03:03    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

1372 0 0 00

حصہ کار: ستیہ پال آنند، علی محمد فرشی، محمد یامین، زیف سید

مجید امجد کی نظم ’’جن لفظوں میں۔۔۔۔۔‘‘ پر ایک مباحثہ

نظم

جن لفظوں میں۔ ۔۔۔

مجید امجد

 

جن لفظوں میں ہمارے دلوں کی بیعتیں ہیں، کیا صرف وہ لفظ ہمارے کچھ بھی نہ کرنے کا کفارہ بن سکتے ہیں،

کیا کچھ چیختے معنوں والی سطریں سہارا بن سکتی ہیں، ان کا

جن کی آنکھوں میں اس دیس کی حد ان ویراں صحنوں تک ہے

کیسے یہ شعر اور کیا کی حقیقت؟

نا صاحب، اس اپنے لفظوں بھرے کنستر سے چلّو بھر کر بھیک کسی کو دے کر

ہم سے اپنے قرض نہیں اتریں گے،

اور یہ قرض اب تک کس سے اور کب اترے ہیں

لاکھوں نصرت مند ہجوموں کی خنداں خنداں خونیں آنکھوں سے بھرے ہوئے تاریخ کے چوراہوں پر

صاحبِ تخت خداؤں کی کٹتی گردنیں بھی مل کر بھی حل کر نہ سکیں یہ مسائل،

اک سائل کے مسائل

 

اپنے اپنے عروجوں کی افتادگیوں میں ڈوب گئیں سب تہذیبیں سب فلسفے۔ ۔۔

تو اب یہ سب حرف، زبوروں میں جو مجلّد ہیں، کیا حاصل ان کا۔ ۔۔

جب تک میرا یہ دکھ خود میرے لہو کی دھڑکتی ٹکسالوں میں ڈھل کے دعاؤں بھری اس اک میلی جھولی میں نہ کھنکے

جو رستے کے کنارے مرے قدموں پہ بچھی ہے!

٭٭

مباحثہ

علی محمد فرشی

پہلی نظر میں مجھے یوں لگا جیسے اس نظم نے ایک اہم ادبی سوال کی کوکھ سے جنم لیا ہے کہ کیا شاعر، ادیب، فن کار کا کام کسی صورتِ حال پر اس کے محسوساتی، فنی اور فکری ردِ عمل تک محدود رہتا ہے یا اسے اپنے تخلیقی وجود سے باہر نکل کر بھی سیاسی، سماجی تبدیلی کے لیے بھی اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تخلیقی عمل اپنی نہاد میں سماجی عمل ہی قرار پائے گا۔ سیاسی اور سماجی ادارے اعضائے جسم کے مانند ہوتے ہیں اور تخلیق کار، ذہن اور دل کی مثل۔۔۔۔ جو ان اعضا کو تحریک دیتے اور تبدیلی کے عمل پر اکساتے ہیں۔ خیال کو عمل پر فوقیت حاصل ہے کیوں کہ خیال اصل ہے اور عمل اس کی کارکردگی۔ ۔۔ چناں چہ اگر کوئی شاعر اپنے تخلیقی منصب کا صحیح حق ادا کرتا ہے تو اس سے سماجی تبدیلی کے لیے عملی جد و جہد کا تقاضا مناسب نہیں ہوگا۔ جس طرح ہم ایک پائلٹ سے ٹریکٹر چلانے کا تقاضا اس منطق کی بنا پر نہیں کرتے کہ جو آدمی فضا میں جہاز اڑا لیتا ہے وہ ایک کھلے کھیت میں ٹریکٹر کیوں کر نہیں چلا سکتا۔

زوال یافتہ افراد کا مسئلہ یہ ہوتا کہ وہ نہ اپنے فرائض ادا کرتے ہیں نہ اصیل دماغ کو اپنا کام کرنے دیتے ہیں، بل کہ اپنے سر کی بلا بھی، جو بولے سو کُنڈا کھولے کے مصداق، اسی کے سر ڈال دیتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ پہلا جرم تو یہ کرتا ہے کہ تخلیق کار کو معیشت کی چکی پیسنے پر مجبور رکھتا ہے۔ میں یہ نہیں کہ رہا کہ تخلیقی، معاشی اور سماجی مصروفیات سے تخلیقی فرد کو فرصت ہی کتنی ملتی ہے وہ سیاسی سماجی تبدیلی کا پرچم بھی اٹھا کر سڑک پر نکل آئے۔ توجہ اس طرف دلا نا مقصود ہے کہ سائنس،تعلیم اور سیاست کی طرح، خدا را، ادب کو بھی ایک ادارہ مانیے۔ کیا ادب کی لسانیات، اساطیر، نفسیات، عمرانیات، صحافت، سائنس اور انسانی حقوق کے اداروں اور دیگر علوم پر عنایات کم ہیں کہ آپ اس سے مزید کی توقعات باندھے بیٹھے ہیں؟

مجید امجد کی یہ نظم ’’جن لفظوں میں۔۔۔۔۔‘‘ بہ ظاہر اس بات کی وکالت کرتی نظر آ تی ہے کہ شاعر کا فرض صرف نظمیں لکھ کر پورا نہیں ہو جا تا۔ اس پر معاشرے کا بے انتہا قرض واجب الادا ہوتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نظم مجید امجد کے محسوسات سے عبارت ہے یا اس کے نظریۂ فن کی ترجمان۔ میرے خیال میں تو یہ نظم محسوسات کے شاعرانہ بیان کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ اس کا مجید امجد کے عصر میں مروج اس ادبی نعرے سے کوئی تعلق نہیں جو آنچل کو پرچم بنانے پر زور دیتا تھا۔ نظم آگے چل کر واضح کر دیتی ہے:

 

ہم سے اپنے قرض نہیں اتریں گے،
اور یہ قرض اب تک کس سے اور کب اترے ہیں

لاکھوں نصرت مند ہجوموں کی خنداں خنداں خونیں آنکھوں سے بھرے ہوئے۔۔۔ تاریخ کے چوراہوں پر

صاحبِ تخت خداوندوں کی کٹتی گردنیں بھی حل کر نہ سکیں یہ مسائل،

ایک سائل کے مسائل،

اپنے اپنے عروجوں کی افتادگیوں میں ڈوب گئیں سب تہذیبیں سب فلسفے۔۔۔۔۔

بالائی سطور نظم کی تفہیم میں خاص اہمیت رکھتی ہیں کیوں کہ سرسری مطالعے سے قاری کا دھیان جس طرف بھٹک گیا تھا، اسے ادھر سے واپس لے آتی ہیں۔ بل کہ اس ادبی نظریے کی بھی نفی کر دیتی ہیں جو ادب کو سیاسی انقلاب کی راہ ہم وار کرنے پر مامور کرتا ہے۔ ’’سائل‘‘ استعارہ ہے معاشرے کے انتہائی پس ماندہ طبقے کا۔ نظم کا خیال واضح ہے کہ اس طبقے کے مسائل، تا حال، کسی انقلاب سے حل نہیں ہو پائے۔ تمام فلسفے، مذاہب(زبوروں کا لفظ ملحوظِ خاطر رہے) حکومتیں، تہذیبیں اور ماضی قریب کے سیاسی فلسفے اور انقلابات اس محروم طبقے کو معاشی دکھ سے نجات نہیں دلا سکے۔ تاریخ کا پہیا رواں رہا، کئی عظیم تہذیبیں اس زمین پر صدیوں قائم رہیں، عروج کے افلاک تک پہنچیں اور بالآخر اسی زمین میں دھنس گئیں لیکن زیریں طبقے کی قسمت پر کسی تہذیبی اور علمی ترقی کا کوئی سایہ نہ پڑا۔ معاشی اور معاشرتی مساوات شاعر کا ایسا خواب ہے جو نہ ماضی میں کبھی حقیقت بن سکا اور نہ مستقبل میں اس کی تعبیر سچ ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔

انسان کی درندہ خوئی سے مایوس شاعر صرف خدا سے اس سوال کے حل کی امید رکھتا ہے۔ لفظ زبوروں پر جہاں قاری ٹھٹکتا ہے وہ الجھن یہاں سلجھ جاتی ہے کہ شاعر مذاہب کی اس منفی شکل کے خلاف ہے جس کے ذریعے خستہ حال انسانوں کا استحصال کیا جا تا ہے۔

نظم میں واقعہ یہ ہے کہ شاعر نے سڑک کے کنارے کسی بھکاری کو دیکھا اور اس کا دل بھر آیا، اس دکھ سے نظم کا اکھوا پھوٹا اور شاعر نے کمال مہارت اسے ایک عظیم انسانی المیے میں متشکل کر دیا۔ دل کے لہو میں بھیگی ہوئی دعا شاعر کے نزدیک اس کی تمام تر شاعری سے بھی زیادہ اخلاص اور تقدس سے معمور ہے۔ شاعر نے اپنی تخلیق کو’’ لفظوں بھرے کنستر سے چلو بھر بھیک‘‘ دینے سے تشبیہ دی ہے جس سے اس کی کم تر حیثیت کا اظہار ہوتا ہے، جب کہ دعا کے لیے خلق کی گئی تشبیہ ملاحظہ کیجیے:

’’جب تک میرا یہ دکھ خود میرے لہو کی دھڑکتی ٹکسالوں میں ڈھل کے دعاؤں بھری اس اک میلی جھولی میں نہ کھنکے‘‘

یہاں دکھ کو اشرفی سے تشبیہ دے کر مجید امجد نے فنی تازہ کاری کا اہتمام تو کیا ہی ہے، نظم کی نامیاتی وحدت کو بھی دل کش اور معنی آفریں بنا دیا ہے۔

زیف سید

جناب فرشی صاحب، بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ایک بار پھر کمال ہنر مندی سے نظم کی گتھیاں سلجھائی ہیں۔ خصوصاً اس میں بین السطور چھپے واقعے کو جس طرح سے آپ نے اجاگر کیا ہے اس سے نظم بالکل آئینہ ہو جاتی ہے۔ یہاں میرا جی کی بات یاد آتی ہے کہ نظم سننے کے بعد سب سے پہلے پوچھتے تھے کہ اس میں کہانی کیا ہے؟جیسا کہ آپ نے کہا یہ بات تو سامنے کی ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب، فلسفہ ہائے زندگی اور نظام ہائے حکومت انسان کو زیادہ سے زیادہ راحت پہنچانے کے لیے لائے گئے ہیں۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ یہ تمام نظام ناکام ہو چکے ہیں۔ حتیٰ کہ سائنس، جسے اٹھارہویں اور انیسویں صدیوں میں انسان کی بھلائی کے لیے سب سے موثر وسیلہ گردانا گیا تھا، وہ بھی انسان کے استحصال کا ایک اور آلہ ثابت ہوئی ہے۔ مجید امجد نے اس میں ادبیات کو بھی شامل کر دیا ہے۔ جیسے فقیر کی صدا پر گھر میں پڑے آٹے کے کنستر میں سے مٹھی بھر آٹا خیرات کرنے سے دنیا سے غربت ختم نہیں ہو سکتی، ایسے ہی فنی تخلیق انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے سے قاصر ہے۔ تو پھر ان حالات میں کوئی حساس دل کیا کرے؟نظم میں اس کا حل ‘‘درد مندی’’  پیش کیا ہے، کہ انسان دوسرے کے دکھوں میں شریک ہو کر ان کے دکھوں کا کسی حد تک اندمال کر سکتا ہے۔ یہاں ایسا لگتا ہے جیسے شاعر بدھ مت کی تعلیم ’’کرونا‘‘ سے ملتی جلتی بات کہہ رہا ہے۔ بدھ مت میں انسانیت کے دکھ کم کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ گوتم بدھ کی تعلیمات کا بنیادی پتھر ’’مقدس ہشت پہلو راستا‘‘ ہے، جس کے بنیادی مقاصد دو ہیں، دکھوں کا خاتمہ اور خود آگاہی۔ ہشت پہلو راستے کا چھٹا حصہ ’’کرونا‘‘ یعنی دردمندی ہے، جس کے بارے میں بدھ فرماتے ہیں:’’کرونا وہ ہے جس میں نیک دل دوسروں کے دکھ سے غمگین ہوں۔ کرونا دوسرے کے دکھوں کا خاتمہ کرتی ہے، کیوں کہ اس کے اندر مصیبت کے ماروں کے لیے پناہ ہے۔‘‘

نظم کی ریکارڈنگ کے بارے میں ایک دو باتیں۔ یہ نظم غالباً مجید امجد کو بہت پسند تھی، کیوں کہ انھوں نے ایک اور ریکارڈنگ کے دوران بھی یہی نظم سنائی تھی۔ کلیاتِ مجید امجد کے مطابق یہ نظم 24 اپریل 1973 کو لکھی گئی تھی۔ گویا وہ اس کی تصنیف کے ایک سال بعد تک ہی زندہ رہے (انتقال 11 مئی 1973)۔ قیاس کہتا ہے کہ یہ انٹرویو ان کے زندگی کے آخری مہینوں میں لیا گیا تھا جب ان کی آواز خاصی نحیف ہو چکی تھی۔ لیکن اس نظم کی قرات کے دوران مجید امجد کا لہجہ خاصا دبنگ اور بلند ہو جاتا ہے، جیسے شاعر کو اپنے لفظوں پر مکمل اعتماد ہو۔

علی محمد فرشی

زیف صاحب! ممنونم۔۔۔۔۔ بات کرنے کا لطف آتا ہی تب ہے، جب سننے والے بھی کچھ کہنا جانتے ہوں۔ میں مکالمہ پسند واقع ہوا ہوں، محض داد وصولنا میرا مسلک نہیں۔ طالب علم ہوں اور اسی حیثیت میں مرنے کی آرزو رکھتا ہوں۔( آمین کہیے کہ کیا خبر یہی وقت قبولیت کا ہو)۔ اسی لیے مشاعروں سے دور بھاگتا ہوں، فیس بک پر اپنی نظم کبھی نہیں لگائی کہ تعریف ہوئی تو شرم سار ہوں گا، دوستوں کا قرض چڑھتا رہے گا،جس کی ادائی میرے بس سے باہر ہو گئی تو اخلاقی جرم قرار پائے گا اور اتارا تو ادبی گناہ سے میرا اعمال نامہ سیاہ ہوگا۔ حلقۂ ارباب ذوق کے جلسوں میں اسی لیے شوق سے جاتا ہوں کہ وہاں سننے سیکھنے کو ملتا ہے۔ حاشیہ حلقے کی توسیعی صورت ہے،میں اسے عالمی سطح کا ادبی ادارہ بنتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔

 

زیف صاحب! میرا جی جدید نظم کے شاعرِ با کمال بھی تھے اور نقادِ بے مثل بھی۔۔۔۔۔ جیسا کہ کتابوں میں پڑھا، وزیر آغا صاحب اور جنابِ ضیا جالندھری سے سنا اور اب آپ نے یاد دلایا کہ نظم سننے کے بعد وہ سب سے پہلے پوچھتے تھے کہ ‘‘اس میں کہانی کیا ہے؟‘‘ میرے خیال میں نظم میں، ’’ماجرا‘‘، ’’واقعہ‘‘،’’ کہانی‘‘ تینوں میں سے کسی ایک کا ہونا از حد ضروری ہے۔ جس طرح شعری زبان میں ’’تشبیہ‘‘، ’’استعارہ‘‘، ‘‘علامت’’ اور ’’سمبل‘‘ میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔ ورنہ متن ‘شاعری’ نہیں بن پائے گا۔ اسی طرح نظم میں ’’ماجرا‘‘، ’’واقعہ‘‘ یا’’ کہانی‘‘ میں سے کوئی ایک بھی موجود نہیں ہوگا تو وہ نظم نہیں کہلائے گی۔ چاہے وہ شعری زبان کے تقاضے بھی پوری کر رہی ہو۔ نظم میں ’’ کہانی‘‘ کو اسی طرح کا فوق حاصل ہے جیسے ’’سمبل‘‘ کو تشبیہ اور استعارے پر۔ نظم کی کہانی میں ’’ماجرا‘‘ اور ’’واقعہ‘‘ تو موجود ہو سکتے ہیں لیکن ماجرے اور واقعے میں نظم کی کہانی نہیں سما سکتی۔ نظم کی ’کہانی‘ سے ،جہاں تک میں سمجھا ہوں، میرا جی کی مراد نظم کی نامیاتی وحدت،نظم کے دیگر متون سے رشتے، شعری محاسن کا برمحل التزام، فکرو جذبے کا فنی توازن جیسے امور شامل ہیں جب کہ واقعے کی ایک مثال تو اسی نظم میں موجود ہے کہ شاعر نے لبِ راہ ایک بھکاری کو عالم لاچاری میں دیکھا، دکھی ہوا اور نتیجتاً اس کے محسوسات نظم میں منقلب ہو گئے(محض بیان نہیں ہوئے) اور ماجرے کی مثال بھی اتفاق سے اس نظم میں موجود ہے کہ انقلاب فرانس اور انقلابِ روس کے موقعے پر بپھرے ہوئے عوام نے کیسے کیسے جابر شہنشاہوں کے خون سے تاریخ کو سرخ کر دیا تھا۔ ماجرا اپنی ساخت میں تلمیحی بھی ہو سکتا ہے اور اساطیری بھی، بل کہ ایک معمولی سی خبر بھی ماجرا بن سکتی ہے۔ اس نظم میں واقعہ اور ماجرا بھی ’’کہانی‘‘ کے اجزائے جاں بن گئے ہیں اور شاعر کا فلسفہ بھی۔۔۔۔۔۔ میں یہاں آپ کے الفاظ مقتبس کرنا چاہتا ہوں تاکہ بات واضح ہو سکے: ’’جیسا کہ آپ نے کہا یہ بات تو سامنے کی ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب، فلسفہ ہائے زندگی اور نظام ہائے حکومت انسان کو زیادہ سے زیادہ راحت پہنچانے کے لیے لائے گئے ہیں۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ یہ تمام نظام ناکام ہو چکے ہیں۔ حتیٰ کہ سائنس، جسے اٹھارہویں اور انیسویں صدیوں میں انسان کی بھلائی کے لیے سب سے موثر وسیلہ گردانا گیا تھا، وہ بھی انسان کے استحصال کا ایک اور آلہ ثابت ہوئی ہے۔ مجید امجد نے اس میں ادبیات کو بھی شامل کر دیا ہے۔‘‘ مجھے صرف آخری سطر سے اتفاق نہیں۔ اس کا ایک عقلی اور عملی ثبوت تو نظم بہ ذات خود ہے، جس نے شاعر کی درد مندی کو فن پارہ بنایا ’’کہانی‘‘ بنائی اور ’’ہیئت‘‘ عطا کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! بدھا کے تصور سے ہرگز انکار نہیں۔۔۔ اس سے ملتے جلتے تصورات ہر مذہب اور کلچر میں موجود ہیں۔ ادبی سوال یہ نہیں کہ کوئی مسئلہ حل کیسے ہو بلکہ ادبی سوال تو یہ ہے کہ کیا فن پارہ مسئلے کی درست تشخیص کی قدرت رکھتا ہے یا نہیں، احساسِ دردمندی کی شدت سے معمور ہے کہ نہیں، فنی اقدار کا امین ہے یا نہیں۔ اربابِ حاشیہ نظم کو حوالہ بنا کر بات آگے بڑھائیں گے تو مجھے اس نظم کے ذریعے سے سیکھنے بہت سا موقع ملے گا۔

محمد یامین

مجید امجد کی آواز میں جو اٹھان ہے اور نظم کے مصرعوں کی جو شان ہے، وہی بتا دیتی ہے کہ انسان کو راحت پہنچانے والے تمام ادارے اگر ناکام ہیں تو یہ ادارہ جسے ادبیات کہیں۔ ۔ سر اٹھا کر اپنی کام یابی کا اعلان کرتا ہے۔ ۔ دراصل یہ ادیب ہی ہے جس نے ان ناکامیوں سے کام لیا ہے۔ ۔۔۔ اور معاشرے میں عمل خیر (ایک بار پھر مجید امجد کو خراج تحسین)کے تسلسل کا امین ہے۔

ستیہ پال آنند

فرشی صاحب کا تجزیہ اچھا لگا۔ مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ انہوں نے میرا جی کے تنقید نگار ہونے کے بارے میں جو کچھ سنا ہے اس میں ضیا جالندھری صاحب کی حد تک تو بات صحیح ہو گی لیکن وزیر آغا صاحب کو اس فہرست سے خارج کر دیں جو میرا جی کے معتقدین کی ہے۔ مجھ سے خط و کتابت اور بات چیت میں آغا جی نے میرا جی کی عملی تنقید کے ہنر کو تسلیم بھی کیا لیکن ’’پڑھا لکھا ہونے‘‘ کی شرط کی کسوٹی پر اسے تشکک اور ایراد کی نظر سے دیکھا۔ (اس جملے میں راقم الحروف نے بھی لفظ ’’ہنر‘‘ استعمال کیا ہے، جو قابل غور ہے) میرے تدوین شدہ آغا جی کے دو تین خطوط پر مبنی میرا ایک مضمون کچھ ماہ پہلے ’’روشنائی‘‘ کراچی میں شامل اشاعت ہوا ہے۔ اگر احباب اسے دیکھ سکیں تو بہت سی باتیں واضح ہو جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرشی صاحب نے نہایت خوش اسلوبی سے میرا جی کے تکیہ کلام ’’اس میں کہانی کیا ہے؟‘‘ کو واقعہ، ماجرا وغیرہ الفاظ سے مشبہ کیا ہے۔ ان الفاظ میں ’’پیرابل‘‘ کا بھی اضافہ کر لیں تو میرا جی کی خود ساختہ کہانیاں جو اس کی نظموں کی ساخت کے چوکھٹے بھی ہیں اور فریم آف ریفرینس بھی ہیں، آسانی سے سمجھ آ جائیں گی۔( ’’فیبل‘‘ کے مقابلے میں آغا جی ’’پیرابل‘‘ کا اردو ترجمہ ’’مثالی داستان‘‘ کرتے تھے، جس پر مجھے ہمیشہ اعتراض رہا)۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ کہانی کیا ہے؟‘‘ کے میرا جی کے تکیہ کلام ہونے کی عادت کو ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک بزرگ ٹیکا رام سخن خوبصورتی سے بیان کیا کرتے تھے۔ سخن صاحب ستر برس کی عمر میں تقسیم ہند کے بعد جالندھر سے اردو میں چھپنے والے کمیونسٹ پارٹی کے روزانہ اخبار ’’نیا پنجاب‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ راقم الحروف اور پریم وار برٹنی نے ۱۹۵۲ میں جوائن کیا تھا۔ ہم تو اخبار کی ماسٹر کاپی پر کتابت شدہ خبروں کے تراشے چپکانے والے جونیر کارندے تھے لیکن معروف مزاح نگار فکر تونسوی، شاعر مخمور جالندھری، شاعر نریش کمار شاد بھی ہمارے ساتھی تھے۔ ٹیکا رام سخن کم گو تھے لیکن پرانی کہانیاں سنانے کا شوق رکھتے تھے۔ میرا جی کی جلق کی عادت کے علاوہ وہ بتاتے تھے کہ کسی سیاسی خبر (جسے اخبار نویسی کی اصطلاح میں ’’اسٹوری‘‘ کہا جاتا ہے) کے آنے پر ان کے منہ سے یہی جملہ بے تحاشا نکلتا تھا جبکہ دیگر اردو اخبار نویس بھی انگریزی لفظ ’’اسٹوری‘‘ ہی استعمال کرتے تھے۔۔ ۔۔۔ میں زیادہ دیر کمپیوٹر کے سامنے کرسی پر بیٹھ نہیں سکتا، معافی چاہتا ہوں۔ مجید امجد کی نظم کے بارے میں پھر کبھی کچھ عرض کروں گا۔

محمد یامین

نظم ’’ان لفظوں میں‘‘ پر بہت خوب صورت اظہاریہ علی محمد فرشی صاحب نے پیش کیا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ تعریفی جملے نہ ان کو پسند ہیں اور نہ مناسب لگتے ہیں۔ اس لیے ان کے ذہنِ رسا کی بس یہی داد دوں گا کہ انہوں نے واقعہ،ماجرا اور کہانی کو جس طرح تشبیہ، استعارہ، علامت اور سمبل کی طرح اصطلاحی وجود عطا کیا ہے اس طرح کا کام کسی کتابی علم والے شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ ۔۔۔ یہ ایک تخلیقی ذہن کی ایجاد ہی ہو سکتا ہے۔ ۔۔۔۔۔ نظم پر مزید باتیں بھی احباب کریں گے۔ فرشی صاحب نے لکھا ہے کہ ’ دیکھنا یہ ہے کہ یہ نظم مجید امجد کے نظریہ فن کی ترجمان ہے یا کہ ان کے محسوسات سے عبارت۔۔۔۔۔پھر وہ اس نظم کو محسوسات کے شاعرانہ بیان کا عمدہ نمونہ کہتے ہیں۔ اس حوالے سے (ان کی مزید نظمیں بھی نظر سے گزار لی جائیں جن میں شاعر کے ایک طرح کے محسوسات کی ترجمانی ہے نہ کہ نظریہ فن کی)سوال یہ ہے کہ اگر ایسی نظمیں تعداد میں زیادہ ہوں تو کیا شاعر کے یہ محسوسات نظریے کی شکل اختیار کر سکتے ہیں؟۔ ۔۔۔ مجھے مجید امجد کی بہت سی نظموں میں محسوسات کی ترجمانی نظر آتی ہے۔ مثلاً آٹوگراف، میونخ، لاہور میں، ایک فلم دیکھ کر۔۔۔۔۔۔اور زیر بحث نظم جیسی نظمیں مثلاً  ’یہ بھی کوئی بات ہے‘ اور ’فرد‘۔ ۔۔۔۔ لیکن کمال یہ ہے کہ ہر نظم میں کہانی سانس لیتی اور آگے بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔۔۔ محسوسات والی بعض نظموں میں کبھی شاعر کسی شخصی احساسِ کم تری میں ڈوبتا نظر آتا ہے اور کبھی فنی لحاظ سے اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ۔۔۔ نظم ’ان لفظوں میں‘ بھی شاعر کے محسوسات یہی ہیں۔(شاید یہ نظم آخری عمر کی ہے جب مایوسیاں انسان کو گھیر لیتی ہیں)۔ لیکن نظم کی آواز اور لفظوں کا شکوہ و جلال ان محسوسات کے آگے کھڑے ہو کر قاری کی توجہ اپنی طرف کر لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسرے یہ کہ زبوروں کا لفظ استعمال کرنے کا کیا جواز ہے۔۔۔۔ اگر اس سے مراد مذاہب کی منفی شکل ہے تو اسے اہلِ زبور کیسے تسلیم کریں گے۔ ۔۔۔ نظم اس کنٹروورسی میں کیوں پڑی؟ کیا صحیفوں یا کتابوں کا لفظ لانا ٹھیک نہیں تھا۔ ۔۔۔۔اس بارے میں احباب سے خاص کر فرشی صاحب سے راہ نمائی کا طالب ہوں۔

علی محمد فرشی

محترم آنند صاحب! از حد ممنون ہوں کہ آپ نے مہان ہونے کا پرمان دیا اور ہمارا مان سلامت رکھا۔ یہاں آپ کے علمی مرتبے کا احترام کرنے والے اور آپ سے پیار کرنے والے جمع ہیں۔ یہ فورم تو ناقدین نے چلانا ہے ہم لوگ تو میدان ہم وار کر رہے ہیں۔(کم از کم میں اپنی حد تک تو ایسا ہی سمجھتا ہوں) کہ میں طالب علم ہوں اور آپ سے سیکھنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اختلاف کروں گا تب بھی احترام کے ساتھ اور سیکھنے کے لیے اور اپنا ذہن گھاس سے پاک کرنے کے لیے کہ علمی بحث تو ایسی معرکہ آرائی ہوتی ہے جو ذہنوں میں اُگ آنے والے گھاس کو صاف کر دیتی ہے۔ اگر چھوٹوں سے کوئی گستاخی ہو بھی جائے تو بڑے معاف کر دیا کرتے ہیں۔۔۔۔۔ میں آپ سے شفقت کی توقع رکھتا ہوں۔

    میں نے میراجی  کو معروف معنوں میں بڑا تنقید نگار یا نقاد ثابت کرنے کی جسارت نہیں کی البتہ ان کی نظم فہمی کے حوالے سے ان کا معترف ہوں اور جدید نظم کے فروغ میں ان کی ان کاوشوں کا بھی جو حلقہ ارباب ِ ذوق کے پلیٹ فارم سے انھوں نے جاری رکھیں،اس معاملے میں، میری معلومات کے مطابق ان جیسا کوئی اور نہیں رہا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ بعد ازاں آغا صاحب کی ہمدردی بھی اس صنف کے ساتھ ضرور تھی اور انھوں اسے فروغ بھی دیا تاہم ان کی توجہ کا مرکز انشائیہ تھا،جسے انھوں نے تحریک بنا دیا۔

اگر میرے کانوں نے آغا صاحب کی زبان سے سننے میں غلطی کی تھی تو میں اسے آپ کے حکم کے مطابق اسے حذف کرنے ہی والا تھا کہ آغا صاحب تشریف لے آئے اور ’’ نظم جدید کی کروٹیں‘‘ کھول کر میرے سامنے رکھ دی۔ اب میرے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ وہ عبارت یہاں نقل کر دوں جسے آغا صاحب نے خط کشیدہ کر رکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔

    ’’۔۔۔۔۔۔۔۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس خاص میدان میں(جہاں تک اردو نظم کا تعلق ہے) میرا جی کی حیثیت منفرد اور یکتا ہے۔ اردو نظم گو شعرا میں سے شاید ہی کسی نے اپنے موضوع سے اس قسم کی جذباتی وابستگی، شغف، اور زمین سے ایسے گہرے لگاؤ کا ثبوت بہم پہنچایا ہو جیسا کہ میرا جی کے ہاں نظر آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں میرا جی کی شاعری نے اس کی اپنی جنم بھومی سے خون حا صل کیا ہے اور اسی لیے اس میں زمین کی خوش بو، حرارت اور رنگ بہت نمایاں ہے۔ میرا جی کی عظمت ایک بڑی حد تک اس کے اسی رجحان کے باعث ہے۔ پھر دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ میرا جی کے بعد آنے والے بہت سے نظم گو شعرا نے میرا جی سے بڑے واضح اثرات قبول کیے ہیں اور اس کی علامتوں، اشاروں، سوچنے کے خاص انداز اور بیان کے مخصوص پیرائے کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ چنانچہ اردو نظم کا وہ طالب علم جس نے میرا جی کی نظموں کا مطالعہ کیا ہے، بڑی آسانی سے جدید نظم گو شعرا کے ہاں میراجی کے اثرات کی نشان دہی کر سکتا ہے۔ لیکن خود میراجی کے سامنے اردو نظم کے میدان میں ایسی کوئی مثال نہیں تھی جس کو سامنے رکھ کر وہ نظم کے اس خاص انداز کو رواج دینے کی کوشش کرتا۔ چناں چہ یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اردو نظم میں میراجی کا یہ رجحان ایک بالکل نیا رجحان تھا اور میرا جی جب اس خاص رجحان کے تحت اردو نظم کو ایک نئے مزاج، ایک نئے ذائقے سے آشنا کر رہا تھا تو دراصل ایک ایسا نیا بند باندھ رہا تھا جس کو نظم کے دھارے کا رخ ہی موڑ دینا تھا‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( نظمِ جدید کی کروٹیں ص76)

زیف سید

یامین صاحب، آپ نے لفظ ’’زبوروں‘‘ پر سوال اٹھایا ہے، اس کا تفصیلی جواب تو صاحبانِ علم دیں گے، اس دوران میں عرض کرتا چلوں کہ مجید امجد نے زبوروں کو کتابوں یا صحیفوں ہی کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ عبرانی زبان میں زبور کا لفظی مطلب کتاب ہے (بالکل ایسے ہی جیسے عربی میں ’’قرآن‘‘ کا لفظی مطلب پڑھنا ہے)۔ ظاہر ہے کہ یہ لفظ اُس کتاب سے وابستہ ہے جو حضرت داؤدؑ پر نازل ہوئی تھی(1)، لیکن اس کے ساتھ ساتھ زبور کا ثانوی مطلب ’’کوئی بھی کتابِ حکمت‘‘ ہے۔ فارسی علوم میں زبور سے مراد ایسی کتاب لی جاتی رہی ہے جس میں حکمت کی باتیں ہوں لیکن احکامِ شریعت نہ ہوں، جب کہ کتاب سے مراد ایسی مذہبی کتاب ہے جس میں احکامِ شریعت ہوں۔ اس لحاظ سے قرآن بیک وقت زبور اور کتاب ہے۔ علامہ اقبال نے ’’کتابِ حکمت‘‘ ہی کے معنی میں اپنے مجموعے کا نام ’’زبورِ عجم‘‘ رکھا تھا۔ میرے خیال سے نظمِ زیرِ بحث میں ’’زبوروں‘‘ کے استعمال سے جو شکوہ اور تمکنت پیدا ہوئی ہے وہ شاید کتابوں یا صحیفوں سے نہ ہو سکتی (لفظے کہ تازہ است بہ مضموں برابرست۔ ۔۔ طالب آملی)۔

(1) بر سبیلِ تذکرہ، زبور کے مترادفات مزامیر اور مزمار ہیں، جن کا مطلب نغمہ یا موسیقی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت داؤدؑ معجزے کی حد تک خوش الحان تھے اور وہ زبور کی مناجاتوں کو گا کر سنایا کرتے تھے۔

علی محمد فرشی

زیف صاحب! آپ نے یامین صاحب کے سوال کا شافی جواب دیا اور ’’ زبوروں‘‘ کے جواز کو خوبی سے واضح کیا ہے۔ میں اس میں کوئی اضافہ نہیں کر پاؤں گا، بس ایک نکتہ، جس کی میں نے یہاں گنجائش بنا لی ہے، پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ جمع کا صیغہ خود اس پر دال ہے کہ یہ اسم معرفہ نہیں بل کہ اس سے مراد کتابی علم ہے۔ ’’ تو اب یہ سب حرف، زبوروں میں جو مجلد ہیں، کیا حاصل ان کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ پہلے۔۔۔۔۔۔۔ ’’تو‘‘ کے درست ترین مقام پر استعمال کو سراہنا ضروری ہے کہ اسے ذرا سا ادھر ادھر کریں تو معنی کا حسن عنقا ہو جائے گا۔ دوسرے حروف کا مجلد ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ شعر و حکمت کو ہم ’’محفوظ‘‘ کر دیتے ہیں، اس کا احترام ہی کرتے ہیں،اس پر عمل سے گریزاں رہتے ہیں۔۔۔۔ شعر و نغمہ کے معنوں میں بھی یہ رمز موجود ہے کہ ہم شاعری کو گانے بجانے کی شے بنا کر تفریحی سطح پر لے آتے ہیں۔۔۔۔۔(جیسا کہ قوالوں نے کلامِ اقبال کی گت بنائی ہے) ہر زاویے سے معانی اپنی جگہ درست رہیں گے۔۔۔۔

    اب یامین صاحب! آپ کا دوسرا سوال کہ:’’ کیا شاعر کے محسوسات نظریے کی شکل اختیار کر سکتے ہیں؟‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر کے علم کے بڑا ذریعہ تو محسوساتی ہی ہوتا ہے یا پھر ارفع سطح پر وجدانی۔ الہامی کہنے میں صرف یہ امر مانع ہے کہ یہ لفظ ہمیں مذہب کی قلمرو میں لے جاتا ہے۔۔۔ اگرچہ مذہب اور ادب کے منابع ایک دوسرے سے زیادہ فاصلے پر نہیں۔۔۔۔۔۔۔ مذہبی متن میں ادبی حسن موجود ہوتا ہے، لیکن ادبی متن کے لیے ضروری نہیں کہ وہ کسی مذہب کے اثر میں ہو۔۔۔۔ ایسا خود مختار(بے مہار نہیں) ادبی وجود جو محسوساتی علم حاصل کرتا ہے وہ نظریہ بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔۔۔۔ لیکن ضروری نہیں کہ شاعر کی ہر نظم خاص نظریے کے تابع ہو، یا اس کے اپنے نظریۂ فن کے حصار میں پناہ گزیں رہے۔۔۔۔۔۔۔۔بعض نظمیں سرکش اور بغاوت آمادہ بھی ہوتی ہیں۔۔یہ لمبی بحث ہے۔ یہاں ایک تو یہ دیکھنا ہے کہ شاعر کی بہترین نظمیں کیا کہ رہی ہیں؟ دوسرے اس کے کل کلام کا بڑا حصہ کیا مؤقف رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ پھر یہ کہ بعض شعرا کے ہاں بڑی واضح تبدیلی بھی آتی ہے جیسا کہ اقبال کے ہاں 1908 کے بعد کایا ہی پلٹ گئی۔ ایسے میں ارتقائی سفر کو مقدم رکھا جاتا ہے۔۔۔ راشد کی مثال بھی سامنے کی ہے۔۔۔۔۔۔ ’’لا مساوی انسان‘‘ اور’’ گماں کا ممکن‘‘ کو باقی کلام پر فوقیت حاصل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

    شاعر کے نظریۂ فن اور اس کے محسوسات کے حوالے سے ایک بات میں ہمیشہ ذہن نشیں رکھتا ہوں کہ شاعر کے محسوسات بعض اوقات فوری رد عمل(جو منفی بھی ہو سکتا ہے) کا اظہاریہ بھی بن سکتے ہیں، جب کہ نظریہ ٔفن کی ترجمان نظمیں (خواہ ان کا معیار کچھ بھی ہو)مثبت اقدار کی امین ہوتی ہیں۔

ستیہ پال آنند

فرشی صاحب نے صحیح فرمایا۔ اپنی تحریر و تقریر دونوں میں وزیر آغا میرا جی کے اس لیے معترف تھے کہ وہ یکہ و تنہا شاعر تھا جس نے ’’اپنی جنم بھومی‘‘ سے اثرات قبول کیے۔ جو اقتباس فرشی صاحب نے ’’نظم جدید کی کروٹیں‘‘ سے لیا ہے، میں نے پھر اسے غور سے پڑھا ہے۔ اس میں میرا جی کی عظمت کا اعترافی بکھان اس کے شاعر ہونے کے حوالے سے ہے،نہ کہ اس کے تنقید نگار ہونے کے حوالے سے۔ میں نے اپنے اورجنل نوٹ میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ عملی تنقید کے میدان میں میرا جی کی حیثیت مسلمہ ہے (چہ آنکہ’’اجنبی عورت‘‘، ’’خود کشی‘‘ ، ’’داشتہ‘‘، ’’رقص‘‘ اور زنجیر‘‘ میں موخر الذکر تین نظموں پر تبصرہ ہی مجھے قابل قبول ہے۔ میری دانست میں (اور میں ایک متنازعہ فیہ بات کہنے والا ہوں، بلکہ پہلے کہہ بھی چکا ہوں) میرا جی کی تنقیدی تحریروں میں مطالعے کی کمی جھلکتی ہے۔ راشد صرف ’’بابو انگلش‘‘ ہی نہیں جانتے تھے،(جو یو این او میں بھی استعمال میں لائی جاتی تھی) مغرب میں ادبی سطح پر لکھی جانے والی اور بولی جانے والی انگریزی سے واقف تھے۔ میرا جی کے پاس (اور یہ بات میں وثوق سے کہہ رہا ہوں) یہ کمائی نہیں تھی۔ Parlance of Literary Criticism یعنی تنقید کی زبان (جو آج کی تنقید کی زبان ہو) وراثت میں نہیں ملتی۔ اسے اپنے مطالعے سے ’’کمایا ‘‘ جاتا ہے۔ میرا جی کے سبھی (یا لگ بھگ سبھی) عملی تنقید کے مضامین ایک ہی مسلسل متن میں لکھے گئے ہیں۔ انہیں پیرا گرافوں میں نہیں تقسیم کیا گیا۔ یہ پتہ نہیں چلتا کہ ’’کہانی‘‘، اس میں ملوث کردار، ان کرداروں کے شعری خال و خد، ان کی ’’سوچ، کتھنی اور کرنی‘‘ (معاف کیجیے میں ہندی کے الفاظ استعمال کر گیا) کا ذکر کہاں شروع ہوتا ہے اور کہاں point by point چلتے ہوئے ایک نکتے سے دوسرے تک پہنچ کر آگے بڑھتا ہے۔ کئی بار مراجعت نظر آتی ہے۔ کسی بھی عملی تنقید کے نمونے میں میرا جی نے اصل نظم کے متن سے کوئی اقتباس دے کر اپنے نکتے کو illustrate نہیں کیا۔ اگر اس کا مضمون چار سو الفاظ کا ہے تو پہلے لفظ سے لے کر آخری لفظ تک ایک ہی پیراگراف چلتا چلا جاتا ہے۔ صرف ایک مضمون میں جو ’’زنجیر‘‘ پر عملی تنقید کا نمونہ ہے، میرا جی نے نظم مین استعمال کیے گئے الفاظ، مصارع کا مجوزہ شمار اور موجودہ شمار کی ایک شکل مہیا کی ہے، اسی نظم میں میرا جی نے شاعر اور پیلہ ء ریشم کے مابین مکالمے کی صورت میں اپنی قلم سے جو مواد پیش کیا ہے، وہ بھی ایک ندرت ہے۔ لیکن باقی کے سبھی مضامین میں وہ     اپنی ہی دھن میں لکھتا چلا جاتا ہے۔ جس بات پر آغا جی کا اور میرا اتفاق تھا وہ میرا جی کے مطالعے کے بارے میں تھی۔ یورپ میں اس وقت تک تنقید کہاں سے کہاں چلی گئی تھی۔ میں یہ نہیں کہتا کو میرا جی کے لیے ان مفکروں اور تنقید نگاروں کے حوالے دینا ضروری تھا۔ لیکن poetic narratology , versification dicta, flow and fluidity, ambiguity of syntax (with which Rashid is amply loaded) and Syntactic units in the poem (with the exception of his practical criticism on زنجیر)۔۔۔۔۔۔۔یہ سب اس کے مضامین سے غائب ہیں۔ بیسویں صدی کے پہلے پینتیس چالیس برسوں میں یورپ میں لکھی گئی تنقید سے میرا جی ناواقف ہے۔ جو parameters وہ استعمال کرتا ہے، اس کے اپنے ایجاد کردہ تو نہیں ہیں لیکن وہ اس کے ہنر یعنی craft کا پتہ دیتے ہیں۔۔۔۔۔باقی پھر کبھی۔ تھک گیا ہوں۔

 

٭٭٭

ماخذ:

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔