05:58    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

محاورات

858 0 0 10

( 1 ) سات پردوں، یا سات تالوں میں چھُپا کر رکھنا،سات دھار ہو کر نکلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سات کا عدد ہماری تہذیبی زندگی اور تاریخی حوالوں میں خاص اہمیت رکھتا ہے اس میں مذہبی حوالہ بھی شامل ہیں۔ ہم سات آسمان کہتے ہیں سات بہشتیں کہتے ہیں۔ سات سمندر کہتے ہیں قوسِ قزح (دھنک) کے سات رنگ کہتے ہیں۔ سات ستارے کہتے ہیں یہ سب گویا ہماری سماجی فِکر کا حصہ ہیں اِس کو اگر ہم محاورات میں دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کا مزید احساس ہوتا ہے کہ سماجی زندگی سے سات کا عدد کس طرح جڑا ہوا ہے کوئی چیز تالوں میں بند کی جاتی ہے تو ایک سے زیادہ تالے لگائے جاتے ہیں کہتے ہیں لیکن محاورے کے طور پر سات تالوں میں بند کرنا کہتے ہیں اور اس طرح کہتے ہیں اور اس طرح پردوں کے ساتھ سات پردے کہتے ہیں۔ مقصد تاکید اور زیادہ سے زیادہ توجہ کی طرف ذہن کو منتقل کرانا ہوتا ہے اور اُس سے سماجی فکر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

جب کوئی بات ہماری نفسیات کا جُز بن جاتی ہے تو وہ ہمارے لسانی حوالوں میں آتی رہتی ہے اور اُس کے محاوروں میں شامل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ ہماری نفسیات میں گہرا دخل رکھتی ہے اصل میں لٹریچر کا مطالعہ سماجی نقطہ نظر سے یا ایک معاشرتی ڈکشنری کے طوپر نہیں ہوتا ورنہ محاورہ صرف زبان کا اچھا قدیم رو یہ نہیں ہے جو فرسودہ ہو چکا ہو یہ صحیح ہے کہ ہم شہری زبان میں اب محاورے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے قصباتی اور طبقاتی زبان میں ضرور محاورے کی اہمیت ہے لیکن محاورہ سماج کو سمجھنے کے لئے اور مختلف سطح پر محاورے استعمال اس کے رواج اور سماج سے اس کے رشتہ کے بارے میں جتنی معلومات ہمیں محاوروں سے ہو سکتی ہے وہ شاید لٹریچر کے کسی دوسرے لسانی پہلو اور ادبی رو یہ سے نہیں ہو سکتی۔

سات دھار ہو کر نکلنا یہ ایک اہم بات ہے اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم بہت سے اُمور کو سات کے دائرے میں لا لا کر رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں زیادہ تر چشمے ایک دھارے میں پھوٹتے ہیں یا ایک سے زیادہ دھاروں میں مگر سات دھارے ہمارے روایتی اندازِ فکر کو ظاہر کرتے ہیں اس لئے کہ دھاروں کے ساتھ سات کا عدد ضروری نہیں ہے۔ لیکن تہذیبی نقطہ نظر سے سات دھاروں کا تصور بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

( 2 ) ساز باز کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ساز کا لفظ فارسی ہے ’’ساز ‘‘ کسی بھی آلہ موسیقی کو کہہ سکتے ہیں ’’باز‘‘ کے معنی ہیں کھولنا یا دوبارہ حاصل ہونا جیسے ’’باز یافت‘‘ اسی معنی میں دوبارہ پا جانے کے عمل کو کہتے ہیں۔ ’’ساز‘‘ کسی لفظ کے ساتھ مِلا کر اِسم فاعل بھی بناتے ہیں جیسے گھڑی ساز، سُمن ساز،تاریخ ساز یہ فارسی زبان کے اردُو پر اثرات کی نمائندگی کرتا ہے اسی طرح ’’باز‘‘ کا لفظ بھی جب کسی لفظ کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے تو اسم  فاعل بن جاتا ہے جیسے ’’پٹہ باز‘ ‘ ’’بلَّے باز‘‘ یہاں تک کہ ’’تگڑم باز‘‘ اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ اِن دو لفظوں کو ملا کر ایک نئے معنی نکالے گئے یعنی ’’سازش‘‘ کہ اِس نے اِس معاملہ میں دوست یا دشمن کے ساتھ ساز باز کر لی۔ اِس اعتبار سے یہ ہماری سماجی زندگی سے گہرا رشتہ رکھنے والا ایک محاورہ بن جاتا ہے۔

لفظوں کا معاملہ عجیب ہے یہ طرح طرح کے معنی دیتے ہیں بعض معنی ذہن کو علمی بڑائی اور ادبی خوبصورتی کی طرف لے جاتے ہیں اور بعض سماج کی ذہنی اور عملی بدصورتیوں کو ظاہر کرتے ہیں الفاظ وہی ہوتے ہیں۔ لیکن معنی میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے اور یہی زبان کا سماجی استعمال ہے۔ Connotation of the Wordsیعنی الفاظ کے باہمی رشتے اور معنیاتی سلسلے محاورات کو اور عام زبان کے ساتھ اُن کے رشتوں کو سمجھنے میں یہ صورت حال بہت مدد دیتی ہے۔ اور اس سے کسی زبان کے سماجی کردار کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔

( 3 ) ساکھ جاتی رہنا یا ساکھ بننا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ساکھ ہماری زبان کے اہم سماجی الفاظ میں سے ہے اور اِس کے معنی ہیں اعتبار،اعتبار سیاسی بھی ہوتا ہے اور سماجی بھی علمی بھی ہوتا اور کاروباری بھی ہم تحریروں سے زیادہ زبان پر اعتبار کو ضروری خیال کرتے ہیں اور اُس پر اعتماد کرتے ہیں اسی کو’’ ساکھ بننا ‘‘کہتے ہیں ساکھ باقی رہنا کہتے ہیں ‘ اور اگر یہ اعتبار ختم ہو جاتا ہے چاہے ایک فرد پر سے ختم ہو چاہے ایک جماعت پر سے یا دکان اور  ادارے سے بہرحال ساکھ باقی رہنا بڑی بات ہے اور سماجی نقطہ نظر سے اس محاورے کو سماجی رشتوں کے ساتھ جوڑ کر اگر دیکھا جائے تو اُس کے معنی غیر معمولی طور پر اہم ہو جاتے ہیں۔ ساکھ جاتی رہنے کو بھی اسی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔

( 4 ) سانپ سُونگھ جانا،سانپ کا کاٹا رسی سے ڈرتا ہے،چھاچھ کو پھُونک پھُونک کر پیتا ہے، سانپ مرے نہ لاٹھی ٹوٹے، سانپ کی طرح پھن مار کر رہ جانا، سانپ نکل گیا لکیر کو پیٹا کرو۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سانپ جس کی بہت سی قسمیں اور نسلیں ہیں ہماری زندگی کا کئی اعتبار سے ایک اہم حوالہ ہے۔ وہ جانداروں میں سب سے زیادہ زہریلا ہوتا ہے اور اُس کے کاٹے کا مشکل ہی سے علاج ہوتا ہے۔ سانپ’’ گُل کنڈے‘‘ کھا کر اپنے آپ کو سمیٹ لیتا ہے اور دُم کو اپنے منہ میں لے لیتا ہے یہ گویا ابتدا کو انتہا سے ملانا ہے وہ بغیر پیروں کے دوڑ سکتا ہے یہ ایک عجیب و غریب صفت ہے وہ اپنے سہارے پر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی کچھ خو بیاں ہیں جو سانپ کے کردار میں شامل ہیں مثلاً ’’کالا سانپ‘‘،’’ بین پر رقص کرتا‘‘ ہے اور اس کی آواز پر کھنچا چلا آتا ہے سانپ کی آنکھوں میں غیر معمولی کشش ہوتی ہے۔

سانپ سے متعلق بہت سے محاورے ہیں جو سماج کی روش و کشش کو ظاہر کرتے ہیں اور اس آئینہ میں ہم انسان کے کردار کو سمجھ سکتے ہیں کہ کس وقت اُس کا عمل اور  رد عمل کیا ہوتا ہے اور اس کا ہمارے فکر و خیال سے سماجی طور پر کیا رشتہ بنتا ہے۔ مثلاً سانپ سونگھ جانا، مثلاً جب آدمی کسی بات کو سُن کر چُپ ہو جاتا ہے اور لاجواب ہونے کے عالم میں پہنچ جاتا ہے تو اسے سانپ سونگھنا کہتے ہیں جب کوئی موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو سانپ نکل جانا کہتے ہیں شاہ نصیرؔ کا استادانہ شعر ہے۔

؂ خیالِ زلفِ بُتاں میں نصیرؔ پیٹا کر

گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

لکیر پیٹنا یوں بھی وقت گزر جانے پر کسی کام کو کرنا ہے جو بے سُود ہوتا ہے اور اُس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہوتا سانپ مرے نہ لاٹھی ٹوٹے ایک بہت اہم بات ہے کہ دشمن کو آپ نقصان پہنچائے مگر خود نقصان میں نہ پڑیں اگر خود ہی نقصان میں پڑ گئے اور سانپ مارنے میں لاٹھی ٹوٹ گئی تو گویا خود ہی خطرے میں پڑ گئے اور نقصان اٹھا گئے۔

سانپ خاص طور پر کالا سانپ کاٹتا نہیں ہے صرف پھَن مار کر رہ جاتا ہے جہاں اُس کے سامنے کوئی چیز آئی اور اُس نے پھَن مارا جب کہ کاٹنے کے لئے پلٹنا ضروری ہے سانپ کے دانت سیدھے نہیں ہوتے وہ پلٹ کر ڈنک مارتا ہے اگر پلٹ نہیں سکتا تو ڈنک بھی نہیں مار سکتا اور جب وہ پھَن پھیلائے ہوتا ہے تو پلٹ نہیں سکتا اسی لئے کاٹ نہیں سکتا اور یہیں سے یہ محاورہ پیدا ہوا کہ وہ سانپ کی طرح پھَن مارتا ہے۔

( 5 ) سانس نہ نکالنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سانس لینا زندگی کی سب سے اہم ضرورت ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی سانس بھی احتیاط سے لیتا ہے بلکہ نہیں لیتا میرؔ کا شعر ہے۔ اس سلسلہ کے بہترین اشعار میں سے ہے۔

؂ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اِس کار گہہ شیشہ گری کا

سانس روکنا صوفیوں کا عمل بھی ہے جس کو وہ دمِ سادھنا بھی کہتے ہیں سانس نہ لے یہ بڑی دھمکی ہوتی ہے۔ جس کے لئے غالبؔ نے شعر کہا تھا۔

؂ دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا

عِشق نبرد پیشہ طلب گارِ مرد تھا

یعنی جس میں ہمت نہیں ہوتی حوصلہ نہیں ہوتا وہ دھمکی میں مر جاتا ہے بلکہ دوسروں کی غضبناک نگاہوں کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتا اور اُس کا سانس رک جاتا ہے اور کہتے بھی ہیں کہ دیکھو سانس مت نکالو۔

( 6 ) سایہ پڑ جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہم سایہ کو بہت پُر اسرار اور بھید بھرا سمجھتے ہیں پرچھائیوں کو اِسی زُمرے میں رکھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کس کی پرچھائی پڑ گئی سایہ ہو جانا جن بھُوتوں کا اثر ہو جانا ہے گلزارِ نسیم کا مصرعہ ہے۔

؂ سایہ ہو تو دوڑ دھوپ کیجئے سایہ  سر سے اٹھنا

یعنی اگر اوپَر کے پرایہ کا سایہ پڑ گیا ہے تو اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے یہاں توہم پرستی کہ ذیل میں جو باتیں آتی ہیں اُن میں سایہ پڑنا بھی ہے نظر لگنے سے سایہ پڑنے تک توہم پرستانہ خیالات کا ایک سلسلہ ہے جس میں لوگ عقیدہ رکھتے ہیں اور طرح طرح سے یہ باتیں سامنے آتی رہتی ہیں اور سماج کے مطالعہ میں مدد دیتی ہیں سایہ سر سے اٹھنا یتیم ہو جانا بزرگوں کی سرپرستی مہربانی اور عنایت کا۔

( 7 ) سب چیز کی لہر بہر ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اصل میں ہمارے معاشرے میں کمی بہت تھی غریب طبقہ کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ گھڑے پر پیالہ بھی نہیں کئی محاورے اِس صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں جیسے میں نے روٹی پہ روٹی رکھ کے کھائی جس کا یہ مطلب ہے کہ بعض خاندانوں میں اتنی غربت ہوتی تھی کہ ایک ایک روٹی مشکل سے میسر آتی تھی اور  روٹی پر روٹی رکھ کر کھانا تو معاشرتی طور پر خوش حال ہونا تھا سوکھے ٹکرے پانی میں بھگو کر کھانا بھی ہماری معاشرتی زندگی کا ایک حصّہ رہا ہے۔ روکھی روٹی کا ذکر اب تک آتا ہے سالن بھی مشکل سے میسر آتا تھا گھی، پیسے چُپڑی ہوئی روٹی کسی کسی کے حصّہ میں آتی ہو گی۔

دیہات کی ایک مثل ہے جاڑا لگے یا پالا لگٹے دم کھچڑی فَنڈوے کی روٹی گھی چپڑی یعنی دم کی ہوئی کھچڑی اور فنڈوے کی روٹی کے لئے ترستے تھے اور جن لوگوں کو گیہوں کی روٹی میسر نہیں آتی تھی وہ چنے جُوار باجرہ اور فنڈوے کی روٹی کھاتے تھے اور یہ آئیڈیل تھا کہ اگر وہ گھی چُپڑی روٹی ہو تو کیا کہنا لوگ یہ کہتے ہوئے سنے جاتے تھے سیاں (سوئیاں ) ہوں پر کھیلا (اکیلا) ہو۔ اب بھی کہتے ہیں کہ اُن کے حالات تو بہت اچھے ہیں پیسے میں پیسہ اور چیز میں چیز ہے یعنی پیسہ بھی پاس ہے اور ضرورت کی چیزیں بھی پہلے زمانہ میں نہ پیسہ ہوتا تھا نہ ضرورت کی چیزیں ہوتی تھیں۔

( 8 ) سُبکی ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سبک ہلکے کو کہتے ہیں جیسے سُبک ناک نقشہ والی لیکن معاشرہ میں سُبکی ہونے کے معنی ایک سطح پر بے عزت ہونے کے ہیں اسی لئے کہتے ہیں کہ اُن کی سُبکی ہوئی۔ سُبکنا بچوں کے رونے کا ایک خاص انداز ہوتا ہے جسے سُبک سُبک کر رونا کہتے ہیں۔

( 9 ) سِتارہ چمکنا، ستارہ گردش میں ہونا۔ ستارہ پیشانی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ستارہ آسمان کے اُن ستاروں کو کہتے ہیں جو اپنی جگہ پر رہتے ہیں اِس کے مقابلہ میں ’’سیارہ‘‘ گھومنے والے سِتارے کو کہتے ہیں ہمارے معاشرے میں ستاروں سے قسمت کو وابستہ کیا جاتا ہے۔ اسی لئے قسمت کا ستارہ کہتے ہیں اور یہ بھی کہ اُس کی قسمت کا ستارہ چمک رہا ہے اور اُس کے مقابلہ میں یہ کہ اُس کی قسمت کا ستارہ گردش میں ہے خوش قسمت آدمی کی پیشانی کو بھی ستارہ پیشانی کہا جاتا ہے اِس لئے کہ ہمارا ایک معاشرتی تصور یہ بھی ہے کہ جو کچھ قسمت میں لکھا ہے وہ ہماری پیشانی میں منقش ہے۔ اسی لئے قسمت کی برائی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی پیشانی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ستارہ جبیں کے معنی بھی یہی ہیں کہ اس کی قسمت کا ستارہ چمک رہا ہے۔ ہم لڑکیوں کا نام مہہ جبیں رکھتے ہیں یعنی چاند جیسی پیشانی والی۔

( 10 ) ستّرا بہتّرا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

عُمر کا حِساب اکثر ہمارے یہاں سماجیاتی فقروں میں لیا جاتا ہے یا اُس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جیسے ستّرا بہتّرا  یا ساٹھا پاٹھا جیسا کہ میر حسن نے لکھا ہے۔

؂ برس پندرہ یا کہ چودہ کا سِن

جوانی کی راتیں مُرادوں کے دن

یا محاورے کے طور پر کہتے ہیں انیس بیس کا فرق چھٹے چھماس میں بھی عدد شامل ہے چھٹی کے دُودھ میں بھی اور چلّا چھٹی میں بھی شامل شمار موجود ہیں۔

( 11 ) سِتم توڑنا، ستم ٹوٹنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سماج کے ظالمانہ رو یہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اسی لئے ستم کرنے کو ستم توڑنا کہا جاتا ہے اس سے سماج کے محسوسات کا پتہ چلتا ہے وہ کس طرح اعمال کو دیکھتا اور اپنے محاورے کے اعتبار سے اس پر تبصرہ کرتا ہے۔

( 12 ) سِٹی گُم ہو جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

حیرت یا خوف کی وجہ سے آدمی کا گُم سُم رہ جانا بول نہ سکنا محاورہ میں سِٹی گُم ہونا کہا جاتا ہے۔ محاورہ زبان میں جو تبدیلیاں کرتا ہے اور زبان کے استعمال کے سلسلہ میں جو نئے پہلو محاورے کے باعث پیدا ہوتے ہیں وہ سماجی لسانیات کے سلسلہ میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور زبان کے سمجھنے کے معاملہ میں اس سے بڑی مدد ملتی ہے چُپ سادھنا اسی ذیل میں آتا ہے۔

( 13 ) سخت و سُست کہنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارا سماجی رو یہ گفتگو میں اکثر سامنے آتا ہے محبت کی زبان کچھ اور ہوتی ہے نفرت کی زبان کچھ اور اسی طرح طنز کی زبان اور  تعریف کی زبان میں فرق ہوتا ہے۔ ناراضگی میں سخت و سُست کہا جاتا ہے اور خوشی میں اچھی اچھی باتیں کی جاتی ہیں اس سے لب و لہجہ بھی بدلتا ہے الفاظ میں بھی تبدیلی آتی ہے اور مغنیاتی سطح میں بھی اس پر غور نہیں کیا جاتا ورنہ سماج کے بہت سے ذہنی رو یہ زبان کے استعمال میں خود کو واضح کر دیتے ہیں۔ سخت و سُست کہنا بھی اسی سلسلہ گفتگو کا ایک خاص انداز ہے جس میں بُرا بھلا کہا جاتا ہے ڈرانا دھمکانا اس ذیل میں آتا ہے جو غصّہ کے عالم میں ہوتا ہے مگر ناراضگی کی ایک دوسری سطح ہے۔

( 14 ) سر آنکھوں چڑھنا، سر آنکھوں میں ہونا، سر آنکھوں سے آنا، سر آنکھوں پر رکھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سر ہمارے معاشرے میں احترام کی چیز ہے اسی لئے  سر جھکانا، سر جھکنا، سر چھپانا ایسے کچھ محاورات ہیں جو سر سے تعلق رکھتے ہیں۔

سرکے ساتھ آنکھیں ہماری معاشرتی زندگی کی اعضائی علامتوں میں بڑی علامت ہے۔ آنکھوں سے لگانا آنکھیں دیکھنا آنکھ رکھنا آنکھوں سے آنکھوں پیار کرنا، آنکھوں میں رکھنا جیسے بہت سے محاورے آنکھوں ہی سے متعلق ہیں۔ بعض محاوروں میں سر آنکھیں ایک ساتھ آتے ہیں جیسے سر آنکھوں رکھنا جس کے معنی ہیں بہت احترام اور  محبت سے رکھنا جیسے آپ کا خط آیا سر آنکھوں پر رکھا یا اُن کی بات تو سر آنکھوں پر رکھی جاتی ہے سر آنکھوں سے آنا یعنی بڑے احترام و عزت اور عقیدت کے ساتھ آنا اِس کے مقابلہ میں سرپر چڑھنا بے ادبی ہے اور بے ادبی کا یہ پہلو سر آنکھوں پر چڑھنے میں بھی موجود ہے۔

( 15 ) سرپر خاک ڈالنا، سر پر چھپَّڑ رکھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سرپر خاک ڈالنا انتہائی افسوس کی علامت ہے خاک مٹی کو کہتے ہیں دھول مٹی ایک عام ذہن کے لئے اس معنی میں قابلِ احترام نہیں ہے کہ وہ پیروں کے نیچے رہتی ہے روندی جاتی ہے اور ہوا کے ساتھ جب اڑتی ہے تو دوسری چیزوں پر بیٹھتی ہے اور انہیں میلا کرتی ہے دھُول سے اینٹھتی ہے اور گرد آلود کرتی ہے اسی لئے سرپر خاک ڈالنا اظہارِ ملال کرنا ہے۔

مٹھی بھر خاک بھی یہ کہیے کہ ایک بے قیمت شئے ہے اسی لئے مشت خاک بھی بے قیمت شے ہی کو کہتے ہیں سرپر رکھنا اپنی جگہ عزت دینے اور احترام پیش کرنے کو کہتے ہیں مگر سر پر چھپَّر رکھنے کے معنی ہیں ذمے داریوں سے دبا رہنا اور اُن کا بوجھ سرپر رکھا جانا زیادہ اولاد کی صورت میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے اور سماجی نقطہ نظر سے اس تصور کی بے حد اہمیت ہے کہ اس کے سرپر قرض یا فرائض کا چھپَّر رکھا ہوا ہے اب تو چھپَّر یا  چھپریاں شہروں اور قصبوں میں کم دیکھنے میں آتی ہیں مگر کسی زمانہ میں تو غریبوں کے مکانوں میں چھت کی جگہ چھپریا چھپر یاں ہی ہوتی تھیں اور ان پر پھونس بھی نہیں ہوتا تھا۔ مندرجہ ذیل محاورات کو بھی اسی ذیل میں رکھنا چاہیے اور مختلف فکری زاویوں سے اُن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جیسے ’’سرپر ہاتھ رکھنا ‘‘پرورش یا تربیت کرنا ہے سر سے سایہ اٹھ جانا بزرگوں کی محبت اور  سرپرستی سے محروم ہونا ہے سرپر ناچنا ایک طرح سے بے عزتی کرنا ہے ’’سرپر ہاتھ دھر کر رونا ‘‘یا سر پکڑ کر رونا رنج و غم کا ایسے موقعوں پر غیر معمولی اظہار ہے جب آدمی کو کسی خاص معاملہ میں اپنی نارسائی اور ناکامی کا احساس بھی شدت سے شامل ہو سرپھرا ہونا، سر پھرنا، سر چکرانا جیسے محاورات بھی سر ہی سے متعلق ہیں اور ہماری سماجی زندگی سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں سرپھرا ہونا غیر معمولی جوش و جذبہ رکھنا اسی لئے دوسروں کو ہم یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ارے بھئی وہ تو سر پھرے آدمی ہیں عجیب و غریب انسان ہیں اُن کی سوچ دوسروں کو سماجی سوچ سے بہت مختلف ہے۔

اس میں ہم ان محاورات کو بھی شامل کر سکتے ہیں جیسے سر کھپانا، سر جوڑنا، سر جوڑ کے بیٹھنا، سر جھاڑ منہ پہاڑ، سر توڑ کوشش انتہائی کوشش کو کہتے ہیں جس میں آدمی اپنے سر پیر کا کچھ خیال نہیں رکھتا سر جھاڑ منہ پہاڑ ایسے شخص کو کہتے ہیں جو بے تکے انداز سے رہتا ہے کبھی بالوں میں کنگھا نہیں کرتا اپنے ہاتھ منہ کا خیال نہیں کرتا اور بے سر پیر کی بات کہتے ہیں ’’سر سے کھیلنا ‘‘اردُو کا مشہور محاورہ ہے جو کہاوت کا درجہ رکھتا ہے اثر کے تحت جھومنا بھی ہے اب تو نہیں مگر اب سے کچھ پہلے تک بعض عورتوں کے سرپر یہ کہا جاتا تھا کہ اُن کے سر ماموں اللہ بخش آتے ہیں اور تب ہی ان کا حال ہوتا ہے کہ اُن کے سامنے ڈومنیاں گیت گاتی ہیں اور  وہ سر سے کھیلتی ہے۔

سر سفید ہونا سفید بال ہو جانا عام طور سے سفید بال ہونے کے معنی یہ ہوتے تھے کہ اس عورت یا مرد کی عمر کا فی ہو چکی ہے اور زیادہ عمر کے معنی ہیں زیادہ تجربہ اسی لئے یہ بھی کہا جا تا تھا کہ میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کئے ہیں اس کے پیچھے میری عمر اور  تجربہ موجود ہے۔

سر سنہرا ہونا جب کسی اچھے کام کی ذمہ داری کسی کے سر ہوتی ہے اور وہ اسے خوبصورتی سے انجام دیتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ اس کا سہرا اُس کے سر ہے ۔معنی اس سلسلہ میں کسی تعریف و تحسین عزت و عظمت کا سلسلہ میں مستحق فلاں شخص ہے۔ ویسے ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ ’’سر بڑا سردار کا پیر بڑا گنوار کا‘‘ یعنی جو عقلمند با شعور اور خوش نصیب ہوتا ہے’’ اس کا سر بڑا ہوتا ہے‘‘ اور جو گاودی گنوار ہوتا ہے اُس کے پیر بڑے ہوتے ہیں۔

اعضائے جسمانی میں بہت سے عضو ایسے ہیں جو محاورات میں شامل ہیں اُس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے اپنے وجود کو یا انسانی وجود کے مختلف حصّوں کو اپنی سوچ میں شامل رکھا ہے اور ان کو اپنی سوچ کے مختلف مرحلوں اور تجربوں میں اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اس میں گردن بھی ہے زبان بھی ہے ہاتھ پیر بھی ہیں اور تن پیٹ بھی ہے۔

( 16 ) سر سے چلنا، سرکے بل چلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سرکے بل چلنا بھی ان محُاورات میں ہے جو سماجی نفسیات کو پیش کرتے ہیں پیروں سے چلنا الگ بات ہے اور گھٹنوں سے چلنا ایک دوسری بات ہے جسے گُڈلیاں چلنا کہتے ہیں جو بچوں کے لئے ہوتا ہے مگر سر سے یا سرکے بل دینا ویسے تو عجیب سی بات ہے لیکن محاورے کے طور پر یہ انتہائی احترام کے لئے آتا ہے کہ میں تو سر کے بل چل کے وہاں آؤں گا یا جاؤں گا۔

( 17 ) سر سے کفن باندھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’سر سے کفن باندھنا‘‘ تہذیبی محاورات میں سے ہے اور اپنی معنویت کے لحاظ سے غیر معمولی ہے۔ بعض آدمیوں میں یا قوموں میں جان دینے کا جذبہ بہت شدت سے ہوتا ہے وہی یہ کہتے بھی ہیں کہ میں ’’ سر سے کفن باندھے رہتا ہوں ‘‘ یعنی ہر وقت جان دینے کے لئے تیار ہوں۔ غالبؔ نے کہا ہے۔

؂ آج واں سر سے کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں

عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا

غالباً  یہ دستور بھی رہا ہے کہ جو لوگ جہاد میں حصہ لیتے تھے وہ اپنے سر سے کفن باندھتے رہتے تھے تاکہ شہید ہونے کے بعد کسی کو اُس کے کفن دفن کی فکر نہ ہو۔

( 18 ) سر گریبان میں ڈالنا، سر در گریبان ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ اُردو فارسی دونوں زبانوں میں بطورِ محاورہ آتا ہے یعنی سر جھکا کر سنجیدگی سے کسی بات کو لینا اور اپنی نارسائی یا غلطی کا اعتراف کرنا۔ سماج کے رویوں کا ہم محاورات میں جو مطالعہ کرتے ہیں اس کا اندازہ اس محاورے پر  غور کرنے سے ہوتا ہے کہ ہم با اعتبار فرد یا با اعتبار جماعت دوسروں کے لئے یا  پھر خود اپنے لئے کیا رو یہ اختیار کرتے ہیں سر گریبان میں ڈالنا اسی روش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

( 19 ) سر نیچا ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یعنی جو آدمی بہت تکبّر کرتا ہے اور جس کی گردن گھمنڈ اور غرور کے ساتھ تنی رہتی ہے اس کو کبھی ذلیل بھی ہونا پڑتا ہے اسی کے لئے ہمارے یہاں محاورہ ہے غرور کا سر نیچا یعنی جو بہت گھمنڈ کرتا ہے وہی بہت بے عزت بھی ہوتا ہے۔

( 20 ) سسرال کا کُتا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’کُتا‘‘ ایک جانور ہے جو آدمی کا وفادار ہے اور اُس کی قبائلی زندگی سے لیکر مہذب شہری زندگی تک ایک وفادار پالتو جانور کی حیثیت سے اِس کے ساتھ رہا ہے۔ اس پر بھی مشرقی اقوام نے اس کو کوئی عزت نہیں دی اور اس کا ذکر ہمیشہ ذلت کے ساتھ آیا اس محاورے میں بھی ایسے کسی آدمی کی سماجی حیثیت کو برائی سے یاد کیا گیا ہے جو ’’جوائی‘‘ (داماد) کی حیثیت سے سُسرال میں جا کر پڑ جائے یا بھائی ہو کر اپنی بیوہ کے یہاں جا کر رہنے لگے۔ اسی کے لئے یہ کہاوت ہے کہ بہن کے گھر بھائی ’’کُتا‘‘ اور ساس کے گھر ’’جوائی‘‘ کتا۔

( 21 ) سنبھالا لینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

قوموں کے لئے بھی یہ کہا جا تا ہے کہ انہوں نے سنبھالا لیا یعنی زوال کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی وہ کچھ سدھر گئیں یعنی ان کے حالات کچھ بہتر ہو گئے بیمار کا سنبھالا لینا وقتی طور پر ہی سہی صحت کا بہتر ہو جانا ہے۔ ذوقؔ کا شعر ہے اور اس محاورے کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرتا ہے۔

؂ بیمارِ محبت نے لیا تیرے سنبھالا

لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تو اچھا

اس میں سنبھلنا سنبھالنا اور سنبھالا لینا تینوں چاروں آ گئے۔ ۱۹۲۰ء ؁ کے قریب ترکی کو مرد بیمار کہا جا تا تھا سنبھالا لیتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے محاورے کس طرح ہماری زندگی ہماری تاریخ اور ہماری سماجی زبان کو پیش کرتے ہیں اور ایک حوالہ کا کام دیتے ہیں۔

( 22 ) سو جان سے عاشق ہونا، سو جان سے صدقے جانا، یا نثار ہونا یا نچھاور ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے یہاں صدقے قربان ہونا محاورہ ہے صدقہ ایک مذہبی اصطلاح بھی ہے جس کے ساتھ صدقہ دینا آتا ہے یا صدقے کرنا آتا ہے یعنی کسی کی جان کی حفاظت یا مال کی حفاظت کے خیال سے خیرات کرنا۔ ہم اس عمل کو طرح طرح سے دہراتے ہیں مثلاً جب ڈومنیاں گاتی تھیں تو ان کو رواں پھیر کر کے روپے پیسے دیئے جاتے تھے وار پھیر اس شخص کے لئے ہوتی تھی جس کی جان کا صدقہ دینا منظور ہوتا تھا یہی صورت اس وقت ہوتی تھی جب بھنگنیں  بدھاوا پیش کرتی تھیں یعنی مبارک باد کے لئے گانا اور  ناچنا کسی کے ہاتھ سے فقیر کو پیسے دلوانا بھی صدقہ دینے یا صدقہ کرنے کے مفہوم میں شامل ہوتا تھا۔

قربان کرنا بھی اسی معنی میں آتا تھا دہلی میں اب بھی دستور ہے کہ اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس کے نام پر جانور قربان کیا جاتا ہے ہندوؤں میں دُودھ دریاؤں میں بہانہ یا تالابوں اور پوکھروں کے کناروں پر جانور ذبح کرنے کو صدقہ کے مفہوم میں شامل کرتے تھے اب بھی راجستھان میں ایسا ہوتا ہے بنگال میں ’’ بھینا‘‘ قربان کیا جاتا ہے اِس کو بَلی چڑھانا کہتے ہیں۔

عربوں میں جس اوٹنی کو ایسے کسی مقصد کے لئے ’’نحر‘‘ کیا جتا تھا خاص طریقے سے کاٹنا تو بلیَّہ کہتے تھے انسان کی اپنی قربانی بھی دی جاتی تھی۔ قدیم قوموں میں اس کا دستور رہا ہے یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی قربان کئے جاتے تھے غلاموں اور باندیوں کے ساتھ تو یہ سلوک عام تھا اور  اُن کی بوٹیاں کر کے چیلوں کوؤں کو کھلائی جاتی تھیں۔

ہمارے یہاں جس سے محبت کی جاتی ہے اُس پر اپنے آپ کو صدقہ و قربان کیا جاتا تھا۔ اور محاورے کے استعمال کے وقت سو جان سے صدقہ و قربان ہونے کی بات کی جاتی ہے۔

( 23 ) سُورج کو چراغ دِکھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سُورج ہماری دنیا کی سب سے روشن تابناک اور  حرکت و حرارت سے بھری ایک قدرتی سچائی ہے نورانی وجود ہے اسی لئے اس کی پوجا کی جاتی ہے اور قدیم قوموں کے زمانے سے اب تک ہوتی رہی ہے چراغ اس کے مقابلے میں انسان کی اپنی ایجاد ہے جس کا سورج سے کوئی مقابلہ نہیں۔

سماجی طور پر جب کسی ادنی بات یا ادنی دلیل کو کسی بڑی بات یا بڑی دلیل کے مقابلہ میں سامنے لا یا جاتا ہے تو اس عمل کو سُورج کو چراغ دکھانا کہا جا تا ہے۔ گلزارِ نسیم میں ایک موقع پر یہی محاورہ آتا ہے۔

؂ اُن کے آگے فروغ پانا

سورج کو چراغ ہے دکھانا

( 24 ) سُولی پر چڑھانا، سولی دینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

موت کی سزاؤں میں ایک سے ایک اذیت ناک سزا موجود ہے اُن میں پھانسی دینا گردن اُڑانا اور اندھے کنویں میں پھینک دینا نیز ہاتھی کے پیروں سے کچلوا دینا اور زندہ دیوار میں چُنوا دینا بھی ہے۔ ’’سُولی دینا‘‘ رومیوں کی طرف سے دی جانے والی سزا ہے حضرت عیسیٰ کو مشرقی رومی سلطنت کی طرف سے سُولی پر چڑھانے کی سزا دی گئی تھی اس سزا میں سولی یا صلیب پر آدمی کو لِٹا کر اس کے ہاتھ پیروں میں کیلیں ٹھوک دی جاتی تھیں اس کے سر سے کانٹے دار زنجیر باندھ دی جاتی تھی۔ اور اس طرح سے وہ آدمی سولی پر لٹکایا جاتا تھا جس کو موت کی سزا دینی ہوتی تھی۔

اردُو میں حضرت عیسیٰ کے اِس المناک انجام کے ساتھ وابستہ خیال ہی سولی دینے کے محاورے کو بامعنی بناتا ہے یعنی اذیت ناک سزا دینا سخت نقصان پہنچانا ہم محاوروں کی تاریخ پر بھی اگر غور کریں تو بہت سے محاورے یہ بتلاتے ہیں کہ وہ کب رائج ہوئے کیوں رائج ہوئے مغربی قوموں کو جو بیشتر عیسائی تھیں ہندوستان آنے کے بعد اس محاورے کے مروج ہونے کا زیادہ امکان ہے اور مروج ہونا رواج پانے کو کہتے ہیں۔

( 25 ) سونے کا نوالہ کھانا، سونے میں لدی پھندی ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سونا ہمارے ہاں کا اور پوری دنیا کا سب سے قیمتی دھات ہے اسی لئے سونے کو بے حد پسند کیا جاتا ہے اور عورتیں سونے کا زیور پہن کر بہت خوش ہوتی ہیں اور اس پر دوسرے رشک کرتے ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ’’سونے میں لدی پھندی‘‘ رہتی ہیں یا یہ محاورہ کہ سونے کا نوالہ کھائی سے دیکھے قہر کی نظر اس موقع پر ’’سینی ‘‘شیر پر کی نظر بھی کہتے ہیں۔ ؂

( 26 ) سونے کی چڑیا ہاتھ میں آنا یا ہاتھ لگ جانا،سونے کی ڈلی ہاتھ آنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سونے کی چڑیا بہت قیمتی شے کو کہا جاتا ہے اور اگر وہ قیمتی شے یا خاندان یا زمین کسی کو مل جائے تو کہتے ہیں کہ سونے کی چڑیا ہاتھ لگ گئی اور اس سے پھر ایک مرتبہ یہ سوچا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں سونے کی کیا اہمیت ہے دولت کی دیوی یعنی لکشمی کی پوجا توکی جاتی ہے دولت کو بھی پوجا جاتا ہے اور  خاص طور پر سونے کو یا روپیہ پیسے کو ایک محاورہ اور بھی ہے اب تک استعمال میں آتا رہا ہے۔

سونے کے سہرے بیاہ (شادی) ہو جس کے معنی ہیں کہ شادی تمہارے لئے خوشیوں کا باعث ہو اور جو دلہن گھر میں آئے وہ سونا جھونا لیکر آئے (یہاں جھونا کوئی دھات نہیں ہے بلکہ سونے کا قافیہ ہے جس کے اپنے الگ سے کوئی معنی نہیں ایسے کسی بھی لفظ کو تابع  مُحمل کہتے ہیں۔) ’’سونے کی کٹوری لئے بیٹھنا‘‘۔ ’’سونے کی ڈلی ہاتھ آنا ‘‘، سونے کی کٹوری لئے بیٹھنا‘ جس آدمی کو کوئی ہنر ہاتھ آتا ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تو سونے کی ڈلی ہاتھ میں لئے بیٹھا ہے سونا اُچھالتے جانا بھی ایک محاورہ ہے۔ یعنی وہاں چور چکار اٹھائے گرے یا ڈکیتی کرنے والے بالکل نہیں ہے چاہے کوئی سونا اُچھالتے جائے یعنی کسی کی دولت یا مال کو کوئی خطرہ نہیں وہ پوری طرح حفظ و امان میں ہے۔

سنہرے حرفوں میں لکھنا یا سونے کے حروف میں لکھنا بھی سونے کی اہمیت یا  قدر و قیمت کو ظاہر کرنے والا محاورہ ہے جس سے مُراد کوئی ایسا اہم قول ہے بات ہے یا حکیمانہ نکتہ ہے جس کو سونے کے حرفوں میں لکھا جانا چاہیے سونے کا ملمع ہونا یا کیا جانا کم قیمت دھات پر سونے کا ملمع کیا جا تا ہے یعنی اوپر سے وہ بالکل سونے کی چیز معلوم ہوتی ہے جبکہ وہ دراصل سونے کی چیز نہیں ہوتی بلکہ اس پر سونے کا پانی چڑھا ہوتا ہے جب کسی کو خوش حالی کی دعا دینی ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ تم سونے کی کٹوری میں پانی پیو سونے کے برتنوں میں کھانا کھاؤ۔

( 27 ) سُہاگ رات۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سُہاگ یعنی شوہر کا ساتھ‘ عورت کے لئے بہت خوش قسمتی کی بات ہے اسی لئے دعا دی جاتی ہے کہ سہاگ رہے‘ ترا سائیں جیوے‘ تیرے سر والے کو اللہ رکھے۔   سسُرال میں گزاری جانے والی پہلی رات اس کے لئے سہاگ رات کہلاتی ہے اور اُس پر دولہا دلہن کو اور دونوں طرف کے سمندھانوں کو مبارک باد دی جاتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سماجی رشتوں کا قیام اسی رشتہ سے وابستہ ہوتا ہے جس کی خوبصورت یاد اور نشانی سہاگ رات سے وابستہ ہوتی ہے۔

سُہاگ اترنا اس کے مقابلہ میں بہت بدقسمتی اور نحوست کی بات ہوتی ہے بعض قومیں سرکے بال اتروا دیتے ہیں رنگیں کپڑے چوڑیاں اور زیورات تو عام طور پر سُہاگ سے محروم ہونے کے بعد عورتیں اتار دیتی ہیں ایسے موقعوں پر جو ایک سُہاگن کے لئے جو سہاگ سے محروم ہو گئی ہو بہت ہی المناک بات ہوتی ہے یہی سہاگ اترنا بھی ہے۔

ہمارے یہاں عورتوں کو ایک دعا یہ بھی دی جاتی ہے جو ہمارے سماج کا آئیڈیل ہے کہ تم بوڑھی سہاگن ہو یعنی بڑھاپے تک سہاگ قائم رہے’’ سُہاگ‘‘ سے محروم قدیم قوموں میں اتنی بڑی بات سمجھی جا تی تھی کہ بیوہ ہو جانے والی عورت کو اس کے شوہر کے ساتھ زندہ دفن کر دیا جاتا تھا یا ستی کی رسم کے مطابق زندہ جلا دیا جاتا تھا مصر میں بادشاہوں کی موت کے بعد اس سے وابستہ بیویاں اور باندیاں زہر ملا کر ماردی جاتی تھیں۔

( 28 ) سیپی جیسا منہ نکلنا یا نکل آنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کمزور ہو جانے کو کہتے ہیں جب آدمی کے چہرے پر ذرا بھی گوشت دکھائی نہ دے صرف کھال اور  ہڈیاں رہ جائیں تو اس حالت کو سیپی جیسا منہ نکل آنا کہتے ہیں اس سے ہم اپنے سماج کی شاعرانہ روش کو سمجھ سکتے ہیں شاعر تو تشبیہیں اور استعارے پیدا کرتے ہی ہیں عام آدمی بھی اپنی بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے تشبیہات کا سہارا لیتا ہے سیپی سے دبلے پتلے منہ کو تشبیہہ دینا اسی فکری عمل کا نتیجہ ہے جس سے کسی معاشرے تہذیبی مزاج کو سمجھا جا سکتا ہے۔

( 29 ) سیج چڑھنا، شبِ زفاف ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دراصل شادی شدہ ہونے کو کہتے ہیں شادی کے معنی ہیں عورت و مرد کے آپسی طور پر جنسی روابط جس کے لئے ایک شادی ہو جانے والے جوڑے کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے اور خلوت میں اظہارِ تعلق کرنے کا موقع مل جاتا ہے اسی لئے ان کی جائے ملاقات کو سیج چڑھنا کہتے ہیں یہ تعلق زندگی کا سب سے اہم رشتہ ہے کہ سارے واسطے اسی ایک تعلق کے مرکزی دائرے کے گرد گھومتے ہیں اگر سیج کا یہ رشتہ درمیان میں نہ ہو تو باقی رشتے بھی جو خون سے تعلق رکھتے ہیں اور نسل سے وابستہ ہیں باقی نہ رہیں اور قائم ہی نہ ہوں ’’ شبِ زفاف‘‘ بھی جسے دلی والے’’ تخت کی رات‘‘ کہتے ہیں اسی ضمن میں آتا ہے مزید ملاحظہ ہو سہاگ رات۔

بعض الفاظ محاورے اور لفظی ترکیبیں اہلِ علم سے تعلق رکھتی ہیں بعض اہلِ ادب سے اور بہت سے لفظ طبقہ عوام سے۔

( 30 ) سیدھیاں چڑھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اس اعتبار سے ایک اہم محاورہ ہے کہ سیدھ اور  سیدھی قدیم ہندو تہذیب کا ایک مقدس مرحلہ ہے یعنی گیان حاصل ہونا جب کہ یہاں بالکل اُس کے خلاف بات کہی گئی ہے اور اس سے سماج کے اُس رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ سچائیاں اور اچھائیاں کس طرح اپنے معنی بدل دیتی ہیں اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہیں۔

’’سیدھانا‘‘ یا  سُدھانا ہماری زبان میں تربیت کرنے کے معنی میں آتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ سدھایا ہوا آدمی ہے یابندہ۔ ہندو کلچر میں سادھنا ‘دھیان‘ گیان کی ایک صورت ہے اسی لئے ایک خاص طبقہ کے لوگ ’’سادھو‘‘ کو کہتے ہیں جو ہندو کلچر میں ایک بہت اہم روحانی تربیت کی طرف اشارہ کرتا ہے مگر سیدھا کرنا ایک ٹیٹرھی  میڑھی چیز کو یا بُرے کردار کو درُست کرنے کے لئے آتا ہے اور سدھّی کا مفہوم اُس سے غائب ہوتا ہے۔

( 31 ) سیدھی انگلیوں گھی نکالنا یا سیدھی انگلیوں گھی نہیں نکلتا ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

محاورے کے ساتھ زندگی کا جو تجربہ شریک رہتا ہے محاورے میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے لیکن اُس کے ایک مرادی معنی بھی اُس میں لازمی طور پر شریک رہتے ہیں اُس کے بغیر محاورہ بنتا ہی نہیں یہاں بھی وہی صورت ہے کہ یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ وہ کچھ اس طرح کے لوگ ہیں یا ایسی عادتوں والا ایک شخص ہے کہ اس سے سیدھے سادھے طریقے پر کام نہیں لیا جا سکتا کوئی نہ کوئی تگڑم بازی یا مکاری اپنے عمل میں شامل کر کے کام نکالا جا سکتا ہے۔

اس سے ہم سماجی مطالعہ میں مدد لے سکتے ہیں کہ معاشرے کی صورت اور  اس کا طریقہ رسائی کیا بنتا ہے ؟ کیوں بنتا ہے اور اس کا اظہار کس طریقہ پر ہوتا ہے۔

دودھ نکالنا بغیر انگلیوں کو موڑے ہوئے ممکن نہیں ہوتا اور اگر سیدھی انگلیوں دُودھ نہیں نکل سکتا تو گھی کیسے نکل آئے گا وہ تو ایک پیچیدہ عمل ہے دودھ نکالو پھر گرم کرو اس کے بعد اس کو بلونے کے لئے خاص طرح کے برتن اور  رہی کا استعمال کرو پھر کچا گھی نکلے گا اور اس میں سے گرم کر کے چھاچھ الگ کی جائے گی تب گھی نکلے گا تو سیدھی انگلیوں کہاں نکلا۔ دودھ نکالنے سے لیکر گھی نکالنے تک بہت سے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کام کو کرنے یا اس مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے کئی مشکل ترکیبیں اختیار کرنی ہوں گی سیدھی انگلیوں گھی نہیں نکلتا۔

( 32 ) سیر کو سوا سیر موجود ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آدمی مکاریّ فریب زبردستی سے اپنا کام نکالنا چاہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا کہ اس کے پاس طاقت زیادہ ہے فریب کرنے یا فریب کی صلاحیت موجود ہے ایسی صورت میں یہ کہتے ہیں کہ اس ہوش میں نہ رہو سیر کو سوا سیر موجود ہے یعنی اگر تم بُرے ہو تو تم سے زیادہ اور بُرے موجود ہیں۔

بُرائی کو برائی سے ختم کرنے کا عمل بھی سماج کا ایک ایسا عمل ہے جس کے حوالہ سامنے آتے رہتے ہیں اور اس پہلو کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

( 33 ) سیلا کر کے کھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’سیلا‘‘ کے معنی ہیں بھیگا ہوا اسی لئے نم خوردہ شے کو’’ سیلا‘‘ کرنا یا ہونا کہتے ہیں غریب معاشرے میں کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ سوکھے ٹکڑے پانی میں بھگو کر کھائے جاتے تھے اور نمک کی ڈلی ساتھ رکھی جاتی تھی ’’سیلے‘‘ کر کے کھانا غالباً اسی ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس کو ٹھنڈا کر کے کھانا بھی کہا جاتا ہے مراد یہ ہے کہ بے صبرے پن کا اظہار نہ کرو گرم گرم کھانے سے منہ جلتا ہے۔ معدے کو نقصان پہنچتا ہے یہ تو ایک طبعی بات ہوئی لیکن تہذیب و شائستگی اور کھانے کے آداب کا لحاظ رکھنا یہ بھی ہے کہ گرم گرم کھانے پر ایک دم سے ہاتھ نہ ڈالا جائے اور ضرورت کے مطابق ٹھنڈا کر کے کھایا جائے سماجی حیثیت سے کسی بھی کام کو سلیقہ سے اور مناسب وقت دیکھ کر انجام دینا زیادہ بہتر بات ہوتی ہے اور جلد بازی کو شیطان کا کام خیال کیا جاتا ہے۔

( 34 ) سینہ ابھار کر چلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ سماجی رو یہ ہے اور اس کے ذیل میں انسان کی اخلاقی روشیں آتی ہیں سر جھکا کر چلنا شرافت اور تابع داری کی علامت داری اور بڑائی کی شناخت کا خیال کیا جاتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ بازار میں سر اٹھا کر اور سینہ تان کر چلتا ہے یہی معنی سینہ اُبھار کر چلنے کے بھی ہیں جس سے انسان کی ذِہنی اور نفسیاتی حالت کا پتہ چلتا ہے سینہ کے ابھار صنفی علامتیں ہیں جو’’ عنفوانِ شباب‘‘ میں ظاہر ہوتے ہیں اسی لئے انہیں آثارِ شباب بھی کہا جاتا ہے اس سے ہماری معاشرتی زندگی کے اشارات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ کس بات کو ہم کس طرح ظاہر کرتے ہیں اب یہ الگ بات ہے کہ مہذب طبقہ کا سلیقہ اظہار کچھ اور ہوتا ہے۔

درمیانی طبقہ کا کچھ اور  اور نچلے طبقے کا کچھ اور اسی کے مطابق الفاظ کا چناؤ عمل میں آتا ہے الفاظ آزاد نہیں ہوتے بلکہ ذہنی حالتوں کے تابع ہوتے ہیں اور ذہنی حالتیں سماجیات کی پابند ہوتی ہیں۔

( 35 ) سینہ بہ سینہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سینہ سے یہاں مُراد’’ دل‘‘ ہے اور اُردُو شاعری میں جب سینہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُس سے مُراد’’ دل‘‘ ہی ہوتا ہے اس لئے کہ جذبات و احساسات کا مرکز سینہ نہیں دل ہوتا ہے کسی بات کا اس اعتبار سے ذکر کہ وہ ابھی سینہ بہ سینہ ہے اس معنی میں ہوتا ہے کہ اس کا حال کچھ خاص لوگوں ہی کو معلوم ہے سب کو نہیں۔ ابھی تک ہے یہ راز سینہ بہ سینہ ہے۔

( 36 ) سینہ سپر ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سینہ سپر کے معنی ہیں مقابلہ کے لئے تیار ہونا یا مقابلہ کرنا سپر ڈھال کو کہتے ہیں تیغ یعنی تلوار کے ساتھ ڈھال کا ہونا ضروری تھا کہ تلوار کا وار ڈھال پر ہی روکا جاتا تھا اور جب آدمی غیر معمولی طور پر اپنی بہادری کو ظاہر کرتا تھا تو وہ خود یا اس کے بارے میں کوئی دوسرا شخص یہ کہتا تھا کہ وہ ہمیشہ سینہ سپر رہے ہیں اس سے ایک زمانہ کی تہذیبی فضاء کا اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی معاشرتی کا ذہن اور اُس کے ساتھ زبان اظہارِ حقیقت کے کیا معنی رہے ہیں۔

( 37 ) سینہ زوری کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

زور زبردستی کرنے کو کہتے ہیں یہ بھی ہمارا ایک سماجی رو یہ ہے کہ ہم خواہ مخواہ اور بیشتر غیر ضروری طور پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اسی کو سینہ زوری کہا جاتا ہے۔

( 38 ) سینے سے لگانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اظہارِ محبت کرنا اپنوں کی طرح پیش آنا اور اچھا سلوک کرنا اس لئے کہ انسان ملتا ہے باتیں کرتا ہے معاملہ کرتا ہے مگر ہر ایک کو اپنے سینہ سے نہیں لگاتا دل سے قریب نہیں کرتا سینہ سے لگا نے کے مفہوم میں دل سے قریب کرنا اور دل میں جگہ دینا شامل ہے۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

عافىه
کچا کھا جانا

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔