تنقید کسی فن پارے کے حسن و قبح کو پرکھ کر منصفانہ اظہار رائے کا نام ہے۔ تنقید کو نقدِ حیات کا منصب حاصل ہے کیونکہ ہر فن پارہ زندگی یا اس کے کسی نہ کسی پہلو کی ترجمانی وعکاسی کرتا ہے۔ اس لئے تنقید کے مقاصد تبھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اگر نقاد زندگی کی صداقتوں کا شعور و ادراک رکھتا ہو۔ خود اِن صداقتوں کے تخلیقی اظہار کی قدرت رکھتا ہو اور سب سے اہم بات یہ کہ اس تجزیاتی شعور تعصب سے پاک اور غیر جانبدارانہ ہو۔ اردو ادب میں صحت مند تنقید کی روایت کی بدولت لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی ہے اور ان کا تخلیقی جوہر ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا ہے۔ تنقید کی اسی صحت مند روایت کی پاسداری کرنے والوں میں حیدر قریشی کو شمار کیا جا سکتا ہے۔ حیدر قریشی کا تنقیدی شعور اگرچہ ان کی شعری و نثری نگارشات میں بھی جلوہ گر ہے مگر اُن کی تنقیدی کتب میں اُن کا یہ جوہر خاص طور پر نمایاں نظر آتا ہے۔ حیدر قریشی کی کی تنقیدی کتب مندرجہ ذیل ہیں۔
(الف) ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت
(ب) اُردو میں ماہیا نگاری
(ج) اُردو ماہیے کی تحریک
(د) اُردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما
آئندہ صفحات میں ان کتب کا الگ الگ جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘ حیدر قریشی کے تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب ہے جس میں انہوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کی ہمہ جہت اور ہمہ رنگ شخصیت اور اس کے فنی و فکری گوشوں کو فکر انگیز عقیدت سے بیان کیا ہے۔ حیدر قریشی اپنی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’ میری یہ کتاب ان مضامین کا مجموعہ ہے جو میں نے گزشتہ دس برس کے دوران ڈاکٹر وزیر آغا کے فن کی مختلف جہات پر وقتاً فوقتاً تحریر کیے ہیں۔ جب مجھے انہیں یکجا کرنے کا خیال آیا تب اندازہ ہوا کہ یہ بکھرے ہوئے مضامین الگ الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان سے علم و فن کی کسی سطح کا سہی، ڈاکٹر وزیر آغا کے بارے میں ایک واضح تاثر سامنے آتا ہے۔ (۱)
۱۹۹۵ء میں نایاب پبلی کیشنز خان پور کی جانب سے شائع ہونے والی اس کتاب ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘ میں حیدر قریشی نے ’’ابتدائیہ ‘‘ کے نام سے دیباچہ خود تحریر کیا ہے۔ اس ابتدائیہ میں ڈاکٹر وزیر آغا کے بارے میں حیدر قریشی لکھتے ہیں۔
’’ ڈاکٹر وزیر آغا ہمارے ادب کی عہد ساز شخصیت ہیں۔ عہد ساز شخصیت کے الفاظ میں نے محبت یا مروت میں نہیں لکھے بلکہ ایک حقیقت بیان کی ہے۔ یوں تو ان کی مجموعی ادبی کارکردگی کے اثرات پاکستان اور ہندوستان کے ادب پر اتنے نمایاں ہیں کہ سنجیدہ ترقی پسند ناقدین نے بھی برملا طور پر اس کا اقرار کیا ہے تاہم جیسے جیسے وقت گزرے گا ان کے گہرے اثرات کا دائرہ وسیع تر ہوتا جائے گا۔ ’‘ (۲)
’’ابتدائیہ’‘ کے بعد حیدر قریشی نے ڈاکٹر وزیر آغا کے مختصر کوائف زمانی تسلسل سے تحریر کیے ہیں جو کہ اُن کی وسیع خدمات کا ثبوت ہیں۔
مضمون ’’عہد ساز شخصیت’‘ میں حیدر قریشی نے ڈاکٹر وزیر آغا کی شخصیت کے بارے میں اپنے تاثرات اور تجربات کو بیان کرتے ہوئے ناقدانہ رائے کا اظہار کیا ہے۔ مضمون کے آغاز میں حیدر قریشی خود کو ادبی دنیا کا نووارد کہتے ہوئے، ڈاکٹر وزیر آغا سے اپنی ذ ہنی ا ور علمی ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہیں۔
’’میں ادبی دنیا میں نووارد تھا… اس دوران مجھے ’’تنقید اور احتساب’‘ پڑھنے کا موقع ملا تو یوں لگا میرے مبہم اور غیر واضح تصورات کو اصل صورت ملنے لگی ہے۔ یہ ڈاکٹر وزیر آغا سے علمی سطح پر میری پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد ’’نظم جدید کی کروٹیں ’‘ اور ’’نئے مقالات’‘ کے ذریعے ڈاکٹر وزیر آغا سے مزید دو ملاقاتیں ہوئیں اور مجھے احساس ہوا کہ ادب کے بارے میں جو کچھ میں سوچتا ہوں مگر میری گرفت میں نہیں آیا وہ سب وزیر آغا کی گرفت میں ہے۔ (۳)
پھر جب حیدر قریشی نے باقاعدہ طور پر ادبی دنیا میں قدم رکھا اور ادبی رسالہ’’ جدید ادب’‘ کے اجراء کا پروگرام بنایا تو ڈاکٹر انور سدید کے ذریعے حیدر قریشی کی باقاعدہ قلمی ملاقات ہوئی اور ڈاکٹر وزیر آغا نے معمولی سی درخواست پر نہ صرف محبت سے اپنی نگارشات ’’ جدید ادب’‘ کے لیے دے دیں بلکہ ایک استاد اور رہنما کے طور پر حیدر قریشی کو ادبی دنیا میں آگے بڑھنے میں مدد بھی دی۔ اسی رہنمائی کی بدولت حیدر قریشی نے انشائیہ نگاری کی صنف کو اپنایا۔ اس کے علاوہ اُن کی اکثر تخلیقات بھی ڈاکٹر وزیر آغا کے مجلہ ’’ اوراق’‘ میں شائع ہونے لگیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے مشفقانہ رویے اور پُر خلوص رہنمائی نے حیدر قریشی پر اُن کی شخصیت کے متعدد پہلوؤں کو اُجاگر کیا۔
حیدر قریشی ’’ ابتدائیہ’‘ میں ڈاکٹر وزیر آغا کی زندگی اور اُن کی شخصیت کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ وزیر آغا دشمن کے تیر سہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں مگر دوستوں کے مارے ہوئے پھول نہیں سہہ سکتے۔ ہاں اگر دوست کھل کر دشمن بن جائے تو پھر ان کی زہریلی مخالفت کو بھی ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پی لیتے ہیں۔ ’‘ (۴)
ڈاکٹر وزیر آغا کی سوانح عمری ’’شام کی منڈیر سے’‘ پر اپنے تنقیدی مضمون میں حیدر قریشی نے نہ صرف اُن کی زندگی کے چھپے ہوئے گوشوں کو کھولنے کی کوشش کی ہے بلکہ قارئین کے لیے بھی ڈاکٹر وزیر آغا کو سمجھنے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ ’’شام کی منڈیر سے‘ ‘ کے بارے میں اپنی ناقدانہ رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ شام کی منڈیر سے’‘ ادب کے ان قارئین کے لیے گائیڈ بک کا کام بھی دیتی ہے جنہیں عام طور پر یہ شکایت ہے کہ وزیر آغا کی شاعری پوری طرح انہیں سمجھ نہیں آتی۔ مجھے یقین ہے اگر ایسے قارئین ایمان داری سے ’’شام کی منڈیر سے’‘ پڑھ لیں تو ان کی عدم تفہیم کی شکایت نہ صرف دور ہو جائے گی بلکہ انہیں وزیر آغا کے تصورات کو ان کے حقیقی روپ میں دیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔ ’‘ (۵)
’’شام کی منڈیر سے’‘ میں موجود ڈاکٹر وزیر آغا کی زندگی کے پہلوؤں کو ’’اُن کی تخلیقات کا ایک نیا جہان معنی’‘ قرار دیتے ہوئے حیدر قریشی ڈاکٹر وزیر آغا کے سائنسی، اسلامی اور فلسفیانہ اندازِ بیان کے بارے میں اظہارِ رائے کرتے ہیں۔
’’سائنس کو وہ اس کے وسیع تر مفہوم میں لیتے ہیں اور کائناتِ اصغر کی نئی نئی دریافتوں سے خوش گو ار حیرتوں میں مبتلا ہوتے ہیں … روحانیت اورسائنس کے حیرت افزا انکشافات کو وہ ادبی زاویے سے بھی دیکھتے ہیں اور اپنی تخلیقات کو ان سے منور بھی کرتے ہیں۔ یوں ان کے ہاں ادب محض حسن و عشق کا بیان یا محض احتجاج نہیں بنتا بلکہ وہ تو زندگی اور کائنات کے بے شمار اسرار و رموز کی نقاب کشائی کا موجب بنتا ہے پھر وہ اپنے کشف کو اپنے تک محدود نہیں رکھتے بلکہ اپنے قارئین کو بھی اس کی حیرتوں اور مسرتوں میں شریک کرتے ہیں۔ ’‘ (۶)
’’شام کی منڈیر سے’‘ میں موجود ادبی اور روحانی موضوعات کا مطالعہ کرنے سے حیدر قریشی اپنے اندر پیدا ہونے والی نئی کیفیت کا اقرار بھی کرتے ہیں۔
’’اس کتاب کے مطالعہ نے نہ صرف نئی سائنسی معلومات کے باعث مجھے بارہا حیرت زا مسرت سے دوچار کیا ہے، بلکہ روحانی سطح پر بھی میرے اندر ایک تبدیلی پیدا کی ہے۔ میرے الہیاتی تصورات میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے اور پھر ایک نئی تعمیر کا عمل بھی جاری ہوا ہے۔ ’‘ (۷)
محمد وسیم انجم بھی حیدر قریشی کی تخلیقات اور ڈاکٹر وزیر آغا کی سوانح عمری ’’شام کی منڈیر سے’‘ میں موجود مشترکہ کیفیات کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’شام کی منڈیر سے ‘‘ جہاں دیہات کی زندگی کی عکاسی ہوتی ہے، وہاں اسلامی واقعات، سائنسی انکشافات، روحانی اسرار و رموز بڑے دلکش انداز میں قارئین کے سامنے پیش کرتی ہے اور یہی کیفیات حیدر قریشی کی نگارشات میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں۔ ’‘ (۸)
حیدر قریشی اپنے مضمون ’’شام کی منڈیر سے’‘ میں وزیر آغا کی زندگی کے چند واقعات اور اُن کے ذہنی ارتقاء کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر وزیر آغا کی سوانح عمری کے اسلوبیانی انداز کے بارے میں بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
’’شام کی منڈیر سے’‘ اپنے اسلوب کے لحاظ سے سوانح عمری، سیاحت نامہ اور سفر نامہ نگاری کا خوب صورت امتزاج ہے۔ وزیر آغا نے عمرِ رفتہ کو آواز نہیں دی بلکہ اب تک کی بیتی ہوئی زندگی کے نہاں خانے میں اپنے سارے سفر کو دہرایا ہے۔ یہ سفر کہیں ایک مسافر کے انداز میں سر ہوا ہے تو کہیں کسی سیاح کے روپ میں۔ ’‘ (۹)
حیدر قریشی اپنے چوتھے مضمون ’’ دو نظموں کا مطالعہ’‘ میں ڈاکٹر وزیر آغا کی دو طویل نظموں ’’ آدھی صدی کے بعد’‘ اور ’’اک کتھا انوکھی’‘ کا فنی و فکری نقطۂ نظر سے تجزیہ کرتے ہیں۔
’’آدھی صدی کے بعد’‘ ڈاکٹر وزیر آغا کی منظوم آپ بیتی کے طور پر ۱۹۸۱ء میں منظر عام پر آئی جبکہ ’’اک کتھا انوکھی’‘ منظوم جگ بیتی کے روپ میں ۱۹۹۰ء میں شائع ہوئی۔ اِن دونوں نظموں کا تنقیدی تجزیہ کرتے ہوئے حیدر قریشی اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کرتے ہیں۔
’’آدھی صدی کے بعد’‘ وزیر آغا کی منظوم آپ بیتی ہے جبکہ ’’اک کتھا انوکھی’‘ منظوم جگ بیتی ہے۔ آپ بیتی کا کمال یہ ہے کہ اس میں جگ بیتی کی ایک زیریں لہر ساتھ ساتھ چلی جاتی ہے جبکہ موجودہ جگ بیتی کا کمال یہ ہے کہ اس میں آپ بیتی کی ایک زیریں لہر ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ دونوں نظموں کے سفر اندر کے رستے سے طے ہوئے ہیں۔ ’‘ (۱۰)
دونوں طویل نظمیں اپنے اندر رمزیت اور اشاریت کے ساتھ ساتھ زندگی کے اُتار چڑھاؤ کو لیے ڈاکٹر وزیر آغا کی داستانِ حیات بیان کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ اِسی لیے حیدر قریشی دونوں نظموں ’’ آدھی صدی کے بعد’‘ اور ’’اک کتھا انوکھی’‘ کو ڈاکٹر وزیر آغا کے ’’اندر کا سفر’‘ قرار دیتے ہوئے، قارئین پر اِن کی اہمیت یوں اجاگر کرتے ہیں۔
’’دونوں نظمیں وزیر آغا کی بہترین ہی نہیں جدید ادب کی اعلیٰ ترین اور خوبصورت ترین نظمیں ہیں۔ ’’آدھی صدی کے بعد’‘ نے نو سال کے عرصہ میں جدید نظم نگاروں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ’’ اک کتھا انوکھی’‘ بھی جدید نظم نگاروں کی ایک نسل کو متاثر کرے گی اور نظم نگاری میں مزید تبدیلیاں پیدا کرے گی۔ ’‘ (۱۱)
’’چہک اُٹھی لفظوں کی چھاگل’‘ ڈاکٹر وزیر آغا کے ۱۹۴۶ء سے لے کر ۱۹۹۰ء کے دوران تخلیق کردہ مطبوعہ شعری مجموعوں پر مشتمل کلیات ہے جو ۱۹۹۱ء میں منظر عام پر آیا۔ حیدر قریشی نے اس کلیات میں موجود نظموں کا فنی اور فکری تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا کی شاعری کے ساتھ ساتھ، اُن کی شخصیت کے متعدد پہلوؤں کو بھی اپنے قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔
اپنے مضمون ’’چہک اُٹھی لفظوں کی چھاگل’‘ میں حیدر قریشی ڈاکٹر وزیر آغا کی کائناتی اور سماجی دائروں میں سانس لیتی فلسفیانہ انداز و فکر سے بھرپور نظموں سے وزیر آغا کو ملنے والی اہمیت اور عظمت کی پیش گوئی کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’مجید امجد کی زندگی میں اس کی تفہیم پر توجہ نہیں دی گئی تھی لیکن اب مجید امجد کو سمجھا جانے لگا ہے۔ جب مجید امجد کو پوری طرح سمجھ لیا جائے گا تب وزیر آغا کی نظموں کی اہمیت اور عظمت کا بھی کھل کر اعتراف کیا جائے گا کیونکہ وزیر آغا کی نظم مجید امجد کی نظم سے آگے کی تخلیق ہے۔ تب ادبی سیاست دانوں کی سیاست گری کا طلسم وزیر آغا کی عظمت کی تخلیقات کے سامنے اسی طرح دھواں ہو جائے گا جس طرح مجید امجد کی نظم کے سامنے ہوا ہو گیا ہے۔ ’‘ (۱۲)
اپنے مضمون’’ وزیر آغا کی غزلیں ’‘ میں حیدر قریشی ڈاکٹر وزیر آغا کی روایت اور جدت سے مزین موضوعات اور علامتوں سے بھرپور غزلوں کو موضوعِ بحث بناتے ہوئے اپنے تنقیدی خیالات بیان کیے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی غزلیں اپنے فطری اور جدت و ندرت سے ہم آہنگ نئی جہتوں کو روشناس کراتی ہے۔ غزلوں کے اس حقیقی اور فطری اظہار پر حیدر قریشی لکھتے ہیں۔
’’وزیر آغا کی منزل اپنے عصر کو عبور کرنے کے بعد زیادہ بامعنی ہو جائے گی اور ایک عرصہ تک اس کے منفرد لہجے اور ذائقے سے نئی غزل کی عزت اور توقیر بنی رہے گی۔ ’‘ (۱۳)
’’پہلا ورق’‘ ڈاکٹر وزیر آغا کے مجلہ ’’اوراق’‘ کے اداریوں پر مشتمل مرتب کردہ کتاب پر ہے۔ اس کو حیدر قریشی اور راغب شکیب نے اپنی مشترکہ کوششوں سے ترتیب دیا۔ اِس میں اوراق کے سب سے پہلے شمارہ کے اداریہ، ۱۹۶۶ء سے لے کر شمارہ جون، جولائی ۱۹۸۹ء تک کے تمام اداریے شامل کیے گئے ہیں۔ حیدر قریشی نے اس کتاب کا پیش لفظ ’’پہلا ورق’‘ کے عنوان سے تحریر کیا اور یہی پیش لفظ حیدر قریشی کی کتاب ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘ میں شامل کیا گیا ہے۔ ’’پہلا ورق’‘ میں حیدر قریشی دعویٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’عہد آفریں رسالہ’‘ ’’اوراق’‘ کے اداریوں کا یہ مجموعہ غالباً کسی ادبی جریدے کے اداریوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ ’‘ (۱۴)
حیدر قریشی اِس مضمون میں ’’اوراق’‘ کی اہمیت اور افادیت کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اُردو انشائیہ کے فروغ میں اہم کردار ادا کرنے پر ’’اوراق’‘ کے اداریوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’تخلیقی سچائی کے اظہار میں ’’اوراق نے آسمان کو نظر انداز نہیں کیا، لیکن زمین کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ ’‘ (۱۵)
’’پہلا ورق’‘ کو ’’ڈاکٹر وزیر آغا کی شخصیت کا اظہار ‘‘ کہتے ہوئے حیدر قریشی اپنی ناقدانہ بصیرت کا یوں اظہار کرتے ہیں۔
’’اُن کے مزاج کا دھیما پن ’’پہلا ورق’‘ کے ایک لفظ سے عیاں ہے۔ تنقید میں ان کا اندازہ عموماً تمثیلی ہوتا ہے، چنانچہ ’’پہلا ورق’‘ کا اسلوب بھی تمثیلی ہے۔ انشائیہ کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں مزید سوچ کی گنجائش بھی رہتی ہے۔ …انشائیہ ایک صنف ادب ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر وزیر آغا کی شخصیت کا ایک رنگ بھی ہے اور اس رنگ کی چمک ’‘پہلا ورق’‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ ’‘ (۱۶)
اپنی کتاب ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘ کے مضمون ’’اردو انشائیہ اور اس کے بانی کی انشائیہ نگاری ‘‘ میں حیدر قریشی اُردو ادب میں انشائیہ نگاری اور ڈاکٹر وزیر آغا کو انشائیہ نگاری کے بانی کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ حیدر قریشی انشائیہ کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں اور وزیر آغا کو انشائیہ کا ’’اظہار اولین’‘ قرار دیئے جانے پر اصرار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔
’’وزیر آغا پہلے انشائیہ نگار بھی ہیں اور کمال فن کے لحاظ سے آخری بھی، لیکن انہوں نے اس صنف کے ارتقاء میں اپنی ذمہ داریوں سے کبھی پہلوتہی نہیں کی۔ ’‘ (۱۷)
اس کے ساتھ ساتھ ہی حیدر قریشی انشائیہ نگاری کے بارے میں دو ٹوک لفظوں میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔
’’معترفین اور مخالفین کی تمام تر منفی کاوشوں کے باوجود اُردو انشائیہ کے بانی وزیر آغا ہی رہیں گے۔ ’‘ (۱۸)
حیدر قریشی زیر تبصرہ مضمون میں ڈاکٹر وزیر آغا کی نظموں اور انشائیوں کے درمیان موجود ربط اور مشترک موضوعاتی رجحانات کے بارے میں بھی تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا کی ناقدانہ صلاحیتوں کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔ حیدر قریشی زیر تبصرہ کتاب کے مضمون ’’ڈاکٹر وزیر آغا کی تنقید نگاری کا اجمالی جائزہ’‘ میں ڈاکٹر وزیر آغا کی ادبی زندگی کے آغاز و ارتقاء کے منفرد پہلوؤں کو اُن کی تصانیف کے حوالے سے پیش کرتے ہیں۔ حیدر قریشی اپنے اس مضمون میں وزیر آغا کی ادبی زندگی کے پہلے قلمی نام کا انکشاف کرتے ہیں۔
’’وزیر آغا شروع میں نصیر آغا کے قلمی نام سے ’’ادبی دنیا’‘ میں مضامین لکھتے رہے۔ ’’محبت کا تدریجی ارتقائ’‘ ان کا پہلا مضمون تھا جوان کے موجودہ نام کے ساتھ شائع ہوا۔ ’‘ (۱۹)
مضمون ’’ڈاکٹر وزیر آغا کی تنقید نگاری کا اجمالی جائزہ’‘ میں حیدر قریشی نے ڈاکٹر وزیر آغا کی جس تنقیدی کتب پر روشنی ڈالی ہے، اُن کی ایک فہرست محمد وسیم انجم اِس ترتیب سے پیش کرتے ہیں۔
’’(۱) مسرت کی تلاش ۱۹۵۳ء (۲)اُردو ادب میں طنز و مزاح ۱۹۵۸ء(۳)نظم جدید کی کروٹیں ۱۹۶۳ء(۴)اُردو شاعری کا مزاج۱۹۶۵ء(۵)تنقید اور احتساب۱۹۶۸ء (۶) تخلیقی عمل ۱۹۷۰ء(۷)نئے تناظر ۱۹۷۹ء (۸)نئے مقالات ۱۹۷۲ء(۹)تصورات عشق و خرد (اقبال کی نظر میں )۱۹۷۷ء(۱۰)تنقید اور مجلسی تنقید ۱۹۸۱ء (۱۱)دائرے اور لکیریں ۱۹۸۶ء (۱۲) تنقید اُردو تنقید۱۹۸۹ء(۱۳) انشائیہ کے خدوخال ۱۹۹۰ء (۱۴)ساختیات اور سائنس ۱۹۹۱ء۔ ’‘ (۲۰)
’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ ایک مطالعہ’‘ ڈاکٹر انور سدید کی ڈاکٹر وزیر آغا پر ایک تنقیدی کتاب ہے۔ زیر تبصرہ مضمون میں حیدر قریشی کے وزیر آغا سے عقیدت و محبت سے بھرے تعلق اور اُن پر تنقیدی کتب تحریر کرنے پر ڈاکٹر انور سدید کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’ڈاکٹر انور سدید مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹر وزیر آغا ایسی عہد آفریں ادبی شخصیت کی زندگی میں ہی ان کے بارے میں ایک پر مغز کتاب لکھ دی۔ ’‘ (۲۱)
کتاب ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘ کے آخر میں حیدر قریشی نے ڈاکٹر وزیر آغا سے کیے گئے انٹرویو کو ’’وزیر آغا سے کچھ باتیں ‘‘ کے عنوان سے شامل کیا ہے۔ یہ انٹرویو وزیر آغا کے فکر و فن کے متعدد گوشوں کو بے نقاب کرتا ہے اور ساتھ ہی اُن کے تصوف، سائنسی، انشائیہ نگاری، ماہیا نگاری اور اُن کی تخلیقات کے بارے میں تاثرات و خیالات کا احوال بھی پیش کرتا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں حیدر قریشی ڈاکٹر وزیر آغا کو ’’عہد ساز شخصیت’‘ کا خطاب دیتے ہوئے اُن کی تخلیقی شخصیت کے بارے میں اپنی عقیدت و محبت کا یوں اظہار کرتے ہیں۔
’’اُردو انشائیہ کے بانی۔ جدید تر نظم کے پیش رو، اُردو تنقید کی منفرد اور عالمانہ آواز۔ ڈاکٹر وزیر آغا عہد ساز شخصیت ہیں۔ اپنی بعض بشری کمزوریوں کے باوجود ہمارے ادب اور ہمارے عہد کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ مجھے ان سے اکتسابِ علم اور نیاز مندی کا شرف حاصل ہے۔ ’‘ (۲۲)
حیدر قریشی کے تنقیدی فکر و فن کو دیکھتے ہوئے اُن کی کتاب ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ذاتی تعلقات کو پیش نظر رکھتے ہوئے وزیر آغا کی شخصیت کے متعدد گم شدہ پہلوؤں کو قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ اِسی لیے حیدر قریشی کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’میری اس کتاب کا مقصد وزیر آغا کو منوانا نہیں ہے کیونکہ وہ ماننے منوانے کی سطح سے بہت اُوپر ہیں۔ اس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جو لوگ وزیر آغا سے واقف نہیں ہیں وہ ان سے ملاقات کرسکیں اور جو پہلے سے واقف ہیں وہ ایک نئی ملاقات محسوس کرسکیں۔ ’‘ (۲۳)
محمد وسیم انجم بھی حیدر قریشی کی اِس کتب ’‘عہد ساز شخصیت’‘ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’بحیثیت مجموعی حیدر قریشی کا ایسی شخصیت پر قلم اٹھانے کا مقصد تعارف کرانا نہیں بلکہ اُن کی زندگی کے بعض ایسے گوشے بے نقاب کرنا مقصود ہے جو قاری کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں۔ چنانچہ شخصیت نگار کو زیر بحث شخصیت سے قربت کا دعویٰ ہے…جس کی بدولت ڈاکٹر وزیر آغا ایسی مشہور شخصیت کے بارے میں یہ کتب معتبر دستاویز کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ ’‘ (۲۴)
بلاشبہ حیدر قریشی کی یہ کتاب ڈاکٹر وزیر آغا سے متعلق تمام معلومات فراہم کرتی ہے۔ اپنی سادہ زبان اور مخصوص تنقیدی انداز کی بدولت ادب میں خاص اہمیت کی حامل سمجھی جائے گی۔
’’اُردو میں ماہیا نگاری’‘ حیدر قریشی کی تحقیقی و تنقیدی تصنیف ہے۔ ۱۵۹ صفحات پر مشتمل اِس کتاب کی اشاعت ۱۹۹۷ء میں فرہاد پبلی کیشنز اسلام آباد کی جانب سے کی گئی۔ کتاب کا انتساب حیدر قریشی نے یوں تحریر کیا ہے۔
’’قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی کے نام جنہوں نے اُردو میں درست ماہیا نگاری کے مثالی نمونے عطا کیے اور خوبصورت گلوکاروں محمد رفیع، آشا بھونسلے اور مسرت نذیر کے نام جن کے گائے ہوئے ماہیے، ماہیا نگاری کی بحث میں مستقل حوالہ بن گئے ہیں۔ ’‘ (۲۵)
’’اُردو میں ماہیا نگاری’‘ کے ابتدائیہ میں حیدر قریشی ماہیا نگاری کی تحریک اور ماہیا کے بارے میں اختلافات پر اظہار رائے کرتے ہوئے اپنی کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’ ماہیا ’’کتابِ دل ہے۔ اس کتاب میں ماہیے کی …… پنجابی اور اُردو ماہیے کی مختصر سی کہانی کے ساتھ ’’کتاب دل’‘ کی چھوٹی سی تفسیر بھی کی گئی ہے۔ ’‘ (۲۶)
زیر تبصرہ کتاب میں حیدر قریشی اپنی تحقیق و تنقید کے جوہر دکھاتے ہوئے ماہیا کو پنجاب لوک گیت کا نام دیتے ہیں۔ ماہیا کا لفظ ماہی سے نکلا ہے جو کہ محبوب، عاشق وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا آیا ہے۔ حیدر قریشی ماہیے کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’ماہیے میں پنجاب کے عوام کے جذبات، احساسات اور خواہشات کا خوب صورت اور براہ راست اظہار ملتا ہے۔ عوام نے اپنی امنگوں، آرزوؤں اور دعاؤں کو اس شاعری کے ذریعے سینہ بہ سینہ آگے بڑھایا اور زندہ رکھا۔ اسی لیے یہ عوامی گیت اپنی ظاہری صورت میں انفرادی ہونے کے باوجود اپنی سوسائٹی کی ترجمانی کرتا ہے۔ ’‘ (۲۷)
ماہیے کے وزن کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے حیدر قریشی ماہیا کی تحریری صورت کے بارے میں اختلاف رائے کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’جب ماہیے کو تحریری صورت میں دیکھنے کے باعث اس کے دوسرے مصرعہ کے وزن کا مسئلہ اتنا الجھا ہوا ہے تو کسی درست نتیجے تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟…اس سلسلے میں میرا مؤقف یہ ہے کہ ماہیا اصلاً لوک گیت ہے جس کی اپنی مخصوص دھن ہے۔ بس اسی دھن میں ہی اس کا اصل وزن موجود ہے۔ ’‘ (۲۸)
پھر انہی دھنوں کو ماہیے کے اصل وزن کا معیار بنا کر حیدر قریشی ماہیا کے اصل وزن کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’ماہیے کا پہلا مصرع اور تیسرا مصرع ہم وزن ہوتے ہیں لیکن دوسرا مصرع ان کے وزن سے ایک سبب یعنی دو حرف کم ہوتا ہے۔ ’‘ (۲۹)
ماہیا نگاری کے فن میں حیدر قریشی کی اس قدر عمدہ تنقید و تحقیق کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
’’یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ بعض شعراء نے محض لاعلمی میں ماہیا کے تین مصرعوں کو ہم وزن کر دیاتو جناب حیدر قریشی نے اس ’’بے شعوری’‘ غلطی کی طرف نہ صرف توجہ دلائی بلکہ غلطی کے استیصال کے لیے تحریک بھی جاری کر دی… کوششیں رنگ لا رہی ہیں اور اب ماہیا اوز ان کی صحیح تکنیک میں لکھا جا رہا ہے۔ ’‘ (۳۰)
مذکورہ کتاب میں حیدر قریشی ’’اُردو میں ماہیا نگاری کی ابتدائ’‘ مضمون میں ابتدائی ماہیا نگاروں چراغ حسن حسرت اور قمر جلال آبادی کے ماہیوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے بحث کرتے ہیں۔ چراغ حسن حسرت کے ماہیوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’چراغ حسن حسرت… نے ۱۹۳۷ء میں پنجابی ماہیے کے حسن سے متاثر ہو کر اُردو میں چند ’’ماہیے’‘ کہے…پنجابی ماہیے کی جادوگری اور چراغ حسن حسرت کی ماہیے سے محبت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن حسرت پنجابی ماہیے کے وزن کی نزاکت کا خیال نہیں رکھ سکے۔ ’‘ (۳۱)
چراغ حسن حسرت کے ماہیوں کے تقریباً ۲۰ سال بعد فلم پھاگن کے لیے پہلی بار اُردو ماہیے قمر جلال آبادی سے لکھوا کر پیش کیے گئے۔ ان ماہیوں کو محمد رفیع اور آشا بھونسلے نے بڑی مہارت سے گایا تھا۔ ماہیوں کے بول یہ تھے۔
تم روٹھ کے مت جانا
ترا مرا کیا رشتہ
دیوانہ ہے دیوانہ
کیوں ہو گیا بے گانہ
مجھ سے کیا شکوہ
یہ تو نے نہیں جانا (۳۲)
قمر جلال آبادی کے ان ماہیوں کے وزن پر حیدر قریشی تبصرہ کرتے ہوئے اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔
’’یہ ماہیے اُردو کے سب سے پہلے ماہیے ہیں جو پنجابی ماہیے کے وزن پر پورے اترتے ہیں۔ اس لحاظ سے قمر جلال آبادی اُردو کے سب سے پہلے ماہیا نگار قرار پاتے ہیں۔ ’‘ (۳۳)
چراغ حسن حسرت اور قمر جلال آبادی کی ماہیا نگاری پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ حیدر قریشی ایسے ماہیا نگاروں پر بھی تبصرہ کرتے ہیں جنہوں نے تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی ماہیے تخلیق کیے۔ حیدر قریشی اِن ثلاثی ماہیا نگاروں میں علی محمد فرشی، نصیر احمد ناصر اور سیدہ زاہدہ حنا کا ذکر کرتے ہیں۔
’’ماہیے کے وزن اور مزاج کی بحث ۱۹۹۲ء تا ۱۹۹۳ء ‘‘ مضمون میں حیدر قریشی۱۹۹۲ء سے لے کر ۱۹۹۳ء کے دورانیہ میں ماہیا نگاری کے فن پر چھپنے والے مضامین کا تنقیدی تجزیہ کرتے ہوئے اِن مضمون نگاروں کی آراء کو بیان کرتے ہیں۔ زیر بحث مضمون میں ہی حیدر قریشی ۱۹۹۲ء تا ۱۹۹۳ء میں چھپنے والے مضامین اور نئے درست وزن پر لکھنے والے ماہیا نگاروں کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
’’۹۳۔ ۱۹۹۲ء اُردو ماہیے کی تاریخ میں اس لحاظ سے بے حد اہم برس ہیں کہ ان دو برسوں میں ماہیے کے خدوخال اور مزاج کی بحث کے سلسلے میں نو مضامین لکھے گئے اور ہر مضمون میں ہمارے بیان کردہ وزن کو بہر حال تسلیم کیا گیا… اِن دو برسوں میں درست وزن میں ماہیا نگاری کی طرف سے بھی پیش قدمی ہوئی۔ امین خیال، سعید شباب، خاور اعجاز، نذیر فتح پوری، رشید اعجاز، غزالہ طلعت، رانا غلام شبیر، نوید رضا، تنویر نوازش، اجمل جنڈیالوی، شبہ طراز، ارشد نعیم، نذر عباس ان دو برسوں میں ماہیا نگار کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ ’‘ (۳۴)
مضمون ’’ماہیے کے وزن اور مزاج کی بحث (۱۹۹۴تا۱۹۹۶ء)’‘ میں بھی حیدر قریشی مختلف ماہیا نگاروں کے خطوط اور مضامین کو پیش کرتے ہیں اور اُن کے ماہیے کے بارے میں فنی و فکری سوچ اور خیالات کو موضوع بناتے ہیں۔ ۱۹۹۴تا۱۹۹۶ء کے دورانیہ میں ماہیا نگاری پر ہونے والی بحث و تکرار کو سامنے رکھتے ہوئے حیدر قریشی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔
’’۱۹۹۶ء کے آخر تک ماہیے کے وزن اور مزاج کو سمجھنے کے لیے اور حقیقت کو واضح کرنے کے لیے جو مخلصانہ کوششیں ہوئیں ان سے نہ صرف ان مسئلوں کے کئی پہلو کھل کر سامنے آئے بلکہ اصل حقائق بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو گئے… ماہیے کے مزاج کی تفہیم میں بھی پیش رفت ہوئی۔ وزن اور مزاج کو ملحوظ رکھتے ہوئے ماہیے کے موضوعات میں بتدریج وسعت پیدا ہو رہی ہے، الفاظ کے برتاؤ میں بھی عمدہ تجربے ہو رہے ہیں۔ یہ ساری صورت حال خوش کن ہے۔ ’‘ (۳۵)
مذکورہ کتاب میں حیدر قریشی ماہیا نگاری کے فروغ کے لیے کی گئی کوششوں اور بحثوں کو اپنے مضمون ’’حاصل بحث’‘ میں حتمی انداز سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ماہیے کے وزن کے بارے میں اب پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ تین یکساں وزن کے مصرعوں والے ’’ ماہیے ‘‘ حقیقتاً ماہیے نہیں۔ ماہیے کی پنجابی اور عوامی دھن سے یہ وزن اُردو ماہیے کے لیے بالکل واضح ہو چکا ہے۔ ’‘
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
’’اس کی رو سے ماہیے کے دوسرے مصرعہ میں ایک ’’سبب’‘ یعنی دو حرف کا کم ہونا ضروری ہے اس وزن میں ماہیا پنجابی دھن کے مطابق پوری طرح رواں دواں ہو جاتا ہے۔ یہ دوسرا وزن بھی ماہیے کے لیے قابل قبول ہے۔
مفعول مفاعیلن
فعل مفاعیلن
مفعول مفاعیلن’‘ (۳۶)
ماہیا نگاری میں حیدر قریشی کے تحقیقی و تنقیدی رجحانات اور کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے عارف فرہاد لکھتے ہیں۔
’’مجھ سمیت ماہیا نگاروں کا پورا قبیلہ اس بات کو تسلیم کر چکا ہے کہ حیدر قریشی نے ماہیا نگاروں کو درست وزن کی نشاندہی کرانے کے ساتھ ساتھ اُردو ادب کی تاریخ میں ماہیے کی ہیئت، مزاج اور وزن کے حوالے سے انفرادی نوعیت کا نہایت اہم تحقیقی اور تنقیدی کام کیا ہے۔ ’‘ (۳۷)
مضمون ’’ہمارے ماہیا نگار’‘ میں حیدر قریشی نے اُردو ادب کے معلوم تمام ماہیا نگاروں کے تعارف کے طور پر اُن کے ماہیوں کو درج کیا ہے۔ ان ماہیا نگاروں کی کل تعداد کے بارے میں حیدر قریشی لکھتے ہیں۔
’’قاضی اعجاز محور سے شاہدہ ناز تک درج ماہیا نگاروں کی تعداد ۶۲ بنتی ہے۔ اس کی تعداد میں قمر جلال آبادی، ساحر لدھیانوی اور حیدر قریشی کے نام بھی شامل کر لیں تو تا دم تحریر ماہیا نگاروں کی تعداد ۶۵ تک جا پہنچتی ہے۔ ان ماہیا نگاروں میں قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی کو اُردو ماہیے کے بانی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ’‘ (۳۸)
مضمون ’’اُردو ماہیے کے موضوعات’‘ میں حیدر قریشی مختلف ماہیا نگاروں کے ماہیوں کے موضوعاتی برتاؤ پر تبصرہ کرتے ہوئے اُن کے ماہیوں کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ حمد، نعت، دعا، رشتے داریاں، دھرتی، دیہاتی ماحول، تقریبات، زندگی کے مسائل، محبت اور اس سے جڑے ہوئے مضامین سب ماہیے کے موضوعات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
متعدد شعراء کرام کی ماہیے کے لیے رغبت کو دیکھتے ہوئے حیدر قریشی اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
’’یہ ابھی اُردو ماہیے کی ابتداء ہے۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے برسوں میں ماہیا اپنے خدوخال اور مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے موضوعات میں وسعت پیدا کرے گا اور پنجاب کا یہ لوک گیت اپنے رس اورمٹھاس کے باعث، ’’اُردو شاعری کی ایک مقبول صنف’‘ قرار پائے گا۔ ’‘ (۳۹)
کتاب’’ اُردو میں ماہیا نگاری’‘ کے آخر میں حیدر قریشی نے ’’خصوصی مطالعہ’‘ میں چند ماہیا نگاروں کے فن پر تنقیدی اور فکری تجزیہ کیا ہے۔ اِن ماہیا نگاروں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ (۱)امین خیال (۲) عارف فرہاد (۳) ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی (۴)پروفیسر قمر ساحری (۵)پروین کمار اشک (۶)نذیر فتح پوری (۷)یوسف اختر (۸)انور مینائی (۹)سعید شباب۔ کتاب کے آخری حصے میں اختتامیہ اور فہرست کتب، رسائل اور اخبارات شامل ہیں۔
کتاب ’’اُردو میں ماہیا نگاری’‘ میں حیدر قریشی نے اپنی تنقیدی اور تحقیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مستقبل کے ماہیا نگاروں کے لیے علمی، ادبی اور تحقیقی سطح پر ہزاروں در کھول دیئے ہیں جن میں سے ہر در اپنے اندر محققانہ انداز و بیاں اور جدت و ندرت کو سموئے اپنے قارئین اور ساتھی نقادوں کو متاثر کرتا محسو س ہوتا ہے۔ اِسی لیے حیدر قریشی اپنی تصنیف’‘ اُردو میں ماہیا نگاری’‘ کے بارے میں دعویٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’اُردو میں ماہیا نگاری’‘ کا یہ اختتامیہ ماہیے کی بحث کا اختتام نہیں ہے بلکہ علمی، ادبی اور تحقیقی زبان میں بات کرنے والوں کے لیے ایک بڑی سطح پر یہ نقطہ آغاز ہے۔ مجھے امید ہے کہ ماہیے کے خدوخال کو نکھارنے اور سنوارنے کے لیے تخلیقی اور تحقیقی دونوں لحاظ سے مزید پیش رفت ہو گی۔ ’‘ (۴۰)
’’اُردو ماہیے کی تحریک’‘ حیدر قریشی کے تنقیدی مضامین اور خطوط پر مبنی کتاب ہے جو فرہاد پبلی کیشنز، راول پنڈی سے ۱۹۹۹ء میں شائع ہوئی۔ حیدر قریشی نے اس کا انتساب، ’’اُردو ماہیے کے بانی، ہمت رائے شرما جی کے نام’‘ کیا ہے۔ ۱۶۶ صفحات پر مشتمل اِس کتاب میں حیدر قریشی نے متعدد مضامین اور خطوط کو شامل کیا ہے جو ماہیا نگاری کے فن کے کئی اسرار و رموز کو قاری پر فاش کرتے ہیں۔
حیدر قریشی کتاب کے ’’حرف اول’‘ میں ’’اُردو ماہیے کی تحریک’‘ کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’اُردو میں ماہیا نگاری’‘ یک موضوعی کتاب تھی۔ اسے لکھتے وقت میں ۱۹۹۴ء کے پائیدان پر کھڑا ہو کر گزشتہ چھ برسوں کی بحث کا منظر دیکھ رہا تھا۔ جبکہ ’’اُردو ماہیے کی تحریک’‘ کے مضامین فاصلے سے منظر کو دکھانے کی بجائے لمحہ لمحہ کی کہانی سناتے ہیں۔ ماہیے کی بحث کے ریکارڈ کی درستی کے لیے چند اہم خطوط بھی اس مجموعہ میں شامل ہیں۔ ان مضامین اور خطوط سے انداز ہ کیا جا سکتا ہے کہ ماہیے کو سمجھنے کے عمل میں بتدریج بہتری آتی گئی ہے۔ ’‘ (۴۱)
حیدر قریشی ماہیا اور اس کے دوسرے مصرعے کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ماہیا بنیادی طور پر گائی جانے والی صنف ہے اور مختلف دھنوں میں گائے جانے کے باوجود ہر دھن میں اس کا اصل وزن واضح ہو جاتا ہے۔ گانے کی دھن پر ماہیے کے مصرعوں کے وزن کے بارے میں حیدر قریشی لکھتے ہیں۔
’’کسی بھی گانے کی دھن میں ماہیے کا پہلا مصرعہ اٹھاتے وقت جو لَے ہوتی ہے تیسرے مصرعے کو بھی اسی طرح اٹھایا جا سکتا ہے لیکن دوسرے مصرعے کو پہلے مصرعہ کے انداز میں اٹھانا چاہیے تو لَے ٹوٹ جاتی ہے اور آخری دونوں مصرعے یکساں وزن کے ہیں لیکن دوسرا مصرعہ اس وزن میں نہیں ہے۔ ’‘ (۴۲)
اِسی طرح مضمون ’’ماہیے کے بارے میں چند باتیں ’‘ میں حیدر قریشی ماہیے کے وزن پر واضح انداز سے اظہار خیال کرتے ہیں۔
’’ماہیے کو گہری نظر سے نہ دیکھا جائے تو یہ تین مساوی الوزن مصرعوں کی مختصر نظم دکھائی دیتی ہے لیکن اس کی مخصوص دھن میں چھپے ہوئے اس کے اصل وزن کو دریافت کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پہلا اور تیسرا مصرعہ مساوی الوزن ہیں لیکن درمیان والا دوسرا مصرعہ اس وزن سے دو حرف کم ہے۔ ’‘ (۴۳)
زیر تبصرہ کتاب میں حیدر قریشی ماہیا کو بنیادی طور پر لوک شاعری قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’ایسے تمام اُردو ماہیے جو پنجابی ماہیے کی دھن پر آسانی سے گنگنائے جا سکتے ہیں وہی درست ماہیے ہیں۔ اُردو میں تین یکساں مصرعوں کے ثلاثی کو اور جو نام دے دیا جائے لیکن وہ ماہیے نہیں ہیں۔ ’‘ (۴۴)
مجموعہ کلام ’’محبت کے پھول’‘ کے پیش لفظ میں حیدر قریشی ماہیے کے وزن کو ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔
’’اُردو میں ماہیے کا وزن ابھی تک دو صورتوں میں سامنے آیا ہے اور یہ دونوں وزن پنجابی ماہیے کے مطابق درست ہیں۔
(۱)
فعلن فعلن فعلن
کچھ رشتے ٹوٹ گئے
فعلن فعلن فع
برتن مٹی کے
فعلن فعلن فعلن
ہاتھوں سے چھوٹ گئے
(۲)
مفعول مفاعیلن
مل مہکی فضاؤں سے
فعل مفاعیلن
یار نکل باہر
مفعول مفاعیلن
اندر کی خلاؤں سے’‘ (۴۵)
حیدر قریشی اپنے مضامین ’’اُردو ماہیا ۱۹۹۶ء میں ’‘ اور اُردو ماہیا ۱۹۹۷ء میں ’‘ اُردو ماہیا کے اصل وزن کے مطابق شاعری کرنے والوں کی طویل فہرست کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی رائے کا کچھ یوں اظہار کرتے ہیں :
’’پنجابی ماہیے کے وزن والا ماہیا اب اُردو میں نہ صرف ٹھیک طرح پہچانا جا چکا ہے بلکہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود شعراء کرام میں مسلسل مقبولیت بھی حاصل کر رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اب ماہیے کی تفہیم اور ترویج کے لیے بات اس کے وزن کی بحث سے آگے بڑھے گے اور ادب میں اس کے ادبی اور ثقافتی کردار کی اہمیت پر غور کیا جائے گا۔ ’‘ (۴۶)
مضمون ’’ماہیے کی کہانی’‘ میں حیدر قریشی نے ڈاکٹرکرسٹینا اوسٹرہیلڈ کے ماہیا پر اٹھائے جانے والے سوالات کے جوابات درست ماہیا لکھنے والے ماہیا نگاروں کے ذریعے اور خود اپنے تنقیدی اور شعوری اندازِ بیان کے ذریعے دئیے ہیں۔ حیدر قریشی ڈاکٹرکرسٹینا کے سوالات کو ماہیا نگاروں کے لیے مشعل راہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ڈاکٹرکرسٹینا نے اپنے اہم سوالات اٹھا کر ماہیے کی تحریک کو مزید آگے کی راہ سجھائی ہے۔ امید کرتا ہوں کہ ماہیے سے دلچسپی رکھنے والے سنجیدہ ناقدین اور خود ہمارے ماہیا نگار بھی ادب میں ماہیے کے رول پر غور و فکر سے کام لیں گی’‘۔ (۴۷)
زیر تبصرہ کتاب میں حیدر قریشی ماہیا کی پابند لَے پر اپنے موقف کو مزید دہراتے ہیں کہ ماہیا پنجابی لوک گیت ہے۔ اس کی مخصوص لَے ہے اور ماہیا اپنی لے کا پابند ہے۔ اگر اس لے کے مطابق کہے گئے ماہیے تحریری صورت میں دیکھ کر کسی کو جھٹکا لگتا ہے یا اس کی ’’موزونی ء طبع’‘ متاثر ہوتی ہے تو صرف اس لیے کہ اس نے ماہیا لوک گیت کے طور پر نہیں سنا۔ (۴۸)
فن ماہیا نگاری میں ان تنقیدی اور تحقیقی نکتوں کو ’’ اُردو ماہیے کی تحریک’‘ میں بیان کرنے کے علاوہ حیدر قریشی نے اس کتاب میں ’’ اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما’‘ کے بارے میں بھی اپنا تحقیقی مضمون شامل کیا ہے جو اُن کی تحقیقی تصنیف ’’اردو ماہیے کے بانی، ہمت رائے شرما’‘ میں بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ حیدر قریشی نے ’’اردو ماہیے کی تحریک’‘ کے سلسلے میں چند خطوط بھی شامل کیے ہیں جو کہ اردو ماہیا کے رجحانات اور اُن کے بارے میں ماہیا نگاروں کی مختلف آراء کی ترجمانی کرتے ہیں۔
بحیثیت مجموعی حیدر قریشی کی یہ کتاب اُردو ماہیا اور اس کی تحریک کے متعلق معلومات سے بھرپور ہے اور تحقیقی و تنقیدی موضوعات نے اس کی مقبولیت اور ادبی قدرو قیمت میں اضافہ کر دیا ہے۔
(د) اُردو ماہیے کے بانی، ہمت رائے شرما:
’’ اُردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما’‘ حیدر قریشی کی تحقیق و تنقید پر مشتمل کتاب ہے۔ ۷۲ صفحات پر مبنی یہ کتاب ۱۹۹۹ء میں ’’معیار پبلی کیشنز، دہلی’‘ کی جانب سے شائع ہوئی۔ زیر تبصرہ کتاب کا انتساب ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے نام ہے جنہوں ے اُردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما جی کو پہلی بار دریافت کیا۔ (۴۹)
کتاب کی ترتیب میں پیش لفظ ’’اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما’‘، ’’اُردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما’‘، فلم ’’خاموشی’‘ کے گیت اور تحقیق مزید، ’’میاں آزاد’‘ کاسفرنامہ’‘، ’’ہمت رائے شرما کی شاعری۔ ایک تعارف’‘، ’’ہمت رائے شرما کی دو کتابیں ’‘، ’’ہمت رائے شرما بنام حیدر قریشی’‘ اور آخر میں ’’ہمت رائے شرما کے ماہیے’‘ شامل کیے گئے ہیں۔
حیدر قریشی زیر تبصرہ کتاب کے ’’پیش لفظ’‘ میں ’’ارد ماہیے کے بانی’‘ کے بارے میں اپنی سابقہ تحقیق جو چراغ حسن حسرت اور قمر جلال آبادی کے متعلق تھی کو مدلل انداز سے رد کرتے ہوئے اس کا جواز پیش کرتے ہیں :
’’ اب قمر جلال آبادی کی جگہ ہمت رائے شرما جی ہی اردو ماہیے کے بانی ہیں، کسی بھی دوسری ’’سہ مصرعی صنف’‘ کے مصنف کو اردو ماہیے کے بانی، ہمت رائے شرما جی کی جگہ نہیں دی جا سکتی ‘‘۔ (۵۰)
اپنے مضمون ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ۔ ۔ ہمت رائے شرما’‘ میں حیدر قریشی، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی تحقیق و تنقید کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی تازہ تحقیق اور ہمت رائے شرما جی کی اولیت پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہیں۔
مذکورہ مضمون میں حیدر قریشی، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی تحقیق کے معاملے میں آنے والے دو رد عملوں کا ذکر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی تحقیق کے بعد ایک رد عمل یہ آیا کہ اکثر ماہیا نگاروں نے ان کی تحقیق کو سراہتے ہوئے تسلیم کیا کہ ’’ہمت رائے شرما’‘ ہی اردو ماہیا کے بانی ہیں۔ دوسرا رد عمل، حسرت کے ثلاثی ماہیوں کی پیروی کرنے والے ماہیا نگاروں مثلاً علی محمد فرشی، نصیر احمد ناصر، سیدہ حنا، دیپک قمر کی طرف سے یہ آیا کہ ڈاکٹر مناظر نے اردو ماہیے کے بنیاد گزاروں میں قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی کے ساتھ چراغ حسن حسرت کو بھی تسلیم کیا ہے اور ساتھ ہی یہ موقف بھی بیان کیا گیا کہ اولیت کا سہرا پھر بھی حسرت کے سر بندھتا ہے۔ کیونکہ شرما جی کہتے ہیں۔ فلم ’’خاموشی ۱۹۳۹ء میں آئی جب کہ فلم ’’باغباں ’‘ میں حسرت کے ماہیے ۱۹۳۷ء میں آ گئے تھے۔ (۵۱)
مزید تحقیقی کوششوں اور چند ادبی شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’ہمت رائے شرما’‘ کے بارے میں حیدر قریشی لکھتے ہیں :
’’۱۹۱۹ء میں ۱۷ سال جمع کیے جائیں تو فلم ’’خاموشی’‘ کے ماہیے لکھنے کا سال۱۹۳۶ء بنتا ہے جب تک کوئی نیا تحقیقی ثبوت نہیں ملتا تب تک فلم ’’خاموشی’‘ کے لیے شرما جی کے اردو ماہیے لکھنے کا سال ۱۹۳۶ء ثابت ہے۔ ’‘ (۵۲)
ڈاکٹر عاشق ہرگانوی کی تحقیق کو مزید موثر بنانے کے لیے حیدر قریشی نے خود ’’ہمت رائے شرما ‘‘ سے براہ راست رابطہ قائم کیا، جس سے حاصل ہونے والی معلومات اور حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے حیدر قریشی اپنی رائے کا اظہار ان لفظوں میں کرتے ہیں :
’’ا ن تمام شواہد اور حقائق کی بنیاد پر یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ قمر جلال آباد ی اور ساحر لدھیانوی سے بھی پہلے اردو ماہیے کے درست وزن کا اولین اظہار ہمت رائے شرما جی نے ۱۹۳۶ء میں کیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ سو بلا شک و شبہ ہمت رائے شرما اردو ماہیے کے بانی ہیں۔ ’‘ (۵۳)
’’اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما’‘ فلم ’’خاموشی’‘ اور تحقیقِ مزید’‘ مضمون میں حیدر قریشی ہمت رائے پوری کے بارے میں اپنی مزید تحقیق کو بیان کرتے ہیں۔ اس تحقیق کا اہم سبب فلم ’’خاموشی’‘ کی بک لیٹ تھی۔ جس سے یہ تصدیق ہوئی کہ :
’’ فلم ’’خاموشی’‘ کی بک لیٹ پر مئی ۱۹۳۶ء کا اندراج یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمت رائے شرما جی نے ۱۹۳۶ء میں پہلی بار اس فلم کے لیے اردو ماہیے لکھے ‘‘۔ (۵۴)
اس تصدیق کے علاوہ حیدر قریشی نے فلم ’’خاموشی’‘ کی بک لیٹ (Booklet)پر درج گیتوں کو بھی اپنے مضمون کا حصہ بنایا۔
اپنے مضمون ’’میاں آزاد کاسفرنامہ’‘ میں حیدر قریشی نے ہمت رائے شرما کو بطور ایک عمد ہ پیروڈی نگار، خوبصورت مزاح نگار اور زبان پر حیرت انگیز قدرت رکھنے والا ادیب قرار دیتے ہوئے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے جو ’’میاں آزاد کاسفرنامہ’‘ لکھ کرسامنے آتی ہیں۔ حیدر قریشی اس کتاب کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ کرتے ہوئے ’’ہمت رائے شرما’‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ہمت رائے شرما جی نے رتن ناتھ سرشار کے انداز بیان کو اپنانے میں اپنی مہارت کا کمال دکھایا۔ ’’میاں آزاد کا سفرنامہ’‘ صرف پیروڈی ہی نہیں ہے۔ پیروڈی کے روپ میں ہمیں اپنے کلاسیکل لٹریچر کی اہمیت کا احساس دلا یا گیا ہے۔ اس کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک تخلیقی کاوش کی گئی ہے۔ ’‘ (۵۵)
زیر تبصرہ کتاب کے مضمون ’’ہمت رائے شرما کی شاعری۔ ایک تعارف’‘ میں حیدر قریشی، ہمت رائے شرما جی کے شعری مجموعۂ کلام ’’شہابِ ثاقب ‘‘ کا تنقیدی اور فکری تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمت رائے شرماجی کی تعریف کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں :
’’ہمت رائے شرما جی کا یہ بیان سو فی صد درست ہے کہ شاعری فقیروں کا حصہ ہے ہمت رائے شرما نے خوبصورت شاعری کی، جب فلمی دنیا میں مقتدر ہستی تھے تب اپنے اس فقیری اثاثے کو چھپائے رکھا۔ جب فلمی دنیا سے الگ ہو گئے تو اپنا فقیری سرمایہ لے آئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ۱۹۶۴ء کی بجائے ۱۹۸۴ء میں اپنا مجموعہ چھپوانے کی اصل وجہ یہی فقیرانہ جذبہ تھا۔ ’‘ (۵۶)
شاعری کے علاوہ حیدر قریشی نے مذکورہ کتاب میں ہمت رائے شرما کی دو کتابوں ’’ہندو مسلمان’‘ اور ’’نکات زباندانی‘ ‘پر بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ حیدر قریشی نے اپنے نام لکھے گئے ہمت رائے شرما کے خط کو بھی صفحہ ۵۲ پر شامل کیا ہے جو کہ ان دونوں کے درمیان رابطے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔
کتاب ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما’‘ کے آخر میں حیدر قریشی نے ہمت رائے شرما کے ماہیے تحریر کیے ہیں۔ جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :
’’ماہیے کی کہانی ہے
ماہیے کی دھن میں
ماہیے کی زبانی ہے’‘
دو پھول گلاب کے ہیں
بھنگڑا اور ماہیا
تحفے پنجاب کے ہیں (۵۷)
جی کو بہلاتے ہیں
پیار بھرے ارماں
ماہیے کہلاتے ہیں
ٹھنڈک بھی، حرارت بھی
ہوتی ہے ماہیے میں
شوخی بھی، شرارت بھی (۵۸)
’’ہمت رائے شرما’‘ نے انہی ماہیوں میں حیدر قریشی کے لیے بھی ایک ماہیا تخلیق کیا ہے جو حیدر قریشی کی ماہیا نگاری میں اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
’’فن میں لاثانی ہیں
حیدر’’ ماہیے کی
تحریک ‘‘ کے بانی ہیں (۵۹)
’’ہمت رائے شرما’‘ پر اس قدر مکمل اور تنقیدی کتاب لکھنے پر ڈاکٹر وزیر آغا، حیدر قریشی کو مبارک باد دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ہمت رائے شرما’‘ پر آپ کا مضمون بہت متوازن ہے اور متاثر کرتا ہے۔ آپ کی شاعر، افسانہ نگار، انشائیہ نگار اور خاکہ نگار کی حیثیت تو پہلے ہی مسلم ہے اور ان اصناف کے سلسلے میں آپ کے دستخط باآسانی پہچانے جا سکتے ہیں مگر اب تنقید کے میدان میں بھی آپ کسی سے پیچھے نہیں رہے بلکہ اگلی صف میں نظر آرہے ہیں۔ ’‘ (۶۰)
نذیر فتح پوری بھی حیدر قریشی کو ’’لفظوں کامسیحا’‘ کا خطاب دیتے ہوئے ان کے تنقیدی ذوق و شوق کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ جرمنی میں بیٹھے بیٹھے موصوف نے بمبئی جیسے گنجان شہر میں کھوئے ہمت رائے شرما جی کو دریافت کر کے نئی زندگی عطا کی ہے۔ ہم اسے حیدر قریشی کامسیحانہ عمل قرار دیتے ہیں کہ ۱۹۳۶ء سے فلمی دنیا میں نام کمانے والے شرما جی آج پھر قرطاس و قلم سے منسلک ہو گئے ہیں اور خوبصورت ماہیے کہہ رہے ہیں۔ ’‘ (۶۱)
مختصر یہ کہ اس کتاب کو اردو ماہیا نگاری کی تاریخ میں ایک دستاویز کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ جس سے حیدر قریشی کی اردو ماہیا سے وابستگی اور شیفتگی کے ساتھ ساتھ اس کے مقام و مرتبہ کا تعین بھی ممکن ہو گیا ہے جو بلاشبہ قابل قدر ہے۔
٭٭٭
۱۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۸، نایاب پبلی کیشنز، خان پور ۱۹۹۵ء
۲۔حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۷
۳۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۱۹
۴۔حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر۲۴
۵۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۲۹
۶۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۳۰
۷۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۳۱
۸۔ محمد وسیم انجم، ’’حیدر قریشی۔ فکر و فن’‘ ص نمبر۵۰، انجم پبلی کیشنز، راول پنڈی، ۱۹۹۹ء
۹۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۳۶
۱۰۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۳۷
۱۱۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۷۰
۱۲۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۱۰۸
۱۳۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۱۲۲
۱۴۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۱۲۳
۱۵۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۱۲۴
۱۶۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۱۲۶
۱۷۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۱۳۳
۱۸۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۱۳۴
۱۹۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۱۴۴
۲۰۔ محمد وسیم انجم، ’’حیدر قریشی۔ فکر و فن’‘ ص نمبر ۵۴
۲۱۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۱۵۳
۲۲۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۲۶
۲۳۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘، ص نمبر ۹
۲۴۔ محمد وسیم انجم، ’’حیدر قریشی۔ فکر و فن’‘ ص نمبر ۵۶
۲۵۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۳، فرہاد پبلی کیشنز اسلام آباد۔ ۱۹۹۷ء
۲۶۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۸
۲۷۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۹
۲۸۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۱۷
۲۹۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۱۸
۳۰۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، پس ورق از ڈاکٹر انور سدید
۳۱۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۲۱
۳۲۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۲۱
۳۳۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۲۲
۳۴۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۳۹۔ ۴۰
۳۵۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۵۹
۳۶۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۶۰
۳۷۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۳۳
۳۸۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۷۶
۳۹۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۹۹
۴۰۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیا نگاری’‘، ص نمبر۱۵۷
۴۱۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک’‘، ص نمبر ۷، فرہاد پبلی کیشنز، راول پنڈی، ۱۹۹۹ء
۴۲۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک’‘، ص نمبر ۱۴
۴۳۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک’‘، ص نمبر ۲۵
۴۴۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک’‘، ص نمبر ۳۲
۴۵۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک’‘، ص نمبر ۳۳۔ ۳۴
۴۶۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک’‘، ص نمبر ۷۹
۴۷۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک’‘، ص نمبر ۱۰۰
۴۸۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک’‘، ص نمبر ۱۰۳
۴۹۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما’‘، ص نمبر۳، معیار پبلی کیشنز، دہلی، ۱۹۹۹ء
۵۰۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما’‘، ص نمبر۹
۵۱۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما’‘، ص نمبر۱۲
۵۲۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما’‘، ص نمبر۱۵
۵۳۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما’‘، ص نمبر۲۱
۵۴۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما’‘، ص نمبر۲۴
۵۵۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما’‘، ص نمبر۳۶
۵۶۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما’‘، ص نمبر۴۵
۵۷۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما’‘، ص نمبر۵۳
۵۸۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما’‘، ص نمبر۵۴
۵۹۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما’‘، ص نمبر۵۷
۶۰۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک’‘، پس ورق از ڈاکٹر وزیر آغا
۶۱۔ مرتبین نذیر فتح پوری۔ سنجے گوڑ بوئے، ’’حیدر قریشی۔ فن اور شخصیت’‘، ص نمبر۲۰۔ اسباق پبلی کیشنز۔ پونا۔ ۲۰۰۲ء
٭٭٭
ماخذ: عکاس، کتاب دس ۔ مدیر: ارشد خالد
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید