02:57    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

جوش ملیح آبادی کی شاعری

583 0 0 00

صبا۔۔ جانا اُدھر تو دردِ دل کا ماجرا کہنا

صبا۔۔ جانا اُدھر تو دردِ دل کا ماجرا کہنا

بہ نرمی بارگاہِ شاہ میں حالِ گدا کہنا

ادب سے پیش آنا، گفتگو کرنا مروت سے

مگر دل کا جو عالم ہو رہا ہے، برملا کہنا

وہاں پانا جو شغلِ ہاؤ ہو۔۔ تو میری جانب سے

مغاں سے بندگی کہنا، مغنی سے دعا کہنا

خود اپنا جائزہ لینے پہ وہ مجبور ہو جائے

کچھ ایسے خوف سے رودادِ انجامِ جفا کہنا

جہاں ہر آن امّیدوں پر امّیدیں بر آتی ہیں

وہاں میری گھنی مایوسیوں کا ماجرا کہنا

وہ جب چونکے تو اُس کی ادھ کھلی زلفوں کو بکھرا کر

مری رودادِ برہم خوابیِ شامِ بلا کہنا

گدا کو ایک اشارے میں جو شاہی بخش دیتے ہیں

اُن اربابِ کرم کا قصۂ جود و سخا کہنا

ہلا کر زلفِ مشکیں چھیڑنا ذکرِ شبِ ہجراں

مری مشکل بیاں کرنا، اُسے مشکل کشا کہنا

دلِ بے درد میں شاید ذرا سا درد پیدا ہو

مجھے محتاج کہنا، اور اُسے حاجت روا کہنا

تصور میں جو دل کرتا ہے شکوے تلخ کامی کے

اُنہیں میٹھے سروں کی چھاؤں میں بہرِ خدا کہنا

کسی دن برسبیلِ تذکرہ اُس آفتِ جاں سے

بتانِ مہر خو کا قصۂ لطف و عطا کہنا

سنکنا۔۔ اور بتا دینا کہ میری آرزو کیا ہے

مگر لفظوں کے سانچے میں، نہ حرفِ مدعا کہنا

جو یہ پانا کہ اُس کے دل میں دردِ بے نوایاں ہے

تو فدوی کو یکے از بندگانِ بے نوا کہنا

وہ باتوں میں اگر بگڑے تو دامن چوم کر اُس کا

نکیلے طیش کی ایک اک ادا پر مرحبا کہنا

بکھر جائیں جو اُس کی جنبشِ سر سے گھنی زلفیں

تو اُس بکھراؤ کو شیرازۂ ارض و سما کہنا

مرے بانکے کی چھب کو دیکھ کر، گردن جھکا لینا

اٹھانا پھر نظر۔۔ اور جھوم کر صلِ علیٰ کہنا

اُسے برہم اگر پانا، مری شب گیر آہوں پر

تو آہوں کو شکستِ شیشۂ دل کی صدا کہنا

اگر یہ بھانپنا سجدے کا طالب ہے غرور اُس کا

تو مجھ کو بندۂ مولیٰ طلب۔۔ اُس کو خدا کہنا

اگر وہ یہ کہے، اک روز میں تھا جنگ پر مائل

تو اُس کو میری طبعِ صلح جو کی اک ادا کہنا

اگر وہ شکوہ فرمائے مری گستاخ دستی کا

تو میری عقل کو عاشق کی عقلِ نارسا کہنا

جو وہ آوارہ و آزادہ مشرب مجھ کو ٹھہرائے

تو مجھ کو بستۂ زنجیرِ میرِ کربلا کہنا

جو وہ الزام دے مجھ کو عقائد سے بغاوت کا

تو مجھ کو محرمِ سرِّ ضمیرِ مصطفیٰ کہنا

کہے وہ خیر سے مجھ کو اگر اللہ کا منکر

تو مجھ کو آدمی کا خادمِ درد آشنا کہنا

شکایت وہ اگر فرمائے میری بادہ خواری کی

تو میری اِس روش کو جبرِ سلطانِ قضا کہنا

مرے شکووں کو سن کر وہ بگڑ جائے، تو جلدی سے

گرہ سی ڈال کر لہجے میں۔۔ اُس کو بے خطا کہنا

برا مجھ کو کہے تو بعد میں کہنا جو دل چاہے

مگر پہلے سرِ تسلیم خم کر کے 'بجا' کہنا

اگر وہ شکوہ فرمائے مری شاہد پرستی کا

تو مجھ کو عادتاً بدراہ و طبعاً پارسا کہنا

مری اچھائیوں کا ذکر کرنے سے ذرا پہلے

مجھے کچھ پیار کے لہجے میں تھوڑا سا برا کہنا

یہ مشکل ہے بہت لیکن ترے نزدیک آساں ہے

کسی ناآشنا سے ماجرائے آشنا کہنا

وہ اپنے جوش سے روٹھا ہوا ہے ایک مدت سے

اگر تیری شفاعت کام آ جائے، تو کیا کہنا

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔