02:39    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ رباعیات اسمٰعیل میرٹھی

1141 0 0 00




استقلال

تیزی نہیں منجملہ اوصاف کمال

کچھ عیب نہیں اگر چلو دھیمی چال

خرگوش سے لے گیا ہے کچھوا بازی

ہاں راہ طلب میں شرط ہے استقلال






دین و دنیا

دین اور دنیا کا تفرقہ ہے مہمل

نیت ہی پہ موقوف ہے تنقیح عمل

دنیاداری بھی عین دیں داری ہے

مرکوز ہو گر رضائے حق عز و جل






حب دنیا نشان خامی ہے

یہ قول کسی بزرگ کا سچا ہے

ڈالی سے جدا نہ ہو تو پھل کچا ہے

چھوڑی نہیں جس نے جب دنیا دل سے

گو ریش سفید ہو مگر بچا ہے






اسلاف پر فخر بیجا

اسلاف کا حصہ تھا اگر نام و نمود

پڑھتے پھرو اب ان کے مزاروں پہ درود

کچھ ہاتھ میں نقد رائج الوقت بھی ہے

یا اتنی ہی پونجی، پدرم سلطاں بود






بدنام کنندہ نکو نامے چند

جو صاحب مکرمت تھے اور دانش مند

وہ لوگ تو ہو گئے زمیں کے پیوند

پوچھو نہ انہیں جو رہ گئے ہیں باقی

بدنام کنندہ نکونامے چند






دنیا پرست دیندار

دنیا کے لئے ہیں سب ہمارے دھندے

ظاہر طاہر ہیں اور باطن گندے

ہیں صرف زبان سے خدا کے قائل

دل کی پوچھو تو خواہشوں کے بندے






جھوٹی نفرت

لاکھوں چیزیں بنا کے بھیجیں انگریز

سب کرتے ہیں دندان ہوس ان پر تیز

چڑتے ہیں مگر علوم انگریزی سے

گڑ کھاتے ہیں اور گلگوں سے پرہیز






ہر کام کا نتیجہ اپنے لئے ہے

گَر نیک دلی سے کچھ بھلائی کی ہے

یا بد منشی سے کچھ برائی کی ہے

اپنے ہی لئے ہے سب نہ اوروں کے لئے

اپنے ہاتھوں نے جو کمائی کی ہے






وقت رائیگاں نہیں کرنا چاہیے

بے کار نہ وقت کو گزارو یارو

یوں سست پڑے پڑے نہ ہمت ہارو

برسات کی فصل میں ہے ورزش لازم

کچھ بھی نہ کرو تو مکھیاں ہی مارو






اتفاق میں کامیابی ہے اور نا اتفاقی میں تباہی

جب تک کہ سبق ملاپ کا یاد رہا

بستی میں ہر ایک شخص دل شاد رہا

جب رشک و حسد نے پھوٹ ان میں ڈالی

دونوں میں سے ایک بھی نہ آباد رہا






اسراف باعث بربادی ہے

اسراف سے احتراز اگر فرماتے

کیوں گردش ایام سیلی کھاتے

انگشت نما تھی کج کلاہی جن کی

وہ پھرتے ہیں آج جوتیاں چٹخاتے






مراسم میں فضولی

اب قوم کی جو رسم ہے سو اوٗل جلول

فاسد ہوئے قاعدے تو بگڑے معمول

ہے عید مہذب، نہ محرم معقول

ہنسنا محمود ہے نہ رونا مقبول






اصلاح قوم دشوار ہے

پانی میں ہے آگ کا لگانا دشوار

بہتے دریا کو پھیر لانا دشوار

دشوار سہی، مگر نہ اتنا جتنا

بگڑی ہوئی قوم کو بنانا دشوار






مسلمانوں کی تعلیم

قلاش ہے قوم تو پڑھے گی کیوں کر

پس ماندہ ہے اب تو پھر بڑھے گی کیوں کر

بچوں کے لئے نہیں ہے اسکول کی فیس

یہ بیل کہو منڈھے چڑھے گی کیوں کر






اپنا عیب نظر نہیں آتا

احوال سے کہا کسی نے اے نیک شعار

تو ایک کو دو دیکھ رہا ہے ناچار

بولا کہ اگر عیب یہ ہوتا مجھ میں

دو چاند جو ہیں، صاف نظر آتے چار






جہد طلب

انسان کو چاہیے نہ ہمت ہارے

میدان طلب میں ہاتھ بڑھ کر مارے

جو علم و ہنر میں لے گئے ہیں بازی

ہر کام میں ہیں انہیں کے وارے نیارے






مشکلات جرأت کی محرک ہوتی ہیں

جس درجہ ہو مشکلات کی طغیانی

ہو اہل ہمم کو اور بھی آسانی

تیراک اپنا ہنر دکھاتا ہے خوب

ہوتا ہے جب اس کے سر سے اونچا پانی






ہمت

تاریک ہے رات اور دریا زخار

طوفان بپا ہے اور کشتی بے کار

گھبرائیو مت کہ ہے مددگار خدا

ہمت ہے تو جا لگاؤ کھیوا اس پار






نیچر انسان کی محکوم ہے

فطرت کے مطابق اگر انساں لے کام

حیوان تو حیوان، جمادات ہوں رام

مٹی، پانی، ہوا، حرارت، بجلی

دانشمندوں کے ہیں مطبع احکام






مرد خدا کی صحبت بڑی نعمت ہے

دنیا کو نہ تو قبلہ حاجات سمجھ

جز ذکر خدا سب کو خرافات سمجھ

اک لمحہ کسی مرد خدا کی صحبت

آ جائے میسر تو بڑی بات سمجھ






نفس دنی سے بچو

دنیا کا نہ کھا فریب ویران ہے یہ

راحت سے نہ دل لگا کہ مہماں ہے یہ

بچ نفس دنی سے ہے بڑا ہی کافر

کر روح کی پرورش مسلماں ہے یہ






روح پابند تعین ہے

گر روح نہ پابند تعین ہوتی

یوں درد فراق سے نہ ہر دم روتی

جب تک کہ ہے درمیاں صدف کا پردہ

دریا میں بھی دریا سے جدا ہے موتی






مقصود عالم انسان ہے

یہ مسئلہ دقیق سنئے ہم سے

آدم ہے مراد ہستی عالم سے

ہم اصل ہیں اور یہ ہمارا سایہ

عالم کا وجود ہے ہمارے دم سے






انسان مظہر الٰہی ہے

کرتا ہوں سدا میں اپنی شانیں تبدیل

طوفان میں تھا نوح تو آتش میں خلیل

فی الحال ہوں ظاہر میں اگر اسمعیل

ہوں عالم باطن میں وہی رب جلیل






تحقیق حق

واحد متکلم کا ہوا جو منکر

وہ صرف کی اصطلاح میں ہے کافر

کی ہے تحقیق صرفیان حق نے

حاضر غائب ہے اور غائب حاضر






خدا پر سب کا بھروسہ ہے

اے بار خدا کہ عالم آرا تو ہے

دانائے نہان و آشکارا تو ہے

ہے شخص کو ہے تیرے کرم کی امید

ہر قوم کا آسرا سہارا تو ہے






طلب

گر جورو جفا کرے تو انعام سمجھ

جس کام سے وہ خوش ہو اسے کام سمجھ

گر کفر کی راہ سے رسائی ہو وہاں

اس کفر کو تو جادہ اسلام سمجھ






ذات واحد

خاک نمناک اور تابندہ نجوم

ہیں ایک ہی قانون کے یکسر محکوم

یکسانی قانون کہے دیتی ہے

لاریب کہ ہے ایک ہی رب قیوم






توحید

چکھی بھی ہے تو نے درد جام توحید

یا سن ہی لیا ہے صرف نام توحید

ہے کفر حقیقی کا نتیجہ ایماں

ترک توحید ہے مقام توحید






نقش بر آب

انکار نہ اقرار نہ تصدیق نہ ایجاب

اعمال نہ افعال نہ سنت نہ کتاب

خود ہے نہ خدا ہے نہ خودی ہے نہ خدائی

توحید کے دریا میں ہیں سب نقش بر آب






ترک خودی

برہان و دلیل عین گمراہی ہے

نفی و اثبات محض جاں کا ہی ہے

اس راہ میں عبارت و اشارت ہے گم

یاں ترک خودی اصول آگاہی ہے






ترک ذکر و فکر

ہوتی نہیں فکر سے کوئی افزائش

چپکے رہنے میں ہے بڑی آسائش

کہنا سننا تو ہے نہایت آساں

کہنے سننے کی ہو اگر گنجائش






علم حجاب الاکبر ہے

معلوم کا نام ہے نشاں ہے نہ اثر

گنجائش علم ہے بیاں ہے نہ خبر

علم اور معلوم میں دوئی کی بو ہے

اس واسطے علم ہے حجاب الاکبر






تنزیہہ

مقصود ہے قید جستجو سے باہر

وہ گل ہے دلیل رنگ و بو سے باہر

اندر باہر کا سب تعین ہے غلط

مطلب ہے کلام و گفتگو سے باہر






نام و نشان

کہتے ہیں سبھی مدام اللہ اللہ

کرتے ہیں برائے نام اللہ اللہ

یہ نام و نشاں بھی نقاب رخ ہیں

کیا خوب ہے انتظام اللہ اللہ






ہستی واحد ہے

یا عالم خواب میں ہیں یا ہم ہیں خواب

ہو خود سائل ہیں خود سوال اور جواب

آئی نہیں کوئی شے کہیں باہر سے

ہم خود ہیں مسبب اور خود ہیں اسباب






مظاہر

مجموعہ خار و گل ہے زیب گلزار

نیکی و بدی ہے جلوہ گاہ اظہار

ہے مخمصہ اختیار حق و باطل

ہے وسوسہ اعتبار یارو اغیار






عجز ادراک

ہر خواہش و عرض و التجا ست توبہ

ہر فکر سے ذکر سے دعا سے توبہ

از بس کہ محال ہے سمجھنا اس کا

جو آئے سمجھ میں اس خدا سے توبہ






اعتراف عجز

عاجز ہے خیال اور تفکر حیراں

بے سود یقیں ہے اور بے ہودہ گماں

کھلتا نہیں عقدہ کھولنے سے کوئی

بنتی نہیں کچھ بات بنائے سے یہاں






ترک فضولی

دیکھا تو کہیں نظر نہ آیا ہر گز

ڈھونڈھا تو کہیں پتا نہ پایا ہر گز

کھونا پانا ہے بے فضولی اپنی

یہ خبط نہ ہو مجھے خدا یا ہر گز






فاعل حقیقی حق ہے

شیطان کرتا ہے کب کسی کو گمراہ

اس راز سے ہے خدائے غالب آگاہ

ہے گام کسی کا اور کسی پر الزام

لا حول ولا قوۃ الا باللہ






ذات کو تغیر نہیں

پر شور الست کی ندا ہے اب بھی

جو تھی وہی آن اور ادا ہے اب بھی

ہوتی نہیں سنت الٰہی تبدیل

جس شان میں ہے وہی خدا ہے اب بھی






وجود و عدم

کہتے ہی جو اہل عقل ہیں دور اندیش

مخلوق کو ہے عدم کا رستہ درپیش

مخلوق بھال عدم سے نکلی کب تھی

موجود تو ہے وہی جو کم ہونے بیش






تجلیات حجاب ہیں

احفا لے لئے ہیں اس قدر جوش و خروش

یاں ہوش کا مقتضا ہے بننا مدہوش

حسن ازلی تو ہے ازل سے ظاہر

یعنی ہے تجلیوں میں اپنی رو پوش






جادۂ توحید

ٍتوحید کی راہ میں ہے ویزانہ سخت

آزادی و بے تعلقی ہے یک لخت

دنیا ہے نہ دین ہے نہ دوزخ و بہشت

تکیہ نہ سرائے ہے نہ چشمہ نہ درخت






مشاہدہ

اے بار خدا یہ شور و غوغا کیا ہے ؟

کیا چیز طلب ہے اور تمنا کیا ہے ؟

ہے کم نظری سے اشتیاق دیدار

جو کچھ ہے نظر میں یہ تماشا کیا ہے ؟






کسی خاص کیف کی پابندی غلط ہے

افسردگی اور گرم جوشی بھی غلط

گم گشتگی اور خود فروشی بھی غلط

کچھ کہئے اگر تو گفتگو ہے بیجا

چپ رہئے اگر تو ہے خموشی بھی غلط؟






شہود حق میں غیر معدوم

الحق کہ نہیں ہے غیر ہر گز موجود

جب تک کہ ہے وہم حق ہے مفقود

حق یہ ہے کہ وہم کا بھی ہونا حق ہے

حق ہے تو ہر اک طرح سے حق ہے مشہود






فقر

کیفیت و ذوق اور ذکر و اور اد

دین و اسلام اور کفرو الحاد

ہر رنگ ہے محو ہر تعلق برباد

ہے فقر تمام علتوں سے آزار






وحدت

نقاش سے ممکن ہے کہ ہو نقش خلاف

ہیں نقش میں جلوہ گر اسی کے اوصاف

ہر شے میں عیاں ہے آفتاب وحدت

گر وہم دوئی نہ ہو تو ہے مطلع صاف






غفلت

اک عالم خواب خلق پر طاری ہے

یہ خواب میں کارخانہ سب جاری ہے

یہ خواب نہیں یہی سمجھنا ہے خواب

گر خواب کا علم ہے تو بیداری ہے






راہ خدا کی انتہا نہیں

جو تیز قدم تھے وہ گئے دور نکل

دیکھے بھالے بہت مقامات و محل

اس راہ کا پر کہیں نہ پایا انجام

یعنی ہے وہی ہنوز روز اول






مظہر

بدلا نہیں کوئی بھیس ناچاری سے

ہر رنگ ہے اختیار سرکاری سے

بندہ شاہد ہے اور طاعت زیور

یہ سانگ بھرا گیا ہے عیاری سے






کثرت لازم وحدت ہے

ہے عشق سے حسن کی صفائی ظاہر

رندی سے ہوئی ہے پارسائی ظاہر

وحدت کا ثبوت ہے ظہور کثرت

بندہ ہی کے دم سے ہے خدائی ظاہر






طلب بے نشانی

یارب کوئی نقش مدعا بھی نہ رہے

اور دل میں خیال ماسوا بھی نہ رہے

رہ جائے تو صرف بے نشانی باقی

جو وہم میں ہے سو وہ خدا بھی نہ رہے






کید عظیم

با ایں ہمہ سادگی ہے پرکاری بھی

شوخی بھی ہے اس میں اور عیاری بھی

چھپ چھپ کے ہے تاک جھانک اپنی کرتا

اس سے کوئی سیکھ جائے مکاری بھی






تصوف

ساقہ وہی میکش وہی مینا بھی وہی

گویا وہی شنوا وہی جینا بھی وہی

آدم وہی بندہ مولا بھی وہی

ہے بھی وہی تھا بھی وہی ہو گا بھی وہی






لا موجود الا اللہ

ساقی و شراب و جام و پیمانہ کیا؟

شمع و گل و عندلیب و پروانہ کیا؟

نیک و بد و خانقاہ و مے خانہ کیا؟

ہے راہ یگانگی میں بیگانہ کیا؟






غیر حق نہیں

حق ہے تو کہاں ہے پھر مجال باطل

حق ہے تو عبث ہے احتمال باطل

نا حق نہیں کوئی چیز راہ حق میں

باطل کا خیال ہے خیال باطل






غیر حق نہیں

جو چاہیئے وہ تو ہے ازل سے موجود

حاصل ہے مراد اور میہا مقصود

کیا بات ہے اہتمام جہد و طاعات

کیا چیز ہے امتیاز عبد و عبود






ذات باری منزہ ہے

تقریر سے وہ فزوں بیاں سے باہر

ادراک سے وہ بری گماں سے باہر

اندر باہر ہے وہ نہ پیدا پنہاں

سرحد مکان و لامکان سے باہر






عبودیت حجاب ربوبیت

ڈھونڈا کرے کوئی لاکھ کیا ملتا ہے ؟

دن کا کہیں رات کا پتہ ملتا ہے ؟

جب تک کہ ہے بندگی خدائی کا حجاب

بندہ کو بھلا کہیں خدا ملتا ہے ؟






تعین

آیا ہوں میں جانب عدم ہستی سے

پیدا ہے بلند پائیگی پستی سے

عجز اپنا بزور کر رہا ہوں ثابت

مجبور ہوا ہوں میں زبردستی سے






آزادگی

کافر کو ہے بندگی بتوں کی غم خوار

مومن کے لئے بھی ہے خدائے غفار

سب سہل ہے یہ ولیک ہونا دشوار

آزاد ہو بے نیاز ہو بیکس و بے کار






بے نشانی

بندہ ہوں تو ایک خدا بناؤں اپنا

خالق ہوں تو ایک جہاں دکھاؤں اپنا

ہے بندگی وہم اور خدائی پندار

میں وہ ہوں کہ خود پتہ نہ پاؤں اپنا






قرب

مکشوف ہوا کہ دید حیرانی ہے

معلوم ہوا کہ علم نادانی ہے

ڈالا ہے تلاش قرب نے دوری میں

مشکل ہے یہی بڑی کہ آسانی ہے

٭٭٭

ماخذ:

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔