حضرات ! گزشتہ دنوں جب ہمارا ایک مزاحیہ مضمون اخبارات کے قیمتی کالموں کو ضائع کیا تو ہمیں کچھ ٹیلی فون کال موصول ہوئے اور بعض غیر سنجیدہ افراد ہماری خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھنے لگے کہ وہ مضمون آپ نے کس سے لکھایا تھا۔ ؟ ہمیں اس سوال پر خوشی ہوئی۔ انکا یہ سوال اس لئے غلط نہیں تھا کہ انہوں نے ہمارے قلم سے چند سیاسی تبصرے پڑھے تھے۔ ہم نے کہا میاں ہم نے مزاح نگاری کا ایک قلیل المیعاد کورس طویل عرصے سے پڑھ کر مکمل کیا ہے۔ اور اب اس قابل ہوئے ہیں کہ لوگوں کے لبوں پر مسکراہٹ لانی کی عظیم خدمت انجام دے سکیں۔ ایک صاحب نے پوچھا یہ تو بڑے " فخر و فاقے " کی بات ہے۔ (غالباً انہوں نے فخر کی تفضیل کل Superlative degreeکو فاقہ سمجھا) کہ ہمارے شہر میں ایک کوالی فائڈ مزاح نگار جنم لیا ہے۔ دوسرے صاحب نے پوچھا : اچھا آپ نے یہ کورس کہاں سے کیا۔ ہم نے فوری جواب دیا " ابن انشاء میموریل خوش دلان انسٹی ٹیوٹ " سے۔ حاضر مجموعے میں سے ایک اردو سے واقف زمانے کا مارا بلکہ ریسیشن کامارا ایک کمپیوٹر انجنیر بھی تھا۔ اس نے تعجب سے سوال کیا کہ یہ " مجانگاری " کس علم کی برانچ ہے سر۔ میڈیکل، انجنئیرنگ، سوشل سائنس یا کوئی اور ۔ ہم نے ہونہار نوجوان کو جنہیں انکی کمپنی نالائقی کی وجہ سے " پنک سلپ " دے چکی تھی کہا ’’دیکھو یہ جھگڑا برسوں سے چلا آ رہا ہے کہ مزاح نگاری کو کس شعبہ میں شامل کیا جائے۔ اور جوں جوں زمانہ گزر رہا ہے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتے جا رہا ہے۔ حالانکہ نا تو اس میں امریکہ ملوث ہے اور نا ہی اسرائیل اور نا ہی بی جے پی۔ علم نفسیات والے کہتے ہیں کہ یہ ہمارے علم کی شاخ ہے۔‘‘
مزاح لکھنے والے کو ماہر نفسیات ہونا ضروری ہے۔ مزاح ناپ تول کر بر وقت، بر موقع، بر جستہ، اور سارے معاملات سے بری الذمہ ہو کر لکھنا اور کہنا پڑتا ہے۔ لسانیات والے کہتے ہیں کہ یہ تو ہماری نالائقی اولاد ہے۔ جب دیکھو ٹھی ٹھی، ٹھاٹھا کرتی رہتی ہے۔ ہم تو اسے اپنا ہی مانیں گے چاہے جیسی بھی ہو۔ فائن آرٹ اور تھیٹر والے کہتے ہیں کہ یہ ہماری ملکیت ہے۔ وہ اسے معاش کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس پر سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ اب تو ہر ٹی۔ وی چینل والا اسے اپنا یا ہوا ہے۔ پتہ نہیں شیکھر سومن اور صدو پاجی کب اپنی کوئی کمپنی کھول لیں۔ یقین مانئے۔ شیر مارکیٹ میں اس کے اتنے شیئر فروخت ہونگے کہ مند مارکیٹ میں تیزی آ جائیگی۔ خیر اسطرح اسے شیئر مارکیٹ میں کھینچ کر معاشیات اور اقتصادیات کا بھی حصہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
ادارہ ادب اسلامی والے کہتے ہیں " مسکراہٹ صدقہ ہے " اور کسی کو صحت مند تفریح فراہم کرنا اسلامیات میں شامل ہے۔ سوامی رام دیو گروجی کہتے ہیں کہ ہنسنا یوگا کا ایک اہم آسن ہے۔ ویسے انکو اسٹیج پر بیٹھا دیکھ کر سامنے والا صرف ہنسنے والا آسن ہی کرتا ہے۔
اس پر ایک صاحب اپنا ہاتھ اٹھا کر ایک سوال کی اجازت چاہی۔ ہم نے دریافت کیا کہ آپ کا نام کیا ہے۔ جواب دیا کہ سبز خاں۔ ذرا سی حیرت ہوئی۔ پھر ہم نے کہا کہ کہئے جناب۔ انہوں نے کہا کہ مزاح نگاری ماحولیات سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ ہم نے پوچھا وہ کیسے انہوں نے کہا مزاح نگار کی ماحول پر گہری نظر ہوتی ہے۔ ہم نے پوچھا سبز خاں صاحب آپ کا نام تو بڑا ماحولیات سے متعلق ہے، آپ کیا کرتے ہیں۔ خان صاحب نے کہا ماحولیات سے متعلق غیر سرکاری ادارے میں کام کرتا ہوں۔ کیا کام کرتے ہیں جناب۔ خان صاحب بغیر شرمائے کہنے لگے۔ غیر سماجی اداروں اور سرکاری عہدیداروں کے درمیان رابطہ کا کام کرتا ہوں۔ ہم نے کہا " گاندھی جی " کے ہوتے ہوئے بھی آپ کی ضرورت ہے۔
تو اس طرح میرے نوجوان یہ مسئلہ ابھی حل نہیں ہو سکا۔ پتہ نہیں یہ مسئلہ کب، کیسے اور کون حل کر سکتا ہے۔ چونکہ محفل با ضابطہ نہیں تھی اس لئے ایک صاحب نے سوال کیا کہ یہ مزاح نگاروں کو خوش دلان کیوں کہا جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ ہمارے کورس کا در اصل یہ پہلا سبق ہے۔ اور خوش دلان در اصل دنیا کا ایک بہت بڑا فلسفہ ہے جسے ارسطو اور سقراط نے بھی حل نہیں کر سکا۔ لیکن آپ لوگوں کو خوش ہونا چاہئے کہ آپ کے شہر کا ایک لائق مزاح نگار نے اس فلسفہ کی گتھی سلجھائی اور میں نے اس پر مقالہ پیش کر کے سند حاصل کی ہے اور اب اس قابل ہوں کہ آپ کے سامنے نہرو کرتا پہن کر اس کی کالر سیدھی کر سکتا ہوں۔ لیجئے اس فلسفہ کو مختصراً آپ بھی سن لیجئے۔
خوش دلان۔ خوش یعنی خوشی، دلان یعنی دل کی جمع، جیسا کہ آپ نے سنا ہو گا کہ دو دل ملنے کو۔۔۔۔۔ کہتے ہیں۔ تو دلان کا مطلب پیار۔ خوش دلان یعنی خوشیوں والا پیار۔ یہ تو اسکے لفظی معنی ہو گئے۔ لیکن دیکھئے کئی مرکبات اپنے لفظی معنی ایک رکھتے ہیں اور ان کے حقیقی معنی کچھ اور ۔ ایسا اکثر محاوروں میں ہوتا ہے۔ جیسے بال کی کھال نکالنا۔ تو اسی طرح خوش دلان کا حقیقی مفہوم کچھ اور ہے۔ اور اسے یوں ہی سمجھایا نہیں جا سکتا۔ اس کو سمجھنے کے لئے واجپائی صاحب کی سیاسی زندگی پر گہری نظر ضروری ہے۔ اس پر مجموعہ میں سے کسی نے ہنس دیا اور کہا کہ خوش دلان کو واجپائی صاحب کی زندگی سے کیا مطلب ؟ ہم نے کہا کہ یہ ہی تو گہرائی ہے خوش دلان کی۔ پھر ہم نے کہا کہ وقت نہیں ہے بس مختصر اور آسان الفاظ میں سمجھاتا ہوں۔ واجپائی صاحب کے دو چہرے تھے۔ ایک اندر کا نظریاتی چہرا اور دوسرا دیکھا وے کا۔ دیکھاوے کا چہرا بابری مسجد کی شہادت اور گجرات فسادات کے وقت سامنے آیا۔ اور اندر کا چہرا انہیں بی جے پی کے اعلی عہدہ پر برقرار رکھا۔
زندگی بھر شادی نہیں کی۔ اندر کچھ اور تھا لیکن چہرے پر مسکراہٹ ہوتی۔ تو سمجھ لیجئے، کہ اگر زندگی کی کیفیت بدتر بھی ہے تو کوئی بات نہیں، چہرے پر مسکراہٹ ہونا چاہئے۔ اور اسی دو رخے پن کا نام " خوش دل " ہے اور جب اس طرح کے ہمت والے لوگ ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں تو اُسے " خوش دلان " کہا جاتا ہے۔ یعنی دل میں آہ ! لیکن لبوں پر خوشی۔ اسی طرح یہ دوسروں کے چہروں پر بھی خوشی دیکھنا چاہتے ہیں
چاہے دل کی کیفیت کچھ بھی ہو، آپ نے ان کی تحریروں کا جائزہ لیا ہو گا تو اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ کسی سے خوش نہیں رہتے سب کا تمسخر اڑائیں گے۔ بیوی ہو کے دوست، استاد ہو کہ دفتر کا آفسر۔ پڑوسن ہو کہ وڑوسن۔ ہم نے کہا کہ آج کے لئے اتنا کافی ہے۔ وقت بہت ہو چکا ہے۔ پھر اگلے ہفتے ملتے ہیں۔ اس پر ایک صاحب جو روایتی مسلم وضع خطا (یعنی غلطی سے جو وضع اختیار کی جاتی ہے ) میں تھے۔ اور ظاہری طور پر اسلامی معلومات کا مخزن نہیں تو کم سے کم " بولتا قاعدہ " تو نظر آرہے تھے۔ کہا کہ جناب ایک اسلحہ والی بات (ہم چونک گئے یہ کیا دہشت گردی والی بات ہے ) ہم نے کہا کہ بھائی مزاح نگاری کا تعلق اسلحہ سے نہیں ہوتا۔ بلکہ ناکارہ کارتوس سے ہوتا ہے۔ پھر وہ کہنے لگے " نہیں حضرت اصلاح " پھر ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ اچھا بھائی سناؤ اچھا ہوا کہ یہاں کوئی انٹلی جینس کا انفارمر موجود نہیں ہے۔ بتاؤ کیا اصلاح کروگے ہماری۔ پھر اس نے کہا کہ آپ نے اپنے انسٹی ٹیوٹ کے نام میں ایک غلطی کی ہے۔ ابن انشاء نہیں ہو سکتا۔ آپ کی اسلامی معلومات کم ہیں وہ " انشاء اللہ " ہے۔ اور وہ انسٹی ٹیوٹ والے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انکے ہاں سے فارغ ہونے والے انشاء اللہ مزاح نگار بنیں گے۔
٭٭٭