کردار:
کمل
سریتا
اجے کمار
شرد
ماں
پرکاش
چپراسی
منظر:(اسٹیج تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ جس حصہ کا منظر ہو وہاں روشنی ہو اور باقی دو حصے اندھیرے میں ہوں۔
پہلا حصہ:آفس کا ایک کونا۔ دو میزیں۔۔۔ ایک پر ٹائپ رائٹر اور کچھ کاغذات، دوسری پر فائلیں۔ دو کرسیاں۔
پہلے، تیسرے اور پانچویں منظر میں یہ حصہ روشن رہے گا۔
دوسرا حصہ:آفس کے پاس اجے کمار کا کمرہ۔ ایک بڑی سی میز۔ اس پر ٹیلی فون۔ کاغذات، قلم دان وغیرہ۔ آرام دہ کرسی۔ سامنے اور دو کرسیاں۔
دوسرے منظر میں یہ حصہ روشن رہے گا۔
تیسرا حصہ:کمل کے گھر کا کمرہ۔ ایک طرف لکڑی کی دو کرسیاں، ایک کا ہتھا ٹوٹا ہوا۔ میز پر کچھ کتابیں۔ ڈبے اور ایسا ہی سامان بے ترتیب پڑا ہے۔ ایک کونے میں بان کی چارپائی پر ملگجا سا بستر ہے۔
چوتھے منظر میں یہ حصہ روشن رہے گا۔)
(کمل ٹائپ کر رہی ہے۔ دوسری میز پر سریتا ایک فائل پڑھ رہی ہے۔ ایک کاغذ پر کچھ لکھتی جاتی ہے۔ شرد آتا ہے۔)
شرد:کمل جی۔ نمستے۔ کیسی ہیں آپ؟
کمل:(ٹائپ رائٹر پرسے نظریں ہٹائے بغیر) نمستے۔ اچھی ہوں۔
شرد:کمل جی۔ آپ مجھے ذرا سا ٹائم دے سکیں گی؟
کمل:میں۔۔۔؟ آپ کو ٹائم دوں۔۔۔؟کس لیے۔۔۔؟
شرد:ایک کام ہے آپ سے۔
کمل:کہیے۔
شرد:ذرا امپورٹنٹ بات ہے۔ آپ ٹائپنگ بند کریں اور دھیان سے سنیں تو کہوں۔
کمل:ٹائپنگ کرتے ہوئے بھی میں دھیان سے سن سکتی ہوں۔
شرد:اچھا خیر۔۔۔ یہی سہی۔۔۔ دیکھئے بات یہ ہے کہ اگلے مہینے شرما جی ریٹائر ہو رہے ہیں۔
کمل:مجھے بھی معلوم ہے۔
شرد:جی ہاں۔ آپ کوتو معلوم ہونا ہی ہے۔ آخر آپ باس کی پی اے ہیں۔
کمل:(ذرا چڑ کر زور سے بولتی ہے ) باس کی پی اے ہونے سے اس کا کیا تعلق۔ پورے آفس کو معلوم ہے یہ بات!
شرد:ارے ارے آپ تو ناراض ہونے لگیں۔ میں نے تو یونہی کہہ دیا تھا۔ اصل بات تو کچھ اور ہے۔
(کمل جواب نہیں دیتی۔ ٹائپ کر رہی ہے۔)
شرد:تو بات یہ ہے کمل جی۔(کمل ٹائپنگ میں مصروف ہے ) آپ سنتی تو ہیں نہیں۔ ٹائپنگ کیے جا رہی ہیں۔
کمل:(ٹائپ رائٹر پرسے انگلیاں ہٹا کر، بہت بے زاری سے )اچھا لیجئے بند کر دی ٹائپنگ۔ اب جلدی سے جو کچھ کہنا ہے کہہ دیجئے۔ مجھے بہت ضروری لیٹر ٹائپ کر کے ابھی باس کولے جا کر دینا ہے۔
شرد:جی بس وہی تو کہہ رہا ہوں کہ جب آپ باس کے پاس جائیں تو۔۔۔ (رک جاتا ہے۔ ادھر ادھر دیکھ کر راز داری کے انداز میں کرسی سے ذرا آگے کھسک کر کمل کی طرف جھک جاتا ہے۔ کمل ناگواری سے پیچھے سرک جاتی ہے )۔۔۔ جب آپ باس کے پاس جائیں تو ذرا سی میری سفارش کر دیجئے گا۔
کمل:کیا کہہ رہے ہیں آپ؟۔۔۔ کس بات کی سفارش کروں آپ کی؟
شرد:یہی کہ شرما جی کے بعد سب سے سینئر میں ہوں۔ اس لیے ان کی پوسٹ مجھے ملنی چاہئے۔
کمل:کیا باس کو یہ بات نہیں معلوم؟
شرد:معلوم توہے۔ لیکن۔۔۔
(رک کر ادھر ادھر دیکھتا ہے۔ کمل پھر ٹائپنگ شروع کر دیتی ہے۔)
شرد:پلیز آپ ٹائپنگ بند کر دیجئے۔ میرے کیریئر کا سوال ہے۔
کمل:(ٹائپنگ روک کر) آپ کی سینیارٹی سے میرا کوئی تعلق نہیں اور نہ آپ کے کیریئر کے سوال کا جواب میرے پاس ہے۔
شرد:دھیرے بولیے۔ دھیرے۔ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔
کمل:(بے حد بے زاری سے ) بھگوان کے لیے۔ جو کچھ کہنا ہے کہہ ڈالئے جلدی سے اور مجھے کام کرنے دیجئے۔
شرد:تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ویسے تو میں سب سے سینئر ہوں مگر کچھ سال پہلے کیش کے معاملے میں ذرا سی غلطی ہو گئی تھی۔۔۔ باس بے حد ناراض تھے۔ مجھے نوکری سے نکالنے کو تیار ہو گئے تھے لیکن آپ سے پہلے جو باس کی پی اے تھیں انھوں نے میری سفارش کی تو میری نوکری بچ گئی۔
کمل:اور اب آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی سفارش کروں تاکہ آپ کا پرموشن ہو جائے۔
شرد:(ہاتھ جوڑ کر) جی یہی۔۔۔ بس یہی!
کمل:لیکن آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ باس میری بات مان لیں گے۔
شرد:(بے حیائی سے ہنستا ہے ) ہینھ۔۔۔ ہینھ۔۔۔ ہینھ۔۔۔ مانیں گے جی۔ سو فی صدی مانیں گے۔
کمل:(غصے میں زور سے بولتی ہے ) جی نہیں۔۔۔ باس میری بات نہیں مانیں گے اور نہ یہ بات میں ان سے کہوں گی۔
شرد:(کھڑا ہو جاتا ہے ) دھیرے بولیے دھیرے۔ اچھا خیر میں جا رہا ہوں۔
(چپراسی آتا ہے۔)
چپراسی:بائی تم کو ساب بلاتا ہے۔
شرد:تو میں چلوں؟
کمل: آپ کی مرضی۔۔۔ چاہیں تو دن بھر یہیں کھڑے رہئے مجھے کیا!
(شرد جاتا ہے۔ جاتے جاتے مڑ کر چپراسی کی طرف دیکھ کر آنکھ مارتا ہے پھر مسکراتا ہوا چلا جاتا ہے۔ سریتا فائل سے سر اٹھا کر شرد کی یہ حرکت دیکھ رہی ہے۔۔۔ پھر فائل پڑھنا شروع کر دیتی ہے۔)
کمل:(سریتا کی طرف دیکھ کر) کس قدر بے ہودہ آدمی ہے۔
(سریتا کوئی جواب نہیں دیتی۔)
چپراسی:بائی۔۔۔ ساب بلاتا ہے۔
کمل:سن لیا۔۔۔ سن لیا۔ بس یہ لیٹر ٹائپ کر لوں پھر۔۔۔ !
چپراسی:نئی۔۔۔ ساب باہر جاتا ہے۔ تم کو ابھیچ بلاتا ہے۔
کمل:اچھا بابا۔۔۔ تم چلو میں آ رہی ہوں۔
(کمل کرسی پیچھے سرکا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ میز پرسے پرس اٹھا کر اس میں سے کنگھا نکال کر بالوں میں پھیرتی ہے۔ آئینہ میں دیکھتی ہے۔ سریتا کھنکارتی ہے۔ کمل آئینہ پرس میں رکھتے ہوئے سریتا کی طرف دیکھ کر ذرا دیر کو چپ چاپ کھڑی رہتی ہے پھر پرس بند کر کے ہاتھ میں لے کرباس کے کمرے کی طرف بڑھتی ہے۔ سریتا پھر کھنکارتی ہے۔ کمل مڑ کر اس کی طرف دیکھتی ہے۔ لاپرواہی سے سر جھٹک کر چلی جاتی ہے۔)
(اسٹیج کے اس حصے میں اندھیرا ہو جاتا ہے۔)
کمل:(دروازے پر کھڑے کھڑے پوچھتی ہے ) May I Come in Sir?
اجے :Yes, Come in۔۔۔ میں ایک منٹ میں یہ فائل دیکھ کر تم سے بات کرتا ہوں۔
کمل:جی اچھا!
(اجے گھنٹی بجاتا ہے۔ چپراسی آتا ہے۔)
چپراسی:جی ساب۔
اجے :بڑے بابو کو یہ فائل دے دو اور دیکھو اب کسی کو اندر مت آنے دینا۔ ہمیں کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔
چپراسی:جی ساب!
اجے :ہاں تو کمل بات یہ ہے کہ۔۔۔ ارے تم اب تک کھڑی ہو۔بیٹھو بھئی بیٹھو۔ ہاں تو وہ لیٹر جو میں نے ٹائپ کرنے کو دیا تھا پورا ہو گیا؟
کمل:سوری سر!بس ذرا سا باقی ہے۔ ابھی کیے دیتی ہوں۔
اجے :Oh! Don't worry اور بھئی یہاں میرے اور تمہارے سوا ہے کون؟یہ سرور کا تکلف رہنے دو۔ میرا نام اجے ہے۔ مجھے اجے کہہ کر مخاطب کرو۔
کمل: آپ کیسی بات کر رہے ہیں !
اجے :ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہوں۔۔۔ اور یہ لیٹر ویٹر تو بہانہ تھا۔ میں نے دراصل یہ کہنے کو بلایا تھا کہ آج شام کو سنیما چلو گی؟
کمل:سر!۔۔۔ اجے !۔۔۔ اصل میں بات یہ ہے کہ آج ذرا۔۔۔ وہ مجھے کچھ کام ہے۔۔۔
اجے :اس طرح ٹالو مت کمل!آج کتنے دن سے میں تمہیں کہیں ساتھ لے جانے کو کہہ رہا ہوں۔ تم انکار کیے جا رہی ہو۔ میں خوشامد کر رہا ہوں۔۔۔ تم راضی ہی نہیں ہوتیں، مجھ سے اتنی نفرت کیوں ہے؟
کمل:نہیں یہ بات نہیں۔ اصل میں۔۔۔
اجے :ہاں ہاں کہو۔۔۔ رک کیوں گئیں؟
کمل:اس طرح پکچر وغیرہ جانا کچھ اچھا نہیں لگتا۔
اجے :اس میں کیا برائی ہے۔ دن بھرکے کام کے بعد ذرا سی دیر کو تھکے ہوئے دماغ کو آرام پہنچانے کے لیے ذرا سا منورنجن، ذرا سی تفریح کسی کو کیا نقصان پہنچا سکتی ہے؟
کمل:لیکن آپ اس کمپنی کے مالک ہیں۔ میں ایک معمولی سکریٹری۔۔۔ آپ کی نوکر۔۔۔
اجے :آفس کے وقت تک تو ہمارا مالک اور نوکر کا رشتہ ٹھیک ہے۔ مگر آفس بند ہونے کے بعد کیا تم مجھ سے ایک دوست کی طرح نہیں مل سکتیں؟
کمل:دوست؟
اجے :ہاں کمل۔۔۔ دوست! تم میری سکریٹری کے طور پر چھ مہینے سے کام کر رہی ہو۔ میں نے تمہیں اور تم نے مجھے اچھی طرح دیکھا ہے۔۔۔ پرکھا ہے۔۔۔ اب اگر میں تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاؤں تو کیا تم یہ ہاتھ جھٹک دو گی۔۔۔ بولو۔۔۔ کمل۔۔۔ جواب دو!
کمل:میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کیا کہوں !
اجے :کچھ مت کہو وہو۔۔۔ بس آج شام میرے ساتھ پکچر چلو۔اچھا پکچر کو مارو گولی۔ کہیں گھومنے چلیں گے۔۔۔ کسی جگہ بیٹھ کر باتیں کریں گے۔
کمل:باتیں۔۔۔؟
اجے :ہاں !۔۔۔ باتیں۔ بہت سی باتیں۔ جو میں تم سے کرنی چاہتا ہوں۔۔۔ سننی چاہتا ہوں۔
کمل:لیکن سر!
اجے :(اس کی بات کاٹ کر) پھروہی سر!کہو اجے۔۔۔ اجے !
کمل:اچھا اجے ہی سہی۔۔۔ لیکن آفس کے بعد اگر کہیں گئے تو گھر لوٹنے میں دیر ہو جائے گی۔
اجے :تو گھر فون کر دوکہ آج آفس میں او ور ٹائم کے لیے رک گئی ہوں۔
کمل:میرے گھر فون نہیں ہے۔
اجے :تو پھر آج ذرا جلدی گھر چلی جاؤ اور کہہ دوکہ آج آفس واپس جا کر بہت کام کرنا ہے۔ رات کو دیر ہو جائے گی۔۔۔ واپسی کی فکر مت کرو۔ میں تمہیں گھر چھوڑ دوں گا۔
کمل:اور آپ کے گھر والے؟ آپ کی مسز راہ دیکھیں گی۔
اجے :(اداس سی ہنسی کے ساتھ) میری مسز؟انھیں میری راہ دیکھنے کی فرصت کہاں ہے۔۔۔ ان کے لیے روپیہ، پیسہ، زیور، کپڑے، بال بچے، نوکر چا کر، ملنے جلنے والے اور بہت سی اسی طرح کی دلچسپی کی چیزیں ہیں۔۔۔ رہا میں !تو میں بس روپیہ بنانے کی مشین ہوں۔۔۔ !
کمل:اوہ۔۔۔ !
اجے :ہاں کمل۔۔۔ میری پتنی نے آج تک مجھے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
کمل:اور آپ نے۔۔۔؟
اجے :میری دنیا اور ہے۔ اس کی دنیا اور ۔۔۔ وہ کم پڑھی لکھی، پرانے خیالات کی عورت ہے۔ ہماری شادی ہوئے بیس برس ہو چکے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اب ہمارے بیچ کچھ نہیں رہ گیا ہے۔
کمل:لیکن سر!۔۔۔ اجے۔ اس طرح میرے ساتھ آپ باہر وقت گزاریں گے تو دوری اور بڑھے گی۔۔۔ !
اجے :تم کتنی سمجھ دار ہو کمل!۔۔۔ کتنی اچھی!کتنی سوئٹ!تمہاری انھیں باتوں کی وجہ سے تو میں تمہاری طرف کھینچا چلا آ رہا ہوں۔
کمل:لیکن یہ میری بات کا جواب تو نہیں ہوا۔
اجے :تمہاری بات کا جواب یہ ہے کمل، کہ میری شادی شدہ زندگی کی تم کوئی فکر مت کرو۔ اب میرا اپنی بیوی سے کوئی سمبندھ کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔
کمل:اور آپ کے بچے؟
اجے :بڑا لڑکا ٹیکنیکل ٹریننگ کے لیے امریکہ گیا ہوا ہے۔ اس سے چھوٹی لڑکی پیرس کی ایک آرٹ اکیڈمی میں پینٹنگ سیکھ رہی ہے۔ سب سے چھوٹا لڑکا یہیں ہے۔ نام کے لیے کالج جاتا تو ہے لیکن اپنا زیادہ وقت آوارہ گردی میں صرف کرتا ہے۔ پندرہ پندرہ دن ہم ایک دوسرے کی صورت تک نہیں دیکھتے۔ یہ ہے ہماری زندگی!
کمل:لیکن پھر بھی میرا اس طرح آپ کے ساتھ گھومنا پھرنا کچھ اچھا نہیں لگے گا۔
اجے :اس میں برائی کیا ہے۔ میری افسردہ، اداس زندگی میں تمہاری وجہ سے خوشی کے چند لمحے، سکھ کی کچھ گھڑیاں آ جائیں گی۔۔۔ کیا یہ برا ہے۔۔۔؟
کمل: آپ کے لیے تو برا نہیں مگر میرے لیے؟
اجے :تمہارے لیے بھی برا نہیں ہے کمل۔۔۔ !اچھا!If you don't mind تم سے ایک پرسنل سوال پوچھوں؟
کمل:پوچھئے۔!
اجے :تمہاری عمر اٹھائیس برس کی ہو گئی ہے۔ پچھلے برس سے نوکری کر رہی ہو۔ کب تک اپنے خاندان کے لیے اپنی زندگی۔۔۔
کمل:(اس کی بات کاٹ کر)جی نہیں سر۔۔۔ !میرے خاندان کو میری کمائی کی ضرورت نہیں ہے۔ نوکری تو میں اپنے شوق سے کر رہی ہوں !
اجے :اچھا!اپنے ہی شوق سے سہی۔ کیا نوکری ہی تمہاری زندگی کا مقصد ہے۔۔۔؟
کمل:فی الحال تو اور کوئی پروگرام سامنے نہیں ہے۔
اجے :زندگی بہت مختصر ہے کمل۔۔۔ !اور اس مختصر سی زندگی میں خوشی کی گھڑیاں اور بھی تھوڑی ہیں۔ جو گھڑی بھی وقت تمہاری جھولی میں ڈال دے اس سے فائدہ اٹھا لو ورنہ یہ گھڑیاں نہ جانے کہاں کھو جائیں گی اور تمہارے ہاتھ پچھتاوے کے سوا کچھ نہ لگے گا۔
کمل:سر!آج آپ نہ جانے کیسی باتیں کرنے لگے ہیں۔!میرا تو جی گھبرانے لگا۔۔۔ دل بہت اداس سا ہو گیا ہے آپ کی یہ باتیں سن کر!
اجے :اچھا ہے کہ تم بھی اتنی ہی اداس ہو جاؤ جتنا میں ہوں !پھر ہم دونوں مل کر اس اداسی کو دور کرنے کی کوئی تدبیر سوچیں گے۔
کمل:میں تواب تک اپنی اس اداسی کو اچھی طرح سمجھ بھی نہیں سکی ہوں۔ اسے دور کرنے کی کیا تدبیر سوچوں گی!
اجے :میں تمہاری مدد کروں گا کمل!۔۔۔ بولو۔ آج شام کو کچھ وقت میرے ساتھ گزارو گی؟سکھ کی کچھ گھڑیاں میرے دکھی جیون کی خالی جھولی میں ڈالو گی؟بولو کمل۔۔۔ بولو!
کمل:(آہستہ سے ) جی اچھا!
اجے ۔:Good!۔۔۔ او کمل! مجھے یقین ہے کہ ہم دونوں بے حد خوش رہیں گے۔ I will make you happy!
کمل:(کرسی سے اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہے ) اچھا تو میں چلوں؟
اجے :ہاں ہاں۔ مجھے بھی باہر جانا ہے۔ شام کو پانچ بجے تیار رہنا!
(کمل باہر جاتی ہے۔ اجے ٹکٹکی لگائے اسے دیکھتا رہتا ہے۔ اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔۔۔ کچھ لمحے بعد اسپاٹ لائٹ آفس کے اسی کونے پر جہاں کمل اور سریتا بیٹھی ہیں۔)
(سریتا فائل دیکھ رہی ہے۔ کمل آتی ہے۔ سریتا اس کے آنے کی آہٹ سنتے ہی پھر سے کھنکارنے لگتی ہے۔)
کمل:کیوں سریتا کیا ہوا تمہیں۔۔۔؟جب میں باس کے چیمبر میں گئی اس وقت بھی تم کھانس رہی تھیں۔۔۔ کیا خذ:جب سے اب تک کھانس رہی ہو؟
سریتا:ہاں، پورے پندرہ منٹ ہو گئے۔
کمل:اچھا!تو آج کل گھڑی دیکھ کر کھانسا کرتی ہو؟
سریتا:پھر اور کیا کروں؟آج کل تم باس کے پاس جا کر وقت اور جگہ سب کچھ بھول جاتی ہو!کسی کوتو وقت کا حساب رکھنا چاہئے۔
کمل:Don't be silly! کام وام کچھ کرتی ہو نہیں اور بیٹھی اس طرح وقت ضائع کرتی ہو۔
سریتا:مجھے ٹالنے کی کوشش مت کرو کمل۔۔۔ میں بڑی سنجیدگی سے تم سے کچھ باتیں کرنی چاہتی ہوں۔
کمل:تو کرو نا۔۔۔ کس نے منع کیا ہے۔
سریتا:یہاں نہیں۔۔۔ لنچ ٹائم ہونے ہی والا ہے۔ چلو کسی ایسی جگہ چل کر بیٹھیں جہاں کوئی ہمیں ڈسٹرب نہ کرے۔(فائل بند کر کے کھڑی ہو جاتی ہے۔)آؤ چلیں۔
کمل:ابھی سب لوگ لنچ کے لیے باہر چلے جائیں گے۔ باس خود باہر گئے ہیں۔ آدھے گھنٹے تک تو اس سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہاں کوئی ہمیں ڈسٹرب نہیں کرے گا۔
سریتا:(بیٹھ جاتی ہے ) چلو یہی سہی۔۔۔ آج یہیں کچھ منگا لیتے ہیں۔ (پکارتی ہے ) بابو راؤ۔۔۔
چپراسی:جی بائی ساب!
سریتا:دو چائے اور دو پلیٹ سینڈوچ لے آؤ۔
چپراسی:جی بائی ساب!
(چپراسی باہر جاتا ہے۔ کمل اور سریتا کی گفتگو کے دوران دو گلاسوں میں چائے اور سینڈوچ لا کر رکھ دیتا ہے۔ دونوں باتیں بھی کر رہی ہیں اور کھانا پینا بھی جاری ہے۔)
سریتا:بات یہ ہے کمل کہ تم میری بڑی پیاری سہیلی، بڑی اچھی ساتھی ہو۔ اس لیے کہہ رہی ہوں کہ آج کل تم جو کچھ کر رہی ہو یہ ٹھیک نہیں ہے۔
کمل:کیا مطلب ہے تمہارا؟
سریتا:مطلب تم اچھی طرح سمجھ رہی ہو۔۔۔ کئی دن سے دیکھ رہی ہوں کہ تم جب بھی باس کے چیمبر میں گئی ہو پندرہ بیس منٹ سے پہلے باہر نہیں نکلتیں اور اس دوران میں بابو راؤ کسی کو اندر نہیں جانے دیتا۔
کمل:تم تو بات کا بتنگڑ بنا رہی ہو سریتا! باس اس کمپنی کے مالک ہیں۔ میں ان کی سکریٹری۔۔۔ اگر مجھ سے کچھ کہنے کو وہ اپنے چیمبر میں بلا لیں تو اس میں عجیب بات کیا ہوئی؟
سریتا:اس آفس میں کام کرنے والے بچے نہیں ہیں۔ کیا تم سمجھتی ہو کہ ہم سب بیوقوف ہیں؟
کمل:بے وقوف کیوں ہوتے۔ ضرورت سے زیادہ عقل مند ہیں۔ دوسرے کے پھٹے میں پاؤں ڈالنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں رکھتے۔
سریتا:نادانی کی باتیں مت کرو کمل!ہم سب نے دنیا دیکھی ہے۔ حالات کا کچھ اندازہ کر سکتے ہیں۔ اچھا سچ سچ بتاؤ۔ آج اتنی دیر تک باس سے کیا باتیں ہوتی رہیں؟
کمل۔:انھوں نے آج شام مجھے اپنے ساتھ کہیں لے جانے کو کہا ہے۔
سریتا:ابھی تک تو باس تمہیں اپنے چیمبر میں بلا کر باتیں کر لیتے تھے۔ آج شام ساتھ گزارنے کو کہا ہے۔ کچھ دن ریسٹوران میں بیٹھ کر کافی اور سمندر کے کنارے بیٹھ کر گپ شپ کرنے کے بعد آگے کی منزل آئے گی۔۔۔ اور ایک دن تم ان کے ساتھ رات گزارنے کو راضی ہو جاؤ گی!
کمل:شٹ اپ سریتا!میری اتنی پرانی ساتھی ہو کر میرے بارے میں ایسی باتیں کیسے سوچ سکتی ہو؟
سریتا:میں اس لیے سوچ رہی ہوں کہ تم نے اپنی سوچ کے دروازے بند کر دئیے ہیں۔۔۔ ذرا سوچو کمل۔ یہ راستہ تمہیں کہاں لیے جا رہا ہے۔ تمہاری منزل کہاں ہے؟
کمل:میری کوئی منزل نہیں ہے۔ راستہ جہاں لے جائے وہیں چلی جاؤں گی۔ (بھنا کر کھڑی ہو جاتی ہے ) آخر میں بھی انسان ہوں۔۔۔ میرے بھی دل ہے۔۔۔ میں بھی زندگی سے کچھ چاہتی ہوں۔
سریتا:کیا چاہتی ہو؟ اجے کمار کی رکھیل بننا؟
کمل:(بے انتہا غصے کے ساتھ) سریتا۔۔۔ !
(کرسی پر بیٹھ کر سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیتی ہے۔)
سریتا:کیوں !بگڑ کیوں گئیں؟کیا اجے کمار تم سے شادی کر رہا ہے؟
کمل:(انکار میں سر ہلاتی ہے۔ کچھ بولتی نہیں )
سریتا:ظاہر ہے۔ شادی تو اپنے برابر والے کسی امیر سیٹھ کی لڑکی سے ہی کی جاتی ہے۔۔۔ سکریٹری کے ساتھ تو صرف وقت گزارا جاتا ہے۔
کمل:نہیں سریتا۔ یہ بات نہیں ہے۔
سریتا:پھر اور کیا بات ہے؟
کمل:وہ بہت دکھی ہیں۔ میرے ساتھ سکھ کی کچھ گھڑیاں گزارنا چاہتے ہیں۔
سریتا:کیوں؟بیوی کے ساتھ سکھ کی کچھ گھڑیاں نہیں گزاری جا سکتیں کیا؟
کمل:ان کی بیوی نے کبھی انھیں سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
سریتا:ہونہہ!بیس پچیس برس کی شادی شدہ زندگی کے بعد اب کہتے ہیں کہ بیوی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ دکھی ہیں۔۔۔ اور تم اتنی بیوقوف ہو کہ ان کی باتوں میں آ گئیں !
کمل:اور کیا کرتی؟
سریتا:تو گویا تم جان بوجھ کر خود دھوکا دے رہی ہو۔
کمل:شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔
سریتا:تمہیں اس سے ملے گا کیا؟
کمل:مجھے آج تک زندگی سے کیا ملا ہے جواب ملنے نہ ملنے کی فکر کروں !
سریتا:یہ تو غلط کہہ رہی ہو تم!زندگی نے تمہیں بہت کچھ دیا ہے۔ پڑھی لکھی ہو، تندرست ہو، قبول صورت ہو، اچھی نوکری ہے، تنخواہ بھی کافی ہے۔!
کمل:بس۔۔۔ !کیا ایک لڑکی کی زندگی میں یہی کافی ہے؟اس کے علاوہ اسے اور کچھ نہیں چاہئے؟
سریتا:چاہئے تو بہت کچھ۔۔۔ لیکن جتنا زیادہ چا ہو۔ نہ ملنے کا دکھ اتنا ہی بڑا ہوتا ہے۔
کمل:مگر میں نے تو زندگی سے کبھی بڑی ڈیمانڈ(Demand) نہیں کی! بہت معمولی معمولی چیزوں، بہت چھوٹے چھوٹے سکھوں کی تمنا کی تھی۔ ایک چھوٹا سا گھر، ایک ہم خیال، ہم مزاج شوہر، ہنستے کھیلتے ایک دو بچے اور ۔۔۔
سریتا:(اس کی بات کاٹ کر) تو کیا زندگی میں آج تک تمہیں کوئی ہم خیال، ہم مزاج شخص نہیں ملا؟
کمل:(ٹھنڈا سانس بھرکے ) ملا تھا ایک۔۔۔ !
سریتا:کون؟کب؟کہاں۔۔۔؟کیا نام تھا اس کا؟
کمل:اب اس ظالم کا نام سن کر کیا کرو گی۔۔۔ بس یوں سمجھ لو بالکل ویسا ہی تھا جیسا میں خوابوں میں دیکھا کرتی تھی!
سریتا:کب کی بات ہے یہ؟
کمل:دس گیارہ برس پہلے کی۔۔۔ میں کالج میں پڑھتی تھی۔ وہ مجھ سے ایک سال آگے تھا۔ کالج کی سوشل گیدرنگ کے وقت ہم نے ایک ساتھ ڈرامے میں کام کیا تھا۔ پھر ہم دھیرے دھیرے قریب آتے گئے۔
سریتا:پھر۔۔۔؟
کمل:پھر ہم نے مل کر بڑے بڑے پلان بنائے۔ بڑے سندر سندر سپنے دیکھے۔
سریتا:یہی کہ ایک چھوٹا سا گھر ہو۔
کمل:یہ تو تھا ہی۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ۔
سریتا:بہت کچھ کیا۔۔۔؟
کمل:یہی کہ ہم دونوں مل کر وطن کی خدمت کریں گے۔ اپنے پیارے دیش سے غریبی، بیکاری، جہالت دور کریں گے۔!وہ ایک بہت بڑے فیکٹری اونر کا بیٹا تھا۔۔۔ اس نے سوچا تھا کہ کسی گاؤں میں جا کر ایک کارخانہ کھولے گا تا کہ آس پاس کے کئی گاؤوں کے بیکار لوگوں کو کام مل جائے۔ میں نے سوچا تھا کہ میں گاؤں کی عورتوں اور بچوں کے لیے ا سکول کھولوں گی۔۔۔ ہم دونوں مل کر ایک گاؤں کو نمونے کا گاؤں بنا دیں گے۔
سریتا:پھر کیا ہوا اس پلان کا؟
کمل:وہی جو ہونا تھا۔ سپنا ٹوٹ گیا۔ آنکھ کھل گئی!
سریتا:کیسے ٹوٹا سپنا؟
کمل:ایک دن اسے پتہ چل گیا کہ میں ایک بہت ہی معمولی گھرانے کی لڑکی ہوں۔ پتا جی ایک جگہ لفٹ مین ہیں، ماں لوگوں کے برتن مانجھتی ہے۔۔۔ اور یہ بھی کہ ہم لوگ ایک جھونپڑپٹی میں رہتے ہیں۔
سریتا:مگر تم نے یہ سب اس سے چھپایا کیوں تھا؟
کمل:چھپانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ اس نے مجھ سے میرے گھرانے کے بارے میں کچھ پوچھا ہی نہیں۔ نہ جانے کیسے خود ہی سمجھ بیٹھا کہ میں بھی اس کی طرح امیر گھرانے کی لڑکی ہوں۔
سریتا:پھر اسے یہ سب کیسے معلوم ہوا؟
کمل:(لمبا سانس کھینچ کر) تم میرے چھوٹے بھیا سے ملی ہو۔؟
سریتا:وہی جو اکثر تمہیں کار میں یا موٹر بائیک پر آفس تک چھوڑنے آتے ہیں؟
کمل:ہاں۔۔۔ !وہی میرے بھیا!تین سال کی جیل کاٹ چکے ہیں۔
سریتا:ہیں !۔۔۔ جیل۔؟
کمل:چونک گئیں نا!اسے جب پتہ چلا کہ میرے بھیا کو جیل ہو گئی ہے تو پہلے بہت ہمدردی کرتا رہا۔ میرے آنسو پونچھے۔ ظالم سماج سے لڑنے کا ارادہ اور پکا کر لیا۔ لیکن جب اسے پتہ چلا کہ یہ جیل دیش پریم کے لیے نہیں بلکہ اسمگلروں کے گروپ کے ساتھ پکڑے جانے پر ہوئی ہے تو وہ کھنچا کھنچا سا رہنے لگا۔
سریتا:مگر اس میں تمہارا کیا قصور تھا؟
کمل:میں نے بھی اس سے یہی کہا تھا۔ قسمیں کھائیں کہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ بھیا یہ کام کرتے ہیں۔ بظاہر تو وہ ایک موٹر میکنک تھے۔ اب بھی وہی کام کرتے ہیں۔۔۔ جن کاروں میں مجھے چھوڑنے آتے ہیں وہ سب دوسروں کی ہوتی ہیں، گیریج میں مرمت کے لیے آتی ہیں تو بھیا درست کرنے کے بعد ایک آدھ بار استعمال کر کے واپس کر دیتے ہیں۔
سریتا:پھر تمہارے اس آدرش وادی دیش سیوک نے یہ سن کر کیا کیا؟
کمل:وہ کیا کرتا؟خود میں نے اسے بتا دیا کہ میرے پتا جی لفٹ مین ہیں۔ ماں لوگوں کے برتن مانجھتی ہیں اور بڑے بھیا ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ ایک دن اسے اپنے گھر بھی لے گئی۔
سریتا:پھر۔۔۔؟
کمل:پھر کیا! پہلے ہم جہاں رہتے تھے وہ جگہ تم نے بھی نہیں دیکھی۔۔۔ چاروں طرف بہتی گندی نالیوں اور چوڑے کے بیچ بنی ہماری جھونپڑی میں بیٹھا وہ بے چینی سے پہلو بدلتا رہا۔۔۔ ماں کے سوالوں کے ایک دو لفظوں میں جواب دیتا رہا۔ آدھا، ایک گھنٹہ بیٹھ کر، چائے کا ایک کپ زہر کے گھونٹ کی طرح حلق سے اتار کر وہ چلا گیا۔۔۔
سریتا:اور اس کے آدرش۔۔۔؟
کمل:آدرش اپنی جگہ قائم ہیں۔ اب بھی وہ ویسا ہی آدرش وادی ہے۔ بڑے بڑے بھاشن دیتا ہے۔ سنا ہے اگلے الیکشن میں اسمبلی کے لیے کھڑا ہونے والا ہے۔
سریتا:مگر تم سے کیا کہہ کر ترک تعلق کیا؟
کمل:مجھ سے تو کچھ نہیں کہا۔۔۔ ایک بار بڑے بھیا اس سے ملنے گئے اور میری شادی کی بات کی تو کہنے لگا کہ میرے پتا جی سے بات کیجئے۔ اس کے پتا جی نے الٹا میرے بھیا سے سوال کیا کہ شادی کے بعد جب لوگ میرے بیٹے سے پوچھیں گے کہ تمہاری بیوی کس گھرانے کی ہے تو وہ کیا جواب دے گا؟کیسے کہہ سکے گا کہ سسر لفٹ مین ہیں، ساس برتن مانجھنے والی! ہمارے اور آپ کے سماجی حالات میں جو فرق ہے وہ اس خلیج کی طرح ہے جسے پاٹنا مشکل ہے۔
سریتا:مگرتم دونوں نے مل کر جو پلان بنائے تھے۔ جو سپنے دیکھے تھے؟
کمل:وہ سب جھونپڑپٹی کی گندی نالیوں میں بہہ گئے۔
سریتا:اس کے بعد ۔۔۔؟
کمل:اس کے بعد میں شاک اور دکھ سے بیمار پڑ گئی۔ امتحان میں فیل ہو گئی۔۔۔ میں نے سوچا اب جینا بیکا رہے۔ یا اگر موت کے انتظار میں جینا ہے تو پھر پڑھنے لکھنے کی ضرورت کیا؟کس کام آئے گی پڑھائی لکھائی؟ رہوں گی تو میں لفٹ مین اور برتن مانجھنے والی ہی کی بیٹی۔۔۔ !
سریتا:پھر تم نے بی اے کب کیا؟
کمل:پتا جی کو میرے اور چھوٹے بھیا کے دکھ نے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا۔۔۔ وہ اتنے کمزور ہو گئے کہ انھیں نوکری سے نکال دیا گیا۔ ادھر ماں محنت کرتے کرتے بیمار پڑ گئیں۔ اب صرف بڑے بھیا کی ٹیکسی تھی جس پر سارے گھر کا گزارا تھا۔ پھر چھوٹے بھیا جیل سے چھوٹ کر آ گئے۔۔۔ انھوں نے آ کر میری ہمت بندھائی۔ جینے اور حالات سے لڑنے کا حوصلہ پھر سے مجھ میں پیدا کیا۔ میں نے امتحان دیا۔ پاس ہو گئی۔ ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھا۔ نوکری کی اور آج تمہارے سامنے بیٹھی ہوں۔ یہ ہے میری رام کہانی۔۔۔ !
سریتا:مگر تمہارے گھر والوں نے کہیں اور تمہاری شادی کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔؟
کمل:یہ سب میں تمہیں کل بتاؤں گی۔ لنچ ٹائم ختم ہونے کو ہے۔ باقی لوگوں کے آنے سے پہلے میں چلوں۔۔۔
سریتا:کہاں چلیں؟
کمل:بتایا تو تھا کہ آج کی شام مجھے باس کے ساتھ گزارنی ہے۔ ا س سے پہلے گھر جا کر ماں کو بتا دوں کہ آج آفس میں او ور ٹائم کروں گی۔!
(سریتا غصے سے کمل کو گھور کر دیکھتی ہے۔)
کمل:اس طرح گھور گھور کر مت دیکھو۔ باس کی اجازت سے جلدی جا رہی ہوں۔۔۔ اچھا بائی!
۔۔۔ اندھیرا۔۔۔
(کمل کا گھر۔ کمل آفس جانے کی تیاری کر رہی ہے۔ ماں چائے کی پیالی لے کر آتی ہے۔)
کمل:ارے ماں جی!تم کیوں اٹھ گئیں بستر سے؟ڈاکٹر نے تمہیں آرام کرنے کے لیے کہا ہے۔
ماں :آرام کے سوا میں اور کر ہی کیا رہی ہوں۔ آج کل۔!۔۔۔ رات تو کب آئی مجھے پتہ بھی نہ چلا۔!
کمل:پتا جی نے دروازہ کھولا تھا۔ تم سو گئیں تھی اس لیے تمہیں اٹھانا اچھا نہیں لگا۔
ماں :تو او ور ٹائم نہ کیا کر بیٹی۔۔۔ !تیرا اتنی رات تک باہر رہنا مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔
کمل:مجھے کب اچھا لگتا ہے۔۔۔ مگر مجبوری ہے۔ نوکری کرنی ہے تو باس کا حکم ماننا ہی پڑے گا۔ وہ کام ختم کرنے کے لیے رکنے کو کہیں تو انکار تھوڑا ہی کیا جاتا ہے۔
ماں :اچھا۔ آج آفس نہ جا۔ چھٹی لے لے۔
کمل:کیوں ماں۔۔۔؟
ماں :تیرے پتا جی کے کوئی دوست ملنے آ رہے ہیں۔ ان کا لڑکا بھی ان کے ساتھ ہو گا۔
کمل:تو مجھے ان سے کیا۔۔۔ !
ماں :اری باولی۔ تجھے دیکھنے آ رہے ہیں۔
کمل:ماں۔۔۔ !میں نے تم سے کتنی بار کہہ دیا ہے کہ پتا جی کو منع کر دو میری شادی کی فکر نہ کریں۔ میں کسی پر بوجھ نہیں ہوں۔ اپنے پیروں پر کھڑی ہوں۔
ماں :اپنے پیروں پر کھڑا ہونا کافی نہیں ہوتا بیٹی!پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہے۔ جینے کے لیے عورت اور مرد دونوں کو ایک دوسرے کا ساتھ چاہئے۔۔۔ یہ تو بھگوان کا بنایا ہوا قانون ہے۔ منشیہ کا سوبھاؤ ہے۔ تو کیسے اکیلی یہ پہاڑ سا جیون بتائے گی؟
کمل:نہیں بتا سکی تومر جاؤں گی۔۔۔ بس!
ماں :ضد نہ کر بیٹی۔ تیرے بڑے بھائی نے بھی لڑکے کی تعریف کی ہے۔
کمل:کون ہے؟۔۔۔ کیا نام ہے؟۔۔۔ کیا کرتا ہے؟۔۔۔ کہاں رہتا ہے؟ مجھے کچھ پتہ نہیں۔۔۔ وہ آئے گا۔ مجھے دیکھے گا۔۔۔ گائے، بکری کی طرح ٹٹولے گا۔ پسند کرے گا تو آپ سب اس کے ساتھ میرا پلو باندھ کر بدا کر دیں گے اور اسے میں پسند نہ آئی تو آپ لوگ پھر دوسرے کی تلاش میں جٹ جائیں گے۔ کیا اس سارے تماشے میں مجھے کچھ کہنے، سننے، پسند ناپسند کا حق نہیں۔۔۔؟
ماں :اتنی ناراض کیوں ہوتی ہے۔ تیری پسند سے ہی ہو گا۔۔۔ لڑکا اچھے گھر کا ہے۔ میٹرک پاس ہے۔
کمل:میں بی اے پاس ہوں۔!
ماں :ٹیکسی چلاتا ہے۔
کمل:میں ایک بہت بڑی کمپنی کے مالک کی سکریٹری ہوں !
ماں :اچھا خاصا کما لیتا ہے۔
کمل:میں بھی اچھی خاصی تنخواہ پاتی ہوں !
ماں :تو کہنا کیا چاہتی ہے؟
کمل:میں ٹیکسی ڈرائیور سے شادی نہیں کروں گی!
ماں :ٹیکسی ڈرائیور سے تو شادی نہیں کرے گی۔۔۔ !اور وہ جو تیرا راجکمار آیا تھا وہ تجھ سے شادی نہیں کرے گا۔۔۔ پھر تیرا کیا ہو گا؟
کمل:جو کچھ ہو گا دیکھا جائے گا۔۔۔ فی الحال تو تم نے مجھے آفس جانے میں دیر کرا دی۔
(باہر سے آواز آتی ہے۔۔۔ ’’ماں جی۔۔۔ !‘‘)
ماں :کون۔۔۔؟(باہر جھانکتی ہے ) پرکاش۔۔۔ ! آؤ بیٹا۔ کیا بات ہے؟
پرکاش:نمستے ماں جی!۔۔۔ نمستے کمل جی!۔۔۔ چھوٹے بھیا نے یہ سبزی بھیجی ہے۔
(سبزی کی با سکٹ ماں کو پکڑا دیتا ہے۔)
ماں :لا بیٹا!۔۔۔ جیتا رہے۔
(ماں سبزی لے کر اندر چلی جاتی ہے۔ کمل میز پر سے اپنا پرس اور کاغذات اٹھا رہی ہے۔ پرکاش چپ چاپ کھڑا اسے دیکھے جا رہا ہے۔)
کمل:(پرکاش سے ) چھوٹے بھیا ہیں گیراج میں؟
پرکاش:جی نہیں۔ وہ تو کہیں باہر گئے ہیں۔ کیا کام تھا آپ کو؟۔۔۔ مجھ سے کہیے میں کر دوں۔۔۔؟
کمل:جی نہیں۔۔۔ آپ کا حرج ہو گا۔
پرکاش:نہیں نہیں۔۔۔ آپ کہیے تو۔۔۔ آپ کی سیوا کرنے میں تو مجھے بڑی خوشی ہو گی۔ آپ کہیے تو سہی۔۔۔!
کمل:بات یہ ہے پرکاش جی کہ آج مجھے آفس جانے میں ذرا دیر ہو گئی ہے۔ چھوٹے بھیا ہوتے تو ان سے کہتی کہ ریپئرس کے لیے آئی کسی کار میں ذرا مجھے آفس تک چھوڑ آتے۔
پرکاش:تو آئیے نا۔۔۔ میں چھوڑ آؤں۔ بشرطیکہ آپ کو میرے ان پٹرول، ڈیزل، گریز، کالک وغیرہ وغیرہ سے سنے ہوئے کپڑوں سے گھن نہ آ رہی ہو اور میرے ساتھ بیٹھتے ہوئے شرم نہ آئے۔
کمل:شرم کی کیا بات ہے۔ میرے چھوٹے بھیا بھی تو اسی حلیے میں رہتے ہیں۔
پرکاش:مگر آپ کے ساتھ جب بھی جاتے ہی، تو پہلے نہا دھوکر صاف ستھرے کپڑے پہن لیتے ہیں۔ لیکن میرا گھر یہاں سے دور ہے اس لیے آپ کو میرے اس حلیے کو برداشت کرنا ہی ہو گا۔۔۔ خیر آفس میں کوئی پوچھے تو کہہ دیجئے کہ میرا ڈرائیور تھا۔!
کمل:جی نہیں جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں۔ میرے آفس میں سب کو معلوم ہے کہ میرے پاس کار نہیں ہے، اور میں نے سب کو بتا دیا ہے کہ میرا بھائی ایک معمولی موٹر میکنک ہے۔
پرکاش:ایسے کڑوے سچ آپ کس طرح بول لیتی ہیں؟
کمل:ایک بار چپ رہنے کی سزا پا چکی ہوں اس لیے اب بولنا سیکھ گئی ہوں !
پرکاش:میرے لیے بھی چپ رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آج میں بھی ایک سچ بول دوں۔۔۔؟
کمل: آپ کی مرضی۔۔۔ !
پرکاش:جی نہیں۔۔۔ آپ کی مرضی ضروری ہے۔
کمل: آپ کے سچ سے میرا کیا تعلق۔۔۔؟
پرکاش:بہت زیادہ تعلق ہے کمل جی۔۔۔ ! کہیے بول دوں؟
کمل:عجیب آدمی ہیں آپ۔۔۔ !
پرکاش:عجیب تو نہیں۔۔۔ بہت معمولی، سیدھا سادا ویکتی ہوں۔ اسی لیے سچ بولتے ہوئے ڈرتا ہوں۔
کمل:دیکھئے مجھے دیر ہو رہی ہے۔
پرکاش:جی بس ابھی کار لایا اور منٹوں میں آپ کو آفس پہنچا دیا۔۔۔ یہ بتائیے کہ آپ صرف سچ بولتی ہیں یا سچ سننے کی ہمت بھی ہے آپ میں؟
کمل: آپ بول کر دیکھ لیجئے۔
پرکاش:اچھا۔۔۔ تو بات یہ ہے کمل جی۔۔۔
کمل:کہیے نا۔۔۔ !
پرکاش:میں بہت دن سے آپ سے بات کرنی چاہتا تھا۔
کمل:تو کیجئے نا۔۔۔ !
پرکاش:بات یہ ہے کمل جی۔۔۔ کہ وہ۔۔۔ میں۔۔۔ آپ، آپ مجھ سے شادی کریں گی۔۔۔؟
کمل:(بے حد تعجب سے ) جی۔۔۔؟
پرکاش:جی۔۔۔ شادی۔۔۔ !
کمل: آپ سے؟
پرکاش:جی ہاں۔۔۔ مجھ سے۔۔۔ !چاہے آپ کے لیے یہ عجیب بات ہو۔ آپ چاہے مجھے پاگل سمجھیں، مگر میرے جیون کی سب سے بڑی آشا۔۔۔ سب سے مدھر کامنا اور سب سے میٹھا سپنا ہے۔۔۔ !
کمل:بس۔۔۔ بس پرکاش جی۔ لگتا ہے آج آپ پی کر آ گئے ہیں۔ اسی لیے اپنے آپے میں نہیں ہیں؟
پرکاش:آج تو خیر میں پی کر نہیں آیا۔ ویسے یہ سچ ہے کہ میں اپنے آپ میں نہیں ہوں ورنہ یہ نہ بھولتا کہ کہاں آپ۔۔۔ کہاں میں۔۔۔ ! آپ بی اے پاس، میں آٹھویں فیل۔۔۔ ! آپ ایک بہت بڑی کمپنی کے مالک کی سکریٹری۔۔۔ میں ایک معمولی گیراج میں میکنک۔۔۔ آپ شریف، نیک، سمجھدار۔۔۔ میں شرابی۔۔۔ موالی! جب سے میں نے آپ کے چھوٹے بھیا کے ساتھ کام شروع کیا ہے۔ روز آپ کو آتے جاتے دیکھتا رہتا ہوں۔ آپ ہی کودیکھتارہتا ہوں۔
کمل:لیکن۔۔۔ یہ شادی کا خیال۔۔۔ آپ کو کیسے آیا؟
پرکاش:ادھر کئی بار میں نے آپ کے پتا جی اور چھوٹے بھیا کو باتیں کرتے سنا کہ وہ آپ کی شادی کے لیے پریشان ہیں تو میرے من میں خیال آیا کہ اگر میں خود کو آپ کے لائق بنانے کی کوشش کروں تو شاید آپ۔۔۔ میری بات کا وشواس کیجئے کمل جی۔۔۔ چھوٹے بھیا سے پوچھ لیجئے۔ مدت ہو گئی میں نے شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ بس اپنے کام سے کام ہے۔ زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانے کی فکر ہے۔ نائٹ ا سکول بھی جانا شروع کر دیا ہے۔ آپ چھوٹے بھیا سے پوچھ لیجئے۔
کمل:(بے حد روہانسی ہو کر) پرکاش جی۔۔۔ !میں آپ کے اس جذبے کی قدر کرتی ہوں۔ بھگوان آپ کی سہایتا کرے۔۔۔ آپ خوب پڑھیں، لکھیں۔۔۔ خوب پیسہ کمائیں۔ لیکن میں آپ کے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ میرا خیال چھوڑ دیجئے۔ ہمارے راستے الگ الگ ہیں۔ اچھا میں چلتی ہوں۔
پرکاش:ٹھیرئیے۔۔۔ !میں ابھی کار لاتا ہوں۔
کمل:جی نہیں۔۔۔ آج دیر ہی سہی۔ میں بس سے ہی جاؤں گی۔
(پرس اور کاغذات اٹھا کر باہر چلی جاتی ہے۔ پرکاش کھڑا اسے دیکھ رہا ہے۔۔۔ اس حصے میں اندھیرا ہو جاتا ہے۔)
(آفس کا وہی کونا جو پہلے اور تیسرے منظر میں تھا۔ سریتا بیٹھی ایک فائل پر کچھ لکھ رہی ہے۔ کمل داخل ہوتی ہے۔ سریتا اپنی کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالتی ہے۔ پھر کمل کی طرف دیکھ کراس سے مخاطب ہوتی ہے۔)
سریتا:گڈ مارننگ!
(پھر گھڑی دیکھتی ہے۔ کمل جواب دیے بغیر ٹائپ رائٹر کاکور اتارتی ہے۔ سریتا پھر لکھنا شروع کر دیتی ہے۔ پھر لکھتے لکھتے کمل کی طرف دیکھے بغیر بولتی ہے۔)
سریتا:آج باس بھی ابھی تک آفس نہیں آئے؟
کمل:تو۔۔۔؟مجھے کیوں سنا رہی ہو؟
سریتا:آفس میں لوگ نہ اندھے بہرے ہیں اور نہ ایڈیٹ!
کمل:یعنی۔۔۔؟
سریتا:دو اور دو چار کا حساب سب ہی لگا سکتے ہیں۔
کمل:بھگوان کے لیے سریتا مجھے پریشان مت کرو۔
(دونوں ہاتھوں میں سر تھام کر بیٹھ جاتی ہے۔ پھر سسکیاں بھرنے لگتی ہے۔)
سریتا:Don't be silly! کمل۔۔۔ اپنے آپ کو سنبھالو ورنہ سب لوگ ادھر ہی دیکھنے لگیں گے۔
(کمل پرس کھول کر رومال نکالتی ہے۔ آنسو پونچھتی ہے۔ پھر اپنا میک اپ درست کر کے پرس بند کر دیتی ہے۔ دونوں ہاتھ گود میں رکھے چپ چاپ بیٹھی خلا میں گھور رہی ہے۔)
سریتا:(کمل کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کربڑی نرمی اور محبت سے ) مجھے نہیں بتاؤ گی کمل۔۔۔؟ارے ارے پھر پھر آنسو بہنے لگے۔۔۔ !اچھا بھئی جانے دو۔ میں نہیں پوچھتی۔۔۔ مگر بھگوان کے لیے آنسو پونچھ لو۔
(کمل آنسو پونچھتی ہے۔)
کمل:تم نہیں پوچھو گی تو میں اپنے دل کی بات کس سے کہوں گی۔ گھر میں ماں، پتا جی اور بڑے بھیا تو میرے دل کی حالت سمجھنے کے لائق ہی نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک تو لڑکی کی شادی میں جیون ساتھی کا ہم خیال، ہم مزاج اور من پسند ہونا ضروری نہیں۔ بس نام کے ساتھ شادی کا ٹھپہ لگ جانا کافی ہے۔ رہے چھوٹے بھیا جو میرے دل کی حالت اچھی طرح سمجھتے ہیں وہ بے حد مجبور ہیں۔۔۔ میں بھی مجبور ہوں۔۔۔ !
سریتا:یہ زخم تو پرانا ہے۔۔۔ کیا آج اس میں کوئی نئی ٹھیس لگ گئی؟
کمل:ایک نہیں۔۔۔ دو دو!
سریتا:بتا سکتی ہو۔۔۔؟
کمل:ہاں۔۔۔ آج پتا جی کے کوئی دوست اپنے لڑکے کے ساتھ مجھے دیکھنے آنے والے تھے۔
سریتا:پھر۔۔۔؟
کمل:میں نے انکار کر دیا۔
سریتا:کیوں۔۔۔؟
کمل:لڑکا میٹرک پاس ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور ہے !
سریتا:اوہ۔۔۔ !
(کمل گہرا سانس لے کر خاموش ہو جاتی ہے۔)
سریتا:اتنی اداس مت ہو دوسرا پرپوزل آ جائے گا۔!
کمل:دوسرا بھی آ گیا!
سریتا:ہیں۔۔۔ !آج ہی۔۔۔؟
کمل:ہاں۔۔۔ آج ہی!
سریتا:اس کا کیا ہوا۔۔۔؟
کمل:میں نے انکار کر دیا۔!
سریتا:پھر انکار۔۔۔ !
کمل:ہاں۔۔۔ !
سریتا:کیوں۔۔۔؟
کمل:وہ چھوٹے بھیا کے ساتھ گیراج میں کام کرتا ہے۔ آٹھویں فیل ہے۔ پہلے شراب پیتا تھا۔
سریتا:اور اب۔۔۔؟
کمل:میرے لائق بننے کے لیے شراب چھوڑ دی۔ نائٹ ا سکول میں داخلہ لیا ہے۔ بے حد محنت کر رہا ہے تاکہ خوب پیسہ کمائے۔۔۔ !
سریتا:Poor thing! مجھے بے چارے پر ترس آ رہا ہے۔
کمل:اور مجھے اس کی اور اپنی حالت پر رونا آ رہا ہے۔ سریتا!تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟۔۔۔ سماج کے جس طبقے سے میراتعلق ہے اس طبقے کی لڑکیاں پڑھ لکھ جائیں تو اپنے طبقے کے ان پڑھ یاکم پڑھے لکھے، معمولی حالت میں رہنے والے نوجوانوں سے شادی کرنا پسند نہیں کرتیں اور جو نوجوان ہماری نظر میں جچتے ہیں ان کا تعلق پڑھے لکھے خاندانوں اور خوش حال گھرانوں سے ہوتا ہے۔۔۔ وہ لوگ ہم سے فلرٹ تو کر سکتے ہیں شادی نہیں کرتے۔ اسی چکر میں ہماری عمریں نکلی چلی جا رہی ہیں۔ سریتا! تم بھی تو میرے ہی طبقے سے تعلق رکھتی ہو۔ تمہیں کیسے من پسند پتی مل گیا؟
سریتا:(طنز سے ہنس کر) من پسند۔۔۔؟میں نے حالات کے آگے سر جھکا دیا۔ لڑنے کی بجائے گھاٹے پر صلح کر لی۔!
کمل:مگر میں گھاٹے پر صلح کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
سریتا:تو یہ ادھیڑ عمر کا۔۔۔ بیس برس کی بیاہتا بیوی کا شوہر۔۔۔ تین جوان بچوں کا باپ۔۔۔ اجے کمار!۔۔۔ یہ کیا ہے؟۔۔۔ کیا یہی ہے تمہاری منزل۔۔۔؟
کمل:مجھے خود نہیں معلوم میری منزل کہاں ہے؟
۔۔۔ اندھیرا۔۔۔
***
ماخذ: ’’سوچ لیجئے ‘‘
سلیقہ کتاب گھر
۱۴/۱۵۶۰، جان محمداسٹریٹ
پونہ۔ ۴۱۱۰۰۱