02:41    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

میر تقی میر کی شاعری

3357 3 1 03

فقیرانہ آئے صدا کرچلے

میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم

سو اُس عہد کو اب وفا کر چلے

شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی

کہ مقدور تک تو دوا کر چلے

وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے

ہر اک چیز سے دل اُٹھا کر چلے

کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ

سو تم ہم سے منھ بھی چُھپا کر چلے

بہت آرزو تھی گلی کی تری

سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے

دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا

ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی

حقِ بندگی ہم ادا کر چلے

پرستش کی یاں تک کہ اے بُت تجھے

نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے

نہ دیکھا غمِ دوستاں شکر ہے

ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے

گئی عمر در بندِ فکرِ غزل

سو اس فن کو ایسا بُرا کر چلے

کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر

جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے!

3.0 "2"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔