اب بار یاب انجمن عام بھی نہیں
وہ دل کہ خاص محرم بزم حضور تھا
روز وداع بھی شب ہجراں سے کم نہ تھا
کچھ صبح ہی سے شام بلا کا ظہور تھا
حالیؔ کو ہجر میں بھی جو دیکھا شادماں
تھا حوصلہ اسی کا کہ اتنا صبور تھا
*
اے بہار زندگانی الوداع
اے شباب شاد مانی الوداع
آ لگا حالیؔ کنارے پر جہاز
الوداع اے زندگانی الوداع
*
اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا
جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا
رایوں کے راج چھینے شاہوں کے تاج چھینے
گردن کشوں کو اکثر نیچا دکھا کے چھوڑا
فرہاد کوہکن کی لی تو نے جان شیریں
اور قیس عامری کو مجنوں بنا کے چھوڑا
یعقوب سے بشر کو دی تو نے ناصبوری
یوسف سے پارسا پر بہتان لگا کے چھوڑا
عقل و خرد نے تجھ سے کچھ چپقلش جہاں کی
عقل و خرد کا تو نے خاکہ اڑا کے چھوڑا
افسانہ تیرا رنگین، روداد تیری دلکش
شعر و سخن کا تو نے جادو بنا کے چھوڑا
اک دسترس سے تیری حالیؔ بچا ہوا تھا
اس کے بھی دل پہ آخر چرکا لگا کے چھوڑا
*
باپ کا ہے جبھی پسر وارث
ہو ہنر کا بھی اس کے گر وارث
فاتحہ ہو کہاں سے میت کی
لے گئے ڈھو کے سیم و زر وارث
خاک و کرمانِ گورو خویش و تبار
ایک میت اور اس قدر وارث
واعظو! دین کا خدا حافظ
انبیاء بے پر ہے، دین بیکس ہے
گئے اسلام کے کدھر وارث
ہم پہ بیٹھے ہیں ہاتھ دھوئے حریف
جیسے مردہ کے مال پر وارث
ترکہ چھوڑا ہے کچھ اگر حالیؔ
کیوں ہیں میت پہ نوحہ گر وارث
*
بھید واعظ اپنا کھلوایا عبث
دل جلوں کو تو نے گرمایا عبث
شیخ رندوں میں بھی ہیں کچھ پاکباز
سب کو ملزم تو نے ٹھہرایا عبث
آ نکلتے تھے کبھی مسجد میں ہم
تو نے زاہد ہم کو شرمایا عبث
کھیتیاں جل کر ہوئیں یاروں کی خاک
ابر ہے گھر کے ادھر آیا عبث
قوم کا حالیؔ پنپنا ہے محال
تم نے رو رو سب کو رلوایا عبث
*
بہت لگتا ہے د ل صحبت میں اس کی
وہ اپنی ذات میں اک انجمن ہے
بناوٹ سے نہیں خالی کوئی بات
مگر ہر بات میں اک سادہ پن ہے
دلاتی ہے صبا کس کو چمن یاد
نہ میں بلبل ، نہ گھر میرا چمن ہے
رہے لاہور میں آ کر سو جانے
یہی دنیا ہے جو دار المحن ہے
*
چاہئے ایک سب کا ہو مقصود
گو ہوں سب کی جدا جدا اغراض
یاد میں تیری سب کو بھول گئے
کھو دئیے ایک دکھ نے سب امراض
دیکھئے تو بھی خوش ہیں یا نا خوش
اور تو ہم سے سب ہیں کچھ ناراض
رائے ہے کچھ علیل سی تیری
نبض اپنی بھی دکھ اے نباض
ایسی غزلیں سنی نہ تھیں حالیؔ
یہ نکالی کہاں سے تم نے بیاض
*
چپ چپاتے اسے دے آئے دل اک بات پہ ہم
مال مہنگا نظر آتا تو چکایا جاتا
نامہ بر آج بھی خط لے کے نہ آیا یارو
تم تو کہتے ہو کہ وہ ہے ابھی آیا جاتا
لوگ کیوں شیخ کو کہتے ہیں کہ عیار ہے وہ
اس کی صورت سے تو ایسا نہیں پایا جاتا
کرتے کیا پیتے اگر مے نہ عشا سے نا صبح
وقت فرصت کا یہ کس طرح گنوایا جاتا
اس نے اچھا ہی کیا حال نہ پوچھا دل کا
بھڑک اٹھتا تو یہ شعلہ نہ دبایا جاتا
عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شاید
خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا
اب تو تکفیر سے واعظ نہیں ہٹتا حالیؔ
کہتے پہلے سے تو دے لے کے ہٹایا جاتا
*
چپ پر اپنی بھرم تھے کیا کیا کچھ
بات بگڑی بنی بنائی آج
شکوہ کرنے کی خو نہ تھی اپنی
پر طبیعت ہی کچھ بھر آئی آج
اور ہے دل میں کچھ نہ کچھ یارو
نیند پھر رات بھر نہ آئی آج
کل یہاں کاروبار ہیں سب بند
کر لو کرنی ہے جو کمائی آج
زد سے الفت کی بچ کے چلنا تھا
مفت حالیؔ نے چوٹ کھائی آج
*
درد دل کو دوا سے کیا مطلب
کیمیا کو طلا سے کیا مطلب
جو کریں گے بھریں گے خود واعظ
تم کو میری خطا سے کیا مطلب
جن کے معبود حورو غلماں ہیں
ان کو زاہد خدا سے کیا مطلب
کام ہے مردمی سے انساں کی
زبد یا اتقا سے کیا مطلب
صوفی شہرِ با صفا ہے اگر
ہو ہماری بلا سے، کیا مطلب
نگہت مے پہ عشق میں جو حالیؔ
ان کو درد و صفا سے کیا مطلب
*
دیکھ اے امید کہ جو، ہم سے نہ تو کنارا
تیرا ہی رہ گیا ہے لے دے کے اک سہارا
یوں بے سبب زمانہ پھرتا نہیں کسی سے
اے آسماں کچھ اس میں تیرا بھی ہے اشارا
میخانہ کی خرابی جی دیکھ کر بھر آیا
مدت کے بعد کل واں جا نکلے تھے قضا را
اک شخص کو توقع بخشش کی بے عمل ہے
اے زاہدو تمہارا ہے اس میں کیا اجارا
دنیا کے خرخشوں سے چیخ اٹھتے تم ہم اول
آخر کو رفتہ رفتہ سب ہو گئے گوارا
انصاف سے جو دیکھا نکلے وہ عیب سارے
جتنے ہنر تھے اپنے عالم میں آشکارا
افسوس، اہل دیں بھی مانند اہلِ دنیا
خود کام خود نما ہیں خود بیں میں اور خود آرا
*
دھوم تھی اپنی پارسائی کی
کی بھی اور کسی سے آشنائی کی
کیوں بڑھاتے ہو اخلاط بہت
ہم کو طاقت نہیں جدائی کی
منہ کہاں چھپاؤ گے ہم سے
تم کو عادت ہے خود نمائی کی
لاگ میں ہیں لگاؤ کی باتیں
صلح میں چھیڑ ہے لڑائی کی
ملتے غیروں سے ہو ملو لیکن
ہم سے باتیں کرو صفائی کی
دل رہا پائے بند الفت دام
تھی عبث آرزو رہائی کی
دل بھی پہلو میں ہو یاں کسی سے
رکھئے امید دلربائی کی
شہر و دریا سے باغ و صحرا سے
بو نہیں آتی آشنائی کی
نہ ملا کوئی غارتِ ایماں
رہ گئی شرم پارسائی کی
موت کی طرح جس سے ڈرتے تھے
ساعت آن پہنچی اس جدائی کی
زندہ پھرنے کی ہے ہوس حالیؔ
انتہا ہے یہ بے حیائی کی
*
گرد درد دل سے پائی بھی اے چارہ گر شفا
آتی ہے دل کی موت نظر اس شفا کے بعد
یاد خدا میں جب نہ گئی دل سے اس کی یاد
آگے خدا کا نام ہے ناصح خدا کے بعد
*
دل میں باقی ہیں وہی حرصِ گناہ
پھر کئے سے اپنے ہم پچھتائیں کیا
آؤ اس کو لیں ہمیں جا کر منا
اس کی بے پروائیوں پر جائیں کیا
جانتا دنیا کو ہے اک کھیل تو
کھیل قدرت کے تجھے دکھلائیں کیا
مان لیجئے شیخ جو دعویٰ کرے
اک بزرگ دیں کو ہم جھٹلائیں کیا
ہو چکے حالیؔ غزلخوانی کے دن
راگئی بے وقت کی اب گائیں کیا
*
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا
تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا
مئے تند و ظرف حوصلۂ اہلِ بزم تنگ
ساقی سے جام بھر کے پلایا نہ جائے گا
راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر
دشمن کو، ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا
بگڑیں نہ بات بات پہ کیوں جانتے ہیں وہ
ہم وہ نہیں کہ ہم کو منایا نہ جائے گا
مقصود اپنا کچھ نہ کھلا لیکن ا س قدر
یعنی وہ ڈھونڈھتے ہیں کہ پایا نہ جائے گا
جھگڑوں میں اہلِ دیں کے نہ حالیؔ پڑیں بس آپ
قصہ حضور سے یہ چکایا نہ جائے گا
*
دلّی سے نکلتے ہی ہوا جینے سے دل سیر
گویا نہ رہا اب کہیں دنیا میں ٹھکانا
افسوس کہ غفلت میں کٹا عہد جوانی
تھا اب بقا گھر میں مگر، ہم نے نہ جلنا
یاروں کو ہمیں دیکھ کے عبرت نہیں ہوتی
اب واقعہ سب اپنا پڑا ہم کو سنانا
لی ہوش میں آنے کی جو ساقی سے اجازت
فرمایا خبردار کہ نازک ہے زمانہ
ڈھاریں سی کچھ اے ہمقدمو تم سے بندھی ہے
حالیؔ کو کہیں راہ میں تم چھوڑ نہ جانا
*
غفلت ہے کہ گھیر ے ہوئے ہے چار طرف سے
اور معرکۂ گردش ایام ہے درپیش
گو صبح بھی تھی روز مصیبت کی قیامت
پر صبح تو جوں توں کٹی اب شام ہے درپیش
وہ وقت گیا نشہ تھا جب زوروں پہ اپنا
اب وقت خمار مئے گلفام ہے درپیش
امید شفا کا تو جواب آ ہی چکا ہے
اب موت کا سننا ہمیں پیغام ہے درپیش
جی اس کا کسی کام میں لگتا نہیں زنہار
ظاہر ہے کہ حالیؔ کو کوئی کام ہے درپیش
*
غالب و شیفتہ و آزردہ و ذوق
اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانہ ہر گز
مومن و علوی و صہبائی و ممنون کے بعد
شعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہرگز
کر دیا مر کے یگانوں نے یگانہ ہم کو
ورنہ یاں کوئی نہ تھا ہم میں یگانہ ہرگز
داغ و مجروح کو سن لو کہ پھر اس گلشن میں
نہ سنے گا کوئی بلبل کا ترانہ ہرگز
رات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیرو زبر
اب نہ دیکھو گے کبھی لطف شبانا ہرگز
*
گھر ہے وحشت خیر اور بستی اجاڑ
ہو گئی اک اک گھڑی تجھ بن پہاڑ
ہے پہنچنا اپنا چوٹی تک محال
اے طلب نکلا بہت اونچا پہاڑ
کھیلنا آتا ہے ہم کو بھی شکار
پر نہیں زاہد کوئی ٹٹّی کی آڑ
عید اور نو روز ہے سب دل کے ساتھ
دل نہیں حاضر تو دنیا ہے اجاڑ
تم نے حالیؔ کھول کر ناحق زباں
کر لیا ساری خدائی کا بگاڑ
*
گو جوانی میں تھی کج رائی بہت
پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت
وصل کے ہو ہو کے ساماں رہ گئے
مینہ نہ برسا اور گھٹا چھائی بہت
ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت
کر دیا چپ واقعات دہر نے
تھی کبھی ہم میں بھی گویائی بہت
ہم نہ کہتے تھے کہ حالیؔ چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
*
گوہ شفا سے یاس پہ جب تک ہے دم میں دم
بن آئیگی نہ درد کا درماں کئے بغیر
بگڑی ہوئی بہت ہے کچھ اسباغ کی ہوا
یہ باغ کو رہے گی نہ ویراں کئے بغیر
مشکل بہت ہے گو کہ مٹانا سلف کا نام
مشکل کو ہم ٹلیں گے نہ آساں کئے بغیر
گو مے ہ تندو تلخ پہ ساقی ہے دلربا
اے شیخ بن پڑے گی نہ کچھ ہاں کئے بغیر
تکفیر جو کہ کرتے ہیں ابنائے وقت کی
چھوڑے گا وقت انہیں نہ مسلماں کئے بغیر
*
قبضہ ہو دلوں پر کیا اور اس سے سوا تیرا
اک بندۂ نا فرماں ہے حمد سرا تیرا
گو سب سے مقدم ہے حق تیرا ادا کرنا
بندے سے مگر ہوگا حق کیونکہ ادا تیرا
محرم بھی ہے ایسا ہی جیسا کہ ہے نامحرم
کچھ کہہ نہ سکا جس پر یاں بھید کھلا تیرا
جچتا نہیں نظروں میں یاں خلعت سلطانی
کملی میں مگن اپنی رہتا ہے گدا تیرا
عظمت تری مانے بن کچھ بن نہیں آتی یاں
ہیں خیرہ و سرکش بھی دم بھرتے سدا تیرا
تو ہی نظر آتا ہے ہر شے پر محیط ان کو
جو رنج و مصیبت میں کرتے ہیں گلا تیرا
نشہ میں وہ احساں کے سرشار ہیں اور بیخود
جو شکر نہیں کرتے نعمت پہ ادا تیرا
آفاق میں پھیلے گی کب تک نہ مہک تیری
گھر گھر لئے پھرتی ہے پیغام صبا تیرا
ہر بول ترا دل سے ٹکرا کے گزرتا ہے
کچھ رنگ بیاں حالیؔ ہے سب سے جدا تیرا
*
ہو عزم دیر شاید کعبہ سے پھر کر اپنا
آتا ہے دور ہی سے ہم کو نظر گھر اپنا
قید خرد میں رہتے آتے نہیں نظر ہم
وحشت رہے گی دل کی دکھلا کے جوہر اپنا
بیگانہ وش ہے گروہ تو ہے ہمارے ڈھب کا
ایسوں ہی سے نبھا ہے یارانہ اکثر اپنا
کچھ کذب و افترا ہے کچھ کذب حق نما ہے
یہ ہے بضاعت اپنی اور یہ ہے دفتر اپنا
غیروں کو لیں گے آخر اپنا بنا کے کیا ہم
اپنوں ہی سے ہے حالیؔ کچھ دل مکدر اپنا
ہو عزم دیر شاید کعبہ سے پھر کر اپنا
آتا ہے دور ہی سے ہم کو نظر گھر اپنا
قید خرد میں رہتے آتے نہیں نظر ہم
وحشت رہے گی دل کی دکھلا کے جوہر اپنا
بیگانہ وش ہے گروہ تو ہے ہمارے ڈھب کا
ایسوں ہی سے نبھا ہے یارانہ اکثر اپنا
کچھ کذب و افترا ہے کچھ کذب حق نما ہے
یہ ہے بضاعت اپنی اور یہ ہے دفتر اپنا
غیروں کو لیں گے آخر اپنا بنا کے کیا ہم
اپنوں ہی سے ہے حالیؔ کچھ دل مکدر اپنا
*
ہم کو بھی آتا تھا ہنسنا بولنا
جب کبھی جیتے تھے ہم اے بذلہ سنج
آ گئی مرگ طبیعی ہم کو یاد
شاخ سے دیکھا جو خود گرتا ترنج
راہ اب سیدھی ہے حالیؔ سوئے دوست
ہو چکے طے سب خم و پیچ و شکنج
*
اک خوشی ہو گئی ہے تحمل کی ورنہ اب
وہ حوصلہ رہا نہیں صبر و قرار کا
آؤ مٹا بھی دو خلش آرزوئے قتل
کیا اعتبار زندگی مستعار کا
سمجھو مجھے اگر ہے تمہیں آدمی کی قدر
میرا اک التفات نہ مرنا ہزار کا
گر صبح تک وفا نہ ہوا وعدہ وصال
سن لیں گے وہ مآل شب انتظار کا
ہر سمت گرد ناقۂ لیلیٰ بلند ہے
پہنچے جو حوصلہ ہو کسی شہسوار کا
حالیؔ بس اب یقین ہے کہ دلی کے ہو رہے
ہے ذرہ ذرہ مہر فزا اس دیار کا
*
جہاں میں حالیؔ کسی پہ اپنے سوا بھروسہ نہ کیجئے گا
یہ بھید ہے اپنی زندگی کا بس اس کا چرچا نہ کیجئے گا
جو لاکھ غیروں کا غیر کوئی، نہ جاننا اس کو غیر ہرگز
جو اپنا سایہ بھی ہو تو اس کو تصور اپنا نہ کیجئے گا
سنا ہے صوفی کا قول ہے یہ کہ ہے طریقت میں کفر دعویٰ
یہ کہہ دو دعویٰ بہت بڑا ہے پھر ایسا دعویٰ نہ کیجئے گا
کہے اگر کوئی تم کو واعظ کہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہو
زمانہ کی خو ہے نکتہ چینی، کچھ اس کی پروا نہ کیجئے گا
لگاؤ تم میں نہ لاگ زاہد، نہ درد الفت کی آگ زاہد
پھر اور کیا کیجئے آخر جو ترک دنیا نہ کیجئے گا
*
کہیں خوف اور کہیں غالب ہے رجا اے زاہد
تیرا قبلہ ہے جدا، میرا جدا اے زاہد
ہم دکھا دیں گے کہ زاہد اور ہے نیکی کچھ اور
کچھ بہت دور نہیں روز جزا اے زاہد
جال جب تک ہے یہ پھیلا ہوا دینداری کا
فکر دنیا کا کرے تیری بلا اے زاہد
*
کچھ اپنی حقیقت کی گر تجھ کو خبر ہوتی
میری ہی طرح تو بھی غیروں سے خفا ہوتا
جو دل پہ گزرتی ہے کیا تجھ کو خبر ناصح
گر آج نہ تم آتے کیا جانئے کیا ہوتا
کل حالیؔ دیوانہ کہتا تھا کچھ افسانہ
سننے ہی کے قابل تھا تم نے بھی سنا ہوتا
*
کل مدعی کو آپ پر کیا کیا گماں رہے
بات اس کی کاٹتے رہے اور ہمزباں رہے
یارانِ تیز گام نے محمل کو جالیا
ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے
یا کھینچ لائے دہر سے رندوں کو اہلِ وعظ
یا آپ بھی ملازمِ پیر مغاں رہے
وصل مدام سے بھی ہماری بجھی نہ پیاس
ڈوبے ہم آبِ خضر میں اور نیم جاں رہے
کل کی خبر ہو تو جھوٹے کا رو سیاہ
تم مدعی کے گھر گئے اور مہماں رہے
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
حالیؔ کے بعد کوئی نہ ہمدرد پھر ملا
کچھ راز تھے کہ دل میں ہمارے نہاں رہے
*
کاٹیے دن زندگی کے ان یگانوں کی طرح
جو سدا رہتے ہیں چوکس پاسبانوں کی طرح
منزل دنیا میں ہیں پا در رکاب آٹھوں پہر
رہتے ہیں مہماں سرا میں مہمانوں کی طرح
سعی سے اکتاتے اور محنت سے کنیاتے نہیں
جھیلتے ہیں سختیوں کو سخت جانوں کی طرح
شادمانی میں گزرتے اپنے آپ سے نہیں
غم میں رہتے ہیں شگفتہ شادمانوں کی طرح
رکھتے ہیں نمکین جوانی میں بڑھاپے سے سوا
رہتے ہیں چونچال پیری میں جوانوں کی طرح
پاتے ہیں اپنوں میں غیروں سے سوا بیگانگی
پر بھلا تکتے ہیں ایک اک کا یگانوں کی طرح
آس کھیتی کے پنپنے کی انہیں ہو یا نہ ہو
ہیں اسے پانی دئیے جاتے کسانوں کی طرح
ان کے غصے میں ہے دلسوزی، ملامت میں ہے پیار
مہربانی کرتے ہیں نا مہربانوں کی طرح
کام سے کام اپنے ان کو ، گو ہو عالم نکتہ چین
رہتے ہیں بتیس دانتوں میں زبانوں کی طرح
طعن سن سن احمقوں کے ہنستے ہیں دیوانہ وار
دن بسر کرتے ہیں دیوانوں میں سیانوں کی طرح
کیجئے کہ حالیؔ نہ کیجئے سادگی گر اختیار
بولنا آئے نہ جب رنگیں بیانوں کی طرح
*
کچھ کرتے ہیں جو یاں وہی انگشت نما ہیں
بدنام ہی دنیا میں نکو نام ہے گویا
ناچیز ہیں وہ کام نہیں جن پہ کچھ الزام
جو کام ہیں ان کا یہی انعام ہے گویا
ہے وقت راحیل اور وہی عشرت کے ہیں ساماں
آخر ہوئی رات اور ابھی شام ہے گویا
جب دیکھئے حالیؔ کو پڑا پائیے بیکار
کرنا اسے باقی یہی اک کام ہے گویا
*
کھولی ہیں تم نے آنکھیں اے حادثو ہماری
احسان یہ نہ ہر گز بھولیں گے ہم تمہارا
ہوتے ہی تم تو پیدل کچھ رو دئیے سوارو
ہے لاکھ لاکھ من کا ایک اک قدم تمہارا
رستے میں گر نہ ٹھہرے تو تم بھی جا ملو گے
گزرا ابھی ہے یاں سے خیل و حشم تمہارا
پھرتے ادھر ادھر ہو کس کی تلاش میں تم
گم ہے تمہیں میں یارو باغ ارم تمہارا
جادو رقم تو مانیں، ہم دل سے تم کو حالیؔ
کچھ کر کے بھی دکھائے زور قلم تمہارا
*
مے مغاں کا ہے چسکا اگر برا اے شیخ
تو ایسی ہی کوئی چاٹ اور دے لگا ایک شیخ
وہ نکلے بھان متی جو بناتے تھے اکسیر
تماشے دیکھے ہیں یہ ہم نے بارہا اے شیخ
خبر بھی ہے تمہیں کیا بن رہی ہے بیڑے پر
ہیں آپ جونسے بیڑے کے ناخدا اے شیخ
وہ ڈوبتوں سے الگ رہتے ہیں جو ہیں تیراک
شناوری کا یہی گُر ہے مرحبا اے شیخ
کمال حسن عقیدت سے آیا تھا حالیؔ
یہ خانقاہ سے افسردہ دل گیا اے شیخ
*
ملتے ہی ان کے بھول گئیں کلفتیں تمام
گویا ہمارے سر پہ کبھی آسماں نہ تھا
رات ان کو بات بات پہ سو سو دئیے جواب
مجھ کو خود اپنی ذات سے ایسا گماں نہ تھا
رونا یہ ہے کہ آپ بھی ہنستے تھے ورنہ یاں
طعن رقیب دل پہ کچھ ایسا گراں نہ تھا
تھا کچھ نہ کچھ کہ پھانس ہی اک دل میں چبھ گئی
مانا کہ اس کے ہاتھ میں تیر و سناں نہ تھا
بزم سخن میں جی نہ لگا اپنا زینہار
شب انجمن میں حالیؔ جادو بیاں نہ تھا
*
مجھ میں وہ تاب ضبط شکایت کہاں ہے اب
چھیڑو نہ تم کو میرے بھی منہ میں زباں ہے اب
وہ دن گئے کہ حوصلۂ ضبط راز تھا
چہرے سے اپنے شورش پنہاں عیاں ہے اب
جس دل کو قید ہستی دنیا سے تنگ تھا
وہ دل اسیر حلقہ زلف بتاں ہے اب
آنے لگا جب اس کی تمنا میں کچھ مزا
کہتے ہیں لوگ جان کا اس میں زیاں ہے اب
حالیؔ تم اور ملازمت پیرے فروش
وہ علم و دیں کدھر ہے وہ تقویٰ کہاں ہے اب
*
ذکرِ رسولِ پاک سے پر نور ہے فضا
پھرتی ہے شہر شہر ، یہ خوشبو لئے صبا
لوٹا نہیں ہے کوئی بھی بے منزل و مراد
سب کے لئے ہے اُن کی شفاعت کا در کھلا
بعد از خُدا بزرگ ہے بس ذات آپ کی
پیغام آپ کا ہے فقط رازِ لا اِلہ
حب و وفا و شوق ہے طاعت رسول کی
وہ سرخرو ہے جس نے محمد سے کی وفا
دعویٰ ہے مجھ کو دہر میں عشقِ رسول کا
ہے لوحِ دل پہ نامِ محمد لکھا ہوا
**
نفس دعویٰ بے گناہی کا سدا کرتا رہا
گرچہ اُترے جی سے دل اکثر ابا کرتا رہا
حق نے احساں نہ کی اور میں نے کفراں میں کمی
وہ عطا کرتا رہا اور میں خطا کرتا رہا
چوریوں سے دیدہ و دل کی نہ شرمایا کبھی
چپکے چپکے نفس خائن کا کہا کرتا رہا
طاعنوں کی زد سے بچ بچ کر چلا راہ خطا
وار ان کا اس لئے اکثر خطا کرتا رہا
نفس میں جو ناروا خواہش ہوئی پیدا کبھی
اس کو حیلے دل سے گھڑ گھڑ کر روا کرتا رہا
منہ نہ دیکھیں دوست پھر میرا اگر جائیں کہ میں
اُس سے کیا کہتا رہا اور آپ کیا کرتا رہا
تھا نہ استحقاق تحسیں پر سنی تحسیں سدا
حق ہے جود و ہمتی کا وہ ادا کرتا رہا
شہرت اپنی جس قدر بڑھتی گئی آفاق میں
کبر نفس اتنا ہی یا نشوونما کرتا رہا
ایک عالم سے وفا کی تو نے اے حالیؔ مگر
نفس سے اپنے سدا ظالم جفا کرتا رہا
*
نکل آئے گی مے کشی کی بھی حلَت
کوئی مل گیا گر ہمیں یار واعظ
نہ چھوڑے گا زیور گھروں میں نہ زر تو
یہی ہے اگر حسن گفتار واعظ
مسلماں نہ ہم کاش حالیؔ کو کہتے
ہوئے بات کہہ کر گنہگار واعظ
*
پیاس تیری بوئے ساغر سے لذیذ
بلکہ جام آبِ کوثر سے لذیذ
جس کا تو قاتل ہو پھر اس کے لئے
کون سی نعمت ہے خنجر سے لذیذ
لطف ہو تیری طرف سے یا عتاب
ہم کو ہے سب شہد و شکر سے لذیذ
قند سے شیریں تری پہلی نگاہ
دوسری قند مکرر سے لذیذ
ہے یہ تجھ میں کس کی بو باس اے صبا
بوئے بید مشک و عنبر سے لذیذ
*
قلق اور دل میں سوا ہو گیا
دلاسا تمہارا بلا ہو گیا
ہوا رکتے رکتے دم آخر فنا
مرض بڑھتے بڑھتے دوا ہو گیا
سماں گل کا رہ رہ کے آتا ہے یاد
ابھی کیا تھا اور کیا سے کیا ہو گیا
نہ دے میری امید مجھ کو جواب
رہے وہ خفا گر خفا ہو گیا
ٹپکتا ہے اشعار حالیؔ سے حال
کہیں سادہ دل مبتلا ہو گیا
*
شاہد معنی کو آرائش کی کچھ حاجت نہیں
سبحہ و سجادہ ہیچ اور جبہ و دستار ہیچ
ہے ادب مسند پہ، جو کچھ ہے رئیس شہر
ہٹ کے مسند سے جو خود دیکھیں تو ہیں سرکار ہیچ
گو کہ حالیؔ اگلے استادوں کے آگے ہیچ ہے
کاش ہوتے ملک میں ایسے ہی اب دوچار ہیچ
*
سخن پر ہمیں اپنے رونا پڑے گا
یہ دفتر کسی دن ڈبونا پڑے گا
ہوئے تم نہ سیدھے جوانی میں حالیؔ
مگر اب مری جان ہونا پڑے گا
*
شیخ! اللہ رے تیری عیاری
کس توجہ سے پڑھ رہا ہے نماز
خیر ہے اے فلک کہ چار طرف
چل رہی ہیں ہوائیں کچھ ناساز
رنگ بدلا ہوا ہے عالم کا
ہیں دگرگوں زمانہ کے انداز
ہوتے جاتے ہیں مبتذل ممتاز
چھپتے پھرتے ہیں کبکو تیہو سے
گھونسلوں میں عقاب اور شہباز
ہے نہتوں کو رہگزر میں خطر
رہزنوں نے کئے ہیں ہاتھ دراز
ٹڈیوں کا ہے کھیتوں پہ ہجوم
بھیڑیوں کے ہیں خوں میں تر لب آز
نا توانوں پہ گد ہیں منڈلاتے
کھائلوں پر ہیں حیز تیر انداز
تشنۂ خوں میں بھوکے شیروں کے
حیلہ گر رہوں بہو کے عشوۂ ناز
دشمنوں کے ہیں دوست خود جاسوس
اور یاروں کے یار میں غماز
ہوگا انجام دیکھئے کیا کچھ
ہے پر آشوب جب کہ یہ آغاز
کے ابھی تک کھلی نہیں لیکن
عیب سے آ رہی ہے کچھ آوا ز
وقت نازک ہے اپنے بیڑے پر
موج ہائل ہے اور ہوا ناساز
یا تھپیڑے ہوا کے لے ابھر
یا گیا کشمکش میں ڈوب جہاز
کام اسے اپنے سونپ دو حالیؔ
نہیں جس کا شریک اور انباز
*
سخن پیروی کی گر سلف کی
انہیں باتوں کو دہرانا پڑے گا
تعلق کا ہے پھندا پیچ در پیچ
یہ عقدہ ہم کو سلجھانا پڑے گا
بہت یاں ٹھوکریں کھائی ہیں ہم نے
بس اب دنیا کو ٹھکرانا پڑے گا
نہیں بو اس کی اس غمکدے میں
کہیں دل جا کے بہلانا پڑے گا
دل اب صحبت سے کوسوں بھاگتا ہے
ہمیں یاروں سے شرمانا پڑے گا
زمانہ کر رہا ہے قطع پیوند
وفا سے ہم کو پچھتانا پڑے گا
بشر پہلو میں دل رکھتا ہے جب تک
اسے دنیا کا غم کھانا پڑے گا
جو منصوبے ہیں یہ حالیؔ تو شاید
ارادہ فسخ فرمانا پڑے گا
تو بھی کھانے میں نہیں محتاط شیخ
ہم کریں پینے میں کیوں پھر احتیاط
کوچ کی حالیؔ کرو تیاریاں
ہے قویٰ میں دم بدم اب انحطاط
*
تو نہیں ہوتا تو رہتا ہے اچاٹ
دل کو یہ کیسی لگا دی تو نے چاٹ
رچ رہی ہے کان میں یاں لے وہی
اور معنی نے کئی بدلے ہیں ٹھاٹ
ناؤ ہے بوسیدہ اور موجیں ہیں سخت
اور دریا کا بہت چکلا ہے پاٹ
دیر سے مسجد میں ہم آئے تو ہیں
ہے مگر یاں جی کچھ اے زاہد اچاٹ
تیغ میں برش یہ لے حالیؔ نہیں
جس قدر تیری زباں کرتی ہے کاٹ
عمر شاید نہ کرے آج وفا
کاٹنا ہے شب تنہائی کا
ایک دن راہ پہ جا پہنچے ہم
شوق تھا بادیہ پیمائی کا
کچھ تو ہے قدر تماشائی کی
ہے جو یہ شوق خود آرائی کا
یہی انجام تھا اے فصل خزاں
گل و بلبل کی شناسائی کا
محتسب عذر بہت ہیں لیکن
اذن ہم کو نہیں گویائی کا
ہوں گے حالیؔ سے بہت آوارہ
گھر ابھی دور ہے رسوائی کا
*
اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے، نہ گھر کی صورت
کس سے پیمان وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی گل تر کی صورت
اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
دیکھئے شیخ مصور سے کھچے یا نہ کھچے
صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت
واعظو آتش دوزخ سے جہان کو تم نے
یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت
کیا خبر زاہد قانع کو کہ کیا چیز ہے حرص
اس نے دیکھی ہی نہیں کیسۂ زر کی صورت
حملہ اپنے پہ بھی اک بعد ہزیمت ہے ضرور
رہ گئی ہے یہی اک فتح و ظفر کی صورت
ان کو حالیؔ بھی بلاتے ہیں گھر اپنے مہماں
دیکھنا آپ کو اور آپ کے گھر کی صورت
یا رب نگاہ بد سے چمن کو بچائیو
بلبل بہت ہے دیکھ کے پھولوں کو باغ باغ
آئیں پئیں وہ شوق سے جو اہلِ ظرف ہوں
ساقی بھرے کھڑا ہے مئے لعل سے ایاغ
حالیؔ بھی پڑھنے آئے تھے کچھ بزم شعرو میں
باری تب ان کی آئی کہ گل ہو گئے چراغ
*
یہ غم نہیں ہے وہ جسے کوئی بٹا سکے
غمخواری اپنے رہنے دے اے غمگسار بس
ڈر ہے دلوں کے ساتھ امیدیں بھی پس نہ جائیں
اے آسپائے گردش لیل و نہار بس
دیں غیر دشمنی کا ہماری خیال چھوڑ
یاں دشمنی کے واسطے کافی ہیں یار بس
آتا نہیں نظر کہیں ہو رات اب سحر
کی نیند کیوں حرام بس اے انتظار بس
تھوڑی سی رات او ر کہانی بہت بڑی
حالیؔ نکل سکیں گے نہ دل کے بخار بس
*
یہ ہیں واعظ، سب پہ منہ آتے ہیں آپ
ناصح قوم اس پہ کہلاتے ہیں آپ
بس بہت طعن و ملامت کر چکے
کیوں زباں رندوں کی کھلواتے ہیں آپ
ہے صراحی میں وہی لذت کہ جو
چڑھ کے ممبر پر مزا پاتے ہیں آپ
واعظو ہے ان کو شرمانا گناہ
جو گنہ سے اپنے شرماتے ہیں آپ
کرتے ہیں اک اک کی تکفیر آپ کیوں
ا س پہ بھی کچھ غور فرماتے ہیں آپ
چھیڑ کر واعظ کو حالیؔ خلد سے
بسترا کیوں اپنا پھکواتے ہیں آپ
*
قافلے گزریں وہاں کیونکہ سلامت واعظ
ہو جہاں راہزن اور راہنما ایک ہی شخص
قیس سا پھر کوئی اٹھا نہ بنی عامر پیں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص
گھر میں برکت ہے مگر فیض ہے جاری شب و روز
کچھ سہی شیخ، مگر ہے بخدا ایک ہی شخص
اعتراضوں کا زمانہ کے ہے حالیؔ پہ نچوڑ
شاعر اب ساری خدائی میں ہے یا ایک ہی شخص
*
ذوق سب جاتے رہے جز ذوق درد
اک یہ لپکا دیکھئے کب جائے گا
عیب سے خالی نہ واعظ ہے نہ ہم
ہم پہ منہ آئے گا منہ کی کھائے گا
باغ و صحرا میں رہے جو تنگ دل
جی قفس میں اس کا کیا گھبرائے گا
*
اب وہ اگلا سا التفات نہیں
جس پہ بھولے تھے ہم وہ بات نہیں
رنج کیا کیا ہیں ایك جان کے ساتھ
زندگی موت ہے حیات نہیں
کوئی دلسوز ہو تو کیجے بیاں
سرسری دل کی واردات نہیں
ذرہ ذرہ ہے مظہر خورشید
جاگ اے آنکھ دن ہے رات نہیں
قیس ہو، كوہكن ہو، با حالی
عاشقی کچھ كسي کی ذات نہیں
*
٭٭٭
ماخذ:
مختلف فورمس۔
تدوین اور ای بک: اعجاز عبید