وہ کیا ہے نا جی۔ ہمیں غبارے بچپن سے ہی بہت پسند ہی۔ لال،نیلے ،پیلے گول مٹول سے غبارے۔ ۔۔ اب تو ہمارا بچپن پلس جوانی چل رہی ہے۔ مگر دل نہیں چاہتا کہ جوان ہوں۔۔۔ بس بچوں کی طرح گول مٹول غباروں کے ساتھ زندگی کھیلنے میں گزر جائے۔ ۔۔ پہلے تو ایک ایک روپے کے آتے تھے غبارے۔ ۔ اور ہم امی سے رو رو کہ بھکاریوں کی طرح غبارے کی فرمائش کرتے تھے۔ ۔ اور ہماری اماں حضور کہتی۔۔۔
"ارے بد دماغ غبارے کاہے کو لیتی ہے۔ ۔۔ کچھ دیر تک گول مٹول رہتے ہیں پھر پھس۔۔ ارے میں پوچھتی ہوں فائدہ ایسی چیزوں کا۔۔۔ بندہ کوئی کام کی چیز لے جیسے زیرے والے "بسکوٹ " ایک روپے میں پانچ آ جاتے ہیں۔ بندہ تو پیٹ تو بھر لے۔ (ہماری اماں ہر چیز کو نت نئے نام سے نوازتی جیسے ابھی بسکٹ کو بسکوٹ سے نواز دیا)
"امی کیا ہے بھئ۔۔۔ ایک غبارے کی فرمائش کی تھی مگر آپ اصل موضوع سے ہٹ کر پتہ نہیں کون سے دکھڑے رونے لگتی ہیں۔۔۔
"اب تو اس موئے غبارے کی خاطر ماں سے زبان درازی کرے گی۔۔ آنے دے ابّا کو، مار نا پڑوائی تو میں تیری ماں نہیں۔۔۔"
ہم بیچارے قسمت کو کوستے منہ بسورتے باہر سہلیوں کے ساتھ کھیلنے چل پڑے۔ ۔۔ اب بھلا زیرے کا بسکوٹ اوہو اماں بھی نا منہ پر بسکوٹ چڑھا گئ۔۔۔۔۔ ہاں تو کہا تھے ہم۔۔۔ یعنی ہم مابدولت اب زیرے کا بسکٹ کھائے۔ ۔۔ ایک تو اس میں اتنے بڑے بڑے زیرے ہوتے ہیں کہ حلق میں پھنس جائے۔ ۔ خواہ مخواہ گدی میں چماٹ لگوا کر زیرے کو حلق میں اتارنا پڑتا ہے۔ ۔۔
"ارے چنی آ جاؤں ہم مس مس والا کھیل رہیں ہیں۔۔" یہ آواز ایک بہتی ناک والی سر پر ایک چنی سی چٹیا بنائے (ہم آج تک حیران تھے کہ اتنے بڑے سر پر چنے چنے بالوں میں اتنا ننھا سا پودا کیسے اگا لیتی ہے۔ )اور منہ میں لالی پاپ ڈالے لال منہ کے ساتھ ہماری سہیلی گڑیا کی تھی۔۔۔
"نہیں گڑیا مجھے نہیں کھیلنا۔۔۔۔۔" ہم نے کچھ زیادہ ہی رکھائی کا مظاہرہ کیا۔۔۔اور ایک سرد آہ بھری کہ اپنے نصیب میں شاید غبارہ نہیں۔۔۔ گلی کی بچیاں ہمیں ایسے دیکھ رہی تھیں، کہ جیسے آج سے پہلے کبھی دیکھا ہی نہ ہو۔۔۔ بلکہ کچھ تو خوش تھی کہ چلو آج مس بننے کی بارے ان کی آئے گی۔۔۔
اچانک ہمیں لگا کہ ہمارے سر پر سے کچھ گزرا ہے۔ ۔۔۔" ہمم ہو گا کوئی پرندہ۔ ۔" مگر جب اوپر سر اٹھا کو دیکھا تو ایک خوبصورت سا لال رنگ کا غبارہ جو شاید دو روپے والا تھا اڑے جا رہا تھا۔۔۔۔ ہم پہلے تو اسے حیرانی اور خوشی کے آنسوں کے ساتھ دیکھتے رہے۔ پھر دل سے آواز آئی۔۔۔" ارے چنی اٹھ اس سے پہلے کہ تیرا محبوب کسی اور کہ پاس چلا جائے اٹھ۔۔ ہائیں یہ دل کی آواز ہماری اماں کی آواز سے کافی مماثلت رکھتی ہے۔ ۔۔ "اوہو اسے چھوڑو کہ میری آواز کس سے ملتی ہے بس کمر کسو اور بھاگ چنی۔۔"
اوہ ہاں، یہ دل بڑی عقلمندانہ بات کہہ رہا ہے یہ میری اماں نہیں ہوسکتی۔۔۔ خیر جی ہم نے اپنے فراک کی بیلٹ کسی، چپل کو پاؤں میں مضبوطی سے اڑیسا۔۔ اور دے دھنا دھن بھاگ۔۔۔ جہاں جہاں غبارہ وہاں وہاں ہم۔ ۔۔ سر صرف آسمان کی اوپر تھا۔۔ "اوئی ماں"اچانک کسی کی پتلی سی آواز آئی۔۔۔۔ ارے نہیں یہ تو ہماری برابر والی پان والی خالہ ہیں۔ لگتا ہے ان کی آواز پان کھا کھا کر اتنی پتلی ہو گئ ہے۔ ۔۔
"ارے چنی کی بچی کہاں بھاگے جا رہی ہے۔ دیکھ کر نہیں چل سکتی۔۔ ٹھیر میں تمھاری امی سے شکایت کرتی ہوں "مگر ہمیں تو ابھی کسی کا ڈر نہیں تھا خالہ کو پریشان حال چھوڑ کہ بھاگتے گئے۔ ۔ اور بار بار اچھل کر غبارے کا دھاگا پکڑنے کی کوشش کرتے ، کہ اچانک دکان والے خالو جو نماز پڑھ کر آرہے تھے ان سے ٹکرا گئے۔ ۔۔
"ارے بچی دیکھ کر کدھر کی دوڑ ہے بھئ۔۔۔ "خالو ہمیں روکتے ہوئے پوچھنے لگے۔ ۔۔"ارے خالو بعد میں بتاتی ہوں۔" اور ان کے برابر سے دم دبا کر
بھاگے۔ ۔۔ اچانک وہ غبارہ غائب ہو گیا۔۔۔۔ ہیں کہاں گیا۔۔۔ نہیں یہیں کہیں ہونا چاہیے۔ ۔۔ کہاں گیا۔ ۔ کہاں گیا۔۔۔ دل چاہ رہا تھا پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔ ۔۔ دو روپے والا غبارہ قسمت والوں کو ملتا ہے۔ ۔ ابھی ہم اسی دکھ میں تھے کہ اچانک ہمارے پیر سے کچھ ٹکرایا۔۔۔ ہیں یہ کیا یہ زمین ہمارے منہ کہ قریب بوسہ دینے کیوں آرہی ہے۔ ۔۔ "اوئی اللہ!!!!!!!!"ہم پوری قوت سے چلائے۔ ۔۔ ہم گلی کے بیچ و بیچ کھڑے تھے کہ ایک سائیکل سوار بچے نے ہمیں ٹھوک دیا۔۔۔ "اندھے نظر کا چشمہ لگاؤ۔۔۔۔" ہم نے روتے روتے گلا پھاڑ کے کہا۔۔ ابھی غبارے کا درد کم تھا جو ایک اور درد دے دیا۔۔۔۔ ہمارے گھٹنے سے خون نکلنے لگا۔۔۔ "تم خود اندھی، بیچ سڑک میں کاہے کو کھڑی ہو۔۔"اس نے تڑاخ سے جواب دیا اور یہ جا وہ جا۔۔۔۔
گھر تک ہمیں برابر والے سلیم انکل نے گود میں پہنچایا۔۔۔ گھر پہنچ کر امی نے جو بے لاگ کی سنائی۔ اچانک ابو نمودار ہوئے اور ہمیں اس حالت میں دیکھ کر دوڑے دوڑے آئے۔ ۔۔ "ارے کیا ہوا ہماری لاڈو رانی کو۔۔۔"
ابو نے جیسے دکھتی رگ پر ہاتھ رک دیا۔۔۔ "میں گر گی آآآآ ھا اا اا اامیں بس تھوڑا سا بول کہ پوری قوت سے رو دی۔۔۔ "نا نا بچہ ایسے نہیں روتے آؤ ہم مرہم لگا دیں۔۔ دیکھو آج ہم اپنی چنی کے لیے کیا لائے۔ ۔۔غبارہ" ابو نے بغیر پھلایا ہوا غبارہ ہماری طرف کیا۔۔۔۔ "کیا اا اا۔۔میں خوشی سے مزید رو دی۔۔۔ جلدی سے ابو کے ہاتھ سے جھپٹا اور لگی پھلانے۔ ۔۔۔"
"لاؤ چنی میں پھلا دو۔ ۔ مجھے بڑا مزہ آتا ہے پھلانے میں۔۔"ہمارا بڑا بھائی اسلم بولا "نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے اپنا گندا گندا منہ لگانے کی۔۔" میں نے غصے میں بولا۔۔۔"اللہ کرے تمھارا غبارہ پھٹ جائے۔ ۔۔۔"اسلم نے ایک بددعا سے بھی نواز دیا۔۔۔ "اور اللہ کرے تمھارے سائیکل کا ٹائر بھی پھٹ جائے۔ ۔ "ہم کسی سے کم تھے کیا۔۔۔اور لگے پھلانے غبارہ۔ ۔۔پٹاخ!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!اچانک سے دو چیزیں پھٹنے کی آوازیں آئی۔ اسلم کی سائیکل کا سامنے والا ٹائیر پنکچر ہو گیا تھا اور ساتھ میں ہمارا غبارہ بھی پھس ہو گیا تھا۔ جی ہمارے قسمت کی طرح۔۔۔
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید