02:56    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

طنز و مزاح

823 0 0 00

ہم بہت اچھّے ہیں! - انور احمد علوی

ابو الفرح ہمایوں ایک سیدھے سادے اور بے ضرر قسم کے انسان ہیں ، حالاں کہ نام سے وہ کسی عرب کے شہزادی معلوم ہوتے ہیں۔ قطعِ نظر اِس کے کہ اِس قسم کے نام رکھنے والے آج کل ’’قاعدے‘‘ کی روسے گرفتار کیے جار ہے ہیں ، اُن کی تحریر سے کسی کو کوئی ضرور پہنچنے کا اندیشہ نہیں! وہ اتنے سیدھے ہیں کہ کئی ادبی تقاریب میں شریک ہوئے، مگر کسی کو بھنک تک نہ پڑنے دی کہ وہ بھی ہاتھ میں کلام رکھتے ہیں کلام رکھتے ہیں۔ شاید یہ سمجھتے ہوئے کہ:

شرکتِ انجمنِ ناز ضروری ہے، مگر

ہم پسِ سایۂ دیوار بہت اچھے ہیں

کوثر قریشی

وہ 19 جولائی 1946ءکو بروز جمعہ پٹنہ (بہار) میں پیدا ہوئے۔ ہمایوں نے بقول قُن کے چودہ برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا، جو عام بچے چار پانچ سال کی عمر میں سیکھ لیتے ہیں! بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ اور وہ بھی کراچی تا لاہور براستہ سرگودھا یعنی میٹرک لاہور سے، ایف اے سرگودھا سے اور بی اے کراچی سے۔ لگتا ہے کہ اُن کے والدِ محترم ابو ظفر زین بھی ہمارے والد کی طرح ایمان دار آدمی تھے، جو ملازمت کے دوران اتنی جگہوں پر گھمائے گئے!

دادا نے اُن کا نام ابو الفرح رکھا تھا اور والد نے ہمایوں فرّح۔ بعد میں جب آگے چل کر یہ کیا ہو جائے گا، اِس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بس یہ دعا ہے کہ ’’فرح ہمایوں ‘‘ نہ ہو۔۔۔۔! ہماری چھوٹی بچّی حفصہ کو ہمایوں صاحب کا نام سن کر حیرت ہوئی کہ یہ کیسا نام ہے۔ ہم نے اُسے بتایا کہ یہ اُن کا قلمی نام ہے جو انھوں نے اپنی بچّی کے نام کی مناسبت سے بنایا ہے۔ تو وہ افسردہ سی ہو کر بولی، ’’ابّو۔۔۔۔ پھر آپ نے اپنا نام ’ابو الحفصہ‘ کیوں نہیں رکھا!‘‘

ہمارے ہاں اکثر مزاح نگار، خصوصاً شاعر، یہ سمجھتے ہیں کہ ’لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں کر سکتی‘ لیکن ہمایوں نے اپنی بے کثافت تحریروں سے ہی جلوہ پیدا کر کے دِکھایا اور کسی کا دل نہیں دُکھایا۔ وہ ہلکے پھلکے موضوعات پر قلم اٹھا تہ ہیں اور عام فہم الفاظ سے کام چلاتے ہیں۔ جہاں رکشے سے کام چل سکتا ہو، وہاں خواہ مخواہ ٹریکٹر سڑک پر نہیں لاتے! البتہّ مضامین میں کہیں کہیں فارسی زبان کا ایک آدھ بر محل شعر ضرب المثل استعمال کر جاتے ہیں ، جو اُن کی تحریر کو مزید نکھار بخشتا ہے۔ ہمایوں ایک اوریجنل رائٹر معلوم ہوتے ہیں ، کیوں کہ ملک سے باہر رہنے کے باوجود نہ تو کسی انجمن یا اکادمی نے پاکستان آمد پر اُن کی پذیرائی کی اور نہ اب تک کسی ادبی جریدے نے اُن کا خصوصی نمبر نکالا۔۔۔۔!

میر صاحب زمانہ نازک ہے

دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار

شروع میں اُنھوں نے فلمی رسالوں اور ڈائجسٹوں کے لیے مضامین لکھے۔ پھر فلم سے علم کی طرف توجہّ راغب ہوئی تو ادبی رسالوں کی طرف رجوع کیا۔ اور اِس طرح ایک عرصے میں جو نام کمایا تھا، اُس پر خود ہی پانی پھیر دیا! اِس لیے ہمایوں کا نام زیادہ بدنام نہ ہو سکا۔ بدنام ہونا ہی کوئی بڑا ادیب یا شاعر ہونے کی کسوٹی بھی نہیں۔ بڑے بڑے جغادری، جن کی تصویریں اور بیانات سال ہا سال اخباروں میں شائع ہوتے ہیں ، الیکشن میں عموماً مار کھاجا تے ہیں۔ اِسی طرح جو اہلِ قلم ادبی رسائل میں اشتہار کی قیمت میں اپنی نگارشات کے لیے صفحات مختص کرواتے ہیں ، وہ بازار میں پٹ جاتے ہیں ، لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہمارے ہمایوں صاحب بازار میں مار نہیں کھائیں گے۔ اِن کے گھر کی گارنٹی البتہّ ہم نہیں دے سکتے۔۔۔۔!

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔