07:22    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

مجموعہ صدا بہ صحرا

1783 0 0 00




شبِ ویراں

یوکلپٹس کے پیڑ کے اوپر

ٹھٹھرے تاروں کے پھیلے جنگل میں

چاند تنہا اداس پھرتا ہے

یوکلپٹس کی سرد شاخوں سے

ٹھنڈے جھونکے لپٹ کے روتے ہیں

یوکلپٹس کے پیڑ کے نیچے

خشک پتّے ہوا میں اڑتے ہیں






طلسمات

پرے سے دیکھو تو صرف خوشبو، قریب جاؤ تو اک نگر ہے

طلسمی رنگوں سے بھیگتے گھر، نسائی سانسوں سے بند گلیاں

خموش محلوں میں خوبصورت طلائی شکلوں کی رنگ رلیاں

کسی دریچے کی چق کے پیچھے دہکتے ہونٹوں کی سرخ کلیاں

پرے سے تکتی ہر اک نظر اس نگر کی راہوں سے بے خبر ہے

حنائی انگشت کا اشارہ لجائی آنکھوں کی مسکراہٹ

کبھی یونہی راہ چلتے اک ریشمی دوپٹّے کی سرسراہٹ

سیاہ راتوں کو ہَولے ہَولے قریب آتی ہوئی سی آہٹ

یہ ساری راہیں ہیں اُس نگر کی جو دائمی آنسوؤں کا گھر ہے






آخری عمر کی باتیں

وہ میری آنکھوں پر جھک کر کہتی ہے "میں ہوں"

اس کا سانس مرے ہونٹوں کو چھو کر کہتا ہے "میں ہوں"

سونی دیواروں کی خموشی سرگوشی میں کہتی ہے "میں ہوں"

"ہم گھائل ہیں" سب کہتے ہیں

میں بھی کہتا ہوں "میں ہوں"






خواب گاہ

سامنے ہے اک تماشاۓ بہارِ جانستاں

جا بجا بکھری ہوئی خوشبو کی کالی شیشیاں

نیم وا ہونٹوں پہ سرخی کے بہت مدھم نشاں

ریشمی تکیے میں پیوست اس کی رنگیں انگلیاں

دیکھ اے دل شوق سے یہ آرزو کا کارواں

رنگ و بو کے سلسلے لعل و گہر کی وادیاں

پھر نہ جانے تو کہاں اور یہ حسیں منظر کہاں






صدا بہ صحرا

چاروں سمت اندھیرا گھپ یے اور گھٹا گھنگھور

وہ کہتی ہے :کون؟"

میں کہتا ہوں "میں۔۔۔۔

کھولو یہ بھاری دروازہ

مجھ کو اندر آنے دو"

اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور






ایک آسیبی رات

کافی دیر گزرنے پر بھی جب وہ گھر نہیں آئی

اور باہر کے آسمان پر کالا بادل کڑکا

تو میرا دل ایک نرالے اندیشے سے دھڑکا

لالٹین کو ہاتھ میں لے کر جب میں باہر نکلا

دروازے کے پاس ہی اک آسیب نے مجھ کو توکا

آندھی اور طوفان نے آگے بڑھ کے رستہ روکا

تیز ہوا نے رو کے کہا "تم کہاں چلے ہو بھائی؟

یہ تو ایسی رات ہے جس میں زہر کی موج چھپی ہے

جی کو ڈرانے والی آوازوں کی فوج چھپی ہے"

میں نے پاگل پن کی دھُن میں مُڑ کر بھی نہیں دیکھا

دل نے تو دیکھے ہیں ایسے لاکھوں کٹھن زمانے

وہ کیسے ان بھوتوں کی باتوں کو سچّا مانے

جونہی اچانک میری نظر کے سامنے بجلی لہرائی

میں نے جیسے خواب میں دیکھا اک خونیں نظّارہ

جس نے میرے دل میں گہرے درد کا بھالا مارا

خون میں لت پت پڑی ہوئی تھی اک ننگی مہ پارہ

پھر گھائل چیخوں نے مل کر دہشت سی پھیلائی

رات کے عفریتوں کا لشکر مجھے ڈرانے آیا

دیکھ نہ سکنے والی شکلوں نے جی کو دہلایا

ہیبت ناک چڑیلوں نے ہنس ہنس کر تیر چلاۓ

سائیں سائیں کرتی ہوا نے خوف کے محل بناۓ

سارے تن کا زور لگا کر میں نے اسے بلایا

"لیلیٰ !لیلیٰ! کہاں ہو تم؟ اب جلدی گھر آ جاؤ"

"لیلیٰ !لیلیٰ! کہاں ہو تم؟"

"لیلیٰ !لیلیٰ! کہاں ہو تم؟"

عفریتوں نے مری صدا کو اسی طرح دہرایا






لیلیٰ

رات کی اونچی فصیلوں پر دمکتے لال ہونٹوں والی کالی حبشنیں خنجر بکف

اور فصیلوں سے گھرے جادو بھرے شہروں کی دھندلی روشنی میں ہر طرف

دائروں میں گیت گاتی دلہنوں کے مرمریں ہاتھوں میں بجتے زرد دف

شش جہت کی تیرگی میں دم بہ دم بڑھنے لگی ہے مور پنکھوں کی صدا

چھا رہا ہے کھڑکیوں پر سر نِگوں پھولوں بھری بیلوں کا رنگیں سلسلہ

لگ رہا ہے سرخ ریشم سے سجے کمروں میں شرمیلی نگاہوں کا رسیلا جمگھٹا

کس حسیں خاموش گلشن میں کھلا ہے میری چاہت کا دمکتی پنکھڑیوں والا گلاب

کون سے جادو بھرے کوچے میں بہتی ہے ان آنکھوں کی خمار آگیں شراب

کب فصیلِ سب کے اک پوشیدہ دروازے سے جھانکے گا وہ چمکیلا سراب

بول اے آہستہ رَو بادِ شبانہ کے نرالے نقش دکھلاتے ہوۓ گونگے رباب






بازگشت

یہ صدا

یہ صداۓ بازگشت

بے کراں وسعت کی آوارہ پری

سست رَو جھیلوں کے پار

نم زدہ پیروں کے پھیلے بازوؤں کے آس پاس

ایک غم دیدہ پرند

گیت گاتا ہے مری ویران شاموں کے لیے






خزاں

ہوا کی آواز

خشک پتّوں کی سرسراہٹ سے بھر گئی ہے

روش روش پر فتادہ پھولوں نے

لاکھوں نوحے جگا دیے ہیں

سلیٹی شامیں بلند پیڑوں پہ غل مچاتے

سیاہ کوّوں کے قافلوں سے اٹی ہوئی ہیں

ہر ایک جانب خزاں کے قاصد لپک رہے ہیں

ہر ایک جانب خزاں کی آواز گونجتی ہے

ہر ایک بستی کشاکشِ مرگ و زندگی سے نڈھال ہو جر

مسافروں کو پکارتی ہے کہ" آؤ

مجھ کو خزاں کے بے مہر تلخ احساس سے بچاؤ"






آتما کا روگ

شراپ دے کے جا چکے ہیں سخت دل مہاتما

سمے کی قید گاہ میں بھٹک رہی ہے آتما

کہیں سلونے شیام ہیں نہ گوپیوں کا پھاگ ہے

نہ پائلوں کا شور ہے نہ بانسری کا راگ ہے

بس ان اکیلی رادھِکا ہے اور دکھ کی آگ ہے

ڈراؤنی صداؤں سے بھری ہیں رات کی گپھائیں

اداس ہو کے سن رہی ہیں دیوتاؤں کی کتھائیں

بہت پرانے مندروں میں رہنے والی اپسرائیں

ہوئیں ہوائیں تیز تر بڑھی بنوں کی سائیں سائیں






دوری

دور ہی دور رہی بس مجھ سے

پاس وہ میرے آ نہ سکی تھی

لیکن اس کو چاہ تھی میری

وہ یہ بھید چھپا نہ سکی تھی

اب وہ کہاں ہے اور کیسی ہے

یہ تو کوئی بتا نہ سکے گا

پر کوئی اس کی نظروں سے

میرے دل کو مٹا نہ سکے گا

اب وہ خواب میں دلہن بن کر

میرے پاس چلی آتی ہے

میں اس کو تکتا رہتا ہوں

لیکن وہ روتی جاتی ہے






برسات

آہ یہ بارانی رات

مینہ، ہوا، طوفان، رقصِ صاعقات

شش جہت پر تیرگی امڈی ہوئی

ایک سنّاٹے میں گم ہے بزم گاہِ کائنات

آسماں پر بادلوں کے قافلے بڑھتے ہوۓ

اور مری کھڑکی کے نیچے کانپتے پیروں کے ہات

چار سو آوارہ ہیں

بھولے بسری واقعات

جھکّڑوں کے شور میں

جانے کتنی دیر سے

سن رہا ہوں تیری بات






موت

ہر طرف خاموش گلیاں زرد رو گونگے مکیں

اجڑے اجڑے بام و در اور سونے سونے شہ نشیں

ممٹیوں پر ایک گہری خامشی سایہ فگن

رینگ کر چلتی ہوا کی بھی صدا آتی نہیں

اس سکوتِ غم فزا میں اک طلسمی نازنیں

سرخ گہرے سرخ لب اور چاند سی پیلی جبیں

آنکھ کے مبہم اشارے سے بلاتی ہے مجھے

ایک پر اسرار عشرت کا خزانہ ہے وہ چشمِ دل نشیں






پاگل پن

اک پردا کالی مخمل کا آنکھوں پر چھانے لگتا ہے

اک بھنور ہزاروں شکلوں کا دل کو بہلانے لگتا ہے

اک تیز حنائی خوشبو سے ہر سانس دمکنے لگتا ہے

اک پھول طلسمی رنگوں کا گلیوں میں چمکنے لگتا ہے

سانپوں سے بھرے اک جنگل کی آواز سنائی دیتی ہے

ہر اینٹ مکانوں کے چھجّوں کی خون دکھائی دیتی ہے






اُپدیش

جگمگ جگمگ کرتی آنکھیں ہیرے جیسے گال

جادو ہے ہونٹوں میں اس کے بجلی جیسی چال

اس کی حنائی مٹھی میں ہے عطر بھرا رومال

جس کی مہک سے شہر بنا ہے خوشبوؤں کا جال

جو اس سارے جگ میں نہیں ہے اس کی چاہ میں مرنا

یہ تو پاگل پن ہے لوگو، ایسا کبھی نہ کرنا






ایک رسم

شہر کے گھر سنسان پڑے ہیں

سارے لوگ گھروں سے باہر

چاند کی پوجا کرنے گئے ہیں

وہ ویراں باغوں میں جا کر

چاند نکلتا دیکھتے ہیں

جب مشرق پر روشنی کا

اک تیز نشان دمکتا ہے

وہ سرگوشی کے لہجے میں

کچھ منتر پڑھنے لگتے ہیں

رات گئے تک اسی طرح وہ

چاند کو جلتا دیکھتے ہیں

دوری کے ریگستانوں میں

لہو اگلتا دیکھتے ہیں






زنداں

شام ہوتے ہی شرابِ عشق پی کر جھومتی شہزادیاں

دوریوں پر مسکراتی نازنینوں کی حسیں آبادیاں

خواہشوں کی آگ میں دن رات جلتے گل بدن

اطلس و زر بفت کے محلوں کی تنہائی میں روتے سیم رن

شرم کی خوشبو سے جھکتی جا رہی معصوم چنچل لڑکیاں

اپنی محبوباؤں کے گل ریز پہلو میں بہکتے نوجواں

اجڑے شہروں کے مکانوں کے اکیلے نوحہ خواں

اپنے اپنے دائرے میں ہر کوئی بے چین ہے

گرد بادِ یاس و غم میں گُم ہے یہ کون و مکاں






تنہائی

میں ، نکہت اور سونا گھر

تیز ہوا میں بجتے در

لمبے صحن کے آخر پر

لال گلاب کا تنہا پھول

اب میں اور یہ سونا گھر

تیز ہوا میں بجتے در

دیواروں پر گہرا غم

کرتی ہے آنکھوں کو نم

گئی دنوں کی اڑتی دھول

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"تیز ہوا اور تنہا پھول" مجموعے کی نظمیں

ٹائپنگ اور ای بک کی تشکیل : اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔