یوں تو کتنے ہی ہم نشین رہے
کون دل میں سدا مکین رہے
نشۂ حُسن میں رہے تم بھی
ہم بھی کب عشق کے امین رہے
اپنے ہی دل کے آستانے پر
آستاں بوس اب جبین رہے
آسماں کی کوئی نہیں پروا
میرے پَیروں تلے زمین رہے
پاس رہ کر بھی پاس تھے میرے
دور ہو کر بھی وہ قرِین رہے
کیا خبر کب سفر پہ چل نکلیں
اسپِ جاں پر ہمیشہ زِین رہے
جیسے اب چاہے تُو سلوک کرے
آج سے ہم ترے رہین رہے
بس تو پھر طے ہوا یہی حیدر
ہاتھ میں دنیا، دل میں دین رہے
٭٭٭
ہر چند ہم ایسے بھی جہاں تاب نہیں تھے
کب ماتھے پہ روشن کبھی مہتاب نہیں تھے
بے نام اُداسی تو ہمیشہ رہی لیکن
ہم اُس سے بچھڑ کر کبھی بے تاب نہیں تھے
یہ خواب بھی تیرے تھے اِنہیں ساتھ ہی لے جا
یہ بجھتے ہوئے خواب مِرے خواب نہیں تھے
کردارِ فقیہاں مِری آزادہ روی بھی
’’گمراہی‘‘ کے لیکن یہی اسباب نہیں تھے
اُس بزم میں ہر جھوٹ پہ بول اٹھتے تھے فوراً
نادان تھے ہم واقفِ آداب نہیں تھے
ہر گوہرِ نایاب کی تذلیل بجا ہے
پر ہم تو کوئی گوہرِ نایاب نہیں تھے
احباب کے تِیروں کے تو ہم عادی تھے حیدر
اِس بار مگر بھائی تھے احباب نہیں تھے
درد جتنا بھی ترے در سے عطا ہوتا گیا
کاسۂ دل درد مندوں کا دعا ہوتا گیا
برہمی میں وہ نجانے کیا سے کیا کہتے رہے
بے خودی میں ہم سے جانے کیا سے کیا ہوتا گیا
جسم و جاں پر اک عجب مستی سی ہے چھائی ہوئی
اک نظر کے لُطف سے اتنا نشہ ہوتا گیا
پھر مِری شہ رگ سے بھی آتا گیا نزدیک تر
مجھ سے کیا بچھڑا ہے وہ گویا خدا ہوتا گیا
آنکھ میں ، دل میں ، لہو میں رقص فرمانے لگا
کس ادا کے ساتھ وہ مجھ سے جدا ہوتا گیا
گونج اُٹّھیں گنبدِ جاں میں مِری تنہائیاں
کوئی خط خاموش لفظوں سے صدا ہوتا گیا
پھول تھا وہ تو میں خوشبو بن کے اس میں جذب تھا
وہ بنا خوشبو تو میں بادِ صبا ہوتا گیا
جس قدر ہوتا گیا اُس کی محبت کا اسیر
ذات کے زندان سے حیدر رِہا ہوتا گیا
٭٭٭
کون دیکھے گا بھلا میرے خدا میرے بعد
رنگ لائے گی اگر میری دعا میرے بعد
رُو برو میرے بنا بیٹھا تھا پتھر کی طرح
کسی چشمے کی طرح پھُوٹ بہا میرے بعد
عشق کے قصے سبھی مجھ پہ ہوئے آ کے تمام
کوئی مجنوں ، کوئی رانجھا نہ ہوا میرے بعد
اس میں مل جائے گا جا کر مِرے اندر کا خلا
اور بڑھ جائے گا باہر کا خلا میرے بعد
جس نے دشمن کو مِرے قتل پہ اُکسایا ہے
لینا چاہے گا وہی خون بہا میرے بعد
ابھی ممکن ہی نہیں قرض چکانا تیرا
زندگی! قرض ترا ہو گا اَدا میرے بعد
روز طوفان اُٹھانے کی مشقت تھی اسے
دشت بے چارے کو آرام ملا میرے بعد
میرو غالب کی عطا اُن کی زمیں میں یہ غزل
حیدر اوروں پہ بھی ہو گی یہ عطا میرے بعد
٭٭٭
گرچہ ہمیں ہے پہلے بھی اک زک لگی ہوئی
لیکن گئی نہ یاس سے چشمک لگی ہوئی
ہر آن ہے گمان کہ شاید وہ آ گئے
دھڑکن ہے دل کی یا کوئی دستک لگی ہوئی
اپنا تمام حصہ اُنہیں دے کے آگیا
آخر کو ختم کرنی تھی جھک جھک لگی ہوئی
تم اہلِ علم و فضل ہو لیکن کچھ اِس طرح
جیسے کوئی کتاب ہو دیمک لگی ہوئی
اُس کی محبتیں ہیں کسی اور کے لئے
تہمت ہمارے سر پہ ہے بے شک لگی ہوئی
پڑتا ہے یوں تو حُسن پہ اِس کا اثر مگر
اچھی لگی ہے آپ کو عینک لگی ہوئی
حیدر مذاق مت اِسے سمجھو یہ عشق ہے
بازی ہے اِس میں پاؤں سے سر تک لگی ہوئی
٭٭٭
درد اندر کے سب آنکھوں میں اُبھر آئے تھے
عشق میں جب ہمیں پانی کے سفر آئے تھے
شہر کی گلیوں نے چومے تھے قدم رو رو کر
جب ترے شہر سے یہ شہر بدر آئے تھے
آپ نے ہی درِ دل وا نہ کیا تھا ورنہ
صبح کے بھولے تو دوپہر کو گھر آئے تھے
یہ الگ بات کہ جی اُٹھے دوبارہ لیکن
ہم تری راہ میں تو جاں سے گزر آئے تھے
بازگشت اپنی ہی آواز کی بننا تھا ہمیں
ہم نے کب لَوٹ کے آنا تھا مگر آئے تھے
ایک سوہنی کی پذیرائی کی خاطر حیدر
دل کے دریا میں کبھی کتنے بھنور آئے تھے
٭٭٭
تجھ سے اب تیری شکایت نہیں ہونے والی
یعنی وہ پہلی سی چاہت نہیں ہونے والی
وہ تو از خود نہیں ہو سکتا ہے مائل بہ کرم
اور ہم سے بھی بغاوت نہیں ہونے والی
اس کی تعریف میں پُل باندھ لے چاہے جتنے
پھر بھی پوری تری نیّت نہیں ہونے والی
کاسۂ عشق کو اب توڑ کے باہر پھینکو
ان بخیلوں سے سخاوت نہیں ہونے والی
اپنے حق میں تُو بھلے کتنی گواہی لائے
بے گناہی سے بریت نہیں ہونے والی
کعبۂ دل کو کہاں چھوڑ چلے ہو حیدر
تم تو کہتے تھے یہ ہجرت نہیں ہونے والی
٭٭٭
تمہاری شوخی، مِری خوش خیالیاں بھی گئیں
وہ وَلولے بھی گئے لا ابالیاں بھی گئیں
کچھ ایسے ٹوٹ کے ملنا کہ ایک ہو جانا
محبتیں وہ ہماری نرالیاں بھی گئیں
جنہیں میں چاہتا تھا شادیاں کرا بیٹھیں
جو پیار کرتی تھیں وہ پیار والیاں بھی گئیں
نہ انتظار کا شوق اب نہ رَتجگوں کی بہار
وہ آرزوئیں وہ آنکھوں کی لالیاں بھی گئیں
یہ کیسی وقت کی آندھی بدن پہ آئی ہے
کہ پھول پتے تو کیا میری ڈالیاں بھی گئیں
قویٰ جو ڈھیلے پڑے اعتدال آنے لگا
جوانی ڈھلتے ہی بے اعتدالیاں بھی گئیں
بچی ہوئی تھیں جو دوچار خواہشیں حیدر
لو آج دل سے ہمارے وہ سالیاں بھی گئیں
٭٭٭
دھُند یادوں میں جیسے بھٹکتے رہے
وہ بھی تکتے رہے، ہم بھی تکتے رہے
ممکنہ حد تلک شب سے اُلجھے تو ہیں
جگنوؤں کی طرح گو چمکتے رہے
پتھرّوں کا اُڑاتے ہوں جیسے مذاق
آئینے ٹوٹ کر یوں کھنکتے رہے
چند لمحے وہ اُن سے ملاقات کے
میری سانسوں میں برسوں مہکتے رہے
موت کی بھی حقیقت اُنہیں سے کھُلی
زندگی کے جو دل میں دھڑکتے رہے
٭٭٭
اُس ستم گر کے سب اندازِ ستم رہنے دے
دشمنِ جاں کے سبھی جاہ و حشم رہنے دے
اے خدا! ڈر ہے مجھے طے ہی نہ ہو جائے کہیں
منزلِ عشق کو دو چار قدم رہنے دے
اُس سے کہہ دو کہ وہ اب یہ تو نہ چھینے مجھ سے
میرے دامن میں مِرے درد و الَم رہنے دے
خاک عزت ہے یہاں اہلِ ادب کی حیدر
چھوڑ یہ زورِ بیاں ، زعمِ قلم رہنے دے
٭٭٭
یونہی دیکھا تھا جسے چشمِ تماشائی سے
اب نکلتا ہی نہیں رُوح کی گہرائی سے
اہلِ دنیا بھلا اِس رَمز کو کیسے سمجھیں
عشق رُسوا نہیں ہوتا کبھی رُسوائی سے
متن میں آپ کا ہی ذکر چلا آتا ہے
اچھا ہے بچ کے رہیں حاشیہ آرائی سے
آخری مرحلہ اِس کھیل کا رہتا ہے ابھی
خوش نہ ہو لشکرِ اعداء مِری پسپائی سے
جو رہِ اہلِ ملامت پہ چلا جاتا ہو
مت الجھنا کبھی ایسے کسی سودائی سے
جسم بھی اپنی جگہ زندہ حقیقت ہیں مگر
دل نہیں ملتے فقط جسموں کی یکجائی سے
مرحلے آئے تھے خوف اور گنہ کے پہلے
روشنی گیان کی پھر پھُوٹی تھی تنہائی سے
بے لحاظی کا کسے دُکھ نہیں ہوتا حیدر
ہم نے شکوہ نہ کیا پر کسی ہرجائی سے
٭٭٭
عشق میں اپنی ہی جب خاک اُڑا لی ہم نے
پھر وہی خاک ترے پیار پہ ڈالی ہم نے
ڈھنگ کا کام کوئی ہم سے کبھی ہو نہ سکا
یوں تو سرسوں بھی ہتھیلی پہ جَما لی ہم نے
خود بھی پہچان نہیں پاتے ہیں اپنی صورت
جانے کس روگ میں یہ شکل بنا لی ہم نے
وہ بھی انکار کا عادی نہ رہا تھا بے شک
کب کوئی اس کی تمناّ کبھی ٹالی ہم نے
وہ سمجھ دار ہے مطلب تو سمجھ جائے گا
بات آدھی ہی کہی، آدھی چھُپا لی ہم نے
کھیل رنگوں کا جو پھولوں سے سمجھ میں آیا
سیکھ لی خوشبو سے آوارہ خیالی ہم نے
جو دعا کرتے تھے اُلٹا ہی اثر ہوتا تھا
تیری چاہت کی دعا رب سے بچا لی ہم نے
یونہی تُک بندی نہیں کی ہے غزل میں حیدر
بھیڑ سے اپنی الگ راہ نکالی ہم نے
٭٭٭
میری دھرتی سے پرے، کوئی بلاتا ہے مجھے
کہکشاؤں کی عجب راہ دکھاتا ہے مجھے
چشمِ نَم کے وہ زمانے تو کبھی کے بیتے
لیکن اک تارا وہی قصے سناتا ہے مجھے
جس نے آمادہ کیا ترکِ تعلق کے لئے
اب وہی دل ہی کچوکے سے لگاتا ہے مجھے
ماں ! ترے بعد سے سورج ہے سوا نیزے پر
بس تری ممتا کا اک سایہ بچاتا ہے مجھے
اِس زمانے کے خداؤں نے بگاڑا ہے مگر
میرے اندر کا اک انسان بناتا ہے مجھے
کس وفا سے وہ ابھی تک ہے ستم پر قائم
کس محبت سے ابھی تک وہ جَلاتا ہے مجھے
صرف یہ عمرِ گریزاں ہی نہیں کرتی اُداس
میرا ہنستا ہوا بچپن بھی رُلاتا ہے مجھے
جانے کیا بات ہے اُس شخص کے دل میں حیدر
جو ابھی تک وہ بتا ہی نہیں پاتا ہے مجھے
٭٭٭
نہ کسی کے دَم، نہ عصا میں ہے
جو کمال تیری ادا میں ہے
اِسے کون ہے جو بُجھا سکے
یہ چراغ اپنی ہوا میں ہے
جو اثر ہے اُس کی نگاہ میں
نہ دوا میں ہے، نہ دعا میں ہے
جو مزہ ہے میرے سوال میں
کہاں اُس کے دستِ عطا میں ہے
مجھے ہر گنہ کی جزا ملی
وہ شرافتوں کی سزا میں ہے
نہ فلک پہ ہے نہ زمین پر
مِری رُوح جیسے خلا میں ہے
٭٭٭
جب سرکار کی جانب سے منظوری ہوتی ہے
فاصلہ کتنا بھی ہو عین حضوری ہوتی ہے
جذب کے عالم میں پہنچا بندہ جو کہہ جائے
بات خدائی ہوتی ہے سو پوری ہوتی ہے
باہر کے شیطان خرابی سی کر جاتے ہیں
ورنہ ہر انسان کی فطرت نوری ہوتی ہے
دل میں بسنے والے دُور بھلا کب ہوتے ہیں
دنیا کی نظروں میں بے شک دُوری ہوتی ہے
ویسے تو ہے عزت والا یہ منصب حیدر
عشق میں لیکن ذلّت کی مزدوری ہوتی ہے
٭٭٭
(آپی کے لئے)
اتنی محبت ہے کہ گماں جیسی لگتی ہے
ماں جائی ہے لیکن ماں جیسی لگتی ہے
اُس کے ہونٹوں کی محراب دعاؤں والی
اُس کی خاموشی بھی اَذاں جیسی لگتی ہے
دل میں ٹھہری ہوئی ہے میرے بچپن ہی سے
جس کی محبت آبِ رواں جیسی لگتی ہے
جس نے میرے دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھا تھا
اپنے دل اور اپنی جاں جیسی لگتی ہے
بنی ہوئی ہے ڈھال وہ میری خاطر حیدر
مِرے مخالف کو جو کماں جیسی لگتی ہے
٭٭٭
اُس نے میرے لئے عمر بھر دشتِ تنہائی کا جو سفر لکھ دیا
سارے صحرا میں تب چلتے چلتے مِرے ہر قدم نے شجر لکھ دیا
حال مستوں کی مستی کا عالم ہے یہ، آنے والے دنوں کو کہا
خواب بکھرا ہوا، اور رخشندہ ماضی کو ٹوٹا کھنڈر لکھ دیا
نام اُس کا چھُپانے، بتانے کی مشکل سے یوں بچ سکے سر پھرے
انگلیوں سے ہواؤں پہ اُس کو کبھی تو کبھی آب پر لکھ دیا
میں نے اپنی دیانت کی سب دولتیں اپنی اولاد کو دیں فقط
اور باقی عزیزوں کو صرف اور صرف اپنے حصے کا گھر لکھ دیا
روٹھنے اور منانے کے سب سلسلے تو کجا آرزو ہی نہیں
خط میں اس کو تو بالکل ہی لکھنا نہیں چاہتا تھا مگر لکھ دیا
لوگ دستار حیدر چھُپانے، بچانے میں مشغول تھے جب تبھی
جانے دیوانگی تھی یا فرزانگی تھی مگر ہم نے سر لکھ دیا
٭٭٭
اس حُسن کے وہ جاہ، وہ اجلال کہاں ہیں
وہ پہلے سی آنکھیں ، وہ خد و خال کہاں ہیں
وہ لہجے کی تاثیر، وہ آواز کا جادُو
ہونٹوں کے دہکتے ہوئے وہ لعل کہاں ہیں
عیار شکاری جہاں پھنس جاتے تھے آ کر
وہ زلف کے پھندے، وہ حَسیں جال کہاں ہیں
وہ زعمِ جوانی وہ ترے جسم کی خوشبو
فتنوں کو جگاتے وہ مہ و سال کہاں ہیں
ہر انگ میں اک حُسنِ تناسب تھا، کھنک تھی
اب تیرے دھنک رنگ پر و بال کہاں ہیں
وہ ہی تو فقط وقت کی زد میں نہیں حیدر
خود تیرے بھی وہ پہلے سے احوال کہاں ہیں
٭٭٭
یہ دل کہ تجھ سے جو راز و نیاز رکھتا ہے
ترے حریف سے بھی ساز باز رکھتا ہے
قریشِ مکہ میں ہو یا مدینہ والوں میں
فقیر نسبتِ ارضِ حجاز رکھتا ہے
وہ پہلے دیتا ہے ترغیب پاس آنے کی
قریب آنے سے پھر خود ہی باز رکھتا ہے
ستم ظریف پہ غصہ بھی تو نہیں آتا
زباں کا تیز ہے پر دل گداز رکھتا ہے
نہیں تو صرف مِرے حال سے نہیں واقف
وہ بے خبر جو جہاں بھر کے راز رکھتا ہے
فرشتے کیسے کریں گے حساب پھر اس کا
ہر اک گناہ کا حیدر جواز رکھتا ہے
٭٭٭
وہ سارے وار مقدر کے سہہ گئے ہوں گے
مگر حقیقتاً اندر سے ڈھہ گئے ہوں گے
ستمگروں کی عنایات کی حکایت تھی
سو اہلِ دل کے بھرم کچھ تو رہ گئے ہوں گے
زمانے والوں کی باتوں پہ کان کیا دھرنا
زمانے والے تو کیا کچھ نہ کہہ گئے ہوں گے
وہ مسکرا تو دیا ہو گا سوچ کر مجھ کو
پر اُس کی آنکھ سے آنسو بھی بہہ گئے ہوں گے
لڑائی جھگڑا تو حیدر نہ تھا مزاج ان کا
وہ گھونٹ زہر کے بس پی کے رہ گئے ہوں گے
٭٭٭
کب عقل کے بے ربط خیالات سے آئی
’’بے راہروی‘‘ عشق کی برکات سے آئی
اِس بار ہے مہینوال کسی اور نگر کا
سوہنی مگر اِس بار بھی گجرات سے آئی
سب کام بگڑ کر ہی سنورتے رہے اپنے
آسانی جب آئی ہے محالات سے آئی
یہ دل تو محبت ہی محبت تھا سدا سے
لہجے میں یہ تلخی مِرے حالات سے آئی
چالاکی کہاں آتی تھی حیدر کو مِری جان
بس تیری اداؤں کی کرامات سے آئی
٭٭٭
سمندروں کی جگہ دشتِ بے کنار دیا
الٰہی! کشتیِ جاں کو کہاں اتار دیا
ہمارے بس میں تو کچھ بھی نہیں خداوندا
ہمارے دل پہ بھی کب ہم کو اختیار دیا
پھر اس کو پانے میں کیا جیت کی خوشی ہوتی
کہ اس کو پانے میں جب اپنا آپ ہار دیا
ستم جو ہم پہ کئے اُس نے بے حساب کئے
کرم بھی کرنے پہ آیا تو بے شمار دیا
کوئی یہ کہہ دے مِرے دشمنوں سے اے حیدر
مِرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا ہے
٭٭٭
غموں سے اِس کو ہمیشہ نہال رکھتا ہے
ہمارے دل کا وہ کتنا خیال رکھتا ہے
نہ گلبدن ہے نہ چشمِ غزال رکھتا ہے
وہ سادگی میں ہی اپنا کمال رکھتا ہے
مِری جوانی کے ہیں ماہ و سال جس کے پاس
وہ بے وفا بھی زمانے کی چال رکھتا ہے
پھر اُس کے وصل میں کیا جانے کتنی لذت ہو
وہ جس کا ہجر بھی لطفِ وصال رکھتا ہے
تمام زخم اُسی نے عطا کئے حیدر
ہر ایک زخم کا جو اندمال رکھتا ہے
٭٭٭
محبتوں میں تم سے جو نباہ بھی نہ کر سکا
تمہارے بعد پھر کسی کی چاہ بھی نہ کر سکا
ہمارے نامۂ عمل میں کچھ بھی تو نہیں ملا
کہ بے نصیب دل اسے سیاہ بھی نہ کر سکا
کہاں وہ کر سکا ہے نیکیاں بھی کام کی کبھی
جو زندگی میں ڈھنگ کا گناہ بھی نہ کر سکا
کمالِ ضبط تھا اِدھر، کمالِ خامشی اُدھر
میں آہ بھی نہ کر سکا وہ واہ بھی نہ کر سکا
لگن مسافتوں کی حیدر اس قدر رہی کہ میں
ابھی تک اختیار کوئی راہ بھی نہ کر سکا
٭٭٭
وہ جو ہم کو آزمانے لگ گئے
زخم دل کے جگمگانے لگ گئے
صرف اپنے آپ تک آتے ہوئے
آپ کو کتنے زمانے لگ گئے
شہرِ جاں کی دیکھ کر یخ بستگی
خواہشیں تک ہم جَلانے لگ گئے
رُو برو قرآنِ حُسنِ یار کے
کیا حدیثِ دل سنانے لگ گئے
وادیَ حیرت میں حیدر دیکھ لو
سارے فرزانے ٹھکانے لگ گئے
٭٭٭
’’عمرِ گریزاں ‘‘ کی غزلیں ، تشکُّر مصنف
اردو تحریر میں تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید