10:15    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

مجموعہ جشن رنگ

1398 0 0 00




حمدیہ

ادراک کی حد میں ہے نہ محدودِ گماں ہے

محسوس کرے کوئی تو رگ رگ میں رواں ہے

ہاتھوں میں کسی کے تو عناصر کی عناں ہے

کیا خود ہی رواں قافلۂ عمرِ رواں ہے

قائم ہے یہ پانی پہ زمیں کس کے سہارے

یہ زیرِ اثر کس کے جہانِ گزراں ہے

ہے کوہِ گراں کس کی جلالت کی نشانی

یہ جلوۂ گل کس کی لطافت کا نشاں ہے

گردانئے دور اس کو تو دوری کی نہیں حد

نزدیک سمجھئے تو قریبِ رگِ جاں ہے

معلوم نہیں مجھ کو قضا کیا ہے قدر کیا

ہر سانس مرا تیرے اشارے پہ رواں ہے

کچھ تیرے سوا مجھ کو دکھائی نہیں دیتا

میں ہوں نہ زمیں ہے ، نہ زماں ہے نہ مکاں ہے

٭٭٭






نعت

سوال: عبد کی معبود تک رسائی ہے؟

جواب: اور یہ معراج کس نے پائی ہے

سوال: خاک نشینوں کا عرش پر کیا کام؟

جواب: شانِ رسالت کی حد بتائی ہے

سوال: عالمِ بالا کی سیر اِک پل میں؟

جواب: صلّ علیٰ شانِ مصطفائی ہے

سوال: نورِ مجسم کہ پیکرِ خاکی؟

جواب: آئنۂ حسنِ کبریائی ہے

سوال: بندۂ امیّ کو دو جہاں کی خبر؟

جواب: علمِ خداداد انتہائی ہے

سوال: ایک ہی صورت ہے جانِ صورت گر؟

جواب: اپنے خط و خال پر بنائی ہے

سوال: آپ کے دامانِ لطف کی وسعت؟

جواب: عرصہ کونین کی سمائی ہے

سوال: ارضِ مدینہ فلک مقام ہے کیوں؟

جواب: مسکنِ محبوبِ کبریائی ہے

٭٭٭






ہر بام و در پہ یوں تو مچلتی ہے روشنی

ہر بام و در پہ یوں تو مچلتی ہے روشنی

کترا کے میرے گھر سے نکلتی ہے روشنی

مایوسیوں کی زد پہ ہے امید کی کرن

ٹلتی ہے غم کی رات نہ ڈھلتی ہے روشنی

بزمِ جہاں کے رنگ ہیں سورج سے مستعار

غازہ رخِ حیات پہ ملتی ہے روشنی

اک محشرِ صدا ہے خلاؤں میں عکس ریز

لہروں میں کروٹیں سی بدلتی ہے روشنی

ساحل سے دیکھ شوخیِ عکسِ مہِ تمام

موجوں کے ساتھ ساتھ اچھلتی ہے روشنی

اللہ اِن ضدوں کو شعورِ جمال دے

ملتے ہیں ذہن و دل تو نکلتی ہے روشنی

٭٭٭






ہم کیسے یہ کہہ دیں کہ نہیں کوئی ہمارا

ہم کیسے یہ کہہ دیں کہ نہیں کوئی ہمارا

مرنے کی تمنا بھی ہے جینے کا سہارا

لینا وہ گرا ٹوٹ کے دامانِ فلک سے

قسمت کا ستارا، مری قسمت کا ستارا

گرتے ہیں وہی جن کو سنبھلنا نہیں آتا

محتاج بنا دیتا ہے انساں کو سہارا

ہونے لگی جنبش مری مفلوج پروں میں

یہ کس نے مجھے اوجِ ثریا سے پکارا

بیٹھے رہیں وہ انجمنِ ناز سجائے

اب تو مری تنہائی ہے خود انجمن آرا

٭٭٭






اترے تھے آسماں سے زمیں کو سنوارنے

اترے تھے آسماں سے زمیں کو سنوارنے

رکھ دی اڑا کے خاک غمِ روزگار نے

ہر زاویے سے میرے خدوخالِ‌ذات کو

پرکھا نگار خانۂ لیل و نہار نے

سورج سے تھی امیدِ‌توانائی جسم کو

آواز دی بہت شجرِ‌سایہ دار نے

میں تیز دھوپ میں بھی رہا برف کی چٹان

پگھلا دیا ہے نغمگیِ آبشار نے

کہتے ہیں لوگ جبرِ مشیت ہے زندگی

صبر و رضا کا نام دیا اختیار نے

اس بار بھی چمن میں وہی حادثہ ہوا

گھبرا کے خود خزاں کو پکارا بہار نے

٭٭٭






کاغذی ہے نہ ریت کی دیوار

کاغذی ہے نہ ریت کی دیوار

اپنی سرحد ہے آہنی دیوار

ہے فلک بوس قصرِ ہمسایہ

اور اونچی کرو ابھی دیوار

چاند ماری ہوئی وہ اندر سے

بن گئی در فصیل کی دیوار

اب تو یہ خستگی کا عالم ہے

اب گری جیسے اب گری دیوار

جب بھی میں نے سفر کا قصد کیا

آگے آگے مرے چلی دیوار

کوئی آہٹ، نہ کوئی سرگوشی

سو گئی آج پاس کی دیوار

یہ درِ دل پہ کس نے دستک دی

چیخ اٹھی سکوت کی دیوار

پسِ دیوار تھا کوئی شاید

میں جو رویا تو ہنس پڑی دیوار

آج یہ کون بام پر آیا

روشنی میں نہا گئی دیوار

رنگ کیا ہو وہاں مسافر کا

جہاں بن جائے روشنی دیوار

ایک جست اور جذبۂ منزل!

یہ ہے رستے کی آخری دیوار

لے اُڑی ایک موجِ شوق مجھے

میرا منہ تکتی رہ گئی دیوار

اُس کی آرائشوں سے کیا حاصل

جو ہو اندر سے کھوکھلی دیوار

سائے سے تو نوازتی ہے مجھے

تجھ سے بہتر تو ہے تری دیوار

مجھ پہ تیری گلی ہوئی کیا بند

ہو گئی پھر تو ہر گلی دیوار

خواہشیں ہیں دلوں کے پیمانے

کوئی چھوٹی، کوئی بڑی دیوار

دوستوں کا مزاج کیا کہیے

کوئی دروازہ ہے، کوئی دیوار

خوب ترکیب ہے عناصر کی

موت دروازہ، زندگی دیوار

ایک دیوار کو گراتا ہوں

پیش آتی ہے دوسری دیوار

جس کی آبِ رواں پہ تھی بنیاد

کیسے اب تک کھڑی رہی دیوار

چاند بھی راستے کا پتھر ہے

ہیں ستارے بھی راہ کی دیوار

یہ تو ہم آ گئے ترے در تک

ورنہ ہر گام تھی نئی دیوار

پھر وہی راستے، وہی منزل

پھر وہی فاصلے، وہی دیوار

آنسوؤں میں یہ حال ہے دل کا

جیسے پانی میں ڈوبتی دیوار

اپنی قد آوری ہے کیا یارو!

جیسے کچے مکان کی دیوار

٭٭٭






شہروں میں ایسے منظر بھی نظروں سے ٹکراتے ہیں

شہروں میں ایسے منظر بھی نظروں سے ٹکراتے ہیں

آنکھوں والے آتے جاتے اندھوں سے ٹکراتے ہیں

سورج تو پیاسا ہے ازل کا تاروں کو پی جاتا ہے

شبنم کے پاگل قطرے کیوں کرنوں سے ٹکراتے ہیں

تُو نے یہ کیا قید لگا دی تیرے جیسے رنگ بھروں

کون سے میرے خاکے تیرے خاکوں سے ٹکراتے ہیں

ایک سحر کی پیاس میں دل کب سے انگارے پیتا ہے

ہر سب جانے کتنے سورج آنکھوں سے ٹکراتے ہیں

دہراتی ہے شب بیداری دن بھر کے سب ہنگامے

تنہائی کے سناٹے بھی کانوں سے ٹکراتے ہیں

وقت کے دریا کی موجوں میں روز تصادم ہوتا ہے

جاتے لمحے، آنے والے لمحوں سے ٹکراتے ہیں

اب جو صبا آتی ہے چمن میں گل ہی اور کھلاتی ہے

سوکھے پتے اُڑ کر ویراں شاخوں سے ٹکراتے ہیں۔

٭٭٭






دل نے کسے حیات کا محور سمجھ لیا

دل نے کسے حیات کا محور سمجھ لیا

خود کو حصارِ‌مرگ سے باہر سمجھ لیا

گردِ‌سفر میں ڈوب گیا کاروانِ شوق

ریگِ رواں کو ہم نے سمندر سمجھ لیا

ناکامیِ طلب کا گلہ کیوں، کہ ہم نے خود

سنگِ نشاں کو راہ کا پتھر سمجھ لیا

پروازِ عرش کا بھی دیا تھا سبق تجھے

تو نے ہی اپنے آپ کو بے پر سمجھ لیا

تیرے سپرد آج بھی ہے نظمِ کائنات

تو نے ہی اختیار سے باہر سمجھ لیا

روشن ہوں خاک تجھ پہ مقامِ دلِ حزیں

عرضِ خرد کو تو نے تو جوہر سمجھ لیا

٭٭٭






جو تم ٹھہرو تو ہم آواز دیں عمرِ‌گریزاں کو

جو تم ٹھہرو تو ہم آواز دیں عمرِ‌گریزاں کو

ابھی اک اور نشتر کی ضرورت ہے رگِ جاں کو

کبھی ہم نے بھی رنگ و نور کی محفل سجائی تھی

کبھی ہم بھی سمجھتے تھے چمن اک روئے خنداں کو

کبھی ہم پر بھی یونہی فصلِ گل کا سحر طاری تھا

کبھی ہم بھی جنوں کا حق سمجھتے تھے گریباں کو

کہیں ایسا نہ ہو شیرازۂ ہستی بکھر جائے

نہ دیکھو اس توجہ سے کسی آشفتہ ساماں کو

تری جمعیتِ خاطر کا دشمن کون ہے ظالم؟

خدا ناکردہ تُو سمجھے مرے حالِ‌پریشاں کو

کسی کا دوست ہے کوئی نہ کوئی دشمنِ جاں ہے

حزیں اپنے ہی سائے ڈس گئے کمبخت انساں کو

٭٭٭






مجنوں کی خوشہ چیں مری دیوانگی نہیں

مجنوں کی خوشہ چیں مری دیوانگی نہیں

جو ضابطے میں رہ نہ سکے عشق ہی نہیں

جلوت کے قمقمے ہوں کہ خلوت کے آئنے

دل میں‌اگر نہیں تو کہیں روشنی نہیں

مجھکو دکھائے خواب وہ میرے نصیب نے

جن کے نصیب میں کوئی تعبیر ہی نہیں

دنیا بہت حسیں‌ہے بہت دلفریب ہے

یہ اور بات میری نظر میں جچی نہیں

بندہ ہوں اور عہدِ ازل مجھکو یاد ہے

حدِّ تعیّنات سے گزروں؟ کبھی نہیں

آیا نہ میرے کام کمالِ مصوری

تصویر تری لاکھ بنائی، بنی نہیں

لوگو! یہ نفرتوں کے شرارے سمیٹ لو

اس آگ سے ڈرو جو ابھی تک لگی نہیں

تیرے نگار خانے میں دو چار کے سوا

تصویر ایک بھی مرے معیار کی نہیں

پرچھائیوں کے دشت سے باہر نکل کے دیکھ

بزمِ حیات عرصۂ بے چہرگی نہیں

٭٭٭






میں ابھرا تھا کنارا دیکھنے کو

میں ابھرا تھا کنارا دیکھنے کو

کنارے پر تھی دنیا دیکھنے کو

مرے ذوقِ نظر نے رنگ بخشے

جہاں میں ورنہ کیا تھا دیکھنے کو

تماشا گاہِ‌عالم میں ہوں تنہا

کوئی تو ہو تماشا دیکھنے کو

خرد نے زاویے کیا کیا نہ بدلے

جنوں کا رنگ پھیکا دیکھنے کو

وہ ہمراہِ مہ و خورشید آئے

مرا داغِ‌تمنا دیکھنے کو

سمندر سے ندامت آج تک ہے

"ذرا ٹھہرا تھا دریا دیکھنے کو"

گذر کر سات رنگوں کے بھنور سے

ملا خوشبو کا جلوہ دیکھنے کو

دلِ بیدار نے برسوں جگایا

شبِ‌غم کا سویرا دیکھنے کو

سیاہی شب کی اوڑھے سو رہا تھا

سحر آئی تماشا دیکھنے کو

جہاں میں دیکھیے تیرے سوا کیا

کہ ہے تیرے سوا کیا دیکھنے کو

مرے گھر میں کسی سورج نے جھانکا

نہ کوئی چاند اترا دیکھنے کو

حزیں دل سے نظر کیسے ہٹا لوں

یہی تو ہے دریچہ دیکھنے کو۔

٭٭٭






بجھ بجھ کے دائرے سے بناتے رہے چراغ

بجھ بجھ کے دائرے سے بناتے رہے چراغ

آخر اسی حصار میں گم ہو گئے چراغ

یاروں کی انجمن میں یہ کیسی ہوا چلی

اک دوسرے کی لو پہ لپکنے لگے چراغ

سمجھے تھے جن کو پھول وہ شاخوں کے زخم تھے

شبنم کے اشک تھے، جو دکھائی دئیے چراغ

جس گھر سے تم خفا ہو ، وہاں روشنی کہاں؟

کب سے بجھے پڑے ہیں در و بام کے چراغ

ترتیب پا سکی نہ شب غم کی داستاں

ہم سو گئے کبھی تو کبھی سو گئے چراغ

جس رات شہر بھر پہ کرن بھی حرام تھی

اس رات بھی نہ شیش محل کے بجھے چراغ

شاید بہار نام ہے اک جشن رنگ کا

آنچل اڑے، گلاب کھلے، ہنس پڑے چراغ

یارانِ کم سواد کو ہر راہ سے گلہ!

ہم تو حزیں جہاں بھی گئے جل اٹھے چراغ

٭٭٭






انسان جب حدوں سے گزرتا دکھائی دے

انسان جب حدوں سے گزرتا دکھائی دے

کیا نظم کائنات سنورتا دکھائی دے

چہرے سے آشکار نہ ہونے دے کرب دل

ہر آرزو کے ساتھ نہ مرتا دکھائی دے

جیسے شعاع مہر میں ذروں کا ارتعاش

شیرازۂ حیات بکھرتا د کھائی دے

پتھر کو کیا خبر کہ سحر کیا ہے شام کیا

انسان ہو تو وقت گزرتا دکھائی دے

ایسے میں کیا کرے ترا مختار کائنات ؟

جب آسماں زمیں پہ اترتا دکھا ئی دے

٭٭٭






موجوں کا سانس ہے لبِ دریا رکا ہوا

موجوں کا سانس ہے لبِ دریا رکا ہوا

شاید ابھر رہا ہے کوئی ڈوبتا ہوا

بیٹھا ہے عشق یوں سرِ منزل تھکا ہوا

رستے میں جیسے کوئی مسافر لٹا ہوا

کچھ دن سے رنگِ روئے جفا ہے اڑا ہوا

اے خونِ آرزو تری سرخی کو کیا ہوا

کیا منزلت ہے اپنی سرِ آستانِ دوست

جیسے ہو راہ میں کوئی پتھر پڑا ہوا

آنکھوں کا حال جیسے کنول ہوں بجھے ہوئے

دل کا یہ رنگ جیسے چمن ہو لٹا ہوا

کل تیری جستجو تھی مِرا مقصدِ حیات

پھرتا ہوں آج اپنا پتہ پوچھتا ہوا

میرا ہدف ہے کون مجھے خود پتہ نہیں

اِک تیر ہوں کمانِ ازل سے چلا ہوا

دل مرکزِ نگاہ تھا منزل تھی سامنے

بھٹکے وہیں دماغ جہاں رہنما ہوا

ان کا تو کیا شمار جو سجدے قضا ہوئے

بندے کو وہ بھی یاد نہیں جو ادا ہوا

٭٭٭






کون سے منظر کا پس منظر نہیں

کون سے منظر کا پس منظر نہیں

حسن جو باہر ہے وہ اندر نہیں

ہر مسافر کے لئے ہوں سنگِ مِیل

میں کسی کی راہ کا پتھر نہیں

شہر میں اب سنگ باری عام ہے

شکر ہے شیشے کا میرا گھر نہیں

اے زمیں، نوعِ بشر پر ناز کر

زندگی کیا آسمانوں پر نہیں

ہیں شعور و فکر صیدِ رنگ و بو

بال و پر ہیں اور بال و پر نہیں

دل میں جب چاہے چلا آئے کوئی

آئنہ ہے گنبدِ بے در نہیں

فاصلہ اچھا ہے لیکن اس قدر؟

تو کوئی آئنہ میں پتھر نہیں

بات کیا ہے دیدۂ انجم تراش

کہکشاں کیوں آج پلکوں پر نہیں

ي جانے کیوں بے موت مر جاتے ہیں لوگ

اس قدر بھی زندگی دوبھر نہیں

کوئی آفت، کوئی صدمہ ، کوئی غم

قوتِ برداشت سے باہر نہیں

اِس میں تو غرفے کھلے ہیں خلد کے

آخری گھر کا سنا تھا ، در نہیں

٭٭٭






درکار ہے دوا نہ دعا چاہئے مجھے

درکار ہے دوا نہ دعا چاہئے مجھے

آوازِ دردِ دل ہوں فضا چاہئے مجھے

یوں پاس آ کہ روح بھی تجھ کو نہ چھو سکے

تسکینِ اضطراب نما چاہئے مجھے

رنگِ چمن کے ساتھ اڑے کیوں مِرا خیال

پروازِ بوئے گل کی ادا چاہئے مجھے

میں ہوں شکستِ سازِ جفا کی صدا کا عکس

آئنۂ ثباتِ وفا چاہئے مجھے

سن اے نگارِ شوق وہ انداز ہو کہ ناز

ہر زاویے سے رنگِ حیا چاہئے مجھے

میری نظر میں ہے رخِ مقصودِ کائنات

مہر و مہ و نجوم سے کیا چاہئے مجھے

٭٭٭






باہر کا آدمی تو ہے پتھر کا آدمی

باہر کا آدمی تو ہے پتھر کا آدمی

پتھر نہ ہو خدا کرے اندر کا آدمی

صحرا کے باسیوں سے کہو جاگتے رہیں

شب خون مارتا ہے سمندر کا آدمی

رہزن تو لوٹتے ہیں مسافر کو راہ میں

اِس گھر کو لوٹتا ہے اِسی گھر کا آدمی

کب تک رہے گا چہرۂ قاتل نقاب میں

منظر میں آئے گا پسِ منظر کا آدمی

بل ڈالئے جبیں پہ نہ مہماں کو دیکھ کر

کھاتا ہے رزق اپنے مقدر کا آدمی

٭٭٭






یقیناً پسِ مرگ بھی زندگی ہے

یقیناً پسِ مرگ بھی زندگی ہے

مگر یہ نہیں اور ہی زندگی ہے

کلی کا تبسم نہ کیوں جانفزا ہو

تِرے لب کی بخشی ہوئی زندگی ہے

کنارے سے طوفاں کو نسبت بھی کوئی

اجل ہے اجل، زندگی زندگی ہے

یہ بے رنگ آنسو، یہ بے رنگ آہیں

یہی ہے تو کیا عشق کی زندگی ہے

فضائے گلستاں ہے "پروازِ دشمن"

نشیمن میں سمٹی ہوئی زندگی ہے

نظر لطف کی جب کبھی دل نے چاہی

وفا نے کہا بے رخی زندگی ہے

حزیں زندگی کیا ہے اس میں نہ الجھو

جو پیش آئے سمجھو یہی زندگی ہے

٭٭٭






جس گھر کی فضا ایک قبیلے کی طرح ہے

جس گھر کی فضا ایک قبیلے کی طرح ہے

وہ امن کے سر سبز جزیرے کی طرح ہے

شبنم کی طرح ہے کبھی شعلے کی طرح ہے

تو بھی کسی فنکار کے لہجے کی طرح ہے

میں آج یہ آئینے میں کیا دیکھ رہا ہوں

یہ عکس تو بالکل تِرے چہرے کی طرح ہے

اِک شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتےّ کی فضا کیا

صحرا میں بھٹکتے ہوئے پیاسے کی طرح ہے

دیکھا ہے اثر یورشِ طوفانِ بلا کا

اک موجِ سبک رو کے طمانچے کی طرح ہے

اڑتی ہوئی گلشن میں دکھائی نہیں دیتی

خوشبو کسی نادیدہ پرندے کی طرح ہے

پلکوں پہ اک آنسو ہے ابھی دل کی نشانی

وہ بھی کسی بجھتے ہوئے تارے کی طرح ہے

دم توڑتے لمحوں میں ترے آنے کا مژدہ

گرتی ہوئی دیوار کے سائے کی طرح ہے

جو سانس گزر جائے حزیں جان غنیمت

یہ دورِ زبوں ایک فتیلے کی طرح ہے

٭٭٭






ملتا ہے لاشعور سے جلوہ شعور کو

ملتا ہے لاشعور سے جلوہ شعور کو

منظر میں روشنی پسِ منظر سے آئی تھی

کون آبسا ہے پاس کے گھر میں کہ رات پھر

جھنکار چوڑیوں کی برابر سے آئی تھی

کل رات آسمان پہ کیا قتلِ عام تھا

چیخوں کی گونج چاند کے اندر سے آئی تھی

دریا کے راز لے کے جو کل ہو گئی فرار

وہ آبدوز کس کے سمندر سے آئی تھی

تھی اِک غریبِ شہر کی وہ خاک دوستو

لپٹی ہوئی جو دامنِ صرصر سے آئی تھی

٭٭٭






دشتِ امکاں طے کرے تنہا کوئی

دشتِ امکاں طے کرے تنہا کوئی

لاؤ میرے سامنے مجھ سا کوئی

جاں بلب ہے دشت میں پیاسا کوئی

مالکِ ابر و ہوا چھینٹا کوئی

جب ہٹی در سے نگاہِ منتظر

بن گیا دیوار پر چہرہ کوئی

دیکھتے کیا سانس لینا تھا محال

اس قدر نزدیک سے گزرا کوئی

خواب ہی میں خواب کی تعبیر تھی

بند آنکھوں سے نظر آیا کوئی

جب بھی میں اپنے تعاقب میں چلا

پیچھے پیچھے چل پڑا سایہ کوئی

ہوں گے کانٹے بھی ریاضِ دہر میں

میرے دامن سے نہیں الجھا کوئی

٭٭٭






اب دل میں صرف تیری تمنا ہے اور بس

اب دل میں صرف تیری تمنا ہے اور بس

اب درمیان اک یہی پردہ ہے اور بس

سچ پوچھئے تو قیمتِ بینائی کچھ نہیں

صرفِ جہانِ رنگ و تماشا ہے اور بس

دیکھے یہاں نہ کوئی کسی کو قریب سے

یہ رازِ دل فریبیِ دنیا ہے اور بس

میں اپنی زندگی سے یہیں تک ہوں روشناس

اک لمحہ تیرے ساتھ گزارا ہے اور بس

نادم ہے کیوں نگارِ سحر میرا کیا گیا

خوابوں کا سلسلہ ہی تو ٹوٹا ہے اور بس

٭٭٭






موت آئی تو یوں جوشِ مسرت میں اڑا ہوں

موت آئی تو یوں جوشِ مسرت میں اڑا ہوں

جیسے میں کسی قید سے آزاد ہوا ہوں

یہ جھوٹے نگینے ہیں مری نیند کی قیمت

بس دیدۂ بیدار بہت جاگ چکا ہوں

پامال نہ کر راہ کی تحریر سمجھ کر

پہچان مجھے تیرا ہی نقشِ کفِ پا ہوں

کچھ ربط نہیں جلوہ گہِ شمس و قمر سے

سائے کی طرح گوشۂ ویراں میں پڑا ہوں

ٹھہراؤ پہ آیا ہے مرے درد کا دریا

جب ابر کی مانند برس کر میں کھلا ہوں ٭٭٭






خود ہی دیارِ شب کو سجاتی ہے روشنی

خود ہی دیارِ شب کو سجاتی ہے روشنی

خود ہی تمام نقش مٹاتی ہے روشنی

ہے سطحِ آب جو پہ رواں عکسِ ماہِ نو

کشتی کی طرح تیرتی جاتی ہے روشنی

مہر و مہ و نجوم سے بالا ہے اک مقام

مجھ تک اسی مقام سے آتی ہے روشنی

ظلمت شکار ایسی کہ حدِّ نگاہ تک

کرنوں کا ایک جال بچھاتی ہے روشنی

دنیا کو خوابناک جزیرے میں چھوڑ کر

چپکے سے میرے دل میں در آتی ہے روشنی

دن بھر یہ کس کی آگ میں جلتا ہے آفتاب

ہر شام کس کے خوں سے نہاتی ہے روشنی

اک مہر بان ماں کی طرح روز رات بھر

خود جاگتی ہے مجھ کو سلاتی ہے روشنی

وہ چاندنی کا شہر ہو یا دھوپ کا نگر

پرچھائیوں کا رنگ جماتی ہے روشنی

یہ کیا مقام ہے کہ جدھر دیکھتا ہوں میں

میرا ہی عکس مجھ کو دکھاتی ہے روشنی

لہروں کی دھڑکنیں ہیں کٹورے حباب کے

پانی میں جلترنگ بجاتی ہے روشنی

٭٭٭






چراغِ شب ہے نہ سامانِ صبح تابی ہے

چراغِ شب ہے نہ سامانِ صبح تابی ہے

متاعِ دیدہ و دل کیفِ نیم خوابی ہے

نجانے آپ وہ مستِ شباب کیا ہوگا

کہ جس کے شہر کی آب و ہوا شرابی ہے

شکست و ریخت کا اول سے ہے عمل جاری

نہ جانے کیا مری تعمیر میں خرابی ہے

تری سمجھ میں کہاں آئیں گی مری باتیں

کہ تیرا علم لدنّی نہیں کتابی ہے

فصیلِ رنگ کی تسخیر ہو تو کیونکر ہو

صبا ہے ساتھ نہ خوشبو کی ہمرکابی ہے

گئی رتوں کے مناظر ہیں ذہن میں رقصاں

نگارِ فکر کا چہرہ ابھی گلابی ہے

حزیں ہم اپنے تخیّل کی لے نہ بدلیں گے

بلا سے وقت کا آہنگ انقلابی ہے

٭٭٭






وہ نہ آئے تو سحر کیوں آئے

وہ نہ آئے تو سحر کیوں آئے

میرا سایہ بھی نظر کیوں آئے

میں تو دریا ہوں ملوں خود جا کر

وہ سمندر ہے ادھر کیوں آئے

زندگی لائی مگر کیوں لائی

ہم یہاں آئے مگر کیوں آئے

میں ترا عکس ہوں اپنا تو نہیں

آئینہ پیشِ نظر کیوں آئے

پہنچے منزل پہ تو آئی آواز

اوڑھ کر گردِ سفر کیوں آئے

آئینہ ٹوٹ گیا ، ٹوٹ گیا

اب کوئی آئینہ گر کیوں آئے

مدتوں بعد ملا تھا وہ حزیں

اس سے کترا کے گزر کیوں آئے

٭٭٭






اب کھلا ہستی کا افسوں ہی فنا پرور بھی تھا

اب کھلا ہستی کا افسوں ہی فنا پرور بھی تھا

خواب ہی میں خواب کی تعبیر کا منظر بھی تھا

میں نے دیکھا ایک نظّارہ پسِ منظر بھی تھا

رنگ کے پردے میں خوشبو کا حسیں پیکر بھی تھا

جس نے تولا وقت کی میزان میں تولا مجھے

کوئی پوچھے میں حصارِ وقت کے اندر بھی تھا

وہ مری دیوانگی کی آخری تصویر تھی

آئینہ بھی روبرو تھا ہاتھ میں پتھر بھی تھا

رہ گئے محروم ، سائے اوڑھ کر جو سو گئے

خانقاہِ شب میں جاری نور کا لنگر بھی تھا

تو نے خود ہی کر دیا ساحل سے مجھ کو ہمکنار

میں تو اے دریا ترے طوفان کا خوگر بھی تھا

یاد سا آتا ہے گردوں پر چراغاں دیکھ کر

ایسی ہی روشن بلندی پر ہمارا گھر بھی تھا

لب سلے تھے آنسوؤں پر تو کوئی قدغن نہ تھی

عرضِ غم کے باب میں کچھ فرضِ چشمِ تر بھی تھا

٭٭٭






کیا ملا ذات سے جدا ہو کر

کیا ملا ذات سے جدا ہو کر

کھو گیا ہوں ترا پتہ ہو کر

قفسِ رنگ سے رہا ہو کر

رہ گئی بوئے گل ہوا ہو کر

نقشِ حیرت بنا دیا مجھ کو

ایک پتھر نے آئینہ ہو کر

آسماں تھا اور اب زمیں بھی نہیں

رہ گیا ہائے کیا سے کیا ہو کر

زندگی خواب ہے نہ افسانہ

یہ حقیقت کھلی فنا ہو کر

تیرگی سے لرز رہا ہے جنوں

مشعلِ جادۂ وفا ہو کر

پھر وہی شام سر پہ آ پہنچی

مطمئن تھا سحر نما ہو کر

٭٭٭






در وا ہوا نہ کوئی دریچہ کھلا کہیں

در وا ہوا نہ کوئی دریچہ کھلا کہیں

مایوس ہو کے رہ گئی میری صدا کہیں

کیونکر کسی کو چہرۂ خوشبو دکھائی دے

رنگوں کا ٹوٹتا ہی نہیں سلسلہ کہیں

لغزش کا ہر قدم پہ ہے امکاں سنبھل کے چل

زنجیر بن نہ جائے ترا نقشِ پا کہیں

دل جھومنے لگا ہے بگولوں کے رقص پر

راس آ نہ جائے دشت کی آب و ہوا کہیں

خورشیدِ پر جلال ہے یوں میرے ساتھ ساتھ

جیسے میں اپنے سائے میں چھپ جاؤں گا کہیں

گھبرا کے حبسِ شب سے ہوا کی دعا نہ مانگ

پھر شہر میں رہے گا نہ روشن دیا کہیں

مچلے ہزار دل میں تمنائے دل کہیں

ہوتی ہے اپنے پھول سے خوشبو جدا کہیں

٭٭٭






شہروں میں ایسے منظر بھی نظروں سے ٹکراتے ہیں

شہروں میں ایسے منظر بھی نظروں سے ٹکراتے ہیں

آنکھوں والے آتے جاتے اندھوں سے ٹکراتے ہیں

سورج تو پیاسا ہے ازل کا تاروں کو پی جاتا ہے

شبنم کے پاگل قطرے کیوں کرنوں سے ٹکراتے ہیں

تو نے یہ کیا قید لگا دی ، تیرے جیسے رنگ بھروں

کون سے میرے خاکے تیرے خاکوں سے ٹکراتے ہیں

ایک سحر کی آس میں دل کب سے انگارے پیتا ہے

ہر شب جانے کتنے سورج آنکھوں سے ٹکراتے ہیں

دہراتی ہے شب بیداری دن بھر کے سب ہنگامے

تنہائی کے سنّاٹے بھی کانوں سے ٹکراتے ہیں

وقت کے دریا کی موجوں میں روز تصادم ہوتا ہے

جاتے لمحے آنے والے لمحوں سے ٹکراتے ہیں

اب جو صبا آتی ہے چمن میں گل ہی اور کھلاتی ہے

سوکھے پتے اڑ کر ویراں شاخوں سے ٹکراتے ہیں

٭٭٭






پرکھا نہ تمام پتھروں کو

پرکھا نہ تمام پتھروں کو

چنتے رہے خام پتھروں کو

بخشا ہے نگاہِ جوہری نے

ہیرے کا مقام پتھروں کو

شیشے کا ہے کاروبار جن کا

کرتے ہیں سلام پتھروں کو

کھَلتا ہے مقامِ سنگِ اسود

سب آئینہ فام پتھروں کو

نسبت ہے بس ایک سنگِ در سے

پوجا نہیں عام پتھروں کو

آذر کا نشان تک نہیں ہے

حاصل ہے دوام پتھروں کو

معلوم تو ہو دلوں میں کیا ہے

دو اذنِ کلام پتھروں کو

وہ آنچ بھی دے کہ موم کر دوں

دنیا کے تمام پتھروں کو

٭٭٭






ایک اندازہ بلندی پہ لئے پھرتا ہے

پسِ آئینہ بھی میں ہوں کہیں ایسا تو نہیں ہے

یہ مرا وہم ہو شاید کبھی دیکھا تو نہیں

تیرے کس کام کا دھنکے ہوئے خوابوں کا غبار

سرمۂ زر تو نہیں حسن کا غازہ تو نہیں

جادۂ دل میں سرابوں کا گزر کیا معنیٰ

دشتِ پر خار سہی، ریت کا دریا تو نہیں

اپنا آئینہ بنا کر مجھے حیران کیا

آنکھ اٹھا کر مری جانب کبھی دیکھا تو نہیں

کبھی موتی بھی کوئی موج بہا لاتی ہے

کفِ دریا ہی متاعِ لبِ دریا تو نہیں

ایک اندازہ بلندی پہ لئے پھرتا ہے

ذہن میں جنتِ گم گشتہ کا نقشہ تو نہیں

گنگناتے ہوئے لمحے بھی یقیناً ہوں گے

زندگی ایک شب و روز کا نوحہ تو نہیں

صبح ہوتی ہے نمودار کہاں سے جانے

گنبدِ شب میں کہیں کوئی دریچہ تو نہیں

عکس ہے اپنے خیالوں کا مرے خوابوں میں

کچھ ترے آئنہ خانے سے چرایا تو نہیں

میری آواز بنا کر نہ پکارو خود کو

خود فریبی ہے جدائی کا مداوا تو نہیں

خیر خاموشیِ پیہم کا گنہ گار سہی

کم سے کم مجرمِ اظہارِ تمنا تو نہیں

آئنے میں بھی ترا عکس نظر آتا ہے

حیرتِ چشمِ تماشا ہوں تماشا تو نہیں

پھول ہی گریۂ شبنم پہ ہنسا کرتے ہیں

میرے اشکوں پہ تبسم ترا بے جا تو نہیں

ہو گئی تیز ستاروں کے دھڑکنے کی صدا

شبِ مہتاب کا یہ آخری لمحہ تو نہیں

کیا عجب اپنی شبِ غم بھی گزر جائے حزیں

وقت کہتے ہیں کسی کے لئے رکتا تو نہیں

٭٭٭






با وصفِ مہر و ماہ اجالا ہے خال خال

با وصفِ مہر و ماہ اجالا ہے خال خال

اپنا تمام عکس رخِ زندگی پہ ڈال

دو گام ہی چلے تھے سرِ جادۂ جمال

گھبرا کے زندگی نے پکارا مجھے سنبھال

سب مرحلے تمام ہوئے حال ہے نہ قال

اب عشقِ لازوال ہے اور حسنِ بے مثال

تہذیبِ آرزو کی جھلک ہے کہیں کہیں

تقدیسِ جستجو کا تصور ہے خال خال

کب سے حصارِ دشتِ فنا میں اسیر ہوں

اے روحِ کائنات یہاں سے مجھے نکال

کانٹوں میں پھول تلتے رہیں گے حزیں یہاں

دامن سمیٹ ایسے گلستاں پہ خاک ڈال

٭٭٭






بجھ بجھ کے دائرے سے بناتے رہے چراغ

بجھ بجھ کے دائرے سے بناتے رہے چراغ

آخر اسی حصار میں گم ہو گئے چراغ

جس گھر سے تو خفا ہو وہاں روشنی کہاں

کب سے بجھے پڑے ہیں شب و روز کے چراغ

یاروں کی انجمن میں یہ کیسی ہوا چلی

اک دوسرے کی لوَ پہ لپکنے لگے چراغ

شاید بہار نام ہے اک جشنِ رنگ کا

آنچل اڑے ، گلاب کھِلے، ہنس پڑے چراغ

جب آگیا خیال کسی مہ جمال کا

آنکھوں کی چلمنوں سے جھلکنے لگے چراغ

یہ کیا ہوا فضا کو، وہ نغمے نہ روشنی

کس نے بجھا دیئے تری آواز کے چراغ

سمجھے تھے جن کو پھول وہ شاخوں کے زخم تھے

شبنم کے اشک تھے جو دکھائی دیئے چراغ

خونِ دل و جگر سے چراغاں تو کر لیا

ہر چند چشمِ تر کو یہ مہنگے پڑے چراغ

منزل کے قمقموں کی صدا سن رہا ہوں میں

لیکن یہ ٹمٹماتے ہوئے راہ کے چراغ؟

ہر چند اپنی ذات میں اک انجمن ہوں میں

لیکن مثالِ قریۂ ویراں ہوں بے چراغ

بے سوزِ دل تجلّیِ تکمیلِ فن کہاں

ذہنِ رسا ہزار جلاتا رہے چراغ

یارانِ کم سواد کو ہر راہ سے گلہ !

ہم تو حزیں جہاں بھی گئے جل اٹھے چراغ

٭٭٭






با وصفِ مہر و ماہ اجالا ہے خال خال

با وصفِ مہر و ماہ اجالا ہے خال خال

اپنا تمام عکس رخِ زندگی پہ ڈال

دو گام ہی چلے تھے سرِ جادۂ جمال

گھبرا کے زندگی نے پکارا مجھے سنبھال

سب مرحلے تمام ہوئے حال ہے نہ قال

اب عشقِ لازوال ہے اور حسنِ بے مثال

تہذیبِ آرزو کی جھلک ہے کہیں کہیں

تقدیسِ جستجو کا تصور ہے خال خال

کب سے حصارِ دشتِ فنا میں اسیر ہوں

اے روحِ کائنات یہاں سے مجھے نکال

کانٹوں میں پھول تلتے رہیں گے حزیں یہاں

دامن سمیٹ ایسے گلستاں پہ خاک ڈال

٭٭٭






پرکھا نہ تمام پتھروں کو

پرکھا نہ تمام پتھروں کو

چنتے رہے خام پتھروں کو

بخشا ہے نگاہِ جوہری نے

ہیرے کا مقام پتھروں کو

شیشے کا ہے کاروبار جن کا

کرتے ہیں سلام پتھروں کو

کھَلتا ہے مقامِ سنگِ اسود

سب آئینہ فام پتھروں کو

نسبت ہے بس ایک سنگِ در سے

پوجا نہیں عام پتھروں کو

آذر کا نشان تک نہیں ہے

حاصل ہے دوام پتھروں کو

معلوم تو ہو دلوں میں کیا ہے

دو اذنِ کلام پتھروں کو

وہ آنچ بھی دے کہ موم کر دوں

دنیا کے تمام پتھروں کو

٭٭٭






کتنے باطل کے پرستار ہیں ، حق پر کتنے

کتنے باطل کے پرستار ہیں ، حق پر کتنے

بات اتنی تھی کہ برپا ہوئے محشر کتنے

یہ تو ہم ہیں نہ سلگتے نہ دھواں دیتے ہیں

ہو گئے خاک تری آگ میں جل کر کتنے

پہلو پہلو سے پرکھ لیجئے کھل جائے گا

کون آئینہ ہے اور کس میں ہیں جوہر کتنے

جس کو مقدورِ چراغاں ہے اسے کیا معلوم

اک دئے کو بھی ترستے ہیں یہاں گھر کتنے

جھانک ماضی کے دریچے سے کہ تجھ پر وا ہو

تو نے تعمیر کئے گنبدِ بے در کتنے

سیپیاں تیرتی پھرتی ہیں کنارے پہ بہت

ہاتھ آئے کسی غوّاص کے گوہر کتنے

بحر کی موجِ غلط بخش پہ مغرور نہ ہو

ڈوبتے دیکھے ہیں ساحل پہ شناور کتنے

زندگی جاگتے خوابوں کے سہارے گزری

اس کے با وصف کہ تھے ذات میں جوہر کتنے

ہاتھ ٹوٹیں جو کبھی پھول کوئی توڑا ہو

پھر بھی الزامِ چمن آئے مرے سر کتنے

گِن لئے آپ نے گردوں کے ستارے تسلیم

یہ تو فرمائیے ذرّے ہیں زمیں پر کتنے

ایک لمحے میں گزر جاتی ہیں صدیاں کتنی

ایک لحظے میں بدل جاتے ہیں منظر کتنے

جذب ہو جائیں گے اِس خاک میں اک دن ہم بھی

پی گئی ہے یہ زمیں یونہی سمندر کتنے

٭٭٭






جس طرف جائیے گرتی ہوئی دیوار ملے

جس طرف جائیے گرتی ہوئی دیوار ملے

اس خرابے کو الٰہی کوئی معمار ملے

اہلِ دل حق سے بغاوت تو نہیں کر سکتے

جانے کیا جرم تھا ان کا جو سرِ دار ملے

میں ترے سوزِ محبت کا امیں ہوں ورنہ

کتنے سورج مرے اشکوں کے خریدار ملے

نیند آتی ہے کہاں زیست کے ہنگاموں کو

حادثے خواب کے عالم میں بھی بیدار ملے

میں ہوں پتھر تو کسی راہ کا پتھر نہ بنا

آئینہ ہوں تو مجھے آئنہ بردار ملے

وہم کے نقش تھے یا ذوقِ نظر کے شہکار

کچھ خد و خال سرِ پردۂ دیوار ملے

تھے وہ مہتاب کے آنسو کہ سحر کی کرنیں

کچھ رگِ جاں میں اترتے ہوئے انوار ملے

کاش آ جائے مری سمت بھی اُس کا جھونکا

وہ ہَوا جس کو تری سانس کی مہکار ملے

شکریہ اے غمِ دل تیری بدولت ہی سہی

رات جاگے تو نئی صبح کے آثار ملے

تیرے آنگن کی ہَوا سے یہ توقع تو نہ تھی

ہر گلی میں تری پازیب کی جھنکار ملے

رات احساس کے در پر کوئی دستک نہ ہوئی

دل کی دہلیز پہ بکھرے ہوئے کچھ ہار ملے

پسِ خاموشی، دریا کئی طوفاں ہیں بپا

کیا عجب ہے جو ہمیں بھی لبِ گفتار ملے

کل تھا وہ رنگِ بہاراں کہ نظر جل اٹھی

شاخ در شاخ دہکتے رخسار ملے

جب بھی احساس کے زینے سے گزرنا چاہوں

کوئی وجدان کے جلووں کا نگہدار ملے

اے حزیں شہرِ نگاراں میں گئے تھے ہم بھی

بیشتر سنگ ملے آئنے دو چار ملے

٭٭٭






وہ صبح کا آہنگ نہ وہ شام کی آواز

وہ صبح کا آہنگ نہ وہ شام کی آواز

کچھ دن سے ہے کچھ اور در و بام کی آواز

کس کام کی سازِ دلِ ناکام کی آواز

جب تک نہ بنے دوست کے پیغام کی آواز

ہے سرخیِ گلبانگِ سحر، خونِ تمناّ

موجِ طرب آہنگ ہے آلام کی آواز

اب شب کو ابھرتے نہیں دیوار پہ چہرے

اب دل کو ڈراتی نہیں اوہام کی آواز

کرتی ہے سماعت کی لطافت کا جگر چاک،

سازوں پہ تھرکتے ہوئے اجسام کی آواز

ہے نغمہ سرا، سازِ رگِ جاں پہ تری یاد

یا دل کے تراشے ہوئے اصنام کی آواز

ہم بنتے رہے سنگِ ملامت کا نشانہ

احباب اٹھاتے رہے الزام کی آواز

آغاز کی آواز تھی جاں بخش و فضا تاب

اک شور قیامت کا ہے انجام کی آواز

کانوں سے گزرتی ہے اترتی ہے دلوں میں

جب دل سے ابھرتی ہے ترے نام کی آواز

کام آئے گی تنہائی کی خاموش فضا میں

سن جاؤ شکستِ دلِ ناکام کی آواز

٭٭٭






پردہ بہ پردہ جلوہ بہ جلوہ جانِ حیا کی بات چلی

پردہ بہ پردہ جلوہ بہ جلوہ جانِ حیا کی بات چلی

خلوتِ دل سے بزمِ نظر تک ایک فضا کی بات چلی

دونوں طرف سے اپنے اپنے حسن و ادا کی بات چلی

ہم سے وفا نام چلا ہے تم سے جفا کی بات چلی

رنگ فشاں ہے بات وہ دل کی آج بھی جس کے پردے میں

سرخیِ لب کی، غازۂ رخ کی ، رنگِ حنا کی بات چلی

بھول گئے پیمانِ وفا ہم آپ کا یہ الزام بجا

لیکن پہلے کس کی طرف سے ترکِ وفا کی بات چلی

دونوں میں کچھ ربط نہیں ہے لیکن اس کو کیا کہئے

رہزن ہی کے ساتھ چلی جب راہ نما کی بات چلی

سینے میں پتھر تو نہیں تھا ، دل تھا آخر ٹوٹ گیا

ہم نے چلائی جب تک ہم سے ضبطِ جفا کی بات چلی

آج جسے گلبانگِ سحر کا نام دیا ہے دنیا نے

سچ تو یہ ہے آواز وہی تھی جس سے فضا کی بات چلی

شب بھر شبنم نے رو رو کر گلشن کو شاداب کیا

صبح ہوئی تو خندۂ گل کی بادِ صبا کی بات چلی

٭٭٭






اس وہم کا شکار کئی آئینے ہوئے

اس وہم کا شکار کئی آئینے ہوئے

ڈرتا ہوں اپنے آپ کو پہچانتے ہوئے

بنجر زمیں کو بارشِ رحمت کا آسرا

سرسبز وادیوں پہ ہیں بادل جھکے ہوئے

چہروں کی آب و تاب پہ بھرپور طنز ہیں

شیشوں میں رنگ رنگ کے پتھر سجے ہوئے

منزل کے سنگِ میل سمجھتے ہیں راہرو

اس فصل سے ہیں راہ میں کتبے لگے ہوئے

اے حسنِ دوست آج تو آئینہ دیکھ لوں

اک عمر ہو گئی مجھے خود سے ملے ہوئے

٭٭٭

ٹائپنگ اور ترتیب: مہ جبین، محمد امین ( ارکان اردو محفل)

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔