02:50    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ بزمِ تمنّا

1866 0 0 00




اٹھو ، سبو اٹھاؤ اٹھو ساز و جام لو

اٹھو ، سبو اٹھاؤ اٹھو ساز و جام لو

دو دن کی زندگی ہے کوئی نیک کام لو

یا تم بھی میرے ساتھ ہی گر جاؤ جھوم کر

یا پھر مجھے بھی فرط محبت سے تھام لو

یہ بھی سلام لینے کا ہے قاعدہ کوئی؟

آنکھیں ملاؤ ہاتھ بڑھا کر سلام لو

آتی ہے لوٹ کر کہاں عمر گریز پا

اس خانماں خراب سے خوب انتقام لو

کیوں چپ کھڑے ہو حشر میں ، کیا بات ہے عدم

ظالم ، کسی فریق مخالف کا نام لو

٭٭٭






زندگی کی دلفریبی سے اماں کیا پاؤں گا

زندگی کی دلفریبی سے اماں کیا پاؤں گا

میں اسی کافر ادا پر جاں فدا کر جاؤں گا

ناصحا اس بات کا کچھ پہلے کر لے فیصلہ

تو مجھے سمجھائے گا یا میں تجھے سمجھاؤں گا

ہر مکاں سے ہی کوئی آواز اگر آنے لگی

میں تجھے پہچاننے کس کس مکاں میں جاؤں گا

آنکھ بھر کر دیکھنے کی تجھ کو کیا جرات کروں

مجھ کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں جل جاؤں گا

میری مٹی میں ترنم کی ملاوٹ ہے عدم

گاتا آیا تھا یہاں ، گاتا ہی واپس جاؤں گا

٭٭٭






خط کے سوا وجود دو عالم تھا بے نشاں

خط کے سوا وجود دو عالم تھا بے نشاں

اس محویت سے خط ترا پڑھتا رہا ہوں میں

نکلا تھا اک حسیں کے تعاقب میں پیار سے

اب تک اسی نشے میں چلا جا رہا ہوں میں

اس سمت کھینچ لائی تھی دل کی تڑپ مجھے

برہم نہ ہو ، ٹھہرتا نہیں ، جا رہا ہوں میں

پہلے میں ناصحوں کے ستم کا شکار تھا

اب اپنی جاں پہ آپ غضب ڈھا رہا ہوں میں

بے شک حضور ایسے ہی کرتے ہیں دل لگی

جی ہاں ، حضور ، ٹھیک ہے فرما رہا ہوں میں

اے نا خدا سفینے کی قسمت تیرے سپرد

ساحل سے بات کر کے ابھی آ رہا ہوں میں

جیسے گناہ کرنا کوئی سخت عیب ہے

ایسے گناہ کرنے سے ڈرتا رہا ہوں میں

یا رب نئے نقوش نہ تخلیق کر ابھی

مٹتے ہوے نقوش کو چمکا رہا ہوں میں

دل سی حقیر چیز تری بارگاہ میں ؟

اے دوست اپنے عجز سے شرما گیا ہوں میں

ہر چند تیری بزم سے جانا ہے دل کی موت

لیکن تو خوش نہیں تو ابھی جا رہا ہوں میں

یوں اس کی اک نظر نے کیا ہے عدم خراب

جیسے کہ رات بھر کہیں پیتا رہا ہوں میں

٭٭٭






لیا کیا تخیّل نے مفہوم ہو کر

لیا کیا تخیّل نے مفہوم ہو کر

فنا ہو گئے لفظ مرقوم ہو کر

تری آنکھ کی نیتوں نے اچانک

بڑا کیف بخشا ہے معلوم ہو کر

جِیئے تو محبّت کی توہین ہوگی

جئیں گے نہ ہم تجھ سے محروم ہو کر

ہمیں حلقۂ زلف میں قید کر لے

ہم آزاد ہوتے ہیں محکوم ہو کر

نہ معلوم کس سمت جاتے ہیں انساں

تلاشِ مسرّت میں معدوم ہو کر

عدم خدمتِ خلق حُبِّ خدا ہے

سکوں کس کو ملتا ہے مخدُوم ہو کر

٭٭٭






روشنی مے کے آبگینوں کی

روشنی مے کے آبگینوں کی

جنبشِ چشم ہے حسینوں کی

ناخدا کو ڈبو کے لوٹ آئے

نیتیّں ٹھیک تھیں سفینوں کی

کس مروّت سے پیش آتے ہیں

خیر ہو مے کدہ نشینوں کی

ساقیا آج تو نہ ہاتھ کو روک

تشنگی ہے کئ مہینوں کی

جل رہی ہیں عدم کے شعروں میں

ٹھنڈکیں عنبریں پسینوں کی

٭٭٭






قلندر

قلندر غزل اپنی گاتا ہوا

پیامِ محبت سناتا ہوا

سفر کی صعوبت پہ ہنستا ہوا

حوادث کی قوت پہ ہنستا ہوا

ازل کی طرح مسکراتا ہوا

ابد کی طرح لہلہاتا ہوا

دلوں میں امنگیں بساتا ہوا

ارادوں میں حدت رچاتا ہوا

سعادت کی راہیں دکھاتا ہوا

خودی کی سبیلیں لگاتا ہوا

جوانوں کو بیدار کرتا ہوا

غلاموں کو خود دار کرتا ہوا

حجابات کے حسن میں کھو گیا

ستارا چناروں میں گم ہو گیا

==========

مسافر تو دو پل کا مہمان ہے

یہی اُس کی عظمت کی پہچان ہے

ٹھہرتے نہیں راہ میں تیز رو!

کہ پڑتی ہے ماند اُن کے جوہر کی ضو

قلندر گیا اُس کی بولی گئی

گرہ راز کی پھر نہ کھولی گئی

دلوں میں مگر گونج ہے ساز کی

بڑی عمر ہوتی ہے آواز کی

نئے جو بھی خورشید و مہتاب ہیں

قلندر کے دیکھے ہوئے خواب ہیں

٭٭٭






جب وہ میرے قریب ہوتا ہے

جب وہ میرے قریب ہوتا ہے

وہ سماں کیا عجیب ہوتا ہے

ہائے بیچارگی پتنگے کی

کیسے قرباں غریب ہوتا ہے

غم کو دل سے لگا کے کیوں نہ رکھوں

یہ تو میرا حبیب ہوتا ہے

آپ کا اس میں کوئی دوش نہیں

اپنا اپنا نصیب ہوتا ہے

دل میں آ کر تو جان من دیکھو

دل کا عالم عجیب ہوتا ہے

اے عدم درد مٹ ہی جائے گا

کیوں پریشاں طبیب ہوتا ہے

٭٭٭






اب بھی تری نظر میں وہی آب و تاب ہے

اب بھی تری نظر میں وہی آب و تاب ہے

ہلکی سی چاندنی ہے ذرا سی شراب ہے

سوئی ہوئی جبیں کے بجھے سے چراغ کو

اب بھی خراج دیتا ہوا آفتاب ہے

سوکھے ہوئے لبوں کی فسردہ روش بہار

ہلکے اثر کی نرم کشیدہ شراب ہے

کولہوں کے زیر و بم میں مصور کی جانکنی

شانوں کی خستگی میں صدائے رباب ہے

باریک و با وقار کمر میں پسی ہوئی

شفاف سیپیوں کی جواں آب و تاب ہے

رفتار کے تھکے ہوئے لہجے میں موجزن

نوخیز ہرنیوں کا ابھرتا شباب ہے

ابرو کے کانپتے ہوئے خط میں گھُلا ہوا

پارہ نہیں تو دردِ دلِ ماہتاب ہے

ترتیب و نظم چھوڑ کے زلفِ سیاہ رنگ

شاعر کی وحشتوں کی دعا کا جواب ہے

بلور سے گلے میں یہ نازک رگوں کا جال

نیلم کی دھاریوں پہ غلافِ شراب ہے

کافری تری شکستہ مزاجی کے بوجھ سے

خلاقِ دو جہاں کی طبیعت خراب ہے

٭٭٭






دن گزر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں

دن گزر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں

زخم بھر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں

آپ کا شہر اگر بار سمجھتا ہے ہمیں

کوچ کر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں

آپ کے جور کا جب ذکر چھڑا محشر میں

ہم مکر جائیں گے ، سرکار کوئی بات نہیں

رو کے جینے میں بھلا کون سی شیرینی ہے

ہنس کے مر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں

نکل آئے ہیں عدم سے تو جھجکنا کیسا

در بدر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں

٭٭٭






دلِ سادہ کو با تصویر کر دے

دلِ سادہ کو با تصویر کر دے

مرے کاغذ پہ کچھ تحریر کر دے

عبادت کرتے کرتے تھک گیا ہے

تو اے زاہد کوئی تقصیر کر دے

مجھے بھی عشق ہے ذاتِ خدا سے

مجھے بھی کوئی بت تعمیر کر دے

سماعت کا نگر سُونا پڑا ہے

نگاہوں سے کوئی تقریر کر دے

دعائیں بعد میں مانگوں گا یا رب

دعا کو پہلے پُر تاثیر کر دے

مقدر کو میں خود کر لوں گا پیدا

مجھے آمادۂ تدبیر کر دے

عدم اب تو یہ ارماں ہے کہ دل میں

کوئی پیوست نوکِ تیر کر دے

٭٭٭






وہ جو دیر و حرم کی باتیں ہیں

وہ جو دیر و حرم کی باتیں ہیں

سب ترے دم قدم کی باتیں ہیں

تُو ستم سے تو پیش آتا ہے

یہ بھی تیرے کرم کی باتیں ہیں

فردِ اعمال میں مرا کیا ہے؟

کچھ خدا، کچھ صنم کی باتیں ہیں

مے کشو! پوری چاشنی سے سنو

زاہدِ محترم کی باتیں ہیں

ہر سیہ رات کے پسِ پردہ

صبحِ نو کے جنم کی باتیں ہیں

آپ اور اِس فقیر سے رغبت

ربطِ لوح و قلم کی باتیں ہیں

زندگی جن سے ہے جوان و حسیں

وہ تو شہرِ عدم کی باتیں ہیں

٭٭٭






جینے میں یوں تو کون سی جینے کی بات ہے

جینے میں یوں تو کون سی جینے کی بات ہے

پھر بھی عجیب چیز، فریبِ حیات ہے

کیا کر گیا ہے آ کے تو اک مرتبہ یہاں

تیرے بغیر گھر میں نہ دن ہے نہ رات ہے

اے دل میں آنے والے! مبارک ترا قدم

ڈرتا ہوں میں، یہ انجمنِ سانحات ہے

مٹ مٹ کے بنتی جاتی ہیں صد رنگ صورتیں

کیا دل فریب سلسلۂ ممکنات ہے

شیشہ تھا، گر کے ٹوٹ گیا اتفاق سے

اے دوست! یہ بھی کیا، کوئی کرنے کی بات ہے

دریا تو تھک بھی جاتے ہیں بہہ بہہ کے اے عدم

دل ہے کہ ماورائے چناب و فرات ہے

٭٭٭






ساقی کے گیسوؤں کی ہوا کھا رہا ہوں

ساقی کے گیسوؤں کی ہوا کھا رہا ہوں

اور اس ہوا کے ساتھ اڑا جا رہا ہوں میں

اے وحشت خیال نتیجہ تیرے سپرد

ساغر کو کائنات سے ٹکرا رہا ہوں میں

جاتا ہوں بزم حشر میں اس بے دلی کے ساتھ

جیسے کسی رقیب کے گھر جا رہا ہوں میں

دیر و حرم کی گرد بہت دور رہ گئی

شاید کے مے کدے کے قریب آ رہا ہوں میں

مجھ سا بھی سادہ لوح کوئی ہوگا اے عدم

قصداً خراب ہونے کو پھر جا رہا ہوں میں

یوں اس کی اک نظر نے کیا ہے عدم خراب

جیسے کے رات بھر کہیں پیتا رہا ہوں میں

٭٭٭






دنیا پہ اعتبار نہ کرتے تو ظلم تھا

دنیا پہ اعتبار نہ کرتے تو ظلم تھا

یہ دل فریب موت نہ مرتے تو ظلم تھا

میرے خلوص دل کو پرکھنے کے واسطے

غیروں پہ وہ نگاہ نہ کرتے تو ظلم تھا

توبہ کو توڑنے کی تو نیت نہ تھی مگر

موسم کا احترام نہ کرتے تو ظلم تھا

دل تھا کہ مرگ و زیست کا دلچسپ امتزاج

جیتے تو اتہام تھا ، مرتے تو ظلم تھا

ہر چند موت عین جوانی میں ظلم تھی

لیکن یہ زہر کھا کے نہ مرتے تو ظلم تھا

٭٭٭






غم زمانہ کو غرق شراب کر دوں گا

غم زمانہ کو غرق شراب کر دوں گا

شب سیہ کو شب مہتاب کر دوں گا

گماں نہ کر کہ مجھے جرات سوال نہیں

فقط یہ ڈر ہے تجھے لا جواب کر دوں گا

میں بد نصیب ہوں مجھ کو نہ دے خوشی اتنی

کہ میں خوشی کو بھی لے کر خراب کر دوں گا

مرے لئے خرابات ٹھیک ہے اے ہوش

تجھے بھی کوئی جگہ انتخاب کر دوں گا

دماغ بادہ کشی تو نہیں عدم لیکن

کچھ احترام شب مہتاب کر دوں گا

٭٭٭






وہ روشنی ، وہ رنگ ، وہ حدّت ، وہ آب لا

وہ روشنی ، وہ رنگ ، وہ حدّت ، وہ آب لا

ساقی طلوع ہوتا ہوا آفتاب لا

زلفوں کے جال ہوں کہ بھنووں کے ہلال ہوں

اچھی سی چیز کر کے کوئی انتخاب لا

ساقی کوئی بھڑکتی ہوئی سی شراب دے

مطرب کوئی تڑپتا ہوا سا رباب لا

ہلکی سی بے حسی بھی بہاروں کی موت ہے

تھوڑی سی دیر بھی نہیں واجب ، شراب لا

ساقی عدم نے کر ہی دیا ہے سوال اگر

حیلے نہ ڈھونڈ کوئی مناسب جواب لا

٭٭٭






تم میرے پاس جب نہیں ہوتے

تم میرے پاس جب نہیں ہوتے

مجھ میں کوئی کمی سی ہوتی ہے

پیار بھی وہ اس طرح کرتے ہیں

جس طرح دشمنی سی ہوتی ہے

بندہ پرور ملا کرو ہم سے

تم کو مل کر خوشی سی ہوتی ہے

اس کے چلنے کی طرز ایسی ہے

جس طرح راگنی سی ہوتی ہے

بات کا حسن ختم ہے ان پر

بات پہلے سے بنی ہوتی ہے

مے کدے کی شناخت یہ ہے عدم

ہر طرف زندگی سی ہوتی ہے

٭٭٭






اتنا تو دوستی کا صلہ دیجئے مجھے

اتنا تو دوستی کا صلہ دیجئے مجھے

اپنا سمجھ کے زہر پلا دیجئے مجھے

اٹھے نہ تا کہ آپ کی جانب نظر کوئی

جتنی بھی تہمتیں ہیں لگا دیجئے مجھے

کیوں آپ کی خوشی کو مرا غم کرے اداس

اک تلخ حادثہ ہوں بھلا دیجئے مجھے

صدق و صفا نے مجھ کو کیا ہے بہت خراب

مکر و ریا ضرور سکھا دیجئے مجھے

میں آپ کے قریب ہی ہوتا ہوں ہر گھڑی

موقع کبھی پڑے تو صدا دیجئے مجھے

ہر چیز دستیاب ہے بازار میں عدم

جھوٹی خوشی خرید کے لا دیجئے مجھے

٭٭٭






میں جس جگہ ہوں مجھ کو وہاں سے بلا تو دے

میں جس جگہ ہوں مجھ کو وہاں سے بلا تو دے

ظالم قریب آ کے کسی دن صدا تو دے

اتنی تو قدر کر میرے حال خراب کی

تفریح کے لیے ہی ذرا مسکرا تو دے

یہ اور بات ہے کہ محبت نہیں تجھے

تا ہم ستم ظریف محبت جتا تو دے

دکھتے ہوے مزاج کی تالیف کے لیے

جلتے ہوئے حواس میں ٹھنڈک بسا تو دے

شاید کمی ذرا سی اندھیروں میں ہو عدم

تو صدق سے چراغ عقیدت جلا تو دے

٭٭٭






دل کے معاملات میں سود و زیاں کی بات

دل کے معاملات میں سود و زیاں کی بات

ایسی ہے جیسے موسم گل میں خزاں کی بات

اچھا! وہ باغ خلد جہاں رہ چکے ہیں ہم

ہم سے ہی کر رہا ہے تو زاہد وہاں کی بات

زاہد ترا کلام بھی ہے با اثر مگر

پیر مغاں کی بات ہے پیر مغاں کی بات

اک زخم تھا کہ وقت کے ہاتھوں سے بھر گیا

کیا پوچھتے ہیں آپ کسی مہرباں کی بات

ہر بات زلف یار کی مانند ہے دراز

جو بات چھیڑتے ہیں ، وہ ہے ، داستاں کی بات

اٹھ کر تری گلی سے کہاں جائیں اب فقیر ؟

تیری گلی کے ساتھ ہے اب جسم و جاں کی بات

باتیں ادھر ادھر کی سنا کر جہاں کو

وہ حذف کر گئے ہیں عدم درمیاں کی بات

٭٭٭






احوال زندگی کو لباس بہار دے

احوال زندگی کو لباس بہار دے

ساقی معاملات کا چہرہ نکھار دے

توہین زندگی ہے کنارے کی جستجو

منجدھار میں سفینۂ ہستی اتار دے

پھر دیکھ اس کا رنگ نکھرتا ہے کس طرح

دوشیزۂ خزاں کو خطاب بہار دے

عمر طویل دے کے نہ مجھ کو خراب کر

دو چار جھومتے ہوے لیل و نہار دے

اک وعدہ اور کر کے طبیعت پھڑک اٹھے

اک تیر اور میرے کلیجے میں مار دے

دنیا نے بے شمار عدم کو دئیے ہیں رنج

اے دوست چیز تو بھی کوئی یادگار دے

٭٭٭






کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ

کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ

ہم بھی نہ ڈوب جائیں کہیں نہ خدا کے ساتھ

کہتے ہیں جس کو حشر ، اگر ہے ، تو لازماً

اٹھے گا وہ بھی آپ کی آواز پا کے ساتھ

اے قلب نامراد مرا مشورہ یہ ہے

اک دن تو آپ خود بھی چلا جا دعا کے ساتھ

پھیلی ہے جب سے خضر و سکندر کی داستاں

ہر با وفا کا ربط ہے اک بے وفا کے ساتھ

دل کی طلب پڑی ہے تو آیا ہے یاد اب

وہ تو چلا گیا تھا کسی دلربا کے ساتھ

پیر مغاں سے ہم کو کوئی بیر تو نہیں

تھوڑا سا اختلاف ہے مرد خدا کے ساتھ

محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اے عدم

کچھ گفتگو تو کھل کے کریں گے خدا کے ساتھ

٭٭٭






میں حادثوں سے جام لڑاتا چلا گیا

میں حادثوں سے جام لڑاتا چلا گیا

ہنستا ہنساتا ،پیتا پلاتا ، چلا گیا

نقش و نگار زیست بنانے کا شوق تھا

نقش و نگار زیست بناتا چلا گیا

اتنے ہی اختلاف ابھرتے چلے گئے

جتنے تعلقات بڑھاتا چلا گیا

طوفاں کے رحم پر تھی فقیروں کی کشتیاں

طوفاں ہی کشتیوں کو چلاتا چلا گیا

دنیا مری خوشی کو بہت گھورتی رہی

میں زندگی کا ساز بجاتا چلا گیا

وہ رفتہ رفتہ جام پلاتے چلے گئے

میں رفتہ رفتہ ہوش میں آتا چلا گیا

ہر مے کدے سے ایک عقیدت تھی اے عدم

ہر مہ جبیں سے آنکھ ملاتا چلا گیا

٭٭٭






دنیا کے جور پر نہ ترے التفات پر

دنیا کے جور پر نہ ترے التفات پر

میں غور کر رہا ہوں کسی اور بات پر

دیکھا ہے مسکرا کے جو اس مہ جبیں نے

جوبن سا آگیا ہے ذرا واقعات پر

دیتے ہیں حکم خود ہی مجھے بولنے کا آپ

پھر ٹوکتے ہیں آپ مجھے بات بات پر

میں جانتا تھا تم بڑے سفاک ہو مگر

انسان کو اختیار نہیں حادثات پر

جینا ہے چار روز تو اے صاحب خرد

گہری نظر نہ ڈال فریب حیات پر

ایسی حسین باتیں ہوئی بھی ہیں سچ کبھی

میں کس طرح یقین کروں تیری بات پر

٭٭٭






مجھے حضور کچھ ایسا گمان پڑتا ہے

مجھے حضور کچھ ایسا گمان پڑتا ہے

نگاہ سے بھی بدن پر نشان پڑتا ہے

حرم کا عزم پنپتا نظر نہیں آتا

کہ راستے میں صنم کا مکان پڑتا ہے

فقیہ شہر کو جب کوئی مشغلہ نہ ملے

تو نیک بخت گلے میرے آن پڑتا ہے

ہمیں خبر ہے حصول مراد سے پہلے

خراب ہونا بھی اے مہربان پڑتا ہے

عدم نشیمن دل بدگمان نہ ہو جائے

نہ جانے ، کب کسی بجلی کا دھیان پڑتا ہے






یکدم تعلقات کہاں تک پہنچ گئے

یکدم تعلقات کہاں تک پہنچ گئے

اس کے نشان پا مری جاں تک پہنچ گئے

آخر ہمارے عجز نے پگھلا دیا انہیں

انکار کرتے کرتے وہ ہاں تک پہنچ گئے

گو راہ میں خدا نے بھی روکا کئی جگہ

ہم پھر بھی اس حسیں کے مکاں تک پہنچ گئے

ہم چلتے چلتے راہ حرم پر خدا خبر

کس راستے سے کوئے مغاں تک پہنچ گئے

ان کی نظر اٹھی نہ میرے ہونٹ وا ہوئے

پھر بھی دلوں کے حال بیاں تک پہنچ گئے

جی ہارنا سفر کی شریعت نہیں عدم

چلتے رہیں ضرور جہاں تک پہنچ گئے

٭٭٭






زیست کا مفہوم پوچھا تھا کہ اک جام آگیا

زیست کا مفہوم پوچھا تھا کہ اک جام آگیا

ذوقِ استفسار کو آخر کچھ آرام آگیا

زندگی اور موت کے تِیرہ معمے ہائے ہائے

اس دوراہے پر چراغِ میکدہ کام آگیا

بچتے بچتے چشمِ ساقی کی جواں ترغیب ہے

اتفاقاً ہوش پر مستی کا الزام آگیا

شیخ تو لے ہی چلا تھا مجھ کو کعبے کی طرف

اتفاقاً راستے میں کوئے اصنام آگیا

جس نے بھی کی میری رسوائی کی کوشش اے "عدم"

وہ خدا کے فضل سے خود ہو کے بدنام آگیا

٭٭٭






آگہی میں اک خلا موجود ہے

آگہی میں اک خلا موجود ہے

اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے

ہے یقیناً کچھ مگر واضح نہیں

آپ کی آنکھوں میں کیا موجود ہے

بانکپن میں اور کوئی شے نہیں

سادگی کی انتہا موجود ہے

ہر محبت کی بنا ہے چاشنی

ہر لگن میں مدعا موجود ہے

ہر جگہ ہر شہر ہر اقلیم میں

دھوم ہے اس کی ، جو نا موجود ہے

جس سے چھپنا چاہتا ہوں میں عدم

وہ ستمگر جا بجا موجود ہے

٭٭٭






زلفِ برہم سنبھال کر چلئے

زلفِ برہم سنبھال کر چلئے

راستہ دیکھ بھال کر چلئے

موسمِ گُل ہے اپنی بانہوں کو

میری بانہوں میں ڈال کر چلئے

کچھ نہ دیں گے تو کیا زیاں ہوگا

حرج کیا ہے سوال کر چلئے

یا دوپٹہ نہ لیجئے سر پر

یا دوپٹہ سنبھال کر چلئے

یار دوزخ میں ہیں مقیم عدم

خُلد سے انتقال کر چلئے

٭٭٭






خرد کی انتہا ہے اور میں ہوں

خرد کی انتہا ہے اور میں ہوں

جنوں کی ابتدا ہے اور میں ہوں

عجب روٹھا ہوا ساتھی ملا ہے

دلِ بے مدعا ہے اور میں ہوں

کوئی لغزش نہ ہو جائے اچانک

ترا بندِ قبا ہے اور میں ہوں

زمانہ درمیاں سے ہٹ گیا ہے

جمال آشنا ہے اور میں ہوں

وہاں پہنچی ہے نوبت بے کسی کی

جہاں نامِ خدا ہے اور میں ہوں

کہیں جھولے پڑے ہیں اور وہ ہیں

کہیں محشر بپا ہے اور میں ہوں

عدمؔ کشتی کے اندر دو خلل ہیں

سکوت نا خدا ہے اور میں ہوں

٭٭٭






بنائے دشمنی معلوم، فیضِ تنگدستی ہے

بنائے دشمنی معلوم، فیضِ تنگدستی ہے

زبردستوں کے غصّے کی گھٹا، ہم پر برستی ہے

بساطِ قطرۂ خونِ شہیداں پوچھنے والے

ہے لرزاں موت جس سے وہ آتش زارِ ہستی ہے

محبّت کی شرر انگیزیاں جینے کا ساماں ہیں

ہے دل زندہ وہی جو آتشیں جذبوں کی بستی ہے

بہارِ حسن سے لبریز ہے ہر گوشۂ عالم

حریمِ محفلِ آفاقِ جنّت زارِ ہستی ہے

تبسّم آفریں ہیں شوخیاں اُن کی نگاہوں میں

مری بزمِ تمنّا میں عدم جنّت برستی ہے

٭٭٭






اے عشق! وہ بُت رونقِ بُت خانہ بنا دے

اے عشق! وہ بُت رونقِ بُت خانہ بنا دے

جو ہستیِ یزداں کو بھی افسانہ بنا دے

ہے عشرتِ دیوانگیِ عشق عجب چیز

دیوانہ بنا دے، مجھے دیوانہ بنا دے

ہر فکرِ جگر سوز کی بنیاد خرد ہے

اے دوست مجھے عقل سے بیگانہ بنا دے

گمنام ہوں، ناپید ہوں، گویا کہ نہیں ہوں

کیا دیکھ رہا ہے؟ مجھے افسانہ بنا دے

ہوسکتا ہے افسانے کا گر تو متحمّل

پھر مجھ کو بڑے شوق سے افسانہ بنا دے

اے زاہدِ کم فہم! تجھے علم بھی ہے کچھ؟

دل کعبہ نہیں ہے اسے بت خانہ بنا دے

دل مانگا تھا یارب، یہ تجھے کس نے کہا تھا

پہلو میں مرے چھوٹا سا غم خانہ بنا دے

یہ آپ کی دزدیدہ نگاہی کہیں یوں ہی

دل میں مرے اک شہرِ تمنّا نہ بنا دے

ہستی مری رہ جائے نہ جز نشہ و مستی

یوں دیکھ مجھے لغزشِ مستانہ بنا دے

اے جانِ عدم آ مری گفتار میں ڈھل جا

ہر شعرِ صنم رنگ کو بُت خانہ بنا دے

٭٭٭






سرد آہیں بھروں گا تو جوانی میں بھروں گا

سرد آہیں بھروں گا تو جوانی میں بھروں گا

مرنے کا ہے موسم یہی، جی بھر کے مروں گا

آغاز طلب ہے مرا افسانہء ہستی

بنیاد تِری آنکھ کی مستی پہ دھروں‌گا

حالات مجھے خوابِ پریشان بنا لیں

حالات کو کچھ میں بھی پریشان کروں گا

تو رُوپ میں انساں کے مرے سامنے آ جا

اللہ! تجھے صدق بھرا سجدہ کروں گا

گمنام ہوں، ناپید ہوں، گویا کہ نہیں ہوں

جینا مِرا تسلیم ہو پہلے تو مروں گا

جو بات چھپاتا ہوں وہ ہے پہلے ہی رسوا

لیتے ہیں تِرا نام کہ میں آہ بھروں گا

آ جاتی ہیں خود لب پہ مرے آپ کی باتیں

اندیشہ ہے میں آپ کو بدنام کروں گا

اے موت خرابات میں ملنا کبھی آ کر

رندانہ جیا ہوں تو میں رندانہ مروں گا

اس ہوش نے کیا کیا مجھے گمراہ کیا ہے

اس ہوش کو میں بھی ذرا گمراہ کروں گا

شاعر ہوں عدم! موت کی تقریب تو ہو کچھ

مے پی کے کسی شوخ کے زانو پہ مروں گا

٭٭٭






رہرو اور رہزن

رواں ہیں رہرووں کے قافلے صحرائے وحشت سے

یہ کیسے لوگ ہیں لڑنے چلے ہیں دیو فطرت سے

وہ ظُلمت ہے کہ ہیبت کا فرشتہ کانپ جاتا ہے

وہ تاریکی ہے شیطانوں کا دل بھی خوف کھاتا ہے

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

اسی سنسان تاریکی کے وسعت گیر دامن میں

اسی سنسان خاموشی کے بے تنویر مسکن میں

جرائم کے ہلاکت آفریں ہیجان پنہاں ہیں

لباسِ آدمی میں سنگ دل حیوان پنہاں ہیں

یہ وہ انساں ہیں جن سے آدمیت خوف کھاتی ہے

یہ وہ وحشی ہیں جن سے بربریت خوف کھاتی ہے

یہ غارتگر، لٹیرے، راہزن ہیں کاروانوں کے

یہ ہیروں ہیں سیہ کاری کے شیطانی فسانوں کے

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

یہ جنگل ایک گہوارہ ہے خونی وارداتوں کا

یہ صحرا ایک میداں ہے جنونی وارداتوں کا

یہاں کا ذرہ ذرہ ظلم و سفاکی کا مظہر ہے

یہاں کا آسماں اک نیلگوں خاموش پتھر ہے

نیاموں سے نکل آتی ہیں جب خونریز شمشیریں

برستی ہیں اندھیرے میں جب آتش ریز شمشیریں

تھکے ماندے مسافر جب یہاں فریاد کرتے ہیں

غریب انسان جب یوں بیکسی کی موت مرتے ہیں

زمیں پر رقص جب کرتی ہیں لاشیں بے گناہوں کی

سنی جاتی ہیں جب مظلوم آہیں بے گناہوں کی

سکونِ بیکراں میں کوئی ہنگامہ نہیں اُٹھتا

زمیں و آسماں میں کوئی ہنگامہ نہیں اُٹھتا

٭٭٭

گو تری محفل سے او بیداد گر جاتا ہوں میں

دیکھ کیا تفتہ جگر، آشفتہ سر جاتا ہوں میں

جستجوؤں پر ثباتِ زیست کا ہے انحصار

جستجوئیں ختم ہوتی ہیں تو مر جاتا ہوں میں

شوقِ بے پایاں کی کوشش کا کوئی حاصل بھی ہے؟

اے فریبِ آرزو آخر کدھر جاتا ہوں میں؟

کیوں اُٹھاتا ہے مجھے محفل سے او بیداد گر؟

آگیا ہوں، رنگِ محفل دیکھ کر جاتا ہوں میں

تیری خواہش سوز نظروں کے تصّور پر نثار

منزلِ احساسِ ہستی سے گزر جاتا ہوں میں

زندگی کی راہ پُر آفات ہے لیکن عدم!!

ہر کٹھن منزل سے وحشت میں گزر جاتا ہوں میں

٭٭٭

مضطرب ہوں جلوۂ اُمید باطل دیکھ کر

لرزہ بر اندام ہوں بیتابیِ دل دیکھ کر

ناخدائے دل کو موجوں سے یہ کیسا ربط ہے

ماہیِ بے آب ہو جاتا ہے ساحل دیکھ کر

وقتِ آخر ہم نہ ٹھہرے بارِ دوشِ دوستاں

رُوح خوش ہے مرگِ غربت کا یہ حاصل دیکھ کر

زعمِ عقل و فہم اِک نادانیِ معصوم ہے

اے گرفتارِ فریبِ ہوش، اے دل! دیکھ کر

انتہائے لذتِ آوارگی دیکھے کوئی

بارہا لوٹ آئے ہیں آثارِ منزل دیکھ کر

چاندنی کا سیلِ عالمگیر اور پچھلا پہر

کھُل گئی آنکھیں مری دنیا کو غافل دیکھ کر

٭٭٭

بڑی دلچسپ غفلت ہو گئی ہے

اچانک ان سےالفت ہو گئی ہے

غم جاناں بھی گو اک حادثہ ہے

غم دوراں سے فرصت ہو گئی ہے

تمہیں کچھ علم ہے کہتی ہے دنیا

مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے

دل ناداں ذرا محتاط رہنا

محبت بھی تجارت ہو گئی ہے

تری آنکھوں میں آنسو آ گئے ہیں

کہ دنیا خوبصورت ہو گئی ہے

عدم بادی کشی عادت تھی پہلے

مگر اب تو طبعیت ہو گئی ہے

٭٭٭

وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں

آدمی بے نظیر ہوتے ہیں

تیری محفل میں بیٹھنے والے

کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں

پھول دامن میں چند رکھ لیجئے

راستے میں فقیر ہوتے ہیں

زندگی کے حسین ترکش میں

کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں

وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں

سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں

دیکھنے والا اک نہیں ملتا

آنکھ والے کثیر ہوتے ہیں

جن کو دولت حقیر لگتی ہے

اُف! وہ کتنے امیر ہوتے ہیں

جن کو قدرت نے حسن بخشا ہو

قدرتاً کچھ شریر ہوتے ہیں

ہے خوشی بھی عجیب شے لیکن

غم بڑے دلپذیر ہوتے ہیں

اے عدم احتیاط لوگوں سے

لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

٭٭٭

افسانہ چاہتے تھے وہ، افسانہ بن گیا

میں حُسنِ اتفاق سے دیوانہ بن گیا

وہ اِک نگاہ دیکھ کے خود بھی ہیں شرمسار

ناآگہی میں یُونہی اِک افسانہ بن گیا

موجِ ہوا سے زُلف جو لہرا گئی تری

میرا شعور لغزشِ مستانہ بن گیا

حُسن ایک اختیارِ مکمل ہے، آپ نے

دیوانہ کر دیا جسے، دیوانہ بن گیا

ذکر اُس کا گفتگو میں جو شامل ہوا عدم

جو شعر کہہ دیا وہ پری خانہ بن گیا

٭٭٭

یوں جستجوئے یار میں آنکھوں کے بل گئے

ہم کوئے یار سے بھی کچھ آگے نکل گئے

واقف تھے تیری چشمِ تغافل پسند سے

وہ رنگ جو بہار کے سانچے میں ڈھل گئے

اے شمع! اُن پتنگوں کی تجھ کو کہاں خبر

جو اپنے اشتیاق کی گرمی سے جل گئے

وہ بھی تو زندگی کے ارادوں میں تھے شریک

جو حادثات تیری مروّت سے ٹل گئے

جب بھی وہ مسکرا کے ملے ہم سے اے عدم

دونوں جہان فرطِ رقابت سے جل گئے

٭٭٭

شب کی بیداریاں نہیں اچھی

اتنی مے خواریاں نہیں اچھی

وہ کہیں کبریا نہ بن جائے

ناز برداریاں نہیں اچھی

ہاتھ سے کھو نہ بیٹھنا اس کو

اتنی خود داریاں نہیں اچھی

کچھ رواداریوں‌کی مشق بھی کر

صرف ادا کاریاں نہیں اچھی

اے غفور الرحیم سچ فرما

کیا خطا کاریاں نہیں اچھی

٭٭٭

ہنس کے بولا کرو بلایا کرو

آپ کا گھر ہے آیا جایا کرو

مسکراہٹ ہے حسن کا زیور

روپ بڑھتا ہے مسکرایا کرو

حد سے بڑھ کر حسین لگاتے ہو

جھوٹی قسمیں ضرور کھایا کرو

حکم کرنا بھی ایک سخاوت ہے

ہم کو خدمت کوئی بتایا کرو

بات کرنا بھی بادشاہت ہے

بات کرنا نہ بھول جایا کرو

تا کہ دنیا کی دلکشی نہ گھٹے

نت نے پیرہن میں آیا کرو

کتنے سادہ مزاج ہو تم عدم

اس گلی میں بہت نہ جایا کرو

٭٭٭






حسنِ بیمار

اب بھی تری نظر میں وہی آب و تاب ہے

ہلکی سی چاندنی ہے ذرا سی شراب ہے

سوئی ہوئی جبیں کے بجھے سے چراغ کو

اب بھی خراج دیتا ہوا آفتاب ہے

سوکھے ہوئے لبوں کی فسردہ روش بہار

ہلکے اثر کی نرم کشیدہ شراب ہے

کولہوں کے زیر و بم میں مصور کی جانکنی

شانوں کی خستگی میں صدائے رباب ہے

باریک و با وقار کمر میں پسی ہوئی

شفاف سیپیوں کی جواں آب و تاب ہے

رفتار کے تھکے ہوئے لہجے میں موجزن

نوخیز ہرنیوں کا ابھرتا شباب ہے

ابرو کے کانپتے ہوئے خط میں گھُلا ہوا

پارہ نہیں تو دردِ دلِ ماہتاب ہے

ترتیب و نظم چھوڑ کے زلفِ سیاہ رنگ

شاعر کی وحشتوں کی دعا کا جواب ہے

بلور سے گلے میں یہ نازک رگوں کا جال

نیلم کی دھاریوں پہ غلافِ شراب ہے

کافری تری شکستہ مزاجی کے بوجھ سے

خلاقِ دو جہاں کی طبیعت خراب ہے

٭٭٭






اقبال

قلندر غزل اپنی گاتا ہوا

پیامِ محبت سناتا ہوا

سفر کی صعوبت پہ ہنستا ہوا

حوادث کی قوت پہ ہنستا ہوا

ازل کی طرح مسکراتا ہوا

ابد کی طرح لہلہاتا ہوا

دلوں میں امنگیں بساتا ہوا

ارادوں میں حدت رچاتا ہوا

سعادت کی راہیں دکھاتا ہوا

خودی کی سبیلیں لگاتا ہوا

جوانوں کو بیدار کرتا ہوا

غلاموں کو خود دار کرتا ہوا

حجابات کے حسن میں کھو گیا

ستارا چناروں میں گم ہو گیا

==========

مسافر تو دو پل کا مہمان ہے

یہی اُس کی عظمت کی پہچان ہے

ٹھہرتے نہیں راہ میں تیز رو!

کہ پڑتی ہے ماند اُن کے جوہر کی ضو

قلندر گیا اُس کی بولی گئی

گرہ راز کی پھر نہ کھولی گئی

دلوں میں مگر گونج ہے ساز کی

بڑی عمر ہوتی ہے آواز کی

نئے جو بھی خورشید و مہتاب ہیں

قلندر کے دیکھے ہوئے خواب ہیں

٭٭٭

عمر گھٹتی رہی خبر نہ ہوئی

وقت کی بات وقت پر نہ ہوئی

ہجر کی شب بھی کٹ ہی جائے گی

اتفاقاً اگر سحر نہ ہوئی

جب سے آوارگی کو ترک کیا

زندگی لطف سے بسر نہ ہوئی

اس خطا میں خلوص کیا ہوگا

جو خطا ہو کے بھی نڈر نہ ہوئی

مل گئی تھی دوائے مرگ مگر

خضر پر وہ بھی کارگر نہ ہوئی

کس قدر سادہ لوح تھی شیریں

شعبدہ گر سے باخبر نہ ہوئی

کوہکن ڈوب مر کہیں جا کر

تجھ سے پہلی مہم بھی سر نہ ہوئی

خواہشیں اتنی خوبصورت تھیں

کوئی دل سے اِدھر اُدھر نہ ہوئی

دل میں آنسو تو کم نہیں تھے عدم

آنکھ پاسِ ادب سے تر نہ ہوئی

٭٭٭

فہرستِ دل سے مجھ کو اگر کم کرو گے تم

قحطِ بشر کا آپ ہی ماتم کرو گے تم

جب تک نہ مسکرا کے بکھیرو گے کاکلیں

کیا میری وحشتوں کو منظّم کرو گے تم

آتی ہے نیند مجھ کو بھری روشنی میں کم

سرکار، کب چراغ کو مدھم کرو گے تم

میں آج چاہتا ہوں فقط تم کو دیکھنا

ساغر میں میرے مے کو ذرا کم کرو گے تم

جو عمرِ جاوداں کا نشہ مجھ کو بخش دے

ایسی کوئی خوشی بھی فراہم کرو گے تم

اَڑ ہی گئے ہو توبہ کی نیّت پہ اے عدم

کیا خود کُشی کا عزم مصمّم کرو گے تم

٭٭٭

توجہ کی کوئی جھوٹی نظر مبذول ہو جائے

خلوصِ عشق کی یہ التجا مقبول ہو جائے

دلوں میں رابطہ جاری نہ رہتا ہو اگر ہر دم

تو مجھ کو کس طرح تیری خبر موصول ہو جائے

کس آسانی سے وہ ٹوٹے ہوئے دل جوڑ دیتا ہے

خوشی سے بولنا جس شخص کا معمول ہو جائے

چمن میں بیل بوٹے موت سے محفوظ ہو جائیں

ترے آنچل کی چھاپ ان پر اگر منقول ہو جائے

مرا ہاتھ اس دلیری سے نہ مس کر پائے گا تم کو

مری آنکھوں سے ہو جائے تو کوئی بھول ہو جائے

تو مانے گا ترا آنچل مجھے کیوں اتنا پیارا ہے

اگر کانٹا ترے آنچل کو چھو کر پھول ہو جائے

عدم ہر مسئلہ دل کا سلجھ سکتا ہے خوبی سے

خرد انسان کی تھوڑی سی گر معقول ہو جائے

٭٭٭

کچھ اتنا خوگرِ بیداد ہو گیا ہوں میں

ہوا ہے لطف تو ناشاد ہو گیا ہوں میں

مجھے حفاظتِ انسانیت کا سودا ہے

ہر ایک ظلم کا نقّاد ہو گیا ہوں میں

ترے خلاف ہی فریاد لے کے آیا تھا

ترے ہی عدل کی روداد ہو گیا ہوں میں

ملے گا بھنورا کوئی تجھ کو پاس زلفوں کے

تری پسند کی ایجاد ہو گیا ہوں میں

تری نظر سے ہدایت کی روشنی لے کر

ترے ہی روپ میں آباد ہو گیا ہوں میں

تری خوشی سے عبارت ہے زندگی میری

تری صدا، ترا ارشاد ہو گیا ہوں میں

اگرچہ ایک ملائم سا کانچ کا دل ہوں

تری امنگ میں فولاد ہو گیا ہوں میں

تجھی سے پیار ہے مجھ کو، تجھی سے سو شکوے

عجیب صنعتِ اضداد ہو گیا ہوں میں

فریب دے کے کسی سادہ لوح شیریں کو

سمجھ رہا ہوں کہ فرہاد ہو گیا ہوں میں

جنوں کے دام میں جب سے عدم ہوا ہوں اسیر

خرد کی قید سے آزاد ہو گیا ہوں میں

٭٭٭

آپ کی آنکھ اگر آج گلابی ہوگی

میری سرکار بڑی سخت خرابی ہوگی

محتسب نے ہی پڑھا ہوگا مقالہ پہلے

مری تقریر بہرحال جوابی ہوگی

آنکھ اٹھانے سے بھی پہلے ہی وہ ہوں گے غائب

کیا خبر تھی کہ انہیں اتنی شتابی ہوگی

ہر محبّت کو سمجھتا ہے وہ ناول کا ورق

اس پری زاد کی تعلیم کتابی ہوگی

شیخ جی ہم تو جہنّم کے پرندے ٹھہرے

آپ کے پاس تو فردوس کی چابی ہوگی

کر دیا موسیٰ کو جس چیز نے بےہوش عدم

بے نقابی نہیں وہ نیم حجابی ہوگی

٭٭٭

کس درجہ پُر خلوص ہیں، کیا مہرباں ہیں لوگ

مکر و ریا کے فن میں وحید الزماں ہیں لوگ

جو بھی ہے وہ، صبا سے زیادہ ہے تیز رَو

کیا علم، کس لگن میں، کدھر کو رواں ہیں لوگ

شاید میں آج آپ ہی کچھ غمزدہ نہیں

محسوس ہو رہا ہے، بڑے شادماں ہیں لوگ

کتنے بھی ہوں خلیق و دل آویز و پُر تپاک

لیکن یہ جیسے پہلے تھے، ویسے کہاں ہیں لوگ

جن کے سروں پہ کرتے تھے بارانِ سنگ و خشت

اب ان کی تربتوں پہ جواہر فشاں ہیں لوگ

جب تک جیوں، یہیں نہ عدم گھومتا رہوں

رستے ہیں سبز، دیس ہے بانکا، جواں ہیں لوگ

٭٭٭

مجھے کمال کی دھن ہے، کمال کر دوں گا

تری نظر کو، کئی دل نکال کر دوں گا!

وہ چشمِ مست ابھی اس سے بھی نہیں واقف

کہ میں بہک کے اچانک سوال کر دوں گا!

میری فنا تو مسلّم ہے اس کا خوف ہی کیا

تمہاری ذات کو میں لازوال کر دوں گا

ادھر سے گزریں اگر گردشیں زمانے کی!

قسم خدا کی طبیعت بحال کر دوں گا!

یقیں نہیں کہ یہ لغزش ہوئی ہو دانستہ

گماں نہ تھا کہ کبھی عرض حال کر دوں گا

میری پسند کا معیار کچھ بھی ہو تاہم

جسے چنوں گا اسے بے مثال کر دوں گا

حقیر ہوگی میری پیشکش ذلیل نہیں

جو چیز دوں گا تجھے دیکھ بھال کر دوں گا

میرے سپرد نہ کر اپنے راز اے ہمدم!

مجھے یہ ڈر ہے میں افشائے حال کر دوں گا

بہت سوال نہ کر مجھ پہ داورِ محشر!

کہ میں بھی کوئی ادق سا سوال کر دوں گا

میں اس لیے نہیں ملتا کسی مربّی سے

جسے ملوں گا اسے پر ملال کر دوں گا

زہے نصیب کہ کہتا ہے خود عدم ساقی

تجھے میں اپنی محبت سے ڈال کر دوں گا ٭٭٭

ہم اگر شرحِ آرزو کرتے

غنچہ و گل کو زرد رو کرتے

سجدۂ ناگہاں کا تھا موقع

سجدہ کرتے کہ ہم وضو کرتے

داورِ حشر ہنس پڑا ورنہ

ہم کہاں قطعِ گفتگو کرتے

چاکِ دامن تو خیر سل جاتا

چاکِ ہستی کہاں رفو کرتے

میری غیبت سے کیا ملا ان کو

جو بھی کرنا تھا روبرو کرتے

کر دیا آرزو کو ترک عدم

کس لیے خونِ آرزو کرتے!

٭٭٭

ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے

مطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے

چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی

اے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے

شاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال

اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے

ہے حسن کا فسوں بھی علاج فسردگی

رُخ سے نقاب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے

میں نے کبھی یہ ضد تو نہیں کی پر آج شب

اے مہ جبیں نہ جا کہ طبیعت اداس ہے

توبہ تو کر چکا ہوں مگر پھر بھی اے عدم

تھوڑا سا زہر لا کہ طبیعت اداس ہے

٭٭٭

ہنس کے بولا کرو بلایا کرو

آپ کا گھر ہے آیا جایا کرو

مسکراہٹ ہے حسن کا زیور

روپ بڑھتا ہے مسکرایا کرو

حد سے بڑھ کر حسین لگاتے ہو

جھوٹی قسمیں ضرور کھایا کرو

حکم کرنا بھی ایک سخاوت ہے

ہم کو خدمت کوئی بتایا کرو

بات کرنا بھی بادشاہت ہے

بات کرنا نہ بھول جایا کرو

تا کہ دنیا کی دلکشی نہ گھٹے

نت نے پیرہن میں آیا کرو

کتنے سادہ مزاج ہو تم عدم

اس گلی میں بہت نہ جایا کرو

٭٭٭

مے کدہ تھا چاندنی تھی، میں نہ تھا

اک مجسم بے خودی تھی، میں نہ تھا

عشق جب دم توڑتا تھا، تم نہ تھے

موت جب سر دھُن رہی تھی، میں نہ تھا

طُور پر چھیڑا تھا جس نے آپ کو

وہ میری دیوانگی تھی، میں نہ تھا

مے کدے کے موڑ پر رُکتی ہوئی

مدتوں کی تشنگی تھی، میں نہ تھا

میں اور اُس غنچہ دہن کی آرزو

آرزو کی سادگی تھی، میں نہ تھا

گیسوؤں کے سائے میں آرام کش

سر برہنہ زندگی تھی، میں نہ تھا

دیر و کعبہ میں "عدم" حیرت فروش

دو جہاں کی بد ظنی تھی، میں نہ تھا

٭٭٭

ماخذ:

تدوین اور ای بک کی تشکیل : اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔