1936 میں پنجاب یونیورسٹی ہال میں ایک جلسہ ہو رہا تھا، جناح کو معزول کیا جائے ، ہال میں سے پاٹ دار آواز ابھری اور سب آوازوں پر چھا گئی، بد بختو ہم یہ تسلیم نہیں کرتے ، یہ آواز آج بھی ہماری سیاست میں اتنی ہی بلند ہے ، کم از کم بدبختو تو آج بھی اتنے ہی زور سے کہتی ہے ، اسے آج ہم مولانا دستاری نیازی کے نام سے پہچانتے ہیں، انکو دور سے دیکھو تو جو چیز سب سے پہلے نظر آتی ہے وہ ان کی دستار ہی ہے ، جس کا طرح جیسے ان کے سر پر پچاس برسوں سے کھڑا ہے ، ایسے تو ہماری سیاست میں کوئی لیڈ پچاس ماہ کھڑا نہیں رہ سکا، مولانا جب نوجوان تھے تو تبھی ان کا بڑھاپا جوانی پہ تھا مگر آج بھی ایسا دبدبہ کہ کوئی کہے کہ میں نے انہیں دبایا نہیں تو یقین کر لیں، اس نے ان کی ٹانگوں کو دبایا ہو گا، سیاست میں کبھی ڈنڈی نہیں ماری، ہمیشہ ڈنڈا مارا، وہ داڑھی آنکھیں ڈنڈا اور سینہ نکال کر کر چلتے ہیں اور کسی کی نہیں نہیں چلنے دیتے ، ان کے سامنے اگر کسی کی چل رہی ہوتی ہے تو وہ سانس ہی ہوتی ہے غصے میں ایسے نظر آتے ہیں جیسے تصویر میں دکھتے ہیں، بغیر داڑھی اور غصے کے ہم نے انہیں نہیں دیکھا۔
میاں والی کے میاں ہیں، ایسے گھر میں پیدا ہوئے جہاں بندہ ایک رات بسر کر لے تو یہی سمجھتا ہے رات مسجد میں ٹھرا تھا، وہ تو تب بھی مولانا تھے ، جب ابھی ان کی داڑھی نہ تھی، مولیوں کی طرح سوچتے مگر کہتے نیازیوں کی طرح ہیں، یعنی زبان سے سوچتے اور ہاتھ سے کہتے ہیں، بچپن میں اسکول میں مانیٹر تھے اور ساری کلاس کے لڑکوں کو نماز پڑھانے لے کر جاتے اور خود ڈنڈا پکڑ کر دیکھتے رہتے کہ کوئی آدھی نماز میں پڑھ کر کھسک تو نہیں رہا ہے ۔
کلاس نہ رہی مگر وہ ہمیشہ مانیٹر رہے ، آج بھی گفتگو میں ان کے جو سب سے وزنی دلیل ہوتی ہے ، وہ ان کے دائیں ہاتھ نے تھامے ہوتی ہے ، دوسرے سے جس لہجے میں بات کرتے ہیں اس سے پتہ چلے نہ چلے کہ وہ دوسرے کو کیا سمجھتے ہیں، یہ ضرور پتا چل جاتا ہے کہ وہ دوسرے کو بہرہ سمجھتے ہیں، ایک بندے سے بھی بات کر رہے ہوں تو لگتا ہے عالم اسلام سے مخاطب ہیں۔
وہ واحد سیاست دان ہیں جو ابھی تک واحد ہیں، ان سے پوچھو حضرت ذرا عمر بتائیں، تو حضرت عمر کا بتانے لگیں گے ویسے بھی ان کی عمر ہی کیا ہے ، ابھی تو ان کی شادی بھی نہیں ہوئی، آج تک جتنی دعائیں مولانا کی شادی کیلئے مانگی گی ہیں، شاید ہی کسی اور کیلئے مانگی گئیں ہوں، مسجدوں، عید گاہوں اور گھروں میں ہر زبان پر یہی خواہش ہوتی ہے ، یہ ہی نہیں ہر پاکستانی حکومت یہی وعدہ کر کے برسر اقتدار آتی ہے کیونکہ مولانا نے اعلان کیا ہے اس وقت تک شادی نہیں کروں گا جب تک ملک میں مکمل اسلامی نفاذ قائم نہ ہو جائے ، اس قبل اداکارہ شمیم آرا نے اعلان کیا تھا میں اس سے شادی کروں گی جو کشمیر فتح کرے گا، جس سے ہمیں ابھی تک کشمیر فتح نہ کرنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے ، ہو سکتا ہے پاکستان کی ہر بر سر اقتدار حکومت دراصل مولانا کی شادی میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے اسلام نافذ نہ کرتی ہو، مولانا عورت کی حکمرانی کے حق میں نہیں اگر ہوتے تو شادی شدہ ہوتے فرماتے ہیں میری بیوی نہیں، اس لئیے سارا وقت سیاست کو دیتا ہوں،مولانا نے سیاست کو بیوی کا وقت ہی نہیں مقام بھی دیا ہے ۔
فرانس کے مثالی سیاست دان رابر ٹر شوماں عمر بھر کنوارے رہے ، ایک صحافی نے وجہ پوچھی تو بولے ، میں ساری عمر مثالی بیوی کی تلاش میں رہا، صحافی نے پوچھا وہ ملی کہا ہاں ملی مگر وہ خود مثالی خاوند کی تلاش میں تھی، کنوارہ بندہ وہ ہوتا ہے جسے پتہ ہوتا ہے کہ اس کے مہینے کی تنخواہ کہاں جاتی ہے ، مولانا کا یہ مسئلہ بھی نہیں، انہوں نے تن کو جن آلائشوں سے پاک رکھا تھا، ان میں تن خواہ بھی ہے ، اگر چہ امارات ایسی چیز جسے ہم خود بڑی مشکل سے برداشت کرتے ہیں، جی ہاں، دوسرے کی امارات، ویسے بھی غریب ایسی چیز ہے جس پر تمام سیاست دان فخر کرتے ہیں اور اس وقت تک فخر کرتے ہیں جب تک وہ خود غریب نہیں ہوتے ، مگر مولانا دولت کو ہاتھ کا میل سمجھتے تھے ۔
٭٭٭