وہ پاکستان کے ویران صوبے کے آباد سرکار ہیں، شکل سے بلوچ نہیں، پورا بلوچستان لگتے ہیں،مونچھیں اتنی نوکیلی کہ ان سے کسی کو زخمی کی جا سکتا ہے ، چیتے کی پھرتی، عقاب کی نظر، اونٹ کی دشمنی اور شیر سی ہلاشیری ہی نہیں، ان میں اور بھی کئی جانوروں والی خوبیاں موجود ہیں، وہ بگٹی قبیلے کے سردار ہیں، یہ اس قدر جنگجو قبیلہ ہے کہ، ان کے ہاں جس دن بچہ باہر کسی کو مار کر نہیں آتا، اس دن بچے کو مار دیتے ہیں، لوگ اپنے ذہن میں خدا کا تصور بنانے کیلئے سردار کو دیکھتے ہیں، معاف نہ کرنا اور حکم دینا اکبر بگٹی کو ورثے میں ملا ہے ، دوسرے کی بات یوں سنتے جیسے بادشاہ کسی کی فریاد سن رہا ہو، خود کو اپنے قد سے بھی اونچا سمجھتے ہیں، ویسے ان کا قد ایسا ہے کہ بندہ ان کے پاؤں سر تک پہنچے تو موسم بدل چکا ہوتا ہے ۔
دوران تعلیم کوئی پوچھتا آپ کس کلاس میں ہیں؟تو کہتے ہم اپر کلاس میں۔استاد پوچھتا ہوم ورک کیا ہے ؟تو کہتے ہمارے ہاں ہوم ورک نوکر کرتے ہیں، ہر معاملے میں خود کو دوسرے سے بڑا سمجھتے ہیں، وہ تو دس سال کی عمر میں خود کو تیس سال کے لوگوں سے خود کو بڑا سمجھتے ، ایچی سن کالج میں ان کی تعلیم کے دوران چیانگ کائی شیک دورے پر آیا تو بچوں کو لائن میں کھڑا کر کے ان سے ہاتھ ملانے کو کہا گیا، جب معزز مہمان موصوف تک پہنچے تو یہ پیٹھ پھیر کر کھڑے ہو گئے ، اب بھی جب کسی معزز مہمان کو آتا دیکھتے ہیں، ایسا ہی کرتے ہیں۔
لمبی بات نہیں کرتے ، بات اتنی مختصر ہوتی ہے کہ جونہی دوسرا متوجہ ہوتا ہے ، بات ختم ہو جاتی ہے ، کبھی کبھی تو یہ اتنی مختصر ہوتی ہے کہ اس کیلئے منہ بھی ہلانا نہیں پڑتا، اپنی بات میں زور پیدا کرنے کیلئے زور سے نہیں بولتے ، بلکہ چپ ہو جاتے ہیں، اس قدر صاف گو کہ بچپن میں بھی اس وقت تک کسی نہ ان کے منہ سے جھوٹ نہ سنا جب تک وہ باتیں نہ کرنے لگے ، انگریزی ادب اس قدر پسند ہے کہ جس کا ادب کرنا چاہیں، انگریزی میں کرتے ، کہتے ہیں، انگریزی پر میری گرفت ہے ، واقعی ان کی انگریزی قابل گرفت ہے ، سنا ہے جب وہ اردو کے خلاف ہوں تو اردو نہیں بولتے ، حالانکہ جب وہ اردو بولتے ہیں تو یہی لگتا ہے کہ وہ اردو کے خلاف ہیں۔
مجلس میں کوئی ایسی گفتگو یا واقعہ نہیں سناتے جس میں انکی حیثیت ثانوی ہو، اس لئیے وہ قیام پاکستان پر گفتگو نہیں کرتے ، وہ تو اپنے بیٹے کی شادی میں بھی تقریب کے دولہا خود ہی ہوتے ہیں،وہ کام نہیں کرتے جو سب کر سکیں، وہ کتاب تک نہیں پڑھتے جسے سب پڑھ سکیں، سیاستدانوں میں بیٹھے ہوں تو آنکھوں میں ایسی مستعدی ہوتی ہے جیسے مچان پر بیٹھے ہوں،ان سے پوچھو کسی کا شکار پسند کرتے ہیں؟تو کہیں گے شکاری کا۔نواب اکبر بگٹی ایک بار نصراللہ خان سے ناراض ہوئے تو کہا، آپ میں اور مجھ میں یہ فرق ہے کہ آپ نواب زادہ اور میں نواب ہوں۔
خود کو اپنی جماعت کا حصہ نہیں سمجھتے ، جماعت کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں، وہ کسی جماعت میں کھپ نہیں سکتے ، جس جماعت میں جائیں، وہاں کھپ پڑ جاتی ہے ، ہمارے ہاں مخلوط حکومتیں ہی نہیں، حکمران بھی مخلوط ہوتے ہیں، لیکن کسی مس کا لیڈ کرنا موصوف کے نزدیک مس لیڈ کرنا ہے ، حکومت آسان اور حکمران مشکل ہے اور وہ حکمرانی کرتے ہیں، حکومت نہیں ، ہمیشہ اپنا سر اونچا رکھا، وہ تو سوتے وقت بھی سر اونچا رکھتے ہیں،چاہے اس کیلئے دو تکیے کیوں نہ استعمال میں ہو،کسی کی تعریف بھی یوں کرتے ہیں جیسے اس کا مذاق اڑا رہے ہو،بھٹو مرحوم نے انہیں بلوچستان کے تخت پر یوں بٹھایا جیسے ہمارے ہاں چھوٹوں کو پاؤں پر بٹھایا جاتا ہے ، ڈاکٹر سے پوچھو دو اور دو کتنے ہوتے ہیں؟ تو وہ کہے گا، ہوتے تو چار ہیں مگر آپ فلاں کنسلٹنٹ سے سکینڈ اوپینین لے لیں اور فلاں فلاں ٹیسٹ کروالیں، سیاست دان سے پوچھو دو اور دو کتنے ہوتے ہیں؟ تو وہ کہے گا آپ کتنے چاہتے ہیں، مگر اکبر بگٹی کے علاقے میں دو اور دو اتنے ہی ہوتے ہیں جتنے موصوف کہتے ہیں، وہ تو قبیلے کے کسی فرد کو زندہ دفن کرنے کا حکم دیں تو وہ لوگ پھر بھی کہیں گے کہ دفن تو کیا مگر اتنے رحم دل ہیں کہ مار کر نہیں کیا، وہ دونوں ہاتھ جیب میں ڈال کر بھی آپ پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں، ذہین فتین اکبر بادشاہ کی آنکھوں میں ماضی کے ذکر سے چمک آ جاتی ہے ،جس سے لگتا ہے اب وہ جوان نہیں ہے ، ویسے بندہ تب بوڑھا ہوتا ہے ، جب اسے پتہ چلے کہ پچاس کا ہو گیا، لیکن انہوں نے آج تک خود کو یہ پتہ نہیں چلنے دیا۔
Mathematics اتنی کمزور کہ ایماڈنکن نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اپنے ہاتھوں سے کتنے لوگوں کو قتل کیا؟ تو آپ نے کہا مجھے گنتی یاد نہیں، ہو سکتا ہے انہوں اس عمر میں قتل شروع کئیے ہوں جب ابھی گنتی سیکھنے شروع بھی نہ کی ہو، انہیں موت کے بعد زندگی پر ایمان نہیں، ان سے مل لو تو موت سے پہلے زندگی پر بھی ایمان نہیں رہے گا، ان میں ایک خوبی وہ بھی ہے ، جو کسی سیاست دان میں نہیں ہوتی، جس میں ہو وہ سیاستدان نہیں، وہ ہے اپنی رائے کے غلط ہونے کا سر عام اعتراف کرنا، وہ بزدل سیاست کے بہادر سیاست دان ہیں، کہتے ہیں میں کسی سیاسی پارٹی میں نہیں آ سکتا، مجھ میں کئی پارٹیاں آ سکتیں ہیں،دشمنی میں وہاں تک چلے جاتے ہیں جہاں تک دشمنی جا سکتی ہے ، کہتے ہیں میں جو سوچتا ہوں، وہ کرتا ہوں، حالانکہ وہ جو کرتے ہیں وہ اس سے تو یہ نہیں لگتا کہ وہ سوچتے ہیں، یہ جاننے کیلئے کہ وہ آپ کی بات سن رہے ہیں یا نہیں، آسان طریقہ ہے ، اگر آپ ان کا ذکر کر رہے ہیں تو وہ سن رہے ہیں، اگر نہیں کر رہے ہیں، تو وہ نہیں سن رہے ہیں،سیاست دان تو لوگوں کے مسائل کو وسائل بنا کر جیتے ہیں، اور وسائل کو لوگوں کیلئے مسائل بنا دیتے ہیں، مگر ان کا ذریعہ روزگار سیاست نہیں، ان کے تو قبیلے کے لوگ کبھی روزگار کی تلاش میں کہیں نہیں گئے ، روزگار ان کی تلاش میں سوئی کے مقام پر آیا، یہ Suicide موصوف کی اجازت کے بغیر Suicide ہے ، ان کی پسندیدہ شخصیت ہٹلر ہے ، مگر یہ بات اس طرح بتاتے ہیں جیسے وہ ہٹلر کی پسندیدہ شخصیت ہو، کہتے ہیں انہوں نے اپنی زندگی میں خود سے بڑا آدمی آج تک نہیں دیکھا واقعی جو ان سے بڑا نکلا، اسے دیکھا بھی نہیں، ون ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنی ذات پر پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔
کہتے ہیں سو سنار کی ایک سردار کی، اگرچہ سردار اتنے سیاست میں نہیں ہوتے جتنے لطیفوں میں ہوتے ہیں، ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ سردار کتنا ہی سیانا کیوں نہ ہو، لوگ پھر بھی اسے سردار جی ہی کہہ کر بلاتے ہیں، وہ بلوچ ہی نہیں بے لوچ سردار ہیں، سیاست میں اپنے بچوں کے والد کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔
غیر سنجیدگی کا مظاہرہ بڑی سنجیدگی سے کرتے ہیں،کسی افواہ پر یقین نہیں کرتے جب تک سرکاری طور پر اس کی تردید نہ جائے ، ان کے کئی محافظ ہیں جن کا دعوی ہے کہ جب تک موصوف کی زندگی ہے ہم انکو مرنے نہیں دیں گے ، موصوف بے اختیار اپنے اختیار کی بات کرتے ہیں، کسی کی تعریف بھی یوں کرتے ہیں جیسے اس کا مذاق اڑا رہے ہوں، کھانوں میں انہیں مرچیں پسند ہیں، ان کے کھانوں میں مرچیں نہیں ڈالی جاتیں، مرچوں میں کھانا ڈالا جاتا ہے ، بڑوں میں انہیں چھوٹے پسند ہیں، ان کے غسل خانے کے باہر میڈونا کی تصویر دیکھ کر ایماڈنکن نے پوچھا آپ نے یہ تصویر غسل خانے کے باہر کیوں لگائی؟ کہا غسل خانے کے اندر گیلی ہو جاتی ہے ، اس قدر تنہائی کہ قوالی نہ پسند ہے کہ اس میں گانے والا تنہا نہیں ہوتا، ویسے وہ گانا سنتے ہی نہیں، دیکھتے بھی ہیں، گانے والے کو داد یوں دیت ہیں جیسے تسلی دے رہے ہوں۔کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب میرے کلاس فیلو تھے ، واقعی بھٹو کا تعلق بھی اسی کلاس سے تھا جس جس سے انکا ہے ، ان کا سیاسی کہنہ سالی کا ذکر کرو تو ناراض ہو جاتے ہیں، حالانکہ کہنے سالی کہنے پر تو ناراض سالی کو ہونا چاہئیے ، کہتے ہیں یہ فخر کی بات ہے کہ اے کے بروہی مجھے پڑھاتے رہے ہیں، مگر کہتے اس انداز سے ہیں جیسے اے کے بروہی کیلئے فخر کی بات ہو۔
جو شخص کچھ نہیں جانتا مگر سمجھتا ہے وہ سب جانتا ہے ، اس کیلئے سیاست بہترین پیشہ ہے ، موصوف بھی یہی پیشہ کرتے ہیں، ہم نے تو ہر کام صفر سے شروع کیا، یہاں تک کہ عمر بھی صفر سے شروع کی ، لیکن وہ سردار ہیں اور سرداروں کا صفر بھی بارہ سے شروع ہوتا ہے ، آپ یہ دعوی تو کر سکتے ہیں ہیں کہ آپ اس کے دوست ہیں، مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ آپ کے دوست ہیں، اتنا کم سوتے ہیں کہ پوچھو نیند کب آتی ہے ؟ تو کہیں گے جب سویا ہوا ہوں۔
خوشامد غور سے سنتے ہیں، کہ خوشامد کرنے والا دراصل وہی کچھ کہہ رہا ہوتا ہے جو وہ خود کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں، اتنا وہ نہیں بولتے جتنا ان کی تصویریں بولتی ہیں، ویسے مرد خاموش ہو تو آپ اس کی مکمل تصویر نہیں بنا سکتے اور عورت جب تک خاموش نہ ہو، آپ اس کی مکمل تصویر نہیں بنا سکتے ۔
وہ مولوی خولیا کے مریض ہیں، مذہبی معاملات پر یوں گفتگو کرتے ہیں جیسے لطیفہ سنا رہے ہوں، دین کے بارے میں انکا نظریہ وہی ہے ، جو شہنشاہ اکبر کا تھا، البتہ ان دنوں حکمرانوں میں یہ فرق ہے کہ شہنشاہ اکبر کے پاس نورتن تھے اور ان کے پاس No رتن ہیں۔ ٭٭٭