02:56    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

محاورات

861 0 0 00

( 1 ) داتا دے بھنڈاری کا پیٹ پھٹے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہماری تہذیبی معاملات اور  معاشرتی رو یہ بھی کچھ عجیب و غریب ہیں۔ اور  سماجی نفسیات کے پیچیدہ پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں بھنڈاری اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی ذخیرہ کا نگہبان ہوتا ہے۔ بھنڈار بڑے ذخیرے ہی کو کہتے ہیں دینے والا دیتا ہے اور سب کو دیتا ہے لیکن جو ذخیرہ کا نگہبان ہے وہ اللہ واسطے میں یہ سوچتا ہے کہ کسی کو یوں دیا جا رہا ہے کہ بہت سے لوگ دوسروں کا کام بنتے ہوئے دیکھ کر جلتے ہیں اور خواہ مخواہ اختلاف کرتے ہیں اُن کے اپنے پاس سے کچھ نہیں جاتا۔ پھر بھی انہیں تکلیف پہنچتی ہے اس سے ہمارے سماج کی اخلاقی گراوٹ کا پتہ چلتا ہے۔

( 2 ) داد دینا،داد کو پہنچنا،داد نہ فریاد۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’داد‘‘ فارسی لفظ ہے مگر ہماری زبان میں داخل ہو گیا ہے اور ایک سے زیادہ محاوروں میں یہ موجود ہے شِعر  پر جب ہم تحسین و آفریں کہتے ہیں تو اُسے داد سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس شعر کی بہت داد ملی۔ داد دینا انصاف کرنے کو بھی کہتے ہیں اور انصاف کرنے والا اکثر داد گر کہلاتا ہے۔ کچہری کو داد گاہ کہا جاتا ہے۔ انصاف پیشگی کو دادِگیری کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔ جب کسی ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے تو اُسے داد فریاد کہتے ہیں اور جب کوئی کچھ نہیں بولتا اور بڑے سے بڑے ظلم و زیادتی پر لوگ خاموشی اختیار کرتے ہیں تو اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اُس کی داد نہ فریاد اس طرح یہ محاورے سماج میں حق گزاری اور حق شناسی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ اور  نہ حق باتوں کی طرف جن میں ظلم و زیادتی اور حق تلفی کا رو یہ شریک رہتا ہے۔ ہمارے محاورات انہی سچائیوں کی پردہ کُشائی کرتے ہیں اب یہ الگ بات ہے کہ ہم اس پر کبھی غور کریں یا نہ کریں۔

( 3 ) داغ دینا، داغ اُٹھانا، داغ بیل ڈالنا،داغ لگانا، یا داغ لگنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

داغ ایک طرح کا دھبّہ ہوتا ہے جو کسی بھی چیز پر خاص طور سے اچھے کپڑے اور  کاغذ پر لگ جائے تو بہت بُرا لگتا ہے قدیم زمانہ میں جو آدمی کسی کا غلام ہوتا تھا خاص طرح سے نشان سے اُس کو داغا جاتا ہے اور وہ داغی غلام کہلاتا تھا۔ یعنی وہ آئندہ منہ دکھلانے کے لائق نہ رہتا تھا۔ اس قابل کر دیا جاتا تھا۔

اسی حقیقت کے پیشِ نظر خاندانی عزت کو اگر کوئی بات کوئی کام یا کوئی روش خراب کرتی یا مٹاتی تھی تو اُسے بھی کام لگنا یا داغ لگنا کہتے تھے۔ داغ ؔ دہلوی کا شعر ہے۔

؂ میں اگر چاہوں تو گویا رب ابھی توبہ کر لوں

داغ لگ جائے گا لیکن تیری غفاری میں

داغ اٹھانا، صدمہ سے گزرنا ہے۔ داغ دیکھنا اور  داغ کھانا بھی اسی معنی میں آتا ہے کسی شاعر کا شعر ہے۔

؂ داغ دیکھے ہیں ‘ داغ کھائے ہیں

دل نے صدمے بہت اُٹھائے ہیں

 داغ کے معنی جلنے یا جل اٹھنے کے بھی ہیں جواس شعر کی طرف اشارہ ہے۔

دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

’’داغ بیل ڈالنا‘‘ ایک الگ صورت ہے جس کے معنی ہیں شروعات کرنا کسی کام کا ابتدائی منصوبہ تیار کرنا اور اُس پر عمل کرنا اسی لئے کہتے ہیں کہ اس کام کی داغ بیل فلاں شخص نے ڈالی تھی۔ یعنی سلسلہ قائم کیا تھا۔

( 4 ) دال روٹی سے خوش ہونا، دال روٹی صبر و شُکر سے کھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دال ہمارے یہاں غریب آدمی کی خوراک کا ایک ضروری حصہ ہوتا تھا کباب،قلیہ،قورمہ، مُتنجن وغیرہ اعلیٰ درجہ کے سالن غریب آدمی کو کہاں میسر آتے تھے۔ بکرے کا گوشت اگرچہ آٹھ آنے سیر تھا اور اس سے پہلے اور  بھی سستا ہو گا۔ مگر ایک غریب آدمی کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آتے وہ تو دال دلیا سے اپنا کام چلا لیتا تھا اس کا اصل مسئلہ تو پیٹ بھرنا تھا۔ روکھی روٹی نہ کھا کر وہ دال سے کھاتا تھا۔ اس پر بھی خوش ہوتا تھا اور خدا کا شکر ادا کرتا تھا آج بھی لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں دال روٹی آرام سے کھانے دو یہ ہمیں پیٹ بھرکر مل رہی ہے یہ بھی کیا کم ہے۔

اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے تو اتنی غربت تھی کہ شادی کے موقع پر دال چاول اسپیشل کھانے کے موقع پر کھلائے جاتے تھے دال دیگ میں پکتی تھی اور چاول کڑھائی میں اُبالے جاتے تھے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ محاورے ہماری معاشی یا مالی حالت کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ روٹی پر روٹی رکھ کر کھانا روکھی روٹی اور خشک نوالے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کبھی کبھی تو ایک ہی روٹی ہوتی تھی اس کے مقابلہ میں اس کو خوشحالی تصور کیا جاتا تھا کہ روٹی پر روٹی رکھ کر کھانے کا موقع مل رہا ہے۔

اس سطح پر  اگر محاوروں کا مطالعہ کیا جائے توہم ایسی تاریخی معاشرت کے بارے میں بھی بہت سی سچائیوں کو جان سکتے ہیں اور ایک زمانہ کے زبان کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے تو اس دور کی ذہنی اور نفسیاتی سطحوں اور حالتوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے غور نہ کرنا۔

( 5 ) دال میں کچھ کالا ہے،دال نہ گلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دال پکائی جاتی تھی اور وہ بھی دھوئی ہوئی دال تو اُس میں ایسا تو تھا نہیں کہ اُس میں گرم مصالحہ ڈالا جاتا ہو۔ لونگیں،سیاہ مرچیں اور کالا زیرہ، دال میں کون ڈالے کہ اتنا پیسہ کہاں سے آئے جو بے چارہ دال کھا رہا ہے وہ اوپر سے خرچ کرنے کے لئے مزید پیسے کہاں سے لائے اسی لئے دال میں کوئی کالی چیز نہیں ہوتی تھی اور اگر نظر آ جاتی تھی تو شبہ کی بات بن جاتی تھی کہ یہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ اسی کو سماجی زندگی میں محاورے کے طور پر استعمال کیا گیا تو اسی سے شکوک و شبہات کی طرف اشارے ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

دوسرا محاورہ دال گلنا ایک اور صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جو غربت کی صورت حال ہے اب سے کچھ زمانہ پہلے تک غریب گھروں میں ایندھن کی بڑی دشواری ہوتی تھی۔ آگ بھی ایک بڑی نعمت تھی اور گھروں سے آگ مانگی جاتی تھی۔ اور کرچھی لے کر ایک گھر سے دوسرے گھر جایا جاتا تھا کہ ایک دو انگارے مل جائیں اور اکثر ایندھن کی کمی کی وجہ سے یہ ہوتا تھا کہ دال پوری طرح پکتی بھی نہیں تھی اور کچی رہ جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے دال گلنا ایک محاورہ بن گیا اور  جہاں کسی کی بات نہیں بنتی تھی وہاں بھی یہ محاورہ استعمال کیا جاتا تھا۔

( 6 ) دام میں آنا،دام میں لانا، دامن پکڑنا، دامن پھیلانا، دامن جھاڑنا، دامن جھٹکنا، دامن سے لگنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دام میں آنا یا لانا کسی کے جال میں پھنسنا فریب دہی کا شکار ہونا۔ یہ ہمارے سماج کا ایک رو یہ ہے کہ وہ دھوکا دیکر دوسروں سے کام نکالتے ہیں اور ان کو مصیبت میں پھانس دیتے ہیں اور آدمی اپنی کسی ضرورت مجبوری یا سادہ لوحی کے زیر اثر دوسرے پر اعتبار کرلیتا ہے۔ اور پھر پریشانیوں میں پھنس جاتا ہے۔

دام میں آنا یا دام میں لانا اسی فریب دہی کے عمل کو کہتے ہیں جس کا مظاہرہ ہماری معاشرتی زندگی میں صبح و شام ہوتا رہتا ہے دامن پکڑنا یا پھیلانا دو الگ الگ محاورے ہیں دامن ہمارے لباس کا ایک بہت اہم حصہ ہوتا ہے جس سے ہم بہت سا کام لیتے ہیں چھوٹے بچے کو دامن سے ڈھکتے ہیں عورتیں پردہ میں منہ چھپانے کے لئے اپنے دامن سے نقاب کا کام لیتی ہیں ہم دوسرے کا دامن پکڑ کر اس کی دیکھ ریکھ یا نگرانی اور  رہنمائی میں کوئی کام کرنا چاہتے ہیں دامن جھاڑنا یا جھٹکنا، ذمہ داری سے دامن بچانے کا عمل ہے۔ جو اکثر ہمارے تہذیبی رویوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ دامن سے لگ کر بیٹھنا کسی سے قریب تر آتا رہنا اور پناہ لینے کی کوشش کرنا ہے دامن چاک کرنا انتہائی بے صبری بے سکون اور جوش کا اظہار کرنا ہے جس کو جنون کی حالت سے تعبیر کیا جاتا ہے اُردو کا ایک معروف شعر ہے۔

؂ اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے

دامن کے چاک‘ اور  گریباں کے چاک میں

دامن کو تار تار کرنا بری طرح چاک کر دینا اور اسی کو دامن کے ٹکڑے اڑا دینا بھی کہتے ہیں۔

( 7 ) دانت بجنا،دانت پیسنا،دانت کاٹی روٹی ہونا، دانت دکھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دانت سے متعلق مختلف محاورات ہیں سردی میں جب آدمی کپکپاتا ہے تو اس کے دانت بھی کپکپانے لگتے ہیں اسی کو دانت بجنا کہا جاتا ہے۔ دانت پیسنا ایک دوسرا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اظہارِ نا خوشی کرنا اور غصہ میں بھر جانا۔

دانت کاٹی روٹی ہونا ایک دوسری نوعیت کا محاورہ ہے۔ جس کے معنی ہیں بہت قریبی تعلق ہونا گہری دوستی ہونا۔ اس سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی جھُوٹی اور  کھائی ہوئی روٹی کو ہاتھ نہیں لگانا چاہتے۔ چھُوت چھات ہمارے معاشرے پر بے طرح اثرانداز ہوتی رہی ہے۔ اسی لئے ہم دوسرے کے برتن میں کھانا نہیں کھاتے دوسرے کا پیا ہوا پانی نہیں پیتے۔ لیکن کسی سے ایسا رشتہ بھی ہوتا ہے قریبی تعلق کہ اس کے دانتوں سے کاٹی ہوئی روٹی بھی کھا لیتے ہیں ایسا ہوتا بھی ہے نہیں یہ ایک الگ بات ہے مگر اس محاورے سے بہرحال گہری دوستی اور  اپنائیت کے رشتہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔

جانوروں کی عمر کا  تعیّن کرنے کے لئے ان کے دانت دیکھے جاتے ہیں اسی سے یہ محاورہ بنا ہے کہ کوئی نہیں پوچھتا کہ تیرے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ دانت دکھانا منہ چڑانے کو بھی کہتے ہیں اور بے مروتی  اختیار کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اسی لئے طنز کے طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ تو وقت آنے پر دانت دکھا دیتے ہیں۔ کام نہیں کرتے اور ذمہ داری نبھانے سے منہ موڑتے ہیں۔

( 8 ) دانتوں میں انگلی دینا۔ دانتوں تلے انگلی کاٹنا یا دابنا، دانتوں میں تنکا لینا، دانت ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دانتوں سے متعلق جو محاورے ہیں ان میں دانتوں تلے انگلی دینا یا دابنا سماجی ردِعمل کا اظہار ہے کہ یہ کیا ہوا کیسے ہوا اور  کیوں ہوا۔

اِس کے مقابلہ میں دانتوں میں تنکا لینا ایک خاص طرح کا سماجی عمل ہے جس کا تعلق اظہار عاجزی کرنے سے ہے غالبؔ نے اِس کی ایک موقع پر تشریح کی ہے اور کہا ہے کہ افغانستان کی طرف کے لوگوں نے یہ رسم رہی ہے کہ جب وہ اظہار عاجزی کرتے ہیں تو اپنے دانتوں میں تنکا دباتے ہیں اور دوسروں کے سامنے جاتے ہیں ان کا شعر ہے۔

؂ نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع میرے نالوں کو

لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا

دانت رکھنا اور دانت ہونا ایک طرح کا نفسیاتی عمل اور  سماجی رویوں کا اظہار ہے کہ آدمی پہلے سے کسی بات کو دل میں ٹھان لیتا ہے اور لالچ کا ایک رو یہ اس کے بارے میں پیدا کر لیتا ہے کہ اگر ایسا ہو جائے اور موت نکلے تومیں یہ کروں گا اس مکان دوکان کھیت زمین یا چیز پر قبضہ کروں گا یہی دانت رکھنا کہلاتا ہے اور اس سے لالچ کا اظہار ہوتا ہے دانت ہونے کے بھی یہی معنی ہیں۔

( 9 ) داؤں پر اڑنا۔ داؤں پر چڑھنا، داؤں کرنا، داؤں کھا جانا، داؤں لگنا، داؤں میں آنا، داؤں کھیلنا، داؤں پر لگانا۔ وغیرہ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اصل میں فنِ کشتی گری سے متعلق محاورات ہیں جو ہماری سماجی زندگی میں بھی کا م آتے ہیں۔ اور مختلف انسانی رویوں کو ظاہر کرتے ہیں مثلاً داؤں آنا داؤں جاننے کو بھی کہتے ہیں اور موقع ملنے کو بھی یہ شطرنج کے کھیل سے متعلق بھی محاورے کی ایک صورت ہے اسی لئے داؤں کھیلنا کہتے ہیں۔ جس کا مقصد دوسرے کو پھنسانا ہوتا ہے۔ جو اس طرح پھنس جاتا ہے وہ گویا داؤں پر چڑھ جاتا ہے اور پھنسا نے والے کو داؤں ہاتھ آ جاتا ہے یا اس کا داؤں چل جاتا ہے۔ اسی کامیابی کو داؤں لگنا بھی کہتے ہیں کہ اس کا داؤں لگ گیا بلی جب چڑیوں کو یا چوہے کو شکار کرنا چاہتی ہے تو کوئی نہ کوئی داؤں کھیلتی ہے یہ فریب دینے کا طریقہ ہوتا ہے یعنی ایک ہی بات پر زور دینا ہے جبکہ داؤں کا تعلق تو صورتِ حال پر نظر رکھنے سے ہوتا ہے۔

داؤں دینا مکّاری کر جانے کو کہتے ہیں اگر دیکھا جائے تو ایسے محاورات سے پتہ چلتا ہے کہ محاورے طبقاتی ہوتے ہیں پہلے انہی طبقوں میں رائج ہوتے ہیں جس سے اُن کا خاص تعلق ہوتا ہے رفتہ رفتہ وہ عمومیت اختیار کر لیتے ہیں اور ان میں معنیاتی اعتبار سے نئی نئی تہہ داریاں اور پہلو داریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

( 10 ) دائیں بائیں کر دینا،دبی آگ کریدنا، دبی بلی چوہوں سے کان کترواتی ہے۔ یا بھیگی بلی چوہوں سے کان کترواتی ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دائیں بائیں کرنے کے معنی ہیں اِدھر اُدھر کر دینا یہ ایک اہم سماجی عمل ہے اِس کے معنی ہوتے ہیں جھگڑے کو وقتی طور پر نمٹانا کہ وہ دونوں آپس میں بُری طرح جھگڑ رہے تھے اُن کو دائیں بائیں کر دیا دوسرے معنی ہوتے ہیں پریشر کو کم کر دینا۔ اس لئے کہ آدمی کی طبعیت پر جب جوکھ ہوتا ہے حالات ناساز گار ہوتے ہیں تو وہ اُس پریشر کو ہلکا کرنا چاہتا ہے۔ قابلِ برداشت کڑ اسی لئے بات کو اِدھر اُدھر کر دینا چاہتا ہے خیالات یا سوالات کو بکھیر دینا چاہتا ہے تاکہ ان کا دباؤ یا جماؤ کم ہو جائے۔

دباؤ کو کم کرنا ہماری سماجی زندگی کا ایک اہم مسئلہ ہے اس لئے کہ ہمارے یہاں متعدد محاورے دباؤ سے متعلق ہیں اس کو دباؤ بھی کہتے ہیں اور داب بھی وہ اس کو اپنی داب میں رکھنا چاہتا ہے داب کا لفظ رعب و داب کے ساتھ بھی آتا ہے۔

آگ کو دبا کر رکھا جاتا ہے یہ اس کی حفاظت کی غرض سے ہوتا ہے لیکن دبی آگ کو کریدنا ایک سماجی عمل کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ یہ کہ جو جھگڑے اختلافات اور الجھنیں دبا کر رکھی گئیں تھیں۔ یعنی اُن پر گفتگو نہیں کی جاتی تھی انہیں چھپایا جاتا تھا اب اگر اسے پوچھا جا رہا ہے بات کو اس رخ پر لایا جا رہا ہے اور  ہوا دی جا رہی ہے تو اس عمل کو جو دانستہ اور  بڑی حد تک فریب کارانہ ہوتا ہے۔

جب آدمی کسی وجہ سے مصیبت میں پھنس جاتا ہے تو معمولی لوگ بھی اس کے منہ آنا چاہتے ہیں اُس کا مذاق اڑاتے ہیں اس پر تنقید کرتے ہیں یہ ایسا ہی ہے کہ بلّی بچاری کہیں پھنس گئی ہے۔ اور چُوہے جسے اُن کے قریب بھی نہیں آنا چاہیے وہ اُن کے سرپر سوار ہوتے ہیں بلکہ اس کے کان کترتے ہیں۔ اِس محاورے کے ذریعہ بھی ہم سماج اور  کسی معاشرے سے متعلق افراد کے عمل کو سمجھ سکتے ہیں۔

( 11 ) دروازے کی مٹی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دروازہ کسی بھی مکان کا بے حد اہم حصّہ ہوتا ہے کہ اُسی کے ذریعہ آمد و رفت ممکن ہوتی ہے۔ دروازے کو سجایا جاتا ہے جانے والے کو دروازے تک پہنچایا جاتا ہے اور آنے والے  کا دروازے پر استقبال کیا جاتا ہے چوکھٹ کا تعلق خاص طور پر دروازے سے ہوتا ہے اور چوکھٹ بڑے دروازے سے ہوتا ہے

اور چوکھٹ بڑے احترام کی چیز ہوتی ہے۔

قدیم قوموں میں دروازے کو سجدۂ احترام بھی کیا جاتا تھا۔ ہندوؤں میں چوکھٹ کا پوجن بھی ہوتا ہے اسے تلک لگاتے ہیں بند دروازے کاغذوں سے سجاتے ہیں بعض قدیم گھروں پر جو دروازے ہوتے ہیں ان پر ہاتھی گھوڑے بنے ہوتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اُن کے دروازے پر ہاتھی جھُولتے ہیں دربان بھی دروازوں ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔

دروازے کو ویران کرنا گویا اس گھر اس خاندان کی عزت لے لینا ہے اسی لئے دروازے کی مٹی ایک خاص معنی اختیار کر لیتی ہے۔ دروازے کی مٹی لے ڈالنا اسی طرف اشارہ کرنے والا محاورہ ہے اسے چرنجی لال نے لیولے بھی کہا ہے۔ جسے مغربی یوپی والے اپنے تلفظ کے اعتبار سے ’’لیوڑ‘‘نے بھی کہتے ہیں اور ’’لیوڑے ڈالنا‘‘ مٹی کی تہوں کو بھی اٹھا اٹھا کر اکھاڑ اکھاڑ کر لے جانے کے عمل کی طرف اشارہ ہے جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اُس گھر میں کچھ نہیں چھوڑا اور  جو ہاتھ لگا اٹھا کر اسے لے گئے اِس سے ہم اپنے معاشرے کے مزاج اور بعض سماجی رویوں کو سمجھ سکتے ہیں۔

( 12 ) دریا،دریا دلی، دریا میں ڈالنا، دریا کو کوزے میں بند کرنا، دریا کو ہاتھ سے روکنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دریا کے معنی ندی کے بھی ہیں بڑی ندیوں کے بھی اور خود سمندر کے بھی، دریا اپنے معنی اور معنویت کے ساتھ ہمارے معاشرے کی بہت باتوں میں شریک رہتا ہے اور اس سے ہم موقع بہ موقع اپنی معاشرتی روشوں اور  رویوں کو سمجھنے اور سمجھانے کا کام لیتے ہیں۔ مثلاً دریا بہنا، زیادہ پانی بہنا بھی ہے اور دولت کی فراوانی بھی۔ دریا میں ڈالنا، اس طرح کسی چیز کو پھینک دینا کہ واپسی کی کوئی توقع نہ رہ جائے ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ ایسے ہی کسی نفسیاتی عمل اور  رد عمل کی طرف اشارہ ہے۔ دریا دلی’’ بڑے دل‘‘ کے لئے آتا ہے۔ دریا  سُوکھ جانا بہت مشکل پریشانی اور قحط کے زمانے کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے کہتے ہیں کہ اس موسم میں تو دریا بھی سُوکھ جاتے ہیں۔

دریا کو کوزے میں بند کرنا کسی بہت بڑی بات کو چھوٹی سی گفتگو میں سمیٹ لینا، علم دریا ہے۔ یعنی عِلم کا کوئی کنارہ نہیں جتنا چاہو علم سیکھتے رہو۔ وہ آگے بڑھتا رہے گا یہی اُس کی فطرت ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں علم کے متعلق کیا تصورات پائے جاتے ہیں دریا کو بہاؤ سے نسبت دی جاتی ہے دریا چڑھتا اُترتا ہے لیکن اس کے بہاؤ کو ہاتھ سے روکا نہیں جا سکتا جیسے مٹھی میں ہوا کو تھاما نہیں جا سکتا۔

سماج میں بعض ایسے رو یہ اور  روشیں ہیں کہ اُن کو ہم بُرا کہتے رہتے ہیں لیکن وہ روکی نہیں جا سکتیں۔ آخر دریا کی روانی بھی تو نہیں رک سکتی وقت کا دھارا بھی تو ہاتھ سے نہیں روکا جا سکتا۔

( 13 ) دریا میں رہنا مگرمچھ سے بیر کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہم جہاں رہتے ہیں اس ماحول کو پہچاننا اچھے بُرے لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کرنا اور سُوجھ بُوجھ کے ساتھ اُس سے مناسب تعلق رکھنا یہ ہمارے سماج کا ہماری زندگی کا اور ہمارے معاملات اور مسائل کا ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔

جن کے درمیان ہم رہتے ہیں وہ ہمارے اپنے بھی ہو سکتے ہیں غیر بھی دشمن بھی ہو سکتے ہیں اور دوست بھی یہ مشکل ہے کہ جس کے درمیان ہم رہتے ہوں اُن سے ہم غیریت برتیں دشمنی مول لیں اور پھر آرام و اطمینان سے رہیں اسی لئے یہ کہا جاتا ہے کہ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر تو نہیں رکھا جا سکتا۔ مگرمچھ طاقتور بھی ہوتا ہے اور نقصان پہنچانے والا بھی وہ گھات لگاتا ہے ایسا ہی کوئی شخص خطرناک دشمن اِس ماحول میں بھی ہو سکتا ہے جہاں ہم جا رہے ہوں اور اُس آدمی کے اور ہمارے درمیان مخالفت ہو۔

( 14 ) دست بدست دینا، دست درازی کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہاتھ ہماری ذاتی و معاشرتی زندگی کا نہایت اہم  وسیلۂ  کار ہے۔ اِسی لئے ہاتھ پیروں کے چلتے رہنے کی دعاء مانگی جاتی ہے۔ ہاتھ ہمارے ہر کام آتا ہے۔ ہم ایک ہاتھ سے دیتے ہیں اور دوسرے کو ہاتھ سے لیتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دس آدمی کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایک سے لیکر دوسرے دیتے رہتے ہیں

شادی بیاہ کے موقع پر کھانا کھلاتے وقت یہ اکثر دیکھنے کو ملتا تھا اِسی لئے ہاتھوں ہاتھ لینا یا دست بدست لین دین کا محاورہ سامنے آیا۔ کسی شاعر کا شعر ہے۔

؂ اُن کی محفل میں مِرا خُون بٹا دست بدست

جیسے معشوق لگاتے ہیں حِنا دست بدست

اسی طرح اُردو کا ایک مصرعہ ہے۔

؂ کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے

ہاتھ اُدھار کی بات اکثر ہم لوگوں کی زبان پر آتی رہتی ہے۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے ہاتھ سے اُس نے اُدھار دیا ہے کوئی لکھا پڑھی نہیں ہوئی۔ ایسے ہی موقع پر ہاتھ کو ہاتھ پہچاننا بھی کہتے ہیں۔ یہ اُن کے دست و دماغ کی بات ہے یعنی اُن کے سوچنے اور کام کرنے کا معاملہ ہے کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں۔ ایسے موقع پر دست و قلم بھی کہتے ہیں۔ دستِ خود دہانِ خود بھی محاورہ ہے یعنی خود نوالہ توڑو بناؤ اور کھاؤ یہ ظاہر ہے کہ اُس موقع کے لئے کہا جاتا ہے جب آدمی دوسرے کا سہارا تکتا ہے۔ کہ کوئی دوسرا ہی سب کچھ کرے اور وہ خود کچھ نہ کرے۔

ہمارے معاشرے کی یہ بہت عام کمزوری ہے۔ کہ ہم خود نہیں کرنا چاہتے ہر کام کی انجام دہی میں دوسروں کا سہارا لیتے ہیں۔

( 15 ) دسترخوان بڑھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دسترخوان لگانا یا سجانا بھی محاورہ ہے۔ مثلاً اپنے دسترخوان کو غریبوں سے سجاؤ یعنی اُن کو دعوت دوکہ وہ کھانا ساتھ کھانا کھائیں دسترخوان لگانا اپنے دسترخوان پر اچھے اچھے کھانوں کا چُننا۔ ظاہر ہے کہ یہ اُمراء کے لئے آتا ہے غرباء کے لئے نہیں۔ دسترخوان اُٹھانا نہیں کہتے اِس کے مقابلہ میں بڑھانا کہتے ہیں جو گویا ایک دعا ہے کہ دسترخوان چھوٹا نہ ہو دولت و نعمت میں کمی نہ آئے بلکہ دسترخوان بڑھتا رہے زیادہ سے زیادہ لوگ اِس سے فائدہ اٹھائیں اسی لئے ہمارے یہاں چراغ کے ساتھ بجھانے کا لفظ نہیں آتا۔ ایران والے چراغ گُل کردن کہتے ہیں اور ہم چراغ بڑھانا کہ اِس میں بھی دعاء کا یہ پہلو شامل رہتا ہے کہ چراغ بجھے نہیں بلکہ اس کی روشنی پھیلتی رہے۔ اِس سے ہم اپنی سماجی نفسیات اور تہذیبی رُسوم و آداب کا پتہ چلا سکتے ہیں۔

( 16 ) دست گرداں، دسواں دوار کھُل جانا، دست و پا مارنا، دسوں انگلیاں دسوں چراغ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دست (ہاتھ) سے جو محاورات بنے ہیں اُن میں دست مال بھی ہے جو رومال کو کہتے ہیں دست دینا بھی ہے دلوں پر دستک دینا بھی اس میں شامل ہے لیکن اِن میں آخرالذکر کے علاوہ محاوراتی انداز کم ہیں۔ دلوں پر دستک دینا لوگوں کو اپنے حال کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ اُردو کے ایک شاعر کا  شعر ہے۔

؂ اب تلک میں نے دِلوں پرہی تو دستک دی ہے

اب کہاں جا کے بھلا خُود کو پکارا جائے

جو چیز ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں پہنچتی رہتی ہے اُسے ’’دست گرداں ‘‘ کہتے ہیں جیسے سکّے، ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جاتے بولتے ہیں اسی طرح جو چیز بازار میں عام ملتی ہے اور فروخت ہوتی ہے اُس جنس کو دستِ گرداں کہا جاتا ہے اب ایسی ہی کوئی شخص بھی ہو سکتا ہے جو کبھی اِس کے ساتھ اور کبھی اس کے ساتھ اسی کو عام زبان میں چالو ہونا کہتے ہیں کہ وہ تو چالو آدمی ہے۔

( 17 ) دعوتِ شیراز۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دعوت کے معنی بلانے یا توجہ دلانے کے ہیں اور کسی کام کی انجام دہی کے لئے خواہش کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ اس کے مقابلہ میں کھانے پر بُلانا اور شریکِ طعام کرنا دعوت کرنا کہلاتا ہے۔ جس دعوت میں بہت سے تکلف کے سامان ہوتے ہیں وہ پُرتکلف دعوت کہلاتی ہے۔

اور جس میں بہت سادہ کھانا ہوتا ہے وہ محاورتاً دعوتِ شیراز کہلاتی ہے۔ یعنی غریبی کی حالت میں کی جانے والی دعوت۔

( 18 ) دل اُٹھنا،دل اُچاٹ ہونا، دل آنا، دل بجھنا، دل بُرا کرنا، دل بڑھانا، دل بھاری کرنا، دل دھڑکنا، دل بھر آنا، دل بیٹھ جانا، دل پانا، دل دھڑکنا، دل پر چوٹ لگنا، دل پر نقش ہونا، دل پر ہاتھ رکھنا، دل دہی کرنا، دل پکنا، دل پھٹنا، دل پھیکا ہونا، دل توڑنا، دل ٹوٹنا، دل ٹھکانے لگانا، دل جلانا، دل جلنا، دل جمنا، دل چیر کر دیکھنا، دل خوش کرنا، دل سے دل ملنا، دل سے گرنا، دل برداشتہ ہونا، دل سے دھُواں اٹھنا، دل کا بخار نکالنا، دل کا خریدار، دل کی بھڑاس نکالنا، وغیرہ وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دل اعضائے رئیسہ میں سے ہے۔ جذباتِ انسانی کا دل سے گہرا رشتہ ہے اور بہت سے محاورے دل ہی احساسات،جذبات اور حسیات سے وابستہ ہیں اور اُس کی معنی داریوں اور معنی نگاریوں کو پیش کرتے ہیں سماج یا انسانی معاشرہ اپنی سوچ کے جو مختلف دائرے رکھتا ہے اُن کی تصویر کشی یا عکاسی میں دل ایک نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور ایک علامتی لفظ ہے جو فکر  و فن اور شعر و شعور کی دنیا میں اپنا ایک اہم معاشرتی تہذیبی اور نفسیاتی کردار ادا کرتا ہے یہاں اُردو کے دو تین شعر پیش کئے جا رہے ہیں اُن سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ دل ہمارے وجود کا کتنا اہم حصّہ اور ہماری معاشرتی زندگی کا کتنا غیر معمولی سطح پر علامتی کردار ہے۔

؂ دل گیا رونقِ حیات گئی

غم گیا ساری کائنات گئی

(جگرؔ)

؂ دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا رب

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بُجھ گیا ہو

(اقبالؔ)

؂ کہتے ہو نہ دیں گے ہم، دل اگر پڑا پایا

دل کہاں کہ گم کیجئے ہم نے مُدعا پایا

(غالبؔ)

مختلف محاورے مختلف ذہنی تجربوں تخیلی منظر ناموں اور تمثیلی پیکروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کہیں نزاکتوں کی طرف کہیں سختیوں کی طرف دل کو پتھر کدہ کہا جاتا ہے اور صنم خانۂ شوق قرار دیا جاتا ہے۔ خوابوں کا گہوارہ کہا جاتا ہے اور خیالوں کی متحرک تصویر جس کی دھڑکن لمحہ بہ لمحہ زمانے اور  زندگی کے تغیّرات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

؂ میری تاریخ دل کی یادیں ہیں

جن کو دیر و حرم کہا جائے

زندگی کی یہی ہیں شمع و چراغ

جن کو شہرِ صنم کہا جائے

(تنویرؔ علوی)

 دل لگی کی باتیں ہوتی ہیں اس کے مقابلہ میں سنجیدگی سے کسی بات کو دل میں جگہ دینا اور محسوس کرنا ہے دل بہار دل پسند دل خوش کُند جیسی ترکیبیں اُردو میں فارسی میں بہت آتی ہیں۔

( 19 ) دماغ تازہ کرنا، دماغ ہونا، دماغ خالی ہونا، دماغ روشن ہونا، دماغ میں خلل ہونا، دماغ نہ ہونا وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جب کسی آدمی کو بہت غرور ہوتا ہے تو اُس کے لئے کہتے ہیں کہ اُس کا دماغ آسمان پر ہے۔ دماغ ہونے کے معنی بھی یہی ہیں اِس کے مقابلہ میں دماغ خالی کرنا یا ہلکا کرنا ایک حد تک خلاف معنی رکھنا ہے۔ خالی دماغ ہونا انتہائی بے وقوف آدمی کو کہتے ہیں جس کو عقل ہوتی ہی نہیں اِس کے مقابلہ میں دماغ میں بھُوسا بھرا ہونا ایسے آدمی کے لئے آتا ہے جو بالکل ہی عقل سے خارج ہو۔

جو لوگ بہت عقلمند ہوتے ہیں یا عقل مند شمار کئے جاتے ہیں اُن کو روشن دماغ کہتے ہیں حالیؔ نے غالبؔ کی موت پر جو مرثیہ لکھا تھا اس میں ایک شعر میں یہ کہا گیا تھا۔

؂ شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا

ایک روشن دماغ تھا نہ رہا

(حالیؔ)

عالی دماغ بھی ایسے ہی لوگوں کو کہتے ہیں جس کا دماغ روشن ہوتا ہے اور جو غیر معمولی سطح پر ذہین ہوتے ہیں دیہات میں کُند ذہن آدمی کو کھٹل دماغ کہتے ہیں یعنی اُس کا دماغ تو اینٹ پتھر کی طرح ہے۔ اُس سے کوئی کام نہیں لیا جا سکتا۔

( 20 ) دم آنکھوں میں اٹکنا، دم بخود رہ جانا، دم توڑنا یا ٹوٹنا، دم چُرانا، دم میں دم آنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’دم‘‘ ہماری زبان میں بہت سے معنی رکھتا ہے مثلاً یہ کہ فلاں کا دم تھا کہ اتنے کام ہو گئے جیسے ایک بھائی کا دم تھا یا ایک چچا کا دم تھا وغیرہ کہ جس کے باعث یہ سب کچھ ہوا۔ دم دلاسا دینا سمجھانے بجھانے اور ہمت بڑھانے کو کہتے ہیں دم خم ہونا ہمت حوصلہ اور تاب و تواں کے لئے کہا جاتا ہے۔ دم مارنا حوصلہ کرنا، دم دینا مر مٹنا، مر جانا اور  غیر معمولی طور پر کسی سے محبت کرنا کہ وہ تو اس پر دم دیتا ہے۔ دم کرنا پھونک کریا پڑھ کر دَم کرنا ہے۔

باورچی خانہ کی اصطلاحوں میں بھی دم دینا آتا ہے جیسے چاولوں کو دم دے دو یا پلاؤ کو کو دم دے دو یہ گرم کرنا، بگھارنا اور  پکانا تینوں معنوں میں آتا ہے دَم دُرود ہونا بھی دم خم ہونا ہی ہے جیسے اس میں اِتنا دم و دُرود نہیں کہ وہ اتنا کام کر سکے۔

دم کا مہمان ہونا موت سے قریب ہونا کہ وہ تو کوئی دم کا مہمان ہے دم قدم کا ساتھی ہونا ہر حالت میں ساتھ دینا، دم کے دم میں یہ کام ہو گیا۔ ذرا بھی دیر نہیں لگی دم توڑنا موت آ جانا۔ اُس نے راہ میں دم توڑ دیا اور اگر آدمی اپنا سانس روک لے تو اس کو دم چُرانا کہتے ہیں۔

دم بخود رہ جانا، حیران اور  شش در رہ جانا جب کوئی آدمی منہ سے کچھ کہہ بھی نہ سکے۔ اور خاموش رہ جائے۔ آنکھوں میں دم اٹکنے کے معنی ہوتے ہیں۔ اُس بیمار نے بہت انتظار کیا اور آخر وقت تک اس کا دم آنکھوں میں اٹکا رہا۔ یہ اس خیال پر مبنی ہے کہ سب سے آخر میں آنکھوں کا دم نکلتا ہے۔

اِن محاورات میں ہمارے معاشرے کاObservationبھی شامل ہے رو یہ اور  روش بھی تجربہ اور تجزیہ بھی محاوروں کو اگر اس رشتہ سے دیکھا جائے تو بہت سی باتیں سمجھ میں آتی ہیں اور ایک معاشرتی جاندار کے اعتبار سے انسان کے عمل اور  ردِ عمل کے مختلف معنی اپنے بھید کھولتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اپنی معنویت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

( 21 ) دن کو تارے نظر آنا یا دکھانا، دن کو دن اور رات کو رات نہ سمجھنا یا تارے گننا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دن اور  رات پر ہمارے یہاں بہت سے محاورے ہیں مثلاً دن نکلنا صبح ہو جانا، دن گننا،وقت کو اس طرح گزارنا کہ ایک ایک دن پر نظر رہے کہ کیا ہوا کیوں ہوا کیسے ہوا۔ تھوڑا سا دن رہے یعنی جب دن کا بہت تھوڑا سا وقت باقی رہ گیا میرؔ کا شعر ہے۔

صبح پیری شام ہونے آئی میرؔ

تو نہ جیتا اور  بہت دن کم رہا

بڑھاپے کی صبح شام ہونے کے قریب آ گئی تو نہ جیتا اور بہت کم دن رہا یعنی تجھے ہوش نہ آیا اور  دن بہت کم رہ گیا وقت ختم ہو گیا موقع ہاتھ سے نکل گیا اُردو میں دن کا استعمال علامت کے طور پر ہوتا ہے جیسے اچھے دن سکھ کے دن ہوتے ہیں اور برے دن دُکھوں سے بھرے دن ہوتے ہیں۔ دنوں کو دھکّے دینا بھی ایسے محاورات میں سے ہے جس سے مراد ہے مصیبت کا وقت گزارنا جب آدمی کے پاس وقت ہو گا اور کوئی کم نہ ہو گا مفید کام تو وہ دن گزارنا دِنوں کو دھکّے دینے کے مترادف ہو گا۔

بُرے دنوں کے دھکّے ہیں یہ بھی ہمارے محاورات میں سے ہیں۔ آنکھوں میں رات کاٹنا انتظار کرنا جاگتے ہوئے رات گزارنا ایسے عالم میں آسمان کو تکتا رہتا ہے اسی حالت کو تارے گننا کہتے ہیں۔ تارے تو اَن گنت ہوتے ہیں اُن کو گِنا نہیں جا سکتا لیکن بیکار وقت میں جب کوئی کام نہیں ہوتا تو آدمی اسی طرح کی باتیں کرتا ہے۔ جو پانی اور بے معنی ہوتی ہیں۔

( 22 ) دو دو منہ ہنسنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

عام طور پر یہ محاورہ استعمال نہیں ہوتا لیکن دلچسپ محاورہ ہے اور اُس محاورہ کی یاد دلاتا ہے۔ جس میں دو منہ ہونا۔ اُس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب وہ چاہتے ہیں اپنی بات بدل دیتے ہیں۔ ابھی کچھ کہا اور کچھ دیر کے بعد کچھ اور  کہ دیا یہ  یاد نہیں رہا اور جان کر یاد نہیں رکھا کہ پہلے کیا کہا تھا اور  کیوں کہا تھا۔ دو دو منہ ہنسنا کسی پُر فریب انداز کی طرف تو اشارہ نہیں کرتا لیکن اس میں ایک نہ ایک حد تک یہ مفہوم موجود رہتا ہے کہ کسی بات پر یہاں ہنس دیئے اور کسی بات پر وہاں یعنی اُن کی ہنسی سنجیدگی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی کسی بات پر یہاں تبسم بلب ہو گئے اور کسی بات پر وہاں چرنجی لال نے اسی مفہوم پر مشتمل ایک شعر بھی پیش کیا ہے۔ جواس محاورہ کی طرح خود بھی Rareہے۔

؂ یہاں ٹھہرے کبھی وہاں ٹھہرے

دو دو مُنہ ہنس لئے جہاں ٹھہرے

( 23 ) دودھ بڑھانا، دودھ بھر آنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے گھر آنگن کی زندگی کا عکس یا  تو ہمارے علاقائی گیتوں میں ملتا ہے جنہیں ’’لوک گیت‘‘ کہتے ہیں یا ہماری سماجی رسمیں اُس کی عکاسی کرتی ہیں۔ جب بچہ کو دُودھ پلانا شروع کیا جاتا ہے تو اس کو چھٹی کی رسم کہتے ہیں اس میں دُودھ دھُلائی کی رسم بھی شامل ہے۔ جس پر نندوں کو نیگ دیا جاتا ہے۔ دُودھ بڑھانا دُودھ چھُڑانے کو کہتے ہیں۔ چونکہ چھُڑانے کا لفظ اچھا نہیں لگتا اسی لئے دودھ بڑھانا کہا جاتا ہے۔

دُودھ کو ماں کے احسانات میں بڑا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اسی لئے ہمارے ہاں یہ رسم بھی ہے کہ ماں کے مرنے پراس کا جنازہ اٹھنے سے پہلے دُودھ معاف کرایا جاتا ہے۔ جو بچہ کسی وجہ سے دوسری ماؤں کا دُودھ پیتے ہیں وہ ان بچوں کے دُودھ شریک بھائی ہوتے ہیں جن کی ماں اُن کی دُودھ پلائی ہوئی ہے۔

اس معنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں دودھ کا بہت احترام کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ہندوؤں میں گائے کو گؤ ماتا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بچے بڑے اس کا دودھ پیتے ہیں۔ مندروں میں ایسی مقدّس عورتیں بھی ہوتی تھیں جو مادر برہمنا کہلاتی تھیں یعنی اُن کو جگت ماتا کہا جاتا تھا۔ مشہور گیت ہے۔

؂ جے جے جے جُگدمے ماتا

اے جگت کی ماں تجھے ہزار بار پر نام اور سلام۔

اِس سے ماں دُودھ اور  دودھ کے حقوق جو ہماری سماجی نفسیات کا حصّہ ہیں اُس پر روشنی پڑتی ہے۔

( 24 ) دو کوڑی کا آدمی۔ دو کوڑی کی بات کر دینا، دو کوڑی کی عزت ہو جانا، دو کوڑیوں کے مول بِکنا کوڑی پھیرا ہونا وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کوڑی سِیپ کی ایک قسم ہے اور سمندروں ہی سے آتی ہے بیسویں صدی کے نصف اوّل تک یہ ہمارے سکوں میں بھی داخل تھی اور چھدام کے بعد کسی شے کا مول کوڑیوں میں ادا کیا جاتا تھا دیہات اور قصبات کے لوگوں کو کوڑی کا تلفظ ’’ڑ‘‘ کے بجائے ’’ڈ‘‘ سے کرتے ہیں۔ اور جو چیز بہت سستی اور  بہت معمولی قیمت کی ہوتی ہے اسے کوڑی سے نسبت کے ساتھ ظاہر کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ تو اس لائق بھی نہیں کہ اُسے ایک کوڑی دے کر خریدا جائے اس کے لئے دیہات والے کہتے ہیں یہ تو کوڑی کام کا بھی نہیں یا دو کوڑیوں کا آدمی ہے کسی چیز کو شہر والے بھی جب سننا ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو کوڑیوں کے مول بولتے ہیں حویلیاں کوڑیوں کے مول بک گئیں جس کو بہت چالاک ظاہر کرنا چاہتے ہیں یہ طنز کے طور پر کہا جاتا ہے وہ تو دو منٹ میں اچھے سے اچھے آدمی کی کوڑیاں کر لے یعنی کوڑیوں کے مول بیچ دے۔

دو کوڑی کی بات کرنا یا  دو کوڑی کی عزت ہو جانا بے عزتی کو کہا جاتا ہے ایسے ہی آدمی کے لئے کہتے ہیں کہ وہ تو دو کوڑی کا آدمی ہے اسی بات کو ہم ٹکے کے ساتھ ملا کر کہتے ہیں۔ جیسے دو ٹکے کا آدمی اس بات کو پیسے کی نسبت سے بھی کہا جاتا ہے۔ جیسے تین پیسے کی چھوکری، یا ڈیڑھ پیسے کی گڑیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوڑی سے لیکر پیسے تک قیمت کا تعین کبھی ہوتا تھا اور اسے سماجی اونچ نیچ کے پیمانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور اس طرح کے محاورے ہمارے ذہن کو زندگی سے اور زندگی کو زمانے سے جوڑتے ہیں آج کوڑیاں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ پیسے دھیلے اور چھدام کے صرف نام رہ گئے ہیں لیکن ایک وقت اِن سے ہم سماجی درجات کے تعین میں فائدے اُٹھاتے تھے۔ اور کسی وجہ سے وہ محاورات سانچے میں ڈھل گئے۔

( 25 ) دونوں گھر آباد ہونا۔ دونوں وقت ملنا، دونوں ہاتھ تالی بجتی ہے۔ دونوں ہاتھوں سلام کرنا۔ دونوں ہاتھ جوڑنا۔ دو دو ہاتھ اُچھلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہاتھ انسانی زندگی میں کارکردگی کی ایک اہم علامت ہے وہیں سے داہنے ہاتھ اور  بائیں ہاتھ کی تقسیم بھی عمل میں آتی ہے۔ اور  یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو میرے ہاتھ کا کھیل ہے۔ یا یہ  تو اس کا دایاں ہاتھ ہے۔ دونوں ہاتھ جوڑنا یا  دو دو ہاتھ ہونا دوسری طرح کے محاورے ہیں جب دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کیا جاتا ہے تو اس کے معنی انتہائی احترام کے ہوتے ہیں اور دست بستہ آداب کہتے ہیں اِس کے مقابلہ میں دونوں ہاتھ جوڑ دیئے یعنی اپنی طرف سے بے تعلقی بیزاری اور معذرت کا اظہار کیا۔

’’تالی دونوں ہاتھوں ہی سے بجتی ہے یعنی ذمہ داری کسی بھی برائی کے لئے دو طرفہ ہوتی ہے۔ غلطی پر کوئی ایک نہیں ہوتا دوسری طرف سے بھی اکثر غلطیاں ہوتی ہیں۔ سماجی جھگڑوں میں اس طرح سے فیصلے زیادہ بہتر اور  بے کار ہوتے ہیں جس میں دونوں طرف کا بھلا ہوا محاورے کے اعتبار سے دونوں گھر میں جائیں یہ نہیں کہ دونوں گھر اُجڑ جائیں۔ دونوں وقت ملنا شام کے وقت کے لئے کہا جاتا ہے اُردو کا مشہور مصرعہ ہے۔

؂ چلئے اب دونوں وقت ملتے ہیں

مگر یہ ایک طرح کا شاعرانہ اندازِ بیان ہے اور سماجی فکر پربھی اثرانداز ہوا ہے کہ جب دن رات مل رہے ہوں تو کوئی دوسرے درجہ کی بات نہ کہنی چاہئے یا کرنی چاہئے یہ وقت احتیاط کا تقاضہ کرتا ہے اور  اس میں کوئی شک نہیں کہ جب دن گزر جا تا ہے شام ہو جاتی ہے تو آدمی کو وقت کے گزرنے کا احساس زیادہ شدت سے ہوتا ہے جس کی طرف میرؔ کا یہ شعر اشارہ کرتا ہے۔

؂ صبح پیری شام ہونے آئی میرؔ

تو نہ جیتا اور بہت دن کم رہا۔

 اردو کا یہ مشہور شعر بھی یاد آ رہا ہے۔

؂ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عُمر یونہی تمام ہوتی ہے

جب آدمی کسی بات پر خوشی کا اظہار کرتا اور بے طرح کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس کا دل دو دو ہاتھ اُچھل رہا ہے یہاں ہاتھ پیمانہ ہے یعنی بہت اُچھل رہا ہے ویسے بلیّوں اُچھلنا بھی کہتے ہیں جو ایک نعرہ آمیز صورت ہے مگر مبالغہ ہماری سوچ اور ذہنی Approachکا حصّہ ہے عام گفتگو میں اور محاورات میں بھی جہاں مبالغہ Preserveہو جاتا ہے۔

( 26 ) دھبا،دھبا لگنا،دھبا آنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دھبّا ہماری سماجی لغت کا نہایت اہم لفظ قرار دیا جا سکتا ہے یہ لفظ بعض مواقع پر داغ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور  داغ دھبا کہلاتا ہے۔ اسی سے دھبے کی سماجی نوعیت اور  اہمیت کا اظہار ہوتا ہے۔ کہ دھبّا کسی چیز پر آتا ہے، لگتا ہے۔ یا لگایا جاتا ہے۔ تو وہ داغ کا حکم رکھتا ہے۔ اور  عام طور پر جب دھبّا لگتا یا  دھبا آنا بولتے ہیں تو اُس سے مُراد داغ لگنا ہی لیا جاتا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ دھبّا پڑ گیا خاندان کو دھبا لگ گیا یعنی خاندان بے عزت ہو گیا۔

( 27 ) دھجی،دھجیاں اڑانا،دھجیاں اڑنا،دھجیاں لگنا، دھجیاں ہونا، دھجی دھجی ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ سب محاورے اپنی مختلف صورتوں میں بے حِس ہونے یا بے قدر ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ وہ کپڑا کہاں ہے ذرا سی دھجی ہے یا اُس کے کپڑے دَھجی دَھجی ہو گئے یا وہ دھجیاں لگائے پھرتا ہے۔ یا دھجیوں کو بھی وہ تہہ کر کے رکھتا ہے یعنی اسی طرح کے کپڑے کہیں ریزوں کی طرح تہہ کر کے رکھے جاتے ہیں اِن میں تو دھجیاں لگی ہوئی ہیں۔

اِس سے ہم سماجی ردِ عمل اور معاشرتی سطح پر جو سوچ بنتی رہتی ہے اور ہمارے کمینٹ (Comments)سے گزرتی ہے۔ اس کا اظہار ہوتا ہے کپڑا ہماری سماجی زندگی کی ایک نہایت اہم جزء ہے اس کا پہننا اوڑھنا اور اچھا اور برا ہونا بھی قیمتی اور بے قیمت ہونا بھی دوسروں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ اس کا اظہار اس کہاوت سے بھی ہوتا ہے’’ کھائیے من بھاتا پہنے جگ بھاتا ‘‘یعنی دوسروں کی نظر بے اختیار لباس کی طرف اٹھتی ہے اور اسی کی حیثیت کے مطابق آدمی کی شخصیت شعور اور ذاتی حیثیت کا تعین کیا جاتا ہے۔

( 28 ) دَھرم کرنا،دَھرم لگتی کہنا، دَھرم سے کہتا ہوں۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دَھرم ہندو اپنے مذہب کو کہتے ہیں اور  اُس کو قانون قدرت اور دستورِ فطرت سمجھتے ہیں اسی لفظ کا تلفظ بدھزم میں دھمّا ہے۔ اور  بودھ مذہب کی مذہبی کتاب کو ’’دھم پد‘‘ کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔ دھرم گر و، مہاتما گوتم بدھ کے لفظ میں اب چاند گرہن کے موقع پر نیچ قوم کے جو لوگ خیر خیرات مانگنے آتے ہیں وہ دھرم گرو کہتے ہیں۔ دھرم کی کہنا اس سے مراد ہے دیانت دار ی کے ساتھ ایمان کی بات کہنا۔ دھرم لگتی کہنا بھی ایمان داری کی بات ہے۔ دھرم مُورت ہے کسی بہت بڑے مہاتما یا سادھو سنتھ کو کہا جاتا ہے اِس کے معنی یہ ہیں کہ یہ محاورے کلچر،عقیدہ،خیال کئی دائروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِن میں ہندو مسلمان دراوڑ،آریہ اور ہند ایرانی کلچر کے اثرات کو موقع بہ موقع جگہ بہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ دَھرم سے کہتا ہوں یعنی خدا کو حاضر و ناظر کر کے کہتا ہوں۔ یا قسم کھاتا ہوں۔ دھرم سوامی نام بھی رکھے جاتے ہیں۔ مگر زیادہ تر مذہب کے بڑے نمائندوں کو دھرم سوامی کہا جاتا ہے۔ دھرم داس،دھرم نارائن،دھر م پال جیسے نام ہندوؤں میں عام ہوتے ہیں۔

( 29 ) دھُرے اڑانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مغربی یوپی میں یہ محاورہ عام ہے اور اِس کے معنی ہوتے ہیں بُری طرح پیش آنا سخت سزا دینا اور اذیت پہنچانا،ممکن ہے یہ لفظ دُرے سے بنا ہو۔ عربوں میں دُرے مارکر سزا دی جاتی ہے اور  یہاں بھی دھُرے اُڑانے میں سزا ایذا پہنچانے کا تصور شامل رہتا ہے۔

’’چرنجی لال ‘‘نے ا س کے مفہوم میں دھجیاں اُڑانے کو بھی شامل کیا ہے۔

( 30 ) دہلی کا کُتّا، دہلیز کا کتا، دہلیز نہ جھانکنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کتا اگرچہ ایک وفا دار جانور ہے لیکن اُس کا نام تک ذلت کے ساتھ لیا جاتا ہے ہم اپنی سماجی زندگی میں کتے کو بے عزت سمجھتے ہیں۔ اور بے عزتی کے ساتھ اُس کا نام لیتے ہیں۔ بلکہ کُتّا کہنا یا کُتّا کہہ کر پکارنا ہماری سماجی زبان میں ایک طرح کی گالی ہے۔ ’’کتے بلی کی زندگی گزارنا ہے، بے عزت ہو کر جینا ہے اسی لئے جسے ’’دہلی کا کتا‘‘ کہتے ہیں اُسے مفت خور، بے عزت اور  گرا پڑا قرار دیتے ہیں۔ ’’کتے بھونکنا‘‘ ویرانی کے لئے آتا ہے۔ اور  جب یہ کہتے ہیں کہ اُن گلیوں میں کُتے روتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ آسیب زدہ ہے۔ اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب آسمان سے بلائیں اترتی ہیں تو وہ کتوں کو نظر آ جاتی ہیں۔ اور اسی کو دیکھ کر روتے ہیں۔ اسی لیے کتے بلی کا رونا منحوس خیال کیا جاتا ہے۔ یہ ہمارے سماج کی تو اہم پرستی ہے اور یہ بھی واقع ہے کہ کتے بعض چیزوں کو سونگھ کر اچھے بُرے کا پتہ چلا لیتے ہیں۔ اور اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔

کتے کی دُم ہونا،یعنی اس کا اپنا ایک کردار ہے، بُرا کردار جس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔ کُتے کے گلے پٹہ باندھنا،یعنی ’’تابعدار بنانا، کتے کی طرح دم ہلانا ‘‘یعنی عاجزی اور خوشامد کا اظہار کرنا۔

گلی کا کُتّا ہونا کسی کام کا نہ ہونا اسی لئے کہتے ہیں اور دھوبی کے کتے سے اُسے تشبیہہ دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دھوبی کا کتا گھرکا نہ گھاٹ کا،دہلیز نہ جھانکنا، دہلیز پر کھڑا ہونا، اس کے یہ معنی ہیں کہ ادھر کوئی آیا بھی نہیں۔ دروازے پر کھڑا بھی نہیں ہوا۔ مانگنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ اصل میں دروازے پر جانا اس کی طرف اِشارہ ہوتا ہے کہ کسی سے کچھ مانگنے گیا ہے اِس کی طرف ہمارے فارسی اور اردو لٹریچر میں برابر اشارے آتے رہے ہیں۔

( 31 ) دہلی کے لیولے ڈالنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ عجیب و غریب محاورہ ہے ’’لیور‘ مٹی کی تہوں کو کہتے ہیں اگر کسی آدمی کے بار بار آنے جانے سے ’’لیور‘‘ اُکھڑ جائیں اور مٹی کی تہیں باقی نہ رہیں تو آنے جانے کی زیادتی کا اندازہ ہوتا ہے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اردو کا مشہور مصرعہ ہے۔

؂ قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا

مگر کسی فرض کی ادائیگی یا ضروری کام سے جانا اس حکم میں نہیں آتا۔ اس سے ہم سماجی رویوں کا پتہ چلا سکتے ہیں کہ وقت کی بھی کوئی قدر و قیمت ہوتی ہے اور آدمی کی بھی خواہ مخواہ اپنا اور دوسرے کا وقت ضائع کرنا، اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

( 32 ) دھُند کا پسارا ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دھُند کا پھیلا رہنا آنکھوں سے نہ نظر آنا ہے خواہ وہ آنکھوں کی کمزوری کے باعث ہو یا دھُواں گھٹنے کی وجہ سے ہو یا دھُند پھیل جانے کی وجہ سے ہم جب نہیں دیکھ سکتے تو دھوکا  کھا جاتے ہیں فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں اسی لئے دھوکہ یا فریب کو یعنی  ’’دھُند کا بسارا‘‘ کہتے ہیں۔ ’’دھُندلکا‘‘ اسی سلسلے کا ایک بہت معنی خیز لفظ ہے دھندلکا چھایا ہوا ہے یعنی صورتِ حال صاف نہیں ہے۔

( 33 ) دَھن دَھن کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مبارک باد دینا،بہت مشہور فقرہ ہے کام سنواروں اپنا دَھن دَھن کریں لوگ کا بگاڑو اپنا پَھٹ پَھٹ کریں لوگ، سماج میں دَھن دولت کو بھی کہتے ہیں اور خوشی کے اظہار کو بھی خواہ مخواہ دَھن دَھن کرنا زور زور بولنا بیکار باتیں کرنا ہے۔

’’دھن‘‘ سوار ہونا کسی چیز کا بے حد شوق ہونا۔ اور اس کے لئے مارے مارے پھرنا جیسے ہم داستانوں میں دیکھتے ہیں۔ دھُن کا پکا ہونا اپنی بات پر اڑے رہنا اور ذرا اسی دیر میں اِدھر اور ذرا سی بات میں اُدھر ہونے کا جو عام رو یہ ہوتا ہے اُس کے خلاف ہونا دھونی زمانہ سادھو سنت جہاں بیٹھ جاتے ہیں وہاں آگ جلاتے ہیں وہ آگ اُن کے ’’ہون‘‘ کی علامت ہوتی ہے۔

جس میں خوشبو دار چیزیں بھی ڈالی جاتی ہیں اُسے دھونی ’’رمانا‘‘ کہتے ہیں اور اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک جگہ دھیان گیان کے خیال سے بیٹھ گئے اور  دوسری باتوں سے اپنا رشتہ منقطع کیا تو اس کو دھونی رمانا کہتے ہیں کہ وہ تو وہاں دھونی رما کر بیٹھ گئے یہ ہندو روایت سے وابستہ محاوروں میں ہے۔ اور ہمارے سماج پر ہندو مذہب کے اثرات کا اظہار کرنے والی ایک روایت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

( 34 ) داہنے اور بائیں ہاتھ سے ایک ساتھ کھانا حرام ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دایاں ہاتھ سے کھانا کھانا حرام ہے ہم لوگ اچھے بُرے جائز ناجائز مناسب یا مناسب کو مذہبی انداز سے پیش کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ داہنا ہاتھ ہمارے خیال میں عزت و احترام کی ایک علامت ہے اور بہت قدیم زمانے سے اِس پر زور دیا جاتا ہے داہنے ہاتھ سے کھاؤ داہنے ہاتھ سے لکھو یا داہنا ہاتھ ملاؤ یا پھر داہنے ہاتھ سے سلام کرو وغیرہ اس کے مقابلہ میں بائیں ہاتھ سے کھانا ایک طرح کا سوئے ادب یا بدتمیزی خیال کی جاتی ہے اور دونوں ہاتھ ایک ساتھ ملا کر کھانا ایک بہت ہی بے تکی بات ہے اِشارہ اسی کی طرف کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ حرام ہے۔

اِس سے ہماری اپنی معاشرتی فکر کا اندازہ ہوتا ہے اور  مذہب پراس کے اعتماد و اعتقاد کا کہ وہ ہر بات کو حلال و حرام کے دائرے میں تقسیم کر دیتی ہے ہم بائیں ہاتھ سے آب دست لیتے ہیں اس لئے کہ کھانا دائیں ہاتھ سے کھاتے ہیں اس میں کوئی برائی نہیں لیکن کچھ لوگ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے ہوتے ہیں (Left Hander)یہ اُن کی فطری مجبوری ہوتی ہے اس کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ہمارا ایک عام رو یہ ہے کہ ہم ایسے معاملات کو الگ الگ خانوں میں رکھ کر نہیں دیکھتے انہیں تعمیم (Over simplification)کی منزل سے گزارتے ہیں جب کہ فرق و امتیاز کا باقی رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

( 35 ) دھنیے کی کھوپڑی میں پانی پلانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ایک خاص طرح کا محاورہ ہے اور ہمارے مشرقی مزاج کی نمائندگی کرتا ہے ’’دھنیا‘‘ ایک بہت چھوٹا سا اندر سے کھوکھلا بیج ہوتا ہے۔ وہ اگر دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے تو اس کا ایک ٹکڑا وہ کوئی سا بھی ہو دھنیے کی کھوپڑی کہلاتا ہے۔ اس میں کوئی چیز بھری تو جا سکتی ہے۔ مگر اس کی مقدار کچھ بھی نہیں ہو گی۔ اور اس میں پانی پلانا حد درجہ کی بخیلی بلکہ دوسرے کے ساتھ ایک سطح پر ذلیل سلوک ہے جو ہرگز نہ ہونا چاہیے۔

پیاسے کو پانی پلانا بہت بڑا ثواب ہوتا ہے۔ پانی کی مقدار بھی زیادہ ہونی چاہئیے اور صاف سُتھرے برتن میں ہونا چاہیے اسی لئے جب کسی کے ساتھ بُرا سلوک ہوتا ہے اور  اُس میں بخیلی شامل ہوتی ہے۔ تو اُسے دھنیے کی کھوپڑی میں پانی پلانا کہتے ہیں۔

( 36 ) دھُواں دھار برسنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے ہاں پانی دھُوئیں کا لفظ عوامی معاشرت میں بڑی اہمیت رکھتا تھا اس لئے کہ دھوئیں کا تعلق آگ سے ہے اور آگ پرستش کا عنصر بھی رہی ہے اور مقدّس سمجھی گئی ہے اسی لئے مسلمانوں کے بعض مذہبی کاموں میں بھی دھواں شامل رہتا ہے۔ مثلاً لوبان جلانا جو  تیجے کی رسم میں ہوتا ہے۔ یعنی خوشبو  کے لئے وہ کام کیا جاتا ہے مگر دھوئیں کے ساتھ اسی لئے بھُوت پریت کا اثر دور کرنے کی غرض سے دھونی دی جاتی ہے جہاں مویشی باندھے جاتے ہیں وہاں بھی دھونی دینے کا رواج رہا ہے اور اب بھی ہے۔

گھر سے دھُواں اُٹھتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ آگ موجود ہے اور ’’چولھا ‘‘جل رہا ہے ایک کے گھر سے آگ مانگ کر دوسرے کے گھر میں چولہا جلایا جاتا تھا۔ اس طرح سے ’’دھُواں گھٹنا‘‘ دھُواں اٹھنا بھی محاورہ بنا۔ اور دھوئیں اُٹھانا بھی یہاں تک کہ جب بارش بہت زور سے پڑتی ہے یا برستی ہے تو اُسے دھواں دھار بارش کہتے ہیں۔

اس طرح سے ہم اپنے محاوروں کے ذریعہ ایسی معاشرتی نفسیاتی تہذیبی اور  اس زندگی کو پیش کرتے ہیں جو  ہم موسموں کے تحت گزارتے ہیں۔

( 37 ) دھُوپ میں بال سفید کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بالوں کا سفید ہو جانا بہت سے تجربوں سے گزرنا ہے بہت سی معلومات حاصل کرنا ہے۔ اور دقت سے بہت کچھ سیکھنا ہے ہمارے ملک میں اسی لئے اس کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے کہ کوئی شخص زیادہ عمر کا ہے انگریزی میں بھی اسے سینئر شہری Senior Citizenکہتے ہیں یعنی اس کی زیادہ عمر کا احترام کرتے ہیں۔

بالوں کی سفیدی کو عُمر سے اور عُمر کو عقل سے اور تجربہ سے نسبت دی جاتی ہے۔ اسی لئے گاؤں کے لوگ بڑے بوڑھوں کو ’’بدمنئر‘‘ بڑے سروالا کہا جاتا ہے۔ اور سفید بال Maturityکا نشان سمجھے جاتے ہیں اسی لئے ہمارے یہاں روایتی طور پر لوگ اپنی عمر کو اپنی بڑائی کا نشان بھی خیال کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بال دھُوپ میں سفید نہیں کئے یعنی اُن کی سفیدی سے ہماری عمر ہماری عقل اور ہمارے تجربہ کا پتہ چلتا ہے۔ اور جب کسی کی عقل کی کمی اور عمر کی زیادتی کو ظاہر کرنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں کیا تم نے یہ بال دھوپ میں سفید کئے ہیں اس سے ہمارے محاوروں کا ہماری زندگی ہماری معاشرت اور ہمارے تہذیبی رشتوں سے وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔

( 38 ) دھوکے کی ٹٹی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پُر فریب صورت، مکاری اور دغا بازی کا طریقہ’’،ٹٹا‘‘، ٹٹی،گھاس پھونس کے پردے کو کہتے ہیں جو گھروں کے سامنے عام طور پر لگایا جاتا تھا۔ ایسے ہی کچّے پکّے اور گھاس پھُوس کے جھونپڑے بھی ہوتے تھے جب ٹٹی کے ذریعہ کسی دھوکے بازی کو چھُپا یا جاتا تھا۔ یعنی اس کی کوشش کی جاتی تھی تو اُسے ٹٹی کی اوٹ میں فریب دینا کہتے تھے ممکن ہے یہ طریقہ خاص طور سے شکار کرنے کے موقع پر اختیار کیا جاتا ہو اِس لئے کہ ذوقؔ نے اپنے ایک شعر میں ٹٹی کی اوجھل (اوٹ ) شکار کرنے کی بات کی ہے اور کہا ہے۔

؂ کرتی ہے قصد ٹٹی کی اوجھل شکار کا

(ذوقؔ)

؂ خط نکلنے پر بھی گیسو میں پھنسے مرغ نظر

دھوکے کی ٹٹی تیرے عارض کا سبزہ ہو گیا

(نامعلوم)

( 39 ) دھُول اُڑانا یا خاک اُڑانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہلکی باریک مٹی کو کہتے ہیں جو ہوا کے ساتھ اُڑتی رہتی ہے بچے کھیل میں بھی مٹھیاں بھر بھر کر ہوا میں اچھلتے اور خاک اڑاتے رہتے ہیں جب تیز ہوا چلتی ہے تو خاک بے طرح اڑتی ہے اسی سے ہمارے یہاں یہ محاورہ آیا کہ خاک دھُول کی طرح اڑا دیا یہ عام طور سے اُن لوگوں کے لئے کہا جاتا ہے اور کہا جاتا رہا ہے جو دوسروں کی محنت کو برباد کرتے ہیں اور خاندانی اثاثہ کو اپنی بیوقوفیوں سے برباد کر دیتے ہیں اس میں زمین و جائیداد بھی ہو سکتی ہے زر و زیور بھی ہو سکتا ہے اور عزت و وقار بھی اسی لئے ہمارے یہاں خاک دھُول سے مطابق بھی بہت سے محاورات ہیں۔

( 40 ) دہلیز کا کتّا، دہلیز نہ جھانکنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دہلیز گھرکی چوکھٹ کو کہتے ہیں ایک زمانہ میں یہ ہمارے یہاں بڑی اہمیت کی بات ہوتی تھی کہ کوئی آدمی بزرگوں کی چوکھٹ کو آ کر چُومے اور اُسے سلام کرے ۔ہندو جاٹیوں میں دُوکان کی چوکھٹ کو آج بھی چوما جاتا ہے اور گھرکی چوکھٹ کو سلام کیا جاتا ہے۔

صوفیوں کی خانقاہوں کے ساتھ یہ رو یہ عام مسلمانوں میں بھی موجود ہے جو لوگ اُس کی پرواہ نہیں کرتے اُن کے لئے کہا جا تا ہے کہ وہ کبھی دہلیز بھی نہیں جھانکتے یعنی کبھی آ کر بھی نہیں پھٹکتے اس کے مقابلہ میں جو آدمی بے غیرتی کے ساتھ کسی کے دروازے پر پڑا رہتا ہے اس کو دہلیز کا کتّا کہتے ہیں اب اس لفظ کا استعمال ہمارے یہاں کم ہو گیا ہے۔ گاؤں والے اپنے تلفظ کے مطابق اس کو دہلیج کہتے ہیں۔

( 41 ) دہلی کے لیولے ڈالنا، یا لے ڈالنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اسی طرح وہ آدمی جو اپنی غرض کے لئے کسی کے دروازے کے چکر لگا تا رہتا ہے اس کے لئے کہتے ہیں کہ وہ دہلیز کے لیولے لے ڈالتا ہے ’’لیوڑ‘‘ دراصل بدن یا زمین پر الگ سے جو مٹی یا میل کچیل جم جاتا ہے تو اُسے  لیور کہتے ہیں اور یہاں لیوڑے لینے کے معنی اُسی کو ہٹا دینے کے ہیں۔

ہمارے جغرافیائی حالات کا اثر ہماری سوچ پر کس طرح مرتب ہوتا ہے اور ہماری جو معاشی اور معاشرتی زندگی ہوتی ہے اِس سے ہماری فِکر اور ہماری زبان کس طرح کے اثرات قبول کرتی ہے۔

( 42 ) دھُوم ڈالنا، دھُوم مچانا، دھُوم ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دھُوم دھُوم دَھام حواشی سے تعلق رکھنے والی لفظیات میں سے ہے اسی لئے دھُوم مچانا خوشی کے ساتھ آوازیں نکالنے کو بھی کہتے ہیں کسی اچھی خبر کی شہرت کو بھی کہ اُس کی دھُوم مچ گئی سارے شہر میں دھُوم مچ رہی ہے دھُوم دھام ہو رہی ہے یعنی خوشیوں کا ماحول ہے۔ باجے تاشے بج رہے ہیں زمینداروں جاگیرداروں بڑے بڑے ساہوکاروں بادشاہوں اور نوابوں کے یہاں جب خوشی کے جشن منائے جاتے تھے تو عام طور پر سارے شہر یا علاقے میں دھُوم دَھام کا ماحول ہوتا تھا۔ اِن لفظوں سے بنے ہوئے محاورات کے ذریعہ ہم ماضی میں گزاری جانے والی اپنی معاشرتی اور تاریخی زندگی کے کچھ پہلوؤں سے واقف ہوتے ہیں اور آج بھی یہ صورتِ حال ہوتی ہے تو اُس سے لطف لیتے ہیں اور اُس کا ذکر اچھا لگتا ہے۔

( 43 ) دھونس دینا، دھونس میں آنا، دھونس کی چلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دھونس دیہاتی زبان میں نقّارے کو کہتے ہیں اور نقارہ شہرت و اقتدار اور انتظام کی ایک علامت کے اعلان کے بھی ہیں اسی لئے نوبت ونشان بادشاہی حکومت کی نشانیاں ہوتی ہیں۔ نوبت نقارہ ہی کو کہتے ہیں۔

یہاں سے گزر کر دھونس ایک نئے معنی اور نئے پس منظر کے ساتھ ہمارے محاورہ میں استعمال ہوتا ہے اور جب ہم دھونس دینا کہتے ہیں تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ کوئی شخص زبردستی اپنی بات منوانا چاہتا ہے اور اپنی بات کا پریشر ڈالنا چاہتا ہے۔

دیہات والے بھی دھونس دینے کو اسی معنی میں استعمال کرتے ہیں شہر کے عام لوگوں کی زبان پربھی یہ محاورہ اسی معنی میں آتا ہے اور اُس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سماج میں اچھے بُرے لوگوں کا رو یہ کیا کیا شکلیں اختیار کرتا ہے تو دھونس دینا دھونس نہیں لینا یا دھونس میں آ جانا انہی سماجی رویوں اور  اُن کے اثرات کی طرف اشارہ ہے۔

( 44 ) دھینگا دھینگی کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دھینگا مُشتی کرنے کو بھی کہتے ہیں اور یہ اسی طرح کا ایک عمل ہے جیسے دھول دھیّا کرنا جو عام لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر لڑنے جھگڑنے کے لئے تیا رہو جاتے ہیں۔ یہاں ہم ایک بار پھر اس طرف توجہ دینے پر مجبور ہوتے ہیں کہ محاورات دراصل ہمارے سماج کے رویوں کا مطالعہ ہے کیونکہ وہ عام زبان میں ہے اور عوامی بولی ٹھولی کا حصّہ ہے اس لئے اس کا احساس نہیں ہوتا کہ ہمارے سماجی رویوں کے کون کون سے پہلو ایسے ہیں جو ہمارے محاورے جن پر روشنی ڈالتے ہیں اور  Comment کرتے ہیں۔

( 45 ) دید نہ شنید۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دونوں لفظ فارسی کے ہیں ’’دیدن‘‘ کے معنی دیکھنا اور  شنیدن کے معنی سننا عام طور پر اس زمانہ میں پڑھنے لکھنے کا رواج بہت کم تھا آدمی تمام تر بھروسہ اپنی معلومات کے لئے دیکھنے پر کرتا تھا یا سننے پر اسی لئے لوگ یہ کہتے نظر آتے تھے کہ نہ کہیں دیکھا نہ سنا لکھنے پڑھنے کا ذکر ہی نہیں آتا۔ اس سے ہم اپنے گزرے ہوئے زمانہ کی تہذیبی فضاء کو جان سکتے ہیں اور یہ بھی کہ فارسی کے اثرات ہماری زبان پر اس طرح مرتب ہوئے ہیں کہ ہم نے فارسی محاوروں کا ترجمہ کیا ہے ’’دید و شنید‘‘ فارسی محاورہ ہی ہے دیکھا نہ سنا اس کا ترجمہ ہے جس سے اِس امر کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ فارسی اثرات کو ہم نے اپنی زبان اپنے بیان اور اپنے فکری رویوں میں اسی طرح ایک زمانہ میں جذب کیا ہے جیسے آج کل انگریزی خیالات اور لفظیات کو جذب کرتے ہیں۔

( 46 ) دیدہ دلیر،دیدہ دلیری، دیدہ دھوئی، دیدہ ریزی، دیدہ ہوائی ہونا، دیدے کا پانی ہونا، دیدے کی صفائی دیدے نکالنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دیدہ دیکھے ہوئے کو کہتے ہیں لیکن اردو میں دیدہ آنکھوں کے معنی میں آتا ہے اور آنکھوں کا ہمارے خیالات ہمارے سوالات اور  چہرے کے تاثرات سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ آدمی میں جب ایک طرح کی بے حیائی آ جاتی ہے اور وہ اپنی کسی بری بات پر شرماتا بھی نہیں تو اُسے دیدہ دلیری کہتے ہیں اور ایسا آدمی دیدہ دلیر کہلاتا ہے عورتوں میں ایک اور  محاورہ بھی رائج ہے دیدہ دھوئی یعنی اس نے اپنی آنکھوں کی شرم و حیاء، غیرت اور  پاسداری بالکل ختم کر دی اسی کو آنکھوں کا پانی ڈھل جانا بھی کہتے ہیں۔

’’ہوائی دیدہ یا دیدہ ہوائی‘‘ عورتوں کا محاورہ ہے اور اس کے معنی غیر سنجیدہ طرز نگاہ ہے کہ اُدھر بھی دیکھ لیا اِدھر بھی دیکھ لیا لیکن سوچ سمجھ سے کوئی واسطہ نہ رکھا۔ اسی لئے ایسے لڑکے اور لڑکیوں کو جو اپنی ذمہ داریوں سے دُور رہنا چاہتے ہیں اور اِدھر اُدھر کی باتوں میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں اِس کو ’’دیدہ ہوائی‘‘ کہتے ہیں۔

’’دیدہ ریزی‘‘ فارسی ترکیب ہے اور اُس کے معنی ہیں بہت دیکھ بھال کر یا کسی تحریر کو پڑھنے اور سمجھنے میں محنت شاقہ برداشت کرنا جوکم ہی لوگ کرپاتے ہیں۔ دیدے کی صفائی ‘‘اسی معنی میں آتا ہے جس معنی میں دیدہ دھوئی آیا ہے ’’دیدے نکالنا‘‘ آنکھیں دکھانے کو کہتے ہیں اور جو بہت گھٹیا آدمی ہوتا ہے اسے نہ دیدہ کہتے ہیں یعنی اس نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔

( 47 ) دیواریں چاٹنا،دیوار کھینچنا، دیوار ڈھانا، دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں، دیوار قہقہہ ہونا، دیوار اُٹھانا، دیوار اُٹھنا، دیوار کوٹھے چڑھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دیوار سے مطابق بہت سی روایتیں ہمارے مذہبی لٹریچر میں بھی آئی ہیں تاریخ میں بھی سچ یہ ہے کہ دیوار ہماری معاشرتی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ چینیوں نے منلولوں کے حملے روکنے کے لئے ایک بہت لمبی دیوار بنائی تھی جو پندرہ سو کوس تک جاتی تھی۔ اس کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے اور تعمیری لحاظ سے دنیا کے سات عجائبات میں گنا جاتا ہے۔ اسی طرح ’’یاجُوج  ماجُوج‘‘ قوم کے لوگ کسی قدیم ملک میں گھس کر تباہی مچانا چاہتے تھے روایت کچھ اس طرح ہے کہ اُن کے اور اِس ملک کے درمیان سیسہ کی دیوار کھڑی کر دی گئی تھی جس سے وہ گزر کر  اندر نہ  جا پائیں اور وہ ملک ان کی تباہی سے محفوظ رہے۔

یاجُوج ماجُوج اس دیوار کو صبح سے شام تک چاٹتے ہیں جس سے وہ پتلی ہو جاتی ہے اور وہ یہ خیال کر کے کہ ہم کل اسے ضرور ختم کر دیں گے یہ کہہ وہ چلے جاتے ہیں رات کو پھر دیوار اپنی جگہ پر اسی طرح بھاری بھرکم ہو جاتی ہے۔

 اس کے علاوہ ایک دیوار کا اور تصور ہے جو ’’الف لیلہ‘‘ میں آیا ہے اور اُسے ’’دیوار قہقہہ‘‘ کہتے ہیں۔ کہ جواس کے اوپر چڑھ کر دوسری سمت دیکھتا ہے وہ بے طرح ہنستا ہے اور ہنستے ہنستے گر کر مر جاتا ہے اور یہ نہیں بتلا سکتا کہ ادھر ہے کیا۔

دیوار کا تصور حصا رسے بھی وابستہ ہے اور اُسے دیوارِ شہر کہتے ہیں گھریلو سطح پر دیوار کے اپنے ایک معنی ہیں وہ دیوارِ پردہ ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ گویا گھرکا تصور قائم ہوتا ہے۔ کوٹھے دیوار چڑھنا عورتوں کا محاورہ ہے اور اس ماحول کی طرف اشارہ کرتا ہے جب کہ گھرکی دیوار سے باہر جھانکنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی اور کوٹھے دیوار چڑھنے کو اس لئے منع کیا جاتا تھا کہ کوٹھے دیوار میں اس طرح ملی ہوتی تھیں کہ یہاں سے وہاں اور  وہاں آنا جانا کوئی مشکل بات نہیں ہوتی تھی مگر اسے عام طور سے پردہ دار عورتوں کے لئے اچھا نہیں سمجھا جا تا تھا۔

دیواریں پردہ کا بھی کام دیتی ہیں اور  راز داریوں کا بھی احتیاط اتنی بڑھتی جاتی تھی کہ بات کرنے کا وقت بہت آہستہ اس لئے بولا جاتا تھا کہ کوئی پاس پڑوس کا آدمی نہ سُن لے۔ اسی لے کہا جاتا تھا کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ کوٹھے دیوار جھانکنا بھی محاورہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اِدھر اُدھر آدمی جھانکتا پھرے یہ اچھا نہیں لگتا کنواری لڑکیوں کے لئے تو یہ اور بھی بُرا سمجھا جا تھا اسی لئے جب کسی لڑکی کی تعریف کی جاتی تھی تو یہ کہا جا تا تھا کہ کسی نے اِس لڑکی کو کوٹھے دیوار نہ دیکھا۔

دیوار اٹھنا یا دیوار اُٹھانا گھرکی تعمیری ضرورت کے لئے بھی ہوتا ہے اور دیواریں کھڑی کرنا گھرکی تعمیری ضرورت کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے دیوار کھڑی کرنا مشکلات اور مصیبتیں پیدا کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ میرے سامنے مشکلات کی دیواریں کھڑی کر دی گئیں ہیں۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔