کبھی کوئی دن انسان کی زندگی میں خواب کی مانند بھی ہوا کرتا ہے۔ ہر کسی کی زندگی میں ایسا ایک دن ضرور آتا ہے۔ میری زندگی میں بھی ایک ایسا دن آیا۔
میں چاند عرف کالا، ہاں جی رنگت ذرا دبی دبی سی تھی، ویسے ابّے سمیت سب کہتے تھے کہ شخصیت بھی ذرا دبی دبی سی ہے۔ خیر جی، میں نے اپنی حیاتی میں ایک دن خواب کی صورت گزارا، ایک بھیانک خواب، میں اپنی کہانی اپنی زبانی بتاتا ہوں۔
میرے ابّے کا ایک دوست بڑا آدمی تھا شہر میں اچھی کوٹھی میں رہتا تھا۔ میرے ابّے نے تو پڑھائی کی ساری عمر آم توڑنے اور تالاب سے مچھیاں پکڑنے میں گزار دی ورنہ شاید ہم بھی آج شہر والے ہوتے۔
ابّے کے دوست کی بیٹی کی شادی تھی، ابّا تو فصل کی وجہ سے جا نہ سکا۔ ابّے نے مجھے کہا کہ میں چلا جاؤں اور جو دینا دلانا ہے اس کے ساتھ ساتھ تحفے تحائف دے آؤں، ساتھ ہی معذرت کر لوں کہ ابّا نہیں آ سکتا۔۔ مجھے شہر دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ میں نے جانے کی حامی بھر لی۔ شادی سے دو دن پہلے میں نے سامان باندھا اور چل نکلا۔
میرے پاس سامان کے طور پر 4 بکسے تھے۔ شہر جانے کے لیے گاڑی پر سوار ہوا تو ابّا اور بے بے مجھے چھوڑنے پلیٹ فارم تک آئے۔ بے بے نے کہا۔ " پُتر میں نے آم، لیموں کا اچار الگ الگ ڈبے میں رکھوا دئیے ہیں۔" تو ساتھ ہی ابّا بولا " او ہو نیک بخت لڑکا گاڑی کے ایک ہی ڈبے میں سوار ہو گا تم نے کاہے الگ الگ ڈبے میں رکھوا دیے ؟ تو بے بے نے کہا " کالے کے ابّا ، گاڑی کے الگ ڈبوں میں نہیں، سامان کے الگ ڈبوں میں۔ "
اللہ اللہ کر کے گاڑی روانہ ہوئی۔ میں ذرا مخولیا قسم کا بندہ تھا۔ میں نے سیٹ پر بیٹھے آدمی سے کہا "بھائی میاں ٹانگیں پسار لو، دہلی ابھی دور ہے "۔ سامنے سیٹ پر بیٹھے بڑے میاں بھڑک اٹھے " کیا کہا ؟ کیا یہ گاڑی دہلی جا رہی ہے ؟ " میں نے عرض کیا " نہیں بڑے میاں وہ تو میں ہی ایک محاورہ بول رہا تھا " بڑے میاں نے ایک ہی لفظ استعمال کیا میری شان میں " نامعقول" اور مجھے ایسی گھوری کرائی کہ میں سارا راستہ دم سادھے بیٹھا رہا۔
اللہ سوہنے نے کرم کیا شہر آ گیا۔ میں نے گاڑی سے سامان اتارا اور ایک رکشے والے کو گھر کا پتا دیا کہ " میاں اس پتے پر لے چلو۔ " رکشے والا بولا " اگر میں نے یہ دو چار لفظ پڑھے ہوتے تو آج کہیں پرائمری کا ٹیچر ہوتا یہاں رکشہ نہ چلا رہا ہوتا۔ ہونہہ ( اس نے غصّے میں گردن ماری) "۔ رکشے والا تو گسہ ہی ہو گیا۔
میں نے ایک حولدار سے کہا " سلام صاب ! میں چاند۔ ۔۔۔ " حولدار نے کہا " پورا کہو نا، گرہن لگا چاند " میں نے بُرا محسوس کیے بن پتا اس کے سامنے کیا اور کہا کہ اس رکشے والے کو پتا بتا دیں۔ حولدار بابو نے پتا میرے ہاتھ سے لیا اور رکشے والے کو سمجھانے لگا۔ یہ میری زندگی کا پہلا واقعہ تھا جب کسی حولدار نے بنا رشوت لیے کام کیا۔
اللہ اللہ کر کے میں ابّے کے دوست کی کوٹھی پہنچا۔ کافی بڑی کوٹھی تھی۔ میں اندر گیا تو مجھ سے سب بہت اچھے سے پیش آئے۔ کچھ دیر بعد ابّے کے دوست نے کہا۔ "بھئی اسے گیسٹ روم تک لے جاؤ، کافی لمبا سفر کر کے آیا ہے تھک گیا ہو گا۔ " اجی میرے تو حواس خراب ہو گئے اللہ جانے کس بلا کا نام تھا گیسٹ روم ، میں سامان بغل میں دبائے ایک آدمی کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا۔ وہ ایک کمرے کے آگے جا کر رکا، دروازہ کھولا اور مجھے اندر آنے کو کہا۔
میں نے ڈرتے ڈرتے اندر جھانکا سب ٹھیک تھا میں اندر آ گیا۔ اس آدمی نے کہا یہ آپ کی قیام گاہ ہے۔ میں نے گردن گھُما کر کہا " کیا ہے ؟ " وہ بولا " رُکنے کی جگہ سر" میں نے بڑے انداز سے کہا " ٹھیک ہے " اس کے جانے کے بعد میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔
سب سے پہلے میں نے غسل خانہ دیکھا۔ عجیب حیرت ہوئی منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میں اندر داخل ہوا تو میرا پاؤں پھسل گیا۔ فرش ہی بڑا چکنا چکنا سا تھا میں نے جوتی اتار کر ہاتھ میں پکڑی اور غسل خانے کا جائزہ لیا۔ نہانے کے لیے بالٹی ڈبے کے بجائے ایک آسمان پر لگا فوارہ تھا۔ وہ بھی عجیب لیٹ کر نہانے والی جگہ پر اور اس کے سامنے پردہ لگا تھا۔ دل نے خیال کیا۔ پردہ تو ہم بھی لگاتے ہیں نہانے والے کمرے کے سامنے مگر یہاں کیا ضرورت ہے جب دروازہ ہے تو۔ ۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا غسل خانے میں تو ہر چیز ہی میرے ذہن کو ہلا رہی تھی۔ ایسی چیزیں جن کا تصور بھی اپنے گاؤں میں نہیں تھا۔
کمرے میں بستر پر نگاہ ڈالی۔ بان کی چارپائی پر سو سو کر کمر ایسی اکڑی تھی کہ اب اسے ایسا سیدھا گدا کہاں بھاتا۔ میں نے چادر پکڑی زمین پر بچھائی اور سو گیا۔
اگلے دن میں نے تحفے تحائف والا اور انواع اقسام کے اچار والے دونوں بکسے ابّے کے دوست کی بیوی کو دیے۔ اتنی دیر میں ابّے کے دوست کے چچا آ گئے۔ لمبے لمبے بوٹ پہنے سر پر یہ بڑی سی ٹوپی رکھے۔ میں نے سر سے پاؤں تک ان کو غور سے دیکھا تو کہتے " ہم شکاری ہوتے ہیں " میں نے ان سے ہاتھ ملایا اور کہا " شکاری تو ہم بھی ہوتے ہیں جی مگر اتنے اوکھے نہیں ہوتے ( اشارہ ان کے لباس کی جانب تھا۔ ) اس سے پہلے کہ ہم اپنے شکار کے قصے عرض کرتے وہ لمبی لمبی چھوڑنے پر آ گئے۔ کہتے ، ہم نے شیر کا ایسے شکار کیا، ویسے قابو کیا۔ ایسے مرغابی کو پکڑا، تیتر بٹیر، اور جانے کیا کیا۔ بس ایک ہاتھی ہی چھوڑا تھا انہوں نے ، یا شاید وہ اپنے حجم کی وجہ سے بچ گیا ان کے ہاتھوں۔۔ ابھی قصے جاری تھے کہ بڑے ہال والے کمرے میں ایک موٹا تازہ چوہا آ گیا۔ شکاری چچا جوتوں سمیت صوفے پر چڑھ گئے۔ ہم حیران پریشان منہ کھول کے انہیں دیکھ رہے تھے کہ انہیں کیا ہوا۔ ہم نے کہا " ارے چچا جی ! آپ تو شکاری ہوتے ہیں نا پھر ایک چوہے سے کیوں ڈر گئے ؟" تو بولے " ہم کوئی شکاری بلّے تو ہیں نہیں جو چوہوں کا شکار کریں۔ ہم بڑی بڑی چیزوں کا شکار کرتے ہیں۔ ان حقیر چیزوں کا نہیں " لو جی بالآخر ہم نے ہی اس چوہے کو شکار کیا۔
کچھ دیر گزری تھی کہ ابّے کے دوست کی ایک رشتہ دار ڈاکٹرنی آئی۔ ہم نے بھی سلام دعا کی۔ کھانا میز پر لگا تو کہنے لگیں " ڈائٹنگ کرتے ہو ؟" ہمارے تو جی فرشتے بھی اس انگریزی کے لفظ سے نا آشنا تھے۔ ہم نے نا سمجھی والی شکل بنائی تو کہتیں " بھئی کھانے سے کوئی ناراضگی ہے کیا ؟ " ہم نے پوری طاقت سے نہ میں مُنڈی ہلائی۔ تو ابّے کے دوست نے کہا " آ جاؤ میاں ! کھانا کھا لو " ایک کرسی کو سلیقے سے قابو کیا اور نہاری کی طرف ہاتھ بڑھایا تو ڈاکٹرنی جی بولیں " یہ کیا غضب کر رہے ہو ہارٹ اٹیک کروانا ہے کیا؟ یہی کھانے ہیں جو دل رُکنے کا سبب بنتے ہیں۔ " ہم نے ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
میز پر مرغی بھی پڑی تھی مصالحہ لگی ساتھ لیموں پڑا تھا دل للچایا۔ ہم نے ایک بڑی بوٹی کی جانب ہاتھ بڑھایا ڈاکٹرنی جی کو ہمارے مرچ مصالحے کھانے سے بھی کچھ ہونے لگا، فٹ سے بولیں " اتنا مرچ مصالحہ کھاؤ گے تو معدے کا السر تو لازمی ہو جائے گا۔ پھر کرواتے پھرنا اینڈو اسکوپی" اتنے خوفناک خوفناک نام لے رہی تھیں کہ دل ، معدہ ، کلیجہ سب ہل کر رہ گیا۔
باجو میں سموسے پڑے تھے ہم نے ان کی جانب ہاتھ بڑھانا چاہا تو پھر بولیں " ارے جانے کس تیل میں تلے ہوئے ہوں گے۔ خوامخواہ کولیسٹرول بڑھواؤ گے۔ " سموسے سے بھی آنکھیں پھیر لیں۔
کھانے میں تو کچھ نہ ملا، سوچا پھل فروٹ ہی پر ہاتھ صاف کر لیں۔ پیٹ کا دوزخ تو بھرنا تھا نا۔ ہم نے مالٹے اور امرود کاٹے اور ان پر مزے سے نمک اور چاٹ مصالحہ چھڑکا۔ ڈاکٹرنی جی نے بھی مداخلت کی " یہ نمک ہی بلڈ پریشر کی جڑ ہے ، بلڈ پریشر زیادہ ہو جائے تو قابو سے باہر ہو جاتا ہے اور پھر سیدھا اثر دماغ تک ،شریانیں پھٹ جاتیں ہیں بلڈ پریشر ہائی ہو تو۔ ۔۔۔۔۔ " ہم نے فوراً ہاتھ کھینچ لیا آخر دل کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا دماغ بھی تو بہت پیارا تھا جی۔
نمکین تو کچھ نہ ملا شادی والا گھر تھا اور شادی والے گھر میں ایک ہی چیز کی بہتات ہوتی ہے جی جی مٹھائی کی۔ اور ہم بھی ٹھہرے میٹھے کے شوقین۔ مگر ڈاکٹرنی جی کی ٹانگیں ہی بڑی لمبی تھی ہر بات میں آ کر اڑ جاتی تھیں۔ ابھی ہماری نظریں گلاب جامن اور رس گلے کے درمیان فیصلہ کن انداز میں گشت کر رہی تھیں کہ وہ پھر بول پڑیں " اف میرے خدا، جانتے ہیں آپ کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں اگر آپ کو شوگر ہو گئی تو کیا زندگی گزرے گی، گردے فیل ہو جائیں گے ، آنکھیں بھی کبھی کبھی شوگر کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو جایا کرتی ہیں۔ اور کبھی کبھی تو۔ ۔۔۔ " اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ مکمل کرتیں ہم نے مٹھائی سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی۔
اب میز پر واحد پانی بچا تھا جس پر شاید ان کو اعتراض نہ ہوتا مگر ہم نے احتیاطاً پوچھ ہی لیا۔ " جی پانی سے تو نہیں ہو جاتی کوئی بیماری ؟" ڈاکٹرنی جی بولیں " پانی تو جتنا زیادہ پی سکتے ہیں اس سے بھی زیادہ پئیں ، گردوں کی صفائی اور چہرے کی شادابی اسی میں موثر ہے " جلے دل سے آواز آئی، پانی ہی پیئیں اور پیتے ہی چلے جائیں جب جب بھوک ستائے پانی کی بریانی اور آلو چھولے بنا کر کھا جائیں۔
کھانے۔ ۔ ۔ بلکہ یوں کہیں پینے کے کچھ توقف بعد ابّے کے دوست کا ایک رشتہ والا پروفیسر آیا۔ میں نے بھی ہاتھ ملایا۔ پروفیسر نے جیسے ہی ڈاکٹرنی کو دیکھا تو دور ہی سے اپنی بیگم سے کہنے لگا " ارے بیگم ہماری دوا کا وقت ہو گیا ہے ذرا دیجیے گا وہ بھولی یادداشت کو واپس پانے والی گولی " بیگم نے کہا " گھر پر تو آپ نے کہا تھا کہ کھا لی ہے اب کون سی گولی کھانی ہے ؟ "پروفیسر صاب بولے " او ہو بیگم وقت ہو گیا ہے دوائی کھانے کا کوئی سی بھی گولی دے دو۔ "
وقت سے آگے پیچھے دوائی کھائی جائے تو وہ اثر نہیں کرتی۔ " پروفیسر صاب نے بیگم کے پرس کو ٹٹول کر ایک عدد گولی دریافت کی جو جانے کس چیز کی تھی، پھر پانی کا گلاس منگوایا، اور گولی کھانے سے پہلے کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی، مسکراہٹ چہرے پر آئی اور گولی حلق سے نیچے۔
ہم نے تو سر ہی پکڑ لیا، اللہ رے اللہ یہ سہر کے لوگ۔ ہم میں تو ہمت نہ تھی کہ اور کچھ دن یہاں بھوکے پیاسے ہولتے رہتے۔ ابّے کے دوست سے ہاتھ ملایا ابّے کی طرف سے نہ آنے کی معذرت کی اور اپنے جانے کی اجازت طلب کی۔ ابّے کے دوست نے کہا "میاں شادی گزار لو پھر چلے جانا " مگر کوئی ہماری آنتوں سے پوچھتا، وہ تو یہاں لمحہ بھر بھی رُکنے کو رضا مند نہ تھیں۔ اگر بادنخواستہ رُک جاتے تو کسی نہ کسی بیماری میں ضرور مبتلا ہو جاتے۔ ہم نے وجہ بیان کی کہ " نہ صاب آج کل فصل کی کٹائی کے دن ہیں ابّا بیچارہ کتنا کام کرے گا آخر، ہم کو جانا ہے اس کی مدد کے واسطے۔ "
ہم نے تو اگلے دن کا سورج بھی نہیں چڑھنے دیا کہ ریل گاڑی چڑھ گئے۔ سارا شوق دھرے کا دھرا رہ گیا۔ اس ایک دن میں سہر کے سارے خواب سہانے کہیں جا کر سو گئے۔ ہمیں تو رہ رہ کر اپنے گاؤں کی یاد ستائے جا رہی تھی جہاں نہ تو ماحول کی آلودگی تھی، نہ آواز کی، نہ ہزاروں ناموں کی بیماریاں، جہاں سکون ہی سکون تھا کھلا کھاتے ہیں، رج کے کام کرتے ہیں اور ڈٹ کے جیتے ہیں۔ ہم نے تو شُکر کا سانس لیا اور ہم واپس اپنے گاؤں کی آزاد فضاؤں کی طرف چل دئیے۔
٭٭٭