تیزی نہیں منجملہ اوصاف کمال
کچھ عیب نہیں اگر چلو دھیمی چال
خرگوش سے لے گیا ہے کچھوا بازی
ہاں راہ طلب میں شرط ہے استقلال
دین اور دنیا کا تفرقہ ہے مہمل
نیت ہی پہ موقوف ہے تنقیح عمل
دنیاداری بھی عین دیں داری ہے
مرکوز ہو گر رضائے حق عز و جل
یہ قول کسی بزرگ کا سچا ہے
ڈالی سے جدا نہ ہو تو پھل کچا ہے
چھوڑی نہیں جس نے جب دنیا دل سے
گو ریش سفید ہو مگر بچا ہے
اسلاف کا حصہ تھا اگر نام و نمود
پڑھتے پھرو اب ان کے مزاروں پہ درود
کچھ ہاتھ میں نقد رائج الوقت بھی ہے
یا اتنی ہی پونجی، پدرم سلطاں بود
جو صاحب مکرمت تھے اور دانش مند
وہ لوگ تو ہو گئے زمیں کے پیوند
پوچھو نہ انہیں جو رہ گئے ہیں باقی
بدنام کنندہ نکونامے چند
دنیا کے لئے ہیں سب ہمارے دھندے
ظاہر طاہر ہیں اور باطن گندے
ہیں صرف زبان سے خدا کے قائل
دل کی پوچھو تو خواہشوں کے بندے
لاکھوں چیزیں بنا کے بھیجیں انگریز
سب کرتے ہیں دندان ہوس ان پر تیز
چڑتے ہیں مگر علوم انگریزی سے
گڑ کھاتے ہیں اور گلگوں سے پرہیز
گَر نیک دلی سے کچھ بھلائی کی ہے
یا بد منشی سے کچھ برائی کی ہے
اپنے ہی لئے ہے سب نہ اوروں کے لئے
اپنے ہاتھوں نے جو کمائی کی ہے
بے کار نہ وقت کو گزارو یارو
یوں سست پڑے پڑے نہ ہمت ہارو
برسات کی فصل میں ہے ورزش لازم
کچھ بھی نہ کرو تو مکھیاں ہی مارو
جب تک کہ سبق ملاپ کا یاد رہا
بستی میں ہر ایک شخص دل شاد رہا
جب رشک و حسد نے پھوٹ ان میں ڈالی
دونوں میں سے ایک بھی نہ آباد رہا
اسراف سے احتراز اگر فرماتے
کیوں گردش ایام سیلی کھاتے
انگشت نما تھی کج کلاہی جن کی
وہ پھرتے ہیں آج جوتیاں چٹخاتے
اب قوم کی جو رسم ہے سو اوٗل جلول
فاسد ہوئے قاعدے تو بگڑے معمول
ہے عید مہذب، نہ محرم معقول
ہنسنا محمود ہے نہ رونا مقبول
پانی میں ہے آگ کا لگانا دشوار
بہتے دریا کو پھیر لانا دشوار
دشوار سہی، مگر نہ اتنا جتنا
بگڑی ہوئی قوم کو بنانا دشوار
قلاش ہے قوم تو پڑھے گی کیوں کر
پس ماندہ ہے اب تو پھر بڑھے گی کیوں کر
بچوں کے لئے نہیں ہے اسکول کی فیس
یہ بیل کہو منڈھے چڑھے گی کیوں کر
احوال سے کہا کسی نے اے نیک شعار
تو ایک کو دو دیکھ رہا ہے ناچار
بولا کہ اگر عیب یہ ہوتا مجھ میں
دو چاند جو ہیں، صاف نظر آتے چار
انسان کو چاہیے نہ ہمت ہارے
میدان طلب میں ہاتھ بڑھ کر مارے
جو علم و ہنر میں لے گئے ہیں بازی
ہر کام میں ہیں انہیں کے وارے نیارے
جس درجہ ہو مشکلات کی طغیانی
ہو اہل ہمم کو اور بھی آسانی
تیراک اپنا ہنر دکھاتا ہے خوب
ہوتا ہے جب اس کے سر سے اونچا پانی
تاریک ہے رات اور دریا زخار
طوفان بپا ہے اور کشتی بے کار
گھبرائیو مت کہ ہے مددگار خدا
ہمت ہے تو جا لگاؤ کھیوا اس پار
فطرت کے مطابق اگر انساں لے کام
حیوان تو حیوان، جمادات ہوں رام
مٹی، پانی، ہوا، حرارت، بجلی
دانشمندوں کے ہیں مطبع احکام
دنیا کو نہ تو قبلہ حاجات سمجھ
جز ذکر خدا سب کو خرافات سمجھ
اک لمحہ کسی مرد خدا کی صحبت
آ جائے میسر تو بڑی بات سمجھ
دنیا کا نہ کھا فریب ویران ہے یہ
راحت سے نہ دل لگا کہ مہماں ہے یہ
بچ نفس دنی سے ہے بڑا ہی کافر
کر روح کی پرورش مسلماں ہے یہ
گر روح نہ پابند تعین ہوتی
یوں درد فراق سے نہ ہر دم روتی
جب تک کہ ہے درمیاں صدف کا پردہ
دریا میں بھی دریا سے جدا ہے موتی
یہ مسئلہ دقیق سنئے ہم سے
آدم ہے مراد ہستی عالم سے
ہم اصل ہیں اور یہ ہمارا سایہ
عالم کا وجود ہے ہمارے دم سے
کرتا ہوں سدا میں اپنی شانیں تبدیل
طوفان میں تھا نوح تو آتش میں خلیل
فی الحال ہوں ظاہر میں اگر اسمعیل
ہوں عالم باطن میں وہی رب جلیل
واحد متکلم کا ہوا جو منکر
وہ صرف کی اصطلاح میں ہے کافر
کی ہے تحقیق صرفیان حق نے
حاضر غائب ہے اور غائب حاضر
اے بار خدا کہ عالم آرا تو ہے
دانائے نہان و آشکارا تو ہے
ہے شخص کو ہے تیرے کرم کی امید
ہر قوم کا آسرا سہارا تو ہے
گر جورو جفا کرے تو انعام سمجھ
جس کام سے وہ خوش ہو اسے کام سمجھ
گر کفر کی راہ سے رسائی ہو وہاں
اس کفر کو تو جادہ اسلام سمجھ
خاک نمناک اور تابندہ نجوم
ہیں ایک ہی قانون کے یکسر محکوم
یکسانی قانون کہے دیتی ہے
لاریب کہ ہے ایک ہی رب قیوم
چکھی بھی ہے تو نے درد جام توحید
یا سن ہی لیا ہے صرف نام توحید
ہے کفر حقیقی کا نتیجہ ایماں
ترک توحید ہے مقام توحید
انکار نہ اقرار نہ تصدیق نہ ایجاب
اعمال نہ افعال نہ سنت نہ کتاب
خود ہے نہ خدا ہے نہ خودی ہے نہ خدائی
توحید کے دریا میں ہیں سب نقش بر آب
برہان و دلیل عین گمراہی ہے
نفی و اثبات محض جاں کا ہی ہے
اس راہ میں عبارت و اشارت ہے گم
یاں ترک خودی اصول آگاہی ہے
ہوتی نہیں فکر سے کوئی افزائش
چپکے رہنے میں ہے بڑی آسائش
کہنا سننا تو ہے نہایت آساں
کہنے سننے کی ہو اگر گنجائش
معلوم کا نام ہے نشاں ہے نہ اثر
گنجائش علم ہے بیاں ہے نہ خبر
علم اور معلوم میں دوئی کی بو ہے
اس واسطے علم ہے حجاب الاکبر
مقصود ہے قید جستجو سے باہر
وہ گل ہے دلیل رنگ و بو سے باہر
اندر باہر کا سب تعین ہے غلط
مطلب ہے کلام و گفتگو سے باہر
کہتے ہیں سبھی مدام اللہ اللہ
کرتے ہیں برائے نام اللہ اللہ
یہ نام و نشاں بھی نقاب رخ ہیں
کیا خوب ہے انتظام اللہ اللہ
یا عالم خواب میں ہیں یا ہم ہیں خواب
ہو خود سائل ہیں خود سوال اور جواب
آئی نہیں کوئی شے کہیں باہر سے
ہم خود ہیں مسبب اور خود ہیں اسباب
مجموعہ خار و گل ہے زیب گلزار
نیکی و بدی ہے جلوہ گاہ اظہار
ہے مخمصہ اختیار حق و باطل
ہے وسوسہ اعتبار یارو اغیار
ہر خواہش و عرض و التجا ست توبہ
ہر فکر سے ذکر سے دعا سے توبہ
از بس کہ محال ہے سمجھنا اس کا
جو آئے سمجھ میں اس خدا سے توبہ
عاجز ہے خیال اور تفکر حیراں
بے سود یقیں ہے اور بے ہودہ گماں
کھلتا نہیں عقدہ کھولنے سے کوئی
بنتی نہیں کچھ بات بنائے سے یہاں
دیکھا تو کہیں نظر نہ آیا ہر گز
ڈھونڈھا تو کہیں پتا نہ پایا ہر گز
کھونا پانا ہے بے فضولی اپنی
یہ خبط نہ ہو مجھے خدا یا ہر گز
شیطان کرتا ہے کب کسی کو گمراہ
اس راز سے ہے خدائے غالب آگاہ
ہے گام کسی کا اور کسی پر الزام
لا حول ولا قوۃ الا باللہ
پر شور الست کی ندا ہے اب بھی
جو تھی وہی آن اور ادا ہے اب بھی
ہوتی نہیں سنت الٰہی تبدیل
جس شان میں ہے وہی خدا ہے اب بھی
کہتے ہی جو اہل عقل ہیں دور اندیش
مخلوق کو ہے عدم کا رستہ درپیش
مخلوق بھال عدم سے نکلی کب تھی
موجود تو ہے وہی جو کم ہونے بیش
احفا لے لئے ہیں اس قدر جوش و خروش
یاں ہوش کا مقتضا ہے بننا مدہوش
حسن ازلی تو ہے ازل سے ظاہر
یعنی ہے تجلیوں میں اپنی رو پوش
ٍتوحید کی راہ میں ہے ویزانہ سخت
آزادی و بے تعلقی ہے یک لخت
دنیا ہے نہ دین ہے نہ دوزخ و بہشت
تکیہ نہ سرائے ہے نہ چشمہ نہ درخت
اے بار خدا یہ شور و غوغا کیا ہے ؟
کیا چیز طلب ہے اور تمنا کیا ہے ؟
ہے کم نظری سے اشتیاق دیدار
جو کچھ ہے نظر میں یہ تماشا کیا ہے ؟
افسردگی اور گرم جوشی بھی غلط
گم گشتگی اور خود فروشی بھی غلط
کچھ کہئے اگر تو گفتگو ہے بیجا
چپ رہئے اگر تو ہے خموشی بھی غلط؟
الحق کہ نہیں ہے غیر ہر گز موجود
جب تک کہ ہے وہم حق ہے مفقود
حق یہ ہے کہ وہم کا بھی ہونا حق ہے
حق ہے تو ہر اک طرح سے حق ہے مشہود
کیفیت و ذوق اور ذکر و اور اد
دین و اسلام اور کفرو الحاد
ہر رنگ ہے محو ہر تعلق برباد
ہے فقر تمام علتوں سے آزار
نقاش سے ممکن ہے کہ ہو نقش خلاف
ہیں نقش میں جلوہ گر اسی کے اوصاف
ہر شے میں عیاں ہے آفتاب وحدت
گر وہم دوئی نہ ہو تو ہے مطلع صاف
اک عالم خواب خلق پر طاری ہے
یہ خواب میں کارخانہ سب جاری ہے
یہ خواب نہیں یہی سمجھنا ہے خواب
گر خواب کا علم ہے تو بیداری ہے
جو تیز قدم تھے وہ گئے دور نکل
دیکھے بھالے بہت مقامات و محل
اس راہ کا پر کہیں نہ پایا انجام
یعنی ہے وہی ہنوز روز اول
بدلا نہیں کوئی بھیس ناچاری سے
ہر رنگ ہے اختیار سرکاری سے
بندہ شاہد ہے اور طاعت زیور
یہ سانگ بھرا گیا ہے عیاری سے
ہے عشق سے حسن کی صفائی ظاہر
رندی سے ہوئی ہے پارسائی ظاہر
وحدت کا ثبوت ہے ظہور کثرت
بندہ ہی کے دم سے ہے خدائی ظاہر
یارب کوئی نقش مدعا بھی نہ رہے
اور دل میں خیال ماسوا بھی نہ رہے
رہ جائے تو صرف بے نشانی باقی
جو وہم میں ہے سو وہ خدا بھی نہ رہے
با ایں ہمہ سادگی ہے پرکاری بھی
شوخی بھی ہے اس میں اور عیاری بھی
چھپ چھپ کے ہے تاک جھانک اپنی کرتا
اس سے کوئی سیکھ جائے مکاری بھی
ساقہ وہی میکش وہی مینا بھی وہی
گویا وہی شنوا وہی جینا بھی وہی
آدم وہی بندہ مولا بھی وہی
ہے بھی وہی تھا بھی وہی ہو گا بھی وہی
ساقی و شراب و جام و پیمانہ کیا؟
شمع و گل و عندلیب و پروانہ کیا؟
نیک و بد و خانقاہ و مے خانہ کیا؟
ہے راہ یگانگی میں بیگانہ کیا؟
حق ہے تو کہاں ہے پھر مجال باطل
حق ہے تو عبث ہے احتمال باطل
نا حق نہیں کوئی چیز راہ حق میں
باطل کا خیال ہے خیال باطل
جو چاہیئے وہ تو ہے ازل سے موجود
حاصل ہے مراد اور میہا مقصود
کیا بات ہے اہتمام جہد و طاعات
کیا چیز ہے امتیاز عبد و عبود
تقریر سے وہ فزوں بیاں سے باہر
ادراک سے وہ بری گماں سے باہر
اندر باہر ہے وہ نہ پیدا پنہاں
سرحد مکان و لامکان سے باہر
ڈھونڈا کرے کوئی لاکھ کیا ملتا ہے ؟
دن کا کہیں رات کا پتہ ملتا ہے ؟
جب تک کہ ہے بندگی خدائی کا حجاب
بندہ کو بھلا کہیں خدا ملتا ہے ؟
آیا ہوں میں جانب عدم ہستی سے
پیدا ہے بلند پائیگی پستی سے
عجز اپنا بزور کر رہا ہوں ثابت
مجبور ہوا ہوں میں زبردستی سے
کافر کو ہے بندگی بتوں کی غم خوار
مومن کے لئے بھی ہے خدائے غفار
سب سہل ہے یہ ولیک ہونا دشوار
آزاد ہو بے نیاز ہو بیکس و بے کار
بندہ ہوں تو ایک خدا بناؤں اپنا
خالق ہوں تو ایک جہاں دکھاؤں اپنا
ہے بندگی وہم اور خدائی پندار
میں وہ ہوں کہ خود پتہ نہ پاؤں اپنا