ہم اس شوخ کو پہلو میں لئے بیٹھے ہیں
کوئی آئے تو یہ سمجھے کہ پئے بیٹھے ہیں
تم سے اظہار خیالات کریں یا مرجائیں
آج اس بات کا ہم عہد کئے بیٹھے ہیں
ضد دلانا جو ہے مقصود تبسم کو ترے
ہم پھر آج اپنے گریباں کو لئے بیٹھے ہیں
ہنس رہے ہیں شبِ وعدہ وہ مکاں میں اپنے
ہم ادھر عیش کا سامان لئے بیٹھے ہیں
جو مقدر میں ہے وہ ہو کہ رہے گا اے جوشؔ
آپ کیوں دل کو پریشان کئے بیٹھے ہیں؟