اور ادنی سے ووٹ نے جواہر لال نہرو۔ لال بہادر شاستری اندرا گاندھی۔ راجیو گاندھی کے علاوہ وی پی سنگھ اور منموہن سنگھ جیسی ہستیوں کو اس ملک کی وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچانے میں مدد کی۔ ان پچاس برسوں تک تو معاملہ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا۔ لیکن بعد میں سیاست دانوں کا سماجی اخلاقی اور علمی معیار رفتہ رفتہ گرتا چلا گیا۔ ہمارے ایک دوست پارلیمنٹ کے رکن ہیں دہلی میں رہتے ہیں اور انہوں نے ہم پر یہ پابندی کر رکھی ہے کہ ہم کسی محفل میں ان کا تعارف رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے نہ کرائیں۔ کہتے ہیں لاج سی آتی ہے اور آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ اب پارلیمنٹ میں پڑھے لکھے ارکان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ غیر سماجی عناصر اور جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض تو ایسے بھی ہیں جو جیلوں میں بند ہیں۔ تقریباً تین دہائیوں تک اس ملک کی سیاست میں ہماری دلچسپی برقرار رہی۔ لیکن جب پہلی مرتبہ مسز اندار گاندھی انتخابات میں ہار گئیں تو ہم نے اس بات کا اتنا گہرا اثر قبول کیا کہ دو دنوں تک گھر سے باہر نہیں نکلے۔ بلکہ پریس کلب تک نہیں گئے۔ تب ہمیں احسا س ہوا کہ ہم اپنا ووٹ ووٹ بنک میں رکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ لہذا ہم نے بڑی ہوشیاری سے اپنا ووٹ ووٹ بنک سے نکالا اور اب اسے حسب موقع اور حسب ضرورت استعمال کرتے ہیں۔ یوں بھی بنکنگ سے ہمارا کوئی خاص سروکار نہیں ہے۔ لوگوں نے ہمیں بہت کم کسی بنک میں دیکھا ہو گا۔ جب ہم بنکوں میں اپنا پیسہ تک رکھنے کے قابل نہیں ہیں تو اپنے اکلوتے ووٹ کو کسی ووٹ بنک میں کیوں رکھیں۔
ہمارے ایک اور دوست ہیں جو مسزاندراگاندھی کی ہار سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ جمہوریت سے ہی دستبردار ہو گئے۔ اب نہ تو وہ ووٹ دینے جاتے ہیں نہ کسی انتخابی جلسے کو سنتے ہیں۔ ہم شخصی طور پر جمہوری عمل سے اس قدر بد دل ہونے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ صبح کبھی نہ کبھی تو آئے گی ہی جب ہمارے ووٹ کی حکمرانی پھر سے قائم ہو جائے گی۔ پچھلی دو دہائیوں کا ہمارا تجربہ کہتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس ملک میں کسی ایک پارٹی کی حکمرانی قائم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ لہذا اب ’مخلوط حکومتوں‘ کا بول بالا ہے۔ مخلوط حکومت بے پیندے کے لوٹوں یا تھالی کی بینگنوں کی مدد سے بنائی جاتی ہے۔ مخلوط حکومت سرکار چلانے کے کرتب تو دکھا سکتی ہے لیکن کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتی۔ پہلے سیاست دان اس ملک کو اور ملک کے شہریوں کو آپس میں جوڑنے کی بات کرتے تھے۔ مگر اب جوڑ توڑ ہی نہیں بلکہ توڑ توڑ کا چلن عام ہو گیا ہے۔ پہلے کوئی ایک سیاسی پارٹی شہریوں کو لوٹتی تھی مگر اب کئی لٹیرے مل کر پہلے عوام کے ووٹوں کو اور بعد میں ان کے نوٹوں کو لوٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس افراتفری کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اب ہرکس و نا کس اپنے آپ کو اس ملک کا وزیر اعظم بننے کا اہل سمجھنے لگا ہے۔ جس لیڈر کو اس کی تعلیمی لیاقت کی بنیاد پر ایل ڈی دسی کو نوکری نہیں مل سکتی اب وہ بھی وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھنے لگا ہے۔
جمہوریت کا یہی تو فائدہ ہے۔ تاہم ہم اپنے طور پر بہ رضا و رغبت یہ اعلان کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں ہیں۔ اگر کوئی صاحب یا پارٹی ہمیں وزیر اعظم بنانے کا ارادہ رکھتی ہے تو وہ ہمارے بھروسے بالکل نہ رہیں۔
بہر حال دوہی دن بعد جب انتخابی نتائج آ جائیں گے تو ہمیں پتہ چل جائے گا کہ لیڈروں کی منڈی میں کس لیڈر کا کیا بھاؤ مقرر ہو گا۔ بہر حال ایک ذمہ دار شہری کی طرح ہم مایوس ہونے کے باوجود اس ملک کے جمہوری نظام سے جڑیں رہیں گے اور ووٹ دینے والوں کی قطار میں بشرط زندگی بار بار جاتے رہیں گے۔
کہیں تو قافلہ نو بہار ٹھہرے گا۔
٭٭٭٭