مجھ سے منہ پھیر لیا غیر کے دکھلانے کو
اُس نے یہ چھیڑ نکالی مجھے ترسانے کو
کیا جلے خاک کہ آنے نہیں دیتا کوئی
شعلہ شمع کے نزدیک بھی پروانے کو
پھاڑ کر اپنا گریباں ابھی مجنوں کی طرح
جی میں آتا ہے نکل جائیے ویرانے کو
عشقِ مجنوں سے یہ افسانہ نہیں کم لیکن
کون سنتا ہے مرے درد کے افسانے کو
جو گزرتا ہے مرے جی پہ جدائی میں تری
آگہی اس سے نہ اپنے کو، نہ بیگانے کو
واں ہی اٹھ چلتے ہو اِک بات کے کہتے صاحب
کتنے چالاک ہو تم غیر کے گھر جانے کو
مصحفی کعبے میں اب دل نہیں لگتا اپنا
ہم بھی اُٹھ جاویں گے یاں سے کسی بت خانے کو
٭٭٭
معشوق ہوں یا عاشقِ معشوق نما ہوں
معلوم نہیں مجھ کو کہ میں کون ہوں- کیا ہوں
ہوں شاہدِ تننزیہہ کے رخسارہ کا پردہ
یا خود ہی میں شاہد ہوں ۔ کہ پردہ میں چھپا ہوں
ہستی کو مری ہستیِ عالم نہ سمجھنا
ہوں ہست - مگر ہستیِ عالم سے جدا ہوں
انداز ہیں سب عاشق و معشوق کے مجھ میں
سوزِ جگر و دل ہوں ۔ کبھی ناز و ادا ہوں
ہے مجھ سے گریبانِ گل و صبح معطر
میں عطر نسیمِ چمن و بادِ صبا ہوں
گوشِ شنوا ہو ۔ تو میری رمز کو سمجھے
حق یہ ہے ۔ کہ میں سازِ حقیقت کی صدا ہوں
یہ کیا ہے ۔ کہ مجھ پر مرا عقدہ نہیں کھلتا
ہر چند ۔ کہ خود عقدہ و خود عقدہ کشا ہوں
اے مصحفی شانیں ہیں مری جلو گری میں
ہر رنگ میں میں مظہرِ انوارِ خدا ہوں
٭٭٭
خورشید کو سایہ میں زلفوں کے چھپا رکھا
چتون کی دکھا خوبی سرمہ کو لگا رکھا
سویا تھا لپٹ کر میں اس ساتھ ولے اس نے
پہلو سے میرے پہلو تا صبح جدا رکھا
معمار نے قدرت کے طاقِ خمِ ابرو کو
موقعے سے بنایا تو ٹک لے کے جھکا رکھا
کس منہ سے اجل کو اب منہ اپنا دکھائیں گے
ہم میں تری الفت نے کہہ تو ہی کہ کیا رکھا
قاصد جو گیا میرا لے نامہ تو پھر اس نے
نامہ کے کئے پرزے قاصد کو بٹھا رکھا
بے یار و دیار اپنے جیتا تو رہا میں پر
رکنے نے میرے جی کے دم میرا خفا رکھا
کس لب کے تبسّم نے چھڑکا تھا نمک ان پر
زخموں کے الم نے شب تا صبح مزا رکھا
کیا جانئے کب کا تھا میرا یہ فلک دشمن
جو اُس مہِ تاباں کو نت مجھ سے جدا رکھا
میں اپنے ہنر کا ہی بندہ ہوں کہ کل میں نے
پہلو میں دل اپنے کو پیکاں سے سجا رکھا
دیکھ اُس کی ادا یارو بس میں تو گیا مر ہی
جوں ہاتھ کو قاتل نے قبضہ پہ ذرا رکھا
اے مصحفی میں کس کی رفتار کا کشتہ تھا
ہر شعر میں میں نے جو انداز نیا رکھا
٭٭٭
جان سے تا وہ مجھے مار نہیں جانے کا
جان جاوے گی ولے یار نہیں جانے کا
بعد مُردن جو رہیں گے یونہیں وَا دِیدۂ شوق
المِ حسرت دیدار نہیں جانے کا
مرضِ عشق کی شاید ہو پسِ مرگ، شفا
زندگی میں تو یہ آزار نہیں جانے کا
رحم کر ضعف پر اُس کے کہ چمن تک صیاد
نالۂ مرغِ گرفتار نہیں جانے کا
دستِ چالاک کی یہ خو ہے تو مرتے مرتے
ہاتھ سے دامنِ دلدار نہیں جانے کا
گر یہی چشم کی مستی ہے تری اے ساقی
میکدہ سے کوئی ہُشیار نہیں جانے کا
اے طبیبو! نہ اذیت دو مجھے بہر خُدا
آپ دردِ دلِ بیمار نہیں جانے کا
گر شبِ وصل بھی ہم لوگ کریں گے نالہ
یہ یقیں ہے کہ وہ بیکار نہیں جانے کا
کوچۂ عشق میں سخت اس نے اذیت کھینچی
اب اُدھر مصحفیِ زار نہیں جانے کا
٭٭٭
خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا
ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا
میرے پہلو میں رات جا کر وہ
ماہ تھا یا ہلال تھا کیا تھا
چمکی بجلی سی پر نہ سمجھے ہم
حسن تھا یا جمال تھا کیا تھا
جس کو ہم روزِ ہجر سمجھے تھے
ماہ تھا یا وہ سال تھا کیا تھا
مصحفی شب جو چپ تُو بیٹھا تھا
کیا تجھے کچھ ملال تھا کیا تھا
٭٭٭
بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا
کوئی انداز سے مارا تو کوئی ناز سے مارا
کسی کو گرمی تقدیر سے اپنی لگا رکھا
کسی کو منہ چھپا کر نرمیِ آواز سے مارا
ہمارا مرغِ دل چھوڑا نہ آخر اس شکاری نے
گہے شاہین پھینکے اس پہ گہے باز سے مارا
غزل پڑھتے ہی میری یہ مغنی کی ہوئی حالت
کہ اس نے ساز مارا سر سے اور سر ساز سے مارا
نکالی رسم تیغ و طشت دلی میں جزاک اللہ
کہ مارا تو ہمیں تو نے پر ایک اعزاز سے مارا
نہ اڑتا مرغِ دل تو چنگل شاہیں میں کیوں پھنستا
گیا یہ خستہ اپنی خوبئ پرواز سے مارا
جہاں تک راز داری تھی لکھی دشمن کے طالع میں
ہمیں بدنام کر کے طالع ناساز سے مارا
ہزاروں رنگ اس کے خون نے یاروں کو دکھلائے
جب اس نے مصحفی کو اپنی تیغِ ناز سے مارا
٭٭٭
یہ دلی کا نقشہ اتارا زمیں پر
کہ لا عرش کو یاں اتارا زمیں پر
قسم ہے سلیماں کی پیشِ زماں میں
یہیں پریوں کا تھا گذارا زمیں پر
میں وہ سنگِ راہ ہوں کہ جو ٹھوکروں میں
پھرے ہر طرف مارا مارا زمیں پر
فلک نے اپنے تئیں دور کھینچا
یہ حرکت ہوئی ناگوارا زمیں پر
چلا تب وہ مجلس سے اٹھ کر جو وہیں
قیامت ہوئی آشکارا زمیں پر
گیا ہاتھ سے دل جو میرا تو پھر وہ
پھرا لوٹتا جیسے پارا زمیں پر
کوئی مصحفی کو اٹھاتا نہیں
نظر کیجیئو ٹک خدا را زمیں پر
٭٭٭
ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا
تجھے کس نے روک رکھّا، ترے جی میں کیا یہ آئی
کہ گیا تو بھول ظالم، اِدھر التفات کرنا
ہوئی تنگ اس کی بازی مری چال سے، تو رخ پھیر
وہ یہ ہمدموں سے بولا، کوئی اس سے مات کرنا
یہ زمانہ وہ ہے جس میں، ہیں بزرگ و خورد جتنے
انہیں فرض ہو گیا ہے گلۂ حیات کرنا
جو سفر میں ساتھ ہوں ہم تو رہے یہ ہم پہ قدغن
کہ نہ منہ کو اپنے ہر گز طرفِ قنات کرنا
یہ دعائے مصحفی ہے، جو اجل بھی اس کو آوے
شبِ وصل کو تُو یا رب، نہ شبِ وفات کرنا
٭٭٭
ذرا ہم سے بھی ملتے جائیے گا
کبھو تو اس طرف بھی آئیے گا
ہمارا دل ہے قابو میں تمہارے
بھلا جی کیوں نہ اب ترسائیے گا
جو ہم رونے پہ آویں گے تو اے ابر
بجائے آب، خوں برسائیے گا
ق
کہا اے مصحفی میں اُس سے اک دن
کہ بوسہ آج تو دلوائیے گا
جواب اس نے دیا مجھ کو کہ صاحب
کوئی یہ وقت ہے؟ پھر آئیے گا
٭٭٭
از بس کہ چشمِ تر نے بہاریں نکالیاں
مژگاں ہیں اشکِ سرخ سے پھولوں کی ڈالیاں
دل میں خیالِ زلف سے طوفاں نہ کیوں کہ ہو
اکثر گھٹائیں اٹھتی ہیں ایدھر سے کالیاں
کیا اعتماد یاں کے وکلا عزل و نصب کو
ایدھر تغیّراں تو اُدھر ہیں بحالیاں
اس کی کمر تو کاہے کو پتلی ہے اس قدر
یہ ہم سے شاعروں کی ہیں نازک خیالیاں
کل کر رہا تھا غیر سے نظروں میں گفتگو
پر دیکھتے ہی کچھ مرے آنکھیں چرالیاں
اے مصحفی! تُو اِن سے محبت نہ کیجیو
ظالم غصب ہی ہوتی ہیں یہ دلّی والیاں
٭٭٭
دھویا گیا تمام ہمارا غبارِ دل
گریے نے دل سے خوب نکالا بخارِ دل
اتنا نہیں کوئی کہ خبر اُس کی آ کے لے
کب سے بجھا پڑا ہے چراغِ مزارِ دل
صبر و قرار کب کا ہمارا وہ لے گیا
سمجھے تھے جس کو مایۂ صبر و قرارِ دل
کہتے ہیں داغِ عشق کسے ہم کو کیا خبر
یک قطرہ خونِ گرم تو ہے ہم کنارِ دل
مجبور ہوں میں کیونکے کروں ضبطِ گریہ آہ
نے اختیارِ چشم ہے، نے اختیارِ دل
آتا ہے جی میں پہلو میں دل کو چھُپا رکھوں
یاں تک کہ وہ کیا ہی کرے انتظارِ دل
رازِ دل اپنا کس سے کہوں ہائے مصحفی
ملتا نہیں کوئی مجھے تو راز دارِ دل
٭٭٭
دل تری بے قراریاں کیا تھیں
رات وہ آہ و زاریاں کیا تھیں
تیرے پہلو میں اُس کی مژگاں سے
برچھیاں یا کٹاریاں کیا تھیں
سُرمہ دینے میں اُس کی آنکھوں کو
کیا کہوں آب داریاں کیا تھیں
اپنی قسمت میں آہ کس سے کہوں
ذلّتیں اور خواریاں کیا تھیں
مصحفی گر نہ تھا تُو عاشقِ زار
پھر تو یہ جاں نثاریاں کیا تھیں
٭٭٭
اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں
پلکیں ہیں جس کی چھریاں آنکھیں کٹاریاں ہیں
ٹک صفحہ ء زمیں کے خاکے پہ غور کر تو
صانع نے اس پہ کیا کیا شکلیں اتاریاں ہیں
دل کی تپش کا اپنے عالم ہی ٹک جدا ہے
سیماب و برق میں کب یہ بیقراریاں ہیں
ان محملوں پہ آوے مجنوں کو کیوں نہ حسرت
جن محملوں کے اندر دو دو سواریاں ہیں
جاگا ہے رات پیارے تو کس کے گھر جو تیرے
پلکیں اونیندیاں ہیں آنکھیں خماریاں ہیں
نو مید ہیں بظاہر گر وصل سے ہم اس کے
دل میں تو سو طرح کی امیدواریاں ہیں
کیا پوچھتے ہو ہمدم احوال مصحفی کا
راتیں اندھیریاں اور اختر شماریاں ہیں
٭٭٭
اب نت کی سہے تیری جفا کون
تجھ ساتھ میاں وفا کرے کون
سو بار گیا میں اُس کے در پر
پوچھا نہ کسی سے یہ بھی تھا کون
ہر چند سب آشنا ہیں لیکن
اس وقت میں اپنا آشنا کون
٭٭٭
کھلکھلا کر نہ ہنسا کیجیے آپ
ایسی باتوں سے حیا کیجیے آپ
کوئی ہو کیوں رہے تمہارا شاکِر
نہ مروّت نہ وفا کیجیے آپ
کیوں میاں مصحفی جی دیتے ہو
درد اپنے کی دوا کیجیے آپ
٭٭٭
کنجِ قفس میں لطف ملا جس کو وہ اسیر
چھُوٹا بھی گر تو پھر نہ سوئے آشیاں گیا
تکلیف سیرِ باغ نہ کر ہم کو ہم صفیر
مدت ہوئی کہ دل سے وہ ذوقِ فغاں گیا
یارانِ رفتہ ہم سے منہ اپنا چھپا گئے
معلوم بھی ہوا نہ کدھر کارواں گیا
باہم جنہوں میں مہر و مروت کی رسم تھی
وہ لوگ کیا ہوئے وہ زمانہ کہاں گیا
٭٭٭
ہم تو چمکتے ہی ہوا ہو گئے
مثلِ شرر دم میں فنا ہو گئے
مجلسِ ہستی میں جو آئے تھے یار
یہ نہیں معلوم وہ کیا ہو گئے
رشک ہے اوقات پر ان کے مجھے
موسمِ گُل میں جو رِہا ہو گئے
سیرِ چمن کی نہ دلا ہم کو یاد
وہ بھی دن اے بادِ صبا ہو گئے
٭٭٭
یہ خستہ تمام ہو چکا اب
بس اپنا تو کام ہو چکا اب
سب ناظمِ ملک سو رہے ہیں ہائے
دنیا کا نظام ہو چکا اب
قاصد گر اس گلی میں جاوے
کہیو کہ غلام ہو چکا اب
دنیا ہے سرائے فانی اس سے
چلیے کہ مقام ہو چکا اب
٭٭٭
پوچھتا کیا ہے حال دل کا میرے
او میاں تجھ سے کچھ چھپا تو نہیں
یعنی عاشق ہو اور ہرجائی
اب تلک ہم نے یہ سنا تو نہیں
بات پر اُس کی میں جو کل بولا
کہا کچھ ذکر آپ کا تو نہیں
٭٭٭
ہے ماہ کہ آفتاب کیا ہے
دیکھو تو تہِ نقاب کیا ہے
میں نے تجھے تُو نے مجھ کو دیکھا
اب مجھ سے تجھے حجاب کیا ہے
آئے ہو تو کوئی دم تو بیٹھو
اے قبلہ یہ اضطراب کیا ہے
مجھ کو بھی گنے وہ عاشقوں میں
اس بات کا سو حساب کیا ہے
اس میکدہ جہاں میں یارو
مجھ سا بھی کوئی خراب کیا ہے
٭٭٭
آتا ہے کس انداز سے ٹک ناز تو دیکھو
کس دھج سے قدم پڑتا ہے انداز تو دیکھو
کرتا ہوں میں دزدیدہ نظر گر کبھی اس پر
نظروں میں پرکھ لے ہے، نظرباز تو دیکھو
میں کنگرہ ِ عرش سے پر مار کے گزرا
اللہ رے رسائی، میری پرواز تو دیکھو
ابتر ہے یہ دیوان، میاں مصحفی، سارا
انجام کو کیا کہتے ہو، آغاز تو دیکھو
٭٭٭
شب وہ ان آنکھوں کو شغل اشکباری دے گئے
لے گئے خواب ان کا اور اختر شماری دے گئے
چلتے چلتے اس ادا سے وعدہ آنے کا کیا
دے کے ہاتھ اس دل پہ اور اک زخم کاری دے گئے
خواب و خور صبر و سکوں یکبار سب جاتا رہا
بے قرار اپنے کو کیسی بے قراری دے گئے
ٴ
یہ خبر تو نے سنی ہو گی کہ اس کوچے میں رات
داد رونے کی ہم اے ابر بہاری دے گئے
گر کہیں آیا نظر ان کو کوئی مٹی کا ڈھیر
گالیاں اس کو سمجھ تربت ہماری دے گئے
آپ تو جاتے رہے باتیں بنا اور مجھ کو آہ
بے قراری بے خودی بے اختیاری دے گئے
گر ہوا عزم سفر ان کا سحر مصحفی
وقت شام آ کر مجھے اپنی کٹاری دے گئے
٭٭٭
خاموش ہیں ارسطو و فلاطوں مرے آگے
دعویٰ نہیں کرتا کوئی موزوں مرے آگے
دانش پہ گھمنڈ اپنی جو کرتا ہے بہ شدّت
واللہ کہ وہ شخص ہے مجنوں مرے آگے
لاتا نہیں خاطر میں سُخن بیہودہ گو کا
اعجاز مسیحا بھی ہے افسوں مرے آگے
میں گوز سمجھتا ہوں سدا اُس کی صدا کو
گو بول اُٹھے ادھی کا چوں چوں مرے آگے
سب خوشہ ربا ہیں مرے خرمن کے جہاں میں
کیا شعر پڑھے گا کوئی موزوں مرے آگے
قدرت ہے خدا کی کہ ہوئے آج وہ شاعر
طفلی میں جو کل کرتے تھے غاں غوں مرے آگے
اُستاد ہوں میں مصحفی حکمت کے بھی فن میں
ہے کودک نودرس فلاطوں مرے آگے
٭٭٭
ٹائپنگ: فرخ منظور، کاشفی اور دیگر
ماخذ: اردو محفل اور دوسری سائٹس سے
ترتیب و تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید