03:13    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

محاورات

2295 0 0 00

( 1 ) گاڑھی چھننا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ نشہ کرنے والوں کا محاورہ ہے اور اس کا تعلق بھنگ پینے سے ہے ہمارے یہاں بھنگ پینے کو کبھی اچھا نہیں سمجھا گیا وہ مہ نوشی کے مقابلہ میں ادنی درجہ کا نشہ تھا۔ اسی لئے جو لوگ بھنگ پیتے تھے وہ بھنگڑ کہلاتے تھے یہاں تک کہ اُن کو بھنگی کہا جانے لگا بھنگ کر دینا یا بھنگ ہو جانا ہندی زبان میں منتشر ہونے کو کہتے ہیں اسی لئے بھنگ کر دی گئی برخاست کر دی گئی۔ منتشر کرنے کے معنی میں آتا ہے۔

بھنگ کا نشہ بہت شدید ہوتا ہے سادھو سنت بھی جو جنگلوں میں رہتے تھے وہ یہ نشہ کرتے تھے مگر بیشتر یہ نشہ بہت ہی ادنی اور چھوٹے طبقہ میں رائج ہوتا تھا گاڑھی چھننی کہ یہ معنی ہیں کہ بھنگ کو باریک کپڑے میں چھانا گیا یہ اس سے وہ اور زیادہ نشے والی ہو جاتی تھی اور  جب کسی سے گہری دوستی بے تکلفی کے ساتھ تعلقات بڑھتے تھے تو اسے بھی گاڑھی چھننا کہتے تھے کہ آج کل تو ان کے غضب کے تعلقات ہیں خوب گاڑھی چھنتی ہے۔

( 2 ) گالیوں کا جھاڑ باندھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

گالی ہماری معاشرتی زندگی میں بے طرح رائج رہی ہے اور آج بھی ہے ہم دوستی اور محبت میں گالیاں دیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں نفرت و حقارت کے ساتھ بھی گالیوں کی بوچھار باندھی جاتی ہے اور  بے تحاشہ گالیاں دی جاتی ہیں اسی کو گالیوں کا جھاڑ باندھنا کہتے ہیں ذوقؔ کا شعر ہے۔

؂ نہ جھاڑا غیر کو  جو تجھ سے ہو کر جھاڑ لپٹا تھا

مجھی پرگالیوں کا  جھاڑ تو نے بدگماں باندھا

’’جھاڑ‘‘ درخت کو بھی کہتے ہیں اور  رُوکھے سوکھے کانٹے دار بڑے بڑے پودوں کو بھی۔

( 3 ) گانٹھ باندھنا، گانٹھ پڑنا، گانٹھ جوڑنا، باندھنا،گانٹھ کا پورا،گانٹھ کا بھرا، گانٹھ کا پیسا، گانٹھ کا کھوٹا، گانٹھ کھولنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

گانٹھ ہماری عام زبان کا ایک ایسا لفظ ہے جو سماج کے ذہن و زندگی سے گہرا رشتہ رکھتا ہے گانٹھ گرہ کو کہتے ہیں اور جو محاورے گانٹھ سے متعلق ہیں وہ گرہ سے بھی مثلاً  گِرہ دینا گرہ لگانا۔ گرہ دار ہونا، گرہ باندھنا،گرہ میں رکھنا، گرہ پڑنا سب ہی وہ محاورے ہیں جو ایک کے سوا گانٹھ کے ساتھ آتے ہیں۔ کیونکہ مہذب طبقہ گانٹھ کو اپنے ہاں گفتگو میں لانا پسند نہیں کرتا اسی لئے گانٹھ کے ساتھ آنے والے محاورے گرہ کے ساتھ آتے ہیں گرہ لگانا شاعری کی اصطلاح ہے۔ اور ایک مصرعہ پر دوسرا مصرعہ کہنے کو گرہ لگانا کہتے ہیں۔ گرہ کوئی دوسرا شخص لگاتا ہے گرہ کھولنا بات کا  رمز پا جانا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ اس نے اس گرہ کو کھولا یا دل میں جو گرہ پڑ گئی تھی اس کو اپنی تدابیر یا اپنی گفتگو سے دُور کیا ’’پیا ‘‘پاس ہوتا ہے تو اس کے لئے کہتے ہیں کہ وہ کسی کی اپنی گرہ یا گانٹھ میں ہے کسی استاد کا  شعر ہے۔

؂ دل کا کیا مول بھلا زلف چلیپا ٹھہرے

تیری کچھ گانٹھ گِرہ میں ہو تو سودا ٹھہرے

گانٹھ کا پورا ہونا پیسے کا کسی کی اپنی گانٹھ گرہ میں ہونا ہے شاعری میں اُستادوں ہی کے ہاں سہی گانٹھ کا لفظ آنا اس بات کی علامت ہے

کہ یہ لفظ کبھی اچھی سوسائٹی میں بھی رائج تھا مگر سنجیدہ موقعوں کے لئے نہیں۔

( 4 ) گُدگُدی کرنا، گُدگُدی اٹھنا، گُدگُدی دل میں ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اصل میں گدگدی ایک خاص بدن کی حالت کو کہتے ہیں جو خواہش پیدا کرنا خو ش ہونا اور خوش کرنے کی تدبیر کرنا بھی شامل ہے اسی لئے بچوں یا بڑوں کے گدی گدی کی جاتی ہے اور دل میں گدگدی اٹھنے کے معنی خواہش ہونا ہے بچوں جیسی معصوم خواہش جو آدمی کو ایک سطح پر والہانہ انداز کی طرف لے آئے۔ ’’گد گد کرنا‘‘ ہندی میں محاورہ ہے اور اس کے معنی بھی جی میں خوش ہونا ہے۔

( 5 ) گراں گزرنا، گراں بار۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یار بوجھ گراں بھاری قرضہ ہو یا اور کوئی سماجی مجبوری اس کے لئے جو آدمی تکلیف اٹھاتا ہے پریشان ہوتا ہے اور اپنے دل پر ایک طرح کا بوجھ محسوس کرتا ہے اس کو گراں باری کہتے ہیں بوجھ یعنی گراں بار ہونا طبیعت پر گرانی ہے یعنی ایک طرح کا بوجھ اور ناخوشگوار صورتِ حال پیدا ہوتی ہے گراں گزرنے کے معنی کوئی حرکت کوئی بات یا کوئی اشارہ کنایہ برا لگنا ہے۔ فیضؔ  کا شعر ہے۔

؂ وہ بات سارے فسانہ میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

یہی گراں گزرنا بھی ہے۔ اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے محاورے کس طرح ہماری انفرادی یا معاشرتی الجھنوں کو پیش کرتے ہیں۔

( 6 ) گردش میں ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

گردش کا تعلق بنیادی طور پر ستاروں سے ہے جب ستارے غیر مناسب ہوتے ہیں اور انسان کے حالات کو فیور(Favour)کرتے ہوئے نظر نہیں آتے تو کہتے ہیں کہ آج کل اس کے ستارے گردش میں ہیں یعنی پریشانی اور مصیبت کے دن ہیں اس سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں ایک علم نجوم کے بہ اعتبار اور دوسرے علمی اور فکری باتوں کو محاورہ کے دائرہ میں لانا یہاں یہ اشارہ کرنا غیر ضروری نہ ہو گا کہ ہمارے محاوروں کا رشتہ زندگی کے ہر سطح کے معاملات خیالات اور سوالات سے رہا ہے۔

( 7 ) گردن پر بوجھ ہونا،گردن پر خون ہونا، گردن پر سوار ہونا، گردن پھنسانا، گردن پھیرنا، گردن جھکانا، گردن کو ڈورا، گردن مارنا، گردن مروڑنا، گردن میں ہاتھ ڈالنا، گردن ناپنا وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

گردن حیوانی یا انسانی وجود میں غیر معمولی اہمیت رکھنے والا وجود کا حصّہ ہے انسان کی گردن تو اس معاملہ میں اور بھی زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے سر سے نسبت رکھنے والے بہت سے محاورے گردن ہی کی کسی نہ کسی سطح پر تعلق رکھتے ہیں مثلاً گردن اونچی کرنا سر اونچا کرنا ہے گردن جھُکانا سر نیچا کرنا ہے گردن کاٹنا یا کٹوانا قتل کئے جانے کے معنی سے بہت قریب ہے سر کٹنے کے معنی بھی یہی ہیں گردن پر سوار ہونا آدمی سے معمولی درجہ کی محنت لینا اور اس کے لئے مصیبت کھڑے کرنا۔ میرے لئے مصیبت بنا ہوا اسے اور مجھے بہت معمولی درجہ کی چیز سمجھ کر کام لے رہا ہے گردن مارنا بھی قتل کر دینے کے معنی میں آتا ہے اور گردن اڑانا بھی۔ مصرعہ

؂ شرع کہتی ہے کہ قاتل کی اڑا دو گردن

گردن ٹھہرنا بچوں کے لئے آتا ہے شروع شروع میں بچے اپنے سرکو گردن سنبھال کر نہیں رکھ سکتے اسی لئے ان کی گردن کو ہاتھ کا سہارا دیا جاتا ہے گنڈا تعویذ نیلا دھاگا گردن ہی میں پہنایا جاتا ہے ہار چمپا کلی،گلو بندا ور جگنو بھی گردن ہی کے زیور ہیں۔

گردن میں ہاتھ ڈالنا محبت اور بے تکلفی کی وجہ سے ہوتا ہے مگر گردن پکڑنے کا مفہوم دوسرا ہوتا ہے گردن چھڑانا لڑائی جھگڑے سے نمٹنا یا قرض کےبوجھ سے ادا ہونا گردن پھنسانا  یا  پھنسوا دینا غیر ضروری اور  غیر معقول ذمہ داریاں عائد ہو جانا یا کر دینا ہے گردن ناپنا سخت سزا دینا اور برا سلوک کرنا سخت انتقام لینا ہے۔

گردن پکڑنا کسی کو ذمہ داری نبھانے کے لئے جائز یا ناجائز طور پر سختی سے آمادہ کرنا کہ آخر میں نے اس کی گردن پکڑی جب قابو میں آیا اس طرح گردن سے متعلق محاورے ہمارے سماجی رویوں کے ایک سے زیادہ پہلوؤں کو سامنے لاتے ہیں اور یہ بتلاتے ہیں کہ ہم دوسروں کو کس طرح دیکھتے ہیں اور غیروں سے ہمارا معاملہ کرنے کی سطح غلط یا صحیح طور پر کیا رہتی ہے۔

( 8 ) گڑیوں کا بیاہ، گڑیوں کا کھیل۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اصل میں ہمارے یہاں گڑیاں سماجی زندگی کا وہ رخ پیش کرتی ہیں جو گھر آنگن سے متعلق ہوتا ہے کپڑے کی گڑیاں بنانا تو گھر کی عورتوں کا ایک ایسا کام تھا جس سے بچے خوش ہوتے ہیں بچوں کے کھیلوں میں اور خاص طور پر بچیوں کی گھریلو دلچسپیوں میں گڈا گڑیا ان کے چھوٹے چھوٹے زیور لباس زندگی سے شوق پیدا کرتے ہیں۔ اس میں گڈا گڑیا کا بیاہ بھی ہے جس میں گھریلو رسوم کی نقل کی جاتی ہے کوئی گڈے کی ماں بنتی ہے تو کوئی گڑیا کی اسی طرح لین دین اور  بری چیز کی رسمیں ادا ہوتی ہیں یہ ہمارا معاشرہ ہے جس کی ایک چلتی پھرتی تصویر ہم گڈوں اور گڑیوں کے کھیل میں دیکھتے ہیں نقل اتارنا یوں بھی بچوں کا دلچسپ مشغلہ ہوتا ہے اور گھرکی بچیوں کو تو اس کا خاص طور پر شوق ہوتا ہے۔

( 9 ) گل کھِلانا، گُل کھلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے کلچر میں پھول کی بڑی اہمیت ہے پھول خوشی کے موقع پربھی کام آتے ہیں اور غم کے موقع پربھی چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قبروں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں برسی کے موقع پربھی پھول بھینٹ کئے جاتے ہیں یہاں تک کہ دہلی میں تیجہ کی رسم پھول کہلاتی ہے اور قدیم بادشاہت کے زمانہ میں بھی رائج تھی بے تکلف اور غیر ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کو گلچھڑے اُڑانا کہتے ہیں گل کھلانا انوکھی بات کرنا ہے جس سے لوگ پریشان ہوں اور اُس پر حیرت کریں کہ یہ کیا ہو گیا۔ گل کھلنا ایسے ہی کسی واقع کو کہتے ہیں ’’گلزارِنسیم‘‘ میں گل بکاولی کے اڑائے جانے پر نسیمؔ نے لکھا ہے۔

؂ دیکھا تو وہ گُل ہوا ہوا ہے

کچھ اور ہی گل کھِلا ہوا ہے

( 10 ) گلے پر چھُری پھیرنا یا چلانا،گلا کاٹنا، کھنڈی چھُری سے ذبح کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جن قوموں میں جانوروں کو ذبح کرنے کا رواج ہے وہ جاندار کا گلا چھری سے کاٹتے ہیں اسی کو چھُری پھیرنا کہتے ہیں اِسے چھری چلانا بھی کہا جاتا ہے یہی محاورہ بن گیا اور کسی پر ظلم و زیادتی اور نہ انصافی کرنے کو گلے  پر چھُری چلانا کہتے ہیں جس کے معنی گلا کاٹنا ہے اور یہی کام جب بھونڈے انداز سے کیا جاتا ہے اور  بدتمیزی روا  رکھی جاتی ہے تو اسے کھنڈی چھری سے ذبح کرنا کہتے ہیں یہ محاورہ مسلمان قوموں میں رائج رہے ہیں ہندوؤں نے ایسے قبیلوں میں اس طرح کے محاورے رائج ہو سکتے ہیں جس کے یہاں جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ تلوار سے گردن اڑا دی جاتی ہے کاٹی نہیں جاتی یہ فرق ہے جو چھری یا تلوار سے گردن کاٹنے میں ہے۔

( 11 ) گلے پڑنا، گلے کا ہار ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’گلے پڑنا‘‘ کسی ایسے شخص کے عمل کو کہتے ہیں جو اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتا پھرتا ہے۔ اور انھیں مشکلات میں پھنسا تا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہ خواہ مخواہ کی مصیبت گلے آ پڑی گلے کا ہار ہو جانا کسی مصیبت کا یا مشکل کام کا مستقل طور پر گلے کا ہار ہونا ہے۔ ہار ایک خوبصورت شے ہے گلے کا زیور ہے لیکن محاورہ میں اس کا استعمال زیب و زینت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ مشکلات و مصائب سے رشتہ رکھتا ہے۔ جن میں پڑنا آدمی کے لئے ناخوشگوار ی بلکہ نا گواری بڑھتی ہے۔

اس سے پتہ چلا کہ زبان کے استعمال اور سماجی سطح پر جو کسی معاشرہ کی نفسیاتی سطح ہوتی ہے الفاظ کیا کیا معنی اختیار کرتے ہیں اور بات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے گلے منڈھنا بہت کچھ اسی معنی میں آتا ہے گلے میں زنجیر پڑنا ایک طرح سے پھنس جانے کے معنی میں آتا ہے اس لئے کہ جانور کو اس کے گلے میں رسی ڈال کر کھونٹے سے باندھا جاتا ہے زنجیر اس کے بعد کی بات ہے اور اس سے زیادہ سخت اور  بری بات ہے اور  زنجیر کرنا بھی محاورہ ہے اور گلے ہاتھوں یا پیروں میں زنجیر باندھنے کو کہتے ہیں میر ؔکا شعر ہے۔

؂ بہار آئی دوانہ کی خبر لو

اُسے زنجیر کرنا ہے تو کر لو

( 12 ) گنج شہیداں، گنج قارون،گنجے کو خدا ناخن نہ دے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

گنج اُردو زبان میں کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے خزانہ کے معنی میں بستی یا محلے کے معنی میں اور سر کے بال اڑ جانے کے معنی میں عام طور سے جب کسی کو گنجا کہتے ہیں تو اس سے مراد اس کے سرکے بال اڑنے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔

گنجے کو خدا ناخن نہ دے اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی عیب دار آدمی کو اگر کوئی قوت حاصل ہو گئی کوئی موقع ہاتھ آگیا تو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا گنج شہیداں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کسی جنگ میں شہید ہونے والے بہت سے لوگ دفن کر دیئے جاتے ہیں۔

گنج قارون، قارون ایک کلاسیکی کردار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مصر کے کسی بادشاہ کا وزیر مالیات تھا اور اتنا مالدار تھا کہ اُس کا خزانہ اونٹوں پر لد کر جاتا تھا اور کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ اس کی چابیاں اتنی تھیں کہ وہ اونٹوں پر لد کر جاتی تھیں یہ مبالغہ ہے اور داستانی انداز میں پیش کیا گیا ہے لیکن قدیم زمانہ کے بادشاہوں کے ساتھ ان کے خزانوں کا بھی ذکر آتا ہے جیسے خسرو پرویز کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس سات خزانہ تھے ایک کا نام گنج شائیگاں تھا دوسرے کا نام گنج رائیگاں وغیرہ اس سے یہ پتہ چلا کہ محاورے ہماری روایتوں کو محفوظ کرتے ہیں اور محاورات میں ڈھل کر یہ روایتیں ہمارے سماجی حافظہ کا حصّہ بن جاتے ہیں۔

( 13 ) گنگا جمنی، گنگا نہانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

گنگا ہندوستان کا مقدس دریا ہے ممکن ہے دراوڑوں کے زمانہ میں بھی اِسے مقدس خیال کیا جاتا ہو لیکن آریاؤں کے دور میں تو رفتہ رفتہ اُس کی پوجا ہونے لگی اور اس کو ہر ہر گنگے کہا جانے لگا اس سے نگاہ کے ساتھ پاکیزگی اور مذہبی تقدس وابستہ ہو گیا اور  اسی لئے گنگا کا پانی اس تقدس کی ایک علامت بن گیا۔ اسی لئے پھول گنگا میں پھینکے جاتے ہیں اور بھجن پیش کئے جاتے ہیں۔ گنگا میں نہانے کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی کا بدن اور اُس کی روح پاک ہو گئی تو جب بڑے کام سمٹ جاتے ہیں تو محاورے کے طور پر کہا جا تا ہے کہ تم تو گنگا نہا لئے یعنی ساری الجھنوں اور  ذمہ داریوں سے فارغ ہو گئے اب ہر طرح پاک صاف ہیں اور آزاد ہیں۔

الہ آباد کے قریب وہ مقام ہے جس کو پریاگ کہتے ہیں جہاں گنگا اور جمنا دونوں ایک الگ ندیاں مل جاتی ہیں اور بہت دُور تک پانیوں کے دھارے ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں۔ اور دونوں کے الگ الگ رنگ پہچانے جاتے ہیں اسی کو ہم نے ایک محاورے میں بدل دیا اور گنگا جمنی تہذیب کہا جو ہندوستان کی ایک تہذیبی خصوصیت بن گئی اردو کو بھی اس کے ملے جلے کردار کی وجہ سے گنگا جمنی زبان کہتے ہیں۔

( 14 ) گوشت سے ناخن کا جُدا کرنا یا گوشت سے ناخن جُدا ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

گوشت سے ناخن کا جدا کرنا یا ہونا اُردو میں عام طور پر بہت مشکل اور  ناممکن بات کو کہتے ہیں غالب ؔ کے ایک شعر میں اسی کی طرف اشارہ ملتا ہے۔

دل سے مٹنا تیری انگشتِ حنائی کا خیال

ہو گیا گوشت سے ناخن کا جُدا ہو جانا

(غالبؔ)

اب ظاہر ہے کہ اب اس محاورے کا جو انداز ہے وہ مسلم کلچر سے وابستہ کرتا ہے ویسے جس اٹوٹ رشتہ کی طرف اشارہ موجود ہے وہ ایک تہذیب کا ایک مشترک عنصر ہے۔ ہندو عام طور پر اپنی زبان میں گوشت ہڈی اور خون کا بے تکلف ذکر نہیں کرتے۔

( 15 ) گوشمالی دینا، گوشمالی کرنا یا ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سزا دینے کے معنی میں آتا ہے’’ گوش‘‘ فارسی میں کان کو کہتے ہیں اُردو میں فارسی کی نسبت بہت ترکیبی الفاظ گوش کے ساتھ آتے ہیں جیسے گوش ہوش حلقہ بگوش گوش سماعت سننے والا کان کان اینٹھنا کان پکڑنا کان مروڑنا یہ سب کان کے ذریعہ دی جانے والی سزائیں ہیں اور اُن کو عام طور سے گوش مالی کے تحت رکھا جاتا ہے عجیب بات ہے کہ سزاؤں کا اور اعضاء سے وابستہ ہے زیادہ کاٹ لینا کان کاٹنا دانت توڑنا پیٹ پھاڑنا ہاتھ پاؤں توڑ دینا وغیرہ۔

( 16 ) گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

گھاٹ دریا کے ایسے حصے یا کنارے کو کہتے ہیں جہاں سے کشتیوں میں سفر شروع ہوتا ہے یا  پھر کپڑے دھوتے ہیں غرضیکہ گھاٹ کا رشتہ رہ گزر سے بھی ہے اور دریا کے ایسے کنارے سے بھی جس کا جانوروں اور انسانوں کا واسطہ پڑتا ہے ظاہری بات ہے کہ اس طرح جہاں دریا بہتے ہوں اور اُن سے گزر ممکن ہو گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا زیادہ سے زیادہ دریائی سفر کے تجربہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اس میں دوسرے تجربہ بھی شامل ہیں۔

( 17 ) گونگے کا خواب۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

خواب دلچسپ ہوتا ہے مگر وہ اسے بیان نہیں کر پاتا اُس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی جن باتوں کو محسوس کرتا ہے جان لینا ہے وہ ان کو بیان نہیں کر پاتا تو وہ گونگے کا خواب ہوتا ہے ایک اور محاورہ بھی اسی معنی میں آتا ہے۔ اور  وہ گونگے کا گڑ ہے یعنی وہ گڑکا مزہ تو جان گیا مگر اپنی زبان سے بیان نہیں کر سکتا آپ ان لفظوں کو بدل کر گونگے کی مٹھائی بھی کہہ سکتے ہیں مگر ہماری عوامی زندگی میں گڑ ایک آئیڈیل مٹھائی تھی۔ خوشی کے موقع پر گڑ کی ڈلیاں بانٹی جاتی تھیں اور اسے محاورے میں گڑ بٹنا  یا  گڑ بانٹنا کہتے ہیں ایک اور کہاوت ہے گڑ نہ دے گڑ جیسی بات کہہ دے یعنی ان عوام کے یہاں گڑ ایک تہذیبی علامت تھا یا رہا ہے۔ وہ گڑ کی بھیلی جب کہتے تھے تو اس سے بہت اچھی شخصیت مراد لیتے تھے اور یہ کہتے نظر آتے تھے کہ اس کا کیا ہے وہ تو گڑ کی بھیلی ہے ان کے یہاں گڑ ایک اچھی بات ایک اچھا لہجہ کی علامت تھا اور جو لوگ اپنی بات بدلتے تھے ان سے کہتے تھے کہ یہ کیا بات ہوئی تم کہتے ہو یہ گڑ کھٹا اور یہ میٹھا ہے۔

( 18 ) گھر پھونک تماشا ہونا یا دیکھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اپنا گھر لٹا کر کوئی بظاہر خوشی کا کام کرنا سماج کا اور اُس کے کردار کا ایک کمزور پہلو ہے اس محاورہ میں اسی پر طنز کیا گیا ہے کہ اگر گھر لٹا کر اپنا سب کچھ برباد کر کے کوئی خوشی حاصل کی جائے تو اسے گھر پھونک تماشا کہتے ہیں اور یہ محاورہ اپنی معنویت کے اعتبار سے اہم محاورہ ہے۔

( 19 ) گھر چڑھ کر لڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اصل میں یہ گھر چڑھنا محاورہ ہے اور ہمارے یہاں چڑھنے کے معنی سماجی طور پر کافی وسیع ہیں جیسے برات چڑھنا لام پر چڑھنا سُولی پر چڑھنا اور گھر پر چڑھ کر آنا تیاری سے آنا اگر کوئی آدمی اسی نیت سے آیا ہے کہ وہ گھر پر آ کر لڑے گا تو ایسے موقع کے لئے کہا جاتا ہے وہ روز گھر پر چڑھ کر آتا ہے۔

اُردو کا مصرعہ ہے۔

؂ یہ خانہ جنگ بھی لڑتی ہے روز گھر چڑھ کر

ہم محاوروں کے الفاظ میں معنی کے اعتبار سے تو تبدیلی دیکھتے ہیں وہ سماجی فکر نقطہ نظر جذبہ و احساس اور قدر و بے قدر ہونے والے آہ و فغاں کی نشاندہی کرتی ہے اور اسی نسبت سے محاوروں کے ساتھ یہ کہے کہ ہمارے سماجی رو یہ گہرے طور پر جُڑے ہوئے ہیں۔

( 20 ) گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے ( سید ضمیر حسن دہلوی )

گھرکے ساتھ بہت سے محاورے وابستہ ہیں ہونا بھی چاہیے اس لئے کہ گھر بنیادی یونٹ ہے جس سے معاشرہ بنتا ہے آدمی کا پالن پوسن بھی گھر میں ہوتا ہے راحت و آرام کا رشتہ بھی گھر سے قائم ہوتا ہے اور  محبت کا رشتہ بھی گھرکو دیکھ کر جی خوش ہوتا ہے اور  آدمی اپنے گھر کو ہر اچھی چیز سے اچھی بات سے سجانا چاہتا ہے لیکن اگر گھر کے ساتھ کوئی ٹریجڈی یا تکلیف دہ بات کا رشتہ جڑ جاتا ہے تو وہی گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے تنہائی میں بھی اکثر یہ ہوتا ہے۔

گھر سے آدمی دور ہوتا ہے تو ایک ایک چیز اس کی آنکھوں پھرتی ہے گھر کسی وجہ سے ویران ہو جاتا ہے تو اسے گھر سے گھروندا ہو جانا کہتے ہیں اردو کا ایک مشہور مصرعہ ہے۔

؂ جو گھر کو آگ لگائے وہ اپنے ساتھ چلے

گھرکو آگ لگنا بھی محاورہ ہے اردو کا یہ مصرعہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے

؂ اس گھرکو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

یعنی گھر کا اپنا خاص آدمی ہی گھرکی تباہی کا باعث ہوا۔ گھر میں گھس کر بیٹھ جانا یہ بھی گھر سے متعلق محاورہ ہے اس کے معنی ہوتے ہیں کہ دشمنی کرنے والے گھر میں گھسے بیٹھے ہیں اور دشمنی کر رہے ہیں گھر گھسنا خانہ نشیں ہونا الگ بات ہے یہ آدمی کے الگ الگ رویوں اور way of lifeکو ظاہر کرتا ہے۔

( 21 ) گھرکا بھیدی لنکا ڈھا دے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مشہور کہاوت ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ جو خاندانی حالات سے واقف ہوتا ہے وہ زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔

ہم مندرجہ ذیل محاوروں کو بھی گھر سے نسبت کے ساتھ لے سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں جیسے گھر کا راستہ لو گھرکا فرد گھر کا نام ڈبونا گھر کے گھر بند ہو گئے گھر تالے  پڑ گئے  یا گھر گھر کے بے چراغ ہو گئے وغیرہ۔

( 22 ) گھر میں ڈالنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کسی عورت کو گھر میں رکھ لینا اور بیوی کے طور پر رکھنا گھر میں ڈال لینا کہلاتا ہے۔

( 23 ) گھمسان کا رن پڑنا، گھمسان کی لڑائی ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہت بڑے پیمانہ پر لڑائی کے ہونے کو کہتے ہیں۔ گھمسان کا رن پڑا یعنی بہت جنگ ہوئی خون خرابہ ہوا لڑائی اب بھی ہوتی ہے لیکن اب ذہنوں میں دلوں میں زیادہ ہوتی ہے۔

( 24 ) گھن چکر ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یعنی بُری طرح چکر کھانا یا چکروں میں پھنسنا گھن کے معنی گھنے کے ہیں۔

( 25 ) گھنگرو بولنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دہلی والوں کا خاص محاورہ ہے اور اس وقت کے لئے بولا جاتا ہے جب موت سے کچھ پہلے سانس خراب ہو جا تا ہے اور اس میں گھرگھراہٹ آ جاتی ہے لفظ محاورہ میں کس طرح اپنے معنی بدلتے ہیں اس کا اندازہ گھنگرو بولنے سے ہوتا ہے۔

تشبیہہ ہو استعارہ محاورہ کنایہ گفتگو اور  مفہوم کی ترسیل کے لئے ایک خاص کردار ادا کرتے ہیں اس کو ہم محاوروں کے لفظیاتی استعمال میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

( 26 ) گھن لگ جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جس طرح کا کیڑا دیمک ہوتی ہے جو کتابوں کاغذوں اور  لکڑیوں کو لگتی ہے اسی طرح کے کیڑے کی ایک اور نسل ہے جس کو گھن کہتے ہیں اور اناجوں کو لگتا ہے اور غذا کا ضروری حصّہ کھا جاتا ہے اسی بات کو آگے بڑھا کر ذہن دل اور دماغ کے لئے بھی گھن لگنا استعمال کرتے ہیں یعنی وہ پہلی سی تیزی و طراری اور چمک دمک باقی نہ رہی۔

( 27 ) گھوڑی چڑھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

گھوڑے پر سوار ہونا بہت سی قوموں کی تہذیبی و معاشرتی زندگی میں غیر معمولی اہمیت رکھنے والی ایک صورت ہے ایک زمانہ میں گھوڑے کی سواری فوجی علامت کے لئے غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی اور ایک سپاہی گھوڑا مول لیکر کسی بھی رئیس جاگیر دار یا صاحب ریاست کے یہاں نوکر ہو جاتا تھا سودا ؔ کا ایک شعر ہے۔

؂ کہا میں حضرت سوداؔ سے کیوں ڈانواں ڈول

پھرے ہے جا کہیں نوکر ہولے کے گھوڑا مول

عام طور پر رئیسوں کے ہاں سواری کے گھوڑے رکھے جاتے تھے اور تحفہ کے طور پر بھی پیش کئے جاتے تھے تاریخ میں بعض گھوڑوں کے نام بھی دیئے گئے ہیں مثلاً  رستم کے گھوڑے کا نام رخش تھا امام حسینؑ کے گھوڑے کو دُلدل کہتے تھے اور مہارانا پرتاپ کے گھوڑے کو چیتک اس سے ہماری تاریخی اور تہذیبی زندگی میں گھوڑے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

جب بچہ کچھ بڑا ہوتا تھا تو گھوڑی چڑھنے کی رسم ادا کی جاتی تھی یعنی پہلے پہل گھوڑی پر سوار ہونا بطورِ تقریب منایا جاتا تھا دہلی میں آج بھی کہیں کہیں اس کا رواج ہے اس سے رسموں کی تہذیبی اہمیت کا اظہار ہوتا ہے ان کا تاریخی اور سماجی پس منظر سامنے آتا ہے اور یہ بھی کہ محاورے میں کس طرح تہذیب کی تاریخ کو اپنے اندر سمیٹا ہے اور زبان کا سماج سے رشتہ جوڑا ہے گھوڑے جوڑے سے شادی ہونا بھی محاورہ ہے اور اس سے مراد لین دین رسوم و آداب کے ساتھ شادی کرنا ہے۔ اگر محاورے کو سرسری طور پرنہ لیا جائے تو محاورہ ہماری تہذیب و تاریخ کا سماجی زندگی اور معاشرتی ماحول کا جیتا جاگتا عکس پیش کرتا ہے۔ گھوڑے کھولنا انتہائی کوشش کو کہتے ہیں۔

( 28 ) گھونگھٹ کھولنا، گھونگھٹ اٹھانا، گھونگھٹ رہنا، گھونگھٹ کی دیوار۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہندوستانی تہذیب میں عورتیں جب اپنی سسرال جاتی تھیں تو دلہن کے چہرہ پر ایک لمبا سا خوبصورت دوپٹہ پڑا رہتا تھا اس کے ایک پلو نقاب کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا منہ دکھائی رسم کے موقع پر گھونگھٹ اٹھایا جاتا تھا دولہا جب اپنی دلہن کا چہرہ پہلی مرتبہ دیکھتا تھا تو اسے گھونگھٹ اٹھانا کہتے تھے جن مردوں کا احترام ملحوظ ہوتا تھا ان کے سامنے ہمیشہ عورت گھونگھٹ نکالے رہتی تھی۔ اور جب گھونگھٹ باقی نہیں رہتا تھا تو اس کے لئے کہتے تھے گھونگھٹ اٹھ گیا۔ دہلی میں لال قلعہ کے لاہوری دروازہ کے سامنے ایک اور سنگین دیوار بنائی گئی ہے اس کو بھی گھونگھٹ کی دیوار کہتے ہیں اسی کا نام’’ گھونگس‘‘ بھی پڑ گیا تھا۔

( 29 ) گھی کے چراغ جلانا یا گھی کے چراغ جلنا، گھی کے گھونٹ پینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’گھی ‘‘دیہات اور قصبات کی زندگی کا ایک غذائی حوالہ ہی نہیں بلکہ تہذیبی حوالہ بھی ہے گھی کو ایک زمانہ سے بڑی نعمت خیال کیا جاتا رہا ہے اور  ہون میں بھی گھی آگ پر ڈالا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دیوتاؤں کو گھی پسند ہے اور اس کی خوشبو آگ میں جل کر ان کو پہنچتی ہے اس کی ایک اور  صورت گھی کے چراغ جلانا بھی ہے جو انتہائی خوشی کی علامت ہے گھی کے چراغ جلنا بھی مسرتوں سے بھرے کسی خوشی کے موقع یا تقریب کا اظہار ہے۔

گھی کبھی میسر آتا تھا تو غریب آدمی کی زندگی میں یادگار موقع ہوتا تھا اسی لئے جب کوئی دل کو بہت خوش آنے والی بات ہوتی تھی تو کہتے تھے کہ اس کو دیکھ کر اس کی بات سن کر میں نے گھی پی لیا۔

شکرانہ پر باریک شیر یا  بورے کے اوپر گھی ڈالا جاتا تھا۔ بیاہ برات کے موقع پر مہمانوں کو تواضع کے طور سے زیادہ سے زیادہ گھی پیش کیا جاتا تھا اسی لئے جو بہت اچھا آدمی ہوتا تھا اس کو بھی گھی سے نسبت دی جاتی تھی اور پیار محبت کے طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ وہ تو گھی ہے یا گھی کا سا گھونٹ ہے۔ گھی پر ہمارے یہاں بہت محاورے ہیں مثلاً سیدھی انگلیوں گھی نہیں نکلتا یا کھائیں گے تو گھی سے نہیں تو جائیں گے جی سے یا سارے مزے ایک گھی میں ہیں گھی دودھ سب سے اچھی غذا سمجھی جاتی تھی اور یہ کہتے تھے کہ وہ تو گھی دودھ پر پلا ہے۔

( 30 ) گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلاتا ہے کہ جو وقت گزر گیا وہ گزر گیا جو وقت ضائع ہوا وہ کسی قیمت پر واپس نہیں آ سکتا وقت ہم بہت استعمال کرتے ہیں جیسے اچھا وقت بُرا وقت مصیبت کا وقت خوشی کا وقت کوئی بھی وقت ہو اس کے اپنے معنی اور اپنی اہمیت ہوتی ہے میر حسنؔ کا یہ مشہور شعر وقت کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے۔

؂ سدا دور دورا دِکھا تا نہیں

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔