03:05    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ڈرامے

1229 0 0 00

مقابلے اور فیصلے - ابراہیم یوسف

مقابلے اور فیصلے

افراد تمثیل

نجیب:ایک نوجوان۔

نغمہ:نجیب کی بہن۔

مجیب:نجیب کے والد۔

صوفیہ:نجیب کی خاتون دوست۔

نسیم:صوفیہ کے والد۔

منظر:مجیب کے دیہاتی مکان کا بالائی کمرہ، کمرہ صاف ستھرا ہے معمولی مگر  نظر آنے والا پرانے فیشن کا فرنیچر ہے۔ دیواروں پر مختلف جانوروں کے سر لگے ہوئے ہیں۔ مغربی جانب ایک کھڑکی ہے جس میں بیٹھنے سے دور تک کا منظر نظر آتا ہے۔ جنگل  اور جنگل کے بعد پہاڑ نظر آتا ہے۔ جنگلوں سے گھرا ہوا پہاڑ عجیب  پر اسرار معلوم ہوتا ہے۔

جس وقت پردہ اٹھتا ہے تو نجیب  اور صوفیہ کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔دونوں خاموش ہیں  اور  کھوئے کھوئے انداز سے  پہاڑ کو دیکھ رہے ہیں۔ کبھی کبھی ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں نظریں چار ہوتی ہیں تو پھر دونوں جھکا لیتے ہیں۔ جیسے ایک دوسرے سے نظریں ملانا نہیں چاہتے۔ دونوں انتہائی اداس نظر آ رہے ہیں کچھ دیر دونوں یوں ہی خاموش بیٹھے رہتے ہیں پھر صوفیہ کچھ اس انداز سے جیسے وہ اس خاموشی کو توڑنا چاہتی ہو۔

صوفیہ:کبھی آپ اس پہاڑ پر چڑھے ہیں؟

نجیب:ہاں کئی بار۔

صوفیہ:(کچھ دیر خاموش رہ کر) یہ پہاڑ کس قدر پر اسرار معلوم ہوتا ہے۔

نجیب:بچپن میں میں اسے بہت ہی پر اسرار سمجھتا تھا۔

صوفیہ:یہاں سے تو کافی دور ہو گا۔

نجیب:کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ جنگلوں سے گزرنے والی پگڈنڈی کا راستہ نزدیک  اور خوبصورت ہے۔

(پھر دونوں خاموش ہو جاتے ہیں  اور خیالات میں کھو جاتے ہیں۔ صوفیہ پہاڑ کو دیکھتی رہتی ہے۔ پھر کچھ دیر بعد۔)

صوفیہ:قدرت کے ان عجائبات میں بھی کیا کیا  اسرار ہوئے ہیں۔

نجیب:جی ہاں بچپن میں میرا تصور تھا کہ ان پہاڑوں پر پریاں رہتی ہیں۔ خواب میں وہ اکثر مجھے گاتی  اور قہقہے لگاتی نظر آتی تھیں۔

(پھر دونوں خاموش ہو جاتے ہیں۔ صوفیہ کچھ دیر بعد)

صوفیہ:آپ کا یہ گاؤں کس قدر خاموش ہے۔

نجیب:جی ہاں لوگ اکثر اس کی تعریف کرتے ہیں (خاموش ہو جاتا ہے کچھ دیر مکمل خاموشی رہتی ہے دونوں کھوئی کھوئی نظروں سے پہاڑ کو دیکھتے رہتے ہیں کچھ دیر بعد نجیب، صوفیہ کو دیکھ کر)اپنی والدہ سے میرا سلام عرض کر دینا۔

(صوفیہ غور سے نجیب کو دیکھتی ہے پھر آہستہ سے)

صوفیہ:کیا آپ ہمارے یہاں کبھی نہیں آئیں گے۔؟

نجیب:کیوں نہیں۔۔۔ مگر۔۔۔

(خاموش ہو جاتا ہے کچھ دیر بعد نغمہ چائے لے کر آتی ہے۔ اس کے چہرے سے اداسی جھلک رہی ہے۔ خاموشی سے کشتی لا کر میز پر رکھ دیتی ہے۔ نجیب  اور صوفیہ دونوں اس کو کھوئی کھوئی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ کچھ دیر بعد صوفیہ پھیکی مسکراہٹ سے۔)

صوفیہ:آؤ نغمہ۔۔۔  بیٹھو۔۔۔ (نغمہ خاموشی سے ایک کرسی پر بیٹھ جاتی ہے  اور  نظریں جھکا کر چائے بنانے لگتی ہے۔ صوفیہ کچھ دیر خاموش رہ کر) کیا بات ہے؟اس قدر خاموش کیوں ہو۔(نغمہ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں) ارے تم تو رونے لگیں۔

نغمہ:(دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھ کر)آپ جا رہی ہیں صوفیہ آپا۔ اس کا مجھے بہت دکھ ہے۔

صوفیہ:تم ہمارے یہاں آنا۔ ہم تمہیں شہر گھمائیں گے۔

نغمہ:آپ نے تو ابھی تک دیہات اچھی طرح دیکھا بھی نہیں ہے۔

صوفیہ:تمہارا گاؤں بہت خوبصورت  اور حسین ہے۔

نغمہ:ابھی تو آپ پہاڑ پربھی نہیں چڑھیں۔ ابھی تو آپ نے وہ جگہ بھی نہیں دیکھی جہاں ندی کئی فٹ گہرے کھڈ میں گر کر غائب ہو جاتی ہے  اور  پھر ایک فرلانگ بعد زمین سے ابل پڑتی ہے۔

صوفیہ:میں نے کئی مرتبہ پہاڑ پر چڑھنے کا سوچا۔ سنا ہے اس پہاڑ پر پریاں رہتی ہیں۔

نغمہ:جی ہاں گاؤں والے ایسا ہی کہتے ہیں  اور اب تو میلہ بھی لگنے والا ہے۔

صوفیہ:میلہ!

نغمہ:جی ہاں۔ آدی باسیوں کا میلہ۔ بڑے اچھے اچھے کھیل کود اور مقابلے ہوتے ہیں  اور پھر آدی باسیوں کے ناچ تو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کچھ دن  اور ٹھہر جائیں تو وہ میلہ دیکھ لیتیں۔

(نغمہ چائے کی پیالی صوفیہ کو دیتی ہے۔ صوفیہ پیالی لیتے ہوئے۔)

صوفیہ:تمہاری محبت  اور خلوص  اور یہ خاطر ہمیشہ یاد رہے گی۔

نغمہ:میں تو کچھ بھی خاطر نہ کر سکی۔ یہ افسوس تو زندگی بھر رہے گا۔

صوفیہ:(مسکرا کر)  اور خاطر کیا ہوتی ہے۔

نغمہ:(کچھ دیر خاموش رہ کر) میلے میں پہاڑ پر چڑھنے کا مقابلہ بھی ہوتا ہے۔ سب ہی اس میں حصہ لیتے ہیں۔ مردوں  اور عورتوں کے مقابلے الگ الگ ہوتے ہیں۔

نجیب:اس مقابلے کا نام نہ لو نغمہ، مجھے اس سے نفرت ہے۔

نغمہ:مگر مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ اس مرتبہ تومیں اس میں حصہ لوں گی۔

نجیب:مگر مجھے نفرت ہے۔ انتہائی نفرت (نغمہ نجیب کا انداز دیکھ کر سہم سی جاتی ہے)گئے سال میں اس مقابلے میں ہار گیا تھا۔ جب ہی سے مجھے اس سے نفرت ہو گئی ہے۔

نغمہ:آپ نے پہلی بار حصہ لیا تھا۔ لوگ تو سالوں ہارتے ہیں مگر دل چھوٹا نہیں کرتے۔

نجیب: اور ابا جان یہ بات نہیں سوچتے (کچھ دیر خاموش رہ کر ٹھنڈی سانس بھرکر) اب تم بھی مقابلے میں حصہ لو اور ہار جاؤ۔ تا کہ ابا جان روز تمہیں بھی طعنے دیں  اور  پھر تمہارا دل توڑیں۔

(نغمہ خاموش ہو جاتی ہے۔ نجیب پھر کھڑکی میں سے باہر پہاڑ کو دیکھنے لگتا ہے۔ صوفیہ کچھ دیر بعد کھڑی ہو کر نغمہ کی طرف دیکھ کر)

صوفیہ:امی تو اپنے کمرے میں ہوں گی۔میں ان سے مل لوں۔۔۔

نغمہ:جی ہاں۔ اپنے کمرے میں ہیں۔ صبح سے وہ بھی اداس اداس سی ہیں۔ (صوفیہ خاموشی سے کمرے سے چلی جاتی ہے۔ نغمہ خاموش ہو جاتی ہے۔ نجیب پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتا ہے کچھ دیر بعد  نغمہ آہستہ سے) بھائی جان!آپ بھی بہت اداس ہیں۔(نجیب خاموش رہتا ہے۔ نغمہ پھر نجیب کو دیکھ کر) صوفیہ آپا کتنی اچھی ہیں۔ آپ انھیں کچھ دن کے لیے  اور کیوں نہیں روک لیتے۔

نجیب:وہ اب نہیں رکے گی۔

نغمہ:کیوں؟(نجیب خاموش رہتا ہے)میلے کے دنوں میں وہ یہاں رہتیں تو کتنا اچھا معلوم ہوتا(باہر سے آواز نجیب) ابا جان آ گئے۔

(کھڑی ہو کر چائے کے برتن کشتی میں رکھنے لگتی ہے۔ مجیب کمرے میں آتے ہیں۔ انھوں نے شکاری لباس پہن رکھا ہے۔ بڑی بڑی مونچھیں ہیں صحت مند ہیں۔ عمر پچاس سے زیادہ ہے مگر چال  اور جسم کی ساخت سے اتنی عمر کے نہیں معلوم ہوتے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہیں نغمہ سے۔)

مجیب:صوفیہ کہاں ہے؟

نغمہ:امی کے ساتھ ہیں۔

مجیب:اس کے جانے کی تیاری مکمل ہو گئی۔

نغمہ:جی ہاں۔ وہ شاید آپ ہی کا انتظار کر رہی تھیں۔

مجیب:(اک دم جیسے کچھ یاد آ جانے پر نجیب کی طرف دیکھ کر) کل تم نے پھر ایک گولی مس کر دی۔

نجیب:جی ہاں۔ میں نے بھاگتے ہوئے جانور پر گولی چلائی تھی۔

مجیب:جانور کا بھاگنا قدرتی ہے مگر شکاری کو نہیں بھاگنا چاہئے۔مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اس کے پیچھے دوڑے  اور پھر گولی چلائی۔

نجیب:میں نے صرف چند گز دوڑ کر اسے رینج میں لینے کی کوشش کی تھی۔

مجیب: اور اس بھاگ دوڑ میں تمہاری سانس پھول گئی  اور تم نے گولی مس کر دی۔ جب تک شکاری کو  اپنے جسم پر قابو نہ ہو وہ شکار کو اپنے قابو میں نہیں کر سکتا۔(نغمہ کی طرف دیکھ کر جو  خاموش کھڑی ہے) تم کو کیا ہو گیا ہے جوتم یوں رونی شکل بنائے کھڑی ہو۔

نغمہ:کچھ نہیں ابا جان۔

(مجیب کچھ دیر خاموش رہتا ہے پھر ٹھنڈی سانس بھرکر)

مجیب:میں جانتا ہوں کہ تم کیوں اداس ہو(بندوق کاندھے سے اتار کر دیوار سے ٹکا دیتا ہے  اور کھڑکی سے باہر پہاڑ کو دیکھنے لگتا ہے پھر کچھ دیر بعد) تم صوفیہ کے جانے پر اداس ہو۔

نغمہ:(آنکھوں سے آنسو پونچھ کر) جی ہاں۔ وہ کس قدر اچھی ہیں۔

مجیب:بلاشبہ اچھی ہے۔ اس سے اچھی لڑکی میں نے کبھی نہیں دیکھی۔

نغمہ:تو پھر آپ انھیں روک کیوں نہیں لیتے۔ بھائی جان بھی کس قدر اداس ہیں  اور وہ بھی کچھ کم غمگین نہیں۔

مجیب:(چند سکنڈ رک کر) اسے میں نہیں روک سکتا۔(پھر چند سکنڈ رک کر) اچھا تم اسے ذرا میرے پاس بھیج دو۔(نغمہ چائے کے برتن لے کر کمرے سے چلی جاتی ہے۔ مجیب کھڑکی کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں  اور پہاڑی کو دیکھنے لگتے ہیں۔ کچھ دیر خاموش رہ کر نجیب کی طرف دیکھ کر) تم پہاڑ کی چوٹی پر لہراتے ہوئے اس جھنڈے کو دیکھ رہے ہو۔؟

نجیب:جی ہاں۔

مجیب: اور یہ بھی جانتے ہو گے کہ وہ وہاں کیوں لہرا رہا ہے۔

نجیب :جی ہاں۔

مجیب:ہر نوجوان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسے جیتے  اور  وہ ا سکے گھر پر لہرائے۔

نجیب:جی ہاں۔

مجیب۔:میں نے تمہاری صوفیہ سے شادی سے انکار کیا ہے جانتے ہو کیوں۔

نجیب:جی ہاں۔ اس لیے کہ گئے سال میں اس جھنڈے کونہ جیت سکا تھا۔

مجیب:ہاں اسی لئے۔

نجیب:(کسی قدر تند لہجے میں) مگر ہر نوجوان اسے نہیں جیت سکتا  اور جو نہیں جیت سکتا کیا اس کی شادی نہیں ہوتی۔

مجیب:ہوتی ہے۔ مگر انسان کی کچھ تمنائیں  اور خواہشیں ہوتی ہیں  اور میری یہ خواہش تھی کہ وہ جھنڈا میرے گھر پر لہرائے (ٹھنڈی سانس بھرکر) مگر گئے سال تم نے میری تمام تمناؤں پر پانی پھیر دیا۔

نجیب:مگر یہ تو اسپورٹ ہیں ہمیں اپنی ہار کو اسپورٹس مین اسپرٹ میں قبول کر لینا چاہئے۔

(مجیب طنزیہ مسکراتے ہیں  اور آنکھیں بند کر کے سگار کے لمبے لمبے کش لیتے ہیں۔ کچھ دیر بعد)

مجیب:تم مجھے اسپورٹس مین اسپرٹ کا سبق دے رہے ہو(آنکھیں کھول کر نجیب کو دیکھ کر)میں نے جس اسپورٹس مین اسپرٹ کا ثبوت دیا ہے تم اس کا  تصور بھی نہیں کر سکتے۔ (پھر آنکھیں بند کر کے خاموش ہو جاتے ہیں نجیب خاموش کھڑا رہتا ہے کچھ دیر خاموشی رہتی ہے۔ مجیب پھر آنکھیں کھول کر نجیب کو دیکھ کر) بیٹھ جاؤ(نجیب خاموشی سے بیٹھ جاتا ہے مجیب کچھ دیر خاموش رہ کر) تم صوفیہ سے محبت کرتے ہو۔ (نجیب نظریں جھکا لیتا ہے) میں جب تمہاری عمر کا تھا اس وقت ایک لڑکی سے محبت کرتا تھا۔

نجیب:(غور سے مجیب کا چہرہ دیکھ کر)آپ!

مجیب:ہاں۔(مسکرا کر) تمہیں حیرت کیوں ہے نوجوانی میں سب ہی ایک نہ ایک سے محبت ضرور کرتے ہیں  اور اسی لیے مجھے تمہاری محبت پربھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔

نجیب:مگر آپ۔۔۔

مجیب:اس پربھی میں تمہیں صوفیہ سے شادی کی اجازت نہیں دے سکتا۔

نجیب:مگر میں بھی صوفیہ کے علاوہ کسی  اور سے شادی نہیں کر سکتا۔

مجیب:اس سے میری نسل ختم ہو جائے گی۔ ہو جائے۔ یہ میرا پکا ارادہ ہے یوں سمجھ لو کہ میری قسم ہے۔

نجیب:مگر ابا جان۔

مجیب:(بات کاٹ کر) گئے سال مجھے تم سے بڑی امیدیں تھیں مگر تم ہار گئے۔ مجھے ہار کا تو اتنا افسوس نہیں ہوا مگر جب اس جھنڈے کو میں کسی  اور  کے مکان پر لہراتا ہوا دیکھتا ہوں تو جی چاہتا ہے کہ اس جھنڈے کو گولی مار دوں۔ پچیس تیس سال سے میں اس ذہنی الجھن میں مبتلا ہوں  اور  اندر ہی اندر جلا جا رہا ہوں۔

نجیب:لیکن یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ میں اس مقابلے میں حصہ لوں  اور  وہ جھنڈا جیت ہی لوں۔

(مجیب خاموش رہتے ہیں  اور  خاموشی سے پہاڑ پر لہراتے ہوئے جھنڈے کو دیکھتے رہتے ہیں۔ سگار کا کش لیتے ہیں پھر نجیب کو دیکھ کر جو گردن جھکائے بیٹھا ہے۔)

مجیب:میں آج تم کو وہ راز بتلائے دیتا ہوں جو کسی کو نہیں بتلایا(خاموش ہو جاتے ہیں  اور سگار کا کش لے کر) میرا ایک دوست تھا۔ بہت ہی گہرا دوست(آنکھیں بند کر کے بہت ہی آہستہ سے) ہم دونوں ایک ہی لڑکی سے محبت کرتے تھے۔

نجیب:ایک ہی لڑکی سے !

مجیب:ہاں۔ مسئلہ یہ تھا کہ دونوں میں سے کون اس سے شادی کرے۔ (آنکھیں کھول کر نجیب کو  دیکھ کر) پھر جانتے ہو کیا ہوا۔

نجیب:جی نہیں۔

مجیب:ہم نے طے کیا کہ ہم دونوں اس مقابلے میں حصہ لیں  اور جو جیت جائے وہی اس سے شادی کر لے  اور دونوں ہار جائیں تو دونوں میں سے کوئی بھی اس سے شادی نہ کرے۔

نجیب: اور شاید آپ مقابلے میں ہار گئے۔

مجیب:شاید نہیں یقیناً  ہار گیا۔ یہ سخت مقابلہ تھا۔ ہم نے طے کیا تھا کہ ہم دونوں اپنی اپنی بندوقیں ساتھ لیں گے  اور اگر دونوں میں سے کوئی بھی جیت جائے تو دوسرا اپنی بندوق سے ہوائی فائر کر کے اس کی جیت  اور  اپنی ہار کا اعلان کر دے۔

نجیب:اچھا۔

مجیب:ہاں !مقابلہ شروع ہوا  اور  ہم دونوں نے ایک ہی راستے سے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے جان توڑ کوشش کر رہے تھے۔ کبھی وہ آگے ہوتا  اور  کبھی میں۔ ہم دونوں اس چھوٹے سے مندر کے پاس پہنچ گئے جہاں ندی پہاڑ کی اس گہرائی میں گرتی ہے جہاں کئی سو فٹ گہرا کھڈ ہے کہ اس کا پاؤں پھسل گیا میں نے اس کے گرنے کی آواز سنی  اور پلٹ کر دیکھا اس کا رخ کھڈ کی طرف تھا  اور وہ جان بچانے کے لیے کسی بھی سہارے کی تلاش کر رہا تھا۔

نجیب: اور پھر آپ نے سہارا نہیں دیا۔

مجیب:کیوں نہیں۔ وہ میرا کوئی دشمن تو نہیں تھا آخر دوست تھا۔ ایسے مقابلے تو دوستوں میں اکثر ہوا ہی کرتے ہیں۔

نجیب:پھر۔؟

مجیب:میں پلٹا  اور اسے سہارا دیا وہ مسکرا کر کھڑا ہوا گیا۔ ہم گلے ملے  اور  پھر اپنی اپنی جیت کے لئے جدوجہد کرنے لگے  اور کچھ دیر بعد ہم  پہاڑ کی چوٹی  پر پہنچ گئے۔ وہاں بیس پچیس گز چوڑا میدان ہے کھلے میدان میں ہم دونوں میں دوڑ شروع ہو گئی لیکن اس دوڑ میں اس نے مجھے ہرا دیا۔ اب جھنڈا اس کے ہاتھ میں تھا۔ میں نے بندوق کاندھے سے اتار لی  اور  جانے کیوں اس کی نالی میرے دوست کے سینے کی طرف ہو گئی۔

نجیب:(گھبرا کر) جی۔۔۔

مجیب:یہ سچ ہے مگر وہ مرحوم بچے کی طرح اپنی کامیابی پر غیر معمولی خوشی سے میری طرف دوڑا چلا آ رہا تھا اسے خیال بھی نہیں تھا کہ میری بندوق اس کے سینے کا نشانہ لے چکی ہے۔

نجیب: اور آپ نے گولی چلا دی۔

مجیب:ہاں۔۔۔ (مسکرا کر) مگر اس کے سینے پر نہیں ہوا میں۔ میری گولی اس کے خوشیوں بھرے سینے کونہ چھید سکی۔ وہ مجھ سے معصوم بچوں کی طرح خوشی سے لپٹ گیا۔ اتنے میں وہ آدی باسی نوجوان بھی آ گئے جواس مقابلے میں حصہ لے رہے تھے۔ انھوں نے اپنے وہ مخصوص تیر جو ہوا میں چھوٹتے ہی جل اٹھتے ہیں چھوڑے  اور پہاڑ کے نیچے ڈھول پٹنے لگے جو مقابلہ ختم ہونے کا اعلان تھا۔ ہم بہت دیر تک پہاڑ پر گاتے  اور  ناچتے رہے پھر میں نے اپنے دوست کو اپنے کاندھے پر بٹھلایا  اور  ہم لوگ پہاڑ سے نیچے اتر آئے۔ رات پھر خوب جشن منایا گیا۔ (چند سکنڈ خاموش رہ کر) جانتے ہو وہ میرا دوست کون تھا؟

نجیب:(غور سے مجیب کا چہرہ دیکھ کر) جی نہیں۔۔۔ کون تھا۔

مجیب:(آنکھیں بند کر کے) صوفیہ کا باپ نسیم  اور وہ لڑکی تھی صوفیہ کی ماں سلمیٰ۔

نجیب:(غصہ سے کھڑے ہو کر)  اور آپ اپنی ہار کا بدلہ ان کی اولاد سے لے رہے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔

مجیب:میں بدلہ نہیں لے رہا ہوں ویسا دوست تو مجھے آج تک نصیب ہی نہیں ہوا۔جانتے ہو اس نے جیتے ہوئے جھنڈے کا کیا کیا۔

نجیب:جی نہیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ آپ بھی میری طرح مقابلے میں ہارے ہیں  اور اپنی ہار پر ہماری خوشیاں چھین لینا چاہتے ہیں۔

مجیب:(بہت ہی سخت لہجے میں) نہیں۔(کچھ دیر خاموش رہ کر) وہ جھنڈا نسیم نے کبھی اپنے گھر پر نہیں لگایا۔

نجیب:اپنے گھر پر نہیں لگایا!

مجیب:ہاں صرف میری خاطر۔

نجیب:مگر۔۔۔

مجیب:(بات کاٹ کر) یہ گاؤں کی رسم کے خلاف تھا۔ گاؤں والے اس کو برداشت نہ کر سکے  اور وہ گاؤں چھوڑ کر چلا گیا  اور پھر کبھی اس گاؤں میں نہیں آیا۔

نجیب:وہ جھنڈا اپنے گھر پرکیوں نہیں لگایا۔

مجیب:اس لیے کہ وہ میری ہار کا نشان تھا۔ اسی وقت میں نے عہد کر لیا تھا کہ میری اولاد میں صرف وہی اپنی مرضی کی شادی کرے گا جو اس مقابلے میں جیتے گا۔۔۔ تم یہ مقابلہ ہار چکے ہو۔

نجیب:یہ انصاف نہیں ہے کہ آپ کے فضول سے عہد پر میں اپنی زندگی تباہ کر دوں۔

مجیب:میں بے انصاف سہی مگر اپنے فیصلے پر  اٹل ہوں۔

نجیب:مگر آپ کا فیصلہ۔۔۔

(صوفیہ کمرے میں داخل ہوتی ہے  اور نجیب خاموش ہو جاتا ہے۔ صوفیہ بہت ادب سے جھک کر سلام کرتی ہے۔)

مجیب:جیتی رہو بیٹی!۔۔۔ آؤ۔۔۔ (اپنے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کر کے) بیٹھو۔۔۔ (صوفیہ کرسی پر بیٹھ جاتی ہے۔) تمہارے جانے کی تیاری مکمل ہو گئی؟

صوفیہ:جی ہاں۔۔۔ میں آپ ہی کا انتظار کر رہی تھی۔

مجیب:ادھر کچھ دنوں سے ایک مین ایٹر نے گاؤں والوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اسی کی تلاش میں نکل گیا تھا ارادہ تو نجیب کو بھی ساتھ لے جانے کا تھا مگر سوچا کہ آج تم جا رہی ہو اس لیے اس کا یہاں رہنا ضروری ہے۔(نجیب کی طرف دیکھ کر) دیکھو گھوڑے تیار ہو گئے۔ (نجیب جانے کے لئے مڑتا ہے)  اور ہاں جنگل کے راستے سے نہ جانا۔

نجیب:مگر دوسرے راستے سے جانے کے لیے پورے سات میل کا چکر لگانا پڑے گا۔

مجیب:کوئی بات نہیں۔ پتہ چلا ہے کہ وہ مین ایٹر ابھی جنگل ہی میں موجود ہے۔

نجیب:میں بندوق ساتھ لے جاؤں گا  اور پھر کئی آدمی بھی ساتھ میں ہوں گے۔

مجیب:صوفیہ بیٹا کا ساتھ ہو گا کسی بھی قسم کا رسک لینا ٹھیک نہیں ہے قطعی جنگل کے راستے سے جانے کی ضرورت نہیں واپسی میں تم یہ راستہ اختیار کر سکتے ہو۔

نجیب:بہت اچھا۔

(نجیب کمرے سے چلا جاتا ہے۔ کچھ دیر خاموشی رہتی ہے پھر مجیب صوفیہ کو دیکھ کر)

مجیب:بیٹی!تمہیں میرے فیصلے پر دکھ ہو رہا ہے۔

صوفیہ:(نظریں جھکا کر)بزرگوں کے فیصلے پر مجھے دکھی ہونا نہیں سکھایا گیا۔

مجیب:مجھے تمہاری اس سعادت مندی سے خوشی ہوتی ہے مگر میری بھی کوئی مجبوری ہے۔

صوفیہ:میں نے بزرگوں کے فیصلے کو کبھی ان کی مجبوری نہیں سمجھا ہے ایک حکم سمجھا ہے جس کا ماننا ہر حالت میں فرض ہے۔

مجیب:(غور سے صوفیہ کو دیکھ کر) بیٹی!ایسی باتیں نہ کہو جن کے سننے سے مجھے خود سے نفرت ہو جائے۔(صوفیہ کے ہونٹ اس طرح ہلتے ہیں جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہے مگر پھر خاموش رہتی ہے)نغمہ کی خواہش ہے کہ تم میلے تک یہاں رک جاتیں۔

صوفیہ:وہ میرے جانے پر بہت دکھی ہے مگر اب پندرہ دن ہو گئے ہیں پاپا  اور  ممی یاد کرتے ہوں گے۔

مجیب:مجھے بھی یہی خیال ہے ورنہ میں تم  کو جانے کی  ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ (کچھ دیر رک کر)تمہارا  اور نجیب کا کتنے سال کالج میں ساتھ رہا ہے۔

صوفیہ:ہم فرسٹ ایر سے ہی ساتھ رہے ہیں۔

(باہر گھوڑا دوڑنے کی آواز)

مجیب:شاید گھوڑے  تیار ہو گئے (کھڑے ہو جاتے ہیں ان کے ساتھ صوفیہ بھی کھڑی ہو جاتی ہے) خدا حافظ  اور دیکھو اپنے پاپا  اور ممی سے میرا سلام کہنا  اور  ہاں۔۔۔ گھر پہنچتے ہی فوراً خط لکھنا۔

صوفیہ:جی۔ بہت اچھا۔

(محبت سے صوفیہ کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہیں۔ اسی وقت نجیب گھبرایا ہوا سا کمرے میں داخل ہوتا ہے  اور جلدی سے۔)

نجیب:ابا جان۔نسیم صاحب۔

مجیب:نسیم صاحب!

نجیب:جی ہاں صوفیہ کے والد آئے ہیں۔

مجیب:(گھبرا کر) کہاں ہیں؟(تیزی سے بندوق اٹھا کر دروازے کی طرف بڑھتے ہیں کہ نسیم کمرے میں داخل ہوتے ہیں ان کے کاندھے پر بھی بندوق لٹکی ہوئی ہے بہت وجیہہ با رعب  اور قد آور ہیں چال ڈھال سے فوجی معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ دیر تو دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے ہیں پھر ایک دم دوڑ کر بغل گیر ہوتے ہیں  اور دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ پھر مجیب نسیم کے دونوں بازو پکڑ کر انھیں سر سے پیر تک دیکھ کر) تیری صحت اب پہلی جیسی نہیں رہی۔

نسیم:(اپنا ہاتھ مجیب کی طرف بڑھا کر) آ۔ پنجہ لڑا کر دیکھ لے کس کی صحت اچھی ہے۔(دونوں قہقہہ مار کر ہنستے ہیں) میری بینائی تک میں فرق نہیں آیا ہے۔ ابھی بھی میں سوئی پر نشانہ لگا سکتا ہوں۔

مجیب:یہ بات ہے !ہو جائے مقابلہ۔

نسیم:ہو جائے (دونوں اپنی اپنی   بندوقیں کاندھے پرسے اتار کر کھڑکی کے پاس کھڑے ہو جاتے ہیں)بول کہاں نشانہ لگاؤں۔

مجیب:(چند سکنڈ سوچ کر) وہ میرے باغ کا پھاٹک نظر آ رہا ہے اس پر دو گول گول لکڑی کے لٹو ہیں ایک تو اڑا ایک میں۔ منظور ہے؟

نسیم:منظور ہے۔(نسیم نشانہ باندھ کر گولی چلاتے ہیں  اور پھر مسکرا کر مجیب کو دیکھتے ہیں۔ مجیب مسکرا کران کی پیٹھ تھپ تھپاتے ہیں  اور پھر خود نشانہ باندھ کر گولی چلاتے ہیں  اور مسکرا کر نسیم کو دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ صوفیہ  اور نجیب تالیاں بجانے لگتے ہیں)۔۔۔ تم دونوں یہاں کیوں کھڑے ہو۔

نجیب:ہم دونوں آپ لوگوں کی نشانہ بازی دیکھ رہے تھے۔

نسیم:بھاگ جاؤ شریر  بد معاشو۔

(صوفیہ  اور نجیب مسکراتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں جس پر نسیم  اور  مجیب قہقہہ لگاتے ہیں۔ مجیب نسیم کا ہاتھ پکڑ کر ایک کرسی پر بٹھلاتے ہوئے۔)

مجیب:بھلے آدمی اپنے آنے کی اطلاع تو دی ہوتی۔

نسیم:میں بلا اطلاع ہی آنا چاہتا تھا۔۔۔ گاؤں تواب بالکل بدل گیا ہے۔

مجیب:تم گاؤں شاید تیس سال بعد آئے ہو۔

نسیم:ہاں اتنا ہی زمانہ ہو گیا ہو گا۔۔۔ کیا اب میلہ نہیں لگتا۔

مجیب:کیوں نہیں لگتا۔ ابھی آٹھ دن باقی ہیں۔ تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔

نسیم:میں تو یہ سوچ کر آیا تھا کہ میلہ لگ چکا ہو گا۔ (کچھ دیر خاموش رہ کر) تمہیں میری لڑکی پسند آئی؟

مجیب:بہت پسند آئی۔ ایسی سعادت مند، خوش سلیقہ  اور سمجھ دار لڑکی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ میں تمہیں اس قدر اچھی لڑکی کا باپ ہونے پر مبارک باد دیتا ہوں۔

نسیم:شکریہ!مجھے نجیب بھی اسی قدر پسند ہے جس قدر تمہیں میری لڑکی۔ کس قدر مردانہ وجاہت ہے  اور کھیلوں میں تو وہ اپنے کالج کا  سب سے اچھا کھلاڑی تھا۔

مجیب:یہ بالکل غلط ہے۔ کل جانتے ہو کیا ہوا؟(نسیم سوالیہ نظروں سے مجیب کو دیکھتے ہیں) ایک بارہ سنگھے  پر گولی مس کر دی۔

نسیم:اتفاق رہا ہو گا۔ ویسے دو ایک مرتبہ میرے ساتھ شکار پربھی گیا ہے۔ میں نے اس کو اچوک نشانہ باز پایا ہے۔

مجیب:ممکن ہے تمہارا خیال درست ہو  مگر وہ اچھا شکاری نہیں ہے۔ جانور کے پیچھے دوڑ کراس پر گولی چلانا انتہائی حماقت ہے  اور یہ حماقت کرنے میں وہ نمبر ایک ہے۔

نسیم:خیر۔(کچھ دیر خاموش رہ کر) تم نے دونوں کے بارے میں کیا فیصلہ کیا۔

مجیب:کن دونوں کے بارے میں؟

نسیم:نجیب  اور صوفیہ کے بارے میں۔ (نسیم خاموش ہو جاتے ہیں۔ پھر کچھ دیر بعد)میں تمہارا یہی فیصلہ سننے آیا ہوں۔

مجیب:(ٹھنڈی سانس بھرکر)وہ گئے سال پہاڑ پر چڑھنے کے مقابلے میں ہار گیا تھا۔

نسیم:اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

مجیب:میرا یہ عہد ہے کہ میرے خاندان کا وہی مرد اپنی پسند کی شادی کرے گا جو اس مقابلے کو جیتے۔

(نسیم کچھ دیر خاموش رہتے ہیں  اور پہاڑ کو دیکھتے رہتے ہیں۔ پھر مجیب کی طرف دیکھ کر)

نسیم:دنیا تیس چالیس سال آگے بڑھ گئی ہے بوڑھے کھونسٹ۔ آج کے نوجوان تمہارے ان احمقانہ فیصلوں  اور عہدوں کو ٹھکرا  کر آگے بڑھ جائیں گے۔

مجیب:تومیں صبر کر لوں گا۔ مگر اس کے ساتھ نجیب کو یہ  گھر بھی چھوڑ دینا ہو گا۔

نسیم:میں نے تم سے زیادہ بڑی دنیا دیکھی ہے۔ جنگ کے دوران دوسرے ملکوں کو دیکھا ہے۔ ہر جگہ کے نوجوانوں سے ملا ہوں ان کے خیالات کو سمجھا ہے  اور ان کے جذبات کو پرکھا ہے۔ (کچھ دیر خاموش رہ کر) ورنہ اس قدر احمق نہیں تھا کہ اپنی نوجوان لڑکی کو یوں تمہارے لڑکے کے ساتھ تنہا بھیج دیتا۔

مجیب:کچھ بھی ہو مگر میں اپنے فیصلے پر اٹل ہوں۔

(نسیم کچھ دیر خاموش رہتے ہیں پھر جیسے کچھ یاد آ جانے پر)

نسیم:تو پھر ہو جائے پہاڑ پر چڑھنے کام قابلہ۔ جو جیت جائے۔ فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہو۔ کہو منظورہے۔

مجیب:(چند سکنڈ رک کر) منظور ہے۔

(دونوں مسکرا کر ہاتھ ملاتے ہیں۔)

نسیم:(بلند آواز سے)نجیب!صوفیہ!(خاموش ہو جاتے ہیں۔ مجیب پہاڑ کو دیکھنے لگتے ہیں۔ کچھ دیر بعد نجیب  اور صوفیہ کمرے میں آتے ہیں۔ نسیم دونوں کو مسکرا کر دیکھ کر مجیب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کل ہم دونوں میں پہاڑ پر چڑھنے کا مقابلہ ہو گا۔

نجیب:(حیرت سے) جی آپ دونوں میں۔

نسیم:اس بوڑھے کھونسٹ  اور بے وقوف کو سبق پڑھانا ہے۔ ہم دونوں میں سے جو جیت جائے تم دونوں کی شادی کا فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہو گا (اپنی جیب سے ایک بوسیدہ جھنڈا نکال کر نجیب کودے کر) یہ لو اسے اپنے مکان پر چڑھا دو۔

مجیب:یہ جھنڈا!

نسیم:ہاں۔ یہ میرا جیتا ہوا جھنڈا ہے۔

مجیب:مگر گاؤں میں دو جھنڈے ایک ساتھ نہیں لہرائے جا سکتے یہ گاؤں کی رسم کے خلاف ہے۔

نسیم:مگر یہ جھنڈا میں نے جیتا ہے  اور آج تک کبھی اپنے گھر پر نہیں لہرایا۔ مجھے ایک سال تک اسے اپنے گھر پر لہرانے کا حق ہے۔

مجیب:(غصہ سے) یہ نہیں ہو سکتا۔ تمہارا جیتا ہوا جھنڈا میرے گھر پر نہیں لہرا سکتا۔

نسیم:یہ ہو گا۔ میں اپنی بیٹی کو جہیز میں کوئی بھی چیز دے سکتا ہوں۔ جس دن میں نے یہ جھنڈا جیتا  تھا یہ عہد کیا تھا کہ اپنی لڑکی کی شادی تیرے لڑکے کے ساتھ کروں گا  اور  یہ جھنڈا اسے جہیز میں دوں گا۔

مجیب:مگر تم ابھی مقابلہ نہیں جیتے ہو۔ تمہیں فیصلہ کرنے کا ابھی حق نہیں ہے۔

نسیم: اور وہ میں جیت کر رہوں گا۔ میں نے  خدا سے دعا کی کہ میرے یہاں خوبصورت لڑکی پیدا ہو اور خدا نے وہ دعا منظور کی۔ میں نے اس کو اچھی تعلیم دلوائی اچھی تربیت دی کہ تم کوئی عذر نہ کر سکو مگر تم جہالت پر اتر آئے۔(کھڑے ہو کر اپنی بندوق کاندھے پر لاد کر) چلو ابھی مقابلہ ہو جائے۔

مجیب:(چند سکنڈ رک کر) مقابلہ کل ہو گا۔تم ابھی تھکے ہوئے ہو کہو گے تھکے ہوئے کوہرا دیا۔ کل صبح آٹھ بجے۔ منظور ہے۔؟

نسیم:منظور ہے۔ (دونوں پھر مسکرا کر ہاتھ ملاتے ہیں۔ نسیم نجیب کی طرف دیکھ کر) جاؤ گھر پر یہ جھنڈا لہر ادو۔ جیت میری ہو گی۔

(پہاڑ کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔)

۔۔۔ پردہ۔۔۔

ماخذ:’’طنزیہ ڈرامے ‘‘

نسیم بک ڈپو

۲۵لاٹوش روڈ

لکھنؤ

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔