ابو الفرح کا نام جس قدر مُفرّحِ قلب ہے۔ ایسے ہی ان کی تحریر بھی مقوّیِ قلب ہے۔ اِن کا پورا نام ہے ’’ ابو الفرح ہمایون‘‘ اور فرح ان کے نام میں کیوں شامل ہے۔ اِس کے لیے ہمیں جدید لُغاتِ اردو دیکھنا پڑی جس میں فارسی لفظ ’’فرح‘‘ واضح طور پر مونّث لکھا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ اِس کا مطلب ہے ’’خوشی، شادمانی‘‘۔
اِن کا نام ابو الفرح ہونے کے بارے میں جو تحقیق کی گئی ہے اُس کے مطابق بہت سی روایات میں سے ایک پر اکثر غیر مُستند راوی متفق ہیں کہ جب یہ پیدا ہوئے تو رونے کی بجائے کِھلِکھلا کر ہنسے تھے اور ہنستے ہی رہے تھے۔ جب یہ حیرت انگیز واقعہ اِن کے والد محترمہ تک پہنچا تو اُنھیں ایسی فرحت ہوئی کہ جوشِ مسّرت میں اُنھوں نے ان کا نام فرح رکھ دیا۔
لیکن لیڈی ڈاکٹر کا ماتھا ٹھنکا۔ اُس ماہر لسانیات نے بتایا کہ فرح تو بہت نسوانی نام ہے اور نومولود خاصہ لڑکا لڑکا سا ہے۔ اس لیے والدِ محترم نے گھبرا کر فرح کے ساتھ احتیاطاً ’’ابو‘‘ کا اضافہ کر دیا اور یوں ہمارے زیر غور مُصنّف ابو الفرح عُرف ہمایوں کے نام سے مشہور و مقبول ہوئے۔
ابو الفرح یعنی خوشی اور شادمانی کے ابا ہونے کا بھرم اُنھوں نے اِس طرح رکھا کہ مزاح کو ہمیشہ کے لیے حِرزِ جاں بنا لیا۔
ابتداء میں ابو الفرح نے مزاحیہ شاعری بھی کی لیکن شاعروں کے منّت سماجت کرنے اور نقاّدوں کے ہاتھوں اقدامِ قتل سے محفوظ رہنے کے لیے مزاحیہ شاعری سے رُخ موڑ کر نثر کی طرح آئے اور مزاحیہ نثر میں ایسے جھنڈے گاڑے کہ آج ان کی کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
نثر کی طرف ابو الفرح کا فِطری میلان ہے اور یہی اِن کا اصلی میدان ہے، اگرچہ اِن دِنوں بہت سے مزاح نگار مزاح کے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں لیکن ابو الفرح ہمایوں کا اپنا الگ ہی انداز ہے۔
کہیں کہیں ان کے کچھ مضامین خبروں پر تبصروں کی وجہ سے اخباری کالم بنتے بنتے بال بال بچے ہیں لیکن اِن کے بیشتر مضامیں کے بنیادی خیالات بالکل اچھُوتے ہیں مثلاً اِن کا ایک مضمون ’’کھجلی‘‘ کے بارے میں بھی ہے اور اِس معمولی اور روز مرّہ سی بات کو مزاح میں لا کر اُنھوں نے قہقہوں کا بھرپور سامان کر دیا ہے۔
کئی دوسرے مضامین میں بھی موضوعات بالکل سامنے کے ہیں لیکن اُنھوں نے نوکِ قلم سے لفظوں کو یوں گدگدایا ہے کہ قاری کے لبوں پر بھی تبسّم بکھیر دیتے ہیں۔ کہیں کہیں یہ طنز سے بھی کام لیتے ہیں مگر اِن کا طنز دل آزاری کا سبب نہیں بنتا۔
مجھے ابو الفرح ہمایوں کے مزاح میں جو بات بہت اچھی لگی وہ یہ ہے کہ اِن کے ہاں ’’آورد‘‘ نہیں بلکہ آمد ہی آمد ہے یہ مزاح پیدا کرنے کی شعوری کوشش نہیں کرتے بلکہ مزاح خود بخود تولّد ہو جاتا ہے اور یہ ہی ادبی تحریر کی خُوبی بھی ہے کہ اُسے ٹیسٹ ٹیوب بے بی نہیں ہونا چاہیے۔
٭٭٭