01:05    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

کلیم عاجز کی شاعری

708 1 0 04

زخموں کے نئے پھول کِھلانے کے لئے آ 

پھر موسمِ گُل یاد دلانے کے لئے آ

مستی لئے آنکھوں میں بکھیرے ہوئے زُلفیں 

آ، پھر مجھے دِیوانہ بنانے کے لئے آ

اب لُطف اِسی میں ہے، مزا ہے تو اِسی میں! 

آ اے مِرے محبُوب! ستانے کے لئے آ

آ، رکھ دَہَنِ زخم پہ، پِھر اُنگلیاں اپنی 

دِل بانسری تیری ہے، بجانے کے لئے آ

ہاں کچھ بھی تو دیرینہ محبت کا بھرم رکھ 

دِل سے نہ آ، دُنیا کو دِکھانے کے لئے آ

مانا کہ مِرے گھر سے عداوت ہی تجھے ہے 

رہنے کو نہ آ ، آگ لگانے کے لئے آ

پیارے! تِری صُورت سے بھی اچّھی ہے، جو تصوِیر

میں نے، تجھے، رکھّی ہے دِکھانے کے لئے، آ

آشُفتہ کہے ہے، کوئی دِیوانہ کہے ہے 

میں کون ہُوں، دُنیا کو بتانے کے لئے آ

کُچھ روز سے ،ہم شہر میں رُسوا نہ ہُوئے ہیں 

آ، پھر کوئی اِلزام لگانے کے لئے آ

اب کے جو وہ آ جائے تو عاجزؔ ، اُسے لے کر 

محفِل میں غزل اپنی سُنانے کے لئے آ

4.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔