10:31    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

898 0 0 00

ہمت شکستہ

چٹ، چٹ، انڈا چٹخا اور ننھا منا بچہ باہر نکل آیا۔

دوسر ا انڈا چٹخا مگر جب تیسرے انڈے کے بجائے چوتھا انڈا چٹخا تو بی چڑیا کو تشویش ہوئی.... کیا بات ہے، باری تو اس انڈے کی تھی۔’‘ انہوں نے میاں چڑے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

‘’چلو چل کر دیکھتے ہیں ۔’‘ میاں چڑے بھی گھبرائے۔

دونوں انڈے کے پاس پہنچے۔

‘’کھٹ کھٹ۔’‘دھیرے دھیرے انڈے پر چونچیں ماری گئیں اور جب انڈا ٹوٹا ، چھلکا ہٹا تو دیکھا کہ ننھے میاں آرام سے آنکھیں موندے پڑے ہیں ۔

‘’بے چارہ کمزور ہے۔’‘بی چڑیا کی ممتا امنڈ آئی۔

‘’ہاں شاید۔’‘ چڑے میاں کو شاید بی چڑیا کی رائے سے کلی طور پر اتفاق نہ تھا۔ کیونکہ بظاہر ننھے میاں نارمل نظر آ رہے تھے۔

ننھے میاں نارمل ہی تھے بس یہ تھا کہ انہیں زیادہ ہاتھ پاؤں ہلانا پسند نہ تھا۔

‘’ زندگی آرام آرام سے گزرنی چاہیے۔ ہر کام اپنے وقت پر خود ہی ہو جاتا ہے۔’‘ یہ ان کا مقولہ تھا اور وہ اپنے اس مقولے پر بڑی دلجمعی سے کاربند تھے۔

لہٰذا جب بی چڑیا دانہ دنکا چن کر آئیں اور سب بچے شور مچاتے ان کے گرد جمع ہو جاتے تو ننھے میاں آرام سے ایک طرف بیٹھے رہتے کیونکہ ان کا حصہ ان کو ضرور ملے گا بلکہ حصے سے کچھ زیادہ ہی کیونکہ بی چڑیا کے خیال میں وہ کمزور تھے اور ان کو بہتر غذا کی دوسروں سے زیادہ ضرورت تھی۔

اب بھلا ننھے میاں کو کیا پڑی تھی کہ اتنی مراعات کے ہوتے ہوئے وہ کچھ محنت کرتے وہ تو بس کونے میں اٹکے بڑے سے پتے کے پیچھے دبکے بیٹھے رہتے کبھی کبھی سر نکال کر باقی بھائیوں پر نظر ڈال لیتے جن کو نچلا بیٹھنا نہیں آتا تھا کبھی ایک دوسرے سے الجھتے تو کبھی گھونسلے سے باہر جھانکنے کی کوشش کرتے۔

کچھ دن اور گزر گئے ۔ بچوں کو منے منے پر نکل آئے ۔ اب وہ گھونسلے کی منڈیر پر چڑھ جاتے اور گھونسلے میں چھلانگیں لگاتے۔ ننھے میاں کے آرام میں خلل پڑتا وہ جھنجلا جاتے۔ کیا مصیبت ہے؟’‘ وہ پتے کے پیچھے سے سر نکال کر ڈانٹتے۔’‘ ہر وقت شور مچاتے ہو۔ کبھی تو آرام سے بیٹھ جایا کرو تم لوگ۔’‘

تم بھی آ جا ؤ ۔ بڑا مزہ آ رہا ہے۔’‘ بڑے بھائی دعوت دیتے۔

ہاں ، ہاں آ جائیں آپ تو ہر وقت بیٹھے ہی رہتے ہیں ۔ بور نہیں ہوتے۔ منے میاں بھی بولتے۔ تم تو چپ ہی رہو۔’‘ میں تمہاری طرح وحشی نہیں ہوں کہ ہر وقت اچھل کود کرتا رہوں ۔’‘ بڑے بھائیوں پر بس نہیں چلتا تو وہ ننھے میاں پر برس پڑتے۔

اصولاً تو وہ منے میاں سے چھوٹے تھے کیونکہ انڈے سے منے میاں کے بعد برآمد ہوئے تھے مگر انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

اس سے کیا ہوتا ہے ۔ باری تو میری تھی باہر نکلنے کی پتہ نہیں تم کو کیا جلدی پڑی تھی مگر اب اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم میرے بڑے بن کر بیٹھ جا ؤ۔’‘ انہوں نے منے میاں کی اچھی خبر لی تھی۔

پہلے تو منے میاں نے احتجاج کرنا چاہا مگر جب بی چڑیا نے بھی منے میاں کی حمایت کی تو منے میاں نے اپنے آپ کو چھوٹا مان لینے میں ہی عافیت جانی۔

ارے ان کا کیا ہے۔ پھبن جھپٹ کر پیٹ بھر ہی لیتے ہیں ۔ وہ چیں چیں کرتے بچوں کو ادھر ہٹاتی ننھے میاں کے پاس آ جاتی۔

اور دیکھو۔ تمیز سے بات کیا کرو۔ ننھے میاں نے گھر کی دی اور اب ننھے میاں بڑے ادب سے ان سے آپ جناب کر کے بات کرتے تھے۔

ننھے میاں اپنے آپ کو بڑا منوا کر کچھ زیادہ ہی اکڑ گئے تھے اب وہ اپنے چھوٹے موٹے کام بھی منے میاں سے کروا لیتے۔

‘’ پتہ ٹھیک سے کھڑا کر دو میری جگہ صاف کر دو۔ ذرا دیکھو امی کہیں درخت پر نظر آ رہی ہیں کہ نہیں ۔’‘ اور منے میاں بڑی سعادت مندی سے ان کے کام کر دیتے۔

چند دن اور گزرے۔ ننھے منے پر بڑے ہو گئے جسم بالوں سے ڈھک گیا ۔ بچے اب گھونسلے کے پاس چھوٹی چھوٹی شاخوں پر نکل جاتے ایک شاخ سے دوسری شاخ پر پھدکتے پھرتے۔ ننھے میاں بھی اب ہمت کر کے منڈیر پر آ بیٹھے مگر گھونسلے سے باہر نکلنے کی ہمت نہ کر پاتے بھائیوں کو ادھر ادھر پھدکتے دیکھ کر منڈیر پر بیٹھتے بیٹھتے ہولتے رہتے۔

خدانخواستہ اگر کوئی نیچے گر جائے تو ۔’‘ وہ نیچے جھانکتے اور کانپ جاتے اور جو کبھی کتا بلی نظر آ جاتا تو پھر اندر ہی کھسک لیتے اور اپنے پتے کے پیچھے جا چھپتے۔

اب تو بی چڑیا اور چڑے میاں بھی ان کو باہر آنے کی ترغیب دیتے۔

آ کر تو دیکھو کیسا اچھا لگ رہا ہے۔’‘ بی چڑیا ایک شاخ سے دوسری شاخ پر پھدکتے ہوئے ان کو بلاتیں اور گھونسلے کی منڈیر پر بیٹھتے ننھے میاں بہانے بنانے لگتے ۔ اس وقت تو ہوا بہت تیز ہے اب تو اندھیرا ہونے والا ہے۔ اف توبہ کتنی موٹی بلی نیچے بیٹھی ہے۔ ‘‘ ان کو بہانے بھی خوب سوجھتے۔ کبھی کبھی چڑے میاں کو غصہ آ جاتا۔

کوشش نہیں کرو گے تو کیسے اڑنا سیکھو گے۔ وہ ڈانٹتے اور ننھے میاں روہانسے ہو جاتے۔ ان کی رونی شکل دیکھ کر بی چڑیا پسیج جاتیں ۔

‘’اے رہنے دو’‘ وقت آئے گا تو اڑنا بھی سیکھ لے گا۔’‘ وہ چڑے میاں کو ٹوکتیں ۔ ‘’کمزور ہے نا بے چارہ۔’‘

‘’اونہہ .... پتہ نہیں کب وہ وقت آئے گا۔ بی چڑیا کی بے جا ہمدردی چڑے میاں کو پسند نہ آتی اور وہ بڑبڑاتے ہوئے اڑ جاتے۔

ننھے میاں بھی موقع غنیمت جان کر اپنی پناہ گاہ میں جا گھستے۔

پتہ نہیں سب کیوں میرے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔’‘ وہ غصہ سے سوچتے ۔ جب اڑنا آئے گا تو اڑ بھی لوں گا کیا ضرورت ہے کہ ابھی سے بلاوجہ کوششیں کروں اور کسی دن نیچے گر پڑوں اور نیچے وہ موٹی، کالی خالہ بلی....

وہ خوف سے آنکھیں بند کر لیتے۔

اور ایک دن منے میاں نیچے گر ہی پڑے وہ تو خیر ہوئی کہ بی خالہ اس وقت اپنی مخصوص جگہ پر نہ تھیں گھومنے گئیں ہوئیں تھیں اور جب کافی دیر کی کوشش کے بعد بی چڑیا اور چڑے میاں ننھے میاں کو واپس گھونسلے میں لانے میں کامیاب ہوئے تو ننھے میاں کو دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل گیا۔

‘’اور جا ؤ باہر اور اڑو۔ آیا نہ مزہ اب اور جو خالہ بلی ہوتیں نیچے تو اور مزہ آتا۔’‘ انہوں نے جی بھر کر منے میاں کو سنائیں ۔

اے خدا نہ کرے۔ ‘‘ بی چڑیا کا دل دہل گیا۔

‘’ جب کچھ سیکھا جاتا ہے تو ایسا تو ہوتا ہی ہے۔’‘چڑے میاں نے اطمینان سے کہا اور ننھے میاں جل گئے۔

تو ضرورت کیا ہے سیکھنے کی۔ ہر چیز اپنے وقت پر آ جاتی ہے وہ بڑبڑاتے ہوئے اپنی پناہ گاہ میں گھس گئے۔

دو چار دن تو منے میاں محتاط رہے مگر کب تک....؟

ایک دن موسم بڑا پیارا ہو رہا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ۔ بادل چھائے ہوئے تھے اور ننھے میاں گھونسلے میں بیٹھے سوچ رہے تھے کہ پتہ نہیں اماں کب آئیں گی کہ اتنے میں تینوں بھائی شور مچاتے گھونسلے میں داخل ہوئے ۔ ننھے میاں جو پہلے ہی بھوک سے پریشان تھے جھنجلا گئے۔

‘’ کیا مصیبت آ گئی؟’‘ انہوں نے خفگی کا اظہار کیا۔

‘’ پتہ ہے آج ہم تینوں اڑ کر برابر والے درخت پر چلے گئے ۔ منے میاں خوشی سے بے قابو ہو رہے تھے۔ چلیں بھائی آپ بھی بڑا مزہ آیا۔ ‘‘ انہوں نے ننھے میاں کو دعوت دی۔

اور ننھے میاں جو اب ہمت کر کے گھونسلے کے باہر والی شاخ پر بیٹھ جاتے تھے ، بھنا گئے۔

‘’چلے گئے تو کیا کمال کیا؟’‘

‘’ کمال نہیں کیا تو ذرا جا کر دکھا ؤ۔’‘ بڑے بھائی کو غصہ آ گیا۔

‘’ ضرورت کیا ہے۔ ایسی فضول حرکتیں کرنے کی۔ ‘‘ ننھے میاں نے بڑے بھائی کا بھی لحاظ نہ کیا۔ ‘’ اور جو گر جاتے تو....؟’‘

‘’ اونہہ پھر اڑ جاتے۔’‘ ننھے میاں بڑبڑائے۔ جب کوئی کام اچھی طرح آ جائے تو جب ہی کرنا چاہیے۔

‘’جب تک کوشش نہ کی جائے کچھ نہیں آتا۔ ‘‘منے میاں نے قابلیت جتائی۔

‘’تم چپ رہو جی۔ ‘‘ ننھے میاں ان پر برس ہی تو پڑے۔

‘’ذرا اڑنا کیا آ گیا ہے۔ بیچارے اترائے ہی جا رہے ہیں ۔’‘ اور منے میاں چپ ہو گئے۔اور ایک دن ننھے میاں کو ایسا لگا کہ بھونچال آ گیا ہو۔ سارے درخت پر شور مچ گیا۔ ننھے میاں حسب معمول اکیلے گھونسلے میں بیٹھے تھے۔ مسلسل جھٹکوں اور شور سے گھبرا کر انہوں نے باہر جھانکا ۔ درخت کاٹا جا رہا تھا۔ کلہاڑی کی مسلسل ضربوں سے درخت ہل رہا تھا۔ جن پرندوں کے درخت پر گھونسلے تھے۔ وہ درخت کے اوپر اڑ رہے تھے۔ اور حتی الامکان احتجاج کر رہے تھے۔ انہی میں ننھے میاں کے امی اور ابو بھی تھے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے بے چین اور پریشان تھے ۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ ان کے تینوں بھائیوں کو برابر والے درخت پر پہنچا دیا گیا تھا اور اب امی ابا ان کو آواز دے رہے تھے۔ بلا رہے تھے۔ آ جا ؤ۔ باہر آ جا ؤ۔ جلدی کرو۔’‘ بی چڑیا بار بار آ کر ان کے پاس بیٹھیں ۔ پھر اڑ کر باہر شاخوں پر چلی جاتیں ۔

ننھے میاں ہمت کر کے باہر شاخ پر نکل آئے مگر مسلسل جھٹکوں سے گھبرا کر پھر واپس اندر چلے گئے۔

‘’جلدی آ ؤ۔ کوشش کرو ۔ دیکھو سب جا رہے ہیں ۔’‘ بی چڑیا بہت بے چین تھیں ۔ ہمت کرو۔ اڑنے کی کوشش کرو۔’‘ مگر ننھے میاں نے کبھی کوشش کی ہوئی تو اڑتے بھی بڑی ہمت کر کے وہ شاخ کے آخری سرے تک آئے سامنے ہی دوسرے درخت کی شاخ نظر آ رہی تھی۔ بس ذرا سی ہمت، ذرا سی کوشش۔ ‘‘ مگر اسی وقت ان کی نظر خالہ بلی پر پڑی جو گیٹ کے پاس ہی ایک آنکھ بند کیے، ایک ذرا سی کھولے بظاہر اونگھ رہی تھیں مگر حقیقتاً ساری کارروائی دیکھ رہی تھیں ۔

ننھے میاں کی تو جیسے سانس رک گئی گھبرا کر واپس گھونسلے میں چلے گئے اور اسی وقت اڑ ۔ڑاڑدھم.... تنا کٹ گیا درخت گر گیا۔ گھونسلا بکھر گیا اور ننھے میاں لڑھکتے ہوئے سیدھے مانو بلی کے سامنے جا گرے۔ جو بظاہر تو سو رہی تھی مگر....

تو پیارے ساتھیو! اگر ننھے میاں بھی اڑنا سیکھ لیتے ، گھونسلے میں بیٹھے بیٹھے وقت کا انتظار نہ کرتے رہتے تو ان کی بھی جان بچ جاتی۔

آپ بھی ہر نئی چیز جاننے کی ، سیکھنے کی کوشش کیا کیجئے۔ یہ مت سوچا کیجئے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا،یا یہ کہ جب وقت آئے گا تو آ جائے گا۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں ، وہ زندگی کی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور جو لوگ ہر چیز سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اپنے آپ کو ہر کام کرنے کے قابل سمجھتے ہیں وہ سب سے آگے نکل جاتے ہیں ۔ بہت آگے.... اتنا کہ دوسرے پھر ان کے نقش قدم پر چلنے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں ۔

تو پیارے ساتھیو! آپ بھی کوشش کیجئے کہ آپ کا نام بھی آگے نکل جانے والوں میں شامل ہو نہ کہ پیچھے رہ جانے والوں میں ۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔