06:37    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

ڈرامے

2459 0 0 10

محلے کی ہولی - اطہر پرویز

ڈرامے میں کام کرنے والے

ڈرامے میں کام کرنے والے

سوتر دھار:

نٹی:

لالہ تیج رام ، شہباز خان:دو دوست

سوشیلا:لالہ تیج رام کی بیٹی

خالدہ:شہباز خان کی بیٹی

لالہ جی کی بیوی:

خالدہ کی امی:

ننھا بچہ:لالہ تیج رام کا سب سے چھوٹا بیٹا

میر صاحب:شہباز خاں کے مخالف

حافظ جی:شہباز خاں کے درپردہ مخالف

پنڈت جی:

ٹھا کر گوبند رام، پنڈت رام سرن، محمود میاں

ایک لڑکا  اور بوڑھا دادا حلوائی

ایک تماشائی، ایک لڑکا

سوتر دھار بیٹھے ہوئے پنڈت نہرو کی وصیت پڑھ رہے ہیں

(پردہ کھلتا ہے۔ سوتر دھار بیٹھے ہوئے پنڈت نہرو کی وصیت پڑھ رہے ہیں۔)

سوتر دھار:گنگا تو خاص بھارت کی ندی ہے۔ جنتا کی پیاری ہے۔ ہندوستان میں مختلف نسلوں کا آباد ہونا، ان کی امیدیں  اور  ان کے اندیشے ، ان کی ہار  اور  جیت کی کہانی، گنگا کے سینے میں چھپی ہوئی ہے۔ گنگا تو ہندوستان کی پرانی تہذیب کی نشانی ہے سدا بدلتی، سدا بہتی، پھر وہی گنگا کی گنا۔۔۔  وہ مجھے یاد دلاتی ہے۔ ہمالیہ کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیوں کی، گہری وادیوں کی، جن سے مجھے پیا رہے۔ ان کے نیچے زرخیز میدانوں کی ، جہاں کام کرتے میری زندگی گزر رہی ہے۔ میں نے صبح کی روشنی میں گنگا کو مسکراتے ، اچھلتے کودتے دیکھا ہے  اور دیکھا ہے شام کے سائے میں اداس، کالی سی چادر اوڑھے ہوئے ، جاڑوں میں سمٹی ہوئی آہستہ آہستہ بہتی سندر دھارا،  اور برسات میں دوڑتی ہوئی، سمندر کی طرح چوڑا سینہ لئے  اور سمندروں کی سی برباد کرنے کی طاقت لئے ہوئے۔ یہی گنگا، میرے لئے نشانی ہے ، بھارت کی قدیم تہذیب کی، جو آج تک بہتی ہوئی آئی ہے  اور جو زمانۂ حال میں سے گزرتی ہوئی مستقبل کے مہان ساگر  کی طرف بہتی چلی جا رہی ہے۔

(نٹی تیزی سے داخل ہوتی ہے۔)

نٹی:ارے یہ کیا گیتا کا پاٹھ ہو رہا ہے۔

سوتر دھار:یہ گیتا کا پاٹھ ہے یا پنڈت نہرو کی وصیت ہے۔ کبھی پڑھی ہو تو جانو بھی۔ تمہیں تو لڑنے سے ہی فرصت نہیں۔

نٹی:جی ہاں۔ پڑھے لکھے تو بس تم ہی ہو میں تو جاہل ہوں۔۔۔ مہمان ڈراما دیکھنے آ رہے ہیں  اور تم وصیت کا پاٹھ کر رہے ہو۔

سوتر دھار:مہمان!مہمان!!

نٹی:جی، ڈراما دیکھنے آ رہے ہیں ، جس کا آپ نے اشتہار کیا ہے۔

سوتر دھار:یہ تم بھی کیا بات کر رہی ہو۔ کیسا ڈراما؟

نٹی:تم اپنے دماغ کا علاج کراؤ۔

سوتر دھار:پھر وہی جھگڑے کی بات۔

نٹی:خیر اب اس بحث کو چھوڑو۔ڈرامے کا فیصلہ کرو۔

سوتر دھار:کون سا؟

نٹی:کوئی تاریخی ڈراما کرو اپنے دیش کے بار ے میں۔

سوتر دھار:تاریخی ڈرامے میں تو دقت ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ خاں صاحب  اور  لالہ جی کی دوستی کا ناٹک کریں۔

نٹی:اچھا تم ذرا دیکھنے والوں سے کچھ باتیں کرو۔ میں ایکٹروں کو جمع کرتی ہوں۔

سوتر دھار:ایکٹروں کو جمع کرو گی!!

نٹی:جی ہاں ایکٹروں کو جمع کروں گی۔ تم تو جیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔ میں نے کئی بار تم سے کہا ہے کہ بڑوں کے لئے ڈراما کھیلا کرو۔ مگر تم بھلا ماننے والے ہو۔ بچوں کے ڈرامے میں کتنی مصیبت ہوتی ہے۔ ایک بچے کو پکڑ کر لاؤ تو دوسرا نکل جاتا ہے۔

سوتر دھار: اور پھر  ذرا ذرا سی بات پر رونے بھی تو لگتے ہیں۔

نٹی: اور کیا اب انھیں مناؤ۔ ہر ڈرامے میں انھیں منانے کے لئے کھلونے  اور  مٹھائی پر اور روپیہ خرچ کرو۔

سوتر دھار: اور کیا !

نٹی: اور کیا !۔۔۔ مزے میں کہتے ہو، لیکن ڈراما کرو گے بچوں کاہی۔پنڈت نہرو نے بچوں سے محبت کی، کہ سب ہی کو شوق ہو گیا۔

سوتر دھار:۔۔۔ چاہے سارے دن بچوں کو پیٹیں ، انھیں ننگا پھرائیں ، ا سکولوں میں انھیں اچھی تعلیم نہ دیں ، لیکن جلسے میں دیکھو، تقریر سنو تو گویا سارا دیش بچوں سے پریم کرتا ہے۔

نٹی:خیر چھوڑو تمہیں کون سمجھائے۔ میں تواب بچوں کو گھیرنے جاتی ہوں۔

(نٹی چلی جاتی ہے۔)

سوتر دھار:(حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے) آپ نے ٹیگور کا نام سنا ہے۔

ایک تماشائی:جی ہاں۔

سوتر دھار:شاعر اعظم ٹیگور نے اپنی کتاب ’’گریٹر انڈیا‘‘ میں بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ ہندوستان کی تاریخ صرف ہندوؤں کی تاریخ نہیں ہے۔ صدیوں پہلے مسلمان اپنی مذہبی  اور  تہذیبی میراث لے کر آئے۔(اس درمیان میں کچھ عورتیں آ کر بیٹھ جاتی ہیں) اور یہاں کی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ اب انگریز اپنا سرمایہ لے کر آئے ہیں  اور اس کا جزو بن رہے ہیں۔ نیا ہندوستان کسی ایک مذہب یا نسل کے لوگوں کی جاگیر نہیں ہے۔ یہاں مختلف مذہبوں  اور تہذیبوں کو مل کر امن  اور  محبت کی زندگی بسر کرنا ہے۔

نٹی:ہٹ جاؤ۔ خاں صاحب کے گھرکی عورتیں آ رہی ہیں لالہ جی کے یہاں کی عورتوں سے ملنے۔

(نٹی  اور سوتر دھار ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ لالہ جی کے گھرکی عورتیں کھڑی ہو کر استقبال کرتی ہیں۔ خاں صاحب کے یہاں کی عورتیں برقع اتارتی ہیں۔)

سوشیلا:آؤ خالدہ!آؤ۔ دو دن سے تمہارا انتظار ہو رہا ہے۔ آنکھیں پتھرا گئیں ڈیوڑھی دیکھتے دیکھتے۔

خالدہ:ارے کیا بتاؤں۔ دو روز سے اس سویٹر میں لگی ہوئی ہوں۔ اسی لئے نکلنا نہیں ہوا۔

سوشیلا:کس کا سویٹر؟

خالدہ:اس وقت بھی میں تو اسی کام سے آئی ہوں۔ کہاں ہیں لالہ چچا۔

لالہ جی:(اندر سے نکلتے ہوئے) ارے بھائی یہ کس کی آواز آ رہی ہے۔ کہیں خالدہ تو نہیں؟

خالدہ کی امی:ہاں آپ ہی کا ذکر تھا۔ آپ کی بڑی عمر ہو۔ ابھی خالدہ آپ کو یاد کر رہی تھی۔

خالدہ:جی چچا!میں سویٹر کا ناپ دیکھنے آئی ہوں۔

(خالدہ سویٹر کے ایک پلے کو لالہ جی کے پاس آ کر ناپتی ہے۔)

لالہ جی:ارے بیٹی!یہ کیا کر رہی ہو۔ ہم تو روئی کی بنڈی پہننے والے ہیں۔

خالدہ:کل سے آپ روئی کی بنڈی نہیں پہنیں گے۔

لالہ جی کی بیوی:ارے جس کی بھتیجی اتنا اچھا سویٹر بنتی ہو۔ وہ پھر روئی کی بنڈی کیوں پہنے۔

خالدہ کی امی: اور کیا !بڑے شوق سے بن رہی ہے۔ کہہ رہی ہے کہ اسی رنگ کا ابا کا سویٹر بھی بنوں گی تا کہ دونوں بھائیوں کے سویٹر ایک رنگ کے ہو جائیں۔

لالہ جی:اچھا یہ بات ہے۔ جیسے بیلوں کی جوڑی پر ایک ہی رنگ کی جھول ڈالی جاتی ہے۔

خالدہ کی امی: بھائی صاحب! آج وہ کہہ رہے تھے۔

لالہ جی کی بیوی:وہ کون؟بھابی!

خالدہ کی امی:تمہارے بھیا۔

(سب ہنستے ہیں۔)

لالہ جی:ہاں تو شہباز خاں کیا کہہ رہے تھے؟

خالدہ کی امی:کل اتوار ہے۔ نہر پر پکنک کے لئے جانا ہے۔ تیار ہو جائیے گا۔

لالہ جی:یہ شہباز خاں کی اتوار والی پکنک بھی خوب ہے۔ آندھی آئے ، طوفان آئے ، اس کی پکنک کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ مجھے تو کام ہے۔ اس بار میرا جانا تو مشکل ہے۔

لالہ جی کی بیوی:ارے بس اپنے نخرے چھوڑو۔ بڑا کام ہے۔ اب بھیا تمہارے کام کی وجہ سے پکنک پربھی اکیلے جائیں گے۔ خالدہ کہہ دینا بھیا سے کہ تمہارے چچا ضرور جائیں گے۔

لالہ جی:اچھا اگر بھیجنا ہے تو پوری ترکاری ضرور تیار کر دینا۔

لالہ جی کی بیوی:وہ تو تیار ہوہی جائے گی، مجھے خود خیال ہے۔

خالدہ:ابا کو آپ کے ہاتھ کی ترکاری اتنی  پسند ہے کہ جب آپ بھیج دیتی ہیں تو وہ  اور کچھ کھاتے ہی نہیں۔

خالدہ کی امی:بھابی کے ہاتھ کی ترکاری تو خیر اچھی ہوتی ہی ہے لیکن سب سے مزے کی چیز تو اچار ہے۔ ہاں ہم لوگوں نے اس ترکیب سے کتنی بار اچار ڈالا۔ پروہ مزا نہ آیا۔

سوشیلا:بس بس خالدہ رہنے بھی دو۔ اتنا رائی کا پربت نہیں بناتے۔

ننھا بچہ:(توتلاتے ہوئے) اچال میں لائی تو پلتی ہی ہے۔

(سب لوگ ہنستے ہیں۔۔۔ خالدہ بچے کو گود میں اٹھا کر پیار کرتی ہے۔)

پردہ گرتا ہے

لالہ تیج رام کا گھر ہے

(پردہ کھلتا ہے۔لالہ تیج رام کا گھر ہے۔)

لالہ تیج رام:ارے سوشیلا۔ وہ میرا سویٹر نہیں ملا۔

سوشیلا:یہاں تو کہیں دکھائی نہیں دیتا۔

لالہ تیج رام:ارے تجھے کیوں ملنے لگا۔ ارے بھئی سنتی ہونا۔ ذرا دیکھنا میرا سویٹر کہاں رکھا ہے؟

لالہ جی کی بیوی:اے لو۔۔۔ وہ تو یہ سامنے پڑا ہے۔ تمہاری آنکھیں ہیں کہ بٹن۔ ٹھیک سے دیکھو تو ملے بھی۔

لالہ جی:اچھالو۔ تم تو بھاشن دینے لگیں۔یہاں کام سے جانا ہے۔

(لالہ جی سوئیٹر پہنتے ہیں۔۔۔ اس درمیان میں کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔)

لالہ جی:(باہر نکلتے ہوئے)ارے سنتی ہو، میں آج ذرا دیر سے لوٹوں گا۔ ارے میر صاحب تم کہاں !مجھ سے کچھ کام ہے؟اس وقت کہاں نکل پڑے۔

میر صاحب:ارے لالہ جی! کیا بتاؤں۔ تمہارے لنگوٹیا یار شہباز خاں سے ٹھن گئی ہے اس کو بھیک نہ منگوا دی تو میرا نام بھی میر فراست علی نہیں ہے۔ بڑا پٹھان بنا پھر تا ہے۔

لالہ جی:ارے بھئی، چھوڑو اس جھگڑے کو۔ آپس کے تعلقات ٹھیک کر لو۔

میر صاحب:اب تو معاملہ عدالت میں طے ہو گا۔ کہہ دینا شہباز خاں سے۔

لالہ جی:ارے بھائی، شہباز خاں سے ہمارے بڑے گہرے تعلقات ہیں۔ وہ آدمی بڑا شریف ہے۔ تم بلاوجہ اس کے پیچھے پڑ گئے ہو۔

میر صاحب:یہ تومیں ہی کیا سارا محلہ جانتا ہے کہ آپ کے اس سے بڑے گہرے تعلقات ہیں  اور شہباز خاں نے آپ کو شیشے میں اتار لیا ہے  اور  لالہ جی ٹھہرے سیدھے سادے آدمی۔ اس کی گھات سے واقف نہیں۔ اب یہ حافظ جی آ رہے ہیں۔ ان سے پوچھ لیجئے۔

(حافظ جی داخل ہوتے ہیں۔)

حافظ جی:کیا بات ہے؟لالہ جی بڑا زوردار سوئیٹر نکالا ہے۔

لالہ جی:ارے بھائی۔ وہ ہماری بچی خالدہ ہے نا۔ شہباز خاں کی لڑکی۔اسی نے بنا ہے بچی کا شوق ہے  اور اس کی ضد ہے کہ قمیض کے اوپر پہنوں۔ اب تم جانتے ہو بچوں کی ضد تو رکھنا ہی پڑتی ہیں۔

حافظ جی:ہاں کیوں نہیں۔ لیکن میر صاحب سے کیا باتیں ہو رہی ہیں۔

میر صاحب:حافظ صاحب!سچ سچ کہنا کہ شہباز خاں کیسا آدمی ہے۔

حافظ صاحب: بھائی میں تم دونوں کے معاملے میں نہیں پڑنا چاہتا۔

لالہ جی:بھئی میر صاحب!میں شہباز خاں کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سننا چاہتا۔

میر صاحب:ہاں ہاں کیوں سننے لگے۔ وہ بھی تمہارے خلاف کب سنتا ہے یہ  اور  بات ہے کہ پان والے سے تمہارے بارے میں کہہ رہا تھا۔۔۔

لالہ جی:پان والے سے کہہ رہا تھا!کیا کہہ رہا تھا؟

میر صاحب:اب چھوڑو بھی۔ تمہارا دوست ٹھہرا۔ تمہارے بارے میں جوجی چاہے کہے۔

لالہ جی:تمہیں بتانا پڑے گا میر صاحب!

حافظ جی:اماں چھوڑو۔ تم جاؤ اپنے کام پر لالہ جی۔

لالہ جی:نہیں ، میں سننا چاہتا ہوں ، کیا کہتے ہیں شہباز خاں۔

میر صاحب:بتا دوں۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ۔۔۔ لالہ جی! تم ہی ہو، جو برداشت کرتے ہو، ہم تو ایک دن میں مزا  چکھا دیں۔

لالہ جی:ارے بتاؤ گے بھی یا پہلیاں ہی بجھاؤ گے۔

میر صاحب:وہ کہتا ہے کہ لالہ تیج رام کے گھر کا آدھا خرچ برداشت کرتا ہوں۔

لالہ جی:میرے گھر کا  خرچ۔

میر صاحب: اور کیا !اس کے تعلقات میرے گھر سے ہیں۔ میرے یہاں سے عورتیں اس کے گھر جاتی ہیں۔ میں ان کے گھر میں اچار کے گھڑے بھجواتا ہوں  اور میں سوئیٹر۔۔۔ خیر چھوڑو بھی۔۔۔  مجھے کیا پڑی ہے کہ تمہارے معاملات میں دخل دوں۔

لالہ جی:ارے یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟

میر صاحب:ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ یاد رکھو۔ زیادہ میٹھے میں کیڑے پڑتے ہیں  اور  پھر وہ آدمی اچھا نہیں۔

لالہ جی:مجھے شہباز خاں سے یہ امید نہ تھی۔ میں نے ہمیشہ اس کے ساتھ بھائی جیسا سلوک کیا ہے۔

میر صاحب:یہی تو کہتا ہوں لالہ!تم گائے ہو گائے۔۔۔ ورنہ مجال ہے کہ وہ کسی  اور  کو کوئی بات کہہ کر نکل جائے  اور یہ بھی ہماری بیوقوفی ہے جو کہہ دیا ہے۔ ورنہ محلے میں کسے دلچسپی ہے جوتم سے کہنے جائے گا  اور  پھر تم بھی کیوں یقین کرنے لگے۔

لالہ جی:اگر بات سچی ہو گی تو کیسے یقین نہ کروں گا۔

میر صاحب:لالہ جی!تمہارا چپ رہنا ہی تو ہمارے حق میں زہر کا کام کرتا ہے۔تم بولتے نہیں  اور لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاں گڑھا ہوتا ہے ، وہیں پانی مرتا ہے۔

لالہ جی:مجھے آج بہت دکھ ہوا۔ میں شہباز خاں کو ایسا دشٹ آدمی نہیں سمجھتا تھا۔ اب حافظ جی!تم ہی کہو۔ برسوں کا ساتھ ہے۔ تم نے کبھی ہماری زبان سے شہباز خاں کے خلاف ایک لفظ بھی سنا۔

حافظ جی:لالہ جی!مجھے اسی لئے تو اور بھی حیرت ہے۔ اس محلے میں آپ کی  اور  خاں صاحب کی دوستی تو ایک مثال ہے۔

میر صاحب:ارے حافظ جی، آپ کو کیا خبر۔۔۔ شہباز خاں تو مل کر گلا کاٹنے والوں میں سے ہے۔

لالہ جی:تو بھائی میں آج کہیں نہیں جاؤنگا۔

(لالہ جی گھرکے اندر چلے جاتے ہیں۔)

میر صاحب:(قہقہہ لگاتے ہوئے) اب معلوم ہو گا شہباز خاں کو۔۔۔ وہ ابھی میر فراست علی کے ہتھکنڈوں سے واقف نہیں۔

حافظ جی:میر صاحب!ذرا میں جلدی میں ہوں۔ پھر ملوں گا۔

پردہ گرتا ہے

لالہ جی کے گھر کا منظر

(پردہ کھلتا ہے۔لالہ جی کے گھر کا منظر۔۔۔ لالہ جی غصے میں ٹہل رہے ہیں ، چہرے سے پریشانی ظاہر ہو رہی ہے۔ گھر میں سناٹا ہے۔)

لالہ جی کی بیوی:ارے کیا بات ہے؟کیسی طبیعت ہے۔

لالہ جی:کچھ نہیں !

لالہ جی کی بیوی:تم تو کام سے جا رہے تھے۔

لالہ جی:آج نہیں جاؤں گا۔

لالہ جی کی بیوی:کیا بات ہے ، کچھ طبیعت خراب ہے؟

لالہ جی:ہاں خراب ہی سمجھو(کچھ ٹھہر کر) سوشیلا کی ماں !بڑے دکھ کی بات ہے کیا بتاؤں؟

لالہ جی کی بیوی:ارے جلدی بتاؤ۔ تم تو اور دہلائے دے رہے ہو۔

لالہ جی:ارے کیا بتاؤں۔ شہباز خاں نے ایسی بات کہہ دی کہ بس کچھ نہیں کہہ سکتا۔

لالہ جی کی بیوی:ارے کہتے بھی ہو یا یوں ہی پہیلیاں بجھاؤ گے۔ ابھی انھوں نے کچھ کہا ہے کیا؟

لالہ جی:مجھ سے کیا کہے گا!مجھ سے کہتا تو میں منھ دہرا کر دیتا۔ سارے محلے میں کہتا پھر تا ہے کہ لالہ جی کے گھر کا آدھا خرچ میں برداشت کرتا ہوں۔

لالہ جی کی بیوی:اونھوں۔۔۔ تواب وہ ہمارے گھر کا خرچ بھی برداشت کریں گے۔

سوشیلا:اماں۔۔۔ چاچا ایسی بات نہیں کہہ سکتے۔ مجھے تو کسی کی لگائی بجھائی معلوم ہوتی ہے۔

لالہ جی:بس تو چپ رہ۔ ہم نے تو اپنے کان سے سنا ہے۔ میں نے بھی اسے محلے بھرمیں ذلیل نہ کیا تو میرا نام بھی تیج رام نہیں ہے۔(دروازے پر کسی کے کھٹکھٹانے کی آواز آتی ہے) ارے بھائی آیا۔ ذرا دیکھنا تو باہر کون ہے۔ کہیں پنڈت جی تو نہیں آ گئے۔ صبح آنے والے تھے۔

(سوشیلا سر جھکائے جاتی ہے۔)

سوشیلا:(باہر سے آتی ہے) ہاں پنڈت جی ہی آئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر  وقت ہو تو آج ہولی کے چندے کے سلسلے میں دو چار جگہ ہولیں۔

لالہ جی:اچھا بھئی۔۔۔ یہ ہولی کمیٹی کا سکریٹری ہونا بھی مصیبت ہو گیا۔ پانچ سال سے کہہ رہا ہوں کہ کسی دوسرے کو  چن لو۔ مگر لوگ مانتے ہی نہیں۔

(لالہ جی باہر آتے ہیں۔)

پنڈت جی:لالہ رام رام۔ بھئی اگر آپ کو تکلیف نہ ہو تو ذرا دو چار آدمیوں سے مل لیں۔

لالہ جی:ہاں ہاں ضرور۔۔۔ تم اچھا ہوا آ گئے۔۔۔ تم سے کچھ بات بھی کرنا ہے۔

پنڈت جی:لالہ جی۔ تم ذرا دیر ٹھہرو۔ میں اتنے میں خاں صاحب کو بلا لاؤں پھر تینوں ساتھ چلیں گے۔

لالہ جی:خاں صاحب کو بلانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کے بغیر کوئی کام نہیں رکتا۔ بڑا آیا سیٹھ ساہوکار کہیں کا۔ میرے گھرکا خرچ برداشت کرتا ہے۔اس کو مزا نہ چکھا دوں تو لالہ شیو رام کی اولاد نہیں۔

پنڈت جی:کیا بات ہو گئی، لالہ جی۔

(پنڈت جی کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔)

لالہ جی:چلو ابھی سب بتائے دیتا ہوں۔

پردہ گرتا ہے

اسٹیج پر لکڑیوں کا ڈھیر ہے

(پردہ اٹھتا ہے۔۔۔  اسٹیج پر لکڑیوں  کا ڈھیر ہے۔۔۔  سوتر دھار گھبرایا ہوا آتا ہے۔)

سوتر دھار:یہ نٹی کہاں گئی۔ نٹی نٹی۔ ارے بھئی سنتی ہو۔

نٹی:(دوڑتی ہوئی آتی ہے)کیا بات ہے کیوں پریشان ہو۔ مجھے بھی پریشان کرتے ہو۔ تمہاری چیخ سن کر میک اپ روم سے آ رہی ہوں۔

سوتر دھار:گڑبڑ ہو گیا۔۔۔ سارا کھیل گڑبڑ ہو گیا۔

نٹی:کیا بات ہے۔ کیا کوئی ایکٹر ناراض ہو کر چلا گیا۔

سوتر دھار:اجی نہیں۔۔۔ ایکٹر ناراض ہو کر کیا جائے گا۔ یہاں تو بنا بنایا تماشا خراب ہو گیا۔ تم سے کہا تھا کہ قومی یک جہتی کا ڈراما مت کرو مگر تم ٹھہریں پنڈت نہرو کی چیلی۔

نٹی:آخر کیا بات ہوئی۔

سوتر دھار:تمہیں پتہ ہی نہیں۔۔۔ کھیل کی فکر ہو تو معلوم بھی ہو۔

نٹی:بات بتاتے نہیں ، اپنی لگائے ہوئے ہو۔

سوتر دھار:کچھ سنا بھی تم نے۔ لالہ جی  اور  خاں صاحب میں بڑے زور کا جھگڑا ہوا  اور یہی ہمارے اصل ایکٹر ہیں۔

نٹی:تم پاگل تو نہیں ہو گئے۔

سوتر دھار:ابھی تک تو نہیں ہوا، لیکن اب ہو جاؤں گا۔ شہباز خاں نے لالہ جی کو کچھ کہہ دیا۔ اس پر انھوں نے نہ صرف یہ کہ انھیں ہولی کمیٹی سے الگ کر دیا۔ بلکہ اس سال ہولی کا چندا بھی نہیں لیا۔

(اس درمیان میں اسٹیج کے پیچھے داہنے کونے سے شہباز خاں کی گھر کی عورتیں برقعہ پہن کر خاموشی سے آہستہ آہستہ گزرتی ہیں  اور  بائیں راستے سے لالہ جی کے گھرکی عورتیں اسی خاموشی کے ساتھ داہنے راستے کی طرف چلی جاتی ہیں۔ بیج اسٹیج پر دونوں  کا  آمنا سامنا ہوتا ہے لیکن وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر منھ پھیر کر چلی جاتی ہے۔)

نٹی:ارے یہ کہاں جا رہی ہیں۔

سوتر دھار:جاتی کہاں۔۔۔ یہی تو کہہ رہا ہوں کہ ان کے تعلقات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ عورتوں نے بھی ایک دوسرے سے بات چیت بند کر دی ہے۔

نٹی:(سر پیٹ کر) میں کہتی ہوں تم کوئی دوسرا کام کرو۔ یہ ناٹک تمہارے بس کا روگ نہیں۔ بس تم مونگ پھلی بیچو۔ اتنی سی بات نہیں سمجھتے۔۔۔  یہ ناٹک ہے ناٹک۔۔۔ اچھا تو اب اسٹیج چھوڑو۔(سوتر دھار کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو نٹی  کان پکڑ کر پردے کے پاس لے جا کر بٹھا دیتی ہے  اور اس کے ہاتھ میں رسی دے دیتی ہے۔)اب چپ چاپ یہاں بیٹھے رہو۔ ہلنا مت یہاں سے  اور  ایسے بیٹھو کہ تماشا دکھنے والے تمہیں نہ دیکھ سکیں۔

(نٹی چلی جاتی ہے  اور فوراً ہی اسٹیج پر لوگ چیختے ہوئے آتے ہیں۔ سب کے ہاتھ میں چھوٹے چھوٹے ڈنڈے ہیں  اور چلا رہے ہیں۔۔۔  ’’ہولی ہے۔۔۔ ہولی ہے ‘‘ اتنے میں میر صاحب  اور لالہ تیج رام داخل ہوتے ہیں۔)

میر صاحب:ہاں بھئی لالہ! ہولی جلانے کاکیا سمے طے ہوا ہے۔

لالہ جی:بس اب آگ دیتے ہیں۔۔۔ کیوں میر صاحب دیکھا تم نے ، کیسا خاں صاحب کو چت کر دیا، یاد کرے گا۔

میر صاحب:لالہ جی!کمال کیا ہے۔ سنا ہے کہ مرزا صاحب کے سامنے رو  گا رہے تھے کہ مجھ سے ہولی کا چندا نہیں لیا گیا۔

لالہ جی:چلواس بہانے ان کے آٹھ آنے بچے۔

(لالہ ہنستے ہیں۔)

میر صاحب: اور تم  کو خوب گالیاں دے رہے تھے۔

لالہ جی:میر صاحب!تم  کو معلوم نہیں۔ ان کے چندے کے لئے میرے اوپر کتنا زور پڑا ہے۔ لیکن میں نے کہہ دیا ہے کہ جب تک لالہ تیج رام سکریٹری ہیں ، ہولی کا چندا شہباز خان سے نہیں لیا جائے گا۔اگر پیسہ کم پڑا تومیں اپنی جیب سے دوں گا۔

میر صاحب:اس سے چندا لینے کے لئے کس کس نے زور دیا۔

لالہ جی:ارے یہی محمود میاں ، ٹھا کر گوبند سنگھ، پنڈت رام سرن۔۔۔ غرض اس زمانے میں شہباز خاں کے بہت سے حمایتی نکل آئے۔ کہتے تھے کہ باپ دادا سے ہوتا آیا ہے کہ تیوہار میں محلے کا ہر آدمی شریک ہوتا ہے۔ شہباز خاں کو الگ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔

(شہباز خان غصے میں بپھر ے ہوئے داخل ہوتے ہیں۔)

شہباز خاں :ہولی نہیں جلے گی۔

ایک آدمی:کیوں خان صاحب کیا بات ہے؟

شہباز خاں :بات مجھ سے پوچھتے ہو۔ تمہیں جو کچھ پوچھنا ہے لالہ تیج رام سے پوچھو۔

حافظ جی:ارے خاں صاحب!بات تو بتاؤ۔

شہباز خاں :میں پوچھتا ہوں کہ یہ محلے کی ہولی ہے یا لالہ تیج رام کے گھرکی۔

ٹھاکر گوبند سنگھ:محلے کی ہولی ہے خاں صاحب۔

شہباز خاں :تو پھر میرا چندا کیوں نہیں لیا گیا۔(مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے) اسی لئے تو ہولی نہیں جلنے دوں گا پہلے یہ قصہ طے کرو۔

ٹھا کر گوبند سنگھ:بھئی خاں صاحب بات تو ٹھیک کہتے ہو۔

شہباز خاں :ٹھا کر صاحب!تم خود انصاف کرو۔ آج تک کبھی ایسا ہوا ہے؟

میر صاحب:کیسے نہیں جلے گی۔۔۔ اب تک تمہارے ہی پیسے سے تو جلتی تھی۔۔۔  بڑے آئے رستم کہیں کے۔

(خاں صاحب غصے میں آگے بڑھتے ہیں  اور  جوتا اٹھا کر میر صاحب کو مارنا ہی چاہتے ہیں کہ لالہ تیج رام شہباز خاں کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔)

لالہ جی:کمزور پر ہاتھ اٹھاتے ہو شہباز خاں۔۔۔ مجھ سے بات کرو۔ یہ میرا معاملہ ہے میر صاحب کا اس سے کیا سمبندھ۔۔۔ ہولی جلے گی  اور  ضرور جلے گی۔

شہباز خاں :آگ  ڈالو تو دیکھیں۔۔۔ لالہ جی تمہارے کہنے پر اگر ہولی جلے گی تو اس کے ساتھ میری لاش بھی جلے گی۔میرے جیتے جی تو کسی میں اتنا دم نہیں کہ اس میں چنگاری بھی ڈال دے۔

ٹھاکر گوبند سنگھ: بھائی سنو۔۔۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سنو۔ اس جھگڑے کا کچھ فیصلہ ہونا چاہئے۔

میر صاحب:اس کا فیصلہ یہ ہو گا کہ خاں صاحب اپنی اٹھنی سے اپنے گھر میں ہولی جلائیں۔ محلے کی ہولی تو ابھی جلے گی۔

حافظ جی:جی  اور کیا۔۔۔ ایک آدمی کے چندا نہ دینے سے بھلا کہیں ہولی کی ساعت ٹالی جائے گی۔

میر صاحب: اور کیا۔۔۔ لالہ جی تم ہولی جلاؤ۔

شہباز خاں :ذرا ہم بھی تو دیکھیں کیسے جلاتے ہو۔

ٹھاکر گوبند سنگھ:تھوڑی دیر کے لئے سب خاموش ہو جاؤ۔ میں ایک بات پوچھتا ہوں کہ لالہ تیج رام  اور  شہباز خاں کے آپسی جھگڑے سے محلے کی ہولی کا کیا تعلق ہے۔

میر صاحب:جی ہاں تعلق ہے۔ لالہ تیج رام ہولی کمیٹی کے سکریٹری ہیں۔

شہباز خاں :سکریٹری ہیں تو اٹھنی لیں۔

(جیب سے اٹھنی نکالتے ہیں۔)

میر صاحب:تو ڈال  دو اپنی اٹھنی ہولی کی آگ میں۔

(شہباز خاں اک دم گھبرا جاتے ہے۔)

شہباز خاں :میرا مطلب ہے کہ اس اٹھنی کی لکڑی لاؤ۔

پنڈت رام سرن:ہاں بھئی اس کی ایک  اور شکل ہے کہ شہباز خاں اپنی اٹھنی کے بجائے لکڑی کا انتظام کریں۔

محمود میاں :لیکن اتنی رات گئے لکڑی کہاں ملے گی۔

میر صاحب:ملے چاہے نہ ملے لیکن اٹھنی تو نہیں جلے گی۔

(شہباز خاں چپ چاپ سر  جھکائے چلے جاتے ہیں۔ آوازیں آتی ہیں۔۔۔ ہولی ہے ، ہولی ہے۔)

ایک آدمی:شہباز خاں کہاں گئے ہیں۔

دوسرا آدمی:رات زیادہ ہو گئی ہے۔ سونے گئے ہیں۔

میر صاحب:بڑے پٹھان بنتے ہیں !

لالہ تیج رام:میر صاحب!ابھی خاں صاحب لالہ تیج رام کی گھاتوں سے واقف نہیں ہیں۔ دیکھا کیسی پٹخنی دی ہے۔

میر صاحب:ہاں بھائی لالہ جی!ہم بھی تمہارے قائل ہو گئے۔

ٹھاکر گوبند سنگھ:اب یہ سوچو، کرنا کیا چاہئے۔

میر صاحب:کرنا کیا ہے۔ ہولی میں آگ دینا چاہئے۔

پنڈت رام سرن:مگر یہ بات کچھ اچھی نہیں معلوم ہوئی۔

ٹھاکر گوبند سنگھ:ہاں پنڈت جی۔ اس ہولی میں بغیر شہباز خاں کے کیا مزا۔

ایک لڑکا:ٹھا کر صاحب!کیا خاں صاحب اس بار رنگ بھی نہ کھیلیں گے۔

(میر صاحب لڑکے کو چپت لگاتے ہیں۔)

میر صاحب:بس بس چپ رہ بڑا آیا ہولی کھیلنے والا۔

(سہم کر لڑکا پیچھے ہٹ جاتا ہے۔)

لالہ جی:ہاں تو میر صاحب اب کیا کرنا چاہئے۔

میر صاحب:کرنا کیا ہے۔ اب دیر ہی کس بات کی۔ آگ کا انتظام کرو۔

(شہباز خاں اسٹیج پر داخل ہوتے ہیں۔ سر پر لکڑی  کا بوجھ ہے جس میں دروازوں کی توڑی ہوئی جوڑی ہے۔ کرسیاں  اور میز کے ٹکڑے ہیں۔۔۔ گھریلو استعمال کا لکڑی کا سامان۔)

ٹھاکر گوبند سنگھ:ارے یہ کیا۔۔۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ خاں صاحب گھر کا سامان توڑ کر لا رہے ہیں۔

لالہ جی:ارے یہ تو نئی کرسیاں توڑ لائے۔

پنڈت جی:دروازے کی جوڑی بھی توہے۔

لالہ جی:(آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ پونچھتے ہیں) ارے اس میں تو خالدہ کا جھولا بھی ہے۔۔۔ (بھرائی ہوئی آواز میں) یہ کیا کیا تم نے۔

(شہباز خاں اس گٹھر کو ہولی کی لکڑیوں میں ڈال دیتے ہیں۔)

شہباز خاں :(لالہ جی کے ہاتھ میں ماچس دیتے ہوئے) لالہ!اب جلاؤ ہولی۔ میرا چندا ادا ہو گیا۔

(لالہ تیج رام کے ہاتھ سے ماچس گر پڑتی ہے۔ شہباز خاں مونچھوں پر تاؤ دیتے ہیں۔ محلے کا بوڑھا حلوائی لٹھیا ٹیکتا ہوا آتا ہے۔)

بوڑھا حلوائی:بس ہو چکا جھگڑا۔ اب دونوں ہاتھ ملاؤ۔ آپس کی لڑائی اچھی نہیں۔ (دونوں کا ہاتھ ملا دیتا ہے۔ دونوں گلے ملتے ہیں  اور  رونے لگتے ہیں) میر صاحب! تم بھی آ جاؤ۔۔۔  اور آج تک کے تمام جھگڑے  اور  کپٹ ہولی کی آگ میں جلاؤ۔

(میر صاحب، خاں صاحب سے گلے ملتے ہیں۔۔۔ تالیوں کی آواز ’’ہولی ہے۔۔۔ ہولی ہے ‘‘ کا شور)

پردہ گرتا ہے

لالہ جی اور شہباز خاں کے گھرکی

(لالہ جی  اور شہباز خاں کے گھرکی عورتیں ایک دوسرے سے گلے مل رہی ہیں۔ خالدہ  اور سوشیلا ایک دوسرے کے آنسو پونچھتی ہیں۔ لالہ جی دروازے سے باہر نکلتے ہیں کہ ٹھاکر گوبند سنگھ ملتے ہیں۔)

ٹھا کر گوبند سنگھ:ارے لالہ جی!بڑا رنگین سویٹر نکالا ہے  اور وہ بھی اس گرمی میں۔

لالہ جی:ارے بھائی، وہ ہماری بھتیجی ہے نا خالدہ۔۔۔ اسی نے بنا ہے کہتی ہے آج تو پہنو چاہے کل اتار دینا۔۔۔ تم جانتے ہو کہ بچوں کی ضد تو رکھنا ہی پڑتی ہے۔

ٹھا کر گوبند سنگھ: اور کیا۔۔۔ بچوں کا معاملہ تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

لالہ جی:ٹھا کر صاحب!آج ہم لوگ پکنک پرجا رہے ہیں۔ تمہیں بھی چلنا ہو گا۔

ٹھا کر گوبند سنگھ:ارے بھائی۔ میں کہاں پکنک پرجاؤں گا۔ مجھے اتنی فرصت کہاں۔

لالہ جی:آج تو تمہیں چلنا ہی ہو گا۔(گھر میں آواز دیتے ہیں)ارے سوشیلا کی ماں ذرا کھانا جلدی تیار کر  دینا پکنک پر جانا ہے  اور اچار رکھنا نہ بھولنا میں ابھی شہباز کے پاس سے ہو کر آتا ہوں۔(شہباز خان بھی آ جاتے ہیں اسی رنگ کا سوئیٹر پہنے ہوئے) لو میں تو تمہارے یہاں جا رہا تھا  اور  تم یہاں چلے آئے۔

(دونوں گلے ملتے ہیں۔)

سوتر دھار:(داخل ہوتا ہے گھبرایا ہوا) بس بس ہو گئی دوستی۔ اب تماشا ختم ہوتا ہے۔ آپ لوگ جا سکتے ہیں۔

نٹی:تم پردہ گراتے ہویا تماشا دیکھنے والوں کو بھگا رہے ہو۔۔۔  جلدی گراؤ پردہ۔

(سوتر دھار دوڑ کر پردہ گراتا ہے۔)

***

ماخذ: ’’ہولی  اور  چراغ‘‘

اردو گھر

علی گڑھ

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

Zoya

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔