11:43    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

احمد فراز کی شاعری

1491 2 0 00

سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے

ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے​

شکوۂ ظلمتِ شب سے، تو کہیں‌ بہتر تھا

اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے​

کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں

پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے​

جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا، ورنہ ہم بھی

پابجولاں ہی سہی، ناچتے گاتے جاتے​

اِس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا

تم فراز! اپنی طرف سے تو، نبھاتے جاتے

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔