کب تلک انتظار، اب چل چل
چھوڑ ویگن کو بس کو پیدل چل
بج گئی گھنٹی ہو گئی چھٹی
دل میں کیونکر نہ پھر مچے ہلچل
یادِ مولیٰ میں اشک برساتا
دشتِ دل کو بناتا جل تھل چل
راہِ طیبہ کی عظمتیں مت پوچھ
اس میں عاشق جبین کے بل چل
راستے میں ٹھہرنا کیا معنی
شوقِ منزل ہے تو مسلسل چل
جب اساں چل پئے تواڈے نال
فکر دی تینوں کی اے ہنڑ گل چل
ہم کو معلوم ہے کہ اونٹ رے اونٹ
تیری سیدھی نہیں کوئی کل، چل
وہ بھی مشتاق ہیں اثرؔ تیرے
جانبِ اشتیاق انکل چل